مشرک لوگ تو سراپا ناپاکی ہیں


 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 درسِ قرآن 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼


 سورہ التوبۃ آیت نمبر 28
بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنَّمَا الۡمُشۡرِکُوۡنَ نَجَسٌ فَلَا یَقۡرَبُوا الۡمَسۡجِدَ الۡحَرَامَ بَعۡدَ عَامِہِمۡ ہٰذَا ۚ وَ اِنۡ خِفۡتُمۡ عَیۡلَۃً فَسَوۡفَ یُغۡنِیۡکُمُ اللّٰہُ مِنۡ فَضۡلِہٖۤ  اِنۡ شَآءَ ؕ اِنَّ  اللّٰہَ  عَلِیۡمٌ  حَکِیۡمٌ ﴿۲۸﴾

ترجمہ:  اے ایمان والو ! مشرک لوگ تو سراپا ناپاکی ہیں، (٢٢) لہذا وہ اس سال کے بعد مسجد حرام کے قریب بھی نہ آنے پائیں، (٢٣) اور (مسلمانو) اگر تم کو مفلسی کا اندیشہ ہو تو اگر اللہ چاہے گا تو تمہیں اپنے فضل سے ( مشرکین سے) بےنیاز کردے گا۔ (٢٤) بیشک اللہ کا علم بھی کامل ہے، حکمت بھی کامل۔

تفسیر:  22: اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ ان کے جسم بذات خود ناپاک ہیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ان کے عقائد ناپاک ہیں جو ان کے وجود میں سرایت کرچکے ہیں 23: یہ اعلان براءت کا تکملہ ہے۔ اور اس کے ذریعے مشرکین کو مسجد حرام کے قریب آنے سے منع فرما دیا گیا ہے۔ حضرت امام ابوحنیفہ نے اس کا مطلب یہ بیان فرمایا ہے کہ مشرکین کو اگلے سال سے حج کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔ اس لیے کہ اس آیت کریمہ کی تعمیل میں آنحضرت صلی اللہ علی ہو سلم نے حضرت علی سے جو اعلان کروایا اس کے الفاظ یہ تھے کہ لا یجمعن بعد ھذا العام مشرک، یعنی اس سال کے بعد کوئی مشرک حج نہیں کرسکے گا (صحیح بخاری، کتاب التفسیر، سورة براءۃ) ۔ اس سے معلوم ہوا کہ ” مسجد حرام کے قریب نہ آنے “ کے معنی یہ ہیں کہ وہ حج نہ کریں اور یہ ایسا ہی ہے جیسے مردوں سے کہا گیا ہے کہ وہ حیض کی حالت میں عورتوں کے قریب بھی نہ جائیں، اور مراد یہ ہے کہ ان سے جماع نہ کریں، چنانہ ان کے قریب جانا ممنوع نہیں ہے۔ اسی طرح کفار حج تو نہیں کرسکتے۔ لیکن کسی اور ضرورت سے مسجد حرام یا کسی اور مسجد میں ان کا داخلہ بالکلیہ ممنوع نہیں ہے، کیونکہ کئی مواقع پر یہ ثابت ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے غیر مسلموں کو مسجد نبوی میں داخل ہونے کی اجازت دی۔ البتہ امام شافعی اور امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں کہ اس آیت کی رو سے مسجد حرام بلکہ پوری حددود حرم میں کفار کا داخلہ ممنوع ہے۔ بلکہ امام مالک کے نزدیک دوسری کسی مسجد میں بھی کسی کافر کا داخلہ جائز نہیں ہے۔ 24: غیر مسلموں کو حج سے منع کرنے کا ایک نتیجہ ظاہری طور پر یہ ہوسکتا تھا کہ مکہ مکرمہ کی تجارت اور معیشت پر برا اثر پڑے، کیونکہ مکہ مکرمہ میں اپنی تو کوئی پیداوار نہیں تھی، باہر سے آنے والوں پر ہی اس کی تجارت کا دار و مدار تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اس اندیشے کو دور کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کی احتیاج اپنے فضل سے دور فرمائے گا۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی