فروری 2025
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


🌹 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
ــــــــــــــــــــــــ

━━❰・ پوسٹ نمبر 99 ・❱━━━

    نماز توڑنے والی چیزوں کا بیان:
 نماز میں سینہ قبلہ سے پھیرنا
نماز پڑھتے ہوئے اگر سینہ قبلہ سے پھیرلیا تو نماز فاسد ہو جائے گی، لیکن دو حالتیں اس سے مستثنیٰ ہیں: ایک یہ کہ نماز پڑھتے ہوئے وضو ٹوٹ جائے اور آدمی طہارت کے لیے صف چھوڑ کر جائے،  دوسری یہ کہ نمازِ خوف میں دوران نماز نقل و حرکت کرے۔ یہ دونوں حالتیں مفسدِ نماز نہیں ہیں۔

نماز پڑھتے ہوئے زور سے پھونک مارنا
  اگر نماز پڑھتے ہوئے آواز سے پھونکا یا اف یا تف کی آواز منہ سے نکالی تو نماز فاسد ہو جائے گی۔

نماز میں رونا اور کراہنا
   نماز کے دوران تکلیف کی وجہ سے جان بوجھ کر کراہنا یا غم کی وجہ سے رونا مفسدِ نماز ہے، البتہ اگر سخت تکلیف کی  وجہ سے بے اختیار آواز نکل جائے یا جنت و جہنم کے تصور سے رقت طاری ہوجائے تو مفسد نہیں۔

📚حوالہ:
* مراقی الفلاح 177
* حلبی کبیر 451
* بدائع الصنائع 1/539
* عالمگیری 1/100
* کتاب المسائل 1/388
 ━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
▒▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓▒
مرتب:✍  
مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ 
━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
 


 📿 بچہ دانی نکلوانے کے بعد عورت کو آنے والے خون کا حکم:

بچہ دانی نکلوانے کے بعد عورت کو جو خون آئے تو وہ ماہواری یعنی حیض شمار نہیں ہوگا، کیونکہ حیض رحم اور بچہ دانی سے آتا ہے، جبکہ مذکورہ صورت میں تو بچہ دانی موجود ہی نہیں، اس لیے یہ خون استحاضہ ہوگا اور اس پر استحاضے ہی کے احکام جاری ہوں گے کہ اس حالت میں نماز اور روزہ وغیرہ کے وہی احکام ہیں جو کہ عام پاکی کے حالات کے ہیں جن کی تفصیل اہلِ علم سے معلوم کی جاسکتی ہے۔

☀ الموسوعة الفقهية الكويتية:
رُكْنُ الْحَيْضِ:
7- صَرَّحَ فُقَهَاءُ الْحَنَفِيَّةِ بِأَنَّ لِلْحَيْضِ رُكْنًا، وَهُوَ بُرُوزُ الدَّمِ مِنَ الرَّحِمِ، أَيْ ظُهُورُ الدَّمِ بِأَنْ يَخْرُجَ مِنَ الْفَرْجِ الدَّاخِل إِلَى الْفَرْجِ الْخَارِجِ، فَلَوْ نَزَل إِلَى الْفَرْجِ الدَّاخِل فَلَيْسَ بِحَيْضٍ وَبِهِ يُفْتَى. .....
شُرُوطُ الْحَيْضِ:
8- ذَهَبَ جُمْهُورُ الْفُقَهَاءِ إِلَى أَنَّهُ لَيْسَ كُل دَمٍ يَخْرُجُ مِنَ الْمَرْأَةِ يَكُونُ حَيْضًا، بَل لا بُدَّ مِنْ شُرُوطٍ تَتَحَقَّقُ فِيهِ حَتَّى يَكُونَ الدَّمُ الْخَارِجُ حَيْضًا، وَتَتَرَتَّبُ عَلَيْهِ أَحْكَامُ الْحَائِضِ، وَهَذِهِ الشُّرُوطُ هِيَ:
(1) أَنْ يَكُونَ مِنْ رَحِمِ امْرَأَةٍ لا دَاءَ بِهَا. فَالْخَارِجُ مِنَ الدُّبُرِ لَيْسَ بِحَيْضٍ، وَكَذَا الْخَارِجُ مِنْ رَحِمِ الْبَالِغَةِ بِسَبَبِ دَاءٍ يَقْتَضِي خُرُوجَ دَمٍ بِسَبَبِهِ. (حَيْضٌ)

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی




 گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکرجی برہمچاری سے برسبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ ’’لالہ جی امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں، آپ سحرخیز ہیں، ذرا ہمیں بھی صبح جگادیا کیجیئے۔‘‘

وہ حضرت بھی معلوم ہوتا ہے، لفظوں کے بھوکے بیٹھے تھے۔ دوسرے دن اُٹھتے ہی انھوں نے ایشور کا نام لے کر ہمارے دروازے پر مکابازی شروع کردی۔ کچھ دیر تک تو ہم سمجھے کہ عالم خواب ہے۔ ابھی سے کیا فکر، جاگیں تو لاحول پڑھ لیں گے لیکن یہ گولہ باری لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی گئی اور صاحب جب کمرے کی چوبی دیواریں لرزنے لگیں، صراحی پر رکھا ہوا گلاس جل ترنگ کی طرح بجنے لگا اور دیوار پر لٹکا ہوا کیلنڈر پنڈولم کی طرح ہلنے لگا تو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔ مگر اب دروازہ ہے کہ لگاتار کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔ میں کیا میرے آباؤاجداد کی روحیں اور میری قسمت خوابیدہ تک جاگ اُٹھی ہوگی۔

بہتیرا آوازیں دیتا ہوں۔‘‘اچھا!۔۔۔ اچھا!۔۔۔تھینک یو!۔۔۔ جاگ گیا ہوں!۔۔۔ بہت اچھا! نوازش ہے! ‘‘آنجناب ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔ خدایا کس آفت کا سامنا ہے؟ یہ سوتے کو جگا رہے ہیں یا مردے کو جلا رہے ہیں؟ اور حضرت عیسیٰ بھی تو بس واجبی طور پر ہلکی سی آواز میں ’’قم‘‘ کہہ دیا کرتے تھے۔ زندہ ہوگیا تو ہوگیا، نہیں تو چھوڑ دیا۔ کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کے پڑجایا کرتے تھے؟ توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے؟ یہ تو بھلا ہم سے کیسے ہوسکتا تھا کہ اُٹھ کر دروازے کی چٹخنی کھول دیتے، پیشتر اس کے کہ بستر سے باہر نکلیں، دل کو جس قدر سمجھانا بجھانا پڑتا ہے۔ اس کا اندازہ کچھ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں۔ آخرکار جب لیمپ جلایا اور ان کو باہر سے روشنی نظر آئی، تو طوفان تھما۔
اب جو ہم کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتے ہیں تو جناب ستارے ہیں، کہ جگمگا رہے ہیں! سوچا کہ آج پتا چلائیں گے، یہ سورج آخر کس طرح سے نکلتا ہے لیکن جب گھوم گھوم کر کھڑکی میں سے اور روشندان میں سے چاروں طرف دیکھا اور بزرگوں سے صبح کاذب کی جتنی نشانیاں سنی تھیں۔ ان میں سے ایک بھی کہیں نظر نہ آئی، تو فکر سی لگ گئی کہ آج کہیں سورج گرہن نہ ہو؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو پڑوسی کو آواز دی:

’’لالہ جی!۔۔۔ لالہ جی؟‘‘
جواب آیا، ’’ہوں۔‘‘

میں نے کہا، ’’آج یہ کیا بات ہے۔ کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے؟‘‘
کہنے لگے، ’’تو اور کیا تین بجے ہی سورج نکل آئے؟‘‘

تین بجے کا نام سن کر ہوش گم ہوگئے، چونک کر پوچھا، ’’کیا کہا تم نے؟ تین بجے ہیں؟‘‘
کہنے لگے،’’تین۔۔۔ تو نہیں۔۔۔ کچھ سات۔۔۔ ساڑھے سات۔۔۔ منٹ اوپر تین ہیں۔‘‘

میں نے کہا۔ ’’ارے کم بخت، خدائی فوجدار، بدتمیز کہیں کے، میں نے تجھ سے یہ کہا تھا کہ صبح جگا دینا، یا یہ کہا تھا کہ سرے سے سونے ہی نہ دینا؟ تین بجے جاگنا بھی کوئی شرافت ہے؟ ہمیں تو نے کوئی ریلوے گارڈ سمجھ رکھا ہے؟ تین بجے ہم اُٹھ سکا کرتے تو اس وقت دادا جان کے منظور نظر نہ ہوتے؟ ابے احمق کہیں کے تین بجے اُٹھ کے ہم زندہ رہ سکتے ہیں؟ امیرزادے ہیں، کوئی مذاق ہے، لاحول ولاقوة۔‘‘
دل تو چاہتا تھا کہ عدم تشدد و شدد کو خیرباد کہہ دوں لیکن پھر خیال آیا، کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کا ٹھیکہ کوئی ہمیں نے لے رکھا ہے؟ ہمیں اپنے کام سے غرض۔ لیمپ بجھایا اور بڑبڑاتے ہوئے پھر سوگئے اور پھر حسب معمول نہایت اطمینان کے ساتھ بھلے آدمیوں کی طرح اپنے دس بجے اُٹھے، بارہ بجے تک منھ ہاتھ دھویا اور چار بجے چائے پی کر ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکل گئے۔ْ

شام کو واپس ہاِسٹل میں وارد ہوئے۔ جوش شباب تو ہے ہی اس پر شام کا ارمان انگیز وقت۔ ہوا بھی نہایت لطیف تھی۔ طبعیت بھی ذرا مچلی ہوئی تھی۔ ہم ذرا ترنگ میں گاتے ہوئے کمرےمیں داخل ہوئے کہ
بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے

کہ اتنے میں پڑوسی کی آواز آئی، ’’مسٹر!‘‘
ہم اس وقت ذرا چٹکی بجانے لگے تھے۔ بس انگلیاں وہیں پر رک گئیں اور کان آواز کی طرف لگ گئے۔

ارشاد ہوا، ’’یہ آپ گا رہے ہیں؟‘‘ (زور ’’آپ‘‘ پر)
میں نے کہا، ’’اجی میں کس لائق ہوں، لیکن خیر فرمائیے؟‘‘

بولے، ’’ذرا۔۔۔ وہ میں۔۔۔میں ڈسٹرب ہوتا ہوں۔ ’’
بس صاحب۔ ہم میں جو موسیقیت کی روح پیدا ہوئی تھی، فوراً مر گئی۔ دل نے کہا۔ ’’اونابکار انسان دیکھ پڑھنے والے یوں پڑھتے ہیں‘‘ صاحب، خدا کے حضور میں گڑگڑا کر دعا مانگی کہ، ’’خدایا ہم بھی اب باقاعدہ مطالعہ شروع کرنے والے ہیں۔ہماری مدد کر اور ہمیں ہمت دے۔‘‘

آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرکے میز کے سامنے آبیٹھے، دانت بھینچ لئے، نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آيا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ، سبز، زرد سبھی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کون سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگادیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔
بڑی تقطیع کی کتابوں کو علیحدہ رکھ دیا۔ چھوٹی تقطیع کی کتابوں کو سائز کے مطابق الگ قطار میں کھڑا کردیا۔ ایک نوٹ پیپر پر ہر ایک کتاب کے صفحوں کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا۔ پھر ۱۵؍اپریل تک کے دن گنے۔ صفحوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا۔ ساڑھے پانچ سو جواب آیا، لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہونے پائے۔ دل میں کچھ تھوڑا سا پچھتائے کہ صبح تین بجے ہی کیوں نہ اُٹھ بیٹھے لیکن کم خوابی کے طبی پہلو پر غور کیا۔ تو فوراً اپنے آپ کو ملامت کی۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ تین بجے اُٹھنا تو لغوبات ہےالبتہ پانچ، چھ، سات بجے کے قریب اُٹھنا معقول ہوگا۔ صحت بھی قائم رہے گی اور امتحان کی تیاری بھی باقاعدہ ہوگی۔ ہم خرماو ہم ثواب۔

یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سویرے اُٹھنا ہو تو جلدی ہی سو جانا چاہیئے۔ کھانا باہر سے ہی کھا آئے تھے۔ بستر میں داخل ہوگئے۔چلتے چلتے خیال آیا، کہ لالہ جی سے جگانے کے ليے کہہ ہی نہ دیں؟ یوں ہماری اپنی قوت ارادی کافی زبردست ہے جب چاہیں اُٹھ سکتے ہیں، لیکن پھر بھی کیا ہرج ہے؟ ڈرتے ڈرتے آواز دی:
’’لالہ جی!‘‘

انہوں نے پتھر کھینچ مارا، ’’یس!‘‘
ہم اور بھی سہم گئے کہ لالہ جی کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں، تتلا کے درخواست کی کہ’’ لالہ جی، صبح آپ کو بڑی تکلیف ہوئی، میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ کل اگر ذرا مجھے چھ بجے یعنی جس وقت چھ بجیں۔۔۔‘‘

جواب ندارد۔
میں نے پھر کہا، ’’جب چھ بج چکیں تو۔۔۔ سنا آپ نے؟‘‘

چپ۔
’’لالہ جی’’

کڑکتی ہوئی آواز نے جواب دیا۔ ’’سن لیا سن لیا چھ بجے جگا دوں گا۔ تھری گاما پلس فور ایلفا پلس۔۔۔‘‘
’’ہم نے کہا ب ب ب بہت اچھا۔ یہ بات ہے۔‘‘

توبہ۔ خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔
لالہ جی آدمی بہت شریف ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق دوسرے دن صبح چھ بجے انہوں نے دروازے پر گھونسوں کی بارش شروع کردی۔ ان کا جگانا تو محض ایک سہارا تھا ہم خود ہی انتظار میں تھے کہ یہ خواب ختم ہولے تو بس جاگتے ہیں۔ وہ نہ جگاتے تو میں خود ایک دو منٹ کے بعد آنکھیں کھول دیتا۔ بہر صورت جیسا کہ میرا فرض تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اسے اس شکل میں قبول کیا کہ گولہ باری بند کردی۔

اس کے بعد کے واقعات ذرا بحث طلب سے ہیں اور ان کے متعلق روایات میں کسی قدر اختلاف ہے، بہرحال اس بات کا تو مجھے یقین ہے اور میں قسم بھی کھا سکتا ہوں کہ آنکھیں میں نے کھول دی تھیں۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ ایک نیک اور سچے مسلمان کی طرح کلمہ شہادت بھی پڑھا۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ اُٹھنے سے پیشتر دیباچے کے طور پر ایک آدھ کروٹ بھی لی۔ پھر کا نہیں پتہ۔ شاید لحاف اوپر سے اتار دیا۔ شاید سر اس میں لپیٹ دیا۔ یا شاید کھانسایا خدا جانے خراٹا لیا۔ خیر یہ تو یقینی امر ہے کہ دس بجے ہم بالکل جاگ رہے تھے۔ لیکن لالہ جی کے جگانے کے بعد اور دس بجے سے پیشتر خدا جانے ہم پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ نہیں۔ ہمارا خیال ہے پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے ہوں۔ بہرصورت یہ نفسیات کا مسئلہ ہے جس میں نہ آپ ماہر ہیں نہ میں۔
کیا پتہ، لالہ جی نے جگایا ہی دس بجے ہو یا اس دن چھ دیر میں بجے ہوں۔ خدا کے کاموں میں ہم آپ کیا دخل دے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے دل میں دن بھر یہ شبہ رہا کہ قصور کچھ اپنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جناب شرافت ملاحظہ ہو، کہ محض اس شبہ کی بنا پر صبح سے شام تک ضمیر کی ملامت سنتا رہا اور اپنے آپ کو کوستا رہا۔ مگر لالہ جی سے ہنس ہنس کر باتیں کیں ان کا شکریہ ادا کیا اور اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی نہ ہو۔ حد درجے کی طمانیت ظاہر کی کہ آپ کی نوازش سے میں نے صبح کا سہانا اور روح افزا وقت بہت اچھی طرح صرف کیا، ورنہ اور دنوں کی طرح آج بھی دس بجے اٹھتا۔

’’لالہ جی! صبح کے وقت دماغ کیا صاف ہوتا ہے، جو پڑھو خدا کی قسم فوراً یاد ہوجاتا ہے۔ بھئی خدا نے صبح بھی کیا عجیب چیز پیدا کی ہے یعنی اگر صبح کے بجائے صبح صبح شام ہوا کرتی تو دن کیا بری طرح کٹا کرتا۔‘‘
لالہ جی نے ہماری اس جادوبیانی کی داد یوں دی کہ آپ پوچھنے لگے۔ ’’تو میں آپ کو چھ بجے جگا دیا کروں نا؟‘‘

میں نے کہا۔ ’’ہاں ہاں، واہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ بےشک۔‘‘
شام کے وقت آنے والی صبح کے مطالعہ کے ليے دو کتابیں چھانٹ کر میزپر علیحدہ جوڑ دیں، کرسی کو چارپائی کے قریب سرکالیا، اوورکوٹ اور گلوبند کو کرسی کی پشت پر آویزاں کردیا، کنٹوپ اور دستانے پاس ہی رکھ ليے، دیاسلائی کو تکیے کے نیچے ٹٹولا، تین دفعہ آیۃ الکرسی پڑھی اور دل میں نہایت ہی نیک منصوبے باندھ کر سوگیا۔صبح لالہ جی کی پہلی دستک کے ساتھ ہی جھٹ آنکھ کھل گئی، نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ لحاف کی ایک کھڑکی میں سے ان کو ’’گڈمارننگ‘’’کیا اور نہایت بیدارانہ لہجے میں کھانسا۔ لالہ جی مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔

ہم نے اپنی ہمت اور اولوالعزمی کو بہت سراہا کہ آج ہم فوراً ہی جاگ اُٹھے۔ دل سے کہا کہ ’’دل بھیا! صبح اُٹھنا تو محض ذرا سی بات ہے ہم یوں ہی اس سے ڈرا کرتے تھے۔’’
دل نے کہا ’’اور کیا؟ تمہارے تو یوں ہی اوسان خطا ہو جایا کرتے ہیں۔’’

ہم نے کہا ’’سچ کہتے ہو یار، یعنی اگر ہم سستی اور کسالت کو خود اپنے قریب نہ آنے دیں تو ان کی کیا مجال ہے کہ ہماری باقاعدگی میں خلل انداز ہوں۔ اس وقت لاہور شہر میں ہزاروں ایسے کاہل لوگ ہوں گے، جو دنیا و مافیہا سے بےخبر نیند کے مزے اُڑاتے ہوں گے اور ایک ہم ہیں کہ ادائے فرض کی خاطر نہایت شگفتہ طبعی اور غنچہ دہنی سے جاگ رہے ہیں۔ بھئی کیا برخوردار سعادت آثار واقع ہوئے ہیں۔‘‘
ناک کو سردی سی محسوس ہونے لگی تو اسے ذرا یو ں ہی سا لحاف کی اوٹ میں کر لیا اور پھر سوچنے لگے۔۔۔‘‘ خوب! تو ہم آج کیا وقت پر جاگے ہیں بس ذرا اس کی عاد ت ہوجائے تو باقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت اور فجر کی نماز بھی شروع کردیں گے۔ آخر مذہب سب سے مقدم ہے۔ ہم بھی کیا روزبروز الحاد کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں۔ نہ خدا کا ڈر اور نہ رسول کا خوف۔ سمجھتے ہیں کہ بس اپنی محنت سے امتحان پاس کرلیں گے۔ اکبر بیچارا یہی کہتا کہتا مرگیا لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ چلی۔۔۔‘‘ (لحاف کانوں پر سرک آیا)

۔۔۔تو گویا آج ہم اور لوگوں سے پہلے جاگے ہیں۔۔۔ بہت ہی پہلے۔۔۔ یعنی کالج شروع ہونے سے بھی چار گھنٹے پہلے۔ کیا بات ہے! خداوند، کالج والے بھی کس قدر سست ہیں۔ ہر ایک مستعد انسان کو چھے بجے تک قطعی جاگ اُٹھنا چاہئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کالج سات بجے کیوں نہ شروع ہوا کرے۔۔۔‘‘ (لحاف سر پر)۔۔۔ ’’بات یہ ہے کہ تہذیب جدید ہماری تمام اعلیٰ قوتوں کی بیخ کنی کر رہی ہے۔ عیش پسندی روزبروز بڑھتی جاتی ہے۔۔۔ (آنکھیں بند)۔۔۔ تو اب چھ بجے ہیں۔ تو گویا تین گھنٹے تو متواتر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ پہلے کون سی کتاب پڑھیں۔ شیکسپیئر یا ورڈزورتھ؟ میں جانوں شیکسپیئر بہتر ہوگا۔ اس کی عظیم الشان تصانیف میں خدا کی عظمت کے آثار دکھائی دیتے ہیں اور صبح کے وقت الله میاں کی یاد سے بہتر چیز کیا ہوسکتی ہے؟
پھر خیال آیا کہ’’ دن کو جذبات کے محشرستان سے شروع کرنا ٹھیک فلسفہ نہیں۔ ورڈزورتھ پڑھیں۔ اس کے اوراق میں فطرت کو سکون واطمینان میسر ہوگا اور دل و دماغ نیچر کی خاموش دلآویزیوں سے ہلکے ہلکے لطف اندوز ہوں گے۔۔۔ لیکن شیکسپیئر۔۔۔۔ نہیں ورڈزورتھ ہی ٹھیک رہے گا۔۔۔ شیکسپیئر۔۔۔ ہیملیٹ۔۔۔ لیکن ورڈزورتھ۔۔۔ لیڈی میکبتھ۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ سبزہ زار۔۔۔ سنجر سنجر۔۔۔ بادبہاری۔۔ صید ہوس۔۔۔ کشمیر۔۔۔ میں آفت کا پرکالہ ہوں۔۔۔‘‘

یہ معمہ اب مابعد الطبعیات ہی سے تعلق رکھتا ہے، کہ پھر جو ہم نے لحاف سے سر باہر نکالا اور ورڈزورتھ پڑھنے کا ارادہ کیا تو وہی دس بج رہے تھے۔ اس میں نہ معلوم کیا بھید ہے!
کالج ہال میں لالہ جی ملے۔ ’’مسٹر! صبح میں نے آپ کو پھر آواز دی تھی، آپ نے جواب نہ دیا؟‘‘

میں نے زور کا قہقہہ لگا کر کہا، ’’اوہو ! لالہ جی یاد نہیں۔ میں نے آپ کو گڈمارننگ کہا تھا۔ میں تو پہلے ہی سے جاگ رہا تھا۔‘‘
بولے، ’’وہ تو ٹھیک ہے لیکن بعد میں۔۔۔ اس کے بعد!۔۔۔ کوئی سات بجے کے قریب میں نے آپ سے تاریخ پوچھی تھی، آپ بولے ہی نہیں۔‘‘

ہم نے نہایت تعجب کی نظروں سے ان کو دیکھا۔ گویا وہ پاگل ہوگئے ہیں اور پھر ذرا متین چہرہ بنا کر ماتھے پر تیوریاں چڑھائے،غوروفکر میں مصروف ہوگئے۔ ایک آدھ منٹ تک ہم اس تعمق میں رہے۔ پھر یکایک ایک محجوبانہ اور معشوقانہ انداز سے مسکراکے کہا،’’ہاں ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میں اس وقت۔۔۔ اے۔۔۔ اے، نماز پڑھ رہا تھا۔‘‘
لالہ جی مرعوب ہو کر چل دیئے اور ہم اپنے زہد وتقویٰ کی تسکینی میں سر نیچا کئے کمرے کی طرف چلے آئے۔ اب یہی ہمارا روزمرہ کا معمول ہوگیا ہے۔ جاگنا نمبر ایک چھ بجے۔ جاگنا نمبر دو دس بجے۔ اس دوران لالہ جی آواز دیں تو نماز!

جب دل مرحوم ایک جہان آرزو تھا تو یوں جاگنے کی تمنا کیا کرتے تھے کہ ’’ہمارا فرق ناز محو بالش کمخواب ہو ’’اور سورج کی پہلی کرنیں ہمارے سیاہ پُرپیچ بالوں پر پڑ رہی ہوں۔ کمرے میں پھولوں کی بوئے سحری روح افزائیاں کر رہی ہو۔ نازک اور حسین ہاتھ اپنی انگلیوں سے بربط کے تاروں کو ہلکے ہلکے چھیڑ رہے ہوں اور عشق میں ڈوبی ہوئی سریلی اور نازک آواز مسکراتی ہوئی گا رہی ہو!
’’تم جاگو موہن پیارے‘‘

خواب کی سنہری دھند آہستہ آہستہ موسیقی کی لہروں میں تحلیل ہوجائے اور بیداری ایک خوشگوار طلسم کی طرح تاریکی کے باریک نقاب کو خاموشی سے پارہ پارہ کردے، چہرہ کسی کی نگاہ اشتیاق کی گرمی محسوس کر رہا ہو۔ آنکھیں مسحور ہو کر کھلیں اور چار ہوجائیں۔ دلآویز تبسم صبح کو اور بھی درخشندہ کردے اور گیت ’’سانوری صورت توری من کو بھائی’’کے ساتھ ہی شرم وحجاب میں ڈوب جائے۔
نصیب یہ ہے کہ پہلے ’’مسٹر! مسٹر!‘‘ کی آواز اور دروازے کے دنادن سامعہ نوازی کرتی ہے اور پھر چار گھنٹے بعد کالج کا گھڑیال دماغ کے ریشے ریشے میں دس بجانا شروع کردیتا ہے اور اس چار گھنٹے کے عرصہ میں گڑویوں کے گر پڑنے، دیگچیوں کے اُلٹ جانے، دروازوں کے بند ہونے، کتابوں کے جھاڑنے، کرسیوں کے گھسیٹنے، کُلیاں اور غرغرے کرنے، کھنکھارنے اور کھانسنے کی آوازیں تو گویا فی البدیہہ ٹھمریاں ہیں۔ اندازہ کر لیجیئے کہ ان سازوں میں سُرتال کی کس قدر گنجائش ہے۔

موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے
جب طبعیت کو دیکھتا ہوں میں



'*مقابلے کی تفصیلات اور قواعد و ضوابط درج ذیل ہیں*:-'


① یہ مقابلہ 15 فروری 2025 سے شروع ہوگا اور 26 مئی 2025تک جاری رہے گا۔
② روزانہ ایک سوال پوچھا جائے گا جسکا جواب 24 گھنٹے کے اندر اندر دینا ضروری ہوگا۔
③ مقابلے کے فاتحین کا انتخاب پوائنٹ سسٹم کے تحت ہوگا، مقابلے کے اختتام پر سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والے ممبر کو پانچ ہزار 5000 روپیہ نقد انعام اور ای سرٹیفیکیٹ دیا جائے گا جبکہ دوسرے نمبرپر آنے والے رکن کو اڑھائی ہزار 2500 روپیہ نقد انعام اور ای سرٹیفیکیٹ دیا جائے گا۔

 '*پوائنٹس سسٹم کی تفصیل*:'


④ سب سے پہلے درست جواب دینے والے رکن کو 5 پوائنٹس ملیں گے۔
⑤ اس کے بعد ہر درست جواب دینے والے کو 2، 2 پوائنٹس، جبکہ پہلے 5 پوائنٹس حاصل کرنے والے رکن کے علاوہ باقی تمام درست جواب دینے والوں میں سے کسی ایک رکن کو بذریعہ قرعہ اندازی ایک اضافی پوائنٹ (ٹوٹل 3 پوائنٹس)دیئے جائیں گے۔
⑥ غلط جواب دینے والے کو بھی ایک پوائنٹ دیا جائے گا۔
⑦ مقابلے میں تین موضوعات پر سوالات پوچھے جائیں گے جن میں ٹیکنالوجی، جغرافیہ اور اسلامی معلومات شامل ہیں۔
⑧ سوالات الکمونیا بلاگ، الکمونیا وٹس ایپ چینل اور درسگاہ کے آفیشل وٹس ایپ کمیونٹی کے کوئز سیکشن میں ایک ہی وقت میں پوسٹ کئے جائیں گے جبکہ جواب صرف اور صرف آئی ٹی درسگاہ وٹس ایپ کمیونٹی کے کوئز گروپ میں قابلِ قبول ہوں گے۔
'_*مقابلے کے آفیشل لنک*_:'





' _*مقابلے کے عمومی قوانین*_:'

⑨ سوالات کا سلسلہ 15 فروری 2025 سے شروع ہوگا۔
⑩ سوال ہر روز صبح 9 بجے سے 10 بجے کے درمیان پوچھا جائے گا۔
⑪ اگلا سوال پوسٹ ہوتے ہی گذشتہ سوال کے جواب دینے کا وقت ختم ہوجائے گا۔
⑫ جواب صرف ایک بار ہی دیا جاسکتا ہے جواب کو ایڈیٹ کرنے یا دوبارہ پوسٹ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، ایڈیٹ شدہ یا دوبارہ پوسٹ ہونے والا جواب مقابلے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
⑬ مقابلے کے پاسنگ مارکس کم از کم 150 پوائنٹس ہوں گے، 150 سے کم پوائنٹس حاصل کرنے والے اراکین *ناکام* قرار دیئے جائیں گے، جبکہ اس مقابلے میں ملنے والے زیادہ سے زیادہ پوائنٹس کی تعداد 500 ہے اور جواب درست ہونے کی صورت میں کم از کم 200 سے لیکر 300 تک پوائنٹ کوئی بھی رکن حاصل کرسکتا ہے، اس لحاظ سے 150 پوائنٹس ایک معقول تعداد ہے۔
⑭ ایک سو پچاس 150 یا اس سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والے اراکین کا نام *حتمی پوزیشن حاصل کرنے والے اراکین کی لسٹ* میں شایع کیا جائے گا۔
⑮ سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والے پہلے دو اراکین کو بالترتیب پہلا اور دوسرا انعام دیا جائے گا جبکہ پہلی دس 10 پوزیشن حاصل کرنے والے اراکین کو تعریفی ای سرٹیفیکیٹس بھی دیئے جائیں گے۔
⑯ سوالات کے جوابات کے حوالے سے آئی ٹی درسگاہ انتظامیہ کا فیصلہ حتمی ہوگا جسے چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔
⑰ کسی بھی اختلاف یا تنازعے کی صورت میں آئی ٹی درسگاہ انتظامی کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
⑱ یہ مقابلہ اور کوئز گروپ، آئی ٹی درسگاہ وٹس ایپ کمیونٹی کے پہلے سے نافذ قواعد و ضوابط کے تحت ہیں اور کسی بھی اصول یا ضابطے کی خلاف ورزی پر مناسب کاروائی کا حق آئی ٹی درسگاہ انتظامیہ کے پاس محفوظ ہے۔

یہ مقابلے اور کمیونٹی کی دیگر سرگرمیاں صرف اور صرف اشاعتِ دین اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت منعقد کی جاتی ہیں ، ان کا کسی بھی طور پر یہ مقصد نہیں کہ کسی فرد یا افراد کے گروہ کی دل آزاری کی جائے یا کسی فرد یا افراد کے گروہ پر تنقید و تنقیص کی جائے ، اگر کسی فرد یا افراد کے گروہ کو اس قسم کی کوئی شکایت محسوس ہو تو وہ بلا جھجک کسی بھی کمیونٹی ایڈمن سے ذاتی رابطہ کرکے اپنی شکایت ہم تک پہنچا سکتا ہے، ایسی صورت میں متاثرہ فرد یا افراد کی شکایت کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

ہمیں اُمید ہے کہ ہر بار کی طرح اس سال بھی آپ تمام احباب بڑھ چڑھ کر اس مقابلے میں نہ صرف خود حصہ لیں گے بلکہ اپنے دوست احباب کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دیں گے۔

اشاعتِ دین، اور آپس کے بھائی چارے اور ادب و احترام کے فروغ کے لئے ہمارا ساتھ دیں، خود بھی آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کے رکن بنیں اور اپنے دوست و احباب کو بھی دعوت دیں، اللہ پاک ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ، آمین


 خلاصہ

Agentic AI فعال سمارٹ ہومز کو قابل بناتا ہے جو صارف کے مسلسل اشارے کے بغیر آزادانہ طور پر فیصلے کر سکتے ہیں۔
سمارٹ ہوم اے آئی ایجنٹس سہولت اور کارکردگی پیش کرتے ہوئے ہوم آٹومیشن کے تجربے میں انقلاب لانے کے لیے تیار ہیں۔
سمارٹ ہومز کا مستقبل مقامی AI ایجنٹوں پر منحصر ہے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ اعتماد اور رسائی کے لیے کنٹرول گھر کے مالکان کے ہاتھ میں رہے۔
اگرچہ عملی طور پر ہر سمارٹ ہوم پروڈکٹ نے اب اپنے مارکیٹنگ کے مواد میں کہیں کہیں "AI" استعمال کرنے پر زور دیا ہے، لیکن حالیہ AI ترقی کے حقیقی اثرات نے سمارٹ ہوم کے تجربے کو زیادہ متاثر نہیں کیا ہے۔ تاہم، AI ایجنٹوں کے عروج کے ساتھ، یہ بڑے پیمانے پر تبدیل ہونے والا ہے۔

Agentic AI کیا ہے؟
عام طور پر، جب آپ موجودہ چیٹ بوٹس یا دیگر مشین لرننگ سسٹمز کے ساتھ تعامل کرتے ہیں، تو وہ کچھ کرنے کے لیے آپ کی طرف سے اشارے کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ اس پرامپٹ کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔ Agentic AI ( ہارورڈ بزنس ریویو میں عمدہ طور پر بیان کیا گیا ہے ) ایجنسی کے بارے میں ہے۔ یعنی، ایسے AI ایجنٹس بنانا جنہیں کچھ بتانے کے لیے انتظار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، لیکن وہ اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں اور فعال طور پر مسائل کو حل کر سکتے ہیں۔

یہ ایجنٹ مختلف حالات کے مطابق ڈھال سکتے ہیں اور اس وقت جو کچھ ہو رہا ہے اس کی بنیاد پر استدلال کی کچھ شکلوں سے گزر کر مناسب حل نکال سکتے ہیں۔ اس کے لیے عام طور پر مختلف قسم کی مشین لرننگ ٹیکنالوجی کی ضرورت ہوتی ہے، اس لیے یہ صرف ایک بڑے لینگویج ماڈل، یا مشین ویژن سسٹم سے زیادہ نہیں، مثال کے طور پر۔

اس کا مطلب ہے ایک فعال سمارٹ ہوم
ایجنٹی AI کو اپنے گھروں میں لانے سے، ہمارے پاس ایک سمارٹ گھر ہو سکتا ہے جس کے لیے آپ کو بڑی محنت سے یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ کیا کرنا ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے، ایک انسانی گھریلو ملازم یا بٹلر، یہ اپنے مشاہدات اور اس کے ساتھ آپ کے تعاملات کی بنیاد پر سیکھے گا کہ کیا ضرورت ہے۔ کچھ کمپنیاں اس شعبے میں تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں، جیسے کہ LG نے اپنے سمارٹ ہوم AI ایجنٹ کے تصور کو 2024 میں متعارف کرایا ہے۔

یہ "زیرو لیبر" ہوم آٹومیشن حل آپ کے گھر کے تمام سامان کو منظم کرنے کے لیے ہے۔ اس معاملے میں، ایجنٹ ایک گھومنے پھرنے والے روبوٹک پلیٹ فارم میں مجسم ہے، لیکن یقیناً اس کی کوئی خاص وجہ نہیں ہے۔ یہ صرف ایک کمپیوٹر پروگرام ہو سکتا ہے جو آپ کے گھر میں ضرورت کے مطابق ٹیکنالوجی کو کنٹرول کر سکتا ہے، مختلف مائکس، کیمروں اور دیگر سینسر کو اپنی آنکھوں اور کانوں کے طور پر استعمال کر سکتا ہے۔

یہ وہ سمارٹ ہوم ہے جس کا ہم سے وعدہ کیا گیا تھا۔
Agentic AI ہمیں سائنس فائی سمارٹ ہوم خواب لانے کا وعدہ کرتا ہے۔ آپ کو اپنے گھر کا انتظام کرنے کے بارے میں سوچنے کی ضرورت نہیں ہے، ایجنٹ (یا ایجنٹ) ہر چیز پر نظر رکھتے ہیں، چیزیں ہونے پر خود بخود ردعمل ظاہر کرتے ہیں، یا ماضی کے اعداد و شمار کی بنیاد پر اپنی پیشین گوئیوں پر عمل کرتے ہیں۔ وہ اشارہ کیے جانے کا انتظار نہیں کر رہے ہیں، وہ مسلسل جانچ کر رہے ہیں کہ کیا کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ اتنا ہی آسان ہو سکتا ہے جتنا کہ دودھ کا آرڈر دینا جب آپ آخری بوتل کھولتے ہیں، یا اتنا ہی پیچیدہ ہو سکتا ہے جتنا کہ مقامی ڈرائی کلینرز کو کال کرنا اور اس سرخ شراب کے حوالے حاصل کرنا جو آپ نے ابھی اپنی سفید قمیض پر پھینکی ہے۔ پھر آپ سے پوچھیں کہ کیا آپ پک اپ کا بندوبست کرنا چاہتے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کو ہر طرح کی سمتوں میں بڑھایا جا سکتا ہے، جیسے کہ طبی ہنگامی صورت حال میں مدد کرنا، یا اگر یہ بریک ان کا پتہ لگاتا ہے تو مدد حاصل کرنا۔

یہ دیکھنا باقی ہے کہ مختلف کمپنیاں اپنی مصنوعات میں کتنی خود مختاری اور لچک پیدا کریں گی، لیکن جیسا کہ ایجنٹ AI زیادہ قابل اعتماد ہوتا جائے گا، مجھے شبہ ہے کہ یہ بالآخر کافی جامع ہو جائے گا۔

یقینا، وشوسنییتا کمرے میں ہاتھی ہے. بالکل لوگوں کی طرح، AI ایجنٹس غلطیاں کر سکتے ہیں اور ممکنہ نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لہٰذا حفاظت اور افادیت کے درمیان ایک اچھا توازن قائم کرنے والے محافظ بنیادی ٹیکنالوجی کو بالکل کام کرنے کے علاوہ سب سے بڑی رکاوٹ ہوں گے۔

یہ اور بھی بہتر مقامی ہوگا۔
میں نے ماضی میں کہا ہے کہ ایک حقیقی سمارٹ گھر آف لائن ہونا چاہیے ۔ میرے گھر میں موجود ٹیکنالوجی کا کنٹرول کسی ڈیٹا سینٹر میں کہیں دور کمپیوٹر پر دینا اچھا خیال نہیں لگتا۔ سروسز بند ہو جاتی ہیں، انٹرنیٹ بند ہو جاتا ہے۔ باتیں ہوتی ہیں۔ اس لیے مجھے امید ہے کہ کمپیوٹر ہارڈویئر میں ترقی ہمیں ان AI ایجنٹوں کو اپنے گھروں میں مکمل طور پر چلانے کی اجازت دے گی ۔

بلاشبہ، ان ایجنٹوں کو انٹرنیٹ تک رسائی حاصل ہو گی، لیکن جب یہ رسائی کسی وجہ سے منقطع ہو جاتی ہے، تب بھی اس کے پاس اپنے تمام کام کرنے کی صلاحیت ہونی چاہیے جو کہ نیٹ کنکشن پر سختی سے انحصار نہیں کرتا ہے۔


 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 سورہ ہود آیت نمبر 40 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼ 

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ

حَتّٰۤى اِذَا جَآءَ اَمْرُنَا وَ فَارَ التَّنُّوْرُ١ۙ قُلْنَا احْمِلْ فِیْهَا مِنْ كُلٍّ زَوْجَیْنِ اثْنَیْنِ وَ اَهْلَكَ اِلَّا مَنْ سَبَقَ عَلَیْهِ الْقَوْلُ وَ مَنْ اٰمَنَ١ؕ وَ مَاۤ اٰمَنَ مَعَهٗۤ اِلَّا قَلِیْلٌ

 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

یہاں تک کہ جب ہمارا حکم آگیا اور تنور ابل پڑا، (21) تو ہم نے (نوح سے) کہا کہ : اس کشتی میں ہر قسم کے جانوروں میں سے دو دو کے جوڑے سوار کرلو (22) اور تمہارے گھر والوں میں سے جن کے بارے میں پہلے کہا جا چکا ہے (کہ وہ کفر کی وجہ سے غرق ہوں گے) ان کو چھوڑ کر باقی گھر والوں کو بھی، اور جتنے لوگ ایمان لائے ہیں ان کو بھی (ساتھ لے لو) اور تھوڑے ہی سے لوگ تھے جو ان کے ساتھ ایمان لائے تھے۔

 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 تفسیر 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

21: عربی زبان میں ”تنور“ سطح زمین کو بھی کہتے ہیں، اور روٹی پکانے کے چولہے کو بھی۔ بعض روایات میں ہے کہ طوفان نوح کی ابتدا اس طرح ہوئی تھی کہ ایک تنور سے پانی ابلنا شروع ہوا، اور پھر کسی طرح نہ رکا۔ اور بعض مفسرین نے تنور کو سطح زمین کے معنی میں لیا ہے اور مطلب یہ بتایا ہے کہ زمین کی سطح سے پانی ابلنا شروع ہوگیا، اور پھر ساری زمین میں پھیل گیا۔ اور اوپر سے تیز بارش شروع ہوگئی،۔
22: چونکہ طوفان میں وہ جانور بھی ہلاک ہونے والے تھے جن کی انسانوں کو ضرورت پڑتی ہے، اس لئے حکم دیا گیا کہ کشتی میں ضرورت کے تمام جانوروں کا ایک ایک جوڑا سوار کرلو، تاکہ ان کی نسل باقی رہے اور طوفان کے بعد ان سے کام لیا جاسکے۔


 


🌹 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
ــــــــــــــــــــــــ

━━❰・ پوسٹ نمبر 98 ・❱━━━

    نماز توڑنے والی چیزوں کا بیان:
 نماز میں عمل کثیر کرنا
فقہاء کرام رحمھم اللہ نے یہ ضابطہ بیان کیا ہے کہ نماز عمل کثیر سے ٹوٹ جاتی ہے، عمل کثیر کی چند تعریفات کتب فقہ میں مذکور ہیں:
1. نماز میں ایسا عمل کرنا ، جو نماز کی جنس سے نہ ہو اور دور سے دیکھنے والا یہ سمجھے کہ یہ شخص نماز کی حالت میں نہیں ہے۔
2. ہر ایسا عمل جو دو ہاتھوں سے عموما کیا جاتا ہو ، وہ عمل کثیر ہے ، چاہے نمازی اس کو ایک ہاتھ سے کرے ، مثلا عمامہ باندھنا۔
3. بعض فقہاء کرام کے نزدیک ایک ہی رکن میں تین بار مسلسل کوئی حرکت اور عمل کرنا بھی عمل کثیر ہے ، مثلا ہاتھ اٹھایا اور بدن کھجایا ، پھر ہاتھ رکھ کر پھر اٹھایا اور بدن کھجایا ، اس طرح مسلسل تین دفعہ کیا ایک رکن کے وقت میں تو نماز ٹوٹ گئی۔
👈 ایک ہاتھ سے جو کام کیا جاتا ہے ، نماز میں اس کے کرنے سے نماز نہیں ٹوٹتی ، البتہ بلاضرورت ایسا کرنا مکروہ ہے۔


📚حوالہ:
* بدائع الصنائع 1/553
* حاشیہ الطحطاوی 322
* حلبی کبیر 441
 ━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
▒▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓▒
مرتب:✍  
مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ 
━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
 


 📿 عورت کی بچہ دانی نکلوانے کا حکم:

عام حالات میں دائمی اور مستقل طور پر منع حمل کی کوئی صورت اور  تدبیر اختیار کرنا جیسے کہ بچہ دانی ہی نکلوا لینا جائز نہیں، یہ بہر صورت ممنوع ہے، اس لیے جب تک کوئی عارضی مانعِ حمل صورت قابلِ عمل ہو تو اسی کو اختیار کرنا چاہیے، البتہ صرف ایک صورت میں بچہ دانی نکلوانے کی گنجائش ہے کہ ماہر قابلِ اعتماد ڈاکٹروں اور طبیبوں کی رائے یہ ہو کہ بچہ پیدا ہونے کی صورت میں عورت کو جان کا یا کسی عضو کے ضائع ہونے کا خطرہ ہو تو ایسی صورت میں آپریشن کرکے بچہ دانی ہی نکلوا لینا تاکہ استقرارِ حمل نہ ہوسکے تو ایسی شدید مجبوری میں اس کی گنجائش ہے۔ 
(فتاوٰی محمودیہ، اہم فقہی فیصلے)

☀ فتح الباري شرح صحيح البخاري:
وَاسْتَدَلَّ بِهِ الْخَطَّابِيُّ عَلَى جَوَازِ الْمُعَالَجَةِ لِقَطْعِ شَهْوَةِ النِّكَاحِ بِالْأَدْوِيَةِ، وَحَكَاهُ الْبَغَوِيُّ فِي «شَرْحِ السُّنَّةِ»، وَيَنْبَغِي أَنْ يُحْمَلَ عَلَى دَوَاءٍ يُسَكِّنُ الشَّهْوَةَ دُونَ مَا يَقْطَعُهَا أَصَالَةً؛ لِأَنَّهُ قَدْ يَقْدِرُ بَعْدُ فَيَنْدَمُ لِفَوَاتِ ذَلِكَ فِي حَقِّهِ، وَقَدْ صَرَّحَ الشَّافِعِيَّةُ بِأَنَّهُ لَا يَكْسِرُهَا بِالْكَافُورِ وَنَحْوِهِ، وَالْحُجَّةُ فِيهِ أَنَّهُمُ اتَّفَقُوا على منع الْجب والخصاء فَيَلْحَقُ بِذَلِكَ مَا فِي مَعْنَاهُ مِنَ التَّدَاوِي بِالْقَطْعِ أَصْلًا. (بَابُ قَوْلِ النَّبِيِّ ﷺ: مَنِ اسْتَطَاعَ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ)
☀ الفتاوى الهندية:
خِصَاءُ بَنِي آدَمَ حَرَامٌ بِالِاتِّفَاقِ. (كِتَابُ الْكَرَاهِيَةِ: الْبَابُ التَّاسِعَ عَشَرَ فِي الْخِتَانِ وَالْخِصَاءِ وَقَلْمِ الْأَظْفَارِ وَقَصِّ الشَّارِبِ وَحَلْقِ الرَّأْسِ وَحَلْقِ الْمَرْأَةِ شَعْرَهَا وَوَصْلِهَا شَعْرَ غَيْرِهَا)

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی


شاعر: مومن خاں مومن

ٹھانی تھی دل میں اب نہ ملیں گے کسی سے ہم
پر کیا کریں کہ ہو گئے ناچار جی سے ہم

ہنستے جو دیکھتے ہیں کسی کو کسی سے ہم
منہ دیکھ دیکھ روتے ہیں کس بے کسی سے ہم

ہم سے نہ بولو تم اسے کیا کہتے ہیں بھلا
انصاف کیجے پوچھتے ہیں آپ ہی سے ہم

بیزار جان سے جو نہ ہوتے تو مانگتے
شاہد شکایتوں پہ تری مدعی سے ہم

اس کو میں جا مریں گے مدد اے ہجوم شوق
آج اور زور کرتے ہیں بے طاقتی سے ہم

صاحب نے اس غلام کو آزاد کر دیا
لو بندگی کہ چھوٹ گئے بندگی سے ہم

بے روئے مثل ابر نہ نکلا غبار دل
کہتے تھے ان کو برق تبسم ہنسی سے ہم

ان ناتوانیوں پہ بھی تھے خار راہ غیر
کیوں کر نکالے جاتے نہ اس کی گلی سے ہم

کیا گل کھلے گا دیکھیے ہے فصل گل تو دور
اور سوئے دشت بھاگتے ہیں کچھ ابھی سے ہم

منہ دیکھنے سے پہلے بھی کس دن وہ صاف تھا
بے وجہ کیوں غبار رکھیں آرسی سے ہم

ہے چھیڑ اختلاط بھی غیروں کے سامنے
ہنسنے کے بدلے روئیں نہ کیوں گدگدی سے ہم

وحشت ہے عشق پردہ نشیں میں دم بکا
منہ ڈھانکتے ہیں پردۂ چشم پری سے ہم

کیا دل کو لے گیا کوئی بیگانہ آشنا
کیوں اپنے جی کو لگتے ہیں کچھ اجنبی سے ہم

لے نام آرزو کا تو دل کو نکال لیں
مومنؔ نہ ہوں جو ربط رکھیں بدعتی سے ہم


 



'*مقابلے کی تفصیلات اور قواعد و ضوابط درج ذیل ہیں*:-'


① یہ مقابلہ 15 فروری 2025 سے شروع ہوگا اور 26 مئی 2025تک جاری رہے گا۔
② روزانہ ایک سوال پوچھا جائے گا جسکا جواب 24 گھنٹے کے اندر اندر دینا ضروری ہوگا۔
③ مقابلے کے فاتحین کا انتخاب پوائنٹ سسٹم کے تحت ہوگا، مقابلے کے اختتام پر سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والے ممبر کو پانچ ہزار 5000 روپیہ نقد انعام اور ای سرٹیفیکیٹ دیا جائے گا جبکہ دوسرے نمبرپر آنے والے رکن کو اڑھائی ہزار 2500 روپیہ نقد انعام اور ای سرٹیفیکیٹ دیا جائے گا۔

 '*پوائنٹس سسٹم کی تفصیل*:'


④ سب سے پہلے درست جواب دینے والے رکن کو 5 پوائنٹس ملیں گے۔
⑤ اس کے بعد ہر درست جواب دینے والے کو 2، 2 پوائنٹس، جبکہ پہلے 5 پوائنٹس حاصل کرنے والے رکن کے علاوہ باقی تمام درست جواب دینے والوں میں سے کسی ایک رکن کو بذریعہ قرعہ اندازی ایک اضافی پوائنٹ (ٹوٹل 3 پوائنٹس)دیئے جائیں گے۔
⑥ غلط جواب دینے والے کو بھی ایک پوائنٹ دیا جائے گا۔
⑦ مقابلے میں تین موضوعات پر سوالات پوچھے جائیں گے جن میں ٹیکنالوجی، جغرافیہ اور اسلامی معلومات شامل ہیں۔
⑧ سوالات الکمونیا بلاگ، الکمونیا وٹس ایپ چینل اور درسگاہ کے آفیشل وٹس ایپ کمیونٹی کے کوئز سیکشن میں ایک ہی وقت میں پوسٹ کئے جائیں گے جبکہ جواب صرف اور صرف آئی ٹی درسگاہ وٹس ایپ کمیونٹی کے کوئز گروپ میں قابلِ قبول ہوں گے۔
'_*مقابلے کے آفیشل لنک*_:'





' _*مقابلے کے عمومی قوانین*_:'

⑨ سوالات کا سلسلہ 15 فروری 2025 سے شروع ہوگا۔
⑩ سوال ہر روز صبح 9 بجے سے 10 بجے کے درمیان پوچھا جائے گا۔
⑪ اگلا سوال پوسٹ ہوتے ہی گذشتہ سوال کے جواب دینے کا وقت ختم ہوجائے گا۔
⑫ جواب صرف ایک بار ہی دیا جاسکتا ہے جواب کو ایڈیٹ کرنے یا دوبارہ پوسٹ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، ایڈیٹ شدہ یا دوبارہ پوسٹ ہونے والا جواب مقابلے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
⑬ مقابلے کے پاسنگ مارکس کم از کم 150 پوائنٹس ہوں گے، 150 سے کم پوائنٹس حاصل کرنے والے اراکین *ناکام* قرار دیئے جائیں گے، جبکہ اس مقابلے میں ملنے والے زیادہ سے زیادہ پوائنٹس کی تعداد 500 ہے اور جواب درست ہونے کی صورت میں کم از کم 200 سے لیکر 300 تک پوائنٹ کوئی بھی رکن حاصل کرسکتا ہے، اس لحاظ سے 150 پوائنٹس ایک معقول تعداد ہے۔
⑭ ایک سو پچاس 150 یا اس سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والے اراکین کا نام *حتمی پوزیشن حاصل کرنے والے اراکین کی لسٹ* میں شایع کیا جائے گا۔
⑮ سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والے پہلے دو اراکین کو بالترتیب پہلا اور دوسرا انعام دیا جائے گا جبکہ پہلی دس 10 پوزیشن حاصل کرنے والے اراکین کو تعریفی ای سرٹیفیکیٹس بھی دیئے جائیں گے۔
⑯ سوالات کے جوابات کے حوالے سے آئی ٹی درسگاہ انتظامیہ کا فیصلہ حتمی ہوگا جسے چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔
⑰ کسی بھی اختلاف یا تنازعے کی صورت میں آئی ٹی درسگاہ انتظامی کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
⑱ یہ مقابلہ اور کوئز گروپ، آئی ٹی درسگاہ وٹس ایپ کمیونٹی کے پہلے سے نافذ قواعد و ضوابط کے تحت ہیں اور کسی بھی اصول یا ضابطے کی خلاف ورزی پر مناسب کاروائی کا حق آئی ٹی درسگاہ انتظامیہ کے پاس محفوظ ہے۔

یہ مقابلے اور کمیونٹی کی دیگر سرگرمیاں صرف اور صرف اشاعتِ دین اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت منعقد کی جاتی ہیں ، ان کا کسی بھی طور پر یہ مقصد نہیں کہ کسی فرد یا افراد کے گروہ کی دل آزاری کی جائے یا کسی فرد یا افراد کے گروہ پر تنقید و تنقیص کی جائے ، اگر کسی فرد یا افراد کے گروہ کو اس قسم کی کوئی شکایت محسوس ہو تو وہ بلا جھجک کسی بھی کمیونٹی ایڈمن سے ذاتی رابطہ کرکے اپنی شکایت ہم تک پہنچا سکتا ہے، ایسی صورت میں متاثرہ فرد یا افراد کی شکایت کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔

ہمیں اُمید ہے کہ ہر بار کی طرح اس سال بھی آپ تمام احباب بڑھ چڑھ کر اس مقابلے میں نہ صرف خود حصہ لیں گے بلکہ اپنے دوست احباب کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دیں گے۔

اشاعتِ دین، اور آپس کے بھائی چارے اور ادب و احترام کے فروغ کے لئے ہمارا ساتھ دیں، خود بھی آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کے رکن بنیں اور اپنے دوست و احباب کو بھی دعوت دیں، اللہ پاک ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ، آمین


 ہم میں سے بہت سے لوگ روزانہ آٹھ گھنٹے سونے کی کوشش کرتے ہیں جس کے بارے میں یہ خیال پیش کیا جاتا رہا ہے کہ نیند کی یہ مقدار مناسب ہے۔ لیکن بعض ماہرین اسے زیادہ بتاتے ہیں اور ان کے خیال میں یہ صحت کے لیے نقصان دہ ہے۔


ہم سب یہ تو جانتے ہیں کہ کم نیند صحت کے لیے اچھی نہیں۔ آپ خود کو تھکا تھکا محسوس کرتے ہیں، نیند کی کمی کے سبب آپ چڑچڑے ہوتے ہیں اور ڈاکٹروں کے مطابق اس سے موٹاپا، ہائی بلڈپریشر، ذیابیطس، دل کی مختلف قسم کی بیماریاں ہو سکتی ہیں۔

تاہم دس سال پر محیط ایک تازہ تحقیق میں یہ پایا گیا ہے کہ جو بالغ عام طور پر چھ گھنٹے سے کم یا آٹھ گھنٹے سے زیادہ سوتے ہیں، وہ اس مقدار سے کم یا زیادہ سونے والوں سے پہلے مرتے ہیں۔

یعنی جو لوگ چھ گھنٹے سے آٹھ گھنٹے سے زیادہ یا کم سوتے ہیں ان کو جلدی موت کا زیادہ خطرہ لاحق رہتا ہے۔

واروک یونیورسٹی میں دل اور وبائی امراض کے پروفیسر فرینکو کیپوچیو نے 16 ا قسام کے مطالعے کیے ہیں جن میں دس لاکھ سے زیادہ افراد سے ان کے سونے کے معمولات کے بارے میں دریافت کیا گیا اور پھر ایک عرصے بعد ان سے رجوع کیا گیا۔

کیپوچیو نے ان کو تین وسیع گروپ میں تقیسم کیا ہے۔

جو چھ گھنٹےسے کم سوتے ہیں
جو چھ سے آٹھ گھنٹے کے درمیان سوتے ہیں
جو آٹھ گھنٹے سے زیادہ سوتے ہیں
ان کا کہنا ہے کہ درمیانی درجے میں سونے والوں کے مقابلے میں چھ گھنٹے سے کم سونے والے افراد سے جب دوسری بار رابطہ کیا گیا تو ان میں سے 12 فی صد افراد کا انتقال ہو چکا تھا۔ جبکہ آٹھ گھنٹے سے زیادہ سونے والے افراد کی موت کا تناسب درمیانے درجے کے سونے والوں سے 30 فی صد زیادہ تھا۔

دوسرے الفاظ میں زیادہ سونے سے موت کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہے جتنا زیادہ شراب نوشی سے، لیکن سگریٹ نوشی کے مقابلے نسبتاً کم۔

لیکن کیا پانچ گھنٹے کی نیند کے مقابلے نو گھنٹے سونا زیادہ خطرناک ہے؟

اس کو کئی طرح سے دیکھا جا سکتا ہے۔ پروفیسر کیپوچیو اس بات سے واقف ہیں کہ زیاد دیر تک سونا ڈیپریشن یا نیند کی ادویات کی وجہ سے ہو سکتا ہے۔ انھوں نے اس بات کو نظر انداز نہیں کیا۔

ان کا ذاتی خیال ہے کہ جو لوگ آٹھ گھنٹے سے زیادہ سوتے ہیں ان میں کوئی بیماری ہوتی ہے جس کی علامات ابھی واضح نہیں ہوتی ہیں۔ اس لیے ان کے خیال میں زیادہ دیر سونے کی وجہ سے جلدی موت واقع نہیں ہوتی بلکہ اس مخفی بیماری کی وجہ سے جلدی موت واقع ہوتی ہے۔

لیکن ان کے اس خیال سے سب متفق نہیں۔ ایریزونا سٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر شان ینگسٹیڈ نے اسی طرح کا ایک مطالعہ کیا جس میں 14 نوجوانوں کو تین ہفتوں تک ہر رات آٹھ گھنٹے سے دو گھنٹے زیادہ سونے کے لیے تیار کیا گيا۔

انھوں نے بتایا کہ ان کی طبیعت میں زیادہ افسردگی سرایت کر گئی، جبکہ ینگسٹیڈ نے کہا کہ ان میں زیادہ سوزش رہنے لگی خاص طور پر خون میں ایک قسم کی پروٹین آئی ایل - 6 کی مقدار زیادہ رہنے لگی، جس کا تعلق سوزش سے ہے۔

اس جائزے میں شامل نوجوانوں نے ورم اور پیٹھ کے درد کی بھی شکایات کیں۔ اس بات سے ینگسٹیڈ یہ سوچنے پر مجبور ہوئے کہ زیادہ نیند سے منسلک مسائل کہیں زیادہ دیر تک بے عمل رہنے کی وجہ سے تو نہیں۔

اب وہ کم نیند کے بارے میں تحقیق کر رہے ہیں جو جلد ہی شائع ہونے والی ہے۔

نیند پر مطالعہ کرنے والوں کے سامنے کئی طرح کے مسائل ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ نیند کی مقدار کو قطعی طور پر جانچنے کا کوئی طریقہ نہیں ہے۔

بہرحال تمام ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ نیند کا معیار صحت کو متاثر کرتا ہے لیکن نیند کا مناسب دورانیہ معلوم کرنے کا کوئی طریقہ کار سامنے نہیں آیا ہے۔

میساچوسٹس میڈیکل سکول میں نیند سے منسلک امراض کے ماہر ڈاکٹر گريگ جیکب کا کہنا ہے کہ ’جب بھی مناسب نیند کی مقدار کی بات کی جاتی ہے تو سات گھنٹے بار بار سامنے آتے ہیں۔‘


🌴﹍ⲯ﹍ⲯ﹍ حضرت ابو بکر صدیقؓ ﹍🌴﹍🌴⭐چودہویں قسط ⭐🌴

یارِ غار والمزار ، افضل الخلائق بعد الانبیاء  کے حالاتِ زندگی پیدائش تا وفات
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یعقوبی کے بیان کے مطابق مہاجرین میں سے عباس بن عبدالمطلب، فضل بن عباس، زبیر بن عوام، خالد بن سعید، مقداد بن عمرو،سلمان فار سی،ابو ذرغفاری ، عمار بن یاسر،برا بن عازب اور ابی بن کعب نے ابوبکر کی بیعت نہ کی۔ ایک روایت کے مطابق حضرت علی نے چالیس روز بعد اور دوسری کے مطابق چھ ماہ بعد بیعت کی جب فاطمۃ الزہرا نے وفات پائی۔ اہل سنت علما کا اصرار ہے کہ علی اور زبیر سمیت تمام صحابہ ابو بکر کی بیعت پر متفق ہو گئے تھے۔ ابن کثیر کا کہنا ہے کہ زبیر بن عوام اور علی بن ابو طالب نے فوراً اسی دن یا دوسرے دن بیعت کر لی۔ وہ ابو بکر کی اقتدا میں نماز پڑھتے، ان کے مشوروں اور ان کی مہمات میں شامل ہوتے۔ علی کا چھ ماہ گزرنے کے بعد بیعت کرنے کا جو ذکر آتا ہے، وہ ان کی بیعت ثانیہ ہے جو میراث کے مسئلہ پر ابو بکر اور فاطمہ میں ہونے والی شکر رنجی دور کرنے کے لیے کی گئی۔سعید بن زید سے پوچھا گیا کہ کیا کسی شخص نے ابو بکر کی بیعت کی مخالفت بھی کی ؟ان کا جواب تھا: ’’مرتدین کے علاوہ کسی نے نہیں یا وہ جومرتد ہونے لگے تھے اگر اﷲ ان کو انصار سے نہ بچا لیتا ۔‘‘ان سے اگلا سوال کیا گیا کہ کیا مہاجرین میں سے کوئی (بیعت کیے بغیر) بیٹھا بھی رہا؟ انھوں نے جواب دیا:’’کوئی نہیں۔‘‘
اگلے روز مسجد نبوی میں بیعت عامہ کے بعد ابوبکر نے لوگوں سے خطاب کیا۔حمد وثنا کے بعد انھوں نے فرمایا:
’’لوگو، میں تم پر حاکم مقرر کیا گیا ہوں حالانکہ میں تم سے بہتر نہیں ہوں۔ اگر میں اچھا کام کروں توتم میری مدد کرو اور اگر برا کام کروں تو مجھے سیدھا کر دو۔ سچائی امانت ہے اور جھوٹ خیانت۔ تم میں سے کم زور میرے نزدیک طاقت والاہے حتیٰ کہ میں اسے اس کا حق دلا دوں ۔ تم میں سے طاقت ور کم زور ہو گا حتیٰ کہ میں اس سے حق لے لوں۔کوئی قوم اﷲ کی راہ میں جہاد نہیں چھوڑتی، مگر اﷲ اسے ذلت میں بے یار و مدد گار چھوڑ دیتا ہے ۔کسی قوم میں بے حیائی عام نہیں ہوتی، مگر اﷲ ان میں مصیبتیں عام کر دیتا ہے۔ تب تک میری بات مانو جب تک میں اﷲ اور رسول کی اطاعت کروں۔ اور جب میں اﷲ اور رسول کی نا فرمانی کروں تو تم پر میری اطاعت واجب نہ ہو گی۔ اب نماز کے لیے کھڑے ہو جاؤ اﷲ تم پر رحم فرمائے گا۔‘‘
اسامہ پیغمبر اکرم کے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہ کے بیٹے تھے ،انھیں جنگ احد میں صغر سنی کی وجہ سے واپس کر دیا گیا تھا البتہ، جنگ حنین میں انھوں نے داد شجاعت دی تھی۔جب غزوۂ موتہ میں رومیوں کے ہاتھوں زید کی شہادت ہوئی تو آپ نے اسامہ کو رومیوں کی سرکوبی کے لیے بھیجے جانے والے لشکر کا امیر مقرر فرمایا۔۸ ربیع الاول ۱۱ھ کو آپ نے اپنے دست مبارک سے ان کے ہاتھ میں علم دیا۔ کچھ لوگ ایک بیس سالہ بچے کی سپہ سالاری پر مطمئن نہ تھے،ان کی چہ میگوئیوں کی خبر آں حضور کو مرض الموت میں ملی چنانچہ جس روز آپ کا بخار اترا ،آپ نے منبر پر چڑھ کر فرمایا: ’’اسامہ امارت کا اہل ہے اور اس کا باپ بھی امارت کے لائق تھا۔‘‘ آپ کی وفات کے روز اسامہ نے کوچ کی اجازت مانگی ،آپ کو شدید ضعف تھا پھر بھی آپ نے اجازت دے دی او ر دعا بھی فرمائی۔پھر جب جرف کے مقام پر اسامہ کو سانحۂ وفات کی خبر ملی تو وہ لوٹ آئے اور آپ کوغسل دینے میں شریک ہوئے۔ بیعت مکمل ہونے کے بعد ابو بکر نے پہلا حکم یہ جاری کیا کہ اسامہ کا لشکر روانہ کیا جائے تو معترضین پھر حرکت میں آ گئے ۔انھوں نے ابو بکر سے کہا کہ ہر طرف بغاوت کے شعلے بھڑک رہے ہیں اور یہ حالات مسلمانوں کے لیے پر خطر ہیں۔لشکر روانہ نہ کریں یا اسامہ کی بجائے ایسے شخص کو سپہ سالار مقرر کریں جو عمر میں بڑاہو۔ابو بکر نے ثابت قدمی سے فرمایا: ’’اگر شکاری پرندے مجھے اٹھا کر لے جائیں ،تمام عرب مجھ پر پل پڑے تو بھی میں رسو ل اﷲ کا حکم پورا کرنے سے پہلے کوئی کام نہ کروں گا۔‘‘ عمر نے اس سلسلے میں بات کی تو ان کو جواب دیا: ’’اے ابن خطاب، اسامہ کو رسول اﷲ نے امیر مقرر فرمایا ہے اور تم کہتے ہو،میں اسے اس کے عہدے سے ہٹا دوں۔‘‘پھر انھوں نے حکم دیا کہ مدینہ کا جو شخص بھی اس لشکر میں شامل تھا پیچھے نہ رہے ،وہ جرف جا کر لشکر میں مل جائے۔‘‘وہ خود وہاں پہنچے اور لشکر کو روانہ کیا۔اسامہ گھوڑے پر تھے اور ابو بکر پیدل چل رہے تھے۔انھوں نے کہا کہ اے خلیفۂ رسول اﷲ، آپ بھی سوار ہو جائیے۔ابو بکر نے جواب دیا: کیا ہوا اگر ایک گھڑی میں نے اپنے پاؤں اﷲ کی راہ میں غبار آلود کر لیے ؟‘‘انھوں نے اسامہ سے درخواست کی کہ اپنے ایک سپاہی عمر کو میری معاونت کے لیے چھوڑ جاؤ۔آخر میں فوج کو یہ نصیحتیں فرمائیں: خیانت نہ کرنا،چوری اور بد عہدی نہ کرنا، بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کو قتل نہ کرنا ،مقتولوں کے اعضا نہ کاٹنا، کھجور اور پھل والے درخت نہ کاٹنا،کھانا اﷲ کا نام لے کر کھانا۔ اﷲ تمھیں شکست اور وباسے محفوظ رکھے ۔‘‘ اسامہ نے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور ابو بکر کی ہدایات پر پوری طرح عمل کیا۔ آہل اور قضاعہ قبائل پر حملوں میں بے شمار رومی مارے گئے اور بہت سا مال غنیمت ہاتھ آیا۔ اسامہ نے سرحدی جھڑپوں پر اکتفا کیا اوروہ اندرون روم میں گھسے بغیر واپس آگئے، اس لیے کہ موجودہ زمانے کی اصطلاح کے مطابق یہ مہم چڑھائی نہیں، بلکہ ایک تادیبی کارروائی تھی ۔لشکر واپس آیاتو ابو بکر اور کبار صحابہ نے مدینہ سے باہر نکل کر اس کا استقبال کیا۔ جیش اسامہ کے رعب اور دبدبے کا یہ اثر ہوا کہ مرتدین مدینہ پر فوری حملہ کرنے سے باز رہے۔
مزید اسلامی ناولز پڑھنے کے لیے ابھی ہمارا آہٹ پیج لائک اور شیر کریں۔۔۔۔
پیغمبر علیہ السلام کی وفات کے بعد عربوں کی بدوی فطرت بیدار ہو گئی۔ وہ مرکز مدینہ سے آزاد ہو کر ارتداد کی تیاریاں کرنے لگے۔زیادہ دن نہ گزرے کہ ابو بکرکو امرا کی طرف سے اطلاعات ملنے لگیں کہ باغیوں کے ہاتھوں سلطنت کا امن خطرے میں ہے ۔بعض قبائل تو صریح مرتد ہو گئے، جبکہ دوسروں نے زکوٰۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا۔ مدینہ کے نواح میں بسنے والے قبیلوں عبس، ذبیان، بنو کنانہ، غطفان اور فزارہ نے موقف اختیار کیاکہ زکوٰۃ جزیہ کے مانند ہے۔ یہ خاص نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے لیے تھی ،اہل مدینہ اسے طلب کرنے کا حق نہیں رکھتے۔ وہ خلافت ابو بکر کو بھی نہ مانتے تھے۔ ان کاکہنا تھا کہ جیسے رسالت مآب صلی اﷲ علیہ وسلم نے قبول اسلام کے بعد یمن کے عامل بازان کو اس کے عہدے پر برقرار رکھا تھا، ہم کو بھی اپنے علاقے میں خود مختاری دی جائے۔ ان حالات میں جبکہ مدینہ کے بیش تر افراد جیش اسامہ کے ساتھ جا چکے تھے ،ابو بکر کی شوریٰ میںیہ رائے اکثریت اختیار کر گئی کہ منکرین زکوٰۃ سے جنگ نہ کی جائے۔عمر نے کہا: ’’ہم ان لوگوں سے کیسے لڑ سکتے ہیں جو کلمہ گو ہیں؟‘‘ابو بکر نے کہا: ’’بخدا، میں صلوٰۃ اور زکوٰۃ میں فرق کرنے والوں سے ضرور لڑوں گا۔اگر یہ مجھے ایک رسی بھی دینے سے انکار کریں جو وہ رسول اﷲ کے زمانے میں ادا کیا کرتے تھے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔‘‘تب عمر کو یقین ہو گیا کہ ابو بکر کو جو شرح صدر عطا ہوا ہے، وہی حق ہے۔ ان پڑوسی قبائل نے فوجیں اکٹھی کر کے ابرق اور ذو القصہ کے مقامات پر پڑاؤ ڈال دیا۔وہ وفود کی شکل میں مدینہ آئے اوراداے زکوٰۃ سے مستثنیٰ کرنے کا مطالبہ کیا ، ان کی آمدکا مقصد مدینہ کی جاسوسی کرنا بھی تھا۔ابو بکر نے ان کے ارادوں کو بھانپ لیا۔ چنانچہ انھوں نے اہل مدینہ کو جمع کر کے فرمایا: ’’دشمن کو تمھاری کمزوریوں کا علم ہے ۔وہ تم سے ایک منزل۱؂ کے فاصلے پر خیمہ زن ہے۔ ہم نے اس کے شرائط ماننے سے انکار کیا ہے، اس لیے وہ تم پر ضرور حملہ کرے گا۔‘‘ تین ہی روز گزرے کہ منکرین زکوٰۃ نے مدینہ پر چڑھائی کر دی۔ مدینہ کے ناکوں پر ابو بکر کی طرف سے متعین کردہ علی،زبیر،طلحہ اور ابن مسعودنے فوراً ان کو خبر کی۔جب ان حملہ آوروں پر مسلمانوں کی جانب سے اچانک جوابی یلغار ہوئی تو وہ پیٹھ پھیر کر بھاگے ۔مسلمان ان کے پیچھے ذو حسا تک پہنچے تووہاں موجود منکرین کے ساتھی مقابلے پر اتر آئے۔ رات بھر لڑائی کے بعد جب انھوں نے مسلمان سواروں کے اونٹوں پر کمندیں پھینکنی شروع کیں تو اونٹ بھاگ کھڑے ہوئے اور مدینہ جا کر دم لیا۔منکرین کی یہ فتح عارضی ثابت ہوئی، کیونکہ رات کے پچھلے پہرابو بکر مدینہ سے تازہ دم سپاہی لے کر میدان کارزارآن پہنچے اور سورج طلوع ہونے سے پہلے ان کو بھاگنے پر مجبور کر دیا۔ جنگ ذو القصہ جنگ بدر سے بہت مشابہت رکھتی ہے ،اس میں بھی قلیل التعداد مسلمانوں نے بھاری اکثریت رکھنے والے دشمن کو شکست دی۔ابو بکر نے عزم وایقان کا جو مظاہرہ کیا، انھی کے شایان شان تھا، کیونکہ انھوں نے آغاز اسلام ہی سے رسول اﷲ کی کامل پیروی کو اپنا شعار بنا لیا تھا۔وہ منکرین کو دو باتوں کی پیش کش کرتے ،ذلت وخواری قبول کر لویا جنگ اور جلا وطنی کے لیے تیار ہو جاؤ ۔جیش اسامہ کی واپسی کے بعدابوبکر اس لشکر کی خود قیادت کرتے ہوئے ابرق پہنچے، جہاں بنو عبس، بنو بکراور ذبیان کے ساتھ ان کا آخری معرکہ ہوا۔انھوں نے ذبیان کو ہمیشہ کے لیے ابرق سے نکالنے کا اعلان کیا اور وہاں کی اراضی اور چراگاہیں مسلمانوں میں تقسیم کر دیں ۔مذکورہ منکر زکوٰۃ قبیلے شکست کے بعد بھی باز نہ آئے ،ان کی قبائلی عصبیت نے انھیں حقائق ماننے سے باز رکھا۔ انھوں نے اپنی شرم ناک شکست کا بدلہ اپنے زیر دسترس مسلمانوں کو قتل کر کے لیا اور خود بنو اسد کے مدعی نبوت طلیحہ بن خویلد سے جا ملے۔ منکرین زکوٰۃ کی شکست کے بعد لوگ زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے جوق در جوق مدینہ آنے لگے۔ سب سے پہلے صفو ان تمیمی اور عدی بن حاتم طائی آئے۔
بنو اسد میں طلیحہ ،بنو تمیم میں سجاح اور بنو یمامہ میں مسیلمہ کذاب نے دعواے نبوت کیا۔ لقیط بن مالک عمان میں اور اسود عنسی یمن میں شورش کے ذمہ دار تھے۔اسود نامی کاہن جنوبی یمن میں رہتا تھا،شعبدہ بازی کرتے کرتے ا س نے نبوت کا دعویٰ کردیا اور اپنا لقب رحمان الیمن رکھا۔وہ یمن ،حضرموت ،بحرین اور عد ن پرقابض ہو گیا۔ اس کا نعرہ تھا:’یمن یمنیوں کا ہے ، اجنبیوں کو نکال دو‘۔ تب رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم حیات تھے اور رومیوں کے خلاف لشکر اسامہ کی تیا ری میں مصروف تھے،آپ نے اسود کے خلاف کارروائی کو موخر فرمایا ،اسی دوران میں آپ کا انتقال ہوا اور اسود کو اس کے قریبی ساتھیوں ہی نے قتل کر دیا۔یہ پہلی خوش خبری تھی جو خلیفۂ اول ابو بکر کو ملی۔مسیلمہ نے آں حضرت کو خط بھیجا تھاکہ نصف زمین ہماری ہے اور نصف قریش کی۔یہ لوگ اسلام میں رسوخ نہ رکھتے تھے،شام وایران سے متصل ہونے کی وجہ سے ان میں بت پرستی اور آتش پرستی کے اثرات تھے پھرانھیں خود مختاری کا شوق بھی تھا، اہل یمن تو حجازیوں سے پہلے سے نفرت کرتے تھے ۔ مکہ کے عامل عتاب بن اسید لوگوں کے اسلام سے منحرف ہونے کا اندیشہ کرتے ہوئے روپوش ہو گئے، جبکہ وہاں کے باشندوں کو سہیل بن عمرو نے مرتد ہونے سے روکا۔ اسی طرح طائف کا قبیلہ بنو ثقیف مرتد ہوناچاہتا تھا ، وہاں کے گورنر عثمان بن ابو العاص نے ان کو باز رکھا۔
مرتدین سے جنگ کرنے سے پہلے ابو بکر نے ان کو خطوط ارسال کیے ۔انھوں نے لکھا: ’’رسول اﷲبشارت و انذار کا کام مکمل کر چکے تو انھیں اﷲ نے اپنے پاس بلا لیا۔اب تم میں سے جو لوگ جہالت کے باعث اسلام سے پھر گئے ہیں، اگر وہ اپنی دین مخالف سر گرمیوں سے باز آگئے تو ان کی جان بخشی کر دی جائے گی۔جو آماد�ۂ فساد ہوں گے، ان سے جنگ کی جائے گی، ان کو بری طرح قتل کر کے ان کی عورتوں اور بچوں کوقیدی بنا لیا جائے گا۔ان کا اذان دیناان کے اسلام کی علامت سمجھا جائے گا۔‘‘بہت سے مرتدین نے اسلام کی طرف رجوع کر لیا۔ اب ارتداد پر قائم سرکشوں کی سرکوبی کا مرحلہ آیا۔اسامہ کا لشکر اچھی طرح آرام کر چکاتو ابوبکر اسے لے کرمدینہ سے نکلے ۔ذوالقصہ پہنچ کر انھوں نے لشکر کو گیارہ حصوں میں تقسیم کیا ،ہر حصے کوالگ پرچم دے کر الگ ا میر مقرر کیا۔ ابو بکر نے بنو اسد کے طلیحہ بن خویلد کی طرف خالد بن ولید کو،بنو حنیفہ کے مسیلمہ کی طرف عکرمہ بن ابو جہل کو،یمامہ او رقضاعہ کی طرف شرجیل بن حسنہ کو، اسود عنسی ‘عمرو بن معدی کرب اور قیس بن مکشوح کی طرف مہاجر بن ابو امیہ کو ، تہامہ کی طرف سوید بن مقرون کو،حطم بن ضبیعہ اور قیس بن ثعلبہ کی طرف علا بن حضرمی کو،عمان کے لقیط بن مالک کی طرف حذیفہ بن محصن کو ،مہرہ کی طرف عرفجہ بن ہرثمہ کو،قضاعہ کی طرف عمرو بن عاص کو، بنو سلیم اور بنو ہوازن کی طرف معن بن حاجز کواور شام کی سرحدوں کی طرف خالد بن سعید کو بھیجا۔ انھوں نے دستوں کو ہدایت کی کہ جن قبیلوں پر ان کا گزر ہو ،وہاں کے مسلمانوں کو لشکر میں شامل کرتے جائیں ،کوئی سپہ سالار فتح حاصل کرنے کے بعد مرکز مدینہ کے حکم کے بغیر اپنی پوزیشن نہ چھوڑے۔
عبس ،ذبیان،بنو بکر ،بنوطی، غطفان اور بنو سلیم مدعی نبوت طلیحہ سے جا ملے تھے ،یہ سب بزاخہ میں اکٹھے ہو گئے۔ طلیحہ نے دعویٰ کیا کہ محمد کی طرح مجھ پر بھی وحی آتی ہے ۔اس نے کچھ مقفیٰ عبارتیں بنا کر لوگوں کو سنائیں اور لوگوں کو رکوع وسجود سے منع کر دیا۔ادھر عدی بن حاتم طائی زکوٰۃ ادا کر کے مدینہ سے لوٹے اور اپنے قبیلے طے کو اسلام کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا ۔قبیلہ والے مان گئے تو عدی نے سنح پہنچ کر خالد بن ولید کو تین دن کے لیے بزاخہ پر حملہ کرنے سے روکا۔اس دوران میں عدی نے طلیحہ کے لشکر میں موجود اپنے پانچ سو آدمیوں کو واپس بلا لیا۔خدا کی قدرت کہ طلیحہ کو شبہ تک نہ ہوااور یہ آدمی لشکر خالد کے سپاہی بن گئے۔اب خالد کا ارادہ انسر جا کر قبیلۂ جدیلہ سے جنگ کرنے کا تھا۔عدی نے کہا: اگر طی قبیلہ پرندہ ہوتا توجدیلہ ا س کا پر بنتا۔کچھ روز مہلت دے کر مجھے جدیلہ جانے دیں، شایداﷲاس قبیلے کو بھی ارتداد سے بچا لے۔ چنانچہ ایسا ہی ہواور جدیلہ کے ایک ہزار سوار مرتدین کے جتھے سے ٹوٹ کر جیش خالد میں شامل ہو گئے۔ادھر بزاخہ میں موجود طلیحہ اب بھی مقابلے پر تیار تھا، کیونکہ ابو بکر کا جانی دشمن عیینہ بن حصن سات سو فزاری لیے اس کے ساتھ تھا۔ اس نے سپہ سالاری سنبھالی جب کہ طلیحہ خیمے میں کمبل اوڑھے وحی کا انتظار کرتا رہا۔ اسلامی لشکر کا دباؤ بڑھا اور جھوٹے نبی کی وحی میں تاخیر ہوئی توعیینہ نے اپنی قوم کو پکارا: اے بنو فزارہ! طلیحہ کذاب ہے ،بھاگ کر اپنی جانیں بچاؤ۔باقی لشکر طلیحہ کے گرد اکٹھا ہو گیا،اس نے اپنے لیے ایک گھوڑے اور اپنی بیوی نوارکے لیے اونٹ کا انتظام کیا ہوا تھا۔یہ کہہ کر وہ بھاگ کھڑا ہوا کہ تم بھی اپنی اور اپنے اہل و عیال کی جانیں بچاؤ۔وہ شام پہنچا اور بنو کلب میں سکونت اختیار کر لی۔ اس کے اکثر ساتھی مسلمان ہو گئے تو وہ بھی اسلام لے آیا، عمر کی خلافت میں اسے بیعت کا موقع ملا۔خالد بن ولید ایک ماہ بزاخہ میں مقیم رہے ۔انھوں نے مسلمانوں کا قتل کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایااور قرہ بن ہبیرہ، فجاہ سلمیٰ اور ابو شجرہ جیسے مرتدوں کو بیڑیاں پہنا کر مدینہ بھیج دیا۔ابو بکر نے فجاہ کو جلانے کا حکم دیا، کیونکہ اس نے افواج اسلامی کے ہتھیار مسلمانوں ہی کے خلاف استعمال کیے تھے،باقی لوگوں کو انھوں نے معاف کر دیا۔ بزاخہ کے ہم سایہ میں رہنے والے بنو عامر بھی مسلمان ہو گئے جبکہ طلیحہ کا ساتھ دینے والے غطفان، طی، ہوازن اور سلیم کے کچھ لوگ ام زمل سلمیٰ بنت مالک کے پاس جا پہنچے۔یہ بنو فزارہ کے سردار عیینہ کی چچی ام قرفہ فاطمہ بنت بدر کی بیٹی تھی۔ام قرفہ کو خود آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے قتل کرایا تھا ،یہ لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکاتی تھی۔ام زمل لونڈی بن کر عائشہ کے حصے میں آئی جنھوں نے اسے آزاد کردیا۔آزادی کے بعد اس نے اپنی ماں کے قتل کا بدلہ لینا اپنا مقصد بنا لیا۔مسلمانوں کی فوج کا ام زمل کی فوج سے ٹکراؤ ہوا،پورے سو آدمیوں کو جہنم واصل کرنے کے بعد وہ ام زمل تک پہنچے ۔اس کے خاتمے کے بعد اس کی فوج بھی تتر بتر ہو گئی۔
شمال مشرقی عرب کی بغاوتوں کو فرو کرنے کے بعد ابو بکر جنوبی عرب کی طرف متوجہ ہوئے جہاں بنو تمیم مقیم تھے۔ یہ لوگ قبر پرست تھے ،ان میں سے کچھ عیسائی ہو چکے تھے۔ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے زمانے میں اسی قبیلے نے سب سے پہلے جزیہ دینے سے انکار کیا۔آپ نے عیینہ بن حصن کو ان کے پاس بھیجا،وہ ان کو مطیع کر کے مدینہ لے آئے۔اس موقع پر بنو تمیم مسلمان ہو گئے،آپ نے اس قبیلے کی مختلف شاخوں کے لیے الگ الگ امیر مقرر فرمائے۔ مالک بن نویرہ بنو یر بوع کاسردار تھا،آپ کی وفات کے بعداس نے ابو بکر کی خلافت ماننے او رآپ کو زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا۔سجاح بنت حارث بھی بنو یربوع سے تعلق رکھتی تھی ،اس کی شادی اپنے ننھیال تغلب میں ہوئی تھی۔یہ بہت ذہین تھی ،کہانت کے ساتھ اسے لوگوں کی رہبری کرنا آتا تھا۔اسے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات کی خبر ملی تو اس نے نواحی قبائل کا دورہ کیا اور انھیں مدینہ پر ہلا بولنے کے لیے آمادہ کرنے لگی ۔اس کا خیال تھا، وہ نبوت کا دعویٰ کرے گی تو تمام بنو تمیم اس پر ایمان لے آئیں گے اور وہ مدینہ پر دھاوا بول دے گی ۔کہا جاتا ہے کہ ایرانی عمال اس کی پشت پر تھے۔ ان کی منصوبہ بندی کے مطابق یہ عرب میں فتنہ وفساد کی آگ بھڑک اٹھنے تک مقیم رہی اور مقصد پورا ہونے کے بعدعراق واپس چلی آئی ۔ مالک بن نویرہ نے اسے مدینہ پر حملہ کرنے سے باز کیا۔ پھر وکیع بھی سجاح سے مل گیا اور ان تینوں نے اپنے ہی قبیلے بنو تمیم کے دوسرے سرداروں پر حملہ کر دیا۔جلد ان دونوں کومحسوس ہوا کہ انھوں نے اس عورت کا ساتھ دے کر بڑی غلطی کی ہے۔سجاح تمیم سے نا مراد پلٹی،مدینہ کو جاتے ہوئے نباج پہنچ کر اوس بن خزیمہ سے شکست کھائی تو یمامہ آن پہنچی۔یہاں کے نبی مسیلمہ کو اپنی نبوت کی فکر پڑ گئی تواس نے دونوں نبوتوں کو جمع کرنے کے لیے سجاح کو دام میں پھنسایا او راس سے شادی کر لی۔مہر مسیلمہ کی زرعی آمدن کا نصف مقرر ہوا، سجاح کے لیے عشا اور فجر کی نمازوں میں تخفیف کر دی گئی۔ادھر مالک بن نویرہ اکیلا رہ گیا تھا، کیونکہ اس کا دست راست وکیع مسلمان ہوکر زکوٰۃ ادا کر چکا تھا۔خالد بن ولید بنو اسد و غطفان کی سرکوبی سے فارغ ہو چکے تھے ،انھوں نے تمیم کا رخ کرنے کا ارادہ کیا ۔انصار پہلے تو بزاخہ میں رہ گئے پھر خالد کے ساتھ آن ملے۔مالک نے اپنی کم زور پوزیشن کا جائزہ لیا تو اپنی قوم کو منتشر کر دیااور خود روپوش ہو گیا۔ خالد کا بھیجا ہوا ایک دستہ مالک کو گرفتار کر لایا۔مالک نے اسلام کا اقرار کیا اور مسلمانوں کے ساتھ نماز پڑھی، لیکن زکوٰۃ دینے سے انکار کیا، چنانچہ خالد نے ا س کو قتل کرا دیا۔ان کا مالک کو قتل کرانا بہت نزاع کا باعث بنا ۔ابو قتادہ انصاری جو مالک کو گرفتار کرنے والوں میں شامل تھے، کہتے ہیں کہ اس نے زکوٰۃ کا اقرار بھی کیا تھا،دوسرے راوی اس اقرار کو نہیں مانتے ۔پھر جب خالد نے اسلامی احکام اور
مروج جاہلی رسوم، دونوں کے علی الرغم مالک کی بیوہ لیلیٰ سے اس کی عدت گزرنے سے پہلے ہی شادی کر لی تو ان پر الزام لگا کہ انھوں نے اس خوب رو عورت سے شادی کی خاطر اس کے شوہر کو مروایا۔ابو قتادہ تو ا س قدر ناراض ہوئے کہ یہ قسم کھا کر مدینہ لوٹ گئے کہ آیندہ کبھی خالد کے جھنڈے تلے نہ لڑیں گے۔انھوں نے ابوبکر کو یہ واقعہ سنایا تو انھوں نے توجہ نہ دی پھر وہ عمر کے پاس گئے۔ عمر نے ابو بکر کومشورہ دیا ، اس الزام کی بنا پر خالد کو معزول کر دیا جائے۔ان کو گوارا نہ ہوا کہ ایک لغزش کی وجہ سے رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے مقرر کردہ قائد کو معزول کر دیں، چنانچہ ان کا جواب تھا: ’’میں اس تلوار کو نیام میں نہیں ڈال سکتا جسے اﷲ نے کافروں پر مسلط کیا ہو۔‘‘خالد مدینہ پہنچ کر ابوبکر کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اس واقعے کی تفصیلات ان کے گوش گزار کیں۔ابوبکر نے مالک کے قتل کے متعلق ان کی معذرت قبول کی، لیکن اس کی بیوی سے شادی پر ناراضی کا اظہار کیا اور اسے طلاق دینے کا حکم دیا۔ابو بکر کا طرز عمل خود نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے اس عمل کی پیروی تھا جب خالد نے بنو خزیمہ کے قیدیوں کو قتل کرنے میں جلدی کی تھی۔آپ نے مقتولوں کی دیت ادا فرمائی، بنو خزیمہ کا ایک ایک برتن واپس کیا ،اﷲ کے حضور خالد کے عمل کی برأتپیش کی، لیکن خالد کو معزول نہ فرمایا۔ مالک بن نویرہ کے قتل کا معاملہ طے کرنے کے بعدابوبکر نے خالد کو یمامہ کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا جہاں مسیلمہ بنو حنیفہ کے چالیس ہزارجنگ جو اشخاص کے ساتھ مقیم تھا،وہ بطاح پہنچے اور ابوبکر کی کمک کا انتظار کرنے لگے۔
مطالعۂ مزید:الطبقات الکبریٰ(ابن سعد)،الامامہ والسیاسہ(ابن قتیبہ)،تاریخ الامم والملوک(طبری)، البدایہ والنہایہ(ابن کثیر)،تاریخ الاسلام (ذہبی)،اردو دائر�ۂمعارف اسلامیہ(پنجاب یونیورسٹی) ، الصدیق ابو بکر (محمد حسین ہیکل) ، المفصل فی تاریخ العرب قبل الاسلام(جواد علی)،عبقرےۃ الصدیق (عباس محمود العقاد)۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*


 ⲯ﹍︿﹍︿﹍ درسِ حدیث ﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼

معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 939
عَنْ بَعْضِ اَصْحَابِ النَّبِىِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : لَقَدْ رَأَيْتُ النَّبِىَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْعَرْجِ يَصُبُّ عَلَى رَأْسِهِ الْمَاءَ ، وَهُوَ صَائِمٌ مِنَ الْعَطَشِ ، أَوْ مِنَ الْحَرِّ. (رواه مالك وابوداؤد)

ⲯ﹍︿﹍︿﹍ ترجمہ﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼

کن چیزوں سے روزہ خراب نہیں ہوتا
رسول اللہ ﷺ کے بعض اصحاب سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ کو مقام عرج میں دیکھا، آپ ﷺ روزے سے تھے اور پیاس یا گرمی کی (شدت) کی وجہ سے سر مبارک پر پانی بہا رہے تھے۔ (مؤطا امام مالک، سنن ابی داؤد)

ⲯ﹍︿﹍︿﹍ تشریح﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼

تشریح
معلوم ہوا کہ روزہ کی حالت میں پیاس یا گرمی کی شدت کم کرنے کے لیے سر پر پانی ڈالنا اور اس قسم کی دوسری تدابیر کرنا جائز ہے۔اور یہ روزہ کی روح کے بھی خلاف نہیں ہے۔ رسول اللہ ﷺ اس طرح کے بعض اعمال اس لیے بھی کرتے تھے کہ اس طرز عمل سے اپنی عاجزی ظاہر ہوتی ہے جو بندگی کی روح ہے .... اللہ رحمتیں ہوں آپ ﷺ پر اور اس کا سلام۔ عرج، مدینہ سے مکہ جاتے ہوئے تین منزل پر ایک آباد موضع تھا، اس لیے یہ واقعہ کسی سفر کا ہے، ہو سکتا ہے کہ فتح مکہ والے سفر ہی کا ہو، جو رمضان مبارک میں ہوا تھا، اور آپ ﷺ نے مقام عسفان پہنچنے تک برابر روزے رکھے تھے۔


🌹 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
ــــــــــــــــــــــــ

━━❰・ پوسٹ نمبر 97 ・❱━━━

    نماز توڑنے والی چیزوں کا بیان:
 دورانِ نماز کوئی چیز کھاپی لینا
1. نماز میں کوئی چیز کھالی یا کچھ پی لیا تو نماز ٹوٹ گئی، یہاں تک کہ اگر ایک تل یا چھالیہ کا ٹکڑا اٹھاکر کھالے تو بھی نماز ٹوٹ جائے گی البتہ اگر کوئی چیز دانتوں میں اٹکی ہوئی تھی اس کو نگل لیا تو اگر وہ چنے سے کم ہو تب تو نماز ہوگئی اور اگر چنے کے برابر یا زیادہ ہو تو نماز ٹوٹ جائے گی۔
2. منہ میں پان دبا ہوا ہے اور اس کی پیک حلق میں جاتی ہے تو نماز نہیں ہوتی۔
3. کوئی میٹھی چیز کھائی پھر کلی کرکے نماز پڑھنے لگا لیکن منہ میں اس کا  کچھ مزہ باقی ہے اور تھوک کے ساتھ حلق میں جاتا ہے، تو نماز صحیح ہے۔
4. اگر گوند وغیرہ کو پے در پے تین دفعہ یا زیادہ چبایا تو نماز ٹوٹ جائے گی۔

📚حوالہ:
* مسائل بہشتی زیور 1/216
* تسہیل بہشتی زیور 1/299
 ━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
▒▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓▒
مرتب:✍  
مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ 
━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
 

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget