Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random
Random Banner

اس عرصۂ محشر سے گزر کیوں نہیں جاتے


اس عرصۂ محشر سے گزر کیوں نہیں جاتے
جینے کی تمنا ہے تو مر کیوں نہیں جاتے

اے شہر خرابات کے آشفتہ مزاجوں
جب ٹوٹ چکے ہو تو بکھر کیوں نہیں جاتے

اس درد کی شدت بھی نمو خیز بہت ہے
جو زخم ہیں سینے میں وہ بھر کیوں نہیں جاتے

ہم معتکف دشت اذیت تو نہیں ہیں
پیروں سے مسافت کے بھنور کیوں نہیں جاتے

جب آئے ہیں مقتل میں تو کیا لوٹ کے جانا
اب اپنے لہو میں ہی نکھر کیوں نہیں جاتے

جب ڈوب کے مرنا ہے تو کیا سوچ رہے ہو
ان جھیل سی آنکھوں میں اتر کیوں نہیں جاتے

یہ بھی کوئی ضد ہے کہ یہ شاہدؔ کی انا ہے
جاتے ہیں جدھر لوگ ادھر کیوں نہیں جاتے

شاعر: شاہد کمال


 

اس عرصۂ محشر سے گزر کیوں نہیں جاتے Reviewed by Mian Muhammad Shahid Sharif on ستمبر 19, 2024 Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.