دسمبر 2024
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


 آسٹریا کے ولی عہد آرچ ڈیوک فرانز فریڈیننڈ اپنی اہلیہ کے ساتھ 28 جون 1914 کو بوسینیا ہرزیگوینا میں شاہی فوج کا معائنہ کر رہے تھے۔


یہ وہ زمانہ ہے جب سربیا آزاد ریاست بن چکی تھی اور آسٹریا کے کنٹرول میں موجود سرب علاقوں کے قوم پرست سربیا میں شمولیت کی تحریک چلا رہے تھے۔ اس دوران سرب قوم پرستوں کی کارروائیوں میں بھی تیزی آ گئی تھی۔ اسی وجہ سے سرایوو کے علاقے میں ولی عہد آرچ ڈیوک کی آمد کے موقعے پر بہت سے خطرات منڈلا رہے تھے۔

خطرات کے باوجود آسٹریا (آسٹرو ہنگریئن سلطنت) کے ولی عہد آرچ ڈیوک فرانز فریڈیننڈ بوسنیا ہرزیگوینا پہنچے تھے اور بالآخر وہ انہونی ہو گئی جس کا خطرہ تھا۔

آرچ ڈیوک جب فوجی دستوں کا معائنہ کر رہے تھے تو اسی دوران ایک بوسنیائی سرب قوم پرست گیوریلو پرنسپ نے ولی عہد اور ان کی اہلیہ کو گولیاں مار کر قتل کر دیا۔

یہ قتل ایک چنگاری ثابت ہوا جس نے بیسویں صدی میں ایک عالمی جنگ کا الاؤ بھڑکا دیا۔ 80 لاکھ سے زائد فوجی اور 66 لاکھ عام شہری اس جنگ کی بھینٹ چڑھ گئے۔

جولائی 1914 میں شروع ہونے والی پہلی جنگِ عظیم تقریباً چار سال تک جاری رہی اور گیارہ نومبر 1918 کو اختتام پر پہنچی۔ یہ انسانی تاریخ کی ہلاکت خیز جنگوں میں سے ایک تھی۔

اسپینسر سی ٹکر کے مرتب کردہ ’یورپین پاورز ان دی فرسٹ ورلڈ وار: این انسائیکلو پیڈیا‘ کے مطابق اس جنگ میں شامل ہونے والے 60 فی صد فوجی ہلاک ہوئے تھے۔

امریکہ میں اس جنگ کے خاتمے کے دن کو 'ویٹرنز ڈے' کہا جاتا ہے۔ اس دن پہلی عالمی جنگ اور 1945 میں ختم ہونے والی دوسری عالمی جنگ میں حصہ لینے والے امریکہ کے فوجیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ امریکہ ان دونوں ہی جنگوں کے آغاز سے ان میں فریق نہیں تھا بلکہ بدلتے حالات کی وجہ سے ان میں شامل ہوا۔

پہلی عالمی جنگ میں امریکہ اتحادی قوتوں کے ساتھ یورپ میں کیوں لڑا؟ اس کا پسِ منظر سمجھنے کے لیے آرچ ڈیوک کے قتل کے وقت یورپ میں پیدا شدہ حالات کو سمجھنا ضروری ہے۔

یورپی قوتوں میں طاقت کی کشمکش
پہلی عالمی جنگ جسے لڑنے والی یورپی قوتوں نے ’جنگِ عظیم‘ کا نام دیا تھا، بنیادی طور پر یورپ کی بڑی قوتوں میں جاری طاقت کی کشمکش کا نتیجہ تھی۔ طاقت کی اس رسہ کشی میں دو بڑے واضح گروہ بن چکے تھے۔

ایک گروہ 'ٹرپل ایٹنٹ' کہلاتا تھا جس میں سلطنتِ برطانیہ، روس اور فرانس شامل تھے جب کہ جرمنی، آسٹرو ہنگریئن سلطنت اور اٹلی کو 'ٹرپل الائنس' کہا جاتا تھا۔ بعد ازاں ٹرپل ایٹنٹ اتحادی افواج اور ٹرپل الائنس محوری قوتوں کا گروہ کہلائے۔

یورپ کی ان سلطنتوں میں سب سے طاقت ور برطانیہ، روس اور جرمنی تھے جو دنیا میں نو آبادیات کو وسعت دینے اور اپنی قوت بڑھانے میں مصروف تھے۔

مؤرخین کے مطابق انیسویں صدی کے اختتام تک یہ سلطنتیں مستحکم ہو چکی تھیں جس کے بعد انہوں نے یورپ میں اپنا اپنا رسوخ بڑھانے کے لیے نئے اتحادی بھی بنانا شروع کر دیے تھے اور یہ سلطنتیں پیش قدمی کے لیے کسی موقعے کی تاک میں تھیں۔

جنگ کا آغاز کیسے ہوتا ہے؟
ان قوتوں کے مابین طاقت کی اسی کشمکش کی وجہ سے آرچ ڈیوک کے قتل سے شروع ہونے والی لڑائی ایک عالمگیر خوں ریز جنگ کی شکل اختیار کرگئی۔ اس قتل کے بعد آسٹریا نے سربیا کی حکومت کو اس کا ذمے دار قرار دیا اور اس کے خلاف محاذِ جنگ کھول دیا۔

پہلی عالمی جنگ کی تاریخ مرتب کرنے والے برطانوی مؤرخ مائیکل ہوورڈ نے اپنی تصنیف 'دی فرسٹ ورلڈ وار' میں لکھا ہے کہ بیسویں صدی کے آغاز ہی میں یورپ میں قوم پرستی کی تحریکیں عروج پر تھیں۔

ان کے مطابق سربیا کی آزادی کے بعد یورپ میں بسنے والی سلاوی نسل سے تعلق رکھنے والوں میں بھی سلاوک قومیت پرستی کی تحریکیں زور پکڑ رہی تھیں۔

وہ لکھتے ہیں کہ سربیا کی آزادی کی صورت میں سلاوک قوم پرستوں کی طاقت پہلے ہی دو چند ہو چکی تھی۔ اس لیے آرچ ڈیوک کے قتل کے بعد سلاوک قوم پرستی کے خطرے سے نمٹنے کا ایک جواز آسٹریا کے ہاتھ آگیا تھا۔

سربیا کو چوں کہ روس کی پشت پناہی حاصل تھی اس لیے آسٹریا سربیا کے خلاف کوئی قدم اٹھانے سے قبل جرمنی کے کیسر ولہیلم دوم سے روس کی مداخلت کی صورت میں مکمل حمایت کی یقین دہانی چاہتا تھا۔

یہ یقین دہانی حاصل ہونے کے بعد 28 جولائی 1914 کو آسٹریا ہنگری نے سربیا کے خلاف جنگ کا اعلان کر دیا۔ 29 جولائی کو جب آسٹریا نے سربیا کے دارالحکومت پر بمباری شروع کی تو سربیا کے اتحادی روس کی فوجوں نے مدد کے لیے پیش قدمی شروع کر دی۔ روس کے جنگ میں شامل ہونے کے ساتھ اس کا اتحادی فرانس بھی جنگ میں کود پڑا۔

جرمنی اور فرانس یورپ میں پہلے ہی دو روایتی حریف بن چکے تھے اور اسی وجہ سے فرانس نے روس کے ساتھ اتحاد بنایا تھا۔ اس لیے فرانس کے میدان میں آتے ہی جرمنی بھی اس جنگ کا فریق بن گیا۔ تین اگست 1914 کو فرانس اور جرمنی کے درمیان بھی جنگ کا آغاز ہوا۔

’ایک کاغذ کے ٹکڑے پر جنگ‘
برطانیہ کے نیشنل آرکائیو کے مطابق اس وقت اپنی وسیع و عریض سلطنت کو سنبھالنا برطانیہ کی پہلی ترجیح تھی اور وہ علاقائی تنازعات سے اپنا دامن بچا رہا تھا۔ اسی لیے اس دور کو برطانیہ کی ’تنہائی‘ (اسپلینڈڈ آئسولیشن) کا دور بھی کہا جاتا ہے۔

برطانیہ کے اس طرزِ عمل کی وجہ سے جرمنی کو بھی یہی توقع تھی کہ برطانیہ ٹرپل ایٹننٹ میں شامل ہونے کے باوجود جنگ سے لاتعلق رہے گا۔ البتہ جب جرمنی نے برطانیہ سے فرانس کو نشانہ بنانے کے لیے بیلجیئم سے گزرنے میں مدد چاہی تو برطانیہ نے صاف انکار کردیا۔

بیلجیئم کو یورپی قوتوں نے 1839 میں ہونے والے معاہدہٴ لندن کے تحت ایک آزاد ملک تسلیم کیا تھا اور اس کے دفاع کی ذمے داری بھی لی تھی۔ جرمنی کا مطالبہ تھا کہ فرانس پر حملہ آور ہونے کے لیے بیلجیئم سے اسے راستہ فراہم کر دیا جائے اور اس کے لیے برطانیہ معاہدہٴ لندن کو نظر انداز کر دے۔

برطانیہ کے نیشنل آرکائیو کے مطابق برطانیہ کو اس خطرے کا احساس تھا کہ بیلجیئم کی بندرگاہیں اس کی بندرگاہوں سے نزدیک ہیں۔ جرمنی اس وقت ایک طاقت ور بحری قوت کھڑی کر چکا تھا۔

اس لیے بیلجیئم میں جرمنی کی موجودگی خود برطانیہ کے لیے بھی خطرے کا باعث ہو سکتی تھی۔ اس لیے برطانیہ نے جرمن فوجوں کو بیلجیئم سے گزرنے کی اجازت دینے سے صاف انکار کردیا۔

چار اگست 1914 کو جب جرمنی نے فرانس پر بیلجیئم کے راستے حملے کا آغاز کیا تو اس کے چند ہی گھنٹوں بعد سلطنتِ برطانیہ نے جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کر دیا۔

اس موقعے پر جرمنی کے حکمران کیسر ولہیلم نے کہا تھا کہ برطانوی کتنے احمق ہیں کہ ایک ’کاغذ کے ٹکڑے‘ کے پیچھے جنگ میں کود پڑے ہیں۔

شلیفن منصوبہ
تاریخ دان مائیکل ہوورڈ کے مطابق جب جنگ کا آغاز ہوا تو اس میں شامل یورپی ممالک میں رہنے والوں کا خیال تھا کہ لڑائی ان کے ممالک کی کامیابی پر ختم ہوگی۔ یہ چوں کہ یورپ میں قوم پرستی کے عروج کا دور تھا اس لیے جنگ شروع ہونے پر ایک طرح کی خوشی منائی گئی۔

مؤرخین کے مطابق جرمنی اس جنگ کے لیے سب سے زیادہ تیار تھا۔ جرمنی کی فوجی قیادت ’شلیفن منصوبہ‘ بنا چکی تھی جس میں بیلجیئم کے راستے فرانس کو فتح کرنے کی حکمتِ عملی بنائی گئی تھی۔

جنگ شروع ہونے کے بعد روس کی توجہ آسٹریا پر مرکوز تھی جب کہ جرمنی کا ہدف فرانس تھا۔

بیلجیئم پر حملے کے بعد جرمنی کی پیش قدمی جاری تھی اور شلیفن منصوبہ تکمیل کے قریب تھا۔ البتہ فرانس کی فوج پیرس کے قریب مارن کی خون ریز جنگ میں جرمنی کی پیش قدمی روکنے میں کامیاب ہوئی۔

سال 1914 کے اختتام تک جنگ میں 10 لاکھ فوجی مارے جا چکے تھے لیکن اتحادی یا محوری قوتوں میں سے کسی کو برتری حاصل نہیں ہوئی تھی۔

اپنی برتری کے لیے فریقین نے زہریلی گیس کا استعمال کیا۔ اس جنگ میں پہلی مرتبہ میدان میں ٹینک لائے گئے اور آخر میں انسانی تاریخ کی ہولناک ترین مورچہ بند لڑائیاں بھی ہوئیں اور جنگ کا دائرہ پھیل رہا تھا۔

نومبر 1914 میں ترکی میں قائم سلطنت عثمانیہ بھی جرمنی کے اتحادی کے طور پر اس جنگ میں شریک ہو گئی تھی جس کے بعد پہلی عالمی جنگ کا دائرہ مشرقِ وسطیٰ تک پھیل گیا۔

مغرب میں فرانس اور بیلجیئم اس کی لپیٹ میں آ چکے تھے۔ ترکی کے اس جنگ میں شامل ہونے کے بعد 1916 کی ابتدا میں اتحادی افواج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔

آگے چل کر جرمنی اور برطانیہ میں مغربی محاذ پر گھمسان کی لڑائی ہوئی البتہ کوئی فریق فیصلہ کن کامیابی حاصل نہیں کرسکا۔

مشرقی محاذ پر جرمنی کو برتری حاصل تھی اور 1917 میں بالشویک انقلاب آنے کے بعد روسی فوج تتر بتر ہو رہی تھی۔

روس میں انقلاب آنے کے بعد نئی حکومت نے جرمنی سے مذاکرات کا آغاز کر دیا تھا۔

امریکہ کی آمد
امریکہ کے صدر وڈرو ولسن نے 1914 میں پہلی عالمی جنگ کے آغاز پر غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ کیا تھا۔ لائبریری آف کانگریس کے مطابق غیر جانب دار رہنے کے فیصلے پر امریکہ میں تند و تیز بحث بھی ہوئی۔

جنگ کے دوران اٹلانٹک میں آبدوزوں کے حملے تیز ہو گئے تھے اور جرمنی برطانیہ کی بحریہ کو بھاری نقصان پہنچا رہا تھا۔

پانچ مئی 1915 کو جرمن بحریہ کی آبدوز نے برطانیہ کے ایک مسافر بردار بحری جہاز ’لوسیتانیا‘ کو وارننگ دیے بغیر نشانہ بنایا۔ اس حملے میں 120 امریکی شہری ہلاک ہوئے جس پر امریکہ میں شدید ردِ عمل سامنے آیا۔

امریکہ اور میکسیکو کے تعلقات میں کشیدگی پہلے سے چلی آ رہی تھی جب کہ جرمنی لاطینی امریکہ میں اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے میکسیکو کو اہم تصور کرتا تھا۔

جرمنی نے امریکہ اور میکسیکو کے تعلقات میں بھی دخل اندازی کی کوشش کی۔ اس کی وجہ سے 6 اپریل 1917 کو امریکہ نے جرمنی کے خلاف اعلانِ جنگ کیا اور اتحادیوں کے کیمپ میں شامل ہو گیا۔

امریکہ نے جنگ میں شریک ہونے کے بعد اتحادیوں کی مدد کے لیے 10 لاکھ فوجی یورپ بھجوائے۔

امریکہ کی جنگ میں شمولیت سے مغربی محاذ پر اتحادیوں کا پلڑا بھاری ہو گیا۔ جنگ میں وسائل استعمال ہونے کی وجہ سے جرمنی کے عوام کو شدید مشکلات کا سامنا تھا۔ اس کے علاوہ جرمنی کی بری فوج اور بحریہ میں بھی بغاوت کی لہر اٹھ رہی تھی۔

نومبر 1918 تک جرمن فرماں روا کیسر کا فوج پر کنٹرول ختم ہو چکا تھا جس کے بعد وہ ہالینڈ چلے گئے۔

برلن میں سوشل ڈیموکریٹس نے اقتدار سنبھال کر جرمنی کو جمہوریہ بنانے کا اعلان کر دیا اور اتحادی افواج کو جنگ بندی کی پیش کش کی۔

اس طرح 1918 میں 11 نومبر کو دن 11 بجے مغربی محاذ پر جرمن توپیں خاموش ہو گئیں اور جنگ بندی کا معاہدہ طے پاگیا۔

ایک اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ
جنگ کے بعد توقع کی جا رہی تھی کہ مستقبل میں بڑی جنگوں کی پیش بندی ہو جائے گی۔ البتہ 1919 میں جنگ کے باقاعدہ خاتمے اور قیامِ امن کے لیے ورسائے میں جو معاہدہ ہوا جس میں جرمنی کو انتہائی سخت شرائط تسلیم کرنا پڑیں۔ اس نے دوسری عالمی جنگ کی بنیاد رکھی۔

اس جنگ میں لاکھوں جانیں گئیں۔ سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کی بنیاد رکھی گئی۔ مشرقی وسطیٰ کا نقشہ تبدیل ہونا شروع ہوا۔

آرمینیا میں نسل کشی ہوئی اور سب سے بڑھ کر جس جنگ کو تمام جنگوں کا خاتمہ سمجھا جا رہا تھا وہ ایک اور عالمی جنگ کا پیش خیمہ ثابت ہوئی۔


 تانگ ہوجان چین سے تعلق رکھنے والے ایک سوفٹ ویئر ڈیویلپر ہیں۔ بیجنگ کے نواح میں وہ اپنی فیملی کے ساتھ رہتے ہیں۔ انہیں سب سے زیادہ خوشی اپنی دو سال کی بیٹی کے ساتھ کھیل کر اور وقت گزار کر حاصل ہوتی ہے۔ وہ بچوں سے بہت پیار کرتے ہیں لیکن ان کے مطابق اس بات کا کم ہی امکان ہے کہ وہ ایک اور بچہ پیدا کریں گے۔


تانگ اور ان جیسے ان گنت لوگوں کے ایسے فیصلے نہ صرف چین بلکہ دنیا میں آبادی کے اعداد و شمار پر اثرانداز ہورہے۔ اقوامِ متحدہ کی جاری کردہ تفصیلات کے مطابق دنیا کی آبادی منگل کو آٹھ ارب ہوجائے گی اور آئندہ آنے والے برسوں میں اس کے اعداد و شمار میں کئی ایسی تبدیلیاں آنے والی ہیں جو بہت کچھ بدل کر رکھ دیں گی۔

انتالیس سالہ تانگ کے مطابق ان کے کئی شادی شدہ دوستوں کا ان کی طرح صرف ایک بچہ ہے اور وہ مزید بچے پیدا کرنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔ جب کہ عام طور پر نوجوان بچے پیدا کرنا تو رہا ایک طرف، شادی ہی میں دل چسپی نہیں رکھتے۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بچوں کی دیکھ بھال پر آنے والے اخراجات کی وجہ سے چین میں شادی شدہ جوڑے بچے پیدا نہیں کررہے ہیں۔چین میں اکثر خاندانوں میں میاں بیوی کام کرتے ہیں اور انہیں بچوں کی دیکھ بھال کے لیے دادا دادی یا نانا نانی کی مدد بھی نہیں مل پاتی کیوں کہ وہ ان سے بہت دور رہائش پذیر ہوتے ہیں۔

تانگ ہوجان کے مطابق بچوں کی تعداد میں کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چین میں شادیاں بہت دیر میں ہورہی ہیں جس کی وجہ سے حمل ٹھہرنے میں بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کے نزدیک زیادہ عمر میں شادی سے بھی شرحِ پیدائش متاثر ہورہی ہے۔

ون چائلڈ پالیسی سے تین بچوں تک

چین کئی دہائیوں سے بڑھتی ہوئی آبادی کو روکنے کے لیے کوشش کر رہا تھا۔ چین میں 1980 سے 2015 تک سختی کے ساتھ ون چائلڈ پالیسی پر عمل درآمد کرایا گیا۔ اس پالیسی کی وجہ سے چین کی آبادی کنٹرول بھی ہوئی لیکن چین آبادی کے لحاظ سے دنیا کا سب سے بڑا ملک رہا۔

لیکن اب اقوامِ متحدہ نے یہ توقع ظاہر کی ہے کہ چین کی آبادی آئندہ برس سے سکڑنا شروع ہوجائے گی اور بھارت دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والا ملک بن جائے گا۔

چین میں 2021 تک شرحِ پیدائش 1.16 تھی جو اقتصادی تعاون کی بین الاقوامی تنظیم او ای سی ڈی کے مستحکم آبادی کے لیے مقرر کردہ معیار 2.1 بھی کم ہے۔

آبادی کے اعدادو شمار میں تبدیلی کے اثرات پر نظر رکھنے والے ماہرین کے مطابق کرونا وائرس کی وبا کے دوران پیش آنے والی مشکلات اور چینی حکومت کے ان پر قابو پانے کے لیے کیے گئے کڑے اقدامات نے لوگوں کی بچے پیدا کرنے کی خواہش کو متاثر کیا ہے۔

ماہرین کے مطابق رواں برس چین کی تاریخ میں سب سے کم بچے پیدا ہوئے ہیں۔ چین میں رواں برس پیدا ہونے والے بچوں کی تعداد ایک کروڑ سے بھی نیچے آچکی ہے۔ گزشتہ برس یہ تعداد ایک کروڑ چھ لاکھ رہی تھی جو کہ 2020 کے مقابلے میں ساڑھے 11 فی صد کم تھی۔

چین نے گزشتہ سال سے تین تک بچے پیدا کرنے کی اجازت دے دی ہے اور مناسب شرحِ پیدائش تک پہنچنے کے لیے اقدامات کا اعلان بھی کیا ہے۔

چین میں عمر رسیدہ افراد کی تعداد بڑھ رہی ہے‘

منصوبہ سازوں کے لیے آبادی میں بوڑھے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد نے کئی الگ نوعیت کے مسائل پیدا کیے ہیں۔

چائنیز یونیورسٹی آف ہانگ کانگ سے وابستہ پروفیسر شین جیانفا کا کہنا ہے کہ ہماری توقع ہے کہ چین میں عمر رسیدہ آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔ یہ چین کے لیے انتہائی سنجیدہ صورتِ حال ہے جو آج سے 20 برس کے مقابلے میں بالکل مختلف ہے۔

چین کی آبادی میں 65 بر سے زائد عمر کے افراد کی شرح اس وقت 13 فی صد سے زائد ہے لیکن اس میں اب تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔ کام کرنے والی افرادی قوت میں کمی کی وجہ سے تیزی سے بڑھتے ہوئے عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال ایک چیلنج کی صورت اختیار کررہی ہے۔

پروفیسر شین کا کہنا ہےکہ گزشتہ چند برسوں سے عمر رسیدہ افراد کی شرح بہت زیادہ ہوگئی ہے۔ اس لیے حکومت کو اس کے لیے پہلے سے تیاری کرنا ہوگی۔

بوڑھے افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد سے پیدا ہونے والے مسائل کے باعث چین نے بچوں کی پیدائش کی شرح بڑھانے کے لیے شادی شدہ جوڑوں کی حوصلہ افزائی بھی شروع کی ہے۔

اس مقصد کے لیے حکومت جوڑوں کو ٹیکس میں رعایت، بچوں کی پیدائش کے بعد زیادہ چھٹیاں، میڈیکل انشورنس اور مکان کی تعمیر پر سبسڈی جیسی مراعات متعارف کراچکی ہے۔

لیکن آبادیات کے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدامات کافی نہیں ہیں۔

ان کے مطابق چین میں تعلیم کے اخراجات میں اضافہ، کم اجرتیں، کام کے لیے سخت محنت اور طویل دورانیے جیسے محرکات کے علاوہ کرونا کی روک تھام کے لیے حکومت کےکڑے اقدامات نے معیشت کی مجموعی صورتِ حال کو متاثر کیا ہے۔ اس کی وجہ سے چینی شہریوں میں بھی عدم اطمینان اور بے چینی پائی جاتی ہے۔

ہانگ کانگ یونیورسٹی کے ایک اور پروفیسر اسٹارٹ بیسٹن کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کے لیے روزگار کے محدود ہوتے امکانات بھی ایک اہم سبب ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ جب لوگوں کو روزگار ہی نہیں مل رہا ہوگا تو وہ مزید بچے کیوں پیدا کریں گے؟

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔






 جب لندن میں BCCI نے اپنا کاروبار بند کیا  اس وقت میں اس بنک کا ڈائریکٹر تھا ۔۔۔۔


بنک نے الوداعی تقریب ایک شاندار ہوٹل میں کی ۔۔۔۔

اور تمام ڈائریکٹرز کی بیواؤں کو ایک ایک کروڑ روپے دینے کا اعلان ہوا ۔۔۔۔

جب بیواؤں کو باری باری ایک ایک کروڑ دینے کے لئے بلایا جانے لگا تو میں نے زندگی میں پہلی بار سہاگنوں کو بیواؤں پر رشک کرتے ہوئے دیکھا۔۔۔۔

میری زوجہ محترمہ جو میرے ساتھ ہی بیٹھی تھیں انتہائی ناگواری سے میری طرف دیکھتے ہوئے گویا  کہہ رہی ہوں کہ ،،، "کمبخت تم سے اتنا بھی نہ ہو پایا "۔۔۔۔

مشتاق احمد یوسفی


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر پچاس⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سالار اوریزی نے یہ فوج اندھادھن تیار نہیں کی تھی اور اس نے کوچ کا جو حکم دیا تھا وہ بھی کوئی رسمی سا حکم نہیں تھا ،اس نے اس فوج کی تیاری کے دوران دانشمندانہ کارروائیاں کی تھیں۔
پہلی کاروائی یہ تھی کہ اس نے اس فوج میں منتخب لڑاکے اور جاں باز شامل کیے تھے، اس نے اپنے جو نائب کماندار ساتھ لیے تھے وہ بھی چنے ہوئے تھے اور لڑائیوں کا تجربہ بھی رکھتے تھے اور ان میں حسن بن صباح اور ان کے فرقے کی نفرت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، سالار اوریزی نے ایک احتیاطی تدبیر اختیار کی تھی جس کا مقصد یہ تھا کہ حسن بن صباح تک یہ خبر نہ پہنچ جائے کہ وہ قلعہ وسم کوہ پر فوج کشی کے لئے جا رہا ہے ،وہ جانتا تھا کہ گلی گلی کوچہ کوچہ حسن بن صباح کے جاسوس موجود ہیں اور وہ روزبروز قلعہ الموت خبریں پہنچا رہے ہیں۔
سالار اوریزی نے اپنی اصل مہم پر پردہ ڈالے رکھنے کا یہ انتظام کیا تھا کہ وہ جب اپنی فوج تیار کر رہا تھا اس نے چند آدمی شہر میں پھیلا دیئے تھے جو یہ خبر مشہور کر رہے تھے کہ سالار اوریزی قلعہ ملاذخان پر حملہ کرنے جارہا ہے،،،،،، قلعہ ملاذخان فارس اور خوزستان کے درمیان واقع تھا ،چند سال پہلے باطنیوں نے یہ قلعہ دھوکے میں اپنے قبضے میں لے لیا تھا،،،،،،، قلعہ وسم کوہ قلعہ ملاذخان سے کم و بیش ایک سو میل دور کسی اور ہی طرف تھا۔
حسن بن صباح کو یہ اطلاع دی گئی کہ سالار اوریزی اتنی نفری کی فوج سے قلعہ ملاذ خان پر حملہ کرنے کے لئے روانہ ہو رہا ہے، یہ سن کر حسن بن صباح نے قہقہہ لگایا۔
پگلے سلجوقی،،،،،، حسن بن صباح نے کہا۔۔۔ اگر وہ قلعہ ملاذ خان لے بھی لیں گے تو کیا کرلیں گے، وہ ابھی تک نہیں سمجھے کہ ان کی قسمت اور ان کی جانیں میری مٹھی میں ہے، میں یہاں تصور میں جس کا گلا دباؤنگا وہ مرو میں یا رے میں یا وہ جہاں کہیں بھی ہوا مارا جائے گا، جب اوریزی مرو سے کوچ کرے اسی وقت ایک آدمی وہاں سے میرے پاس پہنچ جائے اور بتائے کہ اس کے ساتھ کتنی پیدل اور کتنی سوار نفری ہے، اور اس نے کس وقت کوچ کیا ہے۔
حسن بن صباح نے دو تین آدمیوں کے نام لے کر کہا کہ انہیں فورا بلایا جائے، وہ آدمی فوراً پہنچے، یہ اس کے جنگی مشیر تھے، اس نے انہیں قلعہ ملاذ خان کے دفاع کے متعلق ہدایات دینی شروع کردیں اور ساتھ یہ بھی کہا کہ ملاذخان تک جگہ جگہ اوریزی کے لشکر پر شب خون مارے جائیں اور گھات لگا کر بھی انہیں نقصان پہنچایا جائے، اس نے کہا کہ کہیں بھی جم کر نہیں لڑنا ضرب لگا کر وہاں سے نکل آئیں۔
وہ راستے سے ہی واپس چلے جائیں گے۔۔۔حسن بن صباح نے کہا۔۔۔اگر وہ واپس نہ گئے اور ملاذ خان تک پہنچ بھی گئے تو ان کی نفری آدھی رہ چکی ہوگی اور وہ ایسی حالت میں ہونگے کہ محاصرہ بھی مکمل نہیں کر سکیں گے، ملاذ خان میں ہماری نفری تھوڑی ہے وہاں آج ہی جانبازوں کی خصوصی نفری بھیج دو، انھیں یہ بتا دینا کہ جونہی وہ سلجوقیوں کے لشکر کو آتا دیکھیں تو قلعے سے نکل کر اور دور کا چکر کاٹ کر پہلو سے اس پر ٹوٹ پڑیں، اور سپاہی سے لے کر سالار تک کوئی ایک بھی بندہ زندہ واپس نہ جائے۔
سالار اوریزی رے میں ابومسلم رازی اور ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی کے جنازے پڑھ کر آیا تھا، اب اس کا لشکر کوچ کے لئے تیار تھا اور وہ عبدالرحمن سمیری کے انتظار میں تھا کہ اس نے آکر انہیں الوداع کہنا تھا، لیکن اسے اطلاع ملی کے سمیری کو ایک باطنی نے قتل کرکے خودکشی کرلی ہے، اس خبر سے سالار اوریزی کو بھڑک اٹھنا چاہیے تھا اور اس پر جذبات کا غلبہ ہونا ایک قدرتی بات تھی، لیکن اس نے اپنے آپ کو ذہنی اور جذباتی لحاظ سے قابو میں رکھا اور ٹھنڈے دل سے سوچا کہ اسے کیا کرنا چاہیے، اگر وہ دوڑا ہوا وہاں جا پہنچتا جہاں عبدالرحمن سمیری کو قتل کیا گیا تھا تو وہ ماتم کرنے لگ جاتا اور اس کی فوج جو کوچ کے لیے تیار تھی انتظار میں کھڑی رہتی، یا اسے واپس بلا لیا جاتا۔
سلطنت اسلامیہ کے پاسبانوں !،،،،،سالار اوریزی نے اپنی فوج سے یوں خطاب کیا،،،،، باطنی ایک اور وار کر گئے ہیں، ابھی ابھی قاصد اطلاع دے گیا ہے کہ ہمارے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری کو ایک باطنی نے اسی دھوکے سے قتل کر دیا ہے جس طرح امیر ابومسلم رازی اور ہمارے پیر و مرشد اور عالم ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی کو قتل کیا گیا تھا ،ہم اب کسی کے جنازے کے لیے نہیں رکیں گے، اب ہم ان مقتولوں کے خون کے ایک ایک قطرے کا انتقام لیں گے، اب ہمیں پیچھے نہیں دیکھنا بلکہ آگے بڑھنا ہے، اب دل میں عہد کرلو کے حسن بن صباح اوراسکے باطل فرقے کو ختم کرنا ہے یا خود ختم ہو جانا ہے، لعنت ہے اس زندگی پر جس میں ابلیس ہمارے عمائدین کا خون بہاتے پھرے، اللہ اکبر کا نعرہ لگاؤ اور آگے بڑھو اور اس جذبے سے آگے بڑھو کے ہم نے اب واپس اپنے گھروں کو نہیں آنا۔
لشکر نے جب اللہ ہو اکبر کا نعرہ لگایا تو یوں لگا جیسے آسمان کا سینہ پھٹ گیا ہو اور زمین ہل گئی ہو، اس نعرے میں ایمان کی گرج تھی۔
سالار اوریزی گھوڑے پر سوار تھا وہ لشکر کے آگے آگے نہ چلا بلکہ وہیں کھڑا رہا، راستے سے ذرا ہٹ کر زمین کا تھوڑا سا ابھار تھا اوریزی اپنا گھوڑا اس ابھار پر لے گیا اور اپنے سامنے سے گزرتے ہوئے لشکر کو دیکھنے لگا ،لشکر کلمہ طیبہ کا بلند ورد کرتا ہوا جارہا تھا،،،،،،،،، تاریخ میں ایسے اعدادوشمار نہیں ملتے کہ اس لشکر کی نفری کتنی تھی اور اس میں پیادے کتنے اور سوار کتنے تھے، بہرحال یہ صاف پتہ چلتا ہے کہ اس لشکر میں وہی جوش و خروش تھا جس کی اس صورتحال میں ضرورت تھی، پہلے بیان ہو چکا ہے کہ سالار اوریزی نے چن چن کر جزبے والے مجاہد اس لشکر میں رکھے تھے، وہ صحیح معنوں میں اسلام کے مجاہدین تھے انہیں تنخواہوں کے ساتھ بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی اور مال غنیمت کا بھی ان کے ذہنوں میں کوئی خیال نہ تھا۔ ان میں انتقام کا جذبہ تھا ،توڑے سے عرصے کی خانہ جنگی نے کئی گھر اجاڑ دیے تھے اور بھائیوں نے بھائیوں کو قتل کر دیا تھا ،ان فوجیوں کو جب پتہ چلا تھا کہ اس خانہ جنگی کے پیچھے باطنیوں کا ہاتھ تھا تو وہ نفرت اور انتقام کے جذبے سے اتنے بھر گئے تھے کہ بارود کے چلتے پھرتے پتلے بن گئے تھے، وہ اس سے کئی گنا زیادہ باطنیوں کو قتل کرنا چاہتے تھے جتنے خانہ جنگی میں اپنے آدمی مارے گئے تھے۔
سالار اوریزی کے پیچھے بارہ چودہ گھوڑسوار محافظ کھڑے تھے، اب سالاروں اور دیگر سربراہوں کی حفاظت کے انتظام پہلے سے زیادہ سخت کر دیے گئے تھے، لشکر گزرتا جارھا تھا اور سالار اوریزی اسے دیکھ رہا تھا، ایک محافظ نے دیکھا کہ ایک درویش آدمی ایک طرف سے چلا آرہا ہے اور اس کا رخ سالار اوریزی کی طرف ہے، اس محافظ نے اپنے گھوڑے کی باگ کو جھٹکا دیا اور ہلکی سے ایڑ لگائی گھوڑا اس درویش کے سامنے جا رکا۔
اس شخص کا صاف ستھرا لباس پر اثر چہرہ اور انداز بتاتا تھا کہ یہ کوئی عالم ہے اور درویش بھی، اس کے ہاتھ میں قرآن پاک اور دوسرے ہاتھ میں عصا، اس کی داڑھی خاصی لمبی تھی، اسکے چہرے پر گھبراہٹ نہیں بلکہ خود اعتمادی تھی۔
میرے راستے میں مت آ ائےسوار !،،،،،درویش نے محافظ سے کہا ۔۔۔۔میں اس راستے پر جا رہا ہوں جو اللہ کی اس مقدس کتاب نے مجھے دکھایا ہے۔۔۔۔اس نے قرآن پاک کو اوپر کرکے کہا۔۔۔ یہ قرآن مجید ہے گھوڑے سے اتر اور اس کی توہین نہ کر، مجھے سپہ سالار کے پاس جانے دے۔
 آپ کا احترام دل و جان سے کروں گا ائے عالم!،،،،،،، محافظ نے گھوڑے سے اتر کر کہا۔۔۔ لیکن آپ کی جامہ تلاشی لیے بغیر آگے نہیں جانے دوں گا ،کیا آپ نے نہیں سنا کہ یکے بعد دیگرے تین شخصیتوں کو باطنیوں نے ایسے ہی دھوکے سے قتل کردیا ہے، عالم اور درویش کا بہروپ تو کوئی بھی دھار سکتا ہے۔
میں تجھے فرائض سے کوتاہی نہیں کرنے دوں گا ۔۔۔درویش نے کہا۔۔۔ میری جامہ تلاشی لے لے، پھر بھی تجھے شک ہے کہ میں سپہ سالار کو قتل کر دوں گا میرے ہاتھ زنجیروں میں میری پیٹھ کے پیچھے باندھ دے، میں نے سپہ سالار کو اللہ کا نور دکھانا ہے، وہ ابلیس کو تہس نہس کرنے جارہا ہے میں جانتا ہوں کہ اس سپہ سالار کے پاس جسم کی طاقت بھی ہے اور دماغ کی طاقت بھی، لیکن میں اس کی روح کو تقویت دینا چاہتا ہوں،،،،،،، جا پہلے اس سے پوچھ کے مجھے اپنے پاس آنے دے گا بھی یا نہیں ۔
سالار اوریزی نے اس وقت تک اس درویش کو اور اپنے محافظ کو دیکھ لیا تھا، وہ سمجھ گیا تھا کہ یہ عالم ہے یا درویش جو کوئی بھی ہے اسے ملنا چاہتا ہے۔
انہیں آنے دو !،،،،سالار اوریزی نے اپنے محافظ سے کہا۔۔۔ اپنا فرض پورا کر لو۔
فرض سے مراد یہ تھی کہ اس کی جامہ تلاشی لے لو کہ اس کے پاس کوئی ہتھیار نہ ہو ،محافظ نے درویش کے کپڑوں کے اندر اچھی طرح دیکھ لیا اور اسے سالار اوریزی کی طرف بھیج دیا ،لیکن خود اس کے ساتھ رہا، دو اور محافظ گھوڑوں سے اتر آئے اور سالار اوریزی کے سامنے جا کھڑے ہوئے، محافظ اس طرح کھڑے تھے کہ ایک درویش کے بالکل پیچھے دوسرا اس کے ایک پہلو کی طرف اور تیسرا دوسرے پہلو کی طرف تھا۔
 میرے ہاتھ میں قرآن مجید ہے۔۔۔ درویش نے قرآن سالار اوریزی کی طرف بلند کرکے کہا۔۔۔ اگر سالار گھوڑے سے اتر آئے تو میں بھی قرآن مجید کی بے ادبی کے گناہ سے بچ جاؤں گا، قرآن مجید صرف تمہارے لئے لایا ہوں۔
سالار اوریزی گھوڑے سے اتر آیا یقیناً اسے اور اس کے محافظوں کو یہی توقع ہوگی کہ یہ درویش یا عالم اچھی نیت سے نہیں آیا، باطنیوں نے پہلے تین عمائدین کو اسی طرح قتل کیا تھا اور اب یہ سالار اوریزی کو قتل کرنے آیا ہے، جب اوریزی گھوڑے سے اتر کر اس کے سامنے کھڑا ہوا تو تینوں محافظ درویش کے اور زیادہ قریب ہوگئے اور ان کی نظریں اس کے ہاتھوں پر جم گئیں۔
میرے لیے کیا حکم ہے عالم ؟،،،،،سالار اوریزی نے پوچھا۔
حکم دینے والی ذات صرف اللہ کی ہے۔۔۔۔ درویش نے کہا۔۔۔مجھے کچھ نظر آیا تھا وہ تجھے دکھانے آگیا ،تیری جسمانی اور تیری دماغی قوت پر مجھے کوئی شک نہیں ،لیکن تیری روح کو تقویت کے لئے کچھ دینا ہے، میں تجھے قتل کرنے نہیں آیا دیکھ لے میرے ہاتھ میں قرآن مجید ہے اور دوسرے ہاتھ میں عصا، اگر میں سپاہی ہوتا تو آج تیرے ساتھ جاتا لیکن میری زندگی کا راستہ کوئی اور ہے، میں نے تیری فتح کے لیے رات بھر  چلّہ کاٹا ہے ،اللہ نے کرم کیا اور مجھے روشنی کی ایک کرن دکھا دی وہ تیری روح میں ڈالنے آیا ہوں،،،،،، تیرا پورا نام کیا ہے؟ 
ابن ہاشم اوریزی۔۔۔۔ سالار اوریزی نے جواب دیا ۔
اور تو جا کہاں رہا ہے؟،،،،، درویش نے پوچھا۔ قلعہ ملاذخان۔۔۔۔۔سالار اوریزی نے جھوٹ بولا۔
درویش زمین پر بیٹھ گیا وہاں زمین دھول والی تھی، اس نے سالار اوریزی کو بھی اشارہ کرکے بٹھا لیا پھر زمین پر دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی سے خاصا بڑا ستارہ بنایا، ایک خانے میں اوریزی کا پورا نام لکھا اور اس کے بالمقابل خانے میں ملا ذخان لکھا اس کے بعد اس نے قرآن مجید کھولا اور تھوڑی سی ورق گردانی کرکے ایک آیت پر انگلی رکھی اور وہ آیت بلند آواز سے پڑھی، قرآن مجید بند کیا آسمان کی طرف دیکھا اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑایا اور نیچے ستارے کو دیکھا ،اس کے تمام خانوں میں کچھ نشان سے لگائے اور پھر سالار اوریزی کے چہرے پر نظریں گاڑ دیں۔
تیرے لشکر نے پہلے دو جگہوں پر شکست کا سامنا کیا ہے ۔۔۔درویش نے کہا۔۔۔۔ اب تو فتحیاب لوٹے گا ،درویش نے قرآن اسی جگہ سے کھولا جہاں سے پہلے کھولا تھا اور قرآن مجید اوریزی کے ہاتھوں میں دے کر ایک آیت پر انگلی رکھی اور کہا یہ پڑھ اور اسے زبانی یاد کر لے۔
سالار اوریزی نے وہ آیت پڑھی اور پھر چند مرتبہ پڑھ کر کہا کہ یہ اسے یاد ہو گئی ہے۔
اللہ بڑا یا ابلیس؟،،،،،، درویش نے پوچھا ۔
اللہ !،،،،،سالار اوریزی نے جواب دیا۔
جا،،،،،،، اللہ تیرے ساتھ ہے۔۔۔ درویش نے اٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ تو نے کہا ہے قلعہ ملاذ خان جا رہا ہے، اب یہ خیال رکھنا کہ راستے میں کسی اور طرف کا رخ نہ کر لینا ، قلعہ ملاذ خان کو ہی محاصرے میں لینا اور اس قلعے کے دروازے تیرے لئے کھل جائیں گے،،،،،،،، یہ خیال رکھنا کوئی ایک بھی آدمی زندہ نہ رہے ۔
ایسا نہیں ہوگا ائے عالم!،،،،، سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ میں نے قلعہ ملاذخان کا قصد کیا ہے اور وہی میری منزل ہے۔
درویش نے قرآن مجید سالار اوریزی کے سر سے ذرا اوپر ایک چکر میں گھمایا ۔
گھوڑا تیرا منتظر ہے ۔۔۔درویش نے کہا۔۔۔ یہی گھوڑا تجھے فتحیاب واپس لائے گا ،میں تجھے اللہ کے سپرد کرتا ہوں اسی کی ذات تیری حامی وناصر ہے۔
 سپہ سالار اوریزی گھوڑے پر سوار ہوا گھوڑا لشکر کی طرف موڑا لشکر آگے نکل گیا تھا، اب اس کے سامنے سے وہ گھوڑا گاڑیاں بیل گاڑیاں اور اونٹ گزر رہے تھے جن پر لشکر کا سامان وغیرہ لدا ہوا تھا اوریزی نے گھوڑے کو ایڑ لگائی گھوڑا بڑی اچھی چال دوڑنے لگا،اس کے محافظ اس کے پیچھے پیچھے جارہے تھے ان محافظوں کا کماندار اپنے گھوڑے کو سالار اوریزی کے گھوڑے کے پہلو میں لے گیا۔
سالار محترم !،،،،،کماندار نے پوچھا۔۔۔ کیا ہم واقعی قلعہ ملاذخان جا رہے ہیں، آپ نے ہمیں قلعہ وسم کوہ کے متعلق بتایا تھا اور یہی بتاتے رہے ہیں کہ وسم کوہ کے قلعے کی ساخت کیا ہے اور اس کے ارد گرد کیا ہے، اس کے دروازے کیسے ہیں اور ہم اس قلعے کو کس طرح سر کریں گے، قلعہ ملاذخان سے تو ہمارا لشکر واقف ہی نہیں۔
 جہاں تک اس درویش کا تعلق ہے ہم قلعہ ملاذخان ہی جارہے ہیں۔۔۔ سالار اوریزی نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ،،،،اور جہاں تک میرا تعلق ہے میں قلعہ وسم کوہ جا رہا ہوں۔
محافظوں کا کماندار کچھ اس طرح اپنا گھوڑا پیچھے لے آیا جیسے وہ اپنے سپہ سالار کی بات سمجھ ہی نہ سکا اور سمجھنے کی کوشش کر رہا ہو۔
 درویش سالار اوریزی کو خدا حافظ کہہ کر واپس چلا گیا اور اس نے اپنی چال میں کوئی فرق نہ آنے دیا، وہ شہر میں داخل ہوا اور پھر ایک گلی میں گیا اور ایک مکان کے دروازے میں داخل ہوگیا، اندر چار پانچ جواں سال آدمی بیٹھے ہوئے تھے ۔
وہ آ گیا ۔۔۔ایک آدمی نے کہا۔۔۔ پھر درویش سے پوچھا کیا خبر لائے؟
 ملاذ خان ہی جارہا ہے۔۔۔ درویش نے بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ تصدیق کر آیا ہوں اب ایک آدمی فوراً چل پڑے اور جس قدر جلدی ہو سکے قلعہ الموت پہنچے اور شیخ الجبل کو بتائے کہ سالار اوریزی اپنے لشکر کے ساتھ قلعہ ملاذخان کو ہی کوچ کر گیا ہے، شیخ الجبل نے حکم دیا تھا کہ آخری اطلاع اسے بہت جلدی ملنی چاہیے۔
 میں تیار ہوں ۔۔۔ایک جواں سال آدمی نے اٹھ کر کہا ۔۔۔گھوڑا بھی تیار ہے میں تمہارے انتظار میں تھا کوئی اور اطلاع ؟
اور کچھ نہیں درویش نے کہا ۔
وہ جواں سال آدمی بڑی تیزی سے وہاں سے چلا گیا ،اس کا گھوڑا تیار تھا وہ کود کر گھوڑے پر سوار ہوا اور نکل گیا۔
 اس وقت عام خیال یہ تھا کہ اس شہر میں کسی باطنی کو زندہ نہیں رہنے دیا گیا، لیکن حسن بن صباح کا بھیجا ہوا یہ گروہ زندہ وسلامت تھا اور پوری طرح سرگرم تھا،انہوں نے اپنے اوپر ایسا دبیز پردہ ڈال رکھا تھا کہ ان پر کسی کو شک ہوتا ہی نہیں تھا،یہ سالار اوریزی کی گہری نظر تھی جس نے اس درویش کی اصلیت بھانپ لی تھی، ورنہ وہ کون مسلمان ہے جو قرآن سے متاثر نہیں ہوتا، سالار اوریزی نے اللہ کا شکر ادا کیا تھا کہ یہ درویش اس کے پاس آ گیا تھا، شکر اس لئے ادا کیا کہ حسن بن صباح کو مصدقہ اطلاع مل جائے گی کہ یہ لشکر قلعہ ملاذ خان کو ہی جا رہا ہے۔
راستے میں صرف ایک پڑاؤ ہوگا۔۔۔سالار اوریزی نے اپنے نائبین کو حکم دیا۔۔۔ یہ پڑاؤ بھی ایک آدھ گھڑی کے لئے ہوگا پوری رات کے لیے نہیں، باقی رات کوچ میں گزرے گی اور ہمیں بہت ہی جلدی وسم کوہ پہنچنا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مزمل آفندی اور بن یونس زخمی حالت میں سلطان کے محل کے ایک کمرے میں پڑے ہوئے تھے، ان کی جان تو بچ گئی تھی لیکن زخم زیادہ تھے اور خون اتنا بہ گیا تھا کہ ان کا زندہ رہنا ایک معجزہ تھا ،گو خطرہ ٹل گیا تھا لیکن ابھی تک دونوں بستر سے اٹھنے کے قابل نہیں ہوئے تھے، اچانک شمونہ بڑی تیزی سے دوڑتی ہوئی ان کے کمرے میں داخل ہوئی۔
مزمل !،،،،،،شمونہ نے گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔ وزیراعظم عبدالرحمن سمیری بھی قتل ہوگئے ہیں،،،،، لاش لائی جا رہی ہے۔
مزمل اور بن یونس ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھے اور ان کے ساتھ ہی دونوں کی کربناک آہیں نکل گئیں اور وہ پھر لیٹ گئے، اس خبر پر تو وہ اٹھ کر باہر نکل جانا چاہتے تھے لیکن زخموں نے انہیں بیٹھنے بھی نہ دیا اور وہ یوں لیٹ گئے جیسے گھائل ہو کر گر پڑے ہوں، ان دونوں نے شمونہ سے پوچھنا شروع کر دیا کہ سمیری کہاں قتل ہوا ہے؟ کس طرح قتل ہوا ہے؟ کس نے قتل کیا ہے؟،،،، شمونہ نے انہیں تفصیل سنائی۔
اب میں اس شہر میں نہیں رہوں گی۔۔۔ شمونہ نے غصے اور جذبات کی شدت سے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ میں قلعہ الموت جاونگی اور حسن بن صباح کو اپنے ہاتھوں قتل کرونگی، تم دونوں کو اب گھروں میں بیٹھی ہوئی عورتوں کی طرح رونا نہیں چاہیے ،،،،،،شمونہ نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔۔۔اب ہمیں کچھ کرنا پڑے گا ، سالار اوریزی ایک لشکر لے کر قلعہ وسم کوہ کا محاصرہ کرنے چلے گئے ہیں، لیکن میں کہتی ہوں کہ ایک قلعہ سر کرلینے سے کیا حاصل ہو گا ،ہوسکتا ہے یہ قلعہ سر ہی نہ ہو سکے، پہلے ہمارے لشکر شکست کھاکر آ چکے ہیں۔
ہم سمیری کی شہادت پر آنسو نہیں بہا رہے شمونہ!،،،،، مزمل نے کہا۔۔۔ اپنی اس حالت پر رو رہے ہیں کہ جب ہمیں میدان میں ہونا چاہیے تھا ہم یہاں اس قابل بھی نہیں کہ اپنا وزن بھی سہار سکیں،،،،،، اور تم اتنی زیادہ جذباتی نہ ہو جاؤ کہ عقل سے کام لینا بھی چھوڑ دو، کیا میں نے تمہارے ساتھ عہد نہیں کر رکھا تھا کہ ہم نے حسن بن صباح کو قتل کرنا ہے۔
ہمیں اتنا سا ٹھیک ہونے دو کے چل پھر سکیں۔۔۔ بن یونس نے کہا۔۔۔ حسن بن صباح ہمارے ہاتھوں مرے گا۔
شمونہ ان کے پاس بیٹھ گئی اور وہ بہت دیر یہی منصوبے بناتے رہے کہ حسن بن صباح کو کس طرح قتل کیا جا سکتا ہے۔
تم دونوں نے دیکھ لیا ہے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ باطنی اور حسن بن صباح کے فدائی زمین کے اوپر نہیں زمین کے نیچے ملتے ہیں، وہ میدان میں لڑنے والے لوگ نہیں بلکہ دوسروں کو میدان میں لا کر ایک دوسرے سے لڑا سکتے ہیں، اور انہوں نے یہ کام کر دکھایا ،میں حسن بن صباح کے پاس رہی ہوں ،مزمل بھی ان کے یہاں رہ چکا ہے لیکن جو میں جانتی ہوں وہ مزمل تم بھی نہیں جانتے، ہمیں زمین کے نیچے نیچے سے حسن بن صباح تک پہنچنا ہے۔
یہ باتیں ہیں ان باتوں میں ایک عزم تھا ،عہد تھا، اور یہ ان کا ایمان تھا، لیکن اس وقت حقیقت یہ تھی کہ حسن بن صباح کا فرقہ آکاس بیل کی طرح پھیلتا ہی چلا جا رہا تھا ،اور یوں لگتا تھا جیسے اسلام کا ہرابھرا شجر سوکھ جائے گا، اور اس کی نشوونما رک جائے گی۔
سلطان کے محل کی سرگوشیاں بھی قلعہ الموت میں حسن بن صباح کو سنائی دیتی تھیں۔
حسن بن صباح کو جب یہ مصدقہ اطلاع ملی کے سالار اوریزی اپنے لشکر کو قلعہ ملاذ خان کے محاصرے کے لیے لے گیا ہے، اس وقت سالار اوریزی وسم کوہ کو محاصرے میں لے چکا تھا ،حسن بن صباح اس اطلاع پر ذرا سا بھی پریشان نہیں ہوا اس نے قلعہ ملاذ خان کے دفاع کا انتظام پہلے ہی اتنا مضبوط کردیا تھا کہ سالار اوریزی جتنا لشکر اپنے ساتھ لے گیا تھا اس سے دگنا لشکر بھی قلعہ ملاذ خان کو فتح نہیں کر سکتا تھا، اس نے وہاں ایک ہزار جانباز بھیج دیے تھے ،اس کے علاوہ اس نے قلعہ ملاذ خان سے کچھ دور دور تین جگہوں پر گھات کا بندوبست بھی کر دیا تھا۔
 سالار اوریزی کو توقع تھی کہ وہ قلعہ وسم کوہ کو بڑی آسانی سے لے لے گا ،لیکن اس نے جب محاصرہ کیا تو قلعے کی دیواروں پر ہزاروں انسانوں کا ہجوم نظر آنے لگا، اس ہجوم نے تیروں کا مینہ برسا دیا ،سالار اوریزی اپنے لشکر کو پیچھے ہٹانے پر مجبور ہوگیا، اور قلعہ توڑنے کے منصوبے سوچنے لگا، وہ اتنا جان گیا کہ یہ قلعہ آسانی سے نہیں لیا جا سکے گا ،اور محاصرہ طول کھینچے گا۔
مستند تاریخوں میں آیا ہے کہ حسن بن صباح کا انداز ایسا تھا جیسے اسے کوئی غم نہیں کہ کوئی قلعہ ہاتھ سے نکل جائے گا، اس نے اپنے خاص آدمیوں سے کہا کہ اپنے دشمن کے مذہبی اور معاشرتی سربراہوں کو ختم کردو، مورخ لکھتے ہیں کہ اسے یہ توقع ذرا کم ہی تھی کہ اس کے فدائی ابومسلم رازی اور وزیراعظم عبدالرحمن سمیری جیسے اہم ترین سربراہوں کو اتنی آسانی سے قتل کر دیں گے، فدائیوں نے یہ کارنامہ کر دکھایا تو حسن بن صباح نے حکم دیا کہ یہی کام جاری رکھو اور دشمن کے کسی بھی حکمران کو اور کسی عالم دین کو زندہ نہ رہنے دو،،،،، حسن بن صباح اپنے آپ کو مسلمان کہتا تھا لیکن وہ جب دشمن کا لفظ استعمال کرتا تھا تو اس سے اس کی مراد مسلمان ہی ہوتے تھے، وہ کسی کے قتل کا حکم دیتا تو اس انداز سے بولتا تھا جیسے اس کی زبان سے خدا بول رہا ہو، اس کے پیروکار مان گئے تھے کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور اسے ہر حکم خدا کی طرف سے ملتا ہے۔
ابومسلم رازی ، ابوالمظفر مجید فاضل اصفہانی اور عبدالرحمن سمیری کے قتل کے فوراً بعد جو اہم ترین شخصیت باطنیوں کے ہاتھوں قتل ہوئیں اگر قارئین کو ہر قتل کی تفصیل سنائی جائے تو یوں نظر آئے گا جیسے ایک ہی واردات ایک ہی جیسے الفاظ میں دہرائی جا رہی ہے، باطنیوں کا طریقہ قتل ایک ہی جیسا تھا، وہی طریقہ تھا جس سے ابومسلم رازی اور دوسرے سربراہوں کو قتل کیا گیا تھا ،مشہورومعروف تاریخ نویس ابن جوزی نے لکھا کے چند دنوں میں ہی حسن بن صباح کے فدائیوں نے حاکم دیار بقر اتامک مؤدود کو قتل کیا ،اور اس کے فورا بعد ابوجعفر شاطبی رازی" ابوعبید مستوتی" ابوالقاسم کرخی" اور ابوالفرح قراتکین کو قتل کیا، کچھ دنوں کا وقفہ آیا اور پھر ابلیس کے فدائیوں نے قاضی کرمان امیر بلکابک سرامر اصفہانی اور قاضی عبداللہ اصفہانی کو قتل کیا، قتل کی ہر واردات میں طریقہ قتل ایک ہی استعمال کیا گیا، وہ اس طرح کہ فدائی بھیس بدل کر کسی بہانے مقتول تک رسائی حاصل کرتا اور اچانک خنجر نکال کر اسے قتل کر دیتا بیشتر اسکے کہ اسے پکڑا جاتا وہ خود کشی کر لیتا۔
اس کے بعد باطنی فدائیوں نے ایک طریقہ اور اختیار کیا ،دو مورخوں نے لکھا ہے کہ حسن بن صباح کے فدائیوں نے سلجوقی فوج کے سالاروں اور نائب سالاروں کو یوں وارننگ دی کہ ان کے گھروں میں رقعے پھینک دیے، جن پر تحریر تھا کہ شیخ الجبل امام حسن بن صباح کی اطاعت قبول کر کے اس کے ہاتھ پر بیعت کر لو ورنہ تمہارا حشر وہی ہوگا جو پہلے کچھ حاکموں امیروں اور علماء دین کا کیا جاچکا ہے، ظاہر ہے کہ کسی بھی سالار یا ماتحت کماندار نے حسن بن صباح کی اطاعت قبول نہیں کرنی تھی، ان سب نے یہ تحریریں جو ان کے گھروں میں پھینکی گئی تھی سلطان برکیارق کو دکھائیں۔
ان ابلیسوں کی دھمکیوں کو کھوکھلے الفاظ نہ سمجھنا۔۔۔ سلطان برکیارق نے سالاروں سے کہا۔۔۔ ایک احتیاط یہ کرو کہ کوئی سالار اکیلا کہیں بھی نہ جائے اس کے ساتھ تین چار محافظ ہونے چاہیے، رات کو اپنے گھروں کے اردگرد پہرے کھڑے کر دو، اپنے آپ کو کسی بھی وقت غیر مسلح نہ رکھو،،،،،، دوسرا طریقہ یہ ہے کہ ہم ان کے قلعوں پر قبضہ کریں گے، تم جانتے ہوکہ سالار اوریزی وسم کوہ گیا ہوا ہے، اس کے ساتھ ہی ہم نے باطنیوں کا جو قتل عام کروایا ہے وہ کافی نہیں، یہ تحریر جو تم سب تک پہنچائی گئی ہے ثبوت ہے کہ باطنی یہاں موجود ہیں ،اور زمین کے نیچے نیچے پوری طرح سرگرم ہیں، میرے مخبر اپنا کام کر رہے ہیں تم اپنے مخبروں کو سرگرم کردو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تاریخوں میں واضح الفاظ میں لکھا ہے کہ تمام سالاروں ان کے نائبین اور اہم قسم کے ماتحت کمانداروں نے اپنے آپ کو رات کے وقت بھی مسلح رکھنا شروع کر دیا ،انہوں نے اپنے گھروں پر پہرے دار مقرر کر دیئے جو رات بھر مکانوں کے اردگرد گھومتے پھرتے رہتے تھے، سالاروں نے اپنے مخبر سارے شہر میں پھیلا دیے تھے۔
پچھلے کسی سلسلے میں ایک سپہ سالار ابوجعفر حجازی کا تفصیلی ذکر آیا ہے، مقتولین کی مندرجہ بالا فہرست میں بھی ایک ابو جعفر کا نام شامل ہے ،یہ ابوجعفر کوئی عالم دین تھا اور حسن بن صباح کے خلاف عملی طور پر سرگرم رہتا تھا ،ایک فدائی نے اس کا مرید بن کر اسے قتل کر دیا تھا ،اب میں آپ کو جس ابوجعفر حجازی کا ذکر سنا رہا ہے ہوں یہ سلطان کی فوج کا یعنی سلطنت سلجوقیہ کے لشکر کا سپہ سالار تھا ،پہلے بیان کر چکا ہوں کہ وہ سلطان برکیارق کا خوشامدی تھا اور اس کا ہر غلط حکم بھی بسروچشم مانتا اور اس کی تعمیل کرتا تھا، سالار اوریزی کے ساتھ اس کی خاص دشمنی تھی اور اوریزی کو اس نے گرفتار تک کرلیا تھا ،یہ ساری تفصیل پہلے چند سلسلوں میں سنائی جا چکی ہے۔
سلطان برکیارق کو اللہ تبارک وتعالی نے روشنی دکھائی اور وہ راہ راست پر آ گیا تو اس نے وہ اہمیت جوکبھی سپہ سالار حجازی کو دیا کرتا تھا سالار اوریزی کو دینی شروع کر دی تھی۔
سلطان محترم !،،،،،ایک روز خانہ جنگی کے کچھ دن بعد سپہ سالار حجازی سلطان برکیارق کے یہاں گیا اور کہا۔۔۔ گستاخی کی معافی پہلے ہی مانگ لیتا ہوں، ایک بات جو دل میں کھٹک رہی ہے وہ ضرور کہوں گا،،،،،، ایک وقت تھا کہ آپ چھوٹی سے چھوٹی بات سے لے کر سلطنت کے بڑے سے بڑے مسئلے کے بارے میں میرے ساتھ بات کرتے اور میرے مشورے طلب کیا کرتے تھے، مگر میں اب وہ وقت دیکھ رہا ہوں کہ آپ نے مجھے بالکل ہی نظرانداز کردیا ہے، اور یوں پتہ چلتا ہے کہ سالار اوریزی نہ ہوا تو سلطنت سلجوقیہ کی بنیادیں ہل جائیگی۔
 محترم ابو جعفر!،،،،، سلطان برکیارق نے کہا۔۔۔ آپ میرے والد مرحوم کے وقتوں کے سالار ہیں، میرے دل میں آپ کا درجہ روحانی باپ جیسا ہے، آپ کا شکوہ بجا ہے کہ میں اب آپ کو وہ قدرومنزلت نہیں دیتا جو کسی وقت دیا کرتا تھا ،آپ نے دل کی بات کہی ہے اور صاف صاف کہی ہے اور یہ بات مجھے پسند ہے ،ایسی ہی میں دل کی گہرائیوں سے بات نکالوں گا اور آپ سے کروں گا،،،،،،،، آپ جس وقت کی بات کرتے ہیں اس وقت میں گمراہ ہوگیا تھا یا گمراہ کردیا گیا تھا، آپ کو تو معلوم ہے کہ ایک حسین و جمیل اور پرکشش لڑکی نے مجھ پر اپنے حسن و جوانی کا جادو اور حشیش کا نشہ طاری کر دیا تھا ،اس وقت آپ نے مجھے جھنجوڑا نہیں بیدار نہیں کیا بلکہ میری خوشامد کی اور میرا ہر وہ حکم بھی بسروچشم مانا جو سلطنت کے مفاد کے خلاف تھا، اللہ نے مجھے اور میری روحانی قوتوں کو بیدار کردیا تو مجھے پتا چلا کہ یہ سیاہ اور وہ سفید ہے، یہ غلط اور وہ صحیح ہے ،اور اس وقت مجھے پتہ چلا کہ مجھے گمراہ کیے رکھنے میں آپ کا بھی ہاتھ ہے، میرے دل میں اگر آپ کا احترام نہ ہوتا تو میں کبھی کا آپ کو جلاد کے حوالے کر چکا ہوتا ،میں آپ سے توقع رکھوں گا کہ میرے دل میں آپ اپنا یہ احترام قائم رکھنے کی کوشش کریں گے، میں آپ کو صرف ایک بات سمجھانا چاہتا ہوں جو آپ فوراً سمجھ جائیں گے، وہ یہ کہ دل میں خوشنودی اللہ کی رکھیں اپنے حاکم کی یا اپنے سلطان کی نہیں ،کیا آپ نے یہ حدیث مبارکہ نہیں سنی کہ "بہترین جہاد جابر سلطان کے منہ پر کلمہ حق کہنا ہے" مگر آپ نے جابر سلطان کو خوش رکھنے کے جتن کئے اور اللہ کی ذات باری کو نظرانداز کیے رکھا ،یہ گناہ تھا میرے بزرگوار!،،،، 
 کیا آپ میرے بدلے ہوئے کردار کو قبول کریں گے؟،،،،، سپہ سالار ابوجعفر حجازی نے کہا۔۔۔ میں آپ کا یہ الزام تسلیم کرتا ہوں کہ میں دیکھ رہا تھا کہ آپ پر کون سا جادو چلایا جارہا تھا ،لیکن یہ میری لغزش تھی یا گناہ تھا کہ میں نے آنکھیں بند کئے رکھیں، اور آپ کی خوشامد میں لگا رہا، لیکن سلطان محترم اس خانہ جنگی نے اور اس خون کے دریا نے جو ہم لوگوں نے ایک دوسرے کا بہایا ہے میری روح کو اسی طرح بیدار کردیا ہے جس طرح آپ کی روح بیدار ہوئی ہے، مجھے موقع دیں میں اب آپ کو نہیں اللہ کی ذات باری کو راضی کروں گا۔
اس کے بعد سپہ سالار حجازی نے جیسے عہد کرلیا ہو کہ وہ کسی باطنی کو زندہ نہیں چھوڑے گا، باطنیوں کا جو قتل عام کیا گیا تھا اس میں سپہ سالار حجازی کا خاصہ ہاتھ تھا اس میں قومی جذبہ پیدا ہو گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
 ابوجعفر حجازی سپہ سالار تھا ،اور وہ جس مکان میں رہتا تھا وہ چھوٹا سا ایک محل تھا، وہاں دو تین نوکر تھے، ایک ملازمہ تھی، اور دو تین سائیس تھے، حجازی نے بھی اپنی حفاظت کے انتظامات بڑے سخت کر دیے تھے اور رات کے وقت دو چوکیدار اس کے مکان کے اردگرد گشت کرتے رہتے تھے، اس نے فوج کی تربیت یافتہ مخبروں کو سارے شہر میں پھیلا رکھا تھا اور انہیں سختی سے کہا تھا کہ زمین کے نیچے سے بھی باطنیوں کو نکال کر لاؤ اور میرے سامنے کھڑے کر دو، اس نے کئی ایک باطنیوں کو اپنے سامنے قتل کروایا تھا ،لیکن باطنی جو بچ گئے وہ زمین کے نیچے چلے گئے تھے، حجازی اب انہیں زمین کے نیچے سے نکالنے کے لیے سرگرم ہوگیا تھا۔
 ایک روز اس کا ایک مخبر اس کے پاس آیا اور بتایا کہ اس کے سائیسوں میں ایک سائیس مشکوک ہے، اس مخبر کو تین آدمیوں نے بتایا تھا کہ یہ سائس باطنی معلوم ہوتا ہے ،ان آدمیوں نے اسکے متعلق کچھ اور باتیں بھی بتائی تھیں، وہاں یہ عالم تھا کہ زیادہ گہرائی سے تحقیقات کی ہی نہیں جاتی تھی، بہت سے آدمی تو محض شک میں مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے تھے، سپہ سالار حجازی نے اپنے اس مخبر سے کہا کہ وہ اس سائیس کے متعلق کچھ اور شہادت حاصل کرنے کی کوشش کرے، اس کے ساتھ ہی حجازی نے اپنے ذاتی اصطبل کے دو سائیسوں کو بلا کر کہا کہ وہ اس سائیس پر نظر رکھیں اور دیکھیں کہ وہ جب گھر جاتا ہے تو اس کے گھر کے اندر کیا ہوتا ہے، اس کا مطلب یہ تھا کہ یہ بھی معلوم کیا جائے کہ اس کے گھر کا ماحول کیسا ہے کہیں ایسا تو نہیں کہ اس کا سارا کنبہ باطنی ہو ،یہ سائیس حجازی کا ذاتی سائیس تھا ،اس کے اصطبل میں چھ سات گھوڑے تھے جن میں ایک گھوڑا اسے بہت ہی پسند تھا اور وہ عموما اس پر ہی سواری کیا کرتا تھا، وہ سائیس اس گھوڑے پر مقرر تھا اور اس پر حجازی کو پورا پورا بھروسہ تھا ،وہ تجربےکار سائیس تھا، اس سائیس کا باطنی ہونا کوئی عجوبہ نہیں تھا، وہاں تو کوئی بھی شخص باطنی ہوسکتا تھا ،حسن بن صباح کا طلسم دور دور تک اور کونوں کھدروں تک بھی پہنچ گیا تھا۔
 حجازی اصطبل میں اتنا زیادہ نہیں جایا کرتا تھا کبھی کبھی جا نکلتا اور گھوڑوں کو دیکھ کر واپس آجاتا تھا، اس نے اپنی حفاظت کا اتنا سخت انتظام کر رکھا تھا کہ وہ اصطبل تک جاتا تو بھی اس کے ساتھ دو محافظ ہوتے تھے، باہر نکلتا تو کئی محافظ اس کے آگے پیچھے دائیں اور بائیں اس کے ساتھ چلتے تھے، کوئی اجنبی اس کے قریب نہیں آسکتا تھا، اسے قتل کرنا بظاہر ممکن نظر نہیں آتا تھا ،ان حالات میں جب اسے یہ اطلاع دی گئی کہ اس کا ذاتی سائیس باطنی ہے اور وہ کسی بھی وقت وار کر سکتا ہے وہ چوکس ہوگیا ،اس نے اپنی حفاظت کے جو انتظامات کیے تھے ان میں ایک یہ بھی تھا کہ گھر کا کوئی ملازم اور سائیس اپنے پاس کوئی ہتھیار نہیں رکھ سکتا، بلکہ چھوٹا سا ایک چاقو بھی رکھنے کی اجازت نہیں تھی۔
 سائیس جب صبح اصطبل میں آتے تھے تو پہنے ہوئے کپڑے اتار کر کام والے کپڑے پہن لیا کرتے تھے، ایک روز سپہ سالار حجازی تیار ہو کر باہر نکلا ہی تھا کہ ایک آدمی دوڑا آیا وہ اس کے گھر کا ہی ایک خاص ملازم تھا، بلکہ معتمد خاص تھا، اس نے حجازی کو بتایا کہ اس کا ذاتی سائیس آج پکڑا گیا ہے ،بتایا یہ گیا کہ وہ اپنے کپڑے اتار کر الگ رکھ رہا تھا تو ایک سائیس نے اس کے کپڑوں میں خنجر دیکھ لیا۔
محترم سپہ سالار!،،،،، اس معتمد ملازم نے کہا۔۔۔ اسے ابھی پتہ نہیں چلنے دیا گیا کہ اس کا خنجر دیکھ لیا گیا ہے، آپ خود چل کر دیکھیں۔
سپہ سالار ابوجعفر حجازی اسی وقت ملازم کے ساتھ چل پڑا، اصطبل میں جا کر اس نے اپنے سائیس کو بلایا اور اسے کہا کہ اپنا خنجر اس کے حوالے کردے ۔
خنجر ؟،،،،،سائیس نے حیرت زدگی کی کیفیت میں پوچھا۔۔۔ محترم سپہ سالار کون سا خنجر؟ کیسا خنجر؟
وہ خنجر جو تم نے اپنے کپڑوں میں چھپا رکھا ہے۔۔۔ حجازی نے کہا۔۔۔ خود ہی وہ خنجر لے آؤ۔
میں آپ کا بڑا ہی پرانا خادم ہوں سپہ سالار!،،،،، سائیس نے کہا۔۔۔ آپ کا حکم ہے کہ کوئی سائیس کیا دوسرا ملازم اپنے پاس کوئی ہتھیار نہیں رکھ سکتا ،مجھے اپنے پاس خنجر رکھنے کی کیا ضرورت تھی، اگر آپ کو شک ہے تو میں آپ کو بتا دیتا ہوں کہ میرے کپڑے کہاں رکھے ہیں خود چل کر دیکھ لیں۔ 
سپہ سالار حجازی اس کے ساتھ چل پڑا ،سائیس نے اپنے کپڑے اس کمرے میں رکھے ہوئے تھے جہاں باقی سائیس اپنے کپڑے اتار کر رکھتے اور کام والے کپڑے پہنتے تھے، سائیس نے اپنے کپڑوں کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ وہ اس کے کپڑے پڑے ہیں دیکھ لئے جائیں۔
حجازی خود گیا اور اس کے کپڑے اٹھائے تو اس میں سے ایک خنجر نکلا، حجازی نے خنجر نیام سے نکال کر دیکھا اس نے حسن بن صباح کے فدائین کے خنجر دیکھے تھے، غالبا ان پر کوئی نشان ہوتا ہوگا جو حجازی نے دیکھ لیا، اس سے اسے یقین ہو گیا کہ اس کا سائیس باطنی ہے اور آج وہ اسے قتل کرنے کے لیے خنجر لایا تھا۔
سائیس نے چیخنا چلانا شروع کر دیا کہ یہ خنجر اسکا نہیں، نہ وہ اسے اپنے ساتھ لایا تھا، اس نے یہ بھی کہا کہ کسی دشمن نے یہ خنجر اس کے کپڑوں میں رکھ دیا ہے ۔
یہاں تمہارا دشمن کون ہو سکتا ہے؟،،،،حجازی کے ایک محافظ نے اس سے پوچھا ۔۔۔۔کیا تم اپنا کوئی دشمن دکھا سکتے ہو؟ 
سائیس نےاب رونا شروع کردیا اور وہ حجازی کے قدموں میں گر پڑا اور اس کے پیروں پر ماتھا رگڑنے لگا، وہ رو رو کر کہتا تھا کہ یہ خنجر اسکا نہیں، لیکن حجازی اسے بخشنے پر آمادہ نظر نہیں آتا تھا۔
حجازی نے خنجر اپنے ایک محافظ کو دیا اور اشارہ کیا، محافظ اشارہ سمجھ گیا وہ سائیس کی طرف بڑا سائیس کے چہرے پر خوف و ہراس کے تاثرات نمودار ہوئے اور اس کی آنکھیں اور زیادہ کھل گئیں ،محافظ نے دو تین قدم تیزی سے اٹھائے اور یکے بعد دیگرے سائیس کے سینے میں خنجر کے دو وار کئے سائیس گرا اور ذرا سی دیر بعد اس کی آنکھیں پتھرا گئیں، حجازی نے کہا کہ اس کی لاش اس شہر سے دور جنگل میں پھینک دی جائے۔
دو دن گزرے ہوں گے کہ سپہ سالار حجازی کو اطلاع دی گئی کہ ایک آدمی اسے ملنا چاہتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ تجربے کار سائیس ہے اور کچھ عرصہ فوج میں گھوڑسوار کی حیثیت سے ملازمت بھی کر چکا ہے، حجازی کو ایک سائیس کی ضرورت تھی اس لئے اس نے اس آدمی کو بلا لیا ،محافظوں نے اس آدمی کی جامع تلاشی اچھی طرح کی اور حجازی کے پاس لے گئے، حجازی نے اس سے پوچھا کہ وہ کتنا کچھ تجربہ رکھتا ہے۔
اس شخص نے حجازی کو بتایا کہ وہ فوج میں گھوڑسوار کی حیثیت سے ملازمت کر چکا ہے اور اس نے دو لڑائیاں بھی لڑی تھی، اس نے اپنے جسموں پر تلواروں کے زخموں کے دو نشان دکھائے اور کہا کہ ان زخموں کی وجہ سے وہ فوج کے قابل نہیں رہا تھا، لیکن سائیس کا کام خوش اسلوبی سے کرسکتا ہے، مختصر یہ کہ اس شخص نے حجازی کو قائل اور متاثر کرلیا اور حجازی نے حکم دیا کہ اسے اصطبل میں رکھ لیا جائے۔
اس نئے سائیس نے اتنا اچھا رویہ اختیار کیا کہ اصطبل کے دوسرے سائیس اس کی تعریفیں کرنے لگے، وہ خوش طبع خوش اخلاق اور حلیم قسم کا آدمی تھا، ہر کسی کے ساتھ پیار سے بات کرتا تھا اور اپنے کام میں تو وہ بہت ہی ماہر تھا۔
دو تین دنوں بعد سپہ سالار حجازی اصطبل میں گھوڑے دیکھنے کے لیے گیا اس نے اپنا وہ گھوڑا دیکھا جو اس کا منظور نظر تھا ،اس نے اس گھوڑے کی دیکھ بھال بڑی محنت سے کی تھی، حجازی نے اس گھوڑے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا ،نیا سائیس اس کے قریب آکر کھڑا ہوگیا اور اس گھوڑے کی صفات بیان کرنے لگا۔ اچانک سائیس نے اپنے کپڑوں کے اندر سے خنجر نکالا اور پیشتر اس کے کہ حجازی کے دونوں محافظ اس تک پہنچتے اس کا خنجر حجازی کے دل میں اتر چکا تھا۔
 سائیس محافظوں سے بچنے کے لیے دوڑ کر گھوڑے کی دوسری طرف ہوگیا اور خون اور خنجر اپنے دل میں اتار لیا ،تب پتہ چلا کہ یہ تو باطنی تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مرو شہر کا وہی مکان تھا جس میں وہ درویش داخل ہوا تھا جس نے سالار اوریزی کو قرآن مجید کھول کر ایک آیت پڑھائی اور کہا تھا کہ یہ یاد رکھنا اور اس کا ورد کرتے ہوئے جانا فتح تمہاری ہوگی، اس مکان کے اندر وہی درویش اپنے تین چار ساتھیوں کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا کہ باہر والا دروازہ بڑی زور سے کھلا اور ان کا ایک ساتھی دوڑتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔
 لو بھائیو!،،،، اس آدمی نے کہا۔۔۔ کام ہو گیا ہے، ہمارے فدائی نے سپہ سالار ابوجعفر حجازی کو قتل کرکے اپنے آپ کو بھی مار لیا ہے۔
پہلے سائیس کو مروانے والے باطنی ہی تھے، اس سائیس کے کپڑوں میں خنجر باطنیوں نے ہی رکھوایا تھا اور پھر دوسرا سائیس صرف باطنی ہی نہیں بلکہ فدائ تھا۔
یہ ایک ہی واقعہ نہیں بلکہ تاریخوں میں ایسے کئی واقعات ملتے ہیں ،مرو کہ معاشرے میں کئی سرکردہ افراد تھے جو باطنیوں کے خلاف سرگرم ہو گئے تھے انہیں قتل کرنا ضروری تھا، لیکن ان سب نے اپنی حفاظت کے انتظامات کرلیے تھے اور وہ جہاں بھی جاتے ان کے ساتھ محافظ ہوتے تھے ،اس صورتحال میں انہیں قتل کرنا آسان نہیں تھا ان کے قتل کا یہی طریقہ اختیار کیا گیا جو حجازی کو قتل کرنے کے لئے آزمایا گیا تھا ،کوئی فدائی کسی سرکردہ آدمی کے یہاں مظلوم اور غریب بن کر ملازمت حاصل کر لیتا اور موقع پا کر اپنے شکار کو قتل کردیتا تھا، دیہی علاقوں میں قبیلوں کے سردار تھے جو حسن بن صباح کی اطاعت قبول نہیں کرتے تھے نہ اپنے قبیلے کے کسی شخص کو ایسی اجازت دیتے تھے، کسی پر شک ہو جاتا کہ اس کا ذہن یا رحجان باطنیوں کی طرف ہو رہا ہے تو قبیلے کا سردار اسے قتل کروا دیتا تھا، ان سرداروں نے بھی اپنے ساتھ محافظ رکھ لئے تھے انہیں قتل کرنے کا بھی یہی طریقہ اختیار کیا گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پہلے بیان ہو چکا ہے کہ حسن بن صباح اصفہان کو اپنا مرکز بنانا چاہتا تھا تاریخوں کے مطابق اس نے اپنے بے شمار فدائ اور دیگر پیروکار اصفہان بھیج دیے تھے، حسن بن صباح نے اصفہان میں مسلمانوں کو قتل کرنے کا ایک اور طریقہ اپنے فدائین کو بتایا، مرو میں اس نے دیکھ لیا تھا کہ ایک مسلمان قتل ہوتا تھا تو اس کے بدلے تین باطنیوں کو قتل کردیا جاتا تھا، حسن بن صباح نے اپنے فدائین کو یوں سمجھایا کہ وہ ایک ایک دو دو مسلمانوں کو ایسے قتل کریں کہ ان کی لاشیں نہ ملیں اور پتہ ہی نہ چلے کہ وہ قتل ہوگئے ہیں۔
اصفہان کے ایک حصے میں مکان بہت ہی پرانے تھے جن میں کافی لوگ رہتے تھے، گلیاں تنگ تھیں اور مکانوں کی دیواریں اور چھتیں بوسیدہ ہو گئی تھیں، ایک گلی کے سرے پر ایک اندھا کھڑا نظر آنے لگا وہ اپنے قریب سے گزرتے کسی آدمی کی آہٹ سنتا تو اسے روک لیتا اور کہتا کہ اللہ کے نام پر اسے اس گلی میں ایک جگہ تک پہنچا دے۔
 وہ آدمی اسے اندھا سمجھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیتا اور آگے آگے چل پڑتا، اندھا اسے کہتا کہ آگے ایک گلی دائیں کو مڑتی ہے اسے اس گلی کے ایک مکان تک پہنچا دیں۔
یوں وہ شخص اس اندھے کا ہاتھ پکڑے ہوئے اس گلی کے وسط تک جاتا ایک مکان سے دو تین آدمی نکلتے اور اس آدمی کو پکڑ کر مکان کے اندر لے جاتے اور اس کا گلا گھونٹ کر ہلاک کر ڈالتے، وہ شخص اندھا نہیں ہوتا تھا گلی میں سے گزرتے ہوئے آدمیوں کو دیکھ سکتا تھا اور پہچان لیتا کہ یہ باطنی نہیں مسلمان ہے، اس طرح ایک آدمی کو مروا کر وہ کہیں اور چلا جاتا اور اسی طرح کسی اور آدمی کو اپنا ہاتھ پکڑواکر اس کے پیچھے چل پڑتا ،اس کے بعد وہ آدمی کسی کو نظر نہ آتا۔
ایک مہینے میں بےشمار مسلمان لاپتہ ہو گئے اور شہر بھر میں خوف و ہراس پھیل گیا ،ابن اثیر نے لکھا ہے کہ کسی گھر کا کوئی آدمی شام تک گھر واپس نہیں پہنچتا تھا تو وہاں صف ماتم بچھ جاتی تھی ،اس کے گھر والے یہ سمجھ لیتے کہ وہ غائب ہوگیا ہے لیکن اس سوال کا جواب کہیں سے نہیں مل رہا تھا کہ یہ اتنے زیادہ آدمی کہاں لاپتہ ہوگئے ہیں، اس زمانے میں بھی روحانی عامل قافیہ شناس اور نجومی موجود تھے، لوگ ان سے پوچھتے تھے کہ وہ اپنے علم کے ذریعے معلوم کریں کہ کیا ان لوگوں کو جنات اٹھا کر لے گئے ہیں یا وہ کہاں غائب ہو گئے ہیں، روحانی عاملوں کو کچھ بھی پتہ نہیں چل رہا تھا صرف ایک عامل نے بتایا کہ جتنے آدمی لاپتہ ہو چکے ہیں ان میں سے ایک بھی زندہ نہیں، لیکن وہ اس سوال کا جواب نہ دے سکا کہ وہ آدمی موت تک کس طرح پہنچے، اور موت کی آغوش میں انہیں کون لے گیا تھا۔
ایک روز ایک اندھا ایسے ہی ایک آدمی کو روک کر اسے اپنے ساتھ لے گیا یہ آدمی بھی اس دھوکے میں آگیا تھا کہ یہ اندھا بیچارہ مجبور ہے اس لیے اسے اس کے ٹھکانے تک پہنچانا کار ثواب ہے، اس کے بعد یہ آدمی کسی کو نظر نہیں آیا لیکن ایک بات یوں ہوئی کہ ایک آدمی نے اسے اس اندھے کا ہاتھ پکڑے ہوئے ایک گلی کے اندر جاتے ہوئے دیکھا تھا، اس نے کئی لوگوں کو بتایا کہ گم ہونے والے شخص کو ایک اندھا اپنی رہنمائی کے لیے ایک گلی کے اندر لے گیا تھا۔
اسی روز یا اگلے روز اس آدمی نے جس نے اس بد قسمت آدمی کو اندھے کے ساتھ دیکھا تھا تین چار آدمیوں کو اپنے ساتھ لیا اور انہیں ایک جگہ چھپا کر اکیلا آگے گیا اور اندھے کے قریب سے گزرا، اندھے نے اسے روک لیا اور کہا کہ وہ اس گلی میں جانا چاہتا ہے لیکن وہ خود راستہ نہیں دیکھ سکتا، اللہ کے نام پر اسے اس کے گھر تک پہنچا دیا جائے ۔
اس شخص نے اس کا بازو پکڑ لیا اور گلی میں داخل ہوگیا، اس کے جو ساتھی پیچھے چھپے ہوئے تھے وہ دیکھ رہے تھے، جب اندھا اس آدمی کے ساتھ گلی کے اندر چلا گیا تو یہ سب آدمی اس گلی تک آگئے اور گلی میں اس وقت داخل ہوئے جب اندھا اس آدمی کو یہ کہہ رہا تھا کہ دائیں طرف والی گلی میں جانا ہے، وہ شخص اسے اس گلی میں لے گیا۔
اس شخص کے ساتھی دبے پاؤں وہاں تک پہنچ گئے جہاں سے گلی دائیں کو مڑتی تھی، جب اندھا اس مکان تک پہنچا تو رک گیا، اندر سے تین آدمی نکلے اور اس شخص کو پکڑ لیا ،اس کے چھپے ہوئے ساتھی تلوار نکال کر دوڑتے ہوئے پہنچے اور ان آدمیوں کو تلواروں پر رکھ لیا، وہ سب اندر کو بھاگ رہے تھے لیکن وہ تینوں اور اندھا بھی تلواروں سے کٹ مرے، مکان کے اندر گئے تو صحن میں ایک جگہ لکڑی کے تختے رکھے ہوئے تھے اور ان پر کچھ سامان پڑا ہوا تھا۔
وہ بہت ہی پرانے زمانے کا مکان تھا اندر اس قدر بدبو تھی کہ ٹھہرا نہیں جاسکتا تھا، لیکن یہ بدبو بتا رہی تھی کہ اس مکان میں مردار گل سڑ رہے ہیں یا انسانوں کی لاشیں پڑی ہیں، مکان بالکل خالی تھا کمروں میں دیکھا گیا لیکن کچھ سراغ نہ ملا ایک آدمی کے کہنے پر لکڑی کے تختے ہٹائے گئے تو دیکھا کہ ان کے نیچے ایک گہرا گڑھا کھودا ہوا تھا جس میں بے انداز لاشیں پڑی ہوئی تھیں، اوپر والی لاش تازہ لگتی تھی اور بدبو سے پتہ چلتا تھا کہ ان کے نیچے لاشیں گل سڑ رہی ہیں اور مکان میں ان کی بد بو پھیلی ہوئی تھی۔
ایک تو یہ طریقہ تھا کہ اس سے نہ جانے کتنے مسلمانوں کو غائب کر دیا گیا تھا، ان میں سے کچھ کی لاشیں اس گڑھے میں سے ملیں اور کوئی نہیں بتا سکتا تھا کہ کتنے مکانوں میں ایسے اورگڑھے ہونگے جن میں لاپتہ ہونے والے مسلمانوں کی لاشیں پڑی ہونگی۔
مسلمانوں کے غائب ہونے کا سلسلہ رکا نہیں بلکہ چلتا رہا ،کچھ سراغ نہیں ملتا تھا کہ وہ کہاں غائب کیے جا رہے ہیں، مسلمان اتنے بھڑکے ہوئے تھے کہ شہر میں انہیں کوئی نابینا نظر آتا تھا تو اسے قتل کر دیتے تھے، پھر بھی مسلمان غائب ہوتے رہے ایک اور طریقہ بھی اختیار کیا گیا جس کا سراغ مل گیا، سراغ یوں ملا کہ ایک آدمی علی الصبح فجر کی اذان سن کر مسجد کو جارہا تھا تو اسے یوں نظر آیا جیسے دو تین آدمی کسی آدمی کو گھسیٹ کرایک مکان کے اندر لے جارہے ہوں، وہ نہتّہ تھا اس لیے اس نے اس آدمی کو چھڑانے کی کوشش نہ کی، اس کی بجائے اس نے یہ کارروائی کی کہ مسجد میں جب نمازی اکٹھے ہوئے تو اس نے نمازیوں کو بتایا کہ ایک مکان پر اسے شک ہے اور اس نے جو دیکھا تھا وہ انہیں بتایا ،نماز کے بعد یہ خبر مسلمانوں کے محلوں میں پھیل گئی اور ایک ہجوم اس مکان کے سامنے اکٹھا ہوگیا۔
اس ہجوم میں زیادہ تر آدمی تلواروں سے مسلح تھے ،دروازے پر دستک دی گئی لیکن اندر سے کوئی جواب نہ ملا، آخر یہ لوگ اندر چلے گئے یہ قدیم وقتوں کی حویلی تھی جو غیرآباد نظر آتی تھی، اس کے تمام کمروں میں جاکر دیکھا وہاں کوئی نہیں تھا اور یوں لگتا تھا جیسے وہاں بھی بدبو تھی، جو صاف پتہ چلتا تھا کہ انسانی لاش یا لاشوں کی ہے۔
ادھر آؤ۔۔۔ ایک آدمی نے بلند آواز سے کہا۔۔۔ اس کنوئیں میں دیکھو۔
حویلی کا صحن خاصہ کشادہ تھا اور اس کے ایک کونے میں کنواں تھا، کنویں میں جھک کر دیکھا تو آدھا کنواں لاشوں سے بھرا پڑا تھا، اوپر سے دو تین لاش نکالی گئی یہ ابھی خراب نہیں ہوئی تھیں، ان میں ایک لاش کا خون بالکل تازہ تھا یہ وہی آدمی ہوگا جسے اس شخص نے دیکھا تھا کہ گھسیٹ کر اندر لے جارہے ہیں، ان چند ایک لاشوں کے بعد کوئی اور لاشیں نہ نکالی گئیں ،کیوں کہ دانشمند بزرگوں نے لوگوں سے یہ کہا تھا کہ نیچے لاشوں کی حالت بہت ہی بری معلوم ہوتی ہے نہ ہی نکالی جائیں تو بہتر ہے، ورنہ ان کے پسماندگان کے دلوں کو بہت ہی صدمہ پہنچے گا ،چنانچہ اس کنوئیں کو مٹی سے بھر دیا گیا، یہ تو بتایا ہی نہیں جاسکتا کہ اس کنوئیں  میں کتنی سو لاشیں پڑی ہوئی ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*


ⲯ﹍︿﹍︿﹍ درسِ حدیث ﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼

 معارف الحدیث - علاماتِ قیامت - حدیث نمبر 1955


عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: إِنَّ أَوَّلَ الآيَاتِ خُرُوجًا طُلُوعُ الشَّمْسِ مِنْ مَغْرِبِهَا وَخُرُوجُ الدَّابَّةِ عَلَى النَّاسِ ضُحًى وَأَيُّهُمَا مَا كَانَتْ قَبْلَ صَاحِبَتِهَا فَالأُخْرَى عَلَى إِثْرِهَا قَرِيبًا. (رواه مسلم)

ⲯ﹍︿﹍︿﹍ ترجمہ﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼

قیامت کی علامات کبریٰ: آفتاب کا جانب مغرب سے طلوع، دابۃ الارض کا خروج، دجال کا فتنہ، حضرت مہدی کی آمد، حضرت مسیحؑ کا نزول

حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ قیامت کی نشانیوں سے سب سے پہلے جس کا ظہور ہوگا وہ آفتاب کا طلوع ہونا ہے مغرب کی طرف سے اور لوگوں کے سامنے چاشت کے وقت دابۃ الارض کا برآمد ہونا اور دونوں میں سے جو بھی پہلے ہو دوسری اس کے بعد متصلا ہوگی۔ (صحیح مسلم)

ⲯ﹍︿﹍︿﹍ تشریح﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼


ظاہر ہے کہ جس وقت رسول اللہ صلی اللہ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا تھا اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر اتنا ہی منکشف کیا گیا تھا کہ قیامت کی علامات کبریٰ میں سے سب سے پہلے ان دو غیر معمولی اور خارق عادت واقعات کا ظہور ہوگا ایک یہ کہ آفتاب جو ہمیشہ مشرق سے طلوع ہوتا ہے وہ ایک دن جانب مغرب سے طلوع ہوگا اور دوسرے یہ کہ ایک عجیب و غریب جانور (دابۃ الارض) کا خارق عادت سے ظہور ہوگا اس وقت تک آپ ﷺ پر یہ منکشف نہیں فرمایا گیا تھا کہ ان میں سے کون سا واقعہ پہلے ہوگا اور کون بعد میں اس لئے آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان میں سے جو بھی پہلے ہو دوسرا اس کے بعد متصلا ہی ہوگا گویا یہ دونوں واقعے ساتھ ساتھ ہوں گے۔ "دابۃ الارض" کے خروج کا ذکر قرآن مجید (سورہ نحل کی آیت نمبر 82) میں بھی فرمایا گیا ہے اس کے بارے میں بہت سی بے اصل باتیں عوام میں مشہور ہیں اور تفسیر کی بعض کتابوں میں بھی اس سے متعلق رطب ویابس روایتیں لکھ دی گئی ہیں لیکن قرآن پاک کے ظاہری الفاظ اور قابل اعتبار روایات سے اتنا معلوم ہوتا ہے کہ یہ زمین پر چلنے اور دوڑنے والا جانور ہوگا جس کو اللہ تعالیٰ خارق عادت طریقہ سے زمین سے پیدا فرمائے گا (جس طرح حضرت صالح علیہ السلام کی اونٹنی اللہ تعالی نے پہاڑ کی ایک چٹان سے پیدا فرمائی تھی) اور وہ بحکم خداوندی انسانوں کی طرح کلام کرے گا اور ان پر اللہ تعالی کی حجت قائم کرے گا بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ مکہ مکرمہ کی صفا پہاڑی سے برآمد ہوگا۔ یہ دونوں واقعات جن کا اس حدیث میں ذکر ہے (آفتاب کا بجائے مشرق کے جانب مغرب سے طلوع ہو جانا اور کسی جانور (‏دابۃ الارض) کا توالدوتناسل کے عام معروف طریقہ کے بجائے زمین سے برآمد ہونا) بظاہر اس نظام قدرت کے خلاف ہے جو اس دنیا کا عام نظام ہے اس لئے ایسے کم فہموں کو جو اللہ تعالی کی قدرت کی وسعت سے آشنا نہیں ہیں ان کے بارے میں شک شبہ ہوسکتا ہے لیکن ان کو سمجھنا چاہیے کہ یہ سب اس وقت ہوگا جب دنیا کا وہ نظام جس پر یہ دنیا چل رہی ہے ختم کیا جائے گا اور قیامت کا دور شروع ہوگا اور زمین و آسمان بھی فنا کر دیے جائیں گے اور دوسرا عالم برپا ہوگا پھر تو وہ سب کچھ سامنے آئے گا جو ہماری اس دنیا کے نظام سے بالکل مختلف ہوگا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ قیامت کی "علامات خاصہ" اور "علامات کبری" بھی دو طرح کی ہیں بعض وہ ہیں جن کا ظہور قیامت کے بالکل قریب میں ہوگا گویا ان علامات کے ظہور ہی سے قیامت کی شروعات ہو جائے گی جس طرح صبح صادق کی نمودن کی آمد کی علامت ہوتی ہے اور اسی سے دن کی آمد شروع ہوجاتی ہے یہ دونوں علامتیں جن کا اس حدیث میں ذکر ہے اسی قبیل سے ہیں اور اس قبیل کی علامتوں میں سب سے پہلے انہی کا ظہور ہوگا اور ان کا ظہور گویا اس کا اعلان ہوگا کہ یہ دنیا اللہ تعالی کے حکم سے اب تک جس نظام پر چل رہی تھیں اب وہ ختم ہوگیا اور قیامت کا دور اور دوسرا نظام شروع ہوگیا ..... اور قیامت کی "علامات کبریٰ" میں سے بعض وہ ہیں جن کا ظہور قیامت سے کچھ مدت پہلے ہوگا اور وہ قرب قیامت کی علامات ہوں گے دجال کا خروج اور حضرت عیسی علیہ السلام کا نزول (جن کا ذکر آگے درج ہونے والی حدیثوں میں آرہا ہے) قیامت کی اس قسم کی علامات میں سے ہے۔


 ماضی کا خطرناک بحری قزاق اور اپنے دور کی سب سے دولت مند حکومت کا خزانہ لوٹنے والا ہینری ایوری ایک بار پھر خبروں میں ہے۔


حال ہی میں ایک شوقیہ امریکی کھوجی جم بیلی نے امریکہ کی ریاست میسا چوسٹس، رہوڈ آئی لینڈ اور کنیٹی کٹ سے ملنے والے مجموعی طور پر 15 سکوں کے متعلق اپنی تحقیق میں دعویٰ کیا ہے کہ یہ سکے 17 ویں صدی میں مغل بادشاہ اورنگزیب کے عہد کے بحری جہاز 'گنجِ سوائی' پر لدے خزانے کے ہیں جسے بدنامِ زمانہ برطانوی بحری قزاق ہینری ایوری نے لوٹ لیا تھا۔

جم بیلی نے کہا ہے کہ ان سکوں کی امریکی ساحلی علاقوں میں دریافت سے ہینری ایوری اور اس کے ساتھیوں کی امریکہ آمد کا سراغ ملتا ہے۔

گنجِ سوائی پر لوٹ مار کا یہ تاریخی واقعہ ستمبر 1695 میں پیش آیا تھا جب ہینری ایوری نے اپنے قزاق گروہ کے ساتھ مل کر اربوں روپے مالیت کا سونا چاندی لوٹ لیا تھا اور جہاز پر سوار مسافروں کی قتل و غارت اور خواتین کے ساتھ بدسلوکی اور زیادتی بھی کی گئی تھی۔

اس واقعے کے بعد برطانیہ کے بادشاہ ولیم سوم نے ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کو مغل شہنشاہ اورنگزیب کے عتاب سے بچانے کے لیے ہنری ایوری کو 'انسانیت کا دشمن' قرار دے کر اس کے سر پر 500 پاؤنڈ کے انعام کا اعلان کیا تھا جسے بعد میں بڑھا کر 1000 پاؤنڈ کر دیا گیا تھا۔ یہ اس دور کے اعتبار سے خاصی بڑی رقم تھی۔

اس اعلان کی بنیاد پر ہینری ایوری کو تاریخ کا پہلا بین الاقوامی مطلوب شخص قرار دیا جاتا ہے۔

ہینری ایوری کون تھا؟
بحری قزاق ہینری ایوری پر 2020 میں 'Enemy of all Mankind' کے نام سے کتاب لکھنے والے مؤرخ اسٹیون جونسن کے مطابق گنجِ سوائی کی مہم سے ہینری ایوری نے جو سونا چاندی اور زر و جواہر لوٹے تھے ان کی مالیت آج کے دور میں دو کروڑ ڈالر سے زائد بنتی ہے۔

'انسائیکلوپیڈیا آف برٹینیکا' کے مطابق ہینری ایوری کے نام سے مشہور ہونے والے اس بحری قزاق کا اصل نام جون ایوری تھا۔ وہ 1653 میں جنوب مشرقی برطانیہ کی کاؤنٹی ڈیون کے ساحلی شہر پلیمتھ میں پیدا ہوا۔ قزاق بننے سے قبل ایوری برطانیہ کی شاہی بحریہ میں شامل ہوا۔ اس کے بعد وہ کچھ عرصہ تجارتی قافلوں کا بھی حصہ رہا۔ کچھ عرصہ کیریبئن اور بحر الکاہل میں جنوبی امریکہ کے ساحلوں پر ہسپانوی آبادیوں اور بحری جہازوں پر حملے کرنے والے مہم جوؤں کے ساتھ بھی رہا جنہیں 'بکینیر' کہا جاتا تھا۔

سن 1691 میں قزاقی شروع کرنے سے قبل وہ غلاموں کی تجارت کرنے والے قافلوں کا بھی حصہ رہا۔ 1694 میں ایوری اسپین کے ایک بحری جہاز کے عملے میں شامل ہو گیا جہاں اس نے جہاز کے کپتان کے خلاف بغاوت کر کے جہاز ہتھیا لیا اور اس کا کپتان بن گیا۔ ایوری نے اس بحری جہاز کا نام تبدیل کر کے 'فینسی' کا نام دیا۔

سن 1695 میں افریقہ کے اردگرد کئی بحری قافلوں اور جہازوں کو شکار کرنے کے بعد بحری قزاقوں کے کئی اور جہاز بھی ایوری کے بیڑے میں شامل ہو گئے۔ قزاقوں کے اس بیڑے نے بحیرۂ احمر کا رُخ کیا اور اسی بیڑے نے بعد میں مکہ سے حاجیوں اور بھاری مقدار میں سونا چاندی اور دیگر قیمتی اشیا لانے والے مغل سلطنت کے جہاز 'گنجِ سوائی' کو نشانہ بنایا۔

گنجِ سوائی کے ساتھ کیا ہوا تھا؟
مکہ سے واپسی پر یہ بحری جہاز ہندوستان کی بندرگاہ 'سورت' کے قریب تھا کہ بحرِ ہند میں ایوری کے بحری جہاز 'فینسی' نے اسے آ لیا اور گولہ باری سے پہلے ہی ہلے میں جہاز کے 40 فٹ لمبے مستول کو نشانہ بنایا جس کی وجہ سے جہاز کی رفتار سست ہو گئی۔

لڑائی کا آغاز ہوا اور اسی دوران گنجِ سوائی پر موجود ایک توپ پھٹ گئی جس سے بھاری جانی نقصان ہوا۔ دوسری جانب ایوری کے جہاز سے ہونے والی گولہ باری اور اس کے قزاقوں کے تیز حملے کے باعث جلد ہی جہاز پر ان کا قبضہ ہو گیا۔ قزاقوں نے جہاز پر قتل و غارت کی اور اس میں موجود خواتین کو زیادتی کا نشانہ بنایا۔

مغل دور کے مؤرخ خافی خان کی کتاب 'منتخب اللباب' اور مختلف تاریخی حوالوں سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حملے میں کئی خواتین نے زیادتی سے بچنے کے لیے سمندر میں کود کر اپنی جان دے دی۔ تاریخ میں یہ ذکر بھی ملتا ہے کہ اس وقت جہاز میں جہانگیر کے شاہی خاندان کی ایک خاتون بھی سوار تھیں۔

ایسٹ انڈیا کمپنی خطرے میں پڑ گئی
سن 1650 سے 1730 کے دور کو بحری قزاقی کا 'سنہری' دور کہا جاتا ہے۔ اس دوران قزاقوں کے چھوٹے بڑے گروہ سمندر کے تجارتی راستوں پر اپنی بالادستی قائم کر چکے تھے اور ان کی کارروائیوں کی وجہ سے کئی سلطنتوں کے باہمی تعلقات متاثر ہو رہے تھے۔

گنجِ سوائی کے واقعے سے قبل 1613 میں پرتگالی تاجروں نے ایک مغل بحری جہاز کو یرغمال بنا لیا تھا جس کے بعد جہانگیر سے ان کے تعلقات خراب ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد ہی برطانوی سفارت کار سر ٹامس رو کو مغل سلطنت سے روابط بڑھانے کا موقع ملا۔ ان روابط کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہندوستان میں اپنے قدم جمانا شروع کیے اور سورت اور بمبئی کی بندرگاہوں کے نزدیک قلعہ بند آبادیاں بھی بنائیں۔

گنجِ سوائی کی لوٹ مار میں بچ چانے والے جب سورت پہنچے تو اورنگزیب نے کمپنی کے مقامی ایجنٹس کو اس کا ذمے دار ٹھیراتے ہوئے قید میں ڈلوا دیا۔ اورنگزیب کی اس کارروائی سے ہندوستان میں کمپنی کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا۔

مغل سلطنت کے اس سخت ردِ عمل کے بعد ہی برطانوی بادشاہ ولیم سوم نے ہینری ایوری کے سر کی بھاری قیمت مقرر کی اور اسے بین الاقوامی سطح پر مطلوب شخص قرار دے دیا گیا۔

تاریخ کا نیا موڑ
مصنف اسٹیون جونسن نے اپنی کتاب میں اس واقعے کے اثرات کا تجزیہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ برطانیہ کی جانب سے ہینری ایوری کو 'انسانیت کا دشمن' قرار دینے کے اس اعلان کے ذریعے برطانیہ نے اپنے قانونی دائرۂ اختیار کو بڑے بحری راستوں تک وسیع کر دیا جس نے بعد میں اسے تجارت کی بنیاد پر ایک وسیع ترین سلطنت قائم کرنے میں مدد دی۔

ایوری کا انجام کیا ہوا؟
برطانوی سلطنت کی جانب سے ایوری اور اس کے ساتھیوں کی گرفتاری پر بڑے انعام کا اعلان ہوچکا تھا۔ وہ گنجِ سوائی سے ہاتھ آنے والا خزانہ تقسیم کر کے کیریبئن اور مختلف امریکی علاقوں میں روپوش ہوچکے تھے۔ 'انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا' کے مطابق ایوری اپنے کچھ ساتھیوں کے ساتھ برطانیہ واپس آیا تھا جہاں اس کے کئی ساتھی پکڑے گئے اور ان کے خلاف مقدمات بھی چلائے گئے لیکن ایوری کسی کے ہاتھ نہیں آیا۔

ہینری ایوری سے متعلق تحقیق کرنے والوں کو جس طرح اس کے ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت سے حقائق معلوم نہیں ہو سکے اسی طرح اس کی زندگی کے آخری دن بھی پُراسراریت کے پردوں میں چھپے ہیں۔ ہینری ایوری کی زندگی کے بارے میں کئی افسانے مشہور ہوئے اور اس کے کردار کو بحری قزاقی اور مہم جوئی پر لکھے گئے فکشن میں استعمال کیا گیا۔

ایوری پر لکھے گئے فکشن پر تحقیق کرنے والوں کا کہنا ہے کہ 1700 کے بعد ابتدائی دو دہائیوں میں اس کے نام سے منسوب ایک طویل نظم، یادداشتوں کی کتاب سمیت پانچ کتابیں لکھی جاچکی تھیں۔

انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا کے مطابق ایوری کی موت 1696 کے بعد برطانیہ کے ٹورج ڈسٹرکٹ کے ایک تاریخی ساحلی شہر بیڈفورڈ میں ہوئی۔ لیکن دیگر کئی تاریخی کتب میں اس کے آخری دنوں کے حوالے سے مختلف کہانیاں مشہور ہیں۔

انسائیکلو پیڈیا آف برٹینیکا کے مطابق ان میں سے ایک کہانی یہ بھی ہے کہ مغل سلطنت کا اتنا بڑاخزانہ لوٹنے والے اس قزاق کو برسٹل کے ایک سوداگر نے بے وقوف بنا کر اس کی دولت ہتھیا لی اور اپنے دور کے سب سے امیر بادشاہ کو غضب ناک کرنے والا یہ شاطر دماغ غریبی اور مفلسی کی حالت میں مرا۔


 کیا آپ تصور کر سکتے ہیں کہ مچھر کے کاٹے سے پھیلنے والی بیماری ڈینگی سے بچاؤ کے لیے مریضوں کو مچھروں سے ہی کٹوایا جائے؟ یا لوگ اپنے گھر کے صحنوں یا بیک یارڈ میں خود مچھروں کی افزائش کریں؟ یا مچھروں کے مقابلے کے لیے لاکھوں مچھروں کو فضا میں چھوڑا جائے ؟


یہ تصور کرنا مشکل تو ہے لیکن دنیا کے بہت سے ملکوں میں ڈینگی کے حوالے سے یہ تصورات اب ایک حقیقت بن رہے ہیں۔ مختلف اندازوں کے مطابق پاکستان ، بنگلہ دیش اور جنوبی ایشیا کے دوسرے ملکوں سمیت دنیا بھر کے 130 ملکوں میں ہر سال لگ بھگ 400 ملین لوگ مچھروں سے پھیلنے والی بیماری ڈینگی کا شکار ہوتے ہیں۔

اس کی شرح میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے مگر اب تک اس کا کوئی مستند علاج سامنے نہیں آ سکا ہے۔ لیکن اب سائنس دانوں نے اس سلسلے میں ایک عجیب و غریب ، انوکھا مگر ایک کامیاب طریقہ دریافت کیاہے۔

ڈینگی پھیلانے والے مچھروں کے مقابلے کے لیےسائنس دان لیبارٹریوں میں مچھروں کی ایک خصوصی قسم کی نسل کو تیار کر رہے ہیں۔اس نسل کی افزائش کے لیے دنیا بھر کے مختلف مقامات پر فیکٹریاں بنائی گئی ہیں جہاں خصوصی لیبارٹری ماحول میں تیار کیے جانے والے مچھروں میں ایک بیکٹیریا داخل کر دیا جاتا ہے۔

ولباکیا کہلائے جانے والے اس بیکٹیریا کےبارے میں ریسرچز یہ ثابت کر چکی ہیں کہ وہ ڈینگی کے مچھر کے کاٹے کے علاج میں مؤثر ہوتا ہے۔

دنیا بھر میں ولباکیا بیکٹیریا کے حامل زیادہ تر مچھرکولمبیا کے علاقے میڈیجین کے ایک گودام میں پیدا کیے گئے تھے جہاں ورلڈ مسکیٹو پروگرا م ایک فیکٹری چلاتا ہے جس میں ہر ہفتے 30 ملین مچھر پیدا کیے جاتے ہیں۔

ڈینگی کے خلاف لڑنے والے لاکھوں مچھروں کی اس نئی فوج کو ڈینگی کے پھیلاؤ والے علاقوں کی ہوا میں چھوڑ دیا جاتا ہے تاکہ وہ لوگوں کو کاٹ سکیں اور ان میں ڈینگی کو ختم کر سکیں یا انہیں ڈینگی کی بیماری میں مبتلا ہونے سے بچائیں۔

مچھروں کی اس نئی نسل کی خوبی یہ ہےکہ وہ ولباکیا بیکٹیریا کو اپنی اگلی نسل میں بھی منتقل کردیتی ہے جس کی وجہ سے ڈینگی کے مقابلے کی فوج میں کمی نہیں رہتی۔

اگرچہ یہ طریقہ علاج ابھی تجرباتی مرحلے میں ہے لیکن دنیا بھر کے بہت سے ملکوں میں لیبارٹری مچھروں کی فوج ڈینگی کا مقابلہ کرتے ہوئے اس بیماری کی شرح کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو رہی ہے۔

ورلڈ مسکیٹو پروگرام
ڈینگی کے مقابلے کے لیے یہ حکمتِ عملی گزشتہ عشرے میں ایک غیرمنافع بخش عالمی پروگرام، ورلڈ مسکیٹو پروگرام کے ذریعے شروع کی گئی تھی اور اب اسے ایک درجن سے زیادہ ملکوں میں ٹیسٹ کیا جا رہا ہے ۔

سکیٹو پروگرام کے فاؤنڈر سکاٹ او نیل کہتے ہیں کہ ڈینگی کے مقابلے کےلیے نئے طریقوں کی از حد ضرورت ہے اور ان نئے طریقوں کی ایک صورت یہ ہے کہ ان خصوصی مچھروں کی افزائش میں ڈینگی کی متاثرہ کمیونٹیز کی مدد بھی حاصل کی جا رہی ہے جو اپنے گھروں کے صحنوں یا بیک یارڈ میں ان مچھرو ں کی افزائش میں مدد کرتےہیں ۔

ورلڈ مسکیٹو پروگرام کی کامیابی
او نیل کی مسکیٹو لیبارٹری نے اس تبدیل شدہ حکمتِ عملی کو پہلی بار 2011 میں آسٹریلیا میں ٹیسٹ کیا تھا۔ اس کے بعد سے ورلڈ مسکیٹو پروگرام نے دنیا بھر کے 14 ملکوں میں 11 ملین لوگوں پر تجربات کیے ہیں ان میں برازیل، میکسیکو ، کولمبیا ، فجی اور ویت نام شامل ہیں۔

تحقیق کے نتائج حوصلہ افزا ہیں۔ 2019 میں انڈو نیشیا میں ایک بڑے علاقے میں کی گئی ایک ٹرائل سے ظاہر ہوا کہ ولباکیا کے حامل مچھروں کے چھوڑے جانے کے بعد وہاں ڈینگی کے کیسز میں 76 فی صد کمی واقع ہوئی۔

مسکیٹو پروگرام کے فاؤنڈر سکاٹ او نیل کہتے ہیں کہ یہ سوال ابھی بھی جواب طلب ہے کہ کیا یہ تبدیل شدہ حکمتِ عملی عالمی پیمانے پر بھی مؤثر اور سستی ہو گی۔

ہندراس کے دار الحکومت میں90 لاکھ لیبارٹری مچھروں کو چھوڑا جائے گا۔
اس وقت جب دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی ڈینگی کے خطرے میں مبتلا ہے، عالمی ادارہ صحت نے دنیا بھر کے کئی مقامات خاص طور پر وسطی امریکہ کے ملک ہنڈراس میں لیبارٹری میں تیار شدہ مچھروں کی اس فوج کو ڈینگی مچھر کی ایک مقابل فوج کے طورپر لانچ کر دیا ہے۔ جہاں ہر سال لگ بھگ 10 ہزار لوگ ڈینگی کا شکار ہوتے ہیں ۔

گرم مرطوب رین فاریسٹ علاقے میں واقع ہنڈراس کے دار الحکومت ٹیگو سی گالپا میں گزشتہ ماہ درجنوں لوگوں نےاس وقت تالیا ں بجا کر خوشی کا اظہار کیا جب وہاں کے ایک رہائشی نے مچھروں سے بھرے ایک شیشے کے جار کو اپنے سر کے اوپر کھولا اور اس میں سے بھنبھناتے ہوئے مچھروں کو فضا میں چھوڑا۔

اگلے چھ ماہ میں، خصوصی طور پر پیدا کیے گئے لگ بھگ 90 لاکھ مچھروں کو ٹیگو سی گالپا میں چھوڑا جائے گا جہا ں کے رہائشی ڈینگی سے بچاؤ کی حکمتِ عملی پر اعتماد کرنا سیکھ رہے ہیں۔ کیوں کہ یہ طریقہ ہر اس طریقے کےخلاف ہے جو وہ اب تک سیکھ چکے ہیں۔

ٹیگو سی گالپا میں تین سالہ ٹرائل پر 9 لاکھ ڈالر یا ایک شخص پر کم و بیش 10 ڈالر خرچ ہوں گے ۔

ڈینگی سے ہلاکت کی شرح کم ہے لیکن اس کے پھیلنے سے صحت کے نظام بری طرح متاثر ہو سکتے ہیں اور بہت سے لوگ کام اور دفتر سے غیر حاضر رہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔

ڈینگی وائرس کا علاج کیوں مشکل ہے؟
ایڈیس ایجپٹی مچھروں کی وہ قسم ہےجو عام طور پر ڈینگی کو سب سے زیادہ پھیلاتی ہے۔ان پر عام مچھر مار یا کیڑے مار اسپرے بے اثر ہوتے ہیں ۔ کیوں کہ ڈینگی وائرس چار مختلف اقسام میں پایا جاتا ہے اس لیے اس پر ویکسینز کے ذریعے قابو پانا نسبتاً مشکل ہوتا ہے۔

ایڈیس ایجیپٹی Aedes aegypti مچھروں سےنمٹنا اس لیے بھی مشکل ہے کہ وہ سب سے زیادہ سرگرم دن کے وقت ہوتےہیں جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ دن کو کاٹتےہیں اس لیے مچھر دانیاں ان کےخلاف زیادہ مدد گار نہیں ہوتیں۔

کیوں کہ یہ مچھر گرم مرطوب ماحول میں اور گنجان آباد شہروں میں پھلتے پھولتے ہیں اس لیے آب وہوا کی تبدیلی اورشہری آبادیوں میں اضافے سے ڈینگی کے خلاف لڑائی مزید مشکل ہو سکتی ہے۔

کیا ولباکیا ڈینگی کا ایک مستقل علاج ہے؟
ڈبلیو ایچ او کے ایک محقق رمن ولایودھن کہتے ہیں کہ ولباکیا یقینی طور پر ایک طویل المیعاد پائیدار حل ہے۔

تاہم سائنس دان ابھی تک یقینی طور پر نہیں جانتے کہ ولباکیا ، وائرل ٹرانسمشن کو اصل میں کس طرح روکتا ہے اور یہ بھی واضح نہیں ہے کہ آیا یہ بکٹیریا وائرس کی تمام اقسام کے خلاف مساوی طور پر مؤثر ہو گا یا پھر کچھ اقسام پر یہ وقت گزرنے پر بے اثر ہو جائے گا۔

ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کی ٹیم کےساتھ کام کرنےوالے ایک اور رضاکار 63 سالہ لورڈس بیٹن کورٹ جو شروع شروع میں اس نئی حکمتِ عملی کے بارے میں مشکوک تھیں لیکن کئی بار ڈینگی کا شکار ہونے کے بعد ا ب وہ اپنے پڑوسیوں کو اپنے گھر کے صحنوں میں اچھے مچھر وں کی افزائش کرنے کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں ۔

وہ کہتی ہیں، میں لوگوں کو بتاتی ہوں کہ وہ خوفزدہ نہ ہوں ۔ یہ کوئی بری چیز نہیں ہے، بھروسہ رکھیں ، وہ آپ کو کاٹیں گے لیکن آپ کو ڈینگی نہیں ہوگا۔

اس رپورٹ کا مواد خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' سے لیا گیا ہے۔

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget