ستمبر 2024
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


 🌹 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹 

            
               نماز مغرب اور عشاء کی نماز کے درمیان وقت کی مقدار

  بعض لوگوں کو میں نے دیکھا ہے کہ وہ مغرب کی اذان کے بعد جب آدھا گھنٹہ گزر جائے تو وہ نماز نہیں پڑھتے اور یہی سمجھتے ہیں کہ ان کی نماز قضا ہوگئی ، حالانکہ یہ بہت بڑی غلطی ہے جس کی اصلاح نہایت ضروری ہے،  فلکیات کے ماہرین محققین علماء کرام رحمھم تعالی نے لکھا ہے کہ مغرب اور عشاء کے درمیان تقریبا ایک گھنٹہ بیس منٹ سے لے کر ایک گھنٹہ اڑتیس منٹ تک وقت ہوتا ہے جوکہ موسم اور علاقے کے اعتبار سے تبدیل ہوتا ہے لیکن اس پر اکثر اہل علم کا اتفاق ہے کہ کسی بھی موسم میں یہ وقت سوا گھنٹہ سے کم نہیں ہوسکتا لہذا سوا گھنٹہ تک مغرب کی نماز پڑھی جاسکتی ہے ، ہاں بلاعذر ایسا نہیں کرنا چاہیے کیوں کہ مغرب کی نماز کو جلدی پڑھنا مستحب ہے۔

📚حوالہ:
▪الفتاوی الھندیہ 1/51
▪فتاوی دارالعلوم زکریا 2/55
▪فتاوی دارالعلوم دیوبند 2/42
▪کفایت المفتی 3/72
━━━━━━━❪❂❫━━━━━━
▒▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓▒
مرتب:✍  
مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ
━━━━━━━❪❂❫━━━━━━


 ✴✶  🎀 🅿🅾🆂🆃-🅼🅾🆁🆃🅴🅼 🎀  ✶


کسی زمانے میں صبیح طارق ٹرین میں ٹکٹ چیکر ہوا کرتے تھے ۔ ۔ ۔ 

ایک روز راولپنڈی سے کراچی آتے ہوئے ایک لڑکے نے صبیح سے کہا کہ مجھے صبح چار  بجے نواب شاہ اسٹیشن پر اترنا ہے، پلیز مجھے جگا دینا اور اگر میں نہ جاگوں تو مجھے زبردستی ٹرین  سے اتار دینا ، صبح میرا انٹرویو ہے۔

صبح چار بجے لڑکے کی آنکھ کھلی تو ٹرین حیدر آباد میں رکی ہوئی تھی۔

لڑکے نے صبیح کو بہت برا بھلا کہاکہ اس نے نواب شاہ آنے پر اسے کیوں نہیں جگایا۔

لوگوں نے صبیح سے کہا کہ یہ تم کو اتنا برا بھلا کہہ رہا ہے اور تم چپ چاپ سن رہے ہو ،  کچھ کہتے کیوں نہیں۔

صبیح : میں یہ سوچ رہا ہوں کہ صبح جس کو میں نے زبردستی ٹرین سے اتارا تھا وہ مجھے کتنا کچھ کہہ  رہا ہوگا۔


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر پانچ⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دو دونوں کی مسافت کے بعد حسن بن صباح، فرحی اور اپنے رہبر کے ساتھ ایران کے جس قلعے میں داخل ہوا وہ قلعہ اصفہان تھا، عام طور پر اسے قلعہ شاہ در کہا جاتا تھا، یہ سلجوقی سلطان ملک شاہ نے تعمیر کروایا اور ذاکر نام کے ایک سرکردہ فرد کو امیر قلعہ یا والی قلعہ مقرر کیا تھا۔
 ذاکر سلجوقیوں کی طرح پکا مسلمان اور اسلام کا شیدائی تھا ،یہ کوئی بڑا قلعہ نہیں تھا کہ اس کے اندر شہر آباد ہوتا، اندر آبادی تو تھی لیکن چند ایک معزز اور اچھی حیثیت اور سرکاری رتبہ اور عہدوں والے لوگ انتظامیہ کے اور لوگوں کے ذاتی ملازم رہتے تھے، آبادی  قلعے سے باہر اور ذرا دور دور تھی، اس آبادی میں فرقہ باطنیہ کے لوگ بھی تھے لیکن وہ اپنی اصلیت ظاہر نہیں ہونے دیتے تھے۔
ذاکر کی عمر کم و بیش پچاس سال تھی اور اس کی دو بیویاں تھیں دونوں کی عمریں چالیس سال سے اوپر ہو گئی تھیں ،ذاکر کوئی عیاش آدمی تو نہ تھا ،پابند صوم و صلات تھا، لیکن انسانی فطرت کی کمزوریاں تو ہر انسان میں موجود ہوتی ہیں، ایک روز وہ ہرن کے شکار کو گیا وہ ہرا بھرا سر سبز علاقہ تھا، پیڑ پودوں نے جنت کا منظر بنا رکھا تھا، شفاف پانی کی دو ندیوں نے کچھ اور ہی بہار بنا رکھی تھی۔
ذاکر گھوڑے پر سوار ایک ندی کے کنارے کنارے جا رہا تھا اس کے ساتھ چار محافظ اور دو مصاحب تھے، ذاکر ان کے آگے آگے جا رہا تھا، ندی کا موڑ تھا ،درخت تو بہت تھے لیکن دو درخت اس کے قریب تھے، ایک خودرو بیل دونوں کے تنوں سے اس طرح لپٹی اور پھیلی ہوئی تھی کہ چھت سی بن گئی تھی، اور اس کی شکل مٹی کے ٹیلے میں گف جیسی بنی ہوئی تھی، نیچے خشنما گھاس تھی ۔
ذاکر نے وہاں جاکر گھوڑا روک لیا، پہلے تو اس کے چہرے پر حیرت کا تاثر آیا پھر ہونٹوں پر تبسم آیا۔
پھولدار بیل کی چھت کے نیچے ایک لڑکی بیٹھی ہوئی تھی، جس کی عمر سترہ سال سے ذرا کم یا ذرا ہی زیادہ تھی، اس کی گود میں ہرن کا بچہ تھا ،لڑکی کی آنکھیں ہرن کے بچے جیسی نشیلی سیاہ اور موہنی تھی، اور اس کا حسین چہرہ بیل کے پھولوں کی طرح کھلا ہوا تھا، اس کے ریشمی بالوں میں سے دوچار بال اس کے سرخی مائل سفید چہرے پر آئے ہوئے تھے۔
یہ بچّہ کہاں سے لائی ہو لڑکی!،،،،، ذاکر نے پوچھا ؟۔
جنگل میں اکیلا بھٹکتا پھر رہا تھا لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔بہت دن ہو گئے ہیں ماں کو ڈھونڈتا پھر رہا تھا۔
کھڑی ہو کر بات کر لڑکی!،،،، ایک محافظ نے لڑکی کو ڈانٹ کر کہا۔۔۔ امیر قلعہ کے احترام میں کھڑی ہو جا۔
 ذاکر نے اس محافظ کو خشمگیں نگاہوں سے دیکھا۔
تم سب آگے چلو۔۔۔۔۔۔ ذاکر نے محافظوں اور مصاحبوں کو حکم دیا۔۔۔ پل پر میرا انتظار کرو۔
 لڑکی کے چہرے پر خوف کا تاثر آ گیا اور وہ آہستہ آہستہ اٹھنے لگی، ذاکر گھوڑے سے اتر آیا اور لڑکی کے قریب جا کر ہرن کے بچے کی طرف ہاتھ بڑھائے ،لڑکی نے ہرن کا بچہ پیچھے کر لیا اس کے ہونٹوں پر جو لطیف سا تبسم تھا وہ غائب ہو گیا اور خوف کی جھلک اس کی غزالی آنکھوں میں بھی ظاہر ہونے لگا، ذاکر نے اپنے ہاتھ پیچھے کرلئے۔
 ڈر کیوں گئی لڑکی!،،،،، ذاکر نے لڑکی کے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا۔۔۔ اس بدبخت نے تمہیں ڈرا دیا ہے ،میرے دل کو تم اور ہرن کا یہ بچہ ایسا اچھا لگا کہ میں رک گیا میں امیر قلعہ ضرور ہوں لیکن تم پر میں کوئی حکم نہیں چلاؤں گا۔
میں ہرن کا بچہ نہیں دونگی۔
 میں تم سے یہ بچہ لونگا بھی نہیں۔۔۔ ذاکر نے کہا ۔۔۔اور اس سے اس کا نام پوچھا۔
 زریں۔۔۔ لڑکی نے جواب دیا۔
 کیا اس بچے کے ساتھ تمہیں بہت پیار ہے؟،،،،،، ذاکر نے پوچھا، اور لڑکی کا جواب سنے بغیر بولا ۔۔۔یہ بچہ اتنا پیارا ہے کہ ہر کسی کو اس پر پیار آتا ہے۔
نہیں امیر!،،،،، لڑکی نے خوف سے نکل کر کہا۔۔۔یہ پیارا اور خوبصورت تو ہے لیکن میں اس سے کسی اور وجہ سے پیار کرتی ہوں، میں نے آپ کو بتایا ہے کہ یہ ماں کے بغیر جنگل میں بھٹکتا پھر رہا تھا، اسے دیکھ کر مجھے اپنا بچپن یاد آگیا جب میں بھی بھٹک گئی تھی، اور میں اپنی ماں کو ڈھونڈتی پھرتی تھی۔
ذاکر اس لڑکی میں اتنا محو ہو گیا کہ لڑکی کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر اسے بٹھا دیا اور خود اس کے پاس بیٹھ گیا، لڑکی نے اس سے پرے ہٹنے کی کوشش نہ کی ۔
پھر تمہیں ماں کہاں ملی تھی؟،،،، ذاکر نے پوچھا۔
 آج تک نہیں ملی ۔۔۔زرّیں نے جواب دیا۔۔۔ اس وقت میری عمر تین چار سال تھی ،چھوٹا سا ایک قافلہ تھا جس کے ساتھ ہم جا رہے تھے، میرے ماں باپ غریب لوگ تھے ،ان کی عمر خانہ بدوشی میں گزر رہی تھی، میں نے ہوش سنبھالا تو اپنے آپ کو ان کے ساتھ جنگلوں پہاڑوں اور بیابانوں میں چلتے پھرتے اور نقل مکانی کرتے پایا ۔
تم ان سے بچھڑ کس طرح گئی تھی؟
بڑا ہی تیز و تند طوفان باد باراں آگیا تھا ۔۔۔۔ زرّیں نے جواب دیا ۔۔۔قافلے والے نفسا نفسی کے عالم میں تتربتر ہو گئے چند ایک گھوڑے تھے اور دو تین اونٹ تھے، سب سامان سمیت ادھر ادھر بھاگ گئے، میرے چار اور بہن بھائی بھی تھے کسی کو کسی کی خبر نہیں تھی، ہر کوئی جدھر کو منہ آیا ادھر پناہ لینے کو اٹھ دوڑا ،میں اکیلی رہ گئی طوفان کے تھپیڑے اس قدر تنگ تھے کہ میرے پاؤں اکھڑ گئے میں چھوٹی سی تو تھی طوفان نے مجھے اپنے ساتھ اڑانا شروع کردیا ،اب میں باد باراں کے رحم و کرم پر تھی۔
وہ شاید ندی نہیں تھی جس میں میں گر پڑی تھی ،وہ ایسے ہی پانی کا ریلا تھا جو مجھے اپنے ساتھ بہا لے گیا، میں نے چیخنا چلانا اور ماں کو پکارنا شروع کردیا ،لیکن طوفان کی چیخیں اتنی بلند تھیں کہ میری چیخ اس میں دب جاتی تھی، پھر اس طرح یاد آتا ہے جیسے بڑا ڈراؤنا خواب دیکھا تھا، میں پوری طرح بیان نہیں کر سکتی، یہ بڑی اچھی طرح یاد ہے کہ میں ڈوب رہی تھی اور دو ہاتھوں نے مجھے پانی سے نکال لیا، میں اس وقت کچھ ہوش میں اور کچھ بیہوش تھی، اتنا یاد ہے کہ وہ ایک بزرگ صورت آدمی تھا جس نے مجھے اس طرح اپنے سینے سے لگا لیا تھا جس طرح ماں اس بچے کو گود میں اٹھائے رکھتی ہو، بس یہی وجہ ہے کہ میں نے کچھ دن پہلے اس بچے کو جنگل میں بھٹکتے دیکھا تو اسے اٹھا لیا، میں اسے اپنے ہاتھ سے دودھ پلاتی ہوں۔
تو کیا اس شخص نے تمہیں پالا پوسا ہے؟۔۔۔ ذاکر نے پوچھا۔۔۔ یا تمہیں ماں باپ مل گئے تھے؟ 
نہیں امیر!،،،،،، زریں نے جواب دیا ۔۔۔وہ کہاں ملتے، معلوم نہیں بے چارے خود بھی زندہ ہیں یا نہیں، مجھے اس بزرگ ہستی نے اپنی بیٹی سمجھ کر پالا پوسا ہے، میں انہیں اپنا باپ اور ان کی بیوی کو اپنی ماں سمجھتی ہوں، ان سے مجھے بہت پیار ملا اور ایسی زندگی ملی ہے جیسے میں شہزادی ہوں۔
کون ہے یہ لوگ؟ 
احمد بن عطاش!،،،،، زریں نے جواب دیا ۔۔۔قلعے کے باہر رہتے ہیں ،مذہب کے عالم ہیں اور پکے اہل سنت ہیں۔
زریں کا انداز بیاں ایسا معصوم اور بھولا بھالا تھا کہ ذاکر اس میں جذب ہو کے رہ گیا، جیسے اس کی اپنی کوئی حیثیت ہی نہ رہی ہو ،کچھ تو لڑکی بڑی پیاری تھی اور کچھ یہ وجہ بھی تھی کہ لڑکی نے اپنی زندگی کی ایسی کہانی سنائی تھی جس سے ذاکر کے دل میں اس کی ہمدردی پیدا ہو گئی تھی، اس نے لڑکی کے ساتھ ایسے انداز سے اور اس قسم کی باتیں شروع کر دیں جیسے ہم جولی کیا کرتے ہیں ،ان میں اتنی معصومیت اور سادگی تھی کہ وہ بچوں کی طرح ذاکر میں گھل مل گئی۔
زریں!،،،،ذاکر نے بڑے پیار سے کہا۔۔۔ اس پھول میں میرا پیار ہے، یہ تم لے لو۔
زریں نے پھول لے لیا، اور چھوٹے سے بچے کی طرح ہنس پڑی، اس کی ہنسی ایسی تھی جیسے جل ترنگ سے نغمہ پھوٹا ہو۔
ایک بات بتاؤ زریں!،،،،، ذاکر نے کہا۔۔۔ کیا تم نے میرا یہ پھول دل سے قبول کرلیاہے؟
ہاں تو !،،،،زریں نے کہا۔۔۔ پیار کون قبول نہیں کرتا۔
 تو کیا تم میرے گھر آنا پسند کروں گی؟،،،،، ذاکر نے کچھ التجا کے لہجے میں پوچھا۔
 وہ کیوں ؟
میں تمہیں ہمیشہ اپنے پاس رکھوں گا، زندگی کا ساتھی بنانا چاہتا ہوں۔
 تو پھر میں کیوں آؤں ۔۔۔۔زریں نے بڑے شگفتہ لہجے میں کہا۔۔۔ آپ کیوں نہیں آتے؟ 
نہیں زریں۔۔۔ ذاکر نے کہا ۔۔۔تم اتنی معصوم ہو کہ میری بات سمجھ نہیں سکی، میں تمہیں اپنے گھر لانا چاہتا ہوں ،تم مجھے اس پھول جیسی پیاری لگتی ہو۔
پھول کسی کے پاس چل کر نہیں جایا کرتے امیر محترم !،،،،،زریں نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ پھولوں کے شیدائی خود چل کر پھولوں کے پاس جایا کرتے ہیں، اور وہ کانٹوں میں سے بھی پھول توڑ لیا کرتے ہیں، آپ نے یہ پھول جو مجھے دیا ہے ہاتھ لمبا کرکے توڑا ہے، آپ کسی پھول کو حکم دیں کہ وہ آپ کے پاس آجاۓ تو کیا پھول آپ کے حکم کی تعمیل کرے گا؟ 
ذاکر نے قہقہ لگایا اور اس کے ساتھ ہی لڑکی کو اپنے بازو کے گھیرے میں لے کر اپنے قریب کر لیا، زرین نے مزاحمت نہ کی۔
 تم جتنی حسین ہوں اتنی ہی دانش مند ہو۔۔۔ذاکر نے کہا ۔۔۔اب تو میں تمہیں ہر قیمت پر حاصل کروں گا۔
اور میں اپنی جان کی قیمت دے کر بھی آپ سے بھاگوں گی ۔۔۔زریں نے پہلے جیسی شگفتگی سے کہا۔
 وہ کیوں ؟
میں نے بادشاہوں کی بہت کہانیاں سنی ہے۔۔۔ زرین نے کہا۔۔۔ آپ جیسے امیر بھی بادشاہ ہوتے ہیں، مجھ جیسی لڑکی پر فریفتہ ہو کر اسے زروجواہرات میں تول کر اپنے حرم میں ڈال لیتے ہیں، اور جب انہیں ایسی ہی ایک اور لڑکی مل جاتی ہے تو وہ پہلی لڑکی کو حرم کے کباڑ خانے میں پھینک دیتے ہیں، میں فروخت نہیں ہونا چاہتی ،ائے امیر قلعہ !،،،ہاں اگر آپ کے سپاہی مجھے زبردستی اٹھا کر آپ کے محل میں پہنچا دیں تو میں کچھ نہیں کر سکوں گی، میرا بوڑھا باپ احمد بن عطاش بھی سوائے آنسو بہانے کے کچھ نہیں کرسکے گا، وہ بوڑھا بھی ہے عالم دین بھی ہے، اور وہ شاید تلوار بھی نہیں چلا سکتا۔
نہیں زریں!،،،، ذاکر نے کہا ۔۔۔احمد بن عطاش کی طرح میں بھی سنی مسلمان ہوں، کیا تم نے کبھی مسلمانوں میں کوئی بادشاہ دیکھا ہے، پھر میں کسی ملک کا حکمران نہیں میں سلجوقی سلطان کا ملازم ہوں ،حکومت سلطان ملک شاہ کی ہے، وہ بھی اپنے آپ کو بادشاہ نہیں سمجھتے، میرے پاس کوئی حرم نہیں دو بیویاں ہیں جو جوانی سے آگے نکل گئی ہیں، وہ تمہاری خدمت کیا کریں گی، اور وہ تمہیں دیکھ کر بہت خوش ہونگی۔
اس دور میں عربوں میں ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کا رواج تھا، اس وقت سوکن کا تصور نہیں تھا، بیویاں ایک دوسرے کے ساتھ خوش و خرم رہتی تھیں، یہاں تک بھی ہوتا تھا کہ خاوند عیاش طبیعت ہو تو کبھی کبھی کوئی بیوی اپنی کسی سہیلی کو ایک ادھ رات کے لئے اپنے خاوند کو تحفے کے طور پر پیش کرتی تھیں، داستان گو جس دور اور جس خطے کی کہانی سنا رہا ہے وہاں سلجوقی سلاطین کی حکومت تھی، سلجوقی ترک تھے ان کے یہاں بھی یہی رواج تھا، اسلام قبول کر کے انھوں نے بھی اپنے آپ کو پابند کر لیا تھا کہ ایک آدمی زیادہ سے زیادہ چار بیویاں رکھ سکتا ہے، حرم کا تصور عربوں کی طرح ان کے یہاں بھی ناپید تھا ،بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ سلجوقی بیویوں کے حقوق کا پورا پورا خیال رکھتے تھے۔
 زریں نے جب ذاکر سے یہ سنا کہ اس کی دو بیویاں ہیں اور دونوں جوانی سے آگے نکل گئی ہیں تو اس پر ایسا کوئی اثر نہ ہوا کہ اس کی دو سو کنیں ہوں گی۔
 میں تمہیں زبردستی نہیں اٹھاؤں گا زریں!،،،،،، ذاکر نے کہا۔۔۔ میں تمہیں زروجواہرات میں تولونگا ،میں اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق تم سے نکاح پڑھواؤنگا، فیصلہ تم کرو گی۔
تو پھر اس پودے کے پاس جائیں جس کا پھول توڑنا ہے۔۔۔ زریں نے کہا۔
ہاں زریں! ۔۔۔۔۔ذاکر نے کہا۔۔۔ میں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں، میں احمد بن عطاش کے ساتھ بات کروں گا، میں تمہیں یہ بھی بتا دیتا ہوں زریں پہلے تو مجھے تمہارا یہ معصوم حسن اچھا لگا تھا لیکن میں نے دیکھا کہ تم میں عقل و دانش بھی ہے تو میں نے کہا تھا کہ میں تمہیں ہر قیمت پر حاصل کروں گا، یہ اس لئے کہا تھا کہ میں اس قلعے کا حاکم ہوں، تم جیسی دانشمند بیوی میرے لیے سود مند ثابت ہو گی، تم مجھے سوچ بچار میں مدد دو گی۔
میرے باپ سے فیصلہ لے لیں۔۔۔ زریں قدر سنجیدگی سے کہا۔۔۔ میں نے آپ کو ٹھکرایا نہیں، لیکن میں آپ کو یہ بتا دیتی ہوں کہ مجھے دولت نہیں محبت چاہیے۔
 ذاکر نے زریں کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر ذرا ملا اور کچھ دبایا اور اٹھ کھڑا ہوا ۔
زریں!،،،،، ذاکر نے بڑے سنجیدہ لہجے میں کہا ۔۔۔میری فطرت بادشاہوں جیسی ہوتی تو میں درہم و دینار کی ایک تھیلی تمہارے قدموں میں رکھ دیتا، لیکن نہیں میں محبت کو محبت سے خریدوں گا ۔
ذاکر گھوڑے پر سوار ہوا اور ایڑ لگادی ،اسکے محافظ اور مصاحب ندی کے پل پر اسکے منتظر تھے۔
ایک بات غور سے سن لو۔۔۔ ذاکر نے کہا۔۔۔ اگر کوئی ہرن سامنے آئے تو مجھے دیکھ کر یہ ضرور بتا دیا کرو کہ یہ نر ہے یا مادہ، کبھی کسی ہرنی کو نہیں مارنا، ہوسکتا ہے وہ بچے والی ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ذاکر شکار سے واپس آ رہا تھا اس نے ایک ہی ہرن مارا تھا ،لیکن اس روز وہ بہت بڑا شکار کھیل آیا تھا، وہ زریں تھی جو ادھ کھلے پھول کی طرح معصوم تھی، ذاکر کو ابھی یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وہ شکار کرکے آیا ہے یا خود شکار ہو گیا ہے۔
زریں نے اسے اپنی بستی بتادی تھی جو تھوڑی ہی دور تھی، اس بستی کے قریب ذاکر نے گھوڑا روک لیا اور اپنے ایک مصاحب سے کہا کہ یہاں احمد بن عطاش نام کا ایک عالم دین رہتا ہے اسے میرا سلام پہنچایا جائے۔
ایک مصاحب نے گھوڑا دوڑا دیا اور وہ بستی کی گلیوں میں غائب ہو گیا۔
 جب وہ واپس آیا تو اس کے ساتھ ایک آدمی تھا جو سرسے پاؤں تک سفید چغے میں ملبوس تھا ،اس کے سر پر سلجوقی ٹوپی تھی اور ٹوپی پر سفید رومال تھا جو کندھوں تک لٹک رہا تھا، اس کی داڑھی لمبی تھی اور اس کے لباس کی طرح سفید، ذاکر نے اسے بستی سے نکلتے دیکھا تو گھوڑے سے کود کر اترا اور بہت ہی تیز چلتا اس شخص تک پہنچا، 
جھک کر سلام کیا پھر اس کے گھٹنے چھوکر مصافحہ کیا۔
احمد بن عطاش؟ 
 ہاں امیر قلعہ!۔۔۔ اس شخص نے کہا۔۔۔ احمد بن عطاش میں ہی ہوں، میرے لیے حکم۔
 کوئی حکم نہیں ائے عالم دین!،،،، ذاکر نے التجا کے لہجے میں کہا۔۔۔ ایک درخواست ہے کیا آپ آج کا کھانا میرے ہاں کھانا پسند فرمائیں گے۔
 زہے نصیب ۔۔۔احمد بن عطاش نے کہا ۔۔۔حاضر ہو جاؤں گا مغرب کی نماز کے بعد۔
ذاکر نے ایک بار پھر جھک کر اس سے مصافحہ کیا اور واپس آ گیا۔
مغرب کی نماز کے بعد احمد بن عطاش ذاکر کے محل نما مکان میں اس کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھا تھا، کھانے کے دوران ہی ذاکر نے درخواست کے لہجے میں احمد بن عطاش سے کہا کہ وہ اس کی بیٹی کے ساتھ شادی کرنا چاہتا ہے، اس نے یہ بھی بتایا کہ زریں اسے کہاں ملی تھی، اور یہ بھی کہ زریں نے اسے بتایا تھا کہ وہ احمد بن عطاش کی بیٹی کس طرح بنی تھی۔
اللہ نے میری دعائیں قبول کرلی ہیں۔۔۔ احمد بن عطاش نے دونوں ہاتھ آسمان کی طرف اٹھا کر کہا۔۔۔ میں نے اس بچی کو طوفان میں سے نکالا تھا اور اسے بڑے پیار سے پالا ہے، میں دعائیں مانگا کرتا تھا کہ اس بچی کی زندگی خانہ بدوشوں جیسی نہ ہو، اور اس کا مستقبل روشن ہو ، اگر آپ نے اسے اپنی رفاقت کے قابل سمجھا ہے تو بچی کے لئے اور میرے لیے اور خوش نصیبی کیا ہوگی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دو چار ہی دنوں بعد زریں دلہن کے لباس میں ذاکر کی زندگی میں داخل ہو گئی، ذاکر کی دونوں بیویوں نے بڑے پیار سے اس کا استقبال کیا ،ذاکر نے دو خادمائیں زریں کے لئے وقف کردیں۔
مجھے کسی خادمہ کی ضرورت نہیں۔۔۔ زریں نے ذاکر سے کہا ۔۔۔میں آپ کی خدمت اپنے ہاتھوں کرنا چاہتی ہوں، میں نے دیکھا ہے کہ رات کو آپ دودھ پیتے ہیں تو وہ خادمہ آپ کو دیتی ہے، آئندہ یہ دودھ میں خود آپ کے لیے تیار کیا کروں گی، میں جانتی ہوں آپ دودھ میں شہد ملا کر پیتے ہیں۔
ذاکر کی عمر پچاس سال ہو چکی تھی اسے غالبا توقع نہیں تھی کہ سترہ سال عمر کی اتنی حسین لڑکی اس پر فریفتہ ہوجائے گی، اس نے زریں کو اجازت دے دی کہ رات کا دودھ وہ خود اسے پلایا کرے گی۔
کچھ دنوں بعد زریں نے ذاکر سے کہا کہ جس شخص نے اسے طوفان سے بچایا اور اتنے پیار سے پالا ہے اس کے بغیر وہ اپنی زندگی بے مزہ سی محسوس کرتی ہے، ذاکر احمد بن عطاش کو اجازت دے دے کہ وہ ایک دو دنوں بعد کچھ وقت یہاں گزارا کریں۔
مختصر یہ کہ یہ نوخیز لڑکی ذاکر کے دل و دماغ پر چھا گئی، ذاکر نے احمد بن عطاش کو بلا کر بڑے احترام سے کہہ دیا تھا کہ وہ جب چاہے اسکے گھر آ جایا کرے، اور جتنے دن چاہے رہاکرے، ذاکر کو ذرا سا بھی شک نہ ہوا کہ احمد بن عطاش چاہتا ہی یہی ہے کہ اسے ذاکر کے گھر میں داخلہ مل جائے اور احمد اپنی سازش کو اگلے مرحلے میں داخل کرے، وہ اجازت مل گئی اور احمد ذاکر کے گھر جانے لگا۔
ذاکر کو یہ شک بھی نہ ہوا کہ احمد بن عطاش کٹر باطنی ہے اور فرقہ باطنیہ کا پیشوا اور اس فرقے کی زمین دوز تنظیم کا بڑا ہی خطرناک لیڈر ہے، وہ جس بستی میں رہتا تھا وہاں باقاعدہ خطیب بنا ہوا تھا، اور ہر کوئی اسے اہلسنت سمجھتا تھا۔
تاریخ نویس ابوالقاسم رفیق دلاوری مرحوم نے مختلف مورخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ ایک طرف ایک نوجوان لڑکی امیر قلعہ کے اعصاب پر غالب آگئی، اور دوسری طرف احمد بن عطاش نے مذہب کے پردے میں اپنی زبان کا جادو چلانا شروع کر دیا ،ذاکر احمد بن عطاش سے اس قدر متاثر ہوا کہ اس نے بعض سرکاری امور میں بھی اس سے مشورے لینے شروع کر دیئے، زریں کو خصوصی ٹریننگ دی گئی تھی جس کے مطابق وہ ذاکر کو ہپناٹائز کیے رکھتی تھی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ اس لڑکی نے ذاکر کو جو یہ پیشکش کی تھی کہ اسے وہ خود دودھ پلایا کرے گی اس سازش کی ایک اہم کڑی تھی، وہ دودھ میں اسے ہر روز کچھ گھول کر پلاتی تھی جس کے فوری طور پر اثرات ظاہر ہونے کا کوئی خطرہ نہیں تھا، یہ اثرات اندر ہی اندر اپنا کام کر رہے تھے، اس دوائی میں نشے کا بھی کچھ اثر تھا جو کچھ اس طرح تھا کہ ذاکر کے مزاج میں بڑی خوشگوار تبدیلی آجاتی تھی اور وہ زریں کے ساتھ ہم عمر ہمجولیوں کی طرح کھیلنے لگتا تھا۔
صرف ایک بار ایسا ہوا کہ ذاکر کی ایک بیوی نے زریں کو یہ دوائی دودھ میں ڈالتے دیکھ لیا اور زریں سے پوچھا بھی کہ اس نے دودھ میں کیا ڈالا ہے؟،،، زریں نے بڑی خود اعتمادی سے کہا کہ اس نے کچھ بھی نہیں ڈالا ،اس بیوی نے ذاکر کو بتایا اور کہا کہ اسے شک ہے کہ زریں ذاکر کو دودھ میں کوئی نقصان دہ چیز ملا رہی ہے، ذاکر کا ردعمل یہ تھا کہ اس نے اس بیوی کو طلاق تو نہ دی لیکن اسے یہ سزا دی کہ اسے الگ کر دیا اور اس کے ساتھ کچھ عرصے کے لئے میاں بیوی کے تعلقات ختم کر دیئے۔
کم و بیش تین مہینوں بعد ذاکر صاحب فراش رہنے لگا ،لیکن وہ یہ بیان نہیں کر سکتا تھا کہ بیماری کیا ہے اور تکلیف کس نوعیت کی ہے، طبیبوں نے اس کے علاج میں اپنا پورا علم صرف کر ڈالا لیکن نوبت یہاں تک پہنچی کہ وہ اٹھ کر ایک قدم بھی چلنے کے قابل نہ رہا، اس کے بستر کے قریب احمد بن عطاش اور زریں ہر وقت موجود رہتے تھے، اس کیفیت میں مریض کو وہ انسان فرشتہ لگتا ہے جو اس کی ذمہ داری پوری ہمدردی سے کرے، اسے یہ احساس دلاتا رہے کہ وہ جلدی ٹھیک ہو جائے گا۔
احمد بن عطاش نے اس کے پاس بیٹھ کر بڑی ہی پرسوز آواز میں تلاوت قرآن پاک شروع کردی، ذاکر کو اس سے کچھ سکون ملتا تھا
پھر وہ وقت بھی آگیا کہ ذاکر نے کہا کہ وہ زندہ نہیں رہ سکے گا، اس نے سلطان ملک شاہ کے نام ایک پیغام لکھوایا جس میں اس نے احمد بن عطاش کی دانشمندی اور علم و فضل کا ذکر کیا ،اور اس کی آخری خواہش ہے کہ اس قلعے کا امیر احمد بن عطاش کو مقرر کیا جائے۔
ذاکر مرتے دم تک احمد بن عطاش کو سنی سمجھتا رہا ، دو چار روز بعد وہ اللہ کو پیارا ہو گیا، اس کی موت کی اطلاع سلطان ملک شاہ کو ملی تو اس نے پہلا حکم نامہ یہ جاری کیا کہ آج سے قلعہ شاہ در کا امیر احمد بن عطاش ہے۔
اس وقت تک بہت سے باطنیوں کو قید میں ڈالا جاچکا تھا، سلجوقی چونکہ اہل سنت والجماعت ہیں اس لیے انہیں جونہی پتہ چلتا تھا کہ فلاں شخص اسماعیلی یا باطنی ہے اسے قید میں ڈال دیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ زیادہ تر باطنی اپنے آپ کو سنی کہلاتے تھے، لیکن خفیہ طریقوں سے وہ بڑی ہی خوفناک سازشیں تیار کر رہے تھے۔
احمد بن عطاش نے امیر قلعہ بنتے ہی پہلا کام یہ کیا کہ ان تمام باطنیوں کو جو قلعے کے قید خانے میں بند تھے رہا کر دیا، پھر اس نے درپردہ باطنیوں کو قلعے کے اندر آباد کرنا شروع کردیا، اور باطنیوں پر جو پابندی عائد تھی وہ منسوخ کردی ۔
اس کے فوراً بعد قافلے لوٹنے لگے اور رہزنی کی وراداتیں بڑھنے لگی، ان وراداتوں کا مقصد پیسہ اکٹھا کرنا تھا۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ احمد بن عطاش علم نجوم اور علم سحر کا ماہر تھا، خطابت میں اس کی مہارت ایسی تھی کہ سننے والے پر طلسماتی سا تاثر طاری ہو جاتا تھا۔
یہ تھا وہ قلعہ شاہ در جس میں حسن بن صباح، فرحی اور اپنے رہبر کے ساتھ داخل ہوا تھا۔ رہبر اسے سیدھا امیر قلعہ احمد بن عطاش کے گھر لے گیا ،یہ گھر محل جیسا مکان تھا، احمد بن عطاش کو اطلاع ملی کہ رے سے حسن بن صباح آیا ہے تو اس نے کہا کہ اسے فوراً اندر بھیجا جائے۔
آ نوجوان !،،،،،،احمد بن عطاش نے حسن بن صباح کو اپنے سامنے دیکھ کر کہا ۔۔۔میں نے تیری بہت تعریف سنی ہے، آج آرام کر لو کل صبح سے تمہیں بتایا جائے گا کہ کیا کرنا ہے، اور اب تک کیا ہو چکا ہے۔
حسن بن صباح نے جھک کر سلام کیا اور باہر نکل آیا ، اہلسنت سلطان ملک شاہ کے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ اس کی سلطنت میں ابلیس اتر آیا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*


 لمبی سیاہ ٹوپیاں فوج کے اس اعلیٰ ترین دستے کی وردی کا حصہ ہے جنھیں بکنگھم کے شاہی محل کے باہر تعینات کیا جاتا ہے۔

شاہی گارڈز کی ٹوپیاں تیار کرنے کے لیے کینیڈا میں پائے جانے والے سیاہ ریچھ کی کھال منگوائی جاتی ہے۔
ریچھ کی ایک کھال کی قیمت تقریباً ساڑھے 22 سو ڈالر ہو چکی ہے۔
سن 2017 سے 2023 تک برطانیہ نے ریچھ کی 526 کھالیں درآمد کیں۔

آپ نے اکثر برطانیہ کی شاہی تقریبات اور محلات میں لمبی سیاہ بالوں سے بنی ٹوپیاں دیکھیں ہوں گی۔ برطانیہ میں اب حیوانات کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم فوج پر زور دے رہی ہے کہ اس ٹوپی کا استعمال ترک کردیا جائے۔

لمبی سیاہ ٹوپیاں فوج کے اس اعلیٰ ترین دستے کی وردی کا حصہ ہے جنھیں بکنگھم کے شاہی محل کے باہر تعینات کیا جاتا ہے۔ یہ ٹوپی پہن کر کسی مجسمے کی طرح ساکت و جامد کھڑے ہو کر اپنی ڈیوٹی انجام دینے والے یہ گارڈ کو برطانیہ کی جانی مانی علامت سمجھا جاتا ہے۔

برطانوی فوج کے ان دستوں کے لیے یہ خصوصی ٹوپیاں دراصل ریچھ کی کھال سے تیار کی جاتی ہیں۔ اس کے لیے کیینڈا میں پائے جانے والے کالے ریچھوں کی کھال خصوصی طور پر منگوائی جاتی ہے۔

حال ہی میں برطانیہ میں معلومات تک رسائی کی ایک درخواست کے ذریعے سامنے آنے والی تفصیلات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کالے ریچھ کی کھال کی قیمت بڑھ کر 2040 یورو(تقریباً ساڑھے 22 سو) ڈالر ہو چکی ہے۔

حیوانات کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم 'پیپل فور ایتھیکل ٹریٹمنٹ اینڈ اینیملز(پیٹا)' نامی تنظیم اس سے قبل برطانیہ کی وزارتِ دفاع کے خلاف ان ٹوپیوں میں ریچھ کی کھال استعمال روکنے کے لیے عدالت لے جا چکی ہے لیکن 'پیٹا' کو اس میں کامیابی نہیں ملی تھی۔

پیٹا کا کہنا ہے کہ اب ان ٹوپیوں میں مصنوعی بالوں یا کھال کا استعمال اخلاقی کے ساتھ ساتھ معاشی جواز بھی رکھتا ہے۔

تنظیم کی نائب صدر ایلیسا ایلن کا کہنا ہے کہ حکوت کو عوامی امنگوں کا احترام کرتے ہوئے کینیڈا میں ریچھوں کے سفاکانہ شکار کی صنعت کو فروغ دینے کا سلسلہ روکنا چاہیے۔ اور اس کے بجائے مصنوعی کھال اور بالوں کے استعمال کی طرف آنا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم وزارتِ دفاع پر زور دیتے ہیں کہ وہ جنگلی حیات کی 'قتل و غارت' سے تیار ہونے والی ٹوپیوں پر ٹیکس دینے والے عوام کا پیسہ ضائع کرنا بند کرے۔

برطانیہ کی وزارتِ دفاع نے 2017 سے جولائی 2024 کے دوران ریچھ کی 526 کھالیں خریدیں تھیں۔ وزارت کا کہنا ہے کہ وہ مصنوعی کھال اور بالوں کے متبادل کو ’کھلے دل‘ سے قبول کرنے کے لیے تیار ہے۔ تاہم کسی متبادل کا ’سیفٹی اور پائیداری‘ کی ضروریات پورا کرنے والا ہونا چاہیے اور ابھ تک اس معیار پر پورا اترنے والا متبادل نہیں مل سکا ہے۔

بادشاہ چارلس کی اہلیہ ملکہ کمیلا نے رواں برس مئی میں اعلان کیا تھا کہ وہ وعدہ کرتی ہیں کہ آئندہ حیوانی کھال اور پوستین وغیرہ سے تیار ہونے والے ملبوسات استعمال نہیں کریں گی۔ اس اعلان کو حیوانات کے حقوق کے لیے کام کرنے والے کارکنان اور تنظیموں کی جانب سے بہت پذیرائی ملی تھی۔

اس سے قبل وہ لومڑی کے شکار کے اپنے حد شوق کی وجہ سے جانی جاتی تھیں۔ لیکن برطانیہ میں اسے غیر قانونی قرر دیے جانے کے بعد انہوں نے شکار بھی ترک کردیا تھا۔

کمیلا سے قبل برطانیہ کی فرماں روا ملکہ الزبتھ دوم نے بھی 2019 میں حیوانات کی کھال سے تیار ہونے والی اشیا کی خریداری چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔

اس خبر کی تفصیلات خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے لی گئی ہیں۔


 ╏╠═🕌═[𝍖🕋𝍖 درسِ قرآن 𝍖🕋𝍖] 🌹 🌹  🌹


 سورہ الاعراف آیت نمبر 32
بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

قُلۡ مَنۡ حَرَّمَ زِیۡنَۃَ اللّٰہِ الَّتِیۡۤ  اَخۡرَجَ لِعِبَادِہٖ  وَ الطَّیِّبٰتِ مِنَ الرِّزۡقِ ؕ قُلۡ ہِیَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا خَالِصَۃً  یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ  کَذٰلِکَ  نُفَصِّلُ الۡاٰیٰتِ  لِقَوۡمٍ  یَّعۡلَمُوۡنَ ﴿۳۲﴾

ترجمہ: کہو کہ : آخر کون ہے جس نے زینت کے اس سامان کو حرام قرار دیا ہو جو اللہ نے اپنے بندوں کے لیے پیدا کیا ہے اور (اسی طرح) پاکیزہ رزق کی چیزوں کو ؟ (١٦) کہو کہ : جو لوگ ایمان رکھتے ہیں ان کو یہ نعمتیں جو دنیوی زندگی میں ملی ہوئی ہیں، قیامت کے دن خالص انہی کے لیے ہوں گے۔ (١٧) اسی طرح ہم تمام آیتیں ان لوگوں کے لیے تفصیل سے بیان کرتے ہیں جو علم سے کام لیں۔

تفسیر: 16: جس طرح ان عرب قبائل نے طواف کے وقت کپڑے پہننے کو حرام سمجھا ہوا تھا، اسی طرح جاہلیت کے لوگوں نہ بہت سی غذاؤں کو بلا وجہ حرام قرار دیا ہوا تھا، جس کا مفصل تذکرہ سورة انعام میں گزرا ہے، نیز حمس کے قبائل نے گوشت کی بعض قسموں کو اپنی امتیازی حیثیت ظاہر کرنے کے لئے اپنے اوپر حرام کرلیا تھا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسا کوئی حکم نہیں آیا تھا۔ 17:: یہ دراصل کفار مکہ کی ایک بات کا جواب ہے وہ کہا کرتے تھے کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ہمارا موجودہ طریقہ پسند نہیں ہے تو وہ ہمیں رزق کیوں دے رہا ہے ؟ جواب یہ دیا گیا ہے کہ اس دنیا میں تو اللہ تعالیٰ کے رزق کا دستر خوان ہر شخص کے لئے بچھا ہوا ہے چاہے وہ مومن ہو یا کافر، لیکن آخرت میں یہ نعمتیں صرف مومنوں کے لئے خاص ہیں، اس لئے یہ سمجھنا غلط ہے کہ اگر دنیا میں کسی کو خوشحالی میسر ہے تو یہ اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی دلیل ہے اور اسے آخرت میں بھی خوشحالی ضرور میسر آئے گی۔
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی


 📿 *ایک میت کی نمازِ جنازہ کو دوسرے جنازے کے انتظار میں مؤخر کرنے کا حکم:*

1️⃣ شریعت کی رو سے میت کو غسل اور کفن دینے، اس کی نمازِ جنازہ ادا کرنے اور اس کو دفن کرنے میں کسی شرعی وجہ اور معقول عذر کے بغیر تاخیر نہیں کرنی چاہیے، بلکہ جتنی جلدی ہوسکے میت کو دفنانے کا اہتمام کرنا چاہیے، شریعت میں اس کی تاکید آئی ہے۔ یہی درست مسئلہ اور احادیث کا تقاضا ہے۔
2️⃣ مذکورہ مسئلے سے یہ بات بھی واضح ہوجاتی ہے کہ میت کو غسل اور کفن دینے میں بلاوجہ تاخیر نہیں کرنی چاہیے، اور جب جنازہ تیار ہوجائے تو اس کے بعد اس کو محض دوسرے جنازے کے انتظار میں مؤخر کرنا مکروہ اور ناجائز ہے۔  (امداد الفتاوٰی)
3️⃣ یہاں مختصرًا یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ احادیث کی رو سے نمازِ جنازہ میں کثرتِ تعداد کی بڑی برکت اور فضیلت ہے، لیکن اس کے لیے نمازِ جنازہ میں تاخیر کرنا درست نہیں، کیوں کہ اوّل تو یہ بھی احادیث ہی کا تقاضا ہے کہ میت کی نمازِ جنازہ اور تدفین میں بلاوجہ تاخیر نہ کی جائے، اس لیے ان احادیث پر بھی عمل ہونا چاہیے، بلکہ مزید یہ کہ نمازِ جنازہ میں لوگوں کے زیادہ سے زیادہ شریک ہونے کی رعایت محض ایک مستحب معاملہ ہے، جبکہ نمازِ جنازہ میں تاخیر نہ کرنا اور میت کو جلد دفن کرنا ایک تاکیدی بلکہ واجب حکم ہے، گویا کہ اس کی اہمیت زیادہ ہے، اس لیے اگر  نمازِ جنازہ میں کثرتِ تعداد کو حاصل کرنے کی وجہ سے نمازِ جنازہ اور تدفین میں تاخیر لازم آئے گی تو پھر اس کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ دوم یہ کہ نمازِ جنازہ میں کثرتِ تعداد کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے کوئی بڑا اجتماع ضروری نہیں، بلکہ احادیث سے جو نمازِ جنازہ میں کثرتِ تعداد کی فضیلت ثابت ہے تو اس کی حقیقت خود تین طرح کی مختلف احادیث میں مذکور ہے کہ نمازِ جنازہ میں یا تو سو افراد شریک ہوجائیں یا چالیس افراد شریک ہوجائیں یا تین صفیں بن جائیں، ان تینوں صورتوں میں سے کوئی بھی صورت حاصل ہوجائے تو میت کو اس کی فضیلت نصیب ہوجاتی ہے اور  اللہ تعالیٰ اس کی مغفرت فرمادیتا ہے۔ جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ نمازِ جنازہ کے لیے جو وقت مقرر ہوجائے تو اس وقت تک جتنے بھی افراد حاضر ہوجائیں انھی کے ساتھ نمازِ جنازہ ادا کرلی جائے، اس صورت میں اگر تعداد سو یا چالیس سے بھی کم ہو تو جتنے بھی لوگ حاضر ہوجائیں ان کی تین صفیں بنادی جائیں، یوں میت کو نمازِ جنازہ میں تین صفوں کی شرکت کی فضیلت تو حاصل ہوہی جائے گی، حتی کہ حضرات فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ اگر صرف سات آدمی نمازِ جنازہ میں شریک ہوں تو ایک آدمی ان میں سے امام بنادیا جائے، اور پہلی صف میں تین آدمی کھڑے ہوں، دوسری میں دو اور تیسری میں ایک۔ 
(حلبی صغیر، بہشتی گوہر صفحہ: 146 ناشر: البشریٰ) 
خلاصہ یہ ہے کہ لوگوں کی زیادہ سے زیادہ شرکت کی وجہ سے نمازِ جنازہ میں تاخیر کرنا درست نہیں۔

📚 *حدیث اور فقہی عبارات*
1️⃣ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے  روایت ہے کہ حضور اقدس ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’اے علی! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرنا: ایک تو نماز میں جب اس کا وقت ہوجائے، دوم: نمازِ جنازہ میں جب وہ (تیار ہوکر) حاضر ہوجائے، سوم: غیر شادی شدہ لڑکی کے نکاح میں جب اس کے ہم پلہ کوئی مناسب رشتہ مل جائے۔‘‘
☀️ مستدرک حاکم میں ہے:  
2743- عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ رَسُولَ اللهِ ﷺ قَالَ: «ثَلَاثٌ يَا عَلِيُّ لَا تُؤَخِّرْهُنَّ: الصَّلَاةُ إِذَا آنَتْ، وَالْجَنَازَةُ إِذَا حَضَرَتْ، وَالْأَيِّمُ إِذَا وَجَدَتْ كُفْؤًا».
2️⃣ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’ایک کوتاہی یہ ہے کہ بعض جگہ نمازِ جمعہ کے انتظار میں جنازے کو رکھے رکھتے ہیں کہ زیادہ نمازی نماز پڑھیں گے، سو یہ بالکل جائز نہیں، جس قدر جلد ممکن ہو نماز اور دفن سے فراغت واجب ہے۔‘‘ 
(اصلاحِ انقلابِ امت صفحہ 250، ناشر: البشریٰ)
3️⃣ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
’’في «الدر المختار»: وَكُرِهَ تَأْخِيرُ صَلَاتِهِ وَدَفْنِهِ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ جَمْعٌ عَظِيمٌ‘‘ اس سے معلوم ہوا کہ محض دوسری میت کے انتظار میں ایک جنازہ کی نماز میں تاخیر کرنا درجہ اَولیٰ مکروہ ہے۔ (امداد الفتاوٰی)
4️⃣ الدر المختار میں ہے:
(وَكُرِهَ تَأْخِيرُ صَلَاتِهِ وَدَفْنِهِ لِيُصَلِّيَ عَلَيْهِ جَمْعٌ عَظِيمٌ بَعْدَ صَلَاةِ الْجُمُعَةِ) إلَّا إذَا خِيفَ فَوْتُهَا بِسَبَبِ دَفْنِهِ، «قُنْيَةٌ». (بَابُ صَلَاةِ الْجِنَازَةِ)
5️⃣ حلبی صغیر میں ہے:
ويستحب أن يصفوا ثلاثة صفوف حتى لو كانوا سبعة يتقدم أحدهم للإمامة ويقف وراءه ثلاثة ووراءهم اثنان ثم واحد، وأفضل صفوف الجنازة آخرها بخلاف سائر الصلوات. 
(فصل في الجنائز)

⬅️ *تنبیہ:* مذکورہ تفصیل سے یہ بات بھی بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ آجکل جو نمازِ جنازہ کی ادائیگی میں بلاوجہ تاخیر کی جاتی ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ لوگ اس میں شریک ہوں اور ایک تاریخی نمازِ جنازہ بنے تو ان کا یہ عمل شریعت کے خلاف ہے۔ حقیقت یہ کہ مؤمن ہر حال میں شریعت کا پابند رہتا ہے، وہ شریعت کی پیروی کے مقابلے میں بڑے سے بڑے دنیوی فائدے کی طرف ہرگز توجہ نہیں کرتا۔ کاش کہ ہمیں یہ حقیقت سمجھ آجائے۔

✍🏼۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی


چھوڑ کر مجھ کو کہیں پھر اس نے کچھ سوچا نہ ہو
میں ذرا دیکھوں وہ اگلے موڑ پر ٹھہرا نہ ہو

میں بھی اک پتھر لیے تھا بزدلوں کی بھیڑ میں
اور اب یہ ڈر ہے اس نے مجھ کو پہچانا نہ ہو

ہم کسی بہروپئے کو جان لیں مشکل نہیں
اس کو کیا پہچانیے جس کا کوئی چہرا نہ ہو

اس کو الفاظ و معانی کا تصادم کھا گیا
اب وہ یوں چپ ہے کہ جیسے مدتوں بولا نہ ہو

دندناتا یوں پھرے ہے شہر کی سڑکوں پہ وہ
جیسے پورے شہر میں کوئی بھی آئینہ نہ ہو

لوگ کہتے ہیں ابھی تک ہے وہ سرگرم سفر
مجھ کو اندیشہ کہیں وہ راہ میں سویا نہ ہو

مجھ کو اے منظورؔ یوں محسوس ہوتا ہے کبھی
جیسے سب اپنے ہوں جیسے کوئی بھی اپنا نہ ہو

شاعر: حکیم منظور


 


 🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عبدالعزیز طوو والی بت طناز کو دیکھ کر محو دید ہو گئے تھے-
حقیقت یہ ہے کہ وہ نازنین تھی ہی بے حد حسین ۔
اس پر اعلی قسم کی پوشاک بہترین زیورات اور ان پر طرہ خوش نما اور چمک دار طوق پہنے تھی اور بھی خوبصورت معلوم ہو رہی تھی ۔
یہ نائلہ تھی رازرق کی بیگم اور اندلس کی ملکہ عربی اور عیسائی ہر دو مورخین نے اس کی بہت تعریف کی ہے ۔
خصوصا عیسائی تو اسے ارض اندلس کی حور لکھتے ہیں ۔
مسلمان بھی اندلس کی نازنین کے نام سے موسوم کرتے ہیں ۔
عبدالعزیز اس کو اور وہ عبدالعزیز کو دیکھ رہی تھی کچھ وقفہ بعد نائلہ ناز و انداز سے بل کھاتی ہوئی بڑھی اور ان کے پاس آ کر بولی آپ کون ہیں؟ "
وہ عربی جانتی تھی اور نہایت فصاحت سے بول رہی تھی ۔
عبدالعزیز نے کہا ۔
میں ایک گمنام شخص ہوں 
نائلہ ہنس پڑی اور بولی گمنام؟ یا اپنا نام ہی نہیں رکھا؟ "
عبدالعزیز :درست سمجھا آپ نے!
نائلہ :آپ عرب کے رہنے والے ہیں؟
عبدالعزیز :جی ہاں ۔
نائلہ :مسلمانوں کے والی یا امیر آپ کے کچھ رشتے دار ہوتے ہیں؟ "
عبدالعزیز :ہاں وہ میرے والد ہیں ۔
نائلہ :یہ پچھلا لشکر شاید آپ ہی لے کر آئے ہیں؟ "آپ یہاں کیا کرنے آئے تھے؟ "
عبدالعزیز :اگر آپ سنیں تو عرض کروں!!!
نائلہ :میں سن رہی ہوں آپ کہیں!
عبدالعزیز :عرصہ ہوا تھا ایک خواب دیکھا تھا ۔
نائلہ :چونک کر خواب؟ "
عبدالعزیز :ہاں!
نائلہ :کیا دیکھا تھا؟ "
عبدالعزیز :جو کچھ اس وقت دیکھ رہا ہوں ۔
نائلہ :کیا یہ سر زمین آپ نے پہلے بھی دیکھی تھی؟ "
عبدالعزیز :بالکل بھی نہیں ۔
نائلہ :پھر خواب میں کیسے دیکھ لیا؟ '
عبدالعزیز :میں نہیں کہہ سکتا کیسے لیکن دیکھا ۔یہی کھنڈرات یہی بت اور اسی طرح بت کے پیچھے آپ کو کھڑے دیکھا!
نائلہ یہ سن کر حیرت زدہ ہو گئی اور بولی آپ نے کہا- "کہ آپ نے مجھے کھڑے دیکھا؟ "
عبدالعزیز :ہاں ۔
نائلہ :عجیب بات ہے یہ تو!
عبدالعزیز :ہاں نہایت عجیب جب میں نے اپنا خواب بیان کیا تو وہاں سیوطا کے گورنر کونٹ جولین اور اشبلایا کے راہب بھی موجود تھے ۔
نائلہ کو اور بھی زیادہ حیرت ہوئی اس نے کہا وہ دونوں وہاں کیوں گئے تھے؟ "
عبدالعزیز :شاہ رازرق نے کونٹ جولین کی بیٹی فلورنڈا کی آبرو ریزی کی تھی وہ فریادی بن کر گئے تھے ۔
نائلہ نے ٹھنڈا سانس بھر کر کہا ٹھیک ہے! "یہ کہہ کر افسردہ سی ہو گئی اس افسردگی میں بھی کمال حسین معلوم ہو رہی تھی ۔
عبدالعزیز نے کہا ۔"
مجھے کونٹ نے بتایا تھا کہ وہ خوش نما طوق والی دوشیزہ حور وش نائلہ ہے جو اندلس کی ملکہ ہے ۔"
نائلہ کے چہرے سے غم و حسرت کے آثار ظاہر ہو گئے تھے ۔
وہ سر جھکائے خاموش کھڑی تھی غالبا اسے اپنا وہ زمانہ یاد آ گیا تھا جب کہ وہ اندلس کی ملکہ تھی اور اس کا ہر باشندہ اس کی عزت کرتا تھا مگر اس کے ہوس کار شوہر کی بدکاری نے اس کی جان لے لی اور ملکہ اندلس کو دارالسلطنت سے بھاگ کر مریڈا میں پناہ لینا پڑی ۔
عبدالعزیز نے دریافت کیا کیا آپ ہی کا نام نائلہ ہے؟ "
نائلہ :جی ہاں مجھ بد نصیب کا نام ہی نائلہ ہے ۔
عبدالعزیز :آپ بد نصیب نہیں خوش قسمت ہیں ایسی خوش نصیب کہ جس پر دنیا رشک کرتی ہے ۔
نائلہ :آہ میں جانتی ہوں ۔وہ اس قدر غم زدہ ہو گئی کہ فقرہ پورا نہ کر سکی ۔
عبدالعزیز نے اسے تسلی دتیے ہوئے کہا آپ افسردہ نہ ہوں آپ جو حکم دیں  گی میں اس کی تعمیل کروں گا۔
نائلہ :آہ میں حکم دوں ایک قیدی کیا حکم دے سکتا ہے ۔
عبدالعزیز :مگر آپ تو قیدی نہیں ہیں!
نائلہ :میری قوم آپ کی غلام ہے ۔
عبدالعزیز :نہیں نہیں آپ کنیز نہیں ہیں بلکہ آزاد ہیں ایسا خیال کر کے اپنے دل کو تکلیف نہ پہنچائیں ۔
نائلہ :مقدر کا لکھا پیش آتا ہے مجھے اس کا رنج ضرور ہے لیکن اس رنج سے کوئی فائدہ نہیں ہے ۔
عبدالعزیز :آپ ذرا بھی غم نہ کریں بتائیں مجھے آپ کیا چاہتی ہیں ۔
نائلہ :آپ کا بے حد شکریہ میں نے سنا ہے کہ والی طلیطلہ جانے والے ہیں ۔
عبدالعزیز :جی ہاں ۔
نائلہ :آپ بھی چلے جائیں گے ۔
عبدالعزیز :بے شک مجھے ان کے ساتھ جانا پڑے گا ۔
نائلہ :کیا میں آپ لوگوں کے ساتھ جا سکتی ہوں؟ "
عبدالعزیز :بڑی خوشی سے ۔
نائلہ :بس تو یہ ہی عنایت کیجئے ۔
عبدالعزیز عنایت ؟؟؟؟یہ تو میری عین تمنا ہے!
نائلہ :اور میری بھی ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس کے بعد اس نے جلدی سے اپنی زبان آب دار موتیوں جیسے دانتوں میں دبا گویا اس کی زبان سے کوئی ایسی بات نکل گئی ہے جسے وہ کہنا نہیں چاہتی تھی ۔
عبدالعزیز خوش ہو گئے انہوں نے کہا میں اپنی قسمت پر جتنا فخر کروں کم ہے ۔
نائلہ جس قدر حسیں تھی اسی قدرت نے اسے سیرت بھی اچھی عطا کی تھی
نائلہ: آپ اسے فخر و مباہات کیوں سمجھتے ہیں- "
عبدالعزیز :میں بالکل نا امید ہو گیا تھا ۔
نائلہ :کیوں؟
عبدالعزیز :اس لئے کہ جب اندلس پر لشکر بھیجا جانے لگا تو میں نے اپنے والد سے درخواست کی کہ وہ مجھے بھیج دیں مگر انہوں نے انکار کردیا اور بجائے اور میری بجائے میرے طارق کو بھیج دیا ۔دوبارہ وہ خود چلے آئے لیکن قدرت کو یہ منظور تھا کہ میں آپ کا دیدار کر سکوں چنانچہ ایسے انتظامات پیدا ہو گئے کہ مجھے آنا پڑا ۔
نائلہ :مگر کاش نہ آتے ۔
عبدالعزیز :کیوں؟
نائلہ :اس لئے کہ نہ آپ کو دیکھتی اور نہ ۔۔۔۔۔
عبدالعزیز :اور کیا؟
نائلہ :میرے دل میں یہ تمنا پیدا نہ ہوتی کہ میں آپ کے ساتھ چلوں ۔
عبدالعزیز :یہی بات میرے لیے فخر کی ہے ۔
نائلہ :مگر ۔۔۔۔
عبدالعزیز :مگر کیا؟
نائلہ :آپ کب تک میرے ساتھ رہیں گے؟ "
عبدالعزیز :میں ہمیشہ آپ کے ساتھ رہنے کو تیار ہوں ۔
نائلہ :ہمیشہ ۔۔۔۔۔۔؟
عبدالعزیز :جی ہاں ۔
نائلہ :سوچ سمجھ کر اقرار کرنا ۔
عبدالعزیز :میں نے سوچ کر ہی اقرار کیا ہے ۔
نائلہ :کا چہرہ خوشی سے کھل اٹھا۔خدا کرے کہ آپ اپنے وعدے پر قائم رہیں ۔
عبدالعزیز :میں مسلمان ہوں مسلمان اپنے وعدے سے نہیں پھرتا ۔
نائلہ :میں نے بھی یہی سنا ہے ۔
عبدالعزیز :مگر آپ بھی ہمیشہ میرے ساتھ رہنے کو تیار رہیں ۔
نائلہ :بڑے ناز کے ساتھ اگر میں تیار نہ ہوں تو ۔
عبدالعزیز :لیکن _____؟
نائلہ :لیکن کیا؟ "
عبدالعزیز :یہ خیال کر لیجئے کہ آپ ملکہ ہیں اور میں ایک وائسرائے کا بیٹا ہوں ۔
نائلہ :مگر آب میں ملکہ نہیں ہوں ۔
عبدالعزیز :آپ ملکہ ہیں اور تمام عیسائی اب بھی تمہارے سامنے سر خم کرتے ہیں ۔
نائلہ :خیر میں کچھ بھی ہوں آپ اپنا وعدہ یاد رکھیں ۔
عبدالعزیز :ضرور یاد رکھوں گا
عبدالعزیز :کیا آپ نے مجھے پہلے دیکھا تھا؟ "
نائلہ :ہاں مگر یہ نہیں بتاوں گی کہ کب اور کہاں؟ ؟
عبدالعزیز :اور آپ مجھ سے ملنا چاہتی تھیں؟ "
نائلہ :بے شک ۔
عبدالعزیز :مگر میں واقف بھی نہیں تھا کہ یہاں بت ہے اتفاقیہ ہی اس طرف نکل آیا تھا ۔
عبدالعزیز :اچھا آب چلئے ۔
دونوں آگے پیچھے چل پڑے اور خادمائیں ان کے پیچھے چلیں ۔
دونوں استراحت افزا وادی کی سیر کرتے مریڈا کے قلعہ کے پاس پہنچ گئے ۔
نائلہ :سلام کر کے قلعہ کے اندر چلی گئی اور عبدالعزیز اسلامی لشکر کی طرف روانہ ہو گئے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

 


 ஜ۩۞۩ஜ د҉ر҉س҉ِ҉ ҉ح҉د҉ی҉ث҉ ஜ۩۞۩ஜ


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلاَمٍ قَالَ مَكْتُوبٌ فِي التَّوْرَاةِ صِفَةُ مُحَمَّدٍ وَعِيسَى ابْنِ مَرْيَمَ يُدْفَنُ مَعَهُ. (رواه الترمذى و مشكوة المصابيح)

ترجمہ:عبداللہ بن سلام رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا کہ تورات میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا حال بیان کیا گیا ہے (اس میں یہ بھی ہے) کہ عیسی بن مریم علیہ السلام ان کے ساتھ (یعنی ان کے قریب ہی) دفن کئے جائیں گے۔

تشریح:امام ترمذی کی سند میں اس حدیث کے راویوں میں ایک ابو مودود ہیں امام ترمذی نے اس حدیث کے ساتھ ان ابو مودود کا یہ بیان بھی نقل کیا ہے وقد بقی فی البیت موضع قبر (یعنی حجرہ شریفہ میں (جواب روضہ مقدسہ ہے) ایک قبر کی جگہ باقی ہے۔
کیا عجب بلکہ قرین قیاس ہے کہ اللہ تعالی کی طرف سے ایک قبر کی جگہ خالی رہنے کا تکوینی انتظام اسی لئے ہوا ہو کہ اس جگہ حضرت مسیح علیہ السلام کا مدفون ہونا مقدر ہو چکا ہے۔ واللہ اعلم۔


 🌹 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹 


رمضان المبارک میں نماز فجر اول وقت میں پڑھنا

   فجر کا اصل وقت تو طلوع صبح صادق سے شروع ہوتا ہے لیکن احناف کے ہاں مستحب یہ ہے کہ اسفار یعنی تاخیر کرکے روشنی میں پڑھی جائے ، کیوں کہ حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کو تاریکی میں پڑھنے کے بجائے روشنی پھیلنے پر پڑھنے کی فضیلت بیان فرمائی ہے ، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جماعت سے زیادہ لوگ نماز پڑھ سکیں گے ، یہ حکم عام حالات کے بارے میں ہے۔
رمضان المبارک میں فجر کی نماز صبح صادق کے بعد فورا ادا کرنا بہتر ہے ، تاکہ اکثر لوگ باجماعت نماز پڑھ سکیں۔
یہ مسئلہ حنفیہ کے مسلک کے خلاف بھی نہیں ہے اور ہمارے اکابر دیوبند کا مسلک بھی ہے۔

📚حوالہ:
▪السنن الترمذی 1/150
▪معارف السنن 5/362
▪فتاوی قاسمیہ 5/274
▪افضل التطبیق العصری علی مسائل القدوری 1/273
━━━━━━━❪❂❫━━━━━━
▒▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓▒
مرتب:✍  
مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ
━━━━━━━❪❂❫━━━━━━


 ✴✶  🎀 🅿🅾🆂🆃-🅼🅾🆁🆃🅴🅼 🎀  ✶


کالج میں ایک اسٹوڈنٹ سائیں وقاص نے انگریزی کےپروفیسر ابودجانہ سے پوچھا ۔ سر " نٹورے " کا کیا مطلب ہے؟ 

" نٹورے" ؟؟؟
ابودجانہ نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔
پھر کہا: " ٹھیک ہے میں تجھے بعد میں بتاتا ہوں ، میرے آفس میں آ جانا۔ " ابودجانہ نے اسے ٹالنے کے لیئے کہا۔

سائیں وقاص وہاں بھی پہنچ گیا، بتائیے سر،
" نٹورے " کا مطلب ؟؟؟

ابودجانہ نے کہا میں تجھے کل بتاتا ہوں ۔

ابودجانہ رات بھر پریشان رہا، ڈکشنری میں ڈھونڈا، انٹرنیٹ پر ڈھونڈا ۔

دوسرے دن پھر وہی سائیں اور سائیں کا مطالبہ ۔۔۔۔سر، " نٹورے" کا مطلب ؟؟؟

اب ابودجانہ سائیں سے دوری بنانے لگا اور اسے دیکھتے ہی اس سے کترا کے نکلنے لگا ۔ لیکن سائیں تو سائیں تھا، ابودجانہ کا پیچھا چھوڑنے کو تیار ہی نہیں تھا ۔

ایک دن ابودجانہ نے سائیں سے پوچھا جس "نٹورے" لفظ کے بارے میں تم پوچھ رہے ہو، یہ کونسی زبان کا لفظ ہے؟ 

سائیں نے جواب دیا - انگلش۔ 

ابودجانہ نے کہا اسسپیلنگ بولو ۔

 سائیں نے کہا :
😂😂😂N-A-T-U-R-E. 😂😂😂

یہ سنتے ہی ابودجانہ کے غصے کی آگ بھڑک کر 🔥 اس کے دماغ تک پہنچ گئی 

کہنے لگا " حرامخور! ہفتے بھر سے میرے جی کو جنجال میں ڈال رکھا ہے ۔ اس ٹینشن میں میں بھوکا پیاسا رہا، رات رات بھر جاگا اور تو نے " نیچر " کو " نٹورے، نٹورے " بول بول کر مجھے پریشان کر رکھا ہے ۔ ٹھہر تجھے کالج سے ہی ابھی نکلواتا ہوں ۔

سائیں کہنے لگا، نہیں سر، میں آپ کے پاؤں پڑتا ہوں، اب میں دوبارہ ایسا کچھ نہیں پوچھوں گا۔ پلیز مجھے کالج سے نہ نکالیں 
، میرا "فٹورے"برباد ہو جائے گا...😂😂
F-U-T-U-R-E 😂😂😂😂


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر چار⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
فرحی نے دیکھا ان سے دس بارہ قدم دور ویسا ہی ایک کالا ناگ پھن پھیلائے ہوئے تھا جیسا حسن نے قبرستان میں دیکھا تھا، یہ گھوڑے کی نفسیات ہے کہ اس کی پیٹھ پر سوار موجود ہو اور وہ اپنے راستے میں سانپ دیکھ لے تو روک کر خوف سے کانپنے لگتا ہے، اگر سوار نہ ہو تو گھوڑا سرپٹ بھاگ اٹھتا ہے۔
ناگ تیزی سے گھوڑے کی طرف آیا، حسن نے دیکھا کہ اس کے پیچھے پیچھے ایسا ہی ایک ناگ اور ہے ،گھوڑوں نے جب نا گوں کو اپنی طرف آتے دیکھا تو فوراً پیچھے بھاگ اٹھے، حسن اور فرحی نے گھوڑوں کو قابو میں رکھنے کی بہت کوشش کی لیکن گھوڑے قابو میں نہیں آ رہے تھے ،حسن کا گھوڑا آگے تھا، اور اپنے آپ ہی دائیں بائیں مڑتا جا رہا تھا۔ حسن بار بار پیچھے دیکھتا تھا کہ فرحی کتنی دور ہے۔
گھوڑے دوڑتے ان بھول بھلیوں میں دائیں بائیں مڑتے رہے اور حسن یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کا گھوڑا اس جگہ جا نکلا جہاں سے وہ ان بھول بھلیوں میں داخل ہوئے تھے ،وہ میدان تھا چٹانیں پیچھے رہ گئی تھیں۔
حسن نے بڑی مشکل سے گھوڑے کو قابو میں کیا اور اسے روک لیا، اس نے ادھر ادھر دیکھا وہ فرحی کے گھوڑے کو ڈھونڈ رہا تھا اسے فرحی کا گھوڑا تو نظر آگیا لیکن فرحی اس کی پیٹھ پر نہیں تھی، حسن نے اس گھوڑے کی طرف اپنا گھوڑا دوڑا دیا اور اس کی لگام پکڑ لی، اس نے فرحی کو آواز دی بہت پکارا لیکن فرحی کی طرف سے کوئی جواب نہ آیا ،حسن آہستہ آہستہ ان چٹانی بھول بھلیوں کی طرف چل پڑا ،وہ فرحی کو ڈھونڈنے جا رہا تھا۔
حسن بن صباح کے ہوش اڑ گئے تھے، وہ دنیا کو ، اپنے عزائم اور اپنی منزل کو بھول گیا تھا ،وہ ایک بار پھر چٹانوں کی بھول بھلیوں میں داخل ہو گیا اور بڑی ہی بلند آواز سے فرحی کو پکار رہا تھا ،لیکن چٹانوں سے گزرتی ہوئی تیز ہوا کی سرسراہٹ کے سوا اسے کوئی جواب نہیں مل رہا تھا، یہیں سے وہ باہر نکلا تھا مگر اب وہ وہیں سے اندر گیا تو اسے وہ جگہ ایسی اجنبی محسوس ہوئی جیسے پہلے کبھی دیکھی ہی نہ ہو، ایک چٹان اس کے سامنے تھی اس کے پہلو سے دو راستے جاتے تھے اور ایک راستہ دائیں کو جاتا تھا ،حسن بن صباح کو یاد ہی نہیں رہا تھا کہ وہ ان تینوں میں سے کون سے راستے سے باہر آیا تھا۔
سامنے والی چٹان کا یہ ادھر والا سرا تھا اور اس کی ڈھلان بڑی آسان تھی، حسن بن صباح گھوڑے کو ایڑ لگائی اور چٹان پر چڑھ گیا ،اس نے فرحی کے گھوڑے کی باگ اپنے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ لی تھی اوپر جا کے اس نے ہر طرف نظریں گھمائی دوردور تک اونچی نیچی چٹانوں کی چوٹیوں کے سوا کچھ اور نظر نہ آیا ،کچھ چٹانیں اوپر سے چپٹی تھیں، اور کچھ ایسی بھی تھیں جو چٹانیں لگتی ہی نہیں تھیں، وہ بہت ہی بڑے بڑے بتوں کی مانند تھیں، کوئی بت انسانوں جیسا اور کوئی کسی جانور جیسا تھا، ایک چٹان ایسی تھی جو مندر کی طرح اوپر چلی گئی تھی اس کی چوٹی پر ایک بہت بڑا گول پتھر یوں رکھا ہوا تھا جیسے کسی عورت نے سر پر گھڑا رکھا ہوا ہو۔
یہ سارا منظر اس دنیا کا خطہ لگتا ہی نہیں تھا، یہ تو خواب کا منظر تھا یہ خطہ تین میل لمبا چوڑا ہو سکتا تھا، اور چار میل بھی۔
 فرحی۔۔۔۔ حسن پھیپھڑوں کا سارا ہی زور لگا کر پکارنے لگا۔۔۔ کہاں ہو فرحی،،،،،فرحی!،،،، کوئی جواب نہیں۔۔۔ خاموشی۔
وہ دوڑتے گھوڑے سے گر کر بیہوش پڑی ہوگی ،اس نے اس طرح اونچی آواز میں کہا جیسے اپنے پاس کھڑے کسی آدمی کو بتا رہا ہو۔
اس کے پاس دو گھوڑوں کے سوا کوئی بھی نہیں تھا، اسے فرحی تک جلدی پہنچنا تھا۔ ہوسکتا تھا وہ گر کر مر گئی ہوئی، یا مر رہی ہو ،اور یہ بھی نا ممکن نہ تھا کہ وہ گری تو اسے ناگ نے ڈس لیا ہو گا ،حسن بن صباح کو اپنے استاد عبد الملک ابن عطاش کا ایک سبق یاد آگیا کہ راستہ یاد نہ رہے، ہمسفر کہیں کھو جائے، یا کوئی چیز گم ہو جائے تو کیا عمل کیا جائے۔
وہ گھوڑے سے اترا اور نیچے دیکھا، چٹان کی ایک سِل سلیٹ کی طرح ہموار تھی، حسن اکڑوں بیٹھ گیا اور چھوٹا سا ایک پتھر اٹھا لیا، ابن عطاش نے اسے مراقبے میں جانے کی بہت مشق کرائی تھی، اس نے آنکھیں بند کیں اور دو تین بار لمبے سانس لیا پھر اس نے آنکھیں کھولیں اور انگلیوں میں پکڑے ہوئے کنکری جیسے پتھر سل پر اوٹ پٹانگ سے خانے بنانے لگا۔
ان خانوں کو اس نے غور سے دیکھا اور کسی خانے میں ایک حرف اور کسی میں ایک ہندسہ لکھا ،اس پر کچھ دیر نظریں جمائے رکھیں اور اٹھ کھڑا ہوا ،گھوڑے پر سوار ہو کر وہ چٹان سے اترا آیا ،اور اس چٹان کے ساتھ ساتھ آگے کو چل پڑا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی ، یہ راستہ کچھ آگے جا کر ایک طرف مڑ گیا تھوڑا آگے جا کر اس راستے کو ایک گول چٹان نے روک لیا تھا اور وہاں دو راہا بن گیا تھا ،حسن روک گیا اور دونوں راستوں کو دیکھا اس نے گھوڑا روک لیا، آنکھیں بند کرکے اس نے کچھ سوچا دائیں طرف سے ہلکی سی آہٹ یا آواز سنائی دی ،اس نے آنکھیں کھولیں اور ادھر دیکھا کچھ دور ایک نیولہ کھڑا اس کی طرف دیکھ رہا تھا ،حسن نیولے کو دیکھتا رہا، نیولہ ایک طرف دوڑ پڑا ،حسن گھوڑا اس طرف لے گیا اور وہاں تک چلا گیا جہاں نیولہ کھڑا تھا، اس طرف دیکھا جس طرف نیولہ گیا تھا۔
یہ دو چٹانوں کے درمیان بہت ہی تنگ راستہ تھا جو کچھ دور تک چلا گیا تھا، لیکن سیدھا نہیں بلکہ کی ایک گول گول اور کچھ سختی سے چٹانوں سے گھومتا مڑتا جاتا تھا۔
حسن بن صباح جو فرحی کے لئے پریشان ہو رہا تھا اسے پکارتا بھی رہا تھا، ابھی و اطمینان سے چلا جا رہا تھا جیسے اسے فرحی مل گئی ہو ،یا فرحی اس کے دل سے اتر گئی ہو۔ حقیقت یہ تھی کہ اس نے چٹان پر بیٹھ کر سحر (کالے جادو) کا ایک عمل کیا تھا، جس میں اسے واضح اشارہ ملا تھا کہ وہ پہنچ جائے گا، لیکن ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا تھا کہ فرحی جس جگہ ہے وہاں تک راستہ کون سا جاتا ہے، البتہ یہ پتہ چل گیا تھا کہ اسے اشارے ملتے رہیں گے جنہیں سمجھنے کے لیے وہ اپنی عقل استعمال کرے۔
تاریخ کی یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ حسن بن صباح نے پراسرار علوم سیکھ لیے تھے۔
 ابن خلدون تاریخ ابن خلدون حصہ پنجم میں لکھتا ہے علم نجوم و سحر میں حسن بن صباح کو ید طولیٰ حاصل تھا۔ ابن تاثیر اور دیگر مؤرخوں نے بھی لکھا ہے کہ حسن بن صباح انتہا درجے کا عیار اور مکار تو تھا ہی اس نے علم سحر میں بھی خصوصی مہارت حاصل کر لی تھی۔
اس نے ان پراسرار علوم میں اس سفر کے بعد مہارت حاصل کی تھی، اس سفر کے دوران اس کے پاس سحر کی اتنی ہی طاقت تھی جو اسے اپنے اتالیق ابن عطاش سے حاصل ہوئی تھی، وہ ان علوم کی تکمیل کے لیے ہی جا رہا تھا۔
وہ جا تو رہا تھا لیکن ایسے چٹانی خطے میں پھنس کے رہ گیا تھا جسے وہ کبھی کبھی خواب سمجھتا تھا، اس میں بھی شاید کوئی راز تھا کہ اسے بڑے دشوار گزار راستے پر ڈالا گیا تھا ،اسے اس راستے کا اشارہ خواب میں ملا تھا۔
داستان گو سنا رہا تھا کہ حسن بن صباح ایک تنگ راستے پر عجیب و غریب سی شکلوں کی چٹانوں کی دنیا میں جارہا تھا کہ پھر ایک مقام آ گیا جو دو راھا تھا ،حسن نے رک کر دونوں راستوں کو دیکھا دونوں راستے تھوڑی تھوڑی دور جا کر مڑ جاتے تھے، حسن کبھی ادھر کبھی ادھر دیکھتا تھا اسے پوری امید تھی کہ غیب سے اسے کوئی اشارہ ملے گا لیکن کچھ بھی نہ ہوا سوائے اس کے کہ وہ جس گھوڑے پر سوار تھا وہ آہستہ سے ہنہنایا اور کھر مارنے لگا، دوسرے گھوڑے نے بھی یہی حرکت کی، اس انداز سے گھوڑے کا ہنہنانا اور گھوڑے کا کھر مارنا اس کی بے چینی کا اظہار ہوتا ہے۔
حسن نے قدرے گھبرا کر ادھر ادھر دیکھا کہ گھوڑوں نے پھر سانپ دیکھ لیا ہے لیکن اسے خیال آگیا کہ گھوڑا ڈر کا اظہار کسی اور انداز سے کرتا ہے ۔
وہ گھوڑوں کا زمانہ تھا لوگ گھوڑوں کی نفسیات سمجھتے تھے۔
 حسن سمجھ گیا کہ گھوڑے بھوکے ہیں شاید پیاسے بھی ہوں۔
گھوڑا اپنے آپ ہی ایک راستے پر چل پڑا، حسن نے لگام کھینچ لیں لیکن گھوڑا رکنے کی بجائے اور تیز ہوگیا، اس کی زین کے ساتھ بندھا ہوا گھوڑا اس سے آگے نکلنے کی کوشش کررہا تھا، حسن نے کچھ سوچ کر گھوڑے کی لگام ڈھیلی چھوڑ دی، یہ اشاروں پر چلنے والا گھوڑا تھا اور حسن کو اس گھوڑے پر اعتماد تھا، گھوڑا سر نیچے کر کے دوڑ پڑا ،وہ سر سی اور ہی طرح دائیں بائیں جھٹک رہا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
گھوڑا اگلا موڑ سوار کے اشارے کے بغیر ہی مڑ گیا ،حسن دیکھ کر حیران رہ گیا کہ آگے چٹانوں میں گھری ہوئی کشادہ جگہ تھی جہاں ہری بھری گھاس تھی اور سر سبز درخت تھے یہ جگہ صحرا میں نخلستان جیسی تھی۔
گھوڑا اور تیز دوڑ اور وہاں تک پہنچ گیا، وہاں سبزے میں گھرا ہوا ایک چشمہ تھا، پانچ سات گز لمبائی چوڑائی میں بارش سے بھرے ہوئے آسمان جیسے شفاف اور نیلا پانی جمع تھا، شفاف بھی اتنا کہ اس کی تہہ میں کنکریاں بھی صاف دکھائی دے رہی تھیں، یہ پتہ نہیں چلتا تھا کے فالتو پانی کہاں غائب ہو رہا تھا۔
گھوڑا بے صبری سے پانی پینے لگا، حسن نے اتر کر دوسرے گھوڑے کی باگ اپنے گھوڑے کی زین سے کھول لی اس نے بھی بے تابی سے چشمے سے منہ لگا لیا، تب حسن کو خیال آیا کہ گھوڑے پیاسے تھے۔
جانور خصوصا گھوڑے اور خچر پانی کی مشک دور سے پا لیتے ہیں، گھوڑا بے لگام اور منہ زور ہو کر پانی تک پہنچ جاتا ہے، حسن بن صباح نے گھوڑوں کو پانی پیتے دیکھا تو اسے بھی پیاس محسوس ہونے لگی، چشمے کے کنارے گھٹنے ٹیک کر وہ پانی پر جھکا اور چلو بھر بھر کر پانی پینے لگا ،اس کا سر جھکا ہوا اور نظری پانی پر لگی ہوئی تھیں، اس کے ہاتھ رک گئے اور اس نے ذہن پر زور دیا۔
اسے اپنا خواب یاد آ گیا جس میں اس نے اس سفر کا راستہ دیکھا تھا، اسے یاد آیا کہ خواب میں اس نے چشمہ دیکھا تھا ،اسے یہ بھی یاد آیا کہ اس چشمے سے روشنی سی پھوٹی تھی، ذہن پر زور دینے کے باوجود اسے اس سے آگے یاد نہ آیا ،لیکن اسے اطمینان ہوگیا کہ وہ غلط راستے پر نہیں جا رہا۔
وہ ایک بار پھر چلو بھرنے کے لیے پانی میں ہاتھ ڈالنے لگا تو اس کے ہاتھ ایک بار پھر رک گئے اور نظری پانی پر جم گئیں، پانی کے سامنے والے کنارے کے نیچے پانی میں ایک آدمی کا عکس جھلملا رہا تھا، پانی ساکن نہیں تھا چھوٹی چھوٹی لہریں اس کنارے سے اس کنارے تک جا رہی تھیں اس آدمی کا عکس ان لہروں پر تیر رہا تھا۔
حسن سُن ہو کے رہ گیا، وہ بزدل نوجوان نہیں تھا اس کے پاس تلوار تھی اور ایک خنجر بھی تھا ،لیکن اسے اپنی ذات سے یہ اشارہ مل رہا تھا کہ یہ آدمی کوئی مسافر نہیں جو پیاس بجھانے صحرا کے اس چشمے پر آ گیا ہو، 
حسن نے آہستہ آہستہ سر اٹھایا اس سے بیس بائیس قدم دور ایک ٹیکری پر ایک لمبا تڑنگا آدمی کھڑا تھا، لباس سے وہ اسی خطے کا آدمی معلوم ہوتا تھا ،اس کے سر پر اس خطے کی مخصوص بگڑی تھی اور پگڑی پر اتنا بڑا سیاہ رومال پڑا ہوا تھا جس نے اس کے کندھوں اور پیٹھ کے کچھ حصے کو بھی ڈھانپ رکھا تھا، سلیقے سے تراشی ہوئی اس کی چھوٹی چھوٹی داڑھی تھی۔
حسن نظریں اس پر جمائے ہوئے آہستہ آہستہ اٹھا اس آدمی نے اسی طرح اس پر نظریں جما رکھی تھیں، اس کے جسم پر ذرا سی بھی حرکت نہیں تھی، یہ شک غلط معلوم نہیں ہوتا تھا کہ وہ بت ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
آخر اس آدمی میں حرکت ہوئی وہ آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگا۔
اس کے عقب میں منظر یہ تھا کہ ایک چٹان دائیں سے بائیں گئی ہوئی تھی ،قدرت نے درمیان سے اس طرح کاٹ دیا تھا کہ ایک گلی بن گئی تھی جس میں سے ایک گھوڑا آسانی سے گزر سکتا تھا ،گلی کی طرف چٹان کے دونوں حصے دیواروں کی طرح عمودی تھے۔
وہ آدمی الٹے قدم چلتا اس گلی میں داخل ہوگیا، حسن بن صباح نے فرحی کے گھوڑے کی باگ اپنے گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھی اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور گلی میں داخل ہوگیا وہ محسوس کر رہا تھا کہ اس پر کچھ اثر ہو گیا ہے اور وہ اب اس یاثیر کے قبضے میں ہے۔
وہ آدمی اس قدرتی گلی کے اگلے سرے پر کھڑا تھا اس کے پیچھے ایک اور چٹان تھی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہاں یہ گلی بند ہو گئی ہو ،اس آدمی نے اپنا بایاں بازو بائیں طرف لمبا کیا اور اس طرف غائب ہو گیا۔
حسن وہاں تک جا کر اسی طرف مڑ گیا جس طرف اس آدمی نے اشارہ کیا تھا، وہ آدمی آگے جا کر ایک اور موڑ مڑ رہا تھا، حسن اسی طرح اس کے پیچھے جاتا رہا جیسے اس کا پالتو جانور ہو یا جیسے اس شخص نے اسے ہپنا ٹائز کر لیا ہو۔
وہ جگہ کشادہ تھی، بے آب و گیاہ چٹانوں کی بجائے وہاں ہری بھری ٹیکریاں تھیں، یہ ہریالی اس چشمے کی بدولت تھی جو قریب ہی تھا، 
حسن آگے جا کر ایک سرسبز ٹیکری سے مڑا تو سامنے کا منظر دیکھ کر وہ ٹھٹک گیا ،یہ منظر اس کے لیے غیر متوقع تھا اس کے سامنے ایک اونچی ٹیکری تھی جو دائیں بائیں گئی ہوئی تھی، یہ سر سبز گھاس اور پھول دار جنگلی پودوں سے ڈھکی ہوئی تھی ،یوں لگتا تھا جیسے یہ انسانی ہاتھوں سے بنائی گئی ہو ،لیکن اس کی چھت اور دیواریں بتا رہی تھیں کہ یہ قدرت کی تعمیر ہے اس کے اوپر سے خودرو بیلیں لٹک رہی تھیں۔
وہ آدمی جس کی رہنمائی میں حسن وہاں پہنچا تھا اس گُف کے باہر کھڑا تھا۔
حسن وہاں گیا تو اسے اندر کا منظر نظر آیا، کھجور کے پتوں کی بنی ہوئی خاصی لمبی چوڑی چٹائی بچھی ہوئی تھی، سامنے ایک آدمی گاؤ تکیہ سے لگا بیٹھا تھا ،اس کی داڑھی لمبی اور خشخشی تھی، اس کے سر پر خرگوش کی کھال کی ٹوپی تھی اور ٹوپی پر کالے رنگ کا رومال تھا جو اس کے کندھوں سے بھی نیچے آیا ہوا تھا، اس نے سبز رنگ کا چغہ پہن رکھا تھا، اس کی وجاہت سے پتہ چلتا تھا کہ وہ مذہبی پیشوا ہے، یہ بتانا مشکل تھا کہ وہ کس فرقے سے تعلق رکھتا تھا۔
تین آدمی اس کے ایک طرف اور تین دوسری طرف آمنے سامنے بیٹھے ہوئے تھے، ان سب کے سروں پر ایک مخصوص انداز کی پگڑیاں تھیں اور ان پر سیاہ رنگ کے رومال تھے جو ان کے کندھوں سے نیچے تک آئے ہوئے تھے، 
اس بزرگ نے جس کے چہرے پر جلال تھا اس آدمی کو ہاتھ سے اشارہ کیا جس کی رہنمائی میں حسن وہاں پہنچا تھا ،وہ آدمی اندر چلا گیا اس کشادہ گف میں ایک جوڑا ٹیلا سا تھا وہ آدمی اس کے پیچھے چلا گیا، وہاں سے باہر آیا تو اس کے ساتھ فعحی تھی، جو ذرا لنگڑا کر چل رہی تھی، فرحی کو دیکھ کر حسن بن صباح کو یقین و اطمینان ہوا ہوگا کہ وہ زندہ ہے ،لیکن یہ سوال اسے پریشان کر رہا تھا کہ یہ کون لوگ ہیں اور فرحی ان کے پاس کیسے آ گئی ہے؟ 
یہ لوگ ڈاکو اور رہزن تو نہیں لگتے تھے، لیکن ڈاکو اور رہزنوں کے سروں پر سینگ تو نہیں ہوتے ،بزرگ کے اشارے پر فرحی کو اس کے سامنے بٹھا دیا گیا، سورج اپنا روز کا سفر پورا کرکے افق کے پیچھے جا سویا تھا  شام تاریک ہوگئی تھی، گُف میں مشعلیں رکھ دی گئی تھیں، عجیب عجیب سے سائے گُف کی دیواروں پر ناچ رہے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
داستان گو اس بزرگ کو درویش کہے تو زیادہ موزوں ہوگا۔
 اے نوجوان !،،،،درویش نے حسن بن صباح سے کہا ۔۔۔کیا گھوڑے سے اتر کر ہمارے درمیان بیٹھنا تجھے گوارا نہیں؟ ہم سب تیرے انتظار میں بیٹھے ہیں۔
 میں ابھی چہرے پڑھنے کے قابل نہیں ہوا۔۔۔۔ حسن نے کہا ۔۔۔میں دل کی نیت کو آنکھوں کے آئینے میں نہیں دیکھ سکتا، اگر آپ کے دل میں بھی وہی جلال ہے جو آپ کے چہرے پر دیکھ رہا ہوں تو آپ میرے اس سوال کا جواب ضرور دیں گے کہ میری یہ ہمسفر آپ تک کس طرح پہنچی؟ 
گھوڑے سے اتر آئے نوجوان!،،،، درویش نے کہا ۔۔۔تجھے ہر سوال کا جواب ملے گا اور تو ہمارے سوالوں کے بھی جواب دے گا، یہ لڑکی تیری ہم سفر ہے ،ہماری نہیں، اس کے ساتھ بیٹھ اور اس کے ساتھ روانہ ہو۔
 حسن گھوڑے سے اترا اور جوتے اتار کر چٹائی پر گیا ،درویش نے اپنا دایاں ہاتھ حسن کی طرف بڑھایا تو حسن نے دونوں ہاتھوں سے اس کے ساتھ مصافحہ کیا، اشارے پر وہ فرحی کے پاس بیٹھ گیا۔
فرحی نے اس کی طرف اور اس نے فرحی کی طرف دیکھا، فرحی کے چہرے پر خوف کی ذرا سی بھی جھلک نہیں ملتی تھی، وہ گھبرائی ہوئی بھی نہیں لگتی تھی، اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی ،حسن کے چہرے پر تذبذب کا جو تاثر تھا وہ اڑ گیا اور اس کے چہرے پر رونق آگئی۔
تمہارا نام ؟،،،،،درویش نے پوچھا۔
 حسن بن صباح۔
 تیرے اس کٹھن سفر کی منزل کیا ہے؟،،،،،، درویش نے پوچھا ۔۔۔کہاں ہے منزل تیری؟ 
خوابوں کے سفر کی منزل بیان نہیں کی جاسکتی۔۔۔ حسن نے کہا۔۔۔ خوابوں کے سفر کی منزل ہوتی ہی نہیں۔
 آئے نوجوان !،،،،،،درویش نے کہا۔۔۔ کیا تو نیند میں خواب دیکھا کرتا ہے، یا بیداری میں؟ نیند میں خواب جو دیکھا کرتا ہوں انہیں بیداری میں حقیقت بنانے کی کوشش کیا کرتا ہوں۔۔۔ حسن بن صباح نے کہا۔
 تو شاید نہیں جانتا اے نوجوان!،،،،، درویش نے کہا ۔۔۔نیند کے خواب خواہشوں اور آرزوؤں کے چلتے پھرتے عکس ہوتے ہیں، آنکھ کھلتے ہی بلبلوں کی طرح پھٹ جاتے ہیں،،،،،،،، اور بیداری کے خواب فرار کا ایک سفر ہے جس کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔
اے درویش !،،،،،حسن نے کہا ۔۔۔میں خواہشوں اور آرزوؤں کا پجاری نہیں، نہ میں نے کبھی اپنی روح کو خواہشوں اور آرزوؤں کی غذا دی ہے ۔
پھر تو روح کو کیا غذا دیا کرتا ہے ؟
عزم !،،،،،،حسن نے جواب دیا ۔۔۔میں اپنی ہر آرزو کو عزم کے سانچے میں ڈھال لیا کرتا ہوں۔
 اپنے سفر کی بھی کچھ بات کر آئے نوجوان!،،،،، درویش نے کہا۔
 یہ بھی ایک خواب ہے۔۔۔ حسن نے کہا ۔۔۔خواب میں جو دیکھا تھا وہ میرے سامنے آتا جا رہا ہے ۔
ہمیں بھی دیکھا تھا کیا؟،،،، درویش نے پوچھا۔۔۔ ہم بھی تو تیرے سامنے آئے ہیں۔ دیکھا تھا اے درویش !،،،،حسن نے جواب دیا۔۔۔ شفاف پانی کا ایک چشمہ دیکھا تھا اس میں سے ایک عکس نکلا جس نے انسان کا روپ دھار لیا ،اس نے خاموشی کی زبان میں میری رہنمائی کی، میں نے سات غزال دیکھے جو ایک جگہ بیٹھے ہوئے تھے ۔
کہاں ہیں وہ غزال ؟
میرے سامنے بیٹھے ہیں۔۔۔ حسن نے جواب دیا۔۔۔ ساتواں کھڑا ہے ۔
اس سے تو کیا سمجھا؟ 
یہ کہ میں سیدھے راستے پر جا رہا ہوں ۔۔۔حسن نے جواب دیا ۔
حسن بن صباح نے دیکھا کہ صرف یہ درویش بولتا ہے اور باقی سب بالکل چپ بیٹھے ہیں، درویش کے ہونٹوں پر تبسم ہے اور باقی سب کے چہرے بے تاثر ہیں، درویش بولتا ہے تو سب اس کی طرف دیکھتے ہیں، اور حسن بولتا ہے تو سب اس کی طرف دیکھنے لگتے ہیں۔
 قابل احترام درویش !،،،،حسن نے پوچھا کیا میں اس لڑکی کو اپنے ساتھ لے جا سکتا ہوں؟ ہمارا اس لڑکی پر کوئی حق نہیں آئے نوجوان!،،،،، درویش نے کہا۔۔۔ اس لڑکی کا ہم پر کچھ حق تھا جو ہم نے ادا کردیا ہے۔
حسن کے چہرے پر حیرت کا تاثر آگیا ،وہ کبھی درویش اور کبھی فرحی کو دیکھتا تھا۔
ہم نے یہ پھول ان پتھروں سے اٹھایا ہے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔یہ تیری ہمسفر ہے اسے تیرے ساتھ ہی جانا ہے، لیکن ہم یہ ضرور دیکھنا چاہیں گے کہ تو اس لڑکی کے قابل ہے یا نہیں، حیران مت ہو لڑکے!،،، غصے کو بھی اپنے قابو میں رکھ ہم تجھے راز کی یہ بات بتاتے ہیں کہ ہم جانتے ہیں تو کہا جا رہا ہے، اتنے طویل اور کٹھن سفر میں اتنا حسین ہمسفر مل جائے تو مسافت آسان ہوجاتی ہے اور فاصلے سمٹ آتے ہیں، لیکن راہ حیات کے جو مسافر عورت کو صرف اتنا ہی سمجھتے ہیں کہ یہ ایک خوبصورت جسم ہے ان کی آسان مسافتیں بھی کٹھن ہو جایا کرتی ہیں، ہم یہ دیکھنا چاہیں گے کہ تو عورت کو کیا سمجھتا ہے۔
 اس لڑکی کا آپ پر کیا حق تھا؟،،،،،،،،،حسن بن صباح نے پوچھا۔
تو ہی اسے بتا دے اے لڑکی!،،،، درویش نے فرحی سے کہا۔
 ہمارے گھوڑے ناگوں سے ڈر کر بھاگ اٹھے تھے ناں۔۔۔ فرحی نے حسن سے کہا ۔۔۔میرا گھوڑا بے قابو ہو کر ایک اور ہی طرف نکل گیا، میں سنبھل نہ سکی اور گرپڑی، گرنے تک یاد ہے ہوش میں آئی تو یہاں آ پڑی تھی، انہوں نے میری دیکھ بھال ایسی کی کہ خوف سے نجات مل گئی، صرف تمہارا غم تھا انہوں نے کہا تم آ جاؤ گے اور تم آگئے۔
 کیا تم نے انہیں بتایا ہے ہم کہاں جا رہے ہیں؟،،،، حسن نے فرحی سے پوچھا؟ 
نہیں !،،،،،،فرحی نے جواب دیا۔۔۔ یہ پوچھتے رہے، میں کہتی رہی کہ میرا ہمسفر بتانا چاہے گا تو بتادے میں نہیں بتاؤنگی، پھر انہوں نے کہا کہ یہ کہہ دو مجھے معلوم نہیں ،میں نے کہا مجھے معلوم ہے بتاؤنگی نہیں، انہوں نے کہا ہم تمہیں بے آبرو کر کے مار ڈالیں گے، میں نے کہا تب بھی نہیں بتاؤں گی، انھوں نے کہا ہم تمہاری آبرو کے محافظ ہیں تمہیں گھر چھوڑ آئیں گے، میں نے کہا پھر بھی نہیں بتاؤنگی ۔ اس بزرگ نے میرے سر پر ہاتھ رکھ کر کہا "آفرین" ہم تمہاری پوجا کریں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ تیرے ہمسفر کو یہاں لانے کے لیے آدمی چلا گیا ہے۔
 سن لیا اے نوجوان ؟،،،،،،درویش نے حسن سے پوچھا ۔۔۔اب ہم نے دیکھنا ہے کہ تو اس لڑکی کے جسم کو چاہتا ہے یا روح کو، درویش نے اس آدمی کو جو حسن کو یہاں لایا تھا اشارہ کیا وہ آدمی گف کے اندر ہی کہیں غائب ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ مشعلوں کی روشنی میں سامنے آیا تو اس کے ہاتھوں میں تین گڑیا تھی، یہ مٹی کے بنے ہوئے تین عورتوں کے بت تھے، خوبصورتی سے بنائے گئے تھے ہر بت تقریبا ڈیڑھ فٹ اونچا اور ہر بت برہنہ تھا ۔
تینوں بت اور گولی اس کے آگے رکھ دو۔۔۔۔درویش نے کہا۔
اس کے حکم کی تعمیل ہوئی۔
 کوئی ایک گڑیا اٹھا۔۔۔ درویش نے حسن سے کہا ۔۔۔اور اس کے دائیں کان میں گولی ڈال۔
یہ گولی بت کے منہ سے نکل کر زمین پر گر پڑی۔
اب دوسری گڑیا اٹھا لے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔ اور گولی اس کے کان میں ڈال۔
 حسن بن صباح یہ بت اٹھایا اور گولی بھی اٹھائی، یہ گولی ایک گول کنکری تھی، یہ کانچ کی ان گولیوں جتنی تھی جن سے آج کل بچے کھیلا کرتے ہیں ،حسن نے پتھر کی یہ گولی بت کے کان میں ڈال دی، کان میں ایک سوراخ تھا گولی اس کان میں گئی اور دوسرے کان سے باہر آ گئی۔
اب ایک اور گڑیا اٹھا ۔۔۔درویش نے کہا۔۔۔ اور یہ گولی اس کے دائیں کان میں ڈال۔
 حسن نے دوسرا بت الگ رکھ کر تیسرا بت اٹھ آیا ،گولی اٹھا کر اس کے کان میں ڈالی یہ گولی اندر ہی کہیں غائب ہو گئی۔
زور زور سے ہلا اسے،،،،، درویش نے کہا۔۔۔ گولی کو باہر آنا چاہیے۔
 حسن نے بت کو بہت ہلایا، جھنجھوڑا، الٹا کیا، دائیں اور بائیں پہلو پر کرکے ہلایا ،مگر گولی باہرنہ آئ ۔
یہ گڑیا بیکار ہے۔۔۔ درویش نے کہا ۔۔۔اسے الگ رکھ دے ،اس بدبخت نے ہماری گولی ہضم کر لی ہے ۔
حسن نے یہ بت رکھ دیا۔
کیا یہ بت خوبصورت نہیں؟،،،، درویش نے پوچھا ۔۔۔کیا یہ تجھے اچھے نہیں لگتے؟ 
خوبصورت ہیں ۔۔۔حسن نے جواب دیا۔۔۔ دل کو اچھے لگتے ہیں، بنانے والے نے عورت کی رعنائیاں ان بتوں میں سمو دی ہیں، ان میں صرف جان ڈالنی باقی رہ گئی ھے۔
 ہم تجھے انعام دینا چاہتے ہیں۔۔۔ درویش نے کہا ۔۔۔کوئی ایک گڑیا اٹھا لے،،،،،، تینوں ایک جیسی ہیں۔
حسن بن صباح نے سب سے آخری والا بت اٹھا لیا ،جس کے کان میں گولی ڈالی تو کسی طرف سے گولی باہر نہیں آئی تھی، درویش نے اسے بیکار کہہ کر نہ پسندیدگی کا اظہار کیا تھا۔
تو نے عقل سے کام نہیں لیا ہے نوجوان!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ یا تو نے سنا نہیں کہ میں نے اس گڑیا کے متعلق کہا تھا کہ اس نے ہماری گولی ہضم کر لی ہے، اسے پھینک دو۔ محترم درویش !،،،،حسن نے کہا۔۔۔ میں عقل اور توجہ سے کام نہ لیتا تو آپ کی اس گڑیا کو ہاتھ بھی نہ لگاتا ،دوسری دونوں میں سے کوئی ایک اٹھا لیتا ،لیکن میری عقل نے مجھے بتایا کہ یہ گڑیا اٹھا لے۔
تیری عقل نے اس میں کیا خوبی دیکھی ہے؟،،،، درویش نے پوچھا۔
ایک کے کان میں گولی ڈالی تو وہ اس کے دوسرے کان سے نکل گئی۔۔۔ حسن نے کہا۔
اے درویش عالی مقام !،،،،آپ یقیناً ایسی بیٹی کو پسند نہیں کریں گے جو اپنے باپ کی پند و نصیحت ایک کان سے سنے اور دوسرے کان سے نکال دے،،،،،، ایسی بہن بھی بری، ایسی بیوی بھی بری۔
دوسری کے کان میں گولی ڈالی تو اس نے منہ کے راستے نکال دی، ایسی عورت تو اور زیادہ خطرناک ہوتی ہے، وہ گھر کا کوئی راز اپنے دل میں رہ نہیں سکتی، بات سنی اور ہر کسی کے آگے اگلنا شروع کر دی ،ایسی عورت اپنے گھر کا اور اپنے ملک کا بھی بیڑا غرق کرا دیا کرتی ہے،،،،، 
اور جسے آپ نے بیکار کہا ہے یہ بڑی قیمتی عورت ہے، جو راز کی بات اپنے دل میں دفن کر دیا کرتی ہے، میں نے اس بت کو یا گڑیا کو بہت ہلایا الٹا کیا ہر پہلو پر کر کے زور زور سے جھنجھوڑا لیکن اس نے گولی نہیں اگلی، اسے آپ توڑ پھوڑ کر اس کا وجود ختم کر دیں تو ہی آپ اس کے اندر سے گولی نکال سکتے ہیں،،،، 
یہ وہ خوبی ہے جو آپ نے فرحی میں دیکھی ہے ،آپ آٹھ ہیں اور یہ اکیلی، کیا آٹھ آدمیوں سے ڈر کر اس نے آپ کو بتا دیا تھا کہ ہم کہاں سے آئے ہیں اور کہاں جا رہے ہیں؟،،، میں اسے اپنی عمر کی ہمسفر بناؤنگا۔
"آفرین" اے نوجوان!،،،،، درویش نے کہا۔۔۔ خدا نے تجھے وہ دانش اسی عمر میں دے دی ہے جو اوروں کو عمر بھر کا تجربہ حاصل کرکے بڑھاپے میں بھی نہیں ملتی، تو پیدائشی دانشمند ہے۔
 درویش نے اپنے آدمی سے کہا تینوں گڑیوں کو اٹھا کر سنبھال لو، ان کے امتحان میں شاید ہی کبھی کوئی کامیاب ہوا ہو۔
ایک آدمی نے تینوں بت اٹھائے اور مشعلوں کی روشنی سے نکل گیا ۔
کھانا گرم کرو۔۔۔ درویش نے حکم کے لہجے میں کہا۔۔۔ دسترخان لگ جائے فوراً، یہ دونوں بھوکے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس ویرانے میں اتنا پرتکلف کھانا حسن بن صباح کے لیے حیران کن تھا، حسن اور فرحی اس قدر بھوکے تھے کہ بے صبری سے کھانا نگلتے چلے گئے۔
کھانے کے بعد درویش نے حسن بن صباح کو اپنے پاس بٹھا لیا، باقی سب وہاں سے چلے گئے ۔
حسن اور فرحی کے سونے کا الگ انتظام کردیا گیا، فرحی جا کر سو گئی تھی۔
حسن !،،،،،درویش نے کہا ۔۔۔تیرا نام حسن بن علی ہونا چاہیے تھا؟،،، لیکن تونے حسن بن صباح کہلانا زیادہ پسند کیا۔
میرے آباء و اجداد میں صباح حمیری ایک شخص ہو گزرا ہے۔۔۔ حسن  نے کہا۔۔۔ میرا باپ کچھ کم استاد نہیں، لیکن صباح کے متعلق سنا ہے کہ اس نے بہت ہی شہرت اور عزت پائی تھی، اور اس کا کمال یہ تھا کہ کسی کو شک تک نہ ہونے دیا کہ وہ عیاروں کا عیار ،اور فریب کاروں کا استاد ہے، بس یہ وجہ ہوئی کہ میں نے بن علی کی بجائے بن صباح حمیری کہلانا زیادہ پسند کیا،،،،، لیکن آپ کو میرا نام کس نے بتایا ہے؟ 
صرف نام ہی نہیں حسن!،،،، درویش نے جواب دیا ۔۔۔تمہارے متعلق مجھے بہت کچھ بتایا گیا ہے، تم جس جگہ سے آرہے ہو اور جس جگہ جا رہے ہو میں ان کے درمیان ایک رابطہ ہوں، ایک رشتہ ہوں، پُل سمجھ لو اور،،،،،،، 
روک جائیں ۔۔۔حسن اچانک بول پڑا۔۔۔ مجھے یاد آگیا میرے استاد عبد الملک ابن عطاش نے مجھے بتایا تھا کہ خواب میں مجھے ایک غار نظر آئے گا اور اس غار میں میرا علم مکمل ہو جائے گا ،میں آپ کی ذات میں ایسا گم ہو گیا تھا کی یاد ہی نہ رہا کہ میں نے خواب میں ایک غار دیکھا تھا، اس غار پر دھند چھائی ہوئی تھی، اتنا ہی پتہ چلتا تھا کہ اس دھند میں کچھ ہے ،میں نے پہلے دن غزالوں کا ذکر کیا ہے کہ خواب میں دیکھے تھے، وہ اسی دھند میں غائب ہو گئے تھے،،،،،،، محترم درویش!،،،، کہ یہ میرا خواب والا غار تو نہیں؟ 
ہاں حسن!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ غار وہی ہے لیکن تیرا علم یہاں مکمل نہیں ہو گا، یہاں سے تجھے روشنی ملے گی جس میں تجھے اپنی منزل اپنا مستقبل اور اپنی شخصیت بہت ہی بڑی نظر آئے گی،،،،،اب تو یہ پوچھے گا کہ میں کون ہوں، اور میں یہاں کیا کررہا ہوں ؟
یہ تو میں نے پوچھنا ہی ہے۔۔۔ حسن نے کہا۔
اس سے پہلے کچھ ضروری باتیں سن لے حسن!،،،،، درویش نے کہا ۔۔۔مجھے معلوم تھا تو آئے گا، یہ ہمارا ایک زمین دوز نظام ہے اس نظام کو ہم زمین کے اوپر لانے کی کوشش کر رہے ہیں، یہاں سے وہ علاقہ شروع ہوتا ہے جس پر ہم نے قبضہ کرنا ہے، آگے بہت سے قلعے ہیں ،جن میں کچھ چھوٹے اور بعض بہت ہی چھوٹے اور چند ایک ذرا بڑے ہیں، ان میں کئی ایک ایسے ہیں جو چند ایک امرء کی ذاتی ملکیت بنے ہوئے ہیں، ہم نے ان پر قبضہ کرنا ہے۔
قلعہ فتح کرنے کے لیے تو فوج کی ضرورت ہوتی ہے؟،،،، حسن نے کہا۔۔۔ ہم فوج کہاں سے لائیں گے؟ 
لوگوں کی فوج بنائیں گے۔۔۔ درویش نے کہا۔
 لیکن کس طرح ؟،،،،حسن نے پوچھا۔
 درویش نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا اور اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آ گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ ہے وہ سبق جو میں نے تجھے دینا ہے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔ تو نے عبدالملک ابن عطاش کی شاگردی بھی کر لی ہے، اب تو ایک اور شخص کی شاگردگی کرے گا، وہ ہے احمد بن عطاش، آگے ایک قلعہ ہے جس کا نام قلعہ اصفہان ہے ،احمد بن عطاش اس قلعے کا والی ہے، وہ تجھے علم سحر کا ماہر بنا دے گا،،،،،،
اب میں جو بات کہنے لگا ہوں اس کا ایک ایک لفظ غور سے سننا اور ہر لفظ کو سینے میں محفوظ رکھتے جانا ،بنی نوع انسان دو طاقتوں کے غلبے میں ہے، یوں کہ لو کے دنیا پر دو طاقتوں کی حکومت ہے ،ایک ہے خدا ،اور دوسرا ہے ابلیس، انسان خدا کو کئی روپ دے کر اس کی عبادت کرتا ہے، انسان نے سورج کو خدا بنایا، آگ کو، سانپ کو، اور آسمانی بجلی کو بھی انسان نے خدا بنایا، آخر اسلام نے آکر انسان کو بتایا کہ خدا کیا ہے، یہ بھی بتایا کہ یہ سورج ،چاند ،آسمانی بجلیاں، آگ، سانپ وغیرہ خدا نہیں ،بلکہ یہ خدا کی پیدا کی ہوئی ہیں، اس خدا کی وحدانیت کو لوگوں نے مان لیا،،،،،، 
ہم بھی خدا کو ماننے والے مسلمان ہیں، لیکن ہم نے اپنا الگ فرقہ بنا لیا ہے اور ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ صحیح اسلام ہمارے پاس ہے، لیکن اہل سنت نے لوگوں کے دلوں پر اپنے عقائد ایسے طریقے سے نقش کر دیے ہیں کہ اب ہم ان کے عقائد کو نہیں بدل سکتے، ہمیں کوئی اور طریقہ اختیار کرنا پڑے گا،،،، 
کیا آپ نے کوئی طریقہ سوچا ہے؟،،،، حسن نے پوچھا۔
ہاں !،،،،،درویش نے کہا۔۔۔ یہی بتانے لگا ہوں، لیکن یہ طریقہ ایسا نہیں کہ پتھر اٹھاؤ اور کسی کے سر پر مارو ،یہاں معاملہ نظریات کا ہے اور اس معاملے کو صرف تم سمجھ سکتے ہو۔
صرف میں کیوں؟،،،، حسن نے کہا ۔۔۔میرا علم ابھی خام ہے اور تجربہ کچھ نہیں۔
تمہارے پاس سب کچھ ہے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔ پہلے وہ سن لو جو ہم نے سوچا ہے، پھر تم خود محسوس کرو گے کہ یہ تو پہلے ہی تمہارے دل میں تھا، بات یہ ہے حسن!،،، اہلسنت نے لوگوں کا رشتہ خدا کے ساتھ براہ راست قائم کر دیا ہے، عسائیت نے بھی خدا کو ھی اول اور آخر قرار دیا ہے اور وہ عیسی کو خدا کا بیٹا کہتے ہیں، یہودی ہیں، آتش پرست ہیں یہ بھی خدا کو مانتے ہیں، ہمارے لیے سب سے بڑی مشکل یہ ہے کہ حکومت اہلسنت کی ہے۔
شاید آپ کو معلوم ہو گا ۔۔۔حسن نے کہا ۔۔۔کہ ہمارا امیر ابو مسلم رازی اس قدر کٹر سنی ہے کہ اس نے میرے باپ سے کہا تھا کہ تم اپنے آپ کو اہلسنت ظاہر کرتے ہو تو اپنے بیٹے کو ایک اسماعیلی پیشوا عبد الملک ابن عطاش کی شاگردی میں کیوں بٹھا رکھا ہے؟،،،،،، میرے باپ نے ابو مسلم رازی کے عتاب سے بچنے کے لئے مجھے امام مؤافق کے مدرسے میں بھیج دیا تھا، مجھے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ ابومسلم نے اپنے جاسوس پھیلا رکھے ہیں جو گھر گھر کی خبر رکھتے ہیں کہ کہیں سنی عقیدہ کے خلاف کوئی بات تو نہیں ہو رہی۔
ہاں حسن!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ ابومسلم رازی نے اپنے جاسوس پھیلا رکھے ہیں، اسے معلوم نہیں کہ ہم نے اس کے جاسوسوں کے پیچھے جاسوس چھوڑے ہوئے ہیں، ہم جانتے ہیں کہ سلجوقی سلاطین کی حکومت ہماری دشمن ہے، لیکن ہم ان کی جڑیں کھوکھلی کر دیں گے، ہمیں مصریوں پر بھروسہ ہے وہ عبیدی ہیں، اور ہمارے ہم عقیدہ بھی ہیں۔
محترم درویش!،،،، حسن نے کہا ۔۔۔معلوم نہیں کیوں مجھے خیال آتا ہے کہ میں مصر جاؤ اور وہاں سے سلجوقیوں کے خلاف طاقت حاصل کروں۔
 درویش عجیب سی طرح ہنسا اور کچھ دیر حسن بن صباح کے منہ کو دیکھتا رہا ۔
کیوں محترم درویش ؟،،،،،حسن نے ذرا کھسیانا سا ہو کر پوچھا۔۔۔ کیا میں نے غلط بات کہہ دی ہے۔
نہیں حسن!،،،، درویش نے کہا ۔۔۔میں تمہاری اس بات سے خوش اور مطمئن ہوا ہوں کہ تمھیں مصر کا خیال آیا ہے، میں خوش اس لئے ہوں کہ یہ خیال ویسے ہی نہیں آیا بلکہ تم میں ایک پراسرار طاقت ہے جو تمہیں اشارہ دیتی ہے ،میں پورے وثوق کے ساتھ پیشن گوئی کرتا ہوں کہ تم میں نبوت کے نمایاں آثار پائے جاتے ہیں، تم نبی بنو یا نہ بنو  تمہیں اتنی ہی شہرت ملے گی جو صرف نبیوں کو ملا کرتی ہے ،آنے والی نسلیں اور انکی نسلیں ہمیشہ تمہارا نام لیتی رہیں گی، لیکن ضروری نہیں کہ تمہیں اچھے نام سے ہی یاد کیا جائے گا، لوگ تمہیں یاد ضرور رکھیں گے۔
پہلےدرویش کی ہنسی نکلی تھی اب حسن ہنس پڑا۔
 آپ کو میری بات سے خوشی حاصل ہوئی تھی۔۔۔ حسن نے کہا ۔۔۔اور مجھے آپ کی بات سے خوشی حاصل ہوئی ہے، معلوم نہیں کیوں مجھے برائی سے مسرت حاصل ہوتی ہے۔
 میں تمہیں اسی بات پر لا رہا تھا ۔۔۔درویش نے کہا ۔۔۔میں خدا کا جو ذکر کر رہا تھا، وہ یہ تھا کہ ایک قوت خدا کی ہے اور دوسری ابلیس کی، خدا کا نام لے کر لوگوں کو ان کے عقیدوں سے ہٹانا کوئی آسان کام نہیں، اس کام کو ہم اس طرح آسان کریں گے کہ ہم دوسری قوت کو استعمال کریں گے یعنی ابلیس کی قوت،،،،،، 
بدی میں بڑی طاقت ہے حسن!،،، بدی میں کشش ہے، بدی میں لذت ہے، اور بدی میں نشہ ہے، یہ قوت تمہارے دل و دماغ میں موجود ہے، ہم لوگوں پر بدی کا نشہ طاری کریں گے، تمہارے ساتھ یہ جو لڑکی ہے یہ تمہارا کام آسان کرے گی ،اس کے ساتھ ہی ہم علم سحر کو کام میں لائیں گے، یہ علم سحر کا ہی کرشمہ ہے کہ تم مجھ تک پہنچے ہو ،اب ہم نے تمہارے اس علم کی تکمیل کرنی ہے۔
انسان میں خدا نے یہ کمزوری شروع سے ہی رکھ دی تھی کہ وہ بدی کی طرف جلدی آ جاتا ہے ،وہ ابلیس ہی تھا جس نے انسان کو بہکا کر جنت سے نکالا تھا ،ہم لوگوں کو دنیا میں ہی جنت دیں گے، اور یہ تم دو گے۔
محترم درویش !،،،حسن نے کہا۔۔۔ میرا خیال ہے کہ مزید باتوں کی ضرورت نہیں ،آپ جو کچھ بھی کہے جارہے ہیں یہ پہلے ہی میرے ذہن میں موجود ہے، کیا یہ بہتر نہیں ہوگا کہ آپ مجھے میری اس منزل تک پہنچا دیں جہاں سے میں اپنا محاذ کھول سکوں۔
 کل صبح تم یہاں سے روانہ ہو جاؤ گے۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔ اس لڑکی کو بھی تعلیم و تربیت دی جائے گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حسن بن صباح کا اس درویش کے پاس اس انداز سے پہنچنا جس انداز سے اسے پہنچایا گیا پراسرار افسانہ لگتا ہے، لیکن فرقہ باطنیہ اسی طرح زمین دوز اور پراسرار طریقوں سے پھلا پھولا تھا ،سلجوقی سلاطین اہلسنت والجماعت تھے اس لیے وہ کسی اور فرقے کا وجود برداشت نہیں کرتے تھے، تاریخ گواہ ہے کہ انہوں نے جاسوسوں اور مخبروں کے ذریعے اپنی سلطنت کے ہر گوشے میں نظر رکھی ہوئی تھی، یہی وجہ تھی کہ فرقہ باطنیہ زمین دوز ہو گیا اور اس کے پیشواؤں نے اپنی کاروائیوں کو اتنا خفیہ کردیا کہ جاسوسوں اور مخبروں کو بھی ان کی کارروائیوں کا علم نہیں ہوتا تھا۔
حسن بن صباح کا استاد عبد الملک ابن عطاش کوئی معمولی شخصیت نہیں تھا ،وہ فرقہ باطنیہ کا صف اول کا پیشوا تھا، بعض مؤرخین نے لکھا ہے کہ وہ ایک قلعے کا مالک بھی تھا۔
اگلی صبح سورج ابھی افق سے نہیں ابھرا تھا جب چار گھوڑے ان چٹانی بھول بھلیوں سے نکلے، ان کا رخ خراسان کی طرف تھا ،ایک گھوڑے پر حسن بن صباح سوار تھا، دوسرے پر فرحی، تیسرے پر درویش اور چوتھے پر درویش کا ایک آدمی سوار تھا۔
جب سورج افق سے اٹھ آیا اس وقت یہ چاروں گھوڑے ایک سرسبز پہاڑی کی ڈھلان پر چڑھتے جارہے تھے، یہ باقاعدہ راستہ تھا جس پر بیل گاڑیاں اور گھوڑا گاڑیاں بھی چلا کرتی تھیں، درویش نے گھوڑا روک لیا، باقی تین گھوڑے بھی رک گئے، درویش میں اپنے گھوڑے کا منہ اس طرف پھیر دیا جس طرف سے وہ آئے تھے۔
 پیچھے دیکھو حسن!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ اور تم بھی فرحی۔
حسن اور فرحی نے پیچھے دیکھا ان کے چہروں کےتاثر بدل گئے ،اس بلندی سے انہیں دور دور تک پھیلا ہوا جو منظر نظر آرہا تھا وہ کچھ عجیب سا تھا ،جس پہاڑی کی بلندی پر وہ کھڑے تھے وہ بڑی خوبصورت گھاس، پھول اور پودوں اور خوشنما درختوں سے ڈھکی ہوئی تھی، پہاڑی کے دامن میں کچھ دور تک روح افزا سبزہ زار تھا، دور ایک ندی ابھرتے سورج کی کرنوں میں چمک رہی تھی۔
اس سحر انگیز خطے میں میلوں رقبے میں پھیلا ہوا ایک بے آب و گیاہ چٹانی سلسلہ تھا، جو گولائی میں تھا، چٹانے نوکیلی بھی تھیں، بعض کی چوٹیاں مخروطی تھیں، کچھ بہت بڑے بڑے انسانی بوتوں جیسی تھیں، اور زیادہ تر اس طرح گول تھی جیسے قدرت کے ہاتھوں نے انہیں بڑی محنت سے بنایا ہو، ان کے وسط میں کچھ جگہ ہری بھری نظر آرہی تھی جہاں چند ایک درخت بھی کھڑے تھے یہ وہ جگہ تھی جہاں درویش کا ڈیرہ تھا ،ان چٹانوں کا رنگ سلیٹی بھی تھا اور سیاہ بھی، اور یہ خطہ ڈراؤنا سا لگتا تھا۔
دیکھ رہے ہو حسن!،،،، درویش نے کہا ۔۔۔تم بھی دیکھو فرحی !،،،میں یہاں سے آگے نہیں جاؤں گا، یہاں تک تمہارے ساتھ اس لئے آیا ہوں کہ ایک آخری بات کرنی تھی جو یہاں آکر ہی کہی جاسکتی تھی،،،،،، زندگی ہر ی بھری گھاس اور پھولوں کی سیج ہی نہیں، اس میں ایسی ایسی دشواریاں بھی ہیں کہ انسان ہمت ہارنے کے مقام پر پہنچ جاتا ہے، کامیاب وہی ہوتے ہیں جو ان دشواریوں میں سے گزر جاتے ہیں،،،، 
تمہارا استاد عبدالملک  ابن عطاش تمہیں سیدھے راستے پر بھی ڈال سکتا تھا، لیکن اس نے تمہیں اپنے علم سحر کے ذریعے ایسا خواب دکھایا جس میں تم کو یہ راستہ نظر آیا، تم ان چٹانوں کے اندر آگئے ،تمہیں راستہ نہیں مل رہا تھا، دو ناگوں نے تمہیں بھگا کر پھر وہی پہنچا دیا جہاں سے تم اس سلسلہ کوہ میں داخل ہوئے تھے، انسان کی زندگی میں ایسے حالات پیدا ہو جاتے ہیں کہ اسے سمجھ نہیں آتی کہ نجات کا راستہ کون سا ھے ،وہ حالات اور کئی طرح کی دشواریوں میں اس طرح بھٹک جاتا ہے جیسے بھول بھلیوں میں آ گیا ہو،،،،، 
ان چٹانوں کے اندر زندگی کا ایک سبق ہے، دیکھو قدرت نے کیسی خوفناک جگہ کے اندر کتنا شفاف چشمہ بنا رکھا ہے، اور اس کے ساتھ ہی کتنی اچھی پناہ گاہ ہے، ایسے چشموں تک وہی پہنچ سکتے ہیں جو ان چٹانوں سے ڈرتے نہیں، بھٹک بھٹک کر راستہ تلاش کر لیتے ہیں اور میٹھے چشمے تک پہنچ جاتے ہیں،،،،،ہم یہاں موجود تھے ،ہمیں معلوم تھا کہ تم آرہے ہو، ہمارے آدمی تمہیں دیکھ رہے تھے، ہمیں پہلے بتا دیا گیا تھا کہ تم آرہے ہو، یہ تو تم جان ہی چکے ہو کہ اس لڑکی کو ہمارے آدمی اٹھا کر لے آئے تھے، ہمارا کوئی آدمی ان بھول بھلیوں میں بھٹک نہیں سکتا،،،،،، میں اس وقت تم سے بہت چھوٹا تھا جب میرا استاد مجھے یہاں لایا تھا ،وہ باہر بیٹھ گیا تھا اس نے میری کلائی کے ساتھ ایک دھاگا باندھ دیا تھا، یہ بڑا ہی لمبا دھاگا تھا جو گولے کی شکل میں استاد نے اپنے ہاتھ میں رکھا تھا، اس نے مجھے کہا تھا کہ میں باہر بیٹھوں گا تم اندر چلے جاؤ ،اندر ایک چشمہ ہے، ایک کوزہ اس چشمے کے پانی کا بھر کر لاؤ۔
استاد نے مجھے بتایا کہ یہ دھاگا راستے میں چھوڑ تے جانا اور میں باہر بیٹھا گولے سے دھاگا ڈھیلا کرتا جاؤں گا، اگر تم تھک ہار گئے اور چشمے کو نہ پا سکے تو اس دھاگے کو دیکھ دیکھ کر واپس آ جانا ،خیال رکھنا کہ دھاگہ ٹوٹ نہ جائے ورنہ اندر جا کر باہر نہیں نکل سکو گے،،،،،، میں اندر چلا گیا استاد دھاگا ڈھیلا چھوڑتا گیا،،،،، یہ ذرا لمبی بات ہے کہ میں چشمے تک کس طرح پہنچا ،میں اتنا زیادہ بھٹکا تھا کہ ٹانگیں اکڑ گئیں اور میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا تھا، لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور چلتا گیا،،،،،، 
پھر میرے ہوش و حواس اندھیرے میں ہی گم ہو گئے، معلوم نہیں میں کتنی دیر بعد ہوش میں آیا، میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ میں چشمے کے کنارے پڑا ہوا تھا، میں اچھل کر اٹھا مٹی کا کوزہ جو میرے ہاتھ میں تھا وہ ٹوٹا پڑا تھا ،میں بے ہوش ہوکر گرا تو کوزہ پتھر پر گر کر ٹوٹ گیا تھا،،،،، 
اپنے استاد کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ میں چشمے تک پہنچ گیا تھا میں کپڑوں سمیت چشمے میں اتر گیا اور باہر آ کر چل پڑا ،میری رہنمائی کے لئے دھاگا موجود تھا جو میں راستے میں پھینکتا آیا تھا، سورج ابھی غروب نہیں ہوا تھا کہ میں باہر اپنے استاد کے سامنے کھڑا تھا، میں نے اسے بتایا کہ کوزہ ٹوٹ گیا ہے اور میں چشمے میں اتر کر اپنے کپڑے بھیگو لایا ہوں،،،،،،، 
میں تمہیں وہ سبق دینا چاہتا ہوں جو استاد نے مجھے دیا تھا۔۔۔ اس نے کہا تھا کہ زندگی کے چشمے خود چل کر کسی کے پاس نہیں آ جایا کرتے انسان کو چل کر ان کے پاس جانا پڑتا ہے،  اور پھر زندگی کے چشمے ان کا استقبال کیا کرتے ہیں جو ان کی تلاش میں سنگلاخ وادیوں سوکھی سڑی چٹانوں کی بھول بھلیوں میں اور پرخار راستوں پر چلتے ہی جاتے ہیں اور پائے استقلال میں لغزش نہیں آنے دیتے،،،، 
اور استاد نے کہا تھا کہ یہ دھاگا جو میں نے تمہاری کلائی سے باندھا تھا اسے صرف ایک دھاگا ہی نہ سمجھنا، یہ دھاگہ انسانی رشتوں کی علامت ہے، انسانی رشتے ٹوٹنے نہیں چاہیے، تم اکیلے کچھ بھی نہیں، تم تنہا رہ گئے تو سمجھو تمھاری ذات ہی ختم ہو گئی، ہمیشہ یاد رکھنا کے رشتوں کا یہ دھاگا نہ ٹوٹنے دینا، ذرا سوچو اگر یہ دھاگہ ٹوٹ جاتا تو میرا اور تمہارا رشتہ ٹوٹ جاتا اور تم ان بھول بھلیوں سے نکل نہ سکتے۔
تو یہ ہے وہ آخری سبق جو میں نے تم تک پہنچانا تھا حسن!،،،،، ثابت قدم رہنا۔۔۔ تم نے فوج کے بغیر قلعہ سر کرنے ہیں، انسانی فطرت کی کمزوریوں کو اپنے مقاصد اور اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنا ہے،  انسانوں پر نشہ طاری کر دو ،نشہ دولت کا بھی ہوتا ہے، عورت بھی آدمی کے لیے نشہ بن جایا کرتی ہے، نشوں کی کمی نہیں حسن!،،،، ابلیسی اوصاف میں بڑی طاقت ہے، میں تمہیں راز کی ایک بات بتاتا ہوں، بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو نماز اپنا فرض اور خدا کی عبادت سمجھ کر پڑھتے ہیں، عام لوگ نماز صرف اس لیے پڑھتے ہیں کہ اگلے جہان جنت میں جائیں گے جہاں حوریں اور شراب ملے گی، اور سوائے عیش و عشرت کے کوئی کام نہیں ہوگا۔
میں ان لوگوں کو دنیا میں جنت دکھا دوں گا۔۔۔ حسن نے پرعزم لہجے میں کہا ۔
زندہ باد حسن بن صباح!،،،، درویش نے کہا۔۔۔ اب جاؤ میں یہاں سے واپس جا رہا ہوں،،، 
 الودا!،،،  
الوداع!،،،
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget