2020
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA

 

چہرے کو تر وتازہ رکھنے کے لیےہر ماہ فیشل ضرور کریں۔ اس ہفتے ہم آپ کو ایلوویرا فیشل کے بارے میں بتا رہے ہیں ۔ یہ فیشل ہر قسم کی جلد کے لیے موزوں ہے۔ ایک ایلو ویرا کا بڑاور چوڑا ٹکڑا لیں اور اس کے چارٹکڑے کرلیں، اگر آپ کے پاس ایلو ویرا کا پودا نہیں ہے تو آپ بازار میں جو ایلوویرا جیل ملتا ہے وہ بھی لے سکتی ہیں۔ یہ فیشل چہرے پر موجود تمام داغ دھبےبھی ہٹا دے گا۔ یہ فیشل چار اسٹیپس پر مشتمل ہے۔ اس لیے ایک ایک ٹکڑا ایک اسٹیپس میں استعمال ہوگا۔


کلینزنگ
دوسے تین کھانے کے چمچے ٹھنڈا دودھ لیں۔ ایک ٹکڑے کو دودھ میں بھگو لیں اور اس سے پورےچہرے پر آہستہ آہستہ تین سے چار منٹ تک مساج کریں ۔تھوڑی تھوڑی دیر بعد ایلوویرا کو دودھ میں بھگوتی رہیں ۔اس سے چہرے پر موجود تمام داغ دھبے بھی ہٹ جائیں گے ۔کلینزنگ مکمل کرنے کے بعد گیلی تولیہ سے چہرے کو اچھا طرح صاف کرلیں یا پانی سے دھولیں ۔

اسکربنگ
دو سے تین چائے کےچمچےکافی ایک چائے کا چمچہ چینی اور آدھا لیموں شامل کرکے پھینٹ لیں۔ لیموں سے الرجی ہے تو اس کی جگہ شہد ملا لیں ۔ ایلو ویرا کا دوسرا ٹکڑا اس مکسچر میں ڈبوکر لگائیں اور چہرے کی اسکربنگ کریں ۔اس سے چہرے کی مردہ جلد اُتر جائے گی اورپورزبھی سکڑجائیں گے ۔اسکربنگ تین سے چار منٹ تک کریں ۔ بیلیک اور وائٹ ہیڈز ختم ہوکر جلد بھی نکھرجائے گی ۔یاد رکھیں کہ اسکربنگ ہلکے ہلکے ہاتھوں سے کریں ۔یہ کرنے کے بعد سادے پانی سے چہرہ دھولیں ۔

مساج
مساج کریم بنانے کے لیے ایلوویرا کے تیسرے ٹکڑے میں سے جیل نکالیں ،پھر اس میں آدھا چائے کا چمچہ شہد اور ایک چائے کا چمچہ بادام کا تیل شامل کرلیں ۔اگر آپ کے پاس بادام کا تیل نہیں ہے تو زیتون ، ناریل یا وٹامن ای کا تیل بھی استعمال کرسکتی ہیں ۔ اس آمیزے کو اچھی طر ح یک جا کرلیں ۔اب اس سے چہرے کا مساج کریں ۔ اچھی طر ح پورے چہرے پر لگالیں اور سرکلر موشن میں چہرے کا مساج کریں ۔آنکھوں کا ،ماتھے کا اور ٹی وزن کا نرم ہاتھوں سے مساج کریں ۔

فیس پیک
ایلوویرکے چوتھے ٹکڑے کاا جیل نکاکر اس میں ایک چائے کا چمچہ بیسن اور ایک چائے کا چمچہ اورنج پیل پائوڈر (سنگترے کے چھلکوںکا پائوڈر) لیں ،اسے آپ گھر میں بھی چھلکے پیس کر بنا سکتی ہیں ۔پھر اس میں ایک چائے کا چمچہ دہی شامل کرکے اچھی طر ح یک جاکرکے پندرہ منٹ کے لیے یہ پیک چہرے پر لگا لیں جب یہ ہلکا ہلکا خشک ہونے لگے تو ہاتھ گیلے کرکے ہلکے ہاتھوں سے مساج کریں،بعد ازاں سادہ پانی سے دھولیں ۔ یاد رکھیں کہ یہ پیک ململ خشک نہیں ہو ۔ فیشل کے بعد دیکھے گا آپ کا چہرہ کیسے تر وتازہ اور نکھر انکھرا لگے گا۔


میں ایک میاں ہوں۔ مطیع و فرمانبردار۔ اپنی بیوی روشن آرا کو اپنی زندگی کی ہر ایک بات سے آگاہ کرنا اصول زندگی سمجھتا ہوں اور ہمیشہ اس پر کاربند رہا ہوں۔ خدا میرا انجام بخیر کرے۔ 

چنانچہ میری اہلیہ میرے دوستوں کی تمام عادات و خصائل سے واقف ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میرے دوست جتنے مجھ کو عزیز ہیں اتنے ہی روشن آرا کو برے لگتے ہیں۔ میرے احباب کی جن اداؤں نے مجھے مسحور کررکھا ہے، انہیں میری اہلیہ ایک شریف انسان کے ليے باعث ذلت سمجھتی ہے۔آپ کہیں یہ نہ سمجھ لیں کہ خدا نحواستہ وہ کوئی ایسے آدمی ہیں، جن کا ذکر کسی معزز مجمع میں نہ کیا جاسکے۔ کچھ اپنے ہنر کے طفیل اور کچھ خاکسار کی صحبت کی بدولت سب کے سب ہی سفید پوش ہیں لیکن اس بات کو کیا کروں کہ ان کی دوستی میرے گھر کے امن میں اس قدر خلل انداز ہوتی ہے کہ کچھ کہہ نہیں سکتا۔ 

مثلاً مرزا صاحب ہی کو لیجیئے۔ اچھے خاصے بھلے آدمی ہیں۔ گو محکمہ جنگلات میں ایک معقول عہدے پر ممتاز ہیں لیکن شکل وصورت ایسی پاکیزہ پائی ہے کہ امام مسجد معلوم ہوتے ہیں۔ جوا نہیں کھیلتے، گلی ڈنڈے کا ان کو شوق نہیں، جیب کترتے ہوئے کبھی وہ نہیں پکڑے گئے۔ البتہ کبوتر پال رکھے ہیں،انھیں سے جی بہلاتے ہیں۔ 

ہماری اہلیہ کی یہ کیفیت ہے کہ محلے کا کوئی بدمعاش جوئے میں قید ہوجائے تو اس کی ماں کے پاس ماتم پرسی تک کو چلی جاتی ہیں۔ گلی ڈنڈے میں کسی کی آنکھ پھوٹ جائے تو مرہم پٹی کرتی رہتی ہیں۔ کوئی جیب کترا پکڑا جائے تو گھنٹوں آنسو بہاتی رہتی ہیں لیکن وہ بزرگ جن کو دنیا بھر کی زبان مرزا صاحب مرزا صاحب کہتے تھکتی نہیں، ہمارے گھر میں ’’موئے کبوترباز‘‘ کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔ کبھی بھولے سے بھی میں آسمان کی طرف نظر اٹھا کر کسی چیل، کوے، گدھ، شکرے کو دیکھنے لگ جاؤں تو روشن آرا کو فوراً خیال ہوجاتا ہے کہ بس اب یہ بھی کبوترباز بننے لگا۔ 

اس کے بعد مرزا صاحب کی شان میں ایک قصیدہ شروع ہوجاتا ہے۔ بیچ میں میری جانب گریز۔ کبھی لمبی بحر میں، کبھی چھوٹی بحر میں۔ 

ایک دن جب یہ واقعہ پیش آیا، تو میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ اس مرزا کمبخت کو کبھی پاس نہ پھٹکنے دوں گا، آخر گھر سب سے مقدم ہے۔ میاں بیوی کے باہمی اخلاص کے مقابلے میں دوستوں کی خوشنودی کیا چیز ہے؟ چنانچہ ہم غصے میں بھرے ہوئے مرزا صاحب کے گھر گئے، دروازہ کھٹکھٹایا۔ کہنے لگے ’’اندر آجاؤ‘‘ ہم نے کہا، ’’نہیں آتے، تم باہر آؤ‘‘ خیر اندر گیا۔ بدن پر تیل مل کر ایک کبوتر کی چونچ منہ میں لئے دھوپ میں بیٹھے تھے۔ کہنے لگے ’’بیٹھ جاؤ‘‘ ہم نے کہا ’’بیٹھیں گے نہیں‘‘ آخر بیٹھ گئے معلوم ہوتا ہے ہمارے تیور کچھ بگڑے ہوئے تھے۔ مرزا بولے ’’کیوں بھئی؟ خیرباشد!‘‘ میں نے کہا ’’کچھ نہیں۔‘‘ کہنے لگے ’’اس وقت کیسے آنا ہوا؟‘‘ 

اب میرے دل میں فقرے کھولنے شروع ہوئے۔ پہلے ارادہ کیا کہ ایک دم ہی سب کچھ کہہ ڈالو اور چل دو۔ پھر سوچا کہ مذاق سمجھے گا، اس ليے کسی ڈھنگ سے بات شروع کرو لیکن سمجھ میں نہ آیا کہ پہلے کیا کہیں۔ آخر ہم نے کہا، 

’’مرزا! بھئی کبوتر بہت مہنگے ہوتے ہیں؟‘‘ 

یہ سنتے ہی مرزا صاحب نے چین سے لے کر امریکہ تک کے تمام کبوتروں کو ایک ایک کرکے گنوانا شروع کیا۔ اس کے بعد دانے کی مہنگائی کے متعلق گل افشانی کرتے رہے اور پھر محض مہنگائی پر تقریر کرنے لگے۔ اس دن تو ہم یوں ہی چلے آئے لیکن ابھی کھٹ پٹ کا ارادہ دل میں باقی تھا۔ خدا کا کرنا کیا ہوا کہ شام کو گھر میں ہماری صلح ہوگئی۔ ہم نے کہا ’’چلو اب مزرا کے ساتھ بگاڑنے سے کیا حاصل؟‘‘ چنانچہ دوسرے دن مرزا سے بھی صلح صفائی ہوگئی۔ 

لیکن میری زندگی تلخ کرنے کے ليے ایک نہ ایک دوست ہمیشہ کارآمد ہوتا ہے۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ فطرت نے میری طبیعت میں قبولیت اور صلاحیت کوٹ کوٹ کر بھر دی ہے کیونکہ ہماری اہلیہ کو ہم میں ہر وقت کسی نہ کسی دوست کی عادات کی جھلک نظر آتی رہتی ہے۔ یہاں تک کہ میری اپنی ذاتی شخصی سیرت بالکل ہی ناپید ہوچکی ہے۔ 

شادی سے پہلے ہم کبھی کبھی دس بجے اٹھا کرتے تھے ورنہ گیارہ بجے۔ اب کتنے بجے اٹھتے ہیں؟ اس کا اندازہ وہی لوگ لگاسکتے ہیں جن کے گھر ناشتہ زبردستی صبح کے سات بجے کرا دیا جاتا ہےاور اگر ہم کبھی بشری کمزوری کے تقاضے سے مرغوں کی طرح تڑکے اُٹھنے میں کوتاہی کریں تو فوراً ہی کہہ دیا جاتا ہے کہ یہ اس نکھٹو نسیم کی صحبت کا نتیجہ ہے۔ ایک دن صبح صبح ہم نہا رہے تھے۔ سردی کا موسم، ہاتھ پاؤں کانپ رہے تھے۔ صابن سر پر ملتے تھے تو ناک میں گھستا تھا کہ اتنے میں ہم نے خدا جانے کس پراسرار جذبے کے ماتحت غسل خانے میں الاپنا شروع کیا اور پھر گانے لگے کہ ’’توری چھل بل ہے نیاری۔۔۔‘‘ اس کو ہماری انتہائی بدمذاقی سمجھا گیا اور اس بدمذاقی کا اصل منبع ہمارے دوست پنڈت جی کو ٹھہرایا گیا۔ 

لیکن حال ہی میں مجھ پر ایک ایسا سانحہ گزرا ہے کہ میں نے تمام دوستوں کو ترک کر دینے کی قسم کھالی ہے۔تین چار دن کا ذکر ہے کہ صبح کے وقت روشن آرا نے مجھ سے میکے جانے کے لیے اجازت مانگی۔ جب سے ہماری شادی ہوئی ہے روشن آرا صرف دو دفعہ میکے گئی ہے، اور پھر اس نے کچھ اس سادگی اور عجز سے کہا کہ میں انکار نہ کرسکا۔ کہنے لگی، 

’’تو پھر میں ڈیڑھ بجے کی گاڑی میں چلی جاؤں؟‘‘ 

’’ میں نے کہا، اور کیا؟‘‘ 

وہ جھٹ تیاری میں مشغول ہوگئی اور میرے دماغ میں آزادی کے خیالات نے چکر لگانے شروع کیے۔ یعنی اب بیشک دوست آئیں، بیشک اودھم مچائیں۔ میں بےشک گاؤں، بےشک جب چاہوں اٹھوں۔ بےشک تھیٹر جاؤں۔ میں نے کہا، 

’’روشن آرا جلدی کرو۔ نہیں تو گاڑی چھوٹ جائے گی۔‘‘ 

ساتھ اسٹیشن پر گیا۔ جب گاڑی میں سوار کراچکا تو کہنے لگی، ’’خط روز لکھتے رہیے۔‘‘ 

’’میں نے کہا،ہر روز اور تم بھی۔‘‘ 

’’کھانا وقت پہ کھا لیا کیجیئے اور ہاں دھلی ہوئی جرابیں اور رومال الماری کے نچلے خانے میں پڑے ہیں۔‘‘ 

اس کے بعد ہم دونوں خاموش ہوگئے اور ایک دوسرے کے چہرے کو دیکھتے رہے۔ اس کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ میرا دل بھی بیتاب ہونے لگا اور جب گاڑی روانہ ہوئی تو میں دیر تک مبہوت پلیٹ فارم پر کھڑا رہا۔ 

آخر آہستہ آہستہ قدم اٹھاتا ہوا کتابوں کی دکان تک آیا اور رسالوں کے ورق پلٹ پلٹ کر تصویریں دیکھتا رہا۔ ایک اخبار خریدا۔ تہہ کرکے جیب میں ڈالا اور عادت کے مطابق گھر کا ارادہ کر لیا۔پھر خیال آیا کہ اب گھر جانا ضروری نہیں رہا۔ اب جہاں چاہوں جاؤں، چاہوں تو گھنٹوں اسٹیشن پر ہی ٹہلتا رہوں۔ دل چاہتا تھا قلابازیاں کھاؤں۔ 

کہتے ہیں جب افریقہ کے وحشیوں کو کسی تہذیب یافتہ ملک میں کچھ عرصہ کے لیے رکھا جاتا ہے توگو وہ وہاں کی شان وشوکت سے بہت متاثر ہوتے ہیں لیکن جب واپس جنگلوں میں پہنچتے ہیں تو خوشی کے مارے چیخیں مارتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت میرے دل کی بھی ہو رہی تھی۔ بھاگتا ہوا اسٹیشن سے آزادانہ باہر نکلا۔ آزادی کے لہجہ میں تانگے والے کو بلایا اور کود کر تانگے میں سوار ہوگیا۔ سگریٹ سلگا لیا، ٹانگیں سیٹ پر پھیلا دیں اور کلب کو روانہ ہوگیا۔ 

رستے میں ایک بہت ضروری کام یاد آگیا۔ تانگہ موڑ کر گھر کی طرف پلٹا۔ باہر ہی سے نوکرکو آوازد دی۔ 

’’امجد!‘‘ 

’’حضور!‘‘ 

’’دیکھو، حجام کو جاکے کہہ دو کہ کل گیارہ بجے آئے۔‘‘ 

’’بہت اچھا۔‘‘ 

’’گیارہ بجے سن لیا نا؟ کہیں روز کی طرح پھر چھے بجے وارد نہ ہوجائے۔‘‘ 

’’بہت اچھا حضور۔‘‘ 

’’اور اگر گیارہ بجے سے پہلے آئے تو دھکے دے کر باہر نکال دو۔‘‘ 

یہاں سے کلب پہنچے۔ آج تک کبھی دن کے دو بجے کلب نہ گیا تھا۔ اندر داخل ہوا تو سنسان، آدمی کا نام ونشان تک نہیں۔ سب کمرے دیکھ ڈالے۔ بلیرڈ کا کمرہ خالی، شطرنج کا کمرہ خالی، تاش کا کمرہ خالی۔ صرف کھانے کے کمرے میں ایک ملازم چھریاں تیز کررہا تھا۔ 

اس سے پوچھا، ’’کیوں بے آج کوئی نہیں آيا؟‘‘ 

کہنے لگا، ’’حضور آپ جانتے ہیں، اس وقت بھلا کون آتا ہے؟‘‘ 

بہت مایوس ہوا۔ باہر نکل کر سوچنے لگا کہ اب کیا کروں؟ اور کچھ نہ سوجھا تو وہاں سے مرزا صاحب کے گھر پہنچا۔ معلوم ہوا ابھی دفتر سے واپس نہیں آئے۔ دفتر پہنچا۔ دیکھ کر بہت حیران ہوئے۔ میں نے سب حال بیان کیا کہنے لگے،’’ تم باہر کے کمرے میں ٹھہرو، تھوڑا سا کام رہ گیا ہے۔ بس ابھی بھگتا کے تمہارے ساتھ چلتا ہوں۔ شام کا پروگرام کیا ہے؟‘‘ 

میں نے کہا، ’’تھیٹر۔‘‘ 

کہنے لگے، ’’بس بہت ٹھیک ہے، تم باہر بیٹھو۔ میں ابھی آیا۔‘‘ 

باہرکے کمرے میں ایک چھوٹی سی کرسی پڑی تھی۔ اس پر بیٹھ کر انتظار کرنے لگا اور جیب سے اخبار نکال کر پڑھنا شروع کردیا۔ شروع سے آخر تک سب پڑھ ڈالا اور ابھی چار بجنے میں ایک گھنٹہ باقی تھا۔ پھر سے پڑھنا شروع کردیا۔ سب اشتہار پڑھ ڈالےاور پھر سب اشتہاروں کو دوبارہ پڑھ ڈالا۔ 

آخر کار اخبار پھینک کر بغیر کسی تکلف یا لحاظ کے جمائیاں لینے لگا۔ جمائی پہ جمائی۔جمائی پہ جمائی، حتٰی کہ جبڑوں میں درد ہونے لگا۔ 

اس کے بعد ٹانگیں ہلانا شروع کیالیکن اس سے بھی تھک گیا۔ 

پھر میز پر طبلے کی گتیں بجاتا رہا۔ بہت تنگ آگیا تو دروازہ کھول کر مرزا سے کہا، 

’’ابے یار اب چلتا بھی ہے کہ مجھے انتظار ہی میں مار ڈالے گا۔ مردود کہیں کا، سارا دن میرا ضائع کردیا۔‘‘ 

وہاں سے اُٹھ کر مرزا کے گھر گئے۔ شام بڑے لطف میں کٹی۔ کھانا کلب میں کھایا اور وہاں سے دوستوں کو ساتھ ليے تھیٹر گئے۔ رات کے ڈھائی بجے گھر لوٹے۔ تکئے پر سر رکھا ہی تھا کہ نیند نے بےہوش کردیا۔ 

صبح آنکھ کھلی تو کمرے میں دھوپ لہریں مار رہی تھی۔ گھڑی کو دیکھا تو پونے گیارہ بجے تھے۔ ہاتھ بڑھا کر میز پر سے ایک سگریٹ اٹھایا اور سلگا کر طشتری میں رکھ دیا اور پھر اونگھنے لگا۔ 

گیارہ بجے امجد کمرے میں داخل ہوا کہنے لگا، 

’’حضور حجام آیا ہے۔‘‘ 

ہم نے کہا، ’’یہیں بلا لاؤ۔‘‘ 

یہ عیش مدت کے بعد نصیب ہوا کہ بستر پر لیٹے لیٹے حجامت بنوالیں۔ اطمینان سے اٹھے اور نہا دھو کر باہر جانے کےليے تیار ہوئے لیکن طبیعت میں وہ شگفتگی نہ تھی، جس کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ چلتے وقت الماری سے رومال نکالا تو خدا جانے کیا خیال آیا۔ وہیں کرسی پر بیٹھ گیا اور سودائیوں کی طرح اس رومال کو تکتا رہا۔ الماری کا ایک اور خانہ کھولا تو سرمئی رنگ کا ایک ریشمی دوپٹہ نظر آیا۔ باہر نکالا، ہلکی ہلکی عطر کی خوشبو آرہی تھی۔ بہت دیر تک اس پر ہاتھ پھیرتا رہا دل بھرآیا، گھر سونا معلوم ہونے لگا۔ بہتیرا اپنے آپ کو سنبھالا لیکن آنسو ٹپک ہی پڑے۔ آنسوؤں کا گرنا تھا کہ بیتاب ہوگیا اور سچ مچ رونے لگا۔ سب جوڑے باری باری نکال کر دیکھے لیکن نہ معلوم کیا کیا یاد آیا کہ اور بھی بےقرار ہوتا گیا۔ 

آخر نہ رہا گیا، باہر نکلا اور سیدھا تار گھر پہنچا۔ وہاں سے تار دیا کہ، ’’میں بہت اداس ہوں۔ تم فوراً آجاؤ!‘‘ 

تار دینے کے بعد دل کو کچھ اطمینان ہوا۔ یقین تھا کہ روشن آرا اب جس قدر جلد ہوسکے گا آجائے گی۔ اس سے کچھ ڈھارس بندھ گئی اور دل پر سے جیسے ایک بوجھ ہٹ گیا۔ 

دوسرے دن دوپہر کو مرزا کے مکان پر تاش کا معرکہ گرم ہونا تھا۔ وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ مرزا کے والد سے کچھ لوگ ملنے آئے ہیں۔ اس ليے تجویز یہ ٹھہری کہ یہاں سے کسی اور جگہ سرک چلو۔ ہمارا مکان تو خالی تھا ہی۔ سب یار لوگ وہیں جمع ہوئے۔ امجد سے کہہ دیا گیا کہ حقے میں اگر ذرا بھی خلل واقع ہوا تو تمہاری خیر نہیں اور پان اس طرح سے متواتر پہنچتے رہیں کہ بس تانتا لگ جائے۔ 

اب اس کے بعد کے واقعات کو کچھ مرد ہی اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں۔ شروع شروع میں تو تاش باقاعدہ اور باضابطہ ہوتا رہا۔ جو کھیل بھی کھیلا گیا بہت معقول طریقے سے، قواعدوضوابط کے مطابق اور متانت وسنجیدگی کے ساتھ لیکن ایک دو گھنٹے کے بعد کچھ خوش طبعی شروع ہوئی۔ یار لوگوں نے ایک دوسرے کے پتے دیکھنے شروع کردیئے۔ یہ حالت تھی کہ آنکھ بچی نہیں اور ایک آدھ کام کا پتہ اُڑا نہیں اور ساتھ ہی قہقہےپر قہقہے اُڑنے لگے۔ 

تین گھنٹے کے بعد یہ حالت تھی کہ کوئی گھٹنا ہلا ہلا کر گا رہا ہے، کوئی فرش پر بازو ٹیکے بجا رہا ہے۔ کوئی تھیٹر کا ایک آدھ مذاقیہ فقرہ لاکھوں دفعہ دہرا رہا ہے لیکن تاش برابر ہورہا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد دھول دھپا شروع ہوگیا۔ ان خوش فعلیوں کے دوران میں ایک مسخرے نے ایک ایسا کھیل تجویز کردیا۔ جس کے آخر میں ایک آدمی بادشاہ بن جاتا ہے۔ دوسرا وزیر، تیسرا کوتوال اور جو سب سے ہار جائے وہ چور۔ سب نے کہا ’’واہ وا کیا بات کہی ہے۔‘‘ 

ایک بولا، ’’پھر آج جو چور بنا اس کی شامت آجائے گی۔‘‘ 

دوسرے نے کہا، ’’اور نہیں تو کیا۔ بھلا کوئی ایسا ویسا کھیل ہے۔ سلطنتوں کے معاملے ہیں، سلطنتوں کے۔‘‘ 

کھیل شروع ہوا۔ بدقسمتی سے ہم چور بن گئے۔ طرح طرح کی سزائیں تجویز ہونے لگیں۔‘‘ 

کوئی کہے، ’’ننگے پاؤں بھاگتا ہوا جائے اور حلوائی کی دکان سے مٹھائی خرید کر لائے۔ 

کوئی کہے، ’’نہیں حضور! سب کے پاؤں پڑے، اور ہر ایک سے دو دو چانٹے کھائے۔‘‘ 

دوسرے نے کہا، ’’نہیں صاحب ایک پاؤں پر کھڑا ہو کر ہمارے سامنے ناچے۔‘‘ 

آخر میں بادشاہ سلامت بولے،’’ہم حکم دیتے ہیں کہ چور کو کاغذ کی ایک لمبوتری نوک دار ٹوپی پہنائی جائے اوراس کے چہرے پر سیاہی مل دی جائے اور یہ اسی حالت میں جاکر اندرسے حقے کی چلم بھر کر لائے۔‘‘ 

سب نے کہا۔ ’’کیا دماغ پایا ہے حضور نے! کیا سزا تجویز کی ہے! واہ وا‘‘ 

ہم بھی مزے میں آئے ہوئے تھے، ہم نے کہا، ’’تو ہوا کیا؟ آج ہم ہیں کل کسی اور کی باری آجائے گی۔‘‘ 

نہایت خندہ پیشانی سے اپنے چہرے کو پیش کیا۔ ہنس ہنس کر وہ بیہودہ سی ٹوپی پہنی۔ ایک شان استغنا کے ساتھ چلم اٹھائی اور زنانے کا دروازہ کھول کر باورچی خانے کو چل دیے اور ہمارے پیچھے کمرہ قہقہوں سے گونج رہا تھا۔ 

صحن میں پہنچےہی تھے کہ باہر کا دروازہ کھلا اور ایک برقعہ پوش خاتون اندر داخل ہوئی۔ منہ سے برقعہ الٹا تو روشن آرا۔ 

دم خشک ہوگیا۔ بدن پر ایک لرزہ سا طاری ہوگیا۔زبان بند ہوگئی۔ سامنے وہ روشن آرا جس کو میں نے تار دے کر بلایا تھا کہ، ’’تم فوراً آجاؤ میں بہت اداس ہوں‘‘ اور اپنی یہ حالت کہ منہ پر سیاہی ملی ہے، سر پر وہ لمبوتری سی کاغذ کی ٹوپی پہن رکھی ہے اور ہاتھ میں چلم اٹھائے کھڑے ہیں اور مردانے کمرے سے قہقہوں کا شور برابر آرہا ہے۔ روح منجمد ہوگئی اور تمام حواس نے جواب دے دیا۔ روشن آرا کچھ دیر تک چپکی کھڑی دیکھتی رہی اور پھر کہنے لگی۔۔۔ بس میں کیا بتاؤں کہ کیا کہنے لگی؟ اس کی آواز تو میرے کانوں تک جیسے بیہوشی کے عالم میں پہنچ رہی تھی۔ 

اب تک آپ اتنا تو جان گئے ہوں گے کہ میں بذات خود از حد شریف واقع ہوا ہوں۔ جہاں تک میں میں ہوں۔ مجھ سے بہتر میاں دنیا پیدا نہیں کرسکتی۔ میری سسرال میں سب کی یہی رائے ہے اور میرا اپنا ایمان بھی یہی ہے لیکن ان دوستوں نے مجھے رسوا کردیا ہے۔ اس ليے میں نے مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ اب یا گھر میں رہوں گا یا کام پر جایا کروں گا۔ نہ کسی سے ملوں گا اور نہ کسی کو اپنے گھر آنے دوں گا، سوائے ڈاکیے یا حجام کے اور ان سے بھی نہایت مختصر باتیں کروں گا۔ 

’’خط ہے؟‘‘ 

’’جی ہاں۔‘‘ 

’’دے جاؤ۔ چلے جاؤ۔‘‘ 

’’ناخن تراش دو۔‘‘ 

’’بھاگ جاؤ۔‘‘ 

بس، اس سے زیادہ کلام نہ کروں گا۔ آپ دیکھئے تو سہی!







آغوش تھراپی
یہ گزشتہ صدی کے آخری سال کی موسمِ بہار کی ایک رات تھی.میری شادی ہوئے تقریباً دوسال ہو گئے تھے۔ اور بڑا بیٹا قریب ایک برس کا رہا ہوگا.  اس رات کمرے میں تین لوگ تھے, میں, میرا بیٹا اور اس کی والدہ! تین میں سے دو لوگوں کو بخار تھا, مجھے کوئی ایک سو چار درجہ اور میرے بیٹے کو ایک سو ایک درجہ. اگرچہ میری حالت میرے بیٹے سے کہیں زیادہ خراب تھی۔ تاہم میں نے یہ محسوس کیا کہ جیسے  کمرے میں صرف دو ہی لوگ ہیں, میرا بیٹا اور اسکی والدہ.


بری طرح نظر انداز کیے جانے کے احساس نے میرے خیالات کو زیروزبر تو بہت کیا لیکن ادراک کے گھوڑے دوڑانے پر عقدہ یہی کھلا کہ عورت نام ہے اس ہستی کا کہ جب اسکو ممتا دیت کر دی جاتی ہے تو اس کو پھر اپنی اولادکے سوا کچھ دکھائی نہیں دیتا. حتیٰ کہ اپنا شوہر بھی اور خاص طورپر جب اسکی اولاد کسی مشکل میں ہو.اس نتیجہ کے ساتھ ہی ایک نتیجہ اور بھی نکالا اور وہ یہ کہ اگر میرے بیٹے کے درد کا درمان اسکی کی والدہ کی آغوش ہے تو یقینا میرا علاج میری ماں کی آغوش ہو گی.  
اس خیال کا آنا تھا کہ میں بستر سے اٹھا اور ماں جی کے کمرہ کی طرف چل پڑا. رات کے دو بجے تھے پر جونہی میں نے انکے کمرے کا دروازہ کھولا وہ فوراً اٹھ کر بیٹھ گئیں جیسے میرا ہی انتظار کر رہی ہوں. پھر کیا تھا, بالکل ایک سال کے بچے کی طرح گود میں لے لیا۔ اور توجہ اور محبت کی اتنی ہیوی ڈوز سے میری آغوش تھراپی کی کہ میں صبح تک بالکل بھلا چنگا ہو گیا.  
پھر تو جیسے میں نے اصول ہی بنا لیا جب کبھی کسی چھوٹے بڑے مسئلے یا بیماری کا شکار ہوتا کسی حکیم یا ڈاکٹر کے پاس جانے کی بجائے سیدھا مرکزی ممتا شفا خانہ برائے توجہ اور علاج میں پہنچ جاتا. وہاں پہنچ کر مُجھے کچھ بھی کہنے کی ضرورت نہ پڑتی۔ بس میری شکل دیکھ کر ہی مسئلہ کی سنگینی کا اندازہ لگا لیا جاتا. میڈیکل ایمرجنسی ڈیکلئر کر دی جاتی. مجھے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ (ماں جی ) کے ہی بستر پر لٹا دیا جاتا اور انکا ہی کمبل اوڑھا دیا جاتا, کسی کو یخنی کا حکم ہوتا تو کسی کو دودھ لانے کا, خاندانی معالج کی ہنگامی طلبی ہوتی, الغرض توجہ اور محبت کی اسی ہیوی ڈوز سے آغوش تھراپی ہوتی اور میں بیماری کی نوعیت کے حساب سے کبھی چند گھنٹوں اور کبھی چند پہروں میں روبہ صحت ہو کر ڈسچارج کر دیا جاتا.  
یہ سلسلہ تقریباً تین ماہ قبل تک جاری رہا۔ وہ وسط نومبر کی ایک خنک شام تھی, جب میں فیکٹری سے گھر کیلئے روانہ ہونے لگا تو مجھے لگا کہ مکمل طور پر صحتمند نہیں ہوں, تبھی میں نے  آغوش تھراپی کروانے کا فیصلہ کیا اور گھر جانے کی بجائے ماں جی کی خدمت میں حاضر ہو گیا, لیکن وہاں پہنچے پر اور ہی منظر دیکھنے کو ملا. ماں جی کی اپنی حالت کافی ناگفتہ بہ تھی پچھلے کئی روز سے چل رہیے پھیپھڑوں کے عارضہ کے باعث بخار اور درد کا دور چل رہا تھا۔
میں خود کو بھول کر انکی تیمارداری میں جت گیا, مختلف ادویات دیں, خوراک کے معروف ٹوٹکے آزمائے. مٹھی چاپی کی,مختصر یہ کہ کوئی دو گھنٹے کی آؤ بھگت کے بعد انکی طبیعت سنبھلی اور وہ سو گئیں. میں اٹھ کر گھر چلا آیا. ابھی گھر پہنچے آدھ گھنٹہ ہی بمشکل گذرا ہوگا کہ فون کی گھنٹی بجی, دیکھا تو چھوٹے بھائی کا نمبر تھا, سو طرح کے واہمے ایک پل میں آکر گزر گئے. جھٹ سے فون اٹھایا اور چھوٹتے ہی پوچھا, بھائی سب خیریت ہے نا, بھائی بولا سب خیریت ہے وہ اصل میں ماں جی پوچھ رہی ہیں کہ آپکی طبیعت ناساز تھی اب کیسی ہے……اوہ میرے خدایا…  
  اس روزمیرے ذہن میں ماں کی تعریف مکمل ہو گئی تھی۔ ماں وہ ہستی ہے جو اولاد کو تکلیف میں دیکھ کر اپنا دکھ,اپنا آپ  بھی بھول جاتی ہے.
آج ماں جی کو رحمان کی رحمت میں گئے ایک ماہ اور آٹھ روز ہو گئے ہیں۔  آج مجھے پھر بخار ہوا ہے, آغوش تھراپی کی اشد ضرورت ہے۔ پر میرا مرکزی ممتا شفاخانہ برائے توجہ اور علاج ہمیشہ کیلئے بند ہو چکا ہے۔ ؟  
منقول

 

خوراک کے انسانی صحت پر متعدد اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن ان اثرات کی درست  نشاندہی کرنا مشکل ہوتا ہے۔ حال ہی ایک مطالعے نے اس موضوع پر کافی روشنی ڈالی ہے۔

نیچر مینٹل ہیلتھ نامی جریدے میں شائع ہونے والا مطالعہ ہمیں بتاتا ہے کہ کس طرح خوراک کے ذہنی فعالیت، میٹابولک بائیو مارکرز اور دماغی ساخت سمیت اس کی صحت پر اثرات مرتب ہوتے ہیں۔


محققین کی ٹیم نے 182,000 شرکا کا تجزیہ کیا جس میں پتہ چلا کہ جو لوگ متوازن غذا استعمال کرتے ہیں وہ بہتر ذہنی صحت اور علمی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔

امریکی شہر ہیوسٹن میں میموریل ہرمن ہیلتھ سسٹم کے رجسٹرڈ ماہرِ غذائیت ایزابیل ایم۔وازکوز نے کہا کہ یہ مطالعہ ذہنی افعال اور دماغی صحت کو بہتر بنانے کے لیے غذائیت سے متعلق دانشمندانہ انتخاب پر زور دیتا ہے۔ کیونکہ بعض غذائیں دماغی تندرستی کے لیے بہتر ہیں جبکہ کچھ خراب دماغی صحت سے وابستہ ہے۔

مثال کے طور پر پھلوں، سبزیوں اور مچھلیوں پر مبنی غذا ڈپریشن اور اضطراب کے خطرے کو کم کرنے میں مدد دیتی ہے جب کہ چکنائی اور کاربوہائیڈریٹس والی غذاؤں سے یہی خطرہ دو چند ہوجاتا ہے۔


سوال: جن کا انتقال ہوجاتا ہے ان کو قران بخشنے کی کیا حقیقت ہے ؟ کیا اس کا ثواب ان کو پہنچتا ہے؟

جواب: واضح رہے کہ قرآنِ کریم کی تلاوت، ذکر و اذکار نفل نماز، روزہ، طواف، عمرہ و حج، قربانی، نیز غرباء ومساکین پر صدقہ خیرات کرکے مرحومین کو جو ثواب پہنچایا جاتاہے، یہ شرعاً درست ہے،  اور  مرحومین تک نہ صرف  اس کا  ثواب پہنچتاہے،  بلکہ  پڑھنے والوں یا صدقہ کرنے والوں کو بھی برابر ثواب ملتا ہے، اور کسی کے ثواب میں کوئی کمی نہیں کی جاتی ہے، اور یہی اہل سنت و الجماعت  کا مسلک ہے ، ایصالِ ثواب کا ثبوت و تعلیمات خود احادیث میں وارد ہوئی ہیں، البتہ ایصالِ ثواب کے لیے شریعتِ مطہرہ نے کوئی خاص دن یا وقت یا خاص طریقہ متعین نہیں کیا جب بھی جس وقت بھی دن ہو یا رات ایصال ثواب کیا جاسکتا ہے۔

شعب الإيمان للبيهقي  میں ہے:

"قال رسول الله صلى الله عليه وسلم ‌: من ‌حج ‌عن والديه بعد وفاتهما كتب له عتقا من النار وكان للمحجوج عنهما أجر حجة تامة من غير أن ينقص من أجورهما شيئا."

ترجمہ :" رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  جو شخص اپنے والدین کی وفات کے بعد ان کی طرف سے حج کرتا ہے، تو اس کے لیے جہنم سے خلاصی لکھ دی جاتی ہےاور ان دونوں کی طرف سے حج کرنے والے کو  مکمل حج کا ثواب ہے،ان دونوں کے اجر میں کچھ کمی نہیں کی جاتی۔"

(باب في بر الوالدين،‌‌فصل في حفظ حق الوالدين بعد موتهما،ج6،ص205،رقم:7912،ط:دار الكتب العلمية)

وفيه أيضاً:

"عن عمرو بن شعیب عن أبیه عن جده قال: قال رسول الله ﷺ لأبي: إذا أردت أن تتصدق صدقةً فاجعلها عن أبويك؛ فإنه یلحقهما أجرها ولاینتقص من أجرك شیئاً".

"رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے : جب تم صدقہ کرنا چاہو ، تو اپنے والدین کی طرف سے کرو؛ کیوں کہ اس کا ثواب ان کو ملتا ہے اور تمہارے اجر میں بھی کمی نہیں کی جاتی۔"

(باب في بر الوالدين،‌‌فصل في حفظ حق الوالدين بعد موتهما ،ج6،ص204-205، رقم: 7911، ط: دارالکتب العلمیة)

عمدة القاري علي صحيح البخاري  میں ہے:

"قال الخطابي: وفیه دلیل علی استحباب تلاوة الکتاب العزیز علی القبور؛ لأنه إذا کان یرجی عن المیت التخفیف بتسبیح الشجر فتلاوة القرآن سورة یٰس يخفف الله عنهم یومئذ".

( کتاب الوضوء،باب من الکبائر أن لایستتر من بول،ج3،ص118،ط:دار إحياء التراث العربي)

بدائع الصنائع میں ہے:

"‌فإن ‌من ‌صام ‌أو ‌صلى ‌أو ‌تصدق ‌وجعل ‌ثوابه ‌لغيره ‌من ‌الأموات ‌أو ‌الأحياء ‌جاز ‌ويصل ‌ثوابها ‌إليهم ‌عند ‌أهل ‌السنة ‌والجماعة وقد صح عن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - «أنه ضحى بكبشين أملحين: أحدهما: عن نفسه، والآخر: عن أمته ممن آمن بوحدانية الله تعالى وبرسالته» - صلى الله عليه وسلم - وروي «أن سعد بن أبي وقاص - رضي الله عنه - سأل رسول الله - صلى الله عليه وسلم - فقال يا رسول الله: إن أمي كانت تحب الصدقة أفأتصدق عنها؟ فقال النبي: - صلى الله عليه وسلم - تصدق» وعليه عمل المسلمين من لدن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - إلى يومنا هذا من زيارة القبور وقراءة القرآن عليها والتكفين والصدقات والصوم والصلاة وجعل ثوابها للأموات، ولا امتناع في العقل أيضا لأن إعطاء الثواب من الله تعالى إفضال منه لا استحقاق عليه، فله أن يتفضل على من عمل لأجله بجعل الثواب له كما له أن يتفضل بإعطاء الثواب من غير عمل رأسا."

(كتاب الحج،فصل نبات الحرم،ج2،ص212،ط:دار الكتب العلمية)

 فقط واللہ اعلم

فتوی نمبر : 144502100826
دارالافتاء : جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن


’’سنّت‘‘ کے معنی طریقہ وعادت کے ہیں اور ہم جب سنّت کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو اس سے مراد ہوتا ہے ’’آنحضرت ﷺ کا طریقۂ زندگی‘‘۔امام راغب اصفہانیؒ لکھتے ہیں: ’’وسُنّۃ النبی ا طریقتہ التی کان یتحرّاہا‘‘۔            (مفردات،ص:۲۴۵) ترجمہ:۔’’آنحضرت ا کی سنت سے مراد ہے آپ ا کا وہ طریقہ جس کو آپ ا قصداً اختیار فرمایا کرتے تھے‘‘۔ سنت کا یہ مفہوم بڑا وسیع اور جامع ہے اور پورا دین اور دین کے تمام شعبے اس کے اندر آجاتے ہیں۔ آنحضرت ا نے کن عقائد کی تعلیم فرمائی؟ عبادات کیسے ادا فرمائیں تھیں؟ معاملات ومعاشرت میں آپ ا کا طریقہ کیا تھا؟ سیاست وجہانبانی، صلح وجنگ اور فصلِ خصومات میں آپ ا کا کیا انداز تھا؟ آپ ا کی رفتار وگفتار، نشست وبرخاست کیسی ہوتی تھی؟ کیسی شکل وشباہت اور لباس وپوشاک کو آپ ا پسند یا ناپسند فرماتے تھے؟ الغرض عقائد ہوں یا عبادات، اخلاق ہوں یا معاملات، معاشرت ہو یا سیاست، زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جس میں آنحضرت ا کے نقشِ پا ثبت نہ ہوں اور آپ ا نے اس میں امت کی رہنمائی نہ فرمائی ہو۔ سُنّت کی عظمت واہمیت:     ہرمسلمان کو شاہراہِ حیات پر سفر کرتے ہوئے قدم قدم پر یہ دیکھنا ضروری ہے کہ اس معاملہ میں آنحضرت ا کی سنت اور آپ ا کا طریقہ کیا ہے؟ اس کے دلائل بے شمار ہیں، مگر میں یہاں صرف تین وجوہ کے ذکر پر اکتفا کروں گا: اول: یہ کہ ہم آنحضرت ا کے امتی ہیں۔ کلمہ طیبہ ’’لا إلٰہ إلا اﷲ محمد رسول اﷲ‘‘  پڑھ کر ہم آپ ا کی رسالت ونبوت پر ایمان لائے ہیں اور ہم نے یہ عہد باندھا کہ ہم آپ ا کے ہر حکم اور ہر ارشاد کی تعمیل کریںگے۔ اس معاہدۂ ایمانی کا تقاضا یہ ہے کہ ہماری تمام زندگی کا کوئی قدم منشائے نبوی ا کے خلاف نہ اٹھے اور ہماری تمام خواہشات سنت نبوی ا کے تابع ہوں، کیونکہ اس کے بغیر ایمان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ آنحضرت ا کا ارشاد گرامی ہے: ’’لایؤمن أحدکم حتی یکون ہواہ تبعاً لما جئت بہ‘‘۔         (مشکوٰۃ،ص:۳۰) ترجمہ:۔’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ اس کی خواہش اس دین کے تابع ہو جائے، جسے میں لے کر آیاہوں‘‘۔ پس آنحضرت ا کے منصب رسالت ونبوت اور ہمارے اُمتی ہونے کا تقاضا ہے کہ ہم آنحضرت ا کے طریقۂ زندگی کو پورے طور پر اپنائیں اور کسی دوسرے طریقۂ زندگی کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھیں۔ حق تعالیٰ شانہٗ کا ارشاد ہے: ’’وَمَا أَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ إِلَّا لِیُطَاعَ بِإِذْنِ اﷲِ‘‘۔                  (النسائ:۶۴) ترجمہ:۔’’اور ہم نے جو رسول بھی بھیجا، صرف اسی لئے بھیجا کہ بحکم خداوندی اس کی فرمانبرداری کی جائے‘‘۔ آپ ا کی سنت اور آپ ا کے طریقۂ زندگی سے انحراف، ایک لحاظ سے گویا آپ ا کی رسالت ونبوت کا انکار کردینے کے ہم معنی ہے۔ صحیح بخاری میں آنحضرت ا کا ارشاد ہے: ’’کل أمتی یدخلون الجنۃ إلا من أبیٰ، قیل ومن أبیٰ؟ قال من أطاعنی دخل الجنۃ، ومن عصانی فقد أبیٰ‘‘۔                           (مشکوٰۃ،ص:۲۷) ترجمہ:۔’’میری امت کے سارے لوگ جنت میں داخل ہوںگے، سوائے اس کے جس نے انکار کردیا، عرض کیا گیا، انکار کس نے کیا؟ فرمایا: جس نے میرا حکم مانا وہ جنت میں داخل ہوگا اور جس نے حکم عدولی کی، اس نے انکار کردیا‘‘۔ دوسری وجہ یہ کہ آنحضرت ا سے ہمارا تعلق محض قانون اور ضابطے کا نہیں، کیونکہ آپ ا ہمارے محبوب بھی ہیں اور محبوب بھی ایسے کہ حسینانِ عالم میں کوئی بھی محبوبیت میں آپ ا کی ہمسری نہیں کرسکتا، چنانچہ ارشاد ہے: ’’لایؤمن أحدکم حتی أکون أحب إلیہ من والدہ وولدہ والناس أجمعین‘‘۔                                                                   (متفق علیہ، مشکوٰۃ، ص:۱۲) ترجمہ۔’’تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا، یہاں تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ، اس کی اولاد اور سارے انسانوں سے زیادہ محبوب ہوجاؤں‘‘۔ اور محبت کا خاصہ یہ ہے کہ وہ محب کو اپنے محبوب کا ہم رنگ بنا دیتی ہے۔ کسی عاشق دل دادہ سے پوچھئے کہ اس کے نزدیک محبوب کی اداؤں کی کیا قدر وقیمت ہے اور وہ چال ڈھال اور رفتار وگفتار میں اپنے محبوب سے ہم رنگی ومشابہت کی کتنی کوشش کرتا ہے؟۔ آنحضرت ا جب جانِ جہاں اور محبوبِ محبوبانِ عالم ہیں تو آپ ا کے ایک سچے عاشق کو آپ ا کی اداؤں پر کس قدر مرمٹنا چاہئے؟ ایک عارف فرماتے ہیں: پس جو لوگ آپ ا کی سنت سے انحراف کرکے یہود ونصاریٰ کی سنت کو اپناتے ہیں، ان کا دعوئ محبت بے روح ہے: تعصی الرسول وأنت تزعم حبہ ہذا لعمری فی الزمان بدیع لو کنت صادقا فی حبہ لأطعتہ فإن المحب لمن یحب یطیع ترجمہ:۔’’تم رسول اللہ ا کی نافرمانی بھی کرتے ہو اور آپ ا سے محبت کے بھی دعویدار ہو۔ بخدا! یہ بات تو زمانے کے عجائبات میں سے ہے۔ اگر تم آپ ا کی محبت میں سچے ہوتے تو آپ ا کی بات مانتے، کیونکہ عاشق تو اپنے محبوب کا فرمانبردار ہوتا ہے‘‘۔ تیسری وجہ یہ کہ: آنحضرت ا خاتم النبیین ہیں اور قیامت تک کے لئے دنیا وآخرت کی کامیابی وکامرانی اور انسانیت کی فلاح وسعادت آپ ا کے قدموںسے وابستہ کردی گئی ہے۔ اگر اس دنیا میں سعادت وکامیابی کے ایک سے زیادہ راستے ہوتے تو ہمیں اختیار ہوتا کہ جس راستے کو چاہیں اختیار کرلیں، لیکن یہاں ایسا نہیں، بلکہ ہدایت وسعادت، صلاح وفلاح اور کامیابی وکامرانی کا بس ایک ہی راستہ کھلا ہے اور وہ حضرت خاتم النبیین محمد رسول اللہ ا کا راستہ ہے، اس راستہ کے علاوہ باقی تمام راستے بند کر دیئے گئے ہیں: مپندار سعدی کہ راہِ صفا تواں رفت جز بر پئے مصطفیؐ حضرت عمر ؓ کا مشہور قصہ ہے کہ وہ ایک بار یہودیوں کے بیت المدراس تشریف لے گئے اور وہاں سے تورات کے چند اوراق اٹھا لائے اور انہیں آنحضرت ا کی خدمت میں پڑھنا شروع کیا۔ آنحضرت ا کے چہرۂ انور کا رنگ بدلنے لگا۔ حضرت ابوبکرؓ کے توجہ دلانے پر انہوں نے آنحضرت اکے چہرۂ انور کا رنگ دیکھا تو اوراق لپیٹ کر رکھ دیئے، اور یہ کہنا شروع کیا: ’’أعوذ باﷲ من غضب اﷲ وغضب رسولہ، رضیت باﷲ ربا، وبالإسلام دینا وبمحمد ا نبیا‘‘۔ ترجمہ:۔’’میں اللہ کی پناہ چاہتا ہوں اللہ کے غضب سے اور اس کے رسول ا کے غضب سے، میں اللہ تعالیٰ کو اپنا رب مان کر، اسلام کو اپنا دین مان کر اور محمد ا کو اپنا نبی مان کر راضی ہوا‘‘۔ آنحضرت ا نے فرمایا: ’’والذی نفس محمد بیدہ لو بدالکم موسیٰ فاتبعتموہ وترکتمونی لضللتم عن سواء السبیل ولو کان حیاً وأدرک نبوتی لاتبعنی‘‘۔      (مشکوٰۃ،ص:۲۲۲) ترجمہ:۔’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ میں محمد ا کی جان ہے، اگر حضرت موسیٰ علیہ السلام تمہارے سامنے آجائیں اور تم مجھے چھوڑ کر ان کی پیروی کرنے لگو تو سیدھے راستے سے بھٹک جاؤگے اور اگر وہ زندہ ہوتے اور میری نبوت کا زمانہ پاتے تو وہ خود میری پیروی کرتے‘‘۔ اور حضرت جابر ؓ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں: ’’أمتہوّکون أنتم کما تہوّکت الیہود والنصاریٰ؟… لقد جئتکم ببیضاء نقیۃ ولو کان موسیٰ حیا ما وسعہ إلا اتباعی‘‘۔                (مشکوٰۃ،ص:۳۰) ترجمہ:۔’’کیا تم اسی طرح بھٹکا کروگے جس طرح یہود ونصاریٰ بھٹک رہے ہیں، بخدا ! میں تمہارے پاس روشن اور صاف ستھری شریعت لے کر آیا ہوں اور اگرحضرت موسیٰ علیہ السلام زندہ ہوتے تو ان کو بھی میری پیروی کے سوا چارہ نہ ہوتا‘‘۔ تمام انبیاء کرام علیہم السلام اپنے اپنے دور میں ہدایت وسعادت کے سرچشمے تھے، لیکن آنحضرت ا کی تشریف آوری کے بعد یہ تمام سرچشمے بند کر دیئے گئے اور ان پر خط تنسیخ کھینچ دیا گیا اور آنحضرت ا کی سنت وطریقہ کے بجائے ان حضرات کی شریعت وطریقہ پر عمل کرنا بھی ضلالت وگمراہی قرار پائی۔ اس واقعہ سے ہمیں تین عظیم الشان سبق ملتے ہیں: ایک: یہ کہ جب انبیاء گذشتہ کی پیروی بھی ہمارے لئے موجب فلاح وسعادت نہیں، بلکہ گمراہی وضلالت ہے تو ان کی بھٹکی ہوئی قوموں کے نقشِ قدم پر چلنا فلاح وسعادت کا موجب کیونکر ہوسکتا ہے؟ اسی سے اندازہ کیجئے کہ آج کے مسلمان جو سنت نبوی ا پر عمل پیرا ہونے کے بجائے یہود ونصاریٰ کی نقالی میں فخر محسوس کرتے ہیں، وہ فلاح وسعادت سے کس قدر محروم ہیں اور ان کی ضلالت وگمراہی کس قدر لائقِ صد ماتم ہے۔ آج اُمتِ مسلمہ در بدر کی ٹھوکریں کھا رہی ہے، اس کا راز یہی ہے کہ اس نے اپنا قبلہ تبدیل کرلیا۔ وہ نبی رحمت ا کے دامنِ رحمت سے کٹ کر وابستۂ اغیار ہوگئی ہے۔ وہ آنحضرت ا کے مقدس طریقۂ زندگی کو چھوڑ کر گمراہ ومغضوب قوموں کے اختراع کردہ نظامہائے زندگی کی تاریکیوں میں بھٹک رہی ہے۔ اس نے آفتاب مدینہ سے منہ موڑ کر مغرب کی ظلمتوں سے روشنی کی دریوزہ گری شروع کردی ہے۔ انہوں نے اپنے آئین سیاست اور اپنے آداب معاشرت، اپنی شکل وصورت اور اپنی عقل وخرد کو یہود ونصاریٰ کے سانچے میں ڈھال لیا ہے۔ آج کسی مسلمان کی شکل وصورت، اس کے رہن وسہن، اس کی نشست وبرخاست، اس کے اندازِ گفتگو اور اس کے مظاہر زندگی کو دیکھ کر یہ اندازہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ یہ حضرت محمد رسول اللہ ا کا امتی ہے یا کسی یہودی وعیسائی اور کسی خدا بیزار قوم کا فرد ہے۔ اپنے نبی رحمت ا سے ایسی بے وفائی واحسان فراموشی کا نتیجہ ہے کہ انفرادی طور پر ہر شخص کا ذہنی سکون غارت ہوچکا ہے اور اجتماعی طور پر ذلت وخواری ان کا مقدر بن چکی ہے۔ خرمانتواں یافت ازیں خارکہ کشتیم دیبا نتواں بافت ازیں پشم کہ رشتیم دوسرا سبق ہمیں اس سے یہ ملتا ہے کہ جب آنحضرت ا کی تشریف آوری کے بعد حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی شریعتیں بھی منسوخ ہوگئیں، تو آپ ا کے کسی نقال اور کسی جھوٹے مدعی نبوت کی پیروی کی گنجائش کب رہ جاتی ہے؟ اور اگر دورۂ محمدی ا میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی پیروی بھی گمراہی وضلالت ہے تو کسی مسیلمۂ پنجاب اور اسودِ قادیان کی پیروی کے جہالت وحماقت ہونے میں کیا شبہ رہ سکتا ہے؟۔ تیسرا سبق ہمیں یہ ملتا ہے کہ جب آنحضرت ا کے بعد انبیاء گذشتہ کی سنتوں اور طریقوں کو اختیار کرنے کی بھی گنجائش نہیں تو بعد کے کسی انسان کی خود تراشیدہ خواہشات وبدعات کو اپنانے کی کیا گنجائش رہ جاتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ دین کے نام پر خود تراشیدہ رسوم وبدعات کی سخت مذمت کی گئی ہے اور ضلالت وگمراہی فرمایا گیاہے۔ حضرت عرباض بن ساریہ ؓ فرماتے ہیں کہ ایک دن نماز سے فارغ ہو کر آنحضرت ا نے ہمیں ایسا بلیغ وعظ فرمایا، جس سے آنکھوں سے سیل اشک رواں ہوگئے اور دل تھر تھرا گئے۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ تو ایسا وعظ فرمایا، گویا آپ ہمیں رخصت فرمارہے ہیں، اس لئے ہمیں کوئی خصوصی وصیت فرمایئے، ارشاد ہوا: ’’أوصیکم بتقوی اﷲ والسمع والطاعۃ، وإن کان عبداً حبشیاً فإنہ من یعش منکم بعدی فسیریٰ اختلافاً کثیراً، فعلیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین، تمسکوا بہا، وعضوا علیہا بالنواجذ، وإیاکم ومحدثات الأمور فان کل محدثۃ بدعۃ وکل بدعۃ ضلالۃ‘‘۔ (مشکوٰۃ،ص:۳۰) ترجمہ:۔’’میں تمہیں اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہنے کی اور امیر کی سمع وطاعت بجالانے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ حبشی غلام ہو، کیونکہ تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہا، وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا، پس میری سنت کو اور خلفائے راشدینؓ کی سنت کو لازم پکڑنا اور دانتوں کی کچلیوں سے مضبوط تھام لینا اور جو نئے نئے امور دین میں اختراع کئے جائیں ان سے بچتے رہنا، کیونکہ ہر ایسی ایجاد تو بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے‘‘۔ اکابر امت فرماتے ہیں کہ دین میں کسی نئی بدعت کی ایجاد در پردہ رسالت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والتسلیمات) کی تنقیص ہے، کیونکہ بدعت کے ایجاد کرنے والا گویا یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس کی ایجاد کردہ بدعت کے بغیر دین نامکمل ہے اور یہ کہ نعوذ باﷲ !خدا ورسول ا کی نظر وہاں تک نہیں پہنچی، جہاں اس بدعت پرست کی پہنچی ہے، یہی وجہ ہے کہ بدعت کے ایجاد کرنے کو دین اسلام کے منہدم کردینے سے تعبیر فرمایا، حدیث میں ہے: ’’مَنْ وَقَّرَ صاحبَ بدعۃٍ فقد أعان علی ہدم الإسلام‘‘۔           (مشکوٰۃ،ص:۳۱) ترجمہ:۔’’جس شخص نے کسی بدعتی کی تعظیم وتوقیر کی، اس نے اسلام کے منہدم کرنے پر مدد کی‘‘۔ ان ضروری امور کی وضاحت کے بعد اب ’’برکاتِ سنت‘‘ کو بیان کرتا ہوں، لیکن یہ عرض کردینا ضروری ہے کے ’’برکاتِ سنت‘‘ بے شمار ہیں، ان کا احاطہ ممکن نہیں، یہاں بطور نمونہ چند امور کو بیان کر سکوں گا۔ محبوبیتِ خداوندی: اتباع سنت کی سبب سے اہم برکت یہ ہے کہ اس کی بدولت آدمی اللہ تعالیٰ کی نظر میں محبوب ہوجاتا ہے، قرآن کریم میں ہے: ’’قُلْ إِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اﷲَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اﷲُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاﷲُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ‘‘۔                                                  (آل عمران:۳۱) ترجمہ:۔’’آپ فرما دیجئے کہ اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میرا اتباع کرو، خدا تعالیٰ تم سے محبت کرنے لگیںگے اور تمہارے سب گناہوں کو معاف کردیںگے اور اللہ تعالیٰ بڑے معاف کرنے والے بڑے عنایت فرمانے والے ہیں‘‘۔ حضرت شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ اس کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں: ’’یعنی اگر دنیا میں آج کسی شخص کو اپنے مالک حقیقی کی محبت کا دعویٰ یا خیال ہو تو لازم ہے کہ اس کو اتباع محمدی ا کی کسوٹی پر کس کر دیکھ لے، سب کھرا کھوٹا معلوم ہو جائے گا۔ جو شخص جس قدر حبیب خدا محمد رسول اللہ ا کی راہ چلتا، آپ ا کی لائی ہوئی روشنی کو مشعل راہ بناتا ہے اسی قدر سمجھنا چاہئے کہ خدا کی محبت کے دعویٰ میں سچا اور کھرا ہے اور جتنا اس دعویٰ میں سچا ہوگا، اتنا ہی حضور ا کی پیروی میں مضبوط ومستعد پایا جائے گا، جس کا پھل یہ ملے گا کہ حق تعالیٰ اس سے محبت کرنے لگے گا اور اللہ تعالیٰ کی محبت اور حضور ا کے اتباع کی برکت سے پچھلے گناہ معاف ہو جائیںگے اور آئندہ طرح طرح کی ظاہری وباطنی مہربانیاں مبذول ہوں گی‘‘۔ اتباع نبوی ا کی برکت سے حق تعالیٰ شانہ کی محبت ومحبوبیت حاصل ہونے کا راز یہ ہے کہ آنحضرت ا محبوب رب العالمین ہیں۔ جو شخص بھی آنحضرت ا کی شکل وشباہت، آپ ا کے اخلاق واعمال اور آپ ا کی سیرت وکردار کو اپنائے گا، وہ اللہ تعالیٰ کی نظر میں محبوب ہو جائے گا، کیونکہ محبوب کی ادائیں بھی محبوب ہوتی ہیں۔ دوسرے: یہ کہ آپ ا کی ہرہرادا اور آپ ا کا ہر قول وعمل منشأ الٰہی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، گویا اگر کوئی شخص رضائے الٰہی کو مجسم شکل میں دیکھنا چاہتا ہو، وہ آنحضرت ا کو دیکھ لے، یہی وجہ ہے کہ آپ ا کی اطاعت کو عین اطاعتِ خداوندی قرار دیا گیا، چنانچہ قرآن مجید میں ارشاد ہے: ’’مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ أَطَاعَ اﷲَ، وَمَنْ تَوَلّٰی فَمَا أَرْسَلْنَاکَ عَلَیْہِمْ حَفِیْظاً‘‘۔                                                        (النسائ:۸۰) ترجمہ:۔’’جس نے حکم مانا رسول کا، اس نے حکم مانا اللہ کا۔ اور جو الٹا پھرا تو ہم نے تجھ کو نہیں بھیجا ان پر نگہبان‘‘۔                                (ترجمۂ شیخ الہندؒ) پس جب آپ ا کی سنت، رضائے الٰہی کا معیار ہوئی اور آپ ا کی اطاعت عین اطاعت خداوندی قرار پائی تو جو شخص بھی آپ ا کی سنت اور آپ ا کے مبارک طریقوں کو اپنائے گا اور جو شخص بھی آپ ا کی معین کردہ شاہراہ عمل پر گامزن ہوگا، وہ رضائے الٰہی کا مورد ہوگا اور ’’رضی اﷲ عنہم ورضوا عنہ‘‘ کی بشارت سے سرفراز ہوگا۔ یہ امت محمدیہ (علی صاحبہا الصلوۃ والتسلیمات) کی انتہائی سعادت وخوش بختی ہے کہ انہیں آنحضرت ا کی پیروی سے محبوبیت ورضائے الٰہی کا مقام میسر آسکتا ہے۔ گوئے توفیق وسعادت درمیان افگندہ اند کس بمیدان در نمی آید سواراں را چہ شد یہاں یہ نکتہ بھی فراموش نہیں کرنا چاہئے کہ محبت دو طرفہ چیز ہے، پس جو شخص اللہ تعالیٰ کا محبوب ہوگا وہ محب بھی ہوگا، جیساکہ ارشاد ہوا ہے: ’’یُحِبُّہُمْ وَیُحِبُّوْنَہٗ‘‘ ۔یعنی ’’اللہ تعالیٰ ان سے محبت رکھتا ہے اور وہ اللہ سے محبت رکھتے ہیں‘‘۔ گویا محبوب رب العالمین ا کی سنت کو اختیار کرنے والے کو دو انعام عطا ہوتے ہیں: ایک: یہ کہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے اور دوسرے: یہ کہ اسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے ’’محب صادق‘‘ ہونے کی سند عطا کی جاتی ہے۔ یہ دونوں کتنے بڑے انعام ہیں؟ اس کی قدر کسی عاشقِ صادق سے پوچھئے، حضرت اقدس عارف باللہ ڈاکٹر عبد الحئ عارفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: جب کبھی شوریدگانِ عشق کا ہوتا ہے ذکر اے زہے قسمت! کہ ان کو یاد آجاتا ہوں میں معیتِ نبوی ا: اتباع سنت کی ایک برکت یہ ہے کہ ایسے شخص کو جنت میں آنحضرت ا کی معیت نصیب ہوگی، آنحضرت ا نے اپنے خادم خاص حضرت انس ؓ سے فرمایا تھا: ’’یا بنی! إن قدرت أن تصبح وتمسی ولیس فی قلبک غش لأحد فافعل ثم قال: یا بنی! وذلک من سنتی، ومن أحب سنتی فقد أحبنی ومن أحبنی کان معی فی الجنۃ‘‘۔                                  (مشکوٰۃ،ص:۳۰) ترجمہ:۔’’اے بیٹا! اگر تو اس پر قادر ہو کہ ایسی حالت میں صبح وشام کرے کہ تیرے دل میں کسی کی جانب سے میل نہ ہو تو ضرور ایسا کر، پھر فرمایا: اے بیٹا! اور یہ میری سنت میں سے ہے اور جس نے میری سنت سے محبت کی، اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے مجھ سے محبت کی، وہ جنت میں میرے ساتھ ہوگا‘‘۔ 

اس حدیث پاک میں سنت نبوی ا کو محبوب ومرغوب رکھنے والے کے لئے متعدد انعامات کی بشارت ہے۔
 ایک: یہ کہ ایسے شخص کا نام آنحضرت ا کے عشاق ومحبین میں لکھا جائے گا، گویا ’’عشق رسول‘‘ کا معیار ہی ’’سنت نبوی ا‘‘ سے محبت ہے، جو شخص جس قدر متبع سنت ہوگا، اسی قدر عشق رسالت میں اس کا مقام بلند ہوگا اور جو شخص جس قدر سنت نبوی کی پیروی سے محروم ہوگا، اسی قدر ’’عشق نبوی‘‘ سے بے نصیب ہوگا۔
 دوسرے: یہ کہ اتباع سنت پر صادق مصدوق ا نے جنت کا وعدہ فرمایا ہے اور یہ ایسا وعدہ ہے جس میں تخلف کا کوئی امکان نہیں، پس عشق ومحبت کے ساتھ سنت نبوی کی پیروی جنت کا ٹکٹ ہے۔ 
تیسرا انعام جو تمام انعامات سے مزید تر ہے، یہ ہے کہ ایسے شخص کو جنت میں آنحضرت ا کی رفاقت ومعیّت نصیب ہوگی اور یہ مضمون قرآن کریم میں بھی منصوص ہے، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے: ’’مَنْ یُّطِعِ اﷲَ وَالرَّسُوْلَ فَأُولٰئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اﷲُ عَلَیْہِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّہَدَائِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولٰئِکَ رَفِیْقاً، ذٰلِکَ الْفَضْلُ مِنَ اﷲِ وَکَفٰی بِاﷲِ عَلِیْماً‘‘۔                                    (النسائ:۶۸،۶۹) ترجمہ:۔’’اور جو کوئی حکم مانے اللہ کا اور اس کے رسول کا، سو وہ ان کے ساتھ ہیں جن پر اللہ نے انعام فرمایا کہ وہ نبی اور صدیق اور شہید اور نیک بخت ہیں اور اچھی ہے ان کی رفاقت، یہ فضل ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ کافی ہے جاننے والا‘‘۔(ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ) اس نعمتِ کبریٰ اور دولتِ عظمیٰ سے بڑھ کر کونسی نعمت ہوسکتی ہے کہ کسی خوش بخت کو سرور کونین ا اور دیگر انبیاء علیہم السلام، صدیقینؓ، شہدائؒ اور صالحینؒ کی صحبت ورفاقت میسر آجائے۔ 
سوشہید کا مرتبہ: شہید فی سبیل اللہ کا مقام کتنا بلند ہے؟ اور اسے کس قدر انعامات سے نوازا جاتا ہے؟ قرآن کریم اور احادیث نبویہ ا میں اس کی تفصیل موجود ہے، لیکن ’’سنت نبوی ا‘‘ پر مضبوطی کے ساتھ عمل کرنے والے کو سو شہید کا مرتبہ عطا کیا جاتا ہے، حدیث شریف میں ہے: ’’من تمسک بسنتی عند فساد أمتی فلہ أجر مائۃ شہید‘‘۔  (مشکوٰۃ،ص:۳۰) ترجمہ:۔’’جس شخص نے میری سنت کو مضبوطی سے تھامے رکھا میری امت کے بگاڑ کے وقت، اس کے لئے سو شہید کا اجر ہے‘‘۔ یہ حدیث متعدد فوائد پر مشتمل ہے: 
ایک: یہ کہ اس میں امت کے عمومی بگاڑ کی پیشن گوئی فرمائی گئی ہے۔ ’’عمومی بگاڑ‘‘ کا لفظ میں نے اس لئے کہا کہ لاکھ دو لاکھ آدمیوں کی جماعت میں اگر سو پچاس آدمی بگڑے ہوئے ہوں تو اس بگاڑ کو پوری جماعت کی طرف منسوب نہیں کیا جاتا۔ یہاں آنحضرت ا نے ’’فساد امت‘‘ کا لفظ استعمال فرمایا ہے، جس میں ا س طرف اشارہ ہے کہ امت کی اکثریت میں فساد آئے گا، کہیں عقائد کا بگاڑ ہوگا، کہیں اعمال کا، کہیں اخلاق کا، کہیں معاملات اور معاشرت کا بگاڑ ہوگا، آج امت کے مجموعی حالات پر نظر ڈالی جائے تو ’’فساد أمتی‘‘ کا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ 
دوم: یہ کہ امت کا یہ بگاڑ ترک سنت کی وجہ سے ہوگا، یعنی امت، آنحضرت ا والے اعمال اور اخلاق وآداب کو چھوڑ کر گمراہ قوموں کے نقش قدم پر چل پڑے گی اور یہی چیز اس کے عالمگیر فساد کا سبب بن جائے گی۔ یہ امت غیر قوموں کی تقلید کے لئے وجود میں نہیں لائی گئی، بلکہ اقوامِ عالم کی امامت وقیادت کا تاج اس کے سر پر رکھا گیا تھا، اور وہ امامت وقیادت کے منصب پر اسی وقت تک فائز رہے گی، جب تک وہ خود اپنے نبی الرحمت ا کی مقتدی ہو، آپ ا کے نقش قدم کی پابند ہو اور آپ ا کی لائی ہوئی امانت کی نگہبان وپاسبان ہو، چنانچہ ارشاد خداوندی ہے ہے: ’’کُنْتُمْ خَیْرَ أُمَّۃٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ، تَأْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَتُؤْمِنُوْنَ بِاﷲِ‘‘۔                                                                   (آل عمران:۱۱۰) ترجمہ:۔’’تم ہو بہتر سب امتوں سے جو بھیجی گئی عالم میں، حکم کرتے ہو اچھے کاموں کا اور منع کرتے ہو برے کاموں سے اور ایمان لاتے ہو اللہ پر‘‘۔    (ترجمہ حضرت شیخ الہندؒ) افسوس ہے کہ قرآن کریم نے ’’خیر امت‘‘ کے جو اوصاف وخصوصیات اس آیت کریمہ میں بیان فرمائے ہیں، اپنے نبی رحمت ا کی سنت وطریقہ کو چھوڑنے کی وجہ سے امت ان خصوصیات سے ہاتھ دھو بیٹھی، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اقوام عالم کی قیادت کے بجائے ان کی دریوزہ گر ہو کر رہ گئی۔ آج اس کی گراوٹ وپستی کا یہ عالم ہے کہ وہ مادیات ہی میں دوسری قوموں سے بھیک نہیں مانگ رہی، بلکہ آئین وقانون، تمدن وشہریت اور اخلاق ومعاشرت کے آداب بھی باہر سے در آمد کررہی ہے۔ فإلی اﷲ المشتکیٰ۔ 
سوم: یہ کہ امت کے عمومی فساد اور بگاڑ کی فضا میں بھی ہر امتی کو تاکید فرمائی گئی ہے کہ وہ سنت نبوی ا سے تمسک کرے اور اس کا دامن مضبوطی سے تھامے رکھے، ایسے پُر از فساد ماحول میں بھی کسی شخص کے لئے یہ کہنے کی گنجائش نہیں ہے کہ ’’اجی کیا کریں؟ پورا معاشرہ ہی بگڑا ہوا ہے، ایسے ماحول میں ’’سنت نبوی ا‘‘ پر عمل کیسے کریں؟‘‘ نہیں، بلکہ چار سو ہزار فتنہ وفساد ہو، معاشرہ اور ماحول کتنا ہی بگڑا ہوا ہو، اتباع سنت کی پابندی بہرحال لازم ہے، یہ کبھی ساقط نہیں ہوسکتی، یہی وجہ ہے کہ آنحضرت ا نے امت کے عمومی بگاڑ اور فساد کے زمانے میں بھی’’سنت‘‘ کو مضبوطی، عزم اور حوصلہ کے ساتھ تھامنے کا حکم فرمایا ہے۔ 
چہارم: یہ کہ جو شخص ایسے فساد آمیز ماحول میں بھی ’’سنت نبوی‘‘کو سینے سے لگائے رکھے، اس کو بشارت دی گئی ہے کہ یہ قیامت کے روز سو شہیدوں کا اجر ومرتبہ پائے گا، کیونکہ شہید تو ایک مرتبہ اپنی جان عزیز کا نذرانہ بارگاہِ خداوندی میں پیش کرکے سرخرو ہوجاتا ہے اور یہ شخص کار زار زندگی میں جہادِ مسلسل کررہا ہے، اس پر ہرطرف سے طعنوں کی بارش ہو رہی ہے، کوئی ’’دقیانوسی‘‘ کہہ رہا ہے، کوئی کٹھ ملاّ کا خطاب دے رہا ہے، کوئی ’’رجعت پسند‘‘ کی پھبتی اڑا رہاہے۔ الغرض اس مجاہد کو ہزار طعنے برداشت کرنا پڑ رہے ہیں، جن سے اس کے قلب وجگر چھلنی ہیں، لیکن اس نے بھی ’’محمد رسول اللہ ا کی غلامی کا عہد باندھ رکھا ہے اور وہ ہر قیمت پر اس عہد کو نبھارہا ہے، اس لئے کوئی شک نہیں کہ اس کا کارنامہ سو مجاہدوں کے برابر شمار کئے جانے کے لائق ہے، ایسا شخص مرتے وقت پوری طعنہ زن قوم کو مخاطب کرکے کہتا ہے: میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے فقیرانہ آئے صدا کر چلے اور آنحضرت ا کی بارگاہِ عالی میں عرض کرتا ہے: جو تجھ بن نہ جینے کا کہتے تھے ہم سو اس عہد کو ہم وفا کر چلے ۔
وآخر دعوانا أن الحمد ﷲ رب العالمین وصلی اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ صفوۃ البریۃ محمد وآلہ وأصحابہ وأتباعہ أجمعین۔

تحریر: امام اھلسنت مفتی احمد الرحمن رحمۃ اللہ علیہ





سورۃ البقرۃ

آیت نمبر: 284 - 286

لِّلَّهِ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَإِن تُبْدُوا مَا فِي أَنفُسِكُمْ أَوْ تُخْفُوهُ يُحَاسِبْكُم بِهِ اللَّهُ ۖ فَيَغْفِرُ لِمَن يَشَاءُ وَيُعَذِّبُ مَن يَشَاءُ ۗ وَاللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ  قَدِيرٌ
آمَنَ الرَّسُولُ بِمَا أُنزِلَ إِلَيْهِ مِن رَّبِّهِ وَالْمُؤْمِنُونَ ۚ كُلٌّ آمَنَ بِاللَّهِ وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ لَا نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّن رُّسُلِهِ ۚ وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ غُفْرَانَكَ رَبَّنَا وَإِلَيْكَ  الْمَصِيرُ
لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ ۗ رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ  الْكَافِرِينَ



کہتا نہیں ہے کوئی بھی سچ بات ان دنوں
اچھے نہیں ہیں شہر کے حالات ان دنوں

احباب کا رویہ بھی بدلا ہوا سا ہے
کچھ تنگ ہوگیا ہے مرا   ہاتھ ان دنوں

اس کو بھی اپنے حسن په ناز ہوگیا  
ٹھہرے ہوئے ہیں میرے بھی جذبات ان دنوں

الجھا دیا ہے مجھ کو غم روزگار نے
ممکن نہیں ہے تجھ سے ملاقات ان دنوں

عارف مجھے بھی دکھ تھا کبھی کائنات کا
خود میں الجھ گئی ہے مری ذات ان دنوں

شاعر: افتخار عارف



جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گل چھوڑ گیا، دل مرا پاگل نکلا

جب اُسے ڈھونڈنے نکلے تو نشاں تک نہ ملا
دل میں موجود رہا، آنکھ سے اوجھل نکلا

اک ملاقات تھی جو دل کو سدا یاد رہی
ہم جسے عمر سمجھتے تھے، وہ اک پل نکلا

وہ جو افسانۂ غم سن کے ہنسا کرتے تھے
اتنے روئے ہیں کہ سب آنکھ کا کاجل نکلا

ہم سکون ڈھونڈنے نکلے تھے پریشان رہے
شہر تو شہر ہے، جنگل بھی نہ جنگل نکلا

کون ایوب پریشان نہیں تاریکی میں
چاند افلاک پہ، دل سینے میں بے کل نکلا

شاعر: ایوب رومانی




کِسی ترنگ ، کسی سر خوشی میں رہتا تھا
یہ کل کی بات ہے، دل زندگی میں رہتا تھا

کہ جیسے چاند کے چہرے پہ آفتاب کی لَو
کُھلا کہ میں بھی کِسی روشنی میں رہتا تھا

سر شتِ آدم خاکی، ذرا نہیں بدلی !
فلک پہ پہنچا مگر، غار ہی میں رہتا تھا

کہا یہ کِس نے کہ رہتا تھا مَیں زمانے میں
ہجومِ درد، غمِ بے کسی میں رہتا تھا

کلام کرتا تھا قوسِ قزح کے رنگوں میں
وہ اِک خیال تھا اور شاعری میں رہتا تھا

گُلوں پہ ڈولتا پھرتا تھا اوس کی صُورت!
صدا کی لہر تھا اور نغمگی میں رہتا تھا

نہیں تھی حُسنِ نظر کی بھی کُچھ اُسے پروا
وہ ایک ایسی عجب دلکشی میں رہتا تھا

وہاں پہ اب بھی ستارے طواف کرتے ہیں
وہ جس مکان میں ، جِس بھی گلی میں رہتا تھا

بس ایک شام بڑی خاموشی سے ٹُوٹ گیا
ہمیں جو مان ، تری دوستی میں رہتا تھا

کِھلا جو پُھول تو بر باد ہوگیا امجد
طلسم رنگ مگر غنچگی میں رہتا تھا

شاعر: امجد السلام امجد


╏╠═🕌═[𝍖🕋𝍖 درسِ قرآن 𝍖🕋𝍖] 🌹 🌹  🌹

 سورہ الاسراء آیت نمبر 40

بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ
ترجمہ: شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے

اَفَاَصۡفٰٮکُمۡ رَبُّکُمۡ  بِالۡبَنِیۡنَ وَ اتَّخَذَ مِنَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ  اِنَاثًا ؕ اِنَّکُمۡ  لَتَقُوۡلُوۡنَ قَوۡلًا عَظِیۡمًا ﴿٪۴۰﴾
ترجمہ: 
بھلا کیا تمہارے رب نے تمہیں تو بیٹے دینے کے لیے چن لیا ہے، اور خود اپنے لیے فرشتوں کو بیٹیاں بنا لیا ہے ؟ (٢٣) حقیقت یہ ہے کہ تم لوگ بڑی سنگین بات کہہ رہے ہو۔
تفسیر: 
23: پیچھے کئی مرتبہ گزرا ہے کہ مشرکین عرب فرشتوں کو خدا کی بیٹیاں کہا کرتے تھے، حالانکہ خود اپنے لئے بیٹیوں کی پیدائش کو برا سمجھتے تھے، اور اپنے لئے ہمیشہ بیٹوں کی تمنا کیا کرتے تھے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ عجیب معاملہ ہے کہ تمہارے خیال کے مطابق تمہیں تو اللہ تعالیٰ نے بیٹے دینے کے لئے چن لیا ہے اور خود بیٹیاں رکھی ہیں جو تمہارے خیال کے مطابق باپ کے لئے باعث عار ہوا کرتی ہیں۔
 آسان ترجمۂ قرآن مفتی محمد تقی عثمانی


اصطلاحات کا پسِ منظر
جس طرح ہر فکر وفلسفہ اپنے تئیں کچھ مخصوص اصطلاحات رکھتاہےجن کااپنا مخصوص پسِ منظر ہوتا ہے اور ان اصطلاحی الفاظ کو اپنے مقرر کردہ مفہوم ومعنی میں لینا ضروری ہوتا ہے، ان الفاظ کا لغوی معنی مقصود ہوتا ہے اور نہ ہی متعلقہ فن کی باتوں کو ان الفاظ کے لغوی معنیٰ پر حمل کرنا درست ہوتا ہے۔ یوں ہی دینِ اسلام اور شریعتِ اسلامیہ بھی اپنےدامن میں کچھ اصطلاحی الفاظ رکھتے ہیں اور قرآن وسنت میں اگر وہ الفاظ استعمال ہو جائیں تو ان سے وہی مقرر کردہ مراد و مفہوم لینا ضروری ہوتا ہے جو شریعت نے طے کیا ہوتا ہے۔ ان سے عام لغوی معنی مراد لینا اور نصوص کو اسی لغوی معنی پر حمل کرنا کسی طرح درست نہیں ہوتا۔

شرعی اصطلاحات کی اہمیت
ان اصطلاحات کو جاننے کی ضرورت اس لیے بھی بڑھ جاتی ہے کہ بہت سے شرعی احکام ومقاصد کا تحفظ اس پر موقوف ہے، چنانچہ قرآن و سنت کی بیسیوں نصوص ایسی ہیں جن میں مختلف الفاظ کےساتھ کچھ احکام، فضائل یا وعیدات ذکر ہوتے ہیں، ان احکام وغیرہ کا مصداق ان الفاظ کا لغوی مفہوم نہیں ہوتا، بلکہ شریعت نے اس کا جو مفہوم مقرر فرمایا ہوتا ہے وہی مقصود ہوتا ہے اور اسی کے ساتھ متعلقہ حکم، فضیلت یا وعید کو مربوط کرنا مطلوب ہوتا ہے۔ ان جیسے نصوص کو اگر شرعی مفاہیم پر حمل نہ کیا جائے تو دین میں تحریف کا دروازہ کھل جاتا ہے، لیکن افسوس کےساتھ کہنا پڑرہا ہے کہ بحالت ِ موجودہ اسی بے اصولی کے آئے دن مظاہر سامنے آتے رہتے ہیں اور علمی رسوخ، اصولی مہارت اور مزاج میں اعتدال نہ ہونا وغیرہ کچھ عناصر کی وجہ سے اس نوع کی غلطیاں بکثرت پیش آتی رہتی ہیں۔

شرعی اصطلاح کیونکر بنتی ہے؟
اس سلسلہ میں بنیادی بات یہی ہے کہ کوئی چیز شرعی اصطلاح کیونکر بنتی ہے؟ کسی لفظ کو شرعی اصطلاح کی حیثیت کب حاصل ہوتی ہے؟ اصولی طور پر دیکھا جائے تو درج ذیل صورتوں میں کوئی چیز شرعی اصطلاح کی حیثیت اختیار کرلیتی ہے:
۱:شریعت کوئی لفظ نئے سرےسے وضع کرے اور ایک خاص طے شدہ مفہوم میں اس کو استعمال کرے۔ ’’نئے سرے‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ پہلےسے وہ لفظ مستعمل نہ ہو، ایسے لفظ کا شرعی اصطلاح ہونا محتاجِ بیان نہیں ہے، تاہم اس کی مثال نایاب یا کمیاب ہے۔
۲: لفظ تو پہلےسے عربی زبان اور عربی محاورات میں استعمال ہوتا رہا ہے، لیکن شریعت نے اس کو ایک خاص جامہ پہنایا اور لغوی معنی سے ہٹ کر کسی دوسرےمعنی میں استعمال کیا۔ مثال کے طور پر ’’زکوٰۃ‘‘ کا لفظ ہے کہ عربی دان کے لیے شریعت کے آنے سے پہلے بھی یہ لفظ کوئی اجنبی نہیں تھا، بلکہ وہ اس لفظ اور اس کے معنیٰ سے واقف تھے اور روز مرہ کےمحاورات میں استعمال بھی کرتے تھے، لیکن شریعت نے اس کو لغوی معنی (بڑھوتری) سے ہٹا کر ایک دوسرے معنی میں استعمال کیا جو ایک خاص قسم کی عبادت ہے اور یہ نیا مفہوم ایسا ہے کہ عرب کے باشندے پہلے اس سے بالکل مانوس نہ تھے۔
۳:لفظ پہلے سے عربی زبان میں استعمال ہوتا ہو اور شریعت نے اس لغوی معنی کو کلی طور پر متروک نہ کیا ہو، تاہم اس میں کوئی تغیر کیا ہو، چاہے وہ تغیر کمی کی صورت میں ہو یا زیادتی کی شکل میں، لیکن ضروری ہے کہ یہ تغیر اس لفظ کےشرعی مفہوم میں داخل کردیاجائے، جس کی نشانی یہی ہے کہ اگر وہ تغیر موجود نہ ہو تو شریعت کی نظر میں وہ چیز ہی معتبر نہ ہواور اس پر متعلقہ احکام مرتب نہ ہوں۔
امام کرخی  رحمۃ اللہ علیہ  کےحوالےسے ان کے شاگرد امام جصاص رازی  رحمۃ اللہ علیہ  تحریر فرماتےہیں کہ: وہ آیتِ کریمہ ’’السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ‘‘ کےعموم سے استدلال کرنےکو درست نہیں سمجھتے تھے اور اس کی وجہ یہی بیان فرماتے تھے کہ اس کا لغوی معنی ومفہوم شریعت نے برقرار نہیں رکھا، بلکہ اس میں مختلف تغیر وتصرف فرمایا ہے، اب اس سے اپنا لغوی معنی مراد لینا درست نہیں ہے۔ ’’فصول في الأصول‘‘ میں ہے:
’’وَقَدْ کَانَ شَيْخُنَا اَبُوْ الْحَسَنِ الْکَرْخِيُّ رَحِمَہُ اللہُ يَقُوْلُ مَرَّۃً فِيْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی: ’’السَّارِقُ وَالسَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْا اَيْدِيَہُمَا‘‘ إنَّہٗ (مِنَ الْمُجْمَلِ) لَا يَصِحُّ الْاِحْتِجَاجُ بِعُمُوْمِہٖ لِتَعَلُّقِ الْحُکْمِ فِيْہِ بِمَعَانٍ لَا يَنْتَظِمُہَا الْاِسْمُ وَلَيْسَ ہُوَ عِبَارَۃً عَنْہَا مِنْ نَحْوِ الْمِقْدَارِ وَالْحِرْزِ، فَصَارَ کَاسْمِ الصَّلَاۃِ وَالزَّکَاۃِ وَالصَّوْمِ وَنَحْوِہَا لِتَعَلُّقِ الْحُکْمِ فِيْہَا بِمَعَانٍ لَمْ يَکُنِ الْاِسْمُ مَوْضُوْعًا لَہَا فِي اللُّغَۃِ۔‘‘
ترجمہ: ’’ہمارے شیخ ابوالحسن کرخی رحمہ اللہ نے ایک بار آیتِ کریمہ ’’السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ‘‘ کےبارےمیں ذکر فرمایا کہ یہ مجمل ہے،جس کے عموم سے استدلال کرنا درست نہیں ہے، کیونکہ یہ حکم ایسے امور کےساتھ مربوط ہے جس کو لفظِ ’’سرقہ‘‘ (لغوی لحاظ سے) شامل نہ تھا، مثال کے طور پر خاص مقدار اور حفاظت کا ضروری ہونا، لہٰذا یہ لفظ ’’صلاۃ‘‘ ، ’’زکاۃ‘‘ اور ’’صوم‘‘ جیسے الفاظ کی طرح ہوگیا، ان تمام الفاظ میں شرعی حکم کا تعلق ایسے امور کے ساتھ ہے جن کے لیے یہ الفاظ لغوی لحاظ سےموضوع نہ تھے۔‘‘
ان آخری دونوں صورتوں کو شرعی اصطلاح قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ یہاں لفظ گو اپنے اصل معنی میں پہلےہی سے استعمال ہوتا ہے اور زبان داں شروع ہی سے اس سے واقف ہوتے ہیں، لیکن شریعت نے اس کا جو خاص مفہوم ومصداق مقرر کیا ہے، وہ پہلے معلوم نہ تھا یا متبادر نہ تھا، شریعت کی تعیین وتحدید کی وجہ سے چونکہ وہ اس لفظ کا مصداق ٹھہرا، اس لیے اس معنی میں اس کو شرعی اصطلاح کہا جاتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کو ’’منقولِ شرعی‘‘ سے بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔

اصولی حیثیت کا جائزہ
’’صلاۃ‘‘ ، ’’زکاۃ‘‘ اور ’’صوم‘‘ جیسے الفاظ، جن کو ہم شرعی اصطلاحات کہتے اور سمجھتے ہیں، ان کی اصولی نوعیت کیا ہے؟ علامہ ابن الہمام رحمہ اللہ نے اس پر مختصر مگر پُرمغز گفتگو فرمائی ہے، ان کی مشہور اصولی کتاب ’’تحریر‘‘ اوراس کی شرح ’’تقریر‘‘ میں ہے:
’’(مسألۃ لا خلاف أن) الأسماء (المستعملۃ لأہل الشرع من نحو الصلاۃ والزکاۃ) في غير معانيہا اللغويۃ (حقائق شرعيۃ يتبادر منہا ما علم) لہا من معانيہا المذکورۃ (بلا قرينۃ) سواء کان ذٰلک لمناسبۃ بينہٗ وبين المعنی اللغوي، فيکون منقولا أو لا، فيکون مبتدأ (بل) الخلاف (في أنہا) أي الأسماء المستعملۃ لأہل الشرع في المعاني المذکورۃ حقيقۃ (عرفيۃ للفقہاء) أي بسبب وضعہم إياہا لتلک المعاني، فہي في تخاطبہم تدل عليہا بلا قرينۃ۔ وأما الشارع فإنما استعملہا فيہا مجازا عن معانيہا اللغويۃ بمعونۃ القرائن، فلا تحمل عليہا إلا بقرينۃ (أو) حقيقۃ شرعيۃ (بوضع الشارع) حتی أنہا في کلامہٖ وکلامہم تدل عليہا بلا قرينۃ، (فالجمہور) الواقع (الثاني) أي أنہا حقيقۃ شرعيۃ (فعليہ) أي الثاني (يحمل کلامہٗ) أي الشارع. وکلام أہل الفقہ والأصول ومن يخاطب باصطلاحہم أيضا إذا وقعت مجردۃ عن القرائن لأنہ الظاہر منہ ومنہم (والقاضي أبو بکر) الواقع (الأول) أي أنہا حقيقۃ عرفيۃ للمتشرعۃ لا للشارع (فعلی اللغوي) يحمل إذا وقعت في کلامہٖ محتملۃ للغوي والشرعي (إلا بقرينۃ) توجب حملہٗ علی الشرعي لزعمہٖ أنہا مبقاۃ علی حقائقہا اللغويۃ علی ما زعمہٗ بعضہم وسيأتي ما يوافقہٗ في الاستدلال کما ينبہ المصنف عليہ ۔‘‘
ترجمہ: ’’اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اہلِ شرع جو الفاظ اپنے معنی لغوی کے علاوہ دوسرےمعانی میں استعمال کرتے ہیں،ان کو حقیقتِ شرعیہ کہا جاتا ہے، جیسے لفظ صلاۃ اور زکاۃ، اور ذہن ان معانی کی طرف بغیر کسی قرینہ کے چلا جاتا ہے، چاہے یہ معنی لغوی اور منقولی میں کسی مناسبت کے طور پر ہو یا  بغیر کسی مناسبت کے ہو، پہلے کو منقولی کہا جاتا ہے اور دوسرے کو مبتدأ، بلکہ اختلاف اس بات میں ہے کہ فقہاءکےہاں یہ حقیقتِ عرفیہ ہے یا شرعیہ؟ یعنی فقہاء نےان الفاظ کو ان کے اپنےمعانی کےلیے وضع کیاہے تو یہ ان کی اصطلاح میں بغیر کسی قرینہ کے ان معانی پر دلالت کرتےہیں، اور شارع نے قرائن کی بنیاد پر اپنے لغوی معانی سے نقل کرکے دوسرے معانی میں مجازاً استعمال کیا ہے، تو اب قرینہ کے بغیر ان الفاظ کو منقول الیہ معانی پر محمول نہیں کیا جائے گا، یا حقیقتِ شرعیہ ہے،یعنی شارع نے ان الفاظ کو انہی معانی کےلیےوضع کیا ہے، تو شرع اور فقہاء کی اصطلاح میں بغیر قرینہ کے ان معانی پر دلالت کرے گا؟
 جمہور کا مسلک یہ ہےکہ یہ حقیقتِ شرعیہ ہے،اور شارع،اہلِ فقہ اور اصولِ فقہ والوں کا کلام اسی پر محمول کیا جائے گا، اگر بغیر کسی قرینہ کے پایا جائے،اور قاضی ابوبکر ؒکے ہاں یہ حقیقتِ عرفیہ ہے، تو جب یہ لفظ ایسی جگہ پر پایا جائے کہ جہاں دونوں معانی کا احتمال رکھتا ہو تو اہلِ لغت اس کو معنی لغوی پر محمول کریں گے، الا یہ کہ وہاں کوئی ایسا قرینہ پایاجائے کہ وہ شرعی معنی پر حمل کرنے کا تقاضا کرتا ہو تو اس صورت میں اسی پر محمول کیا جائےگا،اس لیے کہ اہلِ لغت کا گمان یہ ہے کہ یہ اپنے حقیقی معنی لغوی میں برقرار ہے، لہٰذا بغیر قرینہ کے دوسرے معنی پر محمول نہیں کیا جائے گا۔ اور استدلال کرنےمیں اسی کے موافق مزید تفصیل آگے آجائے گی، جیساکہ مصنف اس پر تنبیہ کرے گا۔‘‘
اس عبارت کا حاصل یہ ہے کہ درج بالا الفاظ اور شرعی اصطلاحات کی اصولی نوعیت کے بارےمیں اہلِ علم کےدو موقف ہیں:
الف: یہ الفاظ ان مخصوص معانی میں حقیقتِ شرعیہ ہےجن کو خود شریعت نے ہی ان مفاہیم کےلیے متعین کررکھاہے۔
ب:یہ الفاظ ان مخصوص معانی میں حقیقتِ شرعیہ نہیں ہے جن کو خود شریعت نے ہی ان مفاہیم کےلیے متعین کر رکھا ہو، بلکہ اپنے اصل کے لحاظ سے تو یہ الفاظ لغوی معانی میں ہی استعمال ہوتے تھے، شریعت نے کسی قرینے پر اعتماد کرتے ہوئے اس کو مجاز کے طور پر اپنے ان متعین کردہ مفاہیم میں استعمال کیا ہے۔
دونوں اقوال میں اختلاف کی بنیاد پر فرق یہ سامنےآئےگا کہ اگر الفاظ کو ان معانی میں شرعی حقیقت تسلیم کرلیاجائے تو وہی اس کے اصل حقیقی معانی متصور ہوں گے اور ان شرعی مفاہیم کےمراد لینےکےلیے کسی خارجی قرینے کی ضرورت نہ رہےگی، بلکہ جس طرح ہم دیگر الفاظ بول کر اس کے حقیقی معنی ہی مراد لیتےہیں اوراس کےلیے کسی دلیل وسہارے کی ضرورت محسوس نہیں کرتے،یوں ہی اگر نصوص میں اس قسم کے الفاظ استعمال ہوجائیں،تو ان سے اپنا شرعی مفہوم ہی مراد ہوگا اور اس کےلیے کسی قرینےکی ضرورت محسوس نہیں ہوگی۔ اگر شرعی حقیقت کی بجائے اس کو حضرات فقہائےکرام کی عرفی حقیقت قرار دیا جائے تو اس صورت میں نتیجہ یہ ظاہر ہوگا کہ جن نصوص میں یہ الفاظ استعمال ہوں، وہاں ان سے شرعی یا فقہی مفہوم مراد نہیں ہوگا، بلکہ متبادر لغوی مفہوم ہی اس سے مراد ہوگا،البتہ اگر اس کے خلاف پر کوئی قرینہ قائم ہو تو اس کے مطابق مفہوم متعین ہوگا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شرعی حقیقت ماننے کی صورت میں ان الفاظ سے شرعی مفاہیم ہی مراد ہوں گے اور لغوی معنی مراد لینے کےلیے قرینہ کی ضرورت ہوگی، جبکہ دوسرے قول کےمطابق معاملہ برعکس ہوگا، یعنی نصوص میں جہاں یہ الفاظ ذکر ہوں گے،وہاں ان سے عام لغوی معانی ہی مراد ہوں گے،اس کےعلاوہ مفہوم مراد لینے کےلیے قرینہ کی ضرورت ہوگی۔
اب ان میں سے پہلا قول تو جمہور اصولیین اور حضرات فقہائےکرام کاہے ،جبکہ دوسرا قول امام باقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی جانب منسوب ہے اور علامہ قاضی بیضاوی  رحمۃ اللہ علیہ  وغیرہ سے بھی یہی منقول ہے۔دلیل وتوجیہ کےلحاظ سے جمہور ہی کا قول زیادہ راجح ہے،چنانچہ علامہ ابن الہمام  رحمۃ اللہ علیہ  نے درج بالا عبارت کے بعد امام باقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  کی دلیل کاجواب بھی دیاہے۔

شرعی اور فقہی اصطلاح کافرق
شرعی اصطلاح کی تعیین وتحدید شریعت کے مصادر سے ہی ہوسکتی ہے،جبکہ علمِ فقہ یا دیگر علوم وفنون کی اصطلاحات کی تحدید کےلیے نص کا ہونا ضروری نہیں ہے، بلکہ کسی بھی علم وفن والےکسی بھی وقت اس کا تعین کرسکتےہیں۔استعمال کےلحاظ سے دونوں میں فرق یہ ہےکہ:
الف: شرعی نصوص یعنی قرآن وحدیث میں اگر کوئی لفظ مستعمل ہے تواگر وہ لفظ ایسا ہو جس کا شریعت نے عام لغوی معنی سے ہٹ کر کوئی مفہوم ومصداق متعین کیاہو، جس کی تفصیل اوپر ذکر کی جاچکی ہے، تو اس سے وہی شرعی مفہوم ہی مراد ہوگا۔
ب:شرعی نصوص میں استعمال ہونےوالا لفظ اگر ایسا نہ ہوجو اصولی معنی میں شرعی اصطلاح کہلاتا ہے تو اس سے متبادر لغوی معنی ہی مراد ہوگا۔ ایسے الفاظ کو لغوی متبادر معانی سے ہٹاکر کسی دوسرے معنی ومفہوم پر حمل کرنا جائز نہیں ہے، بلکہ تحریفِ دین کا راستہ ہے،البتہ اگر اس متبادر معنی مراد لینےسے کوئی اصولی مانع موجود ہو تو دوسری بات ہے۔
ج:جس طرح شرعی نصوص کو متبادر لغوی معانی سے پھیر کر کسی دوسرے مفہوم پر حمل کرنا بھی کسی طرح درست نہیں ہے، یوں ہی ان نصوص کو ان فنی اور فقہی اصطلاحات پر حمل کرنا جائز نہیں ہے جو بعد کےدور میں اہلِ علم نے متعین فرمائی ہوں۔

اصطلاح مقرر کرنےکاحکم
اگر کسی علم وفن والے اپنے لیے کوئی اصطلاح وضع کرنا چاہیں تو اس میں بذات ِخود کوئی مضائقہ نہیں ہے، چاہےاس کےلیے کوئی نیا لفظ ایجاد کریں یا کسی لفظ کو عام لغوی معنی سے پھیر کر اصطلاحی مفہوم کےلیےمتعین کریں،دونوں صورتوں میں ممانعت کی کوئی بات نہیں ہے۔یوں ہی اگر کوئی گروہ /جماعت اپنے لیے اس طرح کوئی اصطلاح مقرر کرنا چاہے تو چونکہ اصل اشیاء میں اباحت ہے، اس لیے اس میں بھی مضائقہ نہیں ہے، چنانچہ مشہور ہےکہ: ’’لا مشاحۃ في الاصطلاح‘‘ اصطلاح مقرر کرنے میں نزاع کی کوئی وجہ نہیں ہے۔
 تاہم یہ ساری تفصیل فی نفسہٖ اصطلاح مقرر کرنے میں ہے۔ اگر اس کے ساتھ کچھ خارجی عناصر مل جائیں اور وہ عوامل ایسے ہوں جو اس کے ناجائز ہونے کے متقاضی ہوں تو اس کو ان عوامل کی بنیاد پر ناجائز ہی کہاجائےگا،مثال کے طور پر قادیانی لوگ جن کےکافر ہونےپر پوری امت کااجماع واتفاق ہو چکا ہے، وہ اپنے بڑوں کو خلفاء،اپنی عبادت گاہوں کو مساجد،مقبرےکو جنت البقیع نام دیتے ہیں تو چونکہ اس اصطلاح کی اجازت دینے میں متعدد شرعی مفاسد ہیں،اس لیے یہ ممنوع ہی کہلاتےہیں اورکسی صورت میں ان جیسی اصطلاحات وضع کرنے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔
 یہی وہ اصولی نکتہ ہے جس پر کما حقہ غور نہ کرنے کی وجہ سے شرعی احکام ومسائل بیان کرنےمیں دسیوں غلطیاں اور غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں،اس کاحاصل یہ ہے کہ ایک کسی چیز کی ذاتی حیثیت سے اس کاحکم ہوتاہے اور دوسرا خارجی عوامل اور بیرونی عناصر کی بنیاد پر اس کی حیثیت ہوتی ہے،ضروری نہیں ہے کہ دونوں حیثیتوں سے کسی چیز کاحکم ایک جیسا ہو، بلکہ سیکڑوں ایسی صورتیں ہوسکتی ہیں جہاں فی نفسہٖ کسی چیز کاحکم الگ ہوتاہے اور خارجی عوامل کی بنیاد پر اس کاحکم مختلف ہوجاتاہے۔

شرعی اصطلاح کاحکم
جس طرح دیگر تمام علوم وفنون کا یہ ضابطہ ہے کہ اصطلاحی الفاظ سے اصطلاحی معانی ہی مراد ہوں گے، ایسے الفاظ کو محض عام لغوی معنی پر حمل کرنا درست نہیں ہے، بلکہ متعلقہ علم وفن کی سراسر خلاف ورزی ہے، یوں ہی شرعی اصطلاحات کابھی یہی حال ہے، لہٰذا قرآن وحدیث میں اگر ایسے الفاظ ذکر ہوں توان سے اصطلاحی مفہوم مراد لینا ہی ضروری ہے،ان کو محض عام متبادر لغوی معنی پر حمل کرنا کسی طرح جائز نہیں ہے۔ عام علوم وفنون کی بنسبت شرعیات میں اس کازیادہ اہتمام اس لیے بھی ضروری ہےکہ ان کےساتھ دینی احکام،فضائل یا وعیدات وغیرہ متعلق ہوتےہیں، غلط مفہوم مراد لینے کی صورت میں دینی احکام وفضائل میں غلطی لازم آئےگی جس کا مذموم ہونا محتاجِ بیان نہیں ہے۔
غور کیاجائے تو واضح ہوجاتاہے کہ یہ دین میں معنوی تحریف کےمترادف ہےکہ شریعت نے اصطلاحی مفہوم کےمتعلق کوئی حکم بتایا ہے اور سننےوالا اس کو لغوی مفہوم پر چسپاں کررہاہے،یا دینی لحاظ سے وہ فضیلت شرعی اصطلاحی مفہوم کی ہوتی ہےاور سننےوالا اس کو خواہ مخواہ لغوی معنی پر حمل کرتا ہے جس کے بہت سے افراد ایسے ہیں جو شرعی اصطلاح کے تحت داخل نہیں ہوتے۔ اب ایسا اقدام کرنےوالا نص کا انکار تو نہیں کرتا، لیکن اس کاجو معنی ومفہوم یا عملی میدان کار ودائرہ کار شریعت نے طے کر رکھاہے،اس کو تسلیم نہیں کرتا، بلکہ اس میں اپنی طرف سے بے ضابطہ تصرف کرتا ہے، گویا نص کا مدلول اپنی طرف سے تلاش کرتا ہے، تحریف معنوی کی صورت بھی یہی ہوتی ہے۔ ( الفصول في الأصول، باب في معنی المجمل، فصل المجمل علٰی وجہين، ج:۱، ص:۶۸)
علامہ جصاص رازی رحمہ اللہ نے اس کو اگر چہ مجمل کہا ہے، چنانچہ امام کرخیؒ کا قول نقل کرنے کے بعد اپنا یہی موقف ذکر کیا ہے کہ میرےنزدیک یہ مجمل ہے اور اس عبارت سے پہلے اسی علت کی بنیاد پر لفظ ’’صلاۃ‘‘ کو مجمل قرار دیا ہے کہ وہ لغت کےلحاظ سے جس معنی میں استعمال ہوتاتھا،شریعت نے اس لفظ کو اس معنی میں استعمال نہیں کیا، فرماتےہیں:
’’وَالصَّلَاۃُ الدُّعَاءُ فِي اللُّغَۃِ، وَقَالَ اللہُ تَعَالٰی: ’’يَا اَيُّہَا الَّذِيْنَ آمَنُوْا صَلُّوْا عَلَيْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا‘‘ وَقَدْ اُرِيْدَ بِہٰذِہِ الْأسْمَاءِ مَعَانٍ لَمْ يَکُنِ الِاسْمُ مَوْضُوْعًا (لَہَا) فِي اللُّغَۃِ، فَمَتٰی وَرَدَ شَيْءٌ مِنْ ہٰذِہِ الْألْفَاظِ مُطْلَقًا وَلَمْ يَکُنِ الْمُرَادُ بِہَا إشَارَۃً إلَی مَعْہُودٍ فَہُوَ مُجْمَلٌ مُحْتَاجٌ إلَی الْبَيَانِ۔‘‘
لیکن یہ تفصیل اس بات کے خلاف نہیں ہےکہ اس کو شرعی اصطلاح قرار دیاجائے، بلکہ انجام کار دونوں کاحاصل ایک ہی نکلتا ہے،چنانچہ اس کو شرعی اصطلاح قرار دیاجائے اور یا مجمل، دونوں صورتوں میں لغوی معنی پر حمل کرنا درست نہیں ہے اور شرعی نصوص کی روشنی میں ہی اس کی مراد ومقصود متعین کیاجاسکتا ہے۔ (التقرير والتحبير،المقام الأول في بيان معنی اللغۃ، أقسام المفرد والمرکب، الفصل الخامس في المفرد باعتبار استعمالہٖ، مسألۃ الأسماء المستعملۃ لأہل الشرع من نحو الصلاۃ والزکاۃ، ج:۲، ص:۱۰)
 امام باقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  کے اس موقف کی دلیل کیا ہے؟ امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اس پر گفتگو کرتے ہوئے ان کے دو دلائل ذکر فرمائے ہیں:
’’الف: قرآن عربی زبان میں ہے اور اسی زبان میں اس کا نزول ہوا ہے، لہٰذا نصوص کا جو معنی عربی لغت میں معروف ومتبادر نہ ہو،وہ مراد لینا درست نہیں ہے۔
ب: اگر شریعت نے کسی لفظ یا چند الفاظ کو واقعۃً لغوی معنی سے پھیر کر کسی دوسرے معنی میں استعمال کیاہے جس کو شرعی اصطلاح کاعنوان دیا جاتاہے تو اس صورت میں تمام مکلف انسانوں کو اس کی خبر دینا ضروری تھا، تاکہ وہ نص کے سمجھنے اور پھر اس پر عمل پیرا ہونے میں کسی غلط فہمی کے شکار نہ ہوں، حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ایسے نصوص موجود نہیں ہیں، لہٰذا یہ دعویٰ ہی بے بنیاد ہے۔‘‘
امام باقلانی  رحمۃ اللہ علیہ  کے ان استدلالات پر امام غزالی  رحمۃ اللہ علیہ  نے اپنی مفید اصولی کتاب ’’المستصفٰی‘‘ میں سیر حاصل گفتگو فرمائی ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ فرمائیں: المستصفی، القطب الثالث في کيفيۃ استثمار الأحکام من مثمرات الأصول، المقدمۃ وتشتمل علٰی سبعۃ فصول، الفصل الرابع في الأسماء الشرعيۃ، ص:۱۸۲



⬇️ *غیر ثابت روایت* ⬇️

قیامت کے دن ایک شخص کو جنت میں جانے کے لیے صرف ایک نیکی کی ضرورت ہوگی، وہ شخص نیکی حاصل کرنے کے لیے اپنے رشتہ داروں، احباب اور ہر اُس شخص کے پاس جائے گا جس سے اس کو ایک نیکی ملنے کی امید ہوگی تاکہ وہ جنت میں چلا جائے، لیکن کوئی بھی اسے ایک نیکی دینے کے لیے تیار نہ ہوگا، اسی اثنا میں اس کی ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوگی جس کے پاس صرف ایک ہی نیکی ہوگی، تو یہ شخص اُس ایک نیکی کے متلاشی شخص کو اپنی یہ ایک نیکی دے دے گا تاکہ یہ شخص جنت میں چلا جائے، جبکہ میں تو ایسے بھی صرف اس ایک نیکی کی وجہ سے جنت میں جا نہیں سکتا۔ چنانچہ اللّٰہ تعالٰی اس شخص کے ایثار کو دیکھ کر بہت خوش ہوجائے گا اور ان دونوں کو جنت میں داخل کردے گا۔ 
(بندہ کا رسالہ: پچاس غیر ثابت روایات)

✍️... بندہ مبین الرحمن




MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget