⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 18👇




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➑➊】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ابو عبیدہ کو شارینا کے خاوند حدید بن مومن خزرج سے پہلے ہی پتہ چل چکا تھا کے انتھونیس اور روتاس نے ان قبائلیوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے تیار کیا تھا۔ حدید نے سپہ سالار کو یہ بھی بتایا تھا کہ ہرقل کی ایک بیوی اور اس کا نوجوان بیٹا بھی فرار ہو کر یہاں آ گئے تھے حدید کو یہ ساری باتیں شارینا نے بتائی تھی۔
اللہ اکبر،،،،، اللہ اکبر ،،،،،،سپہ سالار ابوعبیدہ نے کہا،،،، سلطنت روم ایک تناور درخت تھا اب دیکھو اس کی ٹہنیاں کس طرح ٹوٹ ٹوٹ کر گر رہی ہیں، ایک رومی جرنیل باغی ہو کر ادھر آ گیا قیصر روم کی اپنی ایک بیوی اپنے بیٹے کے ساتھ اس جرنیل کے ساتھ آگئی یہ لوگ یہاں اپنی سلطنت کی بنیاد رکھنے آئے تھے۔
اللہ کے اس اشارے کو سمجھو کی سلطنت روم کا تناور درخت اب اسی طرح ٹہنی ٹہنی ہوکر بکھر جائے گا اور زمین اس کی جڑوں کو پانی سے محروم کر دے گی۔
سپہ سالار ابوعبیدہ کچھ دن حلب میں گزار کر واپس حمص چلے گئے اور انہوں نے شام کے مختلف علاقے مختلف سالاروں کے سپرد کر دیے اور کہا کہ ان کے سرکاری انتظامات جزیہ اور دیگر محصولات کی وصولی کا نظام روا کیا جائے اس طرح شام کے حالات معمول پر آگئے۔
حلب اور انطاکیہ کے درمیان تقریبا 455 میل فاصلہ ہے، اس دور میں یہ تمام علاقہ کچھ اس طرح ہوا کرتا تھا کہ زیادہ تر جنگلات چٹانیں تھیں اور تھوڑا سا علاقہ ریگستانی تھا ۔
انطاکیہ بحیرہ روم کے ساحل پر واقع ہے اور تاجروں کے بحری جہاز یہیں آتے اور یہیں سے سامان وغیرہ لاد کر واپس جایا کرتے تھے۔ مصر میں تاجروں کے لیے اسکندریہ بندرگاہ تھی ۔اس تمام علاقے پر اب مجاہدین اسلام کا تسلط ہوگیا تھا ۔
اس علاقے میں عیسائیوں کے دو تین قبیلے آباد تھے اور ان کی بستیاں ایک دوسرے سے دور دور تھیں۔
حلب کی فتح کے بہت دنوں بعد انطاکیہ سے حلب آنے والے اور حلب سے انطاکیہ جانے والے لوگوں نے بتایا کہ اس علاقے میں ایک چڑیل یا بد روح بھٹکتی پھر رہی ہے، لوگوں نے بتایا کہ وہ کسی وقت چیختی اور چلاتی ہے اور کچھ کہتی بھی ہے جو کسی کو بھی سمجھ نہیں آتی لوگ اس کی آواز سن کر دور بھاگ جاتے تھے۔
کوئی جھوٹ بولتا کہ اس نے چڑیل یا بدروح دیکھی ہے، یا اس نے کہیں جنات کو بیٹھے دیکھا ہے، تو لوگ بلا چوں چرا سچ مان لیتے تھے ،حلب اور انطاکیہ کے درمیانی علاقے کی چڑیل کی آوازیں تو بہت سے لوگوں نے سنی تھی ان خبروں کی تردید کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
ایک روز ایک مسافر حلب میں داخل ہوا۔ اور سرائے میں ٹھہرا ، اس پر خوف و ہراس طاری تھا اور اس کے منہ سے ٹھیک طرح بات بھی نہیں نکلتی تھی ، سرائے میں ہر کسی نے محسوس کرلیا کہ اس نے راستے میں کوئی خوف ناک یا پراسرار چیز دیکھی ہے، وہ اس کی حوصلہ افزائی کرنے لگے اور اسے کہا کہ وہ سب کو بتا دے کہ وہ کیا دیکھا ہے تاکہ کوئی اور مسافر اس راستے سے نہ گزرے۔
اس نے سنایا کہ وہ اپنی بستی سے حلب کی طرف خچر پر سوار چلا آرہا تھا ،اسے ذرا قریب سے آوازیں سنائی دیں، میں اس کا خون پی لوں گی، اس نے میرا خون بہایا ہے ،اس کے بعد اس مسافر کو چیخیں سنائی دی آواز بلاشک و شبہ عورت کی تھی۔
ایک تو جنگل گھنا تھا اور اس میں ٹیکریاں بھی تھی اس لئے کچھ نظر نہیں آتا تھا کہ یہ کون ہے ؟ اور کیا یہ انسان ہے یا کوئی پراسرار مخلوق ؟ اس کے دل پر خوف طاری ہو گیا اور خچر کو ایڑ لگائی کے تیز چلے مگر وہ گھوڑا نہیں خچر تھا خچر کو جتنی بھی ایڑ لگاؤ مارو پیٹو وہ ذرا سا تیز چلنے لگتا ہے لیکن گھوڑے کی طرح سرپٹ نہیں دوڑتا۔
اس مسافر کا راستہ ٹیکری میں سے گزرتا ایک ٹیکری سے قریب مڑتا تھا، وہ وہاں سے مڑا تو اچانک ایک نوجوان لڑکی اس کے راستے میں آ گئی اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اس کا چہرہ بجھا بجھا سا تھا بہت ہی خوبصورت تھی کپڑے کئی جگہوں سے پھٹے ہوئے تھے۔
مسافر کو خیال آیا کہ اس جنگل میں اس لڑکی کا کیا کام ہو سکتا ہے یہ کسی مری ہوئی لڑکی کی بد روح ہوگی یا چڑیل جو انسان کے روپ میں آگئی تھی۔
مسافر نے اس سے یہ نہ پوچھا کہ وہ کون ہے؟ انسان ہے یا آسمان سے آئی ہوئی کوئی مخلوق ہے۔ اس نے دلی طور پر یقین کر لیا کہ یہ بد روح یا چڑیل ہے ، وہ خوف سے لرز اٹھا اور اس چڑیل کے آگے دو زانو ہو کر ہاتھ جوڑے۔
میں غریب مسافر ہوں ۔۔۔۔اس نے چڑیل یا بدروح سے التجا کی۔۔۔ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں، ان کا پیٹ پالنے کے لئے دربدر خوار ہوتا پھر رہا ہوں ،مجھے بتا کہ میں تیری کیا خدمت کر سکتا ہوں ؟میری جان بخشی کردے۔
چڑیل نے کوئی بات نہ کی وہ خچر تک گئی زین کے ساتھ ایک تھیلا بندھا ہوا تھا جس میں مسافر کا کھانے پینے کا سامان تھا ، اور تھیلے کے ساتھ چھوٹا سا پانی کا مشکیزہ بھی تھا ۔چڑیل نے تھیلا بھی اتار لیا اور مشکیزہ بھی ،وہ دوزانو بیٹھے مسافر کے سامنے آکر رک گئی۔
ہرقل کہاں ہے؟ ۔۔۔۔چڑیل نے پوچھا ۔
میں صحیح جواب نہیں دے سکوں گا ۔۔۔مسافر نے ہانپتی کانپتی آواز میں کہا ۔۔۔اتنا ہی جانتا ہوں کہ ہرقل مسلمانوں سے شکست کھا کر ملک شام سے بھاگ گیا ہے۔
کہاں گیا ہے میں یہ نہیں بتا سکتا یہ کہہ سکتا ہوں کہ وہ مصر گیا ہوگا مصر میں اسکی بادشاہی ہے اور سنا ہے کہ اسکندریہ میں اس کا محل ہے اور وہ وہیں رہتا ہے۔
میں اس کا خون پینے جا رہی ہوں ۔۔۔چڑیل نے دانت پیس کر کہا۔۔۔ اس نے میرا خون بہایا ہے اس نے مجھے قتل کروایا ہے تمھیں معلوم ہے کہ وہ کہاں ہے تو بتا دو ورنہ تمھارا خون پی لوں گی۔
میرے بچوں پر یہ ظلم نہ کرنا۔۔۔ مسافر نے روتے ہوئے کہا ۔۔۔میں غریب آدمی بادشاہوں کے بارے میں بتانے سے معذور ہوں اگر تم خدا کو مانتی ہو تو اسی کے نام پر میری جان بخشی کر دو۔
مسافر نے سرائے میں سنایا کہ چڑیل نے تھیلا اور مشکیزہ اٹھایا اور ایک طرف کو چل دی۔ مسافر اسے دیکھتا رہا اور وہ ٹیکری کے اوٹ میں چلی گئی مسافر خچر پر سوار ہوا اور حلب کی طرف چل پڑا۔
کچھ ہی دنوں بعد انطاکیہ میں ایسے ہی دو مسافر پہنچے ان کی حالت بھی اسی مسافر جیسی ہو رہی تھی وہ خوف و ہراس میں مبتلا تھے وہ لوگوں کو بتاتے جارہے تھے کہ فلاں راستے سے کبھی نہ گزرنا کیونکہ وہاں ایک چڑیل یا کسی مقتول لڑکی کی بدروح گھومتی پھرتی اور چیختی چلاتی رہتی ہے۔
انہوں نے چڑیل کا وہی حلیہ بتایا جو حلب پہنچنے والے مسافر نے بتایا تھا ۔ان سے بھی چڑیل نے کھانے پینے کی اشیاء لے لی تھی اور جنگل میں غائب ہو گئی تھی، ان سے بھی اس نے ہرقل کے متعلق پوچھا تھا کہ وہ کہاں ہے؟ انہوں نے بھی اسے بتایا تھا کہ وہ شام سے شکست کھا کر بھاگ گیا اور اسکندریہ چلا گیا ہوگا۔
چڑیل نے انہیں بھی کہا تھا کہ وہ ہرقل کا خون پینے جا رہی ہے اور اس نے یہ بھی کہا تھا کہ ہرقل نے میرا خون بہا دیا تھا۔
یہ بات سن کر لوگوں نے پورے یقین کے ساتھ کہہ دیا کہ یہ کوئی ایسی لڑکی کی بھٹکتی ہوئی روح ہے جسے ہرقل نے قتل کروایا ہوگا یہیں سے یہ خیال پیدا ہوا کہ یہ چڑیل نہیں بد روح ہے۔
ایسی شہادت کہیں سے بھی نہیں ملی کہ اس نے کسی انسان کو ذرا سا بھی نقصان پہنچایا ہو یا کسی کو پریشان کیا ہو سوائے اس کے کہ جس مسافر کے بھی سامنے آتی تھی اس سے کھانے پینے کا سامان لے لیتی تھی۔
اس علاقے میں جو قبائلیوں کی چھوٹی بڑی بستیاں تھیں ان میں رہنے والوں نے بھی اس کی پکار اور چیخ سنی لیکن وہ کبھی کسی بستی میں داخل نہ ہوئی لوگوں نے شام کے بعد گھروں سے نکلنا چھوڑ دیا تھا ،وہ صرف مسافروں کو نظر آتی اور انہیں روکتی تھی، اسے جتنے بھی مسافروں نے دیکھا سب نے ایک جیسا ہی حلیہ بتایا اور کہا کہ بگڑے ہوئے حالات سے صاف پتہ چلتا ہے کہ وہ نوجوان ہے اور بہت ہی خوبصورت ہے۔
مسافروں نے اس کے متعلق جو خبریں ادھر ادھر پہنچائیں ان سے یہ اندازہ ہوتا تھا کہ وہ انطاکیہ کی طرف جا رہی ہے ۔
انطاکیہ پر بھی مسلمانوں کا قبضہ ہوچکا تھا تاریخ سے یہ پتہ نہیں چلتا کہ اس وقت انطاکیہ کون سے سالار کے سپرد کیا گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ بدروح تھی، یا چڑیل، یا کوئی پاگل لڑکی تھی، انطاکیہ کے مضافات میں جا پہنچی، لوگوں تک اس کی خبریں پہلے ہی پہنچ گئی تھی اس لیے لوگوں کو جب پتہ چلا کہ وہ قریب آگئی ہے تو ان پر خوف و ہراس طاری ہوگیا خوف و ہراس بھی ایسا کے بعض مسافر اپنا سفر ملتوی کردیتے تھے۔
ایک روز تین چار آدمی جو انطاکیہ کے غیر مسلم باشندے تھے مسلمانوں کے سالار کے پاس گئے اور کہا کہ ایک عرصے سے ایک چڑیل یا بدروح کی خبریں سن سن کر لوگوں پر ایسا ڈراؤنا اثر ہوا ہے کہ شام کے بعد کوئی گھر سے باہر نہیں نکلتا اور سفر بھی پرخطر ہو گیا ہے۔
ہم اسلام کے بارے میں کچھ سن کر آئے ہیں۔ اس وفد کے سردار نے کہا۔۔۔ ہم جانتے ہیں کہ چڑیل ، یا بدروح، یا جنات کے سامنے انسان بالکل بے بس اور مجبور ہوتا ہے کوئی انسان ان کا مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن کسی نے بتایا ہے کہ اسلام کے بعض عالموں کے پاس ایسی طاقت ہوتی ہے جو ان پر اسرار اور پرخطر چیزوں پر قابو پا لیتے ہیں ۔
یہ دراصل شہریوں کی طرف سے بھیجا ہوا وفد تھا اور شہریوں کی درخواست یہ تھی کہ مسلمانوں کے پاس اگر کوئی ایسی طاقت ہے تو اس چڑیل یا بدروح سے نجات دلائی جائے۔
ہاں تم نے ٹھیک سنا ہے ۔۔۔سالار نے کہا ۔۔۔اسلام میں ایسی طاقت ہے کہ جنات چڑیلوں اور بدروحوں پر قابوپایا جاسکتا ہے ،اس طاقت کا راز یہ ہے کہ جو مر جاتا ہے وہ واپس نہیں آتا نہ حقیقی روپ میں نہ بدروح کے روپ میں، اسلام ایک حقیقت پسند مذہب ہے جو بدروحوں اور چڑیلوں کو نہیں مانتا ،اسلام قبول کرو یہ طاقت تم میں بھی پیدا ہو جائے گی پھر تم بھی چڑیل کا سامنا کر کے دلیری سے پوچھو گے کہ تم کون ہو؟
سالار نے محسوس کیا کہ یہ علمی باتیں ہیں اور یہ دین اسلام کی باریک مسائل ہیں جو یہ لوگ ابھی نہیں سمجھ سکیں گے۔
سالار نے اپنے محافظ دستے کے کماندر کو بلایا اور اس کو یہ کام سونپا کے وہ اپنے ساتھ جتنے بھی آدمی لے جانا چاہے لے جائے اور دیکھے کہ چڑیل یا بدروح کون ہے؟ اور اس کی حقیقت کیا ہے۔
قابل احترام سالار!۔۔۔۔وفد کے ایک آدمی نے کہا آپ کا مذہب جو کچھ بھی کہتا ہے ہم اس پر اعتراض نہیں کرتے لیکن اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ آپ کو خبردار کر دیں کہ اپنے آدمیوں کا نقصان نہ کرا بیٹھیں ہو سکتا ہے وہ آپ کے آدمیوں کو دیکھ کر غائب ہی ہو جائے، اس طرح آپ کے آدمیوں کے لیے کوئی خطرہ نہیں ہوگا اگر وہ غائب نہ ہوئی تو نقصان ضرور کرے گی آپ کے آدمی مارے بھی جا سکتے ہیں۔
سالار نے ان کی یہ بات سن کر محافظوں کے کمانڈر سے کہا کہ وہ انھیں دیکھ کر غائب نہ ہوئی تو اسے پکڑ کر یہاں لے آئیں۔
محافظ دستے کے کمانڈر نے یہ کام اپنے ذمے لے لیا اور سب سے پہلے مختلف لوگوں سے پوچھا کہ یہ بدروح کہاں کہاں دیکھی گئی ہے، مختلف لوگوں نے تین چار جگہیں بتائیں اور ایک دو نے ایک خاص علاقے کی نشاندہی کی،
کمانڈر نے بہت سے محافظوں کو ساتھ لیا اور چار چار پانچ پانچ کی ٹولیوں میں تقسیم کر کے شہر کے ایسے مضافات میں پھیلا دیا جہاں جنگل ذرا گھنا تھا اور ایسی جگہ جہاں ٹیلے اور کھڈ نالے تھے۔
سورج غروب ہونے سے کچھ دیر پہلے ایک جگہ سے محافظوں کی ایک پارٹی کو چیخیں سنائی دیں اور یہ ایک الفاظ بھی سنائی دیئے کہ میں ہرقل کا خون پینے جا رہی ہوں ، محافظوں کی اس پارٹی نے ایک اور پارٹی کو بھی بلایا اور اس طرح یہ بارہ چودہ محافظ اکٹھا ہو گئے وہ پھیل کر آگے بڑھنے لگے انہوں نے ایک ذرا زیادہ عمر کے محافظ کو اسلامی اصولوں کے تحت اپنا امیر یعنی کمانڈر بنا لیا تھا۔
اس کمانڈر نے کہا کہ دل میں اللہ تبارک وتعالی کا نام ہو اور کسی نہ کسی آیت قرآنی کا ورد دل ہی دل میں کرتے جائیں، کمانڈر کی ہدایت کے مطابق وہ محاصرے کی صورت میں بڑھتے گئے تھوڑے تھوڑے وقفے سے بدروح کی چینخ و پکار سنائی دیتی تھی جو معلوم ہوتا تھا کہ وہ دور ہٹتی جا رہی ہے۔
آخر انہیں وہ نظر آگئی محافظوں نے اسے اسی حال حلیہ میں دیکھا جو انھوں نے متعدد بار سنا تھا، محافظ نیم دائرے کی شکل میں اس کی طرف بڑھ رہے تھے وہ الٹے قدم آہستہ آہستہ پیچھے ہٹ رہی تھی فاصلہ کم ہوتا جارہا تھا۔
تم چڑیل یا بدروح ہو تو فوراً غائب ہو جاؤ ۔۔۔کمانڈر نے کہا ۔۔۔اور اپنی برچھی ہاتھ میں یوں تولی جیسے اس پر برچھی پھینکے گا اس نے کہا۔۔۔ اگر انسان ہو تو ہمارے پاس آ جاؤ اور تمہارے ساتھ انسانوں جیسا سلوک کیا جائے گا، ہم تم سے نہیں ڈر رہے تم ہم سے نہ ڈرو۔
مجھے ہرقل تک پہنچا دو !۔۔۔وہ جو کوئی بھی تھی بولی۔۔۔ ہرقل نے میرا خون بہایا ہے میں اس کا خون پینے جا رہی ہوں۔
ہم تمہیں ہرقل تک پہنچا دیں گے کمانڈر نے کہا ۔۔۔تم جانتی ہو ہرقل ہمارا دشمن ہے ہم خود چاہتے ہیں کہ وہ قتل ہوجائے ،ہم تمہارے ساتھ اپنا ایک آدمی بھیجیں گے تم محفوظ بھی رہوں گی اور ہمارا آدمی تمہارا کام بھی کر دے گا۔
کمانڈر گھوڑے سے اتر کر اس کی طرف گیا اس نے برچھی اپنے ہاتھ میں تیار رکھی آہستہ آہستہ اس کی طرف بڑھتے ہوئے کمانڈر نے شفقت اور پیار کی اور اس کی ہم خیالی کی باتیں جاری رکھیں، اور اس تک پہنچ گیا اسے بازو سے پکڑا اور کہا کہ ہمارے ساتھ آؤ اور عزت و آبرو کے ساتھ ہمارے ہاں چلو۔
لڑکی بغیر مزاحمت کے بڑے آرام سے کمانڈر کے ساتھ چل پڑی اپنے گھوڑے کے قریب لےجاکر کمانڈر نے لڑکی کے بغلوں میں ہاتھ رکھا اور اسے اٹھا کر گھوڑے پر سوار کر دیا، گھوڑے کی باگ پکڑ لی اور گھوڑے کے آگے آگے پیدل چلنے لگا تمام محافظ گھوڑوں پر سوار تھے، واپسی کے وقت وہ لڑکی کو ہی دیکھتے رہے ان کی نظریں لڑکی سے ہٹتی ہی نہیں تھی، انہیں غالبا یہ توقع تھی کہ یہ لڑکی ابھی غائب ہوجائے گی لیکن سالار کے دروازے تک پہنچ گئے لڑکی غائب نہ ہوئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج کبھی کا غروب ہو چکا تھا سالار اپنے محافظوں کا انتظار بڑی ہی بے تابی سے کر رہا تھا غالبا اسے بھی یہ خطرہ نظر آنے لگا تھا کہ یہ لڑکی کوئی جن بھوت یا بدروح ہوئی تو وہ محافظوں کو نقصان پہنچائے گی، اور ہو سکتا ہے نقصان پہنچا بھی چکی ہو ۔
اتنے میں سالار کو دربان نے اطلاع دی کہ محافظ ایک لڑکی کو لائے ہیں سالار تو جیسے حیرت سے بدک گیا ہو، اس کے کہنے پر محافظ دستے کا کمانڈر لڑکی کو سالار کے کمرے میں لے گیا صرف محافظ کو سالار کے کمرے میں لے جایا گیا جو لڑکی کو لایا تھا۔
سالار کے گھر کے باہر بہت سے لوگ اکٹھا ہو گئے تھے شہر کے جو آدمی سالار کے پاس یہ درخواست لے کر آئے تھے کہ اس بدروح یا چڑیل کا کچھ کیا جائے انہوں نے شہر میں یہ خبر پھیلا دی تھی کہ سالار نے اپنے محافظوں کو بھیجا ہے کہ وہ جا کر دیکھیں کہ یہ کیا چیز ہے اس خبر پر ہی لوگ پہلے ہی وہاں اکٹھا ہونے شروع ہو گئے تھے۔
سالار کو بتایا گیا کہ لوگ باہر یہ دیکھنے کے لیے دیر سے اکٹھے ہوگئے ہیں کہ محافظ کیا کر کے آتے ہیں یا ان پر کیا گزرتی ہے ۔
سالار نے لڑکی کو دیکھ لیا تھا جس سے اسے یقین ہو گیا تھا کہ یہ تو انسان ہے اس نے کہا کہ ان لوگوں سے چند ایک معزز اور نمائندہ قسم کے آدمیوں کو اندر بلایا جائے تاکہ وہ بھی دیکھ لیں کہ یہ کیا چیز ہے۔
دس بارہ آدمی اندر آگئے اور سالار نے انہیں بٹھا لیا سب کی نظریں لڑکی پر لگی ہوئی تھی اور لڑکی یوں ادھر ادھر دیکھ رہی تھی جیسے اسے احساس ہی نہ ہو کہ وہ اتنے سارے آدمیوں میں بیٹھی ہوئی ہے۔
تمہارا نام کیا ہے لڑکی؟ ۔۔۔۔سالار نے اس سے پوچھا۔
میرا نام یوکلس ہے ۔۔۔۔۔لڑکی نے جواب دیا۔ کمرے میں بیٹھے ہوئے لوگوں میں کھسر پھسر ہوئی اور ایک نے کہا کہ یہ تو مردانہ نام ہے اور ایسے نام رومیوں کے ہوتے ہیں۔
میں یوکلس ہوں ۔۔۔لڑکی نے کہا ۔۔۔اور یوکلس روزی ہے ،یوکلس زندہ ہے اور روزی قتل ہو گئی ہے۔
روزی کو کس نے قتل کیا ہے؟ ۔۔۔سالار نے پوچھا۔
ہرقل نے ۔۔۔لڑکی نے جواب دیا ۔۔۔میں ہرقل کو قتل کرنے جا رہی ہوں اور میں اس کا خون پیوں گی تم میں سے کوئی آدمی مجھے اس راستے پر ڈال دے جو مجھے ہرقل تک پہنچا دے۔
کیا تم اپنی روح ہو ۔۔۔سالار نے پوچھا ۔۔۔یا اپنا جسم ہو۔
میری روح یو کلس ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ یوکلس کی روح مجھ میں ہے ۔
اس سے پوچھا گیا کہ وہ کس کی بیٹی ہے اور کہاں سے آئی ہے؟ ۔۔۔۔تو وہ کچھ بھی نہ بتا سکی اس نے کچھ نہ کچھ جواب تو دیے لیکن وہ بے معنی اور ناقابل فہم تھے سالار سمجھ گیا کہ اس لڑکی کا دماغی توازن ٹھیک نہیں۔
وہ حلب کی روزی تھی جسے یوکلس کے ساتھ والہانہ محبت تھی اور یوکلس دل میں اس کی محبت بسائے ہوئے تھا یوکلس حلب کے محاصرے میں مارا گیا تھا اور روزی نے اس کی لاش اس وقت دیکھی تھی جب شارینا یوکلس کے پاس بیٹھی ہوئی تھی، اس وقت یوکلس زندہ تھا اس نے شارینا اور روزی کے ہاتھوں میں جان دی تھی ،پھر روزی یوکلس کی ماں لیزا کے لاش پر گئی اور اس کا جو ردعمل تھا وہ پہلے سنایا جاچکا ہے۔
روزی کی ماں وہیں آ گئی تھی اور روزی باہر نکلی اور دوڑ پڑی، اسکی ماں اس کے پیچھے گئی تھی لیکن روزی کو جیسے زمین نے نگل لیا تھا وہ اتنی تیز بھاگی تھی کہ ماں اس تک نہ پہنچ سکی نہ دیکھ سکی کہ وہ گئی کس طرف ہے۔
یوکلس نے اسے بتا دیا تھا کہ ہرقل اور اس کا بیٹا قسطنطین اسے قتل کروانا چاہتے تھے لیکن اسے پتہ چل گیا اور اس کی ماں جرنیل انتھونیس کے ساتھ اسے یہاں لے آئی ہرقل کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ یوکلس اور اس کی بیوی لیزا کہاں چلے گئے ہیں۔
روزی نے یوکلس کی خون آلود لاش دیکھی تو صدمے نے اس کے دماغ کو بنیادوں تک ہلا کر رکھ دیا اور یہ خیال اس کے ذہن میں بیٹھ گیا کہ یوکلس کو مسلمانوں نے نہیں بلکہ ہرقل نے قتل کروایا ہے وہ اتنا ہی جانتی تھی کہ انطاکیہ سے بڑی کشتیاں اور جہاز مصر جایا کرتے ہیں اور ہرقل مصر چلا گیا ہے ۔
وہ یوکلس کے قتل کا انتقام لینے کے لئے چل پڑی تھی پیتالیس میلوں کا فاصلہ کوئی معمولی فاصلہ نہ تھا وہ عام راستے سے ہٹ کر جنگلوں میں سے گزرتی جا رہی تھی تاکہ اسے کوئی دیکھ نہ سکے کیونکہ اس کا دماغ اس کے قابو سے نکل گیا تھا اس لئے جنگلوں اور بیابانوں میں بھٹکتی اور چیختی چلاتی انطاکیہ تک جا پہنچی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سالار کے لیے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہو گیا کہ اس لڑکی کا کیا کرے اس کے پاس اس لڑکی کے پاگل پن کا کوئی علاج نہیں تھا اور یہ تو ہو ہی نہیں سکتا تھا کہ مجاہدین اسلام کے لشکر کا سالار لڑکی کو پاگل سمجھ کر اسے گھر سے نکال دیتا۔
لڑکی کو سب کے سامنے لے آنے کا فائدہ یہ ہوا کہ لوگوں کو اس خوف وہراس سے نجات مل گئی کہ یہ کوئی چڑیل یا بدروح ، یا جنات میں سے ہے، اگر وہ اتنا ہی بتا دیتی کہ وہ کس کی بیٹی ہے اور کہاں سے آئی ہے تو سالار اسے وہاں بھیج دیتا اور وہ اپنے گھر پہنچا دی جاتی۔
اگر مسلمان سالار کی جگہ کوئی رومی جرنیل ہوتا تو لڑکی کو پاگل قرار دے کر قتل کروا دیتا اور اس کی لاش جنگل میں پھینک دی جاتی تھی۔
لیکن وہاں کسی سالار اور کسی جرنیل کا حکم نہیں چل سکتا تھا وہاں اب اللہ کی حکمرانی تھی اور اللہ کے دین کے احکام کی پیروی لازم تھی۔
سالار روزی کو اپنے ساتھ اپنے گھر کے اندر لے گیا اور اسے مستورات کے حوالے کرکے کہا کہ اسے نہلائیں اور اچھے کپڑے پہنائیں اور پھر اسے کھانا کھلائیں ، واپس آکر سالار ان لوگوں میں بیٹھ گیا جو اس کے ملاقات والے کمرے میں بیٹھے ہوئے تھے۔
اب مجھے مشورہ دیں سالار نے حاضرین سے کہا میں اس لڑکی کو گھر میں بھی نہیں رکھ سکتا اور اس حالت میں گھر سے نکال بھی نہیں سکتا اس کی دیکھ بھال اور اس کی آبرو کی حفاظت میری ذمہ داری ہے ۔
میں اسے کسی مخلص اور درد مند آدمی کے سپرد کرنا چاہتا ہوں جو اسے اپنے گھر میں رکھے میرا طبیب اس کا علاج کرنے کی کوشش کرے گا ہوسکتا ہے یہ ٹھیک ہو جائے اور یہ بتا دے کہ یہ کس کی بیٹی ہے اور کہاں کی رہنے والی ہے۔
سب پر سکوت طاری ہو گیا اس کا مطلب یہ تھا کہ ایک پاگل لڑکی کی ذمہ داری کوئی بھی لینے کو تیار نہیں وہاں سب سے پیچھے تین آدمی بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے آپس میں سرگوشیوں میں صلاح مشورہ کیا۔
امیر انطاکیہ! ۔۔۔۔ان میں سے ایک آدمی نے کہا ہم تین آدمی مصر سے آئے تھے اور اپنا کام کر کے واپس جا رہے ہیں یہاں سے گزر رہے تھے تو لوگوں نے بتایا کہ ایک بدروح کو پکڑ کر لائے ہیں ہم اسے دیکھنے کے لئے رک گئے اور اب پتہ چلا ہے کہ یہ بدروح نہیں ہمیں یہ بھی یقین ہے کہ یہ لڑکی مسلمان نہیں کسی عیسائی قبیلے کی ہے ہم قبطی عیسائی ہیں اگر آپ کو ہم پر اعتماد ہے تو ہم اس لڑکی کو ساتھ لے جائیں گے اس کا علاج بھی کرائیں گے اگر یہ ٹھیک ہو گئی اور اس نے واپس آنا چاہا تو ہم اسے اس کے گھر چھوڑ آئیں گے، اور اگر یہ شادی پر رضامند ہو گئی تو اس کی کسی کے ساتھ شادی کر دیں گے لڑکی نوجوان ہے اور اس کی خوبصورتی اس کے لیے خطرہ بن سکتی ہے میں پھر کہتا ہوں کہ یہ یقینا عیسائی ہے اور ہم بھی عیسائی ہیں اس لئے یہ ہمارے ہی سپرد کی جائے تو ہم پوری ہمدردی سے اسے اس کی دیکھ بھال کریں گے۔
حاضرین مجلس میں سے تین چار آوازیں اس شخص کی تائید اور حمایت میں اٹھی اور آخر سالار نے فیصلہ دے دیا کہ لڑکی ان کے حوالے کر دی جائے۔
اگر لڑکی نے تمہارے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تو پھر کیا ہوگا سالار نے پوچھا۔
امیر انطاکیہ! ۔۔۔۔اس آدمی نے کہا۔۔۔ لڑکی کچھ بھی سمجھنے کے قابل نہیں اس کے دماغ میں یہی خبط بیٹھ گیا ہے کہ یہ ہرقل کو قتل کرنے جا رہی ہے میں اسے کہوں گا کہ میرے ساتھ چلو میں تمہیں اپنے پاس رکھوں گا اور ہم دونوں مل کر ہرقل کو قتل کریں گے۔
اس کی اس بات کو سب نے سراہا اور اس بات سے یہ اندازہ بھی ہو گیا کہ یہ آدمی کچھ اچھی حیثیت والا اور عقل و دانش والا ہے۔
لڑکی جب بلانے پر واپس سالار کے ملاقاتی کمرے میں آئی تو کمرے میں سناٹا چھا گیا، اسے نہلایا گیا کھانا کھلایا گیا اور اچھا لباس پہنایا گیا تھا وہ اتنی حسین تھی کہ سب حیرت زدگی کے عالم میں چلے گئے تھے۔
اس کے چہرے پر معصومیت تھی سالار نے اسے کہا کہ اس نے اس کے لئے تین آدمی تیار کرلیے ہیں جو اسے ساتھ لے جائیں گے اور ہرقل کے قتل میں ساتھ ہونگے۔
لڑکی کے ہونٹوں پر تبسم آگیا اسے ساتھ لے جانے والے آدمی نے بڑے پیار اور اعتماد سے باتیں کیں تو لڑکی ان کے ساتھ جانے کو تیار ہو گئی۔"
سالار نے آخری فیصلہ یہ سنایا کہ آج رات لڑکی اس کے گھر کی مستورات کے پاس مہمان رہے گی اور کل فجر کی نماز کے فوراً بعد ان تین آدمیوں کے سپرد کردی جائے گی اور یہ آدمی اسی وقت مصر کو روانہ ہو جائیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دوسری صبح نماز فجر کے بعد سالار واپس گھر آیا تو ان تینوں آدمیوں کو منتظر پایا، اس نے روزی کو ان کے حوالے کر دیا اور وہ چلے گئے۔
انطاکیہ سے اسکندریہ تک خشکی کا راستہ بھی تھا لیکن ایک دو دنوں بعد ایک بحری جہاز اسکندریا جارہا تھا انہوں نے سمندری راستہ اختیار کیا۔
راستے میں روزی ایک ہی بات کرتی تھی کہ وہ ہرقل کو قتل کرکے اس کا خون پئے گئی تینوں آدمی اس کی حوصلہ افزائی کرتے اور کہتے تھے کہ وہ اس کے ساتھ ہوں گے۔
رات کو روزی سو جاتی تھی تو یہ تینوں آدمی جہاز کے عرشے پر کچھ دیر کے لیے جا بیٹھتے اور گپ شپ لگا کر سوتے تھے۔
ہورشیش!،،،، ان تینوں میں سے ایک آدمی نے اپنے ایک ساتھی سے کہا۔۔۔ مجھے تو یقین ہوگیا ہے کہ تمھاری بیٹی بچ جائے گی یہ لڑکی کنواری معلوم ہوتی ہے ۔۔۔۔
امید تو یہی ہے۔۔۔۔ ہورشیش نے کہا ۔۔۔میں نے تو اپنے آپ کو اس صدمے کے لیے تیار کر لیا تھا کہ میری بیٹی کی قربانی دے دی جائے گی ، یہ تو خدا کی خاص مدد ہے کہ یہ لڑکی مل گئی ہے ہمارا اسقف اس لڑکی کو قبول کرلیں تو میں صدمے سے بچ جاؤں گا۔
بچ جاؤ گے۔۔۔ اس کے دوسرے ساتھی نے کہا۔۔۔ تمہیں خدائی مدد مل گئی ہے۔
روزی کو اپنے ساتھ لانے سے ہورشیش کا ایک بہت بڑا مسئلہ حل ہو گیا تھا یہ مسئلہ اس کے لیے ایک ایسا صدمہ تھا جسے وہ ناقابل برداشت کہتا تھا، مسلمانوں کے سالار کو جو امیر انطاکیہ تھا ذرا سا بھی شبہ نہیں ہوا تھا کہ یہ شخص انسانی ہمدردی اور نیکی کے پردے میں اسے اور روزی کو بہت بڑا دھوکہ دے رہا ہے ۔
روزی تو کچھ سمجھنے کی ذہنی حالت میں تھی ہی نہیں اس کا تو دماغ ماؤف ہو گیا تھا۔ ہورشیش کی اس فریب کاری کا پس منظر یہ تھا کہ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا ہے قبطی عیسائی ہر سال ایک خاص رات دریا نیل کو ایک نوجوان کنواری لڑکی کی قربانی دیا کرتے تھے ، تاریخ میں آیا ہے کہ جس لڑکی کی قربانی دینی ہوتی تھی اس کے والدین کی رضامندی اس میں شامل ہوتی تھی ایسا کبھی بھی نہ ہوا کہ کسی لڑکی کو زبردستی اٹھا کر دریا میں پھینک دیا گیا ہو۔
اب کے جس قبیلے کے ذمے یہ قربانی تھی اس میں صرف ہورشیش کی بیٹی نوجوان اور کنواری تھی باقی سب کی بیٹیاں بہت چھوٹی تھی یا شادی شدہ تھیں۔
ہورشیش کو اسقف نے بتا گیا تھا کہ اس سال وہ اپنی بیٹی کو قربان کرے گا۔
ہورشیش کی یہی ایک بیٹی تھی، اور اس بیٹی کے ساتھ اسے اور بیٹی کو اس کے ساتھ والہانہ پیار تھا ۔
بے شک اسقف یعنی بڑے پادری نے اس کی اجازت کے بغیر اس کی بیٹی کو قربان نہیں کرنا تھا پھر بھی ہورشیش کو معلوم تھا کہ وہ اپنے سب سے بڑے مذہبی پیشوا کا حکم ٹال نہیں سکتا اس کے گھر میں تو باقاعدہ ماتم شروع ہو گیا تھا۔
ہورشیش اپنی بیوی کو کوستا تھا کہ اس نے اسے بیٹی کی شادی جلدی نہ کرنے دی، شادی ہو جاتی تو آج یہ زندہ تو رہتی۔
بیٹی خود بھی قربانی کے لیے تیار نہیں تھی اس نے صدمے کی کیفیت میں یہاں تک کہہ دیا کہ وہ اسقف اعظم کو گرجے میں کھڑے ہو کر کہہ دے گی کہ اس کی شادی تو نہیں ہوئی لیکن وہ کنواری نہیں، وہ کہتی تھی کہ وہ یہاں تک کہہ دے گی کہ وہ بہت بڑی گنہگار ہے اور اپنے جیسے دو نوجوانوں کے ساتھ گناہ کر چکی ہے اس لئے اس کی قربانی قبول نہیں ہوگی اور نیل کا بہاؤ رکے گا نہیں،،،،
ہورشیش اور اس کی بیوی نے بیٹی کو سختی سے منع کر دیا اور کہا کہ جھوٹ بولنا بھی گناہ ہے اور اس جھوٹ سے ان کے خاندان کی اور پورے قبیلے کی بےعزتی ہوگی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ان پر یہ الزام عائد ہو جائے کہ یہ لڑکی اپنی جان بچانے کے لئے جھوٹ بول رہی ہے۔
ان لوگوں کا یہ عقیدہ غلط ہی صحیح اور یہ ان کا وہم ہی صحیح کے نیل کا بہاؤ رک جاتا ہے۔ لیکن یہ لوگ اپنے عقیدوں کی پابندی بڑی ہی سختی سے کرتے تھے ہرقل نے جو سرکاری عیسائیت رائج کی تھی اس کے مطابق قربانی قتل جیسا جرم تھا لیکن یہ لوگ یعنی قبطی عیسائی دن کے بجائے رات کو یہ رسم پوری کر لیا کرتے تھے۔
ہورشیش کو جب اسقف نے کہا تھا کہ اب اس کی بیٹی کی قربانی دی جائے گی تو اس نے بلا حیل وحجت سرجھکا لیا تھا ، قربانی کی رات ابھی ڈیڑھ دو مہینے دور تھی ہورشیش کو اکلوتی بیٹی کا غم کھانے لگا تھا۔
اپنے کاروبار کے سلسلے میں اسے اپنے دو کاروباری ساتھیوں کے ساتھ انطاکیہ اور ایک دو جگہوں پر جانا پڑا۔
اس کے ساتھ ہی اس کا دل یہ کہہ کر بہلاتے رہے کہ وہ خدا کے نام پر بیٹیاں قربان کر رہا ہے اور یہ قربانی ایسی ہے جو بنی نوع انسان کی بھلائی کیلئے ہے اس لئے خدا اس کا غم خوشی میں بدل دے گا اور اسے اور نہ جانے کیا اجر ملے لیکن ہورشیش پر کچھ اثر نہیں ہو رہا تھا اور وہ غموں کے بوجھ تلے کراہتا ہی رہتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ اب اپنے کام سے فارغ ہو کر مصر واپس جا رہا تھا جہاز کے انتظار میں اسے انطاکیہ میں رکنا تھا اتفاق سے اسے پتہ چلا کہ امیر انطاکیہ نے ایک بدروح یا چڑیل پکڑی ہے تو وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ امیر انطاکیہ کے ملاقاتی کمرے میں جا بیٹھا امیر انطاکیہ جو وہاں کی فوج کا سالار بھی تھا جب پوچھا کہ اس لڑکی کو کون اپنے گھر رکھنا چاہتا ہے تو اس کے دماغ میں بڑی اچھی بات آ گئی اور اس نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ سرگوشیوں میں صلاح مشورہ کیا تو ساتھیوں نے بھی تائید کر دی اور کہا کہ یہ لڑکی لے لو اس طرح روزی اس کے قبضے میں آ گئی۔
واپسی سفر کے دوران ایک رات ہورشیش اور اس کے ساتھیوں نے روزی کو بھی جہاز کے عرشے پر بٹھا لیا اور اس کا دل اپنے قبضے میں رکھنے کے لئے ہرقل کے خلاف باتیں شروع کردیں اور اس سے پوچھا کیا وہ کنواری ہے؟
ہاں تو؟ ۔۔۔روزی نے جواب دیا میں اتنی ہی کنواری ہوں جتنی وہ مریم کنواری تھی جس نے حضرت عیسی علیہ السلام کو جنم دیا تھا۔ یہ کیوں پوچھتے ہو؟
ہمیں تم پر کوئی شک نہیں ۔۔۔ہورشیش نے کہا۔۔۔ یہ اس لئے پوچھا ہے کہ بزرگوں نے بتایا تھا کہ مظلوم کنواری اگر کسی ظالم کو قتل کر دے تو یہ اس کا گناہ نہیں ہوتا ہرقل سے زیادہ ظالم بادشاہ ہم نے کبھی نہیں سنا تھا۔
جہاز اسکندریہ کی بندرگاہ سے جا لگا مسافر اترے اور اپنے اپنے ٹھکانوں کو چل پڑے ہورشیش اسکندریہ سے خاصی دور کسی گاؤں کا رہنے والا تھا اس کی منزل دور تھی اس لیے انہوں نے اونٹ کرائے پر لیے اور رات گہری ہوگئی تھی جب وہ اپنے گاؤں پہنچ گئے۔
اگلی صبح ہورشیش اپنے دونوں ساتھیوں کو ساتھ لے کر اس گاؤں پہنچا جو ان لوگوں کا مذہبی مرکز تھا وہ سب سے بڑے مذہبی پیشوا جسے اسقف کہتے تھے سے ملا اور اسے یہ جھوٹا بیان دیا کہ انطاکیہ میں انہیں ایک قبطی عیسائی ملا تھا اور اس نے کہا کہ اس کا کاروبار بہت ہی خراب ہو گیا ہے اور نوبت فاقوں تک آ پہنچی ہے خواب میں اسے حضرت عیسی علیہ السلام نے کہا ہے کہ اپنی اس کنواری بیٹی کو دریا نیل پر قربان کردوں تو تمہارا کاروبار بھی صحیح ہو جائے گا اور نیل کے کنارے رہنے والوں کا بھی بھلا ہو گا اور اس کی دعائیں تمہیں اور زیادہ دنیاوی فائدے پہنچائے گی۔
ہورشیش کے ساتھی بھی اس کے ساتھ ہی گرجے میں بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے ہورشیش کی تائید کر دی اور بتایا کہ اس قبطی عیسائی نے اپنی بیٹی کو ان کے حوالے کردی ہے وہ کہتا تھا کہ اس سال اس کی بیٹی کو قربان کیا جائے۔
ہورشیش نے کہا کہ اس لڑکی کو ضرور قربان کیا جائے کیونکہ یہ ایک امانت ہے جس میں خیانت نہیں ہونی چاہیے۔
اسقف نے دو چار سوال پوچھے اور کہا کہ لڑکی کو اس کے سامنے لایا جائے ۔
اگلے روز روزی کو گرجے میں لے گئے اور اسقف نے اسے دیکھ کر صرف یہ پوچھا کہ وہ اپنی مرضی سے آئی ہے یا اسے زبردستی بھیجا گیا ہے۔
روزی نے کچھ بھی نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا کہ وہ اپنی مرضی سے آئی ہے۔
روزی تو اپنے ہوش و حواس میں تھی ہی نہیں وہ پورے خود اعتمادی اور خوشی سے بول رہی تھی جیسے اسے کوئی شک و شبہ نہ تھا۔
اسقف نے منظوری دے دی کہ اس لڑکی کو قربان کیا جائے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ہورشیش اور اس کی بیوی نے روزی کو بڑے پیار سے اپنے گھر میں رکھا اور اس کے بگڑے ہوئے ذہن کے مطابق اس کے ساتھ باتیں کرتے رہے۔
اور روزی کی زندگی کا آخری دن آگیا اس رات اسے دریا نیل میں پھینک دینا تھا۔
شام کے وقت روزی کو گرجے میں لے گئے اسے ہورشیش کی بیٹی کے قیمتی کپڑے پہنائے گئے تھے اور اسے جو زیورات پہنائے گئے تھے وہ بھی ہورشیش کی بیٹی کے تھے، ہورشیش نے اپنی بیٹی کو بچانے کے لیے اس کے سونے کے زیورات قربان کردیئے تھے وہ اپنی بیٹی کی قیمت دے رہا تھا۔
دس گیارہ سال پہلے یہ رسم اعلانیہ ادا کی جاتی تھی ہر طرف منادی کرا دی جاتی تھی کے آج رات نیل کے کنارے فلاں جگہ ایک لڑکی کی قربانی دی جارہی ہے لوگ جوق در جوق وہاں اکٹھے ہو جاتے تھے اور اس لڑکی کو مقدس سمجھ کر اس کے ہاتھ چومتے تھے لیکن ہرقل نے ایسی پابندی عائد کردی تھی کہ اس قربانی کو قتل قرار دے دیا تھا پھر بھی یہ لوگ چوری چھپے ہر سال یہ رسم ادا کر دیا کرتے تھے اور اس کا اعلان نہیں ہوتا تھا۔
روزی کو ایک جگہ جو بستیوں سے دور تھی دریا نیل کے کنارے لے گئے ہورشیش نے اسے بتایا تھا کہ دریا پر ایک کشتی ملے گی اور وہ اسے اس کشتی سے اسکندریہ تک لے جائے گا ،اسقف وہاں موجود تھا اور قبیلوں کے دو چار سردار بھی تھے۔
اسقف نے روزی پر خوشبودار پانی چھڑکا اور اس کے سامنے کھڑے ہو کر کچھ پڑھا اور پھر اس کے دونوں کندھوں پر باری باری انگلیاں رکھیں اور پھر اس کے سینے پر انگلی رکھی اور اسے بازو سے پکڑ کر دریا کے کنارے لے گیا وہاں کنارہ خاصا بلند تھا پیچھے ہوکر اس نے روزی کو دھکا دیا اور وہ دریا میں جا پڑی۔
رات تاریک تھی اسقف اور باقی لوگ ایک مذہبی گیت گنگنانے لگے دریا خاصا گہرا تھا لیکن بہاؤ میں تیزی اور تندی نہیں تھی کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ کوئی لڑکی دریا میں سے زندہ نکل آئی ہو، ہر وہ لڑکی جسے پھینکا جاتا تھا وہ ڈوب کر مر جاتی تھی، لیکن روزی کے معاملے میں کچھ اور ہی ہو گیا۔
روزی اپنے قبیلے کے سردار کی بیٹی تھی اور بڑی شوخ اور چلبلی لڑکی تھی ان کی بستی کے قریب سے دریائے فرات گزرتا تھا روزی اپنی دو تین ہمجولیوں کو لے کر دریا پر چلی جاتی اور تیراکی کرتی تھی، جوں جوں بڑی ہوتی گئی وہ دریا میں آگے ہی آگے یعنی وسط میں جانے لگی، جہاں بہاؤ خاصہ تیز ہوتا تھا وہ اونچے سے اونچے کنارے پر جا کر دریا میں کودا بھی کرتی اور تیر کر نکل آتی تھی، اس کے باپ نے یہ انتظام کررکھا تھا کہ دو آدمی اس کے اور اس کی ہمجولیوں کے ساتھ دریا پر بھیجا کرتا تھا تاکہ خطرے کے وقت لڑکیوں کو دریا سے نکالے۔
اب روزی کو نیل میں پھینک دیا گیا تو نہ جانے اسے کیسے کیسے خیال آئے ہونگے لیکن سب سے پہلا اور اہم خیال یہ تھا کہ دریا میں سے زندہ نکلنا ہے۔
وہ دریا میں گری تو سطح پر آنے کے بجائے پانی کے نیچے ہی تیرنے لگی اور کچھ دور چلی گئی جب دم ٹوٹنے لگا تو پانی سے ابھری اور دوسرے کنارے کی طرف تیرنے لگی تاریکی میں اسے کوئی دیکھ نہ سکا دیکھتا بھی کون اسے دریا میں پھینکنے والے وہاں سے چلے گئے تھے کہ پکڑے نہ جائیں۔
روزی بہت دور جا کر دوسرے کنارے جا لگی اور دریا سے نکل گئی اس نے سب سے پہلے تو یہ محسوس کیا جیسے وہ ایک خواب دیکھ رہی تھی اور اچانک بیدار ہو گئی ہو اس کی حقیقی سوچیں واپس آ گئی تھی اور دماغ نارمل حالت میں آگیا تھا اس نے اپنا جائزہ لیا اور یہ دیکھ کر حیران ہوئی کہ یہ زیورات اسے کس نے پہنائے ہیں۔
وہ وہیں کھڑی رہی اور سوچنے لگی کہ اب کیا ہوگا اسے تو یہ بھی یاد نہیں تھا نہ اسے احساس تھا کہ وہ اپنے گھر سے کتنی دور نکل آئی ہے اور کیا یہ دریائے فرات ہے تھک ہار کر وہیں بیٹھ گئی۔
رات تو تاریک تھی، اس کا ذہن روشن ہونے لگا اسے لڑائی یاد آئی،،،، خونریز لڑائی،،،، اسے اچانک یوکلس یاد آگیا یوکلس کی محبت تو اس کی روح میں اتری ہوئی تھی یوکلس کی یاد نے اس کے ذہن اور جسم کو شدید دھچکا دیا اسے یاد آگیا کہ وہ خون میں نہائی ہوئی لاشوں اور تڑپتے کراہتے ہوئے زخمیوں میں یوکلس کو ڈھونڈتی پھر رہی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی