🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر اڑتالیس⛔🌈☠️🏡
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان برکیارق نے باطنیوں کے قتل عام کا حکم دیدیا اور باطنی ختم ہونے لگے، کچھ باطنی تو ایسے تھے کہ جن کے متعلق کوئی شک وشبہ نہیں تھا ،اور بعض ایسے بھی تھے جن پر شک تھا کہ یہ باطنی ہے شہر کے مسلمانوں نے انہیں بھی قتل کر دیا لیکن سلطان برکیارق اس کے وزیراعظم عبدالرحمن سمیری اور ابو مسلم رازی کو اگر یہ یقین تھا کے مرو میں باطنیوں کو قتل کر دینے سے یہ مسئلہ حل ہوجائے گا تو یہ ان کی بھول تھی، اتنا تو وہ جانتے ہی ہونگے کہ باطنیوں کے اس قتل عام کی اطلاع حسن بن صباح تک ضرور ہی پہنچے گی اور وہ جوابی وار ضرور کرے گا، انہیں یہ بھی معلوم ہوگا کہ اس ابلیس کا ہر وار زمین دوز ہوتا ہے اور بڑا ہی کاری ہوتا ہے، لیکن تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ باطنیوں کے متعلق خوش فہمی میں مبتلا تھے، انہیں پوری طرح اندازہ نہیں تھا کہ حسن بن صباح کا انتقامی وار کس قدر خطرناک ہوگا اور وہ مسلمانوں کے خون کے دریا بہا دے گا۔
ابومسلم رازی، عبدالرحمن سمیری اور سلطان برکیارق کی ماں نے سلطنت کو بھائیوں میں تقسیم بھی کر دیا، لیکن باطنیوں کے قتل عام کا فیصلہ اور سلطنت کی تقسیم کا فیصلہ بڑھتے ہوئے جذبات کے زیراثر کیا گیا تھا، حسن بن صباح جس قدر بدترین اور خطرناک دشمن تھا اتنا ہی اس کا فرقہ منظم تھا اس کے تخریبکار فدائی اور جاسوس قلعہ الموت سے جتنی بھی دور ہوتے تسبیح کے دانوں کی طرح پروئے ہوئے ہوتے تھے، مثلاً مرو میں طبیب تھا جو اس علاقے کے فدائین کو ایک بےعیب تنظیم اور بڑے سخت ڈسپلن کے تحت اپنے کنٹرول میں رکھتا تھا اور سوچ سمجھ کر تخریبی کاروائیاں کرواتا تھا، خانہ جنگی اسی نے شروع کروائی، ہر علاقے میں طبیب جیسے آدمی موجود تھے اور ان سب کا رابطہ قلعہ الموت کے ساتھ جاسوسوں اور قاصدوں کے ذریعے تھا ،ہر روز ایک قاصد تیز رفتار گھوڑے پر مرو سے قلعہ الموت کو روانہ ہوتا تھا اور وہ جس قدر جلدی ممکن ہو سکتا تھا حسن بن صباح کے پاس پہنچتا اور اسے خبریں دیتا تھا،
حسن بن صباح کے جاسوس سلطنت سلجوقیہ کے بڑے شہروں اور قصبوں میں اور دور دراز کے دیہاتی علاقوں میں اس قدر زیادہ آگئے تھے جیسے ایک پتھر اٹھاؤ تو اس کے نیچے سے ایک باطنی جاسوس یا فدائی برآمد ہوتا تھا، اس کے مقابلے میں سلطنت سلجوقی حکمران وزیر اور مشیر لشکر کی زبان میں سوچتے اور ایک دوسرے کو مشورے دیتے تھے، حسن بن صباح جیسے دشمن کو فوج اور لشکر سے مارنا آسان نہیں تھا۔
مرو شہر کی ناکہ بندی کردی گئی تھی تاکہ کوئی باطنی شہر سے نکل نہ سکے، نہ ہی کوئی باطنی باہر سے آ سکے، یہ ناکہ بندی دو تین دنوں میں ختم کردی گئی تھی کیونکہ شہر کے لوگ باہر جاکر اپنے عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈنا اور شہر میں لانا چاہتے تھے، تاکہ ان کے باقاعدہ جنازے پڑھے جائیں اور صحیح طریقے سے تجہیزو تکفین کی جائے ان لوگوں کے لیے شہر کے دروازے کھول دیے گئے تھے۔
دو دن تو باطنیوں کو چن چن کر قتل کیا جاتا رہا اس کے بعد یہ سلسلہ ذرا تھم گیا اور اکا دکا باطنی قتل ہونے لگے، ایسے واقعات بھی تاریخ میں ملتے ہیں کہ کسی نے کسی مسلمان کی طرف اشارہ کرکے کہہ دیا کہ یہ باطنی ہے تو مسلمانوں نے اسے قتل کردیا، ہر باطنی کو پہچاننا ممکن نہیں تھا ،یہ باطنی تھے جو مسلمانوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو ہی قتل کروا رہے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شہر میں امن بحال ہوتا جا رہا تھا ،سرکاری فوج اور اس کے خلاف لڑنے والے لشکر کے بکھرے ہوئے دستوں کو شہر میں واپس لایا جا چکا تھا، ایک روز سلطان برکیارق نے ان سب کو گھوڑدوڑ کے میدان میں اکٹھا کیا ،وہ خود گھوڑے پر سوار تھا اس کے پیچھے گھوڑوں پر عبدالرحمن سمیری، ابومسلم رازی ،محمد اور سنجر، اور سپہ سالار ابوجعفر، اور سالار اوریزی گھوڑوں پر ایک صف میں کھڑے تھے۔ سلطان برکیارق نے اپنے سامنے اتنے بڑے لشکر کو فوجی ترتیب میں کھڑے دیکھا تو اس نے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے کر آسمان کی طرف دیکھا، وہ یقینا اللہ کا شکر ادا کر رہا تھا کہ یہ لشکر جو اس کے سامنے کھڑا تھا دو مخالف حصوں میں بٹ گیا تھا اور دو چار دن پہلے تک یہ دونوں حصے ایک دوسرے کے خونی دشمن بن گئے تھے، اور اب اللہ کا یہ خاص فضل و کرم تھا کہ دونوں حصے ایک ہوگئے تھے اور ان میں پہلے والا بھائی چارہ پیدا ہو گیا تھا۔
میرے عزیز ہم وطنو!،،،،،، سلطان برکیارق نے بڑی بلند اور پراعتماد آواز میں لشکر سے مخاطب ہوکر کہا۔۔۔۔ تم اللہ کے سپاہی ہو اور اسلام کا تحفظ تمہارا ایمان ہے، مجھے بہت ہی دکھ ہے کہ شیطان ہم پر غالب آگیا تھا، ہم میں سے کوئی بھی اس کی چالیں نہ سمجھ سکا اور ہم ایک دوسرے سے ٹکرا گئے، بھائیوں نے اپنے ہی بھائیوں کا خون بہانا شروع کردیا،،،،،،
میں اللہ کے حضور اور تم سب کے آگے شرمسار ہوں کہ یہ خون میری گردن پر ہے، اسے میری کوتاہی کہہ لو، چشم پوشی کہہ لو ،کچھ کہہ لو میں اس حقیقت کو تسلیم کرتا ہوں کہ یہ خونریزی میرا گناہ ہے، اب میں اس گناہ کا کفارہ دوں گا ،یہ حسن بن صباح کا پیدا کیا ہوا فتنہ تھا اس کے پیروکار ہماری صفوں میں ہمارے ہمدرد بن کر گھس آئے تھے، ہم میں سے کوئی بھی انہیں پہچان نہ سکا،،،،،
یہود و نصاریٰ اسلام کے ہمیشہ دشمن رہے ہیں اور دشمن ہی رہیں گے، لیکن حسن بن صباح اور اس کا فرقہ اسلام کے انتہائی خطرناک دشمن ہے، کیونکہ یہ ابلیس جس نے اپنے آپ کو امام اور شیخ الجبل کا نام دے رکھا ہے اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، اب ہماری آنکھ کھل گئی ہے، میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ اس کی ذات باری نے ہمیں روشنی دکھائی اور ایسے ذرائع پیدا کیے کہ ہم شیطان کے اثر سے نکل آئے اور صراط مستقیم پر چل پڑے ہیں، میں تم سب کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ سلطان تو ہوں لیکن تمہیں اپنی رعایا نہیں سمجھتا، اللہ کی طرف سے مجھ پر جو ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں وہی تم سب کی ذمہ داریاں ہیں، ان ذمہ داریوں کو پورا کرنا ہمارا ایمان ہے،،،،،،،،،
تم نے آپس میں قتل و غارت کی ہے اب ایک دوسرے کے عزیزوں کا خون بخش دو ،اسلام اتحاد کا سبق دیتا ہے اتحاد میں برکت ہے اور اتحاد ایک ایسی طاقت ہے جسے کوئی طاقت شکست نہیں دے سکتی، دیکھ لو ہم آپس میں الجھ پڑے تو اس کا فائدہ ہمارے دشمن کو پہنچا، ہم ایک دشمن کے فریب میں آکر ایک دوسرے کا خون بہانے لگے تو اس دشمن نے ہماری بہت سی زمین پر قبضہ کرلیا ،اب ہم نے نئی زندگی کا آغاز کرنا ہے ،یاد رکھو حسن بن صباح اسلام کا اور تمہاری سلطنت کا سب سے بڑا دشمن ہے، ہم نے اس کے مقابلے میں ایک لشکر تیار کرنا ہے،،،،،،،،
تم میں سے جو شہری سرکاری فوج میں یا دوسرے لشکر میں شامل ہوئے تھے اگر فوج میں رہنا چاہتے ہیں اور باطنیوں کو ختم کرنے میں یقین رکھتے ہیں تو بتا دیں انہیں فوج میں رکھا جائے گا، اور جو فوج میں شامل نہیں ہونا چاہتے وہ اپنے گھروں کو چلے جائیں، لیکن یہ نہ بھولنا کہ کوئی فوجی ہے یا شہری، اسے اسلام کی بقا کی جنگ لڑنی ہے جو صرف فوجیوں کا ہی فرض نہیں، اس جنگ کے لیے جو جہاد ہے ہر شہری کو تیار رہنا چاہیے، یہ جنگ اللہ کے نام پر لڑی جائے گی اللہ ہر وقت اور ہر حال میں تمہارے ساتھ ہوگا، اب تمہیں اپنے دین اور ایمان کو اور اپنے اس جذبے کو مضبوط رکھنا ہوگا، اللہ تمہارا حامی و ناصر ہو گا۔
صرف یہ تقریر کر دینے سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہو گیا ،کرنے والے کام ابھی پڑے تھے، جن میں ایک یہ تھا کہ سلطنت کے دونوں حصوں کے لیے فوج کو بھی دو حصوں میں تقسیم کرنا تھا، لیکن یہ سوچنا بھی ضروری تھا کہ ان حالات میں فوج کو الگ الگ دو حصوں میں تقسیم کیا جائے یا ابھی کچھ انتظار کر لیا جائے، اس کے علاوہ بھی کچھ مسائل تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شمونہ اور اس کی ماں میمونہ بہت ہی پریشان تھیں، پریشانی یہ تھی کہ جو سرکاری اور باغی دستے لڑنے کے لئے شہر سے باہر چلے گئے تھے وہ سب واپس آگئے تھے لیکن مزمل ابھی واپس نہیں آیا تھا ،زخمیوں کو بھی اٹھا کر لے آئے تھے اور بہت سے آدمیوں کی لاشیں بھی آ گئی تھیں لیکن مزمل کا کچھ پتہ نہیں چلا کہ وہ زندہ بھی ہے یا نہیں، شمونہ اور میمونہ کا خیال تھا کہ وہ واپس آ گیا ہوتا تو سب سے پہلے گھر واپس آتا۔
شمونہ اور اس کی ماں میمونہ کے لیے ایک مسئلہ بڑا ہی ٹیڑھا تھا جو یہ تھا کہ وہ کھلے بندوں باہر نہیں نکل سکتی تھیں اس کی وجہ پہلے ہی سنائی جا چکی ہے کہ میمونہ بھی حسن بن صباح کے پاس رہ چکی تھی اور شمونہ تو حسن بن صباح کی منظورنظر اور بڑی ہی قیمتی لڑکی تھی ،دونوں فرار ہوکر ابومسلم رازی کے پاس پہنچ گئی تھیں۔ ابومسلم رازی نے انہیں الگ ایک مکان دے دیا تھا اور کچھ وظیفہ بھی مقرر کردیا تھا ،مزمل آفندی بھی ان کے ساتھ رہتا تھا اور اس نے تجارتی کاروبار شروع کر دیا تھا۔
شمونہ روزینہ کو سلطان برکیارق کے ہاتھوں قتل کروا کے وآپس اپنی ماں کے پاس آ گئی تھی اور اب وہ مرو میں رہتی تھی، مزمل آفندی بھی رے سے مرو آ گیا تھا، اب ماں بیٹی دیکھ رہی تھی کہ جنہوں نے واپس آنا تھا وہ سب آگئے ہیں اور فوج کی تقسیم کا بھی فیصلہ ہوچکا ہے تو انہیں بہت زیادہ پریشانی ہونے لگی، ایک روز دونوں سلطان برکیارق ان کے چھوٹے بھائی محمد کے پاس چلی گئیں اور اس سے پوچھا کہ مزمل کے متعلق کیا خبر ہے۔
تمہیں میں کچھ نہیں بتا سکوں گا۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔ وہ میرے ساتھ رہا تھا ،تم تو جانتی ہو کہ باطنیوں کے خلاف کس قدر جوشیلا اور بھڑکا ہوا انسان ہے ،اس نے اپنا ایک الگ گروہ بنا لیا تھا جس میں دس یا بارہ اس کے اپنے چنے ہوئے جنگجو اور غیر معمولی طور پر دلیر آدمی تھے، اس نے سرکاری فوج کے دستوں پر شب خون اور دن کے وقت چھاپے مارنے شروع کر دیے تھے، وہ سرکاری فوج کے دستوں کے لیے ایک بلائی نگہانی یا آسمان سے گرنے والی بجلی بن گیا تھا، اس کے متعلق مجھے جو آخری اطلاع ملی تھی وہ بھی ایک شب خون کی کاروائی تھی ،میں تمہیں وہ جگہ بتا دیتا ہوں اور راستہ بھی سمجھا دیتا ہوں اگر تم کسی آدمی کو وہاں بھیجو تو شاید وہ،،،،،،،،،،،، محمد خاموش ہوگیا۔
اس کی خاموشی نے شمونہ کو بنیادوں تک ہلا ڈالا وہ سمجھ گئی کہ محمد یہ کہنا چاہتا ہے کہ شاید تمہیں مزمل کی لاش مل جائے۔
آپ ہمیں وہ جگہ بتا دیں۔۔۔شمونہ نے کہا۔۔۔ میں اور میری ماں خود وہاں جائیں گی۔
تمہارا جانا ٹھیک نہیں۔۔۔ محمد نے کہا۔۔۔ اگر اس جنگل بیابان میں تمہیں اور کسی نے پہچان لیا تو پھر ہم تمہیں ڈھونڈتے پھریں گے،،،،،،، اپنا انجام سوچ لو۔
اتنی ہی بات ہوئی تھی کہ سلطان برکیارق کا دربان آگیا اور اس نے محمد سے کہا کہ اسے سلطان بلاتے ہیں، وہ وقت ایسا تھا کہ حکمران بہت ہی مصروف تھے ورنہ محمد ان کے ساتھ ایک دو آدمی بھیج دیتا، اس وقت وہ اتنا ہی کر سکتا تھا جو اس نے کیا کہ انہیں وہ جگہ بتائی اور وہاں تک کا راستہ سمجھا دیا اور یہ بھی کہا وہ اگر سالار اوریزی سے ملیں تو ہو سکتا ہے کہ اس سے کوئی اور خبر یا اطلاع مل جائے ،محمد نے انہیں بتایا کہ مزمل کا رابطہ سالار اوریزی کے ساتھ رہتا تھا۔
شمونہ اور میمونہ وہاں سے سالار اوریزی کے یہاں چلی گئیں، اب سالار اوریزی باغی اور مجرم نہیں تھا ،اس کی سالاری بحال کردی گئی تھی، اتفاق سے وہ شمونہ اور میمونہ کو مل گیا، اس سے مزمل کے متعلق پوچھا۔
مجھے امید نہیں کہ وہ زندہ ہو۔۔۔ سالار اوریزی نے کہا۔۔۔ مجھے وہ جگہ معلوم ہے جہاں مزمل نے اپنے آٹھ مجاہدوں کے ساتھ سرکاری فوج کے ایک دستے کی خیمہ گاہ پر رات کے وقت شب خون مارا تھا ،بڑا ہی خونریز معرکہ لڑا گیا تھا ان آدمیوں میں سے کوئی ایک بھی واپس نہ آیا تھا ،میں نے اگلے روز وہاں جا کر دیکھنا تھا کہ مزمل اور اس کے ساتھیوں کا کیا بنا لیکن سلطان کا بلاوا آگیا کہ لڑائی بند کر دی جائے اور جو کوئی جہاں بھی ہے وہاں سے واپس شہر میں آجائے، میرے لیے یہ حکم تھا کہ میں اپنے دستوں کو فوراً اکٹھا کرکے اسکے حکم کی تعمیل کروں، یہ ایسی وجہ تھی کہ میں مجبور ہوگیا اور مزمل اور اس کے جانباز جماعت کو دیکھنے جا ہی نہ سکا،،،،، اگر مزمل زندہ ہوتا تو خود میرے پاس پہنچ جاتا۔
سالار اوریزی نے ماں بیٹی کو وہ جگہ بتائی، یہی جگہ محمد نے بھی بتائی تھی ۔
شمونہ کی جذباتی کیفیت بگڑنے لگی اور اس نے رونا شروع کردیا ،لیکن وہ مزمل کی لاش دیکھے بغیر تسلیم نہیں کرنا چاہتی تھی کہ مزمل مارا جا چکا ہے۔
بیٹی !،،،،،،میمونہ نے کہا۔۔۔ اس تلخ حقیقت کو قبول کر لو کہ مزمل اس دنیا سے رخصت ہوچکا ہے ،اگر تم اکیلی یا ہم دونوں گئی تو پہچانی جاسکتی ہیں ،سوچ لو کیا ہوگا۔
جو کچھ بھی ہو گا ہوجائے۔۔۔ شمونہ نے پرعزم آواز میں کہا۔۔۔ اگر مزمل مرچکاہے تو میں اس کی لاش لاؤ گی، اور اسے باقاعدہ دفن کرو گی،،،،،،، اور اگر ماں تم ڈرتی ہو تو نہ جاؤ ،میں اکیلی چلی جاؤں گی۔
ماں نے شمونہ کو بہت سمجھایا اور اسے نتائج سے ڈرایا ،لیکن شمونہ کے دل میں مزمل کی جو محبت تھی اس محبت نے شمونہ پر دیوانگی طاری کر دی تھی ،اس کے لئے مزمل صرف اس لئے اہم نہیں تھا کہ وہ ایک دوسرے کو عشق کی حد تک چاہتے تھے، بلکہ اس لیے کہ مزمل ایک جنگجو مجاہد تھا جس نے اپنے خاندان سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور وہ حسن بن صباح کو قتل کرنے کے لئے چلا گیا تھا۔
اس رات شمونہ نے اپنی ماں کو سونے نہ دیا اور نہ خود سوئی، رات بھر تڑپتی رہی اور ماں کے ساتھ مزمل کی ہی باتیں کرتی رہی ،ماں نے سوچا کہ ایسا نہ ہو کہ وہ شمونہ کے ساتھ نہ جائے تو شمونہ اکیلی ہی اسے بتائے بغیر چلی جائے، اس نے شمونی سے کہا صبح ہوتے ہی اس جگہ روانہ ہوجائیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلی صبح سورج ابھی طلوع نہیں ہوا تھا کہ شمونہ اپنی ماں کے ساتھ گھر سے نکلی، دونوں گھوڑوں پر سوار تھے وہ گھوڑوں کا اور اونٹوں ے سواری کا زمانہ تھا ،حسن بن صباح کے ہاں جو لڑکیاں تخریب کاری کے لئے تیار کی جاتی تھیں انہیں شہسوار بنا دیا جاتا تھا، اور انھیں خنجر تیراندازی کی خاص طور پر ٹرینیگ دی جاتی تھی اور مشق بھی کرائی جاتی تھی، اپنے شکار کو زہر کھلانے یا پیلانے کے طریقے بھی بتائے جاتے تھے، لڑکیوں کا دل اور حوصلہ مضبوط کرنے کے لیے ہر لڑکی سے چار چار پانچ پانچ زندہ آدمی خنجروں یا تلواروں سے مروائے جاتے تھے، یہ بد قسمت آدمی جنہیں لڑکیوں کو ٹریننگ دینے کے لئے مروایا جاتا تھا وہ قید خانے میں بند قیدی ہوتے تھے، یا کسی بھی آدمی کو پکڑ کر ایک لڑکی کے حوالے کردیا جاتا اور اسے کہا جاتا کہ خنجر اس کے دل کے مقام پر مارو دل میں اترا ہوا خنجر شکار کو زندہ نہیں رہنے دیتا اور دوسرے وار کی ضرورت نہیں پڑتی، ایسے ہی لڑکی کے ہاتھ میں تلوار دے کر ایک آدمی کو اس کے سامنے جھکا دیا جاتا کہ لڑکی ایک ہی وار میں اس کی گردن صاف کاٹ دے ۔
شمونہ نے بھی یہ ٹریننگ حاصل کی تھی اس کی ماں میمونہ بھی خنجر زنی اور تیغ زنی کی سوجھ بوجھ رکھتی تھی۔
ان دونوں کے جسم سر سے ٹخنوں تک سیاہ لبادے میں ڈھکے ہوئے تھے اور دونوں کے چہروں پر اس طرح نقاب تھے کہ صرف آنکھیں نظر آتی تھیں، انہیں جس جگہ جانا تھا وہ شہر سے کم و بیش دس میل دور تھی، وہ علاقہ بڑا خوبصورت سبزہ زار تھا ،درخت بے شمار تھے اور خودرو پودے اور جھاڑیاں بھی تھیں ہرے بھرے فصل بھی کھڑے تھے، کچھ علاقہ ہموار اور میدانی تھا جس میں پگڈنڈی گذرتی تھی، آگے علاقہ چٹانیں شروع ہو جاتا تھا جس میں ہری بھری اور اونچی نیچی ٹیکریاں بھی تھیں اور ننگی چٹانیں بھی ،شفاف پانی کی ایک چھوٹی سی ندی بھی اس علاقے میں سے گزرتی تھی، اس علاقے میں تو بیل بوٹوں کی مہک ہوا کرتی تھی لیکن اب وہاں بدبو اور تعفن تھا ،اس فضا میں جس میں یہ روح افزا مہک ہوتی تھی اب مردارخور گدھ منڈلا رہے تھے ،یہ گدھ نیچے اترتے اور اڑ جاتے تھے، گدھ چند ایک نہیں تھے بلکہ فضا میں جدھر بھی نظر جاتی گدھ ہی اڑتے نظر آتے تھے، درختوں پر بھی گدھ بیٹھے ہوئے تھے، یہ گدھ ان انسانوں کا گوشت نوچ رہے تھے جو خانہ جنگی میں مارے گئے تھے۔
شمونہ اور میمونہ اس علاقے میں داخل ہو گئے تھے جو کچھ پہلے تک خونریز لڑائی کا میدان جنگ بنا رہا تھا ،چلتے چلتے شمونہ کی ہلکی سی چیخ نکل گئی، اسے ایک بھیڑیا نظر آیا جس کے منہ میں کسی آدمی کا بازو تھا وہ ایک طرف سے آیا اور بڑی تیزی سے شمونہ اور میمونہ کا راستہ کاٹتا ہوا آگے نکل گیا، وہ آدھے سے کچھ زیادہ سفر طے کر چکی تھیں، جب وہ چٹانی علاقے میں داخل ہوگئیں تو انہیں جگہ جگہ انسانی پنجر نظر آنے لگے، کھوپڑیاں ادھر ادھر پڑی نظر آتی تھیں، بعض کھوپڑیوں پر تھوڑا سا گوشت تھا اور بعض کو درندوں نے بالکل ننگا کردیا تھا ،کچھ کھوپڑیاں ایسی بھی تھیں جن کی آنکھیں سلامت تھیں اور کھلی ہوئی بھی تھیں، لاشوں کو گیدڑ بھیڑیے اودھ بلا اور گدھ کھا رہے تھے ،کھانے کے لیے اتنی زیادہ لاشیں تھیں کہ یہ درندے جن میں آوارہ کتے تھے آپس میں ذرا سا بھی لڑ نہیں رہے تھے۔
ان ہڈیوں میں تھوڑی دور کچھ آدمی ادھر ادھر گھوم پھر رہے تھے اور وہ ہڈیوں کے ہر ڈھانچے کو جھک کر دیکھتے اور کھوپڑیوں کو تو وہ خاص طور پر بیٹھ کر اور پہچاننے کی کوشش کرتے تھے، وہ اپنے عزیزوں کی لاشیں ڈھونڈ رہے تھے لیکن اب کسی کو پہچاننا ممکن نہیں رہا تھا۔
ماں بیٹی دو چٹانوں کے درمیان سے نکلیں تو آگے پھر علاقہ کھلا اور ہموار آگیا ،وہ تو کھوپڑیوں اور ہڈیوں کا دیس معلوم ہوتا تھا، جونہی گھوڑے آگے نکلے دونوں گھوڑے یکلخت رک گئے اور کانپنے لگے، گھوڑوں کی یہ بے چینی صاف نظر آرہی تھی دونوں گھوڑے آہستہ آہستہ پیچھے ہٹنے لگے، شمونہ اور میمونہ نے دیکھا کہ ایک دھاری دار شیر جو بہت بڑا بھی نہیں تھا اور بچہ بھی نہیں تھا منہ میں انسانی جسم کا کچھ حصہ پکڑے آرہا تھا ،اس انسانی جسم کے حصے کی کھوپڑی تھی اور ایک طرف کا کندھا اور آدھا بازو تھا، شیر اسے منہ میں لئے آہستہ آہستہ چلتا آیا اور گھوڑوں سے تھوڑی ہی دور ایک طرف کو مڑا اور جھاڑیوں میں اور پھر ایک ٹیکری کے پیچھے غائب ہوگیا ،اس شیر کو گھوڑوں نے پہلے ہی دیکھ لیا تھا اور ڈر کر کانپنے لگے تھے۔
نہیں،،،، نہیں،،،، شمونہ نے تڑپ کر کہا۔۔۔مزمل زندہ ہوگا،،،، اس کے جسم کو کوئی درندہ کاٹ نہیں سکتا۔
شمونہ بچوں کی طرح رو پڑی اور اس کی ہچکی بندھ گئی۔
شمونہ بیٹی!،،،،، میمونہ نے شمونہ سے کہا۔۔۔ میری مانو اور یہیں سے واپس چلی چلو ،مزمل اگر تمہیں مل بھی گیا تو اسی حالت میں ملے گا جو حال تم ان انسانوں کی دیکھ رہی ہو جو یہاں لڑے تھے، مزمل کی کھوپڑی دیکھ کر اگر تم نے پہچان لی تو تم اپنا دماغی توازن کھو بیٹھو گی۔
نہیں !،،،،،،شمونہ نے دبی دبی لیکن پرعزم آواز میں کہا۔۔۔ میرا دل گواہی دیتا ہے کہ مزمل مجھے زندہ مل جائے گا، میں اسے دیکھے بغیر واپس نہیں جاؤں گی، اگر اس کی کھوپڑی ہی نظر آگئی تو یہ تسکین تو ہو جائے گی کہ وہ مارا جا چکا ہے اور اب اس سے ملاقات اگلے جہان میں ہوگی ۔
شیر کے غائب ہوجانے کے بعد گھوڑے آگے چل پڑے۔
ایک ہری بھری ٹیکری سے گھوم کر شمونہ اور میمونہ آگے نکلیں تو انہیں ایک بڑے ہی شفاف پانی کی ندی نظر آئی، محمد اور سالار اوریزی نے انہیں بتایا تھا کہ راستے میں ایک ندی آئے گی جس میں سے گزر کر آگے جانا ہے اور ذرا ہی آگے ایک قبرستان ہوگا،،،،،،،وہ ندی میں سے گھوڑے نکال کر لے گئیں آگے قبرستان بھی آگیا ،قبرستان کے قریب ہی ایک گاؤں تھا جو اتنا زیادہ آباد نہیں لگتا تھا ،ماں بیٹی کو اس قبرستان میں سے گزرنا تھا وہ قبرستان میں داخل ہوگئیں ،انہیں بہت سی تازہ قبریں نظر آئیں جن کی مٹی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی۔
اس قبرستان میں ایک قبر کے قریب ایک ضعیف العمر سفید ریش آدمی کھڑا تھا جس کے ہاتھ میں لمبی لاٹھی تھی اور وہ اس لاٹھی کے سہارے کچھ جھکا ہوا تھا ،شمونہ اور میمونہ اس کے قریب جا کر رک گئیں۔
کیا یہ آپ کے کسی عزیز کی قبر ہے؟،،،،، شمونہ نے اس سفید ریش بزرگ سے پوچھا۔
صرف یہی نہیں۔۔۔ بزرگ نے پاؤں پر کھڑے کھڑے ہاتھ پھیلائے اور گھوم کر ساری قبرستان کی طرف اشارہ کرکے کہا۔۔۔ یہ سب میرے عزیز ہیں، صرف عزیز ہی نہیں میری تو پوری قوم مر گئی ہے ،یہ سب نئی قبریں جو تم دیکھ رہی ہو میرے ہی عزیزوں کی ہیں، اور تم نے راستے میں دیکھا ہوگا کہ جن لاشوں کو بھیڑیے گیدڑ کتے اور گدھے کھا رہے ہیں وہ بھی میرے عزیز ہیں ،جس قوم میں پھوٹ اس طرح پڑ جائے کہ وہ قوم اپنا ہی خون بہانے پر اتر آئے اس کی لاش کو کتے اور درندے ہی کھایا کرتے ہیں، جن دلوں کے دروازے بند کردیے جائیں تو لوگ کہتے ہیں کہ اب دشمن اندر نہیں آسکتا لیکن دلوں کے دروازے اس طرح کھول دیئے جائیں کہ کفار کا طلسم اس میں داخل ہوتا رہے اور کافر حسینائیں بھی اس میں داخل ہوتی رہیں حکمرانی اور زروجواہرات کی ہوس دل کے دروازوں کو کبھی بند نہ ہونے دے تو قلعے اور اونچی اور چوڑی دیواروں اور لوہے جیسے مضبوط اور بند دروازوں کے باوجود ریت کے گھروندے بن جایا کرتے ہیں، عقل پر پردے پڑ جاتے ہیں، پھر اپنا سگا بھائی بھی دشمن نظر آنے لگتا ہے، ہماری قوم سے اور ہمارے سلطان سے یہی گناہ سرزد ہوا اور دیکھو اس کی سزا کیسے مل رہی ہے، ماؤں کے سجیلے بیٹوں کو کتے اور گدھ نوچ رہے ہیں اور ان کی کھوپڑیاں ہر طرف بکھر گئی ہیں، یہ تو خوش قسمت تھے جن کی سالم لاشیں ان کے عزیز اٹھا لائے اور ان کے جنازے پڑھ کر انہیں دفن کیا گیا، انہیں دیکھو جن کے نصیب میں نہ کفن تھا،نہ جنازہ ،نہ قبرمیں دفن ہوئے،،،،،،،، تم کہاں سےآئی ہو اور کدھر جا رہی ہو؟
یہ میری بیٹی ہے۔۔۔ میمونہ نے شمونہ کی طرف اشارہ کرکے کہا۔۔۔ ہم اپنے ایک عزیز کی لاش کی تلاش میں نکلی ہیں، میں اسے بار بار کہہ رہی ہوں کہ واپس چلی چلو میں جانتی ہوں کہ اس کی لاش مل بھی گئی تو برے حال میں ہوگی، لیکن یہ نہیں مانتی۔
اسے ڈھونڈ لینے دو۔۔۔ سفید ریش بزرگ نے لرزتی ہوئی آواز میں کہا۔۔۔ ورنہ یہ خلش اسے ساری عمر تڑپاتی رہے گی ،میرے دو جوان بیٹے اس لڑائی میں ضائع ہوگئے ہیں، ان کے ساتھیوں نے مجھے بتایا کہ وہ مارے گئے تھے لیکن ان کی لاشیں نہیں ملیں ،میں یہاں قبرستان میں آکر فاتحہ پڑھتا ہوں اور اپنے آپ کو یہ یقین دلا رکھا ہے کہ اب ان سب تازہ قبروں میں جو دفن ہیں وہ میرے ہی بیٹے ہیں۔
ماں بیٹی بوجھل دل سے وہاں سے چل پڑیں اور تازہ قبروں کو دیکھتی ہوئی قبرستان سے نکل گئیں، آگے علاقہ پھر غیرہموار سا آگیا لیکن تھا وہ بھی بڑا دلکش اور خوبصورت علاقہ، ننگی بے آب و گیاہ چٹانیں بھی تھیں اور درختوں اور گھاس سے لدی ہوئی ٹیکریاں بھی، وہ چلتی چلی گئیں اور کچھ دور گئیں تو انہیں ایک چٹان کے دامن میں چشمہ نظر آیا، سات آٹھ گز کی گولائی میں پانی جمع تھا اور چشمہ چٹان میں سے نکل رہا تھا، پانی اتنا شفاف کے تہہ تک چھوٹی چھوٹی کنکریاں اور ذرا ذرا جتنی مچھلیاں بھی نظر آرہی تھیں۔
شمونہ نے ماں سے کہا کہ وہ پانی پینا چاہتی ہے، ماں بیٹی گھوڑے سے اتریں دونوں نے نقاب ہٹا دیے کیونکہ انہوں نے ہاتھوں سے پانی پینا تھا، دونوں چشمے کے کنارے بیٹھ گئیں اور چلّو سے پانی پینے لگیں۔
شمونہ نے ہاتھ پانی میں ڈبو لیے اور چلو سے پانی پینے لگی تو اسے دائیں طرف گھوڑوں کے قدموں کی آہٹ سنائی دی، اس نے اور میمونہ نے دائیں طرف دیکھا دو گھوڑے رکے کھڑے تھے اور ان پر دو آدمی سوار تھے، ایک ادھیڑ عمر تھا اور دوسرا اس سے کم عمر، شمونہ کے چہرے سے نقاب ہٹا ہوا تھا۔
ادھیڑ عمر گھوڑسوار کو دیکھ کر شمونہ کے ہاتھ رک گئے اور اس کے ہاتھوں سے پانی نکل گیا، شمونہ کے چہرے پر گھبراہٹ کا تاثر آگیا، گھوڑسوار کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ آگئی، وہ گھوڑے سے اتر آیا اس کا ساتھی بھی گھوڑے سے اترا شمونہ نے اپنی ماں سے کہا کہ اٹھو چلیں۔
کیوں کیا ہوا؟،،،،،، ماں نے شمونہ کے چہرے پر گھبراہٹ کے آثار دیکھ کر سرگوشی میں پوچھا۔
اس شخص نے مجھے پہچان لیا ہے۔۔۔ شمونہ نے اپنے گھوڑے کی طرف جاتے ہوئے دھیمی آواز میں جواب دیا۔۔۔ جلدی آ جاؤ ماں ،یہ اس ابلیس حسن بن صباح کا خاص آدمی ہے۔
شمونہ اور میمونہ نے اپنے گھوڑوں کو کھلا چھوڑ دیا تھا اس لیے وہ چند قدم دور چلے گئے اور گھاس کھا رہے تھے، گھوڑے قریب ہوتے تو وہ دونوں فوراً ان پر سوار ہو جاتیں اور ایڑ لگا دیتیں، لیکن شمونہ ابھی اپنے گھوڑے تک نہیں پہنچی تھی کہ وہ ادھیڑ عمر شخص اس تک پہنچ گیا اور اس کے راستے میں آن کھڑا ہوا ،اب اس کی مسکراہٹ اور زیادہ پھیل گئی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بچھڑے ہوئے راہی زندگی میں کسی نہ کسی موڑ پر مل جایا کرتے ہیں۔۔۔ اس آدمی نے بڑے شگفتہ لہجے میں کہا۔۔۔ امام حسن بن صباح کا کوئی ہیرا گم ہو جائے تو کچھ عرصے بعد ہیرا خود ہی امام کے پاس پہنچ جاتا ہے۔
کون ہو تم ؟،،،،،،شمونہ نے اپنے چہرے پر نقاب ڈال کر ذرا غصیلی آواز میں کہا۔۔۔ تم ڈاکو یا رھزن معلوم ہوتے ہو، اس غلط فہمی میں نہ رہنا کہ ہم عورتیں ہیں اور تم ہم پر قابو پا لو گے۔
کیا تم بھول گئی ہو میں کون ہوں ۔۔۔۔اس شخص نے کہا ۔۔۔امام آج بھی تمہارے لئے چشم براہ ہے،،،،،،، آؤ چلیں۔
مجھے سوچ سمجھ کر ہاتھ لگانا ۔۔۔شمونہ نے کہا ۔۔۔بہت برے انجام تک پہنچو گے ۔
کیا چاہتے ہو تم ؟،،،،،میمونہ نے اس آدمی کے آگے ہو کر پوچھا ۔۔۔میری بیٹی کے پیچھے کیوں پڑ گئے ہو۔
شمونہ !،،،،،،اس شخص نے میمونہ کو نظر انداز کرتے ہوئے شمونہ سے کہا۔۔۔ میں اتفاق سے ادھر آ نکلا تھا ،یہاں امام کا گمشدہ ہیرا نظر آگیا میں اس ہیرے کو کیسے چھوڑکر جا سکتا ہوں،،،،، تمہیں میرے ساتھ چلنا پڑے گا۔
وہ شخص میمونہ کو ہاتھ سے ایک طرف کرکے شمونہ کی طرف بڑھا ،شمونہ کے لئے پیچھے ہٹنے کو جگہ نہیں تھی کیونکہ پیچھے چشمے کا پانی تھا اور وہ بالکل کنارے پر کھڑی تھی، اس شخص نے شمونہ کے قریب جا کر اس کے نقاب پر ہاتھ رکھا، وہ اس کا چہرہ بے نقاب کرنا چاہتا تھا شمونہ نے بڑی تیزی سے اپنے کپڑوں کے اندر ہاتھ ڈالا وہ شخص سمجھ نہ سکا کے شمونہ کیا کر رہی ہے، شمونہ نے اسی تیزی سے ہاتھ باہر نکالا تو اس کے ہاتھ میں لمبا خنجر تھا ،وہ گھر سے اپنے نیفے میں اڑس کر لائی تھی، اس نے بجلی کی سرعت سے خنجر اس آدمی کے دل میں اتار دیا، خنجر کھینچا اور ایک بار پھر خنجر اسی مقام پر مارا۔
وہ آدمی سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر پیچھے ہٹا اب وہ لڑکھڑا رہا تھا ،شمونہ جانتی تھی کہ یہ شخص اب چند لمحوں کا مہمان ہے اس شخص نے اپنی تلوار کے دستے پر ہاتھ رکھا اور تلوار نیام میں سے کھینچی لیکن تلوار ابھی آدھی باہر آئی تھی کہ وہ لڑکھڑایا اور ایک پہلو پر گر پڑا۔
اس دوران اس کا ساتھی جو اس کی نسبت جوان تھا بڑا تیز دوڑتا ادھر آیا، میمونہ بھی تیزی سے دوڑی اور سامنے سے اس آدمی کو اپنے ایک کندھے کی ٹکر اتنی زور سے ماری کہ وہ آدمی سنبھلتے سنبھلتے چشمے میں جاگرا ،وہ تھا ہی چشمے کے کنارے پر۔
میمونہ کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا چشمہ اتنا گہرا نہیں تھا کہ وہ آدمی ڈوب جاتا وہ پانی میں گرا اور ابھی اٹھ ہی رہا تھا کہ شمونہ نے جھپٹ کر اس پر جست لگائی اور خنجر اس کی پیٹھ میں اتار دیا ،وہ چشمے میں گری اور اٹھ کھڑی ہوئی اس آدمی کے ہاتھ سے تلوار گر پڑی تھی، شمونہ اٹھ کر سنبھلی اور ایک بار پھر خنجر اس آدمی کے پہلو میں اتار دیا ،وہ پانی میں سے نکلنے کی کوشش کرنے لگا پانی بمشکل کمر تک گہرا تھا۔
وہ چل نہیں سکتا تھا وہ پانی میں ہی گر پڑا اور پھر اٹھنے کی کوشش کرنے لگا ،شمونہ نے آگے بڑھ کر اسے اوپر سے دبایا اور اسے ڈبو دیا وہ ذرا سا تڑپا اور ختم ہوگیا۔
شمونہ ماں کا ہاتھ پکڑ کر چشمے میں سے نکلی، دوسرا آدمی باہر مرا پڑا تھا ،چشمے کا پانی خون سے لال ہونے لگا یہاں سے پانی ایک نالی کی صورت میں باہر کو بہتا تھا اور آگے جا کر ندی میں مل جاتا تھا ۔
چلو ماں!،،،،،،شمونہ نے کہا ۔۔۔۔کتوں اور گدھوں کو اب تازہ گوشت مل جائے گا۔
شمونہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوگئی اس کی ماں نے باہر پڑے آدمی کی لاش سے تلوار کھول لی، پھر وہ چشمے میں اتری تو اس آدمی کی تلوار بھی اٹھا لی، نیام اس کے کمر سے بندھی ہوئی تھی جو اس نے کھول لی، میمونہ نے دونوں کے گھوڑے بھی پکڑ لئے، ایک گھوڑے کی زین کے ساتھ چمڑے کا تھیلا بندھا ہوا تھا میمونہ نے وہ تھیلا کھولا تو اس میں کچھ درہم پڑے ہوئے تھے اور باقی سب سونے کے چھوٹے چھوٹے ٹکڑے تھے تھیلا انہی سے بھرا ہوا تھا، ماں نے یہ تھیلا کھول کر شمونہ کو دکھایا۔
یہ لوگوں کو خریدنے کے لیے ساتھ لایا تھا۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ اگر یہ شخص شہر میں زندہ پہنچ جاتا تو کوئی نیا ہی طوفان کھڑا کر دیتا۔ اب میرا حوصلہ پوری طرح مضبوط ہوگیا ہے۔۔۔ میمونہ نے کہا۔۔۔ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ اللہ ہمارے ساتھ ہے ورنہ ایک لڑکی اتنے تنومند آدمی کو یوں آسانی سے قتل نہ کرتی اور جس طرح اس کا ساتھی تمہارے ہاتھوں مارا گیا ہے یہ بھی ایک ثبوت ہے کہ ہم صحیح راستے پر جا رہے ہیں اور اللہ نے ہمارا ہاتھ پکڑ رکھا ہے۔
انہوں نے ان دونوں آدمیوں کے گھوڑوں کی باگیں اپنے گھوڑوں کے پیچھے باندھ لیں اور گھوڑوں پر سوار ہو کر چل پڑیں۔
اب سنو ماں مزے کی ایک بات سناتی ہوں۔۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔۔ میں جب حسن بن صباح کے پاس تھی تو اس شخص نے مجھے خنجر زنی اور تیغ زنی اور گھوڑسواری سکھائی تھی، اسی نے مجھے بتایا تھا کہ دل کہاں ہوتا ہے اور اس میں خنجر کس طرح مارا جاتا ہے ،یہ شخص میری سکھلائی اس طرح کرتا تھا کہ عام خنجر جتنا لمبا لکڑی کا ایک ٹکڑا میرے ہاتھ میں دے کر سامنے کھڑا ہو جاتا اور کہتا کہ میرے دل کے مقام پر مارو، میں اسکی سکھلائی کے مطابق لکڑی کا یہ ٹکڑا اس کے دل کے مقام پر آہستہ سے مارتی تھی، پھر یہ مجھے سکھلاتا تھا کہ خنجر کس طرح تیزی سے نکالا جاتا ہے اور دشمن کسی بھی زاویے پر کھڑا ہو اسے کس طرح مارا جاتا ہے، میں نے آج اسی کا سکھلایا ہوا داؤ اسی پر استعمال کیا ہے، مرتے وقت اسے یہ خیال ضرور آیا ہوگا کہ میں اسکے سکھلائے ہوئے طریقے بھولی نہیں، اس نے مجھے یہ بھی مشق کرائی تھی کہ پیٹھ کی طرف سے دل میں خنجر کس طرح اتارا جاتا ہے، میں نے چشمے میں اس کے ساتھی کی پیٹھ میں جو خنجر مارا تھا وہ یقینا اس کے دل میں اتر گیا تھا ورنہ وہ اتنی جلدی نہ گرتا۔
میں تو اللہ کا ہی شکر ادا کرتی ہوں بیٹی!،،،،،، میمونہ نے کہا۔۔۔ اللہ کی مدد کے بغیر کوئی بھی کچھ نہیں کر سکتا۔
کچھ عرصہ یہ میرا محافظ بھی بنا رہا ہے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔حسن بن صباح نے جب مجھے پہلے شکار پر بھیجا تھا تو یہ شخص میرا محافظ بن کر میرے ساتھ آیا تھا ،میں نے پہلا شکار بڑی کامیابی سے پھانس لیا تھا اور جب اس شخص کو یقین ہوگیا کہ میں اپنے کام میں ماہر ہو گئی ہوں اور قابل اعتماد بھی ہوں تو یہ چلا گیا تھا،،،،،،،، میں نے اسے صرف اس لئے قتل نہیں کیا کہ یہ مجھے اپنے ساتھ پھر حسن بن صباح کے پاس جانے کی کوشش کر رہا تھا، بلکہ اسے دیکھ کر میرے دل میں نفرت کا طوفان اٹھ آیا تھا ،یہ جب میرے ساتھ میرا محافظ بن کر آیا تھا تو اس نے مجھے اپنی چھوٹی بہن تو نہیں سمجھا تھا، یہ شیطان میری عصمت کے ساتھ کھیلتا رہا تھا، حالانکہ حسن بن صباح کا حکم یہ تھا کہ مجھ جیسی لڑکیوں کے ساتھ ہوس کاری کا کھیل نہ کھیلا جائے تاکہ یہ خاصی عمر تک تندرست اور پھرتیلی رہیں، اس وقت تو میں نے کچھ بھی محسوس نہیں کیا تھا، نہ اسے گناہ سمجھا تھا کیونکہ حسن بن صباح کے یہاں عصمت اور آبرو نام کی کوئی چیز نہیں، یہ احساس کہ میں آبرو باختہ ہوں اس وقت میرے اندر یہ احساس پیدا ہوا تھا جب میں یہاں آگئی اور مجھے تم ملی اور پھر میرے دل میں مزمل کی محبت پیدا ہوئی ،آج اس شخص کو دیکھا تو میرے وجود میں آگ لگ گئی اور میں نے عہد کر لیا کہ اپنی عصمت کا انتقام لوں گی، وہ میں نے لے لیا ہے اور اب یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میری روح ہلکی پھلکی ہوگئی ہے،،،،،،،، میری پیاری ماں دعا کروہمیں مزمل مل جائے۔
ایک بات سن لو بیٹی !،،،،،میمونہ نے کہا۔۔۔دل سے یہ یقین نکال دو کہ مزمل تمہیں زندہ مل جائے گا ورنہ تمہیں بہت زیادہ صدمہ ہوگا ،اس کی بجائے دل میں یہ رکھو کہ مزمل زندہ نہیں ملے گا، میں تو کہتی ہوں کہ ہمیں یہ حقیقت قبول کر لینی چاہیے کہ مزمل زندہ نہیں،اگر وہ زندہ مل گیا تو تم دیکھنا تمہیں کتنی خوشی حاصل ہوگی۔
محمد اور سالار اوریزی نے انہیں جو راستہ بتایا تھا اس کی ایک نمایاں نشانی یہ چشمہ تھا، اور انہوں نے کہا تھا کہ اس چشمے سے پانی بہہ کر ایک نالی کی صورت میں آگے جاتا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ چلی جانا اور تھوڑی دور آگے وہ جگہ ہے جہاں مزمل نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرکاری فوج کے ایک دستے کے پڑاؤ پر شب خون مارا تھا،،،،،،،،،، وہ چشمہ آ گیا اور اب ماں بیٹی اس کے ساتھ ساتھ جا رہی تھیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ بے آب و گیاہ چٹانوں اور ہری بھری ٹھیکریوں کا علاقہ تھا تھوڑے تھوڑے فاصلے پر پانی کی یہ نالی مڑتی تھی، ماں بیٹی اس کے ساتھ ساتھ دائیں بائیں مڑتے آگے بڑھتے گئے ایک اور موڑ مڑے تو دیکھا یہ پانی خاصی دور تک بہتا تھا۔
وہ جگہ تو یہی ہے۔۔۔ میمونہ نے کہا۔۔۔وہ دیکھو لمبوتری چٹان کھڑی ہے، لیکن شمونہ بیٹی تم کو تو عقل نہیں، ذرا سوچو مزمل کوئی بے جان چیز تو نہیں کہ کسی نے ہمیں بتایا ہوکے ایک لمبوتری چٹان آئے گی اور وہ چیز جس کا نام مزمل ہے وہاں پڑی ہوئی مل جائے گی، بتانے والوں نے تو ہمیں وہ علاقہ بتایا ہے جہاں مزمل نے شب خون مارا تھا ضروری نہیں کہ وہ اس رات سے اب تک یہیں ہو، کسی اور طرف نکل گیا ہوگا ۔
میرے دل کی آواز سنو ماں!،،،،،، شمونہ نے ایسے لہجے میں کہا جو اس کا قدرتی لہجہ نہیں تھا۔۔۔ میرے دل کی میرے روح کی آواز سنو، اسے میرا وہم ہی سمجھ لو لیکن کوئی جذبہ یا کوئی غیبی طاقت مجھے کہہ رہی ہے کہ چلی چلو تمہیں مزمل مل جائے گا۔
میمونہ نے شمونہ کا یہ لب و لہجہ دیکھا تو اس کے آنسو نکل آئے، صاف پتا چلتا تھا کہ شمونہ کا دماغی توازن ٹھیک نہیں رہا ،میمونہ کچھ دیر شمونہ کو دیکھتی رہی شمونہ کا گھوڑا پانی کی نالی سے بائیں طرف اور میمونہ کا گھوڑا دائیں طرف پہلو بہ پہلو چل رہے تھے، شمونہ سامنے دیکھ رہی تھی اور میمونہ کی نظریں شمونہ کے چہرے پر لگی ہوئی تھی ،میمونہ کو بہت دکھ ہو رہا تھا کہ اس کی بیٹی کی جذباتی کیفیت اس کے قابو سے باہر ہو رہی تھی۔
وہ دیکھو ماں!،،،،،شمونہ نے چونک کر سامنے اشارہ کیا اور بےتابی سے کہا ۔۔۔۔وہ دیکھو کوئی آدمی ہے۔
میمونہ نے سامنے دیکھا اسے کوئی آدمی نظر نہ آیا ،وہاں درخت زیادہ تھے جھاڑیاں بھی تھیں اور گھاس ذرا اونچی تھیں، میمونہ کو کوئی آدمی نظر نہ آیا تو اسے بہت ہی دکھ ہوا کہ اس کی بیٹی کو اب اسی طرح کے واہم نظر آنے لگے ہیں جیسے ریگستان میں جاتے ہوئے مسافر کو سراب نظر آنے لگتے ہیں، اب تو میمونہ کو یقین ہونے لگا کہ اس کی بیٹی کا دماغ ماؤف ہو گیا ہے۔
ہوش میں آ شمونہ !،،،،،،میمونہ نے دکھے ہوئے لہجے میں کہا۔۔۔ مجھے تو کوئی آدمی نظر نہیں آرہا ۔
وہ چلتے چلتے بیٹھ گیا ہے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ وہ دیکھو۔
اب میمونہ نے ادھر دیکھا تو اسے ایک آدمی نظر آیا جو ایک درخت کے تنے پر ہاتھ رکھے اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا ،وہ اس سے تیس پینتیس قدم دور ہوگا اس کے کپڑے سرخ رنگ کے تھے، وہ اٹھ کھڑا ہوا اس کے ہاتھ میں کوئی چیز تھی۔
صاف پتا چلتا تھا کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکتا ،اس نے تنے کو دونوں بازو سے پکڑ رکھا تھا چند لمحوں بعد اس نے تنے کو چھوڑا اور آگے کو قدم اٹھایا وہ بمشکل دو یا تین قدم چلا ہوگا کہ اس کے گھٹنے زمین پر جا لگے اور پھر اس نے دونوں ہاتھ زمین پر ٹیک دیے، پانی کی نالی اس سے پانچ چھ قدم دور تھی اب اس آدمی نے اٹھنے کی بجائے ہاتھوں اور گھٹنوں کے بل پانی کی طرف چلنا شروع کردیا، میمونہ اور شمونہ نے اپنے گھوڑے ذرا تیز کر دیئے۔
گھوڑے اس سے دس بارہ قدم دور رہ گئے تو اس آدمی نے ادھر دیکھا اس وقت میمونہ اور شمونہ نے دیکھا کہ اس شخص کے کپڑے جو دور سے سرخ نظر آتے تھے دراصل خون سے سرخ ہوگئے تھے، اس آدمی نے ماں بیٹی کو دیکھا تو اس نے اٹھنے کی کوشش کی لیکن گرپڑا، اس کے قریب چھوٹا سا ایک درخت تھا اس نے اس طرف ہو کر درخت کا سہارا لیا اور اٹھ کھڑا ہوا ،پیٹھ درخت کے ساتھ لگا لی اور نیام سے تلوار کھینچ لی، ماں بیٹی اس کے بالکل قریب پہنچ گئی اور گھوڑے روک لئے۔ میرے قریب نہ آنا۔۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔ تم باطنی ہو، میرے قریب آؤ گی تو زندہ نہیں چھوڑوں گا، مرتے مرتے تم دونوں کو مار کر مروں گا۔
ماں بیٹی گھوڑوں سے اتری وہ آدمی بہت ہی زخمی تھا ،اس کے سر پر کپڑا لپٹا ہوا تھا، دونوں اس کے پاس جا رکیں، اور اس آدمی نے تلوار تان لی۔
تم مسلمان لگتے ہو۔۔۔ میمونہ نے کہا۔۔۔ ہم باطنی نہیں ،ہم اپنے ایک عزیز کو ڈھونڈتی پھر رہی ہیں، تمھیں اس حالت میں یہاں چھوڑ کر نہیں جائیں گی، دیکھو ہمارے پاس دو فالتو گھوڑے ہیں جہاں کہو گے تمہیں ایک گھوڑے پر ڈال کر پہنچا دیں گے، ہم سے نہ ڈرو ، میرا خیال ہے کہ شہر میں اردگرد کے علاقے میں کوئی باطنی زندہ نہیں۔
پھر ڈھونڈ لو اپنے عزیز کو۔۔۔ اس زخمی آدمی نے مری مری سی آواز میں کہا۔۔۔یہاں اب تمہیں لاشیں ہی ملیں گیں، اگر تمہارے عزیز کا چہرہ سلامت ہوا تو پہچان لینا ۔
تم یہاں کیا کر رہے ہو؟،،،،، شمونہ نے پوچھا اور کہا۔۔۔ اور بتاؤ کہ ہم تمہیں کہاں لے چلیں۔
میں پانی پینے آیا ہوں ۔۔۔اس آدمی نے کہا۔۔۔ یہ دیکھو چھاگل یہ بھر کر اپنے ایک ساتھی کے لیے لے جاؤنگا وہ مجھ سے زیادہ زخمی ہے۔
وہ آدمی جو جواں سال تھا پاؤں پر زیادہ دیر کھڑا نہ رہ سکا، شمونہ نے آگے بڑھ کر اس کے ہاتھ سے چھاگل لے لی ،یہ چمڑے کا چھوٹا سا ایک مشکیزہ تھا جو اس دور میں مسافر پانی کے لیے استعمال کیا کرتے تھے، شمونہ نے اسکا یہ مشکیزہ پانی سے بھر لیا اور اسی سے اسے پانی پلایا اور پھر مشکیزے کا منہ بند کر دیا ،زخمی آدمی نے پانی پی کر لمبا سانس چھوڑا۔
یہاں قریب ہی ایک غار ہے۔۔۔ اس آدمی نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔میرا ایک ساتھی مجھ سے زیادہ زخمی حالت میں وہاں پڑا ہے ،میں نے اسے جا کر پانی پلانا ہے، وہ شاید زندہ نہ رہ سکے، وہ نہ رہا تو شاید میں بھی نہ رہوں۔
ہم تم دونوں کو ساتھ لے جائیں گے ۔۔۔میمونہ نے کہا۔۔۔ چلو ہم تمہیں سہارا دے کر لے چلتی ہیں۔
ماں بیٹی نے اسے دائیں بائیں ہو کر اٹھایا اور اسے پہلو سے سہارا دے کر آگے کو چل پڑیں، زخمی کو اتنا ہی سہارا چاہیے تھا۔
صرف ایک دکھ ہے۔۔۔ زخمی آدمی نے کہا۔۔۔ میرے ہاتھوں میرے بھائی قتل ہوئے ہیں ،میں سرکاری فوج کے خلاف لڑا تھا ،اس فوج میں میرے بھائی بھی تھے ،وہ کوئی غیر تو نہیں تھے ،دیر بعد پتہ چلا یہ فتنہ باطنیوں نے کھڑا کیا تھا ،زندہ رہنے کی خواہش صرف اس لیے ہے کہ میں حسن بن صباح کو قتل کروں گا۔
یہ جواں سال آدمی اس قدر زخمی تھا کہ میمونہ اور شمونہ اسے جہاں بھی ہاتھ رکھتی تھی وہ کہتا تھا کہ ہاتھ ذرا نیچے یا اوپر رکھنا یہاں زخم ہے ،اس نے بتایا کہ وہ دونوں ساتھی بری طرح زخمی ہیں، اور اگر انہوں نے مرنا ہوتا تو دو چار دن پہلے ہی مر چکے ہوتے ،اس نے پرعزم لہجے میں کہا کہ وہ ابھی تک شاید اس لیے زندہ ہیں کہ اللہ نے ان سے کوئی اور کام کروانا ہے، ایسی ہی باتیں کرتے کرتے زخمی ماں بیٹی کے سہارے ایک چٹان کے پہلو کی طرف گیا اور وہاں ایک کشادہ غار دیکھا جو زیادہ لمبا نہیں تھا، ایک آدمی جس کے کپڑے خون سے لال سرخ تھے لیٹا ہوا تھا، یوں لگتا تھا جیسے اس کا جسم جگہ جگہ سے کٹا ہوا ہو ،وہ پہلو کے بل لیٹا ہوا تھا اور باہر کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔
مزمل بھائی !،،،،،،زخمی جوان نے اسے پکارا اور کہا ۔۔۔یہ لوگ تمہارے لئے پانی لے آئے ہیں، اور دیکھو اللہ نے ہمارے لیے گھوڑے بھی بھیج دیے ہیں۔
میمونہ اور شمونہ نے مزمل کا نام سنا تو چونک اٹھیں، ادھر غار میں زمین پر پڑے ہوئے زخمی نے کروٹ بدلی تو اس کا چہرہ سامنے آگیا ،وہ مزمل آفندی تھا اس کے چہرے پر بھی کپڑا لپٹا ہوا تھا ،شمونہ اس پر اس طرح جھپٹی جس طرح شیر شکار پر جھپٹتا ہے ،وہ اس پر جا پڑی اور پھر مزمل مزمل کہتی ہوئی اسے اٹھانے لگی، یہ ایک معجزہ تھا کہ مزمل ہوش میں تھا اور اس نے شمونہ اور میمونہ کو پہچان لیا ،وہ بیٹھ گیا اور شمونہ نے پانی کی چھاگل کا منہ کھولا اور چھاگل اس کے منہ کے ساتھ لگا دی۔
مزمل نے پانی پی لیا تو اس نے بولنے کی کوشش کی لیکن بول نہ سکا ،وہ بہت ہی کمزور ھو گیا تھا اور اس کے جسم میں خون کے چند ہی خطرے رہ گئے تھے، شمونہ اسے بازوؤں میں لے کر دیوانوں جیسی حرکتیں کر رہی تھی، جیسے ماں کو اپنا وہ گم شدہ بچہ مل گیا ہو جس کے ملنے کی امید دم توڑ گئی تھی۔
میمونہ اور شمونہ نے ایک گھوڑے پر مزمل کو اور دوسرے پر اس کے ساتھی کو اٹھا کر بٹھایا اور یہ قافلہ شہر کی طرف چل پڑا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مزمل کے ساتھی کا نام رحیم ابن یونس تھا اور وہ بن یونس کے نام سے مشہور تھا۔ میمونہ اور شمونہ نے دیکھ لیا تھا کہ ان دونوں کے جسموں سے کافی خون نکل گیا ہے اور یہ صرف پانی پیتے رہے ہیں اور کھانے کو انہیں کچھ نہیں ملا ،ان کی حالت بتاتی تھیں کہ مرو تک مشکل سے ہی پہنچیں گے۔
شمونہ بیٹی !،،،،،میمونہ نے شمونہ کے قریب ہو کر آہستہ سے کہا۔۔۔ ان کا علاج معالجہ شاہی طبیب اور جرح ہی کرسکتے ہیں، کوئی عام طبیب ان کے جسموں میں جان نہیں ڈال سکے گا ۔
میں انہیں سلطان کے محل میں لے جاؤں گی۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ ان کی مرہم پٹی اور علاج سلطان کا طبیب کرے گا۔
سورج غروب ہونے میں کچھ دیر باقی تھی جب چار گھوڑے سلطان کے محل کے باہر والے دروازے میں داخل ہوئے، دربان شمونہ اور اس کی ماں میمونہ کو جانتے تھے اس لیے انہیں روکا نہ گیا، نہ روکنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ دو گھوڑوں پر دو زخمی اس حال میں سوار تھے کہ وہ زینوں پر بیٹھے ہوئے نہیں بلکہ آگے کو پیٹ کے بل ہو گئے تھے اور غالبا وہ ہوش میں بھی نہیں تھے۔
شمونہ گھوڑے سے کود کر اتری اور محل میں داخل ہوگئی، وہ سلطان برکیارق کا پوچھ رہی تھی لیکن اسے بتایا گیا کہ سلطان بھی نہیں ،وزیراعظم سمیری بھی نہیں، اور محمد اور سنجر بھی نہیں ہیں، یہ پتا چلا کہ برکیارق کی ماں اپنے کمرے میں ہے، شمونہ دوڑتی ہوئی اس کمرے میں پہنچی، شمونہ نے روزینہ کو سلطان برکیارق کے ہاتھوں قتل کروا کے محل میں بڑا اونچا مقام حاصل کرلیا تھا، برکیارق کی ماں نے شمونہ کو دیکھا تو وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور بازو پھیلا کر شمونہ کو گلے لگا لیا۔
مادر محترم !،،،،،،شمونہ نے سلطان کی ماں کے بازو سے نکلتے ہوئے اور روتے ہوئے کہا۔۔۔ مزمل آفندی مر رہا ہے، اللہ کی راہ میں اسے بچا لیں، اس کا ایک ساتھی بھی ہے دونوں اتنے زخمی ہیں کہ ان کے جسم میں خون رہا ہی نہیں، اپنے طبیب کو بلائیں۔
سلطان کی ماں شمونہ کے ساتھ باہر کو دوڑی اس نے دیکھا کہ وہ زخمی گھوڑوں پر بے ہوش پڑے ہیں، ماں نے حکم دیا کہ طبیب اور جراح کو فوراً لایا جائے۔
سلطان کی ماں کے کہنے پر کئی آدمی دوڑے آئے اور وہ دونوں زخمیوں کو گھوڑوں سے اتار کر اور اٹھا کر ایک کمرے میں لے گئے، طبیب اور جراح بھی آگئے اور انہوں نے زخمیوں کی مرہم پٹی شروع کردی،،،،،،سلطان برکیارق کی ماں میمونہ اور شمونہ کو اپنے کمرے میں لے گئی ،میمونہ نے اسے سنایا کہ شمونہ نے کس طرح دو باطنیوں کو چشمے پر قتل کیا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*