👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟜 𝟜⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟜  𝟜⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
محاصرے کا سولہواں سترہواں روز تھا شام کے وقت سلطان ایوبی اپنے خیمے میں بیٹھا اپنے نائبین وغیرہ کے ساتھ اس مسئلے پر باتیں کررہا تھا کہ قلعے کو توڑنے کی کیا صورت اختیار کی جائے محافظ نے اندر آکر اطلاع دی کہ سوڈان کے محاذ سے قاصد آیا ہے سلطان ایوبی تڑپ کر بولا اسے فوراً اندر بھیج دو اور اس کے ساتھ ہی اس کے منہ سے نکل گیا اللہ کرے یہ کوئی اچھی خبر لایا ہو
قاصد اندر آیا تو سلطان ایوبی نے فوراً پہچان لیا کہ یہ قاصد نہیں کسی دستے کا کمانڈر ہے سلطان ایوبی نے بیتابی سے پوچھا کوئی اچھی خبر لائے ہو؟
بیٹھ جاؤ کمانڈر نے نفی میں سر ہلایا اور بولا جس رنگ میں سالار اعظم دیکھیں خبر اس لیے اچھی نہیں کہ ہم سوڈان میں فتح حاصل نہیں کرسکے اور اس لحاظ سے خبر اچھی ہے کہ ہم نے ابھی شکست نہیں کھائی اور پسپا نہیں ہوئے
اس کا مطلب یہ ہوا کہ شکست اور پسپائی کے آثار بھی نظر آرہے ہیں سلطان ایوبی نے پوچھا 
صاف نظر آرہے ہیں کمانڈر نے جواب دیا میں آپ کا حکم لینے آیا ہوں کہ ہم کیا کریں ہمیں کمک کی شدید ضرورت ہے اگر ہماری یہ ضرورت پوری نہ ہوئی تو پسپائی کے بغیر چارہ نہیں
سلطان ایوبی نے پورا پیغام سننے سے پہلے اس کے لیے کھانا منگوایا اور کہا کہ کھاؤ اور پیغام سناتے جاؤ سلطان ایوبی کی غیرحاضری میں اس کا بھائی تقی الدین مصر کا قائم مقام امیر مقرر ہوا تھا
اس نے سوڈان اور مصر کی سرحد کے قریب فرعونوں کے زمانے کے کھنڈروں میں صلیبیوں کا پیدا کردہ ایک بڑا ہی خطرناک نظریہ اور ڈرامہ پکڑا تھا اور اس کے فوراً بعد اس نے یہ سوچ کر سوڈان پر حملہ کردیا تھا کہ وہاں مصر پر حملے کی تیاریاں ہورہی تھیں
مشیروں اور سالاروں نے اسے کہا تھا کہ وہ سلطان ایوبی سے اجازت لے کر حملہ کریں مگر تقی الدین نے یہ کہہ کر سوڈان پر حملہ کردیا تھا کہ وہ اپنے بھائی کو اس لیے پریشان نہیں کرنا چاہتے کہ وہ صلیبیوں کے اتنے طاقتور لشکر کے خلاف لڑ رہا ہے
اس نے جوش میں آکر حملہ تو کردیا تھا لیکن یہ کمانڈر پیغام لایا تھا کہ سوڈان میں شکست صاف نظر آرہی ہے
عام قاصد کے بجائے تقی الدین نے ایک کمانڈر کو اس لیے بھیجا تھا کہ وہ سلطان ایوبی کو محاذ کی صحیح صورتحال جنگی نقطہ نگاہ سے سنا سکے اس سے پہلے سلطان ایوبی کو صرف یہ اطلاع ملی تھی کہ تقی الدین نے سوڈان پر حملہ کردیا ہے
کمانڈر نے جو واقعات سلطان ایوبی کو سنائے وہ مختصراً یہ تھے کہ تقی الدین نے حقائق پر نظر ر کھنے کے بجائے جذبے اور جذبات سے مغلوب ہوکر حملے کا حکم دے دیا اس کا جذبہ وہی تھا جو اس کے بھائی سلطان ایوبی کا تھا لیکن دونوں بھائیوں کی جنگی فہم وفراست میں فرق تھا
تقی الدین نے جو فیصلہ کیا نیک نیتی اور اسلامی جذبے کے تحت کیا مگر وہ اس حقیقت کو نظر انداز کرگیا کہ دشمن پر سوچے سمجھے بغیر ٹوٹ پڑنے کو جہاد یا جنگ نہیں کہتے۔ اس نے سوڈان میں پھیلائے ہوئے اپنے جاسوسوں کی رپورٹوں پر بھی پوری طرح غور نہ کیا ان کی صرف اس اطلاع پر توجہ مرکوز رکھی کہ سوڈانیوں کو صلیبی کمانڈر ٹریننگ دے رہے ہیں اور وہاں حملے کی تیاریاں تقریباً مکمل ہوچکی ہیں
تقی الدین نے دشمن کو تیاری کی حالت میں دبوچ لینے کا فیصلہ کرلیا مگر اس قسم کی انتہائی اہم معلومات حاصل نہ کیں کہ سوڈانیوں کی جنگی طاقت کتنی ہے؟ 
وہ کتنی طاقت لڑائیں گے اور کتنی ریزو میں رکھیں گے؟ 
ان کے ہتھیار کیسے ہیں؟ 
سوار کتنے اور پیادہ کتنے ہیں؟ 
اور سب سے زیادہ اہم مسئلہ یہ تھا کہ میدان جنگ کس قسم کا اور مصر سے کتنی دور ہوگا اور رسد کے انتظامات کیا ہوں گے؟
وہ خرابیاں تو ابتداء میں ہی سامنے آگئیں ایک یہ کہ سوڈانیوں نے بلکہ صلیبی کمانڈروں نے تقی الدین کو سرحد پر روکا نہیں اسے بہت دور تک سوڈان کے اس علاقے تک جانے کے لیے راستہ دے دیا جو بڑا ہی ظالم صحرا تھا اور جہاں پانی نہیں تھا دوسرا نقصان یہ سامنے آیا کہ تقی الدین کی فوج دراصل صلاح الدین ایوبی کی چالوں پر لڑنے والی فوج تھی جو انتہائی کم تعداد میں دشمن کے بڑے بڑے دستوں کو تہس نہس کردیا کرتی تھی اس فوج کو صرف سلطان ایوبی استعمال کرسکتا تھا سلطان ایوبی آمنے سامنے کی ٹکر سے ہمیشہ گریز کرتا تھا وہ متحرک قسم کی جنگ لڑتا تھا تقی الدین لشکر کشی کا قائل تھا اس فوج میں تجربہ کار اور جانباز چھاپہ مار دستے بھی تھے لیکن ان کا صحیح استعمال سلطان ایوبی جانتا تھا سوڈان میں جاکر یوں ہوا کہ فوج ایک لشکر کی صورت میں بندھی رہی اور دشمن اپنی چال چل گیا دشمن تقی الدین کو اپنی پسند کے علاقے میں لے گیا اور اس کی فوج پر سلطان ایوبی کے انداز کے شب وخون مارنے شروع کردیئے تقی الدین کے جانوروں اور جوانوں کو پانی کی ایک بوند بھی نہیں ملتی تھی چھاپہ مار دستوں کے کمانڈروں نے اسے کہا کہ وہ انہیں صحرا میں آزاد چھوڑ دے مگر تقی الدین نے اسے خدشے کے پیش نظر انہیں کوئی کارروائی نہ کرنے دی کہ جمعیت اور مرکزیت ختم ہوجائے گی
جب رسد کا مسئلہ سامنے آیا تو یہ تکلیف دہ احساس ہوا کہ وہ اتنی دور چلے آئے ہیں جہاں تک رسد کو پہنچتے کئی دن لگیں گے اور رسد کا راستہ محفوظ بھی نہیں ہوا بھی ایسے ہی کہ رسد کے پہلے ہی قافلے کی اطلاع ملی کہ دشمن نے اسے تباہ نہیں کیا بلکہ تمام تر رسد اور جانور اڑا لے گیا ہے اس حادثے کی اطلاع پر چھاپہ مار دستوں کے ایک سینئر کمانڈر اور تقی الدین میں گرما گرمی ہوگئی کمانڈر نے کہا کہ وہ لڑنے آئے ہیں اور لڑیں گے لیکن اس طرح نہیں کہ دشمن شب وخون مار رہا ہے رسد لوٹ کر لے گیا ہے اور ہم مرکزیت کے پابند بیٹھے رہیں تقی الدین نے حکم کے لہجے میں سخت کلامی کی تو کمانڈر نے کہا آپ تقی الدین ہیں، صلاح الدین نہیں ہم اس عزم اور اس طریقے سے لڑیں گے جو ہمیں صلاح الدین ایوبی نے سکھایا ہے ہم چھاپہ مار ہیں ہم دشمن کے پیٹ کے اندر جاکر اس کا پیٹ چاک کیا کرتے ہیں آپ کا یہ لشکر بھوکا مر رہا ہے اور رسد دشمن لے گیا ہے ہم دشمن کی رسد لوٹ کر اپنی فوج کو کھلانے کے عادی ہیں
وقائع نگار لکھتے ہیں کہ تقی الدین کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ جانتا تھا کہ چھاپہ ماروں کا یہ کمانڈر کس جذبے سے پاگل ہوا جارہا ہے اس نے جذباتی لہجے میں کہا میں ذات باری تعالیٰ کے عذاب سے ڈرتا ہوں میں ان جانبازوں کو جو فلسطین میں لڑتے ہوئے آئے ہیں ناحق موت کے منہ میں نہیں دھکیلنا چاہتا
پھر آپ کو حملہ بھی نہیں کرنا چاہیے تھا کمانڈر نے کہا ہم میں کون ہے جو اللہ کے نام پر جان دینے کے لیے تیار نہیں ہم موت کے منہ میں آچکے ہیں اور یہی مسلمان کی شان ہے کہ وہ موت کے منہ میں جاکر اپنے آپ کو اللہ کے قریب محسوس کرتا ہے آپ جذبات سے نکلیں ہم دشمن کے جال میں آچکے ہیں
تقی الدین کوئی ایسا اناڑی بھی نہیں تھا اسے سلطان ایوبی کے یہ الفاظ یاد تھے کہ اپنے آپ کو بادشاہ سمجھ کر کسی کو حکم نہ دینا اور میدان جنگ میں جاکر اپنی غلطیوں سے چشم پوشی نہ کرنا اس نے اس کمانڈر کی سخت کلامی کو گستاخی نہ سمجھا اور اسی وقت تمام اعلیٰ کمانڈروں کو بلا کر جنگ کی صورتحال اور آئندہ اقدام کے متعلق بات چیت کی۔ فیصلہ ہوا کہ چھاپہ ماروں کو جوابی کارروائیاں کرنے کے لیے پھیلا دیا جائے رسد کے راستے کو بھی چھاپہ مار اپنی حفاظت میں لے لیں فوج کے متعلق یہ فیصلہ ہوا کہ اسے تین حصوں میں تقسیم کرکے دشمن پر تین اطراف سے حملہ کیا جائے۔ تقی الدین نے اپنے پاس جو محفوظہ رکھا وہ خاصا کم تھا اس تقسیم اور ترتیب سے یہ فائدہ ہوا کہ فوج اس علاقے سے نکل گئی جہاں پانی نہیں تھا ریت اور ٹیلوں کا سمندر تھا مگر فوج بکھر گئی دشمن نے تینوں حصوں پر حملے کرکے انہیں اور زیادہ بکھیر دیا جانی نقصان بہت ہونے لگا، نہایت تیزی سے کمانڈروں نے اپنے اپنے دستوں کو الگ الگ کرکے اسی نوعیت کی جنگ شروع کردی جو انہیں سلطان ایوبی نے سکھائی تھی مگر صاف پتہ چل رہا تھا کہ وہ جیت نہیں سکیں گے انہوں نے جذبہ قائم رکھا رسد اور کمک کا سوال ہی ختم ہوگیا تھا۔ وہ شب وخون مارتے اور کھانے پینے کے لیے کچھ حاصل کرلیتے تھے چھاپہ مار دستے نہایت جانبازی سے شب وخون مارتے دشمن کا نقصان کرتے اور جو ہاتھ لگتا وہ مختلف دستوں تک پہنچا دیتے تھے
مرکزی کمان ختم ہوچکی تھی تقی الدین اپنے عملے کے ساتھ بھاگتا دوڑتا رہتا تھا جذبے کی حد تک وہ مطمئن تھا۔ اسے کہیں سے بھی ایسی اطلاع نہ ملی کہ کسی دستے یا جماعت نے ہتھیار ڈال دیئے ہوں جنگ چھوٹے چھوٹے معرکوں اور جھڑپوں میں تقسیم ہوتے ہوتے آدھے سوڈان تک پھیل گئی مسلمان کمانڈروں نے فرداً فرداً یہ فیصلہ کرلیا کہ وہ چھاپہ مار قسم کی جنگ لڑتے رہیں گے سوڈان سے نکلیں گے نہیں دشمن کا نقصان بھی ہورہا تھا ایک وقت آگیا جب دشمن پریشان ہوگیا کہ مسلمانوں کو سوڈان سے کس طرح نکالا جائے۔ مسلمان فوجی صحراؤں بیابانوں اور دیہاتی آبادیوں میں پھیل گئے تھے۔ اب مرکز کو یہ بھی پتہ نہیں چلتا تھا کہ جانی نقصان کتنا ہوچکا ہے اور کتنی نفری باقی ہے یہ اندازہ ضرور ہورہا تھا کہ دشمن بھی مصیبت میں مبتلا ہے اور اب وہ مصر پر حملہ نہیں کرسکے گا مگر اس طریقہ جنگ سے کوئی ٹھوس فائدہ حاصل نہیں کیا جاسکتا تھا کوئی علاقہ فتح نہیں کیا جاسکتا تھا فوج مرتی جارہی تھی
ان حالات میں تقی الدین نے سلطان ایوبی کو اپنے ایک کمانڈر کی زبانی پیغام بھیجا اس نے کہا کہ سوڈان کی مہم صرف اسی صورت میں کامیاب ہوسکتی ہے کہ اسے کمک مل جائے اس کی تمام فوج چھاپہ مار پارٹیوں میں بٹ گئی تھی ان پارٹیوں کی کارروائیوں سے فائدہ اٹھانے کے لیے مزید فوج کی ضرورت تھی تقی الدین نے سلطان ایوبی سے پوچھا تھا کہ کمک نہ مل سکے تو کیا وہ سوڈان میں بکھری ہوئی فوج کو یکجا کرکے مصر واپس آجائے؟ 
مصر میں جو فوج تھی وہ مصر کے اندرونی حالات اور سرحدوں کی حفاظت کے لیے بھی ناکافی تھی اسے محاذ پر لے جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا سلطان ایوبی پسپائی کا قائل نہیں تھا اس کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوگیا کہ وہ اپنے بھائی کو پسپائی کا حکم دے یا نہیں لیکن حقائق اسے مجبور کررہے تھے وہ کمک نہیں دے سکتا تھا وہ خود کمک کی ضرورت محسوس کررہا تھا وہ گہری سوچ میں کھوگیا
تقی الدین کے اس قاصد نے سلطان ایوبی کو صورتحال تو بتا دی لیکن صلیبیوں اور سوڈانیوں نے وہاں جو ایک اور محاذ کھول دیا تھا وہ نہ بتایا غالباً اس کمانڈر کو معلوم نہ ہوگا ایسے انکشافات بہت بعد میں ہوئے تھے۔ تقی الدین کی فوج دس دس بارہ بارہ کی ٹولیوں میں بکھر کر لڑ رہی تھی بعض علاقوں میں خانہ بدوشوں کے جھونپڑے اور خیمے بھی تھے بعض جگہیں ہری بھری اور سرسبز بھی تھیں اور بیشتر علاقے بنجر ویران اور ریگستان تھے ایک شام تین چھاپہ مار مجاہدین واپس اپنے ایک سینئر کمانڈر کے پاس آئے ان میں دو زخمی تھے انہوں نے سنایا کہ ان کی پارٹی میں اکیس افراد تھے اور بائیسواں پارٹی کمانڈر تھا دن کے وقت یہ پارٹی ایک جگہ چھپی ہوئی تھی پارٹی کمانڈر ادھر ادھر اس طرح ٹہل رہا تھا جیسے پہرہ دے رہا ہو یا کسی کی راہ دیکھ رہا ہو۔ ایک سوڈانی شتر سوار گزرا اور پارٹی کمانڈر کو دیکھ کر رک گیا کمانڈر اس کے پاس گیا اور معلوم نہیں اس کے ساتھ کیا باتیں کیں شتر سوار چلا گیا تو پارٹی کمانڈر نے اپنے اکیس جانبازوں کو یہ خوشخبری سنائی کہ دو میل دور ایک گاؤں ہے جہاں مسلمان رہتے ہیں اس شتر سوار نے پارٹی کو اپنے گاؤں میں مدعو کیا ہے رات کو گاؤں والے پارٹی کو اپنا مہمان رکھیں گے اور دشمن کی ایک جمعیت کی جگہ بھی بتائیں گے
تمام جانباز بہت خوش ہوئے۔ کھانا دانہ ملنے کے علاوہ دشمن پر حملے کا موقع بھی مل رہا تھا سورج غروب ہوتے ہی یہ سب اس گاؤں کی طرف چل دیئے وہاں جا کے دیکھا کہ صرف تین جھونپڑے تھے۔ادھر ادھر درخت تھے اور پانی بھی تھا۔ سپاہیوں کو جھونپڑوں کے باہر ڈیرے ڈالنے کو کہا گیا پارٹی کمانڈر ایک جھونپڑے میں چلا گیا باہر مشعلیں جلا دی گئیں اور سب کو کھانا دیا گیا پارٹی کمانڈر نے کہاکہ سب سو جاؤ حملے کے وقت انہیں جگالیا جائے گا تھکے ہوئے سپاہی سو گئے یہ تین جو واپس آئے ان میں سے ایک سو نہ سکا یا اس کی آنکھ کھل گئی اسے ایک جھونپڑے میں عورتوں کے قہقہوں کی آوازیں سنائی دیں اس نے جھانک کر دیکھا جھونپڑے میں پارٹی کمانڈر دو نہایت حسین لڑکیوں کے ساتھ ہنس کھیل رہا تھا اور شراب چل رہی تھی لڑکیاں صحرائی لباس میں تھیں لیکن صحرائی لگتی نہیں تھیں اس سپاہی کو باہر کچھ دبی دبی آوازیں سنائی دیں چاندنی میں اس نے دیکھا کہ بہت سے آدمی آرہے تھے جن کے ہاتھوں میں برچھیاں اور تلواریں تھیں سپاہی جھونپڑے کی اوٹ میں ہوگیا اور دیکھتا رہا کہ یہ کون لوگ ہیں جھونپڑے میں کوئی داخل ہوا اس کی آواز سنائی دی
کیوں بھائی کام کردیں؟
پارٹی کمانڈر نے کہا تم آگئے؟ 
سب سوئے ہوئے ہیں ختم کردو اور لڑکیوں کے قہقہے سنائی دیئے
وہ آدمی جو آرہے تھے سوئی ہوئی پارٹی پر ٹوٹ پڑے کچھ تو سوتے میں ختم ہوگئے اور جو جاگ اٹھے انہوں نے مقابلہ کیا یہ سپاہی چھپا ہوا دیکھتا رہا اسے اپنے دو ساتھی بھاگتے نظر آئے موقعہ دیکھ کر یہ سپاہی بھی بھاگ اٹھا اور اپنے دو ساتھیوں سے جا ملا وہ دونوں زخمی تھے کسی نے ان کا تعاقب نہ کیا یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ پارٹی کمانڈر شتر سوار کے دیئے ہوئے لالچ میں آگیا تھا یا وہ پہلے سے ہی دشمن کا ایجنٹ تھا اور اپنے آدمیوں کو مروانے کا موقعہ دیکھ رہا تھا بہرحال یہ انکشاف ہوا کہ دشمن نے بکھرے ہوئے مسلمان دستوں کو ختم کرنے یا اپنے ہاتھ میں کرنے کے لیے لڑکیوں کو استعمال کرنا شروع کر دیا ہے
دشمن انسانی فطرت کی کمزوریوں کو استعمال کررہا تھا ان حالات میں لڑنے والے سپاہی کو پیٹ اور جنس کی بھوک بہت پریشان کیا کرتی ہے دشمن مجاہدین کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر حملے الگ کر رہا تھا ور نفسیاتی ہتھیار بھی استعمال کررہا تھا ایسے چند اور واقعات ہوئے مجاہدین کو خبردار کیا گیا کہ کسی کے جھانسے میں نہ آئیں
ایسے بہت سے واقعات میں ایک واقعہ قابل ذکر ہے چھاپہ مار دستے کا ایک کمانڈر عطاالہاشم ایک جگہ بیٹھا ہوا تھا،اس کا دستہ تین چار پارٹیوں میں بکھرا ہوا تھا یہ مصر سے آنے والی رسد کا راستہ تھا عطاالہاشم نے اپنے صرف ایک دستے سے جس کی نفری ایک سو سے کچھ کم تھی رسد کے تمام تر راستے کو محفوظ کردیا تھا رسد پر چھاپہ مارنے والے دشمن کا اس نے بہت نقصان کیا تھا اس کے جانباز اچانک جھپٹ پڑتے تھے سوڈانیوں نے انہیں ختم کرنے کے بہت جتن کیے لیکن پانچ چھ جانبازوں کو شہید کرنے کے سوا کوئی کامیابی حاصل نہ کرسکے عطاالہاشم ٹیلوں میں ڈھکی ہوئی ایک جگہ پر بیٹھا تھا۔ اس کے ساتھ چھ سات جانباز تھے یہ اس نے ہیڈکوارٹر بنا رکھا تھا اسے صحرائی خانہ بدوشوں کے لباس میں دو لڑکیاں ایک ادھیڑ عمر آدمی کے ساتھ نظر آئیں عطاالہاشم کو دیکھ کر تینوں اس کے پاس آگئے لڑکیاں سوڈانی معلوم ہوتی تھیں لیکن انہوں نے جو لباس پہن رکھا تھا وہ بہروپ لگتا تھا ان کے چہروں پر گرد تھی چہرے اداس تھے اور تھکن بھی معلوم ہوتی تھی لڑکیاں ادھیڑ عمر آدمی کے پیچھے ہوگئیں یہ جھجک اور شرم کا اظہار تھا
اس آدمی نے کچھ مصری اور کچھ سوڈانی زبان میں کہا کہ وہ مسلمان ہے اور یہ دونوں اس کی بیٹیاں ہیں وہ بھوک سے مررہے ہیں اس نے کھانے کے لیے کچھ مانگا عطاالہاشم سوڈان کی زبان جانتا تھا وہ چھاپہ مار تھا سوڈانی علاقے میں کمانڈو کارروائیوں کی کامیابی کے لیے اس نے سوڈانی زبان سیکھی تھی اس کے پاس خوراک کی کمی نہیں تھی وہ رسد کا محافظ تھا دو تین بار رسد گزری تھی جس میں سے اس نے اپنے دستے کے لیے بہت سارا راشن پانی اپنے پاس رکھ لیا تھا اس نے ان تینوں کو کھانا دیا اور پوچھا کہ وہ کہاں سے آئے ہیں؟ 
اور کہاں جارہے ہیں؟
اس آدمی نے کسی گاؤں کا نام لے کر کہا کہ ان کا گاؤں جنگ کی زد میں آگیا ہے کبھی سوڈانی آجاتے تھے تو کبھی مسلمان دونوں گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہیں چھوڑتے تھے وہ ان لڑکیوں کو فوجیوں سے چھپاتا پھرتا تھا آخر تنگ آکر گھر سے نکل کھڑا ہوا وہ لڑکیوں کی عزت بچانا چاہتا تھا اس نے بتایا کہ چونکہ وہ مسلمان ہے، اس لیے اس کوشش میں ہے کہ مصر چلا جائے مگر ممکن نظر نہیں آتا اس نے عطاالہاشم سے کہا کہ وہ انہیں مصر پہنچا دے اس کے ساتھ ہی اس نے پوچھا تم لوگ اس جگہ کب تک رہو گے؟
جب تک رہوں تم تینوں کو اپنے ساتھ رکھوں گا عطاالہاشم نے جواب دیا آپ ان دونوں لڑکیوں کو اپنی پناہ میں لے لیں ادھیڑ عمر آدمی نے کہا میں چلا جاتا ہوں
میں یہ دیکھ کر حیران ہورہی ہوں کہ آپ کی زندگی کتنی دشوار ہے ایک لڑکی نے معصوم لہجے میں کہا اور پوچھا آپ کو اپنا گھر اور بیوی بچے یاد نہیں آتے؟
سب یاد آتے ہیں عطاالہاشم نے جواب دیا لیکن میں اپنے فرض کو نہیں بھول سکتا
یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کھانا کھا کر پانی پی کر ان کے جسموں میں نئی جان اور نئی روح پیدا ہوگئی ہو ایک لڑکی تو خاموش رہی دوسری کی زبان رواں ہوگئی اس نے جتنی بھی باتیں کیں ان میں عطاالہاشم اور اس کے جانبازوں کے لیے ہمدردی تھی اس نے یہ بھی کہا کہ آپ لوگ وطن سے اتنی دور آکر اپنی جانیں کیوں ضائع کرتے ہیں؟
عطاالہاشم اٹھ کھڑا ہوا اس نے تینوں کو اٹھایا اور اپنے آدمیوں کو بلایا انہیں کہا کہ اس سوڈانی کے پاؤں رسیوں سے باندھ کر میرے گھوڑے کے پیچھے باندھ دو انہوں نے اسے گرا کر پاؤں باندھ دیئے اور گھوڑا کھول لائے رسی کا ایک سرا گھوڑے کی زین کے ساتھ باندھ دیا عطاالہاشم نے ایک سپاہی سے کہا کہ گھوڑے پر سوار ہوجائے وہ سوار ہوگیا عطاالہاشم نے لڑکیوں کو اکٹھا کھڑا کرکے دو تیر انداز بلائے انہیں کہا کہ میرے اشارے پر لڑکیوں کی آنکھوں کے درمیان ایک ایک تیر چلا دیں اور گھوڑ سوار گھوڑے کو ایڑی لگا دے گھوڑے کے پیچھے سوڈانی بندھا ہوا زمین پر پڑا تھا اسے معلوم تھا کہ گھوڑا دوڑے گا تو اس کا کیا حشر ہوگا تیر اندازوں نے ایک ایک تیر کمانوں میں ڈال لیا اور گھوڑ سوار نے باگیں تھام لیں عطاالہاشم نے سوڈانی لڑکیوں اور آدمی سے کہا میں تم تینوں کو صرف ایک بار کہوں گا کہ اپنی اصلیت بتا دو جس مقصد کے لیے آئے ہو، صاف بتا دو ورنہ اپنے انجام کے لیے تیار ہو جاؤ
خاموشی طاری ہوگئی لڑکیوں نے گھوڑے کے پیچھے بندھے ہوئے اپنے ساتھی کو دیکھا وہ بھی خاموش تھا۔ انہوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں آپس میں مشورہ کرلیا سوڈانی نے کہا کہ وہ اپنا آپ ظاہر کردے گا عطاالہاشم اس کے پاس بیٹھ گیا اور کہا کہ وہ سچ بولے گا تو اسے کھولا جائے گا۔ اس آدمی نے کہا او پتھر دل انسان! تیرے پاس اتنی خوبصورت لڑکیاں لایا ہوں اور تو انہیں تیروں کا نشانہ بنا رہا ہے انہیں اپنے پاس رکھ اور اپنے دستے کو سمیٹ کر یہاں سے چلا جا۔ اگر یہ قیمت تھوڑی ہے تو اپنی قیمت بتا سونے کے سکے مانگ کچھ اور مانگ۔ شام سے پہلے لادوں گا
عطا الہاشم اٹھا اور سوار سے کہا گھوڑا دلکی چال پندرہ بیس قدم چلاؤ 
گھوڑا چل پڑا۔ چند قدم آگے گیا تو سوڈانی بلبلا اٹھا عطاالہاشم نے کہا ”رک جاؤ” گھوڑا رکا تو عطاالہاشم نے اس کے پاس جاکر کہا کہ وہ سیدھی باتیں کرنے پر آجائے وہ مان گیا اس نے بتا دیا کہ وہ سوڈانی جاسوس ہے اور صلیبیوں نے اسے ٹریننگ دی ہے لڑکیوں کے متعلق اس نے بتایا کہ مصر کی پیدائش ہیں اور صلیبیوں نے انہیں تخریب کاری کے فن کا ماہر بنا رکھا ہے عطاالہاشم نے اس کے پاؤں کھول دیئے اور اسے اپنے پاس بٹھا کر باتیں پوچھیں اس نے بتایا کہ اسے یہ کام دیا گیا ہے کہ سوڈان میں پھیلے ہوئے مسلمان کمانڈروں کو لڑکیوں یا سونے چاندی کا چکمہ دے کر انہیں اور ان کے سپاہیوں کو ختم یا قید کرادیا جائے یا انہیں اپنے ہاتھ میں لیا جائے اس نے بتایا کہ عطاالہاشم نے رسد کا راستہ ایسی خوبی سے محفوظ کر رکھا تھا کہ صلیبی اور سوڈانی چھاپہ ماروں کا جانی نقصان بھی ہوا اور رسد بھی نکل گئی اسے یہ مشن دے کر بھیجا گیا تھا کہ عطاالہاشم کو ان لڑکیوں سے اندھا کرکے اسے قتل کردے یا اسے ایسے پھندے میں لے آئے کہ اسے قتل یا قید کرلیا جائے اور اگر وہ ایمان کا کچا ثابت ہوا تو اسے اپنے ساتھ ملا لیا جائے گا یہ سوڈانی حیران تھا کہ عطاالہاشم نے اتنی خوبصورت لڑکیوں کو قبول نہیں کیا۔ اس نے جب عطاالہاشم سے پوچھا کہ اس نے لڑکیوں اور زرد جواہرات کی پیشکش کو کیوں ٹھکرا دیا ہے تو عطاالہاشم نے مسکرا کر کہا۔ کیونکہ میں ایمان کا کچا نہیں
عطاالہاشم نے لڑکیوں کو بھی اپنے پاس بلا لیا زیادہ باتیں کرنے والی نے پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک ہوگا عطاالہاشم نے بتایا کہ انہیں وہ کل صبح اپنے ہیڈکوارٹر میں سالار اعلیٰ تقی الدین کے پاس لے جائے گا یا بھیج دے گا اس نے سوڈانی کو لڑکیوں سمیت اس ہدایت کے ساتھ اپنے آدمیوں کے حوالے کردیا کہ انہیں الگ الگ رکھا جائے ان کی تلاشی لی گئی تینوں کے پاس ایک ایک خنجر تھا آدمی کے پاس ایک پوٹلی تھی جس میں حشیش بندھی ہوئی تھی
سورج غروب ہونے والا تھا جب اس کے دستے کی ایک ٹولی واپس آگئی اس نے ٹولی کو کچھ دور تک پھیلا دیا اس نے ہر کسی کو بتا دیا کہ یہ تینوں جاسوس اور تخریب کار ہیں ہوسکتا ہے ان کے ساتھیوں کو معلوم ہوکہ یہ یہاں ہیں اور انہیں چھڑانے کے لیے حملہ کریں ان انتظامات کے بعد وہ آرام کے لیے لیٹ گیا وہ جگہ نشیب وفراز کی تھی اس نے لیٹنے سے پہلے دیکھ لیا تھا کہ اس کے سپاہیوں نے لڑکیوں اور مرد کو کس طرح لٹایا ہے وہ خود ایک ٹیلے کے ساتھ لیٹا جہاں وہ اپنے سپاہیوں کو نہیں دیکھ سکتا تھا اس کی آنکھ لگ گئی کچھ دیر بعد اس کی آنکھ کھل گئی اس کے ذہن میں یہ دو لڑکیاں آگئیں وہ اس سوچ میں کھو گیا کہ یہ کتنی خوبصورت اور بظاہر کیسی معصوم سی لڑکیاں ہیں اور ان سے کتنا غلیظ اور کتنا خطرناک کام کرایا جارہا ہے اگر یہ کسی مسلمان گھرانے میں پیدا ہوئی ہوتیں تو کسی باعزت گھرانے میں دلہنیں بن کر جاتیں اسے اپنی بیوی یاد آگئی جو دلہن بن کر اس کے گھر آئی تھی تو انہی کی طرح جوان اور دلکش تھی اپنی بیوی کی یاد اسے رومان انگیز تصورت میں لے گئی اس ویران صحرا میں جہاں وہ موت کے ساتھ آنکھ مچولی کھیل رہا تھا ان تصوروں نے اس پر نشہ طاری کردیا میدان جنگ میں سپاہی ایسے ہی تصوروں اور بڑی ہی دلکش یادوں سے دل بہلایا کرتے ہیں
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
چاندنی نکھر آئی تھی صحرا کی چاندنی بڑی ہی شفاف اور خنک ہوا کرتی ہے اس کی خنکی میں ایسا تاثر ہوتا ہے جو ذہن اور دل سے موت کے خوف کو دھو ڈالتا ہے عطاالہاشم اٹھا اور اس انداز سے خراماں خراماں اس جگہ گیا جہاں لڑکیاں سوئی ہوئی تھیں جیسے وہ حفاظتی انتظام کا معائنہ کرنے جارہا ہو وہ اکٹھی سورہی تھیں ان کے اردگرد سپاہی سوئے ہوئے تھے سوڈانی آدمی کچھ دور تین سپاہیوں کے نرغے میں سویا ہوا تھا عطاالہاشم نے ایک لڑکی کے پاؤں کو اپنے پاؤں سے دبایا۔ لڑکی کی آنکھ کھل گئی عطاالہاشم کو چاندنی میں پہچان کر وہ اٹھ بیٹھی۔ عطاالہاشم نے اسے اٹھنے اور ساتھ چلنے کا اشارہ کیا۔ لڑکی اس مسرت کے ساتھ اٹھی کہ اس پتھر جیسے کمانڈر پر اس کی جواں نسوانیت کا جادو چل گیا ہے وہ اس کے ساتھ چل پڑی عطاالہاشم نے دیکھا کہ اس کے سپاہی کیسی بے ہوشی کی نیند سوئے ہوئے ہیں کہ انہیں یہ خبر بھی نہیں کہ کوئی آدمی ان کے درمیان سے لڑکی کو اٹھا کر لے جارہا ہے اسے اپنے سپاہیوں پر غصے کے بجائے ترس آگیا جو ایک غیر یقینی سے جنگ لڑرہے تھے کسی باقاعدہ کمان اور کنٹرول کے باوجود وہ نظم وضبط کی پابندی کررہے تھے

لڑکی کو وہ اپنی جگہ لے گیا لڑکی کے سر پر اب اوڑھنی نہیں تھی چاندنی اس کے بکھرے ہوئے بالوں کو سونے کے تاروں کا رنگ دے رہی تھی وہ کچھ دیر لڑکی کو دیکھتا رہا اور لڑکی اسے دیکھتی رہی لڑکی نے نشیلی سے آواز میں مسکرا کر کہا میں حیران ہوں کہ آپ ڈر کیوں رہے ہیں
مجھے آپ کے پاس آپ ہی کے لیے لایا گیا ہے کیا آپ میری ضرورت محسوس نہیں کرتے؟
وہ اسے چپ چاپ دیکھتا رہا جیسے بت بن گیا ہو لڑکی نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ہونٹوں کے ساتھ لگا لیا اور بولی میں جانتی ہوں آپ نے مجھے کیوں بلایا ہے آپ کیا سوچ رہے ہیں؟
میں سوچ رہاں ہوں کہ تمہارا باپ میری طرح کا ایک مرد ہوگا عطاالہاشم نے اس کے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑا کر کہا میں بھی باپ ہوں ہم دونوں باپوں میں زمین اور آسمان جتنا فرق ہے وہ باپ کتنا بے غیرت ہے اور میں ہوں کہ غیرت کی پاسبانی کے لیے اپنے بچوں کو یتیم کرنے کی کوشش کر رہا ہوں
میرا کوئی باپ نہیں لڑکی نے کہا دیکھا ہوگا اس کی صورت یاد نہیں
مرگیا تھا؟
یہ بھی یاد نہیں
اور ماں؟
کچھ بھی یاد نہیں لڑکی نے کہا یہ بھی یاد نہیں کہ میں کس گھر میں پیدا ہوئی تھی یا کسی خانہ بدوش کے خیمے میں مگر یہ وقت ایسی بے مزہ باتیں کرنے کا نہیں
ہم سپاہی یادوں سے مزے حاصل کیا کرتے ہیں عطاالہاشم نے کہا میں چاہتا ہوں کہ تمہارے ذہن میں بھی تمہارے ماضی کی چند ایک یادیں تازہ کردوں
میں خود ایک حسین یاد ہوں لڑکی نے کہا جس کے ساتھ تھوڑا سا وقت گزار جاتی ہوں وہ ہمیشہ یاد رکھتا ہے میری اپنی کوئی یاد نہیں اپنے آپ کو حسین نہیں ایک غلیظ یاد کہو عطاالہاشم نے کہا مجھے تمہارے جسم سے صلیبیوں کے سوڈانیوں کے مسلمانوں کے اور بڑے ہی غلیظ انسانوں کے گناہوں کی بو آرہی ہے تم میرے قریب آؤ گی تو مجھے متلی آجائے گی تمہیں کوئی مرد یاد نہیں رکھتا تم جیسی لڑکیوں کے شکاری آج یہاں اور کل وہاں ہوتے ہیں دوسرا شکار مل جاتا ہے تو پہلے کو بھول جاتے ہیں
تمہارا یہ حسن چند دنوں کا مہمان ہے تم میری قید میں ہو میں تمہارا یہ چہرہ اسی وقت سزا کے طور پر زخمی کرکے ہمیشہ کے لیے مکروہ بنا سکتا ہوں مگر ایسی ضرورت نہیں یہ صحرا شراب حشیش اور بدکاری تمہیں سال کے اندر اندر مرجھایا ہوا پھول بنا دے گی جسے لوگ اٹھا کر باہر پھینک دیتے ہیں یہ صلیبی اور یہ سوڈانی تمہیں بھیک مانگنے کے لیے باہر نکال دیں گے تم بڑے ہی گھٹیا انسانوں کے لیے تفریح کا ذریعہ بن جاؤ گی میری ایک بیٹی ہے جو تم سے دو تین سال چھوٹی ہوگی اس کی شادی ایک باعزت جوان کے ساتھ ہوگی جو میری طرح کمر سے تلوار لٹکا کر بڑی اچھی نسل کے گھوڑے پر سوار ہوا کرے گا وہ میری طرح میدان جنگ کا شہزادہ ہوگا میری بیٹی دلہن بنے گی اپنے خاوند کے دل میں اور اس کے گھر میں راج کرے گی لوگ میری بیٹی کو ایک نظر دیکھنا چاہیں گے مگر دیکھ نہیں سکیں گے میں بھی اس پر فخر کیا کروں گا اور اس کا خاوند اس کے ساتھ اتنی محبت کرے گا کہ وہ بوڑھی ہوجائے گی تو بھی محبت ختم نہیں ہوگی بڑھے گی تمہیں دیکھنے کے لیے کوئی بھی بیتاب نہیں ہوتا کیونکہ تم ایک ننگا بھید ہو تمہاری عزت کسی کے دل میں نہیں اور کوئی بھی نہیں جو تمہیں محبت کے قابل سمجھے گا
آپ میرے ساتھ ایسی باتیں کیوں کر رہے ہیں؟
لڑکی نے ایسی آواز میں پوچھا جو اس کی اپنی نہیں لگتی تھی میں تمہیں یہ بتانا چاہتا ہوں کہ تم جیسی بیٹیاں مقدس ہوتی ہیں عطاالہاشم نے جواب دیا ہم مسلمان لوگ بیٹی کو اللہ کا پیغام سمجھتے ہیں اگر تم عصمت اور مذہب کے معنی سمجھ لو تو تم پر اللہ کی رحمت برس جائے گی مگر تم سمجھ نہیں سکو گی کیونکہ تم اس محبت سے واقف نہیں جو روح کی گہرائیوں تک پہنچا کرتی ہے تم بدنصیب ہو تم نے مردوں کی ہوس دیکھی ہے محبت نہیں دیکھی
عطاالہاشم آہستہ آہستہ بولتا رہا اس کے لب ولہجے اور انداز کا اپنا ایک تاثر تھا لیکن لڑکی اس پر حیران ہو رہی تھی کہ یہ بھی دوسرے مردوں کی طرح مرد ہے مگر اس نے اس کے حسن کو ذرہ بھر اہمیت نہیں دی عطاالہاشم جذباتی لحاظ سے پتھر بھی نہیں تھا وہ تو سرتاپا جذبات میں ڈوبا ہوا تھا لڑکی نے بیتاب سا ہوکر کہا آپ کی باتوں میں ایسا نشہ اور خمار ہے جو میں نے شراب اور حشیش میں نہیں پایا مجھے آپ کی کوئی بھی بات سمجھ نہیں آ رہی لیکن ہر ایک بات دل میں اترتی جارہی ہے لڑکی ذہین تھی اس قسم کی تخریب کاری کے لیے ذہین ہونا لازمی تھا مردوں کو انگلیوں پر نچانے کی اسے بچپن سے ٹرینگ دی گئی تھی مگر اس مرد نے اس ناگن کا زہر ملا دیا اس نے عطاالہاشم سے بہت سی باتیں پوچھیں جن میں کچھ مذہب سے تعلق رکھتی تھیں اس کے لہجے اور انداز میں اب پیشہ وارانہ اداکاری نہیں رہی تھی وہ اپنے قدرتی رنگ میں باتیں کررہی تھی اس نے پوچھا مجھے آپ لوگ کیا سزا دیں گے؟
میں تمہیں کوئی سزا نہیں دے سکتا عطاالہاشم نے کہا کل صبح تمہیں اپنے سالار اعظم کے حوالے کردوں گا
وہ میرے ساتھ کیا سلوک کرے گا؟
جو ہمارے قانون میں لکھا ہے
آپ مجھ سے نفرت کرتے ہیں؟
نہیں
میں نے سنا ہے کہ مسلمان ایک سے زیادہ بیویاں رکھتے ہیں لڑکی نے کہا اگر آپ مجھے اپنی بیوی بنا لیں تو میں آپ کا مذہب قبول کرکے ساری عمر آپ کی خدمت کروں گی میں تمہیں بیٹی بنا سکتا ہوں بیوی نہیں عطاالہاشم نے کہا کیونکہ تم میرے ہاتھوں میں مجبور ہو تم میری پناہ میں بھی ہو اور میری قید میں بھی
وہ باتوں میں مصروف تھے لڑکی کا ساتھی مرد تین سپاہیوں کے نرغے میں لیٹا ہوا تھا مگر وہ جاگ رہا تھا اس نے عطاالہاشم کو دیکھ لیا تھا کہ وہ لڑکی کو جگا کر لے گیا ہے وہ خوش تھا کہ لڑکی عطاالہاشم کو چکمہ دے کر قتل کردے گی یا اسے یہاں سے کہیں دور لے جائے گی وہ لیٹا ہوا لڑکی کی واپسی کا انتظار کرتا رہا بہت دیر بعد اس نے سپاہیوں کو دیکھا وہ بے ہوش ہوکے سوئے ہوئے تھے انہیں بے ہوش ہونا ہی تھا کیونکہ اس سوڈانی نے شام کے بعد ان سپاہیوں کے ساتھ گپ شپ شروع کردی تھی اور انہیں ہنستے کھیلتے حشیش پلا دی تھی اس حشیش کی ایک پوٹلی تو برآمد کرلی گئی تھی لیکن اس نے تھوڑی سی حشیش اپنے چغے میں کہیں رکھی تھی وہاں نکال کر اس نے تین سپاہیوں کو پلا دی وہ چونکہ اس نشے کے عادی نہیں تھے اس لیے بے ہوشی کی نیند سوگئے یہ سوڈانی رات کو بھاگنے کے جتن کررہا تھا
اس نے دیکھا کہ لڑکی عطاالہاشم کے پاس بیٹھی ہوئی ہے اور بہت دیر گزر گئی ہے تو وہ سمجھا کہ لڑکی اس مسلمان کمانڈر کو دور نہیں لے جاسکی لہٰذا اس شخص کو یہیں ختم کردیا جائے وہ واپس گیا اور سوئے ہوئے سپاہیوں میں سے ایک کی کمان اور ترکش میں سے تین چار تیر لے آیا راستے میں چند فٹ اونچی جگہ تھی جس کی اوٹ میں وہ عطاالہاشم کو نظر نہیں آسکتا تھا وہ اس لیے بھی نظر نہیں آسکتا تھا کہ اس طرف عطاالہاشم کی پیٹھ تھی لڑکی کا منہ ادھر ہی تھا لیکن وہ اپنے آدمی کو دیکھ نہیں سکی تھی وہ آدمی تیروکمان لے کر آیا تو لڑکی کو چاندنی میں اس کا سر اور کندھے نظر آئے پھر اسے کمان نظر آئی عطاالہاشم اپنی موت سے بے خبر بیٹھا تھا اس کا خنجر نیام میں پڑا ہوا تھا اور نیام قریب ہی رکھی تھی لڑکی نے نیام اٹھا کر خنجر نکال لیا عطاالہاشم جھپٹ کر اس سے خنجر چھیننے ہی لگا کہ لڑکی نے نہایت تیزی سے گھٹنوں کے بل ہوکر اپنے آدمی کی طرف پوری طاقت سے خنجر پھینکا
فاصلہ چند گز تھا ادھر سے آہ کی آواز سنائی دی خنجر سوڈانی کی شہ رگ میں اتر گیا تھا اور اس نے زخمی ہوتے ہی تیر چلا دیا تھا نشانہ چونک جانا ضروری تھا تیر کا زناٹہ عطاالہاشم کے قریب سے گزرا اور دھک کی آواز سنائی دی اس نے دیکھا کہ تیر لڑکی کے سینے میں اتر گیا تھا وہ دوڑ کر اس کی طرف گیا جس طرف خنجر گیا اور تیر آیا تھا وہاں سوڈانی اپنی شہ رگ سے خنجر نکال رہا تھا اس نے خنجر نکال لیا اور اٹھا اس خطرے کے پیش نظر کہ وہ حملہ کرے گا عطاالہاشم نے اچھل کر اس کے پہلو میں دونوں پاؤں جوڑ کر مارے سوڈانی دور جا پڑا عطاالہاشم بھی گرا اور فوراً اٹھ کھڑا ہوا سوڈانی نہ اٹھ سکا اس کی شہ رگ سے خون ابل ابل کر نکل رہا تھا عطاالہاشم نے خنجر اٹھایا اور لڑکی کے پاس گیا لڑکی سینے میں اپنے ہی ساتھی اور محافظ کا تیر لیے اطمینان سے پڑی تھی وہ ابھی زندہ تھی تیر نکالنے کا کوئی انتظام نہیں تھا
لڑکی نے عطاالہاشم کا ہاتھ پکڑ لیا اور کراہتی ہوئی آواز میں بولی میں نے تمہاری جان بچائی ہے اس کے عوض اپنے خدا سے کہنا کہ میری روح کو اپنی پناہ میں لے لے میرے جسم کی طرح میری روح بھی ان صحراؤں میں نہ بھٹکتی رہے میری عمر گناہوں میں گزری ہے مجھے یقین دلاؤ کہ خدا اس ایک نیکی کے بدلے میرے سارے گناہ بخش دے گا میرے سر پر اسی طرح ہاتھ پھیرو جس طرح اپنی بیٹی کے سر پر پھیرا کرتے ہو
عطاالہاشم نے اس کے سر پر ہاتھ پھیر کر کہا اللہ تیرے گناہ بخش دے تجھ سے گناہ کروائے گئے ہیں تو بے گناہ ہے تجھے کسی نے نیکی کی روشنی دکھائی ہی نہیں
لڑکی نے درد کی شدت سے کراہتے ہوئے عطاالہاشم کا ہاتھ بڑی مضبوطی سے پکڑ لیا اور بڑی تیزی سے بولنے لگی اس نے کہا یہاں سے تین کوس دور سوڈانیوں کا ایک اڈا ہے وہ لوگ آپ سب کو ختم کرنا چاہتے ہیں اور غور سے سنو آپ کی فوج اتنی زیادہ پھیل گئی ہے کہ اس کی قسمت میں اب موت یا قید ہے آپ کے ہر ایک کمانڈر اور ہر ایک ٹولی کے پیچھے مجھ جیسی لڑکیاں یا مرد لگے ہوئے ہیں میں اس لڑکی کے ساتھ آپ کے چار کمانڈروں کو پھانس کر ختم کراچکی ہوں مصر کی فکر کرو صلیبیوں نے وہاں بڑے ہی خطرناک اور خوبصورت جال بچھا دیئے ہیں آپ کی قوم اور فوج میں ایسے مسلمان حاکم موجود ہیں جو صلیبیوں کے تنخواہ دار جاسوس اور ان کے وفادار ہیں انہیں مجھ جیسی لڑکیاں اور بے پناہ دولت دی جارہی ہے مصر کو بچاؤ سوڈان سے نکل جاؤ اپنے غداروں کو پکڑو میں کسی کا نام نہیں جانتی جو معلوم تھا بتا دیا ہے آپ پہلے مرد ہیں جس نے مجھے بیٹی کہا ہے آپ نے مجھے باپ کا پیار دیا ہے میں اس کا معاوضہ یہی دے سکتی ہوں کہ آپ کو خطروں سے آگاہ کردوں اپنے بکھرے ہوئے دستے کو اکٹھا کرلو اور حملہ روکنے کے لیے تیار ہو جاؤ دو تین دنوں میں آپ پر حملہ ہوگا فاطمیوں اور فدائیوں سے بچو انہوں نے مصر میں بہت سے ایسے حاکموں کے قتل کا منصوبہ تیار کرلیا ہے جو صلاح الدین ایوبی اور اپنی قوم کے وفادار ہیں
لڑکی کی آواز ڈوبتی اور رکتی گئی اور ایک لمبے سانس کے بعد وہ ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی صبح طلوع ہوئی تو عطاالہاشم دونوں لاشوں اور زندہ لڑکی کو ساتھ لے کر تقی الدین کے پاس کے پاس چلا گیا اسے سارا واقعہ سنایا اور لڑکی کی آخری باتیں بھی سنائیں تقی الدین پہلے ہی پریشان تھا وہ سٹپٹا اٹھا اس نے کہا اپنے بھائی کی اجازت اور ہدایت کے بغیر میں پسپا نہیں ہونا چاہتا میں نے ایک ذمہ دار ذہین کمانڈر کو کرک بھیجا ہے اس کی واپسی تک ثابت قدم رہو...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی