سنیما کا عشق از پطرس بخاری

 


’’سینما کا عشق‘‘ عنوان تو عجب ہوس خیز ہے، لیکن افسوس کہ اس مضمون سے آپ کی تمام توقعات مجروح ہوں گی۔ کیونکہ مجھے تو اس مضمون میں کچھ دل کے داغ دکھانے مقصود ہیں۔

اس سے آپ یہ نہ سمجھئے کہ مجھے فلموں سے دلچسپی نہیں، یا سینما کی موسیقی اور تاریکی میں جو ارمان انگیزی ہے میں اس کا قائل نہیں۔ میں تو سینما کے معاملے میں اوائل عمر ہی سے بزرگوں کا مورد عتاب رہ چکا ہوں، لیکن آج کل ہمارے دوست مرزا صاحب کی مہربانیوں کی طفیل سینما گویا میری ایک دکھتی رگ بن کر رہ گیا ہے۔ جہاں اس کا نام سن پاتا ہوں بعض دردانگیز واقعات کی یاد تازہ ہوجاتی ہے، جس سے رفتہ رفتہ میری فطرت ہی کج بیں بن گئی ہے۔

اول تو خدا کے فضل سے ہم سینما کبھی وقت پر نہیں پہنچ سکے۔ اس میں میری سستی کو ذرا دخل نہیں۔ یہ سب قصور ہمارے دوست مرزا صاحب کا ہے جو کہنے کو تو ہمارے دوست ہیں لیکن خدا شاہد ہے، ان کی دوستی سے جو نقصان ہمیں پہنچے ہیں کسی دشمن کے قبضئہ قدرت سے بھی باہر ہوں گے۔ جب سینما جانے کا ارادہ ہو، ہفتہ بھر پہلے سے انہیں کہہ رکھتا ہوں کہ کیوں بھئی مرزا اگلی جمعرات سینما چلو گے نا! میری مراد یہ ہوتی ہے کہ وہ پہلے سے تیار رہیں اور اپنی تمام مصروفیتیں کچھ اس ڈھب سے ترتیب دے لیں کہ جمعرات کے دن ان کے کام میں کوئی ہرج واقع نہ ہو لیکن وہ جواب میں عجب قدر ناشناسی سے فرماتے ہیں:

’’ارے بھئی چلیں گے کیوں نہیں؟ کیا ہم انسان نہیں؟ ہمیں تفریح کی ضرورت نہیں ہوتی؟ اور پھر کبھی ہم نے تم سےآج تک ایسی بےمروتی بھی برتی ہے کہ تم نے چلنے کو کہا ہو اور ہم نے تمہارا ساتھ نہ دیا ہو؟‘‘

ان کی تقریر سن کر میں کھسیانا سا ہوجاتا ہوں۔ کچھ دیر چپ رہتا ہوں اور پھر دبی زبان سے کہتا ہوں:

’’بھئی اب کے ہوسکا تو وقت پر پہنچیں گے۔ ٹھیک ہے نا؟‘‘

میری یہ بات عام طور پر ٹال دی جاتی ہے کیونکہ اس سے ان کا ضمیر کچھ تھوڑا سا بیدار ہوجاتا ہے۔ خیر میں بھی بہت زور نہیں دیتا۔ صرف ان کو بات سمجھانے کے ليے اتنا کہہ دیتا ہوں:

’’کیوں بھئی سینما آج کل چھے بجے شروع ہوتا ہےنا؟‘‘

مرزا صاحب عبی معصومیت کے انداز میں جواب دیتے ہیں۔ ’’بھئی یہ ہمیں معلوم نہیں۔ ‘‘

’’میرا خیال ہے چھے ہی بجے شروع ہوتا ہے۔ ‘‘

’’اب تمہارے خیال کی تو کوئی سند نہیں۔ ‘‘

’’نہیں مجھے یقین ہے۔ چھے بجے شروع ہوتا ہے۔ ‘‘

’’تمہیں یقین ہے تو میرا دماغ کیوں مفت میں چاٹ رہے ہو؟‘‘

اس کے بعد آپ ہی کہئے میں کیا بولوں؟

خیر جناب جمعرات کے دن چار بجے ہی ان کے مکان کو روانہ ہوجاتا ہوں، اس خیال سے کہ جلدی جلدی انہیں تیار کراکے وقت پر پہنچ جائیں۔ دولت خانے پر پہنچتا ہوں تو آدم نہ آدم زاد۔ مردانے کے سب کمروں میں گھوم جاتا ہوں۔ ہر کھڑکی میں سے جھانکتا ہوں ہر شگاف میں سے آوازیں دیتا ہوں، لیکن کہیں سے رسید نہیں ملتی آخر تنگ آکر ان کے کمرے میں بیٹھ جاتا ہوں۔

وہاں دس پندرہ منٹ سیٹیاں بجاتا رہتا ہوں۔ دس پندرہ منٹ پنسل سے بلاٹنگ پیپر پر تصویریں بناتا رہتاہوں، پھر سگریٹ سلگا لیتا ہوں اور باہر ڈیوڑھی میں نکل کر ادھر اُدھر جھانکتاہوں۔ وہاں بدستور ہو کا عالم دیکھ کر کمرے میں واپس آجاتا ہوں اور اخبار پڑھنا شروع کردیتا ہوں۔ ہر کالم کے بعد مرزا صاحب کو ایک آواز دے لیتا ہوں۔ اس امید پر کہ شاید ساتھ کے کمرے میں یا عین اوپر کے کمرے میں تشریف لے آئے ہوں۔ سو رہے تھے تو ممکن ہے جاگ اٹھے ہوں۔ یا نہا رہے تھے تو شاید غسل خانے سے باہر نکل آئے ہوں لیکن میری آواز مکان کی وسعتوں میں سے گونج کر واپس آجاتی ہے۔

آخرکار ساڑھے پانچ بجے کے قریب زنانے سے تشریف لاتے ہیں۔ میں اپنے کھولتے ہوئے خون کوقابو میں لا کر متانت اور اخلاق کو بڑی مشکل سے مدنظر رکھ کر پوچھتا ہوں:

’’کیوں حضرت آپ اندر ہی تھے؟‘‘

’’ہاں میں اندر ہی تھا۔ ‘‘

’’میری آواز آپ نے نہیں سنی؟‘‘

’’اچھا یہ تم تھے؟ میں سمجھا کوئی اور ہے؟‘‘

آنکھیں بند کرکے سر کو پیچھے ڈال لیتا ہوں اور دانت پیس کر غصے کو پی جاتا ہوں اور پھر کانپتے ہوئے ہونٹوں سے پوچھتا ہوں:

’’تو اچھا اب چلیں گے یا نہیں؟‘‘

’’وہ کہاں؟‘‘

’’ارے بندۂ خدا آج سینما نہیں جانا؟‘‘

’’ہاں سینما۔ سینما (یہ کہہ کر وہ کرسی پر بیٹھ جاتے ہیں) ٹھیک ہے۔ سینما، میں بھی سوچ رہا تھا کہ کوئی نہ کوئی بات ضرور ایسی ہے جو مجھے یاد نہیں آ تی ہے۔ اچھا ہوا تم نے یاد دلایا ورنہ مجھے رات بھر الجھن رہتی۔ ‘‘

’’تو چلو پھر اب چلیں۔ ‘‘

’’ہاں وہ تو چلیں گے ہی۔ میں سوچ رہا تھا آج ذرا کپڑے بدل لیتے خدا جانے دھوبی کمبخت کپڑے بھی لایا ہے یا نہیں۔ یار ان دھوبیوں کا تو کوئی انتظام کرو۔ ‘‘

اگر قتل انسانی ایک سنگین جرم نہ ہوتا تو ایسے موقع پر مجھ سے ضرور سرزد ہوجاتا لیکن کیا کروں اپنی جوانی پر رحم کھاتا ہوں۔ بےبس ہوتا ہوں۔ صرف یہی کہہ سکتا ہوں کہ’’مرزا بھئی لِلہ مجھ پر رحم کرو۔ میں سینما چلنے کو آیا ہوں۔ دھوبیوں کا انتظام کرنے نہیں آیا۔ یار بڑے بدتمیز ہو۔ پونے چھے بج چکے ہیں اور تم جوں کے توں بیٹھے ہو۔ ‘‘

مرزا صاحب عجب مربیانہ تبسم کے ساتھ کرسی پر سے اٹھتے ہیں، گویا یہ ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ اچھا بھئی تمہاری طفلانہ خواہشات آخر ہم پوری کرہی دیں۔ چنانچہ پھر یہ کہہ کراندر تشریف لےجاتے ہیں کہ اچھا کپڑے پہن آؤں۔

مرزا صاحب کے کپڑے پہنے کا عمل اس قدر طویل ہے کہ اگر میرا اختیار ہوتا قانون کی رو سے انہیں کبھی کپڑے اتارنے ہی نہ دیتا۔ آدھ گھنٹے کے بعد وہ کپڑے پہنے ہوئے تشریف لاتے ہیں۔ ایک پان منہ میں دوسرا ہاتھ میں۔ میں بھی اٹھ کھڑا ہوتا ہوں۔ دروازے تک پہنچ کر مڑ کر جو دیکھتا ہوں تو مرزا صاحب غائب۔ پھر اندر آجاتا ہوں۔ مرزا صاحب کسی کونے میں کھڑے کچھ کرید رہےہوتے ہیں۔

’’ارے بھئی چلو۔ ‘‘

’’چل تو رہا ہوں یار۔ آخر اتنی بھی کیا آفت ہے؟‘‘

’’اور یہ تم کیا کر رہے ہو؟‘‘

’’پان کے ليے ذرا تمباکو لے رہا تھا۔ ‘‘

تمام رستے مرزا صاحب چہل قدمی فرماتے جاتے ہیں۔ میں ہر دو تین لمحے کے بعد اپنے آپ کو ان سے چارپانچ قدم آگے پاتا ہوں۔ کچھ دیر ٹھہر جاتا ہوں۔ وہ ساتھ آملتے ہیں تو پھر چلنا شروع کردیتا ہوں۔ پھر آگے نکل جاتا ہوں۔ پھر ٹھہرجاتاہوں۔ غرض یہ کہ گو چلتا دگنی تگنی رفتار سے ہوں لیکن پہنچتا ان کے ساتھ ہی ہوں۔

ٹکٹ لے کر اندر داخل ہوتے ہیں تو اندھیرا گھپ۔ بہتیرا آنکھیں جھپکتا ہوں کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ ادھر سے کوئی آواز دیتا ہے۔ ’’یہ دروازہ بند کردو جی!‘‘ یاالله اب جاؤں کہاں۔ رستہ، کرسی، دیوار، آدمی، کچھ بھی تو نظر نہیں آتا۔ ایک قدم بڑھاتا ہوں تو سر ان بالٹیوں سے جاٹکراتا ہے جو آگ بجھانے کے ليے دیوار پر لٹکی رہتی ہیں۔

تھوڑی دیر