👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟡 𝟘 𝟙⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟡  𝟘  𝟙⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
غداروں کو اس نے اتنا کمزور اور بے بس کردیا ہے کہ وہ اب ہمارے کسی کام کے نہیں رہے۔ اب کوئی مسلمان حکمران ایسا نہیں رہا جو صلاح الدین ایوبی پر عقب سے حملہ کرے۔ ہم نے حشیشین کو بھی آزما دیکھا ہے۔ وہ چار پانچ قاتلانہ حملوں میں بھی اسے قتل نہیں کرسکے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ کار اور کوئی حل اور راستہ نہیں رہا کہ ہم مل کر سلطان صلاح الدین ایوبی پر یلغار کریں لیکن اپنے جرنیلوں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ حملے میں پہل اسے کرنے دیں۔ اس کی مجھے دو وجوہات بتائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اپنی فوجوں کو اتنی دور نہیں لے جانا چاہیے کہ رسد کے راستے مسدود اور خطرناک ہوجائیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی جس طریقے کی جنگ لڑتا ہے، اس سے ہمیں اپنی فوج دور دور تک پھیلانی پڑتی ہے۔ اب جبکہ دشمن کے علاقے میں ہمارا کوئی حامی نہیں رہا، اس لیے ہمیں حملے کا خطرہ سوچ سمجھ کر مول لینا چاہیے''…
''ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ جاسوسوں کی اطلاع کے مطابق صلاح الدین ایوبی یروشلم کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ کرچکا ہے۔ یہ تمہیں دیکھنا ہے کہ اس کی پیش قدمی کا راستہ کون سا ہوگا اور وہ سیدھا یروشلم کی طرف آئے گا یا کیا کرے گا۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ ہم اکیلے اکیلے اس کے خلاف نہیں لڑ سکتے۔ اب تم متحد ہوگئے ہو۔ صلیب اعظم کو یہاں اٹھا لانے کا مقصد یہ ہے کہ تم سب ایک ہی بار صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھائو کہ تم دشمن کے خلاف یک جان ہوکر لڑو گے اور ذاتی رنجشوں اور ذاتی مفادات کو نظرانداز کرکے متحدہ مفاد کے لیے لڑو گے اور یہ مفاد صلیب اعظم اور یسوع مسیح کے عقیدے کا ہوگا اور تم سب اسلام کے خاتمے کے لیے لڑو گے''۔
سب اٹھے۔ انہوں نے صلیب پر ہاتھ رکھے اور عکرہ کے پادری نے حلف کے جو الفاظ کہے، وہ سب نے دہرائے۔
دوسرے دن سب بہت دیر سے جاگے۔ رات جب پادری نے انہیں چھٹی دی تو وہ شراب اور رقص میں مگن ہوگئے۔ وہ اپنی اپنی پسند کی لڑکیاں ساتھ لائے تھے۔ ان کے حسن وجمال، نیم عریاں جسموں، کھلے بکھرے ہوئے ریشمی بالوں، ناز وادا اور شراب نے اس خطے کو جنت ارضی بنائے رکھا۔ دوسرے دن کا سورج طلوع ہوچکا تھا مگر صلیبیوں کے اس شاہانہ کیمپ میں نیند نے موت کا سکوت طاری کررکھا تھا۔
شہزادہ ارناط کے خیمے سے ایک جواں سال لڑکی نکلی۔ بہت ہی خوبصورت اور لمبے قد کی لڑکی تھی۔ اس کا رنگ دلکش تھا اور اس کی آنکھوں میں سحر تھا لیکن یہ رنگ اور یہ آنکھیں صلیبی یا یہودی لڑکیوں جیسی نہیں تھی۔ یہ سوڈان، مصر یا دمشق جیسے علاقوں کی پیداوار معلوم ہوتی تھی۔ اس کے حسن کی یہی ضمانت کافی تھی کہ ارناط اسے اپنے ساتھ لایا تھا۔
اسے دیکھ کر ایک بوڑھی خادمہ دوڑتی اس تک پہنچی۔ وہاں جو فوج ان حکمرانوں کے ساتھ گئی تھی، اس کی اتنی نفری نہیں تھی جتنی تعداد نوکروں اور نوکرانیوں کی ساتھ تھی۔ اس لڑکی کو ارناط پر نسیس للی کہا کرتا تھا۔ وہ شکل وصورت اور قد بت سے شہزادی ہی لگتی تھی۔ اس نے خادمہ سے کہا کہ صرف میرے لیے ناشتہ جلدی لائو اور بگھی تیار کرو، میں اس علاقے کی سیر کو جارہی ہوں۔
ارناط گہری نیند سویا ہوا تھا، اسے جاگنے کی کوئی جلدی نہیں تھی، وہاں تو صرف پادری صبح سویرے جاگا اور عبادت کرکے پھر سوگیا تھا۔ للی کے لیے کوئی کام نہیں تھا۔ ناشتہ آنے تک وہ تیار ہوگئی اور جب ناشتہ کرچکی تھی تو بگھی آچی تھی۔ یہ دو گھوڑوں کی خوبصورت بگھی تھی۔ کرک سے ارناط کے ساتھ وہ اسی بگھی میں آئی تھی۔
بگھی میں بیٹھنے سے پہلے اس نے بگھی بان سے کہا… ''یہ علاقہ بہت خوبصورت لگتا ہے۔ میں سیر کے لیے جانا چاہتی ہوں۔ تم اس جگہ سے واقف تو نہیں ہوگے؟''
''اچھی طرح واقف ہوں شہزادی محترمہ!'' بگھی بان نے جواب دیا… ''اگر آپ سیر کے لیے جانا چاہتی ہیں تو میں کمان اور ترکش لیے چلتا ہوں۔ آپ شکار بھی کھیل سکتی ہیں۔ یہاں ہرن زیادہ تو نہیں لیکن کہیں کہیں نظر آجاتے ہیں۔ خرگوش عام ہیں، پرندے ہیں''۔
للی نے مسکرا کر کہا… ''کیا تم مجھے تیر انداز سمجھتے ہو؟''… جائو لے آئو۔
''کوئی مشکل نہیں''۔بگھی بان نے کہا… ''آپ لڑائی پر تو نہیں جارہیں۔ شکار پر چلایا ہوا تیر خطا ہوگیا تو کیا ہوجائے گا''۔
وہ دوڑتا گیا اور کمان اور ترکش اٹھایا۔
بگھی خیمہ گاہ سے بہت دور چلی گئی۔ یہ خطہ سرسبز تھا۔ درخت بھی خاصے تھے اور اونچی نیچی ٹیکریاں تھیں۔ مارچ اپریل کے دن تھے، بہار کا موسم تھا۔ اس سے یہ خطہ اور زیادہ خوبصورت ہوگیا تھا۔ بگھی آہستہ آہستہ چلی جارہی تھی۔ ایک جھنڈ کے نیچے للی کے کہنے پر بگھی رک گئی اور وہ اتری۔ اس کا بگھی بان سیبل نام کا عیسائی تھا اور انہی علاقوں کا رہنے والا تھا۔ اس کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر ہوگی۔ خوبرو اور دراز قد جوان تھا۔ اسی لیے اسے ارناط نے بگھی کے لیے منتخب کیا تھا۔ للی کو بھی یہ آدمی پسند تھا۔ زندہ دل اور فرمانبردار تھا۔ للی جب ارناط کے پاس آئی، اس سے ایک سال بعد سیبل ان کے پاس آیا تھا۔
''مسلمانوں کی سرحد کہاں سے شروع ہوتی ہے؟'' للی نے بگھی سے اتر کر پوچھا۔
''جہاں تک کسی کی فوج پہنچ کر ڈیرے ڈال دے، وہ اس کی سرحد بن جاتی ہے''۔ بگھی بان نے جواب دیا… ''میں آپ کو اتنا بتا سکتا ہوں کہ یہاں سے آٹھ دس میل دور سمندر کی طرح ایک وسیع جھیل ہے جس کا نام گیلیلی ہے۔ اس کے کنارے طبریہ نام کا ایک قصبہ ہے۔ اس سے کچھ ادھر حطین نام کا ایک مشہور گائوں ہے۔ اس جھیل سے آگے سے مسلمانوں کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے''۔
''یعنی مسلمانوں کا علاقہ یہاں سے دور نہیں''۔ للی نے کہا… ''کیا ہم بگھی پر جھیل تک جاسکتے ہیں؟''۔
''ہم کرک سے بگھی پر آئے ہیں''۔ سیبل نے کہا… ''جھیل تو یہ قریب ہے۔ یہ دو گھوڑے بغیر تھکے وہاں تک پہنچا سکتے ہیں''۔
للی نے بچوں کی طرح اس سے راستہ پوچھنا شروع کردیا اور بگھی بان زمین پر لکیریں ڈال کر اسے راستہ سمجھانے لگا۔
''دمشق کو بھی راستہ جاتا ہوگا؟'' للی نے پوچھا۔
بگھی بان نے اسے دمشق تک کا راستہ سمجھا دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
للی نے ترکش سے تیر نکالا اور درختوں میں پرندے دیکھنے لگی۔ اس نے ایک پرندے پر تیر چلایا جو خطا گیا۔ للی نے قہقہہ لگایا۔ بگھی بان نے اسے شست لینے کا طریقہ سمجھایا۔ اس نے کچھ تیر ادھر ادھر چلائے۔
''اور آگے چلو''۔ للی نے بگھی میں بیٹھتے ہوئے کہا… ''اس جگہ چلوں جہاں ہرن ہوں۔میں ہرن کو تو مار لوں گی''۔
سیبل اسے ڈیڑھ دو میل دور لے گیا۔ ایک جگہ بگھی روک کر اس نے کہا کہ تھوڑی دیر انتظار کریں، شاید کوئی ہرن یا خرگوش نظر آجائے۔ وہ خود ایک طرف کو چل پڑا۔ کوئی بیس قدم دور ایک درخت تھا۔ سیبل اس کے ساتھ کندھا لگا کر کھڑا ہوگیا۔ وہ شہزادی للی کے لیے ہرن یا خرگوش دیکھ رہا تھا۔ للی کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔ للی نے کماند میں تیر ڈالا اور سیبل کی پیٹھ کا نشانہ لیا۔ اسے کوئی دیکھتا تو یہ یہی کہتا کہ للی مذاق کررہی ہے۔ اس نے کمان کھینچی، اس کے ہاتھوں میں کمان کانپ رہی تھی۔ ایک آنکھ بند کیے وہ سیبل کی پیٹھ کا نشانہ لیے ہوئے تھی۔
اس نے کمان اور زیادہ کھینچی اور تیر چلا دیا۔ تیر سیبل کے کندھے کے بالکل قریب درخت کے تنے میں لگا۔ سیبل گھبرا کر ہٹا اور مڑا۔ اس نے درخت میں اترے ہوئے تیر کو پھر للی کو دیکھا مگر للی ہنس نہیں رہی تھی۔ اس کے چہرے پر ایسی سنجیدگی تھی جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ پھر بھی اس نے ہنس کر کہا… ''آپ مجھ پر تیراندازی کی مشق کررہی ہیں؟''… اور وہ للی کی طرف چل پڑا۔
للی نے ترکش سے اور تیر نکال کر کمان میں ڈال لیا اور بولی… ''وہیں رک جائو اور ادھرادھر نہ ہونا''۔
سیبل رک گیا اور للی نے کمان سامنے کرکے ایک بار پھر کھینچ۔ سیبل نے چلا کر کہا… ''شہزادی آپ کیا کررہی ہیں''۔
شہزادی کی کمان سے تیر نکلا، سیبل کی نظریں اسی پر تھیں۔ وہ بیٹھ گیا اور تیر زناٹے سے اس کے قریب سے گزر گیا۔ سیبل شہزادی کا احترام اور اپنی حیثیت کو بھول گیا۔ للی ترکش سے ایک اور تیر نکال رہی تھی۔ سیبل بڑی ہی تیزی سے اس کی طرف دوڑا۔ للی اتنی جلدی تیر نکال کر کمان میں نہ ڈال سکی۔ سیبل سا پر لپکا تو للی دوڑ کر پرے ہوگئی لیکن سیبل مرد تھا اور جوان بھی تھا۔ دوڑ کر للی تک پہنچا اور اسے پکڑ لیا۔ اس سے کمان چھین لی اور اس کے کندھوں سے ترکش بھی اتارلی۔
''میں ان غلاموں میں سے نہیں ہوں جن پر ان کے آقا ہر طرح کا ظلم کرتے ہیں''۔ سیبل نے کہا اور ایک تیرکمان میں ڈال کر کمان للی پر تانی۔ بولا … ''کیا تم مجھ پر مشق کرنا چاہتی ہو؟ کیا میری خدمات اور فرمانبرداری کا یہ صلہ ہے؟''
للی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے ہونٹ کانپے اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سیبل نے کمان پرے پھینک دی اور آہستہ آہستہ اس کے قریب گیا۔
''میں کچھ بھی نہیں سمجھ سکا کہ آپ نے مجھ پر تیر کیوں چلائے اور آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں آگئے ہیں؟'' سیبل نے پوچھا۔
''تم میری کوئی مدد نہیں کرسکتے؟'' للی نے ایسے لہجے میں کہا جو کسی شہزادی کا نہیں ایک ڈری ہوئی لڑکی کا لہجہ تھا۔
''میں آپ کی خاطر جان تک د ے سکتا ہوں''۔ سیبل نے کہا۔ ''کیسی مدد؟''
''انعام سے مالامال کردوں گی''۔ للی نے کہا… ''مجھے انعام کے طور پر مانگو گے تو یہ بھی قبول کروں گی۔ مجھے جھیل گیلیلی سے آگے مسلمانوں کے علاقے میں لے چلو… دمشق تک چلو۔ وہاں یہ بگھی اور دونوں گھوڑے تمہارے ہوںگے۔ انعام الگ دلوائوں گی''۔
''مجھے شک ہے، آپ کے د ماغ پر کوئی اثر ہوگیا ہے''۔ سیبل نے کہا… ''چلئے، واپس چلیں''۔
''اگر میری بات نہیں مانو گے تو واپس جاکر شہزادہ ارناط سے کہوں گی کہ تم نے یہاں مجھ پر دست درازی کی تھی''۔ للی نے اس کی سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
''اچھا ہوا، آپ نے بتا دیا''۔ سیبل نے کہا… ''اب آپ واپس نہیں جائیں گی، نہ میں واپس جارہا ہوں۔ آپ کے ہاتھ پائوں باندھ کر بگھی میں ڈال لوں گا اور کسی شہر میں جاکر آپ کو بردہ فروشوں کے ہاتھ بیچ ڈالوں گا… مجھے بتائو مسلمانوں کے پاس کیوں جانا چاہتی ہو؟''
تب للی کو احساس ہوا کہ وہ ایک جال میں پھنس گئی ہے۔ وہ بیٹھ گئی اور سر گھٹنوں میں دے کر سسکنے لگی۔ سیبل اسے دیکھتا رہا۔ یہ لڑکی اس کے لیے اجنبی نہیں تھی لیکن اب وہ اسے غور سے دیکھنے لگا۔ اس کے بال، اس کی رنگت اور اس کی ڈیل ڈول صلیبی لڑکیوں جیسی نہیں تھی۔ اسے معلوم تھا کہ صلیبیوں کے پاس مسلمانوں کی اغوا کی ہوئی لڑکیاں بھی ہیں۔ یہ بھی شاید مغویہ ہوگی لیکن اسے تو وہ تین سالوں سے خوش وخرم دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کے پاس بیٹھ گیا۔
''اگر مسلمان ہو تو بتا دو''۔ سیبل نے کہا۔ ''تمہیں شاید اغوا کیا گیا تھا''۔
''اور تم شہزادہ ارناط کو بتا کر انعام لو گے''۔ للی نے کہا… ''اور اسے بتائو گے کہ میں نے بھاگنے کی کوشش کی تھی''… اسے سیبل کے گلے میں ایک ڈوری لٹکتی نظر آئی۔ اس نے یہ ڈوری کھینچی تو چھوٹی سی صلیب ڈوری سے باندھی ہوئی باہر آگئی۔ للی نے کہا… ''اسے ہاتھ میں لے کرقسم کھائو کہ مجھے دھوکہ نہیں دو گے، رناط کو نہیں بتائو گے کہ میں نے تم پر تیر کیوں چلائے تھے''۔
سیبل اس کی اصلیت سمجھ گیا اور بولا۔ ''صلیب پر کھائی ہوئی قسم جھوٹی ہوگی''۔ اس نے صلیب کی ڈوری گلے سے اتاری اور صلیب پرے پھینک دی۔ کہنے لگا… ''مسلمان صلیب پر قسم نہیں کھایا کرتے''۔
للی نے چونک کر سیبل کو دیکھا جیسے اسے سیبل کے ا لفاظ پر یقین نہ آرہا ہو۔ اس نے صلیب کو دیکھا جو پرے زمین پر پڑی تھی۔ کوئی صلیبی کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، صلیب کی توہین نہیں کرتا۔ سیبل کو بہرحال یقین آگیا تھا کہ للی کسی مسلمان کی بیٹی ہے۔
''میں نے تم پر اپنا راز فاش کردیا ہے''۔ سیبل نے کہا… ''اب تم مجھے بتا دو کہ تمہیں کب اور کہاں سے اغوا کیا گیا تھا''۔
''میں حج کعبہ سے اپنے والدین کے ساتھ مصر کو واپس جارہی تھی''۔ للی نے ڈرے ہوئے بچے کی طرح کہا… ''بہت بڑا قافلہ تھا۔ اس وقت میری عمر سولہ سترہ سال تھی۔ چار ساڑھے چار سال گزر گئے ہیں، کرک کے قریب ان کافروں نے قافلے پر حملہ کیا اور مال واسباب لوٹ لیا۔ انہوں نے بہت کشت وخون کیا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ میرے والدین مارے گئے تھے یا زندہ ہیں۔ یہ کافر مجھے اپنے ساتھ لے آئے۔ یہ شاید میری بدقسمتی تھی کہ میں اتنی خوبصورت تھی کہ والئی کرک شہزادہ ارناط نے مجھے پسند کرلیا اور اپنے لیے رکھ لیا۔ اگر میں اتنی خوبصورت نہ ہوتی تو معلوم نہیں کیسے کیسے درندوں کے ہاتھوں اب تک مرچکی ہوتی''…
''شہزادہ ارناط کے آگے میں بہت روئی مگر بے کار تھا۔ اس نے کہا کہ میں اپنی بادشاہی چھوڑ دوں گا، تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ پھر اس نے مجھے شہزادیوں کی طرح رکھا۔ اس نے میرے ساتھ شادی نہیں کی اور مجھے اپنا مذہب قبول کرنے کو بھی نہیں کہا۔ میں اس کی عیاشی کا ذریعہ بنی رہی۔ اس کے پاس کئی اور جوان لڑکیاں تھیں۔ وہ میری دشمن بن گئیں لیکن ارناط صرف مجھے ساتھ رکھتا اور میری بات مانتا تھا۔ میں نے اپنی اس حالت کو قبول کرلیا۔ میں اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ عورت کی قسمت یہی ہوتی ہے کہ جس کے قبضے میں آجائے، اس کی ملکیت اور اسی کی غلام ہوتی ہے''۔
وہ بولتے بولتے چپ ہوگئی۔ سیبل کو غور سے دیکھ کر بولی… ''کیا تم یہ ساری باتیں شہزادہ ارناط کو سنا دو گے؟ پھر وہ مجھے کیا سزا دے گا؟''۔
''اگر وہ واقعی سیبل ہوتا تو یہی کرتا جو تمہیں ڈر ہے''۔ بگھی بان نے کہا… ''میں شامی مسلمان ہوں۔ میرا نام بکر بن محمد ہے''۔
''تم ان جاسوسوں میں سے تو نہیں جن کے متعلق ارناط کہا کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں چھپے ہوئے ہیں؟'' لڑکی نے پوچھا اور بولی… ''میرا نام کلثوم ہوا کرتا تھا''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
''میں جو کچھ بھی ہوں''۔ بکر نے جواب دیا۔ ''مسلمان ہوں، میں تمہیں دھوکہ نہیں دوں گا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ ایک اغوا کی ہوئی مسلمان لڑکی کی ملاقات کسی ایسے مسلمان سے ہوگئی جو صلیبیوں کے پاس عیسائیوں کے بہروپ میں ملازم تھا۔ ایسے واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں۔ یہاں تک بھی ہوا ہے کہ بھائی جاسوس بن کر صلیبیوں کے کسی شہر میں گیا تو وہاں اس کی ملاقات اپنی بہن سے ہوگئی جو بہت عرصہ پہلے تمہاری طرح اغوا ہوئی تھی۔ حیران نہ ہو کلثوم! تم حج کعبہ سے واپس آرہی تھی۔ خدا نے تمہارا حج قبول کرلیا ہے۔ میں عالم فاضل نہیں کہ تمہیں بتائوں کہ خدا نے تمہیں یہ سزا کیوں دی ہے۔ البتہ اب یوں نظر آتا ہے جیسے خدا نے تم سے کوئی نیکی کا کام کرانے کے لیے اس جہنم میں پھینکا تھا… تم صرف فرار ہونا چاہتی ہو یا فرار کا کوئی مقصد بھی ہے؟''
''بہت بڑا مقصد''۔ کلثوم نے کہا… ''تم شاید نہیں جانتے کہ عکرہ کے پادری نے ان صلیبیوں کو یہاں کیوں بلایا ہے۔ رات ارناط جب اپنے خیمے میں آیا تو وہ نشے میں جھوم رہا تھا۔ اس نے مجھے بازوئوں پر اٹھا لیا اور بولا… ''بہت بڑے ملک کی ملکہ بننے والی ہو، صلاح الدین ایوبی چند دنوں کا مہمان ہے۔ وہ ہمارے جال میں آرہا ہے۔ بہت جلدی آرہا ہے''… میں نے خوشی کا اظہار کیا اور اس سے پوچھا کہ ان کا منصوبہ کیا ہے۔ اس نے مجھے پوری تفصیل سے بتا دیا کہ یہاں جتنے صلیبی حکمران آئے ہیں، انہوں نے صلیب پر ہاتھ رکھ کر اتحاد اور ایک دوسرے سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے''۔
''میرے فرار کا مقصد یہی ہے کہ سلطان ایوبی تک یہ خبر پہنچائوں کہ صلیبیوں کے ارادے اور منصوبے کیا ہیں اور انہوں نے کتنی فوج جمع کرلی ہے اور اسے کہاں کہاں تقسیم کرکے پھیلایا ہے۔ ارناط نے مجھے بتایا ہے کہ یہ لوگ حملہ کرنے نہیں جائیں گے بلکہ سلطان ایوبی کو حملے کاموقعہ دیں گے تاکہ وہ اپنے مستقر سے دور آجائے اور اس کی رسد کے راستے لمبے ہوجائیں۔ ان کا ارادہ یہ بھی ہے کہ اگر سلطان ایوبی نے کچھ عرصے تک حملہ نہ کیا تو یہ لوگ تین اطراف سے پیش قدمی اور یلغار کریں گے''۔
''تمہیں اچانک یہ خیال کیوں آیا ہے کہ خبر سلطان ایوبی تک پہنچنی چاہیے؟'' بکر بن محمد نے پوچھا اور اسے بتایا… ''کلثوم! میں اسی میدان کا مجاہد ہوں، اگر میں تمہیں کہوں کہ تم ارناط کے کہنے پر سلطان ایوبی کو غلط خبر دینے جارہی ہو تاکہ وہ گمراہ ہوجائے تو اس کا کیا جواب دو گی؟''
''یہ کہ تم کم عقل آدمی ہو''… کلثوم نے جواب دیا… ''اگر تم سلطان ایوبی کے جاسوس ہو تو تم بے وقوف جاسوس ہو۔ تم اپنی فوجوں کو صلیبیوں کے ہاتھوں مروائو گے۔ اگر ارناط سلطان ایوبی کو گمراہ کرنے کی سوچتا تو وہ کوئی اور ذریعہ اختیار کرسکتا تھا؟ اگر وہ یہ کام مجھ سے ہی کرانا چاہتا تو مجھے رات کو بگھی پر بٹھا کر مسلمانوں کے علاقوں کے قریب نہ چھوڑ آتا… سنو بکر! غور سے سنو۔ میں نے تم پر پہلا جو تیر چلایا تھا، اس کا ارادہ اچانک بجلی کی طرح میرے دماغ میں آیا تھا۔ میں تو صرف سیر کے لیے نکلی تھی۔ یہ تم تھے جس نے کہا تھا کہ تیروکمان ساتھ لے چلیں، یہاں شکار ہوگا''…
''یہاں آکر میں نے تم سے مسلمانوں کی سرحد اور دمشق کے جو راستے پوچھے، وہ یہ معلوم کرنے کے لیے پوچھے تھے کہ اس سرحد سے کتنی دور ہوں اور کیا میں آسانی سے وہاں تک پہنچ سکتی ہوں؟ تم نے جب بتایا کہ وہ علاقہ چند میل دور ہے تو میں سوچنے لگی کہ تمہیں کوئی لالچ دے کر ساتھ لے چلوں لیکن تمہیں میں عیسائی سمجھتی رہی اور بالکل امید نہیں رکھتی تھی کہ تم میری مدد کروں گے بلکہ امید یہ تھی کہ تم ارناط سے انعام لینے کے لیے اسے بتا دو گے کہ یہ لڑکی مسلمانوں کی جاسوس ہے۔ میرے لیے کوئی راستہ نہیں تھا۔ تم مجھ سے تھوڑی دور درخت کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوگئے تو میں نے درخت پر ایک پرندے پر تیر چلانے کے لیے تیر کمان میں ڈالا۔ اس وقت میری نظریں تمہاری پیٹھ پر جم گئیں''…
''تب مجھے اچانک خیال آیا کہ تم اتنے قریب ہو کہ تیر تمہاری پیٹھ میں گہرا اتر جائے گا اور مجھے دوسرا تیر چلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تم مرجائو گے تو میں بگھی بھگا کر اس راستے پر ہولوں گی جو تم نے مجھے سمجھا دیا تھا۔ میں نے کوئی اور خطرہ سوچا ہی نہیں تھا۔ شاید مجھ میں عقل کم اور جذبات زیادہ تھے اور ان جذبات میں انتقام کا جذبہ زیادہ تھا۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے تیر چلا دیا۔ مجھ میں یہ اتنی سی بھی عقل نہ رہی کہ تمہیں کہہ دیتی کہ تیر غلطی سے نکل گیا ہے۔ تم فوراً مان لیتے کیونکہ تم جانتے ہو کہ میں نے کبھی کمان ہاتھ میں نہیں لی تھی۔ میں نے یہی راہ نجات دیکھی کہ تمہیں مار ہی ڈالوں اور مسلمانوں کے علاقے کی طرف بھاگ جائوں مگر میں کامیاب نہ ہوسکی''۔
''اس سے پہلے تمہیں کبھی بھاگنے کا خیال نہیں آیا؟'
'' بکر بن محمد نے پوچھا۔''ابتدا میں بھاگنے کا ہی خیال میرے دماغ پر سوار رہا مگر مجھے حقیقت کو قبول کرنا پڑا کہ میں بھاگ نہیں سکتی''۔ اس نے جواب دیا… ''اس میں کوئی شک نہیں کہ ارناط نے مجھے صحیح معنوں میں شہزادی بنا دیا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ مجھے کسی لڑکی سے کبھی ایسی محبت نہیں ہوئی تھی، جیسی تم سے ہوئی ہے۔ میں اس کے ساتھ شراب بھی پیتی رہی۔ اس سے میں بچ نہیں سکتی تھی۔ جسمانی طور پر میں اس زندگی میں تحلیل ہوچکی تھی۔ ایسی شاہانہ زندگی تو کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن تنہائی میں میرا دل مسلمان ہوجاتا تھا اور یہ خیال مجھے تڑپا دیتا تھا کہ میں حج کعبہ سے آئی ہوں۔ کبھی کبھی میں خدا سے گلے شکوے بھی کیا کرتی تھی اور اکثر یوں ہوتا کہ میںخدا کو بھول جاتی تھی''…
''اسی دوران سلطان ایوبی نے کرک کا محاصرہ کیا اور آتشیں گولے پھینک کر شہر کا بہت سا حصہ تباہ کردیا تھا۔ میں تیار ہوگئی تھی کہ اپنی فوج شہر میں داخل ہوجائے گی اور میں ارناط کو اپنے ہاتھوں قتل کردوں گی مگر ہوا یوں کہ ایک ماہ بعد سلطان ایوبی نے محاصرہ اٹھا لیا اور واپس چلا گیا۔ ارناط قہقہے لگاتا میرے پاس آیا اور بولا… ''میں نے اسے پھر بے وقوف بنا لیا ہے۔ میں نے اس کے ساتھ معاہدہ کرلیا ہے کہ آئندہ حاجیوں کے قافلوں پر ہاتھ نہیں اٹھائوں گا اور میں نے اس کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا بھی معاہدہ کرلیا ہے''…
''میرے دل کو بہت صدمہ ہوا۔ سلطان ایوبی کو واپس نہیں جانا چاہیے تھا۔ مجھے رہا کرائے بغیر اسے محاصرہ نہیں ا ٹھانا چاہیے تھا''۔
''سلطان ایوبی کے سامنے اس سے زیادہ بڑی مہم ہے''۔ بکر نے کہا… ''اسے بلکہ ہمیں بیت المقدس آزاد کرانا ہے جہاں ہمارا قبلۂ اول ہے۔ ہمیں ارض فلسطین کو آزاد کرانا ہے جو ہمارے نبیوں اور پیغمبروں کی سرزمین ہے اگر سلطان ایوبی ایک ایک مسلمان لڑکی کو آزاد کرانے نکل کھڑا ہو تو وہ اپنی منزل مقدس سے د ور بھٹکتا اور لڑتا ختم ہوجائے گا… قومیں اتنے مقدس مقصد کی خاطر اپنے بچوں کو قربان کردیا کرتی ہیں''۔
''ارناط کی ایک بری عادت نے مجھے یہ فراموش نہ کرنے دیا کہ میں مسلمان ہوں''۔ کلثوم نے کہا… ''وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا رہتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ سلطان ایوبی اپنے قبلۂ اول تک پہنچنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے اور ہم اس کے خانہ کعبہ کو مسمار کرنے اور اپنی عبادت گاہ بنانے کے لیے جارہے ہیں''۔
صلیبیوں کے ان عزائم کا تذکرہ یورپی مؤرخوں نے بھی کیا ہے کہ صلیبیوں نے خانہ کعبہ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضۂ مبارک مسمار کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا تھا اور ایک بار وہ مدینہ منورہ سے تین میل دور تک پہنچ بھی گئے تھے۔ کرک کا جو محاصرہ سلطان ایوبی نے کیا اور ایک ماہ بعد اٹھا لیا تھا، یہ بھی ایک تاریخی واقعہ ہے۔ محاصرہ اٹھانے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ارناط نے جنگ نہ کرنے اور آئندہ حاجیوں کے قافلوں پر حملے نہ کرنے کا معاہدہ کرلیا تھا۔ وہ تو سلطان ایوبی کو معلوم تھا کہ صلیبی معاہدے توڑنے کے لیے کیا کرتے ہیں۔ محاصرہ اٹھانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ بیت المقدس کی فتح کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ ارناط نے اس معاہدے کے دو ہی سال بعد حاجیوں کے ایک اور قافلے پر حملہ کیا تھا۔ اس معاہدے کی میعاد ١١٨٨ء تک تھی۔ سلطان ایوبی نے ١١٨٧ء میں حطین کی طرف پیش قدمی کی تھی اور اس عہد کے ساتھ وہ دمشق سے نکلا تھا کہ ارناط کو اپنے ہاتھوں قتل کرے گا۔
کلثوم بکر کو بتا رہی تھی… ''ارناط کے ساتھ میں خوش بھی رہی اور میرے دل میں انتقام بھی موجود رہا۔ وہ کبھی کبھی مجھے بتایا کرتا تھا کہ سلطان ایوبی کے جاسوس بھیس بدل کر آجاتے ہیں اور یہاں کے راز لے جاتے ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ بڑی ہی حسین صلیبی اور یہودی لڑکیاں مسلمانوں کے علاقوں میں مسلمانوں کی طرح کے ناموں سے اونچے رتبوں اور عہدوں والے حاکموں کو جال میں پھانس لیتی اور انہیں صلیب کے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ارناط مجھے ان لڑکیوں کی کہانیاں سنایا کرتا تھا۔ یہ سن کر مجھے کئی بار خیال آیا کہ یہ لڑکیاں اپنے مذہب کے لیے اپنی آبرو قربان کردیتی ہیں۔ عصمت ہی وہ موتی ہے جس کے تحفظ کے لیے عورت جان پر کھیل جاتی ہے لیکن یہ لڑکیاں اتنی بڑی قربانیاں دے ڈالتی ہیں''…
''میری آبرو تو لٹ ہی چکی تھی۔ میں نے ارادہ کرلیا کہ اپنے مذہب کے لیے قربانی دوں گی مگر مجھے موقعہ نہیں ملتا تھا۔ اب یہاں آکر ارناط نے مجھے ایسے راز دے دیا ہے جو سلطان ایوبی تک پہنچنا چاہیے۔ شاید خدا نے مجھے اسی نیکی کے لیے اس جہنم میں بھیجا تھا! کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ اس خبر سے سلطان ایوبی کو کوئی فائدہ پہنچے گا؟''
''بہت زیادہ''۔ بکر بن محمد نے کہا… ''لیکن یہ خبر تم لے کر نہیں جائو گی۔ اگر تم یا ہم دونوں یہاں سے غائب ہوگئے تو شہزادہ ارناط فوراً سمجھ لے گا کہ ہم دونوں جاسوس تھے۔ اس طرح یہ اپنے منصوبوں میں ردبدل کردیں گے اور ہم سلطان ایوبی تک جو خبر پہنچائیں گے، وہ ا س کی شکست کا باعث بن سکتی ہے''۔
''اس کا مطلب یہ ہوا کہ اتنی اہم خبر سلطان ایوبی تک نہیں پہنچ سکتی''۔ کلثوم نے کہا۔
''پہنچ سکتی ہے اور پہنچائی بھی جائے گی''۔ بکر نے کہا… ''لیکن کرک واپس جاکر یہ انتظام ہوگا''۔
''تم جائو گے؟'' کلثوم نے پوچھا… ''میں یہاں سے بھاگنا بھی چاہتی ہوں''۔
''میں نہیں جائوں گا''۔ بکر نے کہا… ''تم بھی نہیں جائو گی۔ کرک میں میرے ساتھی موجود ہیں۔ خبریں لے جانے کا کام ان کی ذمہ داری ہے۔ میرا کام خبریں حاصل کرنا ہے۔ اب یہ کام تم کروں گی۔ تمہارا کام ختم نہیں ہوا، ابھی شروع ہوا ہے۔ میں تمہیں بتائوں گا کہ سلطان کو کس قسم کی معلومات کی ضرورت ہے۔ یہ معلومات تم مجھے دو گی اور میں انہیں دمشق تک پہنچائوں گا''۔
''تو مجھے اس جہنم میں ہی رہنا پڑے گا؟'' کلثوم نے اداس سی ہو کے پوچھا۔
''ہاں''۔ بکر نے جواب دیا۔ ''تمہیں اس جہنم میں اور مجھے موت کے منہ میں موجود رہنا پڑے گا… کلثوم! تمہیں یہ قربانی دینی پڑے گی۔ سلطان کہا کرتے ہیں کہ ایک جاسوس یا ایک چھاپہ مار اپنی پوری فوج کی فتح یا شکست کا باعث بن سکتا ہے لیکن جاسوس ہر لمحہ موت کے منہ میں کھڑا رہتا ہے۔ جاسوس جب دشمن کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے تو فوراً قتل نہیںکردیا جاتا۔ اسے اذیتیں دی جاتی ہیں، اس کی کھال آہستہ آہستہ اتاری جاتی ہے۔ اسے مرنے نہیں دیا جاتا، اسے جینے بھی نہیں دیا جاتا لیکن اپنے مذہب اور اپنے وطن کے لیے کسی نہ کسی کو اپنی زندہ کھال اتروانی ہی پڑتی ہے۔ قوموں کا نام ونشان اس وقت مٹنا شروع ہوتا ہے جب ان میں قربانی کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے… تم نے جہاں چار سال گزار دئیے ہیں، وہاں چار مہینے اور گزار دو۔ تم اب ارناط کو اپنا آقا نہ سمجھو۔ اس کے ساتھ پہلے سے زیادہ محبت کا اظہار کرو لیکن دل میں یہ سمجھو کہ تم نے ایک ایسے زہریلے ناگ پر قبضہ کررکھا ہے جو تمہارے ہاتھ سے آزاد ہوگیا تو عالم اسلام کو ڈس لے گا''۔
''مجھے بتائو''۔ کلثوم نے بے تاب ہوکر کہا… ''خدا کے لیے مجھے بتاتے رہو کہ میں اپنے خدا کے حضور کس طرح سرخرو ہوسکتی ہوں''۔
بکر نے اسے بتانا شروع کردیا۔ اسے مکمل ہدایات دیں اور کہا… ''سب کے سامنے یہ ظاہر نہ ہونے دینا کہ میرا اور تمہارا کوئی اور تعلق بھی ہے۔ یہاں ہمارے جاسوسوں کا سراغ لگانے والے صلیبی جاسوس بھیس بدل کر گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھو کہ صرف ہم دونوں جاسوس نہیں، ہمارے اور بھی بہت سے ساتھی ہیں۔ وہ ہر اس شہر میں موجود ہیں جہاں صلیبی حکمران اور جرنیل موجود ہیں۔ ان میں ایک سے ایک بہادر اور عقلمند ہے۔ دل میں خوش فہمی نہ رکھنا کہ ہم دونوں کوئی بہت بڑا کارنامہ کررہے ہیں۔ خدا پر احسان نہ کرنا، یہ ہمارا فرض ہے جو ہمیں ادا کرنا ہے، خواہ ہمیں کیسی ہی اذیت میں کیوں نہ ڈال دیا جائے''۔
کلثوم جب خیمہ گاہ میں اپنے خیمے کے سامنے بگھی سے اُ تری، اس وقت وہ شہزادی للی تھی اور بکر بن محمد سیبل تھا۔ کلثوم جب بگھی سے اتر رہی تھی اس وقت سیبل بگھی کے پاس کھڑا غلاموں کی طرح جھکا ہوا تھا۔ خیمے میں گئی تو ارناط ایک نقشے پر جھکا ہوا تھا۔ کلثوم نے اسے کہا کہ وہ سیر کے لیے نکل گئی اور شکار بھی کھیلا تھا۔
''کیا مارا؟'' ارناط نے نقشے سے نظریں ہٹائے بغیر پوچھا۔
''کچھ بھی نہیں''۔ کلثوم نے جواب دیا… ''سب تیر خطا ہوگئے لیکن جلدی ہی شکار مارنے کے قابل ہوجائوں گی''۔ یہ کہہ کر وہ بھی نقشے پر جھک گئی۔ اس نے پوچھا… ''پیش قدمی کا نقشہ ہے یا دفاع کا؟''
''پیش قدمی صلاح الدین ایوبی کرے گا''۔ ارناط نے بے خیال کے عالم میں کہا… ''اور دفاع بھی اسی کو کرنا پڑے گا کیونکہ ہم اسے جال میں لا رہے ہیں۔ اس کا دم خم ختم کرکے ہم پیش قدمی کریں گے۔ ہمیں روکنے والا کوئی نہ ہوگا۔ تم اپنے خیمے میں جائو للی! مجھے بہت کچھ سوچنا ہے۔ آج رات ہماری جو کانفرنس ہوگی، اس میں جنگ کا منصوبہ اور نقشہ بنایا جائے گا۔ مجھے جو مشورے دینے ہیں، ان میں کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
''اس کا نام کلثوم ہے اور بکر بن محمد اس کے ساتھ ہے، وہ ارناط کا بگھی بان ہے''۔ سلطان ایوبی کی انٹیلی جنس کا نائب سربراہ حسن بن عبداللہ اسے کرک کے جاسوسوں کی بھیجی ہوئی پوری خبر سنا چکا تھا۔
سلطان کی آنکھیں لال ہوگئیں۔ اس نے کہا… ''کون بتا سکتا ہے کہ ہماری کتنی بیٹیاں ان کفار کے قبضے میں ہیں اور ان کی عیاشی کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ میں ارناط کو نہیں بخشوں گا۔ خیال رکھنا حسن! اس لڑکی کو وہاں سے نکالنا ہے لیکن ابھی نہیں''۔
''کرک میں ہمارے جو آدمی ہیں، وہ اسے موزوں وقت پر نکال لائیں گے''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا۔
عکرہ کا پادری اور یہ صلیبی اتحادی ناصرہ میں تین روز رہے اور انہوں نے پلان اور نقشہ تیار کرلیا تھا۔ کلثوم نے ارناط سے سب کچھ معلوم کرلیا تھا اور بکر کو بتا دیا۔ صلیبیوں کو بھی سلطان ایوبی کے کئی راز معلوم ہوگئے تھے۔ ان کے جاسوس موصل، حلب، دمشق، قاہرہ اور ہر جگہ موجود تھے۔ انہوں نے صلیبیوں کو صحیح اطلاعیں بھیجی تھیں۔ صلیبیوں کو یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ مصر سے بھی فوج آرہی ہے۔ صلیبیوں کو یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ سلطان ایوبی بہت جلدی پیش قدمی کرنے والا ہے، لہٰذا انہوں نے دفاع میں لڑنے، پھر سلطان ایوبی کو گھیرے میں لینے کا پلان تیار کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مختلف جگہوں پر فوج خیمہ زن کردی تھی۔ انہیں ابھی یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ سلطان ایوبی کدھر سے آئے گا اور میدان جنگ کون سا ہوگا۔ اپنے اندازے کے مطابق انہوں نے سلطان ایوبی کی فوج کی نفری، پیادہ اور سوار کا حساب لگا لیا تھا۔
حسن بن عبداللہ نے کرک سے آئے ہوئے اپنے آدمی سے تفصیلی رپورٹ لی۔ اس جاسوس نے کلثوم اور بکر کے متعلق بھی بتایا۔ حسن بن عبداللہ نے یہ رپورٹ سلطان ایوبی کو دی۔
''یہ اطلاع ان تمام اطلاعوں کی تصدیق کرتی ہے جو ہمیں دوسری جگہوں کے جاسوسوں نے بھیجی ہیں''… سلطان ایوبی نے کہا… ''یہ تو ہمیں پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے کہ صلیبی میرا انتظار کررہے ہیں۔ اب کرک کی اطلاع نے اس کی تصدیق کردی ہے۔ اس میں نئی بات یہ ہے کہ چند ایک صلیبیوں نے اتحاد کرلیا ہے اور مجھے ان کی متحدہ فوج سے لڑنا ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ اطلاع نئی ہے ہے کہ جنگی طاقت کتنی ہے۔ ان کے ساتھ دو ہزار دو سو نائٹ ہوں گے۔ یہ بلاشبہ بہت بڑی طاقت ہے۔ نائٹ سر سے پائوں تک زرہ بکتر میں ملبوس اور محفوظ ہوتا ہے۔ نائٹوں کے گھوڑے عام جنگی گھوڑوں کی نسبت زیادہ طاقتور اور پھرتیلے ہوتے ہیں۔ میں انہیں گرمیوں کے عروج میں لڑائوں گا''۔
''اور ان زرہ پوش نائٹوں کے ساتھ آٹھ ہزار سوار ہوں گے''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا… ''پیادہ فوج کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ بتائی گئی ہے''۔
''میرے لیے یہ خبر نئی ہے کہ شاہ آرمینیا کی فوج بھی صلیبیوں کے پاس آرہی ہے''… سلطان ایوبی نے کہا… ''یہ صلیبیوں کی تیس بتیس ہزار فوج کے علاوہ ہوگی۔ یہ ملا کر دشمن کی نفری چالیس ہزار ہوجائے گی۔ کرک کی اطلاع اور دوسری جگہوں سے آنے والی اطلاعوں سے یہ یقین ہوگیا ہے کہ صلیبی دفاعی جنگ لڑیں گے اور مجھے گھیرے میں لے لیں گے۔ اس کے مطابق میرا یہ فیصلہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ میں حطین کے مضافات میں لڑوں گا۔ اس علاقے سے میں اچھی طرح واقف ہوں''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
''میرے رفیقو! اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس فرض کی ادائیگی کے لیے نکل کھڑے ہوں، جو خدائے ذوالجلال نے ہمیں سونپا ہے''… سلطان صلاح الدین ایوبی نے دمشق میں اپنے بڑے کمرے میں سالاروں اور نائب سالاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا… ''ہم اقتدار کے لیے آپس میں لڑنے اور مرنے کے لیے پیدا نہیں کیے گئے تھے۔ ہم نے آپس میں بہت کشت وخون کرلیا ہے۔ اس دوران دشمن نے ارض فلسطین میں اپنے پنجے گہرے اتار لیے ہیں۔ قوم نے ہمارے ہاتھ میں تلوار دی ہے اور اس اعتماد کے ساتھ دی ہے کہ ہم دشمنان دین کا خاتمہ کریں گے اور عرب کی مقدس سرزمین کو کفار کے ناپاک وجودسے پاک کریں گے''…
''آپ کئی برسوں سے مسلسل لڑ رہے ہیں لیکن اصل جنگ اب شروع ہورہی ہے۔ اپنے ذہنوں میں اس جنگ کے مقصد کو تازہ کرلو۔ یہ فیصلہ کرلو کہ ہمیں ایک آزاد اور باوقار قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے اور ہمیں اپنے خدا کے عظیم مذہب کو کفر کے گھنائونے سائے سے آزاد رکھنا ہے۔ ہمیں سلطنت اسلامیہ کو وہاں تک لے جانا ہے جہاں تک محمد بن قاسم لے گیا تھا اور جہاں تک طارق بن زیاد لے گیا تھا۔ ان کے بعد آنے والوں کا فرض یہ تھا کہ اللہ کا پیغام وہاں سے بھی آگے لے جاتے، جہاں تک قوم کے یہ بیٹے لے گئے تھے مگر اللہ کی سلطنت ایسی سکڑی کہ ہمارے دین کے دشمن ہمارے گھر میں آن بیٹھے ہیں اور وہ خانہ کعبہ اور روضۂ مبارک کو مسمار کرنے کے منصوبے بنائے ہوئے ہیں۔ کیوں؟… یہ کیوں کر ممکن ہوا؟… جہاں بادشاہی کا جنون دماغوں پر قابض ہوتا ہے، وہاں سرحدیںسکڑتی ہیں اور تخت وتاج کی خاطر امراء اپنے مذہب اور اپنی غیرت کو بھی ترک کردیا کرتے ہیں''…
''ہمارے زوال کا باعث تخت وتاج کا نشہ اور زروجواہرات کی محبت ہے۔ کہاں وہ وقت کہ ہم دنیا پر چھاگئے تھے اور کہاں ہمارا وقت کہ دنیا ہم پر چھا گئی ہے اور ہم آخرت کو فراموت کیے بیٹھے ہیں۔ ہم میں دوست اور دشمن کی پہچان نہیں رہی۔ عسکری جذبے پر فانی دنیا کی جھوٹی لذتوں کا جادو چل گیا ہے۔ یاد رکھو میرے رفیقو! میں آپ کو کئی بار کہہ چکا ہوں کہ قوم کی قسمت تلوار کی نوک سے لکھی جاتی ہے اور یہ تحریر ان مجاہدوں کی ہوتی ہے جن کے ہاتھ میں تلوار ہوتی ہے۔ جب سالار تخت پر بیٹھ کر سر پر تاج رکھ لیتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں طاقت نہیں رہتی کہ تلوار نیام سے باہر کھینچ سکیں۔ ان کے دلوں میں اپنے عقیدے اور اپنی قوم کے وقار کے تحفظ کا جذبہ نہیں رہتا پھر مذہب کا استعمال یہی رہ جاتا ہے کہ اپنی رعایا کہ مذہب کے نام پر دھوکے دو اور دشمن کے ساتھ در پردہ دوستی کرلو تاکہ آرام سے اللہ کے نیک اور سادہ لوح بندوں پر حکومت کرسکو''…
''ہم آج اسلام کی عظمت کی خاطر صرف اس لیے گھروں کو خیرباد کہنے اور دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے قابل ہوئے ہیں کہ ہم نے اقتدار کے پجاریوں کو ختم کردیا ہے۔ ہم نے آستین کے سانپوں کا سرکچل ڈالا ہے۔ اگر ہم ہار گئے تو اس کی وجہ اس کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ ہماری نیت میں فتور تھا''۔
سلطان ایوبی ایسی جذباتی اور لمبی تقریر کرنے کا عادی نہیں تھا لیکن جس مہم کے لیے وہ نکل رہا تھا، اس کے لیے سب کو ذہنی اور روحانی طور پر تیار کرنا ضروری تھا۔ یہ اس کے وفادار اور قابل اعتماد سالار اور نائب سالار تھے۔ ان میں مظفر الدین جیسا قابل اور دلیر سالار بھی تھا جو کسی وقت میں اس کا ساتھ چھوڑ کر اس کے مخالف کیمپ میں چلا گیا اور اس کے خلاف لڑا بھی تھا۔ اس کے ساتھ تقی الدین اور افضل الدین، فرخ شاہ اور ملک العادل جیسے سالار بھی تھے جو اس کے اپنے خاندان اور اپنے خون کے رشتے کے تھے۔ سالار ککبوری اس کا دست راست تھا۔، ان میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو فنی، تکنیکی اور جذباتی لحاظ سے کمتر ہوتا لیکن سلطان ایوبی پہلی بار ارض فلسطین میں حملے کے لیے جارہا تھا اور اس کی منزل بیت المقدس تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی