Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

* یہ وصال ہے کہ فراق ہے دلِ مبتلا کو پتا رہے*



* یہ وصال ہے کہ فراق ہے دلِ مبتلا کو پتا رہے*
* جو یہ پھول ہے تو کھلا رہے جو یہ زخم ہے تو ہرا رہے*

* تیرے انتظار کے سلسلے ہیں میانِ دستک و دَر کہیں*
* یہی آس ہے تو بندھی رہے یہ چراغ ہے تو جلا رہے*

* یونہی بھولے بھٹکے جو آ گئے ہیں اِدھر تو اتنی ہوا نہ دے*
* کہ غبارِ کوئے ملامتاں کوئی واقعہ تو چھپا رہے*

* کسی چشمِ وعدہ کی لہر ہے بڑا دل گرفتہ یہ شہر ہے*
* سو ہوائے محرمِ دوستاں تیرے سلسلوں کا پتا رہے*

* یہ سرائے صبح کے ساتھ ہی مجھے چھوڑنی ہے غزالِ شب*
* تیری چشمِ رمز و کنایہ میں کوئی خواب ہے تو سجا رہے*

* یہ وصال ہے کہ فراق ہے دلِ مبتلا کو پتا رہے* Reviewed by Mian Muhammad Shahid Sharif on مارچ 24, 2011 Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.