⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 28👇


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➑➋】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
فرما کی فتح مکمل ہوگئی اور مال غنیمت اکٹھا کیا جانے لگا ۔
تاریخ نویس بٹلر اور دو اور یورپی تاریخ نویسوں نے لکھا ہے کہ تاریخ ہمیشہ حیران رہے گی کہ اتنے تھوڑے مسلمانوں نے اتنا مضبوط قلعہ آخر کس طرح فتح کر لیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
فرما کی فتح کو غیر مسلم مؤرخوں نے حیرت انگیز کہا ہے۔ لیکن اہل دین ایمان کے لئے اس میں حیرت والی کوئی بات نہیں تھی تاریخ اسلام ایسی معجزہ نما فتوحات سے بھری پڑی ہے ۔سالاروں کے دلوں میں ایسا کوئی لالچ نہیں تھا کہ رومی جرنیلوں کے محلات میں سے زر و جواہرات کے خزانے ملیں گے اور دیگر مال غنیمت کا بھی کوئی شمار نہیں ہوگا۔ نہ ہی مجاہدین کے دلوں میں کوئی ایسی خواہش تھی ۔وہ اللہ کے نام پر اس فوج کشی کو جہاد فی سبیل اللہ جان کر گئے تھے۔ ان کے عزائم ذاتی نہیں دینی اور ملی تھی۔
اس سے بڑھ کر اور معجزہ کیا ہوسکتا ہے کہ ایران اور روم جیسی بڑی جنگی طاقتوں کو جنھیں تاریخ نے ناقابل تسخیر کہا ہے کچل اور مسل کر الگ پھینک دیا گیا تھا اور وہاں آج بھی اسلام کا پرچم بڑے فخر اور شان و شوکت سے لہراتا ہے۔
چونکہ فرما کی فتح غیرمسلم مؤرّخوں کے لئے حیرت ناک تھی اس لیے انہوں نے اس کے کچھ اسباب گڑھ لیے اور تاریخ کے دامن میں ڈال دیے تھے۔ مثلاً ایک یہ کہ اتنے تھوڑے سے مسلمان اتنی بڑی اور طاقتور فوج سے فرما کا قلعہ بند شہر نہیں لے سکتے تھے ۔وہ اس لئے فاتح کہلائے کہ بنیامین کے حکم سے قبطی عیسائی جو رومی فوج میں تھے لڑے ہیں نہیں تھے اور ان میں سے کچھ اپنی ہی فوج کے دشمن ہو گئے اور قتل و غارت کی ۔ دوسرا جواز یہ پیش کیا گیا کہ ہرقل کی سرکاری عیسائیت کا اسقف اعظم قیرس در پردہ ہرقل کے خلاف ہو گیا تھا اور اس نے بھی مسلمان سپہ سالار کے ساتھ ساز باز کرلی تھی ۔ پھر یہ کہ تمام مصری بدوّ مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے۔
غیرمسلم مؤرّخوں کی لکھی ہوئی تاریخ آگے چل کر پڑھی جائیں تو یہ خود اپنی ہی من گھڑت باتوں کی تردید کرتے نظر آتے ہیں۔ اتنی سی بات درست ہے کہ بنیامین نے قبطی عیسائیوں کو یہ ہدایت پہنچا دی تھی کہ وہ جانوں کی بازی لگا کر نہ لڑیں لیکن رومیوں کو یہ پتہ نہ چلنے دیں کہ وہ دل وجان سے اس لڑائی میں شامل نہیں ۔ تاریخ میں یہ اعداد و شمار بھی ملتے ہیں کہ رومی فوج میں قبطی عیسائیوں کی تعداد بہت ہی تھوڑی تھی جو اگر باغی ہو بھی جاتی تو اس سے رومیوں کو جنگی لحاظ سے کوئی نقصان نہ ہوتا۔
باقی رہی بات ہرقل کے اسقف اعظم قیرس کی تو اس کی حقیقت یہ ہے کہ قیرس کا سپہ سالار عمروبن عاص کے ساتھ کوئی رابطہ ہوا ہی نہیں تھا نہ ہی عمرو بن عاص کو یہ توقع تھی کہ وہ قیرس اپنا ہمنوا اور مددگار بنا سکیں گے۔ قیرس اور ہرقل کے درمیان کوئی اور اختلاف ہو سکتا تھا لیکن تاریخ گواہ ہے کہ جہاں تک مصر کے دفاع کا تعلق تھا ہرقل اور قیرس ایک محاذ پر متحد اور متفق تھے۔
یہ صحیح ہے کہ بدوّ مسلمانوں کے ساتھ مل گئے تھے اور انھیں جس دانشمندی سے استعمال کیا گیا تھا وہ پچھلے باب میں بیان ہوچکا ہے ۔لیکن جہاں تک لڑائی کا تعلق تھا بدوؤں کو ٹھیک طرح لڑایا نہیں جاسکتا تھا۔ کیونکہ وہ جنگجو ہی سہی، ایک منظم لشکر اور منظم فوج میں جاکر لڑنے کا تجربہ نہیں رکھتے تھے، یہی وجہ تھی کہ بدؤوں کا جانی نقصان زیادہ ہوا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ بھی صحیح ہے کہ رومی فوج میں زیادہ تعداد ان فوجیوں کی تھی جو شام سے شکست کھا کر بھاگے اور زخمی بھی ہوئے تھے ان پر مسلمانوں کی جو دہشت طاری تھی وہ ابھی تک موجود تھی۔ مقوقس نے نئی فوج تیار کی تھی لیکن پرانے فوجیوں نے نئے فوج کے ذہن میں یہ حقیقت ڈال دی تھی کہ مسلمان کس طرح بے جگری سے لڑتے ہیں، جانیں قربان کردیتے ہیں پیچھے نہیں ہٹتے۔
پرانے فوجیوں نے نئے فوجیوں کو یہ بھی بتایا تھا کہ مسلمانوں کے لشکر کا ہر فرد لڑائی کو ذاتی لڑائی سمجھ کر لڑتا ہے۔
اس دہشت کے علاوہ رومی فوج مسلمانوں کے حسن سلوک سے بھی متاثر تھی خصوصاً غیر فوجی عیسائی تو مسلمانوں کے کردار اور حسن سلوک سے بہت ہی متاثر تھے، وہ کہتے تھے کہ مسلمان ظالموں کی طرح لڑتے ہیں لیکن فتح کے بعد مفتوحہ لوگوں کے لئے رحمت کے فرشتے بن جاتے ہیں ۔ان کا یہ کہنا غیرمسلم مؤرّخوں کی لکھی ہوئی تاریخ میں بھی ملتا ہے کہ مسلمان صرف جسموں کو ہی فتح نہیں کرتے تھے بلکہ دلوں کو فتح کر لیتے اور مفتوحہ لوگوں کو اپنا گرویدہ بنا لیتے تھے۔ وجہ یہ کہ وہ نہ تو عورتوں اور کمزوروں پر ہاتھ اٹھاتے تھے نہ لوٹ مار کرتے نہ یہ کہ عورتوں پر ٹوٹ پڑتے۔
یہ کہنا صحیح نہیں کہ رومیوں میں قومی جذبہ اور وقار نہیں تھا سب کچھ تھا لیکن انہیں مارا تو شہنشاہیت نے مارا ۔ یہاں ایک رومی لڑکی کا واقعہ سامنے آتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ رومیوں میں قومی جذبہ اور وقار کس قدر زیادہ موجود تھا۔ اس لڑکی کا نام نوشیبا تھا اور وہ اس جرنیل کی بیٹی تھی جو فرما کی دفاعی رومی فوج کا کمانڈر تھا۔
تاریخ میں اس جرنیل کا نام نہیں ملتا اس جرنیل کی اس بیٹی نے تاریخ کا وہ باب لکھ ڈالا تھا جو صرف اس تاریخ نویسوں کے یہاں ملتا ہے جنہوں نے کچھ پس منظر کے واقعات تفصیل سے لکھے ہیں۔
اس جرنیل کا تعلق ہرقل کے شاہی خاندان کے ساتھ تھا نوشیبا کی عمر اس وقت بائیس تیئس سال تھی اور ابھی اس کی شادی نہیں ہوئی تھی ۔ فوج کا ہی ایک جوان سال رومی عہدیدار تھا جس کے ساتھ نوشیبا کی منگنی ہو چکی تھی ۔یہ عہدیدار بھی شاہی خاندان کا فرد تھا یہ سب لوگ نوشیبا کو نوشی کہتے تھے۔
ہم اس داستان کو کچھ دن پیچھے اس وقت پر لے جا رہے ہیں جب مسلمان فرما کے قلعے میں داخل ہورہے تھے ۔ قلعے کے باہر بھی اور اب قلعہ کے اندر بھی خونریز جنگ لڑی جا رہی تھی ۔ یہ فرما کا فیصلہ کن معرکہ تھا۔ نوشی کا جرنیل باپ اس وقت دیوار پر کھڑا یہ خونریز معرکہ دیکھ رہا تھا اور وہ یقیناً محسوس کر رہا ہو گا کہ مسلمان فرما فتح کر چکے ہیں اور اس کی فوج ہاری ہوئی لڑائی لڑ رہی ہے ۔ لڑائی کی صورتحال یہ تھی کہ رومی قلعہ کے دفاع کے لئے نہیں بلکہ اپنی اپنی جان کے دفاع کے لیے لڑ رہے تھے وہ بری طرح کٹ رہے تھے۔
جرنیل نے دیوار سے پہلے تو باہر دیکھا پھر اندر کی طرف دیکھنے لگا اس کا ایک ماتحت اس کے پاس آ کھڑا ہوا اور جرنیل سے کہا کہ بہتر یہ ہے کہ مسلمانوں کو اندر آنے دیا جائے اور اپنی فوج باہر رہے اور پھر مسلمانوں پر حملہ کرکے انہیں ختم کر دیا جائے۔ وہ کہتا تھا کہ مسلمانوں کی تعداد بہت تھوڑی ہے اور ان پر قابو پانا ایسا مشکل نہیں جسے ہم ناممکن کہیں۔
میں شام سے آیا ہوں ۔۔۔رومی جرنیل نے ہاری ہوئی سی مسکراہٹ سے کہا۔۔۔ میں نے ان مسلمانوں کو لڑتے دیکھا ہے اور لڑا بھی ہوں۔
تم انہیں کم تعداد والے کہہ رہے ہو یہی کم تعداد ان کی اصل طاقت ہے کیا تم اس صورتحال میں اپنی فوج کو اپنے حکم کا پابند کر سکتے ہو کیا تم دیکھ نہیں رہے کہ ہمارے فوجی جان بچانے کے لیے لڑ رہے ہیں لیکن بھاگنے کے راستے بھی دیکھ رہے ہیں۔ بدوّ غداری کر گئے ہیں۔
تو پھر ہمارے لئے کیا حکم ہے۔۔۔ ماتحت عہدے دار نے پوچھا۔
میری طرف سے تمہیں اجازت ہے۔۔۔ جرنیل نے کہا۔۔۔ لڑنا چاہتے ہو تو لڑو بھاگنا ہے تو بھاگ جاؤ۔
مجھے ایسا بزدل بھی تو نہ سمجھیں۔۔۔ ماتحت نے کہا۔۔۔ آپ نے کہہ دیا کہ بھاگنا ہے تو بھاگو تو کیا میں بھاگ اٹھوں گا آخر دم تک آپ کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔
اس ماتحت نے شہر کے اندر کا منظر دیکھا تو وہیں کھڑے کھڑے اپنے قریبی سپاہیوں کو للکار کر کہا کہ مسلمان اندر آگئے ہیں اور یہیں سے منہ اندر کی طرف کر لو اور مسلمانوں کو تیروں کا نشانہ بناؤ۔۔۔۔ جس رومی سپاہی نے بھی یہ حکم سنا وہ گھوم کر شہر کے اندر مسلمانوں پر تیر برسانے لگا۔
شہر میں بھگدڑ مچ گئی تھی لوگ گھروں سے نکل نکل کر بھاگ رہے تھے اور فوجی لڑ رہے تھے اور کچھ شہریوں میں مل کر بھاگ رہے تھے ۔مسلمان اعلان کر رہے تھے کہ کوئی شہری گھر چھوڑ کر نہ بھاگے گھروں میں رہو کوئی مسلمان کسی گھر میں داخل نہیں ہو گا نہ لوٹ مار ہوگی نہ کسی عورت پر ہاتھ اٹھایا جائے گا۔
یہ بدبخت مسلمان ہمارے لوگوں کو دھوکہ دے رہے ہیں۔۔۔ ماتحت جرنیل نے کہا۔۔۔ یہ جانتے ہیں کہ بھاگنے والے لوگ سونا چاندی اور رقم اپنے ساتھ لے جا رہے ہیں ان کی نظر انہیں چیزوں پر ہے۔
دھوکا نہیں دے رہے ۔۔۔جرنیل نے کہا۔۔۔ یہی ان مسلمانوں میں خوبی ہے مفتوحہ شہر میں کسی گھر میں داخل نہیں ہوتے کسی عورت پر ہاتھ نہیں اٹھاتے یہی خوبی ہماری فوج میں بھی ہوتی تو نہ یہ شام سے بھاگتے نہ آج اتنا مضبوط قلعہ بند شہر ان کے حوالے کر دیتے۔ ہمارے فوجی تو اپنے ہی لوگوں کے گھروں میں گھس کر لوٹ مار شروع کردیتے ہیں۔
اتنے میں مجاہدین دیوار پر آ گئے اور ان تیر اندازوں پر ٹوٹ پڑے جو نیچے شہر کے اندر مجاہدین پر تیر چلا رہے تھے۔ جرنیل ایک طرف کو بھاگ اٹھا اس کا لباس اس کی بڑی واضح پہچان تھی کہ یہ شخص جرنیل ہے اسے توقع نہیں تھی کہ وہ زندہ دیوار سے اتر جائے گا۔ اور اگر زندہ اتر بھی گیا تو مسلمانوں کے قیدی کی حیثیت سے اترے گا۔ لیکن دیوار پر جو اس کے سپاہیوں میں ہڑبونگ اور افراتفری پیدا ہو گئی تھی اس سے اس نے یہ فائدہ اٹھایا کہ جھکا جھکا چلتا دیوار سے اتر ہی گیا۔
نیچے بھی وہی خونریزی کا اور بھاگ دوڑ کا عالم تھا ۔ جرنیل کو اپنا آپ بچانا مشکل نظر آ رہا تھا لیکن اس کی خوش قسمتی یہ تھی کہ قریب ہی ایک گلی تھی جس میں وہ چلا گیا اور پہلے ہی مکان کے دروازے پر ہاتھ رکھا۔ دروازہ اندر سے بند تھا اس نے بڑی زور سے دستک دی لیکن دروازہ نہ کھلا گھر والوں کو یہ خوف آیا ہوگا کہ یہ مسلمان ہے جو اندر آکر ان کے ساتھ وہی سلوک کریں گے جو فاتحین مفتوحہ لوگوں کے ساتھ کیا کرتے ہیں ۔
جرنیل نے اپنا نام لے کر کہا دروازہ فوراً کھولو۔
دروازہ ذرا سا کھلا جس میں سے جرنیل کو ایک آنکھ نظر آئی، جرنیل نے دروازے کو زور سے دھکیلا اور اندر چلا گیا وہ ایک آدمی تھا جس نے ایک کواڑ ذرا سا کھول کر باہر جھانکا تھا ۔ دروازہ فوراً بند ہوگیا اس آدمی نے اپنے جرنیل کو پہچان لیا اور پوچھا کہ لڑائی کی صورتحال کیا ہے؟
جرنیل نے صورتحال بتانے کی بجائے ہانپتے کانپتے لہجے میں کہا کہ اسے فوراً اپنے کپڑے دے دے۔ وہ آدمی جرنیل کے اس اندازے سے ہی سمجھ گیا ہوگا کہ لڑائی کی صورتحال کیا ہے صورت حال اچھی ہوتی تو یہ جرنیل اس طرح گھبراہٹ اور خوفزدگی کے حالت میں ایک عام گھر میں نہ جا گھستا پھر بھی وہ آدمی کھڑا اسے دیکھتا رہا۔
سنا نہیں تم نے!،،،،، جرنیل نے حکم اور رعب کے لہجے میں کہا ۔۔۔مجھے اپنے کپڑے اور چغہ دے دو مجھے پہچانتے نہیں تم؟ میں تمہارا جرنیل ہوں۔
پہچانتا ہوں۔۔۔ اس آدمی نے طنزیہ سے لہجے میں کہا۔۔۔ لیکن ایک غریب آدمی کے کپڑے پہن کر آپ کو کون پہچانے گا۔
وہ آخر جرنیل تھا اور شاہی خاندان کا فرد تھا اور جلدی میں بھی تھا اس لئے اس نے اس شخص کی طنزیہ کلامی کا جواب زبان سے دینے کی بجائے تلوار نکالی اور اپنا حکم دہرایا۔ کمرے سے ایک عورت نکل آئی شاید اس شخص کی بیوی تھی اسے کہنے لگی کہ یہ جو مانگتا ہے اسے فوراً دے دو۔
جرنیل نے اس شخص کے دیئے ہوئے کپڑے اپنے پہنے ہوئے لباس پر ہی چڑھالئے۔
ایک غریبانہ سا چغہ بھی پہنا جو اس کے کندھوں سے ٹخنوں تک لمبا تھا ۔ میلی اور خستہ حال ایک چادر تھی جو اس نے اپنے سر پر لپیٹ لی اور کچھ لٹکا لی اب وہ جرنیل نہیں بلکہ ایک غریب آدمی تھا باہر نکلتے ہوئے وہ صحن سے گزرا تو ایک ٹیڑھی میڑھی لاٹھی سی پڑی نظر آئی اس نے لاٹھی اٹھا لی اور ذرا سا کبڑا ہو کر اور لاٹھی ٹیک کر چلنے لگا دروازے کے قریب پہنچ کر رکا اور مڑ کر دیکھا۔
اتنا مت ڈرو!،،،،، اس نے گھر کے اس آدمی اور اس کی بیوی سے کہا۔۔۔ دروازہ کھلا رہا تو بھی کوئی خطرہ نہیں مسلمان گھروں میں داخل نہیں ہوتے اور وہ لوٹ مار نہیں کرتے۔
تم جاؤ اس شخص نے کہا۔۔۔ اب ہم جانیں مسلمان جانیں۔ میں تمہاری جرنیلی سے نہیں تمہاری تلوار سے ڈر گیا تھا۔ اگر تمہیں ہماری بیٹیوں کا خیال نہیں تو اپنی ہی بیٹی کا خیال کیا ہوتا اور لڑتے ہوئے مر جاتے ۔۔۔۔جاؤ اب تمہیں کوئی نہیں پہچان سکے گا۔
اگر اسے بھاگنے کی جلدی نہ ہوتی تو وہ غریب سے ایک آدمی کی یہ گستاخی معاف نہ کرتا اور اس کا سر اس کے بدن سے جدا کر دیتا لیکن اس نے اس آدمی کو قہر اور غضب کی نگاہوں سے دیکھا اور باہر نکل گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
رومی فوج کا یہ جرنیل لاٹھی ٹیکتا ذرا جھکا ہوا آہستہ آہستہ چلا جا رہا تھا شہر کی گلیوں میں اسے اپنی فوج کے سپاہی بھاگتے دوڑتے جان بچاتے نظر آ رہے تھے۔ مسلمان بھی اس کے قریب سے گزرے اور اس نے ان کی خون آلود تلواریں دیکھیں چار پانچ مرتبہ ایسا ہوا کہ وہ گلی کا موڑ مڑ رہا تھا کہ گھروں سے بھاگنے والے آدمی اس سے ٹکرائے اور بھاگ گئے۔
اسے تین مسلمان نظر آئے جو بڑی ہی بلند آواز سے اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ لوگ گھروں کے اندر رہیں بھاگے نہیں کسی گھر میں کوئی لوٹ مار کے لیے داخل نہیں ہوگا۔ ایک مسلمان کہتا پھر رہا تھا کہ باہر نہ نکلنا بڑی زبردست لڑائی ہو رہی ہے گھوڑوں تلے آکر مارے جاؤ گے ۔پھر بھی شہریوں میں افراتفری بپا تھی اور کچھ لوگوں نے دروازہ اندر سے بند کر لیے تھے۔
جرنیل بہت جلدی میں تھا لیکن ڈر سے تیز نہیں چلتا تھا کہ پہچانا جائے گا اور آہستہ آہستہ چلتے ہوئے اسے بوڑھا اور کمزور یا بیمار سمجھ کر نظر انداز کر دیں گے۔ اس کا گھر شہر سے الگ تھلگ تھا ۔وہ گھر نہیں ایک محل تھا وہاں تک پہنچنے میں خاصا وقت گزر گیا۔ اسے یہ خطرہ نظر آ رہا تھا کہ اس کے گھر والے بروقت نکل نا گئے تو پکڑے جائیں گے۔ زیادہ خیال بیٹی کا تھا جو نوجوان اور غیرشادی شدہ تھی وہ بہت ہی زیادہ خوبصورت بھی تھی۔
وہ گھر کے قریب پہنچا تو اسے ایسے آثار نظر آنے لگے جیسے محل کے مکین بھاگ گئے ہوں۔ مسلمان گھوڑسوار محل کے احاطے میں داخل ہو رہے تھے کچھ محل کے اندر چلے گئے تھے وہ احاطے کے باہر والے گیٹ پر جا رکا اور اس محل کو حسرت بھری نظروں سے دیکھنے لگا جس میں وہ شاہی خاندان کا جرنیل تھا لیکن اب اس محل کے درودیوار جیسے اس کے دشمن ہو گئے تھے۔
ایک مسلمان محل میں سے نکلا اور بلند آواز سے کہا کہ سب بھاگ گئے ہیں محل بالکل خالی ہے۔
جرنیل وہیں کھڑا رہا اسے یہ اطمینان ہو گیا کہ اس کے گھر کے تمام افراد نکل گئے ہیں۔
وہ وہیں کھڑا اپنے محل کو دیکھتا رہا تصور میں لایا جاسکتا ہے کہ اس کے سینے پر کیسے سانپ اور کیسے کیسے زہریلے ناگ لَوٹے ہوں گے۔
وہ اس شہر کا حاکم اور جرنیل نہیں بلکہ بادشاہ تھا یہاں کے لوگوں کی قسمت اس اکیلے شخص کے ہاتھ میں تھی اور وہ ان کا روزی رساں بنا ہوا تھا۔
اس محل میں اس نے جو عیش و عشرت کی تھی وہ بھی اسے یاد آئی ہوگی۔
محل کے سامنے بڑا ہی خوب صورت باغ تھا اس باغ میں اور اس محل میں اس نے معصوم نوجوانیاں اور ان کی عصمتیں پامال کی تھی۔ آج اسے اپنی بیٹی کا غم کھا رہا تھا کہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ یہاں سے نکل گئی تھی یا کسی فاتح کے ہاتھ چڑھ گئی ہے۔
سپہ سالار آرہے ہیں اسے اپنے پیچھے ایک آواز سنائی دی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا لشکر مجاہدین کے فاتح سپہ سالار عمرو بن عاص آ رہے تھے۔ ان کے پیچھے چند ایک گھوڑسوار محافظ تھے اس رومی جرنیل نے ایک بار پھر محل کی طرف دیکھا یہاں تو اس کے محافظوں کا ایک دستہ چاک و چوبند اور ہر دم تیار موجود رہا کرتا تھا لیکن اب ان کا نام و نشان نہ تھا۔
اس نے وہاں سے کھسک جانے کی یا بھاگ نکلنے کی سوچی ہی نہیں ،عمروبن عاص اسکے قریب پہنچ چکے تھے ۔ جرنیل نے اپنا آپ چھپائے رکھنے کے لئے یوں کیا کہ عمرو بن عاص کا گھوڑا اس کے قریب آیا تو اس نے جھک کر اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھا سپہ سالار اور ان کے محافظ ان کے قریب سے گزر گئے اور محل میں جا داخل ہوئے۔
یہاں کھڑے کیا سوچ رہے ہو ۔۔۔رومی جرنیل کے کانوں میں ہلکی سی آواز پڑی۔
اس نے چونک کر ادھر دیکھا ایک بوڑھی عورت اس کے پاس کھڑی تھی ۔ وہ اس بڑھیا کو نہیں جانتا تھا ۔اس کے کسی ملازم کی ماں تھی جس نے اسے غریبانہ بہروپ میں بھی پہچان لیا تھا۔ اس نے جرنیل کو بتایا کہ اس کے گھر کے تمام افراد اسی وقت نکل گئے تھے جس وقت انہیں یہ اطلاع ملی تھی کہ مسلمان کھلےدروازوں سے شہر میں داخل ہو رہے ہیں ۔ شہر کے دو دروازے خاص طور پر چھوٹے بنوائے گئے تھے اور یہ بہت ہی مضبوط تھے ان دونوں دروازوں کی چابیاں شاہی محافظ دستے کے کمانڈر کے پاس رہتی تھی ۔ یہ دروازے فوج کے اندر یا باہر آنے جانے کے لیے استعمال نہیں ہوتے تھے۔ یہ کبھی بھی نہیں کھولے تھے یہ دروازے شاہی خاندان کے لئے مخصوص تھے لیکن انہیں بند اور مقفل ہی رکھا جاتا تھا۔ ان کا استعمال یہی تھا جو اب کیا گیا یعنی یہ شاہی خاندان کے فرار کے لیے مخصوص تھا ۔
بڑھیا نے جرنیل کو بتایا کہ جب مسلمان شہر میں داخل ہو رہے تھے اس وقت ان دونوں میں سے ایک دروازہ کھولا گیا اور تمام افراد اس سے نکل گئے اس طرف کوئی لڑائی نہیں تھی۔
اور میری بیٹی؟
وہ بھی ساتھ ہی گئی ہے۔۔۔ بڑھیا نے جواب دیا۔۔۔ آپ کی بیٹی کا منگیتر آگیا تھا وہی سب کو اپنے ساتھ لے گیا ہے آپ بھی چلے جائیں کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ پہچانے جائیں پھر مسلمان آپ کو گرفتار کرلیں گے۔
وہ اپنے ساتھ گھوڑوں پر کچھ سامان لے گئے ہیں؟
کچھ بھی نہیں ۔۔۔بڑھیا نے جواب دیا۔۔۔ اتنی مہلت ہی نہیں تھی کہ قیمتی چیزیں اکٹھی کر سکتے۔
جرنیل نے اب جو محل کی طرف دیکھا تو اسے یوں لگا جیسے ایک تیر اس کے دل میں اتر گیا ہو اسے معلوم تھا کہ اس محل میں زروجواہرات کا کتنا خزانہ موجود تھا۔
آپ بہت مغموم نظر آتے ہیں۔۔۔ بڑھیا نے کہا۔۔۔ آپ کی جان سلامت ہے خاندان کا ہر فرد زندہ نکل گیا ہے آپ بھی چلے جائیں اور تیار ہو کر واپس آئیں اس شہر پر حملہ کریں اور یہ شہر آپ کا ہی ہوگا۔
جرنیل کے ہونٹوں پر اداس سی مسکراہٹ آ گئی۔ اسے بڑھیا کی یہ بات اچھی لگی لیکن وہ جانتا تھا کہ مسلمانوں سے وہ شہر واپس لینا عموماً ممکن نہیں ہوتا جو وہ فتح کرلیتے ہیں،،،،،،، وہ وہاں سے ہٹا اور محل پر الوداعی نگاہ ڈالتا چلا گیا ۔اسے معلوم تھا کہ اس کا خاندان کہاں گیا ہے ۔ کم و بیش تیس میل دور ایک اور بڑا شہر تھا جس کا اس دور میں نام بلبیس ہوا کرتا تھا۔ اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس کے خاندان کے افراد کس راستے سے گئے ہونگے ۔وہ اس چھوٹے سے دروازے سے نکلا جو شاہی خاندان کے فرار کے لیے مخصوص تھا اس طرف سے کوئی حملہ آور نہیں آ سکتا تھا کیونکہ دیوار کے ساتھ ہی پہاڑی کی ڈھلان تھی جس پر بڑا ہی تنگ راستہ تھا یہ راستہ اتنا ہی تھا کہ ایک آدمی یا ایک گھوڑا اس راستے سے چڑھ یا اتر سکتا تھا۔ اس طرف کوئی لڑائی نہیں تھی بالکل خاموشی تھی وہ نیچے چلا گیا زخمی ہو کر گرنے والے رومی گھوڑ سواروں کے گھوڑے بھاگتے دوڑتے دور دور تک پھیل گئے تھے۔ جرنیل نے دیکھا کہ تین چار گھوڑے اس پہاڑی سے نیچے چلے گئے تھے جس پہاڑی پر فرما کا شہر آباد تھا ۔اس نے ایک گھوڑا پکڑا اس پر سوار ہوا اور ایڑ لگا دی۔
یہ تمام علاقہ سرسبز تھا اور جنگل کہیں کہیں گھنا بھی تھا اور چھوٹی بڑی پہاڑیاں بھی تھی وہاں جاکر انسان اور گھوڑے گم ہو جاتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس رومی جرنیل نے خاصی دور جا کر گھوڑا روکا اور جو غریبانہ کپڑے اس نے اپنے جنگی لباس پر پہنے تھے وہ اتار کر پھینک دئیے اور آگے کو چل پڑا ۔ اب اسے پکڑے جانے کا کوئی خطرہ نہیں تھا ۔ اگر علاقہ میدانی ہوتا تو وہ بہت دور نکل گیا ہوتا لیکن پہاڑی علاقے میں اسے دائیں بائیں بہت مڑنا پڑتا تھا اس لئے وقت زیادہ گزر رہا تھا اور فاصلہ کم نہ ہو رہا تھا اتنے میں سورج غروب ہو گیا۔
پیچھے فرما میں اس کے محل سے تمام مال غنیمت برآمد کرکے اکٹھا کر لیا گیا تھا وہ تو زر و جواہرات کا ایک خزانہ تھا دیگر ساز و سامان اور کپڑے وغیرہ بھی بیش قیمت تھے۔ مجاہدین نے بھاگ دوڑ کر شہریوں میں امن و امان قائم کر دیا بدوؤں پر خاص طور پر نظر رکھی گئی تھی کہ وہ کسی شہری کے گھر میں داخل نہ ہوں ،انہیں بتایا گیا تھا کہ وہ کونسی اشیاء ہوتی ہیں جیسے مال غنیمت میں شمار کیا جاتا ہے اور یہ اشیاء کہاں کہاں ہوتی ہیں ۔
رومی جرنیل سورج غروب ہونے کے بعد بھی رکا نہیں اس نے گھوڑے کی رفتار خاصی تیز رکھی تھی اور اسے امید تھی کہ اپنے خاندان کو راستے میں ہی جا لے گا،،،،،، اور اس نے انہیں راستے میں ہی جا لیا۔ وہ جگہ بڑی خوبصورت اور خوش نما تھی جہاں اس کا خاندان کچھ دیر کے لئے رک گیا تھا۔ وہ سب لوگ گھوڑے پر گئے تھے وہ جگہ فرما سے دس گیارہ میل دور تھی۔ گھوڑوں کے ہنہنانے سے ان لوگوں کی نشاندہی ہوئی تھی۔ جرنیل اپنے خاندان سے جا ملا اور اس نے سب سے پہلے اپنی نوجوان بیٹی کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں ہے؟
وہ اسے نظر نہیں آ رہی تھی۔
پاگل ہو گئی ہے۔۔۔ جرنیل کی بیوی نے کہا۔۔۔ پاگل پن میں کہیں غائب ہو گئی ہے۔
جرنیل تو پہلے سُن ہو کر رہ گیا ۔اور خاندان کے ہر فرد پر سناٹا طاری ہو گیا ۔
یک لخت جرنیل نے گرج کر کہا کہ اسے صحیح بات بتائی جائے پھر اس نے اپنی بیٹی کے منگیتر کے متعلق پوچھا کہ وہ کہاں ہے۔ جرنیل کی بڑھیا نے بتایا تھا کہ نوشی کا منگیتر آگیا تھا اور وہ سب کو ساتھ لے گیا ہے۔
نوشی کے متعلق یہ بتانا ضروری ہے کہ وہ اپنے شاہی وقار کے متعلق بہت ہی جذباتی اور حساس تھی۔ جرنیل کی یہی ایک بیٹی جوان ہوئی تھی دو بیٹے اس سے ابھی چھوٹے تھے ۔ جرنیل نے اپنی اس بیٹی نوشی کو جنگی تربیت دینے کے لئے ایک استاد مقرر کر رکھا تھا جس نے اس لڑکی کو شہسوار بنا دیا تھا پھر اسے تیغ زنی، برچھی بازی، اور تیراندازی کی ایسی تربیت دی تھی کہ وہ تجربے کار فوجی کی طرح دشمن کے مقابلے میں اتر سکتی تھی۔ نوشی تھی تو نوجوان اور بڑی ہی خوبصورت لڑکی لیکن اس نے اپنے آپ میں مردانہ صفات پیدا کر لی تھی۔ اور اس کی فطرت جنگجو مردوں جیسی ہوگئی تھی۔ اپنے آپ سے اکثر کہا کرتی تھی کہ وہ اپنی زندگی میں ملک شام کو رومی سلطنت میں شامل کر لے گئی۔
اس کا جو استاد تھا اس نے نوشی کے دل میں مسلمانوں کے خلاف ایسی نفرت بھر دی تھی کہ وہ مسلمانوں کا نام سنتے ہی اس نفرت کا اظہار کرنے لگتی تھی۔ اس کے اس جرنیل باپ کے دوغلے پن کا یہ حال تھا کہ ایک طرف تو مسلمانوں کے اخلاق کی تعریف کیا کرتا تھا لیکن اپنی اولاد کے دلوں میں مسلمانوں کا تاثر کچھ ایسا پیدا کردیا تھا جیسے اس سے زیادہ کوئی اور حقیر اور قابل نفرت قوم ہو ہی نہیں سکتی۔ مسلمانوں نے رومیوں سے شام چھین کر انھیں مصر کی طرف بھگا دیا تو نوشی کی جزباتی حالت ایسی ہو گئی جیسے وہ ہر اس مسلمان کو قتل کر دے گی جو اس کے سامنے آئے گا اب مسلمانوں نے اسے پورے خاندان سمیت فرما سے بھی بھاگ جانے پر مجبور کردیا اور وہ اپنا محل اور زر جواہرات کا انبار وہیں چھوڑ کر بھاگ نکلی۔
جرنیل کو بتایا گیا کہ فرما سے نکلتے ہی نوشی بگڑ گئی تھی کہتی تھی کہ یہ تھوڑے سے مسلمان کبھی فرما فتح نہیں کر سکتے تھے یہ کامیابی انھیں صرف اس لیے حاصل ہوئی ہے کہ بدو ان کے ساتھ مل گئے تھے۔ یہ بات اسے فرما پر حملے سے پہلے ہی معلوم ہو گئی تھی۔ لیکن اس نے اس طرف دھیان نہیں دیا تھا اب اس کے منگیتر نے بتایا کہ بدوّ مسلمانوں کے ساتھ نہ ہوتے تو ان مسلمانوں میں سے کوئی ایک بھی زندہ واپس نہ جا سکتا تھا۔
نوشی کی ماں نے جرنیل کو جو بات سنائی اس کا خلاصہ یہ ہے کہ محل کا ایک ادھیڑ عمر ملازم مصری بدو تھا اور عیسائی تھا۔
نوشی کو یہ بدوّ اتنا اچھا لگتا تھا کہ اسے اس نے اپنا خاص معتمد ملازم بنا لیا تھا ،اس بدوّ ملازم کا ایک جوان بیٹا بدوؤں کے لشکر میں چلا گیا تھا جو مسلمانوں سے جا ملا تھا۔ اس بیٹے نے اپنے باپ کو تفصیل سے بتایا تھا کہ بدوّ کس طرح مسلمانوں کے پاس گئے تھے اس نے بتایا تھا کہ آسمان سے فرشتے اترے تھے اور انہوں نے خدا کا پیغام دیا تھا۔
بیٹے کا تو یہ حال کے وہ مسلمانوں سے جا ملا لیکن باپ کٹر عیسائی تھا اور مسلمانوں کا ویسا ہی دشمن جیسی نوشی تھی۔
یہ ایک ہم خیالی بھی تھی جس کی وجہ سے یہ ملازم نوشی کو اچھا لگتا تھا۔
اب مسلمانوں نے فرما بھی فتح کرلیا تو اس ملازم نے نوشی کو بتایا کہ بدوّ اپنی قوم اور مذہب سے غداری نہ کرتے تو مسلمان اتنا مضبوط قلعہ بند شہر کبھی فتح نہ کرسکتے۔ نوشی تو جل اٹھی اور اس ملازم نے جلتی پر تیل چھڑکا۔
یہ خاندان جب فرما سے نکلا تو نوشی نے اس بدوّ ملازم سے کہا کہ وہ اس کے ساتھ چلے اس ملازم کو بھی نوشی سے کچھ ایسا پیار ہوگیا تھا کہ وہ ساتھ چل پڑا اور اب نوشی کے ساتھ وہ بھی لاپتہ ہو گیا تھا۔
رومی جرنیل نے جب اپنی بیوی کی زبانی یہ بات سنی تو اس نے فوراً کہا کہ یہ بدوّ بھی غداری کر گیا ہے، جرنیل کا مطلب یہ تھا کہ وہ نوشی کو ورغلا کر اپنے ساتھ لے گیا ہے اور مسلمانوں کے پاس جاکر لڑکی سالار کے حوالے کردے گا اور اس کے عوض مال غنیمت وصول کر لے گا۔
جرنیل کا یہ شک محض ایک وہم تھا اصل بات جو بعد میں معلوم ہوئی وہ یوں تھی کہ لڑکی نے فرما سے نکلتے ہی کہنا شروع کردیا تھا کہ وہ ان بدوؤں کے ہاں جائے گی جو ابھی مسلمانوں کے ساتھ نہیں ملے اور ان کے سرداروں سے کہے گی کہ وہ کسی طرح غدار بدوؤں کو واپس لائیں، یہ مہم کوئی آسان مہم نہیں تھیں نوشی شاید اپنے آپ کو شاہی خاندان کی لڑکی اور بدوؤں کو اپنی رعایا سمجھ کر حکم چلانا چاہتی تھی، لیکن بعد میں یہ راز کھلا کہ اس بدوّ ملازم نے اس سے کہا تھا کہ وہ اسے اپنے ساتھ ایک ایسے بدوّ کے پاس لے جائے گا جس کے ہاتھ میں غیبی طاقت ہے اور وہ جو چاہے کرسکتا ہے ،وہ شخص کوئی جادو چلانے کا علم رکھتا تھا اور لوگ اس سے غیب کا اور آنے والے وقت کا حال پوچھنے جاتے تھے اور وہ پراسرار بیماریوں کا علاج بھی کرتا تھا۔
بدوّ ملازم نے نوشی کو یقین دلایا تھا کہ یہ شخص جسے سب جادوگر کہتے ہیں اگر حکم دے دے یا بدوؤں کو ڈرا دے تو کوئی اور بدوّ مسلمانوں کے لشکر میں شامل نہیں ہوگا اور جو شامل ہو چکے ہیں وہ واپس آ جائیں گے۔
نوشی کی ماں نے جرنیل کو بتایا کہ نوشی کی جزباتی حالت بہت ہی بری ہو گئی تھی اور وہ فرما سے کچھ دور آ کر گھوڑا روک لیتی اور کہتی کی وہ جا رہی ہے اسے زبردستی آگے لے جاتے تھے وہ علاقہ ایسا تھا کہ چٹانوں اور ٹیکریوں کی وجہ سے ہر چند قدم بعد دائیں یا بائیں مڑنا پڑتا تھا اور جگہ اتنی تنگ تھی کہ گھوڑے ایک دوسرے کے پیچھے قطار کی صورت میں ہی چلائے جا سکتے تھے نوشی کی کوشش یہ تھی کہ وہ سب سے آخر میں رہے۔
خاصی دور آ کر ایسی جگہ آگئی کہ پیچھے والے کو اپنے آگے جانے والے گھوڑے کی بھی خبر نہیں رہتی تھی یہ قافلہ اصل راستے سے ہٹ کر دشوار گزار راستے سے جا رہا تھا تاکہ مسلمان تعاقب میں آئیں تو انھیں کچھ نہ ملے۔
ایک جگہ ذرا کشادہ آئی تو دیکھا نوشی اس قافلے کے ساتھ نہیں تھی اور بدوّ ملازم بھی نہیں تھا۔
نوشی کے منگیتر نے کہا کہ وہ اس کے پیچھے جا رہا ہے اس نے یہ بھی کہا کہ اس کا انتظار نہ کیا جائے ، سب چلتے چلیں کیونکہ ہوسکتا ہے نوشی اسے نہ ملے، اور وہ اسے ڈھونڈ کر ساتھ لے ہی آئے گا ۔ اس طرح جرنیل کا خاندان بلبیس کی طرف بڑھتا گیا اور منگیتر نوشی کے پیچھے چلا گیا۔
جرنیل غصے سے اٹھ کھڑا ہوا کہنے لگا کے وہ بھی اس کے پیچھے جاتا ہے لیکن بیوی نے اسے پکڑ کر بٹھا لیا اور کہا کہ اتنا وقت گزر چکا ہے اب اس کے پیچھے جانا محض حماقت ہے۔
مجھے اس کے پیچھے نہیں جانا چاہیے ۔۔۔جرنیل نے کہا۔۔۔ مجھے فوراً بلبیس پہنچنا ہے ورنہ وہاں فوج میں یہ مشہور ہو جائے گا کہ میں شکست کھا کر کہیں اور فرار ہو گیا ہوں۔ اپنی بیٹی کے متعلق یہ پریشانی ہے کہ وہ مسلمانوں کے ہاتھ چڑھ جائے گی اور کوئی عربی بدوّ اسے اپنی بیوی یا داشتہ بنالے گا ۔ یہ ڈر بھی ہے کہ یہ مصری بدوّ ہی لڑکی کو اپنے قبضے میں رکھ لے گا۔
میں غلط نہیں کہہ رہی۔۔۔ جرنیل کی بیوی نے کہا۔۔۔ لڑکی پاگل ہو چکی ہے ۔ وہ آ بھی گئی تو اسکا دماغ ٹھکانے نہیں آئے گا۔ میں اسے بتاتی رہتی تھی کہ عقل پر جذبات کو غالب کرنے والے تباہی کی طرف ہی جایا کرتے ہیں، لیکن میں نے دیکھا کہ لڑکی جذبات کے رنگ میں سوچتی تھی اور عقل استعمال نہیں کرتی تھی، ہم نے بھی کبھی خیال نہ کیا کہ اس کا یہ ملازم بھی اور استاد بھی اسے بڑی گھٹیا اور جذباتی کہانیاں سناتے رہتے تھے، اور ہم یہ سمجھتے رہے کہ لڑکی میں قومی وقار اور جنگی جذبہ ہے جو سلطنت روم کو مضبوط بنائے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بدوّ ملازم دیانتدار تھا یا بددیانت یہ ایک الگ بات ہے اسے یہ معلوم تھا کہ بدؤوں کا علاقہ کونسا ہے جس کے پاس وہ نوشی کو لے جارہا ہے ۔ وہ کہاں رہتا ہے۔ یہ بدوّ نہایت اچھا رہنما تھا کیونکہ وہ خود بدوّ تھا اور اپنے علاقے سے پوری طرح واقف تھا۔
بدوؤں کا علاقہ دور دور تک پھیلا ہوا تھا ایک تو وہ علاقہ تھا جہاں کے بدو مسلمانوں کے ساتھ جاملے تھے۔ اور ایک علاقہ فرما سے ذرا آگے اور الگ ہٹ کر تھا جو زیادہ سرسبز اور شاداب تھا یہاں بھی بدو رہتے تھے۔
اس سرسبز و شاداب علاقے کے بدوّ صحرائی بدوؤں سے یعنی ان بدوؤں سے جو مسلمانوں کے پاس چلے گئے تھے کچھ مختلف تھے۔ تھے تو یہ بھی توہم پرست لیکن ان کے عقائد دوسروں سے مختلف تھے یہ بھی عیسائی تھے۔ لیکن انھیں ایک اور ہی فرقے کے عیسائی کہا جاسکتا ہے۔
اصل خطرے والی بات یہ تھی کہ بدوّ ملازم کوئی دانشمند اور دوراندیش آدمی نہیں تھا وہ نوشی کی وفاداری کی وجہ سے اس کا ساتھ دے رہا تھا ۔اسے مسلمانوں کے خلاف کہانیاں سنا سکتا تھا لیکن کوئی دانشمندانہ مشورہ دینے کے قابل نہیں تھا۔ نوشی پر تو جذبات ہی غالب تھے ۔اور وہ اگر پوری طرح پاگل نہیں ہو گئی تھی تو نیم پاگل ضرور ہو گئی تھی ۔عمر بھی تو جوانی کی تھی جب جذبات ہی ذہن پر غالب آتے ہیں۔
سورج اوپر آگیا تو نوشی اپنے ملازم کی رہنمائی میں بدوؤں کے علاقے میں داخل ہو گئی۔
انہیں اپنے پیچھے دوڑتے گھوڑے کی ٹاپ سنائی دی دونوں نے پیچھے دیکھا ایک گھوڑسوار ان کی طرف گھوڑا دوڑاتا آ رہا تھا۔ وہاں جنگل تو گھنا تھا لیکن کوئی ایسی ٹیکریاں، چٹان، یا کوئی اوٹ نہیں تھی کہ وہ چھپ جاتے اس سوار نے انہیں دیکھ بھی لیا تھا اس لئے وہ چلتے گئے اور نوشی نے ملازم سے کہا کہ یہ جو کوئی بھی ہے اسے نہیں بتانا کہ ہم کہاں جا رہے ہیں اور اگر خطرہ ہوا تو اس سوار کو دونوں مل کر قتل کردیں گے ان دونوں کے پاس تلواریں بھی تھی اور خنجر بھی۔
گھوڑ سوار قریب آ گیا نوشی کو اس کی پکار سنائی دی۔
نوشی!،،،، گھوڑ سوار نے پکارا۔۔۔ رک جاؤ میں تمہارے پیچھے آیا ہوں۔
نوشی نے گھوڑا روک لیا اور پیچھے دیکھا اس کا منگیتر آ رہا تھا۔
کہاں جا رہی ہو نوشی؟،،،، منگیتر نے پوچھا۔
ہرقل کی غیرت کو جگانے کے لئے۔۔۔ نوشی نے جواب دیا ۔۔۔اگر اسکی غیرت نہ جاگی تو روم کے وقار کو ہمیشہ کے لئے دفن کر آؤں گی۔
منگیتر جس کے نام کا کچھ علم نہیں ۔نوشی کی اتنی سی بات سے سمجھ گیا کہ یہ لڑکی دماغی طور پر ٹھیک نہیں رہی اس نے اپنا گھوڑا نوشی کے گھوڑے کے آگے کر کے اس گھوڑے کی لگام پکڑ لی اور بولا کے میرے ساتھ واپس چلو۔
میرے راستے کی رکاوٹ نہ بنو۔۔۔ نوشی نے تلوار نکال کر کہا۔۔۔ میں تم سے بھی توقع رکھتی ہوں کہ میرا ساتھ دو گے، ساتھ کے بجائے تم رکاوٹ بن رہے ہو میں تمہیں مسلمانوں سے بدتر دشمن سمجھوں گی،،،،، میرے راستے سے ہٹ جاؤ۔
میں تمہیں اپنی محبت کا واسطہ دیتا ہوں۔۔۔ منگیتر نے کہا۔۔۔ تم پر زبردستی نہیں کروں گا میں بھی رومی ہوں مر نہیں گیا،،،،،،
میرے دل میں تمہارے سوا اور کوئی نہیں۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ لیکن میں اس دل سے سلطنت روم کی محبت نہیں نکال سکتی میری پہلی محبت روم ہے اس کے بعد تم ہو ،اگر تم میرا ساتھ دیتے ہو تو میرے ساتھ آؤ اگر نہیں تو تم میرے ہاتھ سے مارے جاؤ گے۔
مجھے آخر مرنا ہی ہے۔۔۔ منگیتر نے کہا۔۔۔ لیکن میں روم کی زمین پر کسی مسلمان کے ہاتھوں مرنا زیادہ پسند کروں گا ۔میں جانتا ہوں تم بدوؤں کے سردار سے ملنے جا رہی ہو۔ لیکن یہ کام ایک عورت کا نہیں یہ جرنیلوں کی سطح کا معاملہ ہے یہ بدوّ تمہیں کمسن لڑکی سمجھ کر ٹال دیں گے۔
کون سے مردوں کی بات کر رہے ہو۔۔۔ روشی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔۔۔ ہرقل کی، مقوقس کی، اس اطربون کی جو اپنے آپ کو دنیا کا سب سے زیادہ بہادر اور دانشمند جرنیل سمجھتا ہے ۔کہاں ہیں وہ سب ۔ سب اپنی اپنی جگہوں پر آرام سے بیٹھے عیش و عشرت میں پڑے ہیں اور میرے باپ کو آگے کر رکھا ہے۔ میرے باپ نے مقوقس اور اطربون کو اطلاع بھیج دی تھی کہ تین چار ہزار بدوّ مسلمانوں کے ساتھ مل گئے ہیں اور یہ بدوّ دیہات میں جاکر اناج اکٹھا کرکے مسلمانوں کو دے رہے ہیں ۔لیکن کسی نے نہ سوچا کہ اسکا کوئی تدارک کیا جائے اب یہ کام میں کروں گی۔
سلطنت روم فرما پر ختم نہیں ہو جاتی نوشی! ۔۔۔۔منگیتر نے کہا۔۔۔ یہ آخری قلعہ ہے جو مسلمانوں نے فتح کر لیا ہے اس سے آگے ان کے لئے موت کے سوا کچھ بھی نہیں ہمارے جاسوس انہیں بہت قریب سے دیکھ رہے ہیں۔ مسلمانوں کو کوئی کمک نہیں مل رہی فرما میں ان کا جانی نقصان اچھا خاصا ہوا ہے اور بدوّ زیادہ مارے گئے ہیں۔ ان کی طاقت کم ہوتی جا رہی ہے ان کی کمک کے لیے راستہ اور لمبا ہو گیا ہے ۔ہم نے انتظام کرلیا ہے کہ ان کی کمک کو اسی راستے میں ہی روک کر ختم نہ کیا جاسکا تو اسے اتنا کمزور ضرور کردیں گے کہ بیکار ہوکر رہ جائے گی۔
تم اگر جرنیل ہوتے تو شاید میں تمہاری یہ بات مان لیتی۔۔۔ نوشی نے کہا۔۔۔ تم چھوٹے سے عہدے دار ہو سنی سنائی باتیں کرتے ہو لیکن بالائی سطح پر مجھے کوئی ایسی سرگرمی نظر نہیں آرہی میں ان مصری بدوؤں کو مسلمانوں سے الگ کرنا چاہتی ہوں۔
ابھی ہزاروں بدوّ موجود ہیں جو نہ ہمارے ساتھ ہیں اور نہ ہی مسلمانوں کے ساتھ، میں انہیں اپنے ساتھ ملانا چاہتی ہوں ان کی ایک الگ فوج تیار کروں گی اور پھر میں مسلمانوں کا راستہ روکوں گی، یہ میرا عزم ہے اور اس پر میں تمہاری محبت کو بڑی آسانی سے قربان کر سکتی ہوں۔
اس دور کی تاریخ کا ذرا گہرائی سے مطالعہ کیا جائے تو اس رومی لڑکی کا یہ عزم عجیب نہیں لگتا اس دور میں کئی ایسے جنگی واقعات ملتے ہیں جن میں فوج کی قیادت کسی عورت نے کی، اور بڑے بڑے لشکروں کے منہ موڑ دیئے تھے۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی