اپریل 2019
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟘 𝟝⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس وقت وہ معجزے دکھا رہا تھا اس وقت دو آدمی ٹیلے کے پیچھے اس جگہ چھپے ہوئے تھے جہاں رنگ برنگ خیمے نصب تھے کسی خیمے میں سے لڑکیوں کی باتیں اور ہنسی سنائی دے رہی تھی یہ دو آدمی امام اور محمود بن احمد تھے محمود کو یقین تھا کہ سعدیہ یہیں کہیں ہے محمود میں اتنی مذہبی سوجھ بوجھ نہیں تھی وہ خدا کے اس ایلچی کے متعلق کوئی رائے قائم کرنے کے قابل نہیں تھا امام نے کہا تھا کہ کوئی انسان مرے ہوئے کو زندہ نہیں کرسکتا اس نے توجہ ہی نہیں دی تھی کہ پراسرار آدمی لوگوں کو کیا کچھ کرکے دکھا رہا ہے اس نے اس سے یہ فائدہ اٹھایا تھا کہ لوگ اس کی کرامات دیکھنے میں مگن ہیں اس لیے پیچھے جا کر یہ دیکھا جائے کہ اس میں راز کیا ہے اس کی توجہ صرف سعدیہ پر تھی محمود صرف سعدیہ کو ڈھونڈ رہا تھا خیموں کی جگہ اندھیرا تھا صرف تین خیموں میں روشنی تھی تینوں کے پردے دونوں طرف سے بند تھے وہاں پہرے کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا دو تین مرد کہیں باتیں کررہے تھے یہ خطرہ صاف نظر آ رہا تھا کہ وہ دونوں کسی کو نظر آگئے تو وہ زندہ نہیں رہیں گے ٹیلے کی دوسری طرف سے اس کی آواز سنائی دے رہی تھی اور سازوں کا ترنم بھی سنائی دے رہا تھا لیکن یہ پتہ نہیں چلتا تھا کہ سازندے کہاں ہیں
امام اور محمود نے روشنی والے ایک خیمے کے قریب جاکر لڑکیوں کی باتیں سننے کی کوشش کی ان کی باتوں نے ان کا حوصلہ بڑھا دیا ایک نسوانی آواز کہہ رہی تھی یہاں بھی تماشہ کامیاب رہا ہے ایک اور لڑکی نے کہا بڑی ہی جاہل قوم ہے
مسلمان کو تباہ کرنے کا طریقہ یہی ہے کہ اسے شعبدے دکھا کر توہم پرست بنا دو یہ ایک اور عورت کی آواز تھی
معلوم نہیں وہ کس حال میں ہے؟
نئی چڑیا! ایک لڑکی نے کہا تم سب کو ماننا پڑے گا کہ وہ ہم سب سے زیادہ خوبصورت ہے
وہ آج دن کو بھی روتی رہی تھی کسی لڑکی نے کہا آج رات اس کا رونا بند ہوجائے گا ایک لڑکی نے کہا اسے خدا کے بیٹے کے لیے تیار کیا جارہا ہے
لڑکیوں کا قہقہہ سنائی دیا ایک نے کہا خدا بھی کیا یاد کرے گا کہ ہم نے اسے کیسا بیٹا دیا ہے کمال انسان ہے
اس کے بعد لڑکیوں نے آپس میں فحش باتیں شروع کردیں امام اور محمود سمجھ گئے کہ نئی چڑیا سعدیہ ہی ہوسکتی ہے انہیں بہرحال یقین ہوگیا کہ یہ سب شعبدہ بازی ہے اور یہ دھونگ پسماندہ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کے لیے رچایا جا رہا ہے امام نے محمود کے کان میں کہا ان لڑکیوں کی عریاں باتیں اور شراب کی بو بتا رہی ہے کہ یہ کون لوگ ہیں اور یہ کیا ہورہا ہے ہم ویسے ہی نہیں بھٹک رہے
وہ دونوں بڑے خیمے کے قریب چلے گئے یہ خیمہ ایک ٹیلے کے ساتھ تھا اور یہ ٹیلا تقریباً عمودی تھا ٹیلے اور خیمے کے پچھلے دروازے کے درمیان ایک آدھ گز فاصلہ تھا انہوں نے اس جگہ جا کر دیکھا خیمے کے پردے درمیان سے رسیوں سے بندھے ہوئے تھے ایک آنکھ سے اندر جھانکنے کی جگہ تھی انہوں نے جھانکا تو ان کے شکوک رفع ہوگئے اندر ایک لمبی مسند تھی جس پر خوش نما مسند پوش بچھا ہوا تھا فرش پر قالین بچھا تھا اور دو قندیلیں جل رہی تھیں ایک طرف شراب کی صراحی اور پیالے رکھے تھے اندر کی سجاوٹ اور شان و شوکت سے پتہ چلتا تھا کہ اس مشتبہ قافلے کے سردار کا خیمہ ہے سعدیہ کے پاس ایک عورت اور ایک مرد تھا سعدیہ کو دلہن کی طرح سجایا جارہا تھا
آج سارا دن تم روتی رہی ہو عورت اسے کہہ رہی تھی تھوڑی دیر بعد تم ہنسو گی اور اپنے آپ کو پہچان بھی نہیں سکو گی تم خوش نصیب ہو کہ اس نے جو خدا کی طرف سے زمین پر اترا ہے تمہیں پسند کیا ہے وہ صرف تمہارے لیے یہاں آیا ہے اس نے تمہیں بیس روز کی مسافت جتنی دور سے غیب کی آنکھ سے دیکھا تھا تمہارے گاؤں میں اسے خدا لایا ہے اگر یہ نہ آتا تو تم کسی صحرائی گڈرئیے کے ساتھ بیاہ دی جاتی یا تمہیں بردہ فروشوں کے ہاتھ بیچ دیا جاتا
سعدیہ پر ان باتوں کا جادو سوار ہوتا جارہا تھا وہ خاموشی سے سن رہی تھی محمود جوش میں آچلا تھا امام نے اسے روک لیا وہ دیکھنا چاہتا تھا کہ سعدیہ کو کس کے لیے تیار کیا جارہا ہے زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ ٹیلے کی دوسری طرف سے کسی نے اعلان کیا وہ جو خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر ہے اور جس کے ہاتھ میں ہم سب کی زندگی اور موت ہے اور جس کی آنکھ غیب کے بھید دیکھ سکتی ہے تاریک رات میں آسمان پر جارہا ہے جس کے ستارے خدا کی آنکھ کی طرح روشن ہیں تم میں سے کوئی آدمی اس طرف نہ دیکھے جہاں خیمے لگے ہوئے ہیں ٹیلوں کے اوپر کوئی نہ جائے جس کسی نے اس طرف جانے یا دیکھنے کی کوشش کی وہ ہمیشہ کے لیے اندھا ہوجائے گا کل رات وہ تم سب کی مرادیں سنے گا
امام اور محمود وہیں کھڑے رہے خیمے کے اندر جو مرد عورت تھے انہوں نے سعدیہ کو ایک بار پھر نصیحت کی کہ وہ آرہا ہے اس کے سامنے کوئی بدتمیزی نہ کرنا وہ آگیا وہ سامنے کی طرف سے خیمے میں داخل ہوا امام اور محمود یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ اس کے سینے میں چار تیر اور چار خنجر اترے ہوئے تھے سعدیہ نے تیر اور خنجر دیکھے تو اس نے خوف سے کانوں پر ہاتھ رکھ لیے اس کی ہلکی سی چیخ سنائی دی مقدس انسان مسکرایا اور بولا ڈر مت لڑکی یہ معجزہ مجھے خدا نے دیا ہے کہ میں تیروں اور خنجروں سے مر نہیں سکتا وہ سعدیہ کے ساتھ لگ کر بیٹھ گیا میں نے یہ شعبدہ ایک بار قاہرہ میں دیکھا تھا امام نے محمود کے کان میں کہا تم بھی ڈر نہ جانا میں جانتا ہوں تیر اور خنجر کہاں پھنسے ہوئے ہیں
وہ اٹھا اور خیمے کا پردہ رسیوں سے باندھ دیا ادھر محمود اور امام نے اپنی طرف سے خیمے کا پردہ کھول دیا انہوں نے نتائج کی پروا نہ کی دبے پاؤں اندر گئے جونہی وہ شخص مڑا وہ امام اور محمود کے شکنجے میں آچکا تھا محمود نے دبی آواز میں سعدیہ سے کہا جس پر تم بیٹھی ہو اس کا کپڑا اس کے اوپر ڈال دو سعدیہ تو جیسے سن ہوگئی تھی اس نے مسند پوش اتار کر اس آدمی پر ڈال دیا اس کا جسم طاقتور نظر آتا تھا مگر امام اور محمود نے اسے بری طرح جکڑ لیا تھا پھر اس کے اوپر کپڑا ڈال کر باندھ دیا قندیلیں بجھا دی گئیں امام کے کہنے پر پہلے سعدیہ باہر نکلی اپنے قیدی کو محمود نے اپنے کندھوں پر پھینک لیا امام ہاتھ میں خنجر لیے آگے آگے چلا وہ سب جس طرف سے خیمے میں داخل ہوئے تھے اسی طرف سے باہر نکل گئے پکڑے جانے کا خطرہ ہر قدم پر تھا لیکن انہوں نے ایسا راستہ اختیار کیا جو انہیں فوراً خطرے سے باہر لے گیا اندھیرے نے ان کی بہت مدد کی
انہیں دور کا چکر کاٹ کر گاؤں میں داخل ہونا پڑا وہ مسجد میں چلے گئے حجرے میں لے جا کر شعبدہ باز کو کھولا گیا ابھی تک تیر اور خنجر اس کے سینے میں اترے ہوئے تھے اسے اٹھانے کی وجہ سے وہ ٹیڑے ہوگئے تھے سعدیہ کو بھی انہوں نے حجرے میں ہی رکھا کیونکہ خطرہ تھا کہ لڑکی کی گمشدگی کا پتہ چل گیا تو وہ لوگ اس کے باپ پر حملہ کردیں گے دراصل حملہ کرنے والے اب یہ دیکھنے کی حالت میں بھی نہیں تھے کہ ان کے خدا کا بیٹا کہاں ہے وہ کامیاب جشن منا کر شراب اور بدکاری میں بدمست ہوگئے تھے وہ سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ ان کا آقا مع نئی چڑیا کے اغوا بھی ہوسکتا ہے
امام اور محمود نے اسے چغہ اتارنے کو کہا اس نے پہلے تیر اور خنجر کھینچ کر نکالے چغہ اتارا پھر اس سے اندر والے کپڑے بھی اتروا لیے گئے ان کپڑوں میں کارک کی طرح نرم لکڑی چھپی ہوئی تھی جس پر چمڑہ لگا ہوا تھا یہ لکڑی کچھ دوہری ہوجاتی تھی اور اتنی لمبی چوڑی تھی جس سے اس کا سینہ ڈھک جاتا تھا تیر اور خنجر اس میں اترے ہوئے تھے اس نے امام اور محمود سے کہا اپنی قیمت بتاؤ سونے کی صورت میں گھوڑوں اور اونٹوں کی صورت میں ابھی ادا کروں گا مجھے ابھی آزاد کردو تم اب آزاد نہیں ہوسکو گے امام نے کہا ہم بھی لوگوں کی طرح تمہارے انتظار میں بیٹھے تھے
امام نے محمود سے کہا تمہیں معلوم ہوگا کہ قریبی چوکی کہاں ہے وہاں کے پورے دستے کو ساتھ لے آؤ اس نے چوکی کا فاصلہ اور سمت بتائی اور وہ خفیہ الفاظ بھی بتائے جن سے امام سراغ رساں اور جاسوس کی حیثیت سے پہچانا جاتا تھا اپنے دو جاسوسوں کے نام اور ٹھکانہ بتا کر محمود سے کہا انہیں میرے پاس بھیجتے جانا
محمود نے امام کے گھوڑے پر زین ڈالی اور سوار ہوکر نکل گیا اسے امام کے دونوں جاسوس مل گئے انہیں مسجد میں جانے کو کہہ کر وہ چوکی کی سمت روانہ ہوگیا گاؤں سے کچھ دور جاکر اس نے گھوڑے کو ایڑی لگائی کوئی ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت تھی مگر وہ شش وپنج میں مبتلا تھا وہ اس چوکی کے کمانڈر کو جانتا تھا وہ لاپروا آدمی تھا صلیبیوں اور سوڈانیوں نے اسے رشوت دے دے کر اپنے ساتھ ملا رکھا تھا محمود نے قاہرہ کو اس کی رپورٹ بھیج دی تھی مگر ابھی تک اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی تھی محمود کو یہی نظر آرہا تھا کہ وہ اپنے دستے کو اس کے ساتھ نہیں بھیجے گا یا وقت ضائع کرے گا تاکہ دشمن نکل جائے محمود سوچ رہا تھا کہ اگر چوکی سے اسے دستہ نہ ملا تو وہ کیا کرے گا صبح سے پہلے دستے کو گاؤں میں پہنچنا ضروری تھا دستہ نہ ملنے کی صورت میں امام اور ان کے جاسوسوں کی جانیں خطرے میں آسکتی تھیں کیونکہ اس شعبدہ باز کے ساتھ بہت سارے آدمی تھے اس کے مریدوں کا ہجوم بھی اسی کا حامی تھا
امام کے پاس خنجر تھا اس کے جاسوس بھی اس کے پاس آگئے تھے وہ بھی خنجروں سے مسلح تھے انہوں نے شعبدہ باز کو گرفتار کیے رکھا وہ رہائی کی اتنی زیادہ قیمت پیش کررہا تھا جو امام اور اس کے جاسوس خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتے تھے امام نے اسے کہا میں مسجد میں بیٹھا ہوں یہ اسی خدا کا گھر ہے جس نے تمہیں سچا دین دے کر زمین پر اتارا ہے کیا یہ ہے تمہارا سچا دین؟دیکھو دوست! میں قاہرہ کی حکومت کا اہلکار ہوں میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا اور میں ایمان بھی نہیں بیچ سکتا 
محمود بن احمد چوکی کے خیموں میں داخل ہوا تو کمانڈر کے خیمے میں اس نے روشنی دیکھی گھوڑے کے قدموں کی آواز سن کر کمانڈر باہر آگیا محمود نے اپنا تعارف کرایا اور کمانڈر کے ساتھ خیمے میں چلا گیا محمود کے لیے یہ کمانڈر اجنبی تھا اسے کمانڈر نے بتایا کہ گزشتہ شام پرانے دستے کو یہاں سے بھیج دیا گیا ہے یہ دستہ نیا آیا ہے یہ تبدیلی صلاح الدین ایوبی کے ساتھ محاذ سے آئی تھی محمود نے کمانڈر کو تفصیل سے بتایا کہ انہوں نے بہت بڑا شکار پکڑا ہے اور اس کے تمام گروہ کو پکڑنے کے لیے چوکی کے پورے دستے کی فوری طور پر ضرورت ہے تاکہ ان لوگوں کو رات ہی رات میں گھیرے میں لے لیا جائے
کمانڈر نے فوراً پورے دستے کو جس کی تعداد پچاس سے زیادہ تھی گھوڑوں پر سوار ہونے کا حکم دیا ان کے پاس برچھیاں اور تلواریں تھیں اور ان میں تیرانداز بھی تھے آٹھ دس سپاہیوں کو چوکی پر چھوڑ دیا گیا یہ دستہ کرک کے محاصرے سے آیا تھا جذبہ قائم تھا کمانڈر نے سرپٹ گھوڑے دوڑا دئیے مجرم خبر ہونے کی حالت میں نہیں تھے شراب اور نیند نے انہیں بے ہوش کر رکھا تھا کمانڈر نے محمود کی رہنمائی میں گھیرا مکمل کرلیا اور کارروائی صبح تک ملتوی رہی محمود نے امام کو اطلاع دے دی کہ دستہ آگیا ہے سعدیہ ابھی امام کے حجرے میں ہی تھی امام نے ایک جاسوس بھیج کر سعدیہ کے باپ کو بھی بلا لیا
جو معتقد مرید اور زائرین بڑی دور دور سے اس کی زیارت کو آئے تھے وہ رات کے معجزے دیکھ کر کھلے آسمان تلے سو گئے تھے ان کے مقدس انسان نے انہیں کہا تھا کہ اگلی رات وہ ان کی مرادیں سنے گا یہ ہجوم صبح اس وقت جاگ اٹھا جب اجالا ابھی دھندلا تھا اس دھندلکے میں انہیں بہت سے گھوڑے نظر آئے ان پر سوار جو تھے وہ فوجی تھے لوگ کچھ سمجھ نہ سکے انہیں معلوم نہیں تھا کہ جو مرے ہوؤں کو زندہ کرتا ہے وہ مسجد کے حجرے میں ہاتھ پاؤں بندھے بیٹھا ہے وہ اب مسلمانوں کے سچے خدا کی گرفت میں آچکا تھا دستے کا کمانڈر دمشق کا رہنے والا رشد بن مسلم جس کا عہدہ معمولی تھا لیکن سرحد پر آکر اس نے اپنے دستے سے کہا تھا ساری سلطنت صرف تمہارے بھروسے پر سوتی ہے صلاح الدین ایوبی ہر وقت تمہارے ساتھ ہے اگر وہ تمہیں نظر نہیں آتا تو اسے میری آنکھوں میں دیکھ لو ہم سب سلطان صلاح الدین ایوبی ہیں مگر کسی نے یہاں پرانے دستے کے آدمیوں کی طرح ایمان فروخت کیا تو میں اس کے پاؤں باندھ کر ریگستان میں زندہ پھینک دوں گا میں اس سزا کا حکم قاہرہ سے نہیں لوں گا میں خدا سے حکم لیا کرتا ہوں
رشد بن مسلم نے صبح کے وقت دیکھا کہ خیموں کے اندر کوئی حرکت نہیں تھی اندر والے اتنی جلدی اٹھنے والے نہیں تھے رشد نے لوگوں سے کہا کہ وہ دور پیچھے ہٹ جائیں اور وہیں موجود رہیں انہیں مقدس انسان قریب سے دکھایا جائے گا لوگوں کو دور ہٹا کر رشد نے تین چار سوار مختلف ٹیلوں کے اوپر کھڑے کردیئے تاکہ مجرموں میں سے کوئی بھاگنے کی کوشش نہ کرے باقی سواروں کو اس نے گھوڑوں سے اتار کر چاروں طرف سے پیدل اندر جانے کو کہا اور حکم دیا کہ کوئی مزاحمت کرے تو اسے فوراً ہلاک کردو کوئی بھاگے تو اسے تیر مار دو وہاں بھاگنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا رشد ننگی تلوار لیے پہلے خیمے میں داخل ہوا تو اندر اسے ایک نیم برہنہ لڑکی اور دو آدمی گہری نیند سوئے ہوئے نظر آئے اس نے تلوار کی نوک چبھو کر تینوں کو جگایا جاگنے کے بجائے انہوں نے جگانے والے کو گالیاں دیں اور کروٹ بدل کر سوئے رہے تلوار کی نوک اب کے ان کی کھال میں اتر گئی تینوں ہڑبڑا کر اٹھے انہیں باہر نکال لیا گیا دوسرے خیموں میں بھی جو لڑکیاں اور مرد ملے وہ اسی حالت میں تھے خیموں میں بے شمار سامان تھا ایک خیمے میں بہت سے ساز پڑے تھے
سب کو باہر لے جا کر ان پر پہرہ کھڑا کردیا گیا ان کے اونٹوں اور تمام تر سامان پر قبضہ کرلیا گیا امام رشد بن مسلم کے ساتھ تھا وہ اس آدمی کو اپنے حجرے میں سے لے آیا جو اپنے آپ کو خدا کے بیٹے کا بیٹا کہتا تھا اس کے ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے تھے اسے اسی جگہ کھڑا کیا گیا جہاں رات اس نے معجزے دکھائے تھے پیچھے پردے لگے ہوئے تھے اس کے گروہ کو اس کے سامنے بٹھا دیا گیا ان سب کے ہاتھ پیچھے باندھ دیئے گئے وہ ایک خیمے سے برآمد ہوئے تھے امام نے لوگوں کو آگے آنے کو کہا ہجوم آگے آیا تو امام نے کہا اسے کہو کہ یہ خدا کا ایلچی ہے یا اس کا بیٹا ہے تو اپنے ہاتھ رسیوں سے آزاد کرلے یہ مرے ہوؤں کو زندہ کرتا ہے میں اس کے گروہ کے ایک آدمی کو ہلاک کروں گا تم اسے کہو کے اسے میرے ہاتھ سے چھڑا لے یا وہ مرجائے تو اسے زندہ کردے امام نے اس کے گروہ کے ایک آدمی کو اٹھایا اور رشد کی تلوار لے کر اس کی طرف بڑھا تو وہ آدمی چلا اٹھا مجھے بخش دو یہ آدمی مجھے زندہ نہیں کرسکے گا یہ بہت بڑا پاپی ہے خدا کے لیے مجھے قتل نہ کرنا
لوگوں نے یہ تماشا دیکھا مگر ان کے وہم ابھی دور نہیں ہوئے تھے امام اس آدمی کا چغہ اور کپڑے بھی ساتھ لے آیا تھا نرم لکڑی بھی ساتھ تھی امام نے یہ کپڑے پہن لیے کسی کو دکھائے بغیر لکڑی اندر رکھ لی اوپر چغہ پہن لیا اس نے رشد سے کہا کہ اپنے چار تیرانداز میرے سامنے لاؤ تیر انداز آئے تو اس نے انہیں کہا تیس قدم دور کھڑے ہوکر میرے دل کا نشانہ لو اور تیر چلاؤ تیر اندازوں نے رشد بن مسلم کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا رات کو محمود نے رشد کو تیروں اور خنجروں کے سینے میں اترنے کی حقیقت بتا دی تھی رشد نے اپنے تیر اندازوں کو حکم دیا کہ وہ تیر چلا دیں انہوں نے نشانہ لے کر تیر چلا دئیے چاروں تیر امام کے دل کے مقام میں پیوست ہوگئے امام نے کہا اب آگے آکر میرے سینے پر چار خنجر پوری طاقت سے پھینکو خنجر پھینکے گئے جو امام کے سینے میں جاکر اٹک گئے
امام نے تیر اندازوں سے کہا ایک ایک تیر اور کمانوں میں ڈالو اس نے مقدس انسان کو ذرا آگے لیا اور لوگوں سے مخاطب ہوکر بلند آواز میں کہا یہ شخص اپنے آپ کو لافانی کہتا ہے میں تمہیں دکھاتا ہوں کہ یہ اصل میں کیا ہے اس نے تیر اندازوں سے کہا اس کے دل کا نشانہ لے کر تیر چلاؤ
جونہی کمانیں اوپر اٹھیں وہ آدمی دوڑ کر امام کے پیچھے ہوگیا وہ موت کے ڈر سے تھرتھر کانپ رہا تھا اور بھکاریوں کی طرح جان کی بخشش مانگ رہا تھا امام نے اسے کہا آگے آؤ اور لوگوں کو بتاؤ کہ تم صلیبیوں کے بھیجے ہوئے تخریب کار ہو اور تم شعبدہ باز ہو امام نے تلوار کی نوک اسے کے پہلو سے لگا دی
لوگو! اس آدمی نے آگے جاکر بلند آواز سے کہا میں لافانی نہیں ہوں میں تمہاری طرح انسان ہوں مجھے صلیبیوں نے بھیجا ہے کہ تمہارا ایمان خراب کردوں اس کی مجھے اجرت ملتی ہے
اور شمعون کی بیٹی سعدیہ کو اسی نے اغوا کرایا تھا امام نے کہا ہم نے لڑکی رہا کرالی ہے
امام نے چغہ اتارا اندر کے کپڑے اتارے لکڑی الگ کی اور رشد کے ایک سپاہی کے ہاتھ میں دے کر کہا کہ یہ تمام مجمعے میں گھما لاؤ امام نے لوگوں سے کہا کہ تیر اور خنجر اس لکڑی میں لگتے ہیں تمام لوگوں نے یہ بھید دیکھ لیا تو انہیں آگے بلا کر کہا گیا کہ ہر جگہ گھومو اور ہر ایک چیز دیکھو لوگ ڈرتے ہوئے ہر جگہ پھیل گئے پردوں کے پیچھے ایک غار بنایا گیا تھا وہاں رات کو سازندے بیٹھ کر ساز بجاتے تھے لوگ خیموں میں گئے تو وہاں شراب کی بدبو پھیلی ہوئی تھی لوگ ہر جگہ گھوم پھر چکے تھے تو انہیں ایک جگہ بٹھا کر بتایا گیا کہ یہ سب ڈھونگ کیا تھا امام نے معلوم کرلیا تھا کہ جسے اس نے رات کو زندہ کیا تھا وہ کون ہے وہ اسی کے گروہ کا ایک آدمی تھا جو رسیوں میں بندھا ہوا قیدیوں میں بیٹھا تھا اسے لوگوں کے سامنے کھڑا کیا گیا ایک اور آدمی لوگوں کو دکھایا گیا جو رات کو بوڑھے کا بہروپ دھار کر اس آدمی کا باپ بنا تھا چار تیر انداز بھی سامنے آگئے جنہوں نے رات تیر چلائے تھے وہ بھی اس گروہ کے آدمی تھے غرض تمام تر ڈھونگ لوگوں کو دکھایا گیا اسلام کے بیٹو! غور سے سنو امام نے لوگوں سے کہا یہ سب صلیب کے پجاری ہیں اور تمہارا ایمان خراب کرنے آئے ہیں تم جانتے ہو کہ کوئی انسان کسی انسان کو زندہ نہیں کرسکتا خود خدا کسی مرے ہوئے کو زندہ نہیں کرتا کیونکہ خدائے ذوالجلال اپنے بنائے ہوئے قانون کا پابند ہے اس کی ذات واحدہ لاشریک ہے اس کا کوئی بیٹا نہیں یہ صلیبی اسلام کی آواز کو دبانے کے لیے یہ ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں یہ باطل کے پجاری تمہارے ایمان اور جذبے سے اور تمہاری تلوار سے ڈرتے ہیں تمہارا مقابلہ میدان میں نہیں کرسکتے اس لیے دلکش طریقے اختیار کرکے تمہارے دلوں میں وہم اور وسوسے ڈال رہے ہیں تاکہ تم اسلام کے تحفظ کے لیے صلیب کے خلاف تلوار نہ اٹھاؤ اسی مصر میں فرعون نے اپنے آپ کو خدا کہا تھا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اس کی خدائی کو دریائے نیل میں ڈبو دیا تھا اپنی عظمت کو پہچانو میرے دوستو! اپنے دشمن کو بھی اچھی طرح پہچان لو لوگ جو سب کے سب مسلمان تھے مشتعل ہوگئے وہ چونکہ پسماندہ اور علم سے بے بہرہ تھے اس لیے انتہا پسند تھے انہوں نے گناہ گار انسان کی شعبدہ بازی دیکھ کر اسے خدا کا بیٹا تسلیم کرلیا اور جب اس کے خلاف باتیں سنیں تو  ایسے مشتعل ہوگئے کہ غیض وغضب سے نعرے لگاتے اس آدمی پر اور اس کے گروہ پر ٹوٹ پڑے امام ان مجرموں کو زندہ قاہرہ لے جانا چاہتا تھا لیکن اتنے بڑے ہجوم سے انہیں زندہ نکالنا ناممکن ہوگیا رشد نے تشدد سے ہجوم پر قابو پانے کا مشورہ دیا جو امام نے تسلیم نہیں کیا اس نے کہا کہ تمہاری تلواروں سے یہ سیدھے سادے مسلمان کٹ جائیں گے انہیں اپنے ہاتھوں ان لوگوں کو ہلاک کرنے دو تاکہ انہیں یقین ہوجائے کہ جس نے خدا کا ایلچی اور بیٹا ہونے کا دعویٰ کیا ہے وہ ایک گناہ گار انسان ہے جسے کوئی بھی انسان قتل کرسکتا ہے
امام رشد بن مسلم اور محمود ایک طرف گئے رشد نے ایک ٹیلے پر جاکر اپنے سپاہیوں کو للکارا اور کہا تم جہاں ہو وہیں رہو ان لوگوں کو مت روکو
تھوڑی ہی دیر بعد امام محمود رشد بن مسلم اور اس کے دستے کے سپاہی رہ گئے تمام ہجوم غائب ہوچکا تھا رات جہاں شعبدے دکھائے گئے تھے وہاں شعبدہ باز اور اس کے گروہ کی لاشیں پڑی تھیں لڑکیوں کو بھی قتل کردیا گیا تھا کوئی لاش پہچانی نہیں جاتی تھی سب قیمہ ہوچکی تھیں لوگ خیمے پردے اور تمام تر سامان لوٹ کر لے گئے تھے مجرم گروہ کے اونٹ بھی کھول کر لے گئے اور رشد کے دستے کے نو گھوڑے بھی لاپتہ ہوگئے ان کے سوار پیادہ تھے اور گھوڑوں سے دور تھے لوگوں کو معلوم نہیں تھا کہ یہ اپنی فوج کے گھوڑے ہیں یوں لگتا تھا جیسے آندھی آئی ہے اور سب کو اپنے ساتھ اڑا لے گئی ہے ہمیں اب قاہرہ چلنا پڑے گا امام نے رشد اور محمود سے کہا یہ واقعہ حکومت کے سامنے رکھنا ہوگا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ان چند ہی دنوں میں صلاح الدین ایوبی نے جو احکام نافذ کیے اور جو اقدام کیے وہ انقلابی تھے اتنے انقلابی کہ اس کے قریبی دوست اور مرید بھی چونک اٹھے اس نے سب سے پہلے ان افسروں کے گھروں پر چھاپے مروائے اور تلاشی لی جو علی بن سفیان اور غیاث بلبیس کی مشتبہ فہرست میں تھے ان میں دو تین مرکزی کمان کے اعلیٰ حاکم تھے ان کے گھروں پر زروجواہرات دولت اور بڑی خوبصورت غیر ملکی لڑکیاں برآمد ہوئیں بعض کے گھروں میں ایسے ملازم تھے جو سوڈان کے تجربہ کار جاسوس تھے اور بھی کئی ایک ثبوت مل گئے ان سب کو سلطان صلاح الدین ایوبی نے عہدے اور رتبے کا لحاظ کیے بغیر غیرمعین مدت کے لیے قید خانے میں ڈال دیا اور حکم دیا کہ ان کے ساتھ اخلاقی مجرموں جیسا سلوک کیا جائے اس اقدام سے اس کی مرکزی کمان اور مجلس مشاورت کی چند ایک اہم آسامیاں خالی ہوگئیں اس نے ذرہ بھر پرواہ نہ کی
سلطان ایوبی نے دوسرا حملہ اس گروہ پر کیا جو اپنے آپ کو مذہب کا اجارہ دار بنائے ہوئے تھا سلطان ایوبی کو مشیروں نے خلوص نیت سے مشورہ دیا کہ مذہب ایک نازک معاملہ ہے لوگ مسجدوں کے اماموں کے مرید ہیں رائے عامہ خلاف ہوجائے گی سلطان ایوبی نے پوچھا ان میں کتنے ہیں جو مذہب کی روح کو سمجھتے ہیں؟ 
لوگ ان کے مرید صرف اس لیے بن گئے ہیں کہ ان کی ساری کوششیں اسی پر مرکوز ہیں کہ لوگ ان کے مرید بن جائیں میں جانتا ہوں کہ یہ امام اپنی عظمت قائم کرنے کے لیے لوگوں کو اصل مذہب سے بے بہرہ رکھتے ہیں قوم کی بہترین درس گاہ مسجد ہے مسجد کی چاردیواری میں بٹھا کر کسی کے کان میں ڈالی ہوئی کوئی بات روح تک اتر جاتی ہے یہ مسجد کے تقدس کا اثر ہے مگر یہاں مسجد کا استعمال غلط ہورہا ہے مسجدوں میں امام پیر اور مرشد بنتے جارہے ہیں اگر میں نے مسجدوں میں باعمل عالم نہ رکھے تو کچھ عرصے بعد لوگ اماموں پیروں اور مرشدوں کی پرستش کرنے لگیں گے یہ بے علم اور بے عمل عالم اپنے آپ کو خدا اور اس کے بندوں کے درمیان رابطے کا ذریعہ بنا لیں گے اور اسلام کے زوال کا باعث بنیں گے
سلطان ایوبی نے اپنے ایک مفکر اور باعمل عالم زین الدین علی نجاالواعظ کو مشورے کے لیے بلایا اس عالم نے اپنا جاسوسی کا ایک ذاتی نظام قائم کر رکھا تھا اور ایک بار اس نے صلیبیوں کی ایک بڑی ہی خطرناک سازش بے نقاب کرکے بہت سے آدمی گرفتار کرائے تھے وہ مذہب کو اور مذہب میں جو تخریب کاری ہو رہی ہے اسے بہت اچھی طرح سمجھتا تھا اس نے یہ کہہ کر سلطان ایوبی کا حوصلہ بڑھا دیا کہ اگر آج آپ مذہب کو تخریب کاری سے آزاد نہیں کریں گے تو کل آپ کو یہ حقیقت قبول کرنی پڑے گی کہ قوم آپ کی رہنمائی اور حکم کو قبول کرنے سے پہلے نام نہاد مذہبی پیشواؤں سے اجازت لیا کرے گی اس وقت تک صلیبی مسلمانوں کے مذہبی نظریات میں توہم پرستی اور رسم و رواج کی ملاوٹ کرچکے ہیں سلطان ایوبی نے فوری طور پر تحریری حکم نافذ کردیا کہ زین الدین علی بن نجاالواعظ کی زیرنگرانی ملک کی تمام مسجدوں کے اماموں کی علمی اور معاشرتی جانچ پڑتال ہوگی اور نئے امام مقرر کیے جائیں گے نئے اماموں کے تقرر کے لیے سلطان ایوبی نے جو شرائط لکھیں ان میں امام کا عالم ہونے کے علاوہ فوجی یا سابق فوجی یا عسکری تربیت یافتہ ہونا ضروری قرار دے دیا سلطان صلاح الدین ایوبی فلسفۂ جہاد اور عسکری جذبے کو مذہب اور مسجد سے الگ نہیں کرنا چاہتا تھا
اس نے ملک میں ایسے تمام کھیل تماشے اور تفریح کے ذرائع اور طریقے جرم قرار دے دئیے جن میں جوئے بازی اور تخریبی سکون کا پہلو نکلتا تھا اس کے حکم سے علی بن سفیان کے محکمے نے تفریح گاہوں اور ان کے زیر زمین حصوں پر چھاپے مارے جہاں سے اٹلی کے مصوروں کی بنائی ہوئی ننگی تصویریں برآمد ہوئیں بہت سے لوگ گرفتار کیے گئے جنہیں ملک دشمنی اور دشمن کا آلۂ کار بننے کے الزام میں تمام عمر کے لیے تہہ خانوں میں ڈال دیا گیا اس کے بجائے سلطان ایوبی نے تیغ زنی تیر اندازی گھوڑ سواری بغیر ہتھیار لڑائی کشتی جسے پنجہ آزمائی کہتے تھے اور ایسے ہی چند ایک کھیلوں کے مقابلوں کا سرکاری انتظام کردیا پہلے مقابلے میں خود گیا اور اول آنے والوں کو اعلیٰ نسل کے گھوڑے تک انعام میں دئیے اس نے درس گاہوں اور مسجدوں میں تعلیمی مقابلوں کا اہتمام کیا
سرحدی دستوں پر اس نے زیادہ توجہ دی تھی اسے معلوم ہوچکا تھا کہ شہروں اور دارالحکومت سے دور رہنے والے لوگ نظریاتی تخریب کاری کا شکار جلدی ہوتے ہیں اور وہی سب سے پہلے دشمن کے حملے یا سرحدی جھڑپوں کی زد میں آتے ہیں ان لوگوں کے نظریاتی اور جسمانی تحفظ کے لیے اس نے خصوصی انتظام کیے اس نے سرحدوں پر جو دستے بھیجے تھے ان کے کمانڈروں کو اس نے خود ہدایات دیں اور بڑے ہی سخت احکام دئیے تھے یہ تمام کمانڈر جذبے اور ذہانت کے لحاظ سے ساری فوج میں منتخب کیے گئے تھے رشد بن مسلم انہی میں سے تھا جسے محمود کا اشارہ ملا کہ ایک تخریب کار پکڑا ہے تو وہ پورے کا پورا دستہ لے کر اٹھ دوڑا تھا اگر پرانا کمانڈر ہوتا تو اس وقت صلیبیوں یا سوڈانیوں کی دی ہوئی شراب میں بدمست ہوتا اور تخریب کار اپنے سرغنہ کی رہائی کے لیے گاؤں میں تباہی پھیلا کر غائب ہوچکے ہوتے
اب رشد بن مسلم محمود بن احمد اور امام جس کا نام یوسف بن آذر تھا اس کے کمرے میں بیٹھے اس شعبدہ باز کی کہانی سنا رہے تھے جسے لوگ قتل کرچکے تھے علی بن سفیان بھی موجود تھا اس نے تینوں سے ساری واردات سن لی تھی اور سلطان ایوبی کے پاس لے گیا تھا سلطان ایوبی خاموش تھا کہ اتنی خطرناک نظریاتی یلغار کو ہمیشہ کے لیے ختم کردیا گیا ہے مگر علی بن سفیان نے کہا صرف یلغار ختم ہوئی ہے اس کے اثرات ختم کرنے کے لیے لمبا عرصہ درکار ہے مجھے جو تفصیل معلوم ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ سرحدی دیہات سے ہمیں فوجی بھرتی نہیں مل رہی سرحد کے ساتھ ساتھ رہنے والے لوگ سوڈانیوں کے دوست بن گئے ہیں وہ امارت مصر کے خلاف ہوگئے ہیں جہاد کا جذبہ ختم ہوچکا ہے وہ لوگ غلہ اور مویشی ہمیں نہیں دیتے سوڈانیوں کو بخوشی دیتے ہیں مسجدیں ویران ہوگئی ہیں لوگ توہم پرست ہوکر شعبدہ بازوں پیروں وغیرہ کی پرستش کرنے لگے ہیں ہمیں ان لوگوں کے ذہنوں کو اپنے صحیح راستے پر لانے کے لیے باقاعدہ مہم شروع کرنی پڑے گی اگر اس صلیبی شعبدہ باز اور اس کے گروہ کو لوگ قتل نہ کر دیتے تو ہم اسے سارے علاقے میں گھماتے پھراتے 
سلطان ایوبی نے اپنے انقلابی احکامات میں سرحدی علاقوں کو خاص طور پر شامل کر رکھا تھا اب اس نے اس طرف اور زیادہ توجہ دینے کا فیصلہ کیا اس کے لیے سب سے زیادہ شدید سر دردی یہ تھی کہ تقی الدین اور اس کی فوج کو سوڈان سے نکالنا تھا قاہرہ پہنچتے ہی وہ منصوبہ بندی میں مصروف ہوگیا تھا راتوں کو سوتا بھی نہیں تھا وہ خود سوڈان کے محاذ پر نہیں جاسکتا تھا کیونکہ مصر کے اندرونی حالات اس کی توجہ کے محتاج تھے اس نے قاہرہ میں آکر تقی الدین کو یہ اطلاع دینے کے لیے کہ وہ قاہرہ آگیا ہے ایک قاصد بھیج دیا تھا قاصد واپس آچکا تھا اس نے بتایا تھا کہ تقی الدین کا جانی نقصان خاصا ہوچکا ہے اور کچھ نفری دشمن کے جھانسے میں آکر یا جنگ کی صورتحال سے گھبرا کر ادھر ادھر بھاگ گئی ہے قاصد نے بتایا کہ تقی الدین اپنی باقی ماندہ فوج کو یکجا کرنے میں کامیاب ہوگیا ہے مگر دشمن اس کے سر پر موجود رہتا ہے تقی الدین کو جوابی حملہ کرنے کا موقع نہیں ملتا جوابی حملہ کرنے کا موقع نہیں ملتا اسے اتنی سی مدد کی ضرورت ہے کہ دشمن پر حملے کرنے کے لیے چند دستے مل جائیں تاکہ وہ اپنی فوج کو واپس لاسکے
سلطان ایوبی نے اسی وقت اپنے تین چار چھاپہ مار دستے اور چند ایک وہ دستے جنہیں جوابی حملہ کرنے اور گھوم پھر کر لڑنے کی خصوصی مشق کرائی گئی تھی سوڈان بھیج دیئے تھے وہ ہر حملہ دشمن کے عقب میں جاکر کرتے اور دشمن کا نقصان کرکے اور اسے بکھیر کر ادھر ادھر ہوجاتے تھے چھاپہ ماروں نے دشمن کو زیادہ پریشان کیا ان کا مقصد یہی تھا کہ دشمن کو تقی الدین کے تعاقب سے ہٹایا جائے وہ خلاف توقع بہت جلدی کامیاب ہوگئے ان کی اہلیت اور شجاعت کے علاوہ ان کی کامیابی کی وجہ یہ تھی کہ دشمن کی فوج تھکی ہوئی تھی اور صحرا بڑا ہی دشوار اور گرم تھا گھوڑے اور اونٹ جواب دے رہے تھے
سوڈان کا حملہ بری طرح ناکام ہوا کامیابی صرف یہ ہوئی کہ تقی الدین کو اس کی مرکزی کمان کے سالاروں وغیرہ اور دستوں کو اور بچی کھچی فوج کو ایسی تباہی سے بچا لیا گیا جو ان کی قسمت میں لکھ دی گئی تھی تقی الدین جب مصر کی سرحد میں داخل ہوا تو اسے پتہ چلا کہ وہ سوڈان میں آدھی فوج ضائع کر آیا ہے
ادھر کرک جل رہا تھا نورالدین زنگی کے کاریگروں نے ضرورت کے مطابق دور مار منجنیقیں بنا لی تھیں جن سے قلعے کے اندر پتھر کم اور آگ زیادہ پھینکی جارہی تھی صلاح الدین ایوبی اندر کے چند ایک ہدف بتا آیا تھا ان میں رسد کا ذخیرہ بھی تھا آگ کے پہلے گولے قلعے کی اس طرف پھینکے گئے جس طرف سے رسد کا ذخیرہ ذرا قریب تھا خوش قسمتی سے گولے ٹھکانے پر گئے اندر سے شعلے جو اٹھے انہوں نے زنگی کی فوج کا حوصلہ بڑھا دیا مسلمانوں نے دور مار تیر و کمان بھی تیار کرلیے تھے انہیں استعمال کرنے کے لیے غیرمعمولی طور پر طاقتور سپاہی استعمال کیے جارہے تھے لیکن آٹھ دس تیر پھینک کر سپاہی بےحال ہوجاتا تھا زنگی نے ایک اور دلیرانہ کارروائی کی اس نے نہایت دلیر سپاہی چن لیے اور انہیں حکم دیا کہ قلعے کے دروازے پر ٹوٹ پڑیں انہیں دروازہ توڑنے کے موزوں اوزار دئیے گئے
جانبازوں کا یہ دستہ دروازے کی طرف دوڑا تو اوپر سے صلیبیوں نے تیروں کا مینہ برسا دیا کئی جانباز شہید اور زخمی ہوگئے زنگی نے دور مار تیر اندازوں کو وہاں اکٹھا کیا اور عام تیر اندازوں کا بھی ایک ہجوم بلا لیا ان سب کو مختلف زاویوں پر مورچہ بند کرکے دروازے کے اوپر والی دیوار کے حصے پر مسلسل تیر پھینکنے کا حکم دیا حکم کی تعمیل شروع ہوئی تو اتنے تیر برسنے لگے جن کے پیچھے دیوار کا بالائی حصہ نظر نہیں آتا تھا جانبازوں کی ایک اور جماعت دروازے کی طرف دوڑی زنگی نے تیروں کی بارش اور تیز کرا دی ذرا دیر بعد دیوار پر لکڑیوں سے بندھے ہوئے ڈرم نظر آئے یہ جلتی لکڑیوں اور کوئلوں سے بھرے ہوئے تھے جونہی انہیں باہر کو انڈیلنے والوں کے سر نظر آئے وہ سر تیروں کا نشانہ بن گئے ایک دو ڈرم باہر کو گرے باقی دیوار پر ہی الٹے ہوگئے وہاں سے شعلے اٹھے جن سے پتہ چلتا تھا کہ آگ پھینکنے والے اپنی آگ میں جل رہے ہیں
زنگی کے کسی کمانڈر نے زنگی کے حملے کا یہ طریقہ دیکھ لیا وہ گھوڑا سرپٹ دوڑا کر قلعے کے پچھلے دروازے کی طرف چلا گیا اور وہاں کے کمانڈر کو بتایا کہ سامنے والے دروازے پر کیا ہورہا ہے ان دونوں کمانڈروں نے وہی طریقہ پچھلے دروازے پر آزمانا شروع کردیا پہلے ہلے میں مجاہدین کا جانی نقصان زیادہ ہوا لیکن جوں جوں مجاہدین گرتے تھے ان کے ساتھی قہر بن کر دروازے کی طرف دوڑتے تھے تیر اندازوں نے صلیبیوں کو اوپر سے آگ نہ پھینکنے دی زنگی نے حکم دیا کہ منجنیقیں قلعے کے اندر آگ پھینکیں زنگی کی فوج نے دونوں دروازوں پر دلیرانہ حملے دیکھے تو فوج کسی کے حکم کے بغیر دو حصوں میں بٹ گئی ایک حصہ قلعے کے سامنے چلا گیا اور دوسرا عقبی دروازے کی طرف دونوں طرف دیوار پر تیروں کی ایسی بارش برسائی گئی کہ اوپر کی مزاحمت ختم ہوگئی دونوں دروازے توڑ لیے گئے زنگی کی فوج اندر چلی گئی شہر میں خون ریز جنگ ہوئی وہاں کے باشندوں میں بھگدڑ مچ گئی
اس بھگدڑ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے صلیبی حکمران اور کمانڈر قلعے سے نکل گئے شام تک صلیبی فوج نے ہتھیار ڈال دئیے زنگی نے قیدی مسلمانوں کو کھلے اور بند قید خانوں سے نکالا پھر صلیبی حکمرانوں کو سارے شہر میں تلاش کیا مگر کوئی ایک بھی نہ ملا
یہ 1173ء کی آخری سہ ماہی تھی جب کرک کا مضبوط قلعہ سر کرلیا گیا اور مسلمانوں کو بیت المقدس نظر آنے لگا...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➋➋】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تو سرکاری کارروائیاں تھی جو کھلم کھلا کی جاتی تھیں، تاکہ لوگوں کے دلوں پر دہشت طاری ہوجائے لیکن بنیامین نے ایک خفیہ تنظیم بنا لی تھی جس میں عیسائیت کے عالم بھی تھے اور بن سامر جیسے دلیر اور نڈر فوجی بھی تھے ،جو اپنی جان پر کھیل جانے کو ایک کھیل ہی سمجھتے تھے ۔
بن سامر اسی تنظیم کا جاں باز تھا اسے بنیامین کے ہاں ہی پناہ مل سکتی تھی۔
بن سامر اور اینی کو ایک رات اور راستے میں گزارنی پڑی اور اگلے روز وہ بنیامین کے پاس پہنچ گئے۔
کیا کر آئے بن سامر!،،،،، بنیامین نے پوچھا یہ لڑکی کون ہے؟
اپنے عقیدے کے لئے تو کچھ نہیں کیا ۔۔۔بن سامر نے جواب دیا ۔۔۔۔اپنی ذات اور اپنے جذبات کے لئے بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے۔
کوئی برا نہیں کیا ۔۔۔بنیامین نے کہا ۔۔۔تم نے اپنی محبت اور اس لڑکی کی جان بچانے کے لیے بہت بڑی قربانی دی ہے تمہیں چھپ کر رہنا پڑے گا۔
رہوں گا تو میں چھپ کر ہی۔۔۔۔ بن سامر نے کہا ۔۔۔۔لیکن میں بیکار نہیں بیٹھونگا میں شاہی عیسائیت کے خلاف کچھ نہ کچھ کرتا رہنا چاہتا ہوں مجھے بتائیں میں کیا کروں۔
بنیامین نے کچھ عالمانہ سی باتیں شروع کر دیں۔
قابل احترام اسقف! ۔۔۔۔بن سامر نے کہا۔۔۔ میرے پاس اتنا علم نہیں کہ آپ کی یہ باتیں سمجھ سکوں مجھے صرف یہ بتائیں کہ صحیح عقیدے کو لوگوں میں پھیلانے کے لئے کسے قتل کرنا ہے اور کوئی اپنا دشمن بتائیں جس سے آپ کو بہت ہی خطرہ ہو اور میں جاکر اسے قتل کر دوں۔
ابھی تم خود قتل ہونے سے بچو۔۔۔ بنیامین نے کہا۔۔۔ تم فوجی قانون کے مطابق جو جرم کرکے آئے ہو اس کی سزا تم جانتے ہی ہو کیا ہے ابھی اپنے آپ کو روپوش رکھو کچھ عرصے بعد میں تمہارا حلیہ بدل کر تمہیں اصل مقصد کے لیے استعمال کروں گا۔
میں ایک بات سمجھتا ہوں۔۔۔ بن سامر نے کہا۔۔۔ ہرقل کو عیسائیت کی توہین کی جو سزا ملی ہے اس سے اس نے عبرت حاصل نہیں کی شام کا اتنا بڑا ملک اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور اس کی آدھی سے زیادہ فوج مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ مری ہے، اور اس وقت جو فوج اس کے پاس ہے اس پر عرب کے مسلمانوں کی ایسی دہشت طاری ہے کہ کوئی مذاق میں ہی کہہ دے کہ مسلمان مصر پر بھی حملہ کریں گے تو ہمارے فوجیوں کے رنگ پیلے پڑ جاتے ہیں۔
مذہب کی توہین جس نے بھی کی اسے ایسی ہی سزا ملی۔۔۔ بنیامین نے کہا ۔۔۔اسلام کی طرح عیسائیت بھی ایسا مذہب ہے جس پر خدا نے کتاب نازل کی ہے ہرقل نے شہنشاہیت کے نشے میں اس مقدس کتاب کی خلاف ورزی کی ہے مجھے نظر آرہا ہے کہ مصر بھی ہرقل کے ہاتھ سے نکل جائے گا ،مذہب کو فرقوں میں بانٹ دینا بہت بڑا گناہ ہے۔
کیا مسلمان مصر پر چڑھائی کریں گے۔۔۔ بن سامر نے پوچھا۔
اب تک کر چکے ہوتے۔۔۔ بنیامین نے کہا۔۔۔ لیکن مسلمانوں پر قحط کا ایسا عذاب نازل ہوا ہے کہ سارے عرب میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں ،مجھے وہاں کی خبریں ملتی رہتی ہیں، قحط ختم ہونے تک تو مسلمان فوج کشی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
اسقف اعظم !،،،،بن سامر نے کہا۔۔۔۔ ایک بات دل میں آتی ہے مسلمان جب کبھی مصر پر حملہ کریں گے تو ہمیں ان کے خلاف لڑنا پڑے گا، لیکن میں سوچتا ہوں کہ جس طرح مسلمان ہرقل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اسی طرح وہ ہمارا بھی دشمن ہے کیا ہمیں ہرقل کی وفاداری کرنی چاہیے۔
یہ مسئلہ میرے سامنے آچکا ہے۔۔۔ بنیامین کہا۔۔۔ شام سے تین مسلمان جاسوس میرے پاس آئے تھے انہوں نے اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کیا تھا لیکن میں نے ان کی اصلیت جان کر انہیں بتا بھی دیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ مسلمان لشکر مصر پر حملہ آور ہو تو عیسائی ہرقل کے خلاف حملے سے پہلے یا حملے کے دوران باغی ہو جائیں ، ان کے خلیفہ اور سالاروں کا مقصد یہ ہے کہ پہلے ہرقل کو مصر سے نکالا جائے اس کے بعد مسلمان اور عیسائی آپس کے معاملات طے کر لیں گے,,,,,,,, تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی صورت میں قبطی عیسائی تماشائی بنے رہیں گے لیکن یہ بھی سن لو کہ ابھی یہ میرا آخری فیصلہ نہیں، البتہ یہ فیصلہ ضرور ہے کہ قبطی عیسائی ہرقل کے وفادار نہیں ہونگے۔
یہ تو بعد کی باتیں تھیں، بن سامر کو کچھ عرصے تک روپوش رہنا تھا ایک لڑکی کو بھگا لے جانا ان کے ہاں کوئی جرم نہیں تھا ،اصل جرم تو یہ تھا کہ بن سامر نے فوجی قانون توڑا اور دو سپاہیوں کو مارا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سپہ سالار عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اویس اور رابعہ کی شادی کردی یہ بیت المقدس کی بات ہے۔
عمرو بن عاص اب امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس مدینہ جانا چاہتے تھے تاکہ ان سے مصر پر حملے کی اجازت لیں، مگر ان کی روانگی سے پہلے ہی مدینہ سے پیغام آ گیا کہ خشک سالی نے ایسا قحط پیدا کر دیا ہے کہ لوگ مر رہے ہیں۔
اس کے بعد تو کسی کو ہوش ہی نہ رہی کہ قحط زدہ لوگوں کے پیٹ میں روٹی ڈالنے کے علاوہ کچھ اور بھی سوچ سکتے ، قحط کی تباہ کاریاں نو مہینے پورے جوش و خروش سے جاری رہیں، عمرو بن عاص کے ذہن سے تو جیسے مصر نکل ہی گیا تھا، قحط کی زد میں تو صرف عرب آیا، لیکن قحط زدہ علاقوں کو خوراک مہیا کرنا عراق اور شام کے امراء کی ذمہ داری تھی، آخر انہیں یہ خبر پہنچی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ابر رحمت برسا دی ہے، تو عمرو بن عاص کو خیال آیا کہ وہ تو مصر پر حملے کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔
اویس رابعہ کے ساتھ ابھی بیت المقدس میں ہی تھا اس کے دونوں جاسوس ساتھی بھی جو مصر سے جاکر بنیامین سے مل آئے تھے ابھی اس کے ساتھ ہی تھے، انہیں مختلف علاقوں سے بلایا گیا تھا کیونکہ یہ بہت ہی تجربہ کار اور ذہین جاسوس تھے، انہیں اپنے اپنے لشکروں میں واپس چلے جانا چاہئے تھا، لیکن عرب کے قحط نے سارا نظام ہی تہہ و بالا کر ڈالا تھا اس لئے یہ تینوں جاسوس مجاہدین بیت المقدس میں ہی پڑے رہے۔
قحط کے بعد جب انتظامی حالات معمول پر آئے تو سپہ سالار ابوعبیدہ نے عمرو بن عاص کو پیغام بھیجا کہ تینوں مجاہدین کو ان کی اصل جگہوں پر واپس بھیج دیں۔ اویس حلب سے آیا تھا اور وہ رہنے والا بھی وہیں کا تھا اس لئے اسے واپس حلب جانے کا حکم مل گیا۔
رابعہ جو قبول اسلام سے پہلے روزی ہوا کرتی تھی مصر سے واپس آتے ہی اویس کے پیچھے پڑ گئی تھی کہ وہ حلب اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے جانا چاہتی ہے۔ اویس اسے کہتا تھا کہ وہ اپنے والدین اور دوسرے قریبی عزیزوں سے ملنے کے لیے اتنی بیتابی نہ دکھائے، کیونکہ وہ اسے دیکھ کر خوش نہیں ہونگے ،اور اس کے قبول اسلام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھیں گے، اویس بھی نو مسلم تھا یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی کہ جو سنتا وہ حیران ہوتا یہ تو اس وقت کا ایک معمول تھا، غیر مسلم مسلمانوں کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر قبول اسلام کرتے ہی رہتے تھے۔ لیکن اس نے اسلام قبول کیا تو نہ جانے کیوں اس کے بھائی باپ اور دوست اس کے دشمن ہو گئے تھے، صرف ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے جو یہ ہو سکتی ہے کہ اویس غیر معمولی طور پر دلیر ،اور بے خوف تھا ،اور اس کا جسم تو پھرتیلا تھا ہی ،اس کے دماغ میں ایک خاص قسم کی مستعدی اور دانشمندی تھی، اس کے عزیزوں نے یہی سوچا ہوگا کہ اتنا قیمتی اور ایسا جواں سال آدمی ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
اس نے رابعہ کو یہ صورتحال یاد دلائی تھی، اور یہ بھی کہ خود رابعہ نے اسے دھتکار دیا تھا ، پہلے بیان ہوچکا ہے کہ رابعہ جب روزی ہوا کرتی تھی تو اویس کو جب وہ رابن ہوا کرتا تھا دل وجان سے چاہتی تھی، لیکن رابن جب اویس بن گیا تو روزی نے اسے واضح الفاظ میں یہ کہہ کر دھتکار دیا تھا کہ وہ اب مسلمان ہو گیا ہے، اب وہ رابعہ سے کہتا تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ رابعہ کے والدین اور رشتہ دار اسے بھی دھتکار دیں گے ۔
رابعہ اسلام کے خلاف ہوا کرتی تھی لیکن اویس اور اس کے دونوں ساتھیوں نے مصر میں اسے جس طرح نیل کی دلہن بننے سے بچایا اور پھر ایک پاکیزہ اور مقدس چیز سمجھ کر اپنے پاس رکھا اس سے وہ اتنی متاثر ہوئی کہ دلی خوشی سے روزی سے رابعہ بن گئی۔
میں اپنے والدین سے ضرور ملونگی رابعہ اویس سے کہتی تھی۔۔۔ ایک تو وہ میرے والدین ہیں اور دوسرے میرا یہ ارادہ بھی ہے کہ انہیں قائل کروں گی کہ وہ بھی اسلام قبول کر لیں۔
اس نے یہ بات اویس سے تین چار مرتبہ کہی تھی ،اور ہر بار اویس اس کی یہ بات سن کر ہنس پڑا تھا ۔
اویس کی مجبوری تھی کہ اسے حلب واپس جانا پڑا ویسے اس نے حلب کو دل سے اتار دیا تھا ۔ رابعہ بہت ہی خوش تھی کہ وہ اپنے شہر اپنے ماں باپ کے پاس جا رہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حلب پہنچ کر اویس رابعہ کو اپنے ٹھکانے پر لے گیا ،پہلے تو وہ غیر شادی شدہ مجاہدین کی طرح لشکر کے ساتھ رہتا تھا، لیکن اب بیوی ساتھ ہونے کی وجہ سے اسے لشکر کی طرف سے چھوٹا سا ایک مکان دے دیا گیا۔ اویس کو اپنے کسی عزیز سے ملنے کا ذرا سا بھی شوق نہیں تھا ،لیکن رابعہ نے اسے ضد کر کے تیار کر لیا کہ اس کے ماں باپ سے ملنے چلے، اویس اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا، اس شرط پر اس کے ساتھ چل پڑا کے وہ باہر کھڑا رہے گا اور اگر اس کے والدین پسند کریں گے تو وہ اندر جائے گا۔
والدین کے دروازے پر پہنچ کر اویس باہر کھڑا رہا اور رابعہ بچوں کی سی شوخی کرتی اندر چلی گئی، گھر کے جس فرد نے بھی اسے دیکھا وہ حیران بعد میں ہوا اس سے پہلے خوف زدہ ہوا کہ یہ ان کی روزی نہیں اس کی روح یا بدروح ہے، روزی کو تو وہ مرا ہوا سمجھ بیٹھے تھے۔ وہ پاگل پن کی کیفیت میں شہر سے بھاگی تھی، ایک سال اور کچھ مہینے گزر گئے تھے اب تو اس کی واپسی کی امید بھی ختم ہو گئی تھی۔
کیا ہو گیا ہے تم لوگوں کو؟،،،، رابعہ نے اپنے ماں باپ اور دیگر اہل خانہ سے کہا ۔۔۔میں زندہ ہوں لیکن پہلے سے زیادہ زندہ ہوں۔
کیا تم واقعی زندہ ہو ۔۔۔روزی کی ماں نے بازو پھیلا کر اس کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا۔
نہیں ماں! ۔۔۔رابعہ نے کہا۔۔۔ روزی مر گئی ہے میں اب رابعہ ہوں، میں مسلمان ہو گئی ہوں، میرا خاوند باہر کھڑا ہے میں اسے اندر لاتی ہوں۔
رابعہ کی ماں کے پھیلے ہوئے بازو نیچے گرپڑے اسے روزی کا قبول اسلام بہت برا لگا تھا ۔روزی نوعمر لڑکی تھی اسے ابھی اتنا تجربہ حاصل نہیں ہوا تھا کہ چہرے کی کیفیت سے اسکا ردعمل محسوس کر سکتی ،ویسے بھی وہ جذبات کے غلبے میں آئی ہوئی تھی اور بہت خوش تھی، ماں اور دیگر اہل خانہ کا ردعمل سمجھے بغیر وہ باہر کو دوڑی اور اویس کو بازو سے پکڑ کر اندر لے گئی۔ اویس اس خیال سے اس کے ساتھ چلا گیا کہ اس کے والدین نے اسے اندر آنے کی اجازت دے دی ہو گی۔
اویس اندر گیا تو اسے رابعہ کا باپ سامنے کھڑا نظر آیا اور اس نے اس کے ساتھ مصافحہ کرنے کے لئے دونوں ہاتھ آگے کیے لیکن رابعہ کے باپ نے اپنے ہاتھ پیچھے کرلیے۔ رابعہ کی ماں نے اویس کو حقارت سے دیکھا اور منہ پھیر لیا ، رابعہ کا ایک بڑا بھائی اور اس کی بیوی بھی گھر میں تھی ان دونوں نے بھی اویس کے ساتھ ایسی ہی حقارت آمیز بے رخی کا مظاہرہ کیا۔
دیکھ لیا رابعہ !۔۔۔۔اویس نے کہا۔۔ کیا وہی نہیں ہوا جو میں کہتا تھا انہیں بتاؤ میں تمہیں کہاں ملا تھا اور کس طرح تمہیں موت کے منہ سے نکالا تھا، ان لوگوں میں اتنا بھی اخلاق نہیں کہ اپنے داماد کے ساتھ وہ سلوک کریں جو دامادوں کا حق ہوتا ہے۔
ہم نے تمہیں اپنا داماد نہیں بنایا۔۔۔ رابعہ کے باپ نے کہا۔۔۔ تم خود گمراہ ہوئے تھے اور تم نے ہماری بیٹی کو بھی گمراہ کر دیا ہے ،ہم اس گھر میں تمہیں اچھے سلوک کا حق نہیں دے سکتے۔
رابعہ کا چہرہ غصے اور ندامت سے سرخ ہو گیا، اویس نے اسے کہا کہ وہ انھیں بتائے کہ لوگوں نے اسے دھوکے میں کہاں تک پہنچا دیا تھا ،اور اویس نے اسے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کس طرح بچا لیا تھا،،،،،، رابعہ نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں اپنے گھر والوں سے کہا کہ وہ بیٹھ جائیں اور سنیں کہ اس پر کیا بیتی تھی اور کس طرح اللہ نے یہ تین فرشتے آسمان سے اتارے تھے۔
سب بیٹھ گئے رابعہ نے اویس کو اپنے پاس بٹھا لیا اور اس پر جو بیتی تھی وہ سنانی شروع کردی وہ جوں جوں سناتی جا رہی تھی اس کے گھر کے افراد کے چہرے نارمل حالت پر آتے جا رہے تھے، آخر میں اس نے کہا کہ وہ اس قدر مجبور اور بے بس تھی کہ اویس اور اس کے ساتھی اسے جتنا چاہے خراب کر سکتے تھے لیکن انھوں نے فرشتوں جیسا سلوک کیا۔
میں اس اخلاق اور سلوک سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئی ہوں۔۔۔ رابعہ نے کہا ۔۔۔ورنہ تمہیں یاد ہوگا ماں میں اویس کو دلی طور پر چاہتی تھی جب یہ رابن ہوا کرتا تھا ،لیکن یہ جب مسلمان ہوا تو میں نے اس سے تعلق توڑ لیا تھا، میں کہتی ہوں کہ جتنا اچھا اخلاق مسلمانوں کا ہے اتنا کسی اور کا نہیں ہوسکتا، مصر میں جاکر دیکھو عیسائی بادشاہ ہرقل عیسائیوں کا خون بہا رہا ہے، وہاں تو یہ فیصلہ ہی نہیں ہو پا رہا کہ سچی اور صحیح عیسائیت کونسی ہے، بادشاہ کی یا رعایا کی۔
رابعہ بولتی چلی گئی اویس خاموش بیٹھا رہا اور گھر کے افراد چپ چاپ سنتے رہے۔
میں تو کسی اور ارادے سے آئی تھی۔۔۔ رابعہ نے کہا۔۔۔ میں کہتی ہوں تم سب اسلام قبول کر لو۔
کون سے مسلمانوں کی بات کررہی ہو۔۔۔ باپ نے کہا۔۔۔ وہ مسلمان کوئی اور تھے جنکے اخلاق سے غیر مسلم متاثر ہو کر مسلمان ہو جاتے تھے، اسلام نے شراب کو ویسے ہی حرام قرار دیا ہے جیسے خنزیر کو، میں جانتا ہوں مسلمان شراب کی بو سے بھی بھاگتے ہیں لیکن یہاں بعض مسلمان نے شراب نوشی شروع کردی ہے اور وہ شراب کو حلال سمجھنے لگے ہیں۔
میں نہیں مانتا۔۔۔ اویس نے کہا۔۔۔ آپ یہ کہیں کہ میں نے اور آپ کی اس بیٹی نے اسلام قبول کر کے اچھا نہیں کیا مسلمانوں پر جھوٹا الزام عائد نہ کریں۔
یہ الزام نہیں۔۔۔ رابعہ کے باپ نے کہا ۔۔۔میں تمہیں ایسے مسلمان دکھا سکتا ہوں اور دکھاؤں گا۔
یہ ان کا ذاتی فعل ہے ۔۔۔اویس نے کہا۔۔۔ اسلام نے یا خلیفہ نے یا مسلمانوں نے بحیثیت قوم انہیں شراب پینے کی اجازت نہیں دی ،نہ ہی اسلام نے شراب کو حلال قرار دے دیا ہے۔
یہ تمہیں کچھ وقت گزر جانے کے بعد پتہ چلے گا۔۔۔ رابعہ کے باپ نے کہا۔۔۔ ان شراب نوش مسلمانوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی انکی دیکھا دیکھی دوسرے مسلمان بھی شراب پینے لگیں گے ،شراب کا نشہ عقل پر غالب آجاتا ہے پھر انسان دوسرے گناہوں کی طرف مائل ہونے لگتا ہے، اگر اس قوم میں شراب چل نکلی تو اس کا وہ حسن سلوک ختم ہوجائے گا جس سے متاثر ہو کر غیرمسلم اسلام قبول کر لیتے ہیں۔
اویس کے ساتھ رابعہ بھی اکتانے لگی کہ اس کا باپ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ناپسندیدگی اور بے زاری کا اظہار کررہا ہے۔ اپنے باپ کو وہ جانتی تھی کہ اپنے مذہب کے معاملے میں وہ بڑا ہی سخت ہے، بلکہ عیسائیت اس کے دل و دماغ پر جنون کی طرح طاری تھی اس نے بہتر سمجھا کہ اپنے باپ کی اس الزام تراشی کو یہیں روک دے اس نے باپ سے کہا۔۔۔ کہ وہ آئندہ بھی اویس کو اپنے ساتھ لانا چاہتی ہے کیا باپ اس کی اجازت دیتا ہے؟
نہیں!،،،، باپ نے فوراً اپنا فیصلہ سنا دیا۔۔۔ تم دونوں کے لئے میرے گھر کے دروازے بند ہوچکے ہیں ،اگر تم دونوں واپس عیسائیت میں آ جاؤ تو میں تمہارے لئے اپنے دل اور اپنی روح کے بھی دروازے کھول دوں گا۔
ہم اب کسی غلط دروازے میں داخل نہیں ہوں گے۔۔۔ اویس نے کہا ۔۔۔اور اٹھ کھڑا ہوا رابعہ کو اٹھایا اور بولا چلو رابعہ میں اپنی توہین اور بےعزتی برداشت کر سکتا ہوں ،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ذرا سی جھوٹی تہمت بھی برداشت نہیں کروں گا، میں یہاں کئی اور عیسائیوں کو مسلمان کر لوں گا۔
شاید تم ایسا نہیں کر سکو گے۔۔۔ رابعہ کا بڑا بھائی جو اس وقت تک خاموش تھا بولا ۔۔۔روزی اسے اسلام کی تبلیغ سے روکنا ورنہ،،،،،،،،
میں روزی نہیں رابعہ ہوں میرے بھائی۔۔۔ رابعہ نے کہا۔۔۔ یہ اپنے مذہب کے لئے جو بہتر سمجھے گا کرے گا میں اسے نہیں روکوں گی۔
اویس اور رابعہ وہاں سے نکل آئے رابعہ کا بھائی دونوں کو دروازے سے نکل جانے تک گھورتا رہا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اویس بہت بہادر مجاہد ہی سہی، بڑا ذہین اور عقل و دانش والا جاسوس ہی سہی ،لیکن وہ رابعہ کے بھائی کی نیت اور نظریں نہ بھانپ سکا۔ اس بھائی نے اویس کو بڑے تحمل سے کہا تھا کہ شاید تم ایسا نہیں کر سکو گے،لیکن اس تحمل میں ایک طوفان چھپا ہوا تھا جسے اویس دیکھ نہ سکا محسوس بھی نہ کر سکا تھا۔
اس گھر سے نکل کر وہ رابعہ سے کہتا جارہا تھا کہ وہ پھر کبھی اسے یہاں نہ لائے۔
نہیں لاؤ گی اویس!،،،، رابعہ نے کہا۔۔۔ توقع نہیں تھی کہ میرے ماں باپ مجھے اس طرح دھتکار دیں گے ،ایک خیال رکھنا اویس میرا باپ مذہب کا پرستار ہے لیکن میرا یہ بھائی ٹھیک آدمی نہیں۔
یہ میرا کیا بگاڑ لے گا ۔۔۔اویس نے کہا۔۔۔ اس کے ساتھ میرا کوئی تعلق ہی نہیں نہ اس کے ساتھ کوئی تعلق رکھنا ہے۔
رابعہ نے یہ جو کہا تھا کہ اس کا بھائی ٹھیک آدمی نہیں، اس کا اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ ٹھیک نہیں تو کس حد تک برا آدمی ہے ،اور اس میں کیا برائی ہے رابعہ کا یہ بھائی مسلمانوں کا جانی دشمن تھا رومی فوج میں عارضی طور پر شامل ہو کر ایک دو مرتبہ مسلمانوں کے خلاف لڑا بھی تھا لیکن یہ محسوس کر کے کہ مسلمانوں کو میدان جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی وہ فوج سے نکل آیا اور مسلمانوں کے خلاف زمین دوز تخریبی کارروائیوں کا ارادہ کر لیا، اس نے تین چار اپنے جیسے دوستوں کو ساتھ ملا لیا تھا لیکن ابھی تک وہ کوئی ایسی تخریبی کارروائی نہیں کر سکا تھا جس سے مسلمانوں کو کوئی نمایاں نقصان پہنچتا اس نے تبلیغی مہم بھی شروع کی تھی جو کامیاب نہ ہوسکی۔
یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو اپنے مذہب عیسائیت کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی ،اس کی شادی سے بہت پہلے نوجوانی کے وقت اسے ایک لڑکی سے محبت تھی اور اس کی شادی اسی لڑکی کے ساتھ ہونی تھی، لیکن جس طرح رابعہ اور شارینا کسی مجاہد سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئی تھیں، اسی طرح یہ لڑکی بھی کسی ایسی ہی صورتحال میں ایک عربی مجاہد سے ایسی متاثر ہوئی کی رابعہ کے بھائی کو ٹھکرا کر اور پھر اسلام قبول کر کے اس مجاہد کی رفیقہ حیات بن گئی تھی۔
اب اس شخص کی اپنی بہن نے اسلام قبول کرکے ایک نو مسلم کے ساتھ شادی کرلی تو اسے اپنی پہلی محبت یاد آ گئی اور اس کے ساتھ ہی ایک بڑا ھی خوفناک ارادہ اس کے دل میں پیدا ہوگیا ،اویس اور رابعہ کے چلے جانے کے بعد وہ گھر سے نکلا اور اپنے دو تین دوستوں کو اکٹھا کر لیا انہیں اویس اور رابعہ کی بات سنائی اور کہا کہ اویس کہتا ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کر ے گا۔
ہم اسے کس طرح روک سکتے ہیں؟ ۔۔۔ایک دوست نے پوچھا۔
قتل،،،، رابعہ کے بھائی نے دوٹوک لہجے میں کہا۔۔۔۔ ہم نے آج تک کوئی ایسی کاروائی نہیں کی جس سے اسلام کا راستہ روکا جاسکتا ہے ہم صرف باتیں کرتے رہے ہیں اور عملاً کچھ بھی نہیں کیا ہے۔
دوست اویس کے قتل پر رضامند ہو گئے اور سوچنے لگے کہ قتل کس طرح کیا جائے کچھ دیر اس مسئلہ پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا اور انہوں نے ایک طریقہ سوچ لیا یہ بھی طے کر لیا کہ کون آدمی اویس کو جھانسہ دے کر قتل کی جگہ تک لائے گا۔
چار پانچ دن گزر گئے اویس ان کے پھندے میں نہ آ سکا کیوں کہ وہ اپنے فرائض میں مصروف ہو گیا تھا، ان دنوں میں جو گزر گئے تھے ان لوگوں کا یہ ارادہ مکمل طور پر مستحکم ہو گیا کہ اویس کو قتل کرکے ہی رہیں گے۔
آخر ایک روز اویس اس شخص کو مل گیا جس کے ذمے یہ کام تھا کہ اویس کو جھانسہ دے کر قتل والی جگہ پہنچائے گا، انہوں نے قتل کا منصوبہ نہایت اچھا بنایا تھا ، رابعہ کے بھائی نے اویس کی اس بات کو سامنے رکھا تھا کہ وہ اسلام کی تبلیغ کرے گا اویس کو دھوکے میں شہر سے باہر لے جانے والے آدمی نے اویس سے کہا کہ دو تین عیسائی مسلمان ہونا چاہتے ہیں لیکن وہ کچھ جاننا اور سمجھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ خود بھی مسلمان ہو جائے گا۔
اویس شام کے بعد اس شخص کے ساتھ اس طرف چل پڑا جہاں اسے قتل کرنا تھا اور پھر اس کی لاش غائب کردینی تھی۔ اویس کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کی ایسی محبت اور عقیدت پیدا ہو گئی تھی کہ اس نے یہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ یہ دھوکہ بھی ہو سکتا ہے۔
وہ اس شخص کے ساتھ شہر سے باہر نکل گیا، اسے یہ بتایا گیا تھا کہ یہ آدمی شہر سے باہر ایک جگہ بیٹھے ملیں گے اور وہاں بات ہو گی ،اس قاتل پارٹی نے ہر کام یوں طے کر لیا تھا کہ یہ شخص اویس کو اس جگہ لے جائے گا اور رابعہ کا بھائی اپنے دو دوستوں کے ساتھ وہاں پہلے سے موجود ہوگا اور کوئی بات کیے بغیر فوراً ہی اویس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔
اویس اس شخص کے ساتھ اس جگہ پہنچا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا اس شخص نے کہا کہ وہ لوگ ابھی آتے ہوں گے ،دونوں وہاں انتظار میں بیٹھ گئے اور وقت گزرتا چلا گیا یہ آدمی پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھتا رہا آخر اویس نے کہا کہ وہ اور زیادہ انتظار نہیں کر سکتا اور اگر یہ لوگ کچھ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو کل میرے پاس آ جائیں اور میں انہیں کسی ایسے مجاہد سے ملوا دو گا جو اسلام کے امور اور معاملات کو زیادہ اچھی طرح سمجھتا ہے۔
قاتل پارٹی کا یہ آدمی اکیلے تو کچھ نہیں کرسکتا تھا نہ اسے یہ بتایا گیا تھا کہ پارٹی کا کوئی اور آدمی نہ آئے تو یہ کام وہ خود ہی کر دے، اس شخص نے اویس کو باتوں میں لگائے رکھا لیکن وقت اتنا زیادہ گزر گیا تھا کہ وہ خود اس شخص نے محسوس کیا کہ اب انتظار بےکار ہے دونوں وہاں سے واپس آ گئے، اور اویس اپنے ٹھکانے پر چلا گیا۔
میرا بھائی بہت ہی بیمار ہو گیا ہے۔۔۔ رابعہ نے اویس کو بتایا۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ان کے پڑوس میں رہنے والی ایک عورت ادھر سے گزری میں تمہارے انتظار میں دروازے میں کھڑی تھی عورت میرے پاس رک گئی اور اس نے بتایا کہ تمہارا بھائی دو تین دنوں سے کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہے کہ کسی سیانے کو پتہ نہیں چلتا کہ بیماری کیا ہے ،دو تین دنوں میں ہی وہ آخری وقت تک جا پہنچا ہے اور ہوسکتا ہے آج کی رات اس کی زندگی کی آخری رات ہو، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بھائی کو دیکھنے جاؤں یا نہ جاؤں۔
جانا چاہتی ہو تو میں تمہیں روکوں گا نہیں۔۔۔ اویس نے کہا۔۔۔ مجھے ساتھ لے جانا چاہو تو میں بھی چلوں گا۔
رابعہ کو اپنے گھر سے دھتکار کر نکالا گیا تھا لیکن وہ آخر بہن تھی اس سے رہا نہ گیا اور وہ اسی وقت اویس کو ساتھ لے کر اپنے بھائی کو دیکھنے چلی گئی، اسے کسی نے گھر میں آنے سے روکا نہیں شاید اس لیے کہ اس کے بھائی پر نزع کا عالم طاری تھا بھائی کی بیوی اس کی ماں اور باپ رو رہے تھے
بھائی نے رابعہ سے پہلے اویس کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھیں بند ہو گئی فوراً ہی بھائی کی آنکھیں کھلی اس نے ایک ہچکی لی اور اس کا چہرہ ایک طرف ڈھلک گیا وہ مر چکا تھا ۔ اویس کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس شخص نے اسے قتل کرنے کے لئے پھندہ لگا دیا تھا ،اور اویس اس پھندے میں چلا بھی گیا تھا، لیکن اللہ کا کوئی بندہ اللہ کے ارادوں کو نہیں سمجھ سکتا ،رابعہ کے آنسو بہنے لگے ماں باپ نے اس کی طرف توجہ ہی نہ دی ان کا جوان اور شادی شدہ بیٹا مر گیا تھا اویس رابعہ کو وہاں سے لے آیا۔
دوسرے ہی دن پتہ چلا کہ رابعہ کے بھائی کا ایک دوست جو اویس کے قتل کی اس سازش میں شامل تھا اسی بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے تیسرے دن وہ بھی مر گیا ۔اس کے ساتھ ہی اس کا وہ دوست بھی اسی بیماری سے چل بسا جو اویس کو قتل والی جگہ لے گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اویس کو اللہ نے قتل ہونے سے صاف بچا لیا، اویس کو معلوم ہی نہیں تھا کہ جو مر گئے ہیں وہ اسے مارنے کی سازش کرچکے تھے، لیکن یہ بیماری صرف ان تین دوستوں کے لیے ہی نہیں آئی تھی بلکہ حلب کے پورے شہر میں یہ بیماری پھیل گئی گھر گھر سے جنازے نکلنے لگے طبیبوں نے بتایا کہ یہ طاعون کا مرض ہے، یہ ایسا لاعلاج مرض تھا کہ جس پر اس کا حملہ ہوتا ہے وہ ایک دو دنوں میں مر جاتا تھا۔ طبیبوں نے بہت کوشش کی کہ اس مرض کو روکا جائے لیکن مرض پھیلتا چلا گیا اور اس نے پورے ملک شام کو لپیٹ میں لے لیا۔
تاریخ میں اس وباء کے متعلق جو تفصیلات آئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی ابتدا فلسطین کے ایک قصبے عمواس سے ہوئی تھی، اس دور کے لوگوں کو ابھی اتنی سوجھ بوجھ نہیں تھی کہ ایسی بیماریوں میں کیسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے، عام ذہن کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ایک شخص کی بیماری دوسرے کو بھی لگ سکتی ہے ،اسی لاعلمی کا نتیجہ تھا کہ عمواس سے چلنے والی بیماری شام تک پہنچی اور موت ہر گھر کے دروازے پر دستک دینے لگی۔
یہ مرض طاعون تھا لیکن اس دور کے لوگوں نے اسے عمواس کا مرض کہا تھا۔ بعض مؤرخوں نے بھی اسے یہی نام دیا ہے۔
قحط کے اثرات ابھی باقی تھے کہ اس وباء نے قحط کی تباہ کاریوں کو بھی مات کر دیا ۔
یہ وباء (639 عیسوی ) (18ہجری )میں پھیلی تھی۔
قحط عرب میں پڑھا تھا، اور طاعون شام میں پھیلی لیکن اس کے دوسرے اثرات عرب تک پہنچے ایوان خلافت ہل کے رہ گیا، وباء صرف شہریوں میں نہیں بلکہ مجاہدین کے لشکروں میں بھی پھیل گئی تھی۔
اس کی خبر ہرقل تک پہنچ گئی ۔ وہ بہت خوش ہوا اور اپنے مشیروں سے کہا کہ مسلمانوں کو شکست دینے کا یہ موقع نہایت اچھا ہے۔ خوشامدی مشیروں نے اس کی تائید کردی۔
اس کے مقرر کیے ہوئے اسقف اعظم قیرس کو ہرقل کے اس ارادے کا پتہ چلا تو وہ ہرقل کے پاس گیا۔
 یہ خطرہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی محسوس کیا تھا کہ اس خوفناک صورتحال میں رومی فوج نے حملہ کر دیا تو حملے کو روکا نہیں جا سکے گا ،آدھا لشکر اس مرض کی نذر ہو گیا تھا اور کچھ سالار بھی اس وباء کی زد میں آکر اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔
شہنشاہ روم!،،،، قیرس نے ہرقل سے کہا۔۔۔ معلوم ہوا ہے کہ آپ شام پر فوج کشی کرنا چاہتے ہیں ؟،،،،اور مشیروں نے آپ کی تائید میں کہا ہے کہ مسلمانوں کو ملک شام سے نکالنے کا اس سے زیادہ اچھا موقع پر کبھی نہیں ملے گا۔
ہاں اسقف اعظم !،،،،،ہرقل نے پرعزم لہجے میں کہا۔۔۔ شام ہی نہیں میں پورے ملک عرب کو اپنی سلطنت میں شامل کر لوں گا ابھی تو وہ قحط سے نہیں سنبھلے تھے کہ ان پر یہ مصیبت نازل ہو گئی ہے۔
اگر مجھے آپ کے نقصان کا احساس نہ ہوتا تو میں بھی آپ کی تائید کرتا۔۔۔ قیرس نے کہا۔۔۔ لیکن آپ میرے بادشاہ ہیں ،اور محسن ہیں ،اور سلطنت روم کے ساتھ میری روحانی وابستگی ہے میں آپ کو اس راستے پر جانے سے روکوں گا جو تباہی کی طرف جاتا ہے۔ اس حقیقت کو نہ بھولیں کہ ہماری آدھی سے زیادہ فوج عربوں کے ہاتھوں ماری جاچکی ہے اور باقی جو بچ کر مصرمیں ہے اس پر ابھی تک عربی مسلمانوں کی دہشت طاری ہے ۔اگر آپ اس فوج کو طاعون سے مروانا چاہتے ہیں تو شام پر حملہ کردیں۔
کیا اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتے کہ مسلمانوں کے لشکر بھی اسی بیماری کی زد میں آگئے ہیں، اور یہ وباء ہماری فوج کو بھی نہیں بخشے گی؟ کل تک مجھے جو خبر ملی ہے ان سے پتہ چلا ہے کہ مسلمانوں کے کچھ سالار بھی اس بیماری سے مر چکے ہیں۔
ہرقل یہ بات سمجھ گیا اور اس نے شام پر حملے کا ارادہ ذہن سے نکال دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ وباء کی اطلاع ملنے سے پہلے ہی شام جانے کا ارادہ کر چکے تھے ۔اس دوران وباء کی اطلاعیں پہنچنے لگیں، لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کچھ زیادہ پریشان نہ ہوئے بلکہ انہوں نے جانا زیادہ بہتر سمجھا تھا کہ وہاں کی صورت حال دیکھ کر وباء کو روکنے کا کچھ بندوبست کیا جائے ۔چنانچہ حضرت عمر نے فوری روانگی کا حکم دے دیا اور ان کا قافلہ سُوئے شام روانہ ہو گیا۔
نہ جانے کتنے دنوں بعد امیرالمومنین کا قافلہ تبوک پہنچا شام کے مختلف علاقوں کے سالاروں کو پہلے اطلاع دے دی گئی تھی کہ امیرالمومنین شام کے دورے پر آرہے ہیں ہر سالار نے سوچ لیا کہ امیرالمومنین کا شام میں آنا ٹھیک نہیں ،چنانچہ سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ، سالار یزید بن ابی سفیان ،اور سالار شرجیل بن حسنہ، تبوک پہنچ گئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بتایا کہ وہ اس سے آگے نہ جائیں کیوں کہ شام کی زمین اور فضا میں طاعون کے جراثیم اور موت کے سوا کچھ نہیں رہا انہوں نے امیرالمومنین کو وباء کی شدت اور تباہ کاری کی تفصیلات بتائیں۔
یہاں رکے رہنا میرے لیے ممکن نہیں ۔۔۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا۔۔۔ میں یہیں سے واپس مدینہ چلا گیا تو بھی ان کی روحوں کے آگے شرمسار ہونگا جنہیں اس بیماری نے اللہ کے حضور پہنچا دیا ہے میں اپنے قوم کو اتنی خطرناک ابتلا میں چھوڑ کر واپس کس طرح جا سکتا ہوں۔
سالاروں نے انھیں قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ آگے نہ جائیں وہ دلیل یہ دیتے تھے کہ اس خوفناک صورتحال میں اگر امیرالمومنین کو کچھ ہو گیا تو ایک اور مسئلہ پیدا ہوجائے گا ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پھر بھی نہ مانے اور سب سے مشورہ طلب کرنے لگے ان کے ساتھ سالاروں کے علاوہ کچھ اکابرین بھی تھے ان سب میں اختلاف پیدا ہو گیا۔
یا امیرالمومنین !،،،،بعض نے ان الفاظ میں مشورہ دیا چونکہ آپ بنی نوع انسان کی بھلائی اور اللہ کی خوشنودی کی خاطر جا رہے ہیں اس لئے آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ آگے کیا خطرات ہیں۔
نہیں امیرالمومنین!،،،، دوسرے گروہ نے یہ خیال ظاہر کیا جہاں ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ بھی نہ ہو وہاں کم از کم خلیفہ وقت کو نہیں جانا چاہیے، اللہ تعالی نے عقل اسی لیے عطا فرمائی ہے کہ ہر کام سوچ سمجھ کر کرو۔
آخر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے قریش کے ان صحابہ کرام کو جو اس وقت ان کے ساتھ تھے اور جو فتح مکہ میں بھی شریک تھے اپنے پاس بلایا اور یہ مشورہ ان کے آگے رکھا ان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے یہ سب اس فیصلے پر متفق ہوگئے کہ امیرالمومنین اپنے تمام قافلے سمیت تبوک سے آگے نہیں بلکہ واپس مدینہ جائیں گے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسی وقت حکم دیدیا کہ کل صبح ان کا قافلہ مدینہ کو روانہ ہوگا۔
تقریباً تمام مؤرخوں نے امیرالمومنین اور ابو عبیدہ کا ایک مشہور مکالمہ لکھا ہے ،تاریخ میں آیا ہے کہ ابوعبیدہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تبوک سے آگے جائیں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے واپسی کا فیصلہ کرلیا تو ابوعبیدہ کی رائے نہ جانے کس طرح متزلزل ہو گئی۔
ابن الخطاب!،،،،، ابوعبیدہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے بڑی بے تکلفی سے کہا ۔۔۔قضائے الہی سے بھاگتے ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور حیرت زدگی کے عالم میں کچھ دیر ابوعبیدہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے۔
ابن الجراح!،،،،، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوعبیدہ سے کہا۔۔۔۔ کاش یہ بات کوئی اور کہتا۔۔۔۔ ہاں میں قضائے الہی سے قضا الہی کی طرف بھاگ رہا ہوں۔
ابوعبیدہ خاموش ہوگئے اس وقت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آ گئے وہ معمر صحابی تھے انھیں پتہ چلا کہ یہاں کیا مسئلہ درپیش ہے تو انھوں نے حتمی فیصلہ سنا دیا انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ تم سنو کسی علاقے میں کوئی وبا پھیل گئی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تم اس جگہ ہو جہاں وبا پھوٹ پڑی تو وہاں سے بھاگو نہیں کیونکہ تم یہ وباء اپنے ساتھ لے جاو گے اور کسی اور جگہ پھیلا دو گے، چونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مطمئن ہوگئے اور تبوک سے واپس مدینہ چلے گئے۔
مدینہ پہنچ کر امیرالمومنین اطمینان سے کس طرح رہ سکتے تھے، ہر وقت شام کے لوگوں کے متعلق سوچتے کہ انھیں اس وباء سے کس طرح بچایا جاسکتا ہے۔
تاریخ کے مطابق انھیں سب سے زیادہ خیال ابوعبیدہ کا تھا ابوعبیدہ بڑے قیمتی سپہ سالار تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ انھیں بچانا چاہتے تھے، ایک روایت یہ بھی ہے کہ انھوں نے ابوعبیدہ سے کہا تھا کہ وہ ان کے ساتھ مدینہ چلے چلیں، لیکن اس عظیم سپہ سالار نے جواب دیا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو موت کے سائے میں چھوڑ کر نہیں جائیں گے ،اور انہوں نے اپنے وہ الفاظ استعمال کیے جو وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہہ چکے تھے میں قضائے الہی سے نہیں بھاگوں گا۔
مدینہ پہنچ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سپہ سالار ابوعبیدہ کو طاعون سے بچانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان کے نام ایک پیغام لکھوا کر تیزرفتار قاصد کے ہاتھ بھیجا پیغام یہ تھا کہ میں ایک ضروری مسئلہ پر تم سے زبانی گفتگو کرنا چاہتا ہوں اس لئے پیغام ملتے ہی چل پڑو۔
ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس پیغام کا جواب یہ دیا کہ جس مسئلہ پر آپ میرے ساتھ صلاح مشورہ کرنا چاہتے ہیں وہ ملتوی ہو سکتا ہے لیکن میں یہاں اسلامی لشکر کا سپہ سالار ہوں اور اس لشکر کو اتنی بڑی مصیبت میں چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا میں اپنے ساتھیوں کو نہیں چھوڑوں گا اور اللہ کے حکم کا انتظار کروں گا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے پیغام کا جواب ملا تو ان پر جذبات کے احساس کا غلبہ ہوا کہ ان کے آنسو بہہ نکلے وہاں جو حضرات بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے کسی نے گھبرا کر پوچھا یا امیرالمومنین ابوعبیدہ فوت تو نہیں ہوگئے ۔۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ رقت آمیز آواز میں جواب دیا ۔۔۔نہیں مگر معلوم ہوتا ہے وہ فوت ہی ہو جائے گا۔
امیرالمومنین نے ابوعبیدہ کا خط تمام حاضرین کو پڑھنے کے لئے دیا پھر سوچ سوچ کر ابو عبیدہ کے نام ایک اور پیغام لکھا جس میں لکھوایا کہ ابو عبیدہ نشیبی علاقے سے نکل کر ذرا بلند اور صحت افزا مقام پر چلے جائیں اور اپنے لشکر کو بھی ساتھ لے جائیں۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ابو عبیدہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اس حکم یا مشورے پر عمل کرنے کی سوچ ہی رہے تھے کہ طاعون نے انہیں بھی زد میں لے لیا اور وہ تیسرے دن فوت ہو گئے، انہوں نے بیماری کے حملے کے ساتھ ہی معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا، وہاں موت کا یہ عالم تھا کہ معاذ بن جبل کے دو جوان بیٹے طاعون کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ اور کچھ دنوں بعد وہ خود بھی اس مرض سے فوت ہو گئے انہوں نے عمرو بن عاص کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔
عمرو بن عاص نے مجاہدین کے لشکر کو اور شہریوں کو بھی کہا کہ وہ میدانوں سے نکل کر پہاڑوں میں چلے جائیں چنانچہ لوگ گھر کھلے چھوڑ کر پہاڑوں میں چلے گئے اور اس طرح طاعون کا زور ٹوٹتے ٹوٹتے بالکل ہی ختم ہو گیا۔
یہ وباء کئی مہینے انسانی جانوں سے کھیلتی رہی اور پچیس ہزار مسلمانوں کی جان لے کر ٹلی جو سالار فوت ہوئے ان میں ابوعبیدہ، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان ،حارث بن حسام، سہیل بن عمرو، اور عتبہ بن سہیل، رضی اللہ تعالی عنہم خاص طور پر شامل ہیں ۔حارث بن ہشام کے خاندان کے ستر افراد اور حضرت خالد بن ولید کے خاندان کے چالیس افراد اس وباء میں فوت ہوگئے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟡 𝟜⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ان کے پیچھے باقی فوج بھی آگئی اسے رہائش کے لیے وہی جگہ دی گئی جہاں گزشتہ رات تک کوچ کرجانے والی فوج قیام پذیر تھی سپاہیوں کو کمانڈروں نے بتانا شروع کردیا کہ پہلی فوج کو محاذ پر بھیج دیا گیا ہے آنے والی فوج بھڑکی ہوئی تھی علی بن سفیان نے انہیں ٹھنڈا کرنے کا انتظام کر رکھا تھا سلطان ایوبی نے دانشمندی سے فوجی بغاوت کا خطرہ بھی ختم کردیا اور خانہ جنگی کا امکان بھی نہ رہنے دیا اس نے اعلیٰ کمانڈروں کو بلا لیا اور اس فوجی حاکم کو بھی بلایا جو سرحدی دستوں کا ذمہ دار تھا اس نے یہ معلوم کرکے کہ سرحد پر کتنے دستے ہیں اور کہاں کہاں ہیں اتنی ہی نفری کے دستے تیار کرکے علی الصبح مطلوبہ جگہوں کو بھیجنے کا حکم دیا اسے بتایا جا چکا تھا کہ سرحدی دستے ملک سے غلہ اور فوجی ضروریات کا دیگر سامان باہر بھیجنے میں دشمن کی مدد کررہے ہیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے ان دستوں کے کمانڈروں کو خصوصی احکامات دئیے اور سرحد سے واپس آنے والے پرانے دستوں کے متعلق اس نے حکم دیا کہ انہیں قاہرہ میں لانے کے بجائے باہر سے ہی محاذ پر بھیج دیا جائے
سعدیہ دونوں وقت مسجد میں امام کو کھانا دینے جاتی تھی محمود بن احمد شاگرد کی حیثیت سے مذہب کی تعلیم حاصل کررہا تھا وہ اس چراگاہ میں بھی چلا جایا کرتا تھا جہاں سعدیہ بکریاں چرایا کرتی تھی وہاں ٹیلے بھی تھے جگہ سرسبز تھی کیونکہ وہاں پانی تھا جگہ گاؤں سے ذرا دور تھی سعدیہ اب محمود کو اپنا محافظ سمجھنے لگی تھی اور اسے یقین ہوگیا تھا کہ محمود اسے کافروں کے قبضے میں جانے سے بچا لے گا مگر محمود اس کی یہ بات نہیں مانتا تھا کہ اسے فوراً گاؤں سے لے جائے سعدیہ نے اسے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اسے اپنے گاؤں چھوڑ آئے اور یہاں آکر تعلیم مکمل کرلے محمود اسے بتا نہیں سکتا تھا کہ اس کا گاؤں مصر کے دوسرے سرے پر ہے جہاں وہ اتنی جلدی نہیں جاسکتا اس نے اپنے جاسوسی کے فن کے مطابق یہ یقین کرلیا تھا کہ سعدیہ دشمن کی آلۂ کار نہیں اگر محمود کے راستے میں فرض حائل نہ ہوتا تو وہ کب کا سعدیہ کو وہاں سے لے جاچکا ہوتا فرض کے علاوہ امام مسجد اس کے محکمے کا افسر تھا جس کی موجودگی میں وہ اپنے فرض میں کوتاہی نہیں کرسکتا تھا امام نے اسے یہ بھی کہا تھا کہ وہ اس کے ساتھ رہے اس کا کہنا حکم کی حیثیت رکھتا تھا
ایک روز اچانک گاؤں میں رونق آگئی کچھ اجنبی صورتیں نظر آنے لگیں ہر کسی کی زبان پر ایک ہی کلمہ تھا وہ آرہا ہے وہ آسمان سے آیا ہے مرے ہوؤں کو زندہ کرنے والا آرہا ہے گاؤں کا ہر فرد بہت ہی خوش تھا وہ کہتے تھے کہ ان کی مرادیں پوری کرنے والا آرہا ہے سعدیہ دوڑتی آئی اور محمود بن احمد سے کہا تم نے بھی سنا ہے کہ وہ آرہا ہے؟ 
تم جانتے ہو میں اس سے کیا مانگوں گی؟ 
میں اسے کہوں گی کہ محمود مجھے فوراً یہاں سے لے جائے پھر تم مجھے لے جاؤ گے
محمود کچھ بھی جواب نہ دے سکا اس نے ابھی تک اس پراسرار آدمی کو نہیں دیکھا تھا جسے لوگ پیغمبر تک کہتے تھے محمود کی ڈیوٹی کے علاقے میں وہ پہلی بار آرہا تھا اس کی کرامات اور معجزوں کی کہانیاں اس علاقے میں کب کی پہنچ رہی تھیں محمود باہر نکل گیا تو اجنبی لوگوں میں اسے اپنے دو ساتھی جاسوس نظر آئے ان کا علاقہ کوئی اور تھا محمود نے ان سے پوچھا کہ وہ اس کے علاقے میں کیوں آگئے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ وہ اس غیب دان کو دیکھنے آئے ہیں مگر وہ جاسوسوں کی حیثیت سے نہیں آئے تھے بلکہ اس سے پوری طرح متاثر تھے انہوں نے اس کی کرامات کسی جگہ دیکھی تھیں جو انہوں نے محمود کو ایسے انداز سے سنائی کہ وہ مرعوب ہوگیا یہ دونوں اس غیب دان کو برحق سمجھنے لگے تھے محمود نے سوچا کہ علی بن سفیان کے تربیت یافتہ جاسوس جس سے متاثر ہوجائیں وہ برحق ہوسکتا ہے
محمود اس سرسبز جگہ کی طرف چلا گیا جہاں سعدیہ بکریاں اور اونٹنی چرانے کے بہانے اسے ملا کرتی تھی مگر وہاں کچھ اور ہی گہما گہمی تھی اسے دور ہی دو آدمیوں نے روک دیا اور کہا کہ خدا کا بھیجا ہوا پیغمبر آرہا ہے یہ جگہ اس کے لیے صاف کی جارہی ہے وہ یہیں قیام کرے گا اس نے دور سے دیکھا کہ ایک ٹیلے میں غار سا بنایا جارہا تھا اور جگہ ہموار کی جارہی تھی اب وہاں کسی کو جانے کی اجازت نہیں تھی گاؤں کے لوگ کام دھندا چھوڑ کر وہاں جمع ہورہے تھے اجنبی آدمی جو اس جگہ صفائی وغیرہ کا کام کرتے تھے باری باری آکر لوگوں کو اس کے معجزے سناتے تھے لوگ مسرور اور مسحور ہوئے جارہے تھے رات کو بھی لوگ وہاں کھڑے رہے ان کی عقیدت مندی کا یہ عالم تھا کہ مسجد میں کوئی بھی نہ گیا دوسرے دن کی ابھی صبح طلوع ہوئی تھی کہ لوگ پھر وہیں پہنچ گئے انہیں دور ہی روک لیا گیا رات کے دوران اجنبی چہروں میں اضافہ ہوگیا تھا یہ لوگ وہاں گڑھے بھی کھود رہے تھے ان کے ساتھ چند اونٹ تھے جن پر بہت سارا سامان لدا ہوا تھا یہ سامان کھولا جانے لگا تو انہیں بہت سے خیمے نظر آئے جو کھول کر نصب کیے جارہے تھے
شام گہری ہونے لگی راتیں تاریک ہوا کرتی تھیں چاند رات کے پچھلے پہر ابھرتا تھا اس غیب دان کے متعلق بتایا جاتا تھا کہ صرف تاریک راتوں میں لوگوں کو اپنا آپ دکھاتا ہے شام کے بعد بھی گاؤں کے لوگ وہاں موجود رہے ایک طرف گاؤں کی عورتیں بھی کھڑی تھیں جن میں سعدیہ بھی تھی جو جگہ آنے والے کے لیے صاف کی جارہی تھیں وہاں مشعل جل رہی تھیں دو آدمی ان چند لڑکیوں کے پیچھے سے آئے جن میں سعدیہ تھی لڑکیاں انہیں دیکھ نہ سکیں سامنے سے تین چار آدمی آئے یہ اجنبی لوگوں میں سے تھے لڑکیوں کے قریب آکر انہوں نے لڑکیوں سے کہا تم یہاں سے جاتی کیوں نہیں؟
اور وہ لڑکیوں کو ڈرانے کے لیے ان کی طرف دوڑے لڑکیاں بھاگ اٹھیں اور بکھر گئیں کسی نے پیچھے سے سعدیہ کے اوپر کمبل پھینکا دو مضبوط بازوؤں نے اسے کمر سے دبوچ لیا ایک ہاتھ سے کسی نے اس کا منہ بند کردیا اسے کندھے پر اٹھا کر کوئی دوڑ پڑا ایک تو تاریکی تھی اور دوسرے لڑکیاں بھاگ گئی تھیں اس لیے کوئی بھی نہ دیکھ سکا کہ سعدیہ کو کوئی اٹھا لے گیا ہے
دوسری صبح جیسے طوفان آگیا ہو گاؤں کے لوگ چراگاہ کی طرف دوڑ پڑے ایک ہجوم چلا آرہا تھا اس کے آگے آگے سولہ سترہ اونٹ تھے ہر اونٹ پر نہایت خوبصورت پالکی تھی ہر پالکی کے پردے گرے ہوئے تھے ”وہ” ان میں سے کسی پالکی میں تھا آگے آگے ڈف اور شہنائیاں بج رہی تھیں بعض لوگ وجد آفریں گونج میں کچھ گنگناتے آرہے تھے اونٹوں کی گردنوں سے لٹکتی ہوئی بڑی بڑی گھنٹیوں کا ترنم اسی موسیقی کا حصہ معلوم ہوتا تھا ہجوم میں کوئی شور شرابہ نہیں تھا ہر کسی پر تقدس کا رعب طاری تھا یہ مریدوں اور عقیدت مندی کا جلوس تھا جو معلوم نہیں کہاں کہاں سے اس کے ساتھ چلے آرہے تھے ایسی فضا پیدا ہوگئی تھی جیسے پالکیوں والے اونٹ آسمان سے اتر رہے ہوں یہ قافلہ سرسبز جگہ چلا گیا وہاں ٹیلے زیادہ تھے ایک جگہ بہت سے خیمے نصب کردئیے گئے تھے ان میں ایک خیمہ خاصا بڑا تھا تمام لوگوں کو دور ہٹا دیا گیا پھر کوئی نہ دیکھ سکا کہ پالکیوں میں سے کون کون نکلا اور کہاں غائب ہوگیا عقیدت مندوں کا ہجوم دور ہٹ کر بیٹھ گیا سعدیہ کے گاؤں کے لوگ ان سے اس مقدس انسان کی باتیں سننے لگے انسانی فطرت کی یہ خاصیت ہے کہ انسان جس قدر گنوار اور پسماندہ ہوتا ہے وہ اتنا ہی سنسنی پسند ہوتا ہے وہ باتوں میں سنسنی پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہے یہی کیفیت وہاں پیدا ہوگئی تھی
امام بھی اس ہجوم کو دیکھ رہا تھا اور محمود بھی وہ ابھی کوئی رائے قائم نہیں کرسکتے تھے انہیں قاہرہ سے یہ ہدایت ملی تھی کہ سرحدی علاقے میں کوئی نیا عقیدہ پھیلایا جارہا ہے اس کے متعلق تفصیلات معلوم کرکے بتاؤ کہ یہ کیا ہے اور اس کی پشت پناہی میں کون لوگ ہیں قاہرہ کو ابھی کوئی تفصیلی اطلاع نہیں ملی تھی اس کی سب سے بڑی وجہ یہ کہ جن علاقوں میں پراسرار آدمی جاچکا تھا وہاں کے جاسوس بھی اس کے معجزوں سے مرعوب ہوگئے تھے وہ اس کے خلاف کوئی بات منہ سے نکالنے سے ڈرتے تھے سرحدی دستوں نے بھی ایسا ہی اثر قبول کرلیا تھا اب اس امام کی باری تھی اسے دیکھنا تھا کہ یہ سب کوئی ڈھونگ ہے شعبدہ بازی ہے یا کیا ہے اس نے یہ دیکھ لیا تھا کہ لوگ اس کی صرف باتیں سن سن کر اتنے متاثر اور مرعوب ہوگئے تھے کہ انہوں نے مسجد میں جانا چھوڑ دیا تھا وہ اس کی جھلک دیکھنے کو اس جگہ کے گرد بیٹھے تھے جہاں وہ اونٹ سے اتر کر کسی خیمے میں غائب ہوگیا تھا
امام اور محمود وہاں کھڑے تھے سعدیہ کا باپ ان کے پاس آن رکا اس نے پریشانی کے عالم میں بتایا کہ سعدیہ رات سے غائب ہے لڑکیوں نے اسے بتایا تھا کہ انہیں چند آدمیوں نے سامنے سے آکر ڈرایا اور وہاں سے بھگا دیا تھا ایک لڑکی نے بتایا کہ اس نے وہاں سے پیچھے دو آدمی دیکھے تھے اس سے آگے کسی کو کچھ علم نہ تھا باپ سعدیہ کی تلاش میں چل پڑا محمود بھی اس کے ساتھ ہولیا وہاں اسے سعدیہ کہاں مل سکتی تھی مگر وہ باپ تھا بے چینی سے ادھر ادھر گھومنے پھرنے لگا محمود اس کے ساتھ رہا انہیں ایک اجنبی نے روک لیا اور پوچھا کیا تم لوگ کسی کو ڈھونڈ رہے ہو؟
سعدیہ کے باپ نے اسے بتایا کہ گزشتہ رات اس کی لڑکی لاپتہ ہوگئی ہے
مجھے ابھی ابھی کسی نے بتایا ہے کہ تم اس لڑکی کے باپ ہو اجنبی نے سعدیہ کا حلیہ بتا کر کہا اگر تم اس لڑکی کو ڈھونڈ رہے ہو تو وہ تمہیں یہاں نہیں ملے گی اب تک وہ مصر کی سرحد سے باہر اور بہت دور جاچکی ہوگی گزشتہ شام میں نے ایک گھوڑا دیکھا تھا ایک نوجوان اور بڑی خوبصورت لڑکی دوسری لڑکیوں سے ہٹ کر گھوڑے کے پاس گئی سوار گھوڑے کے قریب کھڑا تھا لڑکی نے اس کے ساتھ کچھ باتیں کیں سوار گھوڑے پر سوار ہوکر چند قدم پرے چلا گیا لڑکی ادھر ادھر دیکھتی اس کے پیچھے گئی آگے جاکر وہ خود ہی سوار کے آگے گھوڑے پر بیٹھ گئی سوار گھوڑا دوڑا لے گیا میں دیکھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ یہ لڑکی کون ہوسکتی ہے جو ایک سوار کے ساتھ اپنی مرضی سے چلی گئی ہے آج کسی نے بتایا کہ وہ تمہاری بیٹی تھی اسے اب ڈھونڈنے کی کوشش نہ کرو

وہ آدمی چلا گیا سعدیہ کے باپ کے آنسو نکل آئے محمود کا ردعمل کچھ اور تھا وہ جاسوس تھا اس نے یہ سوچا کہ یہ آدمی سفید جھوٹ بول گیا ہے اس کی اطلاع اور تمام تر بیان جھوٹ تھا کوئی اسے کیسے بتا سکتا تھا کہ اس شخص کی بیٹی ایک سوار کے ساتھ بھاگ گئی ہے جب اسے دیکھنے والا یہ اکیلا شخص تھا جاسوس کو یہ ٹریننگ خاص طور پر دی جاتی تھی کہ کسی کی بات پر فوراً اعتبار نہ کرو اور ہر کسی کو شک کی نگاہ سے دیکھو محمود نے اس اجنبی کا پیچھا کیا وہ ہجوم میں سے ہوتا ہوا ٹیلوں کے پیچھے چلا گیا اور خیموں میں کہیں غائب ہوگیا محمود کو یقین ہوگیا کہ سعدیہ انہی خیموں میں ہے اور اس کے اغوا میں اس آدمی کا ہاتھ ہے یہ سعدیہ کے خریداروں میں سے ہوسکتا ہے جنہوں نے سودا نہ ہونے پر سعدیہ کے باپ کو لڑکی کے اغوا کی دھمکی دی تھی سعدیہ کے باپ نے اسے نہیں پہچانا تھا یہ اجنبی سعدیہ کے باپ کو یہ جھوٹا بیان دے کر گمراہ کرنے آیا تھا تاکہ باپ اپنی بیٹی کو یہاں تلاش نہ کرے
محمود بن احمد کے دل میں سعدیہ کی اتنی شدید محبت تھی کہ اس نے سعدیہ کو وہاں سے نکالنے کا تہیہ کرلیا اس نے امام کو جا کر یہ ساری بات سنائی امام سراغ رسانی کے شعبے کا ذہین حاکم تھا اس نے بھی یہی رائے دی کہ اس غریب باپ کو دھوکا دیا جارہا ہے کہ اس کی بیٹی کسی کے ساتھ بھاگ گئی ہے محمود نے امام کے ان دونوں جاسوسوں سے جو گاؤں میں موجود رہتے تھے ذکر کیا اور کہا کہ وہ سعدیہ کو وہاں سے نکالے گا اور اسے ان کی مدد کی ضرورت ہے مگر یہ کام آسان نہیں تھا ٹیلوں کے اندر اب کوئی نہیں جا سکتا تھا

نورالدین زنگی نے کرک کے محاصرے میں اپنی فوج لگا دی تھی اور قلعہ توڑنے کے طریقے سوچ رہا تھا اس نے پہلے روز ہی اپنے کمانڈروں سے کہہ دیا تھا کہ جو قلعہ صلاح الدین ایوبی سر نہیں کرسکا وہ تم بھی آسانی سے سر نہیں کرسکو گے صلاح الدین ایوبی تو ناممکن کو ممکن کر دکھانے والا آدمی ہے سلطان ایوبی نے اسے تفصیل سے بتا دیا تھا کہ یہاں کون کون سے طریقے آزما چکا ہے یہ بھی بتایا تھا کہ قلعے کے اندر کیا کیا ہے رسد اور جانور کہاں ہیں اور آبادی کس طرف ہے اسے یہ معلومات جاسوس نے دی تھیں وہ اندر آگ پھینکنا چاہتا تھا مگر اس کی منجنیقیں چھوٹی تھیں اس کے علاوہ صلیبیوں کے پاس بڑی کمانیں تھیں جن کے تیر بہت دور تک چلے جاتے تھے یہ تیر منجنیقوں کو قریب نہیں آنے دیتے تھےاسی لیے قلعے کے دروازے پر بھی آگ نہیں پھینکی جاسکتی تھی مجاہدین کہیں سے قلعے کی دیوار توڑنے کی کوشش کرتے تھے تو اوپر سے صلیبی جلتی ہوئی لکڑیوں اور دہکتے کوئلوں کے ڈرم انڈیل دیتے تھے نورالدین زنگی نے اپنے نائبین کا اجلاس بلا کر انہیں کہا صلاح الدین ایوبی نے مجھے کہا تھا کہ وہ بڑی منجیقیں بنوا کر اندر آگ پھینک سکتا ہے لیکن اندر مسلمانوں کی آبادی بھی ہے اگر ایک بھی مسلمان جل گیا تو یہ ساری عمر کا پچھتاوا ہوگا میں اب ایوبی کی سوچ کے خلاف فیصلہ کررہا ہوں میں نے اتنی بڑی منجنیقیں بنانے کا انتظام کرلیا ہے جن کی پھینکی ہوئی آگ اور وزنی پتھر دور تک جاسکیں گے آپ کو یہ حقیقت قبول کرنی پڑے گی کہ آپ کی پھینکی ہوئی آگ سے اندر چند ایک مسلمانوں کو بھی نقصان پہنچے گا میرے دوستو! اگر تم اندر کے مسلمانوں کی حالت جانتے ہو تو کہو گے کہ وہ مر ہی جائیں تو اچھا ہے وہاں کسی مسلمان کی عزت محفوظ نہیں مسلمان بچیاں صلیبیوں کے پاس ہیں اور مرد کھلے قید خانے میں بڑے بیگار کررہے ہیں وہ تو دعائیں مانگ رہے ہوں گے کہ خدا انہیں موت دے دے آپ کا محاصرہ جس قدر لمبا ہوتا جائے گا اندر کے مسلمانوں کی اذیت بھی اسی قدر زیادہ اور اذیتوں کی مدت لمبی ہوتی جائے گی اور پھر یہ ضروری تو نہیں کہ ہر ایک مسلمان جل مرے گا اگر چند ایک مر گئے تو ہمیں یہ قربانی دینی ہی پڑے گی آپ بھی تو مرنے کے لیے آئے ہیں اسلام کو زندہ رکھنا ہے تو ہم میں سے کئی ایک کو جانیں قربان کرنی ہوں گی میں آپ کو یہ اطلاع اس لیے دے رہا ہوں کہ آپ میں سے مجھ پر کوئی یہ الزام عائد نہ کرے کہ میں نے ایک قلعہ سر کرنے کے لیے بے گناہ مسلمانوں کو جلا دیا ہے
ہم میں سے کوئی بھی ایسا نہیں سوچے گا ایک سالار نے کہا ہم یہاں اپنی بادشاہی قائم کرنے نہیں آئے فلسطین مسلمانوں کا ہے ہم یہاں اپنے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بادشاہی بحال کرنے آئے ہیں قبلہ اول ہمارا ہے صلیبیوں اور یہودیوں کا نہیں ہم یہودیوں کے اس دعوے کو کبھی تسلیم نہیں کرسکتے کہ فلسطین یہودیوں کا وطن ہے ایک اور نے کہا ہم سب جل مرنے کے لیے تیار ہیں ہم اپنے بچوں کو بھی قربان کرنے کے لیے تیار ہیں
نورالدین زنگی کے ہونٹوں پر ایسی مسکراہٹ آگئی جس میں مسرت نہیں تھی اس نے کہا تم جانتے ہی ہوگے کہ فلسطین کو اپنا وطن بنانے کے لیے یہودی کس میدان میں لڑ رہے ہیں انہوں نے اپنی دولت اور اپنی بیٹیوں کی عصمت صلیبیوں کے حوالے کردی ہے اور انہیں ہمارے خلاف لڑا رہے ہیں اپنی دولت اور اپنی لڑکیوں کے ہی ذریعے ہماری صفوں میں غدار پیدا کررہے ہیں ان کا سب سے بڑا نشانہ صلاح الدین ایوبی اور مصر ہے مصر کے بڑے بڑے شہروں میں فاحشہ عورتوں کی تعداد بڑھتی جارہی ہے یہ سب یہودی عورتیں ہیں افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ ہمارے مسلمان امراء اور دولت مند تاجر یہودیوں کے جال میں پھنس گئے ہیں ان میں نفاق اور تفرقہ بھی پیدا ہوگیا ہے اب کفار انہیں آپس میں لڑائیں گے اگر ہم ہوش میں نہ آئے تو یہودی ایک نہ ایک دن فلسطین کو اپنا وطن بنا کر قبلہ اول کو اپنی عبادت گاہ بنا لیں گے اور مسلمان مملکتیں آپس میں لڑتی رہیں گی انہیں محسوس تک نہ ہوگا کہ ان کی آپس کی چپقلش کے پیچھے یہودیوں اور صلیبیوں کا ہاتھ ہے یہ ہوگا دولت عورت اور شراب کا کرشمہ جو شروع ہوچکا ہے اگر ہمیں آنے والی نسلوں کو باوقار زندگی دینی ہے تو ہمیں آج کی نسل کے کچھ بچے قربان کرنے پڑیں گے میں نیا چاند نکلنے تک کرک لے لینا چاہتا ہوں خواہ مجھے اس کے کھنڈر ملیں اور اندر مسلمانوں کی جلی ہوئی لاشیں ملیں ہم انتظار نہیں کرسکتے ہمیں صلیبیوں اور یہودیوں کو بحیرۂ روم میں ڈبونا ہے یہ کام ہمیں اپنی زندگی میں کرنا ہے مجھے نظر آرہا ہے کہ ہمارے بعد اسلام کا پرچم غداروں اور صلیب نوازوں کے ہاتھوں میں آجائے گا
نورالدین زنگی نے کاریگروں کی بھی ایک فوج ساتھ رکھی ہوئی تھی اس نے متعلقہ کاریگروں کو بتا دیا تھا کہ کھجوروں کے بہت لمبے لمبے درخت کاٹ کر منجنیقیں تیار کریں اس نے کاریگروں کے مشوروں سے کچھ اور قسم کے بھی درخت کٹوا لیے تھے اور حکم دیا کہ ان کے تنے اور ٹہنیاں خشک ہونے سے پہلے کام میں لائے جائیں تاکہ ان میں لوہے والی سختی پیدا نہ ہوجائے کاریگر دن رات مصروف رہتے تھے اس کے ساتھ ہی زنگی نے وزنی پتھروں کے ڈھیر لگوا دئیے تھے اس کے پاس صلاح الدین ایوبی کا چھوڑا ہوا آتش گیر مادے کا ذخیرہ بھی تھا بہت سا سیال مادہ زنگی اپنے ساتھ لے آیا تھا اس نے آگ کے گولے تیار کرلیے تھے اسی دوران مصر سے سلطان ایوبی کی بھیجی ہوئی فوج بھی پہنچ گئی نورالدین زنگی کو اس فوج کے متعلق بتایا گیا تھا کہ بغاوت کے لیے تیار رہے لیکن زنگی نے جب اس کا معائنہ کیا تو اسے بغاوت کا شائبہ تک نظر نہ آیا زنگی سلطان ایوبی کی طرح دانشمند اور دور اندیش انسان تھا اس نے اس فوج کو چند ایک پرجوش الفاظ سے اس سے زیادہ بھڑکا دیا جتنا سلطان ایوبی نے بھڑکا کر بھیجا تھا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ایک روز سورج غروب ہوچکا تھا صلبی حکمران اور اعلیٰ فوجی کمانڈر قلعے کے اندر ایک کانفرنس بیٹھے تھے ان کی باتوں سے معلوم ہوتا تھا کہ انہیں محاصرے کے متعلق کوئی پریشانی نہیں انہیں یہ بھی پتہ چل چکا تھا کہ سلطان ایوبی مصر جا چکا ہے اور نورالدین زنگی آگیا ہے کانفرنس والے دن کی صبح انہیں یہ اطلاع ملی کہ مصر سے تازہ دم فوج آگئی ہے اس صورتحال پر غور کرنے کے لیے یہ سب اکٹھے ہوئے تھے انہوں نے ابھی بات شروع کی ہی تھی کہ دھماکے کی طرح آواز سنائی دی اور ملبہ گرنے کا شور بھی اٹھا صلیبی کمانڈر اور حکمران دوڑتے باہر نکلے ساتھ والے کمرے کی منڈیر پھٹ گئی تھی اور وہاں ایک وزنی پتھر پڑا تھا دیوار میں شگاف نہیں ہواتھا زناٹہ سا سنائی دیا جو قریب آکر دھماکہ بن کر خاموش ہوگیا اسی جگہ کے قریب ایک اور پتھر گرا صلیبی وہاں سے بھاگے وہ سمجھ گئے کہ مسلمان منجنیقوں سے پتھر پھینک رہے ہیں وہ قلعے کی دیوار پر گئے مگر شام اندھیری ہوچکی تھی کچھ نظر نہیں آتا تھا
یہ نورالدین زنگی کی تیار کرائی ہوئی ایک منجنیق تھی جسے تجرباتی طور پر استعمال کیا جارہا تھا یہ ضرورت کے عین مطابق دور مار تھی مگر اسے چلانا بہت مشکل تھا ایک لمبے ٹہن کے وسط میں مضبوط رسے باندھے گئے تھے جنہیں گھوڑوں کے زور سے کھینچ کر خم دیا جاتا اور خم کی جگہ پتھر رکھا جاتا تھا انتہائی خم میں لے جا کر رسہ تلواروں سے کاٹ دیا جاتا تھا اس طریقے سے نقصان یہ ہوتا تھا کہ رسہ کٹ جاتا اور اسے گانٹھ دے کر دوبارہ استعمال کے لیے تیار کیا جاتا تھا دوسری تکلیف یہ ہوتی تھی کہ جب آٹھ گھوڑوں کو کھچا تنا ہوا رسہ کٹتا تو گھوڑے دور آگے کو اس طرح چلے جاتے تھے جیسے کسی بے پناہ قوت نے دھکا دیا ہو دو تین بار یوں ہوا کہ دو گھوڑے آگے جاکر گھٹنوں کے بل گر پڑے اور پچھلے گھوڑے ان کے اوپر گرے دو سوار ایسے زخمی ہوئے کہ محاذ کے قابل نہ رہے زنگی نے پھر بھی آدھی رات کے بعد تک یہ عمل جاری رکھا جس سے یہ نقصان ہوا کہ صلیبیوں کے ہیڈکوارٹر کی دو چھتیں گر پڑیں اور چند ایک کمروں کی دیواروں میں لمبے چوڑے شگاف پڑ گئے یہ نقصان کچھ زیادہ تو نہیں تھا لیکن صلیبیوں کی حوصلہ شکنی کی صورت پیدا ہوگئی تھی چند ایک دیواروں کے شگافوں نے ہیڈکوارٹر کے محافظوں اور دیگر عملے کو وہاں سے بھگا دیا تھا اور صبح تک اس دور کی پہلی ”بمباری” کی دہشت ناک خبر سارے شہر میں پھیل گئی تھی
مگر آدھی رات کے بعد نورالدین زنگی کی پہلی دور مار منجنیق بے کار ہوگئی تھی پتھر پھینکنے والا حصہ جسے خم دیا جاتا تھا زیادہ استعمال سے یا زیادہ زور دینے سے ٹوٹ گیا آخری پتھر قلعے کے اندر جانے کے بجائے دیوار کے باہر لگا زنگی نے اگلا پتھر پھینکنے سے روک دیا تاہم یہ تجربہ ناکام نہیں تھا کاریگروں میں دو خاص طور پر دانشمند تھے انہوں نے بنیادی اصول دیکھ لیا تھا اس اصول پر انہیں کامیاب دور مار منجنیق تیار کرنی تھی انہوں نے اس پر غور کرنا شروع کردیا کہ رسے کاٹے بغیر پتھر نکلے اور اگر رسے کاٹنے ہی پڑیں تو گھوڑے اس سے پہلے تنے ہوئے رسوں سے آزاد کردئیے جایا کریں نورالدین زنگی نے انہیں کہا کہ وہ جو کچھ بھی کریں وقت ضائع کیے بغیر کریں دن رات سوچیں اور کام کریں انہوں نے کام شروع کردیا اس کے ساتھ ہی زنگی نے تیروکمان بنانے والے کاریگروں سے کہا کہ وہ دور مار کمانیں تیار کریں اس نے اپنے کمانڈروں سے کہا کہ اپنے دستوں میں سے غیرمعمولی طور پر طاقتور سپاہی الگ کرلیں جو بڑی کمانوں سے تیر پھینک سکیں۔

سعدیہ کے گاؤں کے باہر جہاں وہ بکریاں چراتی اور محمود بن احمد سے ملا کرتی تھی ایک ایسی دنیا آباد ہوگئی جس کی رونق وہاں کے لوگوں کے لیے روئے زمین کی نہیں آسمان سے اتری ہوئی معلوم ہوتی تھی بہت دیر گزری سورج غروب ہوچکا تھا رات تاریک تھی لوگوں کو ٹیلوں کے اندر جانے کی اجازت دے دی گئی تھی لیکن انہیں ایک طرف بٹھا دیا گیا تھا کسی کو کسی ٹیلے کے اوپر جانے کی اجازت نہیں تھی لوگوں کو جہاں بٹھایا گیا وہاں سے کسی کو اٹھنے کی اجازت نہیں تھی انہیں کوئی حکم نہیں دیا جارہا تھا بلکہ ”اس” سے ڈرایا جارہا تھا کہتے تھے کہ وہ کسی کی ذرا سی بھی حرمت سے ناراض ہوگیا تو سب پر مصیبت نازل ہوگی لوگ دم بخود بیٹھے دیکھ رہے تھے ان سے کچھ دور بڑی خوبصورت دریاں اور ان پر دو قالین بچھے ہوئے تھے پیچھے لمبے لمبے پردے لٹکے ہوئے تھے جن پر ستارے سے چمکتے تھے یہ چمک ان مشعلوں اور قندیلوں سے پیدا ہوتی تھی جو ایک خاص ترکیب سے رکھی جل رہی تھیں پردوں کے پیچھے عمودی ٹیلا تھا جس کے دامن میں اجنبی لوگ غار کھود رہے تھے اس ٹیلے کے پیچھے کچھ جگہ ہموار تھی وہاں رنگا رنگ خیمے نصب تھے
تماشائیوں پر ایسا رعب طاری تھا کہ وہ ایک دوسرے کے ساتھ سرگوشی میں بھی بات نہیں کرتے تھے یہ رات اس سے اگلی تھی جس رات سعدیہ اغوا ہوئی تھی سامنے لٹکے ہوئے پردے آہستہ آہستہ ہلنے لگے تھے ستارے آسمان کے ستاروں کی طرح ٹمٹمانے لگے اور ایسے سازوں کا ترنم سنائی دینے لگا جن کے نام سے بھی کوئی واقف نہیں تھا یہ ایک گونج سی تھی جس میں طلسماتی سا تاثر تھا صحرا کی خاموش رات میں یہ تاثر روحوں تک اترتا محسوس ہوتا تھا یہ احساس بھی ہوتا تھا جیسے اس ترنم کی لہریں لوگوں کے اوپر سے گزر رہی ہوں جنہیں وہ دیکھ سکیں گے چھو بھی سکیں گے یہی وجہ تھی کہ لوگ بار بار اوپر ادھر ادھر دیکھتے تھے لیکن انہیں نظر کچھ بھی نہیں آتا تھا سازوں کے ترنم میں ایک اور گونج شامل ہوگئی صاف پتہ چلتا تھا کہ بہت سے آدمی مل کر ایک ہی نغمہ گنگنا رہے ہیں اس میں لڑکیوں کی آواز بھی تھی اس کے ساتھ جب ٹیلے کے سامنے اتنے لمبے لمبے پردے ہلتے تھے تو یہ لگتا تھا جیسے رات فضا اور ماحول پر وجد طاری ہوگیا ہو
لوگ پوری طرح مسحور ہوگئے تو کہیں سے گونج دار آواز اٹھی وہ آگیا ہے جسے خدا نے آسمان سے اتارا ہے اپنے دل اور دماغ خیالوں سے خالی کردو وہ تمہارے دلوں اور دماغوں میں خدا کی سچی باتیں اتار دے گا
پردوں میں جنبش ہوئی پردوں میں سے ایک انسان نمودار ہوا وہ تھا تو انسان ہی لیکن اس مترنم اور مرعوب ماحول میں ان روشنیوں میں وہ کسی بلندوبالا جہان کی مخلوق لگتا تھا اس کے سر کے بال بھورے ریشمی اور لمبے تھے جو اس کے شانوں پر پڑتے تھے بالوں میں چمک تھی چہرہ بھرا بھرا اور سرخ وسپید داڑھی سلیقے سے تراشی ہوئی تھی یہ بھی بھورے رنگ کی تھی جسم گٹھا ہوا اور اس پر سبز چغہ تھا چغے پر پردوں کی طرح ستارے تھے جو روشنیوں میں چمکتے تھے ایسی ہی چمک اس کی آنکھوں میں تھی اس کے سراپا میں ایسا تاثر تھا جس نے لوگوں کو مبہوت کر دیا اس کے ساتھ سازوں کا گونج دار ترنم اور بہت سی آوازوں کے گنگنانے کی گونج مگر جس نے لوگوں کو دم بخود کیا تھا وہ ان کی کہانیوں کا اثر تھا جو وہ کب سے سن رہے تھے ان معجزاتی کہانیوں کی سنسنی خیزی نے ان کی سوچوں پر غلبہ پا رکھا تھا اس رات اسے اپنے سامنے دیکھ کر انہوں نے پہلے تو سرجھکائے پھر ہاتھ اس طرح پیٹ پر باندھ لیے جس طرح نماز میں باندھے جاتے ہیں
اس نے پردوں کے سامنے کھڑے ہوکر بازو اوپر کو پھیلائے اور کہا تم پر اس خدا کی رحمت نازل ہو جس نے تمہیں دنیا میں اتارا جس نے تمہیں آنکھیں دیں تاکہ تم دیکھ سکو جس نے تمہیں کان دئیے تاکہ تم سن سکو جس نے تمہیں دماغ دیا کہ تم سوچ سکو جس نے تمہیں زبان دی تاکہ تم بول سکو تم ہی جیسے انسانوں نے جن کی آنکھیں تمہاری طرح ہیں زبانیں تمہاری طرح ہیں تمہیں غلام بنا کر خدا کی نعمتوں سے اور دنیا کی آسائشوں سے محروم کردیا ہے اب تمہارا یہ حال ہے کہ تمہاری آنکھیں دیکھ سکتی ہیں مگر تمہیں کچھ نظر نہیں آتا تمہارے کان سن سکتے ہیں مگر یہ سچ بات نہیں سنتے تمہارا دماغ سوچ سکتا ہے مگر اس میں وہم اور جھوٹے قصے بھرے ہوئے ہیں تمہاری زبانیں بول سکتی ہیں مگر ان کے خلاف ایک کلمہ نہیں کہہ سکتیں جنہوں نے تمہیں غلام بنا لیا ہے انہوں نے تمہیں تمہارے گھوڑے اور اونٹوں کو اور تمہارے جوان بیٹوں کو خرید لیا ہے وہ تمہارے بیٹوں کو اس طرح لڑاتے ہیں جس طرح کتوں کو لڑایا جاتا ہے وہ تمہارے گھوڑوں اور اونٹوں کو تیروں اور برچھیوں سے چھلنی کروا کر مرواتے ہیں تمہارے بیٹوں کو مروا کر ریگستانوں میں پھینک دیتے ہیں جہاں انہیں مردے کھانے والے پرندے اور درندے کھا جاتے ہیں میں وہ آنکھ ہوں جو آنے والے وقت کو دیکھ سکتی ہے اور دیکھ سکتی ہے کہ انسانوں کے دلوں میں کیا ہے میں وہ کان ہوں جو خدا کی آواز سن سکتا ہے میں وہ دماغ ہوں جو بنی نوع انسان کی بھلائی کی سوچتا ہے اور میں وہ زبان ہوں جو خدا کا پیغام سناتی ہے میں خدا کی زبان ہوں تم آزمالو اس نے کہا میرے سینے میں تیر مارو
اس کی آواز میں اور انداز میں جادو کا اثر تھا اس نے پھر کہا یہاں کوئی تیر انداز ہے تو میرے سینے پر تیر چلائے ہجوم پر سناٹا طاری ہوچکا تھا اس نے غصیلی اور بلند آواز سے کہا میں حکم دیتا ہوں کہ یہاں جس کسی کے پاس تیروکمان ہے وہ سامنے آجائے
چار تیرانداز جو سعدیہ کے گاؤں کے رہنے والے نہیں تھے آہستہ آہستہ آگے آئے وہ ڈرے سہمے ہوئے تھے اس نے کہا تیس قدم گن کر چاروں میرے سامنے کھڑے ہوجاؤ انہوں نے تیس قدم گنے اور اس کی طرف منہ کرکے کھڑے ہوگئے کمانوں میں تیر ڈالو
چاروں نے ترکشوں میں سے ایک ایک تیر نکال کر کمانوں میں ڈال لیا میرے دل کا نشانہ لے لو
انہوں نے کمانیں سیدھی کرکے نشانہ لے لیا یہ سوچے بغیر کہ میں مر جاؤں گا پوری طاقت سے کمانیں کھینچو اور تیر چلا دو
انہوں نے کمانیں جھکالیں انہوں نے یہی سوچا تھا کہ وہ مرجائے گا میرے دل کا نشانہ لے کر تیر چلاؤ اس نے گرج کرکہا ورنہ جہاں کھڑے ہو وہیں شعلے بن کر بھسم ہو جاؤ گے
تیر اندازوں نے اپنی موت کے ڈر سے فوراً کمانیں اوپر کرلیں اور اس کے دل کا نشانہ لیا دیکھنے والا ہجوم اس طرح خاموش تھا جیسے وہاں کوئی بھی زندہ نہیں تھا سازوں کا ترنم اس سکوت پر کچھ زیادہ ہی سحر آگیں اور پرسوز ہوگیا تھا اس کے ساتھ ایسے انسانوں کی مترنم گونج پھر ابھری جو نظر نہیں آتے تھے اس سحر آگیں موسیقی میں چار کمانوں کی پنگ پنگ کی آوازیں بڑی صاف سنائی دیں چار تیر اس مقدس انسان کے دل کے مقام میں پیوست ہوگئے وہ کھڑا رہا اس کے بازو اوپر اور کچھ دائیں بائیں پھیلے ہوئے تھے اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی چار خنجروں والے آگے آجائیں اس نے کہا تیر انداز چلے جائیں
تیر انداز حیران و پریشان چلے گئے اور چار آدمی ایک طرف سے سامنے آئے اس حکم پر کہ خنجر ہاتھ میں لے لو اور مجھ سے پندرہ قدم گن کر میرے سامنے کھڑے ہوجاؤ وہ اس سے پندرہ قدم دور جاکر کھڑے ہوئے اس نے پوچھا تم نشانے پر خنجر پھینکنا جانتے ہو؟
چاروں نے جواب دیا کہ وہ جانتے ہیں اس نے کہا چاروں اکٹھے میرے سینے میں خنجر مارو
چاروں نے پوری طاقت سے خنجر اس پر پھینکے چاروں خنجر اس کے سینے میں لگے اور وہیں رہے خنجروں کی نوکیں اس کے سینے میں اتری ہوئی تھیں اور وہ کھڑا مسکرا رہا تھا ہجوم سے آوازیں سنائی دینے لگیں آفریں اس کے قبضے میں موت کے فرشتے ہیں کیا اسے جواب مل گیا ہے جس نے پوچھا کہ میں لافانی ہوں؟
اس نے پوچھا
ایک آدمی جو صحرائی لباس میں تھا دوڑتا ہوا گیا اور اس کے قدموں میں سجدہ ریز ہوگیا اس نے جھک کر اسے اٹھایا اور کہا جا تجھ پر خدا کی رحمت ہو
تو پھر تو مردے میں بھی جان ڈال سکتا ہے ایک بوڑھے دیہاتی نے آگے آکر کہا خدا نے مجھے ایک ہی بیٹا دیا تھا وہ جوانی میں مر گیا ہے مجھے کسی نے بتایا تھا کہ تو مرے ہوؤں کو زندہ کردیتا ہے میں اپنے بیٹے کی لاش اٹھا کر بہت دور سے آیا ہوں میرے بڑھاپے پر رحم کر اسے زندہ کردے بوڑھا دھاڑیں مار کر رونے لگا
چار آدمی کفن میں لپٹی ہوئی ایک لاش آگے لائے لاش درخت کی ٹیڑھی ٹہنیوں کے بنے ہوئے سٹریچر پر پڑی تھی انہوں نے لاش اس کے آگے رکھ دی اس نے کہا ایک مشعل لو لاش کو اٹھاؤ اور تمام لوگوں کو دکھاؤ کوئی یہ نہ کہے کہ یہ پہلے ہی زندہ تھا
لاش سب کے سامنے سے گزاری گئی اس کے منہ سے کفن ہٹا دیا گیا تھا ایک آدمی ہاتھ میں مشعل لیے ساتھ ساتھ تھا سب نے دیکھا کہ اس کا چہرہ لاش کی طرح سفید تھا آنکھیں آدھی کھلی ہوئیں اور منہ بھی آدھا کھلا ہوا تھا سب نے لاش دیکھ لی تو اسے اس مقدس انسان کے سامنے رکھ دیا گیا موسیقی کی لے بدل گئی اور پہلے سے زیادہ پرسوز ہوگئی اس نے بازو آسمان کی طرف کیے اور بلند آواز سے پکارا زندگی اور موت تیرے ہاتھ میں ہے میں تیرے بیٹے کا بیٹا ہوں تونے اپنے بیٹے کو سولی سے اتارا اور مجھے صلیب کا تقدس عطا کیا تھا اگر تیرا بیٹا اور اس کی صلیب سچی ہے تو مجھے قوت دے کہ میں اس بدنصیب بوڑھے کے بیٹے کو زندگی دے سکوں اس نے جھک کر لاش کے کفن پر ہاتھ پھیرا منہ سے کچھ بڑبڑایا پھر لاش کے اوپر ہوا میں اس طرح دونوں ہاتھ پھیرے کہ اس کے ہاتھ کانپ رہے تھے کفن پھڑپھڑانے لگا مقدس انسان ہوا میں اس پر ہاتھ پھیرتا رہا کفن اور زور سے پھڑپھڑایا بعض لوگ اس قدر ڈر گئے کہ ایک دوسرے کے قریب ہوگئے عورتوں میں سے کسی عورت کی چیخ بھی سنائی دی یہ منظر اس لیے بھی بھیانک بن گیا تھا کہ مردے کو زندہ کرنے والے کے سینے میں چار تیر اور چار خنجر اترے ہوئے تھے
کفن میں کچھ اور ہی حرکت ہوئی لاش بیٹھ گئی اس نے ہاتھ کفن سے باہر نکالے ہاتھوں سے کفن میں سے چہرہ ننگا کیا اور آنکھیں مل کر کہا کیا میں عالم پاک میں پہنچ گیا ہوں؟
”نہیں!” اسے زندہ کرنے والے نے سہارا دے کر اٹھایا اور کہا تم اسی دنیا میں ہو جہاں تم پیدا ہوئے تھے جاؤ اپنے باپ کے سینے سے لگ جاؤ 
باپ نے دوڑ کر اپنے بیٹے کو بازوؤں میں لے لیا بیتابی سے اس کا منہ چوم چوم کر اس نے زندہ کرنے والے کے آگے سجدہ کیا لوگ جو بیٹھے ہوئے تھے اٹھ کھڑے ہوئے وہ آپس میں کھسر پھسر کررہے تھے ان کے سامنے کفن میں لپٹی ہوئی لاش اپنے پاؤں پر چل رہی تھی مردہ زندہ ہوگیا تھا باپ نے اسے سارے ہجوم کے سامنے سے گزارا تاکہ سب دیکھ لیں کہ وہ زندہ ہوگیا ہے
لیکن میں اور کسی مردہ کو زندہ نہیں کروں گا اس نے کہا زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے تم لوگوں کو صرف یہ دکھانے کے لیے کہ میں خدا کا ایلچی بن کر آیا ہوں ابھی ابھی خدا سے اجازت لی ہے کہ تھوڑی سی دیر کے لیے مجھے طاقت دے دے کہ میں مرے ہوئے انسان میں جان ڈال سکوں خدا نے مجھے طاقت دے دی کیا تم جنگ میں مرے ہوئے سپاہی کو زندہ کرسکتے ہو؟
مجمع میں سے کسی نے پوچھا
”نہیں” اس نے جواب دیا جنگ میں مرنے والوں سے خدا اتنا زیادہ ناراض ہوتا ہے کہ انہیں دوسری زندگی نہیں دیتا اگلے جہان وہ انہیں دوزخ کی آگ میں پھینک دیتا ہے ہر مرد کسی کو قتل کرنے کے لیے پیدا نہیں کیا گیا بلکہ اس لیے پیدا کیا گیا ہے کہ جس طرح اسے ایک باپ نے پیدا کیا ہے اسی طرح وہ بھی کسی کا باپ بنے اسی لیے تمہیں کہا گیا ہے کہ چار چار بیویاں رکھو مرد اور عورت کا یہی کام ہے کہ بچے پیدا کریں اور جب بچے بڑے ہوجائیں تو ان سے بچے پیدا کریں یہی عبادت ہے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟠 𝟜⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ پراسرار غیب دان جس کے متعلق سرحد کے دیہاتی علاقوں میں مشہور ہوگیا تھا کہ آسمان سے آیا ہے خدا کا دین لایا ہے اور مرے ہوؤں کو زندہ کرتا ہے اپنے مصاحبوں کے قافلے کے ساتھ سفر کرتا تھا جنہوں نے اسے دیکھا تھا وہ کہتے تھے کہ وہ بوڑھا نہیں اس کی داڑھی بھورے رنگ کی اور چہرے کی رنگت گوری بتائی جاتی تھی اس نے سر کے بال بڑھا رکھے تھے لوگ بتاتے تھے کہ اس کی شربتی آنکھوں میں پورے چاند جیسی چمک ہے اور اس کے دانت ستاروں کی طرح سفید اور شفاف ہیں اس کا قد اونچا اور جسم گٹھا ہوا بتایا جاتا تھا اور وہ بولتا تھا تو سننے والے مسحور ہوجاتے تھے اس کے ساتھ بہت سے مصاحب اور بہت سے اونٹ تھے سامان والے اونٹ الگ تھے جن میں سے بعض پر بڑے بڑے مٹکے لدے ہوتے تھے اس کا قافلہ آبادی سے دور رکتا اور وہ وہیں لوگوں سے ملتا تھا کسی آبادی میں نہیں جاتا تھا وہ ایک جگہ سے کوچ کرتا تو اس کے آگے آگے کچھ لوگ اونٹ اور گھوڑے بھگا دیتے اور راستے میں آنے والے لوگوں اور بستیوں میں خبر کردیتے تھے کہ وہ آرہا ہے یہ لوگ ہر کسی کو اس کی کرامات اور روحانی قوتوں کے کرشمے سناتے تھے لوگ کئی کئی دن اس کے راستے میں بیٹھے رہتے تھے
جس رات علی بن سفیان صلاح الدین ایوبی کو بتا رہا تھا کہ محاذ سے قاہرہ کو جانے والی فوج مصر میں مقیم فوج کے خلاف مشتعل ہوگئی، اس رات وہ غیب دان قاہرہ سے بہت دور ایک نخلستان میں خیمہ زن ہوا اس کا ایک اصول یہ تھا کہ چاندنی راتوں میں کسی سے نہیں ملتا تھا دن کے دوران کسی کے ساتھ بات نہیں کرتا تھا۔ اندھیری راتیں اسے پسند تھیں اس کی محفل ایسی قندیلوں سے روشن ہوتی تھی جن میں سے ہر ایک کا رنگ دوسری سے مختلف تھا ان روشنیوں کا بھی ایک تاثر تھا جو حاضرین محفل کے لیے طلسماتی تھا وہ جہاں خیمہ زن ہوا تھا اس کے کچھ دور ایک بستی تھی جس میں زیادہ تر مسلمان اور کچھ سوڈانی حبشی رہتے تھے اس بستی میں ایک مسجد بھی تھی جہاں کا امام ایک خاموش طبیعت انسان تھا ایک جواں سال آدمی کوئی ڈیڑھ دو مہینوں سے اس کے پاس دینی تعلیم حاصل کرنے آیا کرتا تھا یہ آدمی جو اپنا نام محمود بن احمد بتاتا تھا کسی دوسری بستی سے مسجد میں جایا کرتا تھا اس کی دلچسپی امام مسجد اور اس کے علم کے ساتھ تھی مگر اس کی ایک دلچسپی اور بھی تھی یہ ایک جوان لڑکی تھی جس نے اسے اپنا نام سعدیہ بتایا تھا۔ سعدیہ کو محمود اتنا اچھا لگا کہ وہ اسے کئی بار اپنی بکریوں کا دودھ پلا چکی تھی
ان کی پہلی ملاقات بستی سے دور ایک ایسی جگہ ہوئی تھی جہاں سعدیہ اپنی چار بکریاں اور دو اونٹ چرانے اور انہیں پانی پلانے کے لیے لے گئی تھی محمود وہاں پانی پینے کے لیے رکا تھا سعدیہ نے اس سے پوچھا تھا کہ کہاں سے آیا ہے اور کہاں جا رہا ہے؟ 
محمود نے کہا تھا کہ نہ کہیں سے آ رہا ہوں نہ کہیں جا رہا ہوں سعدیہ سادگی سے ہنس پڑی تھی جواب ہی کچھ ایسا تھا۔ سعدیہ نے محمود سے قدرتی سا سوال پوچھا مسلم یا سوڈانی؟
محمود نے جواب دیا کہ وہ مسلمان ہے تو سعدیہ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ آگئی تھی محمود نے اسے اپنا صحیح ٹھکانہ نہیں بتایا تھا اس کے ساتھ کچھ ایسی باتیں کیں جو سعدیہ کو اچھی لگی تھیں سعدیہ اس سے سوڈان کی جنگ کے متعلق پوچھنے لگی اس کے انداز سے پتہ چلتا تھا کہ اسے اسلامی فوج کے ساتھ دلچسپی ہے اس نے جب صلاح الدین ایوبی کے متعلق پوچھا تو محمود نے اس کی ایسی تعریفیں کیں جیسے سلطان صلاح الدین ایوبی انسان نہیں خدا کا اتارا ہوا فرشتہ ہے سعدیہ نے پوچھا کیا صلاح الدین ایوبی اس سے زیادہ مقدس اور برگزیدہ ہے جو آسمان سے اترا ہے اور مرے ہوؤں کو زندہ کردیتا ہے؟
صلاح الدین ایوبی مرے ہوؤں کو زندہ نہیں کرسکتا محمود نے جواب دیا ہم نے سنا ہے کہ جو لوگ زندہ ہوتے ہیں، انہیں صلاح الدین ایوبی مار ڈالتا ہے سعدیہ نے شکی لہجے میں کہا لوگ یہ بھی بتاتے ہیں کہ وہ مسلمان ہے اور ہماری طرح کلمہ اور نماز پڑھتا ہے؟
تمہیں کس نے بتایا ہے کہ وہ لوگوں کو مار ڈالتا ہے؟
ہمارے گاؤں میں سے مسافر گزرتے رہتے ہیں اور وہ بتا جاتے ہیں کہ صلاح الدین ایو بی بہت برا آدمی ہے
سعدیہ نے کہا تمہاری مسجد کا امام کیا بتاتا ہے؟
محمود نے بتایا وہ بہت اچھی باتیں بتاتا ہے سعدیہ نے کہا وہ سب کو کہتا ہے کہ صلاح الدین ایوبی اسلام کی روشنی سارے مصر اور سوڈان میں پھیلانے آیا ہے اور اسلام ہی خدا کا سچا دین ہے
محمود اس کے ساتھ اسی موضوع پر باتیں کرتا رہا تھا سعدیہ سے اسے پتہ چلا کہ اس کے گاؤں میں ایسے آدمی آتے رہتے ہیں جو اپنے آپ کو مسلمان بتاتے ہیں مگر باتیں ایسی کرتے ہیں کہ کئی لوگوں کے دلوں میں اسلام کے خلاف شکوک پیدا ہوگئے ہیں۔ محمود نے سعدیہ کے شکوک رفع کر دیئے اور اپنی ذات میٹھی زبان اور شخصیت کا اس پر ایسا اثر پیدا کیا کہ سعدیہ نے بیتابی سے کہا کہ وہ اکثر یہیں بکریاں چرانے آیا کرتی ہے اور محمود جب کبھی ادھر سے گزرے تو اسے ضرور ملے محمود اسے جذبات اور حقائق کے درمیان بھٹکتا چھوڑ کر اس کے گاؤں کی طرف چلا گیا سعدیہ یہ سوچتی رہ گئی کہ وہ کون ہے؟ 
کہاں سے آیا ہے؟ 
اور کہاں جارہا ہے؟ 
اس کا لباس اسی علاقے کا تھا مگر اس کی شکل وصورت اور اس کی باتیں بتاتی تھیں کہ وہ اس علاقے کا رہنے والا نہیں سعدیہ کے شکوک صحیح تھے محمود بن احمد دیہاتی علاقے کا رہنے والا نہیں تھا سکندریہ شہر کا باشندہ تھا اور علی بن سفیان کی داخلی جاسوسی (انٹیلی جنس) کا ایک ذہین کارکن تھا وہ کئی مہینوں سے اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے سرحدی دیہات میں گھوم پھر رہا تھا اس نے کھانے پینے اور رہنے کا انتظام خفیہ رکھا ہوا تھا اس کے ساتھ چند اور جاسوس بھی تھے جو اس علاقے میں پھیلے ہوئے تھے وہ کبھی کبھی اکٹھے ہوتے اور ان کے جو مشاہدات ہوتے تھے وہ اپنے کسی ایک ساتھی کے سپرد کرکے اسے قاہرہ بھیج دیتے تھے اس طرح علی بن سفیان کے شعبے کو پتہ چلتا رہتا تھا کہ سرحدی علاقے میں کیا ہورہا ہے
محمود بن احمد کو سعدیہ مل گئی تو اس نے اس لڑکی کے ساتھ بھی ایسی باتیں کیں جن سے اسے گاؤں اور گردوپیش کے علاقے کے لوگوں کے خیالات کا علم ہوسکتا تھا۔ اس نے سعدیہ کے گاؤں کی مسجد کے امام کے متعلق خاص طور پر پوچھا تھا۔ وجہ یہ تھی کہ دو گاؤں میں اس نے ایسے امام مسجد دیکھے تھے جو اسے مشکوک سے لگتے تھے وہاں کے لوگوں سے اسے پتہ چلا تھا کہ یہ دونوں امام نئے نئے آئے ہیں اس سے پہلے ان مسجدوں میں امام تھے ہی نہیں۔ دونوں جہاد کے خلاف وعظ سناتے اور قرآن کی آیات پڑھ کر غلط تفسیریں بیان کرتے تھے اور یہ دونوں پراسرار غیب دان کو برحق بتاتے اور لوگوں میں اس کی زیارت کا اشتیاق پیدا کرتے تھے۔ محمود اور اس کے دو ساتھیوں نے ان دونوں اماموں کے متعلق رپورٹ قاہرہ کو بھیج دی تھی اور اب وہ سعدیہ کے گاؤں جارہا تھا اسے یہ سن کر بہت خوشی ہوئی تھی کہ اس گاؤں کا امام سلطان ایوبی کا مرید اور اسلام کا علمبردار ہے اس نے اسی مسجد کو اپنا ٹھکانہ بنانے کا فیصلہ کرلیا وہ مسجد میں گیا اور امام سے ملا۔ اپنا جھوٹا تعارف کرا کے اس نے کہا کہ وہ مذہبی علم کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہے امام نے اسے تعلیم دینے کا وعدہ کیا اور اسے مسجد میں رہنے کی پیشکش کی محمود مسجد میں قید نہیں ہونا چاہتا تھا اس نے امام سے کہا کہ وہ دو تین روز بعد اپنے گھر جایا کرے گا۔ اس نے امام کو بھی اپنا نام نہیں بتایا تھا امام نے اس سے نام پوچھا تو اس نے کچھ اور نام بتادیا یہ پوچھا کہ وہ کہاں کا رہنے والا ہے تو اس نے اور کسی سرحدی گاؤں کا نام بتا دیا امام مسکرایا اور آہستہ سے بولا محمود بن احمد! مجھے خوشی ہوئی ہے کہ تم اپنے فرائض سے بے خبر نہیں سکندریہ کے مسلمان فرض کے پکے ہوتے ہیں
محمود ایسا چونکا جیسے بدک اٹھا ہو وہ سمجھا کہ یہ امام صلیبیوں کا جاسوس ہے لیکن امام نے اسے زیادہ دیر تک شک میں نہ رہنے دیا اور کہا میں محسوس کرتا ہوں کہ مجھے کم از کم تمہارے سامنے اپنے آپ کو بے نقاب کردینا چاہیے میں تمہارے ہی محکمے کا آدمی ہوں میں تمہارے تمام ساتھیوں کو جو اس علاقے میں ہیں جانتا ہوں مجھے تم میں سے کوئی بھی نہیں جانتا میں محترم علی بن سفیان کے اس عملے کا آدمی ہوں جو دشمن پر نظر رکھنے کے ساتھ ساتھ اپنے جاسوسوں پر بھی نظر رکھتا ہے میں امام بن کر جاسوسی کا کام کررہا ہوں
پھر میں آپ کو دانشمند آدمی نہیں کہوں گا؟
محمود بن احمد نے کہا آپ نے جس طرح میرے سامنے اپنے آپ کو بے نقاب کیا ہے اس طرح آپ دشمن کے کسی جاسوس کے سامنے بھی بے نقاب ہوسکتے ہیں
مجھے یقین تھا کہ تم میرے آدمی ہو امام نے کہا ضرورت ایسی آپڑی ہے کہ تمہیں اپنا اصلی روپ بتانا ضروری سمجھا میرے ساتھ دو محافظ ہیں جو یہاں کے باشندوں کے بہروپ میں گاؤں میں موجود رہتے ہیں مجھے زیادہ آدمیوں کی ضرورت ہے اچھا ہوا کہ تم آگئے ہو اس گاؤں میں دشمن کے تخریب کار آرہے ہیں تم نے اس آدمی کے متعلق سنا ہوگا جس کے متعلق مشہور ہوگیا ہے کہ وہ مستقبل کے اندھیرے کی خبر دیتا ہے اور مرے ہوؤں کو زندہ کرتا ہے یہ گاؤں بھی اس کی ان دیکھی کرامات کی زد میں آگیا ہے میں نے گاؤں والوں کو شروع میں بتایا تھا کہ یہ سب جھوٹ ہے اور لاشوں میں کوئی انسان جان نہیں ڈال سکتا مگر اس کی شہرت کا جادو اتنا سخت ہے کہ لوگ میرے خلاف ہونے لگے ہیں میں سنبھل گیا کیونکہ میں اس مسجد سے نکلنا نہیں چاہتا مجھے ایک اڈے اور ٹھکانے کی ضرورت ہے یہاں کے گمراہ کیے ہوئے لوگوں کو اسلام کا سیدھا راستہ بھی دکھانا ہے پندرہ بیس روز گزرے رات کو دو آدمی میرے پاس آئے میں اکیلا تھا ان دونوں کے چہروں پر نقاب تھے انہوں نے مجھے دھمکی دی کہ میں یہاں سے چلا جاؤں میں نے انہیں کہا کہ میرا اور کوئی ٹھکانہ نہیں انہوں نے کہا کہ اگر یہاں رہنا چاہتے ہو تو درس بند کردو اور اس کی باتیں کرو جو آسمان سے آیا ہے اور خدا کا سچا مذہب لایا ہے۔ میں دونوں کا مقابلہ کرسکتا تھا ہتھیار ہر وقت اپنے پاس رکھتا ہوں لیکن میں لڑ کر قتل کرکے یا قتل ہوکر اپنا فرض پورا نہیں کرسکتا تھا میں نے عقل سے کام لیا اور انہیں یہ تاثر دیا کہ آج سے وہ مجھے اپنا آدمی سمجھیں انہوں نے کہا کہ اگر وہ ان کی باتوں پر عمل کرے گا تو اسے ایک انعام یہ ملے گا کہ اسے قتل نہیں کیا جائے گا اور دوسرا یہ کہ اسے اشرفیاں دی جائیں گی پھر آپ نے اپنے وعظ اور خطے کا رنگ بدل دیا ہے؟
محمود نے پوچھا کسی حد تک امام نے جواب دیا میں اب دونوں قسم کی باتیں کرتا ہوں مجھے اشرفیوں کی نہیں اپنی جان کی ضرورت ہے میں اپنا فرض ادا کیے بغیر مرنا نہیں چاہتا میں گاؤں سے باہر جاکر تمہیں یا تمہارے کسی ساتھی کو ڈھونڈنا بھی نہیں چاہتا کیونکہ اس کی جان بھی خطرے میں پڑ جاتی خدا نے خود ہی تمہیں میرے پاس بھیج دیا ہے میرے محافظ اس رات میرے پاس نہیں تھے اب تم ہی میرے ساتھ رہو تم میرے شاگرد کی حیثیت سے میرے ساتھ رہوگے تم سیدھی سادی گنواروں کی سی باتیں کیا کرنا گاؤں میں چار پانچ آدمی ایسے ہیں جو ہمارا ساتھ دے سکتے ہیں اگر ہمیں قریب کوئی سرحدی دستہ مل جائے تو ہمارا مقصد پورا ہوسکتا ہے مگر ہمارے سرحدی دستوں کے کسی کمان دار پر بھروسہ کرنا بڑا خطرناک ہے دشمن نے اشرفیوں اور عورتوں سے انہیں اپنے ساتھ ملا لیا ہے وہ تنخواہ ہمارے خزانے سے لیتے اور کام دشمن کا کرتے ہیں
محمود بن احمد اس کے پاس رک گیا اسی روز امام نے اسے اپنے دونوں محافظوں سے ملا دیا
شام کو جب سعدیہ مسجد میں امام کے لیے کھانا لے کر آئی تو محمود کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی اور مسکرائی محمود نے پوچھا میرے لیے کھانا نہیں لاؤ گی؟
سعدیہ کھانا امام کے حجرے میں رکھ کر دوڑی گئی اور روٹی کے ساتھ ایک پیالے میں بکریوں کا دودھ بھی لے آئی۔ وہ چلی گئی تو امام نے محمود سے کہا یہ علاقے کی سب سے زیادہ خوبصورت لڑکی ہے ذہین بھی ہے اور کم عمر بھی اس کا سودا ہورہا ہے
سودا یا شادی؟
سودا امام نے کہا تم جانتے ہو کہ ان لوگوں کی شادی دراصل سودا ہوتا ہے مگر سعدیہ کا سیدھا سودا ہورہا ہے ہمیں اس کے متعلق پریشان نہیں ہونا چاہیے تھا لیکن خریدار مشکوک لوگ ہیں وہ یہاں کے رہنے والے نہیں یہ وہی لوگ معلوم ہوتے ہیں جو مجھے دھمکی دے گئے ہیں تم اچھی طرح سمجھ سکتے ہو کہ وہ اس لڑکی کو اپنے رنگ میں رنگ کر ہمارے خلاف استعمال کریں گے اس لیے اسے بچانا ضروری ہے اور اس لیے بھی اسے بچانا ضروری ہے کہ یہ لڑکی مسلمان ہے ہمیں سلطنت کے ساتھ ساتھ سلطنت کی بچیوں کی عصمت کی حفاظت بھی کرنی ہے مجھے امید ہے کہ یہ سودا نہیں ہوسکے گا سعدیہ کے باپ کو میں نے اپنا مرید بنا رکھا ہے لیکن وہ غریب اور تنہا آدمی ہے اور رسم و رواج سے بھاگ بھی نہیں سکتا بہرحال سلطنت اور سعدیہ کی عصمت کے محافظ ہمارے سوا اور کوئی نہیں
اس کے بعد محمود امام کا شاگرد بن گیا دن گزرنے لگے اور اس کی ملاقاتیں سعدیہ کے ساتھ ہونے لگیں لڑکی چراگاہ میں چلی جاتی اور محمود وہاں پہنچ جاتا تھا ان کی بے تکلفی بڑھ گئی تو محمود نے سعدیہ سے پوچھا کہ وہ کون لوگ ہیں جو اسے خریدنا چاہتے ہیں سعدیہ انہیں نہیں جانتی تھی اس کے لیے وہ اجنبی تھے انہوں نے اس طرح آکر دیکھا تھا جس طرح گائے بھینس کو  خریدنے سے پہلے دیکھا جاتا ہے سعدیہ کو اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ کسی کی بیوی نہیں بنے گی اسے عرب کا کوئی دولت مند تاجر یا کوئی امیر یا وزیز اپنے حرم میں رکھ کر قید کرلے گا جہاں وہ اپنا گھر بسائے بغیر بوڑھی ہوکر مر جائے گی یا اسے ناچنا سکھا کر تفریح کی چیز بنا لیا جائے گا اس نے اپنے گاؤں کے فوجیوں سے ایسی لڑکیوں کے بہت قصے سنے تھے وہ اتنے پسماندہ علاقے میں رہتے ہوئے بھی ذہین تھی اور اپنا برا بھلا سوچ سکتی تھی اس نے محمود کو دیکھا تو اسے دل میں بٹھا لیا اور اس نے جب یہ دیکھا کہ محمود اسے چاہنے لگا ہے تو اس نے دل میں یہ ارادہ پختہ کرلیا کہ وہ فروخت نہیں ہوگی وہ جانتی تھی کہ خریداروں سے بچنا اس کے لیے ممکن نہیں۔ ایک روز اس نے محمود سے پوچھا تم مجھے خرید نہیں سکتے؟
خرید سکتا ہوں محمود نے کہا لیکن میں جو قیمت دوں گا وہ تمہارے باپ کو منظور نہیں ہوگی
کتنی قیمت دوگے؟
میرے پاس دینے کے لیے اپنے دل کے سوا کچھ بھی نہیں محمود بن احمد نے جواب دیا معلوم نہیں تم دل کی قیمت جانتی ہو یا نہیں
اگر تمہارے دل میں میری محبت ہے تو میرے لیے یہ قیمت بہت زیادہ ہے سعدیہ نے کہا تم ٹھیک کہتے ہو کہ میرے باپ کو یہ قیمت منظور نہیں ہوگی لیکن میں تمہیں یہ بتا دوں کہ میرا باپ مجھے بیچنا بھی نہیں چاہتا، اس کی مجبوری یہ ہے کہ وہ غریب ہے اور اکیلا ہے۔ میرا کوئی بھائی نہیں میرے خریداروں نے میرے باپ کو دھمکی دی ہے کہ اس نے ان کی قیمت قبول نہ کی تو وہ مجھے اغوا کرلیں گے
تمہارا باپ اتنی زیادہ قیمت کیوں قبول نہیں کرتا؟
محمود نے پوچھا لڑکیوں کو بیچنے کا تو یہاں رواج ہے
باپ کہتا ہے کہ وہ لوگ مسلمان نہیں لگتے سعدیہ نے کہا میں نے بھی باپ سے کہہ دیا ہے کہ میں کسی غیر مسلم کے پاس نہیں جاؤں گی اس نے بیتاب ہوکر کہا تم اگر مجھے اپنے ساتھ لے جانے کے لیے تیار ہوتو میں ابھی تمہارے ساتھ چل پڑوں گی
میں تیار ہوں محمود نے کہا
تو چلو سعدیہ نے کہا آج ہی رات چلو
نہیں محمود کے منہ سے نکل گیا میں اپنا فرض پورے کیے بغیر کہیں بھی نہیں جاسکتا
کیسا فرض؟
سعدیہ نے پوچھا محمود بن احمد چونکا وہ سعدیہ کو نہیں بتا سکتا تھا کہ اس کا فرض کیا ہے اس نے منہ سے نکلی ہوئی بات پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی مگر سعدیہ اس کے پیچھے پڑ گئی محمود کو اچانک یاد آگیا اس نے کہا میں امام سے مذہبی تعلیم لینے آیا ہوں اس کی تکمیل کے بغیر میں کہیں نہیں جاؤں گا
اس وقت تک مجھے معلوم نہیں کہاں پہنچا دیا جائے گا سعدیہ نے کہا محمود فرض کو ایک لڑکی پر قربان کرنے پر آمادہ نہ ہوسکا اس کے دل میں یہ شک بھی پیدا ہوا کہ یہ لڑکی دشمن کی جاسوس بھی ہوسکتی ہے جسے اسے بے کار کرنے کے لیے استعمال کیا جارہا ہے لہٰذا اس نے سعدیہ کے متعلق چھان بین کرنا ضروری سمجھا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صلاح الدین ایوبی کی فوج قاہرہ سے آٹھ دس میل دور تھی۔ اسے بتا دیا گیا تھا کہ فوج مشتعل ہے اور مصر کی فوج پر ٹوٹ پڑے گی سلطان ایوبی نے وہاں پڑاؤ کا حکم دے دیا اور سپاہیوں میں گھومنے پھرنے لگا وہ خود سپاہیوں کے جذبات کا جائزہ لینا چاہتا تھا وہ ایک سوار کے پاس رکا تو کئی سوار اور پیادہ اس کے گرد جمع ہوگئے۔ اس نے ان کے ساتھ غیرضروری سی باتیں کیں تو ایک سوار بول پڑا اس نے پوچھا گستاخی معاف سالار اعظم! یہاں پڑاؤ کی ضرورت نہیں تھی۔ ہم شام تک قاہرہ پہنچ سکتے تھے
تم لوگ لڑتے لڑتے آئے ہو سلطان ایوبی نے کہا میں تمہیں اس کھلے صحرا میں آرام دینا چاہتا ہوں
ہم لڑتے آئے ہیں اور لڑنے جارہے ہیں سوار نے کہا لڑنے جارہے ہیں؟
سلطان ایوبی نے انجان بنتے ہوئے پوچھا میں تو تمہیں قاہرہ لے جارہا ہوں جہاں تم اپنے دوستوں سے ملوگے وہ ہمارے دشمن ہیں سوار نے کہا اگر یہ سچ ہے کہ ہمارے دوست بغاوت کرنے پر تلے ہوئے ہیں تو وہ ہمارے دشمن ہیں
صلیبیوں سے بدترین دشمن ایک اور سپاہی نے کہا
کیا یہ سچ نہیں سالاراعظم کہ قاہرہ میں غداری اور بغاوت ہورہی ہے؟
کسی اور نے پوچھا کچھ گڑبڑ سنی ہے سلطان ایوبی نے کہا میں مجرموں کو سزا دوں گاآپ پوری فوج کو کیا سزا دیں گے؟
ایک سوار نے کہا سزا ہم دیں گے ہمیں کمان داروں نے قاہرہ کے سارے حالات بتا دیئے ہیں ہمارے ساتھی شوبک اور کرک میں شہید ہوئے ہیں دونوں شہروں کے اندر ہماری بیٹیوں اور بہنوں کی عصمت دری ہوئی ہے اور کرک میں ابھی تک ہو رہی ہے ہمارے ساتھی قلعے کی دیواروں سے دشمن کی پھینکی ہوئی آگ میں زندہ جل گئے ہیں قبلہ اول پر کافروں کا قبضہ ہے اور ہماری فوج قاہرہ میں بیٹھی عیش کررہی ہے آپ کے خلاف بغاوت کی تیاری کررہی ہے جنہیں شہیدوں کا پاس نہیں اپنی بیٹیوں کی عصمتوں کا خیال نہیں انہیں زندہ رہنے کا بھی حق نہیں ہم جانتے ہیں وہ اسلام کے دشمن کے دوست بن گئے ہیں ہم جب تک غداروں کی گردنیں اپنے ہاتھوں نہیں کاٹیں گے ہمیں شہیدوں کی روحیں معاف نہیں کریں گے ذرا ان زخمیوں کو دیکھئے جنہیں ہم اپنے ساتھ لارہے ہیں کسی کی ٹانگ نہیں کسی کا بازو نہیں کیا یہ اس لیے ساری عمر کے لیے اپاہج ہوگئے ہیں کہ ہمارے ساتھی اور ہمارے دوست دشمن کے ہاتھ میں کھیلیں؟
ہم انہیں اپنے ہاتھوں سزا دیں گے اور پھر ایسا شور سپا ہوگیا کہ ساری فوج وہاں جمع ہوگئی صلاح الدین ایوبی کے لیے اس جوش وخروش پر قابو پانا مشکل ہوگیا وہ سپاہیوں کے جوش اور جذبے کو سرد کرکے ان کا دل بھی نہیں توڑنا چاہتا تھا اس نے انہیں صبر و تحمل کی تلقین کی کوئی حکم نہ دیا اپنے خیمے میں گیا مشیروں اور نائبین کو بلا کر کہا کہ یہ فوج اگلے حکم تک یہیں پڑاؤ کرے گی اس نے کہا میں نے دیکھ لیا ہے کہ خانہ جنگی ہوگی فوج کا آپس میں ٹکرا جانا دشمن کے لیے فائدہ مند ہوتا ہے میں آج رات قاہرہ جارہا ہوں کسی کو معلوم نہ ہوسکے کہ میں یہاں نہیں ہوں۔ سپاہیوں کے جوش کو سرد کرنے کی بھی کوشش نہ کی جائے
اس نے ضروری احکام اور ہدایات دے کر کہا ہماری قاہرہ والی فوج جو بغاوت پر آمادہ ہے میری نظر میں بے گناہ ہے اور ہماری قوم کے وہ نوجوان جو جوئے اور ذہنی عیاشی کے عادی ہوتے جارہے ہیں وہ بھی بے گناہ ہیں فوج کو ہمارے اعلیٰ حکام نے غلط باتیں بتا کر بھڑکایا ہے۔ انہی حکام کے ایماء پر دشمن نے ہمارے ملک کے سب سے بڑے شہر میں ذہنی عیاشی کے سامان پھیلائے ہیں اس اخلاقی تباہ کاری کو فروغ صرف اس لیے حاصل ہوا ہے کہ ہماری انتظامیہ کے وہ حکام جنہیں اس تخریب کاری کو روکنا تھا وہ اسے پھیلانے میں شریک ہیں دشمن انہیں اجرت دے رہا ہے جب کسی قوم کے سربراہ اور امراء دشمن کے ہاتھوں میں کھیلنے لگتے ہیں تو اس قوم کا یہی حشر ہوتا ہے ہماری فوج سوڈان کے ظالم صحرا میں بکھری ہوئی لڑ رہی ہے کٹ رہی ہے سپاہی بھوکے اور پیاسے مر رہے ہیں اور ہمارے حاکم ان کی کمک رسد اور ہتھیار روکے بیٹھے ہیں کیا یہ دشمن کی سازشیں نہیں جسے ہمارے اپنے بھائی کامیاب کررہے ہیں؟ 
اس سے دشمن ایک فائدہ اٹھا رہا ہے کہ تقی الدین اور اس کے وہ عسکری جو جذبہ جہاد سے لڑ رہے ہیں وہ مر رہے ہیں اور نوبت ہتھیار ڈالنے تک آگئی ہے اور دوسرا فائدہ یہ کہ ہماری قوم کو بتایا جائے گا کہ یہ دیکھو تمہاری فوج شکست کھا گئی ہے کیونکہ یہ اسی قابل تھی ہمارے بعض بھائی مصر کی امارت پر قابض ہونے کے خواب دیکھ رہے ہیں وہ سب سے پہلے فوج کو قوم کی نظروں میں رسوا اور ذلیل کرنا چاہتے ہیں تاکہ وہ من مانی کرسکیں مجھے امارت کے ساتھ چپکے رہنے کی کوئی خواہش نہیں اگر میرے مخالفین میں سے کوئی مجھے یہ یقین دلا دے کہ وہ میرے عزم کو پایۂ تکمیل تک پہنچائے گا تو میں اس کی فوج میں سپاہی بن کر رہوں گا مگر ایسا کون ہے؟ 
یہ لوگ اپنی باقی زندگی بادشاہ بن کر گزارنا چاہتے ہیں خواہ دشمن کے ساتھ سازباز کرکے بادشاہی ملے اور میں اپنی زندگی میں قوم کو اس مقام پر لانا چاہتا ہوں جہاں وہ اپنے دین کے دشمنوں کے سر پر پاؤں رکھ کر بادشاہی کرے ہمارے ان لالچی اور غدار حاکموں کی نظر اپنے حال پر اپنے آج پر ہے۔ میری نظر قوم کے مستقبل پر ہے
اس نے بولتے بولتے توقف کیا اور کہا میرا گھوڑا فوراً تیار کرو اس نے ان افراد کے نام لیے جنہیں اس کے ساتھ جانا تھا۔ اس نے کہا نہایت خاموشی سے ان سب کو بلاؤ اور انہیں قاہرہ چلنے کے لیے کہو میرا خیمہ یہیں لگا رہنے دو تاکہ کسی کو شک نہ ہو کہ میں یہاں نہیں ہوں اس نے گہرا سانس لیا اور کہا میں آپ کو سختی سے ذہن نشین کراتا ہوں کہ جو فوج بغاوت کے لیے تیار ہے میں اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کروں گا تم میں سے کوئی بھی اس فوج کے خلاف کدورت نہ رکھے اسی طرح اپنے نوجوانوں کو بھی قابل نفرت نہ سمجھنا میں ان کے خلاف کارروائی کروں گا جو فوج اور قوم کو گمراہ اور ذلیل کرنے کے ذمہ دار ہیں یہی فوج جب اپنے دشمن کے سامنے آئے گی اور دشمن اس کا تیروں سے استقبال کرے گا تو فوج کو یاد آئے گا کہ وہ اللہ کی فوج ہے دماغ سے بغاوت کے کیڑے نکل جائیں گے آپ جب اپنے بچوں کو اپنے دین کا دشمن دکھائیں گے تو ان کا ذہن ازخود جوئے سے ہٹ کر جہاد کی طرف آجائے گا میں آپ کو صاف الفاظ میں بتا دیتا ہوں کہ اسلام اور سلطنت اسلامیہ کی بقاء اور وقار فوج کے بغیر ممکن نہیں میں صلیبیوں اور یہودیوں کے عزائم اور ان کے طرز جنگ اور ان کی زمین دوز کارروائیوں کو دیکھ کر کہہ سکتا ہوں کہ وہ اسلام کی فوج کو کمزور کرکے اسلام کا خاتمہ کریں گے جس روز اور جس دور میں کسی بھی مسلمان ملک کی فوج کمزور ہوگئی وہ ملک اپنی آزادی اور اپنا وقار کھو بیٹھے گا کسی بھی دور میں کوئی مسلمان مملکت مضبوط اور باوقار فوج کے بغیر زندہ نہیں رہ سکے گی ہمارا آج کا غلط اقدام اسلام کے مستقبل کو تاریک کردے گا میں نہیں کہہ سکتا کہ آنے والی نسلیں ہماری لغزشوں ناکامیوں اور کامیابیوں سے فائدہ اٹھائیں گی یا نہیں
امیر مصر! ایک مشیر نے کہا اگر ہمارے بھائی غداری کے فن میں ہی مہارت حاصل کرتے رہے تو آنے والی نسلیں غلام ہوں گی انہیں معلوم ہی نہیں ہوگا کہ آزادی کسے کہتے ہیں اور قومی وقار کیا ہے کیا ہمارے پاس اس کا کوئی علاج ہے؟
قوم کا ذہن بیدار کرو سلطان ایوبی نے کہا قوم کو رعایا نہ کہو، قوم کا ہر فرد اپنی جگہ بادشاہ ہوتا ہے کسی بھی فرد کو قومی وقار سے محروم نہ کرو ہمارے امراء اور حاکموں میں چونکہ بادشاہ اور خلیفہ بننے کا جنون سوار ہے اس لیے وہ قوم کو رعایا بنا کر اسے اپنے اقتدار کے استحکام کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں یاد رکھو، قوم جسموں کا مجموعہ نہیں جسے تم مویشیوں کی طرح ہانکتے پھرو قوم میں دماغ بھی ہے روح بھی ہے اور قومی وقار بھی ہے قوم کی ان خوبیوں کو ابھارو تاکہ قوم خود سوچے کہ اچھا کیا اور برا کیا ہے اچھا کون اور برا کون ہے اگر قوم محسوس کرے کہ صلاح الدین ایوبی سے بہتر امیر موجود ہے جو سلطنت اسلامیہ کے تحفظ کے ساتھ اسے سمندروں سے پار بھی وسعت دے سکتا ہے تو قوم کا کوئی بھی فرد مجھے راستے میں روک لے اور جرأت سے کہے کہ صلاح الدین ایوبی! تم یہ مسند خالی کردو ہم نے تم سے بہتر آدمی ڈھونڈ لیا ہے قوم میں یہ سوچ بھی اور جرأت بھی اور مجھ میں فرعونیت نہ ہو کہ اپنے خلاف بات کرنے والے کی گردن مار دوں مجھے یہی خطرہ نظر آرہا ہے کہ ملت اسلامیہ ایسے ہی فرعونوں کی نذر ہوجائے گی قوم کو رعایا اور مویشی بنادیا جائے گا پھر مسلمان مسلمان نہیں رہیں گے یا برائے نام مسلمان ہوں گے مذہب تو شاید ان کا یہی رہے گا مگر تہذیب وتمدن صلیبیوں کا ہوگا
اتنے میں ایک محافظ نے اندر آکر بتایا کہ گھوڑا تیار ہے اور جن تین چار نائب سالاروں کو بلایا گیا تھا، وہ بھی آگئے ہیں سلطان ایوبی نے اپنے ساتھ چار محافظ لیے باقی محافظ دستے سے کہا کہ وہ اس کے خالی خیمے پر پہرہ دیتے رہیں اور کسی کو پتہ نہ چلنے دیں کہ وہ یہاں نہیں ہے اس نے اپنے ساتھ جانے والے عملے سے کہا کہ وہ خاموشی سے فلاں جگہ پہنچ جائیں وہ ان سے آ ملے گا اس نے اپنا قائم مقام مقرر کیا اور باہر نکل گیا۔
صحرا تاریک تھا چودہ گھوڑے سرپٹ دوڑے جارہے تھے صلاح الدین ایوبی تاریکی چھٹنے سے پہلے قاہرہ پہنچ جانا چاہتا تھا علی بن سفیان کو اس نے اپنے ساتھ رکھا تھا۔ اس کی فوج پڑاؤ میں گہری نیند سوگئی تھی جاگنے والے سنتریوں کو بھی علم نہیں ہوسکتا تھا کہ ان کا سالار اعلیٰ نکل گیا ہے قاہرہ والوں کے تو وہم وگمان میں بھی نہیں آسکتا تھا کہ سلطان ایوبی مصر میں داخل ہوچکا ہے رات کا پچھلا پہر تھا، جب سلطان ایوبی کا قافلہ قاہرہ میں داخل ہوا اسے کسی سنتری نے نہ روکا وہاں کوئی سنتری تھا ہی نہیں سلطان ایوبی نے اپنے ساتھیوں سے کہا یہ ہے بغاوت کی ابتدا شہر میں کوئی سنتری نہیں فوج سوئی ہوئی ہے بے پروا بے نیاز، حالانکہ ہم دو محاذوں پر لڑ رہے ہیں اور دشمن کے حملے کا خطرہ ہر لمحہ موجود ہے
اپنے ٹھکانے پر پہنچتے ہی ایک لمحہ آرام کیے بغیر اس نے مصر کے قائم مقام سالار اعلیٰ کو بلا لیا الادریس کو بھی بلا لیا جس کے دونوں جوان بیٹوں کو غداروں نے دھوکے میں ایک دوسرے کے ہاتھوں قتل کرادیا تھا قائم مقام سالار اعلیٰ سلطان ایوبی کو دیکھ کر گھبرا گیا سلطان ایوبی نے الادریس سے افسوس کا اظہار کیا الادریس نے کہا میرے بیٹے میدان جنگ میں جانیں دیتے تو مجھے خوشی ہوتی وہ دھوکے میں مارے گئے ہیں اس نے کہا یہ وقت میرے بیٹوں کے ماتم کرنے کا نہیں آپ نے مجھے کسی اور مقصد کے لیے بلایا تھا حکم فرمائیں
قائم مقام سالار اعلیٰ محب اسلام تھا ان دونوں سے سلطان ایوبی نے قاہرہ کے اندرونی حالات کے متعلق تفصیلی رپورٹ لی اور پوچھا کہ ان کی نظر میں کون کون سے حاکم مشتبہ ہیں وہ فوجی حکام کے متعلق خاص طور پر پوچھ رہا تھا اسے چند ایک نام بتائے گئے اس نے احکام دینے شروع کردیئے جن میں اہم یہ تھے کہ مشتبہ حکام کو قاہرہ میں مرکزی کمان میں رہنے دیا جائے اور تمام فوج کو سورج نکلنے سے پہلے کوچ کی تیاری میں جمع کرلیا جائے اور بھی بہت سی ہدایات دے کر سلطان ایوبی نے ایک پلان تیار کرنا شروع کردیا کچھ ہدایات علی بن سفیان کو دے کر اسے فارغ کردیا کچھ دیر بعد فوج کے کیمپ میں ہڑبونگ مچ گئی فوج کو قبل از وقت جگا لیا گیا تھا فوج اور انتظامیہ کے مشتبہ حکام کو صلاح الدین ایوبی کے ہیڈکوارٹر میں بلا لیا گیا تھا وہ حیران تھے کہ یہ کیا ہوگیا ہے انہیں اتنا ہی پتہ چلا تھا کہ سلطان ایوبی آگیا ہے انہوں نے اس کا گھوڑا بھی دیکھ لیا تھا لیکن انہیں سلطان ایوبی نظر نہیں آرہا تھا اور سلطان ایوبی انہیں ابھی ملنا بھی نہیں چاہتا تھا اس نے انہیں کوچ تک فوج سے الگ رکھنے کا بندوبست کردیا تھا یہی اس کا مقصد تھا
ابھی صبح کی روشنی صاف نہیں ہوئی تھی فوج ترتیب سے کھڑی کردی گئی پیادوں اور سواروں کی صفوں کے پیچھے رسد اور دیگر سامان سے لدے ہوئے اونٹ تھے سلطان ایوبی نے فوج کو یہ ٹریننگ خاص طور پر دی تھی کہ جب بھی فوج کو کوچ کا حکم ملے تو فوج ایک گھنٹے کے اندر اندر مع رسد اور دیگر سامان کے قافلے کے ساتھ تیار ہوجائے اسی ٹریننگ اور مشق کا کرشمہ تھا کہ فوج طلوع صبح کے ساتھ ہی کوچ کے لیے تیار ہوگئی تھی سلطان ایوبی اپنے گھوڑے پر سوار ہوگیا اس کے ساتھ مصر کا قائم مقام سالار اعلیٰ بھی تھا سلطان ایوبی نے فوج کو ایک نظر دیکھا اور ایک صف کے سامنے سے گزرنے لگا اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور اس کے منہ سے بار بار یہ الفاظ نکلتے تھے آفرین صد آفرین اسلام کے پاسبانو تم پر اللہ کی رحمت ہو صلاح الدین ایوبی کی شخصیت کا اپنا ایک اثر تھا جسے ہر ایک سپاہی محسوس کررہا تھا اس کے ساتھ اس کی مسکراہٹ اور داد و تحسین کے کلمے سپاہیوں پر اس اثر کو اور زیادہ گہرا کررہے تھے امیر اور سالار اعلیٰ کا سپاہیوں کے اتنا قریب جانا ہی کافی تھا
تمام فوج کا معائنہ کرکے سلطان صلاح الدین ایوبی نے مکمل طور پر بلند آواز سے فوج سے خطاب کیا اس وقت کی تحریروں میں اس کے جو الفاظ محفوظ ملتے ہیں وہ کچھ اس طرح تھے اللہ کے نام پر کٹ مرنے والے مجاہدو! اسلام کی ناموس تمہاری تلواروں کو پکار رہی ہے تم نے شوبک کا مضبوط قلعہ جو کفر کا سب سے زیادہ مضبوط مورچہ تھا، ریت کا ٹیلہ سمجھ کر توڑ ڈالا تھا تم نے صلیبیوں کو صحراؤں میں بکھیر کر مارا اور جنت الفردوس میں جگہ بنا لی ہے۔ تمہارے ساتھ، تمہارے عزیز دوست تمہارے سامنے شہید ہوئے تم نے انہیں اپنے ہاتھوں سے دفن کیا ان چھاپہ مار شہیدوں کو یاد کرو جو دشمن کی صفوں کے پیچھے جاکر شہید ہوئے تم ان کا جنازہ نہ پڑھ سکے ان کی لاشیں بھی نہ دیکھ سکے تم تصور کرسکتے ہو کہ دشمن نے ان کی لاشوں کے ساتھ کیا سلوک کیا ہوگا شہیدوں کے یتیم بچوں کو یاد کرو ان کی بیویوں کو یاد کرو جن کے سہاگ خدا کے نام پر قربان ہوگئے ہیں آج شہیدوں کی روحیں تمہیں للکار رہی ہیں تمہاری غیرت کو اور تمہاری مردانگی کو پکار رہی ہیں دشمن نے کرک کے قلعے کو اتنا مضبوط کرلیا ہے کہ تمہارے کئی ساتھی دیواروں سے پھینکی ہوئی آگ میں جل گئے ہیں تم اگر وہ منظر دیکھتے تو سر کی ٹکروں سے قلعے کی دیواریں توڑ دیتے وہ آگ میں جلتے رہے اور دیوار میں شگاف ڈالنے کی کوشش کرتے رہے موت نے انہیں مہلت نہ دی
عظمت اسلام کے پاسبانو! کرک کے اندر تمہاری بیٹیوں اور تمہاری بہنوں کی عصمت دری ہورہی ہے بوڑھوں سے مویشیوں کی طرح مشقت لی جا رہی ہے جوانوں کو قید میں ڈال دیا گیا ہے ماؤں کو بچوں سے الگ کردیا گیا ہے مگر میں کہ جس نے پتھروں کے قلعے توڑے ہیں مٹی کا قلعہ سر نہیں کرسکا میری طاقت تم ہو میری ناکامی تمہاری ناکامی ہے اس کی آواز اور زیادہ بلند ہوگئی۔ اس نے بازو اوپر کرکے کہا میرا سینہ تیروں سے چھلنی کردو، میں ناکام لوٹا ہوں مگر میری جان لینے سے پہلے میرے کان میں یہ خوشخبری ضرور ڈالنا کہ تم نے کرک لے لیا ہے اور اپنی عصمت بریدہ بیٹیوں کو سینے سے لگا لیا ہے
اس وقت کا ایک وقائع نگار الاسدی لکھتا ہے کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے گھوڑے اپنے سواروں کی جذباتی کیفیت کو سمجھتے تھے سوار خاموش تھے لیکن کئی گھوڑے بڑی زور سے ہنہنائے تڑاخ تڑاخ کی آوازیں سنائی دیں سوار باگوں کو زور زور سے جھٹک کر اپنی بیتابی اور جذبہ انتقام کی شدت کا اظہار کررہے تھے ان کی زبانیں خاموش تھیں۔ ان کے چہرے لال سرخ ہوکر ان کے جذبات کی ترجمانی کررہے تھے سلطان ایوبی کے الفاظ تیروں کی طرح ان کے دلوں میں اترتے جارہے تھے بغاوت کی چنگاریاں بجھ چکی تھیں سلطان ایوبی کامقصد پورا ہورہا تھا
سلطنت اسلامیہ کی عصمت کے محافظو! تم کفار کے لیے دہشت بن گئے ہو تمہاری تلواروں کو کند کرنے کے لیے آج صلیبی اپنی بیٹیوں کی عصمت اور حشیش استعمال کررہے ہیں تم نہیں سمجھتے کہ صلیبی اپنی ایک بیٹی کی عصمت لٹا کر ایک ہزار مجاہدین کو بے کار کردیتے ہیں اور اپنے علاقوں میں اپنی ایک بیٹی کے بدلے ہماری ایک ہزار بیٹیوں کو بے آبرو کرتے ہیں تمہارے درمیان ایک فاحشہ عورت بھیج کر ہماری سینکڑوں بیٹیوں کو فاحشہ بنا لیتے ہیں جاؤ اور اپنی بیٹیوں کی عصمتوں کو بچاؤ تم کرک جارہے ہو جس کی دیواروں کے گھیرے میں قرآن کے ورق بکھرے ہوئے ہیں اور جہاں کی مسجدیں صلیبیوں کے لیے بیت الخلا بن گئی ہیں وہ صلیبی جو تمہارے نام سے ڈرتے ہیں، آج تم پر قہقہے لگا رہے ہیں شوبک تم نے لیا تھا اور کرک بھی تم ہی لو گے
سلطان ایوبی نے فوج پر یہ الزام عائد نہیں کیا کہ وہ گمراہ ہوگئی ہے اور بغاوت پر آمادہ ہے اس نے کسی کے خلاف شک و شبہے کا اشارہ بھی نہیں کیا اس کے بجائے فوج کے جذبے اور غیرت کو ایسا للکارا کہ فوج جو حیران تھی کہ اسے اتنی سویرے کیوں جگایا گیا ہے اب اس پر حیران تھی کہ اسے کرک کی طرف کوچ کا حکم کیوں نہیں دیا جاتا تمام تر فوج مشتعل ہوگئی تھی سلطان ایوبی نے اعلیٰ اور ادنیٰ کمانڈروں کو بلایا اور انہیں کوچ کے متعلق ہدایات دیں کوچ کے لیے کوئی اور راستہ بتایا۔ راستہ اس راستے سے بہت دور تھا جس پر محاذ کی فوج آرہی تھی۔ کوچ کرنے والی فوج کے ساتھ سلطان ایوبی نے اپنے وہ کمانڈر بھیج دیئے جنہیں وہ اپنے ساتھ لایا تھا انہوں نے خفیہ طور پر ہدایات دے دی تھیں۔ فوج کو جب کوچ کا حکم ملا تو سپاہیوں کے نعرے قاہرہ کے در و دیوار کو ہلانے لگے سلطان ایوبی کا چہرہ جذبات کی شدت سے دمک رہا تھا
جب فوج اس کی نظروں سے اوجھل ہوگئی تو اس نے ایک قاصد کو پیغام دے کر اس پڑاؤ کی طرف روانہ کردیا جہاں محاذ سے آنے والی فوج رکی ہوئی تھی قاصد کو بہت تیز جانے کو کہا گیا پیغام یہ تھا کہ پیغام ملتے ہی فوج کو قاہرہ کے لیے کوچ کرا دیا جائے فاصلہ آٹھ دس میل تھا قاصد جلدی پہنچ گیا اسی وقت کوچ کا حکم مل گیا غروب آفتاب کے بعد فوج کے ہر اول دستے قاہرہ میں داخل ہوگئے...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget