⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟘 𝟘 𝟙⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسحاق ترک بیروت پہنچ چکا تھا اور بالڈون کی ہائی کمانڈ تک پہنچنے کی ترکیبیں سوچ رہا تھا ۔ وہاں جس سے ملتا اپنے آپ کو کسی مسلمان علاقے سے بھاگا ہوا عیسائی بتاتا۔ اس طرح اس نے بہت لے لوگوں کی ہمدردیاں حاصل کرلیں۔ وہ چونکہ ترکی کا باشندہ تھا ۔ اس لیے سفید فام تھا ۔ خُوبرو اور تنومند بھی تھا۔ گھوڑسواری ، نیزہ بازی، تیر اندازی اور تیغ زنی میں خصوصی مہارت رکھتا تھا۔ اُس کے بازو لمبے اور ان میں طاقت تھی ۔ دماغ بھی تیز اور باریک بین تھا ۔ دوسروں کا دل موہنے کے لیے، بھڑکانے کے لیے اور ہرکسی کو اپنا گرویدہ بنالینے کے لیے وہ بناسب ڈھونگ رچانے کے فن کاماہر تھا ۔ وہ اپنے ساتھیوں سے کہا کرتا تھا کہ میری اصل قوت میرا ایمان اور میرا کردار ہے۔
اُن دنوں بیروت میں سلطان ایوبی کے خلاف جنگی تیاریاں ہو رہی تھیں۔ وہاں کے لوگوں کو فوج میں بھرتی کرنے کے لیے فوجی میلے ہو رہے تھے جن میں فوجی کرتب دکھاتے اور تیغ زنی وغیرہ کے مقابلے کرتے تھے۔ ایک روز اسحاق ترک ایسے ہی ایک مقابلے کا تماشہ دیکھنے جا پہنچا۔ یہ صلیبیوں کا ایک پرانا کھیل تھا ۔ دو گھوڑ سوار ہاتھوں میں لمبی برچھیاں تانے ایک دوسرے کی طرف گھوڑے سرپٹ دوڑاتے اور ایک دوسرے کو برچھی سے گھوڑے سے گرانے کی کوشش کرتے تھے۔ اگر کوئی پہلی بار نہ گرے تو ایک بار پھر ایک دوسرے کی طرف گھوڑے دوڑاتے اور ایک دوسرے کو برچھی سے گرانے کے لیے وار کرتے تھے۔ سوار زرہ بکتے پہنے ہوئے تھے۔
یہ مقابلہ ہوتا رہا۔ سوار گرتے رہے۔ دوسروں کو مقابلے کے لیے للکارتے رہے۔ ایک سوار نے کئی سواروں کو گرایا۔ اُس نے کسی اور کو للکارا تو کوئی بھی سامنے نہ آیا۔ اسحاق ترک صحرائی لباس میں تھا ۔ وہ میدان میں آگیا ۔ مقابلہ کرنے والے سوار فوجی تھے اور زرہ پوش۔ اسحاق کو عام لباس میں میدان میں اُترتے دیکھ کر تماشائیوں نے قہقہہ لگایا۔ وہاں صلیبی جرنیل اور دیگر کمانڈر وغیرہ بھی تھے۔ وہ بھی خوب ہنسے ۔ جس گھوڑسوار نے سب کو للکارا تھا وہ گھوڑے پر سوار میدان میں گھوڑے کو اِدھر اُدھر بھگا رہا تھا ۔ وہ صلیبی فوج کے ایک دستے کا کمانڈر تھا ۔ اُس نے ازراہِ مذاق گھوڑے کا رُخ اسحاق کی طرف کیا اور قریب آکر برچھی اسحاق کوماری ۔ اسحاق وار بچا گیا ۔ تماشائیوں نے ایک اور قہقہہ لگایا ۔ پھر شور اُٹھا ۔ '' پاگل۔ پاگل۔ یہ کوئی پاگل ہے۔ اسے جا ن سے مار ڈالو''۔
گھوڑ سوار کمانڈر نے گھوڑا پیچھے کو موڑا۔ اس کے ساتھی کمانڈروں میں کسی نے اسے کہا …… '' اب کے اسے برچھی میں اڑس کر ساتھ لے جائو ۔ زندہ نہ رہے '' …… کسی اور نے چلا کر کہا …… '' یہ تمہاری توہین ہے ۔ ایک پاگل دیہاتی نے تمہیں للکارا ہے''۔
گھوڑ سوار نے ایڑ لگائی ۔ اسحاق نہتہ تھا ۔ گھوڑے کو اپنی طرف آتے دیکھ کر اس نے چغہ اتار پھینکا اور برچھی کا وار بچانے کے لیے تیار ہوگیا۔ گھوڑسوار ذرا سا جھکا ۔ برچھی ہاتھ میں تولی ۔ قریب آکر اس نے اسحاق پر وار کیا۔ اسحاق کچھ دور تک گھوڑے کے ساتھ اس طرح دوڑتا گیا جیسے برچھی اس کے جسم میں اتر گئی ہو اور وہ اُس کے ساتھ گھسیٹتا جا رہا ہو۔ تماشائیوں نے داد و تحسین کا شوربپا کردیا لیکن یہ دیکھ کر سب پر سناٹا طاری ہوگیا کہ اسحاق ترک دوڑتے دوڑتے سوار کے پیچھے گھوڑے پر سوار ہوگیا تھا ۔ برچھی کو اس نے پکڑ رکھا تھا ۔ سوار نے بھی برچھی کو پکڑ رکھا تھا ۔ اُس نے گھوڑے کو گھمایا ۔ گھوڑا ایک چکر میں دوڑنے لگا۔ اسحاق اس سے برچھی چھیننے کی کوشش کر رہا تھا ۔
اُس نے برچھی چھین لی اور دوڑتے گھوڑے سے کود کر کھڑا ہوگیا ۔ اُس نے برچھی لہرا کر للکارا ۔ '' مجھے ایک گھوڑا دے دو۔ کوئی بھی میرے مقابلے میں آجائے۔ زرہ بکتر کے بغیر مقابلہ کروں گا ''۔
گھوڑ سوار کمانڈر گھوڑے سے اُتر کر اسحاق کے پاس آیا۔ اُس نے بازو پھیلا رکھے تھے ۔ اسحاق نے برچھی زمین میں گاڑ دی ۔ صلیبی سوار نے اُسے گلے لگا لیا۔ اسحاق نے کہا کہ مقابلہ کروں گا ، مجھے گھوڑا دے دو …… اسے ایک گھوڑا اور ایک برچھی دے دی گئی ۔ وہ اسی کمانڈر کے مقابلے میں آیا ۔ تماشائی دم بخود تھے۔ انہیں یقین تھا کہ یہ بد قسمت دیہانی زرہ بکتر کے بغیر برچھی سے بہت بُری موت مرے گا ۔ دونوں گھوڑے دور آمنے سامنے کھڑے ہوگئے۔ اشارے پر گھوڑے دوڑے ۔ کمانڈر نے برچھی اسحاق کے پیٹ کے سیدھ میں رکھی ہوئی تھی ۔ اسحاق نے اپنے جسم کو ذرا سا موڑ کر کمانڈر کا وار خطا کردیا۔ اس کے ساتھ ہی برچھی کمانڈر کے پیٹ میں لگی ۔ کمانڈر گھوڑے کی دوسری طرف گر پڑا۔ اس نے غلطی یہ کی کہ اس طرف والا پائون رکاب سے نکالنا بھول گیا۔ گھوڑا اسے گھسیٹنے لگا۔
اس مقابلے میں کسی تماشائی کو کسی سوار کی مدد کرنے کی اجازت نہیں تھی ۔ سوار مر بھی جایا کرتے تھے۔ کمانڈر کو گھوڑا گھسیٹ رہا تھا ۔ اسحاق نے گھوم کر دیکھا تو اُس نے اپنے گھوڑے کو گھمایا ، ایڑ لگائی اور کمانڈر کے گھوڑے کے پہلو میں آکر اپنے گھوڑے سے کود کر اس کے گھوڑے کی پیٹھ پر جا بیٹھا، لگام کھینچی اور گھوڑے کو روک لیا۔ کمانڈر نے چونکہ زرہ بکتر پہن رکھی تھی اس لیے اس کا جسم زمین کی رگڑ سے محفوظ رہا ورنہ اس کی کھال اُتر جاتی ۔
کمانڈر نے اسے اپنے بازوئوں کے گھیرے میں لے لیا اور اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے۔ اسحاق ترک نے بتایا کہ وہ مسلمانوں کے علاقے سے بھاگا ہوا عیسائی ہے۔ وہ اپنے آپ کو عام قسم کا عیسائی تو کہہ نہیں سکتا تھا ۔ ایسی گھوڑ سواری اور ایسی نیزہ بازی کا ماہر کوئی فوج ہو سکتا تھا یا کوئی اونچے خاندان کا فرد۔ اس نے کمانڈر کو بتایا کہ مسلمان اسے زبردستی فوج میں بھرتی کرنا چاہتے تھے اس لیے وہ وہاں سے بھاگ آیا۔
کمانڈر اُسے اپنے ساتھ لے گیا ۔
یہ کمانڈر بالڈون کی فوج کا نائٹ تھا ۔ نائٹ صلیبی فوج کا بہت بڑا اعزاز اور رتبہ ہوتا تھا جو اُس کمانڈر کو دیا جاتا تھا جو ذاتی طور پر نڈر اورماہر جنگجو ہو اور اجتماعی طور پر بہت بڑے دستے کو جنگی اہلیت سے لڑاسکے۔ اس اعزاز کے لیے جو اوصاف دیکھے جاتے تھے وہ کسی کسی میں پائے جاتے تھے ۔ یہ اعزاز جسے ملتا اُسے سر سے پائون تک زرہ بکتر ملا کرتی تھی۔ صلیبیوں کے نائٹ جنگی قابلیت اور بے خوفی کی بدولت آج تک مشہور ہیں ۔ اُن کا اتنا رتبہ ہوتا تھا کہ اُن کے مشوروں سے بادشاہ اپنے فیصلے بدل دیا کرتے تھے۔
اسحاق ترک نے زرہ بکتر کے بغیر اس نائٹ کو پچھاڑ دیا اور اُسے گھوڑے کے پائوں تلے آنے سے بچا بھی لیا تو نائٹ اس کی قدروقیمت سمجھ گیا ۔ اُسے اپنے گھر لے جاکر نائٹ نے اُسے شراب پیش کی ۔ مسلمان جاسوسوں کے لیے یہ ایک مشکل پیدا ہو جایا کرتی تھی کہ دشمن کے علاقے میں وہ عیسائیت کا بہروپ دھار لیتے اور اونچے حلقوں میں بھی پہنچ جایاکرتے تھے مگر وہاں شراب پانی کی طرح پی پلائی جاتی تھی ۔ مسلمان شراب پینے سے گزیز کرتے تھے۔ بہانے تراشتے تھے۔ بعض جاسوس شراب کے سلسلے میں شک میں پکڑے بھی گئے تھے۔ علماء ایسا فتویٰ دینے سے ہچکچاتے تھے کہ ان میں حالات میں شراب جائز ہے۔ صلاح الدین ایوبی نے یہ ہدایت جاری کی تھی کہ شراب پینے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ مذہب میں حرام ہونے کے علاوہ یہ خطرہ تھا کہ شراب نوشی عادت بن جاتی ہے، دوسرے یہ کہ جس نے کبھی شراب نہ پی ہو وہ ہوش کھو کر اپنی اصلیت بے نقاب کر سکتا ہے۔ البتہ سلطان ایوبی نے کہا تھا کہ دشمن کے ملک میں شراب پی لو تو اتنی پی لی جائے جو بدمست نہ کرے۔
یہی مشکل اسحاق ترک کے سامنے آگئی۔ وہ ایمان کا پکا تھا۔ اس نے پینے سے انکار کر دیا اور کہا ۔ '' میری قوت آپ نے دیکھ لی ہے۔ اس کاراز صرف یہی ہے کہ میں شراب نہیں پیتا۔ میرے استاد نے مجھے کہا تھا کہ تمہارے جسم میں شراب چلی گئی تو تمہارے نیچے جو گھوڑا ہوگا وہ محسوس کرے گا کہ اس کی پیٹھ پر ایک کمزور انسان بیٹتھا ہے۔ پھر گھوڑا بھی حکم نہیں مانے گا '' …… اسحاق نے گردن سے لٹکتے دھاگے کو کھینچا۔ اُس کے کرتے کے اندر سے چھوٹی سی صلیب باہر آئی ۔ اسحاق نے کہا …… '' میں نے اپنی طاقت کو اس صلیب کے تحفظ کے لیے صرف کرنے کے لیے صلیب ہاتھ میں رکھ کر قسم کھائی تھی کہ شراب نہیں پیئوں گا ۔ بدکاری نہیں کروں گا …… میری قسم نہ توڑیں '' ۔
''تم کہاں رہتے ہو؟'' نائٹ نے پوچھا …… '' گھر والے تماہرے ساتھ آئے ہیں؟''
''نہیں '' ۔ اسحاق نے جواب دیا …… ''میں گھر والوں سے یہ کہہ کر بھاگا تھا کہ اپنے کسی علاقے میں کوئی تسلی بخش ٹھکانہ بن گیا تو انہیں یہاں لے آئوں گا ''۔
'' تمہارا ٹھکانہ بن گیا ہے''۔ نائٹ نے کہا …… '' میں تمہیں اپنی باقاعدہ فوج میں نہیں لے رہا۔ تم میرے ذاتی محافظ ہوگے۔ ہر کمانڈر کے ساتھ دو چار محافظ ہوتے ہیں لیکن میں تم جیسے اوصاف کے آدمیوں کا قدردان ہوں۔ میری پسند کا صرف ایک محافظ میرے پاس ہے۔ تم دوسرے ہوگے۔ تمہاری رہائش کا انتظام کر دیاجائے گا''۔
وہ زمانہ جنگجوئوں کا تھا ۔ اسحاق جیسے طاقتور اور دلیر آدمیوں کی قدرخوب ہوتی تھی۔ نائٹ نے اُس کی رہائش کا انتظام کر دیا ۔ اس کے لیے عربی گھوڑے اور دیگر سامان کا بندوبست کیا اور اس کی تنخواہ مقرر کر دی ۔
اسحاق ترک کو خدا نے دماغی صلاحیتیں بڑی فیاضی سے عطا کی تھیں۔ انہیں بروئے کار لاتے ہوئے وہ دودنوں میںاس صلیبی نائٹ کا معتمد بن گیا۔
'' میری صرف ایک خواہش ہے ''۔ اس نے نائٹ سے کہا …… '' جس طرح مسلمانوں کا قبلئہ اوّل ہمارے قبضے میں آگیا ہے ۔ اُن کے خانہ کعبہ پر بھی ہمارا قبضہ ہوجائے۔ اسلام تھوڑے سے عرصے میں ہمیشہ کے لیے مرجائے گا۔ اگر ساری دنیا پر نہیں دنیائے عرب پر صلیب کی مقدس حکمرانی ہوجانی چاہیے''۔
''تم خواب دیکھ رہے ہو میرے دوست!''نائٹ نے کہا ۔ '' مسلمانوں کو اتنی جلدی شکست دینا آسان نہیں۔ اگر ہم نے مسلمانوں کے کعبے کی طرف پیش قدمی کی تو ساری دنیا کے مسلمان اکھٹے ہو جائیں گے ۔ انہیں چھوڑو، ہم ابھی تک اکیلے صلاح الدین ایوبی کو شکست نہیں دے سکے ''۔
'' آپ لوگ اپنے ہی پیدا کیے ہوئے وہموں کا شکار ہوگئے ہیں ''۔ اسحاق ترک نے کہا …… '' مسلمانوں میں اتحاد نہیں رہا۔ صلاح الدین ایوبی اپنے مسلمان دشمنوں میں اکیلا رہ گیا ہے۔ کیا حلب اور موصل کے نئے حکمران، عزالدین اور عمادالدین آپ کے حمایتی نہیں ؟ وہ آپ کی مدد کے محتاج اور منتظر ہیں۔ آپ کے جاسوسوں نے مسلمانوں کو کھوکھلا کر دیا ہے۔ میں آپ کو وہاں کی صحیح تصویر بتاتا ہوں '' …… اس نے الفاظ میں ایسی تصویر پیش کی جس سے نائٹ کی باچھیں کھل گئیں۔ اسحاق نے ایسے مشورے دئیے جو کوئی جرنیل ہی دے سکتا تھا ۔ نائٹ کی آنکھیں کھل گئیں۔
'' تم مجھے حیران کر دینے کی حد تک ذہین ہو''۔ نائٹ نے کہا …… ''ہم کچھ ایسے ہی منصوبے بنا رہے ہیں جو تمہاری خواہشوں اور عزائم کے مطابق ہیں ''۔
'' میرے اس مشورے کو ذرا اہمیت دیں کہ صلاح الدین ایوبی کی طرح چھاپہ مار جیش تیار کریں ''۔ اسحاق نے کہا …… '' ایک جیش میرے حوالے کردیں۔ میں مسلمان علاقوں اور ان کی نازک رگوں سے اچھی طرح واقف ہوں۔ مجھے دور اندر تک وہ جگہیں معلوم ہیں جہاں وہ رسد وغیرہ کے ذخیرے رکھتے ہیں۔ اِدھر جنگ ہوئی تو اُدھر اُن کا کوئی ذخیرہ نہیں رہنے دوں گا ''۔
'' ایسا ہی ہوگا ''۔ نائٹ نے کہا …… '' ہم تمہیں موقعہ دیں گے ''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
'' میں نے تمہیں شمس النساء کے ساتھ باتیں کرتے دیکھا تھا ''۔ انوشی عامر بن عثمان سے کہہ رہی تھی ۔ وہ موصل میں تھے۔ عامر نے اُسے محبت کا جھانسہ دے دیا تھا ۔ انوشی آدھی رات کے بعد اس کے کمرے میں آگئی تھی ۔ کہنے لگی …… ''شمس النساء مجھ سے زیادہ خوبصورت تو نہیں ''۔
'' اس کا نام نہ لو ''۔ عامر نے اکتاہٹ سے کہا …… '' وہ شہزادی ہے۔ مجھے اپنا نوکر سمجھتی ہے اور حکم چلاتی ہے۔ میں کبھی اس کے پاس کھڑا ہوتا بھی ہوں تو یہ حکم کی تعمیل ہوتی ہے۔ تم سے بھی میں اسی لیے ڈرتا رہتا ہوں ۔ تمہیں بھی میں شہزادی سمجھتا رہا، لیکن تم نے میرا ڈر دُور کر دیا ہے۔ پھر بھی کھبی کبھی ڈر آہی جاتا ہے کہ تم مجھے کسی دھوکے میں مبتلا کر رہی ہو۔ یہ نہ بھی ہوا تو اپنا یہ انجام مجھے صاف نظر آرہا ہے کہ بڑوں نے مجھے تمہارے ساتھ دیکھ لیا لو مجھے تہہ خانے میں بند کردیں گے ''۔
'' اگر تمہیں کسی تہہ خانے میں بند کیا تو میرے اشارے پر موصل کی اینٹ سے اینٹ بج جائے گی ''۔ انوشی نے کہا اور اُسے اپنے ساتھ لگا لیا۔ پیار سے بولی …… '' تمہارا یہ ڈر بجا ہے کہ میں تمہیں کوئی دھوکہ دے رہی ہوں ۔ میرا وجود ایک دلکش دھوکہ ہے لیکن تم مجھے انسان کے روپ میں دیکھو۔ مجھے اپنی عبادت کرنے دو ''۔
انوشی پر بے خودی سی طاری ہوگئی۔ عامر بن عثمان کی انگلیاں اس کے بالوں میں رینگ رہی تھیں۔ رات گزرتی جا رہی تھی ۔ انوشی کے لہجے میں خمار آگیا تھا ۔ عامر بن عثمان کے لیے یہ بڑا ہی سخت امتحان تھا ۔ وہ جوان تھا، تنومند تھا اور وہ غیر شادی شدہ تھا۔ کئی بار اس کے جذبات اپنے قابو سے نکل چلے تھے۔ اُس نے دل ہی دل میں دھیان خدا کی طرف کر دیا اور خدا سے التجائیں کرنے لگا کہ اس کی ذاتِ باری اسے جبر اور ہمت و استقلال عطا فرمائے'' ۔
رات تھوڑی سی رہ گئی تھی جب انوشی اس کے کمرے سے نکلی۔ پھر ایسی تین چار راتیں آئیں۔ انوشی اُس کے وجود میں جذب ہو چکی تھی ۔ اُ س نے دیکھ لیا تھا کہ عامر حیوان نہیں انسان ہے مگر عامر کی ذات میں جو لرزے بپا ہو رہے تھے ان سے انوشی واقف نہیں تھی ۔
'' مجھے ان مسلمان حکمرانوں سے نفرت ہوگئی ہے''۔ ایک رات عامر نے انوشی سے کہا …… ''میں نے صلیبی حکمران نہیں دیکھے۔ ہمارے حکمرانوں سے تو اچھے ہوں گے''۔ اُس نے راز داری سے پوچھا …… '' کیا یہ ممکن نہیں کہ صلیبی آکر ان علاقوں پر قبضہ کر لیں ؟''
انوشی بہت ہی چالاک لڑکی تھی ۔ بچپن سے استادوں کے ہاتھوں میں کھیلی تھی ۔ اُس کا حسن قلعوں کی دیواریں توڑ دیتا تھا ۔ جابر حکمرانوں کو وہ اپنا غلام بنا لیا کرتی تھی مگر وہ انسانی فرت کی کمزوریوں اور فطری تقاضوں اور مطالبوں سے آزاد نہیں تھی ۔ کوئی بھی انسان خواہ اوصاف اور عادت کے لحاظ سے درندہ ہی کیوں نہ بن جائے، اس فطرت کی زنجیروں سے آزاد نہیں ہو سکتا جو خدا نے بنائی ہیں ۔ انوشی اپنی تشنگی عامر بن عثمان کو بتا چکی تھی ۔ یہ اس کی دُکھتی رگ تھی جو اُس نے عامر کے ہاتھ میں دے دی تھی ۔ سچے پیار کی تشنگی اور عامر کے وجود نے اس کا ڈنک مار دیا تھا ۔ وہ شراب کے نشے کو جانتی تھی محبت کے خمار سے واقف نہیں تھی ۔ یہ خمار جب طاری ہوا اور عامر نے صلیبی حکمرانوں کے حق میں بات کر دی تو انوشی کی تمام تر تربیت بیکار ہوگئی۔ اس نے عامر کے ساتھ ایسی باتیں شروع کردیں جو جاسوس اور تخریب کار نہیں کیا کرتے۔
عامر کا مقصد پورا ہوگیا ۔ اس نے بچ بچ کر سوال پوچھنے شروع کرئیے۔ اگر اس وقس انوشی کو اس کے صلیبی استاد یا عزالدین اوراس کے وہ دو اعلیٰ حکام دیکھتے جو اُسے گرہرِ نایاب سمجھتے تھے تو یقین نہ کرتے کہ یہ وہ لڑکی ہے جسے وہ سوڈانی پری کہا کہتے ہیں ۔ وہ معصوم سی بچی بنی ہوئی تھی اور اسے ذرا بھر احساس نہیں تھا کہ وہ سلطنتِ اسلامیہ کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی بجائے صلیب کو دیمک کی طرح کھا رہی ہیں۔ عامر بن عثمان اس کی فطرت کے تقاضے پورے کر رہا تھا ۔
انوشی جب اُس رات عامر کے کمرے سے نکلی تو رات کا آخری پہر تھا ۔ وہ بڑے اہم راز عامر کے سینے میں ڈال گئی تھی ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بہت دن گزر گئے تھے۔ بیروت میں اسحاق ترک اپنے صلیبی نائٹ کاذاتی محافظ ہی نہیں اس کا ہمراز دوست اور قابلِ اعتماد ساتھی بن چکا تھا ۔ اس نے یہ بھی دیکھ لیا تھا کہ بالڈون کے فرنگی لشکر کے ایک بڑے دستے کا یہ کمانڈر صلیب کا اتنا خیرخواہ نہیں جتنا اپنی اس خواہش اور عزم کا غلام ہے کہ وہ اگلی جنگ میں بڑھ چڑھ کر کامیابی حاصل کرے اور شاہ بالڈون سے عرب کا کوئی ٹکڑا انعام کے طور پر حاصل کرلے۔ اس کے دماغ پر خود مختار حکمرانی سوار تھی اوراس کی سوچیں اسی خواہش کے تابع تھیں۔ اسحاق ترک اپنے استاد علی بن سفیان کی تربیت کے مطابق اس کی نفسیات سے کھیلنے لگا۔ جس طرح انوشی جیسی خطرناک لڑکی فطرتِ انسانی کی کمزوریوں اور تقاضوں کے سامنے بے بس ہو گئی تھی اسی طرح صلیبیوں کا یہ نائٹ اپنے نظرئیے سے ہٹ کر اور اپنی خواہشات سے مغلوب ہوکر یہ سوچنے کی ضرورت ہی محسوس نہیں کر رہا تھا کہ جس اجنبی کو اس نے اپنا دوست بنا لیا ہے وہ صرف اس کی نہیں، اس کے بادشاہ اور اس کی صلیب کی شکست کا پیامبر ہے۔
ایک روز نائٹ اسحاق ترک کو بیروت سے دُور لے گیا ۔ اسحاق کوپتہ چلا کہ نائٹ کا دستہ رات کو بڑی جلدی میں کوچ کر گیا ہے ۔ نائٹ اس دستے کومختلف جگہوں پر تقسیم کرنے کے لیے جا رہا تھا ۔ اسحاق محافظ کے طور پر اس کے ساتھ تھا ۔ دستے تک پہنچے تو دیکھا کہ خیمے نہیں لگائے گئے تھے ۔ اس میں گھوڑ سوار بھی تھے اور پیادے بھی ۔ نائٹ نے اپنے محاتحت کمانڈروں کو بلاکر مختلف جگہیں بتائیں اور حکم دیا کہ ان جگہوں پر وہ خیمے گاڑ لیں اور تیاری کی حالت میں رہیں ۔ اسحاق پاس کھڑا یہ احکام سُن رہا تھا ۔
'' ہو سکتا ہے تمہیں ایک مہینے تک تیاری کی حالت میں رہنا پڑے ''۔ نائٹ نے اپنے چھوٹے کمانڈروں سے کہا …… '' لیکن اُکتا نہ جانا۔ ہمیں کل قاہرہ سے آئے ہوئے ایک جاسوس نے اطلاع دی ہے کہ صلاح الدین ایوبی نے بیروت کومحاصرے میں لے کر اس شہر پر قبضہ کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ہمیں توقع تھی کہ وہ اب بھی دمشق کی طرف سے آئے گا اور سب سے پہلے اپنے مسلمان امراء کو جن میں حلب، موصل اور حرن کے امراء خاص طورپر قابل ذکر ہیں ، اپنے ساتھ ملائے گا، اُس کے بعد وہ ہمیں للکارے گا، مگر اب یہ قابلِ اعتماد اطلاع ملی ہے کہ وہ سب سے ہمارے دل پر وار کرے گا ،اس کے بعد وہ اپنے ان امراء سے جنہیں ہم نے اپنا درپردہ دوست بنا رکھا ہے، نپٹے گا ۔ اگر ہمیں یہ اطلاع نہ ملتی تو ہم بیروت کے اندر اس کے محاصرے میں آجاتے۔ تم میںسے بہت سے ایسے ہیں جنہیں یہ معلوم نہیں کہ صلاح الدین ایوبی محاصرے کاماہر ہے۔ اس کے محاصرے میں آئی ہوئی فوج کے پاس صرف یہ چال رہ جاتی ہے کہ ہتھیار ڈال دے۔ صلیب کی برت سے ہمیں پہلے ہی اشارہ مل گیا ہے ''۔
اسحاق سن رہا تھا ۔ اس نے اپنے کپڑوں کے اندر پسینے کی نمی محسوس کی ۔ اسے یہ سن کر غصہ آنے لگا کہ صلاح الدین ایوبی کے اندرونی حلقے میں بھی صلیبیوں کے جاسوس موجود ہیں جنہوں نے اتنی خطرناک اطلاع یہاں پہنچا دی ہے۔ اُسے معلوم تھا کہ مسلمان ایمان فروشی پر فوراً اُتر آتے ہیں۔ سلطان ایوبی کے ہمراز حلقے میں کوئی صلیبی تو نہیں جاسکتا۔ اب یہ ذمہ داری اسحاق ترک بڑی شدت سے محسوس کرنے لگا کہ وہ قاہرہ پہنچے اور علی بن سفیان کو بتائے کہ اگر سلطان نے واقعی بیروت پر فوج کشی کا فیصلہ کر لیا ہے تو سیدھا بیروت نہ جائے۔
'' اس اطلاع سے ہم یہ فائدہ اُٹھا رہے ہیں کہ جس طرح ہمارا دستہ اس علاقے میں گھات کی صورت میں بھیجا گیا ہے، اسی طرح چند اور دستے جن میں گھوڑ سوار زیادہ ہیں ، بیروت کے اردگرد اور دور دور بھیج دئیے گئے ہیں۔ صلاح الدین ایوبی کا استقبال وہ دستے کریں گے جو بیروت میں تیار ہوں گے۔ وہ اُس کی فوج کو یہ تاثر دے کر اُلجھائیں گے کہ اس نے بیروت کو اچانک آدبوچا ہے۔ وہ جب محاصرے کو تنگ کر رہا ہوگا ہم عقب سے اس پر حملہ کر دیں گے۔ پھر وہ بیروت کے اندر والی ہماری فوج اور ہمارے باہر والے دستوں میں آکر ہمیشہ کے لیے پس جائے گا ''۔
''جناب !'' ایک پرانی عمرکے کمانڈر نے کہا …… '' یہ معلوم ہو چکا ہے کہ وہ کس طرف سے آئے گا !''
'' ابھی یہ معلوم نہیں ہوسکا ''۔ نائٹ نے جواب دیا ۔ ' 'ممکن یہ نظر آتا ہے کہ وہ ہمارے علاقوں میں سے گزر کر آنے کا خطرہ مول لے گا۔ شاہ بالڈون نے ہدایت جاری کی ہے کہ راستے میں اُس کے ساتھ جھڑپ نہ لی جائے ۔ اُسے دور اندر تک اور بیروت تک آنے دیا جائے۔ یہاں ہم اُس کی فوج کو رسد سے محروم کرکے ماریں گے ''۔
'' اور آپ کو یہ تو معلوم ہوگا کہ بیروت سمندر پر واقع ہے ''۔ اسی کمانڈر نے کہا …… '' وہ اپنی بحری قوت بھی استعمال کر سکتا ہے''
'' وہ بحری قوت استعمال کرے گا ''۔ نائٹ نے کہا ۔ '' اس کی بہت سی فوج بحری جہازوں سے آرہی ہے۔ ہم نے اس کا بھی انتظام کر لیا ہے۔ ہم سمندر میں اس کا مقابلہ نہیں کریں گے۔ اُس کی فوج کو اترنے کا موقع دیں گے۔ اس طرح ہم اُس کے جہازوں کو تباہ کرنے یا بھاگنے کا موقع دینے کی بجائے جہازوں پر قبضہ کریں گے…… میرے دوستو! تم جانتے ہو کہ فوج کو راز کی ایسی باتیں نہیں بتائی جاتیں کیونکہ جس طرح ہمارے جاسوس مسلمان علاقوں میں موجودہیں اسی طرح ہمارے علاقوں میں مسلمان جاسوس سرگرم ہیں۔ سپاہیوں کے منہ سے نکلی ہوئی بات صلاح الدین ایوبی تک پہنچ سکتی ہے، مگر بعض حالات میں اپنے کمانڈروں کو معلوم ہونا چاہیے کہ آنے والے حالات کیسے ہوں گے اور ان کا پس منظر کیا ہے۔ یہ احتیاط کریں کہ سپاہیوں کو پتہ نہ چلنے پائے کہ ہمیں صلاح الدین ایوبی کے متعلق کوئی اطلاع ملی ہے ورنہ ہو اپنا فیصلہ بدل دے گا ''۔
'' کیا آپ کو مسلمان امراء کی نیت کا عمل ہے؟'' ایک اور کمانڈر نے پوچھا …… '' ایسا نہ ہو کہ وہ ہم پر حملہ کریں ''۔
'' ان کی طرف سے ہمیں کوئی خطرہ نہیں ''۔ نائٹ نے کہا …… '' حلب کا والئی عزالدین موصل میں آگیا ہے اور موصل کا امیر عمادالدین حلب چلا گیا ہے ۔ یہ تبادلہ ہماری کاستانی سے ہوا ہے۔ وہاں کے حالات ہمارے قبضے میں ہیں ۔ البتہ یہ توقع رکھی جا سکتی ہے کہ ان میں کوئی مسلمان حکمران صلاح الدین ایوبی پر حملہ کردے یا اُسے رسد دینے سے انکار کردے۔ بہرحال یہ یقین ہے کہ اپنے مسلمان امراء کی طرف سے صلاح الدین ایوبی کو تعاون نہیں ملے گا ''
رات کو اسحاق ترک نے نائٹ کے ساتھ سلطان ایوبی کے متوقع حملے اور بیروت کے محاصرے پر تبادلہ خیال اور خوشی کا اظہار کیا کہ اُسے اپنی خواہش کی تکمیل کا موقع مل جائے گا ۔ اُس نے کچھ اور ضروری باتیں معلوم کرلیں۔ اس کے سامنے اب یہ مسئلہ تھا کہ وہاں سے نکلے اور قاہرہ پہنچے۔ وہ آسانی سے فرار ہو سکتا تھا لیکن اس نے سوچ لیا تھا کہ غائب ہوجانے سے نائٹ کو شک ہوجائے گا کہ یہ جاسوس تھا جو سب کچھ دیکھ کر چلا گیا ہے لہٰذا وہ اپنی سکیم میں ردوبدل کرلیں گے۔ وہ نائٹ کو بتا کر جانے کی سوچنے لگا۔ اُسے ایک بہانہ مل گیا جو یہ تھا کہ وہ اپنے گھر کے تمام کو مسلمان علاقے میں چھوڑ آیا ہے ، اب چونکہ اس کا ٹھکانہ بن گیا ہے اس لیے وہ انہیں وہاں سے نکالنا چاہتا ہے ورنہ مسلمان انہیں پریشان کریں گے۔
یہ بہانہ پیش کر کے اس نے نائٹ سے کہا …… '' ایک آدھ مہینے بعد ہم جنگ میں اُلجھ جائیں گے پھر نہ جانے کب فرصت ملے۔ انہیں ابھی لے آئوں تو بہتر ہے یہ بھی ممکن ہے کہ میں جنگ میں مارا جائوں۔ مرنے سے پہلے انہیں یہاں لانا چاہتا ہوں تا کہ میرے بعد میری بہنیں مسلمانوں کے ہاتھوں خراب نہ ہوتی پھریں''۔
بہانہ معقول تھا ۔ نائٹ نے اُسے جو گھوڑا دے رکھا تھا وہی اس کے پاس رہنے دیا اور کہا …… '' ابھی روانہ ہوجائو اور جس قدر جلدی آسکو واپس آئو''۔
اسحاق ترک اس صلیبی نائٹ سے زیادہ جلدی میں تھا ۔ اُسے بہت جلدی قاہرہ پہنچنا تھا لیکن اس سے پہلے حلب اور موصل جانا ضروری تھا کیونکہ اُس کے کانوں میں وہاں کے حکمرانوں اور امراء کے متعلق کچھ باتیں پڑی تھیں۔ اسے یہ پتہ نہیں چل سکا تھا کہ سلطان ایوبی جب ان علاقوں میں فوج لائے گا تو موصل کے حکمرانوں اور سالاروں کا رویہ کیا ہوگا۔ اسے معلوم تھا کہ حلب میں اُس کے ساتھی جاسوس کون کون ہیں اور وہ کہاں مل سکتے ہیں مگر نائٹ کی زبان سے اس نے سنا تھا کہ عزالدین موصل اور عمادالدین حلب چلا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ بھی ہو سکتا تھا کہ رضیع خاتون بھی موصل میں ہوگی اوراگر وہ موصل میں ہے تو اُس کی خادمہ بھی ساتھ ہوگی ۔ محل کے اندر کی دنیا سے رابطہ اس خادمہ کے ذریعے ہوسکتا تھا ۔ بہرحال اُسے وہاں کے حالات اور حالات کی خبر دینے والے خفیہ ساتھیوں کا کچھ پتہ نہ تھا سوائے دو کے جو موصل میں تھے۔
وہ اُسی رات روانہ ہوگیا ۔ گھوڑا اچھا تھا ۔ اسحاق ماہر سوار تھا ۔ مہینوں کی مسافت دنوں میں طے کرنے کا اُسے تجربہ تھا ۔ وہ فاصلہ طے کرتا اور خداسے یہی دعائیں مانگتا جا رہا تھا کہ اُ س کے قاہرہ پہنچنے سے پہلے سلطان ایوبی کوچ نہ کر چکا ہو۔ گھوڑا دوڑ سے تھک گیا تو اسحاق نے اسے روکا نہیں ، گھوڑا اپنی سہولت کی چال آہستہ آہستہ چلتا گیا ۔ اسحاق نے آگے جھک کر پیش زین کے ساتھ لگا لیا اور چلتے گھوڑے پر سو گیا۔ سحر کی تاریکی میں اُس کی آنکھ کھلی ۔ اس نے گھبرا کر آسمان کی طرف دیکھا۔ اس کی راہنمائی کرنے والا ستارہ چمک رہا تھا ۔ گھوڑا صحیح سمت جا رہا تھا ۔ صبح کی روشنی میں ایک جگہ گھوڑے کو پانی پلایا اور کچھ کھلا کر اُس نے خودبھی ذرا آرام کیا ، گھوڑے کو بھی آرام دیا اور چل پڑا۔
یہ دن بھی گزر گیا ۔ رات آئی اور گزر گئی۔ صلیبی نائٹ کے دئیے ہوئے عربی گھوڑے نے اسحاق کا خوب ساتھ دیا ۔ سورج غروب ہونے میں ابھی بہت دیر تھی جب اُسے موصل کے میناروں کے کُلس نظر آنے لگے۔ اسحاق ترک اس شہر سے اچھی طرح واقف تھا اور اسے اپنے دو ساتھی جاسوسوں کے ٹھکانوں کا بھی علم تھا ۔ اُسے معلوم نہیں تھا کہ وہ اسے کچھ بتا سکیں گے یا حلب کا راستہ دکھا سکیں گے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عزالدین کو اطمینان ہوگیا کہ رضیع خاتون اُس کی زوجیت میں خوش ہے اور اب وہ اُس کے کاموں کے متعلق کوئی بات نہیں کرتی ، نہ کچھ پوچھتی ہے۔ رضیع خاتون نے اُس سے یہ بھی نہیں پوچھا تھا کہ اُس نے عماالدین کے ساتھ امارتوں کا تبادلہ کیوں کرلیا ہے۔ رضیع خاتون نے جس مقصد کے لیے عزالدین کے ساتھ شادی کی تھی وہ تو پورا نہ ہو سکا تا ہم وہ اس پہلو کو دیکھ کر مطمئن ہوگئی کہ وہ اس پر اسرار دنیا کے اندر آگئی ہے اور سلطان ایوبی نے یہاں جاسوسی کا جو جال بچھا رکھا ہے اسے وہ مزید مضبوط اور کارآمد بنا رہی ہے۔ شمس النساء کو اُس نے تربیت دے لی تھی اور اُس کی یہ بیٹی لڑکپن کے کھلنڈر ے جذبات سے نکل کر مجاہدہ بن گئی تھی ۔ اس لڑکی نے عزالدین کے ذاتی محافظ عامر بن عثمان کو مخبر اور جاسوس بنا دیا تھا ۔ اس کے لیے اس نے یہ قربانی دی تھی کہ اُسے ایسی چالاک لڑکی کے حوالے کر دیا تھا جو عامر کو اس سے ہمیشہ کے لیے چھین سکتی تھی ۔
عامر بن عثمان نے انوشی کے سینے سے جتنے راز نکالے تھے وہ شمس النساء کے ذریعے رضیع خاتون تک پہنچا دئیے تھے ۔ یہ نہایت اہم راز تھے جو قاہرہ تک پہنچانے تھے۔ حلب سے سلطان ایوبی کے جو جاسوس آئے تھے ۔ اُن کے کماندار سے پوچھا گیا تھا کہ قاہرہ جانے والا کوئی آدمی تیار کرو۔ اس نے کہا تھا کہ اسحاق ترک بیروت سے آجائے گا۔ وہاں کی خبر تک نہیں ملے گی قاہرہ کے لیے اطلاع نامکمل رہے گی۔ علی بن سفیان سے سلطان ایوبی بار بار کہہ رہا تھا کہ صلیبیوں کے آئندہ اقدام کے متعلق معلومات حاصل کرو۔
انوشی نے عامر بن عثمان کو جو باتیں بتائی تھیں وہ غلط نہیں ہو سکتی تھیں ۔ وہ عزالدین اور اُس کے خصوصی مشیروں پر اتنی غالب آئی ہوئی تھی کہ وہ اس لڑکی کی موجودگی میں انتہائی نازک باتیں کرتے رہتے تھے ۔ ان لوگوں کے ساتھ اُسے کوئی دلچسپی نہیں تھی ۔ انہیں وہ قابلِ نفرت انسان سمجھتی تھی ۔ وہ تو اپنا فرض ادا کر رہی تھی ۔ اسے ابھی یہ معلوم نہیں ہواتھا کہ جس عامر کو وہ دل و جان سے چاہتی ہے وہ اپنا فرض ادا کر رہا ہے۔ عامر کا انداز ایسا تھا جیسے وہ اپنی دلچسپی کی خاطر ایسی باتیں پوچھ رہا ہو۔
عزالدین نے رضیع خاتون کی سیر کے لیے بھگی وقف کر رکھی تھی ۔ ایک شام رضیع خاتون شمس النساء کے ساتھ باہر نکل گئی۔ شہر کے قریب ہی سبزہ زار تھا جس میں ایک چشمہ بھی تھا ۔ یہ جگہ اتنی خوبصورت تھی کہ صرف شاہی خاندان کے لیے وقف کر دی گئی تھی ۔ رضیع خاتون کے ساتھ اس کی خادمہ بھی تھی اور محافظ کے طور پر عامر بن عثمان بھی ساتھ تھا ۔ عزالدین کو عامر پر بھروسہ تھا اور اُس نے عامر کو حکم دے رکھا تھا کہ رضیع خاتون جب بھی سیر کے لیے باہر جائے تو عامر ساتھ ہو۔ اس جگہ پہنچ کر بھگی کر دُور کھڑا کردیا گیا ۔ رضیع خاتون اور شمس النساء چشمے کی طرف چلی گئیں۔ عامر بن عثمان بھی ساتھ رہا ۔ یہ صرف سیر نہیں تھی بلکہ سیرکے بہانے عامر سے معلوم کرنا تھا کہ اُسے اور کیا کچھ معلوم ہوا ہے۔
اس وقت اسحاق ترک موصل میں اپنے ایک ساتھی کے پاس پہنچ چکا تھا اور یہ ساتھی اُسے بتا رہا تھاکہ رضیع خاتون بھی ان کے گروہ میں شامل ہو گئی ہے بلکہ سرپرستی کر رہی ہے ۔ ان دونوں کے درمیان کچھ باتیں ہوئیں تو ان کا ایک اور ساتھی آگیا۔ اُس نے اسحاق کو بتایا کہ رضیع خاتون کی خادمہ اس وقت چشمے پر گئی ہے۔ بہتر ہے اسحاق اسے وہاں ملے۔ اسحاق نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ وہ بہت جلدی میں ہے اور کام کی کوئی بات معلوم ہو سکے تو وہ رات رُکنے کی بجائے فوراً قاہرہ کو روانہ ہو جائے ۔اسی لیے اُسے بتایا گیا تھا کہ خادمہ چشمے پر ملے گی۔ اس آدمی نے رضیع خاتون کی سواری اُدھر جاتے دیکھی تھی ۔ اسحاق کو یہ تو بتا ہی دیا گیا تھا کو رضیع خاتون بھی اُن کے ساتھ ہے۔ لہٰذا یہ اُمید رکھی جا سکتی ہے کہ اس کے ساتھ بھی ملاقات ہوجائے۔
عامر بن عثمان چشمے کے کنارے رضیع اور شمس النساء کو بتا رہا تھا کہ انوشی کی بتائی ہوئی باتوں کے مطابق یہ یقین ہو گیا ہے کہ صلیبیوں کے خلاف جنگ کی صورت میں عزالدین سلطان ایوبی کی دوستی کو دھوکے میں رکھے گا۔ اگر سلطان رسد مانگے گا تو رسد بروقت پوری نہیں بھیجے گا۔ اگر سلطان نے فوج مانگی تو یہ بہانہ پیش کیا جائے گا کہ اس کے تعلقات عمادالدین کے ساتھ اچھے نہیں رہے اور عماالدین موصل پر حملے کے لیے آرمینیوں کے ساتھ سازباز کر رہا ہے۔ اس لیے فوج قلعے میں موجود رہنی چاہیے۔ عامر نے بتایا کہ عمادالدین کا رویہ بھی ایسا ہی ہوگا۔ ان حالات سے سلطان ایوبی کا باخبر ہونا ضروری تھا کیونکہ وہ ان دونوں کا اپنا اتحادی سمجھتا تھا۔
خادمہ ادھر ادھر ٹہل رہی تھی ۔ اُسے کسی کے گانے کی آواز سنائی دی …… '' ریگزاروں کے راہی راہوں میں بھٹکیں، ستاروں کو دیکھیں'' …… سیرگاہ کے قریب سے کوئی گاتا ہوا گزر رہا تھا ۔ خادمہ کے کان کھڑے ہوگئے۔ یہ جاسوسوں کے اس گروہ کے خفیہ الفاظ تھے جو وہ ایک دوسرے سے ملاقات کے لیے ترنم میں اس طرح استعمال کیا کرتے تھے جیسے کوئی مسافر اپنا دل بہلانے کے لیے گنگناتا جا رہا ہو۔ خادمہ پودوں کی اوٹ میں آگے چلی گئی۔ اس نے اسحاق ترک کو پہچان لیا۔ اُسے روکا۔ اسحاق نے اسے کہا کہ وقت نہیں ہے۔ خادمہ نے کہا کہ اسی طرح ٹہلتے رہواور وہ رضیع خاتون کے پاس چلی گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج غروب ہو چکا تھا ۔ سیرگاہ پر تاریکی چھا رہی تھی ۔ اسحاق ترک ایک ایسی جگہ رضیع خاتون ، شمس النساء اور عامر بن عثمان کے پاس بیٹھا تھا جہاں انہیں کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ رضیع خاتون اُسے حلب اور موصل کے تمام اسرار اور دھوکے بتا چکی تھی ۔ اُس نے اسحاق سے کہا …… '' صلاح الدین ایوبی سے کہنا میں نے نورالدین زنگی کا مقام عزالدین کو دیا تھا ۔ میں نے اس اُمید پر دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ کیا تھا کہ عزالدین کو زنگی مرحوم کا صحیح جانشین بنادوں گی اور یہ زنگی کی طرح تمہارا دایاں بازو بنے گا مگر شادی کے بعد راز کھلا کہ میں نے عمر بھر کی ایک بھیانک غلطی کی ہے۔ مجھے قید کر لیا گیا ہے۔اب دمشق کی لاج تمہاہے ہاتھ ہے۔ بیروت کے علاقے میں تمہارا جس طرح استقبال ہوگا وہ تم اسحاق سے سن لوگے۔ تم ہی فیصلہ کر سکتے ہو کہ ان حالات میں جبکہ بیروت کو محاصرے میں لینے کاتمہارا منصوبہ پہلے ہی بیروت پہنچ گیا ہے ، تم بیروت ہی جائو گے یا اپنا منصوبہ بدل دوگے۔ اس سوال کا جواب علی بن سفیان دے سکتا ہے کہ یہ راز بیروت کس نے پہنچایا ۔ ہماری قوم میں ایمان نیلام عام ہوگیا ہے۔ عرب کے امراء کی عیاشیوں کا یہی عالم رہا تو وہ قبلہ اول کی طرح خانہ کعبہ کو بھی بیچ کھائیں گے۔ عیاشی اور حکمرانی مل کر ملکوں کو ٹکڑوں میں کاٹتی اور قوموں کا نام و نشان مٹا دیتی ہیں…… عزالدین اور عمادالدین پر بھی بھروسہ نہ کرنا۔ یہ تمہیں مدد نہیں مدد کا دھوکہ دیں گے۔ بیروت کی بجائے حلب اور موصل کو محاصرے میں لے کر ان ایمان فروش حکمرانوں سے ہتھیار ڈلوا لو اور یہ اہم علاقے اپنی عملداری میں لے لو تو یہ اسلام کی بہت بڑی خدمت ہوگی۔ اپنے آبائو اجدا کی تاریخ پر ایک نظر ڈالو۔ ہمارے بادشاہوں نے ہمیشہ ملکوں کے سودے کیے ہیں اور ان سودوں پر اسلام کے سپاہی نے لیکر پھیر دی اور قوم کی لاج رکھی ہے۔ دشمن کو صرف سپاہی دیکھتا ہے اور دشمن کے ہاتھوں صرف سپاہی کٹتا اور مرتا ہے اس لیے وطن اور قوم کی قدروقیمت صرف سپاہی جانتا ہے……
'' جب یہ عیاش حکمران دشمن کی بھیجی ہوئی شراب، حسین لڑکیوں اور دولت کے نشے میں بدمست پڑے ہوتے ہیں اُس وقت اللہ کے سپاہی ریگزاروں ، کوہستاوں اور سمندروں میں کٹ رہے ہوتے ہیں ۔ صلاح الدین بھائی! تمہاری عمر بھی صحرائوں میں لڑتے گزر رہی ہے ، میرا پہلا خاوند بھی ساری عمر دین کے دشمنوں سے لڑتا رہا، مگر جب تم ایمان فروش حکمرانوں کے خلاف اُٹھتے ہو تو وہ تمہیں اپنی قوم کا قاتل اور غدار کہتے ہیں ۔ ان فتنوں کی پروا نہ کرو۔ یہ سب صلیبیوں اور یہودیوں کے فتوے ہیں جو ہمارے اپنے بھائی تمہارے خلاف داغ رہے ہیں۔ آئو ، طوفان کیطرح آئو۔ خدا تمہارے ساتھ ہے۔ میں تمہارے لیے زمین ہموار کر رہی ہوں۔ یہاں کا بچہ بچہ تمہارے ساتھ ہوگا …… باقی خبریں اسحاق سے سُن لینا ''۔
اسحاق ترک کو تمام معلومات دے دی گئیں ۔ وہ اُٹھا اور پودوں کو روندتا ہوا باہر نکل گیا ۔ اس کے کچھ ایسا محسوس کیا جیسے اُس نے کسی کے قدموں کی ہلکی سے آہٹ سُنی ہو ۔ اس نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ اُسے یہ شک بھی ہوا جیسے اُسے کچھ دور ایک سایہ جاتا اور پودوں میں غائب ہوتا نظر آیا ہو۔ اُس نے زیادہ توجہ نہ دی ۔ اس کے ذہن پر مسئلہ سوار تھا کہ جس قدر جلدی ہوسکے وہ قاہرہ پہنچے، کہیں ایسا نہ ہو کہ سلطان ایوبی فوج کے ساتھ کوچ کر چکا ہو۔ اسے اس کامیابی کی بہت خوشی تھی کہ اُسے ہر جگہ سے نہایت کارآمد معلومات مل گئی تھیں۔ وہ اپنے ساتھیوں کے پاس گیا۔ بہت جلدی میں کھانا کھایا اور روانہ ہوگیا ۔ اُسے اپنا سفر اس وجہ سے لمبا کرنا پڑا کہ حلب میں آکر اپنے کماندار سے ملنا ضروری تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حلب پہنچا ۔ کماندار سے ملا۔ اس نے اسحاق کو تازہ دم نہایت اچھی نسل کا گھوڑا دیا ۔ پانی کے چھوٹے مشکیزے اور کھانے کی چیزوں سے تھیلابھر گھوڑے کے ساتھ باندھ دیا ۔ اسحاق قاہرہ کے لیے روانہ ہوگیا۔
اُس رات کا ذکر ہے جس رات اسحاق سیرگاہ میں رضیع خاتون سے ملا تھا کہ انوشی طبیعت کی خرابی کا بہانہ کرکے عزالدین اور اس کے قریبی ہمرازوں کی محفل میں نہ گئی۔
عزالدین اس کی مزاج پرسی کے لیے گیا تو انوشی کا چہرہ اترا ہوا تھا۔ وہ بات کرتی تو زبان ہکلاتی تھی ۔ عزالدین نے اپنے طبیب کو بلایا۔ طبیب نے دوا دی جو انوشی نے یہ کہہ کر رکھ لی کہ کھالے گی۔ اُس نے کہا کہ وہ آرام کرنا چاہتی ہے، یہ شب بیداری اور زیادہ شراب پی لینے کے اثرات ہیں۔ عزالدین اور طبیب چلے گئے۔ انوشی دروازہ اندر سے بند کرکے لیٹنے کی بجائے کمرے میں ٹہلنے لگی۔ وہ بہت بے چین تھی ۔ اس نے کئی بار کھڑکی کا پردہ اُٹھا کر باہر دیکھا اور کمرے میں کبھی ٹہلتی، کبھی رُکتی اور پھر کھڑکی کا پردہ ہٹا کر باہر دیکھتی ۔
اس نے اپنے زیورات والا خوشنما بکس کھولا۔ اس میں سے ایک انگوٹھی نکالی ۔ اس کے نگینے والی جگہ ڈبیا کی شکل کی تھی ۔ خوشنما اور وزنی انگوٹھی تھی ۔ اس نے اس پر جڑی ہوئی چھوٹی سی ڈبیا کو جو انگوٹھی کا حصہ تھی ، کھولا۔ اس میں سفید سفوف بھرا ہوا تھا ۔ اس نے سفوف کو ذرا سی دیر دیکھا اور دبیا بند کرکے انگوٹھی اپنی انگلی میں ڈال لی ۔ اس سے اُسے کچھ سکون محسوس ہوا جیسے اس نے اپنی بے چینی اور اداسی کا ذریعہ پیدا کر لیا ہے۔
رات آدھی گزر گئی تھی ۔ اس کی ذاتی خادمہ اس کے کمرے کے قریب ایک کمرے میں سوئی ہوئی تھی ۔ انوشی نے اُسے کہہ دیا تھا کہ آج رات اُسے اس کی ضرورت نہیں ۔ آدھی رات کے بعد وہ خادمہ کے کمرے میں گئی اور اسے جگا کر کہا کہ عامر بن عثمان کو بلا لائو۔ اس کی خادمہ اس کی اور عامر کی ملاقاتوں کی رازدان تھی ۔ وہ گئی اور عامر بن عثمان کو بلا لائی۔ انوشی نے خادمہ سے کہا کہ وہ کمرے کے باہر بیٹھی رہے۔
''عامر!'' انوشی ایسے لہجے میں بولی جس سے عامر واقف نہیں تھا …… ''آج شام وہ کون تھا جو سیر گاہ میں تم سب کے ساتھ بیٹھا تھا ''۔
''کوئی بھی نہیں ''۔ عامر نے لا علمی کا اظہار کرتے ہوئے جواب دیا …… '' میرے پاس کوئی نہیں آیا تھا ۔ میں تو خاتون کی سواری کے ساتھ محافظ بن کے جاتا ہوں اور اُن سے دُور رہتا ہوں ''۔
''عامر !'' انوشی نے بالکل ہی بدلے ہوئے لہجے میں کہا …… '' مجھ سے زمین کی تہوں کے راز پوچھ لو ۔ میں نے تمہیں دل کی گہرائیوں سے چاہا ہے مگر تم نے مجھے کوئی سیدھی سادی صحرائی لڑکی سمجھ لیا ۔ تم ، رضیع خاتون ، شمس النساء اور ان کی خادمہ اکھٹے بیٹھے تھے اور ایک اجنبی تمہارے درمیان بیٹھا تھا ۔ راز ونیاز کی باتیں ہو رہی تھیں۔ ثبوت چاہتے ہو؟ میں نقاب اوڑھ کر اور مستور ہو کر وہاں گئی تھی ۔ تم سب سرگوشیوں میں باتیں کر رہے تھے ۔ پھر وہ اجنبی وہاں اُٹھا اور چلا گیا ۔ میں وہاں سے آگئی ''۔
اسحاق ترک جب ان لوگوں سے اُٹھ کرجا رہا تھا تو اس نے کسی کے قدموں کی دبی دبی آہٹ سنی تھی اور کچھ دور ایک سایہ سا بھی دیکھا تھا ۔ یہ انوشی تھی جو چوری چھپے رضیع خاتون، شمس النساء اور عامر بن عثمان کے پیچھے گئی تھی ۔
عامر بن عثمان سے کوئی جواب نہ بن پڑا۔ اس نے کوئی بے معنی سے بات کی ۔ انوشی استاد تھی ۔ وہ سمجھ گئی کہ اس کے شکوک بے بنیاد نہیں ۔ اس نے کہا …… '' اگر شمس النساء اکیلی ہوتی تو میں سمجھتی کہ اس شہزادی نے تمہیں گھیر رکھا ہے مگر یہ معاملہ کچھ اور ہے …… مجھے بتائو کہ تم مجھ سے یہ راز کی باتیں کیوں پوچھتے رہتے ہو ؟''
'' ویسے ہی ''۔ عامر نے ہنسنے کی کوشش کرتے ہوئے جواب دیا …… '' ان باتوں کے ساتھ میری کیا دل چسپی ہو سکتی ہے ۔ میں صرف اس سے لطف اُٹھاتا ہوں کہ ہم ان بادشاہوں کو کیا سمجھتے ہیں اور یہ اندر سے کیا ہیں؟''
'' عامر!'' انوشی نے قہر بھری آواز میں کہا …… '' تم جانتے ہو میں کون ہوں۔ میرے اشارے پر اس شہر کی اینٹ سے اینٹ بج سکتی ہے۔ مجھے میرے پیاسے جذبات نے دھوکہ دیا اور میں تمہاری محبت کے نشے میں اپنے فرائض فراموش کربیٹھی اور تم اپنا فرض ادا کرتے رہے۔ پھر بھی میرے دل میں تمہاری محبت ہے جس کا ثبوت یہ ہے کہ تم میرے کمرے میں زندہ اور سلامت ہو۔ میں اگر چاہتی تو اس وقت تم قید خانے کی اُٹ کوٹھری میں بیہوش بڑے ہوتے جہاں اذیتوں کے بعد غداروں اور جاسوسوں کو ڈالا جاتا ہے۔ میں نے تمہیں اس جہنم سے بچا لیا ہے۔ مجھے صرف یہ بتا دو کہ تم نے میرے سینے سے راز نکال کر اس اجنبی کو دئیے ہیں اور وہ قاہرہ چلا گیا ہے۔ میرا خلوص اور میری محبت دیکھو کہ میں نے اس آدمی کو نکل جانے کی مہلت دی ۔ میں اُسے اُسی وقت پکڑواسکتی تھی مگر تمہاری محبت نے میرا زہر چُوس لیا ہے ''…… اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ '' میں جو اتنا دلنشیں دھوکہ ہوں ، دھوکے کا شکا ہوگئی ہوں۔ تم جیت گئے ہو ۔ سچ کہہ دو عامر ، سچ کہہ دو ''۔
'' ہاں انوشی !'' عامر نے کہا …… تم نے اپنا فرض ادا کیا ہے، میں نے اپنا فرض ادا کیا ہے ۔ تم مجھے قید خانے میں بند کرادو ''۔
انوشی کے آنسو بہہ نکلے تھے لیکن اُس نے قہقہہ لگایا اور کہا ۔ '' بس اتنی سی بات پوچھنی تھی جو تم نے بتا دی ہے۔ تمہیں کوئی قید خانے میں نہیں ڈال سکتا ۔ اب میں بھی خوشنما پنجرے سے آزادہونا چاہتی ہوں۔ تم شراب نہیں پیتے۔ میں تمہیں بادشاہوں کا شربت پلائوں گی ''۔
وہ اُٹھی اور اُس میز کے پاس جا کھڑی ہوئی جس پر صراحی رکھی تھی ۔ اس کی پیٹھ عامر کی طرف تھی ۔ انوشی نے دو پیالے اپنے سامنے رکھے۔ ناخن سے انگوٹھی کے ساتھ جڑی ہوئی ڈبیہ کھولی۔ اس میں جو سفوف تھا وہ کچھ ایک پیالے میں اور باقی دوسرے پیالے میں ڈال دیا ۔ عامر نہ دیکھ سکا ۔ انوشی نے دونوں پیالوں میں صراحی سے مشروب ڈالا ۔ ایک پیالہ عامر کو دے دیا ، ایک اپنے ہاتھ میں رکھا ۔
''سونگھ لو''۔ انوشی نے کہا …… '' یہ شراب نہیں شربت ہے ۔ یہ میری محبت کا جام ہے۔ پی لو''۔اس نے پیالہ ہونٹوں سے لگالیا۔ عامر نے بھی پیالا ہونٹوں سے لگا لیا ۔ دونوں نے پیالے خالی کر دئیے۔ انوشی نے اس کے ہاتھ سے پیالہ لے لیا اور دونوں پیالے پرے پھینک کر بازو عامر کے گلے میں ڈال دئیے۔ اپنے رخسار اس کے گالوں سے رگڑتی ہوئی بولی …… '' اب ہم آزاد ہیں ''۔
انوشی اُچک کر عامر سے الگ ہو گئی اور بولی ۔ '' تم بھی غنودگی محسوس کر رہے ہو؟''
''ہاں !'' عامر نے جواب دیا …… '' میں گہری نیند سے اُٹھ کر آیا ہوں ۔ نیند پریشان کر رہی ہے ''۔
'' اب ہم دونوں اتنی گہری نیند سوئیں گے کہ ہمیں کوئی جگا نہیں سکے گا ''۔ انوشی نے ایسی آواز میں کہا جس میں غنودگی کا نمایاں اثر تھا۔ کہنے لگی ۔ '' میں تم سے زیادہ تھکی ہوئی ہوں۔ گناہوں نے تھکا دیا ہے '' …… اس کا سر ڈولنے لگا ۔ اُس نے سنبھل کر کہا …… '' زیادہ باتوں کا قوت نہیں عامر! تم میری پہلی اور آخری محبت ہو۔ اب ہم اگلے جہاںمیں اکھٹے اُٹھائے جائیں گے۔ میں اپنا فرض ادا کر چکی ہوں، تم اپنا فرض ادا کر چکے ہو۔ میں نے اس شرب میں وہ زہر ملا دیا تھا جو مجھ جیسی لڑکیوں کو دے کر پردیس بھیجا جا تا ہے۔ یہ ضرورت کے وقت کے لیے دیا جاتا ہے۔ اس سے کوئی تکلیف اور تلخی محسوس نہیں ہوتی ۔ بڑ ی میٹھی غنودگی میں انسان ہمیشہ کی نیند سو جاتا ہے۔ میں لیے زندہ نہیں رہنا چاہتی کہ زندہ رہی تو تمہیں سزا دلادوں گی۔ تمہیں اس لیے زندہ نہیں رہنے دیا کو کوئی اور لڑکی یہ نہ کہے کہ عامر کو اُس سے محبت ہے''۔
عامر بن عثمان لیٹ گیا تھا جیسے وہ انوشی کی باتیں سن ہی نہیں رہا تھا ۔ اس کی آنکھیں بند ہو چکی تھیں۔ انوشی کا سر ڈول رہا تھا ۔ وہ لڑکھڑاتے قدموں سے دورازے تک گئی۔ خادمہ دروازے کے ساتھ کھڑی تھی ۔ اُسے اندر بلا کر کہا …… '' ہم دونوں نے زہر پی لیا ہے ۔ سب کو بتا دینا کہ ہم نے خود زہر پیا ہے۔ کسی اور نے نہیں پلایا۔ کوئی صلیبی ملے تو اُسے بتا دینا کہ سوڈان کی پری اپنا فرض ادا کرکے مری ہے ''۔
اُس کی آواز دب گئی ۔ وہ گرتی گرتی عامر تک پہنچی ۔ خادمہ دوڑتی باہر نکلی۔ تھوڑی دیر بعد کمرے میں کئی لوگ آگئے۔ انہوںنے دیکھا کہ عامر بن عثمان پلنگ پر چِت پڑا ہے اور انوشی اس کے ساتھ لگی اس طرح لیٹی ہوئی ہے کہ اس کا سر عامر کے سینے پر اور اس کا ایک ہاتھ عامر کے سر پر تھا ، جس کی انگلیاں بالوں میں اُلجھی ہوئی تھیں۔ دونوں مرے ہوئے تھے ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اُس وقت اسحاق ترک موصل جا چکا تھا ۔ انوشی نے یہ بات جانتے ہوئے بھی کہ اجنبی سلطان ایوبی کا جاسوس ہو سکتا ہے اُس کا تعاقب نہ کیا ، نہ گرفتار کرانے کی سوچی ۔ اُ سنے زندگی کی یہ چند ہی ساعتیں روحانی سکون پایا تھا جو اُس نے عامر کے ساتھ پیار کے دھوکے میں گزاری تھیں۔ اس نے اس پیار کا صلہ یہ دیا کہ اسحاق کو جانے دیا ۔
اسحاق ترک قاہرہ سے ابھی کوئی دنوں کی مسافت جتنا دُور تھا کہ اس کے گھوڑے کو سانپ نے ڈس لیا ۔ اس حادثے کی تفصیلات اس کہانی کی پچھلی قسط میں سنائی جا چکی ہیں ۔ مندرجہ بالا واقعات اس حادثے سے پہلے کے ہیں جو یہ واضح کرنے کے لیے سنانا ضروری تھے کہ اسحاق ترک کتنی اہم معلومات لے کر قاہرہ جا رہا تھا۔ اسلام کی عزت اور بے عزتی کا دارومداد اس پر تھا کہ یہ اکیلا مجاہد اتنے وسیع اور ایسے ظالم صحرا سے گزر کر قاہرہ بروقت پہنچتا ہے یا نہیں ، مگر اُس کے گھوڑے کی سانپ نے ڈس کر ماردیا اور یہ سوار صحرا کے مظالم سے بے ہوش ہوگیا ۔ ہوش میں آیا تو وہ صلیبیوں کے خیمے میں پڑا تھا جہاں دو صلیبی لڑکیاں بھی تھیں۔ ایک کانام میرنیا اور دوسری کا باربرا تھا ۔ یہ تفصیلات پچھلی قسط میں پڑھ لیں تا کہ وہ واقعات ایک بار پھر آپ کے ذہن میں تازہ ہوجائیں۔
اسحاق ترک بے ہوشی میں بڑبڑارہا تھا جس سے صلیبیوں کی اس ٹولی پر ظاہر ہوگیا کہ یہ مسلمان جاسوس ہے اور کوئی اہم خبر لے کر قاہرہ جارہاہے۔ دونوں لڑکیوں، میرنیا اور باربرا کی آپس میں رقابت تھی ۔ دونوں اپنے کمانڈر کو چاہتی تھیںاور کمانڈر باربرا کو محبت کا دھوکہ دے کر میرنیا کے ساتھ گہری دوستی لگائے ہوئے تھا ۔ باربرا نے انتقام لینے کے لیے اسحاق کو چوری چھپے بتا دیا کہ وہ صلیبی جاسوسوں کے جال میں آگیاہے۔ اسحاق اس چال میں ایسی بُری طرح آیا کہ اس نے اعتراف کر لیا کہ وہ سلطان ایوبی کا جاسوس ہے اور حلب سے آیا ہے۔صلیبیوں کے سربراہ نے اس سے پوچھا کہ وہ کیا خبر لے جارہا ہے؟ اسحاق نے بتایا کہ خبر صرف اتنی سی ہے کہ نورالدین زنگی مرحوم کی بیوہ رضیع خاتون نے عزالدین کے ساتھ شادی کر لی ہے۔ صلیبی سربراہ نے کہا کہ یہ خبر پرانی ہوگئی ہے اور اب سلطان ایوبی شام کی طرف پیش قدمی کرنے والا ہے۔
اس صلیبی نے اسحاق ترک سے کہا کہ وہ صلیبیوں کے لیے جاسوسی کرے اور یہ بھی بتائے کہ وہ کیا راز لے کے جارہا تھا اور بیروت میں جو مسلمان جاسوس ہیں وہ کون کون ہیںاور کہاں کہاں ہیں اور اگر وہ نہیں بتائے گا تو اُسے صلیبی علاقے میں جا کر کسی قید خانے کے تہہ خانے میں بند کردیا جائے گا۔ اسحاق نے یہ سوچ کر ہتھیار ڈال دئیے کہ وہ ان کی حراست سے فرار کی کوشش کرے گا۔ اس نے وعدہ کیا کہ وہ صلیبیوں کے لیے جاسوسی کرے گا ۔ اس سے یہ بھی پوچھا جارہاتھا کہ وہ کیا راز لے کے جارہا ہے۔ اس نے چند ایک باتیں گھڑ لیں جو زیادہ تر شام کے مسلمان امراء سے تعلق رکھتی تھیں ۔ بیروت کے متعلق اس نے بے خبری کااظہار کر دیا اور یہ بھی کہا کہ اُسے بیروت کے راستے کابھی علم نہیں۔
جیسا کہ پچھلی قسط میں بتایا جا چکا ہے کہ یہ صلیبی جاسوسوں اور تخریب کاروں کی پارٹی تھی ۔ ان کے ساتھ ان کے محافظ بھی تھے اور دو لڑکیاں۔ اس پارٹی کی نفری آٹھ نو تھی ۔ یہ قاہرہ سے بیروت کو واپس جارہے تھے ۔ ان کے سربراہ نے اسحاق کو بتایا تھا کہ وہ رات کو روانہ ہو رہے ہیں۔ اسحاق نے جب یہ سنا کہ وہ بیروت جا رہے ہیں تو وہ اور زیادہ پریشان ہوگیا ۔ وہاں اُس کی ملاقات اپنے نائٹ سے بھی ہو سکتی تھی لیکن یہ کوئی ایسا مسئلہ نہیں تھا ، اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ اُسے سلطان ایوبی کو بالڈون کی فوج کا ڈیپلائے بتانا تھا اور اُسے خبردار کرنا تھا کہ وہ بیروت کا محاصرہ ترک کردے۔ اس کے بعد اسحاق جان دینے کے لیے تیار تھا مگر وہ قیدی بن چکا تھا اور نہتہ تھا ۔
رات کو اس قافلے نے وہاں سے کوچ کیا ۔اسحاق کے ہاتھ پیٹھ پیچھے باندھ کر ایک اونٹ پر سوار کردیا گیا تھا ۔ اس اونٹ پر سامان بھی لدا ہوا تھا ۔ سلطان ایوبی کا یہ جاسوس بیروت سے قاہرہ روانہ ہوا تھا مگر قاہرہ پہنچے بغیر بیروت کو واپس جا رہا تھا ۔ مسافت بڑی ہی لمبی تھی ۔ اسحاق ترک اس اُمید پر جا رہا تھا کہ فرار کی کوئی صورت پیدا کرلے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
'' میں اب ایک دن بھی انتظار نہیں کرسکتا ''۔ صلاح الدین ایوبی اپنے سالاروں سے کہہ رہاتھا ……'' فوج تیاری کی حالت میں ہے۔ اس حالت میں فوج کو زیادہ عرصہ رکھنا مناسب نہیں ہوتا۔ سپاہیوں کے عصاب تھک جاتے ہیں ۔ یہ کیفیت جنگ کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ صلیبیوں کو تیاری کی حالت میں دبوچ لینا چاہتا ہوں۔ ہم جب بھی لڑے اپنے علاقوںمیں لڑے ہیں اور اسی پر خوش ہوئے کہ ہم نے دشمن کو پسپا کر دیا ہے۔ دشمن ہماری ہی زمین پر حملہ آور ہوا پسپا ہو کر ہماری ہی زمین پر رہا۔ اب میرا ہر قدم جارحانہ ہوگا ۔ فرنگی فوج بیروت میں ہے۔ مجھے اس کے متعلق کوئی اطلاع نہیں ملی۔ اگر بالڈون نے کوئی نقل و حرکت کی ہوتی تو اطلاع آجاتی ۔ میرا قیاس یہ ہے کہ وہ اور دوسرے صلیبی ہمارے مسلمان امراء کو اپنا حمائتی اور ہمارا دشمن بنانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ وہ ایک پھر ہمیں خانہ جنگی میں اُلجھائیں گے۔ وہ زمین دوز کاروائیوں میں لگے رہیں، ہم بیروت کو محاصرے میں لیں گے اور اللہ کی مدد شامل حال رہی تو یہ عظیم شہر ہمارے قبضے میں آجائے گا ''۔
سالاروں کے اس اجلاس میں سلطان ایوبی کی بحریہ کا امیر البحر بھی موجود تھا ۔ ایک مصری وقائع نگار محمد فرید ابو حدید نے اسکا نام حسام الدین لولوع لکھا ہے۔ یہ بحری جنگ کا ماہر اور غیر معمولی طور پر قابل امیر البحر مانا جاتا تھا۔ بیروت چونکہ بحیرئہ روم کے ساحل پر واقع تھا اس لیے سلطان ایوبی محاصرہ مکمل کرنے کے لیے سمندر کی طرف سے بھی فوج بھیجنے کا فیصلہ کر چکا تھا ۔
'' جن دستوں کو بحری جہازوں سے جانا اور اور ساحل پر اُترنا ہے وہ سکندریہ پہنچ چکے ہیں ۔ حسام الدین کو ہدایات دی جا چکی ہیں ''۔ سلطان ایوبی نے کہا …… '' سمندر سے جانے والے دستے جلدی منزل پر پہنچ جائیں گے، اس لیے یہ کچھ دن بعد روانہ ہوں گے تا کہ خشکی والے دستے پہنچ جائیں، سمندری دستے ساحل پر اتریں گے۔ تیز رفتار قاصد ہمیں اُترنے کی اطلاع دیں گے۔ شہر پر اُن کی یلغار طوفانی ہوگی۔ اگر فرنگیوں نے ہتھیار نہ ڈالے تو آپ سب کو جازت ہوگی کہ شہرہ کو تباہ و بربادکردیں۔ عورت، بچے، بوڑھے اور مریض پر ہاتھ نہیں اُٹھایا جائے گا ۔انہیں پناہ میں لیا جائے گا ۔ فوجیوں کو ہلاک نہیں کیا قید کیا جائے گا ۔ کسی صورت میں لوٹ مار نہیں ہوگی۔ آپ سب کو اجازت ہوگی کہ ان حکام کی خلاف ورزی کرنے والوں کو موقعہ پر قتل کردیں، خواہ وہ کتنے ہی اونچے عہدے کے عسکری کیوں نہ ہوں۔ خشکی کی طرف سے جانے والے دستوں کی پیش قدمی امن کے انداز سے نہیں ، جنگی رفتار سے ہوگی۔ پڑائو بغیر خیموں کے ہوں گے۔ کوئی سامان نہیں کھولا جائے گا ۔ سب کو پانی محدود مقدار میں ملے گا۔ کھانا پکایا نہیں جائے گا ۔ کھجوروں وغیرہ کا ذخیرہ ساتھ جارہا تھا ۔ جانوروں کو پوری طرح خوراک دی جائے گی ''۔
سلطان نے چادر جتنے چوڑے کپڑے پر قاہرہ سے بیروت تک کا نقشہ تیار کرایا تھا جو اُس نے دیوار کے ساتھ لٹکایا اور پیش قدمی کے راستے پر انگلی چلاتے ہوئے کہا ۔ '' یہ ہوگا ہمارا پیش قدمی کا راستہ ''۔ اجلاس کی خاموشی اور زیادہ گہری ہوگئی ۔ سلطان ایوبی نے سب کے چہروں کو دیکھا اور مسکرا کر بولا …… '' خاموش کیوں ہو؟ کہتے کیوں نہیں کہ ہم دشمن کے علاقوں میں سے گزر کر جا رہے ہیں …… میرے دوستو ! ہم احتیاط کے اصولوں پر جنگ لڑتے رہے ہیں ۔ پیش قدمی سے پہلے ہم پہلوئوں کی حفاظت اور پسپائی کا راستہ دیکھتے رہے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ صلیبی فلسطین پر قابض ہیں اور وہ دمشق اور بغداد پر قابض ہو کر مکہ اور مدینہ کی طرف بڑھنے کے منصوبے بنائے ہوئے ہیں ۔ زیاد کا بیٹا طارق سمندر سے دور مصر کے ساحل پر بیٹھا رہتا تو یورپ تک اسلام کا پرچم کبھی نہ پہنچتا ۔ قاسم کا بیٹا محمد اس خطرناک اور اس قدر لمبی مسافت طے کرکے ہندوستان پہنچا تھا جس سے تاریخ کے ورق بھی پھڑپھڑا اُٹھے تھے۔ صلیبی بہت دور سے ہماری سرزمین پر آئے تھے ۔ اگر آپ اسلام کی سربلندی چاہتے ہیں تو ہمیں آگ میں سے گزرنا ہوگا۔ اگر صرف حکومت کرنی ہے تو آئو مصر اور شام کو ٹکڑوں میں بانٹ لیں اور بادشاہ بن کے بیٹھ جائیں۔ پھر اپنی اپنی بادشاہی کو قائم رکھنے کے لیے صلیبیوں اور یہودیوں سے مدد لیتے رہیں گے اور اپنا دین و ایمان ان کے پاس گروی رکھ دیں گے ''۔
''محترم سلطان !'' ایک سالار نے اُ ٹھ کر کہا …… '' ہم احکام اور ہدایات کے منتظر ہیں ۔ ہم میں سے کوئی بھی اس سے خوفزدہ نہیں کہ ہم دشمن کے علاقے سے گزریں گے۔ ہمیں یہ بتائیے کہ ان علاقوں سے گزرتے ہوئے ہماری ترتیب کیا ہوگی؟ کیا ہر دستہ اپنی حفاظت خود کرے گا ؟''
'' نہیں !'' سلطان ایوبی نے کہا …… '' میںانہیں ہدایات کی طرف آرہا تھا ۔ ہر دستہ اپنی پیش قدمی جاری رکھے گا ۔ دائیں بائیں، آگے اور پیچھے جو کچھ ہوتارہے اس کی طرف آپ دھیان نہیں دیں گے۔رسد اکٹھی نہیں جارہی۔ اسے کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا ہے تا کہ دشمن اسے تباہ نہ کر سکے ۔ ساری فوج کی حفاظت چھاپہ مار جیش کریں گے ۔ چھاپہ ماروں کے سالار صارم مصری یہاں موجود ہیں۔ انہیں بہت پہلے ہدایات دے دی گئی تھیں۔ انہوں نے چھاپہ ماروں کو تربیت اور مشق دے لی ہے۔ باقی سب اپنی نظریں بیروت پر رکھیں گے ''۔
سلطان ایوبی نے ہر قسم کی ہدایات دے کر کہا …… '' کوچ آج رات کے پہلے پہر ہوگا اور سب سے ضروری احتیاط یہ کرنی ہے کہ اس کمرے سے باہر کسی کو پتہ نہ چلے کہ ہماری منزل کیا ہے۔ سپاہیوں اور کمانڈروں تک کے کان میں نہ پڑے کہ ہم کہاں جا رہے ہیں ''۔
سلطان ایوبی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ بیروت میں اس کے استقبال کا انتظام کر دیا گیا ہے اور وہ فرنگیوں کو بے خبری میں شاید نہ دبو چ سکے ۔
رات کو جب فوج کوچ کر رہی تھی، سلطان ایوبی اپنی ہائی کمان کے سالاروں کے ساتھ راستے میں کھڑا ہر دستے کی سلامی لے رہا اور دعائیں دے رہا تھا ۔ اُس کے پاس اُس کے ایک بیٹے کا بزرگ اتالیق بھی کھڑا تھا ۔ سلطان ایوبی اساتذہ اور علماء کی بہت قدر کیا کرتا تھا ۔ محمد ابو حدید کی تحریروں کے مطابق جب فوج کا آخری دستہ بھی چلا گیا تو سلطان ایوبی بھی روانہ ہونے لگا ، اس کے بیٹے کے اتالیق نے عربی کاایک شعر پڑھا جس کا ترجمہ یوں ہے۔
'' آج نجد کے پھو عرار کی خوشب سے لطف اُٹھالو۔ شام کے بعد یہ پُھول نہیں ملا کرتا ''۔
یہ مصری وقائع نگار لکھتا ہے کہ اُس وقت تک سلطان ایوبی کا مزاج ہشاش بشاش تھا مگر یہ شعر سن کر اُس پر اداسی طاری ہوگئی ۔ اس نے بوقت رخصت اس شعر کو بدشگوفی سمجھا ۔ وہ فوج کے پیچھے روانہ ہوگیا۔ راستے میں اُس نے اپنے سالاروں سے کہا …… '' اس بزرگ سے مجھے توقع تھی کہ الوداعی کے وقت دعا دئیں گے ۔ انہوں نے ایسا شعر سنا دیا ہے جس نے میرے دل پر بوجھ ڈال دیا ہے '' …… اورہوا بھی یہی کہ اس روانگی کے بعد سلطان ایوبی مصر آہی نہ سکا۔ اس کی باقی عمر سرمینِ عرب پر جنگ و جدل میں ہی گزر گئی ۔ مصر والوں کو عرار کا یہ پھول پھر کبھی نظرنہ آیا۔
مصر سے سلطان کی روانگی مئی ١١٨٢ء میں ہوئی تھی.
صحرا کا وہ خطہ بڑا ہی ہولناک تھا جہاں صلیبی جاسوسوں اور تخریب کاروں کاقافلہ داخل ہوگیا تھا ۔ اسحاق ترک اُن کا قید تھا لیکن اب اُس کے ہاتھ بندے ہوئے نہیں تھے۔ دو دن اور دو راتیں بعد اُ س کے ہاتھ کھانے کے وقت کے سوا ہر وقت بندھے رہتے تھے۔اُس نے اس پارٹی کے سربراہ سے کہا تھا کہ وہ بھاگ نہیں سکتا ۔ بھاگ کر جائے گا کہاں۔ پاپیادہ تو وہ کہیں جا نہیں سکتا ۔ بڑی مشکل سے دو کوس چلے گا اورصحرا اُسے اسی طرح بے ہوش کرکے ختم کردے گا جس طرح وہ بے ہوش ہو کر پکڑا گیا تھا۔ سربراہ نے اپنے ساتھیوں سے مشورہ کرکے ہاتھ کھول دئیے تھے اور اُن سے کہا تھا کہ اس پر نظر رکھیں۔ اسحاق ترک نے اُن پر اعتماد جما لیا ۔ اُس نے سلطان ایوبی اور دوسرے مسلمان حکمرانوں کو برا بھلا کہنا شروع کردیا تھا۔ اُس نے صلیبی سربراہ کو یقین دلا دیا تھا کہ وہ ان کا جاسوس بن جائے گا مگر اس سے جب یہ پوچھتے تھے کہ وہ کیا راز لے کر جا رہا تھا تو وہ صحیح جواب نہیں دیتا تھا ۔
دو صلیبی لڑکیوں کی رقابت بدستور چل رہی تھی ۔ میرنیا اپنے سربراہ کی منظورِ نظر تھی اور باربرا کو سربراہ نے اس حد تک دھتکار دیا تھا کہ اُس کے ساتھ جو بھی بات کرتا طنزیہ انداز سے کرتا تھا۔ باربرا بجھ کے رہ گئی تھی ۔ میرنیا اس کوشش میں تھی کہ وہ اسحاق ترک کے سینے سے وہ راز نکال لے جو وہ قاہرہ لے کے جارہا تھا ۔ اس دلکش لڑکی نے راتوں کو اسحاق کے پاس بیٹھ کر اُس کے جذبات کو مشتعل کرنے کا ہر دائو آزما لیا لیکن اسحاق پتھر کا بُت بنا رہا ۔باربراہ کی خواہش یہ تھی کہ اسحاق میرنیا کو کچھ بھی نہ بتائے۔ پارٹی کے سربراہ کے بعد کا رتبہ مارٹن نام کے ایک آدمی کا تھا ۔ یہ آدمی باربرا کو چاہتا تھا مگر باربرا نے اُسے بُری طرح دھتکار دیا تھا ۔وہ اس لڑکی کو دھمکیاں بھی دے چکا تھا کہ اُس نے قاہرہ میں جو غلطیاں کی ہیں اُن کی سزا دلائے گا ۔ یہی دھمکی اُسے سربراہ بھی دے چکا تھا ۔ وہ مایوس تو تھی ہی ، اب خوفزدہ بھی رہنے لگی تھی۔
باربرا کا خون اُس وقت کھولتا تھا جب میرنیا اُس کے ساتھ طنزیہ بات کرتی تھی ۔ ایک روز اس نے باربرا سے کہا …… '' باربرا ! تم اس کام کے قابل نہیں ہو۔ تمہاری کھوپڑی میں دماغ میں ہے ہیں نہیں۔ تم کسی قحبہ خانے میں ناچنے اور گاہکوں کادل پرچانے والی عورت ہو۔ میرا کمال دیکھو۔ صحرامیں بھی ایک مسلمان جاسوس پکڑلیا ہے۔ یہ میرا شکا ر ہے۔ تم اس کے قریب نہ جانا۔ بیروت میں اس کا مجھے انعام ملے گا ''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
باربرا جل اُٹھی ۔ اُ س رات اُس کا دماغ جیسے جواب دے گیا ۔ مارٹن تو اُس کے پیچھے پڑا ہی رہتا تھا ۔ اس رات وہ خود مارٹن کے پاس گئی اور اُسے کہا کہ میرنیا سے انتقام لینا چاہتی ہے۔ اُس نے اس خوف کا اظہار بھی کیا کہ بیروت پہنچ کر اُسے سزا ملے گی کیونکہ قاہرہ میں اُس سے اپنی زمین دوز سرگرمیوں میں کوتا ہی ہوئی تھی ۔ وہ اپنے آپ کو بے بس اورتنہا محسوس کر نے لگی تھی ۔ وہ مارٹن سے مدد، ہمدردی اور پناہ مانگ رہی تھی ۔ مارٹن تو اس کا شیدائی تھا۔ اُس نے باربرا سے مدد کا معاوضہ یہ مانگا کہ اُسی کی ہوجائے۔ باربرا کون سی شریف لڑکی تھی ۔ وہ مان گئی ۔ گناہوں میں پلی ہوئی اور گناہوں کی تربیت یافتہ لڑکی کے لیے یہ معاوضہ جو مارٹن نے مانگا تھا کوئی زیادہ نہیں تھا …… مارٹن نے فوراً ایک ترکیب سوچ لی اور باربرا کو بتادی ۔ اس پر عمل درآمد کے لیے اگلی رات مقرر کی گئی ۔
اگلی رات جہاں قیام کیا گیا وہ صحرا کا بڑا ہی ہولناک خطہ تھا ۔ دُور دُور تک عجیب و غیریب شکلوں کے ٹیلے کھڑے تھے۔ بعض ستونوں اور میناروں جسے تھے۔ بعض ٹیڑھی ٹیڑھی دیواروں کی طرح اور کچھ جانوروں کی شکلوں کے بھی تھے، یہ ٹیلے بکھرے ہوئے تھے ۔ پانی اور سبزے کا وہاں نام و نشان نہ تھا ۔ رات کو یہ ٹیلے یو ں نظر آتے تھے جیسے دیو کھڑے ہوں۔ اس خطے میں قافلہ شام کا اندھیرا پھیل جانے کے بعد روکا۔ مارٹن نے اندھیرے سے یہ فائدہ اُٹھایا کہ اپنا گھوڑا اپنے خیمے کے ساتھ باندھا اور زین اتار کر اس کے قریب رکھ دی ۔
اسحاق کے لیے الگ خیمہ تھا جو مارٹی نے اپنے قریب نصیب کرایا تھا ۔ اسحاق کے متعلق اب سربراہ بھی مطمئن ہوگیا تھا ۔ رات گھوڑوں اور اونٹوں کے اردگرد محافظ ہوتے تھے ۔ ایسا امکان نہیں تھا کہ اسحاق گھوڑا کھول لے گا، کسی کو پتہ چلے بغیر زین کس لے گا اور بھاگ نکلے گا …… قافلے والے تھکے ہوئے تھے ۔ سب سے ہوگئے۔ اسحاق بھی سو گیا ۔ آدھی رات کو کسی کے آہستہ آہستہ ہلانے وہ جاگ اُٹھا اور سرگوشی سنائی دی …… '' اُٹھو ، ساتھ والے خیمے کے پاس گھوڑا کھڑا ہے ۔ زین پاس پڑی ہے ۔ دیر نہ کرو ، بھاگو''۔
''کون ہو تم؟''
'' باربرا!'' لڑکی نے جواب دیا …… '' مجھ سے یہ پوچھنا کہ مجھے تم سے کیا ہمدردی ہوسکتی ہے ۔ یہ میں ہی تھی جس نے تمہیں بتایا تھا کہ ہم سب صلیبی جاسوس ہیں اور تمہیں غلط بتایا جا رہا ہے کہ ہم مسلمان ہیں ۔ وقت ضائع نہ کرنا۔ سب سوئے ہوئے ہیں ۔ جلدی اُٹھو۔ گھوڑے والے خیمے سے بائیں طرف ہوجاتا ۔ آگے راستہ صاف ہے ۔ میں اپنے خیمے میں چلی گئی ۔ وہاں کمان پڑی تھی ۔ اُس نے کمان اور تیروں کی ترکش اُٹھا ئی اور خیمے سے باہر نکل کر اُس راستے کے قریب بیٹھ گئی جو اس نے اسحاق کو فرار کے لیے بتایا تھا ۔ اسحاق نے بڑی تیزی سے گھوڑے پر زین ڈال کر کس لی۔ گھوڑا کھولا اور دبے پائوں چل پڑا۔ ریت پر گھوڑوں کے قدموں کی آہٹ نہیں تھی ۔ سب سوئے ہوئے تھے۔خیمے سے ذرا دُور جاکر وہ گھوڑے پر سوار ہوا۔ کچھ اور آگے جا کر اُس نے ایڑ لگائی۔ صحراکی خاموش اور خنک رات میں کمان کی ''پنگ'' سنائی دی اور ایک تیر اسحاق کی پیٹھ میں اُتر گیا ۔ فوراً بعد دوسرا تیر آیا اور یہ بھی اُس کی پیٹھ میں لگا ۔ اس کے ساتھ ایک لڑکی کا شور سنائی دیا …… '' بھاگ گیا ۔بھاگ گیا ۔ اُٹھو ، جاگو''۔
سب جاگ اُٹھے ۔ مشعلیں جلالی گئیں۔ باربرا شوربپا کیے ہوئے تھی کہ قیدی بھاگ گیا ہے۔ اس کے ہاتھ میں کمان تھی ۔ بہت جلدی گھوڑے دوڑا دئیے گئے ۔ انہیں زیادہ دُور نہیں جانا پڑا۔ اسحاق کو دو تیروں نے گھوڑے سے گرادیا تھا اور گھوڑا کچھ دور پڑا تھا ۔ تیر قریب سے چلائے گئے تھے اس لیے جسم میں گہرے اُترگئے تھے۔ اسحاق ابھی ہوش میں تھا ۔ اُسے اُٹھا کر لے آئے ۔ سربراہ نے اُس سے پوچھا کہ اُسے بھاگنے میں کس نے مدد دی تھی ؟ اس نے جواب دیا …… '' نہیں ۔ میں نے گھوڑا اور زین دیکھی ۔ سب سو گئے تھے ۔ میں بھاگ اُٹھا '' …… اُس کے فوراً بعد وہ غشی میں چلا گیا اور غشی میں ہی شہید ہوگیا ۔
'' میںنے اُسے گھوڑے پر سوار ہوتے اور بھاگتے ہوئے دیکھا تھا '' ۔ باربرا نے کہا …… '' اتفاق سے کمان اور ترکش میرے خیمے میں تھے۔ میں نے اُٹھا ئی اور اُس کے پیچھے دوڑی ۔ یکے بعد دیگرے دو تیر چلائے۔ دونوں ۔ اُسے لگ گئے ورنہ یہ نکل گیا تھا ''۔
'' آج ہی یہ اتفاق کیوں ہوا کہ کمان اور ترکش تمہارے خیمے میں تھے؟ '' میرنیا نے باربرا سے پوچھا۔
'' اور مارٹن ! یہ گھوڑا تمہارا تھا ''۔ سربراہ نے کہا…… '' یہ کہاں تھا اور زین کہاں تھی ؟''
'' یہ گھوڑا قیدی کے خیمے کے قریب بندھا تھا ''۔ ایک محافظ نے کہا ۔
'' تم میرے اس کارنامے پر مٹی ڈالنا چاہتے ہو؟'' باربرا نے غصے سے کہا …… '' یہ کوئی اہم راز قاہرہ لے جارہا تھا ۔ میں نے اُسے صرف بھاگنے سے نہیں روکا بلکہ ایک راز قاہرہ پہنچنے سے روکا ہے''۔
یہ دراصل مارٹن کا تیار کیا ہوا ڈرامہ تھا کہ اسحاق کو بھاگنے کی سہولت دو اور باربرا گھات میں بیٹھ کر اُس پر تیر چلائے تا کہ یہ کارنامہ باربرا کے کھاتے میں لکھا جائے،مگر اُن کا سربراہ تجربہ کار جاسوس اور سراغرساں تھا ۔ اس نے مارٹن اور باربرا کو گہری نظروں سے دیکھا اور کہا …… '' مارٹن! میں اس پیشے میں تم سے بہت عرصہ پہلے آیا تھا ۔ بیروت پہنچنے تک تم اور باربرا کوئی بہتر جواب سوچ لو ''۔
'' یہ ان لوگوں کی ذاتی اور رقابت اور دوستی دشمنی کی سیاست تھی جس کا شکار سلطان ایوبی کا ایک بڑاہی قیمتی جاسوس ہوگیا تھا ''۔
٭ ٭ ٭
سلطان ایوبی کی پیش قدمی بہت تیز تھی ۔ اُس کی فوج آدھی سے زیادہ مسافت طے کرکے اس علاقے میں داخل ہوگئی تھی جس پر صلیبیوں کا سیایہ پڑا ہوا تھا ۔ اُس جگہ تک فوجیوں کا حلیہ ایک جیسا تھا ۔ گرد کی تہوں میں کسی کا چہرہ پہچانا نہیں جاتا تھا۔ مئی کا مہینہ تھا جب صحرا لوہے کی طرح تپ رہا تھا ۔ سب نے منہ سر کپڑوں میں لپیٹ رکھے تھے ۔ کوئی بھی اجازت کے بغیر پانی نہیں پی سکتا تھا ۔ دستے ترتیب میں نہیں رہے تھے ۔ گھوڑوں اور اونٹوں کے سواروں نے پیادوں کو باری باری گھوڑوں اور اونٹوں پر سوار کرنا شروع کردیا۔ فضا جل رہی تھی …… اور ایک گونج دُور دُور تک سنائی دے رہی تھی …… '' لا الٰہ اللہ ۔ لا الٰہ اللہ '' …… کبھی چند سپاہی مل کر کوئی ترانہ گاتے تھے اور فوج جنون اور وجد کی کیفیت میں چلی جا رہی تھی ۔
سلطان صلاح الدین ایوبی فوج کے درمیان جا رہا تھا ۔ اُس نے اپنے آپ کو بھی پانی پینے کی اجازت نہیں دی تھی ۔ اُس نے گھوڑے سے ذرا اوپر اُٹھ کر دیکھا اور گھوڑے کا رُخ بدل کر ایڑ لگا دی ۔ اس کی ہائی کمان کے سالار اوردگر عملہ جس میں تیز رفتار قاصد تھے اُس کے پیچھے تھے ۔ آگے وہی علاقہ تھا جہاں اسحاق ترک شہید ہوا تھا ۔ ڈرائونی شکلوں کے ٹیلے تھے ۔ سلطان ایوبی نے ان ٹیلوں کے درمیان جاکر گھوڑرا روک لیا اور چھاپہ مار دستوں کے کمانڈر صارم سے کہا …… '' صارم دوست ! یہاں سے تمہارا کام شروع ہوتا ہے ۔ اپنے دستوں کو پھیلادو۔ ہر جیش دوسرے سے دُور رہے۔ آگے جانے والے جیش فوراً جلے جائیں''۔
'' اور باقی فوج اسی طرح چلتی رہے''۔ صارم مصری کے جانے کے بعد سلطان ایوبی نے دوسروں سے کہا …… '' کچھ بھی ہوجائے فوج پیش قدمی جاری رکھے۔ ہم دشمن کے علاقے میں آگئے ہیں ''۔
احکام اور ہدایات کے کر سلطان ایوبی نے گھوڑا آہستہ آہستہ چلایا۔ اُسے ایک طرف زمین پر ایسے آثار نظر آئے جیسے یہاں کوئی مسافر رُکے ہوں۔ وہیں ایک لاش پڑی نظر آئی جو ریت میں دبی ہوئی تھی لیکن نظر آتی تھی ۔ سلطان رُک گیا ۔ یہ لاش کھائی ہوئی تھی ۔ ہڈیاں نظر آ رہی تھیں۔ ایک آدمی نے اس ڈھانچے کو سیدھا کیا۔ پیٹھ میں دو تیر لگے ہوئے تھے۔ چہرے کا گوشت سوکھ گیا تھا ۔
'' جانے دو''۔ سلطان ایوبی نے کہا …… ' ' کسی قافلے کا مقتول معلوم ہوتا ہے ۔ صحرا میں آکر انسان پاگل ہوجاتے ہیں ''۔
سلطان ایوبی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ اُس کا اپنا قابلِ اعتماد جاسوس اسحاق ترک تھا جو اُسے یہ بتانے آرہا تھا کہ بیروت نہ جانا۔ صلیبیوں نے وہاں اپنی فوج کو جس طرح پھیلا رکھا تھا اس کا نقشہ اُس نے ذہن میں محفوظ کر لیا تھا …… اسحاق کی ہڈیوں کا پنجر اُسے کچھ بھی نہ بتا سکا ۔
چھاپہ مار جیس اس طرح پھیل گئے کہ پیش قدمی کرتی ہوئی فوج کے پہلوئوں میں دو تین میل دُور تک چلے گئے۔ چند ایک جیش ہراوّل سے بھی آگے نکل گئے اور عقب میں بھی چلے گئے ۔ اُن کی جنگ بیروت سے دُور ہی سے شروع ہو گئی۔ اس ڈرائونے علاقے سے آگے نکل گئے تو رات آگئی۔ فوج چلتی رہی ۔ آدمی رات کے قریب پڑائو کا حکم ملا ۔ فوج رُک گئی لیکن چھاپہ مار متحرک اور سرگرم رہے۔ اُن کے لیے احکام یہ تھے کہ کوئی مشکوک آدمی نظر آئے اور وہ بھاگنے کی کوشش کرے تو اسے ہلاک کردو۔ کوئی قافلہ دیکھو تو اُسے بھی روک لواور فوج بہت دُور آگے نکل جائے تو اُسے چلنے کی اجازت دے دو۔
فوج چلتی رہی ۔ رُکتی رہی ۔ سورج طلوع ہوتا ، مجاہدوں کے اس قافلے کو جھلساتا اور غروب ہوتا رہااور سلطان کو پہلی اطلاع ملی کہ صلیبیوں کی سرحد کی ایک چوکی پر اپنے چھاپہ ماروں نے شبخون مار کر سب کو ختم کر دیا ہے۔ ریگزار ختم ہوتا جا رہا تھا ۔درخت بھی نظر آنے لگے تھے اور کہیں کہیں سبزہ بھی دکھائی دیتا تھا ۔ چھوٹے چھوٹے گائوں بھی نظر آنے لگے تھے۔
بیروت میں بالڈون اپنے مختلف فوجی شعبوں سے رپورٹ لے رہا تھا ۔ اُس کے پاس ابھی وہی اطلاع تھی کہ سلطان ایوبی بیروت کا محاصرہ کریگا ۔ اس نے اس کا انتظام تو کر لیا تھا لیکن اُسے اس سے آگے کوئی اطلاع نہیں مل رہی تھی کہ سلطان ایوبی نے قاہرہ سے کوچ کیا ہے یا نہیں ۔ اس دوران جاسوسوں کا یہ قافلہ بھی بیروت پہنچ گیا تھا جس نے اسحاق ترک کو پکڑا اور مارا تھا ۔ یہ قافلہ بھی بالڈون کو کوئی خبر نہ دے سکا ۔ بالڈوںن نے دیکھ بھال کے لیے بیس پچیس گھو سواروں کا ایک جیش آگے بھیجا تھا ۔ وہ بھی واپس نہیں آیا تھا ۔وہ واپس آبھی نہیں سکتا تھا ۔
گھوڑ سواروں کا جیش بہت دُور نکل گیا تھا ۔ اُسے دُور سے گرد اُٹھتی نظر آئی جو کسی قافلے کی نہیں ہو سکتی تھی ۔ زمین سے اُٹتھے ہوئے گرد کے یہ بادل فوج کے ہی اُڑائے ہوئے ہو سکتے تھے ۔ گھوڑ سوار ٹیلوں کے اندر چلے گئے ۔ ان کاکمانڈر ایک ٹیلے پر چڑھا اور دیکھنے لگا ۔ کہیں سے ایک تیر آیا جو اُس کی گردن کے آرپار ہوگیا۔ دوسرے سورا رنیچے تھے ۔ اچانک ان پر تیر برسنے لگے۔ ان میںسے چند ایک نے بھاگنے کی کوشش کی لیکن صارم مصری کے چھاپہ ماروں نے کسی کو زندہ نہ جانے دیا ۔ اُن کے ہتھیار اور گھوڑے قبضے میں لے لیے گئے۔
کوئی خبر نہ ملنے کے باوجود بالڈون اور اُس کے جرنیل مطمئن تھے ۔ انہوں نے بیروت کو محاصرے سے بچانے کے لیے نہایت کارگر انتظامات کر رکھے تھے۔ وہ اس لیے بھی مطمئن تھے کہ سلطان ایوبی آگے بڑھتا جا رہا تھا ۔ چھاپہ ماروں کے حملوں اور سرگرمیوں کی اطلاعیں زیادہ آنے لگی تھیں۔ اب تو یہ اطلاعیں بھی آنے لگیں تھیں کہ اتنے میل دوردُ شمن کے ایک دستے کے ساتھ جھڑپ میں اتنے چھاپہ مار شہید اور اتنے زخمی ہوگئے ہیں۔ سلطان ایوبی ایسی ہر اطلاع پر ایک ہی جواب دیتا …… '' شہیدوں کو کہیں دفن کردو …… زخمیوں کو پیچھے بھیج دو '' ……
یہ سلطان ایوبی کی جنگی اہلیت کا کمال تھا کہ وہ اپنی فوج کو ایسے علاقے سے صحیح و سالم لے جا رہا تھا جہاں جگہ جگہ دشمن موجود تھا ۔ اُس کے تھوڑی تھوڑی نفری کے چھاپہ مار جیش شبخون مارتے ، دشمن کی جمعیت کو بکھیرتے اور بیکار کرتے جا رہے تھے ۔ بعض شبخون بڑے پیمانے کی لڑائی کی صورت اختیار کر جاتے تھے، لیکن چھاپہ مار جم کر نہیں لڑتے تھے ۔ وہ بھاگتے دوڑتے ، وارکرتے اور دشمن کی بڑی سے بڑی جمعیت کو بکھیر دیتے تھے۔ یہ جھڑپیں اور خون خرابہ سلطان ایوبی کی فوج سے دُور دُور ہوتا تھا ۔
سکندریہ میں حسام الدین لولوع کا بحری بیڑہ تیار تھا ۔ جہازوں میں جانے والی فوج بھی تیار تھی ۔ حسام الدین نے سلطان ایوبی کی مسافت اور رفتار کے حساب اندازے سے رکھا ہوا تھا۔ ایک روز اُس نے فوج کو جہازوں میں سوار ہونے کا حکم دیا اور رات کے وقت جہازوں کے لنگر اُٹھا کر بادبان کھول دئیے گئے۔ جہاز سمندر کے سینے پر سرکنے لگے ۔ کھلے سمندر میں جاکر حسام الدین نے جہازوں کو دُور دُور پھیلا دیا ۔ وہ ماہر امیر البحر تھا ۔ اُس کے جہازوں میں جو فوج جا رہی تھی اُس کے سالار اور نائب سالار سلطان ایوبی کے تربیت یافتہ تھے ۔ وہ اندھا دھند نہیں جارہے تھے ۔ انہوں نے دیکھ بھال کے لیے تربیت یافتہ فوجی ماہی گیروں کے بہروپ میں چھوٹی چھوٹی بادبانی کشتیوں میں آگے بھیج دئیے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*