* یہ وصال ہے کہ فراق ہے دلِ مبتلا کو پتا رہے*
* یہ وصال ہے کہ فراق ہے دلِ مبتلا کو پتا رہے*
* جو یہ پھول ہے تو کھلا رہے جو یہ زخم ہے تو ہرا رہے*
* تیرے انتظار کے سلسلے ہیں میانِ دستک و دَر کہیں*
* یہی آس ہے تو بندھی رہے یہ چراغ ہے تو جلا رہے*
* یونہی بھولے بھٹکے جو آ گئے ہیں اِدھر تو اتنی ہوا نہ دے*
* کہ غبارِ کوئے ملامتاں کوئی واقعہ تو چھپا رہے*
* کسی چشمِ وعدہ کی لہر ہے بڑا دل گرفتہ یہ شہر ہے*
* سو ہوائے محرمِ دوستاں تیرے سلسلوں کا پتا رہے*
* یہ سرائے صبح کے ساتھ ہی مجھے چھوڑنی ہے غزالِ شب*
* تیری چشمِ رمز و کنایہ میں کوئی خواب ہے تو سجا رہے*
* یہ وصال ہے کہ فراق ہے دلِ مبتلا کو پتا رہے*
Reviewed by Mian Muhammad Shahid Sharif
on
مارچ 24, 2011
Rating:

کوئی تبصرے نہیں: