🌴﹍ⲯ﹍ⲯ﹍ حضرت ابو بکر صدیقؓ ﹍🌴﹍🌴⭐بارہویں قسط ⭐🌴


🌴﹍ⲯ﹍ⲯ﹍ حضرت ابو بکر صدیقؓ ﹍🌴﹍🌴⭐بارہویں قسط ⭐🌴

یارِ غار والمزار ، افضل الخلائق بعد الانبیاء  کے حالاتِ زندگی پیدائش تا وفات
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بیعت عقبہ کے بعد یثرب میں اسلام پھیلنا شروع ہوا تو نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو اس شہر کی طرف ہجرت کرنے کا اذن عطا فرمایا۔ اس موقع پر ابو بکر نے بھی ہجرت کی اجازت مانگی۔ آپ نے فرمایا: ’’ابھی ایسا نہ کرو، شاید اﷲ ہجرت کے لیے تمھارا کوئی ساتھی پیدا کر دے۔‘‘ یہ آپ کا اپنی طرف اشارہ تھا۔ اسی روز انھوں نے دو اونٹنیوں کا انتظام کر لیااور اپنے پیارے نبی کی معیت میں مکہ سے کوچ کا انتظارکرنے لگے۔ آخر ایک شام آپ حسب معمول ابو بکر کے گھر آئے اور فرمایا: ’’مجھے مکہ سے ہجرت کرنے کا حکم ہوا ہے۔‘‘ ابوبکر نے بے تابی سے کہا: ’’یارسول اﷲ! ساتھی کی ضرورت ہو توآپ کا ساتھ موجود ہے۔‘‘ اسی رات قریش کے نو جوانوں نے آپ کے گھر کا محاصرہ کر لیا۔ آپ نے حضرت علی کو اپنے بستر پر لٹایا اور قریش کے لوگوں کو غفلت میں پا کر اپنے گھر سے نکلے اورابو بکر کے گھر پہنچے۔ وہ جاگ رہے تھے، فوراً دونوں گھر کی عقبی کھڑکی سے نکلے اور جنوب کی سمت تین میل سے زیادہ کی مسافت طے کر کے غار ثور پہنچے۔ یار غار نے پہلے غارکو اچھی طرح سے دیکھا، کہیں کوئی سانپ، بچھو یا موذی جانو رنہ ہو تب اپنے صاحب کو اندر آنے دیا۔ صبح ہوتے ہی قریش نے آپ دونو ں کی تلاش میں آدمی دوڑائے۔ ابو بکر گھبرائے تو آپ نے فرمایا، ’لا تحزن ان اﷲ معنا‘ ’’مت غم کرو،بے شک اﷲ ہمارے ساتھ ہے۔‘‘ (توبہ۹: ۴۰) ڈھونڈنے والے نے غارکے دہانے پر مکڑی کا جالا بنا دیکھا تو واپس پلٹ گیا۔ غار کے اندر ابو بکر نے آپ سے فرمایا: ’’اگر ان میں سے کوئی آپ کے قدموں کو دیکھتا تو وہ ہمارا پتا پا لیتا۔‘‘ آپ نے جواب میں فرمایا: ’’اے ابوبکر، ان دوکے بارے میں تمھارا کیا خیال ہے جن کا تیسرا ساتھی اﷲ ہے؟‘‘ (بخاری،رقم۳۶۵۳) ابو بکر کے صاحب زادے عبد اﷲ رات کو آکر مکہ کی خبریں سناتے پھر دن واپس جا کرمکہ والوں کے بیچ گزارتے۔ ابو بکرکا آزاد کردہ غلام عامر بن فہیرہ صبح ان کی بکریاں چراتے ہوئے جبل ثور لے جاتا تو دونوں ان بکریوں کا دودھ پی لیتے۔ اسما بنت ابو بکر دونوں کا کھا نا تیار کرتیں، انھوں نے توشہ دان میں کھانا ڈال کر اپنے بھائی عبداﷲ کودیا، باندھنے کو کچھ نہ ملا تو اپنا کمر بند (نطاق) پھاڑ کر اس سے باندھ دیا، اسی وجہ سے ان کا لقب ذات النطاقین (دو کمر بندوں والی) پڑگیا۔ تین دن گزرے، مشرکین کا جوش کچھ ٹھنڈا پڑا توانھوں نے یثرب کا ارادہ کیا۔ ابو بکر کے گھر سے دو اونٹنیاں آگئیں، ایک اور اونٹ خریدا گیا، ان میں سے ایک پر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم تشریف فرما ہوئے، دوسرے پر ابوبکر سوار ہوئے اور تیسرے پر عامر بن فہیرہ بیٹھے۔ عبد اﷲ بن اریقط ان کا گائیڈ بنا، کافر ہونے کے با وجود آپ نے اس پر اعتماد کیا۔ طلحہ بن عبید اﷲنے ابو بکر کوشام سے سفید کپڑے بھیجے، نبی صلی اﷲ علیہ وسلم اور ابو بکر یہی کپڑے پہن کر مدینہ پہنچے۔
انیس کہتے ہیں کہ ابوبکر مدینہ میں حبیب بن یساف کے مہمان ہوئے، جبکہ ایوب بن خالد کا کہنا ہے کہ وہ خارجہ بن زید کے ہاں ٹھہرے۔ یہ وہی خارجہ ہیں جنھیں ہجرت کے بعد مدینہ میں مواخات قائم فرماتے ہوئے نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے ابو بکر کا اسلامی بھائی قرار دیا۔ ان کی زمینوں پر ابو بکر نے کاشت کاری کی، بعد میں انھی کی بیٹی حبیبہ سے ابو بکر کا نکاح ہوا۔ ہجرت کے چند روز بعد ابوبکر کو بخار ہوگیا، یہ مدینہ کی مرطوب آب و ہوا کا اثرتھا۔ محمد بن جعفرکی روایت ہے: ’’ابو بکر نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی وفات تک سنح میں مقیم رہے‘‘ جو مدینے میں خارجہ کے قبیلے بنو حارث بن خزرج کا محلہ تھا۔ یہ نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے گھر سے ایک میل کے فاصلے پر تھا۔ مشہور تابعی فقیہ عبید اﷲ بن عبداﷲ فرماتے ہیں: ’’جب آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے مدینے میں گھروں کے لیے زمین تقسیم فرمائی تو ابو بکر کے گھر کے لیے مسجد نبوی کے پاس جگہ متعین فرمائی، مسجد کے مغرب میں واقع ان کے گھر سے چھوٹا سا دریچہ مسجد میں کھلتا تھا۔ اور صحابہ کے گھروں کے بھی ایسے دریچے مسجد میں آنے جانے کے لیے استعمال ہوتے تھے۔ آپ نے اﷲ کے حکم سے سارے راستے بند کرائے اور فرمایا: ’’اس مسجد میں کوئی دریچہ نہ کھلا رہنے پائے سوائے دریچۂ ابو بکر کے۔‘‘ (بخاری، رقم۳۹۰۴) رہا حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا گھر تو اس کا بڑا دروازہ ہی مسجد کے اندر تھا، اسے بند کرنا ممکن نہ تھا۔ حضرت ابو بکر کے مسجد نبوی کے پڑوس والے گھر میں ان کی دوسری بیوی ام رومان، بیٹی عائشہ اور ان کے تمام بیٹے مقیم تھے۔ بعد میں کسی ضرورت کے لیے انھوں نے یہ گھر ام المومنین حفصہ رضی اﷲ عنہا کو چار ہزار درہم میں بیچ دیا۔ حضرت عثمان کے دور خلافت میں اسے سیدہ حفصہ سے خرید کر مسجد کی توسیع میں شامل کر لیاگیا۔ اب بھی مسجد نبوی کے مغربی کونے میں ترکوں کے عہد کی تحریر ’ہذہ خوخۃ ابی بکر‘ (یہ ابو بکر کے گھر کا دریچہ ہے) لکھی نظر آتی ہے۔
سیدناابوبکر آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم کے بعد سب سے زیادہ دینی حمیت رکھتے تھے۔ وہ بدر، احد، خندق اور تمام غزوں میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے ساتھ شریک رہے۔ جنگ بدر میں مسلمانوں کو شان دار فتح حاصل ہوئی او ر مشرکوں کے سترقیدی ان کے ہاتھ لگے۔ انھوں نے ابو بکر کو بلایا اوررشتہ داری کا واسطہ دے کر جان بخشی کرانے کی درخواست کی۔ ابو بکر نے وعدہ کرلیا۔ سیدنا عمر کی رائے تھی، ان قیدیوں کو قتل کردیا جائے، لیکن ابوبکر نے اصرار کر کے ان کو زرفدیہ کے عوض رہا کرا لیا۔ جنگ بدر میں ابو بکر و علی کے بارے میں کہا گیا کہ ایک کا ساتھ جبرئیل نے اور دوسرے کا میکائیل نے دیا۔ جنگ احد میں مسلمانوں کو ابتدائی طور پر فتح ملی، لیکن جب انھوں نے رسول پاک صلی اﷲ علیہ وسلم کی ہدایات کو فراموش کر کے اپنی متعین جنگی پوزیشنیں چھوڑ دیں تو کفار کو غلبہ پانے کا موقع مل گیا، چنانچہ جہاں ستر صحابہ شہید ہوئے وہاں سنگ باری سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک پر بھی زخم آئے اور آپ کے دو دانت شہید ہو گئے۔ اس دوران میں ابوبکران بارہ ثابت قدم صحابیوں میں شامل تھے جنھوں نے آپ کا دفاع کیا۔ ۶ھ میں رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے مسلمانوں کو عمرہ کی ادائیگی کے لیے مکہ چلنے کا حکم ارشاد کیا۔ قریش نے یہ خبر سن کر تہیہ کیا کہ آپ کو مکہ میں داخل نہ ہونے دیں گے۔ آپ حدیبیہ کے مقام پر فرو کش ہوئے اور مکہ والوں پر واضح کیا کہ ہمارا مقصد صرف عمرہ ادا کرنا ہے۔ تب مذاکرات کے بعد وہ مشہور معاہدہ طے پایا جسے صلح حدیبیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس معاہدے کی کچھ شرائط مسلمانوں کو نا گوار گزریں خاص طور پر حضرت عمر کا رد عمل بہت سخت تھا۔ ابو بکر رضی اﷲ عنہ اس موقع پر بھی مطمئن اور پر سکون تھے، انھیں پختہ یقین تھا کہ آپ کا کوئی عمل بھی حکمت سے خالی نہیں اور یہ معاہدہ لازماً مسلمانوں کے حق میں بہتر ثابت ہو گا۔ چنانچہ سورۂ فتح نازل ہونے کے بعد یہ بات واضح ہو گئی۔ صلح حدیبیہ کے بعد مسلمانوں نے ذی قعد۷ھ میں نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کی معیت میں عمرہ ادا کیا۔ آں حضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے غزوۂ تبوک میں ابو بکر کو مرکزی سیاہ پرچم عنایت کیا اور کھانے کو خیبر کی کھجوروں کے سو ٹوکرے عنایت فرمائے۔ آپ نے انھیں نجد کے سریہ میں امیر بنا کر بھیجا۔ ۹ھ میں حج فرض ہوا توآپ نے دین اسلام کا پہلا حج ادا کرنے کے لیے ابوبکر کو امیر الحج مقرر فرمایا۔ وہ تین سو مسلمانوں کو لے کر مکہ پہنچے اور آں حضرت کی ہدایت کے مطابق خطبۂ حج میں اﷲ کا اظہار برأ ت سنایا: ’انما المشرکون نجس فلا یقربوا المسجد الحرام بعد عامہم ہذا‘ ’’بلا شبہ مشرک تو نا پاک (عقیدہ والے) ہیں، لہٰذااس سال کے بعد مسجد حرام کے پاس نہ پھٹکیں۔‘‘ (توبہ۹:۲۸) اگلے برس۱۰ھ میں آپ خود حج کرنے مکہ تشریف لے گئے، یہ حجۃالوداع تھا کیونکہ اس کے بعد آپ کی وفات ہوگئی۔
ایک بار حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے حسان بن ثابت رضی اﷲ عنہ سے دریافت فرمایا: ’’تو نے ابو بکر کے بارے میں بھی کوئی شعر کہا ہے؟‘‘ انھوں نے کہا: ’’ہاں۔‘‘ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’کہو، میں سن رہا ہوں۔‘‘ انھوں نے یہ دو شعر پڑھے:
وثانی اثنین فی الغار المنیف وقد
طاف العدو بہ اذ صعد الجبلا
’’بلند غار (ثور) میں دو افرا دمیں سے دوسرا ،دشمن اس کے گرد چکر لگاچکا تھا جب وہ ا س پہاڑ پر چڑھا۔‘‘
وکان حب رسول اﷲ قد علموا
من البر ےۃ لم یعدل بہ رجلا
’’وہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کا پیار ادوست ہے، سب نے جان لیا ہے۔ دنیا میں کوئی آ دمی اس کے برابر نہیں ہے۔‘‘
رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کھل کر مسکرائے حتیٰ کہ آپ کی ڈاڑھیں نمایاں ہو گئیں۔ پھر فرمایا: ’’تو نے سچ کہا حسان، ابو بکر ایسے ہی ہیں جس طرح تو نے کہا۔‘‘ یہ واقعہ ہے کہ آپ کو عورتوں میں عائشہ اور مردوں میں ابوبکر سب سے زیادہ محبوب تھے۔ عمرو بن عاص کی روایت ہے کہ میں نے (غزوۂ ذات سلاسل کے موقع پر) آں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم سے پوچھا: ’’آپ کو کون سا انسان سب سے بڑھ کر محبوب ہے؟‘‘ آپ نے فرمایا: ’’عائشہ۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’مردوں میں سے کون؟ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’ان کے والد (ابوبکر)۔‘‘ میں نے پوچھا: ’’ان کے بعد؟‘‘ جواب فرمایا: ’’عمر۔‘‘ (مسلم،رقم ۶۱۷۷) آپ کا ارشادہے: ’’سنو، میں ہر دوست کی دوستی سے بے نیاز ہوں، اگر میں نے دوست بنانا ہوتا تو لازماً ابوبکر کو دوست بناتا۔ تمھارا ساتھی رسول تو اﷲ کا دوست ہے۔‘‘ (مسلم، رقم۶۱۷۶) ’’ابو بکرمیرے بھائی اور میرے ساتھی ہیں۔‘‘ (بخاری، رقم۳۶۵۶) فرمان نبوی ہے: ’’میری امت میں امت پر سب سے بڑھ کررحم کھانے والے ابو بکر ہیں۔‘‘ (مسند احمد، مسند انس بن مالک) ایک عورت نبی صلی اﷲ علیہ وسلم کے پاس آئی اور آپ سے کسی شے کے بارے میں گفتگو کی۔ آپ نے اسے حکم فرمایا: ’’میرے پاس پھر آنا۔‘‘ اس نے کہا: ’’یا رسول اﷲ، آپ کا کیا ارشاد ہے، اگر میں دوبارہ آئی اور آپ کو نہ پایا؟‘‘ یہ آپ کی وفات کا کنایہ تھا۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تو نے مجھے نہ پایا تو ابو بکر کے پاس چلی جانا۔‘‘ (بخاری،رقم۷۲۲۰)

*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی