⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 29👇


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➒➋】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس دور کی تاریخ کا ذرا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اس رومی لڑکی کا یہ عزم عجیب نہیں لگتا ، اس دور میں کئی ایسے جنگی واقعات ملتے ہیں جن میں فوج کی قیادت کسی عورت نے کی، اور بڑے بڑے لشکروں کے منہ موڑ دیئے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
 رومیوں میں فوجی جذبہ موجود تھا اور وہ بلاشک و شبہ جنگجو بھی تھے ان میں سب سے بڑی کمزوری یہ تھی کہ ان کی قیادت پر شہنشاہیت غالب تھی۔ جس نے اپنی فوج کو یہ تاثر دے رکھا تھا کہ وہ بادشاہ اور جرنیلوں کی غلام ہیں یا یہ کہ تنخواہ دار ملازم ہیں۔ اس فوج میں جہاد نام کا کوئی جذبہ نہیں ہوتا تھا لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں تھا کہ یہ فوج لڑتی ہیں نہیں تھی۔ رومی تو فطرتاً اور جنگجو تھے اور ان کے پیچھے شجاعت اور جنگجو ہی کی بڑی لمبی تاریخ تھی۔
یہاں بات عورت کی ہورہی ہے عورت نے متعدد جنگوں کی قیادت کی ہے اور کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
یہ دیکھتے ہوئے نوشی کی بات عجیب نہیں لگتی لیکن اس میں کمزوری یہ تھی کہ یہ نوجوانی کی عمر میں تھی اور اس کی سوچوں پر جذباتیت غالب تھی۔ دوسری کمزوری یہ کہ وہ غیر معمولی طور پر خوبصورت اور بڑی ہی دلکش لڑکی تھی ۔اور بدوؤں پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا تھا کہ وہ اس کے جذبے سے متاثر ہونگے یا اس کے حسن سے،،،،، حسن سے متاثر ہونے میں بہت بڑا خطرہ چھپا ہوا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
منگیتر نے دیکھ لیا کہ نوشی کو زبردستی پیچھے نہیں لے جایا جاسکتا اور وہ کوئی استدلال قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہو رہی۔ منگیتر اسے تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا وہ اپنے آپ کو آمادہ کر ہی نہیں سکتا تھا کہ اتنی حسین اور نوجوان لڑکی کو بدوؤں کے پاس جانے دے اس نے اس ادھیڑ عمر بدوّ ملازم سے پوچھا کہ وہ اسے کہاں لے جا رہا ہے؟،،،، جو ملازم نوشی کے ساتھ جا رہا تھا۔
مجھ پر کوئی الزام نہیں آنا چاہیے۔۔۔ ملازم نے ڈرے سہمے ہوئے غلامانہ لہجے میں کہا۔۔۔ شہزادی کے ساتھ آپ نے خود بات کر کے دیکھ لیا ہے۔ انہوں نے آپ کی بات ماننے کی بجائے تلوار نکال لی ہے خود ہی سوچیں کہ میں ان کے ساتھ آنے سے کس طرح انکار کرسکتا تھا۔
منگیتر نے ملازم کو ڈانٹ کر کہا کہ وہ اس کے سوال کا جواب دے کہ وہ نوشی کو کہاں لے جا رہا ہے؟
ہامون کے پاس ۔۔۔ملازم نے جواب دیا۔
کون ہے ہامون؟،،،، منگیتر نے پوچھا۔
اسے سب جادوگر کہتے ہیں۔۔۔ ملازم بدوّ نے جواب دیا ۔۔۔وہ جادوگر ہے یا نہیں میں یہ جانتا ہو کہ اس کے پاس غیب کا کوئی علم ہے جس سے وہ ہر اس سوال کا جواب دے دیتاہے جس کا جواب کہیں سے بھی نہیں مل سکتا۔ خواہ یہ سوال آنے والے وقت کے متعلق ہی ہو اس کی اس غیبی طاقت کی وجہ سے تمام بدوّ اس کی ہر بات مانتے ہیں ۔ ہمارے صرف مذہبی پیشوا ہیں جو ہامون کو اچھا نہیں سمجھتے۔ کچھ سردار ایسے ہیں جو ہامون کی بات مانتے ہیں اور کچھ ایسے ہیں جو مذہبی پیشواؤں کا ساتھ دیتے ہیں۔ میں انہیں ہامون کے پاس لے جا رہا ہوں یہ اچھا ہے کہ آپ بھی آ گئے ہیں آپ ساتھ چلیں اور خود ہامون کے ساتھ بات کریں۔
ہامون کیا کرے گا ؟،،،منگیتر نے پوچھا۔
میں یہ بات شہزادی کو پہلے ہی بتا چکا ہوں۔۔۔ ملازم نے جواب دیا ۔۔۔سب سے پہلے تو وہ دیکھے گا کہ شہزادی کا مطلب پورا ہو سکتا ہے یا نہیں اگر یہ بات بننے والی نہ ہوئی تو وہ صاف بتا دے گا کہ شہزادی یہیں سے واپس چلی جائے۔
مجھے امید ہے وہ بات بنا دے گا۔۔۔ نوشی نے کہا ۔۔۔اور اگر اس کے پاس واقعی جادو ہے تو وہ میرا مطلب پورا کر دے گا۔
منگیتر نے اس ادھیڑ عمر بدوّ ملازم سے کچھ اور سوال و جواب کئے تو اسے ملازم کی باتیں کچھ کچی کچی سی لگیں اور محسوس کیا کہ یہ شخص توہم پرست ہے  اور نوشی کو اس جادوگر کے پاس نہیں جانا چاہیے، ہو سکتا ہے وہ کوئ شعبدہ باز ہو ، بدوؤں میں کچھ ایسے آدمی موجود تھے جو دراصل شعبدہ باز تھے اور لوگ انہیں خدا کے ایلچی سمجھتے تھے ۔
منگیتر نے نوشی کو ایک بار پھر سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اپنے قومی جذبے کو یوں رسوا نہ کرے اور واپس چلی جائے نوشی اس کے ہاتھ آ ہی نہیں رہی تھی۔
منگیتر نے ایک بار پھر نوشی کے گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور اسے پیچھے کو موڑنے لگا۔ نوشی گھوڑے سے کود گئی اور تلوار لہرا کر منگیتر کو للکارا کے وہ گھوڑے سے اتر آئے۔
منگیتر گھوڑے سے تو اتر آیا لیکن تلوار نہ نکالی۔ یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ وہ تلوار نکال کر نوشی کے مقابلے میں آ جاتا وہ نوشی کے قریب گیا تو نوشی نے تلوار دائیں بائیں ہوا میں بڑی زور سے مار کر اس کی نوک منگیتر کے سینے پر رکھ دی۔
تلوار نکالو۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ مجھ سے دور رہو۔
یہ تلوار میرے سینے میں اتار دو۔۔۔ منگیتر نے کہا۔۔۔ پھر جہاں جی چاہے چلی جانا جب تک میں زندہ ہوں تمہیں کہیں نہیں جانے دوں گا۔
بدوّ ملازم ان کے درمیان آگیا۔ نوشی اسے ڈانٹنے اور دھمکانے لگی کہ وہ درمیان سے ہٹ جائے لیکن وہ ہٹ نہیں رہا تھا وہ دیکھ رہا تھا کہ نوشی پر ایسی کیفیت طاری ہے کہ اپنے منگیتر کے سینے میں تلوار اتار ہی دے گی ۔نوشی منگیتر کو مقابلے کے لیے للکار رہی تھی لیکن منگیتر تلوار نیام سے نکال ہی نہیں رہا تھا۔ ملازم نے ایک طرف ہو کر نوشی کی تلوار والے ہاتھ کی کلائی پکڑ لی وہ کلائی چھڑانے لگی تو منگیتر کو اس پر قابو پانے کا موقع مل گیا اس نے پیچھے ہوکر نوشی کی کمر میں بازو ڈالے اور اسے جکڑ لیا نوشی آزاد ہونے کو تڑپنے لگی۔
چھوڑ دو اسے۔۔۔ ایک آواز گرجی۔
تینوں بے حس و حرکت ہو گئے اور جہاں تھے وہیں رہے پھر آہستہ آہستہ سیدھے ہوکر اس طرف دیکھنے لگے جدھر سے آواز آئی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ ایک گھوڑ سوار تھا کالی داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی تھی عمر میں تیس سال کے لگ بھگ اور وہ تنومند دراز قد آدمی تھا۔ اس کا لباس ایسا تھا جیسا بدوؤں کے سردار اور سرکردہ افراد پہنا کرتے تھے۔ اس کی وجہ یہی تھی کہ دیکھنے والے پر اثر انداز ہوتے تھے۔
اس کی شخصیت نوشی اور اس کے منگیتر پر کچھ ایسی اثر انداز ہوئی کے نوشی نے تلوار نیچے کر لی اور اسے کچھ حیرت سے دیکھنے لگی ۔اس کے منگیتر پر بھی ایسا ہی اثر ہوا تھا وہ بھی چپ چاپ اس شخص کو دیکھنے لگا۔ صاف پتا چلتا تھا کہ ان دونوں پر اس شخص کا رعب طاری ہو گیا ہے۔ بدوّ بیچارا تو تھا ہی ملازم اس لئے وہ الگ ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔
گھوڑ سوار ان کے قریب آیا اور ان کے اردگرد خاموشی سے گھوما اور انہیں دیکھتا رہا آخر اس نے گھوڑا روکا اور نوشی سے پوچھا کہ وہ کون ہے؟
نوشی جیسے اچانک بیدار ہو گئی ہو اس نے فخریہ لہجے میں اسے بتایا کہ وہ ایک جرنیل کی بیٹی ہے اور اس کا تعلق ہرقل کے شاہی خاندان سے ہے.
یہ میرا منگیتر ہے ۔۔۔نوشی نے جواب دیا ۔۔۔یہ فوج میں عہدیدار ہے اور یہ ہمارا ملازم ہے۔
مجھے تمہارے معاملات میں دخل دینے کا حق نہیں ہونا چاہیے۔۔۔ اس شخص نے گھوڑا روک کر کہا۔۔۔۔ لیکن میں نے کچھ اور دیکھا تھا میں اس لئے دخل دے رہا ہوں کے تم لوگ میرے علاقے میں ہو اور میرا فرض ہے کہ جو کوئی مصیبت میں ہو اس کی مدد کروں،،،،، اے لڑکی!،،،،،،،، تم شاہی خاندان کی لڑکی ہو یا کسی غریب آدمی کی بیٹی مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں تم پر یہ دونوں زبردستی کر رہے تھے کیا تمہیں میری مدد کی ضرورت ہے؟
ہوسکتا ہے تم میری کچھ مدد کرسکوں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔۔۔ یہ دونوں مجھ پر ویسی زبردستی نہیں کر رہے تھے جو تم سمجھ رہے ہو یہ مجھے واپس اپنے ماں باپ کے پاس لے جانا چاہتے ہیں یہ میرے دشمن نہیں۔
پہلے میری بات کا جواب دو نوشی کے منگیتر نے اس آدمی سے پوچھا تم کون ہو؟،،،،،، میں تمہیں اس قابل سمجھتا ہوں کہ تمہاری عزت کروں میں تمہارے اس جذبے کی قدر کرتا ہوں کہ تم اس لڑکی کی مدد کے لیے رک گئے ہو۔
کیا یہ بہتر نہ ہوگا کہ ہم بیٹھ کر اور آرام سے بات کریں۔۔۔۔ اس آدمی نے کہا۔۔۔۔ یہ تینوں اور وہ آدمی اپنے گھوڑے کھلے چھوڑ کر ایک درخت کے نیچے بیٹھ گئے۔
میرا نام سیلی نوش ہے۔۔۔ اس اجنبی نے کہا۔۔۔ میں اصل مصری بدوّ ہوں۔ اور عیسائیت میرا مذہب ہے۔ میں اپنے قبیلے کا سردار تو نہیں ہوں لیکن تمام قبیلوں کے سردار میری عزت اس طرح کرتے ہیں جیسے میں سب کا سردار ہوں۔
تم کس کے وفادار ہو۔۔۔ نوشی نے پوچھا ۔۔۔اپنے بدوؤں کے ،یا شاہ روم کے۔
شاہ روم کو میں اپنا بادشاہ سمجھتا ہوں۔۔۔ سیلی نوش نے جواب دیا ۔۔۔یہ نہ سمجھنا کہ تم نے کہا ہے کہ تم شاہی خاندان کی لڑکی ہو تو میں نے تمہارے ڈر سے اپنی وفاداری بتائی ہے میں شاہ روم ہرقل کا وفادار ہوں اور اس کی عیسائیت کو مانتا ہوں۔
میں نہیں مانتی۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔۔ تم شاہ روم کے وفادار ہوتے تو تمہارے قبیلے کے تمام جوان آدمی شاہ روم کی فوج میں ہوتے۔ کیا تمہیں معلوم ہے کہ مسلمانوں نے عریش کے بعد فرما پر بھی قبضہ کر لیا ہے؟،،، میں تمہیں یہ بھی بتا دیتی ہوں کہ فرما کی فوج کی کمان میرے باپ کے ہاتھ میں تھی یہ بھی سن لو کہ میں اپنے باپ اور اپنے اس منگیتر کو بزدل اور بھگوڑا سمجھتی ہوں۔
میں نے اپنی وفاداری کی بات کی ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ بدوؤں کے قبائل کی اپنی اپنی سوچ ہے بہت عرصہ پہلے انہیں حکم دیا گیا تھا کہ فوج میں شامل ہو جائیں لیکن بدؤوں نے انکار کردیا وہ آزاد لوگ ہیں کسی کا حکم نہیں مانتے انہیں تم اپنے راستے پر چلانا چا ہو تو اس طریقے سے بات کرو جو ان کے دلوں کو اچھی لگے، اگر انہیں اپنی رعایا سمجھ کر مویشیوں کی طرح ہانکنا چاہو گی تو وہ تمہارے پیچھے نہیں چلیں گے۔
کیا تمہیں معلوم ہے نوشی نے پوچھا کہ ساڑھے تین چار ہزار بدوّ مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہو گئے ہیں,,,,,,
مجھے معلوم ہے سیلی نوش نے نوشی کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔۔۔۔ کوئی ایسا آدمی بات کرےجو مسلمانوں کی طرح بات کرنا جانتا ہو اور اس کا رویہ مسلمانوں جیسا ہو,,,,,,,, پہلے یہ بتاؤ تم کہنا کیا چاہتی ہو ؟ اور یہ بتاؤ کہ تمہارا یہ منگیتر بات کیوں نہیں کرتا؟
یہ بھی بات کرے گا۔۔۔ نوشی نے اپنے منگیتر کے متعلق کہا ۔۔۔پہلے مجھ سے سن لو کے میں کیا چاہتی ہوں,,,,,,,, میں بدوؤں کی ایک فوج بنانا چاہتی ہوں میرا یہ ملازم مجھے اپنے ساتھ لایا ہے یہ انہیں بدوؤں کے ایک قبیلے کا فرد ہے ۔ یہ مجھے ایک جادوگر ہامون کے پاس لے جارہا ہے اور کہتا ہے کہ بدوّ اسے مانتے ہیں ۔کیا اس مسئلے میں میری کچھ مدد کر سکتے ہو؟
میں ہامون کو جانتا ہوں ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ کہو گی تو میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گا میں اس لئے تمہارے ساتھ چلوں گا کہ میری وفاداری رومیوں سے ہے۔
نوشی نے سیلی نوش کے ساتھ وہ ساری باتیں کی جو وہ اپنے خاندان کے افراد کے ساتھ اور پھر منگیتر کے ساتھ اور بدو ملازم کے ساتھ بھی کر چکی تھی۔ اس نے بتایا کہ
وہ کس طرح اس ملازم کو ساتھ لے کر اپنے خاندان سے نظر بچا کر الگ ہوئی اور چھپتی چھپاتی اس طرف آ گئی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ منگیتر کس طرح اس کے پیچھے آیا اور یہاں آکر اسے آن لیا۔
یہ لوگ مجھے پاگل سمجھتے ہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ یہ بیچارہ تو میرا ملازم ہے اس لئے میرا ساتھ دے رہا ہے لیکن منگیتر مجھے واپس لے جانے آیا تھا میں سلطنت روم کی ان پر اپنی محبت ہی نہیں اپنی جان بھی قربان کردوں گی۔ تم سوچو ملک شام ہم سے چھن گیا ہے اور مسلمان مصر کا دوسرا بڑا شہر بھی ہم سے لے چکے ہیں۔ ہم جب تک قومی جذبے کی شدت سے پاگل نہیں ہو جائیں گے ان مسلمانوں کو جو دراصل عرب کے بدو ہیں پیچھے نہیں دھکیل سکیں گے ان سے ہمیں ملک شام بھی لینا ہے۔
آفرین!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔۔ تمہارے اس جذبے کی قدر صرف میں کرسکتا ہوں مجھے امید ہے کہ بدوؤں کی ایک فوج تیار ہوجائے گی لیکن پہلے ہامون کے ساتھ بات کرنی ہو گی۔
میں پہلے زبردستی والی بات صاف کر دوں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ میرے قومی جذبے کی شدت کا یہ عالم ہے کہ میں نے تلوار نکالی تھی اور تم نہ آجاتے تو میں منگیتر کو قتل کر دیتی یا اس کے ہاتھوں قتل ہو جاتی ان دونوں نے مجھ سے تلوار چھیننے کے لئے مجھے جکڑ لیا تھا اور تم آگئے۔
دیکھ شہزادی!،،،،،، سیلی نوش نے کہا ۔۔۔ان کا تم پر یہ جبر غلط نہیں تھا جس کام کےلیئے تم لوگ آئے ہو یہ تم جیسی ایک لڑکی کے بس کی بات نہیں تمہاری عمر اور تمہارا حسن ایسا ہے کہ ہمارے کسی مذہبی پیشوا کی نیت بھی خراب ہوسکتی ہے قبیلوں کے سردار آسمان سے اترے ہوئے فرشتے نہیں,,,,,,,, اب تمہارا منگیتر بھی آگیا ہے اور میں بھی آگیا ہوں میں جا تو کہیں اور رہا تھا لیکن مجھ میں بھی وہ جذبہ ہے جو تمہیں پاگل کیے ہوئے ہے میں تمہارا ساتھ دوں گا۔
کام دو ہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ ایک یہ کہ ان بدوؤں کو رومی فوج میں لانا ہے۔ اور دوسرا کام یہ کہ جو بدو مسلمانوں کے پاس چلے گئے ہیں انہیں مسلمانوں کے خلاف بدظن کرکے واپس لانا ہے۔
یہ دوسرا کام آسان نہیں سیلی نوش نے کہا۔۔۔ اس کے لیے ہمیں اپنے کچھ آدمی وہاں بھیجنے پڑے گے جو یہ ظاہر کرینگے کہ وہ مسلمانوں کے لشکر میں شامل ہونے کے لئے آئے ہیں۔ اور وہ مسلمانوں کے کردار سے بہت ہی متاثر ہیں پھر یہ آدمی درپردہ ایسے حالات پیدا کرلیں گے جو بدوؤں کو مسلمانوں کے خلاف بدظن کریں گے۔
اس کے بعد سیلی نوش نے ایسی دانشمندانہ باتیں کی کہ نوشی اور اس کا منگیتر اس سے پوری طرح متاثر ہوگئے اور منگیتر نے نوشی کو واپس لے جانے کا ارادہ ترک کردیا اور سیلی نوش کے ساتھ جانے پر تیار ہو گیا۔
تم فوج میں عہدیدار ہو اور شاہی خاندان کے فرد بھی ہو۔۔۔۔ سیلی نوش نے نوشی کے منگیتر سے کہا۔۔۔ تم وہ باتیں بھی جانتے ہو گے جو فوج کے بعض بڑے افسروں کو بھی معلوم نہیں ہوتی میں تم سے کچھ معلوم کرنا چاہتا ہوں میں حیران ہوں کے عریش کے بعد مسلمانوں نے فرما جیسا شہر بھی فتح کرلیا ہے جس کے متعلق اب تک یہی سنا جا رہا تھا کہ اس شہر کو کوئی طاقت فتح نہیں کر سکتی کیونکہ یہ پہاڑی پر آباد کیا گیا ہے۔ اور اس کی ایک نہیں کئی قلعہ بندیاں ہیں۔ یہ بھی سنا ہے کہ مسلمانوں کی تعداد بہت ہی تھوڑی ہے اور اگر تین ساڑھے تین ہزار بدوّ ان سے جا ملے ہیں ۔ پھر بھی رومی فوج کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ مسلمانوں کی یہ تھوڑی سی فوج رومی فوج کے سائے میں گم ہو جاتی ہے۔
اس شکست کی ایک وجہ ہے۔۔۔ منگیتر نے کہا۔۔۔مقوقس اور اطربون نے یہ سوچا کہ مسلمانوں کو اور آگے آنے دیا جائے اس سے یہ حملہ آور اس خوش فہمی میں مبتلا ہو جائیں گے کہ مصر کو فتح کر لینا کوئی مشکل کام نہیں،،،،، نوشی کے منگیتر نے وہ تمام وجوہات تفصیل سے بیان کیں جن کا پہلے ذکر ہوچکا ہے اس نے ایک بات یہ بھی بتائیں کہ رومی فوج کو ایک ذمہ داری یہ بھی سونپی گئی ہے کہ وہ قبطی عیسائیوں پر نظر رکھیں کیونکہ خطرہ ہے کہ وہ بغاوت کر دیں گے۔ اس طرح رومی فوج سارے ملک میں بکھر گئی ہے جو ایک کمزوری ہے۔
اس سے آگے بلبیس ایک اور بڑا شہر ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا ۔۔۔کیا اس شہر کا دفاع بھی کمزور رکھا جائے گا تاکہ مسلمان اور آگے آجائیں؟
شاید نہیں!،،،،، منگیتر نے جواب دیا۔۔۔ جہاں تک میں جانتا ہوں بلبیس مسلمانوں کے لئے ایک پھندہ ہو گا جس میں وہ آکر نکل نہیں سکیں گے۔ وہاں مقوقس یا اطربون فوج کی قیادت سنبھالے گا،،،،،،،، مسلمانوں کو پیچھے سے کمک نہیں مل رہی وجہ معلوم نہیں۔ ہم مدینہ تک اپنے جاسوس بھیج رہے ہیں جو وہاں کی کمزوریاں بھی بتائیں گے۔
نوشی کا منگیتر سیلی نوش سے اس قدر متاثر ہو گیا تھا کہ اس نے کچھ گہرے راز کی فوجی باتیں بھی اسے بتا دیں۔ سیلی نوش کا اندازہ ایسا تھا جیسے وہ جنگی اور سیاسی امور کو بڑی اچھی طرح سمجھتا ہے۔
بہت سی باتیں کہہ سن کر سیلی نوش نے انھیں کہا۔۔۔۔ کہ چلو اب ہامون کے پاس چلتے ہیں اب انہیں بدوّ ملازم کی ضرورت تو نہیں تھی لیکن ہامون کا ٹھکانہ صحیح طور پر اسے ہی معلوم تھا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہامون کے ٹھکانے تک پہنچتے شام ہوگئی۔ وہ بڑے جانوروں کی کھالوں کا بنا ہوا خیمہ تھا جو عام قسم کے خیموں سے دو گنا کشادہ تھا۔ خیمے کے باہر ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا جس کی عمر چالیس سال کے لگ بھگ تھی اس کا رنگ گہرا سانولا تھا، آنکھیں لال سرخ اور دانت زردی مائل تھے، اس کے چہرے پر کراہت اور نحوست کا تاثر تھا جسے چھپایا نہیں جاسکتا تھا ،اس کے سر کے بال شانوں تک آئے ہوئے تھے، اور اس نے سر پر بڑا ہی میلہ اور بد رنگ سا کپڑا باندھ رکھا تھا، دو آدمی اس کے پاؤں میں بیٹھے اس کی ٹانگیں دبا رہے تھے۔ یہ تھا وہ شخص ہامون جو ان بدوؤں کا پیرومرشد بنا ہوا تھا۔
سیلی نوش ، نوشی، اس کا منگیتر، اور بدوّ ملازم اس کے سامنے گئے اور رک گئے۔ بدوّ ملازم نے جھک کر اسے سلام کیا ہامون نے انھیں اس طرح دیکھا جیسے وہ خود نہیں بلکہ یہ چاروں حقیر اور قابل نفرت انسان ہوں۔
اے ہامون!،،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ میں تیرے لیے مہمان لایا ہوں یہ کوئی عام لوگ نہیں بلکہ یہ شاہی خاندان کے لوگ ہیں۔ یہ لڑکی شہزادی ہے اور یہ اس کا منگیتر ہے اور یہ فوج میں عہدیدار ہے، اور یہ شخص اس کا ملازم ہے۔
ہامون نے ہاتھ سے اشارہ کیا جو یہ تھا کہ زمین پر بیٹھ جاؤ ،اس کے انداز میں شاہی خاندان کا ذرا سا بھی احترام معلوم نہیں ہوتا تھا ،چاروں زمین پر بیٹھ گئے۔
کوئی بادشاہ ہو یا بھیکاری یہاں آکر سب ایک ہوتے ہیں۔۔۔ ہامون نے جھومتی ہوئی آواز میں کہا ۔۔۔ہرقل بادشاہ ہے لیکن رومی بادشاہی کا رس صحراؤں کی ریت نے چوس لیا ہے۔ کہاں ہے ہرقل اس نے اپنی شہزادی کو کیوں بھیجا ہے؟
ہم سے پوچھ ہامون۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ ہم یہی معلوم کرنے آئے ہیں کہ رومی بادشاہی کو ریت کے ذروں نے چوس لیا ہے اور باقی جو رہ گئی ہے کیا وہ نیل کے دریا میں ڈوب تو نہ جائے گی؟
ریت کی آندھی جو عرب سے اٹھی ہے وہ نیل تک پہنچ رہی ہے۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔ ہرقل بزنطیہ میں بیٹھا حکم چلا رہا ہے، مقوقس اور اطربون اسکندریہ میں بیٹھے اپنی تباہی کا تماشہ دیکھ رہے ہیں، پھر اس کی آندھی کو کون روکے گا۔
تو روکے گا ہامون ۔۔۔سیلی نوش نے کہا ۔۔۔ہم تیرے پاس ہی فریاد لے کر آئے ہیں جو بات تو نے کہی ہے کہ سب دور بیٹھے تماشہ دیکھ رہے ہیں یہی بات اس شہزادی کے دل میں ہے اور اس کے دل کو جلا رہی ہے یہ اپنی ایک فوج بنانا چاہتی ہے جس میں اس علاقے کے بدوّ شامل ہوں گے ،ذرا غیب کے پردوں کے پیچھے جھانک اور بتا کہ اس میں اس شہزادی کو کامیابی ہوگی یا نہیں ؟،،،یا سلطنت روم کے لیے ان سیاہ پردوں کے پیچھے کیا ہے؟
میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔۔۔ ہامون نے مخمور سی آواز میں کہا ۔۔۔کبھی تو میرا حال ایسا ہوجاتا ہے کہ کچھ جاننا چاہتا ہوں تو کچھ سراغ نہیں ملتا ، زمین بھی چپ اور آسمان بھی چپ رہتا ہے۔ بعض پردے سفید ہوتے ہیں اٹھاؤ تو ان کے پیچھے ساری فضا اور ہر چیز سیاہ کالی ہوتی ہے ،اور بعض پردے سیاہ کالے ہوتے ہیں ہٹاؤ تو ان کے پیچھے سب کے دودھ جیسے سفید اجالے نظر آتے ہیں،،،،، اندر چلو۔
ہامون اٹھا اور خیمے کے اندر چلا گیا۔ سیلی نوش، نوشی، اور اس کا منگیتر بھی اس کے پیچھے خیمے میں چلے گئے اور سب کے بعد بدوّ ملازم بھی جھکا جھکا سا خیمے میں گیا اور اپنے آقاؤں کے پیچھے زمین پر بیٹھ گیا۔ ان چاروں نے خیمے میں نگاہیں دوڑائیں تو انہیں یوں لگا جیسے کسی بڑے ہی پراسرار اور ڈراؤنے ماحول میں آ گئے ہوں، جس کا اس زمین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ،تاثر یہ پیدا ہوتا تھا جیسے یہ خیمہ نہ زمین پر ہے نہ آسمان پر بلکہ زمین اور آسمان کے درمیان پھیلے ہوئے خلاء میں معلق ہے اور یہ ان جیسے انسانوں کا ٹھکانہ نہیں۔
یہ ہامون کی دنیا تھی خیمے میں پانچ چھ خشک انسانی کھوپڑیاں لٹک رہی تھیں، خیمے کے کچھ حصے میں ہامون نے زمین پر گدا رکھ کر اپنے بیٹھنے کی جگہ بنا رکھی تھی دو انسانی کھوپڑیاں اور بازوؤں کی تین چار ہڈیاں وہاں بھی رکھی تھی اور کچھ اور سامان بھی تھا اور سب سے زیادہ خوفناک چیز ایک سیاہ کالا ناگ تھا جو کھلی ہوئی ٹوکری سے باہر نکل رہا تھا۔
ہامون اپنی جگہ بیٹھ گیا ٹوکری سے نکلتا ہوا ناگ اس کی گود میں سے گزرنے لگا لیکن آگے جانے کی بجائے اس نے پھن پھیلا دیا اور اس کی گود میں جھومنے لگا۔
ہامون کے دائیں طرف ایک کالا پردہ لٹک رہا تھا ہامون نے یہ پردہ ایک چھڑی سے دھکیل کر ہٹا دیا اور اس کے پیچھے سے جو چیز برآمد ہوئی وہ دیکھ کر نوشی کے منہ سے ہلکی سی چیخ نکل گئی وہ انسانی ہڈیوں کا مکمل ڈھانچہ تھا۔
مت ڈرو شہزادی!،،،،، ہامون نے کہا۔۔۔ کبھی تیرا بھی یہ حسین و جمیل جسم اسی حالت میں لوگوں کے سامنے آئے گا اور دیکھنے والے سوچیں گے کہ یہ کون تھا۔ وہ خود ہی اپنے آپ کو جواب دیں گے کہ یہ کوئی انسان ہی تھا ۔ یہ ڈھانچہ مجھے میرے استاد نے دیا تھا اور میرے استاد کو اس کے استاد نے دیا تھا اور یہ روایت چلی آرہی ہے کہ یہ کبھی مصر کی ملکہ ہوا کرتی تھی۔ اس کا شغل میلہ یہ تھا کہ ایک تو انسانوں کو قتل کروا کر ان کے تڑپنے کا خون بہنے کا اور آخری سانس نکل جانے کا تماشہ دیکھا کرتی تھی۔ پھر اس کا ایک شغل اور بھی تھا، کسی غلام کو ساری رات اپنے ساتھ رکھتی اور صبح اسے خنجر دے کر کہتی کہ اس سے اپنا پیٹ اس طرح چاک کر لو کہ سب کچھ باہر آ جائے۔ غلام اس حکم کی تعمیل کرتا اور ملکہ کی تفریح طبع کا ذریعہ بنتا تھا۔ آخر یہ اپنے ایک غلام کے ہی ہاتھوں اس انجام کو پہنچی، اس غلام نے ساری رات ملکہ کے ساتھ گزاری لطف اندوز ہوا جب ملکہ نے اسے اپنا خنجر دے کر کہا کہ اپنا پیٹ چاک کر لو تو غلام نے خنجر لیا اور ملکہ کا پیٹ چاک کر دیا اس کے پیٹ سے سب کچھ باہر آگیا اور غلام اسے تڑپتا دیکھ کر قہقہے لگاتا رہا۔ ملکہ تڑپ تڑپ کر مر گئی تو غلام نے اپنا پیٹ چاک کر لیا۔ آج اس ملک کو دیکھ لو ۔۔۔۔اس نے اس ڈھانچے کی طرف اشارہ کیا اور کہنے لگا ۔۔۔میں نے بڑی مشکل سے اس کی روح کا سراغ لگایا ہے اور کبھی کبھی اس کی روح کو بلایا کرتا ہوں۔
ہامون کی یہ بات سننے والے تین آدمی اور ایک نوجوان لڑکی تھی ان پر ایسا تاثر چھا گیا جیسے ان کی روحیں ان کے جسموں سے نکل گئی ہوں اور پیچھے گوشت پوست کے اکڑے ہوئے جسم رہ گئے ہوں، ایک تو بات ایسی تھی اور دوسرے ہامون کے سنانے کا انداز ایسا تھا کہ سننے والوں پر بڑا ہی عجیب تاثر پیدا ہوتا تھا۔
ایک بات بتاؤ گے ہامون !،،،،،نوشی نے دل مضبوط کرکے پوچھا۔۔۔ اس ملکہ کی روح کے ساتھ تمہاری کیا باتیں ہوتی ہیں؟
بڑی لمبی باتیں ہوتی ہیں ۔۔۔ہامون نے کہا۔۔۔ ابھی میں تمہیں اس قابل نہیں سمجھتا کہ ایک روح کی باتیں تمہیں سناؤں۔۔
بعد میں سناؤں گا ضرور۔۔۔۔ تمہارے کام آئیں گی۔
اگر تم شہزادی ہو تو ملکہ بھی بن سکتی ہو، اس ملکہ کی روح نے مجھے بتایا تھا کہ ملکہ اتنی زیادہ خوبصورت تھی کہ اس کے حکم سے اپنا پیٹ اپنے ہاتھوں چاک کرنے والے فخر محسوس کرتے تھے کہ وہ اس ملکہ کے حکم کی تعمیل کر رہے ہیں وہ تم جیسی ہی خوبصورت ہو گی کوئی عورت ملکہ بھی عورت جیسی حسین بھی ہو وہ اپنے آپ کو دیوی سمجھ کر خدا کو بھول جاتی ہے۔ لیکن خدا اپنے کسی بندے کو نہیں بھولتا اور ہر بندے کے. وہ اعمال بھی دیکھتا ہے جو بندہ اپنے آپ سے بھی چھپاتا پھرتا ہے۔
آج کا ہرقل کل ہڈیوں کا ڈھانچہ ہو گا۔ لمبی باتیں ہیں بڑی لمبی باتیں تم اپنی بات کرو۔
سیلی نوش نے نوشی کی ساری بات ہامون کو سنائیں اور پھر اسے یاد دلایا کہ وہ بتائے کہ یہ لڑکی کامیاب ہوگی یا نہیں؟،،، اور کامیابی نظر نہ آئے تو کیا کوئی ایسی صورت پیدا کی جاسکتی ہے کہ اسے کامیابی حاصل ہو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت تک اتنا لمبا کالا ناگ ہامون کے گردن کے گرد ایک چکر لگا چکا تھا اور اس کا منہ دوسرے کاندھے پر تھا۔ ناگ نے ہامون کے اشارے پر منہ اٹھاکر پھن پھیلا دیا جو اتنا ہی چوڑا ہو گیا تھا جتنا چوڑا ہامون کا چہرہ تھا ۔اب تو ہامون اور ہی زیادہ خوفناک نظر آنے لگا تھا ناگ کا باقی حصہ ہامون کی گود میں اکٹھا ہو گیا تھا اور کنڈلی مارنے کے انداز سے حرکت کر رہا تھا۔
ہامون نے ہاتھ لمبا کرکے ایک ڈنڈا اٹھایا جو کم و بیش دو فٹ لمبا اور دو اڑھائی انچ موٹا تھا اس پر مختلف رنگوں کا کپڑا لپیٹا ہوا تھا اور اس کے ایک سرے پر مختلف پرندوں کے رنگ برنگے پَر بندھے ہوئے تھے۔ ہامون نے اوپر دیکھنا شروع کردیا ذرا ہی دیر بعد اس کا جسم تھر تھر کانپنے لگا اس نے ڈنڈا اوپر کردیا اور ڈنڈا بھی لرزنے لگا یہ لرزاں یا ریشہ بڑھتا گیا اور وہ آہستہ آہستہ اٹھنے لگا۔
وہ جب کھڑا ہو گیا تو اس کا جسم اتنی زور سے لزرنے لگا جیسے یہ شخص گر پڑے گا۔ اور شاید زندہ نہ رہ سکے اس کا سر پیچھے ہی پیچھے ہوتا جا رہا تھا اور اس طرح اس کا منہ پوری طرح آسمان کی طرف ہوگیا ناگ اس کی گردن سے لپٹا ہوا تھا۔
ہامون نے دوسرے ہاتھ سے ناگ اپنی گردن سے الگ کرنا شروع کر دیا اور اسکا جسم پہلے سے زیادہ کانپنے لگا۔ ہامون نے اس قدر زیادہ کانپتے ہوئے ہاتھ سے نہ جانے کس طرح ناگ کو پکڑ لیا اور اسے اپنے پیچھے ایک کالے کپڑے پر رکھ دیا ناگ نے کچھ دیر ادھر ادھر رینگ کر سر اٹھایا اور پھن پھیلا دیا۔
ہٹا دے پردہ!۔۔۔۔۔ ہامون نے منہ اور زیادہ اوپر کرکے بڑی بلند آواز سے کہا ۔۔۔دکھا دے جو کچھ بھی ہے،،،،،، ہٹا دے پردہ۔
اس کے جسم نے اور ہی زیادہ تھرکنا اور لزرنا شروع کردیا اس کے ساتھ وہ اپنا سر بڑی زور زور سے کبھی دائیں کبھی بائیں اور کبھی آگے اور پیچھے مارتا تھا۔ اس نے کچھ اور بھی کہا جو کوئی بھی نہ سمجھ سکا نہ یہ پتہ چلتا تھا کہ یہ کون سی زبان ہے ، یوں معلوم ہوتا تھا جیسے یہ کوئی غیر مرئی طاقت ہے جس نے اس کے بدن پر قبضہ کر لیا ہے۔ اور یہ طاقت اس کے جسم کو توڑ پھوڑ کر پھینک دے گی دیکھنے والوں پر خوف طاری ہوا جا رہا تھا۔
خاصی دیر بعد ہامون کا جسم سکون میں آنے لگا تھرکنا کم ہوتا گیا پھر رعشہ سا رہ گیا اور آخر جسم ساکن ہو گیا۔
ہامون کے چہرے اور کچھ حرکت سے صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ ابھی نارمل حالت میں نہیں آیا۔ اس کی آنکھوں میں کوئی ایسا تاثر تھا جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ دور کی کوئی چیز دیکھنے کی کوشش کررہا ہے کبھی وہ ڈنڈے کو زور زور سے ہلاتا اور اسے ہوا میں اس طرح مارتا جیسے کسی آدمی یا جانور کو مارا جاتا ہے ۔وہ بڑی تیزی سے پیچھے کو مڑا۔
اس کا ناگ سیاہ کپڑے پر ادھر ادھر رینگ رہا تھا۔
اس نے ڈنڈا سر سے اوپر کیا اور اس طرح اوپر سے نیچے کومارا جیسے وہ ناگ کو مارنا چاہتا ہو، اب ہامون کی پیٹھ ان لوگوں کی طرف تھی اس نے ڈنڈے سے سانپ کو چھیڑا تو سانپ نے پھن پھیلا لیا۔
بتا تو نے کیا دیکھا ہے۔۔۔ ہامون نے ناگ سے پوچھا۔۔۔ جلدی صحیح بول۔
سب کچھ تاریک ہے۔۔۔ یہ آواز ہامون کی نہیں تھی بلکہ کسی چھوٹے سے بچے کی تھی یا کسی بوڑھی عورت کی۔
سیلی نوش ،نوشی، اس کے منگیتر اور بدو ملازم نے حیرت سے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔
پھر دیکھ !،،،،،ہامون نے ناگ سے کہا۔۔۔ میں نے پردے اٹھا دئیے ہیں جو تو دیکھ سکتا ہے وہ میں نہیں دیکھ سکتا۔۔۔ پھر دیکھ۔
ہامون بار بار ڈنڈے کا وہ سرا جس پر پرندوں کے رنگ برنگ پَر بندھے ہوئے تھے ناگ کے پھن کے قریب لے جا کر زور زور سے ہلاتا تھا ۔اور اسی زور دار طریقے سے ناگ پھن دائیں بائیں ہلاتا اور کبھی پیچھے لے جاکر ڈنڈے پر جھپٹا تھا۔
تاریکی میں ایک مدھم سی کرن نظر آتی ہے۔۔۔ پھر اسی بچے یا بوڑھی عورت کی آواز سنائی دی جو پہلے بھی سنائی دی تھی۔
ہامون نے دو تین مرتبہ پھر ناگ سے کچھ ایسے ہی سوالات پوچھے اور اسے جواب بچے یا بوڑھی عورت کی زبان سے ملے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا اور ڈنڈا بڑی زور زور سے ہوا میں مارنے لگا وہ اچھلتا بھی تھا اور اس کی حرکتیں پاگلوں جیسی تھی۔
وہ اکڑوں بیٹھ گیا اور اب اس کا منہ ان لوگوں کی طرف تھا اس نے سر جھکا لیا اور خاصی دیر بعد سر اٹھایا اور نوشی کے چہرے پر نظریں گاڑ دی اسے ٹکٹکی باندھے دیکھتا رہا۔ پھر اٹھا اور نوشی کے سر سے ایک بال اکھاڑ لیا واپس اپنی جگہ گیا قریب پڑی ایک انسانی کھوپڑی اٹھا کر اپنے سامنے رکھی اور منہ ہی منہ میں کچھ بڑبڑا کر نوشی کے بال پر پھونک ماری اور بال کھوپڑی کے سر پر رکھ دیا۔
تمہیں دو تین دن یہاں رہنا پڑے گا۔۔۔ ہامون نے انھیں کہا ۔۔۔ہوسکتا ہے ایک دو دن زیادہ رکنا پڑے پورا جواب نہیں مل رہا۔۔۔ مل جائے گا۔ کامیابی صاف طور پر نظر نہیں آ رہی میں کچھ نہ کچھ کر لوں گا تمہارے رہنے کا انتظام موجود ہے میں نے مہمانوں کے لیے خیمے لگا رکھے تھے۔ تمہیں پورا آرام ملے گا اور کھانے پینے کا انتظام بھی موجود ہے ۔شاہی محل والا آرام نہیں ملے گا زمین پر سونا پڑے گا ۔اب جاؤ باہر دو آدمی موجود ہیں انہیں کہو وہ تمہیں مہمان والے خیموں میں لے جائیں گے۔
ہامون کے خیمے میں بڑے دیئے جل رہے تھے جن کی پیلی اور لرزتی روشنی میں ہامون پہلے سے زیادہ ڈراؤنا اور پراسرار نظر آرہا تھا وہ چاروں اٹھے اور خیمے سے نکل گئے۔ باہر جو دو آدمی بیٹھے ہوئے تھے وہ انھیں ایک طرف لے گئے تقریبا سو قدم دور ایک سرسبز ٹیکری تھی جس کے قریب تین چار خیمے لگے ہوئے تھے۔
ان آدمیوں نے انہیں بتایا کہ یہ مہمانوں کے خیمے ہیں اور ان میں اپنا ٹھکانہ بنا لیں۔ دونوں آدمی یہ کہہ کر چلے گئے کہ وہ وہ انکے لئے کھانا لائیں گے ۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلی صبح ہاموں نے چاروں کو اپنے خیمے میں بلایا اور پھر ویسی ہی حرکتیں کی جیسی اس نے گزشتہ رات کی تھی ۔اس روز تو وہ بالکل ہی پاگل ہو گیا تھا اور نظر یہ آتا تھا کہ ہوش وحواس میں نہیں آ سکے گا۔ اسی کیفیت میں اس نے اپنے ناگ سے کچھ سوال پوچھے اور اسے اسی بچے یا بوڑھی عورت کی آواز میں جواب ملے۔ ایک بار اس نے غصے کی حالت میں ناگ کی گردن پکڑی اور اسکا منہ اپنے منہ میں ڈال کر زور زور سے جھنجوڑا اور پھر اسے منہ سے نکال لیا۔
دو اڑھائی گھنٹے بعد اس نے ان چاروں سے کہا کہ وہ چلے جائیں اور سورج غروب ہونے کے بعد آئیں۔
وہ شام کے بعد ہامون کے خیمے میں گئے اس شام خیمے میں دو کی بجائے چار دیئے جل رہے تھے۔ ہامون نے انہیں وہیں بٹھایا جہاں پہلے بٹھایا کرتا تھا۔ ہامون خود ان کے سامنے آلتی پالتی مار کر بیٹھ گیا ۔وہی ڈنڈا اس کے قریب پڑا تھا جس پر رنگ برنگ کپڑے لپیٹے ہوئے تھے اور ایک سرے پر پرندوں کے رنگ برنگ پَر بندھے ہوئے تھے۔ اس نے ڈنڈا اٹھایا اور اس کے ساتھ ہی چاروں دیے بجھ گئے۔
ہامون نے کسی اجنبی زبان میں بڑے غصے میں کچھ کہا اور ڈنڈا زمین پر مارا۔ پہلے ایک دیا جلا۔ ہامون نے اسی زبان میں کوئی لفظ بولا تو دوسرا دیا جل اٹھا ۔اسی طرح باقی دو دئیے بھی باری باری جل اٹھے۔ پھر ہامون نے وہی حرکتیں شروع کر دیں لیکن اب اس کا انداز کچھ مختلف تھا۔
اس نے کہا کہ نوشی وہیں بیٹھی رہے اور باقی تینوں باہر نکل جائیں۔ تینوں آدمی خیمے سے نکل گئے اور خیمے کے پردے گر پڑے۔
کوئی زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ہامون نے تینوں کو پکارا اور اندر بلایا تینوں اندر چلے گئے۔
یہ سارا معاملہ اس لڑکی کا ہے۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔ مجھے اشارہ بھی مل گیا ہے اور استاد کی روح نے بھی بتایا ہے کہ ایسی بات ہے ہی نہیں کہ یہ لڑکی جو چاہتی ہے اس میں فوراً کامیاب ہوجائے گی۔ میں نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا ہے۔ میں اپنی ذمہ داری پوری کروں گا۔ لیکن اس لڑکی کو اپنے عمل میں شامل کرنا پڑے گا۔ وہ میں تمہاری موجودگی میں بھی کرسکتا ہوں لیکن نہیں کروں گا ۔کیونکہ تم اس لڑکی کو اس حالت میں دیکھو گے تو کہو گے کہ یہ تو پاگل ہو گئی ہے ۔اور پھر ہو سکتا ہے کہ اس کا منگیتر لڑکی کو گھسیٹ کر باہر لے جائے ۔اگر اس کام میں کسی نے دخل اندازی کی تو اس کا کوئی کچھ نہیں بگڑے گا لیکن یہ ناگ مجھے اور اس لڑکی کو بھی ڈس لے گا اور ہمیں مرنے میں ایک دو لمحے ہی لگیں گے۔
ہمیں تجھ پر اعتماد ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ ہم میں سے کوئی بھی دخل نہیں دے گا لیکن یہ کام ہونا چاہیے ۔یہ لڑکی اور اس کا یہ منگیتر شاہی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ان سے جو انعام مانگو گے تمھیں دے دیں گے۔
مجھے کوئی انعام نہیں چاہیے۔۔۔ ہامون نے کہا ۔۔۔میری یہ دنیا جو تم خیمے کے اندر دیکھ رہے ہو آباد رہنے دی جائے تو میرے لئے یہی انعام کافی ہے۔
اس رات نوشی کے ساتھیوں نے محسوس کیا کہ نوشی جو پہلے اتنا زیادہ بولتی تھی آج اس پر خاموشی طاری ہے اور وہ گہری سوچ میں چلی جاتی ہے۔ اسے کسی نے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کی یہ سب جانتے تھے کہ وہ قومی جذبے کے معاملے میں کتنی حساس ہے۔ اور سلطنت روم کی عظمت کو وہ اپنی ذاتی عزت اور آبرو سمجھتی ہے۔ اور چونکہ اسے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا اس لئے پریشان رہنے لگی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی