مئی 2019
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【⓿➌】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس رات نوشی کے ساتھیوں نے محسوس کیا کہ نوشی جو پہلے اتنا زیادہ بولتی تھی آج اس پر خاموشی طاری ہے اور وہ گہری سوچ میں چلی جاتی ہے۔ اسے کسی نے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کی یہ سب جانتے تھے کہ وہ قومی جذبے کے معاملے میں کتنی حساس ہے۔ اور سلطنت روم کی عظمت کو وہ اپنی ذاتی عزت اور آبرو سمجھتی ہے۔ اور چونکہ اسے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا اس لئے پریشان رہنے لگی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک اور دن گزر گیا اور پھر ایک رات آئی وہ رات آدھی گزر گئی چاند نے زمین پر چاندنی بکھیر رکھی تھی۔ سیلی نوش کی ویسے ہی آنکھ کھلی اور وہ خیمے سے نکلا کیونکہ کچھ گھبراہٹ سےی محسوس کر رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ باہر ذرا بیٹھ کر پھر آ کر سو جائے گا۔ وہ باہر نکلا تو اسے یوں نظر آیا جیسے کچھ دور درخت کے ساتھ کوئی بیٹھا ہوا ہے۔
سیلی نوش کی فطرت میں تجسس کچھ زیادہ پایا جاتا تھا اس کا ایک مظاہرہ تو اس نے یہ کیا تھا کہ نوشی کے منگیتر اور ملازم کو اس نے نوشی سے گتھم گتھا دیکھا تو اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اور جب نوشی نے ساری بات واضح کی تو اس کے ساتھ چل پڑا کہ دیکھیں ہامون کیا کرتا ہے۔
اس رات اس نے کسی کو درخت کے تنے کے ساتھ لگ کر بیٹھے دیکھا تو اس کی طرف چل پڑا حالانکہ وہ گہری نیند سے اٹھا تھا اور نیند اس پر غالب آ رہی تھی۔
وہاں جا کر دیکھا تو وہ نوشی تھی جو اکیلی گہری سوچ میں کھوئی ہوئی بیٹھی تھی۔ سیلی نوش کو اپنے پاس دیکھ کر وہ چونکی نہیں بلکہ اس نے اطمینان کا اظہار کیا کہ سیلی نوش اس کے پاس آ گیا ہے۔ اس نے سیلی نوش کو اپنے پاس بٹھا لیا ۔سیلی نوش نے اس سے پوچھا کہ وہ یہاں کیوں آ بیٹھی ہے؟
میں نہیں جانتی تم کیسے آدمی ہو؟،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ میرے لئے یہ یقین کر لینا مشکل ہے کہ میں تمہیں اعتماد میں لوں یا نہ لوں۔
میرے ماتھے پر کچھ بھی نہیں لکھا۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔۔ اتنا تو سوچ سکتی ہو کہ میں کہیں اور جا رہا تھا اور تمہاری باتیں سنیں تو تمہارے ساتھ یہاں تک آ گیا۔
میرے گھر والے ڈھونڈ رہے ہوں گے کہ میں کہاں غائب ہو گیا ہوں۔ مجھے تم سے کوئی لالچ نہیں کیا یہ کافی نہیں کہ تم مجھے اعتماد میں لو؟
کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا منگیتر تمہارے اعتماد کا آدمی ہے؟
نہیں!،،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ اس سے اعتماد اٹھ گیا ہے اب میں تنہا ہوں میرے پاس گھوڑا ہے خیال آتا ہے یہاں سے بھاگ جاؤں۔
نوشی !،،،،،سیلی نوش نے کہا۔۔۔ اب تو میں پوچھ کر ہی رہوں گا کہ وہ کیا بات ہے جس نے تمہیں اپنے منگیتر سے بدظن کر دیا ہے۔
پھر ایک وعدہ کرو۔۔۔ نوشی نے کہا ۔۔۔میں تمہارے ساتھ جو بات بھی کروں گی وہ میرے منگیتر کو نہیں بتاؤ گے اور میرے ملازم کو بھی اس بات کا علم نہیں ہونا چاہیے۔
سیلی نوش نے اسے یقین دلانے کے لیے کہ وہ اس کی بات کو اپنے دل میں دفن کر دے گا بہت کچھ کہا اور اسے بات کرنے پر آمادہ کر لیا۔
مجھے اس ہامون جادوگر سے بچاؤ ۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ اس نے مجھے اپنے پاس تنہا بٹھا کر تم تینوں کو باہر نکال دیا تھا اس نے اپنے اوپر کچھ اور ہی کیفیت طاری کرلی کبھی میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر میری آنکھوں میں جھانکتا اور ایک بار یہ اپنا منہ میرے منہ کے اتنے قریب لے آیا کہ اس کی پیشانی میرے پیشانی کے ساتھ لگ گئی اس کے منہ سے مجھے جو بدبو آئی اس سے معلوم نہیں میں بیہوش کیوں نہ ہو گئی ۔اس کی سانسیں اتنی گرم کے میرے چہرے پر جلن محسوس ہونے لگی اچھا ہوا کہ اس نے اپنا منہ جلدی پیچھے کر لیا پھر اس نے کچھ عجیب و غریب حرکتیں کی جو میری سمجھ سے باہر تھی۔
پھر یہ اپنے ناگ کے پاس جا بیٹھا اور میری طرف پیٹھ کر لی اس نے ناگ سے کچھ پوچھنا شروع کردیا مجھے تو یوں پتہ چل رہا تھا جیسے ناگ اسے جواب دے رہا ہے آواز ایسی ہی تھی جو تم نے بھی سنی ہے آخر ناگ نے اسی باریکی اور کانپتی سی آواز میں کہا کہ یہ لڑکی تھوڑی سی قربانی دے دے تو یہ ملکہ بنے گی اور وہ سب کچھ پائے گی جو یہ چاہتی ہے۔
ناگ سے کچھ اور باتیں کر کے اس نے منہ میری طرف کیا اور مجھے اپنے قریب بلایا میں اس کے سامنے بالکل قریب جا بیٹھی اس نے اپنے ہی انداز اور لہجے میں کچھ اور باتیں کی اور آخر بات کو یہاں پر لے آیا کہ میں اس کے ساتھ بالکل برہنہ ہو کر ایک رات گزاروں تو میرا عزم تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ اس نے کہا کہ مجھے تمہارے اس حسن اور دلکش جسم کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں لیکن اس غیبی طاقت کا جس کے قبضہ میں میں ہوں حکم ہے کہ تم دونوں کے جسم ایک ہو جائیں اور دونوں کی روحیں اوپر جائیں پھر ہر مشکل آسان ہو جائے گی اور ہر ارادہ پورا ہوگا۔
میں جان گیا ہوں۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ یہ شخص جو چاہتا ہے وہ میں سمجھ گیا ہوں تم یہ بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال اور کیا ارادہ ہے؟
تمہیں یاد ہو گا میں پہلے کیا کہتی رہی ہوں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ میں یہ کہتی رہی اور اب بھی کہوں گی کہ میں سلطنت روم کی عظمت پر اپنی جان قربان کر دوں گی لیکن سیلی نوش میں عصمت قربان نہیں کر سکتی، میں اپنی آبرو کو اپنے منگیتر کی امانت سمجھتی ہوں میرا مذہب اجازت نہیں دیتا کہ اپنی عصمت کسی کو دے دوں خواہ وہ میرا امامِ ملک ہی کیوں نہ ہو اگر گناہ ہی کرنا ہے تو کیا اس بدو اورمنحوس اور مکروہ آدمی کے ساتھ کیا جائے؟
کیا تم نے اپنے منگیتر کو نہیں بتایا۔۔۔ سیلی نوش نے پوچھا۔
بتایا ہے ۔۔۔ نوشی نے جواب دیا۔۔۔ لیکن وہ بے غیرت اور لالچی نکلا اس نے کہا کہ اس میں کوئی گناہ نہیں کوئی حرج نہیں اس شخص کے ساتھ ایک رات بسر کر لو پھر تم ملکہ ہو گی اور میں بادشاہ ہوں گا ۔
میں نے منگیتر کو بتایا تھا کہ ہامون نے یہ بھی کہا ہے کہ مجھے ہرقل مصر کا بہت بڑا حصہ دے دے گا جہاں میری بادشاہی ہو گی۔ یہ بات منگیتر کو بتائی تو وہ میرے پیچھے پڑ گیا کہ میں ہامون کی یہ بات پوری کر دوں۔ آج شام جب ہم ہامون کے خیمے سے یہاں آئے تو منگیتر کے ساتھ میری لڑائی ہوگئی ہم دونوں نے اپنا خیمہ الگ رکھا تھا کہ راز و نیاز اور پیار و محبت کی باتیں کیا کریں گے، لیکن وہ بالکل ہی کچھ اور نکلا،،،، تم بتاؤ سیلی نوش میں بھاگ جاؤں یا اپنی جان اپنے ہاتھوں لے لوں! ۔
اپنی جان کیوں لے لو ؟۔۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ دنیا اس منگیتر پر ختم نہیں ہوجاتی ۔ میں تمہیں بتاتا ہوں جو میں تین چار روز پہلے سے محسوس کر رہا ہوں۔ کسی وقت میں بھی ہامون کی کرامت کو مانتا تھا لیکن اب نہیں۔ میں دیکھتا رہا ہوں کے اس کی نظر صرف تم پر رہتی تھی تم ہو بھی اتنی زیادہ خوبصورت اور اتنی دلکش کہ پروہت اور پیشوا بھی اپنی حیثیت اور اپنا مذہب بھول جائیں۔
یہ شخص ہامون مجھے صرف شعبدہ باز لگتا ہے۔
وہ جو دیئے اپنے آپ ہی بجھ گئے اور جل اٹھے تھے یہ ایک شعبدہ بازی ہے۔ اب تم نے اس سے سارا پردہ ہی اٹھا دیا ہے تم نے کہا ہے کہ میں تمھیں ہامون سے بچاؤں میں تمہیں بچاؤں گا۔
کیا کرو گے؟،،،، نوشی نے پوچھا۔
یہ مت پوچھو!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ یہ بتا دیتا ہوں کہ تم اپنی جان نہیں لو گی بلکہ ہامون کی جان لی جائے گی اس کی جان کسی طرح لی جائے گی یہ میں تمہیں بتاؤں گا۔ اور تم نے وہی کرنا ہے جو میں کہوں گا۔
مجھے ابھی بتاؤ مجھے کیا کرنا ہے۔۔۔ نوشی نے بے تابی سے کہا۔۔۔ تم شاید نہیں سمجھ سکے کہ میں کیسی پریشان کن صورتحال میں پھنس گئی ہوں۔ میں نے تمہیں اپنے منگیتر کی ذہنی حالت نہیں بتائی وہ تو مرنے مارنے پر اترا ہوا ہے کہتا ہے کہ ہامون کی فرمائش پوری کرو۔
کرنا یہ ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ آج رات ہامون کے خیمے میں چلی جانا اس پر یہ ظاہر نہ ہونے دینا کے تم رضامند نہیں ہو۔
مجھے مشکل میں نہ ڈالو سیلی نوش!،،،،، نوشی نے کہا ۔۔۔۔۔وہ فوراً مجھے برہنہ ہو جانے کو کہے گا وہ پہلے ہی مجھے بتا چکا ہے کہ میں اس کے پاس جاؤں گی تو وہ کیا کرے گا۔
وہ کہے بھی تو برہنہ نہ ہونا ۔۔۔سیلی نوش نے کہا ۔۔۔ہوسکتا ہے وہ زبردستی تمہارے کپڑے اتارے گا لیکن گھبرانا نہیں تمہارا جسم ننگا نہیں ہوگا۔
ایک طرف تو نوشی اس قدر جرات مند اور جوش و جذبے والی تھی کہ صرف ایک ملازم کو ساتھ لے کر فرما سے چل پڑی اور دشت و جبل سے گزرتی ان دیکھے اجنبی بدوؤں کے علاقے میں جا پہنچی تھی۔ اور اب اس کا یہ حال کے دل پر خوف طاری تھا اور وہ مدد اور پناہیں ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ سیلی نوش کو اس نے اپنا ہمراز اور ہمدرد تو بنا لیا تھا لیکن اسے پوری طرح یقین نہیں آیا تھا کہ سیلی نوش اس کے حق میں مخلص ہے۔ لیکن ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ڈھونڈنے والی بات تھی اس نے یہ خطرہ مول لے لیا کہ ایک ایسے شخص کو اعتماد میں لے لیا جو بدوّ تھا اور ہامون کی جادوگری کو مانتا تھا۔ یہ شخص سیلی نوش اسے دھوکہ دے سکتا تھا اور یہ خطرہ بھی کہ نوشی پر اس کی بھی نیت خراب ہوسکتی تھی۔ مختصر یہ کہ نوشی کا لاپتہ ہو جانا صاف نظر آ رہا تھا۔
نوشی وہاں سے اٹھی اور اپنے خیمے کی طرف چل دی نوشی اور اس کے منگیتر کا خیمہ سیلی نوش کے خیمے کے قریب ہی تھا۔ لیکن نوشی ذرا چکر کاٹ کر اپنے خیمے کی طرف جا رہی تھی سیلی نوش سیدھا اپنے خیمے میں آگیا۔
نوشی نے ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک اس کا منگیتر اس کے سامنے آگیا ۔
اس کی آنکھ کھلی تو نوشی کو غائب پایا اور اس کے پیچھے خیمے سے نکل گیا تھا ۔رات چاندنی تھی اس لئے اس نے نوشی کو سیلی نوش کے ساتھ دیکھ لیا تھا۔
آدھی رات کے وقت اس بدوّ کے پاس کیوں گئی تھی؟،،،، منگیتر نے حکم کے لہجے میں پوچھا۔
نوشی نے اسے صحیح بات بتا دی اور کہا کہ وہ اپنی آبرو قربان نہیں کرے گی۔
یہ بات تم دن کے وقت بھی اس کے ساتھ کر سکتی تھی۔۔۔ منگیتر نے کہا۔۔۔ تم ان بدوؤں کی ملکہ بننا چاہتی ہو اور اس کے لئے یہ بدوّ سیلی نوش تمہیں موزوں آدمی نظر آیا ہے۔
نوشی پہلے ہی پریشان اور تذبذب میں مبتلا تھی۔ منگیتر کی یہ بات سن کر اور اس کا تحکمانہ انداز دیکھ کر جل اٹھی اور اس کے دل سے اس منگیتر کی محبت نکلنے لگی۔
میں جہاں جاؤں گی وہاں شہزادی اور ملکہ ہی ہوں گی ۔۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ شاہ ہرقل کا خاندان میری پہچان ہے اس خاندان کے ساتھ تمھارا تعلق بہت دور کا ہے ۔میں چاہوں تو تمہیں دھتکار بھی سکتی ہوں لیکن یہ چاہتی ہوں کہ تم اپنا رویہ درست کرلو اور مجھ پر گھٹیا الزام نہ لگاؤ۔
دونوں کی جزباتی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ انہوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ ایک دوسرے کی غلط فہمیاں دور کرکے صلح جوئی کی بات کریں۔ نوشی کے الفاظ سن کر اور اس کا انداز دیکھ کر منگیتر آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے اس قسم کی دھمکی دیدی کے وہ سیلی نوش کو قتل کر دے گا ۔ وہ کہتا تھا کہ یہ بدوّ ان کی رعایا ہیں ۔
نوشی خودسر اور باغی فطرت کی شہزادی تھی ،اس نے منگیتر کی دھمکی کو چیلنج سمجھ لیا اور کہا کہ وہ سیلی نوش کو قتل نہیں کرے گا البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ سیلی نوش کے ہاتھوں قتل ہو جائے۔
نوشی نے منگیتر کو اس سے آگے بولنے کا موقع ہی نہ دیا اور وہاں سے تیز قدم چل پڑی۔ اپنے خیمے تک پہنچی تو سیلی نوش باہر کھڑا تھا اس نے نوشی سے پوچھا کہ وہ اتنی دیر بعد کیوں آئی ہے؟
نوشی نے اسے بتا دیا کہ وہ کیوں دیر سے آئی ہے اور منگیتر کے ساتھ اس کی جو باتیں ہوئی تھی سنادی۔
تم دو بڑے وزنی پتھروں کے درمیان آگئی ہو نوشی!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھنا کل رات ہامون کے خیمے میں چلی جانا باقی کام میرا ہے۔
نوشی ابھی سیلی نوش کے ساتھ باتیں کر رہی تھی کہ اس کا منگیتر آگیا اور نوشی کو حکم دیا کہ وہ اپنے خیمے میں آئے وہ شاید بھول گیا تھا کہ نوشی کس قدر سرکش اور خود سر لڑکی ہے۔
میں تمہارے حکم کی پابند نہیں ۔۔۔نوشی نے کہا ۔۔۔اپنی ذات کے متعلق فیصلے خود کرنے کی عقل اور ہمت رکھتی ہوں میں اس خیمے میں نہیں جاؤں گی میں سیلی نوش کے خیمے میں جا رہی ہوں۔
نہیں نوشی!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ میں یہ صورتحال قبول نہیں کروں گا پھر سیلی نوش نے نوشی کے منگیتر سے کہا ۔۔۔غلط فہمی میں نہ پڑو شہزادے یہ دیکھو تم کہاں ہو اور یہاں کیوں آئے ہو اپنے مقصد کو سامنے رکھو یہ وقت ذاتی اور جذباتی باتوں کا نہیں۔
تو خاموش رہ بدوّ۔۔۔۔ منگیتر نے شاہی رعب سے کہا ۔۔۔اسے اپنے پاس رکھ لے پھر اس کا نتیجہ دیکھ لینا۔
آ جاؤ نوشی!،،،،،،، سیلی نوش نے نوشی کو بازو سے پکڑا اور اپنی طرف کرتے ہوئے کہا۔۔۔ اس لڑکے کا دماغ چل گیا ہے تم ہوش میں ہو میرے خیمے میں آجاؤ ورنہ تم دونوں باقی رات لڑتے جھگڑتے گزار دو گے۔
نوشی سیلی نوش کے ساتھ اس کے خیمے میں چلی گئی۔ اس کا منگیتر جلتا بھڑکتا اپنے خیمے میں گیا اور بستر پر جا بیٹھا، وہ سیلی نوش کو اپنا دشمن سمجھنے لگا تھا۔
میں اب اس شخص کو اپنا منگیتر نہیں سمجھوں گی ۔۔۔۔خیمے میں نوشی سیلی نوش سے کہہ رہی تھی ۔۔۔میں سلطنت روم کی عظمت کو بحال کرنا چاہتی ہوں اور مسلمانوں کو شکست دے کر ان کا نام و نشان مٹا دینا میری زندگی کا مقصد ہے۔ لیکن یہ جسے میں منگیتر بنا بیٹھی تھی صرف میرے حسن نوجوانی اور اس جسم کے ساتھ دلچسپی رکھتا ہے۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں کہ میں کتنی خوبصورت اور دلکش ہوں ،اپنے اس جسم کے ساتھ مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔
اگلا روز اس طرح گزرا کے کچھ وقت ہامون کے خیمے میں گئے اور اس کا وہی پاگل پن تھرکنا، تڑپنا، اور ناگ کے ساتھ باتیں کرنا دیکھا ۔ سیلی نوش نے نوشی اور اس کے منگیتر میں صلح صفائی کرنے کی بہت کوشش کی لیکن منگیتر پہلے سے زیادہ بھڑکا اور بھپرا ہوا تھا۔ نوشی نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ رات ہامون کے خیمے میں جائے گی یہ سن کر اس کا منگیتر کچھ ٹھنڈا ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات گہری ہوئی تو نوشی ہامون کے خیمے کی طرف چل پڑی، ہامون نے سب کو بتایا تھا کہ صرف نوشی اس کے پاس آئے گی اور باقی سب لوگ اپنے اپنے خیموں میں رہیں گے۔
نوشی ہامون کے خیمے میں پہنچی تو اس نے نوشی کو اپنے سامنے بٹھا لیا سامنے بھی ایسا بٹھایا کہ دونوں کے گھٹنے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ ہامون نے نوشی کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اپنے چہرے کے قریب کیا نوشی نے اس سے آزاد ہونے کی کوشش تو نہ کی لیکن نفرت کی ایک لہر اس کے سارے جسم میں دوڑ گئی۔
صاف پتا چلتا تھا کہ ہامون بری طرح نشے میں ہے، اس نے کھڑے ہو کر وہ ڈنڈا جو اس نے اپنے پاس رکھا ہوا تھا اٹھایا اور ناچنے کھودنے لگا پھر اس نے نوشی کو کھڑا ہونے کو کہا نوشی اٹھ کھڑی ہوئی۔
تمام کپڑے اتار دو۔۔۔ ہامون نے نوشی سے کہا۔۔۔ اس طرح برہنہ ہو جاؤ جس طرح تم پیدا ہوئی تھیں یہ جسم کچھ بھی نہیں مجھے تمہاری روح چاہیے اپنی روح مجھے دے دو۔۔۔۔ اتار دو یہ کپڑے۔
نہیں!،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ اگر تمہیں صرف روح چاہیے تو یہ جسم کو ننگا کیے بغیر لے سکتے ہو میں کپڑے نہیں اتارونگی۔
ہامون نے نوشی پر اپنا طلسم طاری کرنے کے لئے ایک اوٹ پٹانگ سی حرکتیں کی اور کچھ شعبدہ بھی آزمایا لیکن نوشی نے کپڑے اتارنے سے صاف انکار کردیا۔
ہامون نے پہلے کی طرح ڈنڈا ہاتھ میں لے کر ناچنا کودنا اور عجیب عجیب حرکتیں کرنا شروع کردیا ۔نوشی کھڑی دیکھتی رہی۔ ناچتے کودتے ہوئے ہامون نوشی کے قریب گیا اور گریبان سے اس کی قمیض پر ہاتھ رکھا اور اتنی زور کا جھٹکا دیا کہ قمیض گریبان سے دامن تک پھٹ گئی ،نوشی نے مزاحمت کی اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کی لیکن ہامون آخر مرد تھا اس نے نوشی کے کپڑے نوچنے شروع کردیئے جیسے کوئی درندہ اپنے شکار کو چیر پھاڑ کر رہا ہوں۔
نوشی ابھی نیم برہنہ ہی ہوئی تھی کہ ہامون کے پاؤں زمین سے اوپر اٹھے اور دوسرے لمحے وہ فرش پر پیٹ کے بل گرا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے سر پر سیلی نوش کھڑا تھا۔
سیلی نوش نے بڑی تیزی سے خیمے میں داخل ہوکر ہامون کو دبوچا اوپر اٹھایا اور زمین پر بڑی زور سے پٹخ دیا۔
سیلی نوش نے ہامون کو اتنی زور سے پٹخا تھا کہ وہ فوراً اٹھ نہ سکا۔ سیلی نوش نے اپنا پاؤں ہامون کے پیٹ پر رکھ کر دبایا اور بجلی کی سرعت سے نیام سے تلوار نکالی اور اس کی نوک ہامون کی شہ رگ پر رکھ کر ذرا سا دباؤ ڈالا ۔ ہامون نے پہلے تو سیلی نوش کو ڈرایا کہ وہ اپنے جنونی بھوتوں کو بلا کر اس کی بوٹی بوٹی باہر پھینک دے گا۔ لیکن سیلی نوش پر کچھ اثر نہ ہوا۔
وہی آکر تمہیں مجھ سے چھڑائیں گے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔اور اپنا پاؤں ہامون کے پیٹ پر اور زیادہ دبایا اور تلوار کی نوک اس کے شہ رگ میں چبھو دی ہامون تڑپ رہا تھا۔
اب دیکھ کون کسے قتل کرتا ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ تیرے زندہ رہنے کی ایک ہی صورت ہے اپنی اصلیت بتا دے اور اپنی زبان سے کہہ دے کہ یہ سب شعبدہ بازی اور فریب کاری ہے۔
ہامون نے پھر بھی سیلی نوش کو ڈرانے کے لئے کچھ باتیں کیں جو بڑی خوفناک دھمکیاں تھیں لیکن سیلی نوش اس کا کوئی اثر قبول کر ہی نہیں رہا تھا۔
اپنی غیبی طاقت استعمال کر۔۔۔ سیلی نوش نے کہا ۔۔۔تیرے ہاتھ میں کوئی طاقت ہوتی تو تو اب تک مجھ پر جوابی وار کر چکا ہوتا تو اس لڑکی کی عزت کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔۔۔ فوراً بول۔
سیلی نوش نے تلوار کی نوک اتنی سی اور دبادی کے ہامون کی شہ رگ سے ذرا سا خون پھوٹ آیا۔
تلوار ہٹالے۔۔۔ ہامون نے کہا ۔۔۔ایک وعدہ کرکے کسی اور کو نہیں بتائے گا اس لڑکی سے بھی کہہ دے کہ زبان بند رکھے۔
سیلی نوش نے تلوار کی نوک اس کے شہ رگ سے اٹھا لی لیکن وہاں سے تلوار ہٹائی نہیں اپنا ایک پاؤں اس کے پیٹ پر ہی رکھا ذرا سا دباؤ کم کردیا پھر سیلی نوش نے اسے یقین دلایا کہ اس کا راز کسی کو معلوم نہیں ہوگا۔ اور یہ لڑکی تو یہاں سے چلی ہی جائے گی یہ بھی سوچ لے کے یہ شاہی خاندان کی لڑکی ہے اگر تو نے جھوٹ بولا تو یہ تجھے بہت ہی بری موت مروائے گی لیکن اس سے پہلے میری تلوار تیرے شہ رگ کاٹ چکی ہو گی۔
تو ٹھیک سمجھا ہے۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔ میں صرف جادو کے کرتب دکھا سکتا ہوں اور یہ صرف شعبدہ بازی ہے میں جو اچھل کود اور دوسری حرکتیں کرتا ہوں ان کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ لوگ مجھ سے متاثر بھی ہوں اور خوف زدہ بھی، مجھے کیا ملتا ہے قبیلوں کے سردار بھی یہاں آکر میرے قدموں بیٹھتے ہیں مجھے عیش و عشرت کا سامان مہیا کرتے ہیں، جب بھی میں ایک لڑکی کی فرمائش کرتا ہوں تو کوئی نہ کوئی سردار چن کر ایک خوبصورت لڑکی میرے پاس بھیج دیتا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تو ناگ سے سوال پوچھتا تھا۔۔۔ سیلی نوش نے پوچھا۔۔۔ کیا ناگ جواب دیتا تھا یا وہ باریک اور کانپتی ہوئی آواز کس کی تھی؟
وہ میری ہی بدلی ہوئی آواز تھی۔۔۔ ہامون نے جواب دیا۔۔۔۔ یہ کوئی دیکھتا ہی نہیں کہ اس وقت میری پیٹھ خیمے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف ہوتی ہے اور منہ ناگ کی طرف کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ باریک اور کانپتی ہوئ آواز میری ہوتی ہے۔
اور وہ جو دیے بجھ کر اپنے آپ ہی جل اٹھے تھے؟
یہ میری شعبدہ بازی ہے۔۔۔ ہامون نے جواب دیا۔۔۔ میں ایسے کئی اور کرتب دکھا سکتا ہوں۔ میں خوبصورت لڑکیوں کا شکاری ہوں یہ لڑکی ایسی ہے کہ میں سب کچھ بھول گیا اور اس لڑکی کو حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا ،تم نہ آجاتے تو میرا ارادہ پورا ہوجاتا۔
تو غلط سمجھا ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ اس لڑکی نے مجھے کل بتا دیا تھا کہ تو کیا چاہتا ہے یہ لڑکی اپنی آبرو دینے پر کسی قیمت پر رضامند نہیں تھی اور اس نے مجھے کہا کہ میں اسے تجھ سے بچا لوں، اسے آج میں نے بھیجا اور خیمے کے پاس کھڑا رہا اور پردے سے اندر دیکھتا رہا اور عین موقع پر تجھے پکڑ لیا۔
میں حیران ہوں تم نے ایسا کیوں کیا۔۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔۔ اس کی عزت کا خیال تو اس کے منگیتر کو ہونا چاہیے تھا لیکن اس نے تم سے الگ ہو کر اور میرے پاس آکر کہا تھا کہ اس لڑکی کو ایک چھوڑو دو راتیں اپنے پاس رکھو اپنا یہ وعدہ پورا کرو کہ تم اسے ملکہ اور مجھے بادشاہ بنا دو گے ،اور شہنشاہ ہرقل ہمیں مصر کا کچھ حصہ دے دے گا جہاں ہماری بادشاہی ہو گی۔
سیلی نوش نے لڑکی کی طرف اور لڑکی نے سیلی نوش کی طرف دیکھا۔
میں تجھے جینے کا حق نہیں دے سکتا۔۔۔ سیلی نوش نے کہا ۔۔۔تو سیدھے اور بے سمجھ لوگوں کے ساتھ فریب کاری کر رہا ہے اور ان کی بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھیل رہا ہے۔
یہ کہہ کر سیلی نوش نے تلوار کی نوک ہامون کی شہ رگ پر رکھ کر اتنا دباؤ ڈالا کہ تلوار ہامون کی گردن میں سے گزر کر زمین میں چلی گئی، سیلی نوش نے تلوار نکالی اور ایک بار پھر شہ رگ میں اتار کر تلوار اپنی طرف کھینچی اور گردن میں لمبا کاٹ دے دیا، اپنا پاؤں ہامون کے پیٹ سے ہٹایا اور پیچھے ہٹا، ہامون ذبح کئے ہوئے بکرے کی طرح تڑپنے لگا اور اس کی گردن سے خون کا فوارہ پھوٹ آیا۔
چلو نوشی! ۔۔۔۔سیلی نوش نے تلوار نیام میں ڈال کر کہا۔۔۔ اسے تڑپ تڑپ کر مرنے دو۔
سیلی نوش اور نوشی خیمے سے نکل آئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میں منگیتر کے پاس نہیں جانا چاہتی۔ باہر آکر نوشی نے کہا۔۔۔ تم بتاؤ میں کیا کروں یہ تو تم جانتے ہو میں اس طرف کیوں آئی تھی یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہو گیا، تم تو میرے ساتھ رہ نہیں سکتے ملازم میری کوئی مدد نہیں کرسکتا، منگیتر کو میں نے دیکھ لیا ہے کہ اسے میرے عزم اور میرے جذبے کا کوئی احساس نہیں ،اسے میرے حسن اور جسم کے ساتھ دلچسپی ہے یہ مجھے گمراہ اور خراب کرسکتا ہے میرا ساتھ نہیں دے سکتا۔
میری بات مانو! ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ جو عزم لے کر آئی تھی اس میں تم کامیاب نہیں ہو سکو گی وہ بدوّ جو مسلمان کے ساتھ جاملے ہیں وہ کچھ اور قسم کے لوگ ہیں ،یہ ان سے مختلف ہیں ان سے دور ہی رہو تو اچھا ہے تم واپس چلی جاؤ۔
کیا تم میرے ساتھ چل سکتے ہو؟ ۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ میں اتنا ڈر گئی ہوں کہ اکیلے جاتے خوف آتا ہے تم چلو میں تمہیں اتنا انعام دلاؤں گی کہ حیران رہ جاؤ گے۔
میں نے تمہیں اس شیطان سے کسی لالچ میں آکر نہیں بچایا ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ یہ میرا ذاتی اخلاق ہے اور اسے میں اپنا فرض سمجھتا تھا ،تمہیں تمہارے باپ تک پہنچانے جاؤں گا تو بھی اپنا فرض سمجھ کر جاؤں گا۔
تو پھر ابھی چلے چلتے ہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ میرے منگیتر کو بھی پتہ نہ چلے اور میرے ملازم کو بھی، میں ذرا ادھر جا کر رک جاتی ہوں تم اپنا اور میرا گھوڑا لے آؤ۔۔۔ سیلی نوش واپس ہامون کے خیمے میں گیا ہامون بے حس و حرکت پڑا تھا اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ان آنکھوں سے زندگی کی چمک ختم ہو چکی تھی، سیلی نوش نے اسے حقارت سے دیکھا اور خیمے سے نکل آیا ۔
اس نے نوشی سے کہا کہ وہ کچھ دور جاکر اس کا انتظار کرے اور خود اپنے خیمے میں چلا گیا۔
سیلی نوش اور بدوّ ملازم ایک ہی خیمے میں ٹھہرے ہوئے تھے گھوڑے خیموں سے کچھ دور بندھے رہتے تھے، اور ان کی زینیں خیموں میں رکھی ہوئی تھیں۔ سیلی نوش نے اپنے خیمے میں جا کر ملازم کو دیکھا وہ گہری نیند سویا ہوا تھا ۔سیلی نوش نے اپنی اور ملازم کی زین اٹھائی دو زینوں کا وزن زیادہ تھا ، لیکن سیلی نوش نے یہ وزن اٹھا لیا اور دبے پاؤں خیمے سے نکل گیا گھوڑوں تک پہنچا اپنے اور ایک اور گھوڑے پر زین کسی اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور دوسرے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور اس جگہ جا پہنچا جہاں نوشی اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔
نوشی گھوڑے پرسوار ہوئی اور دونوں چل پڑے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کوئی بات کرو سیلی نوش!،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ چپ نہ رہو تمہاری خاموشی مجھے ڈرا رہی ہے۔
میں تو تمہیں بہت ہی دلیر اور نڈر لڑکی سمجھا تھا نوشی!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ تمہیں جس کا ڈر تھا اسے تمہارے سامنے قتل کر آیا ہوں اس سے تم بچ کر نکل آئی ہو، اپنے منگیتر کا تمہیں ڈر نہیں ہونا چاہیے وہ تمہارا منگیتر ہے دشمن نہیں ،جتنی دیر میں اسے پتا چلے گا کہ تم لاپتہ ہو ہم بہت دور پہنچ چکے ہوں گے، اسے یہ تو معلوم ہی نہیں ہوسکے گا کہ ہم کس طرف نکل گئے ہیں ،ہوسکتا ہے اسے یہ شک ہو کہ میں تمھیں زبردستی یا ورغلا کر اپنے ساتھ لے گیا ہوں، اگر ایسا ہوا تو وہ بدوؤں کے خیموں اور جھونپڑوں میں ہمیں ڈھونڈتا پھرے گا۔
پہلے تو وہ ہامون جادوگر کے خیمے میں جائے گا ۔۔۔نوشی نے کہا ۔۔۔خون میں ڈوبی ہوئی اس کی لاش دیکھے گا تو اسے شک نہیں یقین ہوجائے گا کہ تم ہامون کو قتل کرکے مجھے اپنے ساتھ لے گئے ہو۔
وہ ہمارے پیچھے نہیں آئے گا ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ ویسے بھی اس سے نہ ڈرو، باقی رہا میں مجھ سے تمہارا ڈرنا بجا ہے ،میرے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے تمہارے دل سے اپنا ڈر نکال سکوں۔
یہ ڈر اس وقت تمہارے دل سے نکلے گا جب میں تمہیں تمہارے ماں باپ تک پہنچادوں گا۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا سیلی نوش !،،،،نوشی نے کہا۔۔۔ اب پھر کہتی ہوں کہ مجھے میرے ماں باپ کے پاس پہنچا دو گے تو بے بہا انعام دلاؤں گی ، ایک کام اور کرنا میرے ماں باپ کو یہ سارا واقعہ سنانا میں نے سنایا تو شاید یقین نہ کریں، اس منگیتر کے متعلق بھی بتانا کہ یہ کس نیت کا آدمی ہے اور اس نے اپنی نیت کا اظہار کس طرح کیا تھا۔
یہ تو بتاؤں گا ہی نوشی !،،،،،، سیلی نوش نے کہا ۔۔۔۔لیکن بار بار انعام کا نام نہ لو مجھے کوئی انعام نہیں چاہیے میں نے اپنا انعام وصول کر لیا ہے اور،،،،،،
کیا کہا ؟،،،،،،نوشی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔کیا تمہارا یہ مطلب تو نہیں کہ تم نے مجھے انعام کے طور پر وصول کر لیا ہے؟،،،، کیا تم مجھے میرے باپ کے پاس نہیں لے جا رہے؟
بیوقوف لڑکی!،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ میری پوری بات تو سن لو میں بدّو نہیں ہوں نوشی،،،،، اور میں عیسائی بھی نہیں۔
پھر کیا ہو؟
مسلمان!،،،،،، سیلی نوش نے جواب دیا ۔۔۔۔ میں مصری نہیں عربی ہوں اور میرا نام سیلی نوش نہیں عباس بن طلحہ ہے۔ تمہارے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی ہے میں جب تمہیں تمہارے ٹھکانے پر پہنچا دوں گا تو بتانا کے مسلمان کیسے ہوتے ہیں، اور ان کا کردار کیا ہے، یہ نہ سمجھنا کہ میں ہی ایک اچھا مسلمان ہوں میری جگہ کوئی اور مسلمان ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا جو میں نے کیا ہے، یہ میرے مذہب کا حکم ہے، جسے ہم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سمجھتے ہیں۔
نوشی کی حیرت زدگی کا یہ عالم کہ اس نے گھوڑا روک لیا اور عباس بن طلحہ کو یوں دیکھنے لگی جیسے وہ کسی اور ہی جہان کی مخلوق ہو۔
عباس کچھ آگے نکل گیا تھا اس نے دیکھا کہ نوشی اس کے ساتھ نہیں تو اس نے گھوم کر دیکھا نوشی گھوڑا روک کر اسے دیکھ رہی تھی ۔ اس کے چہرے پر حیرت زدگی اور تذبذب کا تاثر تھا۔
اب اس کو غالباً یہ توقع تھی کہ نوشی فوراً یقین کرلے گی کے وہ مسلمان ہے، اور مسلمانوں کے متعلق اس کی رائے بدل جائے گی، اور بے اختیار کہہ اٹھے گی کہ مسلمان تو بہت ہی اچھے ہوتے ہیں۔
رک کیوں گئی نوشی؟،،،،،، عباس نے گھوڑا اس کی طرف موڑ کر کہا۔۔۔ اس میں حیران ہونے کی تو کوئی بات ہی نہیں کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمان بہت ہی اچھے لوگ ہوا کرتے ہیں
نوشی کا ردعمل کچھ اور ہی تھا اس نے اپنے گھوڑے کی لگام اس طرح کھینچ رکھی تھی کہ گوڑا آہستہ آہستہ الٹے قدم چل رہا تھا اور نوشی اس طرح دائیں بائیں دیکھ رہی تھی جیسے بھاگ جانا چاہتی ہو۔ عباس اس سے ابھی کچھ دور ہی تھا کہ نوشی نے گھوڑا ایک طرف موڑ لیا۔
اب تو کوئی شک ہی نہیں رہ گیا تھا کہ نوشی بھاگ نکلنے کا ارادہ کر چکی ہے ۔
اب اس نے اپنے گھوڑے کو چھیڑا اور تیزی سے گھوڑا نوشی کے گھوڑے کے آگے کر دیا۔ نوشی کا چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا اس نے باگ کو زور سے ایک طرف جھٹکا دے کر گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگائی۔
میرے راستے سے ہٹ جا عرب کے بدوّ!،،،،،، نوشی نے دانت پیس کر کہا ۔۔۔میں تیرے ساتھ نہیں جاؤں گی۔
ہوش میں آؤ نوشی!،،،،،، عباس نے کہا۔۔۔ ہاں کیا سمجھ بیٹھی ہو تم؟
دور رہ فریب کار!،،،،،، نوشی نے تلوار نیام سے نکال لی اور للکار کر بولی تیرا خیال ہوگا کہ یہ شاہی خاندان کی شہزادی ہے اور شوقیہ تلوار اٹھائے پھرتی ہے، تلوار نکالو پہلے مجھے قتل کرو پھر میری لاش کے ساتھ کھیلتے رہنا لیکن مجھے آسانی سے قتل نہیں کر سکو گے۔
میں تمہیں دھوکا نہیں دے رہا نوشی!،،،
میں تیرے دھوکے میں آؤں گی ہی نہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔۔ میں مان ہی نہیں سکتی کہ مسلمان اعتماد کے قابل ہوتے ہیں؟،،،، تو مسلمان بھی نہیں عیسائی بھی نہیں تو اگر عربی ہی ہے تو صحرائی قزاق ہوگا ، تلوار نکال تجھے افسوس نہ رہے کہ میں نے تجھے مقابلے کا موقع نہیں دیا تھا۔
تمہارے ساتھ مجھے کوئی دلچسپی نہیں نوشی!،،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر اپنی راہ الگ کر سکتا ہوں ،میں اپنے ایک فرض کو نظرانداز کر رہا ہوں لیکن میں ایک مسلمان ہوکر ایک نوجوان لڑکی کو اس بیابان میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، ہو سکتا ہے کوئی قزاق آ نکلے وہ تمہیں میری طرح نیک نیتی اور احترام سے اپنے ساتھ نہیں لے جائے گا۔
نوشی اتنی بپھری ہوئی تھی کہ اب اس کا اثر قبول کر ہی نہیں رہی تھی، اور اسے تلوار لہرا لہرا کر للکار رہی تھی۔
عباس نے آخر تلوار نکالی اور اس کے گھوڑے کے قدموں میں پھینک دی۔
پھر کمر بند سے خنجر نکالا اور وہ بھی پھینک دیا، پھر کچھ ایسی باتیں کی کہ نوشی کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا۔
میرے دو سوالوں کا جواب دو۔۔ نوشی نے پوچھا۔۔۔ تم یہاں کیا کرنے آئے تھے؟
اور دوسرا سوال یہ ہے کہ تم نے کونسا انعام وصول کر لیا ہے؟
میں جاسوس ہوں ۔۔۔عباس نے جواب دیا ۔۔۔میں بہت آگے جاسوسی کے لئے گیا تھا اب واپس اپنے لشکر میں جا رہا تھا، انعام یہ وصول کیا ہے کہ تم سے اور تمہارے منگیتر سے مجھے بڑی قیمتی معلومات ملی ہے ،یہ تو میں پہلے ہی جانتا تھا کہ تمہاری فوج کیوں پیچھے ہٹتی جارہی ہے، اب تم نے اس کی تصدیق کردی ہے ،جو مجھے معلوم ہوا تھا اور تم سے اور تمہارے منگیتر سے دو تین نئی باتیں معلوم ہو گئی ہیں۔ اسے میں اپنے لئے اور اپنے لشکر کے لئے بہت بڑا انعام سمجھتا ہوں ۔ ایک مسلمان کے لئے یہ بھی بہت بڑا انعام ہے کہ اس ہامون جادوگر کو قتل کردیا ہے۔ اسلام اس توہم پرستی اور پیشنگوئیوں کو نہیں مانتا ۔آنے والے وقت کے راز صرف اللہ جانتا ہے۔ اور وہی ہے جو بگڑے کام سنوارتا ہے ۔ہامون نے سیدھے سادے اور پسماندہ لوگوں کو محض فریب کاری سے اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا ۔ تمہارے ساتھ مجھے اس کے سوا کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ ایک شیطان تمہیں دھوکہ دے کر بے آبرو کرنا چاہتا تھا، اور مسلمان کی حیثیت سے یہ میرا فرض تھا کہ تمھیں اس سے بچاؤں۔
تم مجھے میرے باپ تک پہنچانے چلے ہو ۔۔۔۔نوشی نے کہا ۔۔۔کیا تم میرے باپ کو یہ بتانا چاہو گے کہ تم اصل میں کون ہو، اور کیا ہو؟،،،،،،، میرا خیال ہے تم ایسا نہیں کرو گے، میں وعدہ کرتی ہوں کہ تمہاری اصلیت اپنے باپ سے چھپائے رکھوں گی، کیا یہ انعام نہیں ہوگا؟،،، میرا باپ تمہیں گرفتار کر لے گا قتل بھی کروا سکتا ہے میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔
میں تمہارے باپ تک پہنچوں گا ہی نہیں نوشی!،،،، عباس نے کہا ۔۔۔مجھے کوئی لالچ اور کوئی ترغیب نہ دو نہ مجھے ڈرانے کی کوشش کرو ،تمہیں بلبیس شہر کے باہر چھوڑ کر گھوڑے کو ایڑ لگا دوں گا اور جب تک تم اپنے باپ تک پہنچو گی میں بڑی دور نکل گیا ہوں گا،،،، میں تمہیں پھر کہتا ہوں ہوش میں آؤ تمہارے وہم نے ہمارے درمیان ایسی صورت پیدا کر دی ہے جیسے تم مجھ سے آزاد ہونا چاہتی ہو،اور میں تمہیں ورغلا کر اغوا کرنا چاہتا ہوں ،تو یہ میرا راستہ ہے اور وہ تمہارا راستہ ہے۔
روم کے شاہی خاندان کی اس لڑکی پر اب ایسی خاموشی طاری ہو گئی جیسے وہ کچھ سوچ رہی ہو، یا وہم سے نجات حاصل کرنے کی کوشش میں ہو۔
گھوڑے سے اترو!،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میری تلوار اور خنجر اٹھاؤ اور اپنے پاس رکھو اور میرے ساتھ چل پڑو۔
نوشی عباس کے چہرے پر نظریں جمائے کچھ دیر دیکھتی رہی پھر گھوڑے سے اتری عباس کی تلوار اور اس کا خنجر اٹھایا اور یہ دونوں ہتھیار کسی کو پیش کرنے کے انداز سے ہاتھوں پر رکھے اب اس کے پاس گئی اور دونوں ہتھیار اس کی طرف کر دیے ۔عباس نے اسے کہا کہ وہ تلوار اور خنجر اپنے پاس رکھے لیکن نوشی نے کچھ کہنے کے بجائے سر ہلایا کہ وہ اپنے پاس نہیں رکھے گی۔ عباس نے ہتھیار لے لیے اور نوشی اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئی اس نے عباس کو سر سے اشارہ کیا کہ چلو دونوں گھوڑے پہلو بہ پہلو بلبیس کی طرف چل پڑے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تمہارے شاہی خاندان میں شارینا نام کی ایک لڑکی ہوا کرتی تھی۔۔۔ عباس نے پوچھا۔۔۔ تم اسے جانتی ہوگی؟
جانتی ہوں !،،،،،،نوشی نے کہا۔۔۔ وہ ہرقل کی بیٹی تھی وہ تو کچھ عرصہ ہوا ایسی غائب ہوئی کہ اس کا کچھ بھی پتہ نہ چلا تم اسے کس طرح جانتے ہو؟
اس طرح کہ وہ ہمارے پاس ہے۔۔۔ عباس نے جواب دیا ۔۔۔ہم میں سے کسی نے اسے اغوا نہیں کیا تھا وہ اپنی مرضی سے اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر میرے ایک دوست کے ساتھ آ گئی تھی، اور اب اس کی بیوی ہے میرا یہ دوست میری طرح جاسوس ہے، وہ جاسوسی کے لیے گیا تھا شارینا سے ملاقات ہوئی اور دلی محبت نے دونوں کو ایک کر دیا۔
میں اس وقت لڑکپن کی عمر میں تھی ۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ اس کے ساتھ تو میری گہری دوستی تھی بڑی اچھی لڑکی تھی کیا وہ تمہارے یہاں خوش رہتی ہے؟
میں تمہیں بتاؤں گا تو تم مانو گی نہیں۔۔۔ عباس نے جواب دیا ۔۔۔۔ خود جاکر دیکھو تو یہ تمہیں یقین آئے گا کہ وہ کتنی خوش ہے وہ واقعی بہت اچھی خاتون ہیں، میں اتنا ہی کہوں گا کہ وہ تو بھول ہی گئی ہے کہ روم کے بادشاہ کی بیٹی ہے ، ہمارے ہاں فضاء ہی کچھ ایسی ہے، اور ماحول ایسا جس میں کوئی دھوکہ اور فریب نہیں محبت اور خلوص ہے۔
کچھ دیر تک شارینا کی باتیں ہوتی رہیں ،اور نوشی بڑی دلچسپی سے پوچھتی رہی کہ مسلمانوں کے ہاں عورت کے لئے معاشرتی اور دیگر حالات کیسے ہیں؟ عباس اسے بتاتا گیا۔
معلوم نہیں دل میں یہ بات کیوں آتی ہے۔۔۔ نوشی نے کچھ دیر خاموش رہے کر کہا ۔۔۔کچھ ایسی خواہش ابھر رہی ہے کہ تمہارے ساتھ ہی چلی چلوں ،کچھ ایسا لگتا ہے جیسے تم سے جدا ہو کر مجھے دلی افسوس ہوگا ،اس بدبخت منگیتر نے میرا دل مسل ڈالا ہے ،اور میں کچھ اور ہی سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں، یہ بات بھی دل میں کھٹکنے لگی ہے کہ میرے شاہی خاندان میں عزت و غیرت اور حمیت ختم ہوتی جارہی ہے شاہی خاندان میں بدکاری ایک جائز رواج کی طرح چلتی ہے۔ 
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟙  𝟞⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دمشق میں جب سلطان صلاح الدین ایوبی داخل ہوا تھا تو اس کے ساتھ سات سو سوار تھے تمام مورخین نے یہی تعداد لکھی ہے لیکن تاریخ سلطان ایوبی کے ان جانباوزں سے بے خبر ہے جن میں سے کوئی تاجروں کے بہروپ میں کوئی بے ضرر مسلمانوں کے بھیس میں اور کوئی شامی فوج کے معمولی معمولی سپاہیوں کے لباس میں ایک ایک بھی دو دو اور چار چار کی ٹولیوں میں بھی دمشق میں داخل ہوئے تھے ان میں زیادہ تر سلطان ایوبی کے خاموش حملے سے پہلے ہی یہاں آگئے تھے اور کچھ اس وقت داخل ہوئے تھے جب دمشق کے دروازے سلطان ایوبی کے لیے کھل گئے تھے یہ جاسوسوں کا دستہ تھا جنہیں جانباز جاسوس کہا جاتا تھا کیونکہ ہر قسم کی لڑائی ہر ہتھیار کے استعمال ہر طرح کی تباہ کاری کے ماہر تھے اور دماغی لحاظ سے مستعد اور ذہین ان کی سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ وہ جان کی پرواہ نہیں کرتے تھے ایسے ایسے خطرے مول لیتے تھے جن کے تصور سے ہی عام سپاہی بدک جاتے تھے ایسا جذبہ صرف ٹریننگ سے پیدا نہیں ہوتا اس کام کے لیے ایسے جوان منتخب کیے جاتے تھے جن کے دلوں میں اپنے مذہب کی محبت اور دشمن کی نفرت بھری ہوتی تھی یہ جانباز جنونی قسم کے مسلمان ہوتے تھے سلطان ایوبی نے ایسے جانبازوں کے کئی دستے تیار کر رکھے تھے
سلطان ایوبی جب سات سو سواروں کے ساتھ دمشق کو روانہ ہوا تھا تو اس نے منتخب لڑاکا جاسوسوں کا ایک دستہ خصوصی ہدایات کے ساتھ دمشق کو روانہ کردیا تھا ان میں ایک ہدایت یہ تھی کہ اگر دمشق کی فوج مقابلے پر اتر آئے تو یہ جاسوس شہر کے اندر اپنی سمجھ اور ضرورت کے مطابق تخریب کاری کریں اور وہ دروازے کھولنے کی بھی کوشش کریں ان میں ایسے بھی تھے جنہیں شہریوں میں دہشت بھگدڑ افراتفری اور افواہیں پھیلانے کی ٹریننگ دی گئی تھی ان تمام جانبازوں کی تعداد دو اور تین سو کے درمیان تھی اس وقت کے وقائع نگاروں نے صحیح تعداد نہیں لکھی صرف یہ لکھا ہے کہ سلطان ایوبی کی آمد کے وقت دمشق میں دو تین سو جاسوس اور تباہ کار موجود تھے ایک فرانسیسی وقائع نگار نے صلیبی جنگوں کے حالات اور واقعات قلم بند کرتے ہوئے سلطان ایوبی کے لڑاکا جاسوسوں کے متعلق بہت کچھ لکھا ہے اس نے ان جانبازوں کے اسلامی جذبے کو مذہبی جنون بھی کہا ہے کہ یہ بھی کہا کہ یہ جاسوس نفسیاتی مریض تھے اس فرانسیسی نے تو مذہبی جنون کی توہین کی ہے کہ اسے نفسیاتی مرض کہا ہے لیکن یہ نفسیاتی کیفیت ہی تھی مسلمان صاحب ایمان صرف اس صورت میں بنتا ہے جب مذہب اس کی نفسیات کا جز بن جاتا ہے ان جانبازوں کو جاسوسی اور تباہ کاری کی ٹریننگ علی بن سفیان اور اس کے دو نائبین حسن بن عبداللہ اور زاہدان نے دی تھی اور معرکہ آرائی کی ٹریننگ تجربہ کار فوجیوں کے ہاتھوں ملی تھی اب جبکہ سلطان ایوبی دمشق میں تھا اور علی بن سفیان قاہرہ میں تھا وہاں کے اندرونی حالات پوری طرح نہیں سنبھلے تھے سلطان ایوبی کی غیرحاضری دمشق پر اس کے قبضے اور خلافت کی معزولی میں مصر میں صلیبی تخریب کاری کا خطرہ بڑھ گیا تھا اس لیے علی بن سفیان کو وہیں رہنے دیا گیا تھا دمشق میں اس کا ایک نائب حسن بن عبداللہ آیا تھا وہی جاسوس جانبازوں کے دستے کا کمانڈر تھا دمشق پر سلطان ایوبی نے قبضہ کرلیا تو وہاں کی بیشتر فوج سالار توفیق جواد کی زیرکمان سلطان ایوبی سے مل گئی تھی باقی فوج اور خلیفہ کے باڈی گارڈ دستے خلیفہ اور اس کے حواری امراء کے ساتھ دمشق سے بھاگ گئے تھے توقع تھی کہ سلطان ایوبی انہیں گرفتار کرنے کے لیے فوج ان کے تعاقب میں بھیجے گا لیکن اس نے ایسی کوئی حرکت نہ کی دو تین سالاروں نے اسے کہا بھی کہ ان امراء وغیرہ کو پکڑنا ضروری ہے جو بھاگ گئے ہیں وہ کہیں اکٹھے ہوجائیں گے اور اطمینان سے سلطان ایوبی کے خلاف جنگی تیاری کریں گے اور میں یہ بھی جانتا ہوں کجہ وہ صلیبیوں سے بھی مدد مانگیں گے جو انہیں مل جائے گی سلطان ایوبی نے کہا لیکن میں اندھیرے میں کبھی نہیں چلا پہلے یہ معلوم کرنا ہے کہ وہ گئے کہاں ہیں اور ان کا مرکز کون سا بنے گا آپ لوگ پریشان نہ ہوں میری آنکھیں اور میرے کان بھاگنے والوں کے ساتھ ہی چلے گئے ہیں وہ بدبخت اتنی جلدی حملہ کرنے کے لیے تیار نہیں ہوسکتے میں صرف یہ دیکھ رہا ہوں کہ صلیبی کیا کریں گے وہ مصر پر بھی یلغار کرسکتے ہیں وہ شام پر بھی حملہ کرسکتے ہیں وہ شاید اس انتظار میں ہیں کہ میں کیا کروں گا ہوسکتا ہے کہ وہ میری چال کے بعد اپنی چال چلنا چاہتے ہوں آپ فوج کو میری بتائی ہوئی تنظیم میں لاکر ان کی تربیت اور جنگی مشقیں جاری رکھیں سلطان ایوبی نے جنہیں اپنی آنکھیں اور کان کہا تھا وہ یہی جاسوس تھے جو مصر سے یہاں آئے تھے ان میں سے کچھ ایسے بھی تھے جو انہی علاقوں کے رہنے والے تھے جب الملک الصالح اور اس کے امراء اور وزراء دمشق سے بھاگے تو ان کے ساتھ سلطان ایوبی کے بہت سے جاسوس بھی چلے گئے تھے بھاگنے والوں کی تعداد کم نہیں تھی تمام امراء اور وزراء اور کئی ایک جاگیرداروں اور حاکموں کا عملہ بھی تھا فوج کی بھی کچھ نفری تھی اور بڑوں کے خوشامدی لوگ بھی تھے یہ تتر بتر ہوکر بھاگے تھے ان کے ساتھ جاسوسوں کا چلے جانا آسان تھا یہ جاسوس اس مشن پر ساتھ گئے تھے کہ دیکھیں الصالح اور اس کے پالنے والے امراء کیا جوابی کارروائی کریں گے اور انہیں صلیبیوں کی کتنی کچھ اور کیسی مدد حاصل ہوگی یہ جاسوس جو دمشق سے باہر گئے تھے حسن بن عبداللہ کے خصوصی منتخب افراد تھے وہ اس صورتحال کے سیاسی پس منظر کو اچھی طرح سمجھتے تھے
ان میں ایک ماجد بن محمد حجازی تھا خوبرو جوان جسم نہایت موزوں اور گٹھا ہوا اور اسے خدا نے زبان کی ایسی چاشنی دی تھی جس میں طلسماتی اثر تھا تقریباً ہر جاسوس کی شکل وصورت اور اوصاف ایسے ہی تھے لیکن ماجد بن محمد ان سب سے برتر لگتا تھا ان جاسوسوں کی اتنی اچھی صحت کا راز غالباً یہ تھا کہ انہیں کسی قسم کے نشے کی عادت نہیں تھی اور وہ عیاشی کو بھی پسند نہیں کرتے تھے ان کے اخلاق میں جو پختگی تھی اس نے ان میں فولاد جیسی قوت ارادی پیدا کررکھی تھی ان کا قول وفعل مذہب کا پابند تھا ماجد حجازی اپنے ساتھیوں کی طرح اس فولادی کردار کا نمونہ تھا اور روح کی جو پاکیزگی تھی اس نے اس کے چہرے کو حسین بنا رکھا تھا وہ دمشق سے بھاگا جارہا تھا اس کے نیچے عرب کی اعلیٰ نسل کا گھوڑا تھا اس کے پاس تلوار تھی اور گھوڑے کی زین کے ساتھ چمکتی ہوئی انی والی برچھی تھی
وہ ویرانے میں اکیلا جارہا تھا اس نے حلب کی سمت جاتے ہوئے بہت سے لوگوں کو دیکھا تھا اسے کوئی ایک بھی ایسا نظر نہیں آیا تھا جس کے ساتھ وہ جائے وہ اپنے لیے کوئی ہمسفر ڈھونڈ رہا تھا جو اس کے مشن کے لیے سود مند ہوسکے ایسا ہمسفر فوج کا کوئی اعلیٰ افسر ہوسکتا تھا یا کوئی ایسا امیر جسے الملک الصالح کا قرب حاصل ہوتا اس کی سراغ رساں آنکھیں الصالح کو ڈھونڈ رہی تھیں اس نے چند ایک لوگوں سے پوچھا بھی تھا کہ وہ کس طرف گیا ہے مگر اسے الصالح کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا اسے معلوم تھا کہ الملک الصالح نورالدین زنگی مرحوم کی عمر یا اس کی خوبیوں جیسا کوئی آدمی نہیں بلکہ وہ گیارہ سال کی عمر کا بچہ ہے جسے مفادپرست امراء نے اپنے مقاصد کے لیے سلطنت کی گدی پر بٹھایا ہے اور عملاً حکمران یہ امراء خود بنے ہوئے ہیں وہ تصور میں لاسکتا تھا کہ وہ بچہ اکیلا نہیں جارہا ہوگا اس کے ساتھ امیروں وزیروں اور درباریوں کا قافلہ ہوگا اور اس قافلے کے ساتھ زروجواہرات اور مال ودولت سے لدے ہوئے اونٹ ہوں گے
ماجد حجازی نے سوچا تھا کہ یہ قافلہ اسے نظر آگیا تو وہ الملک الصالح کا مرید بن کر قافلے میں شامل ہوجائے گا یہ کامیابی حاصل ہونے کی صورت میں اسے اچھی طرح معلوم تھا کہ اسے کیا کرنا ہے اور سینوں سے راز کس طرح نکالنے ہیں مگر اسے اپنے شکار کا کوئی سراغ نہ ملا آگے چٹانی علاقہ آگیا جہاں ہریالی بھی تھی ذرا سستانے کے لیے وہ چٹانوں کے اندر چلا گیا ایک جگہ اسے دو گھوڑے نظر آئے ان سے ذرا پرے ہری بھری گھاس پر ایک آدمی لیٹا ہوا تھا اور اس کے ساتھ ایک عورت تھی وہ سوئے ہوئے معلوم ہوتے تھے وہ ذرا فاصلے پر رک گیا اور گھوڑے سے اتر کر ایک درخت کے نیچے لیٹ گیا ایک گھوڑا ہنہنایا تو وہ آدمی اٹھ بیٹھا لباس سے وہ اونچے درجے کا فرد معلوم ہوتا تھا اس نے ماجد حجازی کو دیکھا تو اسے اپنے پاس بلایا ماجد اس کے پاس چلا گیا اور اس سے ہاتھ ملایا عورت بھی اٹھ بیٹھی وہ عورت نہیں جوان لڑکی تھی اور بہت خوبصورت تھی اس کے گلے کا ہار بتا رہا تھا کہ یہ لوگ معمولی حیثیت کے نہیں اس آدمی کی عمر چالیس کے لگ بھگ تھی اور لڑکی پچیس سال سے کم لگتی تھی ماجد نے ان دونوں کو ایک نظر میں بھانپ لیا تم کون ہو؟
اس آدمی نے ماجد سے پوچھا دمشق سے آئے ہو؟
میں دمشق سے ہی آیا ہوں ماجد نے جواب دیا لیکن میں یہ نہیں بتا سکتا کہ میں کون ہوں آپ کیسے سفر میں ہیں؟
غالباً ہم ایک ہی سفر کے مسافر ہیں اس آدمی نے مسکرا کر کہا تم شریف آدمی معلوم ہوتے ہو کیا آپ یقین کرنا چاہتے ہیں کہ میں شریف ہوں یا بدمعاش؟
ماجد حجازی کے ہونٹوں پر مسکراہٹ تھی اس نے کہا جس کے ساتھ اتنی حسین لڑکی ہو اور لڑکی کے گلے میں اتنا قیمتی ہار ہو اور ساتھ مال اور دولت بھی ہو وہ ہر راہی کو بدمعاش اور ڈاکو سمجھتا ہے میں ڈاکو نہیں ہوں آپ کو ڈاکوؤں سے بچا ضرور سکتا ہوں خواہ میری جان چلی جائے اس کے دماغ میں اچانک ایک بات آگئی ہو جو اس نے تیر کی طرح منہ سے نکال دی اس نے کہا دمشق سے بھاگے ہوئے کچھ لوگ ڈاکوؤں کا شکار ہوگئے ہیں میں نے راستے میں دو لاشیں بھی دیکھی ہیں یہ موقعہ ڈاکوؤں کے لیے نہایت اچھا ہے کہ لوگ مال ودولت کے ساتھ دمشق سے بھاگ رہے ہیں
لڑکی کا اتنا دلکش رنگ اڑ گیا وہ اپنے آدمی کے ساتھ لگ گئی کچھ ایسی ہی حالت آدمی کی ہوگئی ماجد حجازی جان گیا کہ یہ کون ہیں اور کیا ہیں ان پر خوف وہراس غالب کرکے اس نے اپنی زبان کے کرشمے دکھانے شروع کردئیے اس نے صلاح الدین ایوبی کو برا بھلا کہا اور سلطان الملک الصالح کی مدح سرائی یوں کی جیسے وہ زمین وآسمان کا واحد برگزیدہ انسان ہو ماجد نے اس پر دہشت کا غلبہ اور زیادہ پختہ کرنے کے لیے کہا صلاح الدین ایوبی نے دمشق سے بھاگے ہوئے آپ جیسے لوگوں کو لوٹنے اور ان سے جوان بیٹیاں اور بیویاں چھیننے کے لیے اپنی فوج کے دستے ادھر بھیج دئیے ہیں یہ لڑکی آپ کی کیا لگتی ہے؟
یہ میری بیوی ہے اور دمشق میں آپ کتنی بیویاں چھوڑ آئے ہیں؟
ماجد حجازی نے پوچھا چار خدا کرے یہ پانچوں خیریت سے آپ کے ساتھ منزل پر پہنچ جائیں ماجد نے کہا ایوبی کی فوج کتنی دور ہے؟
اس آدمی نے پوچھا تم نے سپاہیوں کو لوٹ مار کرتے دیکھا ہے؟
ہاں دیکھا ہے ماجد حجازی نے کہا اگر میں آپ سے کہوں کے میں بھی صلاح الدین ایوبی کی فوج کا سپاہی ہوں تو آپ کیا کریں گے؟
وہ کانپنے لگا مسکرایا بھی مگر مسکراہٹ غائب ہوگئی اس نے کہا میں تمہیں کچھ دے دوں گا اور تم سے التجا کروں گا کہ مجھے کنگال نہ کرو اور میں تم سے یہ التجا بھی کروں گا کہ اس بے چاری کو میرے ساتھ رہنے دو ماجد حجازی نے قہقہہ لگایا اور کہا دولت اور عورت سے زیادہ محبت انسان کو بزدل اور کمزور بنا دیتی ہے اگر مجھے کوئی کہے کہ جو کچھ پاس ہے وہ میرے حوالے کردو تو میں تلوار کھینچ کر اسے کہوں گا کہ پہلے مجھے قتل کرو پھر میری لاش سے تمہیں جو کچھ ملے وہ لے جانا محترم! مجھے یہ بتائیں کہ آپ کون ہیں؟ 
دمشق میں آپ کیا تھے؟ 
اور اب آپ کہاں جا رہے ہیں؟ 
اگر آپ نے سچ بتا دیا تو ہوسکتا ہے کہ آپ کو مجھ سے زیادہ مخلص اور جانباز محافظ نہ ملے معلوم ہوتا ہے کہ ہماری منزل ایک ہے میں ایوبی کی فوج کا سپاہی ضرور ہوں لیکن بھگوڑا ہوں
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس آدمی نے اپنے متعلق سب کچھ بتا دیا دمشق کے مضافاتی علاقے کا جاگیردار تھا اسے سرکار کے دربار میں ایسی سرکاری حیثیت بھی حاصل تھی کہ سلطنت کی شہری اور جنگی پالیسیوں میں بھی اس کا عمل دخل تھا سلطان کے باڈی گارڈ دستے کے زیادہ تر سپاہی اسی کے دئیے ہوئے تھے دوسرے لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ وہ سلطنت کے بالائی حلقے کا اہم قسم کا درباری تھا اسے گھر سے نکلتے ذرا دیر ہوگئی تھی الصالح نے اپنے تمام حاشیہ برداروں سے کہا تھا کہ وہ حلب پہنچ جائیں چنانچہ یہ جاگیردار حلب جارہا تھا اس نے یہ بھی بتا دیا کہ وہ بہت سے زروجواہرات ساتھ لے جارہا ہے چار بیویاں پیچھے چھوڑ آیا ہے یہ چونکہ سب سے چھوٹی اور خوبصورت تھی اس نے بڑے افسوس کے ساتھ ذکر کیا کہ اس کے محافظ اور تمام ملازم دمشق میں ہی اس کا ساتھ چھوڑ گئے تھے انہوں نے اس کا گھر لوٹ لیا ہوگا یہ اس کی اپنی ہمت تھی کہ وہ بروقت اپنا بیش قیمت خزانہ لے کر نکل آیا وہ اب الصالح کے پاس جارہا تھا
ماجد حجازی کو اس کی داستان سن کر خوشی ہوئی یہ جاگیردار اس کے کام کا آدمی تھا اس کے ساتھ وہ حلب کے دربار تک پہنچ سکتا تھا اس نے اپنے متعلق بتایا کہ وہ اس سوار دستے کا کمان دار تھا جو سلطان الدین ایوبی اپنے ساتھ دمشق لایا تھا لیکن وہ الصالح کا مرید ہے اس لیے وہ اس کے خلاف ہاتھ نہیں اٹھا سکتا اس عقیدت مندی کا نتیجہ ہے کہ وہ ایوبی کی فوج سے بھاگ آیا ہے اور سلطان کے دربار میں جارہا ہے اگر اس نے پسند کیا تو وہ اس کے محافظ دستے میں شامل ہوجائے گا اگر میں ابھی سے تمہیں اپنا محافظ بنا لوں تو تمہاری اجرت کی شرائط کیا ہوں گی؟
اس نے ماجد حجازی سے پوچھا میں جیسے دمشق میں بادشاہ تھا اسی طرح وہاں بھی بادشاہ ہوں گا جہاں جارہا ہوں میرے محافظ بن کر تمہیں افسوس نہیں ہوگا اگر آپ مجھے اپنا محافظ بنائیں گے تو آپ کو فوجی مشیر کی ضرورت نہیں پڑے گی ماجد حجازی نے اسے کہا میری اجرت آپ میری قابلیت دیکھ کر خود ہی مقرر کردیں گے میں ابھی کچھ نہیں بتاؤں گا ماجد حجازی اس کا باڈی گارڈ بن گیا یوں کہیے کہ ایک درباری جاگیردار کے ساتھ سلطان ایوبی کا ایک جاسوس لگ گیا اس جاگیردار کے پاس بے اندازہ زروجواہرات تھے جو اس نے ایسے سامان میں چھپا رکھے تھے جو بظاہر معمولی سا تھا اسے فوری طور پر ایک محافظ کی ضرورت تھی ماجد کے ڈرانے سے یہ ضرورت اور شدید ہوگئی تھی اس وقت سورج غروب ہورہا تھا اور فضا خنک ہونے لگی تھی ماجد کے مشورے پر انہوں نے وہیں قیام کیا رات گزر گئی تو جاگیردار کو یقین آگیا کہ ماجد قابل اعتماد آدمی ہے
لمبی مسافت کے بعد وہ حلب پہنچے اس وقت حلب کا امیر شمس الدین تھا جس نے تھوڑا ہی عرصہ پہلے صلیبیوں کو تاوان دے کر ان سے صلح کرلی تھی الملک الصالح دمشق سے بھاگ کر وہاں پہنچ چکا تھا اس کے تمام امراء وزراء اس کے ساتھ تھے اور اس کے باڈی گارڈ کے دستے بھی وہاں پہنچ رہے تھے الصالح نے حلب کی امارت پر قبضہ کرلیا تھا اور اس کے امراء وغیرہ فوج کو نئے سرے سے منظم کرنے لگے تھے صورتحال ایسی تھی کہ فوج کو ہر اس آدمی کی ضرورت تھی جس میں تھوڑی سی جنگی سوجھ بوجھ ہو الملک الصالح کے پاس سونے اور خزانے کی کمی نہیں تھی کمی فوج کمانڈروں اور مشیروں کی تھی وہ اور اس کا ٹولہ سلطان ایوبی کے خلاف لڑنے اور خلافت بحال کرنے کو بیتاب تھا ان کی بیتابیوں سے یوں پتہ چلتا تھا جیسے ان کے دشمن صلیبی نہیں سلطان ایوبی ہے انہوں نے خلیفہ کی مہر کے ساتھ ادھر ادھر کے امراء میں حمص حماة اور موصل کے حکمران خاص طور پر قابل ذکر ہیں کسی کی طرف سے امید افزا جواب ملا اور کسی نے تعاون کا صرف وعدہ کیا یہ جاگیردار حلب پہنچا تو الصالح نے اسے خوش آمدید کہا وہ بھی الصالح کی جنگی مجلس مشاورت کا اہم رکن تھا اسے حلب میں ایک مکان دے دیا گیا وہ آتے ہی اس قدر مصروف ہوگیا کہ صبح کا گیا آدھی رات کو گھر آتا تھا اس کی غیرحاضری میں اس کی بیوی ماجد حجازی میں دلچسپی لینے لگی ماجد نے اس کے ساتھ ایسی بے تکلفی پیدا کرلی جس میں بدنیتی کا شائبہ تک نہ تھا ماجد نے پروقار انداز اختیار کیے رکھا جس سے لڑکی متاثر ہوئی اور وہ جیسے بھول ہی گئی ہو کہ ماجد اس کے خاوند کا محافظ ہے ماجد اپنے مشن پر کام کررہا تھا اس نے دو تین دنوں میں لڑکی کے دل پر قبضہ کرلیا اس نے لڑکی سے پوچھا کہ اس کے خاوند کی باقی چار بیویاں کیسی تھیں اس نے بتایا کہ کوئی ایسی بری تو نہیں تھی اس شخص نے انہیں پرانی سمجھ کر دھوکہ دیا اور اس لڑکی کو ساتھ لے کر بھاگ آیا
اور ایک روز یہ تمہیں بھی چھوڑ کر کسی اور کو لے آئے گا ماجد حجازی نے کہا ان امیروں کا یہ شغل ہے اگر تمہیں دل کی بات بتا دوں تو میرے خاوند کو تو نہیں بتا دو گے؟
لڑکی نے پوچھا مجھے دھوکہ تو نہیں دو گے؟
اگر میری فطرت میں دھوکہ اور فریب ہوتا تو میں تمہارے خاوند کو وہیں جہاں میں تمہیں ملا تھا آسانی سے قتل کرکے تم پر اور تمہارے مال ودولت پر ہاتھ صاف کرسکتا تھا ماجد نے کہا میں مرد ہوں عورت کو فریب دینا مرد کی شان کے خلاف ہے میں اب اس راز کو اپنے دل میں زیادہ دیر نہیں رکھ سکتی کہ مجھے تم سے ایسی محبت ہے جس پر میرا قابو نہیں رہا لڑکی نے کہا اور یہ بھی ایک راز ہے کہ مجھے اس خاوند سے نفرت ہے میں بکی ہوئی لڑکی ہوں کئی بار دل میں آیا ہے کہ اپنے آپ کو ختم کردوں میں شاید بزدل ہوں اپنی جان لینے سے ڈرتی ہوں میرے ارادے کچھ اور تھے میرے خیالات کچھ اور تھے تم نے میرے ارادوں اور خیالوں پر مٹی ڈال دی ہے اور میرا یہ ارادہ پکا کردیا ہے کہ اپنے آپ کو ختم کردوں کیا تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ تمہیں مجھ سے محبت ہے اس لیے خودکشی کرنا چاہتی ہو؟
نہیں لڑکی نے کہا میرے ذہن میں صلاح الدین ایوبی کا تصور نورالدین زنگی سے زیادہ مقدس اور پیارا تھا تم نے اس تصور کو توڑ پھوڑ دیا ہے کیا صلاح الدین ایوبی اتنا ہی برا ہے جتنا تم نے بتایا ہے؟
میں تمہارے راز کو اپنا راز سمجھوں گا ماجد حجازی نے کہا اس کے عوض تمہیں اپنا ایک راز دیتا ہوں میں تم سے کوئی وعدہ نہیں لوں گا کہ میرے راز کی حفاظت کرنا اگر میرا راز فاش ہوگیا تو نہ تم زندہ ہوگی نہ تمہارا خاوند میں صلاح الدین ایوبی کا جاسوس ہوں میں نے دوچار دنوں میں پھانپ لیا ہے کہ تم اصل میں کیا ہو میں تمہیں بتاتا ہوں کہ صلاح الدین ایوبی کا تصور اس سے کہیں زیادہ مقدس ہے جو تم نے اپنے ذہن میں بنا رکھا ہے وہ ان امیروں اور بادشاہوں کا دشمن ہے جنہوں نے لڑکیوں کو اپنے حرموں میں قید کررکھا ہے وہ اس کے سخت خلاف ہے کہ مرد عورت کو صرف تفریح اور عیاشی کا ذریعہ بنائے وہ مرد اور عورت کی برابری کا اور ایک خاوند اور ایک بیوی کا قائل ہے وہ عورتوں کو فوجی تربیت دینا چاہتا ہے میں نے تمہارے خاوند کا اعتماد حاصل کرنے کے لیے جھوٹ بولا تھا کہ ایوبی نے اپنی فوج کے چند دستوں کو دمشق سے بھاگنے والوں کو لوٹنے اور ان کی لڑکیوں کو اٹھا لانے کے لیے بھیجا ہے وہ سچے اسلام کا علمبردار ہے میں اسی اسلام کی خاطر اور اسی صلاح الدین ایوبی کی خاطر یہاں ایک کام کے لیے آیا ہوں لڑکی کی آنکھوں میں چمک سی پیدا ہوئی اس نے ماجد حجازی کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر چوم لیا اور کہا تمہارا یہ راز کبھی فاش نہ ہوگا مجھے مت بتاؤ کہ تم یہاں کیوں آئے ہو اور میں تمہاری کیا مدد کرسکتی ہوں؟ 
مجھے مت بتاؤ کے صلاح الدین ایوبی اصل میں کیا ہے اور تم نے میرے خاوند کو کیا بتایا تھا میں عورتوں کی اس جماعت کی لڑکی تھی جو نورالدین زنگی کی زندگی میں ہم نے بنائی تھی ہم صلبیوں کے خلاف اپنا محاذ قائم کررہی تھیں زنگی کی بیوہ ہماری سرپرست اور نگران تھی میرا باپ پسند نہیں کرتا تھا کہ میں اس جماعت میں رہوں وہ لالچی اور خوشامدی انسان ہے اس کے لیے صلیب اور ہلال میں کوئی فرق نہیں وہ اسی کا غلام ہے جس سے اسے کچھ رقم ہاتھ آجائے اس نے مجھے اس آدمی کے ہاتھ بیچ دیا اس سودے کو لوگ شادی کہتے ہیں تم جانتے ہو کہ مسلمان کی بچی میدان جنگ میں ہو یا اسے کوئی بھی جنگی اور قومی کام دے دو تو وہ مردوں کو حیران کردیتی ہے اور دشمن کا منہ پھیر سکتی ہے مگر یہی بچی جب حرم میں قید کرلی جاتی ہے تو چیونٹی بن جاتی ہے یہی حالت میری ہوئی اگر میرا یہ خاوند معمولی حیثیت کا ہوتا تو میں بغاوت کرتی اس سے نجات حاصل کرنے کی کوشش کرتی مگر اس آدمی کے پاس طاقت ہے دولت ہے اور الصالح کا جو محافظ دستہ ہے اس کے آدھے سپاہی اس کے علاقے کے ہیں جو اس کے بھرتی کرائے ہوئے ہیں
میں چونکہ اس کی پہلی بیویوں سے زیادہ جوان اور خوبصورت ہوں اس لیے میں ہی اس کا کھلونا بن گئی میری روح مرگئ میرا صرف جسم زندہ رہا باہر کی دنیا سے میرا رشتہ ٹوٹ چکا تھا اور میں جس دنیا میں قید تھی وہاں شراب اور ناچ گانے کے سوا کچھ نہ تھا اگر کچھ اور تھا تو وہ نورالدین زنگی اور صلاح الدین ایوبی کے قتل کے منصوبے تھے وہ بولتے بولتے چپ ہوگئی اس نے ماجد حجازی کو جھنجھوڑ کر کہا کیا تم میری باتیں سن رہے ہو؟ 
میں نے یہ یقین کیے بغیر کہ تم صلاح الدین ایوبی کے جاسوس ہو یا میرے خاوند کے تمہیں اپنے دل کی باتیں سنا رہی ہوں اگر میرے خاوند کے جاسوس ہو تو اسے یہ ساری باتیں سنا دینا جو میں تمہیں سنا رہی ہوں وہ مجھے سزا دے گا میں اب ہر قسم کی سزا برداشت کرنے کے لیے تیار ہوں میرے پاس اب جسم رہ گیا ہے یہ جسم پتھر بن گیا ہے روح مرگئی ہے تمہاری روح زندہ ہے ماجد حجازی نے کہا میری نگاہیں گہرائیوں سے زیادہ گہرائی تک دیکھ لیا کرتی ہیں میں نے دیکھ لیا تھا کہ تمہاری روح زندہ ہے ورنہ میں اپنا راز کبھی تمہارے آگے نہ کھولتا میں حسن اور جوانی سے مغلوب ہونے والا انسان نہیں ہوں مرد ہوں اپنی جان اسلام کے نام پر وقف کردی ہے تم بولو اپنا دل ہلکا کرتی جاؤ میں سن رہا ہوں تمہاری داستان میرے لیے نئی نہیں یہ ہر مسلمان عورت کی داستان ہے اسلام کا زوال اسی روز شروع ہوگیا تھا جس روز ایک مسلمان نے حرم کھولا اور اس میں خوبصورت لڑکیاں خرید کر قید کی تھیں صلیبیوں نے کہا کہ اب اس قوم کو عورت کے ہاتھوں مرواؤ انہوں نے ہمارے بادشاہوں کے حرم اپنی بیٹیوں سے بھر دئیے ہیں یہ میرے خاوند کے گھر میں بھی ہوا لڑکی نے کہا میں نے اپنی آنکھوں سے صلیبی لڑکیوں کو اپنے خاوند کے پاس آتے اور شراب پیتے دیکھا ہے میں سوائے رونے کے اور کر ہی کیا سکتی تھی میں اس لیے نہیں روتی تھی کہ ان لڑکیوں نے مجھ سے میرا خاوند چھین لیا ہے بلکہ اس لیے کہ مجھ سے میرا اسلام چھن گیا تھا وہ اسلام جس کی خاطر میں نے تمہاری طرح اپنی جان وقف کی تھی
آؤ جذباتی باتوں سے ہٹ کر اس کام کی باتیں کریں جس کے لیے میں یہاں آیا ہوں ماجد نے کہا اور اس سے پوچھا اپنے خاوند پر تمہارا کتنا کچھ اثر ہے؟ 
کیا تم اس کے دل سے راز کی باتیں نکال سکتی ہو؟
شراب کے دو پیالے پلا کر اور اس کا سر اپنے سینے سے لگا کر میں اس سے ہر راز لے سکتی ہوں لڑکی نے جواب دیا تم کیا معلوم کرنا چاہتے ہو؟
اس نے کچھ سوچ کر اور مسکرا کر کہا میری ایک ذاتی شرط مان لو گے؟
اگر میں تمہارا کام کردوں تو مجھے یہاں سے لے جاؤ گے؟ 
میری محبت کو ٹھکرا تو نہیں جاؤ گے؟
ماجد حجازی نے اس کا دل رکھ لیا اور اس کی شرط مان لی اس نے اسے بتایا کہ الصالح گیارہ سال کا بچہ ہے وہ امیروں کے ہاتھ میں کھلونا ہے یہ امیر اور وزیر صلاح الدین ایوبی کو ختم کرکے سلطنت اسلامیہ کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں اگر ایسا ہوگیا تو ان ٹکڑوں کو صلیبی ہضم کرجائیں گے اور اسلام کا نام ونشان مٹ جائے گا سلطان صلاح الدین ایوبی کہتا ہے کہ جس قوم نے اپنے ملک کے ٹکڑے کیے وہ کبھی زندہ نہیں رہی ہمارے یہ امیر صلیبیوں تک سے مدد لینے کو تیار ہیں صلیبی انہیں ضرور مدد دیں گے اور اس کے عوض وہ انہیں اپنا محکوم بنائیں گے میں یہ معلوم کرنے آیا ہوں کہ خلیفہ کے ہاں کیا منصوبے بن رہے ہیں اور صلیبی انہیں کیا مدد دے رہے ہیں مجھے یہ خبر جلدی صلاح الدین ایوبی تک پہنچانی ہے تاکہ اس کے مطابق کارروائی کی جائے اور کہیں ایسا نہ ہو کہ سلطان ایوبی بے خبری میں صلیبیوں کے حملے کی زد میں آجائے کیا صلاح الدین ایوبی مسلمان امیروں پر حملہ کرے گا؟
لڑکی نے پوچھا اگر ضرورت پڑی تو وہ دریغ نہیں کرے گا لڑکی بہت ہی جذباتی تھی اور وہ ذہین بھی تھی اس کے آنسو نکل آئے اس نے کہا اسلام کو یہ دن بھی دیکھنے تھے کہ ایک رسولﷺ کی امت آپس میں لڑے گی
اس کے سوا کوئی اور علاج نہیں ماجد حجازی نے کہا صلاح الدین ایوبی بادشاہ نہیں اللہ تعالیٰ کا سپاہی ہے وہ کہتا ہے کہ ملک اور قوم کو خطروں اور تباہی سے بچانے کا فرض فوج کے سپرد ہے یہ خطرہ باہر کے دشمن کا ہو یا اندر کے غداروں اور مفادپرست حکمرانوں کا ان سے ملک اور قوم کو بچانا سپاہی کا فرض ہے وہ کہتا ہے کہ وہ فوج کو حکمرانوں کے ہاتھوں میں کھلونا نہیں بننے دے گا فوج حکمرانوں کی آلۂ کار بنی ہوئی ہے وہ مسلمان کافروں سے زیادہ خطرناک ہوتا ہے جو کافروں کو دوست سمجھ کر انہیں اپنی جڑوں میں بٹھاتا ہے اب تمہارا کام یہ ہے کہ اپنے خاوند سے یہ راز لو کہ یہاں کیا منصوبہ بن رہا ہے میں راز بھی دوں گی اور دعا بھی کروں گی کہ جب تم یہاں سے دمشق جاؤ تو تمہارے ساتھ یہ راز بھی ہو اور میں بھی ہوں لڑکی نے کہا تریپولی کے صلیبی بادشاہ ریمانڈ کی طرف ایک ایلچی اس درخواست کے ساتھ بھیج دیا گیا ہے کہ وہ الصالح کی مدد کو آئے دوسرے ہی دن لڑکی نے ماجد حجازی کو بتایا میں نے رات کو شراب پلا کر صلاح الدین ایوبی کے خلاف بہت باتیں کیں اور اس سے کہا کہ تم لوگ بزدل ہو جو دمشق سے بھاگ کر حلب میں آن پناہ لی ہے کوئی مسلمان حکمران کی یہ توہین برداشت نہیں کرسکتا جو صلاح الدین ایوبی نے کی ہے ایسی بہت باتیں کیں تو بھڑک اٹھا اور میرے ساتھ بے ہودہ حرکتیں کرتے ہوئے بولا ایوبی چند دنوں کا مہمان ہے فدائی قاتلوں کے مرشد شیخ سنان سے بھی درخواست کی گئی ہے کہ وہ صلاح الدین ایوبی کے قتل کا بندوبست کرے اور منہ مانگا انعام لے وہ اپنے تجربہ کار آدمی دمشق بھیج رہا ہے اس نے یہ بھی بتایا کہ اپنی فوج کی تیاری کے لیے بہت وقت مل جائے گا کیونکہ سردیوں کا موسم شروع ہوگیا ہے پہاڑی علاقوں میں برف پڑنے لگے گی سلطان صلاح الدین ایوبی صحرائی فوج کو اتنی سردی اور برف میں نہیں لڑا سکے گا یہ ابتداء تھی شراب اور عورت ایک مرد کے سینے سے راز نکلوا رہی تھی لڑکی نے ہر رات خاوند سے دن بھر کی کارگزاری معلوم کرنی شروع کردی اور یہ راز ماجد حجازی کے سینے میں محفوظ ہوتے گئے ایک روز خاوند نے ماجد سے کہا مجھے ملازموں نے تمہارے متعلق ایک قابل اعتراض بات بتائی ہے ماجد کانپ اٹھا وہ سمجھا کہ اس کا بھانڈہ پھوٹ گیا ہے مگر خاوند نے کہا تم میری بیوی کو ورغلا رہے ہو میری غیرحاضری میں تم اس کے پاس بیٹھے رہتے ہو میں جانتا ہوں کہ میرے مقابلے میں تم خوبرو ہو اور جوان بھی ہو میری بیوی تمہیں پسند کرسکتی ہے مگر میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا
ماجد حجازی نے اسے یقین دلانے کی کوشش کی کہ یہ اس کی غلط فہمی ہے لیکن اس کے دل میں وہم پیدا ہوچکا تھا اس نے اپنی بیوی سے بھی یہی بات کہی اور اس پر پابندی عائد کردی کہ وہ ماجد حجازی سے نہیں مل سکتی ماجد حجازی ابھی وہاں سے نکلنا نہیں چاہتا تھا کیونکہ اسے ابھی وہاں کا پورا منصوبہ نہیں ملا تھا اس نے لڑکی کے خاوند کی ڈانٹ ڈپٹ سہہ لی اور اس کی دھمکیوں سے اپنے اوپر مصنوعی خوف کی کیفیت بھی طاری کرلی اس کی منت سماجت بھی کی اس شخص نے اسے معاف تو کردیا لیکن اسی روز چھ باڈی گارڈ لے آیا اس دور میں امیر کبیر لوگ اپنے گھر میں باڈی گارڈ رکھنے کو عزت کی نشانی سمجھتے تھے اس آدمی نے ماجد حجازی سمیت سات باڈی گارڈ رکھ لیے اور ان میں سے ایک کو کمانڈر بنا دیا اس کمانڈر نے ماجد کو یہ خصوصی حکم سنایا کہ وہ چونکہ آقا کی نظروں میں مشتبہ ہے اس لیے وہ مکان کے دروازے تک بھی نہیں جاسکتا اور رات کو تھوڑی سی دیر کے لیے بھی غیرحاضر نہیں ہوسکتا ماجد نے اس حکم کے آگے بھی سر تسلیم خم کردیا اور اس نے ایسا رویہ اختیار کرلیا جیسے مرگیا ہو دو تین راتیں ہی گزری ہوں گی آدھی رات کے وقت یہ لڑکی باہر نکلی بڑے دروازے پر ایک باڈی گارڈ پہرے پر کھڑا تھا لڑکی نے اس سے آقاؤں کے جلال اور رعب سے پوچھا تم یہیں کھڑے رہتے ہو یا مکان کے اردگرد چکر بھی لگاتے ہو؟
اس نے کچھ جواب دیا تو لڑکی نے کہا تم نئے آدمی ہو ہمارے دمشق والے محافظ بہت ہوشیار اور چوکس تھے تم اگر یہاں نوکری کرنا چاہتے ہو تو تمہیں اسی طرح ہوشیار اور چوکس بننا پڑے گا آقا بڑی سخت طبیعت کے مالک ہیں پہرہ دار نے احترام سے سر جھکا لیا لڑکی باڈی گارڈوں کو دیکھنے نکلی تھی وہ ان دو خیموں کی طرف چل پڑی جن میں دوسرے باڈی گارڈ سوئے ہوئے تھے دروازے والے پہرہ دار نے دوڑ کر کمانڈر کو جگا دیا اور بتایا کہ مالکہ معائنے کے لیے آئی ہے کمانڈر گھبرا کر اٹھا اور لڑکی کے آگے جھک گیا لڑکی نے اسے بھی ہدایات دیں اور ایک خیمے کے آگے رک کر بلند آواز سے باتیں کرنے لگی ماجد حجازی اسی خیمے میں سویا ہوا تھا اس کی آنکھ کھل گئی وہ باہر آگیا لڑکی نے اس سے یوں بات کی جیسے اسے اچھی طرح جانتی ہی نہ ہو اس سے پوچھا تم شاید پہلے والے محافظ ہو؟
ماجد نے تعظیم سے جواب دیا تو لڑکی نے کمانڈر سے کہا اس آدمی کو جلدی تیار کرو یہ میرے ساتھ قصر سلطنت تک جائے گا دو گھوڑے فوراً تیار کرو اگر آقا آپ کے متعلق پوچھیں تو میں کیا جواب دوں؟
کمانڈر نے پوچھا میں سیر سپاٹے کے لیے نہیں جارہی لڑکی نے تحکمانہ لہجے میں کہا آقا کے ہی کام سے جارہی ہوں حکومت کے کاموں میں مت دخل دو جاؤ گھوڑے تیار کرو کمانڈر نے ایک آدمی کو اصطبل کی طرف دوڑا دیا ماجد حجازی تلوار سے مسلح ہوکر تیار ہوگیا تھا لڑکی اسے اصطبل کی طرف لے گئی کمانڈر کو اس لڑکی کے خاوند نے بتا رکھا تھا کہ ماجد پر نظر رکھے اور اسے گھر کے اندر نہ جانے دے اب لڑکی نے ماجد کو ہی اپنے ساتھ لے جانے کے لیے منتخب کیا تھا کمانڈر نے دیکھا کہ وہ دونوں اصطبل کی طرف چلے گئے ہیں تو وہ دوڑ کر اندر لڑکی کے خاوند کو اطلاع دینے چلا گیا وہ یقین کرنا چاہتا تھا کہ خاوند کو معلوم ہے کہ اس کی بیوی مشتبہ باڈی گارڈ کے ساتھ جارہی ہے وہ لڑکی کو روک بھی نہیں سکتا تھا کیونکہ وہ اس کی مالکن تھی وہ اندر گیا اور ڈرتے ڈرتے اپنے آقا کے کمرے کے دروازے پر ہاتھ رکھا دروازہ کھل گیا اندر قندیل جل رہی تھی اور کمرہ شراب کی بدبو سے بھرا ہوا تھا اس نے اپنے آقا کو دیکھا وہ بستر پر اس طرح پڑا تھا کہ اس کا سر اور بازو پلنگ سے لٹک رہا تھا ایک خنجر اس کے سینے میں اترا ہوا تھا اس کے سینے پر خنجر کے کئی زخم تھے کمانڈر نے اس کی نبض دیکھی وہ مرا ہوا تھا اس کے کپڑے خون سے لال ہوگئے تھے ماجد حجازی کو لڑکی بتا چکی تھی کہ اس نے اپنے خاوند سے سارا منصوبہ معلوم کرلیا ہے اور اب اس منصوبے پر عمل شروع ہورہا ہے اس نے خاوند کو روز مرہ کی طرح شراب پلائی اور اتنی پلائی کہ وہ بے ہوش ہوگیا لڑکی اسے بے ہوشی کی حالت میں چھوڑ کر آسکتی تھی لیکن انتقام کے جذبے نے اسے پاگل کردیا اس نے اسی کے خنجر سے اس کا سینہ چھلنی کردیا اور خنجر اس کے سینے میں ہی رہنے دیا ماجد حجازی گھبرایا نہیں وہ تو ہر لمحہ کسی نہ کسی اچانک پیدا ہونے والی صورتحال کے لیے تیار رہتا تھا اس نے لڑکی کے اس اقدام کو سراہا اور اسے کہا کہ وہ اطمینان سے گھوڑے پر سوار ہوجائے وہ جونہی گھوڑوں پر سوار ہونے لگے رات کی خاموشی میں ایک آواز بڑی ہی بلند سنائی دینے لگی گھوڑے مت دینا انہیں روک لو وہ آقا کو قتل کرکے جارہی ہے چھ کے چھ باڈی گارڈ تلواریں اور برچھیاں اٹھائے باہر آگئے ماجد اور لڑکی گھوڑوں پر سوار ہوچکے تھے انہیں اسی راستے سے گزرنا تھا جہاں باڈی گارڈ تھے ماجد نے لڑکی سے کہا کہ وہ گھوڑ سواری نہیں کرسکتی تو اس کے گھوڑے پر پیچھے بیٹھ جائے گھوڑا سرپٹ دوڑانا پڑے گا لڑکی نے خوداعتمادی سے کہا کہ وہ گھوڑا دوڑا سکتی ہے ماجد نے اسے کہا کہ وہ گھوڑا اس کے پیچھے رکھے ماجد نے تلوار نکال لی ادھر باڈی گارڈوں کا شور بڑھتا جارہا تھا اور وہ اصطبل کی طرف دوڑتے آرہے تھے ماجد نے گھوڑے کو ایڑی لگادی اس کے پیچھے لڑکی نے بھی گھوڑا دوڑا دیا کمانڈر کی آواز گرجی رک جاؤ مارے جاؤ گے چاندنی رات تھی ماجد نے دیکھ لیا کہ باڈی گارڈ برچھیاں اوپر کیے اس کی طرف آرہے ہیں اس نے گھوڑے کا رخ ان کی طرف کردیا اور آگے ہوکر تلوار گھمانے لگا گھوڑے کی رفتار اس کی توقع سے زیادہ تیز تھی دو باڈی گارڈ اس کے سامنے آگئے اور گھوڑے تلے کچلے گئے ایک برچھی اس کی طرف آئی جو اس نے تلوار کے وار سے بے کار کردی کمانیں نکالو کمانڈر نے چلا کر کہا باڈی گارڈ تجربہ کار معلوم ہوتے تھے ذرا سی دیر میں دو تیر ماجد حجازی کے قریب سے گزر گئے اس نے گھوڑا دائیں بائیں گھمانا شروع کردیا تاکہ تیر انداز نشانہ نہ لے سکیں...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget