⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 30👇


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【⓿➌】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس رات نوشی کے ساتھیوں نے محسوس کیا کہ نوشی جو پہلے اتنا زیادہ بولتی تھی آج اس پر خاموشی طاری ہے اور وہ گہری سوچ میں چلی جاتی ہے۔ اسے کسی نے پوچھنے کی ضرورت محسوس نہ کی یہ سب جانتے تھے کہ وہ قومی جذبے کے معاملے میں کتنی حساس ہے۔ اور سلطنت روم کی عظمت کو وہ اپنی ذاتی عزت اور آبرو سمجھتی ہے۔ اور چونکہ اسے کوئی راستہ نظر نہیں آرہا اس لئے پریشان رہنے لگی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک اور دن گزر گیا اور پھر ایک رات آئی وہ رات آدھی گزر گئی چاند نے زمین پر چاندنی بکھیر رکھی تھی۔ سیلی نوش کی ویسے ہی آنکھ کھلی اور وہ خیمے سے نکلا کیونکہ کچھ گھبراہٹ سےی محسوس کر رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ باہر ذرا بیٹھ کر پھر آ کر سو جائے گا۔ وہ باہر نکلا تو اسے یوں نظر آیا جیسے کچھ دور درخت کے ساتھ کوئی بیٹھا ہوا ہے۔
سیلی نوش کی فطرت میں تجسس کچھ زیادہ پایا جاتا تھا اس کا ایک مظاہرہ تو اس نے یہ کیا تھا کہ نوشی کے منگیتر اور ملازم کو اس نے نوشی سے گتھم گتھا دیکھا تو اس سے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اور جب نوشی نے ساری بات واضح کی تو اس کے ساتھ چل پڑا کہ دیکھیں ہامون کیا کرتا ہے۔
اس رات اس نے کسی کو درخت کے تنے کے ساتھ لگ کر بیٹھے دیکھا تو اس کی طرف چل پڑا حالانکہ وہ گہری نیند سے اٹھا تھا اور نیند اس پر غالب آ رہی تھی۔
وہاں جا کر دیکھا تو وہ نوشی تھی جو اکیلی گہری سوچ میں کھوئی ہوئی بیٹھی تھی۔ سیلی نوش کو اپنے پاس دیکھ کر وہ چونکی نہیں بلکہ اس نے اطمینان کا اظہار کیا کہ سیلی نوش اس کے پاس آ گیا ہے۔ اس نے سیلی نوش کو اپنے پاس بٹھا لیا ۔سیلی نوش نے اس سے پوچھا کہ وہ یہاں کیوں آ بیٹھی ہے؟
میں نہیں جانتی تم کیسے آدمی ہو؟،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ میرے لئے یہ یقین کر لینا مشکل ہے کہ میں تمہیں اعتماد میں لوں یا نہ لوں۔
میرے ماتھے پر کچھ بھی نہیں لکھا۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔۔ اتنا تو سوچ سکتی ہو کہ میں کہیں اور جا رہا تھا اور تمہاری باتیں سنیں تو تمہارے ساتھ یہاں تک آ گیا۔
میرے گھر والے ڈھونڈ رہے ہوں گے کہ میں کہاں غائب ہو گیا ہوں۔ مجھے تم سے کوئی لالچ نہیں کیا یہ کافی نہیں کہ تم مجھے اعتماد میں لو؟
کیا تمہارے لئے یہ کافی نہیں کہ تمہارا منگیتر تمہارے اعتماد کا آدمی ہے؟
نہیں!،،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ اس سے اعتماد اٹھ گیا ہے اب میں تنہا ہوں میرے پاس گھوڑا ہے خیال آتا ہے یہاں سے بھاگ جاؤں۔
نوشی !،،،،،سیلی نوش نے کہا۔۔۔ اب تو میں پوچھ کر ہی رہوں گا کہ وہ کیا بات ہے جس نے تمہیں اپنے منگیتر سے بدظن کر دیا ہے۔
پھر ایک وعدہ کرو۔۔۔ نوشی نے کہا ۔۔۔میں تمہارے ساتھ جو بات بھی کروں گی وہ میرے منگیتر کو نہیں بتاؤ گے اور میرے ملازم کو بھی اس بات کا علم نہیں ہونا چاہیے۔
سیلی نوش نے اسے یقین دلانے کے لیے کہ وہ اس کی بات کو اپنے دل میں دفن کر دے گا بہت کچھ کہا اور اسے بات کرنے پر آمادہ کر لیا۔
مجھے اس ہامون جادوگر سے بچاؤ ۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ اس نے مجھے اپنے پاس تنہا بٹھا کر تم تینوں کو باہر نکال دیا تھا اس نے اپنے اوپر کچھ اور ہی کیفیت طاری کرلی کبھی میرا چہرہ اپنے ہاتھوں میں تھام کر میری آنکھوں میں جھانکتا اور ایک بار یہ اپنا منہ میرے منہ کے اتنے قریب لے آیا کہ اس کی پیشانی میرے پیشانی کے ساتھ لگ گئی اس کے منہ سے مجھے جو بدبو آئی اس سے معلوم نہیں میں بیہوش کیوں نہ ہو گئی ۔اس کی سانسیں اتنی گرم کے میرے چہرے پر جلن محسوس ہونے لگی اچھا ہوا کہ اس نے اپنا منہ جلدی پیچھے کر لیا پھر اس نے کچھ عجیب و غریب حرکتیں کی جو میری سمجھ سے باہر تھی۔
پھر یہ اپنے ناگ کے پاس جا بیٹھا اور میری طرف پیٹھ کر لی اس نے ناگ سے کچھ پوچھنا شروع کردیا مجھے تو یوں پتہ چل رہا تھا جیسے ناگ اسے جواب دے رہا ہے آواز ایسی ہی تھی جو تم نے بھی سنی ہے آخر ناگ نے اسی باریکی اور کانپتی سی آواز میں کہا کہ یہ لڑکی تھوڑی سی قربانی دے دے تو یہ ملکہ بنے گی اور وہ سب کچھ پائے گی جو یہ چاہتی ہے۔
ناگ سے کچھ اور باتیں کر کے اس نے منہ میری طرف کیا اور مجھے اپنے قریب بلایا میں اس کے سامنے بالکل قریب جا بیٹھی اس نے اپنے ہی انداز اور لہجے میں کچھ اور باتیں کی اور آخر بات کو یہاں پر لے آیا کہ میں اس کے ساتھ بالکل برہنہ ہو کر ایک رات گزاروں تو میرا عزم تکمیل کو پہنچ جائے گا۔ اس نے کہا کہ مجھے تمہارے اس حسن اور دلکش جسم کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں لیکن اس غیبی طاقت کا جس کے قبضہ میں میں ہوں حکم ہے کہ تم دونوں کے جسم ایک ہو جائیں اور دونوں کی روحیں اوپر جائیں پھر ہر مشکل آسان ہو جائے گی اور ہر ارادہ پورا ہوگا۔
میں جان گیا ہوں۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ یہ شخص جو چاہتا ہے وہ میں سمجھ گیا ہوں تم یہ بتاؤ کہ تمہارا کیا خیال اور کیا ارادہ ہے؟
تمہیں یاد ہو گا میں پہلے کیا کہتی رہی ہوں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ میں یہ کہتی رہی اور اب بھی کہوں گی کہ میں سلطنت روم کی عظمت پر اپنی جان قربان کر دوں گی لیکن سیلی نوش میں عصمت قربان نہیں کر سکتی، میں اپنی آبرو کو اپنے منگیتر کی امانت سمجھتی ہوں میرا مذہب اجازت نہیں دیتا کہ اپنی عصمت کسی کو دے دوں خواہ وہ میرا امامِ ملک ہی کیوں نہ ہو اگر گناہ ہی کرنا ہے تو کیا اس بدو اورمنحوس اور مکروہ آدمی کے ساتھ کیا جائے؟
کیا تم نے اپنے منگیتر کو نہیں بتایا۔۔۔ سیلی نوش نے پوچھا۔
بتایا ہے ۔۔۔ نوشی نے جواب دیا۔۔۔ لیکن وہ بے غیرت اور لالچی نکلا اس نے کہا کہ اس میں کوئی گناہ نہیں کوئی حرج نہیں اس شخص کے ساتھ ایک رات بسر کر لو پھر تم ملکہ ہو گی اور میں بادشاہ ہوں گا ۔
میں نے منگیتر کو بتایا تھا کہ ہامون نے یہ بھی کہا ہے کہ مجھے ہرقل مصر کا بہت بڑا حصہ دے دے گا جہاں میری بادشاہی ہو گی۔ یہ بات منگیتر کو بتائی تو وہ میرے پیچھے پڑ گیا کہ میں ہامون کی یہ بات پوری کر دوں۔ آج شام جب ہم ہامون کے خیمے سے یہاں آئے تو منگیتر کے ساتھ میری لڑائی ہوگئی ہم دونوں نے اپنا خیمہ الگ رکھا تھا کہ راز و نیاز اور پیار و محبت کی باتیں کیا کریں گے، لیکن وہ بالکل ہی کچھ اور نکلا،،،، تم بتاؤ سیلی نوش میں بھاگ جاؤں یا اپنی جان اپنے ہاتھوں لے لوں! ۔
اپنی جان کیوں لے لو ؟۔۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ دنیا اس منگیتر پر ختم نہیں ہوجاتی ۔ میں تمہیں بتاتا ہوں جو میں تین چار روز پہلے سے محسوس کر رہا ہوں۔ کسی وقت میں بھی ہامون کی کرامت کو مانتا تھا لیکن اب نہیں۔ میں دیکھتا رہا ہوں کے اس کی نظر صرف تم پر رہتی تھی تم ہو بھی اتنی زیادہ خوبصورت اور اتنی دلکش کہ پروہت اور پیشوا بھی اپنی حیثیت اور اپنا مذہب بھول جائیں۔
یہ شخص ہامون مجھے صرف شعبدہ باز لگتا ہے۔
وہ جو دیئے اپنے آپ ہی بجھ گئے اور جل اٹھے تھے یہ ایک شعبدہ بازی ہے۔ اب تم نے اس سے سارا پردہ ہی اٹھا دیا ہے تم نے کہا ہے کہ میں تمھیں ہامون سے بچاؤں میں تمہیں بچاؤں گا۔
کیا کرو گے؟،،،، نوشی نے پوچھا۔
یہ مت پوچھو!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ یہ بتا دیتا ہوں کہ تم اپنی جان نہیں لو گی بلکہ ہامون کی جان لی جائے گی اس کی جان کسی طرح لی جائے گی یہ میں تمہیں بتاؤں گا۔ اور تم نے وہی کرنا ہے جو میں کہوں گا۔
مجھے ابھی بتاؤ مجھے کیا کرنا ہے۔۔۔ نوشی نے بے تابی سے کہا۔۔۔ تم شاید نہیں سمجھ سکے کہ میں کیسی پریشان کن صورتحال میں پھنس گئی ہوں۔ میں نے تمہیں اپنے منگیتر کی ذہنی حالت نہیں بتائی وہ تو مرنے مارنے پر اترا ہوا ہے کہتا ہے کہ ہامون کی فرمائش پوری کرو۔
کرنا یہ ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ آج رات ہامون کے خیمے میں چلی جانا اس پر یہ ظاہر نہ ہونے دینا کے تم رضامند نہیں ہو۔
مجھے مشکل میں نہ ڈالو سیلی نوش!،،،،، نوشی نے کہا ۔۔۔۔۔وہ فوراً مجھے برہنہ ہو جانے کو کہے گا وہ پہلے ہی مجھے بتا چکا ہے کہ میں اس کے پاس جاؤں گی تو وہ کیا کرے گا۔
وہ کہے بھی تو برہنہ نہ ہونا ۔۔۔سیلی نوش نے کہا ۔۔۔ہوسکتا ہے وہ زبردستی تمہارے کپڑے اتارے گا لیکن گھبرانا نہیں تمہارا جسم ننگا نہیں ہوگا۔
ایک طرف تو نوشی اس قدر جرات مند اور جوش و جذبے والی تھی کہ صرف ایک ملازم کو ساتھ لے کر فرما سے چل پڑی اور دشت و جبل سے گزرتی ان دیکھے اجنبی بدوؤں کے علاقے میں جا پہنچی تھی۔ اور اب اس کا یہ حال کے دل پر خوف طاری تھا اور وہ مدد اور پناہیں ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔ سیلی نوش کو اس نے اپنا ہمراز اور ہمدرد تو بنا لیا تھا لیکن اسے پوری طرح یقین نہیں آیا تھا کہ سیلی نوش اس کے حق میں مخلص ہے۔ لیکن ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ڈھونڈنے والی بات تھی اس نے یہ خطرہ مول لے لیا کہ ایک ایسے شخص کو اعتماد میں لے لیا جو بدوّ تھا اور ہامون کی جادوگری کو مانتا تھا۔ یہ شخص سیلی نوش اسے دھوکہ دے سکتا تھا اور یہ خطرہ بھی کہ نوشی پر اس کی بھی نیت خراب ہوسکتی تھی۔ مختصر یہ کہ نوشی کا لاپتہ ہو جانا صاف نظر آ رہا تھا۔
نوشی وہاں سے اٹھی اور اپنے خیمے کی طرف چل دی نوشی اور اس کے منگیتر کا خیمہ سیلی نوش کے خیمے کے قریب ہی تھا۔ لیکن نوشی ذرا چکر کاٹ کر اپنے خیمے کی طرف جا رہی تھی سیلی نوش سیدھا اپنے خیمے میں آگیا۔
نوشی نے ابھی آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک اس کا منگیتر اس کے سامنے آگیا ۔
اس کی آنکھ کھلی تو نوشی کو غائب پایا اور اس کے پیچھے خیمے سے نکل گیا تھا ۔رات چاندنی تھی اس لئے اس نے نوشی کو سیلی نوش کے ساتھ دیکھ لیا تھا۔
آدھی رات کے وقت اس بدوّ کے پاس کیوں گئی تھی؟،،،، منگیتر نے حکم کے لہجے میں پوچھا۔
نوشی نے اسے صحیح بات بتا دی اور کہا کہ وہ اپنی آبرو قربان نہیں کرے گی۔
یہ بات تم دن کے وقت بھی اس کے ساتھ کر سکتی تھی۔۔۔ منگیتر نے کہا۔۔۔ تم ان بدوؤں کی ملکہ بننا چاہتی ہو اور اس کے لئے یہ بدوّ سیلی نوش تمہیں موزوں آدمی نظر آیا ہے۔
نوشی پہلے ہی پریشان اور تذبذب میں مبتلا تھی۔ منگیتر کی یہ بات سن کر اور اس کا تحکمانہ انداز دیکھ کر جل اٹھی اور اس کے دل سے اس منگیتر کی محبت نکلنے لگی۔
میں جہاں جاؤں گی وہاں شہزادی اور ملکہ ہی ہوں گی ۔۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ شاہ ہرقل کا خاندان میری پہچان ہے اس خاندان کے ساتھ تمھارا تعلق بہت دور کا ہے ۔میں چاہوں تو تمہیں دھتکار بھی سکتی ہوں لیکن یہ چاہتی ہوں کہ تم اپنا رویہ درست کرلو اور مجھ پر گھٹیا الزام نہ لگاؤ۔
دونوں کی جزباتی حالت ایسی ہو گئی تھی کہ انہوں نے یہ سوچا ہی نہیں کہ ایک دوسرے کی غلط فہمیاں دور کرکے صلح جوئی کی بات کریں۔ نوشی کے الفاظ سن کر اور اس کا انداز دیکھ کر منگیتر آگ بگولہ ہو گیا اور اس نے اس قسم کی دھمکی دیدی کے وہ سیلی نوش کو قتل کر دے گا ۔ وہ کہتا تھا کہ یہ بدوّ ان کی رعایا ہیں ۔
نوشی خودسر اور باغی فطرت کی شہزادی تھی ،اس نے منگیتر کی دھمکی کو چیلنج سمجھ لیا اور کہا کہ وہ سیلی نوش کو قتل نہیں کرے گا البتہ یہ ہو سکتا ہے کہ سیلی نوش کے ہاتھوں قتل ہو جائے۔
نوشی نے منگیتر کو اس سے آگے بولنے کا موقع ہی نہ دیا اور وہاں سے تیز قدم چل پڑی۔ اپنے خیمے تک پہنچی تو سیلی نوش باہر کھڑا تھا اس نے نوشی سے پوچھا کہ وہ اتنی دیر بعد کیوں آئی ہے؟
نوشی نے اسے بتا دیا کہ وہ کیوں دیر سے آئی ہے اور منگیتر کے ساتھ اس کی جو باتیں ہوئی تھی سنادی۔
تم دو بڑے وزنی پتھروں کے درمیان آگئی ہو نوشی!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ اپنے آپ کو تنہا نہ سمجھنا کل رات ہامون کے خیمے میں چلی جانا باقی کام میرا ہے۔
نوشی ابھی سیلی نوش کے ساتھ باتیں کر رہی تھی کہ اس کا منگیتر آگیا اور نوشی کو حکم دیا کہ وہ اپنے خیمے میں آئے وہ شاید بھول گیا تھا کہ نوشی کس قدر سرکش اور خود سر لڑکی ہے۔
میں تمہارے حکم کی پابند نہیں ۔۔۔نوشی نے کہا ۔۔۔اپنی ذات کے متعلق فیصلے خود کرنے کی عقل اور ہمت رکھتی ہوں میں اس خیمے میں نہیں جاؤں گی میں سیلی نوش کے خیمے میں جا رہی ہوں۔
نہیں نوشی!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ میں یہ صورتحال قبول نہیں کروں گا پھر سیلی نوش نے نوشی کے منگیتر سے کہا ۔۔۔غلط فہمی میں نہ پڑو شہزادے یہ دیکھو تم کہاں ہو اور یہاں کیوں آئے ہو اپنے مقصد کو سامنے رکھو یہ وقت ذاتی اور جذباتی باتوں کا نہیں۔
تو خاموش رہ بدوّ۔۔۔۔ منگیتر نے شاہی رعب سے کہا ۔۔۔اسے اپنے پاس رکھ لے پھر اس کا نتیجہ دیکھ لینا۔
آ جاؤ نوشی!،،،،،،، سیلی نوش نے نوشی کو بازو سے پکڑا اور اپنی طرف کرتے ہوئے کہا۔۔۔ اس لڑکے کا دماغ چل گیا ہے تم ہوش میں ہو میرے خیمے میں آجاؤ ورنہ تم دونوں باقی رات لڑتے جھگڑتے گزار دو گے۔
نوشی سیلی نوش کے ساتھ اس کے خیمے میں چلی گئی۔ اس کا منگیتر جلتا بھڑکتا اپنے خیمے میں گیا اور بستر پر جا بیٹھا، وہ سیلی نوش کو اپنا دشمن سمجھنے لگا تھا۔
میں اب اس شخص کو اپنا منگیتر نہیں سمجھوں گی ۔۔۔۔خیمے میں نوشی سیلی نوش سے کہہ رہی تھی ۔۔۔میں سلطنت روم کی عظمت کو بحال کرنا چاہتی ہوں اور مسلمانوں کو شکست دے کر ان کا نام و نشان مٹا دینا میری زندگی کا مقصد ہے۔ لیکن یہ جسے میں منگیتر بنا بیٹھی تھی صرف میرے حسن نوجوانی اور اس جسم کے ساتھ دلچسپی رکھتا ہے۔ میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں کہ میں کتنی خوبصورت اور دلکش ہوں ،اپنے اس جسم کے ساتھ مجھے کوئی دلچسپی نہیں۔
اگلا روز اس طرح گزرا کے کچھ وقت ہامون کے خیمے میں گئے اور اس کا وہی پاگل پن تھرکنا، تڑپنا، اور ناگ کے ساتھ باتیں کرنا دیکھا ۔ سیلی نوش نے نوشی اور اس کے منگیتر میں صلح صفائی کرنے کی بہت کوشش کی لیکن منگیتر پہلے سے زیادہ بھڑکا اور بھپرا ہوا تھا۔ نوشی نے یہ اعلان کر دیا کہ وہ رات ہامون کے خیمے میں جائے گی یہ سن کر اس کا منگیتر کچھ ٹھنڈا ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رات گہری ہوئی تو نوشی ہامون کے خیمے کی طرف چل پڑی، ہامون نے سب کو بتایا تھا کہ صرف نوشی اس کے پاس آئے گی اور باقی سب لوگ اپنے اپنے خیموں میں رہیں گے۔
نوشی ہامون کے خیمے میں پہنچی تو اس نے نوشی کو اپنے سامنے بٹھا لیا سامنے بھی ایسا بٹھایا کہ دونوں کے گھٹنے ایک دوسرے سے ملے ہوئے تھے۔ ہامون نے نوشی کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر اپنے چہرے کے قریب کیا نوشی نے اس سے آزاد ہونے کی کوشش تو نہ کی لیکن نفرت کی ایک لہر اس کے سارے جسم میں دوڑ گئی۔
صاف پتا چلتا تھا کہ ہامون بری طرح نشے میں ہے، اس نے کھڑے ہو کر وہ ڈنڈا جو اس نے اپنے پاس رکھا ہوا تھا اٹھایا اور ناچنے کھودنے لگا پھر اس نے نوشی کو کھڑا ہونے کو کہا نوشی اٹھ کھڑی ہوئی۔
تمام کپڑے اتار دو۔۔۔ ہامون نے نوشی سے کہا۔۔۔ اس طرح برہنہ ہو جاؤ جس طرح تم پیدا ہوئی تھیں یہ جسم کچھ بھی نہیں مجھے تمہاری روح چاہیے اپنی روح مجھے دے دو۔۔۔۔ اتار دو یہ کپڑے۔
نہیں!،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ اگر تمہیں صرف روح چاہیے تو یہ جسم کو ننگا کیے بغیر لے سکتے ہو میں کپڑے نہیں اتارونگی۔
ہامون نے نوشی پر اپنا طلسم طاری کرنے کے لئے ایک اوٹ پٹانگ سی حرکتیں کی اور کچھ شعبدہ بھی آزمایا لیکن نوشی نے کپڑے اتارنے سے صاف انکار کردیا۔
ہامون نے پہلے کی طرح ڈنڈا ہاتھ میں لے کر ناچنا کودنا اور عجیب عجیب حرکتیں کرنا شروع کردیا ۔نوشی کھڑی دیکھتی رہی۔ ناچتے کودتے ہوئے ہامون نوشی کے قریب گیا اور گریبان سے اس کی قمیض پر ہاتھ رکھا اور اتنی زور کا جھٹکا دیا کہ قمیض گریبان سے دامن تک پھٹ گئی ،نوشی نے مزاحمت کی اور اپنے آپ کو بچانے کے لیے ادھر ادھر بھاگنے کی کوشش کی لیکن ہامون آخر مرد تھا اس نے نوشی کے کپڑے نوچنے شروع کردیئے جیسے کوئی درندہ اپنے شکار کو چیر پھاڑ کر رہا ہوں۔
نوشی ابھی نیم برہنہ ہی ہوئی تھی کہ ہامون کے پاؤں زمین سے اوپر اٹھے اور دوسرے لمحے وہ فرش پر پیٹ کے بل گرا ہوا تھا۔ اس نے دیکھا کہ اس کے سر پر سیلی نوش کھڑا تھا۔
سیلی نوش نے بڑی تیزی سے خیمے میں داخل ہوکر ہامون کو دبوچا اوپر اٹھایا اور زمین پر بڑی زور سے پٹخ دیا۔
سیلی نوش نے ہامون کو اتنی زور سے پٹخا تھا کہ وہ فوراً اٹھ نہ سکا۔ سیلی نوش نے اپنا پاؤں ہامون کے پیٹ پر رکھ کر دبایا اور بجلی کی سرعت سے نیام سے تلوار نکالی اور اس کی نوک ہامون کی شہ رگ پر رکھ کر ذرا سا دباؤ ڈالا ۔ ہامون نے پہلے تو سیلی نوش کو ڈرایا کہ وہ اپنے جنونی بھوتوں کو بلا کر اس کی بوٹی بوٹی باہر پھینک دے گا۔ لیکن سیلی نوش پر کچھ اثر نہ ہوا۔
وہی آکر تمہیں مجھ سے چھڑائیں گے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔اور اپنا پاؤں ہامون کے پیٹ پر اور زیادہ دبایا اور تلوار کی نوک اس کے شہ رگ میں چبھو دی ہامون تڑپ رہا تھا۔
اب دیکھ کون کسے قتل کرتا ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ تیرے زندہ رہنے کی ایک ہی صورت ہے اپنی اصلیت بتا دے اور اپنی زبان سے کہہ دے کہ یہ سب شعبدہ بازی اور فریب کاری ہے۔
ہامون نے پھر بھی سیلی نوش کو ڈرانے کے لئے کچھ باتیں کیں جو بڑی خوفناک دھمکیاں تھیں لیکن سیلی نوش اس کا کوئی اثر قبول کر ہی نہیں رہا تھا۔
اپنی غیبی طاقت استعمال کر۔۔۔ سیلی نوش نے کہا ۔۔۔تیرے ہاتھ میں کوئی طاقت ہوتی تو تو اب تک مجھ پر جوابی وار کر چکا ہوتا تو اس لڑکی کی عزت کے ساتھ کھیلنا چاہتا تھا۔۔۔ فوراً بول۔
سیلی نوش نے تلوار کی نوک اتنی سی اور دبادی کے ہامون کی شہ رگ سے ذرا سا خون پھوٹ آیا۔
تلوار ہٹالے۔۔۔ ہامون نے کہا ۔۔۔ایک وعدہ کرکے کسی اور کو نہیں بتائے گا اس لڑکی سے بھی کہہ دے کہ زبان بند رکھے۔
سیلی نوش نے تلوار کی نوک اس کے شہ رگ سے اٹھا لی لیکن وہاں سے تلوار ہٹائی نہیں اپنا ایک پاؤں اس کے پیٹ پر ہی رکھا ذرا سا دباؤ کم کردیا پھر سیلی نوش نے اسے یقین دلایا کہ اس کا راز کسی کو معلوم نہیں ہوگا۔ اور یہ لڑکی تو یہاں سے چلی ہی جائے گی یہ بھی سوچ لے کے یہ شاہی خاندان کی لڑکی ہے اگر تو نے جھوٹ بولا تو یہ تجھے بہت ہی بری موت مروائے گی لیکن اس سے پہلے میری تلوار تیرے شہ رگ کاٹ چکی ہو گی۔
تو ٹھیک سمجھا ہے۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔ میں صرف جادو کے کرتب دکھا سکتا ہوں اور یہ صرف شعبدہ بازی ہے میں جو اچھل کود اور دوسری حرکتیں کرتا ہوں ان کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ لوگ مجھ سے متاثر بھی ہوں اور خوف زدہ بھی، مجھے کیا ملتا ہے قبیلوں کے سردار بھی یہاں آکر میرے قدموں بیٹھتے ہیں مجھے عیش و عشرت کا سامان مہیا کرتے ہیں، جب بھی میں ایک لڑکی کی فرمائش کرتا ہوں تو کوئی نہ کوئی سردار چن کر ایک خوبصورت لڑکی میرے پاس بھیج دیتا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تو ناگ سے سوال پوچھتا تھا۔۔۔ سیلی نوش نے پوچھا۔۔۔ کیا ناگ جواب دیتا تھا یا وہ باریک اور کانپتی ہوئی آواز کس کی تھی؟
وہ میری ہی بدلی ہوئی آواز تھی۔۔۔ ہامون نے جواب دیا۔۔۔۔ یہ کوئی دیکھتا ہی نہیں کہ اس وقت میری پیٹھ خیمے میں بیٹھے ہوئے لوگوں کی طرف ہوتی ہے اور منہ ناگ کی طرف کوئی بھی نہیں جان سکتا کہ باریک اور کانپتی ہوئ آواز میری ہوتی ہے۔
اور وہ جو دیے بجھ کر اپنے آپ ہی جل اٹھے تھے؟
یہ میری شعبدہ بازی ہے۔۔۔ ہامون نے جواب دیا۔۔۔ میں ایسے کئی اور کرتب دکھا سکتا ہوں۔ میں خوبصورت لڑکیوں کا شکاری ہوں یہ لڑکی ایسی ہے کہ میں سب کچھ بھول گیا اور اس لڑکی کو حاصل کرنے کا ارادہ کر لیا ،تم نہ آجاتے تو میرا ارادہ پورا ہوجاتا۔
تو غلط سمجھا ہے۔۔۔ سیلی نوش نے کہا۔۔۔ اس لڑکی نے مجھے کل بتا دیا تھا کہ تو کیا چاہتا ہے یہ لڑکی اپنی آبرو دینے پر کسی قیمت پر رضامند نہیں تھی اور اس نے مجھے کہا کہ میں اسے تجھ سے بچا لوں، اسے آج میں نے بھیجا اور خیمے کے پاس کھڑا رہا اور پردے سے اندر دیکھتا رہا اور عین موقع پر تجھے پکڑ لیا۔
میں حیران ہوں تم نے ایسا کیوں کیا۔۔۔۔ ہامون نے کہا۔۔۔۔ اس کی عزت کا خیال تو اس کے منگیتر کو ہونا چاہیے تھا لیکن اس نے تم سے الگ ہو کر اور میرے پاس آکر کہا تھا کہ اس لڑکی کو ایک چھوڑو دو راتیں اپنے پاس رکھو اپنا یہ وعدہ پورا کرو کہ تم اسے ملکہ اور مجھے بادشاہ بنا دو گے ،اور شہنشاہ ہرقل ہمیں مصر کا کچھ حصہ دے دے گا جہاں ہماری بادشاہی ہو گی۔
سیلی نوش نے لڑکی کی طرف اور لڑکی نے سیلی نوش کی طرف دیکھا۔
میں تجھے جینے کا حق نہیں دے سکتا۔۔۔ سیلی نوش نے کہا ۔۔۔تو سیدھے اور بے سمجھ لوگوں کے ساتھ فریب کاری کر رہا ہے اور ان کی بیٹیوں کی عزت کے ساتھ کھیل رہا ہے۔
یہ کہہ کر سیلی نوش نے تلوار کی نوک ہامون کی شہ رگ پر رکھ کر اتنا دباؤ ڈالا کہ تلوار ہامون کی گردن میں سے گزر کر زمین میں چلی گئی، سیلی نوش نے تلوار نکالی اور ایک بار پھر شہ رگ میں اتار کر تلوار اپنی طرف کھینچی اور گردن میں لمبا کاٹ دے دیا، اپنا پاؤں ہامون کے پیٹ سے ہٹایا اور پیچھے ہٹا، ہامون ذبح کئے ہوئے بکرے کی طرح تڑپنے لگا اور اس کی گردن سے خون کا فوارہ پھوٹ آیا۔
چلو نوشی! ۔۔۔۔سیلی نوش نے تلوار نیام میں ڈال کر کہا۔۔۔ اسے تڑپ تڑپ کر مرنے دو۔
سیلی نوش اور نوشی خیمے سے نکل آئے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
میں منگیتر کے پاس نہیں جانا چاہتی۔ باہر آکر نوشی نے کہا۔۔۔ تم بتاؤ میں کیا کروں یہ تو تم جانتے ہو میں اس طرف کیوں آئی تھی یہاں معاملہ ہی کچھ اور ہو گیا، تم تو میرے ساتھ رہ نہیں سکتے ملازم میری کوئی مدد نہیں کرسکتا، منگیتر کو میں نے دیکھ لیا ہے کہ اسے میرے عزم اور میرے جذبے کا کوئی احساس نہیں ،اسے میرے حسن اور جسم کے ساتھ دلچسپی ہے یہ مجھے گمراہ اور خراب کرسکتا ہے میرا ساتھ نہیں دے سکتا۔
میری بات مانو! ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ جو عزم لے کر آئی تھی اس میں تم کامیاب نہیں ہو سکو گی وہ بدوّ جو مسلمان کے ساتھ جاملے ہیں وہ کچھ اور قسم کے لوگ ہیں ،یہ ان سے مختلف ہیں ان سے دور ہی رہو تو اچھا ہے تم واپس چلی جاؤ۔
کیا تم میرے ساتھ چل سکتے ہو؟ ۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ میں اتنا ڈر گئی ہوں کہ اکیلے جاتے خوف آتا ہے تم چلو میں تمہیں اتنا انعام دلاؤں گی کہ حیران رہ جاؤ گے۔
میں نے تمہیں اس شیطان سے کسی لالچ میں آکر نہیں بچایا ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ یہ میرا ذاتی اخلاق ہے اور اسے میں اپنا فرض سمجھتا تھا ،تمہیں تمہارے باپ تک پہنچانے جاؤں گا تو بھی اپنا فرض سمجھ کر جاؤں گا۔
تو پھر ابھی چلے چلتے ہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ میرے منگیتر کو بھی پتہ نہ چلے اور میرے ملازم کو بھی، میں ذرا ادھر جا کر رک جاتی ہوں تم اپنا اور میرا گھوڑا لے آؤ۔۔۔ سیلی نوش واپس ہامون کے خیمے میں گیا ہامون بے حس و حرکت پڑا تھا اس کی آنکھیں کھلی ہوئی تھیں اور ان آنکھوں سے زندگی کی چمک ختم ہو چکی تھی، سیلی نوش نے اسے حقارت سے دیکھا اور خیمے سے نکل آیا ۔
اس نے نوشی سے کہا کہ وہ کچھ دور جاکر اس کا انتظار کرے اور خود اپنے خیمے میں چلا گیا۔
سیلی نوش اور بدوّ ملازم ایک ہی خیمے میں ٹھہرے ہوئے تھے گھوڑے خیموں سے کچھ دور بندھے رہتے تھے، اور ان کی زینیں خیموں میں رکھی ہوئی تھیں۔ سیلی نوش نے اپنے خیمے میں جا کر ملازم کو دیکھا وہ گہری نیند سویا ہوا تھا ۔سیلی نوش نے اپنی اور ملازم کی زین اٹھائی دو زینوں کا وزن زیادہ تھا ، لیکن سیلی نوش نے یہ وزن اٹھا لیا اور دبے پاؤں خیمے سے نکل گیا گھوڑوں تک پہنچا اپنے اور ایک اور گھوڑے پر زین کسی اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اور دوسرے گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور اس جگہ جا پہنچا جہاں نوشی اس کے انتظار میں کھڑی تھی۔
نوشی گھوڑے پرسوار ہوئی اور دونوں چل پڑے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کوئی بات کرو سیلی نوش!،،،، نوشی نے کہا۔۔۔ چپ نہ رہو تمہاری خاموشی مجھے ڈرا رہی ہے۔
میں تو تمہیں بہت ہی دلیر اور نڈر لڑکی سمجھا تھا نوشی!،،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ تمہیں جس کا ڈر تھا اسے تمہارے سامنے قتل کر آیا ہوں اس سے تم بچ کر نکل آئی ہو، اپنے منگیتر کا تمہیں ڈر نہیں ہونا چاہیے وہ تمہارا منگیتر ہے دشمن نہیں ،جتنی دیر میں اسے پتا چلے گا کہ تم لاپتہ ہو ہم بہت دور پہنچ چکے ہوں گے، اسے یہ تو معلوم ہی نہیں ہوسکے گا کہ ہم کس طرف نکل گئے ہیں ،ہوسکتا ہے اسے یہ شک ہو کہ میں تمھیں زبردستی یا ورغلا کر اپنے ساتھ لے گیا ہوں، اگر ایسا ہوا تو وہ بدوؤں کے خیموں اور جھونپڑوں میں ہمیں ڈھونڈتا پھرے گا۔
پہلے تو وہ ہامون جادوگر کے خیمے میں جائے گا ۔۔۔نوشی نے کہا ۔۔۔خون میں ڈوبی ہوئی اس کی لاش دیکھے گا تو اسے شک نہیں یقین ہوجائے گا کہ تم ہامون کو قتل کرکے مجھے اپنے ساتھ لے گئے ہو۔
وہ ہمارے پیچھے نہیں آئے گا ۔۔۔سیلی نوش نے کہا۔۔۔ ویسے بھی اس سے نہ ڈرو، باقی رہا میں مجھ سے تمہارا ڈرنا بجا ہے ،میرے پاس ایسا کوئی ذریعہ نہیں جس سے تمہارے دل سے اپنا ڈر نکال سکوں۔
یہ ڈر اس وقت تمہارے دل سے نکلے گا جب میں تمہیں تمہارے ماں باپ تک پہنچادوں گا۔
میں نے پہلے بھی کہا تھا سیلی نوش !،،،،نوشی نے کہا۔۔۔ اب پھر کہتی ہوں کہ مجھے میرے ماں باپ کے پاس پہنچا دو گے تو بے بہا انعام دلاؤں گی ، ایک کام اور کرنا میرے ماں باپ کو یہ سارا واقعہ سنانا میں نے سنایا تو شاید یقین نہ کریں، اس منگیتر کے متعلق بھی بتانا کہ یہ کس نیت کا آدمی ہے اور اس نے اپنی نیت کا اظہار کس طرح کیا تھا۔
یہ تو بتاؤں گا ہی نوشی !،،،،،، سیلی نوش نے کہا ۔۔۔۔لیکن بار بار انعام کا نام نہ لو مجھے کوئی انعام نہیں چاہیے میں نے اپنا انعام وصول کر لیا ہے اور،،،،،،
کیا کہا ؟،،،،،،نوشی نے اس کی بات کاٹتے ہوئے گھبرائے ہوئے لہجے میں پوچھا ۔کیا تمہارا یہ مطلب تو نہیں کہ تم نے مجھے انعام کے طور پر وصول کر لیا ہے؟،،،، کیا تم مجھے میرے باپ کے پاس نہیں لے جا رہے؟
بیوقوف لڑکی!،،،، سیلی نوش نے کہا۔۔۔ میری پوری بات تو سن لو میں بدّو نہیں ہوں نوشی،،،،، اور میں عیسائی بھی نہیں۔
پھر کیا ہو؟
مسلمان!،،،،،، سیلی نوش نے جواب دیا ۔۔۔۔ میں مصری نہیں عربی ہوں اور میرا نام سیلی نوش نہیں عباس بن طلحہ ہے۔ تمہارے دل میں مسلمانوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی ہے میں جب تمہیں تمہارے ٹھکانے پر پہنچا دوں گا تو بتانا کے مسلمان کیسے ہوتے ہیں، اور ان کا کردار کیا ہے، یہ نہ سمجھنا کہ میں ہی ایک اچھا مسلمان ہوں میری جگہ کوئی اور مسلمان ہوتا تو وہ بھی یہی کرتا جو میں نے کیا ہے، یہ میرے مذہب کا حکم ہے، جسے ہم اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم سمجھتے ہیں۔
نوشی کی حیرت زدگی کا یہ عالم کہ اس نے گھوڑا روک لیا اور عباس بن طلحہ کو یوں دیکھنے لگی جیسے وہ کسی اور ہی جہان کی مخلوق ہو۔
عباس کچھ آگے نکل گیا تھا اس نے دیکھا کہ نوشی اس کے ساتھ نہیں تو اس نے گھوم کر دیکھا نوشی گھوڑا روک کر اسے دیکھ رہی تھی ۔ اس کے چہرے پر حیرت زدگی اور تذبذب کا تاثر تھا۔
اب اس کو غالباً یہ توقع تھی کہ نوشی فوراً یقین کرلے گی کے وہ مسلمان ہے، اور مسلمانوں کے متعلق اس کی رائے بدل جائے گی، اور بے اختیار کہہ اٹھے گی کہ مسلمان تو بہت ہی اچھے ہوتے ہیں۔
رک کیوں گئی نوشی؟،،،،،، عباس نے گھوڑا اس کی طرف موڑ کر کہا۔۔۔ اس میں حیران ہونے کی تو کوئی بات ہی نہیں کہ میں مسلمان ہوں اور مسلمان بہت ہی اچھے لوگ ہوا کرتے ہیں
نوشی کا ردعمل کچھ اور ہی تھا اس نے اپنے گھوڑے کی لگام اس طرح کھینچ رکھی تھی کہ گوڑا آہستہ آہستہ الٹے قدم چل رہا تھا اور نوشی اس طرح دائیں بائیں دیکھ رہی تھی جیسے بھاگ جانا چاہتی ہو۔ عباس اس سے ابھی کچھ دور ہی تھا کہ نوشی نے گھوڑا ایک طرف موڑ لیا۔
اب تو کوئی شک ہی نہیں رہ گیا تھا کہ نوشی بھاگ نکلنے کا ارادہ کر چکی ہے ۔
اب اس نے اپنے گھوڑے کو چھیڑا اور تیزی سے گھوڑا نوشی کے گھوڑے کے آگے کر دیا۔ نوشی کا چہرہ غصے سے تمتما رہا تھا اس نے باگ کو زور سے ایک طرف جھٹکا دے کر گھوڑے کو ہلکی سی ایڑ لگائی۔
میرے راستے سے ہٹ جا عرب کے بدوّ!،،،،،، نوشی نے دانت پیس کر کہا ۔۔۔میں تیرے ساتھ نہیں جاؤں گی۔
ہوش میں آؤ نوشی!،،،،،، عباس نے کہا۔۔۔ ہاں کیا سمجھ بیٹھی ہو تم؟
دور رہ فریب کار!،،،،،، نوشی نے تلوار نیام سے نکال لی اور للکار کر بولی تیرا خیال ہوگا کہ یہ شاہی خاندان کی شہزادی ہے اور شوقیہ تلوار اٹھائے پھرتی ہے، تلوار نکالو پہلے مجھے قتل کرو پھر میری لاش کے ساتھ کھیلتے رہنا لیکن مجھے آسانی سے قتل نہیں کر سکو گے۔
میں تمہیں دھوکا نہیں دے رہا نوشی!،،،
میں تیرے دھوکے میں آؤں گی ہی نہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔۔ میں مان ہی نہیں سکتی کہ مسلمان اعتماد کے قابل ہوتے ہیں؟،،،، تو مسلمان بھی نہیں عیسائی بھی نہیں تو اگر عربی ہی ہے تو صحرائی قزاق ہوگا ، تلوار نکال تجھے افسوس نہ رہے کہ میں نے تجھے مقابلے کا موقع نہیں دیا تھا۔
تمہارے ساتھ مجھے کوئی دلچسپی نہیں نوشی!،،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میں تمہیں اکیلا چھوڑ کر اپنی راہ الگ کر سکتا ہوں ،میں اپنے ایک فرض کو نظرانداز کر رہا ہوں لیکن میں ایک مسلمان ہوکر ایک نوجوان لڑکی کو اس بیابان میں اکیلا چھوڑ کر نہیں جاؤں گا، ہو سکتا ہے کوئی قزاق آ نکلے وہ تمہیں میری طرح نیک نیتی اور احترام سے اپنے ساتھ نہیں لے جائے گا۔
نوشی اتنی بپھری ہوئی تھی کہ اب اس کا اثر قبول کر ہی نہیں رہی تھی، اور اسے تلوار لہرا لہرا کر للکار رہی تھی۔
عباس نے آخر تلوار نکالی اور اس کے گھوڑے کے قدموں میں پھینک دی۔
پھر کمر بند سے خنجر نکالا اور وہ بھی پھینک دیا، پھر کچھ ایسی باتیں کی کہ نوشی کا غصہ ٹھنڈا ہونے لگا۔
میرے دو سوالوں کا جواب دو۔۔ نوشی نے پوچھا۔۔۔ تم یہاں کیا کرنے آئے تھے؟
اور دوسرا سوال یہ ہے کہ تم نے کونسا انعام وصول کر لیا ہے؟
میں جاسوس ہوں ۔۔۔عباس نے جواب دیا ۔۔۔میں بہت آگے جاسوسی کے لئے گیا تھا اب واپس اپنے لشکر میں جا رہا تھا، انعام یہ وصول کیا ہے کہ تم سے اور تمہارے منگیتر سے مجھے بڑی قیمتی معلومات ملی ہے ،یہ تو میں پہلے ہی جانتا تھا کہ تمہاری فوج کیوں پیچھے ہٹتی جارہی ہے، اب تم نے اس کی تصدیق کردی ہے ،جو مجھے معلوم ہوا تھا اور تم سے اور تمہارے منگیتر سے دو تین نئی باتیں معلوم ہو گئی ہیں۔ اسے میں اپنے لئے اور اپنے لشکر کے لئے بہت بڑا انعام سمجھتا ہوں ۔ ایک مسلمان کے لئے یہ بھی بہت بڑا انعام ہے کہ اس ہامون جادوگر کو قتل کردیا ہے۔ اسلام اس توہم پرستی اور پیشنگوئیوں کو نہیں مانتا ۔آنے والے وقت کے راز صرف اللہ جانتا ہے۔ اور وہی ہے جو بگڑے کام سنوارتا ہے ۔ہامون نے سیدھے سادے اور پسماندہ لوگوں کو محض فریب کاری سے اپنا گرویدہ بنا رکھا تھا ۔ تمہارے ساتھ مجھے اس کے سوا کوئی دلچسپی نہیں تھی کہ ایک شیطان تمہیں دھوکہ دے کر بے آبرو کرنا چاہتا تھا، اور مسلمان کی حیثیت سے یہ میرا فرض تھا کہ تمھیں اس سے بچاؤں۔
تم مجھے میرے باپ تک پہنچانے چلے ہو ۔۔۔۔نوشی نے کہا ۔۔۔کیا تم میرے باپ کو یہ بتانا چاہو گے کہ تم اصل میں کون ہو، اور کیا ہو؟،،،،،،، میرا خیال ہے تم ایسا نہیں کرو گے، میں وعدہ کرتی ہوں کہ تمہاری اصلیت اپنے باپ سے چھپائے رکھوں گی، کیا یہ انعام نہیں ہوگا؟،،، میرا باپ تمہیں گرفتار کر لے گا قتل بھی کروا سکتا ہے میں ایسا نہیں ہونے دوں گی۔
میں تمہارے باپ تک پہنچوں گا ہی نہیں نوشی!،،،، عباس نے کہا ۔۔۔مجھے کوئی لالچ اور کوئی ترغیب نہ دو نہ مجھے ڈرانے کی کوشش کرو ،تمہیں بلبیس شہر کے باہر چھوڑ کر گھوڑے کو ایڑ لگا دوں گا اور جب تک تم اپنے باپ تک پہنچو گی میں بڑی دور نکل گیا ہوں گا،،،، میں تمہیں پھر کہتا ہوں ہوش میں آؤ تمہارے وہم نے ہمارے درمیان ایسی صورت پیدا کر دی ہے جیسے تم مجھ سے آزاد ہونا چاہتی ہو،اور میں تمہیں ورغلا کر اغوا کرنا چاہتا ہوں ،تو یہ میرا راستہ ہے اور وہ تمہارا راستہ ہے۔
روم کے شاہی خاندان کی اس لڑکی پر اب ایسی خاموشی طاری ہو گئی جیسے وہ کچھ سوچ رہی ہو، یا وہم سے نجات حاصل کرنے کی کوشش میں ہو۔
گھوڑے سے اترو!،،،، عباس نے کہا۔۔۔ میری تلوار اور خنجر اٹھاؤ اور اپنے پاس رکھو اور میرے ساتھ چل پڑو۔
نوشی عباس کے چہرے پر نظریں جمائے کچھ دیر دیکھتی رہی پھر گھوڑے سے اتری عباس کی تلوار اور اس کا خنجر اٹھایا اور یہ دونوں ہتھیار کسی کو پیش کرنے کے انداز سے ہاتھوں پر رکھے اب اس کے پاس گئی اور دونوں ہتھیار اس کی طرف کر دیے ۔عباس نے اسے کہا کہ وہ تلوار اور خنجر اپنے پاس رکھے لیکن نوشی نے کچھ کہنے کے بجائے سر ہلایا کہ وہ اپنے پاس نہیں رکھے گی۔ عباس نے ہتھیار لے لیے اور نوشی اپنے گھوڑے پر سوار ہو گئی اس نے عباس کو سر سے اشارہ کیا کہ چلو دونوں گھوڑے پہلو بہ پہلو بلبیس کی طرف چل پڑے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تمہارے شاہی خاندان میں شارینا نام کی ایک لڑکی ہوا کرتی تھی۔۔۔ عباس نے پوچھا۔۔۔ تم اسے جانتی ہوگی؟
جانتی ہوں !،،،،،،نوشی نے کہا۔۔۔ وہ ہرقل کی بیٹی تھی وہ تو کچھ عرصہ ہوا ایسی غائب ہوئی کہ اس کا کچھ بھی پتہ نہ چلا تم اسے کس طرح جانتے ہو؟
اس طرح کہ وہ ہمارے پاس ہے۔۔۔ عباس نے جواب دیا ۔۔۔ہم میں سے کسی نے اسے اغوا نہیں کیا تھا وہ اپنی مرضی سے اپنے دل کے ہاتھوں مجبور ہو کر میرے ایک دوست کے ساتھ آ گئی تھی، اور اب اس کی بیوی ہے میرا یہ دوست میری طرح جاسوس ہے، وہ جاسوسی کے لیے گیا تھا شارینا سے ملاقات ہوئی اور دلی محبت نے دونوں کو ایک کر دیا۔
میں اس وقت لڑکپن کی عمر میں تھی ۔۔۔نوشی نے کہا۔۔۔ اس کے ساتھ تو میری گہری دوستی تھی بڑی اچھی لڑکی تھی کیا وہ تمہارے یہاں خوش رہتی ہے؟
میں تمہیں بتاؤں گا تو تم مانو گی نہیں۔۔۔ عباس نے جواب دیا ۔۔۔۔ خود جاکر دیکھو تو یہ تمہیں یقین آئے گا کہ وہ کتنی خوش ہے وہ واقعی بہت اچھی خاتون ہیں، میں اتنا ہی کہوں گا کہ وہ تو بھول ہی گئی ہے کہ روم کے بادشاہ کی بیٹی ہے ، ہمارے ہاں فضاء ہی کچھ ایسی ہے، اور ماحول ایسا جس میں کوئی دھوکہ اور فریب نہیں محبت اور خلوص ہے۔
کچھ دیر تک شارینا کی باتیں ہوتی رہیں ،اور نوشی بڑی دلچسپی سے پوچھتی رہی کہ مسلمانوں کے ہاں عورت کے لئے معاشرتی اور دیگر حالات کیسے ہیں؟ عباس اسے بتاتا گیا۔
معلوم نہیں دل میں یہ بات کیوں آتی ہے۔۔۔ نوشی نے کچھ دیر خاموش رہے کر کہا ۔۔۔کچھ ایسی خواہش ابھر رہی ہے کہ تمہارے ساتھ ہی چلی چلوں ،کچھ ایسا لگتا ہے جیسے تم سے جدا ہو کر مجھے دلی افسوس ہوگا ،اس بدبخت منگیتر نے میرا دل مسل ڈالا ہے ،اور میں کچھ اور ہی سوچنے پر مجبور ہو گئی ہوں، یہ بات بھی دل میں کھٹکنے لگی ہے کہ میرے شاہی خاندان میں عزت و غیرت اور حمیت ختم ہوتی جارہی ہے شاہی خاندان میں بدکاری ایک جائز رواج کی طرح چلتی ہے۔ 
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی