👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟠 𝟘 𝟙⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟠  𝟘  𝟙⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہر لمحہ ڈر تھا کہ کہیں نہ کہیں سے کوئی آدمی نکل آئے گا یا کہیں سے تیر آئے گا… کچھ بھی نہ ہوا۔ کشتی پہاڑیوں کے تنگ راستے سے نکل گئی اور دریا کا شور شروع ہوگیا۔''اللہ کا نام لو اور ایک چپو تم سنبھال لو''… حبیب القدوس نے زہرہ سے کہا… ''تم جہاد میں حصہ لینے کی خواہش مند رہتی تھی۔ اللہ نے تمہیں موقعہ دے دیا ہے۔ ہم ابھی خطرے سے نکلے نہیں۔ کشتی کو دریا کے درمیان لے چلتے ہیں''۔
ایک چپو زہرہ نے اور دوسرا حبیب القدوس نے لے لیا اور دونوں کشتی کھینچنے لگے۔ پہاڑیوں کے سیاہ بھوت پیچھے ہٹنے اور چھوٹے ہونے لگے۔ ان دنوں دریائے نیل کنارے سے کنارے تک بھرا ہوا اور پورے جوبن پر تھا۔ کناروں کے ساتھ ساتھ بہائو پرسکون تھا، درمیان میں بہت تیز اور سرکش لہریں اٹھ رہی تھیں۔ حبیب القدوس کو وہاں تک نہیں جانا چاہیے تھا لیکن کنارے کے ساتھ ساتھ جانا بھی پرخطر تھا۔ جونہی کشتی تیزبہائو میں پہنچی، یوں لگا جیسے کسی قوت نے اسے اپنی طرف گھسیٹ لیا ہو۔ کشتی تیزی سے بہنے، اوپر اٹھنے اورگرنے لگی۔ حبیب القدوس نے زہرہ سے کہا… ''گھبرانہ جانا۔ ہم ڈوبیں گے نہیں۔ میں ذرا سمت دیکھ لوں''۔
''آپ میری فکر نہ کریں''… زہرہ نے کہا… ''ڈوب گئے تو کیا ہوجائے گا۔ ان کافروں کی قید سے تو نکل آئے ہیں''۔
حبیب القدوس نے آنکھیں سکیڑ کر پہاڑوں کی طرف دیکھا جو اب زمین کے ابھار کی طرح نظر آرہے تھے، پھر اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور پرجوش لہجے میں بولا… ''میں اس جگہ کو پہچانتا ہوں۔ اس پہاڑی خطے کی صحرا والی طرف اپنے دستوں کو پہاڑی جنگ کی مشق کراچکا ہوں۔ ادھر دریا والی طرف سے میں واقف نہیں تھا۔ ہم سیدھے قاہرہ جارہے ہیں۔ نیل ہمیں بڑی تیزی سے قاہرہ لے جارہا ہے… اللہ کا شکر ادا کرو، زہرہ۔ یہ خدائی مدد ہے۔ اللہ نیتوں کو پہچانتا ہے… لیکن ہمیں قاہرہ سے پہلے ایک اور جگہ رکنا ہے۔ کچھ دور آگے دریا کا موڑ ہے۔ اس کے قریب ہماری فوج کی ایک چوکی ہے۔ دریائی گشت کے لیے ان کے پاس کشتیاں ہیں۔ اس چوکی کی نفری سے میں ان سب آدمیوں کو پکڑ سکوں گا مگر وہ بیدار ہوجائیں گے''۔
''مجھے امید ہے کہ کل دوپہر تک ان میں سے کوئی بھی بیدار نہیں ہوسکے گا''… زہرہ نے کہا… ''میرے ہاتھ سے انہوں نے شراب خاصی زیادہ پی لی تھی اور میں نے آخری بھری ہوئی صراحی سے انہیں جو ایک ایک پیالہ پلایا تھا، اس میں خاکی سے رنگ کا تھوڑا سا سفو ف ملا دیا تھا''۔
''وہ کیا تھا؟''
''ان لڑکیوں پر میں نے جس طرح ا عتماد پیدا کرلیا تھا، وہ تو آپ کو ہر رات تنہائی میں بتاتی رہی ہوں''… زہرہ نے کہا… ''کل کی بات ہے کہ انہوں نے حشیش دکھائی اور اس کا استعمال سمجھایا، پھر انہوں نے مجھے ایک ڈبیہ کھول کر یہ سفوف دکھایا اور کہا کہ بعض آدمیوں کو بے ہوش کرنا ضروری ہوتا ہے۔ یہ چٹکی بھر سفوف شربت میں یا پانی یا کھانے میں ملا دو تو آدمی بے ہوش ہوجاتا ہے۔ اسے جہاں جی چاہے، اٹھا لے جائو… آج رات جب میں شراب کے مٹکے سے آخری صراحی بھرنے گئی تو اس ڈبیہ سے آدھا سفوف اس میں ملا دیا۔ اگر اس کا اثر ویسا ہی ہے جیسا لڑکیوں نے بتایا ہے تو انہیں کل شام تک ہوش میں نہیں آنا چاہیے''۔
حبیب القدوس نے آنکھیں سکیڑ کر پہاڑوں کی طرف دیکھا اور پرجوش لہجے میں بولا… ''میں اس جگہ کو پہچانتا ہوں''۔ اس کے آنسو پھوٹ آئے۔ یہ جذبات کی شدت اور خراج تحسین کے آنسو تھے۔ اس نے رندھی ہوئی آواز میں کہا… ''میں نے تمہیں بہت سخت آزمائش میں ڈال دیا تھا زہرہ! میں نے تمہیں جس دنیا کا بھید لینے کو کہا تھا، وہ گناہوں کی غلیظ مگر بڑی حسین دنیا ہے۔ تم نے میرے لیے بہت بڑی قربانی دی ہے''۔
''آپ کے لیے نہیں اسلام کی عظمت کے لیے''… زہرہ نے کہا… ''میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے یہ مقدس فرض ادا کرنے کا موقعہ دیا۔ آپ شاید مجھ پر اعتبار نہ کریں، گناہوں کی پرکشش دنیا میں جاکر بھی اپنا دامن گناہ سے پاک رکھا ہے۔ یہ بھی اچھا ہوا کہ مجھے یہاں لایا گیا تو انہوں نے مجھے آپ کے ساتھ تنہا رہنے دیا، ورنہ آپ مجھے بتا نہ سکتے کہ یہ لوگ آپ کو بغاوت کرانے کے لیے اغوا کرکے لائے ہیں اور مجھے ان لڑکیوں میں بے حیا اور شوخ لڑکی بن کر یہ ظاہر کرنا ہے کہ مجھے آپ سے نفرت ہے اور میں اس سے بھاگنا چاہتی ہوں۔ آپ نے جب مجھے ان لڑکیوں کی خصلتیں اور ان کے کمالات بتائے اور کہا کہ میں بھی ایسی ہی بن جائوں تو میں گھبرا گئی تھی، کیونکہ میں تو تصور میں بھی ایسا نہیں کرسکتی لیکن یہ بڑی ہی عجیب بات ہے کہ یہ حرکتیں اور یہ سب باتیں مجھ سے بغیر کوشش کے ہوگئیں اور خدا نے مجھے کامیابی عطا فرمائی۔ اگر یہ لڑکیاں مجھے دریا تک کا راستہ نہ دکھاتیں تو ہم وہاں سے کبھی نہ نکل سکتے… کیا آپ نے مجھے اسی کام کے لیے یہاں بلایا تھا؟''
''نہیں!''… حبیب القدوس نے کہا… ''یہ صورت تمہارے آنے سے ازخود پیدا ہوگئی ہے۔ میں نے کچھ اور سوچا تھا۔ تمہیں استعمال اپنی رہائی کے لیے ہی کرنا تھا۔ تمہیں فرضی پیغام رساں بنانا تھا لیکن ان لڑکیوں نے تم میں کسی اور ہی دلچسپی کا اظہار کیا تو میرے دماغ میں یہ ترکیب آگئی جس پر تم نے نہایت خوبی سے عمل کیا اور اب ہم آزاد ہیں… میں نے ان لوگوں پر اعتماد کرلیا تھا۔ میرا خیال تھا کہ یہ لوگ غیرمعمولی طور پر چالاک ہوتے ہیں لیکن ہم لوگ اپنے ہوش میں ایمان قائم رکھیں تو یہ لوگ احمق ہیں۔ میرے ساتھ جس آدمی کو تم نے دیکھا تھا، یہ اپنے آپ کو مصری مسلمان ظاہر کرتا تھا۔ میں پہلے روز ہی جان گیا تھا کہ یہ صلیبی ہے اور میں صلیبیوں کے جال میں آگیا ہوں''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ پہاڑی خطہ بہت دور رہ گیا تھا۔ نیل کے د رمیان کی رو بہت ہی تیز ہوگئی اور زیادہ جوش میں آگئی تھی۔ کشتی اس کے رحم وکرم پر اوپر اٹھتی گرتی اور اٹھتی جارہی تھی۔ چپو بیکار تھے، دریا کے جوش اور قہر میں جو اضافہ ہوگیا تھا، اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ دریا تنگ ہوگیا ہے اور آگے موڑ ہے۔ یہ وہی موڑ تھا جس سے کچھ آگے فوج کی چوکی تھی… اچانک کشتی رکی اور گھوم گئی۔ حبیب القدوس نے چپو تھام لیے۔ د ریا کا شور بہت بڑھ گیا تھا۔ کشتی ایک جکر میں گھومنے لگی۔ کشتی بھنور میں آگئی تھی۔ حبیب القدوس نے پوری طاقت سے چپو مارے مگر بھنور کے چاکر کی طاقت بہت زیادہ تھی۔ کشتی قابو میں نہیں رہی تھی۔ اسے اپنے دونوں مسافروں سمیت دریا کی تہہ میں جانا تھا۔
''زہرہ!''… حبیب القدوس نے چلا کر کہا… ''میری پیٹھ پر آجائو''۔
زہرہ اس کی پیٹھ پر سوار ہوگئی اور بازو اس کی گردن کے گرد لپیٹ لیے۔ حبیب القدوس نے اسے کہا۔ ''مجھے اور زیادہ مضبوطی سے پکڑ لو اور مجھ سے الگ نہ ہونا''… یہ کہہ کر اس نے چکر میں بھنور کے زور پر تیرتی کشتی سے دریا میں اس طرح چلانگ لگائی کہ بھنور سے باہر پہنچ جائے۔
وہ زہرہ کے ساتھ پانی کے اندر چلا گیا اور جسم کی تمام تر قوتیں مرکوز کرکے ابھر آیا۔ وہ بھنور کی زد سے نکل گیا لیکن یہ موڑ تھا اور دونوں طرف چٹانیں تھیں۔ پانی سکڑ گیا تھا اور موجیں زیادہ اونچی اور غضبناک ہوگئی تھیں۔ زہرہ تیرنا نہیں جانتی تھی۔ اس نے خدا سے مدد مانگنی شروع کردی۔ حبیب القدوس اس کے بوجھ تلے سیلابی موجودسے لڑ رہا تھا۔ وہ اسے چٹان کے ساتھ پٹختی تھیں اور وہ چٹان سے بچنے کے لیے ہاتھ پائوں مارتا تھا۔ اس کی کوشش یہ تھی کہ اپنا اور زہرہ کا منہ پانی سے باہر رکھے لیکن موجیں اسے بار بار ڈبو کر اوپر سے گزر جاتی تھیں۔
پھر مو جیں اسے موڑ سے نکال لے گئیں اور دریا چوڑا ہوگیا۔ حبیب القدوس کے بازو اور ٹانگیں شل ہوچکی تھیں۔ اس نے طاقت کے آخری ذرے یکجا کیے اور اس تندرو سے نکلنے کو زور لگایا۔ اس نے محسوس کیا کہ زہرہ کی گرفت ڈھیلی ہوگئی ہے۔ اس نے زہرہ کو پکارا مگر وہ نہ بولی۔ اس کے بازو بالکل ڈھیلے ہوگئے… حبیب القدوس سمجھ گیا کہ زہرہ کے منہ اور ناک کے راستے پانی اندر چلا گیا ہے۔ اسے بچانا اور تیرنا بہت مشکل ہوگیا۔ اس نے ایک ہاتھ سے اسے سنبھالا اور زور لگایا تو تند رو سے نکل گیا۔ کنارا ابھی دور تھا۔ اب تیرنا آسان تھا۔ اس نے مدد کے لیے چلانا شروع کردیا۔
اس کا جسم اکڑ چکا تھا اور زہرہ گری جارہی تھی کہ ایک کشتی اس کے قریب آئی۔ اسے آواز سنائی دی… ''کون ہو؟''… اس نے آخری بار بازو مارے اور لپک کر کشتی کا کنارا پکڑ لیا۔ اس نے کہا… ''اسے میرے اوپر سے اٹھا لو''… زہرہ کو کشتی والوں نے اوپر گھسیٹ لیا۔ وہ بے ہوش ہوچکی تھی۔ کشتی میں اس کی فوج کے سپاہی تھے۔ ان کی چوکی یہیں تھی۔ وہ حبیب القدوس کی پکار پر ادھر آئے تھے۔
چوکی میں جاکر اس نے بتایا کہ وہ نائب سالار حبیب القدوس ہے۔ چوکی کے کمان دار نے اسے پہچان لیا اور بہت حیران ہوا۔ زہرہ بے ہوش پڑی تھی۔ حبیب القدوس نے اسے پیٹ کے بل لٹا کر پیٹھ اور پہلوئوں پر اپنا وزن ڈالا تو اس کے منہ اور ناک سے بہت پانی نکلا۔ وہ ابھی ہوش میں نہیں آئی تھی۔ حبیب القدوس نے کمان دار سے کہا کہ دو بڑی کشتیوں میں دس دس سپاہی سوار کرو اور پہاڑی خطے تک چلو۔ اس نے بتایا کہ پہاڑیوں کے اندر جو کھنڈر ہے، اس میں دس بارہ صلیبی تخریب کار بے ہوش پڑے ہیں، انہیں لانا ہے اور ہوسکتا ہے وہاں کچھ اور آدمی پہنچ چکے ہوں، مجھے خشکی کی طرف سے اندر جانے کے راستے کا علم نہیں۔
''میں ایک راستہ جانتا ہوں''۔ کمان دار نے کہا… ''خشکی سے آسان رہے گا''۔

بیس گھوڑ سواروں کے آگے حبیب القدوس اور چوکی کا کمان دار تھا۔ صبح کی روشنی ابھی دھندلی تھی۔ جب وہ پہاڑیوں میں داخل ہوگئے۔ خاموشی کی خاطر انہوں نے گھوڑے باہر ہی رہنے دئیے اور پیدل آگے گئے۔ حبیب القدوس کی جسمانی حالت کو دریا نے چوس لیا تھا۔ پھر بھی چلا جارہا تھا۔ وہ اپنی بیوی کو بے ہوشی کی حالت میں چوکی میں چھوڑ آیا تھا۔ اس کے لیے زیادہ ضروری تخریب کاروں کی گرفتاری تھی۔ وہ پہاڑیوں اور چٹانوں کے درمیان بھول بھلیوں جیسے راستوں سے گزرتے گئے۔ کچھ دیر بعد انہیں کھنڈر نظر آنے لگا۔
سب سے پہلے حبیب القدوس کو صلیبی نظر آیا۔ اس کے قدم ڈگمگا رہے تھے اور سر ڈول رہا تھا۔ اسے پکڑا گیا تو وہ کچھ بڑبڑایا۔ سات آٹھ آدمی وہیں بے ہوش پڑے تھے، جہاں رات کو گرے تھے۔ کمرے میں مصری اور سوڈانی اور دونوں لڑکیاں برہنہ اور بے ہوش پڑی تھیں۔ ان سب کو سپاہیوں نے اٹھا لیا۔ ان کا سامان بھی اٹھا لیا گیا اور ان سب کو گھوڑوں پر ڈال کر چوکی میں لے گئے۔ اس وقت تک زہرہ ہوش میں آچکی تھی۔
دن کا پچھلا پہر تھا، جب یہ تخریب کار ہوش میں آنے لگے۔ اس وقت قاہرہ کے راستے میں تھے۔ وہ گھوڑوں کے ساتھ بندھے ہوئے تھے اور وہ بیس سپاہیوں کی حراست میں تھے۔ حبیب القدوس نے ان کے ساتھ کوئی بات نہ کی۔ قافلہ چلتا رہا۔

آدھی رات کے بعد علی بن سفیان کے ملازم نے اسے جگایا اور کہا کہ امیر بلاتے ہیں۔ وہ فوراً پہنچا۔ وہاں غیاث بلبیس بھی موجود تھا۔ علی بن سفیان یہ د یکھ کر حیران رہ گیا کہ حبیب القدوس بھی بیٹھا تھا۔ اس نے ان تمام فوجی اور غیرفوجی حاکموں کے نام بتائے جو اسے کھنڈر میں معلوم ہوئے تھے۔ یہ غدار تھے۔ انہیں بغاوت میں شامل ہونا اور کامیاب کرانا تھا۔ قائم مقام امیر کے حکم سے اسی وقت ان سب کے گھروں پر چھاپے مارے گئے اور سب کو گرفتار کرلیا گیا۔ ان کے گھروں سے جو زروجواہرات برآمد ہوئے، وہ ان کے جرم کو ثابت کررہے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت سلطان صلاح الدین ایوبی حلب کو محاصرے میں لینے کے لیے اس شہر کے قریب ایک مقام میدان الاخدر پر خیمہ زن تھا۔ اس نے شام اور دوسرے مقامات سے اپنی فوج کے تھوڑے تھوڑے دستے بلا لیے تھے۔ حلب کے متعلق وہ اپنے سالاروں سے کہہ چکا تھا کہ اس شہر کے لوگ اسی طرح بے جگری سے لڑیں گے جس طرح وہ پہلے محاصرے میں لڑے تھے۔ گو اس کے جاسوسوں نے جو حلب کے اندر تھے، اسے یہ اطلاع دی تھی کہ اب اتنے برسوں کی خانہ جنگی سے حلب کے لوگوں کے خیالات بدل گئے ہیں۔ خیالات بدلنے کے لیے سلطان ایوبی نے بھی زمین دوز اہتمام کیا تھا۔ اب وہاں کا حکمران سلطان عمادالدین تھا جسے لوگ زیادہ پسند نہیں کرتے تھے، پھر بھی سلطان ایوبی کسی خوش فہمی میں مبتلا نہ ہوا۔ اس نے ادھر ادھر سے دستے میدان الاخدر میں جمع کرلیے۔
وہ اپنے سالاروں کو آخری ہدایات دے رہا تھا کہ قاہرہ کا قاصد پہنچا۔ اس نے جو پیغام دیا، اسے پڑھ کر اس کا چہرہ چمک اٹھا۔ اس نے بلند آواز سے کہا… ''میرا دل کہہ رہا تھا کہ حبیب القدوس مجھے دھوکہ نہیں دے گا۔ اللہ اسلام کی ہر بیٹی کو زہرہ کا جذبہ اور ایمان دے''۔ علی بن سفیان نے اسے نائب سالار حبیب القدوس کی واپسی کی ساری روئیداد لکھی تھی جس میں اس کی بیوی زہرہ کا تفصیلی ذکر تھا۔ اس نے اسی وقت پیغام کا جواب لکھوایا جس میں ان غداروں کے لیے جو پکڑے گئے تھے، یہ سزا لکھی کہ انہیں گھوڑوں کے پیچھے باندھ کر گھوڑے شہر میں دوڑائے جائیں اور گھوڑے اس وقت روکے جائیں جب ان غداروں کا گوشت ہڈیوں سے الگ ہوجائے۔
دو ر وز بعد سلطان ایوبی نے حلب پر چڑھائی کردی جو محاصرہ نہیں، یلغار تھی۔ بڑی منجنیقوں سے شہر کے دروازوں پر پتھر اور آتش گیر سیال کی ہانڈیاں ماری گئیں۔ شہر کی دیواروں پر اور اندر بھی ہانڈیاں پھینک کر آتشیں تیروں کامینہ برسا دیا گیا۔ دیواریں توڑنے والے جیش دیواریں توڑنے لگے لیکن شہر والوں اور فوج کی طرف سے مزاحمت میں اتنی شدت نہیں تھی۔ قاضی بہائوالدین شداد نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ حلب کے حکمران عمادالدین کے امرائ، وزراء اس کی خامیوں سے آگاہ تھے۔ اس نے صلیبیوں سے جنگی امداد کے علاوہ سونے کی صورت میں دولت بہت لی تھی۔ اس کے امرائ، وزراء کی نظر اس پر تھی۔ انہوں نے ایسے مطالبات پیش کیے کہ عمادالدین جو پہلے ہی سلطان ایوبی کی طوفانی یلغار سے خوفزدہ تھا، ان مطالبات سے گھبرا گیا۔
اس نے حلب کے قلعہ دار (گورنر) حسام الدین کو سلطان ایوبی کے پاس اس درخواست کے ساتھ بھیجا کہ اسے موصل کا تھوڑا سا علاقہ دے دیا جائے۔ سلطان ایوبی نے اس کی یہ شرط مان لی۔ یہ خبر جب شہر کے لوگوں نے سنی تو وہ ہے اور لوگ اپنا کوئی نمائندہ سلطان ایوبی کے پاس بھیج کر اس کے ساتھ صلح کرلیں یا جو کارروائی وہ کرنا چاہتے ہیں، کریں۔
شہر کے معززین نے عزالدین جردوک النوری اور زین الدین کو اپنی نمائندگی کے لیے سلطان ایوبی کے پاس بھیجا۔ جردوک النوری مملوک تھا۔ وہ ١١ جون ١١٨٣ء (١٧صفر ٥٧٩ہجری) کے روز سلطان ایوبی کے پاس گئے اور اپنی تمام فوج کو شہر کے باہر بلا کر سلطان ایوبی کے حوالے کردیا۔ فوج کے ساتھ حلب کے معززین اور امرائ، وزراء بھی آئے تھے۔ سلطان ایوبی نے سب کو بیش قیمت لباس پیش کیے۔
چھٹے روز جب سلطان ایوبی اس فتح سے مسرور تھا۔ اسے اطلاع ملی کہ اس کا بھائی تاج الملوک جو اسی جنگ میں زخمی ہوگیا تھا، چل بسا ہے۔ سلطان ایوبی کی مسرت گہرے غم میں بدل گئی۔ تاج الملوک کے جنازے میں عمادالدین بھی شامل ہوا۔ اس کے بعد عمادالدین حلب سے نکل گیا۔ سلطان ایوبی نے حلب کی حکومت سنبھال لی۔ بہائوالدین شداد کے بیان کے مطابق اس نے اپنی تمام فوج کو جو لمبے عرصے سے مسلسل لڑ رہی تھی، رخصت پر گھروں کو بھیج دیا اور خود حلب کے انتظامی امور میں مصروف ہوگیا۔ اس کی منزل بیت المقدس تھی۔
صلاح الدین ایوبی کے چہرے پر اس روز رونق تھی اور آنکھوں میں وہ چمک جسے اس کی ہائی کمانڈ کے سالار اور اس کے قریب رہنے والے سول حکام بڑی اچھی طرح پہچانتے تھے۔ اس کے چہرے پر ایسی رونق اور آنکھوں میں ایسی چمک اس وقت آیا کرتی تھی، جب وہ کوئی تاریخی فیصلہ کرچکتا تھا۔ وہ محرم ٥٨٣ہجری (مارچ ١١٨٧ئ) کا مہینہ تھا۔ سلطان ایوبی دمشق میں تھا۔ وہ ان تمام مسلمان امرائ، حکمرانوں اور قلعے داروں کو اپنا مطیع اور اتحادی بنا چکا تھا جو صلیبیوں کے دوست بن کر اس کے خلاف محاذ آراء ہوگئے تھے۔ ان میں سب سے زیادہ اہم حلب اور موصل کے والئی عزالدین اور عمادالدین تھے۔ انہوں نے برسوں پر پھیلی ہوئی خانہ جنگی کے بعد سلطان ایوبی کے آگے ہتھیار ڈال دئیے تھے۔ ان کی فوجیں سلطان ایوبی کی مشترکہ کمان کے تحت آگئی تھیں۔
وہ دمشق اس وقت گیا تھا جب اس نے یہ عہد پورا کرلیا تھا کہ فلسطین کی طرف پیش قدمی سے پہلے ایمان فروشوں کو گھٹنوں بٹھائوں گا تا کہ ان میں سے کوئی بھی اس کے اور قبلہ اول کے درمیان حائل نہ ہوسکے۔ ان غداروں کوبزور شمشیر راہ راست پر لاکر سلطان ایوبی نے اپنی زبان سے یہ نہیں کہا تھا کہ فاتح ہوں۔ وہ کہا کرتا تھا کہ اسلام کی تاریخ کایہ باب بڑا ہی شرمناک ہوگا جس میں یہ واقعات بیان کیے جائیں گے کہ صلاح الدین ایوبی کا دور سیاہ دور تھا جب صلیبی بیت المقدس پر قابض تھے اور مسلمان آپس میں لڑ رہے تھے۔ البتہ وہ ضرور کہا کرتا تھا کہ غداروں کو اپنا اتحادی بنا کر ہم نے صلیبیوں کے عزائم تباہ کردئیے ہیں۔
اس روز دمشق میں اس نے اپنی ہائی کمانڈ کے سالاروں، مشیروں اور فوج سے تعلق رکھنے والے غیرفوجی حکام کو کانفرنس کے لیے بلایا تو سب نے سلطان کے چہرے پر مخصوص رونق اور آنکھوں میں وہ چمک دیکھی جو کبھی کبھی دیکھنے میں آیا کرتی تھی ۔ سب سمجھ گئے کہ ان کے سلطان نے اپنی کو روانہ ہونے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اس میں کسی کو شک نہ تھا کہ اُس کی منزل بیت المقدس ہے۔ اب انہیں اس کی زبان سے یہ سننا تھا کہ کس روز اور کس وقت کوچ ہوگا اور کوچ کس ترتیب سے ہوگا اور راستہ کون سا ہوگا۔
''میرے دوستو! میرے رفیقو!''… سلطان صلاح الدین ایوبی ٹھہری ہوئی آواز میں ان سے مخاطب ہوا… ''آپ سب یقینا میری تائید کریں گے کہ ہم بیت المقدس کی طرف پیش قدمی کے لیے تیار ہیں۔ آج میں آپ سے جو باتیں کروں گا اور آپ اپنے شکوک رفع کرنے کے لیے مجھ سے جو سوال پوچھیں گے اور جو اعتراض کریں گے وہ ہماری تاریخ ہوگی۔ ہمارے الفاظ اور ہمارے عہد تاریخ کی تحریر بنیں گے اور یہ تحریر ہماری آخری نسل تک جائے گی۔ یہ بھی نہ بھولنا کہ ہم اس دنیا میں یہ تحریر چھوڑ کر جائیں گے اور خدا کے حضور اپنے اعمال لے کرجائیں گے۔ یہ فیصلہ آپ کو کرنا ہے کہ ہمیں اپنی آنے والی نسلوں کے آگے اور خدائے ذوالجلال کے آگے شرمسار ہونا ہے یا سرخرو۔ فتح کی ضمانت ہم میں سے کوئی بھی نہیں دے سکتا مگر ہم سب یہ عہد کرسکتے ہیں کہ ہم لڑیں گے، مریں گے، واپس نہیں آئیں گے''۔
سلطان ایوبی نے سب کو دیکھا۔ اس کی نگاہیں سب پر گھومیں۔ اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی۔ اس نے کہا ''میں تمہیں خوش فہمیوں میں مبتلا نہیں کروں گا لیکن آپ میں سے کسی کے دل میں یہ ڈر ہو کہ صلیبیوں کے پاس جتنی فوج ہے ہم اس سے آدھی فوج تیار کرسکتے ہیں اور ہم اتنی دور لڑنے جارہے ہیں۔ میں آپ کو یاد دلانا چاہتا ہوں کہ ہم ہمیشہ تھوڑی سی کم نہیں بلکہ بہت کم تعداد سے کئی گنا زیادہ دشمن سے لڑے اور فتح پائی ہے۔ جنگ تعداد سے نہیں جذبے اور عقل سے لڑی جاتی ہے۔ ایمان مضبوط ہو تو بازو، تلواریں اور دل بھی مضبوط ہوجاتے ہیں۔ ہمارے پاس ایمان کی کمی نہیں، عقل کی بھی کمی نہیں۔ اپنے ایمان کو مضبوط رکھیں اور عقل کو استعمال کریں''۔
''ہم میں کوئی ایک بھی نہیں جو اپنی اور دشمن کی فوجی طاقت کا موازنہ کررہا ہو''… چھاپہ ماروں کے سالار صارم مصری نے اٹھ کر کہا اور اپنے ساتھیوں پر نظریں دوڑائیں۔ ہر ایک نے اس کی تائید کی۔ صارم مصری نے کہا۔ ''البتہ یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ہم بیت المقدس تک کس طرف سے اور کس انداز سے پہنچیں گے۔ احتیاط لازمی ہے۔ ہم تکبر سے گریز اور حقیقت کو تسلیم کریں گے''۔
''میں نے آپ کو یہی بتانے کے لیے بلایا ہے''… سلطان ایوبی نے کہا… ''میں نے پیش قدمی اور جنگ کا منصوبہ آپ کے مشوروں سے تیار کیا ہے اور میں نے کئی راتوں کی سوچ کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ہماری پہلی منزل حطین ہوگی۔ آپ سب حطین کی جنگی اہمیت سے آگاہ ہیں، وہاں مجھے وہ زمین مل جائے گی جہاں میں صلیبیوں کو لڑانا چاہتا ہوں۔ جنگ کا یہ اصول جو میں آپ کو پہلے بھی کئی بار بتا چکا ہوں اپنے ذہن پر نقش کرلو کہ جنگ میں آپ کی بہترین دوست وہ زمین ہے جس پر آپ دشمن کو لاکر لڑاتے ہیں۔ زمین ایسی منتخب کرو جو آپ کو فائدے اور دشمن کو نقصان دے۔ یہ زمین ہمیں حطین کے علاقے میں میسر آئے گی، بشرطیکہ آپ برق رفتاری، رازداری اور پہل کاری سے اس زمین تک پہنچ جائیں اور دشمن کو تمام فائدوں سے محروم کردیں''…
''حطین کے علاقے میں بلندیاں بھی ہیں اور پانی بھی۔ آپ بلندیوں اور پانیوں پر قبضہ کرلیں تو سمجھ لیں کہ آپ آدھی جنگ جیت گئے لیکن دشمن کو ایسی زمین پر لانا آسان نہیں۔ اگر ہمارے منصوبے کی ایک بھی کڑی پر عمل نہ ہوسکا تو سارا منصوبہ تباہ ہوجائے گا اور تباہی ہمیں وہاں تک لے جائے گی جہاں سے واپسی ناممکن ہوگی۔ میرا خیال ہے کہ ہم اس ماہ کے وسط دمشق سے کوچ کرسکیں گے۔ میں نے حلب اور مصر قاصد بھیج دئیے ہیں۔ انہیں تیز رفتاری سے، کم سے کم پڑائو کرکے فوجیں بھیجنی ہیں، جو ہمیں راستے میں ملیں گی۔ ہمیں اپنی تمام فوجوں کو ایک جگہ جمع کرنا ہے۔ باہر سے آنے والی فوج اور یہاں کی فوج کو ملا کر اور ان کے سالاروں کو مکمل منصوبہ بتا کر فوجوں کی تقسیم کرنی ہے۔ ہماری پیش قدمی فوج کے مختلف حصوں کی پیش قدمی ہوگی۔ ہر حصے کا راستہ الگ ہوگا''…
''میں نے راز داری برقرار رکھنے کا انتظام حسب معمول کردیا ہے۔ آپ کے سوا کسی اور کو، کسی کمان دار اور کسی سپاہی کو معلوم نہیں ہونا چاہیے کہ ہم کہاں جارہے ہیں۔ ہمارے جاسوس دشمن کے علاقے میں موجود ہیں۔ وہ دشمن کی ذرا ذرا سی حرکت کی اطلاعیں باقاعدگی سے بھیج رہے ہیں۔ اب ضرورت یہ ہے کہ دشمن کے ان جاسوسوں کو اندھا، بہرہ اور گمراہ کردیا جائے جو ہمارے علاقے میں موجود ہیں۔ حسن بن عبداللہ نے اس کا بھی انتظام کردیا ہے۔ ایک بات میں آپ کو ابھی بتا دینا چاہتا ہوں۔ وہ یہ ہے کہ فوج کا ایک حصہ میرے ساتھ ہوگا جسے میں کرک لے جائوں گا''۔
سلطان ایوبی اچانک خاموش ہوگیا۔ اس کا سرجھک گیا، کچھ دیر بعد اس نے سرکو جھٹکا دے کر اوپر کیا اور بولا… ''چار سال گزرے میں نے ایک قسم کھائی تھی، مجھے یہ قسم پوری کرنی ہے''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان صلاح الدین ایوبی کی یہ قسم ایک تاریخی واقعہ تھا۔ اس نے کانفرنس میں چار سال پہلے کا یہ واقعہ سب کو یاد دلایا۔ اس سلسلے کی پہلی کہانیوں میں تفصیل سے سنایا جاچکا ہے کہ صلیبی حکمران اخلاق اور کردار سے ایسے عاری تھے کہ مسلمانوں کے قافلوں کو لوٹ لیتے تھے۔ یہ کام ان کی فوج کیا کرتی تھی جن دنوں حاجیوں کے قافلے حجاز کو جاتے اور واپس آتے تھے، ان دنوں صلیبی فوج کے دستے ان قافلوں کو لوٹنے کے لیے راستوں میں گھات لگاتے تھے۔ ایک صلیبی حکمران ارناط جو اس وقت کرک پر قابض تھا، یہ کام اپنے حکم اور اپنے خاص دستوں سے کرایا کرتا تھا۔ اپنے اس جرم پر وہ ناز بھی کیا کرتا اور حاجیوں کے قافلے کو لوٹ کر فخر سے اس کا ذکر کیا کرتا تھا جیسے اس نے مسلمانوں پر بہت بڑی فتح حاصل کی ہو۔ اس کی اس راہزنی کا ذکر صرف مسلمان مؤرخوں نے ہی نہیں کیا۔ یورپی مؤرخوں نے تفصیل سے لکھا ہے کہ وہ قافلوں کو لوٹنے کا انتظام کس طرح کیا کرتا تھا۔
٨٤۔١١٨٣ء میں اس کے ایک دستے نے حجاز سے مصر کو واپس جانے والے ح اجیوں کے ایک قافلے پر حملہ کیا اور لوٹ لیا تھا۔ ایک مصری وقائع نگار محمد فرید ابو حدید نے لکھا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کی بیٹی بھی اس قافلے میں تھی لیکن اور کسی مؤرخ یا اس وقت کے وقائع نگار نے یہ نہیں لکھا کہ اس قافلے میں سلطان ایوبی کی بیٹی تھی۔ قاضی بہائوالدین شداد کی ڈائری مستند دستاویز ہے کیونکہ وہ واقعات کا عینی شاہد ہے۔ البتہ ایک اشارہ ایک وقائع نگار کی تحریر سے ملتا ہے جو اس طرح ہے کہ جب سلطان ایوبی کو اطلاع ملی کہ ارناط کی فوج نے مصر کے ایک قافلے کو لوٹ لیا ہے تو سلطان ایوبی کی غضب ناک اور گرج دار آواز سنائی دی تھی… ''وہ میری بیٹی تھی۔ میں اس کا انتقام لوں گا۔ وہ میری بیٹی تھی''۔
قافلے میں کوئی نوجوان لڑکی تھی جسے صلیبی اٹھا لے گئے تھے۔ سلطان ایوبی نے اسی وقت قسم کھائی تھی… ''ارناط کو میں آج سے اپنا ذاتی دشمن سمجھتا ہوں، میں قسم کھاتا ہوں کہ اس سے اپنے ہاتھوں انتقام لوں گا''۔
سب جانتے ہیں کہ ان کے سلطان نے اس انداز اور لب ولہجے میں کبھی بات نہیں کی۔ وہ بھڑک کر بات کرنے اور بڑ مارنے کو پسند نہیں کرتا تھا۔ اس کی ہر بات فیصلہ ہوا کرتی تھی۔ اس نے جب انتقام کی قسم کھائی تو سب سمجھ گئے کہ یہ سلطان کا عزم اور فیصلہ ہے۔ یوں تو ہر صلیبی حکمران اسلام کا دشمن تھا لیکن ارناط اسلام کی اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی توہین کرتا تھا۔ مسلمان قیدیوں کو سامنے کھڑا کرکے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر وہ دشنام طرازی کرتا اور کہا کرتا …'' بلائو اپنے ربِ کعبہ کو تمہاری مدد کرے۔ پڑھو اپنے رسول کا کلمہ کہ تم آزاد ہوجائے ''… اور وہ قہقہے لگایا کرتا تھا۔ اس کی اس عادت سے سلطان ایوبی بھی واقف تھا، اس لیے وہ ارناط کا جب نام لیتا تو نفرت کا بھرپور اظہار کیا کرتا تھا۔
آج چار سال بعد سلطان ایوبی جب صلیبیوں کے خلاف فوج کشی کی ہدایات اپنے سالاروں کو دے رہا تھا تو اس نے یہ سارا واقعہ یاد دلا کر کہا… ''اس بدبخت کافر (ارناط) سے مجھے اپنے ہاتھوں سے انتقام لینا ہے۔ اللہ مجھے یہ موقعہ اور ہمت عطا فرمائے کہ میں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ہتک کا انتقام لے سکوں''… اس نے سالاروں کو مزید ہدایات دیتے ہوئے کہا… ''مجھے امید ہے کہ ہم تین ماہ بعد اس موسم میں حطین کے علاقے میں پہنچیں گے جب سورج کے شعلے پانی کے قطروں کو ریت کے ذروں میں بدل دیتے ہیں اور جب ریت کے یہ جلتے ہوئے ذرے انسانوں کو بھون ڈالتے ہیں اور جب ریگزار میں سراب اور آسمانوں کو اٹھنے والے ریت کے بلولوں کے سوا کچھ نہیں ہوتا، میں صلیبیوں کو اس وقت لڑائوں گا جب سورج سر پر ہوگا۔ صلیبی لوہے کے خودوں اور زرہ بکتر میں جل جائیں گے۔ لوہے کا جو لباس وہ تیروں، تلواروں اور برچھیوں سے بچنے کے لیے پہنتے ہیں، وہ ہر صلیبی کا اپنا اپنا جہنم بن جائے گا''۔
مؤرخوں اور جنگ کے یورپی ماہرین اور مبصروں نے سلطان ایوبی کے اس اقدام کی تعریف کی ہے کہ اس نے جنگ کے لیے جس موسم کا انتخاب کیا وہ جون جولائی کے دن تھے، جب ریگزار بھٹی سے نکالی ہوئی سل کی طرح گرم ہوتا ہے۔ صلیبی فوجی آہنی چادروں کے لباس میں محفوظ ہوتے تھے۔ ان کے نائٹ (سردار) سر سے پائوں تک زرہ بکتر میں ملبوس ہوتے تھے۔ تیر اور تلوار کا ان پر کچھ اثر نہیں ہوتا تھا مگر سلطان ایوبی نے لوہے کا یہ لباس ان کی بہت بڑی کمزوری بنا دیا تھا۔ ایک تو وہ چھاپہ مار قسم کی جنگ لڑتا تھا۔ تھوڑی سی نفری سے پہلوئوں پر برق رفتار حملے کرتا اور حملے آور دستے ضرب لگا کر وہاں رکتے نہیں تھے۔ اس چال سے صلیبی فوج کو پھیلنا پڑتا اور رفتار تیز کرنی پڑتی لیکن زرہ بکتر کا وزن رفتار اتنی نہیں ہونے دیتا تھا، جتنی سلطان ایوبی کے دستوں کی ہوتی تھی۔
سلطان ایوبی نے زرہ بکتر کا دوسرا توڑ یہ سوچا کہ وہ اس وقت جنگ شروع کرتا تھا جب سورج سر پر اور ریگستان شعلہ بنا ہوتا تھا۔ زرہ بکتر تنور کی طرح تپ جاتی تھی۔ پیاس سے جسم خشک ہوجاتا تھا اور پانی پر سلطان ایوبی جنگ سے پہلے قبضہ کرلیتا تھا۔ ریگستان کی جھلسا دینے والی تپش اسلامی فوج کے لیے بھی دشواریاں پیدا کرتی تھی، لیکن اس کے لباس ہلکے پھلکے ہوتے تھے۔ اس کے علاوہ سلطان ایوبی کی ٹریننگ بڑی سخت تھی۔ وہ گھوڑوں، اونٹوں اور تمام فوج کو لمبے لمبے عرصے کے لیے ریگستان میں رکھتا اور خود بھی ان کے ساتھ رہتا تھا۔ اس نے فوج کو بھوکا پیاس رہنے کی ٹریننگ بھی دے رکھی تھی۔ رمضان کے مہینے میں وہ ٹریننگ اور جنگی مشقیں زیادہ کیا کرتا تھا کہ اس مبارک مہینے میں خدائے ذوالجلال اپنے ہاتھوں ہماری تربیت کرتے ہیں۔
جسمانی ٹریننگ کے علاوہ اس نے سپاہیوں کی ذہنی بلکہ روحانی تربیت کا بھی انتظام کررکھا تھا۔ سپاہیوں کو یہ ذہن نشین کرایا جاتا تھا کہ وہ اللہ کے سپاہی اور دین اسلام کے محافظ ہیں، کسی بادشاہ یا سلطان کی فوج کے ملازم نہیں۔ وہ مال غنیمت سپاہیوں میں تقسیم کرتا تھا لیکن انہیں تاثر یہ دیا جاتا تھا کہ جنگ مال غنیمت کے لیے نہیں لڑی جاتی اور مال غنیمت جہاد کا انعام بھی نہیں۔ انعام اللہ دیتا ہے۔ سب سے بڑی چیز غیرت تھی جو اس نے ساری فوج میں پیدا کررکھی تھی۔ وہ سب سے زیادہ ذکر ان مسلمان لڑکیوں کا کرتا تھا جنہیں صلیبی اٹھا لے جاتے تھے اور ان خواتین کا بھی جو صلیبیوں کے مقبوضہ علاقوں میں صلیبیوں کی درندگی کا شکار ہورہی تھیں۔
''قوم کے شہیدوں کو اور قوم کی مظلوم بیٹیوں کو بھول جانے والی قوم کی قسمت میں کفار کی غلامی لکھ دی جاتی ہے''… یہ الفاظ سلطان ایوبی کی زبان پر رہتے تھے۔ وہ سپاہیوں میں گھومتا پھرتا رہتا تھا، ان کی گپ شپ اور ان کی کھیل کود میں شامل ہوجایا کرتا تھا۔ ان سے وہ کہا کرتا تھا… ''انتقام فوج لیا کرتی ہے، اگر فوج نے فرض ادا نہ کیا تو اس کے لیے اس دنیا میں بھی ذلت ہے اور اگلی دنیا میں بھی''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سامنے صلیب الصلبوت رکھی تھی اور اس کے پاس اس صلیب کا محافظ کھڑا تھا جو عکرہ کا بڑا پادری تھا۔ عیسائیوں کے عقیدے کے مطابق یہ وہ اصل صلیب تھی جس پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کیا گیا تھا۔ کہتے ہیں کہ اس چوبی صلیب پر ابھی تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے خون کے نشان موجود ہیں۔ اسے صلیب اعظم بھی کہتے ہیں۔ اسی لیے عکرہ کا پادری ''محافظ صلیب اعظم'' کہلاتا تھا اور اس کا حکم بادشاہوں کے حکم سے زیادہ اہمیت رکھتا تھا۔ بادشاہ بھی اس کے حکم کے پابند ہوتے تھے۔ عیسائیوں اور یہودی لڑکیوں کو اسی کی اجازت سے مسلمانوں کے علاقوں میں جاسوسی، کردار کشی اور نظریاتی تخریب کاری کے لیے بھیجا جاتا تھا جو لڑکی اس کام کی ٹریننگ مکمل کرکے باہر بھیج جاتی، اسے صلیب کا محافظ اعظم اپنی دعائوں کے ساتھ رخصت کیا کرتا تھا۔
ان لڑکیوں سے صلیب الصلبوت پر ہاتھ رکھوا کر وفاداری کا اور صلیب کو دھوکہ نہ دینے کا حلف لیا جاتا تھا۔ ایسا ہی حلف صلیبی فوج کے ہر افسر اور ہر سپاہی سے بھی لیا جاتا تھا۔ اس کے بعد ایسی ہی ایک چھوٹی سی صلیب اس کے گلے میں لٹکا دی جاتی تھی۔
ناصرہ کے مقام پر صلیبی حکمران جمع تھے۔ ان میں گائی آف لوزیناں، ریمانڈ آف تریپولی، گرینڈ ماسٹر گراڈ، مائونٹ فیرت، ہمفرے آف توران، امارلک اور شہزادہ ارناط آف کرک قابل ذکر ہیں… اور وہاں عکرہ کا پادری ''محافظ صلیب اعظم'' بھی موجود تھا۔ ان کے لیے جو شامیانے اور قناتیں لگائی گئی تھی، وہ کپڑوں کا ایک خوش نما محل تھا۔ محل کی طرح اس کے کمرے، برآمدے اور غلام گردشیں تھیں، رنگا رنگ روشنی والے فانوسوں کی روشنی نے اسے مرمر اور خارا محلات سے زیادہ حسین بنا رکھا تھا۔ اس کے اردگرد رہائشی شامیانوں اور قناتوں کے کمرے تھے اور ان کے اردگرد صلیبی نائٹوں کے خیمے اور ان کی فوج کے منتخب دستے خیمہ زن تھے۔ شراب کے مٹکوں کے ساتھ ان حسین اور دلکش لڑکیوں کی کچھ تعداد بھی موجود تھی جن کا طلسماتی حسن اور شوخیاں بھائی کو بھائی اور باپ کو بیٹے کا دشمن بنا دیتی تھیں۔
ایک شامیانے تلے جس پر پختہ محل کے کمرے کا گمان ہوتا تھا، صلیب الصلبوت رکھی ہوئی تھی ا ور اس کے پاس عکرہ کا پادری کھڑا تھا۔ اس کے سامنے صلیبی حکمران اور ان کے جرنیل اور منتخب نائٹ بیٹھے تھے۔ سب کو معلوم تھا کہ یہ ایک تاریخی اجتماع ہے اور تاریخ کا ایک نیا باب لکھا جانے لگا ہے۔ اس باب کا عنوان تھا … ''صلاح الدین ایوبی کو ہمیشہ کے لیے ختم کردو''۔
''صلیب کے محافظو!''… عکرہ کے پادری نے کہا… ''یہ ہے وہ صلیب جس پر تم سب نے ہاتھ رکھ کر حلف اٹھایا تھا۔ آج یہ صلیب تمہارے سامنے اس لیے عکرہ سے لاکر رکھی گئی ہے کہ اس کے ساتھ تم نے جو عہد کیا تھا وہ تمہارے دلوں میں تازہ ہوجائے۔ اب تمہیں ایک خونریز اور فیصلہ کن جنگ کے لیے تیار ہونا ہے۔ یہ جنگ تمہیں لڑنی ہے۔ تم سب جنگجو ہو، جرنیل ہو، تمہاری عمر میدان جنگ میں گزر گئی ہے۔ میں اس میدان کا آدمی نہیں ہوں۔ میں تمہارے مذہب کا پیشوا ہوں۔ میں تمہیں یہ بتانے آیا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی کو شکست دے کر دنیائے عرب پر صلیب کی حکمرانی قائم کرنی ہے۔ یروشلم تو ہے ہی ہمارا، یہ مت بھولو کہ مکہ اور مدینہ پر بھی قبضہ کرنا ہے اور اس مقدس صلیب کو مسلمانوں کے خانہ کعبہ کے اوپر رکھنا اور اسے یسوع مسیح کی عبادت گاہ بنانا ہے''…
''یاد رکھو کہ تم مدینہ سے تین میل دور تک پہنچ گئے تھے مگر مسلمانوں نے تمہیں اس سے آگے نہ بڑھنے دیا۔ تمہیں بھی اسی جنون سے لڑنا ہے جس جنون سے مسلمان اپنے کعبے کے تحفظ کے لیے لڑے تھے۔ صلاح الدین ایوبی کی نظریں یروشلم پر لگی ہیں۔ وہ کہتا ہے کہ یہ بیت المقدس ہے اور یہاں کا قبلۂ اول ہے۔ اگر اس سے یروشلم کو بچانا چاہتے ہو تو نظریں مکہ پر رکھو۔ ذہن میں یہ یاد رکھو کہ ہماری جنگ صلاح الدین ایوبی سے نہیں، یہ صلیب اور اسلام کی جنگ ہے۔ یہ دو مذہبوں کی، دو عقیدوں کی جنگ ہے۔ یہ جنگ ہم نہ جیت سکے تو ہماری اگلی نسل لڑے گی۔ وہ اسلام کا خاتمہ نہ کرسکی تو اس سے اگلی نسل لڑے گی، تاآنکہ دونوں میں سے ایک مذہب ختم ہوجائے گا۔ خاتمہ اسلام کا ہوگا اور ساری دنیا پر صلیب کی حکمرانی ہوگی''…
''ہم نے مسلمانوں کو شکست دینے کے لیے دوسرے طریقے بھی اختیار کیے ہیں لیکن وہ کامیاب نہیں ہوسکے۔ تم سب کو یاد ہوگا کہ ہم اس مہم میں کتنی لڑکیاں ضائع کرچکے ہیں۔ ہم بے شمار دولت اور اسلحہ بھی ضائع کرچکے ہیں جو مسلمان امراء کو صلاح الدین ایوبی کے خلاف دیتے رہے۔ ہم نے ان لڑکیوں اور زروجواہرات سے یہ حاصل کیا ہے کہ مسلمانوں میں شراب اور عیاشی کی عادت پیدا کردی ہے۔ اسی کا نتیجہ تھا کہ ہم چھ سات سال انہیں آپس میں لڑاتے رہے۔ ان کی اس خانہ جنگی سے ہم نے یہ فائدہ ضرور اٹھایا ہے کہ مسلمانوں کی جنگی قوت خاصی حد تک ضائع کردی ہے اور سلطان ایوبی کے بہترین اور تجربہ کار سپاہی اور ان کے کمانڈر خانہ جنگی میں مروا دئیے ہیں۔ اس خانہ جنگی سے ہم نے یہ فائدہ بھی اٹھایا ہے کہ سات آٹھ سال صلاح الدین ایوبی کو اس کے اپنے علاقوں سے باہر نہیں نکلنے دیا۔ اس عرصے میں ہم نے جنگی تیاریاں مکمل کرلیں اور یروشلم کا دفاع اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ صلاح الدین ایوبی کے لیے ان راستوں تک پہنچنا جو یروشلم کو جاتے ہیں۔ ناممکن ہوگیا ہے''…
''مگر اس نے وہ کیفیت پھر حاصل کرلی ہے جو ان کی خانہ جنگی سے پہلے تھی۔ حلب اور موصل کی فوجیں بھی اسے مل گئی ہیں۔ تمام مسلمان امراء اس کے حامی ہوگئے ہیں۔مظفرالدین اور ککبوری جیسے سالار جو اس کے خلاف لڑے اور ہمارے دوست بن گئے تھے، اس کے پاس چلے گئے ہیں۔ غداروں کو اس نے اتنا کمزور اور بے بس کردیا ہے کہ وہ اب ہمارے کسی کام کے نہیں رہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی