Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

تقاضا ہو چکی ہے اور تمنا ہو رہا ہے


 تقاضا ہو چکی ہے اور تمنا ہو رہا ہے 

کہ سیدھا چاہتا ہوں اور الٹا ہو رہا ہے 

یہ تصویریں صداؤں میں ڈھلی جاتی ہیں کیوں کر 
کہ آنکھیں بند ہیں لیکن تماشا ہو رہا ہے 

کہیں ڈھلتی ہے شام اور پھوٹتی ہے روشنی سی 
کہیں پو پھٹ رہی ہے اور اندھیرا ہو رہا ہے 

پس موج ہوا بارش کا بستر سا بچھانے 
سر بام نوا بادل کا ٹکڑا ہو رہا ہے 

جسے دروازہ کہتے تھے وہی دیوار نکلی 
جسے ہم دل سمجھتے تھے وہ دنیا ہو رہا ہے 

قدم رکھے ہیں اس پایاب میں ہم نے تو جب سے 
یہ دریا اور گہرا اور گہرا ہو رہا ہے 

خرابی ہو رہی ہے تو فقط مجھ میں ہی ساری 
مرے چاروں طرف تو خوب اچھا ہو رہا ہے 

کہاں تک ہو سکا کار محبت کیا بتائیں 
تمہارے سامنے ہے کام جتنا ہو رہا ہے 

گزرتے جا رہے تھے ہم ظفرؔ لمحہ بہ لمحہ 
سمجھتے تھے کہ اب اپنا گزارہ ہو رہا ہے 

شاعر: ظفر اقبال

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.