مارچ 2011
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA

 


   آجکل ذرائع ابلاغ میں بڑا غلغلہ ہے ۔امریکہ نے اسامہ کے دہشت گردی میں ملوث ہونے کے ثبوت پیش کردئیے ۔ پرویز مشرف نے کہا ہے کہ پیش کردہ شواہد کی بنیاد پر کیس چلایا جاسکتاہے ۔ مگر عجیب بات ہے کہ فریق مخالف طالبان ہیں ۔ انکے سامنے نہ ثبوت پیش کئے جاتے ہیں اور نہ ہی کسی قسم کے شواہد کی بات کی جاتی ہے ۔’’مرے کومارے شاہ مدار ‘‘کے مصداق ہمارے صدر صاحب اور انگلش میڈیم کابینہ جو پہلے ہی اسامہ کو دہشت گرد تسلیم کرچکے ہیں اور بزعم امریکہ دہشت گردی کے خلاف طالبان کی اسلامی حکومت اور اسامہ بن لادن پر حملہ کرنے میں مکمل تعاون کایقین دلاچکے ہیں انہیں کے سامنے ثبوت وشواہد پیش کئے جارہے ہیں ۔ وہ تو پہلے ہی قائل تھے اور اب گھائل ہوچکے ہیں ۔

 تیسری دنیا کی اقوام کا ایک بڑا المیہ ہے کہ وہ صدیوں کی غلامی کے صدمہ سے اب تک بری طرح متاثر ہیں اور آزاد انہ سوچ کے تصور سے عاری ہیں ۔ سفید چمڑی والا جوبھی کہدے اس پر سردھننے لگتے ہیں ۔ کسی انگریز نے ٹوٹی پھوٹی اردو سیکھی تھی اور ایک قوالی میں شریک سماع تھا ۔ قوال نے طبعہ کی تھاپ پر اپنے مخصوص انداز میں ’’دریابہ حباب اندر ‘‘کو مکرر سہ کر گانا شروع کیا تو انگریز پر وجد طاری ہوگیا اور وہ بھی قوال کے ساتھ بے اختیار پکار اٹھا ’’دریامیں بہابندر ‘‘اس انگریز کے ساتھ دانشور وں کا جم غفیر تھا ۔انہوں نے انگریز کی ’’کلام فہمی‘‘کی داد دیتے ہوئے کہنا شروع کیا :واہ واہ !جب وہ بندر دریا میں بہہ رہاہوگا تو کیسا دلفیب منظر ہوگا !؟ کہتے ہیںکہ ایک بادشاہ سلامت کو ڈینگیں مارنے کی بڑی عادت تھی ایک دن اس نے دعوی کیا کہ ایک دن مابدولت جنگل میں شکار کیلئے گئے ہوئے تھے کہ ایک ہرن سامنے آگیا اور مابدولت نے تیر کھینچ کر ایسا مارا کہ اس کے کھر سے لگ کر اسکی آنکھ کو چھوتا ہوا نکل گیا بادشاہ کی بے تکی سنکر لوگ بے اختیار ہنس پڑے بادشاہ کو بہت خجالت وشرمندگی کا سامنا کرنا پڑا مگر اس مجمع میں دانشور وں کی کمی نہیں تھی اس نے کہا : بادشاہ سلامت نے بلکل درست فرمایا ۔ دراصل ہرن اس وقت اپنے کھر سے آنکھ کو کھجارہا تھا !

 کچھ یہی صورتحا ل دہشت گردی کے بارے میں امریکی دعوی اور اسکے ثبوت اور شواہد کی ہے ۔ امریکی ذہنیت یہ ہیکہ ہم نے کہدیا ہے ۔ آپ کو تسلیم کرنا ہے ۔اگر آپ مانتے ہیں تو آپ روشن خیال اور ہمارے دوست ہیں اور اگر نہیں مانتے تو دقیانوسی ۔ ہٹ دھرم اور ضدی اور ہمارے دشمن ہیں ۔

  امریکی کسی قسم کے شواہد یا ثبوت کے تکلف میں پڑنے کے روادار نہیں تھے مگر طالبان کے مظبوط اور اصولی موقف نے رائے عامہ کو اسقدر متاثرکردیا کہ امریکیوں کو مجبور اً دلائل وشواہد تصنیف کرنے پڑے مگر اتنے قوی اور مظبوط ہیں کہ عوام یا متاثر فریق کو بتائے نہیں جاسکتے ! وہ صرف نیٹو کو یا حکومت پاکستان کوبند کمرے میں پیش کئے جاسکتے ہیں !امریکہ نے جب بین الاقوامی رائے عامہ اپنے خلاف جاتی ہوئی محسوس کی تو اسے سائنٹیفک انداز سے متاثر کرنے کیلئے ذرائع ابلاغ پر پہلے یہ کیسٹ چلائی کہ ہم ثبوت ضرور پیش کریں گے ہمارے پاس کافی شواہد موجود ہیں اور اب یہ کہنا شروع کردیا کہ ہم نے ثبوت پیش کردئے اوراب مسلح کاروائی کا جواز پیدا ہوگیا ۔قوالی کے انداز میں یہ کیسٹ بج رہی ہے اور پاکستانی کابینہ اور مغرب پرست دانشور اس پر ’’ دریا میں بہا بندر ‘‘ کے انداز میں رقص کررہے ہیں ۔

 ہر ذی شعور یہ کہ رہا ہے کہ یہ سب کچھ پہلے سے طے شدہ ہے اور یہودیوں نے اسلامی حکومت کے خلاف کاروائی کا جواز پیدا کرنے اور مسلمانوں کے خلاف نفرت برپاکرنے کیلئے یہ سب کچھ کیا ہے ۔تمام شواہد بھی اس کی تائید کررہے ہیں مگر امریکہ کی رٹ یہی ہے کہ نہیں ! مسلمانوں نے کیا ہے ۔ سامہ اور ملا عمر کا ہاتھ ہے ۔

  امریکی کور باطن دانشور وں کو اندھیرے میں بہت دور کی سوجھی ہے اور بہت دور کی کوڑی لائے ہیں ۔ کہتے ہیں : جائے حادثہ سے چار پانچ گلیوں کے فاصلے پر ایک مسلمان عرب کا پاسپورٹ ملا ہے ۔ یہی ہائی جیکر ہے ۔ جہاز تبا ہ ہوگیا بلڈنگ زمین بوس ہوکر ملبے کا ڈھیر بن گئی اور طیارے کے مسافروں کے ساتھ ہائی جیکروں کی ہڈیاں بھی خاکسر ہوگئیں مگر پاسپورٹ ایسے صحیح سالم برآمد ہوگیا جیسے آٹے میں سے بال نکل آتا ہے ۔ پاسپورٹ کا مالک شور مچارہاہے کہ یہ میرا پاسپورٹ ہے اور میں ہائی جیکر نہیں ایک انجینئر ہوں ۔ سعودیہ کا باشندہ اور ریاض کی ایک فرم میں ملازم ہوں مگر امریکہ کا اصرار ہے کہ نہیں ! یہ سب دھوکہ ہے ہماری جدید ٹیکنا لوجی اور کمپیوٹر غلط نہیں ہوسکتے ۔ یہ پاسپورٹ ہائی جیکر کا ہے اور اسکا تعلق اسامہ بن لادن سے ہے ۔

 ہائی جیکر وں کے ماسٹر مائنڈ کا بھی فیصلہ ہوگیا ہے ایک شراب خانہ کے مالک نے بتایا کہ عطاء محمد نامی ایک عرب مسلمان نے شراب کے نشہ میں مدہوش حالت میں بتایا کہ وہ پائلٹ ہے ۔لہذا وہی تمام کاروائی کا ماسٹر مائنڈ ہے اور اسی نے یہ جرم کیا ہے ۔ یہ بھی مسلمان ہے ۔ اسامہ بن لادن بھی مسلمان ہے لہذا اسکا اسامہ سے تعلق ثابت ہوگیا ۔

 پھر ایف بی آئی نے ایک برف کیس بھی ڈھونڈ نکالا جو واقعہ کے تقریباً دوہفتہ بعد مل سکا کہ ایک عر ب مسافر کا بریف کیس ہے جو جہاذمیں لوڈ نہیں ہوسکا اس میں کاغذہے جس پر عربی میں کچھ دعائیں اور وصیت کے بارے میں ہدایات ہیں ۔ بس !بس !ثبوت مل گیا ۔ اس بریف کیس کا مالک ہی ہائی جیکر ہوسکتا ہے کیونکہ یہ عرب ہے اسامہ بھی عرب ہے دہشت گردی کے ساتھ اسامہ کا تعلق ثابت ہوگیا ۔

 حکومت پاکستان پہلے یہی کہتی رہی کہ امریکہ نے جو ویڈیو پیش کی ہے یہ ناکافی ہے ہمیں کوئی ایسی دستاویز نہیں دکھائی گئی جس سے اسامہ کا تعلق ۱۱ستمبر کے واقعہ سے جوڑا جا سکے اسکے فوراً بعد وزیر خزانہ پھر وزیر خارجہ مطمئن ہے پھر صدر صاحب نے بھی کہنا شروع کردیا کہ شواہد مل گئے ۔ ثبوت کافی ہیں ۔ لہذا کاروائی کی جاسکتی ہے ۔ 

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آپ تو پہلے ہی مطمئن تھے اور روز اول سے ہر قسم کے تعاون کیلئے تیار تھے پھر آپکے مطمئن ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ اصل بات یہ ہے کہ امریکہ بہادر نے کہ دیا ہے کہ یہی ثبوت ہیں ! تمہیں ماننے پڑیں گے ! ورنہ تم فیصلہ کرو کہ ہمارے دوست ہو یا دشمن ! اگر ان شواہد کو نہ مانا تو تمہیں دہشت گرد قرار دیکر اسامہ کا ساتھی قرار دیدیا جائیگا ۔ چنانچہ ہماری حکومت نے کانپتی ٹانگوں ۔ لرزتے ہاتھوں ار لڑکھراتی زبان سے اپنی نیاز مندی ظاہر کرتے ہوئے کہدیا : مائی باپ ! نوکر کیا اور نخرہ کیا ! ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حقائق وشواہد نے ہمیں لامحدود انصاف کی خاطر صلیبی جنگوں میں مکمل تعاون کرنے کا موقع فراہم کردیا ہے مگر یہ بتاؤکہ ڈالر کتنے ملیں گے!؟ 

 وہی مدعی وہی جج وہی گواہ ! لا محدود انصاف کا اس سے زیادہ کامیاب نسخہ اور کیا ہوسکتاہے !؟


                                     تحریر: مفتی عتیق الرحمن  ( فاضل مدینہ یونیورسٹی )

رسول اللہ ﷺنے جیسے عبادات، معاملات ،اخلاق اور حسن معاشرت سے متعلق تعلیم دی ہے، اسی طرح فتنوں سے بھی آگاہ فرمایا ہے ، اور فتنے کے زمانے سے متعلق بھی بہت ساری روایات ہیں، ہدایات ہیں اور یہ فتنے قربِ قیامت میں اتنے بڑھ جائیں گے جیسے اندھیری رات کی تاریکی ہوتی ہے ، اور ان فتنوں کے مختلف اسباب ہوا کرتے ہیں۔’’فتنہ ‘‘ کسے کہتے ہیں؟ اس کے مختلف مفہوم ذکر کیے گئے ہیں ، آزمائش کو بھی فتنہ کہتے ہیں، امتحان ، مال و دولت کو فتنہ کہاگیا ہے ، گمراہ کرنا اور گمراہ ہونا اس پر بھی فتنے کا اطلاق ہوتاہے ، کسی چیز کو پسند کرنااور اس پر فریفتہ ہوجانا یہ بھی فتنہ ہے ، لوگوں کی رائے میں،نظریات میں اختلاف یہ بھی فتنہ ہے۔ 

جس دور سے ہم گزررہے ہیں اس دور میں تقریباً یہ ساری چیزیں پائی جارہی ہیں، اس لیے اسے بھی ’’دورِ فتن ‘‘کہنا بجا ہے اور نہ معلوم کہ آئندہ مزید کیا کیا فتنے رونما ہوں گے ؟ ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم ایسے مواقع پر رسول اللہ ﷺکی تعلیمات کو اپنانے والے بنیں،آپﷺ کی ہدایات و تعلیمات کےمطابق اپنی اصلاح کی کوشش کریں اور یہ ہدایات دوسروں تک پہنچانے کی کوشش کریں جو عملی طور پر ان فتنوں کا شکار ہیں۔

احادیث کی کتب میں ’’کتاب الفتن ‘‘ایک مستقل عنوان ہے ، جس میں دورفتن سے متعلق کثیر روایات موجود ہیں، من جملہ ان روایات کے ،ایک روایت حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے منقول ہے ، جو مستدرک حاکم ، کنزالعمال سمیت حدیث کی کئی کتب میں منقول ہے ۔وہ ارشاد فرماتے ہیں: ہم رسول اللہ ﷺکے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ ﷺنے فتنوں کا ذکر فرمایا،یا فتنوں کا ذکر اس مجلس میں چھڑا، تو رسول اللہ ﷺنے فرمایا: جب تم لوگوں کو اس حال میں دیکھو کہ ان کے آپس کے معاہدات ، معاملات میں دھوکا عام ہوجائے، اور ان میں سے امانت داری کی صفت ختم ہوجائے ، یعنی بددیانت ہوجائیں اور وہ آپس میں اختلاف اور ٹکراؤکی وجہ سے گتھم گتھا ہوجائیں، لڑنے بھڑنے لگ جائیں ،آپ ﷺنے اشارہ کرکے سمجھایا، ایک ہاتھ کی انگلیاں دوسرے ہاتھ کی انگلیوں میں داخل کیں،یعنی اس طرح باہمی فسادات ہوں ، بات یہاں تک پہنچی تو حضرت عبداللہ بن عمرؓو فرماتے ہیں کہ میں کھڑا ہوگیا اور میں نے کہا: اے اللہ کے رسولﷺ !میں آپﷺ پر قربان ہوجاؤں، یہ بتایئے کہ ایسے زمانے میں مجھے کیا کرنا چاہیے ؟میں کیا طرز عمل اختیار کروں ؟ تو رسول اللہ ﷺنے پانچ جملے ارشاد فرمائے ،پانچ ہدایات دیں۔

پہلی ہدایت: اپنے گھر کو لازم پکڑو:۔پہلی ہدایت یہ دی کہ اپنے گھر کو لازم پکڑو۔ یعنی تم اپنے آپ کو فتنوں سے دور رکھو، گوشہ نشینی اختیار کرو، بلاضرورت گھر سے باہر مت نکلو۔دیکھیے! کس قدر اعلیٰ نصیحت ہے کہ بجائے فضول گھومنے پھرنے ،ادھر اُدھر جانے کے اطمینان سے اپنے گھر میں رہو، تاکہ عملی طور پر کسی فتنے کا شریک کار نہ بنو۔عملاً بھی فتنوں سے اپنے آپ کو دور رکھو۔یہ اصل مقصود ہے۔

دوسری ہدایت: زبان قابو میں رکھو:۔دوسری ہدایت یہ دی کہ اپنی زبان کو قابو میں رکھو۔ یعنی مقصد کی بات کے علاوہ دیگر گفتگو مت کرو، بے مقصد باتوں میں حصہ مت لو،اس میں شامل مت ہوجاؤ، تاکہ تم نہ قولاً کسی فتنے کا سبب بنو، اور نہ عملی طور پر فتنے کا سبب بنو۔ ملاعلی قاریؒ نے اس حدیث کی شرح میں لکھا ہے کہ لوگوں کے احوال ، حالات سے متعلق گفتگو ہی مت کرو، گفتگو میں شامل ہی نہ ہوجاؤ، ورنہ وہ تمہیں تکلیف پہنچائیں گے۔

اس نصیحت پر بھی غور کریں اور پھر آج کے احوال دیکھیں ، ایسے فتنے کا زمانہ ہے کہ حالات حاضرہ پر گفتگوبھی جان لیوا ثابت ہوجاتی ہے ، بسااوقات لوگوں کے احوال سے متعلق گفتگو خود انسان کے دین و ایمان کے لیے خطرناک ثابت ہوجاتی ہے ، اس فضول گفتگو کی وجہ سے لڑائیاں اور جھگڑے پیدا ہوجاتے ہیں، گھروں میں افتراق اور انتشار کا ماحول بن جاتا ہے ، ناراضگیاں ہوجاتی ہیں، لوگوں کےدرمیان بات چیت کرتے کرتے جھگڑے کھڑے ہوجاتے ہیں۔اس لیے فرمایا ان موضوعات پر گفتگو ہی مت کرو۔

تیسری ہدایت: موافق شریعت عمل کرو:۔تیسری ہدایت یہ دی کہ جس بات کو شریعت کے موافق پاؤ اس پر عمل کرو۔شریعت کو مقدم رکھو۔اپنے جذبات کو، ماحول کو، اردگرد کے احوال کو شریعت کے ترازو پر پرکھو ، اگر شریعت کے موافق ہوتو عمل کرو، ورنہ چھوڑدو۔ گویا شریعت کے احکامات اور اصول ہی ایک مسلمان کے لیے ترازو اور معیار ہونے چاہئیں۔باقی سب چیزوں کو ایک جانب رکھ کر شریعت کی پیروی اختیار کرو۔

چوتھی ہدایت: خلاف شریعت امور سے اجتناب کرو:۔چوتھی ہدایت اور نصیحت یہ فرمائی کہ جو بات خلاف شریعت ہو، منکر ہو ،شریعت کے خلاف ہو، اس سے اجتناب کرو۔چاہے اس کا تعلق گفتگو سے ، کسی کے طریقہ کار سے ہو،جذبات سے ہو، مگر ہو شریعت کے خلاف تو اس پر عمل مت کرو، اس سے اپنے آپ کو بچاؤ۔

پانچویں ہدایت: اپنی اصلاح کی فکر کرو:۔پانچویں اور آخری ہدایت یہ دی کہ اپنی اصلاح کی فکر کرو، عام لوگوں کے معاملات کو چھوڑو۔ اپنے آپ کو بچاؤ،اور ہلاک ہونے والوں کے ساتھ اپنے آپ کو ہلاک مت کرو۔ یعنی تمہیں معلوم ہو کہ تمہاری باتوں سے انہیں کوئی فائدہ نہ ہوگا، تمہاری نصیحت پر وہ عمل نہیں کریں گے تواب اپنے بچاؤ کی فکر کرو اور ان کے ساتھ مل کر ہلاکت میں مت پڑو۔

اس لیے اہل علم کا یہ مقولہ ہے کہ کبھی بھی انسان کو شر سے دھوکہ نہیں کھانا چاہیے ،اگرچہ شر پر چلنے والے، شر کا ساتھ دینے والے ،شر میں حصہ ڈالنے والے افراد زیادہ ہی کیو ں نہ ہوں، اور کبھی انسان کو خیر کے راستے سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، اگرچہ اس راستے پر چلنے والے کم ہی کیوں نہ ہوں۔ 

یعنی اپنی پوری توجہ اپنی ذات پر رکھو، اپنی فکر کرو، اور ان آپس میں لڑنے بھڑنے والوں سے اور ان کے امور سے تعرض مت کرو۔یعنی ایسے لوگوں سے واسطہ پڑجائے کہ جو آدمیت کے جوہر سے ہی محروم ہوں ، اور ان لوگوں میں نیکی اور حق کو قبول کرنے کی صلاحیت ہی نہ ہو، تو ایسے لوگوں سے صرف نظر کرکے اپنی فکر کرو۔

رسول اللہ ﷺکے ان ارشادات اور قیمتی نصائح سے زیادہ بہتر میری اور آپ کی رہنمائی فتنوں کے دور میں کون کرسکتا ہے ؟ایک ایک نصیحت کو پڑھنے سے ، ٹھنڈے دل سے اس پر غور وفکر کرنے سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ گویا آج کے حالات رسول اللہ ﷺکی نگاہوں کے سامنے تھے،آپ ﷺکی دوررَس نگاہیں اس ماحول کو اور برپا ہونے والے فتنوں کو دیکھ رہی تھیں، اور آپﷺ اپنی امت کو ایسے دور سے متعلق سنہری نصائح فرمارہے ہیں کہ کیسے امت کے افراد اپنے دین کو ، ایمان کو ، جان کو فتنوں کے زمانے میں محفوظ کرسکیں۔

اس لیے ہم سب کی ذمہ داری ہے کہ فتنوں کے دور میں ان نصیحتوں کو اپنے پلو سے باندھ لیں، اپنے دامن سے باندھ لیں ، ان پر خود بھی عمل کرنے والے بنیں اور اپنے مسلمان بھائیوں کو بھی ان نصیحتوں کی تلقین اور انہیں بھی سمجھانے والے بنیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں ان نصیحتوں پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، اور ہر طرح کے فتنوں سے ہماری حفاظت فرمائے ۔ (آمین)

تحریر: مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ

 


بسم اللہ الرحمن الرحیم 
ایک سوال عام طور پر اٹھا یا جاتاہے کہ ناموس صحابہ کے تحفظ کے عنوان سے جو تحریک اٹھی اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوا !؟ ہمارے دینی ادارے اور ہمارے مذہبی رہنما غیر محفوظ ہوگئے ۔ مسجدوں اور مدرسوں پر حملے ہونے لگے اور اسلام کے مقدس ترین مقامات کا تقدس پامال ہوگیا ۔مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا یہ سب کچھ تحفظ ناموس صحابہ کی تحریک کا کیا دھرا ہے ۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا !؟ حضور علیہ السلام پر سجدہ کی حالت میں اونٹ کی اوجھڑی کس مقام پر ڈالی گئی ۔ آپکے گلے میں چادر کو بل دیکر قتل کرنیکی کوشش کس مقام پر کیگئی ! حضرت ابو بکر صدیق کو تبلیغ اسلام کے جرم کی پاداش میں مارمار کر کس مقام پر بیہوش کیا گیا ۔ کیا یہ سب کچھ کائنات کے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ میں نہیں کیا گیا !حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مسجد نبوی میں شہید کیا گیا ۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت راشدہ کے دارالسلطنت کوفہ کی جامع مسجد میں شہید کیا گیا ۔حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ پر دمشق کی جامع مسجد میں قاتلانہ حملہ کیاگیا ۔ آج مساجد ومدارس پر حملے اور مذہبی شخصیات کی شہادتوں کو ’’ تحفظ ناموس صحابہ ‘‘ کی تحریک سے جوڑنے والوں سے منطقی طور پر یہ سوال کیا جاسکتاہے کہ کیا یہ سب لوگ ناموس صحابہ کی تحریک چلارہے تھے کیا قرون اولی میں مسجدوں اور مدرسوں کا تقدس پامال ہونیکی یہی وجہ تھی ؟اس سوال کا جواب سمجھنے کیلئے ہمیں اسلام دشمن عناصر کی ذہنیت کو سمجھنا ہوگا ۔ باطل کا انداز ہر دور میں یہی رہا ہے کہ مال کی بنیاد پر اہل حق کو خرید لو اور اگر اسمیں کامیابی نہ ہو تو طاقت کے زور پر راستہ سے ہٹادو ۔ ہر دور میں باطل کا یہی طریقہ واردات ہاہے ۔ رافضیت جو کہ یہودیت کا اسلامی ایڈیشن ہے ۔ اس کے اصولوں میں ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ اپنے مخالفین کو ہٹادیا جائے اس کے لئے وہ اسبات میں کوئی تفریق نہیں کرتے کہ ہدف بنا یا جانیوالا شخص ’’ تحفظ ناموس صحابہ ‘‘ سے تعلق رکھتا ہے یا نہیں ! ہمارے ملک میں ناموس صحابہ کے موضوع پر تنظیم اھل سنت کے پلیٹ فارم سے آواز اٹھائی گئی پھر تحفظ حقوق اھل سنت کے نام سے آواز بلند کیگئی پھر سپاہ صحابہ کے نام سے آواز اٹھی اس پر پابندی لگنے کے بعد ملت اسلامیہ کے نام سے شیرازہ بندی کی گئی مگر ہم یہ دیکھتے ہیں کہ رافضیت نے جن علماء کرام کی جانیں لی ہیں وہ سب کے سب مذکورہ بالا تنظیموں سے منسلک نہیں تھے اب تک جو لوگ رافضیت کی دہشت گردی کا شکار ہوئے ہیں ان میں ایسے حضرات بھی شامل ہیں جو سپاہ صحابہ کے انداز اور طریقہ کار سے متفق نہیں تھے ۔
حضرت مولانا حق نواز جھنگوی شہید حضرت مولانا ایثار القاسمی شہید حضرت مولانا ضیاء الرحمن فاروقی شہید حجرت مولانا اعظم طارق شہید رحمھم اللہ کے علاوہ بھی ناموس صحابہ کے تحفظ کیلئے جان دینے والے علماء کی ایک طویل فہرست ہے مگر ہم یہ پوچھتے ہیں کہ مرکزی مسجد اسلام آباد کے خطیب حضرت مولانا عبد اللہ شہید ، پیر طریقت حضرت مولانا محمد یوسف لدھانوی شہید ، عظیم مصنف ومحقق ڈاکتر حبیب اللہ مختار شہید ، مسند تدریس کی زینت حضرت مولانا مفتی عبد السمیع شہید رحمھم اللہ اور ان جیسے دوسرے بہت سے علماء کرام اور قائدین اسلام جو کہ رافضیت کی تیغ قاتل کا شکار ہوئے انکا کیا قصور تھا ۔اگر سپاہ صحابہ یا اس کے قائدین روافض کے خلاف تحریک چلارہے ہیں تو انکا ہدف بھی وہی لوگ بننے چاہئیں مگر علماء حق کو بلاتفریق اپنا نشانہ بنانا اور ان کے معصوم خون سے اپنے ہاتھ رنگنا اسبات کی واضح دلیل ہے کہ دشمنان اسلام کے پیش نظر سپاہ صحابہ نہیں بلکہ علماء حق اور علماء اسلام ہیں اور شہادتوں کے سنہری سلسلہ میں بلا امتیاز ہر وہ شخص شامل ہوسکتاہے جسے باطل پرست اپنے راستہ کی رکاوٹ سمجھتے ہوں !
  جس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ باطل یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ وہ حق کے خلاف آخری راؤنڈ کھیل رہا ہے اور ان مذہبی شخصیات کو راستہ سے ہٹا کر وہ اپنے مفادات کا تحفظ کرلیگا مگر یہ اس کی بھول ہے ۔ اگر تاتاریوں کا قتل عام اسلام کی زندگی مختصر نہ کرسکا اور عیسائیت کا انددھا طوفان اسلام کا کچھ بگاڑ نہ سکا تو یہودیت کا موجود ہ سیلاب بھی اپنے مقاصد میں کامیاب نہیں ہوسکے گا ۔
پیرس میں یہودیت کی کوکھ سے جنم لینے اور سیکولرازم کی گود میں بیٹھ کر پرورش پانے والے ’’ خمینی انقلاب ‘‘ نے جس انداز پر پیش قدمی شروع کی تھی اسے دیکھ کر ایسا محسوس ہوتاتھا کہ پورا عالم اسلام رافضیت کیلئے ترنوالہ بن جائیگا اور بڑی بڑی دیواریں ایک ہی دھکے سے زمین بوس ہوکر رہجائیں گی مگر اس موقع پر وقت کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے علماء حق کے قافلہ کے ایک فرد اپنی پیرانہ سالی اور ضعف کے باوجود آگے بڑھے ۔ موقع کی نزاکت کو سمجھا ۔ وقت کی ضرورت کا ادراک کیا اور امت کی بروقت رہنمائی کیلئے رافضیت کے عربب، فارسی اور اردو میں پھیلے ہوئے لٹریچر کو کھنگال ڈالا اور اپنا حاصل مطالعہ ’’ ایران ، خمینی انقلاب اور شیعت ‘‘ کے نام سے امت کے سامنے پیش کردیا ۔ مولانا منظور نعمانی رحمہ اللہ علیہ کی اس کاوش کی صداے بازگشت بن کر مولانا حق نواز جھنگوی شہید تقریر کے میدان میں اتر آئے اس طرح ایک بوڑھے شیخ وقت کے تجربہ اور نوجوان عالم دین کے جوش وولولہ نے ’’ خمینی انقلاب ‘‘ کے آگے بند باندھ دیا اور عالم اسلام میں ایسی بیداری پیدا کردی کہ اس نے مسلمانوں کے بچہ بچہ کی زبان پر وہ نعرہ جاری کردیا جس سے رافضیت کا قلعہ لرزہ بر اندام ہو کر رہ گیا۔ اس کی امیدوں پر پانی پھر گیا ۔ نہ ڈالروں اورثمن کا سیلاب اہم حق کو خرید سکا اور نہ دہشت گردی اور بنیا د پرستی کی دھمکیا ں اور قید وبند کی صعوبتیں جھکا سکیں ۔ طریق کو ہکن میں وہی چنگیزی حیلے آزمائے جانے گلے اور علماء حق کی لاشوں کے تحفے ملنے لگے اور شہادتوں کی کڑی سے کڑی ملنے لگے اور یہ سنہری سلسلہ جاری وساری رہا اور شہداء کے قافلے اپنی منزل کی جانب رواں دواں رہے اور مولانا اعظم طارق بھی اس قافلہ شہداء میں شامل ہوکر اپنے خون سے دشمنان صحابہ کے کفر کو آشکار کر گئے انہیں راستہ سے ہٹانے کیلئے بہت سے حربے آزمائے گئے دودرجن سے زیادہ قاتلانہ حملے کئے گئے ۔ مگر عزم واستقلال کے پہاڑ کی طرح اپنے موقف پر ڈٹے رہے ۔وہ دلائل کی بنیاد پر اپنا موقف ثابت کرنے کیلئے اسمبلی میں پہنچے اور ہاں بھی نعرئہ حق بلند کیا ۔ انہوں نے یہ واضح کیا کہ قرآن کریم میں تحریف کا قائل کافر ہے ۔ اگر ایک قادیانی پر وحی کا قائل کافر ہے تو گیارہ اماموں پر وحی کا قائل گیارہ مرتبہ کافر ہے ۔ کسی مسلمان کو کافر کہنے والا کافر ہے تو اسلام کی عظیم ترین شخصیات اور نزول قرآن کے عینی شاھدین صحابہ کرام کو کافر کہنے والا بدرجہ اولی کافر ہے ۔ دوسری مرتبہ انکا اسمبلی میں پہنچنا ناممکن سمجھا جارہا تھا انکے دوٹ توڑنے کیلئے دو مذہبی شخصیات مد مقابل تھیں زر اور زن دونوں کا بے تحاشہ استعمال کیا گیا مگر بھر بھی اللہ کا شیر پوری سج دھج کے ساتھ ایوان میں گرجنے اور برسنے کیلئے پہنچ گیا ۔
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہی ہے 
یہ جان تو آنی جانی ہے ۔اس جان کی کوئی بات نہیں 
اعظم طارق شہید کا اسمبلی میں پہنچنا ہی ان کے موقف کا واضح ثبوت تھا ۔ مولانا اعظم طارق شہید جب پہلی مرتبہ الیکشن میں کھڑے ہوئے تو انہیں پینتیس ہزار ووٹ ملے مگر اس کے باوجود وہ جیت نہ سکے ۔ ایک جلسہ میں کسی نے پرچی بھیجی کہ آپ ہارگئے تو مولانا نے فرمایا : میں ہارا نہیں ۔ جیتا ہوں ۔ اسلئے مجھے دوٹ دینے والوں نے ووٹ نہیں دئے رافضیت کے کفر پر دستخط کئے ہیں ۔ ابتک میں اور میرے احباب جو کچھ کہہ رہے تھے اب پینتیس ہزار مسلمانوں کا مجمع وہی بات کہکر میری آواز میں آواز ملانے لگا ہے ۔مگر اس مرتبہ شہید کا انداز دوسرا تھا وہ باطل کی صفوں میں گھس کر اپنا نعرہ لگانا چاہتے تھے ۔ باطل یہ کڑوی گولی حلق سے نیچے اتار نے کیلئے تیار نہیں تھا ۔ وہ اوچھے ہتھگنڈوں پر اتر آیا اور اپنا راستہ صاف کرنے کیلئے وہی کام کیا جو دلائل سے محروم لوگ کیا کرتے ہیں ۔ اعظم طارق شہادت کے مرتبے پر فائز ہوگئے مگر اپنے خون سے ہر مسلمان کے دل پر اپنا موقف نقش کرگئے ۔ ان کی تنظیم اور ان کے طریقہ کار سے کسی کو لاکھ مرتبہ اختلاف ہو مگر آج ہر مسلمان ان کے موقف کو بر حق اور سچا سمجھتا ہے ۔ جولوگ ان کے موقف سے اختلاف رکھتے ہیں وہ بھی یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ سارے شیعہ کافر نہیں ہیں اسکا مطلب واضح ہے کہ بعض شیعہ کو تو وہ بھی کافر مان رہے ہیں حتی کہ شیعہ خود یہ کہنے پر مجبور ہے کہ ہمارے بعض فرقے کافر ہیں ہم کافر نہیں ہیں ۔
یہ بیداری ہی اس سوال کا جواب ہے کہ ہمیں شہادتوں سے کیا ملا؟       
تحریر: حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب 


قرآن کریم میں اہل ِایمان پر آنے والے مصائب ،مشکلات اور آزمائشیں درحقیقت امتحان کا درجہ رکھتی ہیں۔ یعنی اس طرح اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ وہ ایسے حالات میں کیا طرزِ عمل اختیار کریں گے اور آخر کار ایسے بندگان خدا کو بے شمار اجر و ثواب کی نوید سنائی گئی۔ اس حوالے سے ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اور ضرور آزمائیں گے ہم تمہیں کسی قدر خوف اور بھوک سے اور (مبتلا کرکے) نقصان میں مال وجان کے اور آمدنیوں کے اور خوش خبری دو صبر کرنے والوں کو، وہ (صبر کرنے والے)کہ جب پہنچتی ہے، اْنہیں کوئی مصیبت ،تو کہتے ہیں، بے شک ،ہم اللہ ہی کے ہیں اور بے شک ،ہمیں اسی کی طرف لوٹ کر جانا ہے، (دراصل) یہی وہ لوگ ہیں کہ اْن پر ہیں عنایتیں اْن کے رب کی اور رحمتیں بھی اور یہی لوگ ہیں جو ہدایت یافتہ ہیں۔ (سورۃ البقرہ، ۱۵۵تا۱۵۷)


ان آیات میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے انسان کو متنبہ فرمایا ہے کہ اسے مختلف چیزوں کےذریعے ضرور بالضرور آزمایا جائے گااور جو ان آزمائشوں پر صبر کرتے ہوئے پورا اترے گا،اسے رحمت و مغفرت کی بشارت دی گئی ہے۔ احادیثِ مبارکہ کے مطابق تکلیفوں پر صبر ثواب میں اضافے کا باعث بننے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کا بھی ذریعہ ہے۔


جامع ترمذی میں رسول اکرم ﷺ کا یہ ارشاد مروی ہے کہ’’ ثواب میں اضافہ مصیبتوں کے ساتھ ہے اور فرمایا کہ اللہ جب کسی قوم سے محبت کرتاہے تو انہیں کسی نہ کسی مصیبت میں مبتلا کردیتا ہے اور جو راضی رہتا ہے، اس کے لیے اللہ کی رضا ہے اور جو ناراض ہوجاتا ہے، اس کے لیے اللہ کی ناراضی ہے‘‘۔


مصیبت پر صبر کرنے کے حوالے سے کنز العمال میں حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مروی ہے کہ رسول اکرمﷺ نے ارشاد فرمایا ’’ تحقیق لوح محفوظ میں پہلی چیز جو کہ اللہ تعالیٰ نے لکھی ہے، وہ یہ ہے، بسم اللہ الرحمن الرحیم اور بے شک، میں ہی معبود ہوں، میرے سواکوئی حاجت روا نہیں ،میرا کوئی شریک نہیں، جس نے میرے فیصلے کو مان لیااور میری دی ہوئی مصیبت پر صبر کیا اور میرے حکم پر راضی رہا ،میں اسے اپنے یہاں صدیق لکھ دیتا ہوں اور اسے قیامت کے دن صدیقوں میں اٹھاؤں گا‘‘۔


رسولِ رحمت ﷺکی اُمت پر اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمتوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سابقہ اُمتوں کے شہیدوں کی طرح اُمتِ محمدیہ میں درجہِ شہادت پانے والوں کو صِرف اللہ کی راہ میں لڑتے ہوئے قتل ہونے والوں تک ہی محدود نہیں رکھا، بلکہ دوسروں کو بھی اِس درجےپر فائز فرمایا ہے۔


انسان کو اس کی اس زندگی میں مختلف پریشانیوں اور مسائل سے دوچار ہونا پڑتا ہے، وہ ان مصائب کو کیسے برداشت کرے اور کس طرح ان مسائل سے چھٹکارے اور نجات کی راہ اپنائے۔ ان مصائب کو برداشت کرنے اور ان کو آسان تربنانے کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ مومن کے لیے ہر وقت یہ تصور پیشِ نظر رہے کہ یہ دنیادار الامتحان ہے، یہ دائمی گھر نہیں ہے، یہ عمل کی جگہ ہے اور آخرت دارالجزاء ہے، وہاں بدلہ ملے گا، مزدور صبح سے شام تک، کسان بویائی سے کٹائی تک تمام تکالیف، سردی کی شدت، دھوپ کی حدت، اور عمل کی محنت اس لیے برداشت کرتا ہے کہ مزدور کو شام ڈھلنے پر اجرت کی امید اور کسان کو کٹائی کے وقت پھل کی توقع ہوتی ہے، مومن بھی دین پر عمل کی راہ میں مصائب کی بھٹیوں میں اپنے آپ کو اس لیے جلاتا ہے کہ اسے گناہوں کے میل کچیل سے پاک صاف ہوکر دخولِ جنت کی توقع ہوتی ہے، آخرت کے آرام وراحت اور وہاں کی نعمتوں کے مقابلے میں دنیا کے مصائب، بلکہ یہاں کی اعلیٰ سے اعلیٰ درجے کی نعمت بھی کوئی اہمیت نہیں رکھتی، اللہ کا دستور اس دنیا میں یہ ہے کہ جو بندہ جس قدر اللہ عزوجل کا مقرب ومحبوب ہوتا ہے، اسی قدر اسے اس دنیا کے احوال وپریشانیوں سے دوچار ہونا پڑتا ہے، حدیث میں مومن کے لیے دنیا کو ’’قید خانہ‘‘ قرار دیا گیا ہے، ظاہر ہے کہ قید خانے میں آدمی کو گھرکی طرح سہولیات وآرام نہیں مل سکتا۔


حضرت سعدؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺسے دریافت کیا گیا کہ مصائب وشدائد میں سب سے زیادہ کون ہوتے ہیں؟ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: سب سے زیادہ مصائب وشدائد میں انبیاءؑ ہوتے ہیں، پھر اس کے بعد درجہ بہ درجہ دوسرے افضل لوگ، آدمی کی اس کی دین داری کے لحاظ سے آزمائش ہوتی ہے، اگر وہ دین میں سخت ہوتا ہے تو اس کی آزمائش بھی سخت ورنہ ہلکی، آدمی پر مصائب کاسلسلہ اس وقت تک رہتا ہے کہ وہ روئے زمین پر بغیر گناہ چلتا ہے (یعنی مصائب کی وجہ سے اس کے سارے گناہ دھل جاتے ہیں)۔(مشکوٰۃ شریف ۱۳۶)


ایک حدیث میں حضور اکرم ﷺکا یہ بھی ارشاد ہے کہ بڑا بدلہ بڑی آزمائش کے ساتھ ہے، اللہ تعالیٰ جس قوم کو چاہتا ہے، اسے آزمائش میں مبتلا فرماتا ہے، جو شخص اس آزمائش پر اللہ سے راضی رہتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس سے راضی رہتا ہے اور جو ناراض رہتا ہے اللہ تعالیٰ بھی اس سے ناراض ہوتا ہے۔ (ریاض الصالحین)جو شخص مصائب میں دنیا کی عدمِ پائیداری، اس کے مقابل آخرت کی زندگی کے دوام وبقا اور مصائب میں اللہ سے قرب ونزدیکی کے تصور کو ذہن میں رکھے گا، اس کی مشکلیں اس کے لیے کسی حد تک ضرور کم ہوجائیں گی۔


مصائب وآلام اور اس کے دردوکسک کو دور کرنے اور ان مصائب وپریشانیوں کے بادلوں سے لطفِ خداوندی اور عنایاتِ ایزدی کی بارش کے متلاشی کے لیے یہ بھی ایک آسان نسخہ ہے کہ وہ بیماریوں، پریشانیوں، تنگیوں وتنگ دستیوں میں اجرِ خداوندی، ثوابِ آخرت، گناہوں اور خطاوٴں سے پاکی کی بشارتوں کو بھی پیش نظر رکھے، اس طرح اس کے مصائب اس کے لیے ایمان ویقین کی تازگی، فکرِ آخرت میں اضافہ اور پائے ثبات واستقامت میں مضبوطی کا باعث ہوں گے۔


ایک حدیث میں حضورِ اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے:”مردِ مومن کو جو بھی دکھ درد، جو بھی بیماری وپریشانی،جو بھی رنج وغم اور جو بھی اذیت وتکلیف پہنچتی ہے، یہاں تک کہ جو کانٹا بھی اسے چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ذریعے اس کے گناہوں کی صفائی کردیتا ہے۔(ریاض الصالحین)


ایک دوسری روایت میں ہے بندہٴ مومن کو جوبھی کانٹے وغیرہ کی تکلیف پہنچتی ہے، تو اللہ عزوجل اس طرح اس کے گناہوں کو جھاڑدیتا ہے، جیسے سوکھا درخت اپنے پتوں کو جھاڑ دیتا ہے۔ (حوالہ سابق)


بعض مومن مرد اور بعض مومن عورتوں پر مصائب وحوادث کبھی ان کی جان، کبھی ان کے مال اور کبھی ان کی اولاد پر اس طرح آتے ہیں کہ (اس کے نتیجے میں ان کے گناہ جھڑجاتے ہیں) اور وہ مرنے کے بعد اللہ عزوجل سے اس حال میں ملتے ہیں کہ ان پر کوئی گناہ نہیں ہوتا۔ (مشکوٰۃ شریف ۱۳۶)


دنیا کے مصائب اور آزمائشیں آخرت کے عذاب وعقاب کے مقابلے میں کوئی اہمیت اور حیثیت نہیں رکھتے، بسا اوقات اللہ عزوجل ان تکالیف وبلیات کے ذریعے بندے کے ساتھ خیر خواہی کا ارادہ فرماتا ہے، وہ اس طرح کہ اسے عذابِ آخرت سے بچانے کے لیے دنیا ہی میں اس کے گناہوں کی سزادے دیتا ہے اور وہ آخرت کے ہولناک وخطرناک عذاب سے بچ جاتا ہے، اس کے بالمقابل جب اللہ عزوجل کسی بندے کے ساتھ برائی کا ارادہ فرماتا ہے تو دنیا میں اس کے گناہوں کی سزاکو روک لیتا ہے، اور اسے روزِ قیامت پوری طرح وصول فرماتا ہے۔ (ریاض الصالحین ۳۳)


کبھی یوں ہوتا ہے کہ ایک بندہٴ مومن اخروی اعتبار سے ایک مقام ومرتبے کاحامل ہوتا ہے، وہ اپنی صحت مند، آرام دہ زندگی کے ساتھ اس مقام ومرتبے کی جانب اس قدر سبک روی اور تیزگامی کے ساتھ بڑھتا ہوا نہیں ہوتا، اللہ عزوجل اسے اس کے طے شدہ مقام تک پہنچانے کا سامان یوں فرماتا ہے کہ اس پر مصائب وحوادث کا بوجھ ڈال کر، اسے اندیشہ ہائے زمانہ اور غم ہائے زمانہ میں مبتلا کرکے اس کے طے شدہ مقام تک پہنچادیتا ہے۔ اسی کو رسول اللہ ﷺ نے یوں فرمایا: جب بندہ اللہ تعالیٰ کے یہاں ایک مرتبے کا حامل ہوتا ہے، جسے وہ اپنے عمل کے ذریعے حاصل نہیں کرسکتا تو اللہ تعالیٰ اسے اس کی جان یا مال یا اس کی اولاد میں مصیبت مبتلا فرماتا ہے، پھر اسے ان مصائب پر صبر کی توفیق دیتا ہے، پھر اسے من جانب اللہ طے شدہ مقام تک پہنچادیتا ہے۔ (مشکوٰۃ شریف ۱۳۷)


مصائب کے نعمتِ خداوندی ہونے پر یہ روایت بھی دلالت کرتی ہے:جس وقت روزِ قیامت دنیا میں مصائب برداشت کرنے والوں کو ثواب دیا جارہا ہوگا، اس روز اہلِ عافیت بھی یہ چاہیں گے کہ کاش! ان کے جسم کی کھال دنیا میں قینچیوں سے کاٹی جاتی۔(مشکوٰۃ شریف ۱۳۷)


ایک روایت میں مصائب ومشکلات کے گناہوں کے ازالے میں اثر انگیزی کو بیان کرتے ہوئے حضورِ اکرم ﷺکا ارشادِ گرامی حدیثِ قدسی کی شکل میں یوں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ یوں فرماتا ہے: میری عزت وجلال کی قسم! جس شخص کی میں مغفرت اور بخشش کاارادہ کرتا ہوں تو اس کے جسم کو بیماری میں ڈال کر اور اس کی روزی کو تنگ کرکے اس کی ہر غلطی اور گناہ کو مٹاد یتا ہوں۔(مشکوٰۃ ۱۳۸)


جیسا کہ مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ مصائب میں بندۂ مومن کا رجوع اللہ تعالیٰ کی طرف بڑھ رہا ہے تو یہ مصائب اس کے حق میں رحمتِ خداوندی کے نزول کے عنوان ہیں، لیکن بندہ چونکہ کمزور وناتواں ہوتا ہے، وہ رحمتِ خداوندی کا ادراک نہیں کرسکتا،وہ اپنی آخرت کے بناوٴ وبگاڑکے پہلو سے واقف نہیں ہوتا، وہ دوسروں کی مانند اپنے کو بھی خوشحال وفارغ البال دیکھنا چاہتا ہے اور وہ حقیقت میں بھی مصائب کو برداشت کرنے کی سکت بھی اپنے اندر نہیں پاتا، اس لیے اللہ تعالیٰ سے عافیت کو طلب کرتا رہے، دعاوٴں کے اہتمام کے ذریعے بارگاہِ خداوندی میں اس بات کی التجاکرتا رہے کہ اللہ تعالیٰ اس کی بیماری کی نعمت کو صحت کی نعمت اور بے روزگاری کی نعمت کو روزگاری کی نعمت سے بدل دے، دراصل اللہ تعالیٰ بندے کو مبتلائے مصیبت کرکے اس کی عاجزی وبندگی کے مظاہرے کو دیکھنا چاہتا ہے، ظاہر ہے دعا سے بڑھ کر اپنی عاجزی وبے بسی کا اظہار بندہ اپنے دوسرے اعمال کے ذریعے کہاں کرسکتا ہے؟ بلکہ دعا کو احادیث میں حاصلِ عبادات قرار دیا گیا ہے۔


مصائب میں مبتلا شخص ان دعاوٴں کا خوب اہتمام کرتا ہے:”اَللّٰہُمَّ رَحْمَتَکَ اَرْجُوْ فَلَا تَکِلْنِیْ الٰی نَفْسِیْ طَرْفَةَ عینٍ وَاَصْلِحْ لِیْ شَانِی کُلَّہ لااِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ“اے اللہ! میں تیری رحمت کی امید کرتا ہوں تو مجھے پل بھر بھی میرے سپرد نہ کر اور میرا سارا حال درست فرمادے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔”یَاحَیُّ یَاقَیُّوْمُ بَرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ“ اے زندہ اور اے قائم رکھنے والے! میں تیری رحمت کے واسطے سے فریاد کرتا ہوں۔”اَللہُ، اَللہُ رَبِّیْ، لَااُشْرِکُ بِہ شَیئًا۔“ اللہ! اللہ میرا رب ہے، میں اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہیں بناتا۔ ان دعاؤں کو مصائب اور پریشانیوں کے دفاع میں خوب اثر ہے، حضورِ اکرم ﷺ نے حضراتِ صحابہؓ کو مصائب اور مشکلات کے وقت ان ہی دعاؤں کی تلقین فرمائی تھی۔(حیاۃ الصحابہ عربی :۳/۵۳۱)


تحریر: مولانا نعمان نعیم

 

 بسم اللہ الرحمن الرحیم 
  مشہور ہے کہ مکڑی جالا بنانے کے بعد اپنے شکار کے انتظار میں گھات لگاکر بیٹھ جاتی ہے مگر جب وہ دیکھتی ہے کہ مکھیاں دور ہی دور سے پرواز کرتی ہوئی نکل رہی ہیں اور کوئی قریب نہیں آرہی تو وہ ایک گیت گانا شروع کرتی ہے جس میں مکھی کی تعریف وتوصیف ہوتی ہے ۔ مکھی کے پروں کی اور اسکی پرواز کی خصوصی طور پر تعریف اس گیت میں شامل ہوتی ہے ۔ مکھی جب سنتی ہے تو وہ مکڑی کے قریب آنا شروع کرتی ہے وہ جیسے ہی جالے میں الجھتی ہے تو مکڑی اسے دبوچنے میں دیر نہیں لگاتی اس لئے بڑے بوڑھوں کی کہاوت ہے کہ مکھی مکڑی کے جال میں نہیں بلکہ اپنی تعریف کے جال میں پھنس کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتی ہے ۔ یہی صورتحال بچپن میں بھی ہوتی ہے ۔بعض بچے شیخی خورے ہوتے ہیں آپ ان کی تعریف کرکے ان سے جو کام چاہیں کرالیں وہ اپنے خرچے پر سب کچھ کرنے کیلئے تیار ہوجاتے ہیں ۔ ہمارے بچپن کے دوستوں میں ایک ایسا ہی بچہ تھا دوسرے بچے اس کے مزاج سے واقف تھے بس تھوڑی ی سی تعریف کرنے کی دیر ہوتی وہ اپنی جیب اور دونوں مٹھیوں میں چینی بھر کرلے آتا اور ببچے بڑے مزے سے کھاتے !
تعریف کے اس جال میں بڑے بڑے پھنس جاتے ہیں اور یہودی اس کمزوری سے پھر پور فائدہ اٹھا تے ہیں ۔ چند تعریفی کلمات کہکر مسلمان لیڈروں سے جو چاہیں کرالیتے ہیں یہ نسخہ ہے کم خرچ بالا نشیں ۔
  ’’تم بہت روشن خیال اورلبرل آدمی ہو ۔ دہشت گردی کے خلاف ہمارے اتحاد ی ہو ۔ ہم تمہاری بہت قدر کرتے ہیں یہ میرا پرسنل نمبر ہے ۔ ہاٹ لائن پر جب چاہو رابطہ کرسکتے ہو‘‘ 
 پریس کانفرنس میں ساتھ کھڑا کرلیا تو پھر تو کیا کہنے ؟کہمپ ڈیوڈ میں بلاکر میٹنگ میں شریک کرلیا تو پھر تو ایسے پھیل گئے کہ کپڑوں سے بھی باہر ہوگئے ۔
  سناہے کہ کیمپ ڈیوڈ بلانے کا مطلب یہ ہوتاہے کہ تمہاری غلامی اور نیاز مندی پر ہمیںمکمل اعتماد ہے مگر ایسے ملت فروشوں کے ساتھ قوم کیاکرتی ہے ؟ ۔ کیمپ ڈیوڈ میںانور السادات کو بلایا گیا ۔ اسکا حشر دنیا نے دیکھ لیا ۔ جدی پشتی غدار شاہ حسین گیا اور یہ کہتے ہوئے واپس لوٹا    ؎    بڑے بے آبرو ہوکر ترے کوچہ سے ہم نکلے 
 اب خیر سے ہمارے جنرل صاحب داؤدی کیمپ کا نظارہ کرآئے ہیں اور اپنی پذیرائی پر پھولے نہیں سماتے دیکھئے فطرت کی تعزیریں کس انداز میں اپنا ظہور کرتی ہیں ۔
 اب انہوں نے ایک قدم اور بڑھا یا ہے ۔ شخصیات کی تعریف کرکے اپنی قوم ہی نہیں اپنی ذات کو بھی داؤ پر لگانیوالوں کو اب ملکی اداروں کی تباہی کا کام سونپا جارہا ہے ۔ پاک فوج کیلئے امریکی اخبارات میں غنڈہ فوج کے ذلت آمیز القاب کے ساتھ اشتہارات چھپ رہے تھے آج اسی فوج کی تعریفیں کی جارہی ہیں ۔ پاک فوج بہترین فنی صلاحیتوں کی حامل ہے ۔ یہ تعریفیں دراصل دال میں کچھ کالا ہے کی نشاندہی کررہی ہیں ۔ امریکی افغانستان اورعراق میں پھنس چکے ہیں ۔وہاں کے محب وطن عوام کے تابر توڑ حملوں سے پریشان لاشوں کے تحفے وصول کرکے تنگ آچکے ہیں انکا کہنا ہے کہ ہم دہشت گردوں کی گرفتاری کیلئے چھاپہ مارنے جاتے ہیں اور اپنے ہی فوجیوں کی لاشیں اٹھا کر لاتے ہیں  ۔ ان حالات میں امریکیوں کو انسانی ڈھال کی ضرورت ہے ۔ افغان سرحد پر بھی وہ پاکستانی فوج کو استعمال کرکے اپنے مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں حالانکہ افغانستان پر انکا مکمل قبضہ ہے ۔ سرحد کو سیل کرسکتے ہیں ۔ در اندازی کو روکنے کیلئے جدید ٹیکنا لوجی اور جنگی وسائل سے مسلح اپنے فوجی تعینات کرسکتے ہیں مگر وہ پاک فوج سے یہ کام کرانا چاہتے ہیں کیونکہ فنی خرابی کی بنیاد پر مزید جہازوں سے محروم نہیں ہونا چاہتے اور نہ ہی سردخانوں میں گوروں کی مزید لاشوں کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں ۔ 
  عراق کی صورتحال اس سے بھی گمبھیر ہوتی جارہی ہے ۔ اس لئے کہ افغانستان میں عرب مجاہدین کیلئے پناہ کا مسئلہ بہت مشکل تھا ۔ زبان کی وجہ سے شناخت ہوجاتی تھی ۔ عراق کے محاذ پر یہ مشکلات نہیں ہیں اور اپنے اور پرائے سب جانتے ہیں کہ اگلے مورچوں پر داد شجاعت وصول کرنے اور چھاپہ مار کار وائیوں خاص طور پر خود کش حملوں میں عرب مجاہدین کا جواب نہیں ہے۔
امریکیوں کو اپنی آنکھوں کے سامنے موت رقص کرتی ہوئی نظر آرہی ہے اور وہ انسانی ڈھال کے طور پر پاک فوج کو استعمال کرنا چاہتے ہیں ۔جنرل مائز ر اور بُش آج کل خاکی وردی والوں کی تعریف میں رطب اللسان ہیں وہ جانتے ہیں کہ تعریف کے چند بول سنکر یہ اپنے کپڑوں میں نہیں سماسکیں گے اور ہمیں اپنی حفاظت کیلئے بآسانی پاسبان مل جائیں گے ۔ 
 یہ تو ہمارے فوجیوں کو سوچنا ہوگا کہ ہر جگہ ہمیں ہی ڈھال کیوں بنایا جاتاہے ۔ کوسوو، بوسینیا ، صومال ، افغانستان اور اب عراق آخر پاک فوج ہی قربانی کا بکر اکیو ں بنتی ہے !؟
  کسی ملک کے خلاف استعمال نہ ہونیکا وظیفہ پڑھنے والوں کو اسبات کا جواب دینا چاہئے کہ سارے جہاں کا درد ہمارے ہی جگر میں کیوں ہے ؟ مراعات اور کمیشن کھانے والی بیو کریسی کیوں داؤ پرنہیں لگائی جاتی ۔ اگر ایسی کوئی مجبوری پیش آتی ہے تو معاہدوں پر دستخط کرنے والے جنرل ، اور گوری چمڑی والوں کے تحفظ کیلئے بے چین پلے ہوئے سیاسی دنبے کس مرض کی دوا ہیں ان ہیو لوں کو وردیا ں پہنا کر وہاں کیوں نہیں بھیج دیا جاتا ۔
  یہ بات اچھی طرح ذہن نشین کرلیں کہ امریکیوں کے بیٹ مین  کے طور پر فدویانہ خدمات سرانجام دینے کے شوق میں اگر ہمارا کوئی ملٹری افسر یا جوان تابوت میں بند ہوکر آیا تو پاکستان کی غیور قوم ایسے تابوت وصول نہیں کریگی جن پر کوئی جنازہ پڑھنے اور پڑھانے کیلئے بھی تیار نہ ہو ۔
 ظالم او رعیاش امریکی فوج کے سپاہیوں کی حفاظت میں جان دینے والوںکو پاک قوم کے غیور مردے بھی قبرستانوں کے اندر اپنے پہلومیں دفن ہونے کی اجازت نہیں دیں گے ۔
 
تحریر: حضرت مولانا مفتی عتیق الرحمن شہید
طبع اول: 2004


الاحزاب سے گروہ اور جماعتیں مراد ہیں۔ مشرکین مکہ نے تمام عرب کے قبائل کو اسلام کے خلاف آمادۂ جنگ کر کے مدینہ منورہ کا محاصرہ کر لیا تھا۔ حضورﷺ نے مسلمانوں کے مشورہ سے اپنے دفاع کے لئے خندق کھود لی تھی اس لئے اسے غزوہ احزاب یا غزوۂ خندق کہا جاتا ہے۔ اس سورت میں مدنی سورتوں کی طرح قانون سازی کے ساتھ ساتھ اس واقعہ کا بھی تذکرہ ہے۔ اس لئے اسے  ’’الاحزاب‘‘ کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔

 سورت کی ابتداء میں  ’’تقویٰ‘‘ کے حکم کے ساتھ کافروں اور منافقوں کی عدم اطاعت اور وحی الٰہی کے اتباع اور توکل کی تلقین ہے۔ اس کے بعد بتایا کہ کسی کے سینہ میں اللہ نے دو دل نہیں رکھے۔ ظہار یعنی اپنی بیویوں کی کمر کو اپنی ماؤں کی کمر کے مشابہ قرار دینے کی مذمت کرتے ہوئے  ’’منہ بولے‘‘ رشتوں کے احکام بیان کئے ہیں کہ کسی کو بیٹا، بیٹی، بہن یا ماں کہہ دینے سے یہ رشتے ثابت نہیں ہو جاتے۔ لہٰذا متنبیٰ کو اس کے باپ کی طرف ہی منسوب کیا جائے اور اپنے بھائی یا اتحادی قرار دیا جائے۔ ایمان والوں پر نبی کا حق سب سے زیادہ ہے اور نبی کی زوجات مطہرات  ’’امہات المؤمنین‘‘ ہیں۔

 پھر غزوہ احزاب میں پورے عرب کے کفر کا اجتماع اور ہر طرف سے یلغار کے مقابلہ میں اللہ کی مدد و نصرت کا تذکرہ ہے کہ اللہ نے تیز ہوا چلا کر نصرت فرمائی اور مشرکین کے قدم اکھاڑ دیئے۔ منافقین اور یہودیوں کی مذمت ہے، جنہوں نے اس موقع پر اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہچانے میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔ پھر غزوہ بنی قریظہ میں یہود کے مقابلہ میں اللہ کی نصرت اور ان کی جائیدادوں اور زمینوں پر مسلمانوں کے قبضہ کو یاد دلا کر ہر چیز پر اللہ کی قدرت و غلبہ کی تمہید بنائی گئی ہے اور آخر میں  ’’آیت تخییر‘‘ ہے، جس میں ازواج مطہرات کے سالانہ نفقہ میں اضافہ کے مطالبہ پر انہیں مطالبہ سے دستبردار ہو کر حرم نبوی میں رہنے یا علیحدگی اختیار کر لینے کا حکم دیا گیا، جس پر تمام امہات المؤمنین نے حرم نبوی میں رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے کسی بھی قسم کے مالی مطالبہ سے دستبرداری کا اظہار کر دیا، جس پرا للہ نے ان مخلص خواتین کے لئے اجر عظیم کا وعدہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ 

ازواج مطہرات کے اعمال صالحہ پر دہرے اجر اور رزق کریم کی نوید سنائی گئی ہے۔ امہات المؤمنین اور ان کے توسط سے تمام دنیا کی خواتین مؤمنات کو پیغام دیا گیا ہے کہ کسی نامحرم سے گفتگو کی ضرورت پیش آ جائے تو کھر درے پن کا مظاہرہ کریں۔ نرم گفتاری کا معاملہ نہ کریں ورنہ اخلاقی پستی کے مریض اپنے ناپاک خیالات کو پورا کرنے کی امید قائم کر سکتے ہیں۔ گھروں میں ٹھہری رہا کرو۔ سابقہ جاہلیت کے طور طریقوں کے مطابق بے پردگی کا مظاہرہ نہ کرو۔ نماز قائم کرو، زکوٰۃ ادا کرو۔ اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو۔ اللہ تعالیٰ نبی کے اہل بیت سے ناپاکی دور فرما کر انہیں پاکیزہ کرنا چاہتے ہیں۔ اس سے واضح ہو جاتا ہے کہ قرآن کریم کی روشنی میں اہل بیت کا مصداق اوّلی ازواج مطہرات ہیں۔ پھر ازواج مطہرات کے خصوصی اعزاز کا تذکرہ ہے کہ تمہارے گھروں میں کتاب و حکمت کا نزول ہوتا ہے تمہیں اس کا اعادہ اور تکرار کرتے رہنا چاہئے۔

 اس کے بعد صفات محمودہ میں مردو زن کی مساوات بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ اسلام، ایمان، اطاعت شعاری، سچائی، صبر، عجز و انکساری، صدقہ و خیرات کی ادائیگی، روزہ کا اہتمام، عفت و پاکدامنی اور اللہ کے ذکر میں رطب لسان رہنے والے تمام مردوں اور عورتوں کے لئے اللہ تعالیٰ نے مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا ہوا ہے۔ پھر کسی بھی مؤمن مرد و عورت کے ایمان کے تقاضے کو بیان کیا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول کا فیصلہ سامنے آ جانے کے بعد اسے رد کرنے کے حوالہ سے کوئی اختیار باقی نہیں رہ جاتا۔ آپﷺ کے متبنّیٰ حضرت زید کے طلاق دینے کے بعد ان کی مطلقہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کا نکاح کر کے یہ مسئلہ واضح کر دیا کہ متبنّیٰ کی بیوی  ’’بہو ‘ نہیں بن سکتی۔

 پھر آپ کے خاتم النبیین ہونے اور مسلمان مردوں میں سے کسی کے باپ نہ ہونے کا واضح اعلان ہے۔ اس کے بعد اہل ایمان کو تسبیح و تحمید اور ذکر کی کثرت کرنے کی تلقین ہے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کچھ امتیازی خوبیوں کا تذکرہ کہ آپ مشاہد، بشیر و نذیر، داعی الی اللہ اور سراج منیر بنا کر بھیجے گئے ہیں۔ پھر رخصتی سے پہلے طلاق پانے والی عورت کے متعلق بتایا کہ اس کی کوئی عدت نہیں ہوتی اور اگر مہر مقرر نہ کیا گیا ہو تو جوڑا کپڑوں کا دے کر اسے فارغ کر دیا جائے۔ پھر نبی کے لئے عام مؤمنین کے مقابلہ میں زیادہ بیویاں رکھنے کا جواز اور  ’’باری‘‘ مقرر کرنے کے حکم کے ساتھ ہی مزید شادیاں کرنے پر پابندی کا اعلان کیا گیا۔ نبی کے گھر میں بے مقصد بیٹھ کر آپ کے لئے پریشانی پیدا کرنے سے بچنے کی تلقین، پردے کے بارے میں دو ٹوک اعلان کہ اگر کوئی ضرورت پیش آ ہی جائے تو نامحرم سے گفتگو پردہ کے پیچھے رہ کر کی جائے۔ نبی کے انتقال کے بعد کسی کو ازواج مطہرات سے کسی بھی حالت میں نکاح کی اجازت نہیں ہے۔

 اس کے بعد اللہ اور اس کے فرشتوں کی طرف سے نبی پر صلاۃ وسلام کی خوشخبری سنا کر اہل ایمان کو بھی آپ پر صلاۃ وسلام پڑھنے کا حکم دیا ہے اور بتایا ہے کہ اللہ اور اس کے رسول اور اہل ایمان کی ایزا رسانی کا باعث بننے والے ملعون اور ذلت آمیز عذاب کے مستحق ہیں۔ پھر اسلامی معاشرہ کی خواتین کو پردہ کرنے کے لئے  ’’گھونگھٹ‘‘ نکالنے کا حکم دیا گیا ہے۔ قیامت کے بارے میں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا۔ کافر جہنم میں منہ کے بل ڈالے جائیں گے کسی کے گناہوں کا بوجھ دوسرے پر نہیں ڈالا جائے گا ہر ایک کو اپنے جرائم کی سزا بھگتنی پڑے گی۔ حضرت موسیٰؑ کو ناجائز الزام سے بری قرار دے کر اللہ کی نگاہ میں ان کے معزز و محترم ہونے کا اعلان کیا گیا ہے۔ پھر اہل ایمان کو تقویٰ اور پختہ بات کرتے ہوئے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرنے پر مغفرت اور عظیم کامیابی کی خوشخبری سنائی ہے۔ اسلام کی عظیم الشان امانت جسے زمین و آسمان اور پہاڑ اٹھانے سے قاصر رہے اس انسان کے حصہ میں آنے کی خبر دے کر بتایا ہے کہ اس سے منافق و مؤمن اور مشرک و موحد کا فرق واضح ہو گا اور ہر ایک کو اپنے کئے کا بدلہ مل سکے گا۔ اللہ بڑے غفور رحیم ہیں۔ 
٭٭٭

 

صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
12. باب بَيَانِ عَدَدِ شُعَبِ الْإِيمَانِ وَأَفْضَلِهَا وَأَدْنَاهَا وَفَضِيلَةِ الْحَيَاءِ وَكَوْنِهِ مِنْ الْإِيمَانِ 
باب: ایمان کی شاخوں کی تعداد، اور افضل اور ادنیٰ ایمان کا بیان، اور حیاء کی فضیلت اور اس کا ایمان میں داخل ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 152
حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الْعَقَدِيُّ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ بِلَالٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " الإِيمَانُ بِضْعٌ وَسَبْعُونَ شُعْبَةً، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الإِيمَانِ ".
پروفیسر سلطان محمود جلالپوریمولانا عبد العزیز علوی
سلیمان بن بلال نے عبد اللہ بن دینار سے، انہوں ابو صالح سے اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” ایمان کی ستر سے زیادہ شاخیں ہیں اور حیا بھی ایمان کی ایک شاخ ہے۔“

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الايمان، باب: امور الايمان برقم (9) وابوداؤد فى ((سننه)) فى السنة، باب: فى رد الارجاء بنحوه برقم (4676) والترمذي فى ((جامعه)) فى الايمان، باب: ما جاء فى استكمال الايمان۔ وزيادته ونقصانه۔ وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (2614) ((سننه)) فى المقدمة، باب: فى الايمان برقم (57) انظر ((التحفة)) برقم (12816)»


یوں تو تمام رذائل اخلاق انسانی شخصیت اور معاشرے  کے لیے نقصان دہ ہیں اور اسلام ان سے کلیتاً اجتناب کا حکم دیتا ہے لیکن بدگمانی ایسی متعدی بیماری ہے جو انسان کی ذاتی زندگی سے لے کر معاشرے کی اجتماعی زندگی تک بگاڑ کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع کر دیتی ہے۔ بدگمانی سے مراد ایسی بات دل میں لانا ہے جس کا نہ یقین ہو اور نہ ہی اس کے متعلق دو عادل گواہ ہوں۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے: ترجمہ ’’ اے ایمان والو! زیادہ تر گمانوں سے بچا کرو، بے شک بعض گمان ( ایسے) گناہ ہوتے ہیں (جن پر اُخروی سزا واجب ہوتی ہے)۔‘‘الحجرات،۹۴:۲۱

حضور نبی اکرم ﷺ نے درج ذیل احادیث مبارکہ میں بدگمانی کرنے کی مذمت اور ممانعت فرمائی ہے ۔ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کر تے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ بدگمانی کرنے سے بچو کیونکہ بدگمانی سب سے جھوٹی بات ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو۔‘‘
(مسلم، الصحیح،۴:۵۸۹۱،رقم:۳۶۵۲)

سیدنا علی المرتضیٰ ؓ فرماتے ہیں کہ جب بدگمانی دل میں گھر کر جاتی ہے تو یہ مصالحت و مفاہمت کے سب امکانات ختم کر دیتی ہے۔ یہ اخلاقی برائی انسان میں موجود بقیہ اخلاقی خوبیوں کو بھی نگل جاتی ہے ۔ ایسا شخص حقیقت و سچائی کا ادراک کرنے سے بھی محروم ہو جاتا ہے ۔

ضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ دو خیالات ہر انسانی دل میں چکر لگاتے رہتے ہیں ۔ ایک خیال اللہ تعالیٰ کی طرف سے آتا ہے جو انسان کو نیکی اور سچائی کی طرف راغب کر تا ہے اور دوسرا خیال شیطان کی طرف سے ہے ۔ یہ انسان کو حق اور بھلائی سے روکتا ہے ۔ جس شخص کا دل بدگمانی میں مبتلا ہو ،شیطان ا س کے لیے کینہ ، بغض اور ٹوہ یعنی تجسس جیسے گناہ سرزد کروانے کے لیے راہ ہموار کرتا ہے ۔

حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ نے مسلمان کے خون ، اس کی عزت اور اس کے متعلق بدگمانی کو حرام کر دیاہے ۔‘‘  حضرت عائشہ صدیقہؓ بیان کر تی ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’جس شخص نے اپنے بھائی کے متعلق بدگمانی کی اس نے اپنے رب کے متعلق بدگمانی کی۔ ‘‘

بدگمانی ایک ایسا گناہ ہے جس کے کرنے سے انسان دیگر گناہوں کی دلدل میں خود بخود پھنستا چلا جاتا ہے کیونکہ جب انسان کے دل میں کسی کے متعلق کوئی بُرا گمان آتا ہے پھر وہ اپنے گمان کی تصدیق کے لیے اس کی ٹوہ میں رہتا ہے، اس کی باتیں سنتاہے اور اس کے حالات کامشاہدہ کرتاہے ۔ بعض اوقات جاسوسی کرتا اور کرواتا ہے تاکہ اس کے ذہن میں اس شخص کے متعلق جو براگمان آیا تھا، اس کی تائید اور توثیق حاصل کر سکے ۔ اس لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے نبی ﷺ نے بدگمانی کے بعد تجسس کرنے یعنی کسی کی ٹوہ میں لگے رہنے سے منع فرمایا ہے ۔

قرآن حکیم میں ارشاد ہوتا ہے:ترجمہ’’ اور ( کسی کے عیبوں اور رازوں کی) جستجو نہ کیا کرو اور نہ پیٹھ پیچھے ایک دوسرے کی برائی کیا کرو۔‘‘( الحجرات، ۹۴:۲۱)

حضرت ابن عباس ؓ روایت کر تے ہیں کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب کو چھپایا، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیب چھپائے گا اور جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کے عیب ظاہرکیے، اللہ تعالیٰ اس کے عیب کا پردہ چاک کر دے گا اور اس شخص کو اس کے گھر میں رسوا کر دے گا۔ (کشف الخفاء، ۲:۱۳۳)

مندرجہ بالا آیات اور احادیث مبارکہ میں جس بدگمانی اور تجسس سے منع کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اگر کسی شخص کا عیب صرف اس کی ذات تک محدود ہو تو اس سے متعلق کسی بھی طرح کی بدگمانی ، عیب جوئی اور تجسس کرنا منع ہے۔ لیکن اگر کسی شخص کا عیب اجتماعی زندگی ، کسی ملک ، تنظیم یا ادارے کے لیے مضر ہو تو پھر اس کی تحقیق کرکے اس سے باز پرس کرنا اور اس کو کیفر کردار تک پہنچانا ضروری ہے ۔ اسی طرح اگر کسی جگہ کام کرنے والے کسی شخص یا بعض افراد کے متعلق شبہ ہو کہ اس کی در پردہ سرگرمیاں ادارے اور کارکنان کے لیے نقصان دہ ہیں یا اس سے ادارے کی عزت، ساکھ اور سلامتی کو خطرہ ہے، تو ایسی صورت میں اس کو پرایا معاملہ سمجھ کر یا خود کو غیر جانب دار ثابت کرنے کے خیال میں خاموش نہ رہا جائے بلکہ اسے ادارے کے علم میں لانا ضروری ہے ۔  اس کے برعکس، کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو بدگمانی جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں اور وہ ہمہ وقت اسی فکر اور جستجو میں رہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے دوسرے شخص کو بُرا بھلا کہا جائے یا کسی شعبے کو بدنام کیا جائے۔ اس سلسلے میں اسے ہر وہ شخص دیانت دار اور صاحب الرائے نظر آتا ہے جو اس کے مزاج کے عین مطابق ہو۔ پس یہیں سے کسی کے عیب کا کھوج لگانے کے لیے یہ لوگ لکڑیاں اور تیل مہیا کرنا شروع کر دیتے ہیں اور اِدھر اُدھر سے معلومات حاصل کر تے رہتے ہیں ، جس میں بتانے والوں کی اپنی کدورتیں اور بدگمانیاں بھی شامل ہو جاتی ہیں۔ نتیجتاً کام میں بگاڑ پیدا ہو جاتا ہے اور کارکنان گروپ بندی اور اختلافات کا شکار ہو جاتے ہیں ۔

حضرت جابر بن عبداللہؓ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’ کیا تمہیں بدترین انسان کے متعلق آگاہ نہ کروں؟ صحابہ کرام نے عرض کیا: جی یارسول اللہ، آپﷺ نے فرمایا،وہ چغل خور لوگ ہیں جو اچھے دوستوں کے درمیان تفرقہ ڈال دیتے ہیں۔‘‘ (علل الحدیث،۲: ۳۹۲،رقم:۷۸۳۲)

لہٰذا جب آپ کو ایسے بدگمان شخص سے کسی دوسرے شخص کے بارے میں کوئی ایسی معلومات ملیں جو کسی کے لیے نقصان دہ ہوں، تو آپ پر لازم ہے کہ کوئی رائے قائم نہ کریں کیوں کہ سماعت اور نظر میں دھوکے کا امکان بہر حال رہتا ہے اور حقیقت ویسے نہیں ہوتی جیسے آدمی سمجھ رہا ہوتا ہے ۔ ہر وہ خبر جس کے متعلق کوئی صحیح علامت اور گواہی موجود نہ ہو اس کے بارے میں بدگمانی کرنا حرام ہے اور اس بدگمانی سے اجتناب کرنا واجب ہے ۔لیکن ایسی بات یا خبر جس کے مثبت اور منفی پہلو نکل سکتے ہوں تو مسلمان کو حکم ہے کہ آپس میں حسنِ ظن سے کام لے کیونکہ حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:

’’حسن ظن رکھنا حسن عبادت میں سے ہے۔‘‘

ابو دائود، السنن، کتاب الادب، باب فی حسن الظن ،۴:۸۹۲،رقم:۳۹۹۴)

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم بدگمانی جیسی بدترین اخلاقی برائی کو کسی بھی صورت میں پیدا ہونے  کا موقع نہ دیں اور جہاں تک ممکن ہو حسنِ ظن اور باہمی اتفاق اور بھائی چارے کا ماحول پیدا کریں، تاکہ آقائے دو جہاں ﷺ کے حسب ارشاد بدگمانی پنپ نہ سکے ۔


تحریر:  فریدہ ساجد 

 


سورۃ آل عمران

آیت نمبر: 181

لَّقَدْ سَمِعَ اللَّهُ قَوْلَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ فَقِيرٌ وَنَحْنُ أَغْنِيَاءُ ۘ سَنَكْتُبُ مَا قَالُوا وَقَتْلَهُمُ الْأَنبِيَاءَ بِغَيْرِ حَقٍّ وَنَقُولُ ذُوقُوا عَذَابَ  الْحَرِيقِ

ترجمہ:اللہ نے ان لوگوں کی بات سن لی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ : اللہ فقیر ہے اور ہم مال دار ہیں۔ (٦٢) ہم ان کی یہ بات بھی (ان کے اعمال نامے میں) لکھے لیتے ہیں، اور انہوں نے انبیاء کو جو ناحق قتل کیا ہے، اس کو بھی، اور (پھر) کہیں گے کہ : دہکتی آگ کا مزہ چکھو۔

تفسیر:کافروں کا قرض حسنہ پر احمقانہ تبصرہ اور ان کی ہٹ دھرمی پہ مجوزہ سزا 

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ جب یہ آیت اتری «مَّن ذَا الَّذِی یُقْرِضُ  اللہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضَاعِفَہُ لَہُ أَضْعَافًا کَثِیرَۃً»(2-البقرۃ:245) کہ کون ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے اور وہ اسے زیادہ در زیادہ کر کے دے تو یہود کہنے لگے کہ اے نبی تمہارا رب فقیر ہو گیا ہے اور اپنے بندوں سے قرض مانگ رہا ہے اس پر یہ آیت «لَقَدْ سَمِعَ اللّٰہُ قَوْلَ الَّذِیْنَ قَالُوْٓا اِنَّ اللّٰہَ فَقِیْرٌ وَّنَحْنُ اَغْنِیَاءُ» (3-آل عمران:181) ، نازل ہوئی ۔ ابن ابی حاتم میں ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ یہودیوں کے مدرسے میں گئے یہاں کا بڑا معلم فنحاص تھا اور اس کے ماتحت ایک بہت بڑا عالم اشیع تھا لوگوں کا مجمع تھا اور وہ ان سے مذہبی باتیں سن رہے تھے آپ نے فرمایا فنحاص اللہ سے ڈر اور مسلمان ہو جا اللہ کی قسم تجھے خوب معلوم ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کے سچے رسول ہیں وہ اس کے پاس سے حق لے کر آئے ہیں ان کی صفتیں توراۃ و انجیل میں تمہارے ہاتھوں میں موجود ہیں تو فنحاص نے جواب میں کہا ابوبکر رضی اللہ عنہ سن اللہ کی قسم اللہ ہمارا محتاج ہے ہم اس کے محتاج نہیں اس کی طرف اس طرح نہیں گڑگڑاتے جیسے وہ ہماری جانب عاجزی کرتا ہے بلکہ ہم تو اس سے بےپرواہ ہیں ہم غنی اور تونگر ہیں اگر وہ غنی ہوتا تو ہم سے قرض طلب نہ کرتا جیسے کہ تمہارا پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہا ہے ہمیں تو سود سے روکتا ہے اور خود سود دیتا ہے اگر غنی ہوتا تو ہمیں سود کیوں دیتا ؟

اس پر سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو سخت غصہ آیا اور فنحاص کے منہ پر زور سے مارا اور فرمایا اللہ کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اگر تم یہود سے معاہدہ نہ ہوتا تو میں تجھ اللہ کے دشمن کا سر کاٹ دیتا جاؤ بد نصیبو جھٹلاتے ہی رہو اگر سچے ہو ۔ فنحاص نے جا کر اس کی شکایت سرکار محمدی صلی اللہ علیہ وسلم میں کی آپ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اسے کیوں مارا ؟ سیدنا صدیق رضی اللہ عنہ نے واقعہ بیان کیا لیکن فنحاص اپنے قول سے مکر گیا کہ میں نے تو ایسا کہا ہی نہیں ۔ اس بارے میں یہ آیت اتری ۔ (تفسیر ابن جریر الطبری:8300:ضعیف) ۱؎ پھر اللہ تعالیٰ انہیں اپنے عذاب کی خبر دیتا ہے کہ ان کا یہ قول اور ساتھ ہی اسی جیسا ان کا بڑا گناہ یعنی قتل انبیاء ہم نے ان کے نامہ اعمال میں لکھ لیا ہے ۔ ایک طرف ان کا جناب باری تعالیٰ کی شان میں بےادبی کرنا دوسری جانب نبیوں کو مار ڈالنا ان کاموں کی وجہ انہیں سخت تر سزا ملے گی ۔ ان کو ہم کہیں گے کہ جلنے والے عذاب کا ذائقہ چکھو ، اور ان سے کہا جائے گا کہ یہ تمہارے پہلے کے کرتوت کا بدلہ ہے یہ کہہ کر انہیں ذلیل و رسوا کن عذاب پر عذاب ہوں گے ، یہ سراسر عدل و انصاف ہے اور ظاہر ہے کہ مالک اپنے غلاموں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے ۔

پھر ان کو ان کے اس خیال میں جھوٹا ثابت کیا جا رہا ہے جو یہ کہتے تھے کہ آسمانی کتابیں جو پہلے نازل ہوئیں ان میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ حکم دے رکھا ہے کہ جب تک کوئی رسول ہمیں یہ معجزہ نہ دکھائے کہ اس کی امت میں سے جو شخص قربانی کرے اس کی قربانی کو کھا جانے کے لیے آسمان سے قدرتی آگ آئے اور کھا جائے ان کی اس قول کے جواب میں ارشاد ہوتا ہے کہ پھر اس معجزے والے پیغمبروں کو جو اپنے ساتھ دلائل اور براہین لے کر آئے تھے تم نے کیوں مار ڈالا ؟ انہیں تو اللہ تعالیٰ نے یہ معجزہ بھی دے رکھا تھا کہ ہر ایک قبول شدہ قربانی آسمانی آگ کھا جاتی تھی لیکن تم نے انہیں بھی سچا نہ جانا ان کی بھی مخالفت اور دشمنی کی بلکہ انہیں قتل کر ڈالا ، اس سے صاف ظاہر ہے کہ تمہیں تمہاری اپنی بات کا بھی پاس و لحاظ نہیں لہٰذا تم حق کے ساتھی نہ ہو ، نہ کسی نبی کے ماننے والے ہو ۔ تم یقیناً جھوٹے ہو ۔  پھر اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دیتا ہے کہ ان کے جھٹلانے سے آپ تنگ دل اور غمناک نہ ہوں اگلے اوالوالعزم پیغمبروں کے واقعات کو اپنے لیے باعث تسلی بنائیں کہ وہ بھی باوجود دلیلیں ظاہر کر دینے کے اور باوجود اپنی حقانیت کو بخوبی واضح کر دینے کے پھر بھی جھٹلائے گئے «زبر» سے مراد آسمانی کتابیں ہیں جو ان صحیفوں کی طرح آسمان سے آئیں جو رسولوں پر اتاری گئی تھیں اور «مُنِیرِ» سے مراد واضح جلی اور روشن اور چمکیلی ہے ۔

آیت نمبر: 182

ذَٰلِكَ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيكُمْ وَأَنَّ اللَّهَ لَيْسَ بِظَلَّامٍ  لِّلْعَبِيدِ

ترجمہ:یہ سب تمہارے ہاتھوں کے کرتوت کا نتیجہ ہے جو تم نے آگے بھیج رکھا تھا، ورنہ اللہ بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ہے۔

آیت نمبر: 183

الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ عَهِدَ إِلَيْنَا أَلَّا نُؤْمِنَ لِرَسُولٍ حَتَّىٰ يَأْتِيَنَا بِقُرْبَانٍ تَأْكُلُهُ النَّارُ ۗ قُلْ قَدْ جَاءَكُمْ رُسُلٌ مِّن قَبْلِي بِالْبَيِّنَاتِ وَبِالَّذِي قُلْتُمْ فَلِمَ قَتَلْتُمُوهُمْ إِن كُنتُمْ  صَادِقِينَ

ترجمہ:یہ وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ : اللہ نے ہم سے یہ وعدہ لیا ہے کہ کسی پیغمبر پر اس وقت تک ایمان نہ لائیں جب تک وہ ہمارے پاس ایسی قربانی لے کر نہ آئے جسے آگ کھا جائے۔ (٦٣) تم کہو کہ : مجھ سے پہلے تمہارے پاس بہت سے پیغمبر کھلی نشانیاں بھی لے کر آئے اور وہ چیز بھی جس کے بارے میں تم نے ( مجھ سے) کہا ہے۔ پھر تم نے انہیں کیوں قتل کیا اگر تم واقعی سچے ہو؟

آیت نمبر: 184

فَإِن كَذَّبُوكَ فَقَدْ كُذِّبَ رُسُلٌ مِّن قَبْلِكَ جَاءُوا بِالْبَيِّنَاتِ وَالزُّبُرِ وَالْكِتَابِ  الْمُنِيرِ

ترجمہ:(اے پیغمبر) اگر پھر بھی یہ لوگ تمہیں جھٹلائیں تو (یہ کوئی نئی بات نہیں) تم سے پہلے بھی بہت سے ان رسولوں کو جھٹلایا جاچکا ہے جو کھلی کھلی نشانیاں بھی لائے تھے، لکھے ہوئے صحیفے بھی اور ایسی کتاب بھی جو (حق کو) روشن کردینے والی تھی۔

آیت نمبر: 185

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۗ وَإِنَّمَا تُوَفَّوْنَ أُجُورَكُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ۖ فَمَن زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَأُدْخِلَ الْجَنَّةَ فَقَدْ فَازَ ۗ وَمَا الْحَيَاةُ الدُّنْيَا إِلَّا مَتَاعُ  الْغُرُورِ

ترجمہ:ہر جاندار کو موت کا مزہ چکھنا ہے، اور تم سب کو (تمہارے اعمال کے) پورے پورے بدلے قیامت ہی کے دن ملیں گے۔ پھر جس کسی کو دوزخ سے دور ہٹالیا گیا اور جنت میں داخل کردیا گیا وہ صحیح معنی میں کامیاب ہوگیا، اور یہ دنیوی زندگی تو (جنت کے مقابلے میں) دھوکے کے سامان کے سوا کچھ بھی نہیں۔

تفسیر:موت و حیات اور یوم حساب 

تمام مخلوق کو عام اطلاع ہے کہ ہر جاندار مرنے والا ہے جیسے فرمایا آیت «کُلٰ مَنْ عَلَیْہَا فَانٍ وَیَبْقَیٰ وَجْہُ رَبِّکَ ذُو الْجَلَالِ وَالْإِکْرَامِ» (55-الرحمن:27) یعنی اس زمین پر جتنے ہیں سب فانی ہیں صرف رب کا چہرہ باقی ہے جو بزرگی اور انعام والا ہے ، پس صرف وہی اللہ وحدہ لا شریک ہمیشہ کی زندگی والا ہے جو کبھی فنا نہ ہو گا ، جن ، انسان کل کے کل مرنے والے ہیں اسی طرح فرشتے اور حاملان عرش بھی مر جائیں گے اور صرف اللہ وحدہ لا شریک دوام اور بقاء والا باقی رہ جائے گا پہلے بھی وہی تھا اور آخر بھی وہی رہے گا ، جب سب مر جائیں گے مدت ختم ہو جائے گی صلب آدم سے جتنی اولاد ہونے والی تھی ہو چکی اور پھر سب موت کے گھاٹ اتر گئے مخلوقات کا خاتمہ ہو گیا اس وقت اللہ تعالیٰ قیامت قائم کرے گا اور مخلوق کو ان کے کل اعمال کے چوٹے بڑے چھپے کھلے صغیرہ کبیرہ سب کی جزا سزا ملے گی کسی پر ذرہ برابر ظلم نہ ہو گا یہی اس کے بعد کے جملہ میں فرمایا جا رہا ہے ، سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال کے بعد ہمیں ایسا محسوس ہوا کہ گویا کوئی آ رہا ہے ہمیں پاؤں کی چاپ سنائی دیتی تھی لیکن کوئی شخص دکھائی نہیں دیتا تھا اس نے آ کر کہا اے اہل بیت! تم پر سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکت ، ہر جان موت کا مزہ چکھنے والی ہے تم سب کو تمہارے اعمال کا بدلہ پورا پورا قیامت کے دن دیا جائے گا ۔ ہر مصیبت کی تلافی اللہ کے پاس ہے ، ہر مرنے والے کا بدلہ ہے اور ہر فوت ہونے والے کا اپنی گمشدہ چیز کو پا لینا ہے اللہ ہی پر بھروسہ رکھو اسی سے بھلی امیدیں رکھو سمجھ لو کہ سچ مچ مصیبت زدہ وہ شخص جو ثواب سے محروم رہ جائے تم پر اللہ کی طرف سے سلامتی نازل ہو اور اس کی رحمتیں اور برکتیں ( ابن ابی حاتم ) سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا خیال ہے کہ یہ خضر علیہ السلام تھے ۔(تفسیر ابن ابی حاتم:4609/3:موضوع باطل) ۱؎

حقیقت یہ ہے کہ پورا کامیاب وہ انسان ہے جو جہنم سے نجات پا لے اور جنت میں چلا جائے ، حضور علیہ السلام فرماتے ہیں جنت میں ایک کوڑے جتنی جگہ مل جانا دنیا وما فیہا سے بہتر ہے اگر تم چاہو تو پڑھو آیت «فَمَنْ زُحْزِحَ عَنِ النَّارِ وَاُدْخِلَ الْجَنَّۃَ فَقَدْ فَازَ» (3-آل عمران:185) آخری ٹکڑے کے بغیر یہ حدیث بخاری و مسلم وغیرہ میں بھی ہے(سنن ترمذی:3013،قال الشیخ الألبانی:صحیح) ۱؎ اور کچھ زیادہ الفاظ کے ساتھ ابن حبان میں ہے (صحیح ابن حبان:7417:صحیح) ۱؎   اور ابن مردویہ میں بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے جس کی خواہش آگ سے بچ جانے اور جنت میں داخل ہو جانیکی ہو اسے چاہیئے کہ مرتے دم تک اللہ پر اور قیامت پر ایمان رکھے اور لوگوں سے وہ سلوک کرے جسے خود اپنے پسند کرتا ہو (مسند احمد:192/2:صحیح) ۱؎   یہ حدیث پہلے آیت «وَلَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَاَنْتُمْ مٰسْلِمُوْنَ» (3-آل عمران:102) کی تفسیر میں گزر چکی ہے ، مسند احمد میں بھی اور وکیع بن جراح کی تفسیر میں بھی یہی حدیث ہے ۔ اس کے بعد دنیا کی حقارت اور ذلت بیان ہو رہی ہے کہ یہ نہایت ذلیل فانی اور زوال پذیر چیز ہے ارشاد ہے آیت «بَلْ تُـؤْثِرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدٰنْیَا وَالْاٰخِرَۃُ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی» (87-الأعلی:16) یعنی تم تو دنیا کی زندگی پر ریجھے جاتے ہو حالانکہ دراصل بہتری اور بقاء والی چیز آخرت ہے ،  دوسری آیت میں ہے «وَمَا الْحَیَاۃُ الدٰنْیَا فِی الْآخِرَۃِ إِلَّا مَتَاعٌ» (13-الرعد:26) تمہیں جو کچھ دیا گیا ہے یہ تو حیات دنیا کا فائدہ ہے اس کی بہترین زینت اور باقی رہنے والی تو وہ زندگی ہے جو اللہ کے پاس ہے ۔

حدیث شریف میں ہے اللہ کی قسم دنیا آخرت کے مقابلہ میں صرف ایسی ہی ہے جیسے کوئی شخص اپنی انگلی سمندر میں ڈبو لے اس انگلی کے پانی کو سمندر کے پانی کے مقابلہ میں کیا نسبت ہے آخرت کے مقابلہ میں دنیا ایسی ہی ہے(صحیح مسلم:2858) ۱؎ ، سیدنا قتادہ رحمہ اللہ کا ارشاد ہے دنیا کیا ہے ایک یونہی دھوکے کی جگہ ہے جسے چھوڑ چھاڑ کر تمہیں چل دینا ہے اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی لائق عبادت نہیں کہ یہ تو عنقریب تم سے جدا ہونے والی اور برباد ہونے والی چیز ہے پس تمہیں چاہیئے کہ ہوش مندی برتو اور یہاں اللہ کی اطاعت کر لو اور طاقت بھر نیکیاں کما لو اللہ کی دی ہوئی طاقت کے بغیر کوئی کام نہیں بنتا ۔

آزمائش لازمی ہے صبر و ضبط بھی ضروری 

پھر انسانی آزمائش کا ذکر ہو رہا ہے جیسے ارشاد ہے آیت «وَلَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْءٍ مِّنَ الْخَوْفِ وَالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَالثَّمَرٰتِ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ» (2-البقرۃ:155) مطلب یہ ہے کہ مومن کا امتحان ضرور ہوتا ہے کبھی جانی ، کبھی مالی ، کبھی اہل و عیال میں کبھی اور کسی طرح یہ آزمائش دینداری کے انداز کے مطابق ہوتی ہے ، سخت دیندار کی ابتلاء بھی سخت اور کمزور دین والے کا امتحان بھی کمزور ، پھر پروردگار جل شانہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو خبر دیتا ہے کہ بدر سے پہلے مدینہ میں تمہیں اہل کتاب سے اور مشرکوں سے دکھ دینے والی باتیں اور سرزنش سننی پڑے گی ، پھر تسلی دیتا ہوا طریقہ سکھاتا ہے کہ تم صبرو ضبط کر لیا کرو اور پرہیزگاری پر تو یہ بڑا بھاری کام ہے ، سیدنا اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم مشرکین سے اور اہل کتاب سے بہت کچھ در گزر فرمایا کرتے تھے اور ان کی ایذاؤں کو برداشت کر لیا کرتے تھے اور رب کریم کے اس فرمان پر عامل تھے یہاں تک کہ جہاد کی آیتیں اتریں ۔

صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر کے موقعہ پر ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گدھے پر سوار ہو کر سیدنا اسامہ رضی اللہ عنہ کو اپنے پیچھے بٹھا کر سیدنا سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے بنو حارث بن خزرج کے قبیلے میں تشریف لے چلے یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے راستہ میں ایک مخلوط مجلس بیٹھی ہوئی ملی جس میں مسلمان بھی تھے یہودی بھی تھی ۔ مشرکین بھی تھے اور عبداللہ بن ابی بن سلول بھی تھا یہ بھی اب تک کفر کے کھلے رنگ میں تھا ۔ مسلمانوں میں سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی تھے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری سے گردوغبار جو اڑا تو عبداللہ بن ابی سلول نے ناک پر کپڑا رکھ لیا اور کہنے لگا غبار نہ اڑاؤ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پاس پہنچ ہی چکے تھے سواری سے اتر آئے سلام کیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی اور قرآن کی چند آیتیں سنائیں تو عبداللہ بول پڑا سنئے صاحب آپ کا یہ طریقہ ہمیں پسند نہیں آپ کی باتیں حق ہی سہی لیکن اس کی کیا وجہ کہ آپ ہماری مجلسوں میں آ کر ہمیں ایذاء دیں اپنے گھر جائیے جو آپ کے پاس آئے اسے سنائیے ۔ یہ سن کر سیدنا عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیشک آپ ہماری مجلسوں میں تشریف لایا کریں ہمیں تو اس کی عین چاہت ہے اب ان کی آپس میں خوب جھڑپ ہوئی ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے لگا اور قریب تھا کہ کھڑے ہو کر لڑنے لگیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سمجھانے بجھانے سے آخر امن و امان ہو گیا اور سب خاموش ہو گئے ۔

آپ اپنی سواری پر سوار ہو کر سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کے ہاں تشریف لے گئے اور وہاں جا کر سعد رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ابو حباب عبداللہ بن ابی سلول نے آج تو اس طرح کیا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ جانے دیجئیے معاف کیجئے اور در گزر کیجئے قسم اللہ کی جس نے آپ پر قرآن اتارا اسے آپ سے اس لیے بے حد دشمنی ہے اور ہونی چاہیئے کہ یہاں کے لوگوں نے اسے سردار بنانا چاہا تھا اسے چودھراہٹ کی پگڑی بندھوانے کا فیصلہ ہو چکا تھا ۔ ادھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنا نبی برحق بنا کر بھیجا لوگوں نے آپ کو نبی مانا اس کی سرداری جاتی رہی جس کا اسے رنج ہے اسی باعث یہ اپنے جلے دل کے پھپولے پھوڑ رہا ہے جو کہ دیا کہ دیا آپ اسے اہمیت نہ دیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے درذگر کر لیا اور یہی آپ کی عادت تھی اور آپ کے اصحاب رضی اللہ عنہم کی بھی ، یہودیوں سے مشرکوں سے درذگر فرماتے سنی ان سنی کر دیا کرتے اور اس فرمان پر عمل کرتے ، یہی حکم آیت «وَدَّ کَثِیرٌ» (2-البقرۃ:109) ۱؎ میں ہے جو حکم عفو و درگزر کا اس آیت «وَلَتَسْمَعُنَّ» میں ہے ۔

بعد ازاں آپ کو جہاد کی اجازت دی گئی اور پہلا غزوہ بدر کا ہوا جس میں لشکر کفار کے سرداران قتل و غارت ہوئے یہ حالت اور شوکت اسلام دیکھ کر اب عبداللہ بن ابی بن سلول اور اس کے ساتھی گھبرائے بجز اس کے کوئی چارہ کار انہیں نظر نہ آیا کہ بیعت کر لیں اور بظاہر مسلمان جائیں ۔(صحیح بخاری:4566) ۱؎   پس یہ کلیہ قاعدہ یاد رکھنا چاہیئے کہ ہر حق والے پر جو نیکی اور بھلائی کا حکم کرتا رہے اور جو برائی اور خلاف شرع کام سے روکتا رہے اس پر ضرور مصیبتیں اور آفتیں آتی ہیں اسے چاہیئے کہ ان تمام تکلیفوں کو جھیلے اور اللہ کی راہ میں صبر و ضبط سے کام لے اسی کی پاک ذات پر بھروسہ رکھے اسی سے مدد طلب کرتا رہے اور اپنی کامل توجہ اور پورا رجوع اسی کی طرف رکھے ۔

آیت نمبر: 186

لَتُبْلَوُنَّ فِي أَمْوَالِكُمْ وَأَنفُسِكُمْ وَلَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا أَذًى كَثِيرًا ۚ وَإِن تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا فَإِنَّ ذَٰلِكَ مِنْ عَزْمِ  الْأُمُورِ

ترجمہ:(مسلمانو) تمہیں اپنے مال و دولت اور جانوں کے معاملے میں (اور) آزمایا جائے گا، اور تم اہل کتاب اور مشرکین دونوں سے بہت سی تکلیف دہ باتیں سنو گے۔ اور اگر تم نے صبر اور تقوی سے کام لیا تو یقینا یہی کام بڑی ہمت کے ہیں ( جو تمہیں اختیار کرنے ہیں)



میرے عزیز دوستو !
اسلامُ علیکم !
جیسا کہ آپ سب جانتے ہیں کہ آج کے دن تقریبًا تمام پاکستانی عوام و خواص پاکستان اور انڈیا کا میچ دیکھنے میں زوروشور سے مشغول ہیں۔ اور پاکستان کو ہر حال میں جیتتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں ۔ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ پاک عوام میں اپنے وطن عزیز کے لیے ایسا جوش اور جذبہ موجود ہے۔ ایک اہم بات جس کی طرف میں آپ سب کی توجہ دلانا چاہتا ہوں وہ یہ ہیکہ ہم میں سے اکثریت جب کہ وہ ٹی وی کے سامنے ہوں خصوصًا میچ اور ہو بھی انڈیا اور پاکستان کا تو ایسے وقت نماز معاف ہو جاتی ہے ۔ یہ بہت ہی افسو سناک المیہ ہے کہ اللہ کے سامنے حا ضری جے لیے تو کوئی تیاری نہیں اور بندوں کے سامنے سرخروئی کے لیے نماز تک جھوڑ دی جائے، سرخروئی بھی اپنی ذاتی نہیں بلکہ ملک کے چند گنے چُنے افراد کی۔ مزہ تو تب ہیکہ اپنے وقت پر نمازیں بھی ادا ہوں ۔ اور نماز کے بعد دعا کر کے پھر دیکھا جائے کہ چلو اب اللہ کا حق بھی ادا کر آئے اور وطن عزیز کی سرخروئی کی دعا بھی کر آئے ۔ تو میرے عزیزو آؤ یہ عہد کریں کہ میچ کی وجہ سے بلکہ کسی بھی صورت میں کبھی بھی اللہ کی نافرمانی میں اپنی رضا تلاش نہیں کریں گے۔
ایک اور اہم بات یکم اپریل کے حوالے سے کہ اس دن کوہم مسلمان بھی غیروں یعنی کافروں کی تقلید میں منانے لگ گئے ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اُن سے بھی 2 ہاتھہ آگے جا چکے ہیں ۔
قرآن پاک میں ارشاد ربّانی ہے
ترجمہ = "جُھوٹ بو لنے والوں پر اللہ کی لعنت ہے "
آیت کریمہ اعراب کی وجہ سے نہیں لکھی۔۔۔۔۔۔۔ اب جس پر اللہ کی لعنت پڑ جائے اُس کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے وہ کامیاب ہو جائے گا??? تو پلیز خود بھی اس قبیح فعل سے بچیئے اور دوسروں کو بھی روکیئے۔۔۔ ) جزاک اللہُ خیرًا(


 


Whether Indian first or Muslim first?
************ ********* ********* *
Let  me  quench the  thirst of  those fools ,
Indian or Muslim - which first ? They ask ;
With  their  mind in  dark, and heart in dirt ,
They  think  to  put me to the  heaviest task .
I am a Muslim , when I pray to my Lord ,
But my forehead graces  the Indian land ;
I am a  Muslim , when I perform my Hajj,
But I am allowed to go by an Indian hand .
I am a Muslim , when with terror I am linked ,
I am a Muslim , when many problems  I face ;
I am an Indian , when I fight to seek my share ,
I am an Indian , when I try to compete in race .
I am an ' Indian Muslim ': It is  my final say ,  
Both are real : for one, the other is not a mask ;
It  is  foolish to  know  which  I love  the most ,
It  is  their  combined  glory  in  which   bask .
************ ********* ********* ********* *
Dr. Mustafa Kamal Sherwani, LL.D.
Chairman, All India Muslim Forum
Lucknow ,U.P. India
+91-9919777909
+91-522-2733715


__._,_.___
Recent Activity:
Etihad-e-Islam : Unity of All Muslims.
.

__,_._,___

Tafseer Ibn-e-Kaseer, Surah 2, Ayet 78 - 79.jpg

 



سورت کے شروع میں قرآن کریم کے کلام رب العالمین ہونے اور تمام شکوک و شبہات سے بالاتر ہونے کا بیان ہے۔ پھر توحید باری تعالیٰ پر کائناتی شواہد اور تخلیق انسانی کے مختلف مراحل سے استدلال کرتے ہوئے بتایا ہے کہ انسان بوسیدہ ہو کر زمین کی وسعتوں میں گم ہو جائے گا تب بھی اللہ تعالیٰ اسے دوبارہ زندہ کر لیں گے۔ پھر مجرمین کی مذمت اور قیامت کے دن ان کی بے کسی اور بے بسی کو ذکر کرتے ہوئے انہیں جہنم کی ذلت و رسوائی کا مستحق قرار دیا ہے جبکہ ایمان والے جن کی زندگیاں عجز و انکساری کا پیکر بن کر رکوع، سجدے اور تسبیح و تحمید میں گزرتی ہیں ان کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک اور جنت کے باغات میں بہترین مہمانی اور عمدہ ترین جزا کا مژدہ سنایا گیا ہے۔ حضرت موسیٰؑ اور ان کی کتاب ہدایت بنی اسرائیل کے لئے نظام حیات کے طور پر عطاء کی گئی، اس سلسلہ میں کسی قسم کے شکوک و شبہات میں پڑنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ لوگ سوال کرتے ہیں کہ حق کی فتح کا دن کون سا ہو گا؟ آپ بتا دیجئے کہ فتح کا دن جب آئے گا تو تمہارا ایمان کام نہیں آ سکے گا۔ لہٰذا ان سے چشم پوشی کرتے ہوئے اللہ کے فیصلہ کا آپ بھی انتظار کیجئے۔ وہ بھی انتظار کر رہے ہیں۔ 
٭٭٭

 



 


--
Subscribe your email id to get
Informative Valuable Mails on Daily Basis
by Sending blank emial
subjected "Subscribe Me" To imranjunani@gmail.com


__._,_.___
Recent Activity:
Etihad-e-Islam : Unity of All Muslims.
.

__,_._,___

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget