🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ*
✍🏻تحریر: *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【⓿➋】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہمارا سردار بنیامین کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتا ۔۔۔سیموئیل نے پیغام پھاڑ کر پھینکتے ہوئے کہا۔۔۔ لعنت خدا کی ان پر جنہوں نے یہ پیغام بھیجا ہے لعنت رومی سلطنت پر جس نے ہم پر جھوٹا مذہب ٹھونسا ہے۔
پیغام لے جانے والے فوجی افسر کو قیرس کے تمام حکم دیے گئے تھے، سیموئیل نے پیغام پھاڑ کر توہین آمیز الفاظ کہے تو فوجی افسر نے اسے گرفتار کر لیا اس کے بازو پیٹھ پیچھے باندھ دیے گئے فوجی افسر گھوڑے پر سوار تھے سیموئیل پیدل جا رہا تھا۔ اسے پوری طرح ذلیل و رسوا کرنا مقصود تھا ۔لوگ اسے دیکھنے کے لئے اکٹھا ہو گئے۔
اے لوگوں!،،، سیموئیل نے بڑی ہی بلند اور جاندار آواز میں کہا۔۔۔ میں آج بہت خوش ہوں آج حضرت عیسی علیہ السلام کی ناموس اور صداقت پر میرا خون بہے گا۔
اے لوگو!،،،، اپنے مذہب کی سچائی کو مانو۔ کسی بادشاہ سے نہ ڈرو، اس نے قیرس کو گالیاں دینی شروع کر دی۔
فوجی اسے مارتے پیٹتے ہوئے قیرس کے پاس اس حالت میں لے گئے کہ اس کے سر اور چند اور جگہوں سے خون بہہ رہا تھا۔
قیرس نے فوجیوں کو حکم دیا کہ اس کی اور پٹائی کی جائے، تاریخ شاہد ہے کہ اسے اس قدر پیٹا گیا کہ اس کے کپڑے خون سے لال ہو گئے۔
او بدبخت پادری ۔۔۔۔قیرس نے سیموئیل سے کہا ۔۔۔تجھے کلیسا کا سربراہ کس نے بنایا ہے اور تجھے یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ تیرے ماتحت پادری اور پیروکار میرے خلاف میرے مذہب کے خلاف تبلیغ کرتے پھریں۔
او بے مذہب دجال!،،،، سیموئیل نے گرجتی آواز میں کہا ،،،،،نیکی خدا کی عبادت ،اور بنیامین کی اطاعت اور پیروی میں ہے۔
تو ابلیس کی اولاد ہے تیری اور تیرے مذہب کی اطاعت گناہ ہے۔
قیرس نے حکم دیا کہ اس کے منہ پر اتنے مکے مارے جائیں کہ اسکا منہ سوج جائے،،، حکم کی تعمیل ہوئی۔
اب جواب دے،،،، قیرس نے پوچھا ،،،تو مصر کے حاکم اور مذہبی پیشوا کا حکم کیوں نہیں مانتا کیا تو نہیں جانتا کہ تیری زندگی اور موت میرے ہاتھ میں ہے۔
کیا تو ابلیس کو نہیں جانتا ائے قیرس !،،،،،سیموئیل نے شدید غصے کی حالت شدید زخمی حالت میں بھی بلند آواز میں کہا ،،،،ابلیس ملائکہ کا سردار تھا لیکن غرور اور تکبر نے اسے خدا کا حکم ماننے سے روک دیا خدا نے اسے لعنتی قرار دے دیا۔ ائے قیرس تو ابلیس سے بڑھ کر لعنتی ہے۔
قیرس نے حکم دیا کے اسے باہر لے جا کر اس کا سر اڑا دو، اس کے حکم کی تعمیل ہونے ہی والی تھی کہ ایک حاکم اعلی جس کا تاریخ میں نام نہیں لکھا گیا ادھر آ نکلا اس نے سموئیل کی جان بخشی کردی اور اسے ملک بدر کردیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
قیرس کے ظلم و تشدد اور قتل و غارت گری کی یہ دو ہی مثالیں کافی ہیں ۔
عمرو بن عاص کا پلان یہ تھا کہ مصر کے عیسائیوں کو ہرقل کے خلاف بغاوت پر اکسایا جائے لیکن وہاں صورتحال یہ تھی کہ مصر کے لوگوں کے دلوں میں ہرقل کی نفرت پیدا ہو چکی تھی جو روز بروز بڑھتی جارہی تھی ۔اور یہ آتش فشاں کسی بھی وقت پھٹ سکتا تھا ۔ عمرو بن عاص یوں زمین ہموار کر لینا چاہتے تھے کہ وہ مصر پر حملہ کریں تو عیسائی ان کا ساتھ دیں ورنہ اتنا ہی کریں کہ ہرقل کے لیے جنگی طاقت نہ بنیں۔
ادھر ماہی گیروں اور ملاحوں کی بستی کا سردار بابا رات کو قربانی والی جگہ کی طرف کشتی میں روانہ ہوا دریائی راستہ چھوٹا تھا دریا کا رخ ادھر ہی تھا جدھر سے سردار کی کشتی جا رہی تھی آدھا فاصلہ طے ہو گیا تو آگے سے ایک الٹی ہوئی کشتی تیرتی آ رہی تھی ، اس کے بادبان ساتھ ساتھ تیر رہے تھے یہ کشتی سردار کی کشتی کے قریب سے گزری اندھیرے میں اتنا ہی پتہ چل سکتا تھا کہ یہ کشتی ہے یہ دیکھنا ممکن نہیں تھا کہ یہ کشتی کس کی ہے، انھیں بتانے والا کوئی نہ تھا کہ ان کے اپنے آدمیوں کی کشتی ہے۔ اور ان کی قربانی ایک بار پھر غائب ہو گئی ہے۔
قربانی والی جگہ پہنچے تو ایک پادری اور چند ایک سرکردہ افراد پہلے ہی پہنچے ہوئے تھے۔ انہوں نے ماہی گیروں اور کشتی رانوں کے بابا سے پوچھا لڑکی کہاں ہے؟
اس نے حیران ساہو کے بتایا کہ اسے پانچ آدمیوں کے ساتھ پہلے ہی بھیج دیا گیا تھا۔
وہاں تو ماتم جیسی کیفیت پیدا ہو گئی بابا نے کہا کہ انہوں نے ایک بادبانی کشتی الٹی بہتی دیکھی ہے لیکن دونوں کشتی ران پرانے تجربے کار تھے کشتی کسی وجہ سے الٹی ہو گئی تھی تو وہ تیر کر نکل آتے لڑکی بھی تیراک تھی۔
کشتی میں تین آدمی اجنبی تھے بابا نے بتایا وہ نہ ہوتے تو لڑکی کو قربانی کیلئے تیار کرنا ناممکن ہو جاتا۔
نیل کو اس لڑکی کی قربانی قبول نہیں۔۔۔ پادری نے کہا۔۔۔ نیل کے عتاب سے بچنا ہے تو اسی لڑکی کی قربانی دینی پڑے گی جسے پہلے منتخب کیا گیا تھا۔
ہورشیش کی بیٹی،،،، اسے ابھی لا کر دریا میں پھینک دیا جائے۔
پچھلے باب میں بیان ہو چکا ہے کہ اپنی بیٹی کو قربانی سے بچانے کے لئے ہورشیش نام کا ایک آدمی انطاکیہ سے روزی کو دھوکے سے مصر لے گیا اور اسقف کے آگے یہ جھوٹ بولا تھا کہ اس کے باپ نے اپنی بیٹی کو نیل کی قربانی کے لئے بھیجا ھے۔
پادری نے کہا کہ ہورشیش کو ابھی جگا کر کہا جائے کہ اپنی بیٹی ساتھ لے کر آ جائے ۔
ہورشیش بیٹی کو لے کر آ گیا اس نے پادری کو بتایا کہ اس نے اپنی بیٹی کے سارے زیورات اس لڑکی کو پہنا دیئے تھے جو لاپتہ ہو گئی تھی اور اب اپنی بیٹی کو پہنانے کے لئے زیورات کی کوئی ایک بھی چیز نہیں، اس نے یہ بات اس امید پر کہی تھی کہ اس کی بیٹی بچ جائے گی، لیکن پادری نے کہا کہ زیورات اتنے اہم نہیں قربانی ایک جسم کی دی جاتی ہے اور جسم ایک کنواری لڑکی کا ہونا لازمی ہے۔
پادری کا حکم ٹالا نہیں جا سکتا تھا اسی لڑکی کو گھر سے لا کر دریا میں پھینک دیا گیا۔ جسے بچانے کے لئے لڑکی کا باپ روزی کو دھوکہ دے کر لایا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت روزی نیل سے بہت دور نکل گئی تھی ۔اویس اور اس کے ساتھی کوئی ایسے مسافر تو نہیں تھے جن کے پاس نہ پیسہ ہو نہ کوئی اور وسیلہ، وہ جاسوس تھے ان کے پاس رقم بھی تھی عقل بھی تھی انہوں نے کرائے کے اونٹ لے لیے اور قوص جا پہنچے۔
قوص ان عیسائیوں کا مرکز تھا جو ہرقل اور قیرس کی عیسائیت کے خلاف برسر پیکار تھے۔ یہاں بھی ان تینوں نے اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کیا انہوں نے روزی کو اس طرح چادر میں لپٹا ہوا تھا کہ اس کا چہرہ تھوڑا سا ہی دکھائی دیتا تھا۔
اونٹوں نے انہیں جلد ہی قوص پہنچا دیا تھا شام گہری ہو گئی تھی انہیں رات وہیں گزارنی تھی ۔وہاں سرائے موجود تھی وہ سرائے میں چلے گئے کھانے کے بعد باتیں کرنے بیٹھ گئے۔
اب بتاؤ روزی!،،،، ایک مجاہد جاسوس نے اس سے پوچھا ہمارے متعلق تمہارے دل میں کوئی شک تو نہیں؟
نہیں !،،،،روزی نے کہا۔
اسے کوئی شک ہونا بھی نہیں چاہیے وہ گزشتہ رات سے ان کے ساتھ تھی اگر یہ تینوں بدنیت ہوتے تو اب تک عملا بدنیتی کا ارتکاب کر چکے ہوتے زیادہ خطرہ اویس کی طرف سے تھا ۔روزی نے اسے یوکلس کے مقابلے میں دھتکار دیا تھا ،اویس سوچ سکتا تھا کہ انتقام لینا اس کا حق ہے لیکن اس نے روزی کے ساتھ سلوک برتاؤ اور انداز ایسا رکھا جیسے روزی نوخیز اور حسین لڑکی نہیں بلکہ اس کا کوئی مجاہد رفیق ہو۔
اویس!،،،، روزی نے کہا ۔۔۔۔تم نے کہا تھا کہ تمہیں مسلمانوں نے نئی زندگی دی اور تم نے دیکھا کہ مسلمانوں نے تمہیں احسان نہیں جتایا بلکہ اسلام کا حکم ہی یہی ہے تو تم نے اسلام قبول کر لیا ۔اب تم نے اور تمہارے ان ساتھیوں نے مجھے نئی زندگی دی ہے، مجھے پتہ چل گیا تھا کہ اب میرے ہاتھ باندھ کر دریا میں پھینک دیں گے ،تم نہ آجاتے تو اس وقت میری لاش کو دریائئ مخلوق نوچ رہی ہوتیں۔
اللہ کا حکم تھا تم زندہ رہو گی۔۔۔۔ اویس نے کہا۔۔۔ اللہ نے اس کا سبب یہ بنایا کہ مجھے وہاں بھیج دیا جہاں تمہاری زندگی اور موت کا فیصلہ ہو رہا تھا ہم تینوں وہاں اللہ کے بھیجے ہوئے پہنچے تھے تمہیں میں نے نہیں اسلام نے نئی زندگی دی ہے۔
پھر مجھے اسلام میں داخل کر لو اویس!،،،، روزی نے کہا ۔۔۔اور اس کے آنسو بہہ نکلے پھر بولی مجھے ذرا سی بھی توقع نہیں تھی کہ تم مجھے بخش دو گے میں تم سے اور تمہارے ان ساتھیوں سے اتنی متاثر ہوئی ہوں کہ باقی عمر تمہارے ساتھ گزارنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔
ابھی نہیں روزی!،،،، اویس کی پارٹی کے سردار نے کہا ۔۔۔تم اپنے ماں باپ کے پاس پہنچو گی تو ہوسکتا ہے تمہارے خیالات بدل جائیں، یہاں تم خوف و ہراس کی کیفیت میں ہو اور تم کمسن بھی ہو ہم تمہیں تمہارے ماں باپ کے پاس پہنچا دیں گے وہاں آزادی سے فیصلہ کرنا۔
روزی فیصلہ کرچکی تھی۔ تینوں مجاہدین نے اسے کہا کہ اسلام میں داخل ہونے کا فیصلہ آزادی سے کیا جاتا ہے لیکن وہ رو پڑی کہتی تھی ماں باپ کے پاس جائے گی ہی نہیں۔ اویس نے اسے بتایا تھا کہ وہ تجارت کے سلسلے میں مصر آئے ہیں ، روزی کی ضد یہ تھی کہ وہ ان کے ساتھ واپس جائے گی۔
اسے بتایا نہیں جاسکتا تھا کہ ان تینوں کا مشن کچھ اور ہے اور وہ اسے اپنے ساتھ نہیں رکھ سکتے۔
لیکن روزی کی ضد اور آہ وزاری نے انہیں پریشان کر دیا اس نے آخر یہ کہہ دیا کہ وہ اب مسلمان ہے عیسائی نہیں۔
مجاہدین کے لئے روزی نے ایسا مسئلہ کھڑا کردیا کہ ان کے لئے کوئی راہ فرار نہ رہی روزی اعتماد اور جرات کے ساتھ بات کرنے والی لڑکی تھی وہ کسی پہلو ڈرپوک لڑکی نہیں تھی۔
جماعت کے امیر نے ساتھیوں سے صلاح مشورہ کر کے روزی کو اپنے ہاتھ پر مسلمان کر لیا اور اس کا نام رابعہ رکھ دیا اسے معلوم تھا کہ غیر مسلم کو کس طرح اسلام میں داخل کیا جاتا ہے۔
اب مسئلہ یہ تھا کہ رابعہ کو اپنی اصلیت اور مشن سے آگاہ کیا جائے یا نہیں۔
اسلام کے احکام ایسے تھے کہ وہ ایک دوشیزہ کو اس کے حال پر نہیں چھوڑ سکتے تھے ۔اب تو یہ لڑکی مسلمان ہو گئی تھیں بہت ہی غوروفکر کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ رابعہ کو اپنے راز میں شریک کرلیا جائے۔
تینوں نے رابعہ کو پاس بٹھا کر بتایا کہ وہ مصر میں کیا کرنے آئے ہیں۔ اور وہ قبطی پادری بنیامین سے ملنے جا رہے ہیں اس پر یہ ظاہر نہیں ہونے دیا جائے گا کہ وہ مسلمان ہیں۔ بلکہ یہ بتایا جائے گا کہ ہم قبطی عیسائی ہیں اور شام کے عیسائی سرداروں کا پیغام لائے ہیں۔
میں ہر طرح سے تمہارے ساتھ ہوں۔۔۔ رابعہ نے کہا ۔۔۔جان بھی دے دوں گی لیکن اس طرح نہیں کہ مجھے نیل میں ڈوبو دیا جائے یہ بھی سوچ لو کہ جس کے پاس جا رہے ہو وہ قبطی ہے اس کے پاس اور لوگ بھی آتے ہونگے کسی نے مجھے پہچان لیا تو پھر میں ان سے بچ نہیں سکوں گی۔
یہ بھی ایک مسئلہ تھا مگر ان کے پاس ہر مسئلے کا حل موجود نہیں تھا انھوں نے یہ مسئلہ اللہ پر چھوڑ دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بنیامین روپوشی کی حالت میں تھا اس لئے اس کا ٹھکانہ معلوم کرنا آسان کام نہیں تھا ۔یہ تینوں جاسوس تھے انہوں نے کسی طریقے سے اپنی اس منزل کا سراغ لگا لیا تھا۔ وہ جگہ دور نہیں تھی لیکن علاقہ دشوار گزار تھا۔ ریتیلے ٹیلے اور گھاٹیاں تھیں ،کہیں زمین نیچے اور کہیں اوپر چلی جاتی تھی۔
وہ دن کے پچھلے پہر وہاں پہنچ گئے وہ چھوٹا سا نخلستان تھا جیسے جلتے جھلساتے ہوئے جہنم میں چھوٹی سی جنت ہو ۔
ایک گرجا تھا اس کے اردگرد چھوٹے بڑے خیمے لگے ہوئے تھے گرجا پتھروں اور گارے کا بنایا گیا تھا۔ بنیامین گرجے کے ایک کمرے میں رہتا تھا اسے اطلاع دی گئی کہ تین آدمی اور ایک لڑکی آئیں ہیں ۔ بنیامین نے انہیں اسی وقت بلا لیا۔
تین مجاہدین کی اس جماعت کے امیر نے اپنا تعارف کرایا کہ وہ حلب کے رہنے والے عیسائی ہیں، اور قبطی فرقے سے تعلق رکھتے ہیں، رابعہ کا تعارف اس طرح کرایا کہ یہ اویس کی بیوی ہے ابھی ابھی ان کی شادی ہوئی ہے ،اور رابعہ مصر دیکھنے اور بنیامین سے ملنے کو بے تاب تھی،،،،،انہوں نے اپنے نام عیسائیوں والے بتائے ۔ ہر ایک نے اپنے گلے سے چھوٹی سی صلیب لٹکا رکھی تھی۔
کیا آپ مجھے صرف ملنے آئے ہیں؟۔۔۔ بنیامین پوچھا ۔۔۔یا کوئی اور بات ہے آپ کے ملک شام میں عیسائی کس حال میں ہیں؟
ہم شام سے صرف آپ سے ملنے آئے ہیں۔۔۔ امیر جماعت نے کہا۔۔۔۔ اور ایک خاص بات بھی ہے ۔۔۔شام میں رومیوں نے عیسائیوں کو بہت بڑا دھوکا دیا ہے ہم تیس ہزار کا لشکر بن کر ہرقل کے پاس گئے کہ رومیوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں پر حملہ کریں گے لیکن ہرقل اور اس کے بیٹے قسطنطین نے ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا ہمارے سرداروں نے فیصلہ کیا کہ ہم مسلمانوں سے دشمنی مول لے کر آئے ہیں مگر رومی ہمیں آگے کرکے خود بھاگ نکلنے کی فکر میں ہیں،،،،،
رومیوں کے کہنے اکسانے پر ہم نے مسلمان فاتحین کے خلاف بغاوت کر دی رومی پھر بھی ہماری مدد کو نہ آئے ہم مسلمانوں کا مقابلہ نہ کرسکے اور ہتھیار ڈال دیے مسلمان ہمارا قتل عام کرسکتے تھے ہماری بیٹیوں کو لونڈیاں بنا لیتے اور ہماری حیثیت غلاموں جیسی بنا دیتے تو انہیں کون روک سکتا تھا لیکن انہوں نے ایسی کوئی ظالمانہ حرکت نہیں کی ۔ انہوں نے اپنے آپ کو فاتح اور ہمیں مفتوح اور محکوم سمجھا ہی نہیں نہ ہمارے مذہب میں دخل اندازی کی ہے نہ کریں گے۔
میں مسلمانوں کے کردار سے واقف ہوں ۔۔۔بنیامین نے کہا۔۔۔ شام میں رومیوں کی شکست کی وجہ یہ ہے کہ یہ بد کار لوگ ہیں اور مصر میں انھوں نے اپنی ہی ایک عیسائیت رائج کردی ہے تمھیں یہ تو معلوم ہو گیا ہوگا کہ میں یہاں روپوش ہوں۔
میں شام کے عیسائیوں کے لئے کر ہی کیا سکتا ہوں۔
ہم آپ سے مدد لینے نہیں آئے ۔۔۔امیر جماعت نے کہا۔۔۔ ہم مصر کے عیسائیوں کی مدد کرنے آئے ہیں۔
وہ ہماری کیا مدد کرسکتے ہیں؟ ۔۔۔بنیامین نے پوچھا۔
ہمارے سرداروں اور پادریوں کو مصر کے حالات معلوم ہے۔۔۔ امیر جماعت نے کہا۔۔۔ مصر میں کچھ عیسائی خاندان بھاگ کر شام چلے گئے ہیں انہوں نے وہاں جا کر بتایا کہ مصر میں عیسائیوں پر کس طرح ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں ہمارے سرداروں کے لئے یہ تو ممکن ہی نہیں کہ وہ لشکر تیار کرکے مصر پر حملہ کر دیں، انہوں نے ایک مسلمان سپہ سالار عمرو بن عاص کے پاس ایک وفد بھیجا،،،،،
وفد میں دو معمر پادری بھی تھے۔ وفد نے اس مسلمان سپہ سالار کو مصر کے عیسائیوں کی مظلومیت اور کسمپرسی سے آگاہ کیا ،اور کہا کہ مسلمان عیسائیوں کی مدد کریں تو ملک شام کے عیسائی تیس سے چالیس ہزار تک کا لشکر دے دیں گے۔
امیر جماعت نے یہاں سے بات شروع کی اور بولتا ہی چلا گیا ۔بنیامین انہماک سے سنتا رہا یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اسے یہ بات اچھی لگ رہی ہو، امیر جماعت کا مدعا یہ تھا کہ مصر کے عیسائی بغاوت کردیں تو مسلمان مصر پر حملہ کر دیں گے، اگر بغاوت نہ کریں تو حملے کی صورت میں وہ مسلمانوں کی مدد کریں عمرو بن عاص نے اپنے تین مجاہدین کو جو مشن دیا اور جو ہدایت دی تھی امیر جماعت نے ان کے مطابق بات کی۔
میں ایک بات اور کہوں گا ۔۔۔امیر جماعت نے کہا ۔۔۔یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ عیسائی فرقوں میں بٹ گئے ہیں یہ صورتحال عیسائیت اور عیسائیوں کے اتحاد کے لئے بہت ہی خطرناک ہے ،عیسائیت کو نقصان پہنچا رہی ہے کےایک کنواری کو دریائے نیل میں پھینک دیا جاتا ہے یہ بدعت قبطی عیسائیوں میں پائی جاتی ہے۔
کیا آپ اس ظالمانہ رسم کو روک نہیں سکتے؟،،
میں اس رسم کو صحیح نہیں مانتا۔۔۔ بنیامین کہا ۔۔۔میں یعقوبی فرقے کا قبطی ہوں۔ یعقوبی اس رسم کو قتل جیسا گناہ سمجھتے ہیں لیکن میں ابھی اس بحث میں پڑنے سے گریز کر رہا ہوں لڑکی کی قربانی دینے والے قبطی بھی مجھے اپنا پیشوا مانتے ہیں اور ہرقل کے خلاف ہم نے جو محاذ بنایا ہے اس پر میری ہر ہدایت پر عمل کرتے ہیں۔
اگر میں نے یہ حکم جاری کردیا کہ لڑکی کی قربانی گناہ ہے تو کم فہم اور کٹر قبطی نہیں مانیں گے اور تفرقہ پیدا ہوجائے گا ۔
اس کا نتیجہ ہمارے محاذ کیلئے اچھا نہیں ہوگا،،،، ابھی تم وہ بات کرو جس کے لئے آئے ہو۔
وہ بات تو ہو چکی ہے۔۔۔ امیر جماعت نے کہا۔۔۔ ہمیں آپ کے جواب اور حکم کی ضرورت ہے جو ہم اپنے سرداروں تک پہنچائیں گے۔
اپنے سرداروں تک نہیں۔۔۔ بنیامین نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔ اپنے سالار عمرو بن عاص تک تم یہ پیغام پہنچاؤ گے تم نے اتنی زیادہ باتیں کی ہیں کہ تم نے اپنے اوپر جو پردہ ڈال رکھا تھا وہ اتنا زیادہ سرک گیا کہ میں نے تمہاری اصلیت دیکھ لی، اس لڑکی کو دیکھ کر میں سوچ رہا ہوں کہ تم اسے اپنے ساتھ کیوں لئے پھرتے ہو مسلمان عورت کو میدان جنگ میں نہیں لڑاتے نہ عورت کو جاسوسی کے لیے استعمال کرتے ہیں۔
میں نومسلم ہوں ۔۔۔رابعہ نے کہا ۔۔۔کل اسلام قبول کیا ہے شام کے شہر حلب کی رہنے والی ہوں۔
رابعہ پر جو بیتی تھی وہ اس نے سنا دی کوئی بات چھپائی نہیں نہ مبالغہ آمیزی کی۔
ان مسلمانوں نے اپنے فرائض سے ہٹ کر مجھے نئی زندگی دی ہے۔
رابعہ نے آخر میں کہا ۔۔۔میں ان کے کردار سے اتنی متاثر ہوئی کہ ان کا مذہب قبول کر لیا انہوں نے مجھے ایک مقدس اور پاک چیز جان کر مجھے اپنے ساتھ رکھا۔
اور میں بھی نومسلم ہوں۔۔۔ اویس نے کہا۔۔۔ اپنی جان اسلام کے لئے وقف کر دی ہے اویس نے بنیامین کو سنایا کہ اس نے کیوں اسلام قبول کیا تھا۔
تاریخ داں ایلفریڈ بٹلر اور عربی مؤرخوں نے بنیامین کی شخصیت کا جو عکس پیش کیا ہے وہ ایک ہی جیسا ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ بنیامین مصر کے قبطیوں کا اسقف اعظم تھا ،لوگ دل و جان سے اس کی تعظیم و تکریم کرتے تھے، بنیامین تھا ہی عظیم الشان اور غیرمعمولی طورپر دانشمند ،اس کے کردار کی بنیاد نیکی اور بنی نوع انسان کی بھلائی اور محبت تھی، عیسائیت کے ان مذہبی پیشواؤں اور قبائل کے سرداروں کا جانی دشمن تھا ،جو ہرقل کی سرکاری عیسائیت کے پیروکار تھے اس کی فہم و فراست اور دور بین نگاہیں مستقبل کے پردے چاک کر سکتی تھیں۔
اپنے سپہ سالار سے کہنا ۔۔۔بنیامین نے کہا ہرقل ہمارا مشترکہ دشمن ہے اگر آپ مصر پر فوج کشی کریں گے تو ایسا ہوگا ہی نہیں کہ عیسائی ہرقل کا ساتھ دیں گے ہم اس وقت کو نہیں بھولے جب فوکاس قیصر روم تھا۔ عیسائیوں کا تو وہ دشمن تھا ہرقل نے اس کے خلاف بغاوت کی تو ہم نے اس کا ساتھ دیا اور فوکاس کا تختہ الٹ کر ہرقل کو قیصر روم بنایا تھا۔
ہرقل خود عیسائی تھا لیکن عیسائیوں کے تعاون اور ان کی قربانیوں کو نظر انداز کر کے اس نے عیسائیوں پر عرصہ حیات تنگ کر دیا ،عیسائیوں کے لیے وہ قصاب اور درندہ بن گیا ،اس کے حکم سے عیسائی کسانوں کا پیدا کیا ہوا اناج چھین کر بزنطیہ بھیج دیا جاتا ہے۔ عیسائیوں کو اس نے نیم فاقہ کش بنا کر ان پر ظالمانہ لگان عائد کردیا تھا،،،،
عیسائیوں پر جور و ستم کی داستان بہت طویل ہے، شام کے عیسائی قبائل کو ہرقل نے دھوکے دیے مسلمانوں کے سامنے انہیں ڈھال بنانا چاہا شام میں جو ہوا وہ مجھے معلوم ہے ،میں جانتا ہوں کہ مسلمان مفتوحہ ملک کے لوگوں کے مذہبی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتے۔ محکوموں پر جور و استبداد کا تو ان کے ہاں تصور ہی نہیں ،جزیہ ادا کرکے ہر کوئی اپنے مذہب پر قائم رہ سکتا ہے۔
میری نظریں آنے والے وقت کو دیکھ رہی ہیں مسلمانوں کا یہ رویہ قائم رہا تو عسائیت اپنے پیروکاروں کو اسلام کی آغوش میں ڈالنا شروع کر دے گی، اور مصر اسلامی ملک بن جائے گا ۔
رومی مصر میں نہیں ٹھہرسکیں گے مسلمانوں نے مصر پر فوج کشی کی تو یہاں کے عیسائی خاموش تماشائی بنے رہیں گے، اور یہ کوئی حیرت ناک بات نہیں ہوگی کہ روم میں اہل مصر کے ہم مذہب ہیں لیکن اہل مصر مسلمانوں کا استقبال کریں گے۔
تم واپس چلے جاؤ ۔عیسائیوں کو رومیوں کے خلاف بھڑکانے کی کسی کوشش کی ضرورت ہی نہیں ہم بغاوت نہیں کریں گے ۔
ہمارے پاس رومیوں جیسی جنگی طاقت نہیں، ہم رومیوں کو اس دھوکے میں رکھنا چاہتے ہیں کہ ہم ان کی وفادار رعایا ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ان تینوں مجاہدین کا مشن کامیاب تھا۔ انہیں مصر کے کسی اور علاقے میں جاکر عیسائیوں کو بھڑکانے کی ضرورت نہیں تھی۔
ان کے اسقف اعظم نے وہ کام کردیا جو یہ تینوں کرنے آئے تھے۔
اویس کو تو کچھ زیادہ ہی کامیابی حاصل ہو گئی تھی، وہ بنیامین سے رخصت ہوئے رات قوص کے سرائے میں گزاری صبح طلوع آفتاب سے بہت پہلے کرائے کے اونٹوں پر اسکندریہ کو روانہ ہوگئے ، انہیں خطرہ یہ نظر آ رہا تھا کہ پہچانے جائیں گے، رابعہ کو بھی پہچان لیں گے اسے اس سے چھین کر نیل میں پھینک دیں گے، وہ خوش قسمت تھے کہ انہیں ایک جہاز تیار مل گیا وہ اس جہاز میں سوار ہوئے اور جہاز روانہ ہو گیا۔
تاریخ سے یہ پتا نہیں چلتا کہ یہ تینوں مجاہدین کتنا عرصہ مصر میں رہے تھے اور جب عمرو بن عاص نے انہیں مصر بھیجا تھا اس وقت عمرو کہاں تھے، البتہ یہ واضح ہے کہ یہ مجاہدین واپس آئے تو اس وقت وہ بیت المقدس میں تھے ، مجاہدین کو راستے میں ہی کسی نے بتا دیا تھا۔
انہیں عمرو بن عاص نے بھیجا تھا اس لئے وہ وہ بیت المقدس جاپہنچیں۔
عمرو بن عاص نے اطلاع ملنے پر انہیں فوراً بلا لیا۔
کیا کرآئے؟،،،، سپہ سالار عمرو نے ان سے پوچھا۔
امیر جماعت نے تمام تر کرگزاری سنائی اور بنیامین نے جو باتیں کی تھیں وہ لفظ بلفظ سنائی۔
یہ تو قبطیوں کے اسقف اعظم کی باتیں ہیں۔۔۔ امیر جماعت نے کہا۔۔۔ ہم نے وہاں ہر عیسائی کے دل میں رومیوں کے خلاف نفرت بھری ہوئی دیکھی ہے ، ہر محفل میں ،گرجوں میں، سراؤں میں، سفر میں، اس نفرت کا کھلم کھلا اظہار ہوتا ہے ۔
بنیامین نے جو کہہ دیا ہے اسے میں حرف آخر سمجھتا ہوں،،، عمرو بن عاص نے کہا۔
میرا مشورہ قبول کریں۔۔۔ ایک اور مجاہد نے کہا ۔۔۔مصر پر حملہ کرنا ہے تو فوراً کریں، رومی فوج کی ذہنی اور جسمانی حالت ابھی تک نہیں سنبھلی اور عیسائی اس فوج کے دشمن ہو گئے ہیں۔
عمرو بن عاص یہ رپورٹ سن کر بہت خوش ہوئے،،،، کہنے لگے کہ وہ پہلی فرصت میں مدینہ جائیں گے اور امیرالمومنین سے مصر پر حملے کی اجازت لے لیں گے۔
کام کی باتیں ہو چکیں تو رابعہ کی بات سپہ سالار کو سنائی گئی ، رابعہ باہر بیٹھی ہوئی تھی اویس نے سپہ سالار سے کہا کہ وہ اس کا رابعہ کے ساتھ نکاح پڑھا دے۔
سپہ سالار نے رابعہ کو اندر بلایا اور اس سے پوچھا کہ وہ کس طرح اویس کے پاس آئی ہے۔ رابعہ نے وہی کہانی سنا دی جو سپہ سالار پہلے سن چکے تھے وہ دراصل تصدیق چاہتے تھے، اور یہ بھی کہ اس کمسن دوشیزہ پر جبر نہ ہو رہا ہو ۔
رابعہ نے انہیں مطمئن کردیا اور شادی کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے اویس اور رابعہ کا نکاح پڑھا دیا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عمرو بن عاص مدینہ جانے کا موقع پیدا کررہے تھے ،امید بندھ گئی تھی کہ انہیں مصر پر حملے کی اجازت مل جائے گی۔
تین چار ہی دن گزرے ہوں گے کہ مدینہ سے امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ کا ایک پیغام لے کر قاصد آ گیا ۔
عمرو بن عاص نے پیغام پڑھا تو لرز کر رہ گئے اتنے حوصلے مند اور پر عزم سپہ سالار کے ہاتھ کانپنے لگے۔
پیغام صرف اتنا تھا۔۔۔ عمرو بن عاص کے نام۔۔۔ السلام علیکم۔۔۔ اما بعد۔۔ کیا تم مجھے میرے ساتھیوں کو اور ان لوگوں کو جن کا میں ضامن اور ذمہ دار ہوں ہلاک ہوتا دیکھو گے، اور خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ زندہ رہو گے مدد ،مدد ،مدد،،،،،
یہ پیغام ایسی نوعیت کا تھا جسے موجودہ دور میں soss کہا جاتا ہے۔
کیا آفت آن پڑی ہے عمرو بن عاص نے قاصد سے پوچھا۔
قحط۔۔۔۔ قاصد نے جواب دیا۔۔۔ عرب کی جنوبی سرحد سے لے کر شمالی سرحد تک قحط ہر انسان کی اور مویشیوں کی جان بےدردی سے لے رہا ہے ۔مدینہ کو میری واپسی تک نہ جانے کتنی اور جانیں لے چکا ہوگا۔ اناج کا ایک دانہ کہیں نظر نہیں آتا لوگ پانی کو ترس رہے ہیں، دودھ دینے والے مویشی ہڈیوں کے ڈھانچے بن کر مر رہے ہیں، ان کے جسموں میں نمی کا ایک قطرہ نہیں دودھ کہاں سے دیں۔
یہ تاریخ عیسویں 639 بمطابق 18 ہجری میں پڑا تھا۔
قاصد نے قحط کی تباہ کاری سنائی، اور سننے والے لرزہ براندام ہو گئے۔
عمرو بن عاص نے امیرالمؤمنین کے نام پیغام لکھوایا، تاریخ کے مطابق تحریر اتنی سی ہی تھی۔
امیر المومنین کے نام۔۔۔ السلام علیکم۔۔۔ اما بعد۔۔۔ اطمینان رکھیں خوراک کا ایسا قافلہ بھیج رہا ہوں جس کا اگلا سرا آپ کے پاس اور دوسرا سرا میرے پاس ہوگا،،،،،
امیرالمومنین نے ایسے ہی پیغام معاویہ بن ابی سفیان، اور ابو عبیدہ ،کو شام بھیجے تھے جو وہاں کے امراء اور سپہ سالار تھے۔ پھر ایسا ہی پیغام عراق کے امیر اور سپہ سالار سعد بن ابی وقاص کو بھی بھیجا ان سب نے امیرالمومنین کو ایسا ہی جواب دیا جیسا عمرو بن عاص نے لکھ بھیجا تھا۔
تاریخ میں جو اعداد و شمار آئے ہیں ، یوں ہیں۔
عمرو بن عاص نے فلسطین سے ایک ہزار اونٹ آٹے اور گھی سے لدے ہوئے، خشکی کے راستے، اور انہیں اشیا سے لدے ہوئے بیس بحری جہاز عقبہ کی بندرگاہ سے روانہ کیے۔
خوراک کے علاوہ عمرو نے پانچ ہزار کمبل بھی بھیجے ۔
شام سے معاویہ بن ابی سفیان نے آٹے سے لدے ہوئے تین ہزار اونٹ بھیجے خوراک کے علاوہ تین ہزار چغے بھی ساتھ تھے، سعد بن ابی وقاص نے عراق سے ایک ہزار آٹھ سو اونٹ یہ بھی اناج سے لگے ہوئے تھے،
شام کے ایک اور حصے کے امیر اور سپہ سالار ابوعبیدہ بن جراح نے چار ہزار اونٹوں پر اناج اور دیگر اشیاء خورد و نوش لدوائیں اور خود اس قافلے کے ساتھ چل پڑے ۔
مدینہ پہنچے تو امیر المومنین نے لوگوں میں اس خوراک کی تقسیم کا کام ابوعبیدہ کے ہی سپرد کر دیا، تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ امیرالمومنین نے حکم دیا کہ ابو عبیدہ کو چار ہزار درہم ادا کیے جائیں۔
امیرالمومنین!،،، ابوعبیدہ نے کہا۔۔۔ مجھے اس معاوضے کی ضرورت نہیں ،میں نے جو معاونت کی ہے یہ اللہ کی خوشنودی کے لئے کی ہے مجھے دنیاوی مفاد کی طرف نہ کھینچیں۔
یہ معاوضہ تم نے طلب نہیں کیا!،،،،امیرالمومنین نے کہا۔۔۔ اس لئے یہ لے لینے میں کوئی قباحت نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مجھے ایسا ہی ایک واقعہ پیش آ چکا ہے، تم نے جو بات مجھ سے کہی تھی وہی میں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کہی تھی، لیکن آپ نے میرا جواز رد کرکے مجھے رقم وصول کرنے پر مجبور کر دیا تھا۔
ابو عبیدہ نے چار ہزار درہم لے لیے اور شام کے اس علاقے کو واپس چلے گئے جہاں کے وہ امیر مقرر ہوئے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس داستان کا یہ باب اس وقت تک مکمل نہیں ہوتا جب تک اس خوفناک قحط میں امیرالمومنین اور ان کے ماتحت افسروں کی فرض شناسی اور انسان دوستی کا تذکرہ نہ کیا جائے۔
قحط کا باعث یہ ہوا کہ آسمان بادلوں سے خالی ہو گیا بادلوں کی غیر حاضری میں سورج نے زمین و آسمان کو جلانا شروع کردیا ۔ کھیتوں کی مٹی اکڑ گئی اور زمین چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں پھٹنے لگی، آسمان کے تیور دیکھ کر کسانوں نے ہل نہ چلائے وہ دیکھ رہے تھے کہ گھاس کی ایک پتی بھی ہری نہیں رہ گئی تھی، فصل کے پتے اور خوشے جو پکنے کے لئے اوپر ہی اوپر اٹھ رہے تھے جہاں تک پہنچے تھے وہی جل کر راکھ ہوگئے، اناج کی پیداوار کی امیدیں دم توڑ گئیں۔
نخلستان سوکھ گئے ہریالی کا کہیں نام و نشان نہ رہا، ہوا چلتی تو دھول اڑتی تھی، کسی درخت کا ایک پتہ بھی ہرا نہ رہا ،درخت خشک لکڑیاں بن کے رہ گئے، بھیڑ بکریوں کے ریوڑ مویشی اور دیگر جانور ایسی تیزی سے مرنے لگے جیسے موت جھاڑو دے رہی ہو۔ انسان فاقوں مرنے لگے، جن لوگوں کے پاس روپیہ پیسہ تھا وہ بھی مر رہے تھے، اناج کا ایک دانہ نہ تھا روپیہ پیسہ محض بیکار تھا۔
اس قحط والے سال کو عام الرّمادہ (یعنی خاک والا سال) کہا گیا تھا۔
اب دیکھئے اس وقت کے سربراہ ملت و حکومت کا کردار اور حسن تدبر ۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا ذاتی کردار تو بلند تھا ہی، لیکن غور اس پر کریں کہ یہ کردار اسلام کی تعلیمات کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا۔
انہوں نے جلسوں میں تقریریں نہیں کی کہ ہم عوام کو بھوکا نہیں مرنے دیں گے، ذخیرہ اندوزی ختم کرنے کے لیے قانون بنایا جارہا ہے ،ہم تباہ کر دیں گے ،کمیٹی بنا دی گئی ہے ،ایسی بھڑک نما تقریروں کے بعد رات گھر جاکر مرغن کھانے کھائے اور سو گئے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عراق ،شام، اور فلسطین سے آنے والی خوراک کے قافلوں کے لیے حکم دیا کہ یہ متاثرہ علاقوں میں چلے جائیں ،اور اشیاء لوگوں میں تقسیم کردی جائیں ،دوسرا حکم یہ دیا کہ قافلوں کے اونٹ واپس نہ کئے جائیں انہیں ذبح کر کے ان کا گوشت لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔
قحط زدہ علاقوں میں ایک بھی اونٹ زندہ نہیں رہا تھا ،اگر کوئی اونٹ زندہ نظر آتا تھا تو وہ ہڈیوں کا ڈھانچا ہوتا تھا گوشت کا نام و نشان نہیں ،زرخیز علاقوں سے آئے ہوئے اونٹ تنو مند اور تروتازہ تھے ،کم و بیش دس ہزار اونٹ ذبح کرکے فاقہ کش لوگوں کو کھلا دیے گئے۔
مدینہ دارالخلافہ بھی تھا اور ہر لحاظ سے عرب کا مرکزی شہر بھی وہاں خوشحال لوگ رہتے تھے ،ان کے گھروں میں خوراک کا ذخیرہ تھا۔ مدینہ کی حالت یہ ہو گئی تھی کہ بہت سے بھاگے ہوئے ہزارہا لوگ پورے پورے کنبے مدینہ میں آگئے، اور ان کی تعداد بڑھتی ہی جا رہی تھی یہ سب بھوکے تھے، ان کے بچے بھوکے، ان کی عورتیں بھوکی تھیں، ماؤں کے دودھ سوکھ گئے، اور دودھ پیتے بچے مر رہے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے مدینہ کے لوگوں سے کہا کہ وہ گھروں میں دو گنا کھانا پکایا کریں اور ان پناہ گزینوں کو آپس میں بانٹ کر گھروں میں لے جائیں، لوگوں نے فوراً اس پر عمل کیا لیکن پناہ گزینوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی تھی۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ گھوم پھر کر جائزہ لیتے رہتے تھے ،مدینہ کے خوشحال لوگ پورا پورا تعاون کررہے تھے کچھ لوگ پھر بھی بھوکے رہ جاتے تھے۔
امیر المومنین نے اس کا حل یہ نکالا کہ حکم جاری کردیا کہ کسی شہری کے گھر کھانا نہیں پکے گا، تمام خوراک ایک جگہ اکٹھا کرکے مشترکہ طور پر کھانا پکے گا اور سب ایک دستر خوان پر کھانا کھایا کریں گے۔
امیر المومنین نے اس کی ابتدا اپنے گھر سے کی کھانا ایک جگہ پکنے لگا، امیرالمومنین اپنے اہل و عیال کے ساتھ اسی دسترخوان پر کھانا کھاتے تھے۔
مسلم اور غیر مسلم تاریخ دانوں نے لکھا ہے کہ اس دستر خوان پر ہر روز دونوں وقت کھانے والوں کی تعداد دس ہزار کے لگ بھگ ہوتی تھی، مریض، بوڑھے ،معذور ،عورتیں، بچے ،جو دسترخوان تک نہیں پہنچ سکتے تھے انہیں وہاں کھانا پہنچایا جاتا تھا جہاں جہاں ان کا قیام تھا ان کی تعداد پچاس ہزار کے لگ بھگ تھی۔
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے کردار کی اور امت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت اور ایثار کی صرف ایک مثال کافی ہوگی ۔مؤرخوں نے ایسے متعدد واقعات لکھے ہیں۔
امیرالمومنین سب کے ساتھ دستر خوان پر بیٹھ کر کھانا کھایا کرتے تھے ایک روز دسترخوان پر گھی میں چُوری کی ہوئی روٹی تھی ،حضرت عمر نے ایک بدو کو اپنے ساتھ بٹھا لیا دونوں ایک ہی پلیٹ سے چوری کھانے لگے۔
بدو بدتمیزی سے کھا رہا تھا پلیٹ میں جدھر گھی دیکھتا ادھر سے بہت بڑا لقمہ بنا کر منہ میں ڈال لیتا امیرالمومنین نے اس سے پوچھا کہ تو نے کبھی گھی والی روٹی نہیں کھائی؟
یا امیرالمومنین!،،،، بدو نے لجاجت کے لہجے میں کہا۔۔۔ جب سے قحط پڑا ہے نہ کہیں گھی دیکھا ہے، نہ روٹی، نہ کسی اور کو گھی روٹی کھاتے دیکھا ہے۔
امیر المومنین نے قسم کھالی کہ جب تک قحط ہے وہ گھی والی روٹی نہیں کھائیں گے ،سب نے دیکھا کہ انہوں نے گھی کے علاوہ گوشت کھانا بھی چھوڑ دیا ،ان کی بھاگ دوڑ کا یہ عالم تھا کہ ابھی مدینہ میں کھانے کا انتظام دیکھ رہے ہیں اور ابھی کسی دور کے علاقے کی طرف دیکھنے جا رہے ہیں کہ وہاں لوگوں کو ٹھیک طرح کھانا مل رہا ہے یا نہیں۔
مسلسل مشقت بھاگ دوڑ اور پریشانی کے ایسے آثار تھے، اس کے ساتھ امیر المومنین نے اپنی روزمرہ غذا کم کر دی تھی، ان کا رنگ سرخ سفید ہوا کرتا تھا جو سیاہ پڑ گیا ،اور جسم لاغر ہوتا چلا گیا، پیٹ میں کوئی تکلیف بھی رہنے لگی ان کے رفقائے کار کو پریشانی لاحق ہو گئی کہ امیرالمؤمنین نے پوری غذا کھانی شروع نہ کی تو یہ صورت ان کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔
ان رفقاء نے جن میں معمر صحابہ کرام بھی تھے۔۔۔ امیرالمومنین سے کہا۔۔۔ کہ آرام کریں نہ کریں اپنی روزمرہ غذا پوری کر لیں۔ امیرالمؤمنین نے جو جواب دیا وہ تاریخ کے دامن میں محفوظ ہے۔۔۔ انہوں نے کہا ۔۔۔مجھے لوگوں کی تکلیف کا احساس اسی طرح ہوسکتا ہے کہ مجھ پر بھی وہی گزرے جو لوگوں پر گزر رہی ہے۔
اگر ہمارے آج کے حکمران حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے ان الفاظ کو اپنا اصول حیات بلکہ ایمان کا جزو بنا لیں تو ملک کا اجڑا ہوا گلستان سرسبزوشاداب ہوجائے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اللہ کے حضور بہتے آنسو سے گڑگڑاتے تھے۔۔۔۔ یا اللہ یہ قحط اگر میرے کسی گناہ یا اپنے فرائض سے کوتاہی کی سزا ہے تو مجھے بخش دے میری قوم کو سزا نہ دے۔
کوئی دعا قبول نہیں ہورہی تھی آسمان جل رہا تھا زمین کو جلا رہا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
*آسمان* سر زمین عرب کا دشمن ہوگیا تھا۔ امیر المؤمنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے انتظامات اور ان کی اپنی بھاگ دوڑ لوگوں کو قحط سے نھیں فاقہ کشی سے نجات دلاسکتی تھی۔ جو انہوں نے دلادی لیکن صحابہ کرام اور دیگر اکابرین حضرت عمر کی بڑی تیزی سے گرتی ہوئی صحت کے متعلق پریشان تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تو گھلے جا رہے تھے، انہوں نے جسمانی توانائی برقرار رکھنے والی غذا ترک کر دی تھی، اور کہتے تھے کہ یہ غذا اس وقت کھاؤں گا جب میری قوم کے ہر فرد کو یہ غذا میسر آنے لگے گی۔
تاریخ نویس ابن سعد نے اپنی ایک کتاب (طبقات) میں لکھا ہے کہ بزرگوں کے کہنے پر بعض جواں سال افراد نے کھانے کے وقت حضرت عمر کو کسی بہانے دسترخوان عام سے ہٹا کر الگ بٹھایا اور گوشت کے ساتھ گھی میں پکائی ہوئی روٹی ان کے آگے رکھ دی، اور انہیں باتوں میں لگالیا، انہوں نے عہد کر لیا تھا کہ امیرالمومنین کو گوشت اور گھی کھلا کر ہی رہیں گے، لیکن امیرالمومنین نے یہ کھانا ایک طرف سرکا دیا۔
دسترخوان پر گھوم پھر کر دیکھو۔۔۔ امیر المومنین نے کہا۔۔۔ جو کوئی فاقہ کشی سے بہت ہی نحیف ہو گیا ہو یہ کھانا اسے کھلا دو میرے لئے عام روٹی اور سب کے لیے پکا ہوا سالن زیادہ اچھا رہے گا۔
ابن سعد نے تین مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اس شام حکم دیا کے دسترخوان عام پر جو لوگ موجود ہیں ان کی گنتی کی جائے۔ گنتی کی گئی۔ سات ہزار سے کچھ زائد تھی اور بوڑھے، بچے اور مریض جو دسترخوان پر نہیں آ سکے اور انہیں جہاں جہاں تھے کھانا پہنچایا گیا تھا ان کی تعداد چالیس ہزار سے ذرا زیادہ تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦