Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random
Random Banner

تن تنہا مقابل ہو رہی ہوں


تن تنہا مقابل ہو رہا ہوں میں ہزاروں سے 
حسینوں سے رقیبوں سے غموں سے غم گساروں سے 

انہیں میں چھین کر لایا ہوں کتنے دعوے داروں سے 
شفق سے چاندنی راتوں سے پھولوں سے ستاروں سے 

سنے کوئی تو اب بھی روشنی آواز دیتی ہے 
پہاڑوں سے گپھاؤں سے بیابانوں سے غاروں سے 

ہمارے داغ دل زخم جگر کچھ ملتے جلتے ہیں 
گلوں سے گل رخوں سے مہ وشوں سے ماہ پاروں سے 

کبھی ہوتا نہیں محسوس وہ یوں قتل کرتے ہیں 
نگاہوں سے کنکھیوں سے اداؤں سے اشاروں سے 

ہمیشہ ایک پیاسی روح کی آواز آتی ہے 
کنوؤں سے پنگھٹوں سے ندیوں سے آبشاروں سے 

نہ آئے پر نہ آئے وہ انہیں کیا کیا خبر بھیجی 
لفافوں سے خطوں سے دکھ بھرے پرچوں سے تاروں سے 

زمانے میں کبھی بھی قسمتیں بدلا نہیں کرتیں 
امیدوں سے بھروسوں سے دلاسوں سے سہاروں سے 

وہ دن بھی ہائے کیا دن تھے جب اپنا بھی تعلق تھا 
دشہرے سے دوالی سے بسنتوں سے بہاروں سے 

کبھی پتھر کے دل اے کیفؔ پگھلے ہیں نہ پگھلیں گے 
مناجاتوں سے فریادوں سے چیخوں سے پکاروں سے 

شاعر: کیف بھوپالی
تن تنہا مقابل ہو رہی ہوں Reviewed by Mian Muhammad Shahid Sharif on نومبر 11, 2020 Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.