Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے



اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے 
زمیں کی خیر مانگیں آسماں سے 

اگر چاہیں تو وہ دیوار کر دیں 
ہمیں اب کچھ نہیں کہنا زباں سے 

ستارہ ہی نہیں جب ساتھ دیتا 
تو کشتی کام لے کیا بادباں سے 

بھٹکنے سے ملے فرصت تو پوچھیں 
پتا منزل کا میر کارواں سے 

توجہ برق کی حاصل رہی ہے 
سو ہے آزاد فکر آشیاں سے 

ہوا کو رازداں ہم نے بنایا 
اور اب ناراض خوشبو کے بیاں سے 

ضروری ہو گئی ہے دل کی زینت 
مکیں پہچانے جاتے ہیں مکاں سے 

فنا فی العشق ہونا چاہتے تھے 
مگر فرصت نہ تھی کار جہاں سے 

وگرنہ فصل گل کی قدر کیا تھی 
بڑی حکمت ہے وابستہ خزاں سے 

کسی نے بات کی تھی ہنس کے شاید 
زمانے بھر سے ہیں ہم خود گماں سے 

میں اک اک تیر پہ خود ڈھال بنتی 
اگر ہوتا وہ دشمن کی کماں سے 

جو سبزہ دیکھ کر خیمے لگائیں 
انہیں تکلیف کیوں پہنچے خزاں سے 

جو اپنے پیڑ جلتے چھوڑ جائیں 
انہیں کیا حق کہ روٹھیں باغباں سے 

کلام: پروین شاکر

اب اتنی سادگی لائیں کہاں سے Reviewed by Mian Muhammad Shahid Sharif on نومبر 11, 2020 Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.