🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ*
✍🏻تحریر: *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➐➋】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عمرو بن عاص نے سالاروں کے ساتھ تبادلہ خیالات کرکے طے کر لیا کہ ان بدوؤں کو کس طرح استعمال کیا جائیگا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تاریخ میں یہ واضح نہیں کہ بدوؤں کا لشکر اسی دن سپہ سالار عمرو بن عاص کے پاس پہنچ گیا تھا یا کتنے عرصے بعد پہنچا تھا۔ بہرحال یہ واقعہ ہے کہ بدوؤں کا لشکر عمروبن عاص کے پاس پہنچ گیا تھا ۔
بعض مؤرخوں نے اس کی تعداد دو ہزار اور بعض نے تقریبا تین ہزار لکھی ہے۔
اگر یہ تعداد دس بارہ ہزار بھی ہوتی تو عمروبن عاص جیسے بیدار مغز سپہ سالار خوش نہ ہوتے اسلامی لشکر کے سپہ سالاروں میں یہی بنیادی خوبی تھی کہ وہ ہجوم میں یقین نہیں رکھتے تھے ان کا اصول یہ رہا کہ تعداد تھوڑی ہو لیکن اس میں جذبہ اور تنظیم ہو انہوں نے یہ تجربے کر کے دیکھے تھے ۔ساری دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈالا تھا اور آج تک تاریخ ان کی کامیابیوں کی داستان سنا رہی ہے۔
ہجوم کی مثالیں بھی اس وقت موجود تھیں کسریٰ ایران کے لشکر کی تعداد ہر محاذ پر ایک لاکھ بیس ہزار تھی لیکن صرف چالیس ہزار مجاہدین اسلام نے اس لشکر کو ہر محاذ پر شکست دی اور عیسائیت کا نام و نشان نہ رہنے دیا۔ شام میں ہرقل کے لشکر کی تعداد ہر جگہ ایک لاکھ اور اس سے کچھ زیادہ نہیں ہے لیکن پانچ پانچ دس دس ہزار مجاہدین اسلام نے ان جیسے وسیع و عریض ملک سے بے دخل کرکے مصر کی طرف دھکیل دیا۔ ہرقل کی آدھی سے زیادہ فوج مجاہدین کی تلواروں اور برچھیوں سے کٹ گئی اور رومیوں کی لاشیں مجاہدین کے گھوڑوں کے قدموں تلے روندی گئی تھی۔ عمرو بن عاص بدوؤں کے لشکر کو دیکھ کر یقیناً خوش ہوئے ہوں گے لیکن انہوں نے سب سے پہلے یہ دیکھا کہ ان لوگوں میں صلاحیت کتنی اور ڈسپلن کتنا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ یہ فطرتاً سرکش ہوں اور میدان جنگ میں اپنے کمانڈروں کے ہاتھوں سے نکل کر اپنی ہی لڑائی شروع کر دیں۔
عمرو بن عاص کو سب سے زیادہ ضرورت رسد کی تھی یہ ضرورت انہیں کچھ پریشان کررہی تھی مخبروں اور جاسوسوں نے انہیں بتا دیا تھا کہ ہر گاؤں میں رومی فوج پہنچ گئی ہے اور اس فوج کا مقصد صرف یہ ہے کہ یہ دیہاتی مسلمانوں کو اناج وغیرہ نہ دے سکیں۔ عمرو بن عاص کے لیے فائدے مند نہ تھا کہ وہ اپنے لشکر کی کچھ نفری دیہات میں بھیج دیتے کہ اناج اکٹھا کریں۔ وہاں تو لڑائی کا امکان بھی تھا اور لشکر میں اتنی نفری نہیں تھی کہ جو لڑتی بھی اور اناج بھی لاتی۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں سے صلاح مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ اس مقصد کے لئے بدوؤں کو استعمال کیا جائے۔ بدوؤں کے وہ سردار بھی ساتھ آئے تھے جو ابھی لڑنے کی عمر میں تھے۔ عمرو بن عاص نے بدوؤں کو متعدد جیشوں میں تقسیم کرکے ہر جیش کا ایک کمانڈر انہیں میں سے مقرر کردیا اور اس کمانڈر پر اپنے لشکر کا ایک عہدے دار لگا دیا۔
عمرو بن عاص نے بدوؤں کے سرداروں کو اپنے پاس بٹھا کر کچھ ہدایت دی اور بتایا کہ پیش قدمی کرتے ہوئے لشکر کے لیے رسد کتنی ضروری ہوتی ہے اگر اناج اور خوراک کی دیگر اشیاء کی کمی ہوجائے تو لشکر لڑنے کے قابل نہیں رہتا اور دشمن اس کمزوری سے پورا پورا فائدہ اٹھاتا ہے ۔ایسی اور بھی کچھ باتیں کرکے عمرو بن عاص نے بدوّ سرداروں کو بتایا کہ رسد اکٹھی کرنا ان کا کام ہے۔ رسد میں اناج شامل تھا اور وہ مویشی جو مسلمانوں کے کھانے کے لئے حلال تھے۔
یہ اتفاق کی بات تھی یا شاید یہ کام بدوؤں کی فطرت کے عین مطابق تھا ان کے سرداروں نے یہ ذمہ داری بڑی خوشی سے قبول کرلی اور عمرو بن عاص کو یقین دلایا کہ وہ مجاہدین کے لشکر کو رسد کی کمی محسوس نہیں ہونے دیں گے۔
لیکن ایک بات دماغ میں بٹھا لو۔۔۔ عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔اناج اور مویشی لانے کا مطلب یہ ہے کہ صرف اناج اور مویشی لائے جائیں کوئی اور لوٹ مار نہیں ہوگی اور کسی عورت کی طرف غلط نظر سے دیکھا بھی نہیں جائے گا ،ہم یہ چھوٹے چھوٹے گاؤں نہیں بلکہ بڑے بڑے شہر فتح کرنے نکلے ہیں۔ اصل خزانے ان شہروں سے ملیں گے ۔جن میں سے تمہیں پورا پورا حصہ ملے گا یہ بھی سوچ لو کہ ہر گاؤں میں رومی فوج موجود ہے جو تمہارا مقابلہ کریں گی کسی رومی فوج کو زندہ نہیں چھوڑنا اور گاؤں کے کسی آدمی پر ہاتھ نہیں اٹھانا۔
ان بدوؤں سے ایک فائدہ یہ بھی ملا کہ وہ ہر گاؤں سے واقف تھے انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ زیادہ اناج کون کون سے گاؤں سے مل سکتا ہے۔ جن بدوؤں کے پاس گھوڑے نہیں تھے انہیں گھوڑے دیے گئے اور بعض کو اونٹ دے دیے گئے ان کے تمام جیش دیہاتی علاقوں کی طرف کوچ کر گئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عمرو بن عاص کا رسد والا مسئلہ حل تو نہیں ہوا تھا لیکن اس کا انتظام ہو گیا تھا اور امید بندھ گئی تھی کہ لشکر بھوکا نہیں رہے گا۔ انہوں نے کوچ کا حکم دیا وہ جانتے تھے کہ پیش قدمی میں جتنی تاخیر ہورہی ہے اتنی ہی دشمن کو تیاری کی مہلت مل رہی ہے ۔لیکن وہاں احتیاط لازمی تھی کہ لشکر میں کمزوری اور کمی نہ رہ جائے پیش قدمی کی رفتار ابھی سست ہی رکھی گئی کیونکہ رسد کی صورتحال ابھی مبہم تھی۔
دن بھر کے سفر کے بعد رات عارضی پڑاؤ کیا گیا فجر کی نماز کے فوراً بعد لشکر پھر کوچ کر گیا صحرا ختم ہوتا جا رہا تھا اور کہیں کہیں سبزہ اور درخت نظر آنے لگے تھے وہ دن بھی گزر گیا اور لشکر ایک ایسی جگہ پہنچ گیا جہاں صحرا کے آثار ختم ہو گئے تھے اور اس جگہ ہریالی زیادہ تھی تھوڑی ہی دور ایک چشمہ مل گیا جہاں سے مجاہدین نے پانی کے مشکیزہ بھر لیے اور گھوڑوں اور اونٹوں کو بھی پانی پلا دیا گیا اس طرح مشکلات میں آسانی شروع ہوگئی۔
رات آدھی گزر گئی تھی جب سنتریوں نے لشکر کو جگا دیا ہڑبونگ بپا ہو گئی رات کی خاموشی میں ایسی آوازیں سنائی دے رہی تھی جیسے دشمن کی فوج گھوڑے سرپٹ دوڑاتی حملے کے لئے آرہی ہو مجاہدین بڑی تیزی سے مقابلے کے لیے تیار ہوگئے عمرو بن عاص نے اپنے لشکر کو مقابلے کی ترتیب میں کردیا حملے کا خطرہ تو ہر لمحے موجود تھا وہ دشمن کا ملک تھا دشمن کوئی بھی چال چل سکتا تھا۔
گھوڑوں کا یہ طوفان قریب آیا تو کچھ ایسا شور اور ایسے نعرے سنائی دیئے جو رومی فوج کے نہیں ہوسکتے تھے۔ سپہ سالار نے مشعلیں جلانے کا حکم دیا دیکھتے ہی دیکھتے بے شمار مشعلیں جل اٹھی اور جب آنے والے گھوڑے قریب آئے تو پتہ چلا کہ وہ بدوؤں کے دو جیش ہیں۔
بدوؤں کے تمام جیشوں کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ جب واپس آئیں تو لشکر انہیں کسی اگلے پڑاؤ میں ملے گا۔ چنانچہ یہ دو جیش پچھلے پڑاؤ کی طرف جانے کی بجائے آگے آ گئے تھے۔
ان جیشوں کے کئی ایک بدو ان کے ساتھ نہیں تھے وہ پیچھے رسد کے ساتھ آ رہے تھے جو انہوں نے دیہات کے ایک علاقے سے اکٹھا کر لی تھی ۔وہ بدوّ جب آگے آئے تو مجاہدین اسلام نے مسرت کے نعرے لگانے شروع کر دیئے۔ بے شمار گائے تھیں، بھیڑیں اور بکریاں تھیں، اونٹ اور بیل بھی تھے، اناج کی بوریاں ان پر لدی ہوئی تھیں، کچھ گاڑیاں بھی تھیں جو گائے کھینچتی آ رہی تھیں۔
یہ صرف چار یا پانچ گاؤں تھے جن پر بدوؤں نے شب خون مارا تو رومی فوجی بیدار ہوگئے۔ لیکن انہیں مقابلے کی تیاری کا موقع ہی نہ ملا بدوؤں نے ان سب کو کاٹ کر پھینک دیا اور پھر دیہاتیوں سے کہا کہ وہ خود ہی اناج اور اپنے مویشی باہر ایک جگہ اکٹھا کر دیں۔ اور انہیں کوئی تکلیف نہیں دی جائے گی دیہاتیوں نے مزاحمت نہیں کی بلکہ انہوں نے اناج اور مویشی بدوؤں کے حوالے کردیئے ۔بدوؤں نے انہیں پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ان کے گھروں کو لوٹا نہیں جائے گا اور کسی عورت پر بری نظر نہیں رکھی جائے گی نہ عورت پر ہاتھ اٹھایا جائے گا۔
ہر جیش کے ساتھ ایک ایک مسلمان کمانڈر تھا سپہ سالار عمرو بن عاص کے حکم کے مطابق ان تمام دیہاتیوں سے جن سے اناج اور مویشی لیے گئے تھے کہا گیا کہ یہ اناج وغیرہ بدوّ اپنے لیے نہیں لے جا رہے بلکہ یہ مسلمانوں کے لشکر کے لئے ہے۔
کمانڈروں نے ان لوگوں پر واضح کردیا کہ مسلمان مصر کو فتح کرنے کے لئے آئے ہیں اور اگر انہوں نے مصر فتح کر لیا تو ان لوگوں کو اس اناج اور ان کے مویشی کا پورا صلہ دیا جائے گا۔ اور اگر انہوں نے رومی فوج کی مدد کی اور مسلمانوں کے خلاف لڑائی میں شامل ہوئے تو پھر انہیں دشمن سمجھ کر ان کے ساتھ وہی سلوک کیا جائے گا جو دشمن مفتوح دشمن کے ساتھ کیا کرتا ہے۔
فرما اب زیادہ دور نہیں رہ گیا تھا عمرو بن عاص کو رسد کا مسئلہ حل ہو گیا تھا ۔بدوؤں کے دوسرے جیش بھی مویشی اور اناج لاتے رہے اور رسد اس قدر اکٹھا ہوگئی جو کئی ایک عرصہ تک کافی تھی۔ بدو نے ایک اور مسئلہ بھی حل کر دیا وہ یہ تھا کہ انہوں نے ثابت کردیا کہ وہ قابل اعتماد لوگ ہیں اور ان کی صحیح رہنمائی کی جائے تو وہ ہر اچھی بری صورتحال میں قابل اعتماد رہیں گے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اس پڑاؤ سے کوچ کیا اور ایک پڑاؤ اور کیا عریش سے فرما تک کا فاصلہ صرف ستر میل تھا اس سفر میں اتنی زیادہ پڑاؤ کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ مجاہدین کے لشکر تو بڑی تیز پیش قدمی کیا کرتے تھے لیکن عمرو بن عاص دانستہ زیادہ پڑاؤ کر رہے تھے۔ اب ان کا آخری پڑاؤ تھا اور یہاں سے سیدھا فرما پہنچنا اور اس تاریخی شہر کو محاصرے میں لینا تھا۔
اس آخری پڑاؤ میں انہوں نے لشکر کی تنظیم نو کی اور سالاروں کو ترتیب وتنظیم اچھی طرح ذہن نشین کرا دی بدوؤں کے تمام جیش واپس آ گئے تھے۔
عمرو بن عاص نے سالاروں سے صلاح مشورہ کر کے یہ فیصلہ کیا کہ بدوؤں کی یہ جیش توڑ دیے جائیں اور بدوؤں کو لشکر میں شامل کردیا جائے، مطلب یہ تھا کہ بدوؤں کے الگ دستے نہ بنے کیونکہ وہ بہرحال غیر مسلم تھے اور کسی بھی وقت میں وہ عیسائیوں کے زیر اثر آ سکتے تھے اس خطرے کو اسی طرح ختم کیا جا سکتا تھا کہ بدوؤں کو سارے لشکر میں بکھیر دیا جائے،،،، ایسا ہی کر دیا گیا
ایسی ضرورت کم ہی محسوس ہوتی تھی کہ لڑائی سے پہلے مجاہدین اسلام کو گرمانے اور بھڑکانے کے لئے جوشیلی تقریر کی جائے لیکن کبھی ایسی صورت حال پیدا ہو ہی جاتی تھی کہ مجاہدین کو بتانا ضروری سمجھا جاتا تھا کہ وہ جو جنگی مہم سر کرنے جا رہے ہیں وہ کوئی سہل مہم نہیں اور دشمن زیادہ طاقتور ہے اور مقابلے کے لیے تیار بھی ہے اور نہ جانے اس نے اور کیا کچھ انتظامات کر رکھے ہیں۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے ضروری سمجھا کہ لشکر کو خبردار کر دیں کہ وہ کس خطرے میں جارہے ہیں انہوں نے تمام لشکر کو جس میں بدوّ بھی شامل تھے ایک جگہ اکٹھا کیا اور اس لشکر سے خطاب کیا تاریخ میں ان کا مکمل خطاب نہیں ملتا مؤرخوں نے کچھ اہم اقتصابات لکھے ہیں۔
ایلفریڈ بٹلر نے لکھا ہے کہ عمرو بن عاص نے اپنے لشکر سے کہا ۔۔۔ہم مصر کو جانے والے اس راستے پر جا رہے ہیں جو ایک قدیم ترین راستہ ہے ہمارے پیغمبر دنیا عرب سے اسی راستے سے مصر آئے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام ،حضرت یعقوب علیہ السلام ،حضرت یوسف علیہ السلام ،حضرت عیسی علیہ السلام، کا پورا خاندان اسی راستے مصر پہنچا تھا۔ حضرت موسی علیہ السلام اسی راستے سے فرعون کے جادوگروں کے منہ پھیر کر اور ان کے دانت کھٹے کر کے مصر سے دنیا عرب کو گئے تھے۔ یہی دریائے نیل تھا جس نے حضرت موسی علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو راستہ دے دیا تھا اور جب ان کے تعاقب میں آنے والا فرعون راعمیس دوم نیل میں اترا تو نیل نے راستہ بند کردیا اور فرعون ڈوب مرا تھا ۔یہ ایک مقدس راستہ ہے یہ ہمارے پیغمبروں کا راستہ ہے یہ نہ سمجھنا کہ ہم کوئی ملک فتح کرنے آئے ہیں یہ ہماری اپنی سرزمین ہے اس ملک میں صرف اللہ کی حکمرانی چلے گی اور یہ حکمرانی تم قائم کرو گے ان شاء اللہ۔۔۔۔۔۔۔
اس راستے کے تقدس کا اندازہ اس سے کرو کے مصر اور افریقہ سے حج کو جانے والے مسلمان اسی راستے سے جاتے ہیں ۔یہ راستہ مسلمانوں کے لئے ہی نہیں عیسائیوں کے لئے بھی مقدس ہے عیسائی اسی راستے سے بیت المقدس جاتے ہیں اور آتے ہیں یہ حضرت عیسی علیہ السلام کا راستہ ہے لیکن مصر میں ایک بادشاہ نے عیسائیت کا چہرہ مسخ کرڈالا ہے اور اس نے اپنی عیسائیت بنا دی ہے اور یہ عیسائیت لوگوں سے منوانے کے لئے اس نے سچی عیسائیت کے ماننے والے ہزارہا لوگوں کو قتل کیا ہے۔ ہم ان عیسائیوں کو ہرقل کی عیسائیت بربریت اور ظلم و تشدد سے نجات دلانے آئے ہیں۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے عیسائیت کا ذکر غالباً اس لئے ضروری سمجھا تھا کہ ان کے ساتھ بدوؤں کا جو لشکر تھا بے شک توہم پرست ہی سہی لیکن بنیادی طور پر وہ عیسائی تھے ان کے خون کو گرمانا اور رومیوں کے خلاف بھڑکانا ضروری تھا ۔حقیقت یہ بھی ہے کہ جب عمرو بن عاص امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو مصر پر فوج کشی پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے تھے تو انہوں نے امیرالمومنین سے خاص طور پر عیسائیوں پر ہرقل کے ظلم و تشدد کا اور قتل و غارت کا ذکر کیا تھا اور کہا تھا کہ عیسائی چونکہ اہل کتاب ہیں اور اہل کتاب پر کوئی بادشاہ یا کوئی قوم ظلم کر رہی ہو اور ان کا کوئی مددگار اور پرسان حال نہ ہو تو مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ انھیں درندہ صفت بادشاہ سے نجات دلائیں ۔
عمرو بن عاص بڑے ہی دانشمند سپہ سالار تھے انہیں یہ بھی احساس تھا کہ صحیح عیسائیت کا اسقف اعظم بنیامین اگر میدان جنگ میں عملی طور پر مددگار اور معاون نہ ہوا تو درپردہ ضرور معاونت کرے گا۔
اس کے بعد عمرو بن عاص نے لشکر کو فرما کا محل وقوع بتایا اور یہ بھی کہ یہ قلعہ بند شہر میدان میں نہیں بلکہ ایک چٹانی قسم کی پہاڑی پر آباد ہے اور اس کے اردگرد صرف شہر بنا ہی نہیں بلکہ ایک بڑے خطرے کے علاوہ شہر کے ارد گرد چھوٹی چھوٹی قلعہ بندیاں ہیں یہ بھی بتایا کہ فرما میں جو رومی فوج ہے اس کی تعداد اپنے لشکر سے تین یا چار گنا زیادہ ہے، یہ بھی بتایا کہ اپنے پاس محاصرہ کرنے کا پورا سامان بھی نہیں ،اس خطرے سے بھی لشکر کو آگاہ کیا کہ رومی محاصرے سے نکل کر بھی حملہ کر سکتے ہیں۔ مشہور مسلمان تاریخ نویسوں مقریزی اور ابن عبدالحکم نے لکھا ہے کہ یہ ساری باتیں سنا کر عمرو بن عاص نے لشکر سے یوں خطاب کیا۔
مجاہدین اسلام یہ نہ سوچنا کے ہم تعداد میں بہت تھوڑے ہیں اور ہمارے پاس سازوسامان کی بھی کمی ہے کیا ہم ہر محاذ پر تھوڑے نہیں رہے۔ کیا تم نے شام میں انہیں رومیوں کے ایک ایک لاکھ لشکر کو اتنی ہی تھوڑی تعداد میں ہوتے ہوئے شکستوں پر شکست نہیں دی ۔کیا تم نے انہیں رومیوں کو شام میں کاٹا اور وہاں سے بھگایا نہیں۔ ان پر ابھی تک تمہاری دہشت طاری ہے ہم ہر محاذ پر صرف اس لئے فتح یاب ہوئے ہیں کہ اللہ ہمارے ساتھ ہیں اللہ اب بھی ہمارے ساتھ ہے اللہ کا فرمان ہے کہ جس نے میری اور میرے رسول کی اطاعت کی اور میرے راستے پر جہاد کیا اسے ہم نے تھوڑی تعداد میں بھی اور تمام کمزوریوں کے ہوتے ہوئے بھی دشمن پر غالب کیا ہے دشمن کو خوفزدہ کرو اس سے خوف زدہ ہونا نہیں اگر ہم نے یہ صرف ایک شہر فرما لے لیا تو یوں سمجھیں کہ دشمن پر ایک بار پھر غلبہ پا لیا اور اس کے نتیجے میں مصر اسلامی سلطنت میں آجائے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عمرو بن عاص نے عریش پر قبضہ کرتے ہی دو جاسوسوں کو بنیامین کے ساتھ بات کرنے کے لیے بھیج دیا تھا۔ پچھلے ایک باب میں تفصیل سے بیان ہو چکا ہے کہ بنیامین آبادیوں سے دور ایک دشوار گزار صحرائی علاقے میں چھپا ہوا تھا اور وہیں اس نے گرجا تعمیر کر لیا تھا۔ پہلے دو جاسوس اس کے ساتھ بات چیت کر آئے تھے یہ اس وقت کی بات ہے جب مصر پر فوج کشی کی صرف باتیں ہورہی تھیں اور امیرالمومنین نے ابھی عمرو بن عاص کو مصر پر حملے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اب عمرو بن عاص نے ضروری سمجھا کہ بنیامین کے ساتھ آخری اور حتمی بات ہوجائے۔
وہ دونوں جاسوس بنیامین سے مل کر واپس آگئے تھے عمرو بن عاص نے بنیامین کو یہ پیغام بھیجا تھا کہ رومی فوج میں مصر کے قبطی عیسائی ہیں وہ لڑیں نہیں اور اپنی فوج کو دھوکا دیں، دوسری بات یہ کہ دوسرے قبطی عیسائی فوج کے ساتھ کسی بھی قسم کا تعاون نہیں کریں بلکہ ہوسکے تو ہرقل کی حکومت کے خلاف بغاوت کر دیں۔
بنیامین دوراندیش آدمی تھا اور غیرمعمولی ذہانت کا حامل بھی تھا اس نے ان دو مجاہدین کو زبانی پیغام دیا اس نے کہا تھا کہ وہ لوگوں کو بغاوت پر بالکل نہیں اکسائے گا اس نے وجہ یہ بتائی کہ ابھی کچھ کہا نہیں جاسکتا کہ فتح ہرقل کی ہوگی یا عمرو بن عاص کی کہیں ایسا نہ ہو کہ مسلمان شکست کھاجائیں اور ادھر عیسائیوں نے بغاوت کر رکھی ہو تو ہرقل کسی ایک بھی قبطی عیسائی کو زندہ نہیں چھوڑے گا ۔اور ان کے بچوں تک کو قتل کروا دے گا۔
بنیامین نے یہ بھی کہا تھا کہ لوگوں کو اکسانے کی ضرورت ہی نہیں لوگ اس ظلم و تشدد کو اور درندگی کو کبھی نہیں بھولیں گے جو ہرقل کے حکم سے ان کے ساتھ ہوئی تھی وہ اپنے بیٹوں کو فوج میں نہیں جانے دیں گے اور اگر ہرقل نے جبری طور پر قبطی عیسائیوں کے بیٹوں کو فوج میں بھرتی کرنے کا حکم دیا تو تمام جوان سال قبطی گھروں سے نکل کر صحراؤں میں جا چھپیں گے۔
بنیامین نے یہ بھی کہا تھا کہ جو قبطی عیسائی فوج میں ہیں انھیں ابھی کچھ کہنا غیر ضروری ہے وہ رومیوں کے خلاف اس قدر جلا بیٹھے ہیں کہ وہ جان قربان کردینے والی لڑائی لڑیں گے ہی نہیں بات مختصر کی جائے تو بنیامین نے جو جواب بھیجا تھا اس کا لب لباب یہ تھا کہ قبطیوں کا رویہ مسلمانوں کے حق میں بھلے نہ ہو ہرقل اور اس کی فوج کے بالکل ہی خلاف ہو گا اور اسے خاصا نقصان اٹھانا پڑے گا۔
اس جواب سے سپہ سالار عمرو بن عاص مطمئن ہوگئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دو یورپی مؤرخوں نے تاریخ کے چھوٹے چھوٹے واقعات ذرا تفصیل سے لکھے ہیں۔ انھوں نے اسکندریہ کی ایک میٹنگ کا ذکر کیا ہے جس میں ایک مقوقس تھا، دوسرا جرنیل اطربون اور تیسرا سرکاری عیسائیت کا اسقف اعظم قیرس تھا۔ مقوقس نے کہا کہ اس نے فرما کا دفاع اتنا مضبوط کردیا ہے اور ایسے احکام بھیج دیے ہیں کہ مسلمان اسے فتح نہیں کر سکیں گے لیکن مقوقس قبطی عیسائیوں کے متعلق پریشان تھا۔
اسقف اعظم !،،،،،مقوقس نے حیرت سے پوچھا۔۔۔ کیا آپ عیسائیوں میں وہ جذبہ پیدا کرسکتے ہیں جو مسلمانوں میں ہے۔
نہیں!،،، قیرس نے دو ٹوک جواب دیا ۔۔۔کیا تم نہیں جانتے کہ قبطی عیسائی مجھے ہرقل کا قصائی کہتے ہیں میرے ہاتھوں ان عیسائیوں کا جو خون بہایا گیا ہے وہ خون مجھے عیسائی بخش تو نہیں دیں گے قاتل کو مقتول کے لواحقین سے رحم کی توقع رکھنی ہی نہیں چاہیے میں ان لوگوں کا سامنا کرنے کے بھی قابل نہیں۔
ان تینوں کے درمیان کچھ دیر تبادلہ خیال ہوتا رہا مقوقس اور اطربون، قیرس کو بار بار کہتے تھے کہ وہ مختلف شہروں میں جائے اور لوگوں کو گرجوں میں بلا کر مسلمانوں کے خلاف بھڑکائے لیکن قیرس مان نہیں رہا تھا
وہ کہتا تھا کہ اسے لوگوں نے نہیں بلکہ شہنشاہ ہرقل نے اسقفٰ اعظم بنایا ہے ۔اس نے یہ بھی کہا کہ لوگ اسے سرکاری جلاد کی حیثیت سے پہچانتے ہیں مگر اسے مذہبی پیشوا نہیں سمجھتے۔
آخر یہ طے پایا کہ مقوقس اگلے روز لوگوں کو اور فوج کو بھی گھوڑ دوڑ کے میدان میں اکٹھا کرکے خطاب کرے اگر یہ خطاب لوگوں نے قبول کر لیا تو مقوقس بڑے بڑے شہروں میں جا کر خطاب کرے گا۔
میں خطاب کی ضرورت تو نہیں سمجھتا تھا۔۔۔ اطربون نے کہا ۔۔۔میں نے فوج کو جس طرح تیار کیا ہے اس سے امید ہے کہ فوج ٹھیک طرح لڑے گی لیکن میں مسلمانوں کو بھی جانتا ہوں کہ وہ کس بے جگری سے لڑتے ہیں۔ ہماری فوج کا جانی نقصان زیادہ ہوگا شام میں ہمیں اس کا تجربہ ہو چکا ہے نفری کی کمی پوری کرنے کے لئے ہمیں مزید جوانوں کی ضرورت ہوگی اس کا ایک طریقہ ہے کہ بڑا ہی جوشیلا اور جذباتی خطاب کرکے لوگوں کو فوج میں آنے پر اکسایا جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسکندریہ شہر اور اردگرد کے دیہاتی علاقے میں جہاں جہاں تک سوار ہرکارے پہنچ سکتے تھے یہ اعلان کروایا گیا کہ کل فلاں وقت فرمانروائے مصر مقوقس خطاب کرے گا اور کچھ ضروری باتیں بھی بتائے گا،،،،،،، دیہات کے لوگ جوق درجوق پہنچنےلگے مقوقس کا خطاب کوئی معمولی بات نہیں تھی اس سے پہلے اس نے ایسا کبھی نہیں کیا تھا دیہات کے لوگوں کو ابھی تو یہ معلوم ہی نہیں تھا کہ مسلمانوں کا لشکر مصر میں داخل ہوچکا ہے اور اس نے شہر عریش لے بھی لیا ہے اور بڑی ہی شدید جنگ تیزی سے بڑھی آ رہی ہے۔
شاہی حکم کی تعمیل بڑی ہی تیزی سے ہوجایا کرتی تھی گھوڑے دوڑا کے میدانوں میں ایک چبوترا بنا دیا گیا اور مقررہ وقت سے پہلے فوج وہاں آ گئی اور لوگوں کا ایک ہجوم اکٹھا ہوتا جا رہا تھا اور دیکھتے ہی دیکھتے اتنے وسیع و عریض میدان میں کھڑا ہونے کی جگہ بھی نہ رہی۔
مقوقس شاہی بگھی میں شاہانہ انداز سے اس میدان میں آیا اور چبوترے پر جا کھڑا ہوا۔ محافظ دستے کے گھوڑسوار اس کے آگے دائیں بائیں اور پیچھے ایک ترتیب سے کھڑے ہوگئے اس وقت ضرورت یہ تھی اور حالات کا تقاضہ بھی یہی تھا کہ مقوقس شاہانہ طور طریقہ اختیار نہ کرتا اور مسلمانوں کی طرح ایک عام آدمی کی حیثیت سے آتا اور چبوترے پر کھڑا ہو کر یہ تاثر دیتا کہ وہ انہیں میں سے ہے۔ لیکن شہنشاہیت کا نشہ ایسا تھا جو ایک لمحے کے لیے بھی نہیں اترتا تھا ۔ مقوقس نے فوج پر اور پھر دور دور تک پھیلے ہوئے ہجوم پر نگاہ ڈالی تو شہنشاہیت کا نشہ اور بھی تیز ہو گیا ہوگا ۔ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ شہنشاہ تو ہرقل ہی تھا لیکن مقوقس کو اس نے مصر کا باج گزار فرمانروا بنا رکھا تھا۔ مقوقس لوگوں پر یہ ظاہر نہیں کرنا چاہتا تھا کہ وہ ہرقل سے کم حیثیت والا ہے۔
بہادر رومیو ،اور غیرت مند مصریوں!،،،،، مقوقس نے پھیپڑوں کا پورا زور لگا کر کہا۔۔۔ مسلمان اب تمہارے گھر میں آن پہنچے ہیں۔ وہ اس خوش فہمی میں آئے ہیں کہ تمہیں یہاں بھی شکست دے لیں گے انہوں نے شہر عریش پر قبضہ کر لیا ہے میں تمہیں بتاتا ہوں کہ انہوں نے یہ شہر لڑکر نہیں لیا بلکہ ہم نے وہاں سے اپنی فوج پہلے ہی نکال لی تھی۔ تاکہ مسلمان یہ شہر لے لیں، یہ ہم نے سوچ سمجھ کر چال چلی ہے کہ مسلمان اس خوش فہمی میں مبتلا ہوکر آگے آئیں اور ہم انہیں پھندے میں پھنسالیں اور ان میں سے کوئی ایک بھی واپس نہ جا سکے ،وہ اب شہر فرما کے قریب پہنچ گئے ہیں موت انہیں بڑی تیزی سے ہمارے پھندے میں لا رہی ہے۔
اس کے بعد اس نے اسلام کے خلاف اور مسلمانوں کے خلاف خوب زہر اگلا اور عیسائی فوج کو دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور فوج کہا پھر یہ کہا کہ دنیا میں صرف ایک مذہب کی حکمرانی ہوگی اور وہ مذہب عیسائیت ہوگا۔
لیکن یہ اس صورت میں ممکن ہوگا کہ تم عیسائیت کا تحفظ کرو مقوقس نے کہا۔۔۔ آج ملک اور مذہب قربانی مانگ رہے ہیں اگر تم نے شام کی طرح مصر بھی مسلمانوں کو دے دیا تو عیسائیت کا خاتمہ ہوجائے گا اور یہاں مسلمانوں کی حکمرانی ہوگی۔ وہ بزدل اور بے وقار تھے جو شام جیسا بڑا ملک مسلمانوں کے ناپاک قدموں میں پھینک کر بھاگ آئے۔ مصری اتنے بزدل نہیں ہوسکتے میں جانتا ہوں تمہاری تلواریں مسلمانوں کے خون کی پیاسی ہیں مسلمان آرہے ہیں اپنی تلواروں کی پیاس بجھا لو شام کی شکست کا انتقام دل کھول کر لو۔
مقوقس کی تقریر جو شیلی ہوتی چلی گئی اور پھر اس نے جذباتی رنگ اختیار کر لیا لیکن مقوقس نے یہ دیکھا کہ تقریر سننے والے جوش و خروش کا ذرا سا بھی اظہار نہیں کر رہے تھے ،ایسی تقریر اور ایسے خطاب کے دوران لوگ نعرے لگایا کرتے تھے لیکن وہاں سننے والے ہجوم پر خاموشی طاری تھی۔
مقوقس نے آخر میں یہ کہا کہ شام میں ہمارا شہنشاہ ہرقل اس غلط فہمی میں مبتلا رہا کہ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے اور انہیں بڑی آسانی سے شکشت دی جا سکے گی۔ لیکن نتیجہ اس کے بالکل برعکس نکلا مقوقس نے اس کی وجوہات بیان کیں اور اس فوج کے خلاف باتیں کیں جس نے شام میں شکست کھائی تھی اور کہا کہ وہ نئی فوج تیار کرنا چاہتا ہے جس کے لئے جذبے والے اور مضبوط دل والے جوانوں کی ضرورت ہے اس نے اور زیادہ جوشیلی اشتعال انگیز اور جذباتی باتیں کر کے جوانوں کو اکسانے کی کوشش کی کے وہ فوراً فوج میں شامل ہو جائیں۔
مقوقس غالباً انسانی فطرت کا یہ پہلو نظر انداز کر رہا تھا کہ انسانوں پر جبراً حکومت کی جا سکتی ہے ۔لیکن ان سے جبراً کوئی قربانی نہیں لی جاسکتی، مقوقس نے دیکھا کہ اس کی اس اشتعال انگیز دعوت کے جواب میں بھی ہجوم خاموش رہا جرنیل اطربون بھی وہیں تھا۔اس نے مقوقس کو اشارہ کیا کہ وہ تقریر روک دے، مقوقس نے یہ اشارہ سمجھتے ہوئے بھی اپنی زبان کا جادو جاری رکھا اور ایک بار پھر عیسائیت کا نام لیا۔
صرف ایک بات بتا دیں۔۔۔۔ ہجوم میں سے ایک بڑی ہی بلند آواز اٹھی۔۔۔ آپ کونسی عیسائیت کی بات کر رہے ہیں شاہ ہرقل اور قیرس کی عیسائیت کی، یا اسقف اعظم بنیامین کی عیسائیت کی۔
مقوقس پر خاموشی طاری ہو گئی جیسے وہ اس سوال پر بوکھلا گیا ہو وہ آخر شاہی خاندان کا فرد تھا اسے غصہ آ گیا لیکن غصے کا اظہار نہیں کیا، اطربون نے اسے کہا کہ قبطیوں کا رویہ خطرناک معلوم ہوتا ہے۔
دیکھو یہ آدمی کون ہے۔۔۔ مقوقس نے حکم کے لہجے میں کہا ۔۔۔اس کے اس سوال سے میری کم تمہاری اور شاہ ہرقل کی زیادہ توہین ہوئی ہے اس شخص کو گرفتار کر کے سزا دی جائے۔
نہیں!،،،،، اطربون نے کہا۔۔۔۔ چاہتا میں بھی یہی ہوں کہ اس شخص کو عبرتناک سزا دی جائے لیکن صورت حال کا تقاضا یہ ہے کہ ہم اپنا رویہ نرم رکھیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم سخت رویہ اختیار کریں تو قبطی سرکش اور باغی ہو جائیں۔
مقوقس اور اطربون وہاں سے غصے اور شرمندگی کے عالم میں چلے گئے، مقوقس نے فوری طور پر دو کام کیے ایک یہ کہ ایک قاصد ہرقل کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ مسلمان فرما کے قریب پہنچنے والے ہیں اور قبطی عیسائیوں کا رویہ مخالفانہ لگتا ہے، مقوقس نے ہرقل سے یہ درخواست کی تھی کہ اسے بتایا جائے کہ کیا کرے۔
مقوقس نے دوسرا کام یہ کیا کہ بڑی ہی تیزی سے ان فوجی دستوں کو فرما روانہ کردیا جن میں رومی عیسائی اکثریت میں تھے اور قبطی عیسائی بہت ہی کم یا نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان دستوں کو حکم دیا گیا کہ انتہائی تیزی سے فرما پہنچے اور وہاں جو دستے موجود ہیں ان میں قبطی دستے بھی ہیں ان سب کو واپس اسکندریہ بھیج دیا جائے۔ مقوقس کو یہ خطرہ صاف نظر آنے لگا تھا کہ فرما میں قبطی عیسائیوں کی تعداد زیادہ ہوئی تو وہ اتنا اہم اور قلعہ بند شہر مسلمانوں کو دے دیں گے۔
ہرقل بزنطیہ میں تھا بزنطیہ بہت دور تھا قاصد کو جانے اور آنے میں کئی دن درکار تھے ادھر سپہ سالار عمرو بن عاص کا لشکر فرما کے قریب پہنچ گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مجاہدین اسلام کے لشکر کو ہدف تک پہنچنے میں کچھ دن اور لگ گئے اس دوران اسکندریہ سے مقوقس کی بھیجی رومی فوج کے دستے فرما پہنچ گیا اور قبطی عیسائیوں کے دستے وہاں سے نکال دیے گئے اس طرح فرما کا دفاع مزید مستحکم ہو گیا تھا۔
مجاہدین نے فرما کو محاصرے میں لے تو لیا لیکن شہر پہاڑی پر ہونے کی وجہ سے شہر کے اردگرد جگہ بہت تنگ تھی اس کا مسلمانوں کو یہ نقصان ہو رہا تھا کہ شہر کی دیواروں اور پہلو سے جو تیر آتے تھے وہ مسلمانوں کو زد میں آسانی سے لے لیتے تھے یہ پہاڑی بجائے خود اس شہر کا ایک قدرتی دفاعی انتظام تھا۔
مجاہدین نے اپنی روایتی شجاعت اور بے جگری کا یہ مظاہرہ کئی بار کیا کہ دوڑ کر دروازوں تک پہنچے اور دروازے توڑنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے کیونکہ دروازے بہت مضبوط تھے اور اوپر سے تیروں کی بوچھاڑیں آتی تھیں۔ کئی مجاہدین دروازوں پر شہید اور شدید زخمی ہوگئے۔ پہلے بیان ہوچکا ہے کہ اس لشکر کے پاس محاصرے کا پورا سامان نہیں تھا منجنیقیں نہیں تھیں کمند پھینکنے والے رسے نہیں تھے، اور رسوں والی سیڑھیاں بھی نہیں تھیں، قلعہ سر کرنے میں تو مسلمان خصوصی مہارت رکھتے تھے۔ کمند پھینک کر بھی دیواروں پر چڑھ جایا کرتے اور جان قربان کر دیا کرتے تھے لیکن ان کے پاس ایسا کوئی سامان تھا ہی نہیں۔
مقوقس نے پہلے ہی اپنے دفاعی دستوں کو حکم دے رکھا تھا کہ مسلمانوں کی نفری تھوڑی ہے اور اسے بھگانے اور مارنے کا یہ طریقہ اختیار کیا جائے کہ ایک ایک دو دو دستے باہر بھیج کر ان پر حملہ کریں اور واپس قلعے میں آجایا کریں۔
ایک دو مؤرخوں نے لکھا ہے کہ محاصرہ ایک مہینے رہا بعض نے محاصرے کی مدت دو مہینے لکھی ہے ۔محاصرے کا صحیح عرصہ کہیں بھی نہیں لکھا قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ محاصرہ زیادہ لمبا نہیں ہوا تھا کیونکہ قلعے کی فوج نے باہر نکل نکل کر مسلمانوں پر حملے شروع کردیئے تھے مسلمانوں کی مجبوری یہ تھی کہ پہاڑی کے اوپر ان کے لیے لڑنے کی جگہ اتنی تھوڑی تھی کہ سالار کوئی پینترہ نہیں بدل سکتے تھے نہ کوئی چال چلنے کی پوزیشن میں تھے ان پر جب اندر سے حملہ آتا تھا تو وہ پیچھے ہٹتے اور پہاڑی کی ڈھلان ہی قدم جمانے نہیں دیتی تھی وہ مجبوراً پہاڑی سے اترآتے تھے رومی فوج نیچے نہیں آتے تھے وہ اوپر سے ہی واپس بڑی تیزی سے قلعے کے اندر چلے جاتے اور دروازے بند ہو جاتے تھے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص کو اس قسم کی لڑائیاں لڑنے کا خاص تجربہ تھا انہوں نے اس تجربے کے مطابق ایک پلان بنا لیا اور اپنے لشکر کا کچھ حصہ اس پلان میں شامل کیا اور اس حصے کے سالار کو اچھی طرح سمجھا دیا کہ اب اندر سے حملہ آئے تو اسے کیا کرنا ہے۔
ایک روز قلعے کے ایک طرف کے دو دروازے کھلے اور رومی فوج روکے ہوئے سیلاب کی طرح بڑی ہی تیزی اور شدت سے باہر نکلی اور اس طرف کے مجاہدین پر ہلہ بول دیا ۔
جس سالار کو عمرو بن عاص نے اپنا پلان دیا تھا وہ شہر کے ایک پہلو میں تھا۔
اس نے بڑی تیزی سے حرکت کی اور اپنے دستے ساتھ لے کر دیوار کے ساتھ ساتھ آیا تھا تاکہ دروازوں پر قبضہ کر لیا جائے لیکن رومی زیادہ تیز نکلے انہوں نے دیکھ لیا اور فوراً واپس ہوئے لیکن مسلمانوں نے پھر بھی انہیں روک لیا اب جو رومی فوج حملے کیلئے نکلی تھی اس کی تعداد پہلے حملوں سے خاصی زیادہ تھی۔
اب چونکہ مسلمان پہاڑی سے اترنے کے بجائے دیوار کے ساتھ تھے اس لیے انہوں نے جم کر مقابلہ کیا لیکن ان کی تعداد رومیوں کی نسبت بہت ہی کم تھی بڑا ہی خونریز معرکہ لڑا گیا بہت سے مجاہدین شہید ہو گئے رومی بھی بے شمار مارے گئے لیکن تعداد زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ مجاہدین پر غالب آگئے اور دروازوں میں داخل ہو کر اندر چلے گئے اور دروازے بند ہو گئے۔
مجاہدین کے لشکر کی نفری اور کم ہو گئی شہر کا دفاعی انتظام ایسا مستحکم تھا کہ شہر کے باہر جو درخت تھے وہ سب کاٹ دیے گئے تھے تاکہ محاصرہ کرنے والے درختوں پر چڑھ کر دیوار پر تیر اندازی نہ کرسکیں۔ عمرو بن عاص اور ان کے سالاروں کے لئے وہ صورتحال پیدا ہوگئی تھی جس میں بڑے بڑے نامور جرنیل بھی مایوس ہو جایا کرتے ہیں۔ لیکن سپہ سالار عمرو بن عاص نے سالاروں سے کہا کہ مایوسی جیسا گناہ نہ کرنا ان شاءاللہ فتح ہماری ہوگی، انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم یہیں ہار گئے تو ایوان خلافت میں ہماری کوئی حیثیت نہیں رہ جائے گی،،،، عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو ایک اور پلان دیا اور کہا کہ اس پلان میں یہ امکان موجود ہے کہ ہمارا آدھا لشکر یہیں ختم ہوجائے لیکن فتح یقینی ہوگی۔
تاریخ میں لکھا ہے کہ عجیب بات ہے کہ اتنے اہم شہر کے دفاعی دستوں کی کمانڈ لینے کے لیے نہ مقوقس فرما آیا نہ اطربون، تاریخ میں اس جرنیل کا نام نہیں ملتا جو اس شہر کا کمانڈر تھا وہ جو کوئی بھی تھا مقوقس کے احکام کے مطابق چل رہا تھا یہ احکام اور پلان اسے محاصرے سے پہلے ہی ذہن نشین کرا دیے گئے تھے۔
اس پلان کے مطابق اس نے زیادہ دستوں سے حملہ کروایا تھا۔ اب پلان کے فیصلہ کن حصے پر حملہ کرنا تھا ۔رومی جرنیل نے آدھی سے زیادہ فوج حملے کے لئے مختلف دروازوں سے باہر نکال دیں یہ دستے پہلے کامیابیوں سے بہت خوش تھے اور انہیں اب بھی کامیابی یقینی نظر آ رہی تھی ،ان کی نفری بھی اب بہت زیادہ تھی اس لئے وہ کچھ زیادہ ہی دلیر ہو گئے تھے۔
اس کثیر نفری نے محاصرے پر حملہ کیا تو عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو جو پلان دیا تھا اس کے مطابق مجاہدین لڑنے کے بجائے پہاڑی سے اس طرح اترنے لگے جیسے ڈر کر بھاگ نکلے ہوں، رومی پہلی کامیابیوں کے نشے سے سرشار ان کے پیچھے آئے عمرو بن عاص نے اس مقصد کے لئے کچھ دستے ریزرو میں رکھے تھے۔
جب رومی پہاڑی کی ڈھلان پر آئے تو مجاہدین کے ریزرو دستے تیزی سے حرکت کر کے ان کے عقب یعنی شہر کی دیوار اور رومیوں کے درمیان پہنچ گئے اور رومیوں پر ہلہ بول دیا۔ ایک دستہ یا غالباً کچھ نفری کھلے دروازوں میں سے قلعے کے اندر چلی گئی اس طرف کے رومی پھندے میں آگئے پہاڑی سے اتر جانے والے مجاہدین پھر پہاڑی چڑھنے لگے۔ اور انہوں نے رومیوں کو جو کاٹنا شروع کیا تو ان کے زخمی اور ان کی لاشیں لڑھکتی ہوئی نیچے ہی نیچے جانے لگی۔
یہ چال شہر کے صرف ایک طرف ہی نہیں چلی گئی بلکہ ایک اور پہلو پر یہی صورتحال پیدا ہوئی تو مجاہدین نے وہاں بھی رومیوں کے عقب میں جاکر ان پر ہلہ بولا اور کچھ مجاہدین قلعے کے اندر چلے گئے۔
رومی اس صورتحال کے لیے بالکل ہی تیار نہ تھے وہ تو پہلی کامیابیوں کو ذہن میں رکھے ہوئے اب بھی کامیابی کی ہی توقع لیے ہوئے تھے ۔ اندر گئے ہوئے مجاہدین کو لڑائی تو لڑنی پڑی لیکن انہوں نے باقی دروازے بھی کھول دیے رومیوں کی زیادہ تر نفری شہر سے باہر مجاہدین کی تلواروں سے کٹ رہی تھی۔
جانی نقصان تو مجاہدین کا بھی ہو رہا تھا لیکن ہر مجاہد اس لڑائی کو اپنی ذاتی لڑائی سمجھ کر لڑ رہا تھا مرنے والوں میں زیادہ تعداد قبطیوں کی تھی جس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے ایسی جنگ کبھی نہیں لڑی تھی پھر بھی انہوں نے رومیوں کو بہت ہی جانی نقصان پہنچایا۔
شہر اس حالت میں فتح ہو گیا کہ شہر کے اندر اور باہر اس قدر خون تھا جیسے خون کا مینہ برس گیا ہو ، چھوٹی چھوٹی قلعہ بندیاں برجیاں اور برج اتنے زیادہ تھے کہ بھول بھلیاں سی بنی ہوئی تھی اور شک تھا کہ رومی جرنیل اور ماتحت افسران کہیں چھپے ہوئے ہیں ،سپہ سالار عمرو بن عاص نے شہریوں کو حکم دیا کے تمام قلعہ بندیاں گرا دیں۔ کچھ مجاہدین کو ان کے ساتھ لگا دیا۔ شک صحیح نکلا رومی جرنیل ایک برج کے کونے میں دبکا بیٹھا مل گیا اسے گرفتار کر لیا گیا۔
فرما کی فتح مکمل ہوگئی اور مال غنیمت اکٹھا کیا جانے لگا ۔
تاریخ نویس بٹلر اور دو اور یورپی تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ تاریخ ہمیشہ حیران رہے گی کہ اتنے تھوڑے مسلمانوں نے اتنا مضبوط قلعہ آخر کس طرح فتح کر لیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦