⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟡 𝟡⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان ایوبی نے کہا …… '' تم جانتے ہو میں نے فوج کو تیاری کا حکم دے رکھا ہے ۔ یہ تمہارے سامنے کی بات ہے کہ میں دان رات فوج کو جنگی مشقیں کرارہا ہوں ۔ پر راز کی یہ بات بھی سُن لو کہ میں حلب اور مو صل کی طرف نہیں جائوں گا ۔میرا ہدف اب بیروت ہوگا ۔ میں اب دفاعی جنگ نہیں لڑوں گا ۔ حلب وغیرہ کے علاقوں میں اپنی فوج لے جانے کا مطلب یہ ہوگا کہ میں ان علاقوں کے دفاع کے لیے جا رہا ہوں ۔ اب میرا انداز جارحانہ ہوگا ۔ بیروت فرنگیوں کا دل ہے، ٹانگوں اور بازئوں پر وار کرنے کی بجائے کیوں نہ ہم دشمن کے دل پر ایک ہی وار کرکے ختم کر دیں۔ اب میں قوم اور فوج کو جارحیت کی تربیت دے رہا ہوں۔ اپنے علاقوں میں لڑتے رہنے سے ہم بیت المقدس تک کبھی نہیں پہنچ سکتے……معلوم کرو علی ! معلوم کرو۔ وہاں سے ابھی تک کوئی اطلاع کیوں نہیں آئی ۔ مجھے دو راز درکار ہیں ۔ ایک یہ کہ بیروت میں فرنگی فوجی کی سرگرمیاں کیا ہیں اور حل میں عزّ الدین کی نیت کیا ہے۔ کیا ہم ایک اور خانہ جنگی کی طرف تو نہیں بڑھ رہے ؟''
''بیروت میں اسحاق ترک ہے''۔ علی بن سفیان نے کہا …… ''وہ خود نہ آیا تو کسی اور کو بھیج دے گا ''۔ علی بن سفیان نے کہا …… ''میں یہاں سے کسی کو روانہ کردیتا ہوں''۔
''میں زیادہ دن انتظار نہیں کر سکتا علی !''سلطان ایوبی نے کہا …… ''یہاں سے کسی کو روانہ کرو گے ۔ وہ جائے گا ۔ وہاں کے حالات معلوم کرے گا اور واپس آئے گا ۔ اس میں کم از کم تین مہینے لگ جائیں گے ، میں چند دنوں تک فوج کو کوچ کا حکم دے دوں گا ''۔
''تو پھر آپ اندھیرے میں پیش قدمی کریں گے؟'' علی نے پوچھا ۔
''چھاپہ ماروں کو ہر اول سے بہت آگے پھیلا کر رکھوں گا ''۔ ایوبی نے کہا …… '' میں اللہ کے حکم سے اللہ کی سر زمین کی آبرو کی خاطر جا رہا ہوں۔ میں اپنی سلامتی کے لیے سفر میں آرام سے نہیں بیٹھ سکتا ''۔
یہ اپریل ١١٨٢ء کے دن تھے جب سلطان صلاح الدین ایوبی اور علی بن سفیان اپنے اُن جاسوسوں میں سے کسی کا انتظار بے تابی سے کر رہے تھے جو انہوں نے صلیبیوں کے مقبوضہ مسلمان علاقوں اور حلب وغیرہ میں بھیج رکھے تھے ۔ آپ پیچھے پڑھ آئے ہیں کہ اس سے دو ماہ قبل نورالدین زنگی مرحوم کا بیٹا الملک الصالح جو والئی حلب بن کر سلطان ایوبی کے خلاف ہو گیا تھا ،مر گیا تھا ۔ سلطان ایوبی کے ساتھ جنگ نہ کرنے اور اُس کا اتحادی رہنے کے معاہدے کے باوجود وہ درپردہ صلیبیوں کا حواری رہا تھا۔ اُس کی موت صلیبیوں اور سلطان ایوبی کے لیے بہت اہم واقعہ تھا۔ الملک الصالح نے مرنے سے پہلے عزالدین مسعود کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا ۔ یہ واقعہ بھی اہم تھا اور سب سے زیادہ اہم یہ واقعہ ہوا تھا کہ عزالدین کی خواہش کے مطابق نورالدین زنگی مرحوم کی بیوہ (الملک الصالح کی ماں) رضیع خاتون نے اُس کے ساتھ شادی کرلی تھی ۔ رضیع خاتون شادی کی خاطر شادی نہیں کرنا چاہتی تھی ۔ سلطان ایوبی کے بھائی العادل نے اس تک عزالدین کا پیغام لے کر اُسے کہا تھا کہ یہ شادی دمشق اور حلب کی ہوگی ، اس سے آئندہ خانہ جنگی کا خطرہ ختم ہو جائے گا اور صلیبیوں کے خلاف محاذ مضبوط کیا جاسکے گا ۔ رضیع خاتون یہ کہہ کر رضا مند ہوگئی تھی کہ میری ذاتی خواہشیں مر چکی ہیں ۔ میں عظمتِ اسلام کی خاطر ہر قربانی دینے کے لیے تیار ہوں۔
اُس نے قربانی دے دی اورعزالدین کے ساتھ شادی کرلی ۔ حلب اور موصل کی امارتوں پر بڑی مدت سے صلیبیوں کے اثرات کا م کر رہے تھے جس کے نتیجے میں یہ امارتیں سلطان ایوبی کے خلاف متحد ہوگئیں اور تین سال مسلمانوں میں خانہ جنگی ہوتی رہی تھی ۔ آپ اس کی تفصیلات پڑھ چکے ہیں ۔ اب رضیع خاتون نے عزالدین کے ساتھ شادی کرلی تو صلیبیوں کو یہ فکر لاحق ہوئی کہ رضیع خاتون صلیبیوں کے سب سے بڑے دشمن زنگی کی بیوہ ہے اس لیے وہ حلب اور موصل اور دیگر مسلمان علاقوں سے صلیب کے اثرات ختم کردے گی ۔ ادھر مصر میں سلطان ایوبی کو یہ پریشانی لاحق تھی کہ صلیبی جنگی کاروائی کریں گے۔ سلطان نے یہ بھی سوچا تھا کہ عرب سے اس کی غیر حاضری سے صلیبی فائدہ اٹھائیں گے۔
سلطان ایوبی نے حالات کا اور آنے والے حالات کا بھی جائزہ لیا اور یہ فیصلہ کیا کہ بیشتر اس کے کہ صلیبی پیش قدمی کرکے حلب اور موصل کا محاصر ہ کرلیں ، وہ مصر سے برق رفتار پیش قدمی کرے اور بیروت کو محاصرے میں لے لے، یہ بڑا ہی نازک اور خطرناک فیصلہ تھا ۔ بیروت کو محاصرے میں لینے کے لیے اُسے فوج دشمن کے علاقے میں سے گزار کر لے جانی تھی ۔ راستے میں ہی تصادم کا خطرہ تھا ۔ بہرحال سلطان ایوبی نے تمام خطروں کا جائزہ لے لیا تھا اور ہر قسم کی صورتِ حال کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار تھا ۔ اُس نے جاسوسوں کی اطلاعات کے بغیر کم ہی کبھی پیش قدمی کی تھی لیکن اب حالات کا تقاضا کچھ اور تھا ۔ اُسے سب سے زیادہ ضرورت اس اطلاع کی تھی کہ عزالدین کی نیت کیا ہے اور کیا رضیع خاتون کا وہاں کوئی اثرپڑ رہا ہے یا نہیں ۔
علی بن سفیان کے بھیجے ہوئے جاسوس اناڑی نہیں تھے ۔ راز حاصل کرتے اور قاہرہ تک پہنچانے کے لیے وہ جان کی بازی لگا دیا کرتے تھے۔ انہیں یہ سبق ہمیشہ یاد رہتا تھا کہ آدھی جنگ جاسوس جنگ شروع ہونے سے پہلے ہی جیت لیا کرتے ہیں اور یہ بھی کہ صرف ایک جاسوس کی کوتاہی یا غلط اطلاع اپنی پوری فوج کو مروا سکتی ہے اور یہ بھی کہ صرف ایک جاسوس دشمن کی فوج سے ہتھیار ڈلوا سکتا ہے ۔ علی بن سفیان کواسحاق ترک پر پورا پورا بھروسہ تھا ۔ یہ بھروسہ بجا تھا ۔ اسحاق ترک بڑے ہی اہم راز لے کر قاہرہ کے لیے روانہ ہوا تھا ۔ وہ سلطان ایوبی کو خبر دار کرنے آرہا تھا کہ بالڈون کا فرنگی لشکر بیروت کے ارد گرد دور دور تک پھیل گیا ہے اور عزالدین صلیبیوں کی طرف جھک رہاہے، اس لیے سلطان کہیں بیروت کی طرف فوج نہ لے جائیں اور اگر اُدھر کوہی پیش قدمی کا ارادہ ہو تو اسحاق ترک سلطان کو فرنگیوں کی فوج کے پھیلائو اور پوزیشنوں کا نقشہ بتانے آرہا تھا …… مگر وہ راستے میں ہی صلیبی جاسوسوں کے گروہ کے جال میں آگیا تھا ۔ ''آخر و ہ کیا اطلاع ہے جو تم سلطان صلاح الدین ایوبی تک لے جارہے ہو''……صلیبی جاسوسوں کے اس گروہ کے سربراہ نے اسحاق ترک سے پوچھا اور کہا …… '' ہم بھی مسلمان ہیں ۔ سلطان کے وفادار اور شیدائی ہیں ۔ تمہارے لیے گھوڑا تیار کھڑا ہے ۔ کھانے پینے کا سامان گھوڑے کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے ''۔
'' اللہ ہمارے سلطان کو ایسے وفاداروں اور شیدائیوں سے محفوظ رکھے '' …… اسحاق نے کہا ۔ ''میں نے اس لڑکی کو کہا تھا کہ آدھی رات کے کچھ دیر بعد مجھے جگا دینا ۔ میں فوراً روانہ ہونا چاہتا تھا مگر تم نے مجھے جگا یا نہیں ۔ آدھا دن گزر گیا ہے ۔ وقت الگ ضائع ہوا اور اب میں روانہ ہوا تو گھوڑا اتنا سفر طے نہیں کر سکے گا جتنا رات کو کر سکتا ''۔
''تم بہت تھکے ہوئے تھے ''۔میرنیا نے پیار سے کہا …… ''تم ایسی گہری نیند سوئے ہوئے تھے کہ تمہیں جگانا ظلم سمجھا ۔ گھوڑا اتنا اچھا ہے کہ جو وقت ضائع ہوا ہے گھوڑا اسے پورا کردے گا ''۔
اسحاق ترک کو ابھی یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ جسے وہ تھکن کے بعد کی گہری نیند سمجھتا رہا ہے وہ کسی دوائی کے اثر کی بے ہوشی ہے ۔ اتنا زیادہ وقت سونے کے بعد بھی اُس کا جسم ٹوٹ رہا تھا ۔ یہ دوائی کا اثر تھا جسے وہ تھکن کا اثر سمجھ رہا تھا ۔ وہ سفر کے قابل نہیں تھا لیکن فوراً روانہ ہونے کے لیے بے قرار تھا ۔ اُس کی آنکھ اس وقت کھلی تھی جب سورج سر پر آیا ہوا تھا ۔ جاسوسوں کا سربراہ اور میرنیا اُس کے ہوش میں آنے سے پہلے ہی اُس کے پاس بیٹھ گئے تھے ۔ اُس کی آنکھ کھلی تو اس کے ساتھ باتیں کرنے لگے ۔ انہوں نے ایسی باتیں کیں جن سے اسحاق ترک کو ان پر ذرا سا بھی شبہ نہ ہوا۔ وہ انہیں مسلمان سمجھتا رہا لیکن وہ اُن کے اس سوال کا جواب دینے سے گریز کررہا تھا کہ وہ سلطان ایوبی کے لیے کیا اطلاع لے کے جا رہا ہے۔
سربراہ باہر نکل گیا ۔ یہ اشارہ تھا کہ میرنیا اسے اپنے جادو سے رام کرے۔ اس دلکش لڑکی نے اُسے جذبات کو مشتعل کردینے والے انداز سے کہا کہ وہ اسے دل و جان سے چاہنے لگی ہے اور بھی بہت کچھ کہا ۔
''قاہرہ چل کر عشق و محبت کے لیے وقت نکال سکوں گا ''۔ اسحاق نے کہا …… ''اگر تم مجھے دل و جا ن سے چاہتی ہو تو مجھے فرض ادا کرنے میں مدد دو''۔ وہ اُٹھ کھڑا ہوا اور خیمے سے نکل گیا ، کہنے لگا ۔''مجھے فوراً گھوڑا دو ''۔
''کچھ کھا پی لو ''۔ میرنیا نے اسے بازو سے پکڑ کر یمے میں واپس لے جاتے ہوئے کہا …… '' میں تمہیں بھوکا پیاسا تو نہیں جانے دوں گی ''۔ وہ اسحاق سے بغلگیر ہو گئی مگر اسحاق کو فرض نے پتھر بنا دیا تھا ۔ میرنیا نے اُسے بٹھا دیا اور خیمے کے دروازے میں جا کر بلند آواز سے کہا …… ''کھانا فوراً لائو ، وقت نہیں ہے ''۔
کھانا باربرا لے کر آئی اور اسحاق کے آگے رکھ کر پیچھے ہٹ گئی ۔ میرنیا اسحاق کے پاس بیٹھی تھی اور باربرا اُدھر جا کھڑ ی ہوئی جدھر میرنیا کی پیٹھ تھی ۔ اسحاق نے کھانا کھاتے ہوئے باربرا کی طرف دیکھا ۔ باربرا نے ہاتھ میں چھوٹی سی صلیب چھپا رکھی تھی ۔ اُس نے یہ صلیب اسحاق کو دکھائی ، اپنے سینے پر ہاتھ رکھا ۔ مرینا کی طرف اشارہ کیا پھر باہر کو اشارہ کرکے انگلی ہلائی اور انگلی اپنے ہونٹوں پر رکھی ۔ وہ خیمے سے نکل گئی ۔ یہ اشارے اتنے واضح تھے کو اسحاق صاف سمجھ گیا کہ یہ سب صلیبی ہیں اور انہیں کچھ نہیں بتانا۔ وہ چونک اٹھا لیکن استاد تھا۔ اپنے رد عمل کا اظہار نہ کیا ، شک پختہ ہو گیا ۔ اسے اس سوال کا جواب مل گیا کہ یہ لوگ اس پر اصرار کیوں کر رہے ہیں کہ وہ سلطان ایوبی کے لیے کیا اطلاع لے کر جا رہا ہے ۔ تب اسے یہ خیال بھی آیا کہ اسے نیند پر اتنا قابوتھا کہ ایسی بے ہوشی کی نیند کبھی نہیں سویا تھا ۔ اسے جاگتے ہی ناک میں عجیب سے بُو بھی محسوس ہوئی تھی ۔ وہ جان گیا کہ اسے سوتے میں ہی بے ہوش کر دیا گیا تھا ، مگر اسے اس سوال کا کوئی جواب نہ سوجھا کہ دوسری لڑکی اُسے یہ اشارے کیوں کر گئی ہے ۔ کیا وہ کوئی مسلمان لڑکی ہے جو اُن کے جال میں پھنسی ہوئی ہے؟
میرنیااسے اپنی بڑی ہی پیاری باتوں اورمسحور کردینے والی مسکراہٹوں اورادائوں سے اپنے جال میں پھانسنے کی کوشش کر رہی تھی اور اسحاق کا دماغ بڑی تیزی سے سوچ رہا تھا کہ وہ کیا کرے اور ان لوگوں سے کس طرح رہائی حاصل کرے ۔ اُس نے میرنیا سے پوچھا کہ اس قافلے میں کتنے آدمی ہیں ۔ میرنیا نے بتا دیا ۔ کچھ اور باتیں پوچھیں اور کہا …… '' چلو مجھے گھوڑا دو '' …… وہ باہر نکل گیا ۔ وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ باہر کتنے آدمی ہیں اور اس کے نکل بھاگنے کے امکانات کیا ہیں ؟ باہر اس نے کوئی گھوڑا نہ دیکھا جو اُسے بتایا گیا تھا کہ اس کے لیے تیار کھڑا ہے۔ میرنیا اُس کے پاس آن کھڑ ی ہوئی ۔
''گھوڑا کہا ں ہے؟'' اسحاق نے پوچھا ۔
''میں جا کر دیکھتی ہوں''۔وہ چلی گئی ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
''تم ٹھیک کہتے تھے ''۔میرنیا نے اپنے سربراہ کو جا کر بتایا ۔ ''یہ شخص پتھر ہے۔ وہ گھوڑے کے سوا کوئی بات نہیں کرتا ۔ ہم جو پوچھتے ہیں اس کا نام نہیں لینے دیتا ''۔
''اسے کوئی شک تو نہیں ہوا؟''
''ابھی نہیں ''۔میرنیا نے جواب دیا ۔ ''لیکن وہ بتائے گا کچھ بھی نہیں ''۔
''اس کا مطلب کہ تم ناکام ہو گئی ہو''۔
انہیں معلوم نہیں تھا کہ باربرانے ان سے انتقام لیا ہے اور اُس نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ میرنیا کوئی جادوگرنی نہیں جو نا ممکن کام بھی کر دکھائے گی۔ وہ تو یہ بھی سوچ رہی تھی کہ سلطان ایوبی کے اس جاسوس کو وہاں سے بھاگ جانے دے میں مدد دے لیکن یہ ممکن نظر نہیں آتا تھا ۔
اسحاق پھر خیمے سے نکل گیا ۔ اس نے میرنیا اور اس کے سربراہ کو دیکھ لیا ۔ وہ دور کھڑے باتیں کر رہے تھے۔ وہ اُن کی طرف دوڑ ا گیا اور پوچھا کہ گھوڑا کہاں ہے۔
''کہیں بھی نہیں ہے ''۔ سربراہ نے بالکل ہی بدلے ہوئے لہجے میں کہا…… '' تم کہیں بھی نہیں جا سکو گے ''۔
اسحاق نے اپنی کمر پر ہاتھ رکھا ۔ وہاں نہ تلوار تھی نہ خنجر۔ اُس نے ان لوگوں کو اصلیت جان لینے کے باوجود کہا …… ''میں حیران ہوں کہ تم مسلمان ہوتے ہوئے میرے راستے میں آرہے ہو''۔
''اگر ہم سے عزت کرانا چاہتے ہو تو بتادو کہ اپنے سلطان کے لیے کیا پیغام لے کر جا رہے ہو''۔سربراہ نے پوچھا۔
''صرف اتنا سا پیغام ہے کہ ہمارے ایک امیر عزالدین نے نورالدین زنگی کی بیوہ کے ساتھ شادی کر لی ہے ''۔ اسحاق نے کہا ۔
''یہ خبر پرانی ہو گئی ہے ''۔ سربراہ نے کہا …… ''تمہارا سلطان دو ماہ گزرے یہ خبر سن چکا ہے اور وہ اپنی فوج کو شام میں لڑانے کے لیے تیار کر رہا ہے ۔ صحیح بات بتائو''۔
''کیا تم صحیح بات بتا دیا کرتے ہو؟''اسحاق ترک نے پوچھا۔
''تمہیں صحیح بات بتانی ہوگی''۔سربراہ نے کہا …… ''اور تمہیں ہمارے ساتھ چلنا ہوگا ۔ تم نہتے ہو۔ نہتے نہ بھی ہوتے تو اتنے آدمیوں سے لڑ نہ سکتے …… سنو دوست! میں تمہارے زندہ رہنے اور شہزادوں کی طرح زندہ رہنے کی ایک صورت پیدا کر سکتا ہوں ۔ میری تجویز منظور کر لو۔ ہمارے ساتھ چلو۔ ہمارے لیے یہی کام کروجو صلاح الدین ایوبی کے لیے کر رہے ہو اور زروجواہرات میں کھیلو''۔ اس نے میرنیا کی طرف اشارہ کرکے کہا …… ''اس قسم کی لڑکیاں تمہاری خدمت کے لیے حاضر رہا کریں گے۔ کیوں صحرائوں میں مارے مارے پھر رہے ہو''۔
''میں صلیب کے لیے کام کروں؟''
''نہیں کرو گے تو ہمارے کسی قید خانے کے تہہ خانے میں بند رہو گے ''۔سربراہ نے کہا ۔'' وہ ایسی جہنم ہوگی کہ نہ مرو گے نہ جیو گے ۔ تم اس سزا کا تصور بھی نہیں کر سکتے ۔ تصور بھی خوفناک ہوگا ۔ سوچ لو اور ہمارے ساتھ چلو ۔ تم واپس تو نہیں جا سکو گے ''۔
''تم مجھ پر کس طرح اعتماد کرو گے ''۔اسحاق ترک نے کہا …… ''میں تمہارے گروہ میں شامل ہو جائوں تو مجھے میرے ہی علاقے میں بھیجو گے۔ تم کس طرح یقین کرو گے کہ میں اپنے ہی علاقے میں نہیں رہ جائوں گا اور تمہیں دھوکہ نہیں دوں گا ''۔
''ہمارے پاس اس کا انتظام ہے ''۔ صلیبی سربراہ نے کہا ۔ ''تم اپنے علاقے کی بات کرتے ہو، ہم تمہیںتمہارے گھر کے تہہ خانے سے بھی نکال لائیں گے ۔ تمہارا خیال ہے کہ تمہارے ملک میں ہمارے جتنے جاسوس ہیں ۔ ان میں تمہارے ملک کا کوئی باشندہ نہیں ؟ دس جاسوسوں کے ایک گروہ میں صرف دو آدمی ہمارے اور دس تمہارے اپنے بھائی ہوتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی ہمیں دھوکہ دینے کی جرأت نہیں کر تا۔ وہ جانتے ہیں کہ ایسی جرأت کرنے والے کا انجام کیا ہوتا ہے ۔ ہم صرف اُسے قتل نہیں کرتے ۔ سب سے پہلے اس کے بیوی بچوں کوایک ایک کرکے قتل کرتے اور ہر لاش اُس کے سامنے رکھ دیتے ہیں اور جو ہمرے وفادار رہتے ہیں ان کے لیے یہ دنیا بہشت بنی رہتی ہے۔ اُن میں سے جو پکڑا جا تا ہے اُس کے گھر والوں کے گھر جا کر وہاں ہم نقدی کے انبار لگا دیتے ہیں ''۔
''مجھے سوچنے دو''۔ اسحاق نے کہا …… ''یہاں سے کب روانگی ہوگی؟''
''آج ہی ''۔سربراہ نے کہا …… ''آدھی رات کے بعد ۔ تم سوچ لو ۔ یہ بھی سوچ لینا کہ انکار کے بعد تم آزاد نہیں ہو سکو گے''۔
''میں جانتا ہوں''۔
''اور تمہیں یہ بھی بتانا پڑے گا کہ کیا راز لے کے جا رہے ہو''۔ سربراہ نے کہا ۔
''بتا دوں گا ''۔اسحاق نے جواب دیا ۔ ''میرا ذہن بہت حدتک آمادہ ہو گیا ہے''۔
''جائو ۔ ابھی آرام کرو''۔ سربراہ نے کہا ۔
اسحاق ترک خیمے کی طرف چل پڑا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دو ماہ پہلے کا ذکر ہے کہ عزالدین نے نورالدین زنگی کی بیوہ رضیع خاتون کے ساتھ شادی کر لی تو رضیع خاتون کو اس شادی کی صرف یہ خوشی تھی کہ وہ عزالدین کو اپنے زیر اثر رکھے گی اور حلب کی افواج سلطان ایوبی کی افواج کی اتحادی بن جائیں گی۔ خانہ جنگی میں مسلمانوں کی فوجوں کی بڑی ہی کارآمد نفری ماری گئی تھی ۔ اتنی زیادہ جنگی قوت ضائع ہوئی جو صلیبیوں کو سرزمین عرب سے نکال سکتی تھی اور فلسطین کو آزاد کرایا جا سکتا تھا ۔ رضیع خاتون کو توقع تھی کہ عزالدین اُسے اپنامشیر بنا لے گا مگر شادی کے کے پہلے روز جب رضیع خاتون نے اُس کے ساتھ اس قسم کی باتیں کیں تو اس نے دیکھا کہ عزالدین کوئی دلچسپی نہیں لے رہا ۔ اس کے انداز میں اکتاہٹ تھی ۔ وہ اس کمرے میں سویا بھی نہیں ، محل کے کسی اور کمرے میں چلا گیا ۔
رضیع خاتون نے اُس کا یہ رویہ اس لیے برداشت کر لیا کہ اُس نے امارت کو ابھی ابھی ہاتھ میں لیا ہے اس لیے مصروف بھی ہوگا اور اُس کا ذہن امارت کے جھمیلوں میں اُلجھا ہوگا ۔ وہ خود امارت کے مسئلو ں میں ، خصوصاً فوج کے معاملات میں دلچسپی لینا اور کام کرنا چاہتی تھی ۔نورالدین زنگی کی زندگی میں اُس نے بہت کام کیے تھے ۔ اُس نے دمشق کی جوان لڑکیوں کو جنگی تربیت دے رکھی تھی ۔ وہ صحیح معنوں میں مجاہدہ تھی ۔ اس لیے وہ سلطان ایوبی کی مرید تھی ۔
صبح ہوئی تو وہ اپنے کمرے سے نکلی۔ ٹہلتی ٹہلتی محل کے اندر اندر کچھ دور چلی گئی۔ بہت بڑا محل تھا ۔ اُسے دور ایک باغیچہ نظر آیا ۔ اس میں پانچ چھ جوان لڑکیاں ہنس کھیل رہی تھیں ۔ وہ ابھی اُن سے دُور ہی تھی ۔ ایک ادھیڑ عمر عورت جس کا چہرہ کرخت سا تھا وہ دوڑی آئی اور رضیع خاتون سے کہنے لگی ۔ ''آپ اپنے کمرے میں چلی جائیں''۔
''کیوں؟''
''محترم امیر کا یہی حکم ہے ''۔ عورت نے بتایا …… ''آئیے، میں آپ کو وہ جگہ بتا ئوں جہاں آپ گھوم پھر سکتی ہیں ۔ انہوں نے سختی سے حکم دیا ہے کہ آپ کو ادھر نہ آنے دیا جائے ''۔
''اگر میں حکم نہ مانوں تو کیا ہوگا ؟''رضیع خاتون نے پوچھا۔
''مجھے گستاخی کا موقع نہ دیں ''۔عورت نے التجا کے لہجے میں کہا …… ''مجھے آقا کا حکم ماننا ہے اور منوانا بھی ہے ''۔
ایک اور ادھیڑ عمر عورت آگئی۔ وہ رضیع خاتون کے پاس رُک گئی۔ اُس نے رضیع خاتون کو ساتھ لیا اور اُس کے کمرے میں لے آئی ، کہنے لگی …… '' میں آپ کی خادمہ ہوں اورمجھے ہر وقت آپ کے پاس رہنے کا حکم ملا ہے اور یہ حکم مجھے بھی ملا ہے کہ آپ کو ایک خاص حد سے زیادہ باہر نہ جانے دیا جائے ''۔ رضیع خاتون سٹپٹا اُٹھی ۔ اس کی خادمہ نے کہا …… '' آپ گھبرائیں نہیں ۔ میں جانتی ہوں آپ کیا کیا خواب دیکھ کر یہاں آئی ہیں ۔ آپ کا ہر خواب خواب ہی رہے گا ۔ مجھے اپنا ہمدرد اور ہمراز سمجھیں۔ اس محل پر صلیبیوں کے گھنائونے سائے پڑے ہوئے ہیں ۔ آپ کا بیٹا ان کے ہاتھ میں کھلونا بنا رہا ، اب نیا امیر بھی جو آپ کا خاوند ہے صلیبیوں کا حاشیہ بردار بنے گا ۔ یہاں کے بہت سے وزیر اور مشیر صلیبیوں کے زیر اثر ہیں ''۔
''صلاح الدین ایوبی کے متعلق محل کے لوگوں کی کیا رائے ہے ؟'' رضیع خاتون نے پوچھا …… کیا اُس کا کہاں کچھ اثر نہیں ؟
'' اتنا نہیں جتنا صلیبیوں کا ہے ''۔ خادمہ نے رازداری سے کہا ……''محل میں سلطان صلاح الدین ایوبی کے جاسوس موجود ہیں ۔ میں خود اسی گروہ سے تعلق رکھتی ہوں ۔ آپ کو میں اچھی طرح سے جانتی ہوں ، اسی لیے آپ کو بتا دیا ہے کہ میں کیا ہوں۔ میں ابھی آپ کو ساری باتیں نہیں بتائوں گی ۔ آپ عزالدین سے شکایت کریں کہ آپ کو اُس نے اس کمرے کا قیدی کیوں بنا لیا ہے '' ۔
''وہ تو میں کروں گی ''۔
'' آپ پر اس کی نیت واضح ہو جائے گئی ''۔ خادمہ نے کہا …… '' بعد کے حالات تصدیق کر دیں گے کہ میں جھوٹ نہیں بول رہی ۔ حقیقت یہ ہے کہ عزالدین نے آپ کے ساتھ شادی صرف اس لیے کی ہے کہ وہ آپ کو اپنا قیدی بنا لے۔ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے ساتھ آپ کا تعلق ہمیشہ کے لیے توڑنا چاہتا تھا اور وہ آپ کو دمشق سے نکالنا چاہتا تھا ۔ دمشق کے لوگ سلطان صلاح الدین ایوبی کے حمائتی اس لیے ہیں کہ آپ وہاں موجود تھیں۔ اب یہ ٹولہ دمشق کے لوگوں کو سلطان صلاح الدین ایوبی کے خلاف اُکسائے گا ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ مسلمان ایک بار پھر خانہ جنگی میں کٹنے لگیں گے اور صلیبی اطمینا ن سے ہمارے علاقوں پر چھا جائیں گے ''۔
'' کیا یہ اطلاع سلطان صلاح الدین ایوبی تک پہنچا جا سکتی ہیں ؟'' رضیع خاتون نے پوچھا ۔
'' یہ انتظام کیا جا چکا ہے ''۔ خادمہ نے جواب دیا ۔ '' ہمارے گروہ کے کماندار نے ایک بڑے ہی دانشمند اور دلیر آدمی کو بلا بھیجا ہے۔ اس کا نام اسحاق داویشکی ہے ۔ وہ ترک ہے۔ میں اُسے اچھی طرح جانتی ہوں ۔ آپ کے بیٹے کی وفات کے بعد وہ صلیبیوں کے علاقوں میں یہ دیکھنے کے لیے نکل گیا کہ صلیبیوں کہ عزائم کیا ہیں ۔ وہ آجائے گا ''۔
''مجھے مل سکے گا ؟''
'' ضرور ملوائوں گی ''۔ خادمہ نے جواب دیا …… '' مجھے اپنے کماندار نے کہا تھا کہ یہ باتیں آپ کو بتادوں ''۔
خادمہ نے رضیع خاتون کو محل کی اندرونی دنیا کے اِسرار بتا کر اُس کے پائوں تلے سے زمین نکل دی ۔ وہ اُن خوابوں سے بیدار ہوگئی جو دیکھ کر اُس نے والئی حلب عزالدین کے ساتھ شادی کر لی تھی ۔ رضیع خاتون عظیم عورت تھی ۔ اسلام کی تاریخ سازمجاہدہ تھی ۔ اپنے مرحوم خاوند نورالدین زنگی اور پاسبانِ اسلام صلاح الدین ایوبی کی طرح رضیع خاتون بھی جیسے صلیبیوں کے خلاف لڑنے اور سلطنتِ اسلامیہ کے اتحاد اور وسعت کے لیے پیدا ہوئی تھی ۔ اگر خادمہ نے اُسے جو راز بتا یا وہ حقیقت تھا تو اس عظیم مجاہدہ کی کمند ٹوٹ چکی تھی اور اُس کی تلوار کند کرکے اسے قیدی بنا لیا گیا تھا ۔ اس کی نوجوان بیٹی شمس النساء اسی محل میں تھی جس کے ساتھ ابھی اس کی ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔
یہاں ہم آپ کو یاد دلادیں کہ شمس النساء کی عمر اپنے باپ نورالدین زنگی کی وفات کے وقت آٹھ نو سال تھی ۔ اُس کا بڑا (اور واحد) بھائی الملک الصالح گیارہ سال کا تھا جسے زنگی کی وفات کے بعد مفاد پرست امراء اور فوجی حکام نے سلطان بنا دیا تھا۔ اسے وہ کٹھ پتلی بنانا چاہتے تھے ۔ سلطان ایوبی اس تباہ کن صورتِ حال پر قابو پانے کے لیے مصر سے آیا ۔ یہ ایک قسم کی فوج کشی تھی ۔ زنگی کی بیوہ رضیع خاتون کی کوششوں سے دمشق پر سلطان ایوبی کا قبضہ ہوگیا ۔ الملک الصالح اپنی فوج کی بہت سی نفری کے ساتھ بھاگ کر حلب چلا گیا ۔ اپنی بہن شمس النساء کو بھی ساتھ لے گیا ۔ اُن کی ماں دمشق میں رہی اور صلیبیوں کے خلاف جہاد میں مصروف رہی ۔ شمس النساء پندرہ سولہ برس کی ہوئی تو اس کا بھائی بیمار ہو کر نزع کے عالم میں جا پہنچا۔ اُس نے ماں سے ملاقات کی خواہش ظاہر کی ۔ شمس النساء دمشق اپنی ماں کے پاس گئی اور کہا کہ اُس کا اکلوتا بھائی اُسے ملنا چاہتا ہے۔ رضیع خاتون نے صاف انکار کر دیا اور کہا کہ اُس کے لیے وہ اُسی روز مر گیا تھا جس روز وہ سلطان بنا اور اس نے صلاح الدین ایوبی کے خلاف تلوار اُٹھائی تھی ۔ شمس النساء واپس چلی گی …… اس کا بھائی الملک الصالح مر چکا تھا ۔
اب شمس النساء کی ماں رضیع خاتون اسی محل میں جہاں اس کا بیٹا مرا تھا اپنے بیٹے کے جانشین عزالدین کی بیوی بن کر آئی ۔ اُسے اپنی بیٹی جو اسی محل میں ہی ہو سکتی تھی ، ملنے نہ آئی۔ رضیع خاتون نے خادمہ سے پوچھا کہ اس کی بیٹی کہاں ہے اور کیا وہ اسے مل سکتی ہے؟
''وہ یہیں ہے''۔ خادمہ نے جواب دیا …… '' یہ آپ اپنے آقا سے پوچھ لیں کہ آپ شمس النساء سے مل سکتی ہیں یا نہیں۔ اگر اس پر بھی پابندی ہوئی تو میں چوری چھپے ملاقات کرادوں گی ''
'' تم اپنے گروہ کے جس کماندار کا ذکر کیا ہے اس کے ساتھ میری ملاقات ہو سکتی ہے ؟'' رضیع خاتون نے پوچھا۔
''کچھ دن گزر جانے دیں ''۔ خادمہ نے جواب دیا۔ ''یہ پتہ چل جائے کہ آپ پر کیا کیا پابندی عائد ہوتی ہے ۔ آنے والے حالات کے مطابق ہر ایک مشکل کا حل نکل آئے گا ۔ آپ کی شادی اچانک ہوئی اور اتنی جلدی ہوئی کہ ہم سب کہ کو بعد میں خبر ہوئی ورنہ آپ کو پہلے ہی خبردار کر دیا جاتا تا کہ شادی کی پیش کش کو قبول نہ کریں ''۔
''اور میں یہ کس طرح یقین کر لوں کہ تم میری ہمدرد ہو اور میرے ہی خلاف جاسوسی نہیں کر رہی؟'' رضیع خاتون نے پوچھا۔
خادمہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ رضیع خاتون کو گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی …… ''اگر میں کوئی امیر کبیر عورت ہوتی، کسی محل کی شہزادی ہوتی ، کسی شہزادے کی بیوی ہوتی اور میری حیثیت آپ جتنی ہوتی تو آپ مجھ سے ایسا سوال کبھی نہ پوچھتیں۔ آپ ہر جھوٹ کو سچ مان کر دھوکے کا شکار ہوجاتیں ، میری حیثیت ایسی ہے کہ میرا سچ بھی جھوٹ لگتا ہے ۔ کیا آپ کو ابھی تجربہ نہیں ہوا کہ صدات اور جذبہ صرف غریبوں کے دلوں میں رہ گیا ہے ؟ آپ کو آنے والے حالات بتائیں گے کہ آپ کو کس پر اعتبار کرنا چاہیے۔ ایک غریب خادمہ پر یا حلب کے بادشاہ پر جو آپ کا خاوند ہے ۔ آپ مجھ پر اعتبار کرنے کا خطرہ مول لے لیں، اور دُعا کریں اللہ آپ کی اور ہماری مدد کرے ''۔
خادمہ کمرے سے نکل گئی ۔ رضیع خاتون اُلجھے اُلجھے خیالوں میں بھٹکتی رہی گئی۔ وہ کمرہ جس کی سجاوٹ اور جس کا سامان شاہانہ تھا اُسے جہنم کی طرح نظر آنے گیا ۔
دو تین روز رضیع خاتون کو عزالدین نظر نہ آیا۔ اُسے کمرے میں کھانا وغیرہ پہنچایا جاتا رہا۔ خادمائیں اُس کی حاضری میں کھڑی رہیں۔ اس کے آرام اور دیگر ضروریات کا خیال اس طرح رکھا جاتا جیسے وہ کوئی ملکہ ہو مگر یہ شہنشاہی اُسے ذہنی اذیت دے رہی تھی ۔ وہ ایک سلطان کی بیوہ تھی ۔ اس کی زندگی میں بھی اُس نے اپنے آپ کو کبھی ملکہ یا شہزادی نہیں سمجھاتھا۔ اُس کی صرف یہ خواہش تھی کہ مردوں کے دوش بدوش میدانِ جنگ میں جائے، صحرائوں میں لڑے اور اُسے شہیدوں میں سے اُٹھایا جائے۔
ایک روز عزالدّین اس کے کمرے میں آگیا اور مصروفیت کی بنا پر اتنے دن نہ آسکنے کی معذرت کی ۔
''میں نے آپ کی غیر حاضری کی شکایت تو نہیں کی ''۔ رضیع خاتون نے کہا …… ''میں دلہن بن کے نہیں آئی ۔ میرے دل میں ایسی بھی کوئی خواہش نہیں کہ آپ ہر وقت میرے ساتھ رہیں یا ہر رات میرے ساتھ گزاریں ۔ میری آدھی سے زیادہ ازدواجی زندگی تنہائی میں گزری ہے۔ نورالدّن نگی مرحوم محاذ پر رہتے تھے اور میں اُن کے نہیں اُن کی لاش کے انتظار میں رہتی تھی ۔ محاذ پر نہ ہوں تو سلطنت کے کاموں اور فوج کی تربیت میں مصروف رہتے تھے ، لیکن وہاں میں بھی مصروف رہتی تھی ۔ سلطنت کے بعض کاموں کی نگرانی اور شہیدوں کے گھروں کی دیکھ بھال میرے سپرد تھی۔ میں جوان لڑکیوں کو زخمیوں کی مرہم پٹی، تیغ زنی ، تیر اندازی اور گھوڑ سواری کی تربیت دیتی تھی ۔ وہاں میں ایک کمرے میں قید نہیں تھی جس طرح یہاں بن کر دی گئی ہوں۔ یہ قید مجھے پسند نہیں''۔
''میں یہ نہیں کہتا کہ نورالدین زنگی مرحوم نے سلطنت کے کوئی کام اپنی بیوی کے سپرد کرکے اچھا نہیں کیا تھا''۔ عزالدین نے کہا …… ''لیکن میں کسی سے نہیں کہلوانا چاہتا کہ حلب کی قسمت بنانے اور بگاڑنے میں ایک عورت کا ہاتھ ہے۔ تم میری بیوی ہو۔ میں تم پر کوئی ایسا بوجھ نہیں ڈالنا چاہتا جس کا تعلق ازدواجی زندگی سے نہیں ''۔
چونکہ رضیع خاتون کو عزالدین کی نیت کا پتہ خادمہ سے چل چکا تھا اس لیے اس نے اپنے اس دوسرے خاوند کی ایسی باتوں سے اپنے آپ کو اس خود فریب میں مبتلا نہ کیا کہ وہ پیار کا اظہار کر رہاہے۔ وہ ایک بار، آج ہی ، اُس کی نیت کو بے نقاب کرنے کا ارادہ کیے ہوئے تھی ، وہ کم عمر نہیں پختہ کار عورت تھی ۔
'' مگر جس طرح مجھے اس کمرے میں قید کر دیا گیا ہے یہ مجھے پسند نہیں ''۔ رضیع خاتون نے کہا ۔ ''میں آپ کے حرم کی کوئی زرخرید لڑکی نہیں ''۔
''رضیع خاتون! '' عزالدین نے کمرے میں ٹہلتے ہوئے کہا …… ''تمہیں ازداجی زندگی ذہن سے اتارنی ہوگی جو تم نے زنگی مرحوم کے ساتھ گزاری ہے ۔ انہوں نے تمہیں جو آزادی دے رکھی تھی ، وہ مجھے پسند نہیں اور یہ کسی بھی خاوند کو پسند نہیں آسکتی …… کیا تم باہر گھومنا پھرنا چاہتی ہو؟ چار گھوڑوں کی بھگی موجود ہے۔ جب چاہو باہر جا سکتی ہو ''۔
''جسے محل کے اندر گھومنے پھرنے کی اجازت نہیں اُسے باہر جانے کی اجازت کیسے مل سکتی ہے؟'' رضیع خاتون نے پوچھا …… '' کیا واقعی آپ نے حکم دیا ہے کہ میں محل کے اندر کہیں نہیں جا سکتی ''۔
''میں نے یہ حکم تمہاری سلامتی کے لیے دیا ہے ''۔عزالدین نے جواب دیا …… '' تم جانتی ہو کہ حلب اور دمشق میں کیسی خونریز خانہ جنگی ہوئی تھی ۔ سلطان ایوبی نے تمہارے بیٹے کو شکست دے کر اُسے اطاعت کا معاہدہ کرنے پر مجبور کر دیا تھا مگر یہاں کے لوگوں کے دلوں سے وہ دشمنی نکلی نہیں۔ محل کے اندر ایسے افراد موجود ہیں جو تمہیں اور سلطان ایوبی کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں ۔ سلطان ایوبی کی فوج کے ہاتھوں اُن کے گھر تباہ ہوئے اور اُن کے جوان بیٹے مارے گئے ہیں ۔ وہ جانتے ہیں کہ تم سلطان ایوبی کی حامی ہو اور دمشق پر تم نے قبضہ کرایا تھا ۔ اِن میں سے کوئی بھی تمہیں قتل یا اغوا کر سکتا ہے ''۔
''وہ آپ کو بھی قتل کر سکتے ہیں کیونکہ آپ صلاح الدین ایوبی کے دوست اور اتحادی ہیں ''۔ رضیع خاتون نے کہا …… '' تو کیا ہمارا یہ فرض نہیں کہ اس قسم کے افراد کو جو اتحادِ اسلامی کے خلاف ہیں ، پکڑا جائے؟ کیا آپ کے پاس ایسے جاسوس اور مخبر نہیں جو تخریبی عناصر کا سراغ لگا کر انہیں پکڑوا سکیں ؟''
''میں تمام انتظامامت کر رہا ہوں''۔ عزالدین نے ایسے لہجے میں کہا جو اکھڑا کھڑا سا تھ جیسے اس کے پاس کوئی معقول جواب نہیں تھا ۔ ''میں تمہاری جان خطرے میں نہیں ڈانا چاہتا''۔
''کیا یہ خطرہ محل کے صرف اندرہے ؟'' رضیع خاتون نے پوچھا ۔ '' آپ نے مجھے چار گھوڑوں کی بگھی پر جہاں میں چاہوں باہر گھومنے پھرنے کی اجازت دے دی ہے ۔ کیا باہر مجھے کوئی قتل یا اغوانہیں کر سکے گا ؟'' ……
عزالدین کچھ جواب دینے ہی لگا تھا رضیع خاتون نے اسے بولنے نہ دیا اور کہا میں نے آپ کے ساتھ شادی صرف اس لیے کہ ہے کہ نورالدین زنگی مرحوم اپنا جو مقصد ادھورا چھوڑ کر فوت ہو گئے ہیں وہ آپ سلطان صلاح الدین ایوبی اور میں مل کر پورا کریں اس کے لیے ضروری ہے کہ اگر ابھی تک آپ کے زیر سایہ ایسے عناصر پرورش پا رہے ہیں جو ایک اور خانہ جنگی کے لیے زمین ہموار کر رہے ہیں تو ان کا خاتمہ کیا جائے اور قوم میں اتحاد پیدا کرکے صلیبیوں کو اس سرزمین سے بے دخل کیا جائے کیا تمہیں یہ شک ہے کہ میں سلطان ایوبی کا اتحادی نہیں؟
کیا آپ مجھے یقین دلاسکتے ہیں کہ اس محل پر صلیبیوں کے وہ اثرات جو میرے بیٹے نے پیدا کیے تھے ختم ہو گئے ہیں؟
رضیع خاتون نے پوچھا کیا آپ کے تمام امراء اور سالار بغداد کی خلافت کے وفادار ہیں؟
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تم یہاں سفیر بن کے آئی ہو یا میری بیوی؟
عزالدین نے قدرے طنز سے کہا میں جو ارادے لے کے آئی ہوں وہ بتا چکی ہوں رضیع خاتون نے کہا میں اپنے بطن سے آپ کے بچے پیدا کرنے اور صرف بیوی بن کے اس کمرے میں رہنے کے لیے نہیں آئی میں محل میں گھوم پھر کر یہ معلوم کرنا چاہتی ہوں کہ حلب صلیب کے سائے سے محفوظ ہے اگر نہیں تو اس عظیم ظہر کو محفوظ کرنا ہے میں اپنے اس ارادے سے باز نہیں آسکوں گی میں تمہیں ایک بار پھر کہتا ہوں کہ میرے کسی کام میں دخل نہ دینا عزالدین نے کہا تم میری بیوی اور یہی تمہاری حیثیت رہے گی اگر تم آزاد ہونے کی کوشش کروگی تو میں نے تمہیں بگھی پر باہر جانے کی جو اجازت دی ہے وہ روک لونگا اگر میں یہ شرط قبول نہ کروں تو؟
تو اس کمرے میں قید رہو گی عزالدین نے جواب دیا تم مجھ سے طلاق نہیں لے سکتی اور میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا عزالدین باہر نکل گیا آپ نے غلطی کی ہے خادمہ نے رضیع خاتون سے کہا خادمہ پچھلے دروازے کے ساتھ کان لگائے عزالدین اور رضیع خاتون کی باتیں سُن رہی تھی عزالدین باہر نکل گیا تو خادمہ پچھلے دروازے سے اندر آگئی اس نے کہا اگر آپ ضد کریں گی تو یہ شخص آپ کو فی الواقع ایسی قید میں ڈال دے گا جو ہوگی آزادی مگر قید سے بدتر ہوگی اب آپ نے آقا کی نیت جان لی ہے اب ان کے ساتھ اس سلسلے میں کوئی بات نہ کریں ان کے سامنے خوش رہیں بظاہر بے حس ہوجائیں آپ جو ارادے لے کے آئی ہیں وہ ہم پورے کریں گے مجھے یہ سن کر خوشی ہوئی کہ آقا نے آپ کو بگھی پر باہر جانے کی اجازت دے دی ہے ہم آپ کو اپنے کماندار سے ملوائیں گے اور اگر اسحاق ترک آگیا تو اس کی بھی ملاقات آپ سے کرائیں گے دروازہ آہستہ سے کھلا دونوں نے دیکھا رضیع خاتون کی بیٹی شمس النساء تھی وہ دروازے میں رُکی اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آئی مگر آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے مسکراہٹ آنسوؤں میں بہہ گئی ماں نے آگے بڑھ کر بیٹی کو گلے لگا لیا اور دونوں کی ہچکیاں سنائی دینے لگیں خادمہ باہر نکل گئی کچھ دیر دونوں الملک الصالح کو یاد کرکے روتی رہیں تم اتنے دن کہاں رہی رضیع خاتون نے پوچھا چچا (عزالدین )نے آپ سے ملنے سے منع کردیا تھا
وجہ پوچھی تھی اُن سے؟
انہوں نے گول گول اور مہمل سی وجہ بتائی تھی شمس النساء نے جواب دیا ابھی ابھی انہوں نے کہا ہے کہ اپنی ماں کے پاس جاتی رہا کرو انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ میں بہت مصروف ہوتا ہوں تم اپنی ماں کے ساتھ زیادہ وقت گزارا کرو انہوں نے یہ نہیں کہا کہ اپنی ماں پر نظر رکھا کرو اور مجھے بتایا کرو کہ اس کے پاس کون آتا ہے اور کیا باتیں ہوتی ہیں؟
ہاں شمس النساء نے معصومیت سے جواب دیا انہوں نے کچھ ایسی باتیں کیں تو تھی جو میں سمجھ نہیں سکی میں نے کہہ دیا تھا کہ اچھا بتایا کروں گی انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ تمہاری ماں ضدی وہمی اور جھگڑالو معلوم ہوتی ہے اُسے یہ بتایا کرو کہ میں بہت مصروف اور پریشان رہتا ہوں
سنو بیٹی! رضیع خاتون نے کہا اب یہ معصومیت اور بھولاپن ترک کردو تم جوان ہوگئی ہو میں یہ نہیں کہوں گی اب تمہاری شادی ہو جانی چاہیے مجاہدوں کی بیٹیوں کے ہاتھ پر لہو کی مہندی لگا کرتی ہے زندہ قوموں کی بیٹیوں کی ڈولی کم ہی اُٹھا کرتی ہے اُن کی لاشیں میدانِ جنگ سے اُٹھائی جاتی ہیں تمہاری بدنصیبی یہ ہے تم اپنے بھائی اور اس کے مشیروں کے سائے میں پل کر جوائی ہوئی ہو یہ سب غدار ہیں تمہارا بھائی بھی غدار تھا تم نے اپنے بھائی کی فوج کو اپنے باپ کی فوج اور صلاح الدین ایوبی کے خلاف لڑتے دیکھا ہے تمہارا بھائی جسے میں اپنا بیٹا کہنے سے شرمندگی محسوس کرتی ہوں صلیبیوں کا دوست تھا
ان صلیبیوں کا دوست جو تمہارے مذہب کے دشمن ہیں تمہارا باپ ساری عمر اُن کے خلاف لڑتا رہا ہے
بھائی الصالح کہا کرتا تھا کہ صلیبی بڑے اچھے لوگ ہیں شمس النساء نے کہا وہ صلاح الدین ایوبی کے خلاف باتیں کیا کرتا تھا
ماں نے شمس النساء کو بتایا کہ صلیبیوں کے عزائم کیا ہیں اور یہ بھی کہ اُن کی دوستی میں بھی دشمنی ہے رضیع خاتون بولتی جا رہی تھی اور شمس النساء کی آنکھیں کھلتی جا رہی تھیں ماں کا ایک ایک لفظ بیٹی کے دل میں اترتا جا رہا تھا اس میں مامتا کا سحر بھی شامل تھا جس سے بیٹی مسحور ہوتی جا رہی تھی
مسلمان کا کوئی دوست نہیں رضیع خاتون نے کہا دنیا کی ہر وہ قوم جو رسولِ خدا کا کلمہ نہیں پڑھتی مسلمانوں کی دشمن ہے اور ان کی دشمنی کی سب سے زیادہ خطرناک صورت ان کی دوستی ہے صلیبیوں نے حلب موصل اور حرن کے امراء سے دوستی کرکے ہماری قوم کو دو دھڑوں میں کاٹ دیا تمہارا بھائی اُن کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا خدا اور اس کے رسولﷺ کا حکم یہ ہے کہ اُمت کا دھڑوں میں تقسم ہونا گناہ ہے کیونکہ یہ تقسیم دھڑوں کو آپس میں لڑاتی ہے قرآن کا حکم بالکل واضح ہے کہ کفار کے مقابلے میں سیسہ پلائی ہوئی دیوار بنے رہو مگر کفار نے عیاشی کا سامان مہیا کرکے اس دیواری میں شگاف ڈال دئیے تھے شیطان کی باتوں میں جادو کا اثر ہوتا ہے عورت شراب زروجواہرات اور بادشاہی کے خواب انسان کو گہری نیند سلائے رکھتے ہیں شیطان کا یہ کام صلیبیوں نے کیا میں نے یہ سب اپنی آنکھوں اس محل میں دیکھا ہے شمس النساء نے کہا میں اُس وقت چھوٹی تھی کچھ سمجھ نہیں سکی مجھے جب بھائی الصالح نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے پاس اعزاز کا قلعہ مانگنے کے لیے بھیجا تھا تو میں ہنستی کھیلتی یہاں کے سالاروں کے ساتھ سلطان کے پاس گئی تھی مجھے کسی نے نہیں بتایا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے مجھے یہ معلوم نہیں تھا کہ خانہ جنگی تھی جو صلیبیوں کی کارستانی تھی مجھے کچھ بھی معلوم نہیں تھا ماں! مجھے بتاؤ مجھے بتاؤ
ہاں بیٹی! غور سے سنو رضیع خاتون کی آنکھوں میں آنسو آگئے اس محل میں ابھی تک شیطان کی حکمرانی ہے عزالدین نے میرے ساتھ شادی کرکے مجھے اپنی بیوی نہیں اپنا قیدی بنایا ہے میں نے یہ شادی صرف اس لیے قبول کی تھی کہ خانہ جنگی کے امکانات کو ختم کرکے قوم میں اتحاد پیدا ہو اور صلیبیوں کے خلاف محاذ آرائی کی جاسکے مگر میں نے زندگی میں پہلی بار دھوکہ کھایا ہے اور یہ بھی معمولی سا دھوکہ نہیں میں اسی صورتِ حال میں اپنے عزم کی تکمیل کروں گی اس کے لیے مجھے تمہارے ساتھ اور تعاون کی ضرورت ہوگی مجھے بتائیں شمس النساء نے کہا آپ پہلی بار دھوکے میں آئی ہیں اور میں پہلی بار اصل صورتِ حال سے آگاہ ہوئی ہوں یہ بتا دیں کہ مجھے کیا کرنا ہے جاسوسی رضیع خاتون نے کہا اور اسے تفصیل سے ہدایات دینے لگی شمس النساء جب اس کمرے سے نکلی اُس کی ذات اور اُس کے خیالات میں انقلاب آچکا تھا وہ اس کمرے میں داخل ہوئی تھی تو ایسے بے پروا اور کھلنڈری سی لڑکی تھی جب کمرے سے نکلی تو اللہ کی راہ میں قربان ہونے والی مجاہدہ تھی آپ کو کس نے بتایا ہے کہ میری ماں جھگڑالو اور وہمی ہے؟
شمس النساء نے عزالدین سے کہا آپ جانتے ہیں کہ اُن کی زندگی کیسی گزری ہے وہ آپ کو بھی میرے باپ نورالدین زنگی مرحوم جیسا نامور جنگجو اور مجاہد اسلام بنانا چاہتی ہیں وہ میرے کاموں میں دخل دینا چاہتی ہے عزالدین نے کہا اُسے یہ وہم ہے کہ میں صلیبیوں کا دوست ہوں میں نے انہیں روک دیا ہے شمس النساء نے کہا اور اُن کا یہ وہم بھی دُور کر دیا ہے کہ آپ صلیبیوں کے دوست ہیں انہیں غلط نہ سمجھیں ان پر غیر ضروری پابندیاں عائد نہ کریں میں نے کوئی پابندی عائد نہیں کی عزالدین نے کہا بگھی ہر وقت موجود ہے اپنی ماں کو جب چاہو سیر کرانے لے جایا کرو
ان کے درمیان اسی موضوع پر باتیں ہوتی رہیں عزالدین نے شمس النساء کی باتوں کو سچ مان لیا یہ باتیں عزالدین کے دفتر میں ہو رہیں تھیں شمس النساء وہاں سے نکلی تو باہر عامر بن عثمان کھڑا تھا اُس کی عمر ابھی تیس برس نہیں ہوئی تھی وجیہہ اور بڑا ہی پرکشش جوان تھا تیر اندازی اور تیغ زنی میں اس کا مقابلہ کوئی کم ہی کر سکتا تھا دماغ کا بھی تیز تھا وہ الملک الصالح کے خصوصی محافظ کا کماندار تھا اسی عمر میں اسے جسمانی اور ذہنی چُستی کی بدولت اتنا بڑا عہدہ اور اتنی نازک ذمہ داری دے دی گئی تھی اس کی رہائش محل کے اندر ہی تھی تھوڑے ہی عرصے سے وہ شمس النساء میں دلچسپی لینے لگا تھا شمس النساء کو پہلے ہی وہ اچھا لگتا تھا اس لڑکی میں کھلنڈرا پن سا تھا اُسے باپ کی عظمت اور عزم سے کسی نے کبھی آگاہ نہیں کیا تھا اُسے محل میں بے ضرر فرد سمجھا جاتا تھا اس کا بھائی مر گیا تو عزالدین نے بھی اُسے بھولی بھالی اور کھلنڈری لڑکی سمجھ کر آزادی دئیے رکھی اسی لیے وہ عامر بن عثمان سے ملتی ملاتی رہی اب وہ جوان ہو گئی تھی عمر سولہ برس تھی اُس دور میں لڑکیاں قد کاٹھ کے لحاظ سے عمر سے زیادہ جوان لگتیں اور بعض اسی عمر میں ایک دو بچوں کی مائیں بن جایا کرتی تھیں شمس النساء تو حکمران خاندان کی شہزادی تھی اپنے قدرتی حُسن سے کچھ زیادہ ہی حسین لگتی تھی عامر بن عثمان میں اُس کی جو دلچسپی تھی اس کا رنگ بدل چکا تھا کبھی وہ اُسے چھیڑ کر بھاگ جایا کرتی تھی مگر اب اُسے دیکھ کر شرما جاتی اور اُسے چوری چُھپے ملا کرتی تھی یہ پاک محبت تھی جس کی شدت نے انہیں روح کی گہرائیوں تک ایک دوسرے کا گرویدہ بنا رکھا تھا انہوں نے شادی کے عہدوپیمان کر رکھے تھے مشکل یہ تھی کہ عامر بن عثمان شمس النساء کے خاندان کا ادنیٰ ملازم تھا وہ اس لڑکی کے رشتے کی توقع رکھ ہی نہیں سکتا تھا پھر بھی اُس نے گھر والوں کا طے کیا ہوا رشتہ قبول کرنے سے انکار کردیا تھا
شمس النساء عزالدین کے دفتر سے نکلی تو عامر بن عثمان باہر کھڑا تھا شمس النساء اسے دیکھ کر مسکرائی اور اشارہ کرکے چلی گئی عامر اس اشارے کو اچھی طرح سمجھتا تھا اس نے سر ہلایا جس کا مطلب یہ تھا کہ ضرور آؤں گا
جگہ پودوں اور درختوں میں ڈھکی چھپی تھی اوپر رات کی تاریکی نے پردہ ڈال رکھا تھا عامر بن عثمان اور شمس النساء محل کی رونق اور ہماہمی سے بے نیاز اس جگہ بیٹھے ہوئے تھے اُن کے پُر شباب جذبات پر والہانہ محبت کا نشہ طاری تھا میں آج اپنی ماں سے ملی ہوں شمس النساء نے بتایا اور اب انہی کے ساتھ رہا کروں گی تمہاری ماں بھی شاہی خاندان کی خاتون ہیں عامر نے کہا وہ تمہیں کسی شہزادے کے ساتھ ہی بیاہنا پسند کریں گی نہیں شمس النساء نے کہا وہ شاہی خاندان کی ضرور ہیں لیکن اُس خیمے میں رہنا پسند کرتی ہیں جو محاذ کے بالکل قریب ہو وہ مجھے بھی سپاہی بنانا چاہتی ہیں کیا یہ اُمید رکھی جا سکتی ہے کہ تم ان سے میرے متعلق بات کرو گی اور وہ مان جائیں عامر نے پوچھا اگر میں نے اُن کی وہ اُمیدیں پوری کردیں جو انہوں نے میرے ساتھ وابستہ کردی ہیں تو میں اُن سے اپنی ہر خواہش منوا سکتی ہوں شمس النساء نے جواب دیا تمہیں بھی اُن کی امید پوری کرنی ہوگی انہوں نے میرا نام لیا تھا
نہیں شمن النساء نے جواب دیا انہوں نے مجھے اپنا مقصد بتایا ہے جس کی تکمیل کے لیے انہیں میرے تعاون کی ضرورت ہے اور مجھے تمہاری مدد کی ضرورت ہے اس سے پہلے کہ میں تمہیں یہ مقصد اور اپنے فرائض بتاؤں میں تم سے حلف لینا چاہتی ہوں تم مدد کرو یا نہ کرو اس مقصد کو اور میری سرگرمیوں کو راز میں رکھو گے اور اگر میں حلف نہ دوں تو؟
عامر نے ہنستے ہوئے اسے اپنے ساتھ لگا لیا شمس النساء پرے ہٹ گئی عامر پر سنجیدگی طاری ہوگئی شمس النساء نے کہا میں نے پہلے بھی وعدہ کیا ہے اور آج جیسی قسم کہو گے کھا کر اپنا وعدہ دہراؤں گی کہ میری شادی ہوگی تو تمہارے ساتھ ہوگی لیکن اس سے پہلے ہمیں وہ کام کرنا ہوگا جو ماں نے مجھے بتایا ہے عامر بن عثمان کو حیرت اس پر ہوئی کہ شمس النساء کو اُس نے ایسی سنجیدگی میں کبھی نہیں دیکھا تھا وہ چونکا اور بولا کیا تمہارے دل میں میری اتنی سی محبت رہ گئی ہے کہ تم مجھ سے حلف لینا ضروری سمجھتی ہو؟
کچھ کام ایسا ہی ہے کہ حلف ضروری ہے شمس النساء نے جواب دیا میں تو اپنی ماں کا حکم مانتے ہوئے جان بھی دے دوں گی تم شاید نہ دے سکو گے میں تمہاری محبت کی خاطر جان دے دوں گا نہیں شمن السناء نے کہا محبت کی خاطر نہیں اسلام کی عظمت کی خاطر اس اسلام کی خاطر نہیں جو اس محل کے اندر ہم دیکھ رہے ہیں میں اُس اسلام کی بات کر رہی ہوں جس کی خاطر میرے محترم والد نے کفار سے لڑتے عمر گزاری ہے اور جس کی خاطر صلاح الدین ایوبی لڑ رہا ہے میں قرآن کے نام پر حلف دیتا ہوں کہ مجھے جو فرض سونپا جائے گا جان کی بازی لگا کر پورا کروں گا عامر بن عثمان نے شمس النساء کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر کہا اگر میں نے اس حلف کی خلاف ورزی کی تو مجھے جان سے مار دیا جائے اور میری لاش کتوں اور گیڈروں کے آگے پھینک دی جائے اب بتاؤ مجھے کیا کرنا ہے؟
جاسوسی شمس النساء نے کہا سلطان صلاح الدین ایوبی مصر میں ہے وہ اس خوش فہمی میں مبتلا ہیں کہ انہوں نے میرے بھائی الملک الصالح کے ساتھ جو دوستی اور آئندہ جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا تھا وہ اس کی وفات کے بعد بھی قائم ہے مگر تم زیادہ اچھی طرح جاتنے ہو کہ معاہدے کے باوجود حلب کی امارت صلیبیوں کے اثرات سے پاک نہیں رہی عزالدین کو سلطان صلاح الدین ایوبی اپنا دوست سمجھتا ہے لیکن میری ماں کسی اور خطرے کا اظہار کر رہی ہے آقا اور تمہاری والدہ کی شادی کے بعد کوئی خطرہ نہیں رہنا چاہیے عامر نے کہا اصل خطرہ شادی سے ہی شروع ہوا ہے شمس النساء نے کہا یہ شادی دراصل قید ہے جس میں میری ماں کو ڈال دیا گیا ہے عزالدین نے یہ شادی اس مقصد کے لیے کی ہے کہ دمشق والوں کو کوئی صحیح راہ دکھانے والا نہ رہے ہمیں اس محل کے ڈھکے چھپے ہوئے بھید معلوم کرکے قاہرہ تک پہنچانے ہیں یہ بھی معلوم کرنا ہے کہ صلیبیوں کی نیت اور ارادے کیا ہیں کیا وہ ایک بار پھر ہماری افواج کو خانہ جنگی میں مروانا چاہتے ہیں یا وہ کوئی اور جنگی اقدام کریں گے تم ایسی جگہ پر ہو جہاں تمہیں بہت کچھ نظر آسکتا ہے تم عزالدین کے خصوصی محافظ دستے کے کماندار ہو میں تمہاری بات سمجھ گیا ہوں عامر بن عثمان نے کہا تم نے ٹھیک کہا ہے کہ میں ایسی جگہ پر ہوں جہاں مجھے بہت کچھ نظر آتا ہے شمسی میں جو دیکھتا رہا ہوں اور جو دیکھ رہا ہوں اس پر کھبی غور نہیں کیا تھا میں مرد مجاہد سے ملازم بن گیا تھا جب سپاہی مجاہد سے ملازم بن جاتا ہے تو یہی کچھ معلوم ہوتا ہے جو اس محل میں ہورہا ہے سپاہی کو اپنی ملازمت سے غرض ہوتی ہے وہ دشمن کا خون بہانے کی بجائے خوشامدی بن جاتا ہے تاکہ اوپر والے اُس پر خوش رہیں انعام و کرام ملتا رہے اور ترقی ملے خون اور خوشامد میں اتنا ہی فرق ہے جتنا فتح اور شکست میں مجھے کسی نے کبھی نہیں بتایا کہ سپاہی کہ فرق صرف باہر کے حملے روکنا نہیں بلکہ اندر کے خطروں کے خلاف لڑنا بھی ہے سپاہی کا فرض یہ بھی ہے کہ اگر ملک اور قوم کو اپنے ہی حکمران کی طرف خطرہ ہو تو اس کا سینہ تیروں سے چھلنی کرکے اسے قلعے سے باہر پھینک دے تم نے مجھے فرض یاد دلا دیا ہے مجھے یہ بتاؤ کہ کسی کو قتل کرنا ہے یا صرف اندر کے راز ہی معلوم کرنے ہیں دونوں کام کرنے ہیں شمس النساء نے جواب دیا راز معلوم کرنے کے لیے کسی غدار کو قتل کرنا پڑے گزیر نہ کیا جائے
سنو شمسی عامر بن عثمان نے کہا اب میں ملازم کی حیثیت سے نہیں مجاہد کی حیثیت سے بات کروں گا راز کی بات یہ ہے کہ حلب کے حاکموں اور بعض سالاروں پر بھروسہ نہیں کیا سکتا اگر عزالدین مخلص بھی ہو سچے دل سے سلطان صلاح الدین ایوبی کا دوست بھی ہو پھر بھی وہ حلب کی فوج کو مصر کی فوج کا اتحادی نہیں بنا سکے گا اس کے حاکموں مشیروں اور وزیروں کے ایمان کو صلیبیوں نے خرید رکھا ہے انہوں نے تمہارے بھائی کی وفات کے فوراً بعد عزالدین کو اس طرح پریشان کرنا شروع کر دیا ہے کسی نہ کسی مد میں خرچ کرنے کے لیے اس سے رقم مانگتے رہتے ہیں سرکاری خزانہ تیزی سے خالی ہو رہا ہے رقم اور سونا خورد برد ہورہا ہے میرا خیال ہے کہ یہ ایک سازش ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ خزانہ خالی کرکے عزالدین کو مجبور کردیا جائے کہ وہ صلیبیوں سے امداد لینے پر مجبور ہوجائے اس سے اپنے حاکم وغیرہ جتنی رقم مانگتے ہیں وہ دے دیتا ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ عزالدین کمزور حکمران ہے شمن النساء نے کہا اس کی کمزوری یہ ہے کہ وہ حکمرانی کی گدی کو چھوڑنا نہیں چاہتا عامر بن عثمان نے جواب دیا میں نے اس کی جو باتیں سنی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ حکمرانی قائم رکھنے کے لیے صلیبیوں کے ساتھ سازباز کرلے گا میں اب اس اور اس کے مشیروں کی باتیں غور سے سنا کروں گا اور تمہیں بتاتا رہوں گا یہ بھی ذہن میں رکھنا کہ یہاں صلیبیوں کے جاسوس موجود اور سرگرم ہیں شمس النساء نے کہا اور یہاں ہمارے جاسوس بھی کام کر رہے ہیں کسی روز اُن سے تمہاری ملاقات کراؤں گی شمس النساء نے مسکرا کر پوچھا تمہاری سوڈانی پری کس حال میں ہے؟
اب بھی ملتی ہے؟
ملتی ہے عامر بن عثمان نے جواب دیا گھسیٹتی ہے پرسوں ملی تو رو بھی پڑی تھی کہتی ہے ایک بار میرے کمرے میں آجاؤ شمسی میں اس لڑکی سے ڈرتا ہوں تم جانتی ہو کہ اس کے حُسن میں جادو ہے اس کے طلسم میں آیا ہوا انسان نکل نہیں سکتا میں اس سے اس لیے نہیں ڈرتا کہ وہ بہت حسین ہے مجھ پر مرتی ہے اور میں اُس کے جال میں پھنس جاؤں گا ڈر یہ ہے کہ وہ والئی حلب عزالدین کے حرم کا ہیرا ہے اسکا نام انوشی ہے لیکن محل کے اندرونی حلقوں کے افراد اسے سوڈانی پری کہتے ہیں اگر عزالدین یا اُس کے کسی امیر وزیر کو پتہ چل گیا کہ یہ لڑکی مجھے چاہتی ہے تو لڑکی سے کوئی باز پرس نہیں ہوگی سزا مجھے ملے گی مجھے تہہ خانے میں باندھ کر ایسی اذیتیں دی جائیں گی کہ تم سنو تو مرجاؤ مجھے یہ بھی ڈر ہے کہ میں نے اُسے مایوس کیے رکھا تو وہ مجھ پر دست درازی یا بد نیتی کا الزام عائد کرکے مجھے قید میں ڈلوا دے گی اسے ابھی تک یہ تو معلوم نہیں ہوا کہ تم مجھے چاہتے ہو اور ہماری ملاقاتیں ہوتی ہیں؟
شمس النساء نے پوچھا جس روز اُسے پتہ چل گیا وہ ہم دونوں کی زندگی کا آخری دن ہوگا عامر بن عثمان نے جواب دیا تمہیں شاید بخش دیا جائے مجھے کوئی نہیں بخشے گا۔
انوشی دراصل صلیبیوں کا بھیجاہوا تحفہ تھا ۔ حلب میں یہ لڑکی آئی تو الملک الصالح بیمار پڑ گیا اور مر گیا۔ عزالدین نے آکر حلب کی حکومت سنبھالی تو حکام نے انوشی اس کی خدمت میں پیش ی ۔ اس کے ساتھ عزالدین نے رضیع خاتون کے ساتھ شادی کر لی۔ یہ اُس دورکے حکمرانوں کا دستور تھا کہ بیویاں الگ رکھتے تھے اور حرم میں بغیر شادی کے لڑکیاں الگ رکھتے تھے ۔ صلیبیوں اور یہودیوں نے مسلمان امراء و زراء کی اس تباہ کس عادت کو اور زیادہ پختہ کرنے کے لیے انہیں اپنی لڑکیاں تحفے کے طور پر پیش کرنی شروع کردیں تھیں۔ پھر ان لڑکیوں میں انہوں نے جاسوسی کے فن کی تربیت یافتہ لڑکیاں بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ انہیں رقابت اور فتنہ فساد پیدا کرنے کی بی تربیت دی گئی تھی ۔
انوشی ایسی ہی تربیت یافتہ لڑکی تھی ۔ وہ عزالدین کے محل کی ضیافتوں میں شراب پلاتی تھی ، پیتی بھی تھی ۔ اُس نے حلب کے دو ایسے حاکموں کو اپنے حسن اور فریب کے جال میں پھانس لیا تھا جو حلب کی قسمت بنا بھی سکتے اور بگھاڑ بھی سکتے تھے۔ وہ عزالدین کے تو اعصاب پر غالب آگئی تھی ۔ وہ سراپا بدی تھی اور مجسم دعوتِ گناہ ۔ عامر بن عثمان عزالدین کے قریب رہتا تھا کیونکہ وہ خصوصی محافظ دستے کا کماندار تھا۔ اُس نے عزالدین کی حفاظت کے لیے محافظ دستے کے علاوہ درپردہ انتظامات بھی کررکھے تھے۔ اس کی نظریں عقاب کی طرح تیز اور دُور بین تھیں …… انوشی نے اُسے دیکھا تو یہ خوبروجوان اُسے بہت اچھا لگا ۔ اُس نے عامر پر ڈورے ڈالنے شروع کردئیے لیکن عامر اُس کے ہاتھ نہ آیا۔ عامر کو معلوم تھا کہ حرم کے اس ہیرے کے ساتھ صرف بات کرتے بھی پکڑا گیا تو انجام ہولناک ہوگا۔ انوشی دوسرے تیسرے روز عامر بن عثمان سے ملتی اور والہانہ محبت کا اظہار کرتی تھی ۔ عامر اُسے ٹال دیا کرتا تھا۔
'' میں اس محل کا ملام ہوں''۔ عامرنے ایک روز اسے کہا تھا ''۔ اگر تمہارے دل میں میری سچی محبت ہے تو مجھ پر رحم کرواور مجھ سے دُور رہو''۔
'' تمہاری طرف کوئی آنکھ اُٹھا کر بھی نہیں دیکھ سکتا ''۔ انوشی نے اُسے کہا …… '' ایک بار میرے میں کمرے میں آجائو''۔
اسی دوران عامر اور شمس النساء کی چوری چھپے ملاقاتیں ہو رہی تھیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
''قاضی بہائوالدین شداد جو اُس دور کا عینی شاہدہے، اپنی یاد داشتوں میں لکھتا ہے ''…… ''عزالدین نے محسوس کر لیا تھا کہ وہ موصل اور شام کی امارتوں کو اپنے ماتحت متحد نہیں رکھ سکے گا ۔ وہ سلطان صلاح الدین ایوبی سے بہت ڈرتا تھا۔ اس کے ماتحت جو امیر اور وزیر تھے وہ عزالدین سے اتنی زیادہ رقموں کا مطالبہ کرنے لگے جو وہ نہیں دے سکتا تھا کیونکہ خزانے میںاتنی سکت نہیں تھی اور وسائل بھی محدود تھے ''۔
اپنی یادداشتوں میں آگے چل کر قاضی بہائوالدین شداد نے لکھا ہے کہ عزالدین کو یہ خطرہ تھا کہ سلطان ایوبی کو حلب کے ساتھ دل چسپی ہے اس لیے وہ حلب پر ضرور قبضہ کرے گا ۔ عزالدین سلطان ایوبی کے خلاف آمنے سامنے کی جنگ لڑنے سے گزیز کرتا تھا ۔ اُس نے اپنے ایک بڑے ہی قابل اور دلیر سالار مظفرالدین ککبوری سے مشورہ کیا جو سات تہوں میں چھپا ہوا ایک راز تھا۔ موصل کا والی عزالدین کا بھائی عمادالدین تھا جو کھلم کھلا سلطان ایوبی کے خلاف تھا۔ حلب اور موصل میں یہ انقلاب آیا کہ عزالدین نے موصل کی حکمرانی سنبھالی اور عمادالدین حب آکر والئی حلب بن گیا۔ امارتوں یا سلطنتوں کا یہ تبادلہ دونوں کے باشندوں کے لیے ایک معمہ تھا۔
متعدد مؤرخین نے اس تبادلے پر اظہار خیال کیا ہے۔ ہر ایک نے مختلف رائے دی ہے۔ اُس وقت کے وقائع نگاروں کی تحریروں سے کچھ بھید بے نقاب ہوتے ہیں۔ عزالدین جب موصل کے قلعے میں گیا تو رضیع خاتون اور اس کی بیٹی شمس النساء اس کے ساتھ تھیں۔ اس کا ذاتی محافظ دستہ بھی ساتھ تھا ۔ جس کا کماندار عامر بن عثمان تھا ۔ یہ بہت ہی بڑا قافلہ تھا ۔ کئی اونٹوں پر پالکیاں تھیں جان کے پردے گرے ہوئے تھے ۔ رضیع خاتون اور شمس النساء کا اونٹ سب سے آگے تھا ۔ رضیع خاتون کی خادمہ بھی ساتھ تھی ۔ رات کو راستے میں ایک جگہ قیام بھی کرنا تھا ۔
عزالدین کو موصل پہنچنے کی جلدی تھی اس لیے اس نے قافلے کا سربراہ مقرر کیا اور خود قیام کیے بغیر اپنے چند ایک محافظوں اور دو تین مشیروں کے ساتھ سفر جاری رکھا۔ عامر بن عثمان کو قافلے کے ساتھ رہنے دیا گیا ۔ سورج غریب ہوتے ہی خیمے نصب کر دئیے گئے۔ رضیع خاتون کا خیمہ اُن خیموں سے بہت دور نصب کیا گیا جن میں رات حرم کی لڑکیوں کو رہنا تھا ۔ عزالدین نے خاص طور پر حکم دیاتھا کہ رضیع خاتون اور شمس النساء کو حرم کے خیموں سے دُور رکھا جائے۔ قیام کی جگہ سر سبز اور چٹانی تھی۔ چٹانوں پر بھی سبزہ تھا ۔ ہری بھری جھاڑیوں کی بہتات تھی ۔
رات کو عامر بن عثمان مشعلوں کی روشنی میں حفاظتی انتظامات دیکھتا پھر رہا تھا ۔ اُن دنوں وہاں کوئی خطرہ نہیں تھا۔ کہیں بھی لڑائی نہیں ہو رہی تھی ۔ سلطان ایوبی مصر میں تھا اور صلیبی کہیں دُور بیٹھے سلطان ایوبی کی اگلی چال کے انتظار میں تیاریاں کر رہے تھے ۔ پھر بھی عامر کا یہ فرض تھا کہ خیمہ گاہ اور جانوروں کے اردگرد گشت کا انتظام کرتا۔ وہ حرم کے خیموں سے ذرا دُور گھوم کر گزر رہا تھا۔ اس وقت وہ اکیلا تھا ۔ خیموں سے کچھ اور دُور گیا تو اُسے اپنے سامنے ایک سایہ کھڑا نظر آیا۔ اُ س نے قریب جاکر گھوڑا روک لیا۔
'' میں نے تمہیں اندھیرے میں اتنی دُور سے پہچان لیا ہے، تم قریب آکر بھی مجھے نہیں پہچانتے ''۔
یہ انوشی کی آوازتھی ۔عامر بن عثمان نے آواز پہچان کر کہا ۔'' مجھے ابھی بہت کام کرنا ہے۔ اتنی وسیع خیمہ گاہ اور اتنے سارے جانوروں کی حفاظت کا انتظام میرے ذمے ہے۔ مجھے مت روکو''۔
انوشی اس کے گھورڑے کے آگے آکر لگام پکڑ چکی تھی ، بولی۔ '' گھوڑے سے اُتر آئو عامر! جن کا تمہیں ڈر تھا وہ موصل چلے گئے ہیں ۔ اُتر آئو''۔
عامر گھوڑے سے اُترا۔ انوشی نے اسے بازو سے پکڑا اور ذرا پرے چٹان کی اوٹ میں بٹھا لیا ۔ عامر نے سدھائے ہوئے جانور کی طرح کوئی مزاحمت نہیں کی ۔
''عامر!'' انوشی نے جذباتی لہجے میں کہا …… '' تم مجھے بدکار اور شیطان لڑکی سمجھ کر مجھ سے بھاگتے پھررہے ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ تم میری اصلیت سے اچھی طرح واقف ہو۔ تم اپنے آپ کو زاہد اور پارسا سمجھتے ہو اور تمہیں جوانی اور اتنے دلکش جسم پر بھی ناز ہے۔ تم نے ابھی اس حقیقت پر غور نہیں کیا کہ کسی بھی روز تمہارا جسم خون میں ڈوبی ہوئی لاش بن جائے گا۔ یہ جنگ و جدل کا دور ہے۔ ایک وہ ہیں جو میدانِ جنگ میں کٹتے اور مرتے ہیں اور ایک وہ ہیں جو قلعے اور محل کے اندر ہی خفیہ طریقے سے قتل کر دئیے جاتے ہیں۔ تمہارا انجام ایساہی ہو سکتا ہے۔ اپنے مردانہ حسن اور جسم کی دلکشی کو دائمی نہ سمجھو ''۔
''کیا تم مجھے قتل کی دھمکی دے رہی ہو؟''
''نہیں !'' انوشی نے جواب دیا ۔'' میں تمہیں یہ بتانے کی کوشش کر رہی ہوں کہ تمہیں اگر یہ خیال ہے کہ میں تمہاری خوبصورتی اور تمہارے جسم پرمرتی ہوں تو یہ خیال دل سے نکال دو ۔ میں جسمانی تعیش کا مجسم ذریعہ ہوں، مگر میں جسمانی لذت سے بیزار ہوں۔ انسان کتنا ہی پتھر کیوں نہ بن جائے ، دل کو بھی پتھر ہی کیوں نہ سمجھ لے ، دل پتھر نہیں بن سکتا ۔ روح مرجھا جاتی ہے مرتی نہیں۔ دل او روح کو وہ محبت زندہ رکھتی جس کا تعلق جسم کے ساتھ نہیں ہوتا ۔ مجھے اور زیادہ غور سے دیکھو۔ میرا حسن اور اس کا طلسم دیکھو۔ میں گناہ کرتی ہوں اور دوسروں کو گناہوں کی ترغیب دیتی ہوں۔ مجھے لوگ شہزادی نہیں پری کہتے ہیں۔ تمہارے بادشاہ اور امراء میرے قدموں میں ایمان اور اپنا سر رکھ دیتے ہیں مگر ایک ایسی تشنگی سے دو چار رہی جسے میں کبھی بھی نہ سمجھ سکی ۔ تمہیں دیکھا تو تم مجھے اچھے لگے ۔ میں پہلی بار جب تمہارے قریب آئی تھی تو میری نیت صاف نہیں تھی ۔ تم نے جب مجھے ٹال دیا اور اس کے بعد بڑے اچھے لفظوں میں دھتکار دیا تو مجھے معلوم ہوگیا کہ وہ تشنگی کیا ہے جو مجھے پریشان کیے ہوئے تھی ۔ میں تمہیں دل کی گہرائیوںسے چاہنے لگی۔ یہ تمہاری صورت کا اثرنہیں تھا ، اور یہ اثر ایسا تھا جس نے میرے دل میں ان سب کے خلاف نفرت پیدا کی ، جو مجھے عیاشی کا کھلونا سمجھتے ہیں اور جو اپنا ایمان اور اپنا قومی وقار میرے ہاتھ سے لیے ہوئے شراب کے پیالے میں ڈبو دیتے ہیں ''۔
وہ جذبات سے مخمود آواز سے بول رہی تھی اور عامر بن عثمان اس ذہنی کیفیت میں سُن رہا تھا کہ دل میں یہ ڈر تھا کہ کسی نے دیکھ لیا تو وہ مارا جائے گا۔ یہ خدشہ بھی تھا کہ شمس النساء اُس کی تلاش میں ادھر آنکلی تو اُس کی محبت کا خون ہو جائے گا ۔ وہ صرف سُن رہا تھا ۔ اتنی حسین لڑکی کی ایسی جذباتی اس کے دل پر کوئی اثر نہیں کر رہی تھیں۔
'' کیا تم ڈرتے ہو یا تمہارا دل مردہ ہوگیا ہے؟'' نوشی نے اس کے گال ہاتھوں میں تھام کر کہا …… '' اگر میرا دل مُردہ نہیں ہوا تو میں مان ہی نہیں سکتی کہ تمہارا دل مرگیا ہے ''۔اس نے کان عامر بن عثمان کے ساتھ لگا دیا۔ اُس کے معطر اور ریشم جیسے بکھرے بکھرے بال عامر کے جواں سال گال چُھونے لگے ۔ وہ آخر جوان تھا۔ اس کی ذات میں ہلچل سی بپا ہوئی۔ اُسے انوشی کی ہنسی کا ترنم سنائی دیا۔ ہنس کر بولی …… '' دل زندہ ہے ،دھڑک رہا ہے……میں تم سے کیا مانگتی ہوں؟ کچھ بھی نہیں ، تم مجھ سے مانگو ، ہیرے، جواہرات ، سونے کے سکے ، کہو کیا چاہیے ''۔
''مجھے کچھ بھی نہیں چائیے، سوڈانی پری''۔
'' مجھے انوشی کہو''۔ لڑکی نے کہا …… '' سوڈانی پری کہنے والے محبت سے عاری ہیں۔ گناہگار ہیں ۔ تم ان سب سے بلند ہو، پاک ہو۔ مجھ سے خزانے لے لو۔ ان کے عوض مجھے محبت دے دو '' …… اُس نے اپنا گال عامر کے گال کے ساتھ لگا دیا ۔ عامر تڑپ کر پیچھے ہٹ گیا۔ اس کی حالت اب اُس پرندے کی سی تھی جسے پنجرے میں بند کر لیا گیا ہو۔ وہ تڑپنے اور پھڑکنے لگا۔
'' معلوم ہوتا ہے تمہارے دل میں کسی اور کی محبت ہے''۔ انوشی نے کہا …… '' میرے طلسم میں کبھی کوئی یوں تڑپا نہیں۔ مجھے کہہ دو کہ تمہیں مجھ سے محبت نہیں ''۔ اُس نے دانت پیس کر کہا ۔ '' تمہیں اتنا بھی احساس نہیں کہ ایک گناہگار لڑکی تم سے پاک محبت کی بھیک مانگتی ہے اور ہو سکتا ہے وہ گناہوں سے توبہ کرکے تمہارے قدموں میں سجدہ ریز ہوجائے۔ بدبخت انسان! یہ بھی سوچ لو کہ تم اس لڑکی کو دھتکار رہے ہو جس نے حکومتوں کے تخت اُلٹ دئیے ہیںاور جو بھائی کے ہاتھوں بھائی کا خون بہا دیتی ہے۔ تم میرے سامنے ایک کیڑے سے بڑھ کر کوئی حیثیت نہیں رکھتے ''۔
''پھر مجھے مسل ڈالو''۔ عامر نے کہا…… '' میں تمہارے قابل نہیں '' …… وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔
'' میں تم سے کچھ نہیں مانگتی عامر !'' انوشی نے اس کے دونوں ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر کہا ۔'' صرف یہ کرو کہ میرے پاس بیٹھے رہا کرو۔ میں پناہ میں لے لیا کرو ''۔
عامر اس سے ہٹ کر اپنے گھوڑے کے پاس گیا ۔ انوشی وہیں کھڑی رہی ۔ عامر گھوڑے پر سوار ہُوا اور کچھ کہے بغیر چلا گیا ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عامر بن عثمان کا گھوڑا آہستہ آہستہ چل رہا تھا ۔ عامر کا سر جھکا ہوا تھا ۔ اس کی ناک میں انوشی کے بالوں کی خوشبو تروتازہ تھی ۔ وہ گالوں پر انوشی کے بالوں کے لمس کا گداز محسوس کر رہا تھا ۔ وہ اس حسین جال سے نکلنے کی کوشش کر رہا تھا اور وہ یہ بھی محسوس کر رہا تھا کہ اگر انوشی ایک بار پھر ایسی ہی تاریکی اور تنہائی میں اُسے ملی تو اُس کی قسمیں ٹوٹ جائیں گی ، پھر وہ کہیں نہیں رہے گا ۔ اُس نے اپنے خیالوں کا رُخ شمس النساء کی طرف پھیر دیا ۔ تب اُسے یاد آیا کہ شام خیمے نصب کرتے وہ ذرا سی دیر شمس النساء کے پاس رُسکا تھا اور انہوں نے ملنے کا وقت اور جگہ طے کی تھی ۔ اُسے یاد آگیا کہ وہ اُسی جگہ کی طرف جارہا تھا ، راستے میں انوشی نے روک لیا …… اُس نے گھوم کر پیچھے دیکھا۔ اسے اندھیرے میں انوشی نظر نہ آئی۔ وہ ایک ٹیکری سے مُڑکر اُس جگہ پہنچا جہاں شمس النساء کو آنا تھا ۔ عامر نے جس طرح انوشی کا سایہ دیکھا تھا اسی طرح اُسے شمس النساء کا سایہ نظر آیا جو گھوڑے کی طرف بڑھا۔ وہ گھوڑے سے اُترا۔
''کہاں رہے؟''شمس النساء نے اس سے پوچھا …… ''بہت دیر سے انتظار کر رہی ہوں''۔
'' میرے کام سے تم آگا ہ ہو''۔ عامر نے جھوٹ بولا …… '' اِدھر ہی آرہا تھا کہ ایک جگہ کام سے رُکنا پڑا اور اتنی دیر ہوگئی ''۔
'' اپنے آدمیوں کا بھی خیال رکھنا ''۔ شمس النساء نے کہا …… '' وہ سب بہت ہوشیار ہیں ۔ کسی کو اُن پر شک نہیں ہوگا ''۔
شمس النساء اُن '' اپنے آدمیوں'' کا ذکر کر رہی تھی جو حلب کے اندر سلطان ایوبی اور رضیع خاتون کے لیے جاسوسی اور مخبری کرتے تھے۔ ان میں جو محل کے اندر ملازم تھے وہ اسی حیثیت کے ساتھ جا رہے تھے اور جو شہر میں کوئی کام کاج کرتے تھے انہیں عارضی مزدوروں کے بہروپ میں راستے میں خیمے لگانے اور اکھاڑنے اور دیگر کاموں کے لیے ساتھ لیے لیا گیا تھا ۔ ان کے متعلق یہ طے کیا گیا تھا کہ موصل شہر میں مختلف کاموں پر لگا دیا جائے گا۔ رضیع خاتون کی خادمہ نے یہ تمام آدمی شمس النساء اور عامر بن عثمان کو دکھائے تھے۔
'' آئو کچھ دیر بیٹھ جائیں ''۔ شمس النساء نے اپنا بازو عامر کی کمرکے گرد لپیٹ کر کہا ۔
عامر نے اپنا بازو شمس النساء کی کمر کے گرد لپیٹا۔ شمس النساء اس کے ساتھ لگ گئی۔ ایک قدم اُٹھایا اور رُک گئی۔ اُس نے ناک عامر کے سینے سے لگا کر سونگھا اور اس سے الگ ہٹ کر بوبی۔ '' تم کہاں تھے؟ کس کے پاس تھے ''۔
''میں جانوروں کو دیکھ کر آرہا ہوں''۔ عامر نے جواب دیا ۔
'' جانور عطر کب سے لگانے لگے ہیں ؟'' شمس النساء نے دبے دبے غصے سے کہا …… '' تم نے کبھی عطر نہیں لگایا ''۔ عامر چپ رہا …… ' ' تمہیں وہ خوبصورت ڈائن مل گئی ہو گی۔ تم اس کے جال میں آگئے ہو''۔
'' ابھی نہیں آیا شمسی! '' عامر نے کہا …… '' وہ مجھے راستے میں مل گئی تھی ۔ میں تمہیں بتانا نہیں چاہتا تھا تمہیں کسی وہم میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے ۔ میں اتنا کچا آدمی نہیں ہوں۔ تم نے میرے سینے سے جو خوشبو سونگھی ہے یہ اُسی کی ہے لیکن تم میرے سینے کے اندر دیکھنے اور سونگھنے کی کوشش کرو''۔ عامر کے لہجے میں گھبراہٹ کا ہلکا ہلکا لرزہ تھا ۔ کہنے لگا …… '' میں بہت پریشان ہوں شمسی ! میں کوئی امیر یا حاکم یا سالار نہیں ، ادنیٰ ملازم ہوں ، انوشی مجھے آسانی سے انتقام کا نشانہ بنا سکتی ہے ''۔
''معلوم ہوتا ہے آج اُس نے تمہیں کچھ زیادہ ہی پریشان کیا ہے''۔ شمس النساء نے کہا ۔
''بہت زیادہ''۔ عامر بن عثمان نے جواب دیا ۔ '' آج اس کی نے اپنا دل کھول کر میرے آگے رکھ دیا ۔ اس نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ وہ گناہگار اور بدکار ہے۔ اس نے مجھ پر واضع کردیا ہے کہ وہ یہاں بدکاری پھیلانے اور بھائی کوئی بھائی سے لڑانے آئی ہے۔ اس نے مجھ سے پاک محبت کی التجا کی ہے اور کہا ہے کہ میں اس کے عوض جتنی دولت مانگودوں گی۔ میں نے بڑی مشکل سے اس کے بازئووں سے رہائی حاصل کی ہے ۔ خدا کے لیے مجھے بتائو شمسی ، میں کیا کروں۔ وہ دنیا کی ساری دولت میرے قدموں میں رکھ دے تو بھی میں تمہیں دھوکہ نہیں دے سکتا ''۔
''پھر اُسے دھوکہ دو''۔شمس النساء نے کہا ۔ '' اُسے وی محبت دو جو وہ مانگتی ہے۔ اس کے عوض اس سے وہ راز لو جو ہم مانگتے ہیں ۔ اس نے تمہیں بتا دیا ہے کہ اُسے کس مقصد کے لیے یہاں بھیجا گیا ہے۔ تم تجربہ کار اوردانشمند ہو۔ یہ تم خود سمجھ سکتے ہو کہ اُسے صاف کہہ دو کہ تمہیں اندر کے رازوں کی ضرورت ہے یا اسے بتائے بغیر اُس سے راز اگلواتے رہو''۔
'' میں یہ سوچ چکا ہوں ''۔ عامر نے کہا …… '' مگر ڈرتا ہوں کہ تم ایک نہ ایک دن میرے خلاف غلط فہمی میں مبتلا ہوجائو گی ''۔
'' میں تمہیں اور اپنی محبت کو خدا کے سپرد کرتی ہوں'' ۔ شمس النساء نے کہا …… '' ماں ہر روز مجھے جو باتیں بتاتی ہے وہ میری روح میں اُتر گئی ہیں۔ میری محبت مر نہیں سکتی ، میں اسے اس عظیم مقصد پر قربان کر سکتی ہوں جو مجھے ماں نے دیا ہے۔ اپنے اللہ اور اپنے حلف کو یاد رکھو گے تو کوئی غلط فہمی پیدا نہیں ہوگی ''۔ اس نے پوچھا ۔ '' کیا اُسے معلوم ہو گیا ہے کہ تم مجھے ملتے ہو؟''
'' اُ س نے ذکر نہیں کیا ''۔ عامر نے جواب دیا …… '' اُسے یقینا معلوم نہیں ''۔
''کام کی بات سن لو ''۔شمس النساء نے کہا …… '' حلب کی روانگی سے کچھ دیر پہلے قاہرہ سے ایک آدمی یہ معلوم کرنے آیا ہے کہ عزالدین کی نیت کیا ہے اور صلیبیوں کے منصوبے کیا ہیں۔ اُسے کوئی ٹھوس جواب نہیں دیا جا سکا ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی بہت جلدی قاہرہ سے فوج کے ساتھ روانہ ہونے کو تیار بیٹھے ہیں۔ اس آدمی نے بتایا ہے کہ سلطان ایوبی اس وجہ سے جلدی کوچ کرنا چاہتے ہیں کہ صلیبی فوج نے موصل ، حلب اور دمشق کی طرف پیش قدمی کردی تو قاہرہ سے فوج بروقت یہاں پہنچانا ممکن نہیں ہوگا۔ خطرہ یہ ہے کہ سلطان اپنی فوج لے آئیں ا ور صلیبیوں کی چال کچھ اور ہو تو سلطان کی فوج نقصان اُٹھا سکتی ہے ۔ ہمیں بہت جلد اپنے مسلمان امراء اور صلیبیوں کے عزائم معلوم کرنے ہیں ''۔
'' میں نے سنا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے جاسوس آسمان سے تارے بھی توڑ لاتے ہیں ''۔ عامر بن عثمان نے کہا …… '' کیا صلیبی علاقوں میں اس کا کوئی آدمی نہیں ؟''
'' ماں نے بتایا ہے کہ اسحاق ترک ایک بڑا ہی قابل اور ہوشیار آدمی ہے ''۔ شمس النساء نے جواب دیا ۔ '' وہ بیروت گیا ہوا ہے ۔ صحیح خبر وہی لائے گا لیکن اس کی طرف سے کوئی اطلاع قاہرہ نہیں پہنچی …… دیکھو عامر ! فوجوں کی نقل و حرکت ہوتی ہے تو یہ راز بے نقاب ہو جاتے ہیں مگر یہاں کوئی ایسی ہلچل نظر نہیں آتی۔ جو راز ہے، وہ عزالدین اور عمادالدین کے سینے میں ہے۔ یہ اندرونی حلقوں سے مل سکتا ہے اور تمہیں یہ رازانوشی دے سکتی ہے ''۔
''مگر جو قیمت وہ مانگتی ہے وہ میں نہیں دے سکوں گا ''۔ عامر نے کہا ۔
''تمہیں یہ قیمت دینی پڑے گی''۔ شمس النساء نے کہا ۔ ' ' میں یہ قیمت دینے کو تیار ہوں۔ میں اپنے بھائی کے گناہوں کا کفارہ اداکرنا چاہتی ہوں ۔ مذہب اور اُمّتِ رسول کی عظمت کے لیے ہماری آپس کی محبت اور دلوں کی خواہشیں کوئی معنی نہیں رکھتیں۔ ہمیں ان شہیدوں کا قرض ادا کرنا ہے جو اسلام کے نام پر اپنی دلہنوں کو نوجوانی میں بیوہ کر گئے ہیں …… عامر! کچھ نہ سوچو۔ قربان ہو جائو''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اُس وقت اسحاق ترک بیروت میں تھا۔ بیروت صلیبی حکمران بالڈون کے فرنگی لشکر کی بہت بڑی چھائونی بنا ہواتھا۔ اس سلسلے کے پچھلی اقساط میں سنایا جا چکا تھا کہ بالڈون کو ایک شکست سلطان ایوبی کے بھائی العادل نے دی تھی اور تھوڑے ہی عرصے بعد اُس نے سلطان ایوبی کی فوج کو گھات میں لینے کی کوشش کی تو خود سلطان ایوبی کی گھات میں آگیا تھا۔ وہ گرفتار ہوتے ہوئے بچا اور دونوں بار اُس کی فوج تتر بتر ہو کر پسپا ہوئی۔ وہ تو جیسے راتوں کو سوتا بھی نہیں تھا ۔ ان دونوں پسپائیوں کا انتقام لینے کے منصوبے بناتا رہتا تھا ۔ اُس نے الملک الصالح کو اپنا اتحادی بنا لیا تھا مگر اس کا یہ اتحادی مر گیا ۔ اب وہ عزالدین اور عمادالدین کو سلطان ایوبی کے خلاف اپنے محاذ میں شامل کر رہا تھا ۔ اُس نے قاہرہ میں جاسوس بھیج رکھے تھے جو سلطان ایوبی کے ارادوں کا پتہ چلا رہے تھے ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*