مرغن کھانوں کے شوقین پاکستانی !!!!۔۔۔۔


 پاکستانیوں کا شمار دنیا کے ان ممالک کی فہرست میں کیا جاتا ہے جہاں لوگ مزیدار کھانوں کے شوقین سمجھے جاتے ہیں۔


یہی نہیں بلکہ دنیا بھر سے آنے والے زیادہ تر سیاح بھی پاکستانی کھانوں کے گرویدہ ہو جاتے ہیں تاہم وہ یہ شکایت ضرور کرتے ہیں کہ پاکستانی کھانوں میں تیل اور مرچوں کا استعمال دل کھول کر کیا جاتا ہے جس پر اکثر ہمارا جواب یہی ہوتا ہے کہ یہ تڑکہ، تری اور تیل ہی تو ہے جو کھانے کے ذائقے کو دوبالا کر دیتا ہے۔

یونائیٹڈ سٹیٹ ڈپارٹمنٹ آف ایگریکلچر(یو ایس ڈی اے) کی تحقیق کے مطابق ہر پاکستانی سالانہ اوسطً 24 لیٹر سے زیادہ تیل کھاتا ہے جو صحت عامہ کےعالمی معیار کے مطابق خطرناک حد تک زیادہ ہے۔

تیل کھانے کی عادات 40 فیصد لوگوں میں دل کے امراض کا باعث بنتی ہیں جن سے اموات بھی واقع ہو جاتی ہیں۔

پاکستان میں تیل انڈیا کے مقابلے میں بھی بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے جہاں ہر شہری ہر سال اوسط 19 لیٹر تیل استعمال کرتا ہے۔

کیا آپ نے کبھی اپنی صحت کے بارے میں سوچا ہے؟

انہی سارے اعداد وشمار کا ذکر جب ایک صاحب سے کرتے ہوئے میں نے ان سے سوال پوچھا کہ آپ اتنی مرغن غذائیں کھاتے ہیں، کیا کبھی سوچا نہیں کہ یہ مختلف بیماریوں کا باعث بن سکتا ہے؟

اس سوال کے جواب میں ان صاحب نے الٹا مجھ سے ہی سوال کر ڈالا کہ آپ بتائیں کہ تڑکے کے بغیر نمک مرچ والی دال آپ کھا لیں گی؟ پھر بولے کہ ہم کوئی بیمار ہیں کہ تیل کے بغیر پکے ہوئے کھانے کھائیں؟

شاید زیادہ تر پاکستانی ایسا ہی جواب دیتے ہیں۔ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو یہ سمجھتے ہیں کہ بیماری کا تعلق آپ کے طرز زندگی اور خوراک سے نہیں جڑا۔

لاہور کے رہائشی محمد امجد باہر کے کھانا کھانے کی خاصے شوقین ہیں۔ نہاری، پائے، حلوہ پوری اوردیگر مرغن کھانے کھانا ان کا روز کا معمول ہے، تاہم ان کے مطابق خوراک کا کسی بیماری سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے انھوں نے مثال دی کہ ’ہمارے گھر کے پاس ایک ڈاکٹر صاحب رہتے ہیں جو کافی دبلے پتلے سے ہیں اور دن میں دو ٹائم واک بھی کرتے ہیں لیکن پھر بھی ہفتے پہلے انھیں دل کا اٹیک ہو گیا۔ جبکہ میں سب کچھ کھاتا ہوں لیکن بلکل ٹھیک ہوں۔‘

محمد امجد اور ایسی دلیل دینے والے دیگر افراد سے ڈاکٹر اور ماہر غذائیت سخت اختلاف کرتے ہیں۔ ان کے مطابق صحت مند زندگی کےلیے متوازن غذا اور تیل کا کم استعمال بے حد ضروری ہے۔

ڈاکٹرز کے مطابق ’زیادہ اور غیر میعاری تیل کا استعمال نہ صرف دل کے امراض کے ساتھ کینسر اور ذیابیطس جیسی بیماری کا باعث بن سکتا ہے بلکہ یہ آپ کے جسم میں موجود خلیوں اور ڈی این اے کو نقصان پہنچاتا ہے جبکہ جسم میں پائی جانے والی پروٹینز کو بہتر انداز میں کام کرنے سے روکتا ہے۔‘

پاکستان میں غیر معیاری تیل کا استعمال

ڈی جی پنجاب فوڈ اتھارٹی راجہ جہانگیر انور کے مطابق انھیں سب سے بڑا چیلنج گلی محلوں میں استعمال ہونے والے غیر معیار تیل کی روک تھام سے زیادہ گھروں میں اس تیل کے استعمال سے ہے۔

بی بی سی سے گفتگو کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ہماری تحقیق کے مطابق پاکستان میں 70 فیصد غیر معیاری تیل کا استعمال گھریلو صارفین کرتے ہیں جبکہ 30 فیصد غیرمیعاری تیل کا استعمال کمرشل ہوتا ہے۔

انھوں نے مزید بتایا کہ ’ہمارے گھروں میں تیل کو فرائنگ کے لیے ایک مرتبہ نہیں بلکہ درجنوں مرتبہ استعمال کیا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ بار بار جلتا ہے۔ جس سے وہ اپنی اصل غذائیت کھو دیتا ہے اور ایک نقصان دہ پروڈکٹ میں تبدیل ہو کر خراب اور بدبودار تیل بن جاتا ہے۔‘

انھوں نے مزید بتایا کہ ’تیل کی انڈسٹری خاصی بڑی ہے اور فرائنگ اور فاسٹ فوڈ کا کلچر بھی پاکستان میں تیزی سے بڑھ رہا ہے جبکہ کمرشل بنیادوں پر استعمال ہونے والے خراب آئل کی روک تھام کے لیے ہم ہر وقت کوشاں رہتے ہیں۔‘

پاکستان کی جانب سے درآمدات میں دوسرت نمبر پر کھانے کا تیل آتا ہے جبکہ زیادہ طلب کے نتیجے میں پاکستان میں درآمد ہونے والے کھانے کے تیل پر لاگت تقریباً چار ارب ڈالر آتی ہے۔‘

یاد رہے کہ پاکستان سب سے زیادہ پام آئل ملائیشیا اور پھر انڈونیشیا سے درآمد کرتا ہے۔

ہم اپنے زندگی تیل کو کیسے کم کر سکتے ہیں؟

شیف فائزہ اپنے کچن میں کوشش کرتی ہیں کہ ایسے کھانے بنائیں جو کم تیل میں باآسانی تیار ہو جاتے ہیں۔ بی بی سی بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ’سب سے پہلے ہمیں یہ کوشش کرنی چاہیے کہ ہم اپنے کھانوں میں جہاں چار چمچ تیل ڈالتے ہیں اسے کم کر کے ایک یا دو چمچ پر لے آئیں۔‘

’زیادہ تر خواتین یہ گلہ کرتی ہیں کہ کم تیل میں کھانے کی بھنائی ٹھیک سے نہیں ہوتی تو اس کے لیے آپ مٹی یا نان اسٹک برتن کا استعمال کر سکتے ہیں، یا اگر آپ میں سکت ہے تو آپ تھوڑے زیادہ پیسے خرچ کر کے ایئر فرائیر بھی لے سکتے ہیں جس میں تیل کے استعمال کے بغیر بھی کھانے پینے کی اشیا بنا سکتے ہیں۔

’اگر آپ پیسے خرچ نہیں کرنا چاہتے تو آپ اپنے کھانوں کی ترکیب کچھ تبدیل کر کے انھیں سٹیم یا بیک کر سکتے ہیں یا پھر ایسی تراکیب کا استعمال کریں جس میں تیل کا استعمال کم ہو۔‘

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی