⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 22👇




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➋➋】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تو سرکاری کارروائیاں تھی جو کھلم کھلا کی جاتی تھیں، تاکہ لوگوں کے دلوں پر دہشت طاری ہوجائے لیکن بنیامین نے ایک خفیہ تنظیم بنا لی تھی جس میں عیسائیت کے عالم بھی تھے اور بن سامر جیسے دلیر اور نڈر فوجی بھی تھے ،جو اپنی جان پر کھیل جانے کو ایک کھیل ہی سمجھتے تھے ۔
بن سامر اسی تنظیم کا جاں باز تھا اسے بنیامین کے ہاں ہی پناہ مل سکتی تھی۔
بن سامر اور اینی کو ایک رات اور راستے میں گزارنی پڑی اور اگلے روز وہ بنیامین کے پاس پہنچ گئے۔
کیا کر آئے بن سامر!،،،،، بنیامین نے پوچھا یہ لڑکی کون ہے؟
اپنے عقیدے کے لئے تو کچھ نہیں کیا ۔۔۔بن سامر نے جواب دیا ۔۔۔۔اپنی ذات اور اپنے جذبات کے لئے بہت بڑا خطرہ مول لیا ہے۔
کوئی برا نہیں کیا ۔۔۔بنیامین نے کہا ۔۔۔تم نے اپنی محبت اور اس لڑکی کی جان بچانے کے لیے بہت بڑی قربانی دی ہے تمہیں چھپ کر رہنا پڑے گا۔
رہوں گا تو میں چھپ کر ہی۔۔۔۔ بن سامر نے کہا ۔۔۔۔لیکن میں بیکار نہیں بیٹھونگا میں شاہی عیسائیت کے خلاف کچھ نہ کچھ کرتا رہنا چاہتا ہوں مجھے بتائیں میں کیا کروں۔
بنیامین نے کچھ عالمانہ سی باتیں شروع کر دیں۔
قابل احترام اسقف! ۔۔۔۔بن سامر نے کہا۔۔۔ میرے پاس اتنا علم نہیں کہ آپ کی یہ باتیں سمجھ سکوں مجھے صرف یہ بتائیں کہ صحیح عقیدے کو لوگوں میں پھیلانے کے لئے کسے قتل کرنا ہے اور کوئی اپنا دشمن بتائیں جس سے آپ کو بہت ہی خطرہ ہو اور میں جاکر اسے قتل کر دوں۔
ابھی تم خود قتل ہونے سے بچو۔۔۔ بنیامین نے کہا۔۔۔ تم فوجی قانون کے مطابق جو جرم کرکے آئے ہو اس کی سزا تم جانتے ہی ہو کیا ہے ابھی اپنے آپ کو روپوش رکھو کچھ عرصے بعد میں تمہارا حلیہ بدل کر تمہیں اصل مقصد کے لیے استعمال کروں گا۔
میں ایک بات سمجھتا ہوں۔۔۔ بن سامر نے کہا۔۔۔ ہرقل کو عیسائیت کی توہین کی جو سزا ملی ہے اس سے اس نے عبرت حاصل نہیں کی شام کا اتنا بڑا ملک اس کے ہاتھ سے نکل گیا ہے اور اس کی آدھی سے زیادہ فوج مسلمانوں کے ہاتھوں کٹ مری ہے، اور اس وقت جو فوج اس کے پاس ہے اس پر عرب کے مسلمانوں کی ایسی دہشت طاری ہے کہ کوئی مذاق میں ہی کہہ دے کہ مسلمان مصر پر بھی حملہ کریں گے تو ہمارے فوجیوں کے رنگ پیلے پڑ جاتے ہیں۔
مذہب کی توہین جس نے بھی کی اسے ایسی ہی سزا ملی۔۔۔ بنیامین نے کہا ۔۔۔اسلام کی طرح عیسائیت بھی ایسا مذہب ہے جس پر خدا نے کتاب نازل کی ہے ہرقل نے شہنشاہیت کے نشے میں اس مقدس کتاب کی خلاف ورزی کی ہے مجھے نظر آرہا ہے کہ مصر بھی ہرقل کے ہاتھ سے نکل جائے گا ،مذہب کو فرقوں میں بانٹ دینا بہت بڑا گناہ ہے۔
کیا مسلمان مصر پر چڑھائی کریں گے۔۔۔ بن سامر نے پوچھا۔
اب تک کر چکے ہوتے۔۔۔ بنیامین نے کہا۔۔۔ لیکن مسلمانوں پر قحط کا ایسا عذاب نازل ہوا ہے کہ سارے عرب میں لوگ بھوک سے مر رہے ہیں ،مجھے وہاں کی خبریں ملتی رہتی ہیں، قحط ختم ہونے تک تو مسلمان فوج کشی کا سوچ بھی نہیں سکتے۔
اسقف اعظم !،،،،بن سامر نے کہا۔۔۔۔ ایک بات دل میں آتی ہے مسلمان جب کبھی مصر پر حملہ کریں گے تو ہمیں ان کے خلاف لڑنا پڑے گا، لیکن میں سوچتا ہوں کہ جس طرح مسلمان ہرقل کو اپنا دشمن سمجھتے ہیں اسی طرح وہ ہمارا بھی دشمن ہے کیا ہمیں ہرقل کی وفاداری کرنی چاہیے۔
یہ مسئلہ میرے سامنے آچکا ہے۔۔۔ بنیامین کہا۔۔۔ شام سے تین مسلمان جاسوس میرے پاس آئے تھے انہوں نے اپنے آپ کو عیسائی ظاہر کیا تھا لیکن میں نے ان کی اصلیت جان کر انہیں بتا بھی دیا تھا۔ وہ کہتے تھے کہ مسلمان لشکر مصر پر حملہ آور ہو تو عیسائی ہرقل کے خلاف حملے سے پہلے یا حملے کے دوران باغی ہو جائیں ، ان کے خلیفہ اور سالاروں کا مقصد یہ ہے کہ پہلے ہرقل کو مصر سے نکالا جائے اس کے بعد مسلمان اور عیسائی آپس کے معاملات طے کر لیں گے,,,,,,,, تمہارے سوال کا جواب یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ کی صورت میں قبطی عیسائی تماشائی بنے رہیں گے لیکن یہ بھی سن لو کہ ابھی یہ میرا آخری فیصلہ نہیں، البتہ یہ فیصلہ ضرور ہے کہ قبطی عیسائی ہرقل کے وفادار نہیں ہونگے۔
یہ تو بعد کی باتیں تھیں، بن سامر کو کچھ عرصے تک روپوش رہنا تھا ایک لڑکی کو بھگا لے جانا ان کے ہاں کوئی جرم نہیں تھا ،اصل جرم تو یہ تھا کہ بن سامر نے فوجی قانون توڑا اور دو سپاہیوں کو مارا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سپہ سالار عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ نے اویس اور رابعہ کی شادی کردی یہ بیت المقدس کی بات ہے۔
عمرو بن عاص اب امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس مدینہ جانا چاہتے تھے تاکہ ان سے مصر پر حملے کی اجازت لیں، مگر ان کی روانگی سے پہلے ہی مدینہ سے پیغام آ گیا کہ خشک سالی نے ایسا قحط پیدا کر دیا ہے کہ لوگ مر رہے ہیں۔
اس کے بعد تو کسی کو ہوش ہی نہ رہی کہ قحط زدہ لوگوں کے پیٹ میں روٹی ڈالنے کے علاوہ کچھ اور بھی سوچ سکتے ، قحط کی تباہ کاریاں نو مہینے پورے جوش و خروش سے جاری رہیں، عمرو بن عاص کے ذہن سے تو جیسے مصر نکل ہی گیا تھا، قحط کی زد میں تو صرف عرب آیا، لیکن قحط زدہ علاقوں کو خوراک مہیا کرنا عراق اور شام کے امراء کی ذمہ داری تھی، آخر انہیں یہ خبر پہنچی کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے ابر رحمت برسا دی ہے، تو عمرو بن عاص کو خیال آیا کہ وہ تو مصر پر حملے کا ارادہ کیے ہوئے تھے۔
اویس رابعہ کے ساتھ ابھی بیت المقدس میں ہی تھا اس کے دونوں جاسوس ساتھی بھی جو مصر سے جاکر بنیامین سے مل آئے تھے ابھی اس کے ساتھ ہی تھے، انہیں مختلف علاقوں سے بلایا گیا تھا کیونکہ یہ بہت ہی تجربہ کار اور ذہین جاسوس تھے، انہیں اپنے اپنے لشکروں میں واپس چلے جانا چاہئے تھا، لیکن عرب کے قحط نے سارا نظام ہی تہہ و بالا کر ڈالا تھا اس لئے یہ تینوں جاسوس مجاہدین بیت المقدس میں ہی پڑے رہے۔
قحط کے بعد جب انتظامی حالات معمول پر آئے تو سپہ سالار ابوعبیدہ نے عمرو بن عاص کو پیغام بھیجا کہ تینوں مجاہدین کو ان کی اصل جگہوں پر واپس بھیج دیں۔ اویس حلب سے آیا تھا اور وہ رہنے والا بھی وہیں کا تھا اس لئے اسے واپس حلب جانے کا حکم مل گیا۔
رابعہ جو قبول اسلام سے پہلے روزی ہوا کرتی تھی مصر سے واپس آتے ہی اویس کے پیچھے پڑ گئی تھی کہ وہ حلب اپنے ماں باپ سے ملنے کے لیے جانا چاہتی ہے۔ اویس اسے کہتا تھا کہ وہ اپنے والدین اور دوسرے قریبی عزیزوں سے ملنے کے لیے اتنی بیتابی نہ دکھائے، کیونکہ وہ اسے دیکھ کر خوش نہیں ہونگے ،اور اس کے قبول اسلام کو اچھی نظر سے نہیں دیکھیں گے، اویس بھی نو مسلم تھا یہ کوئی عجیب بات نہیں تھی کہ جو سنتا وہ حیران ہوتا یہ تو اس وقت کا ایک معمول تھا، غیر مسلم مسلمانوں کے حسن اخلاق سے متاثر ہو کر قبول اسلام کرتے ہی رہتے تھے۔ لیکن اس نے اسلام قبول کیا تو نہ جانے کیوں اس کے بھائی باپ اور دوست اس کے دشمن ہو گئے تھے، صرف ایک وجہ سمجھ میں آتی ہے جو یہ ہو سکتی ہے کہ اویس غیر معمولی طور پر دلیر ،اور بے خوف تھا ،اور اس کا جسم تو پھرتیلا تھا ہی ،اس کے دماغ میں ایک خاص قسم کی مستعدی اور دانشمندی تھی، اس کے عزیزوں نے یہی سوچا ہوگا کہ اتنا قیمتی اور ایسا جواں سال آدمی ان کے ہاتھ سے نکل گیا ہے۔
اس نے رابعہ کو یہ صورتحال یاد دلائی تھی، اور یہ بھی کہ خود رابعہ نے اسے دھتکار دیا تھا ، پہلے بیان ہوچکا ہے کہ رابعہ جب روزی ہوا کرتی تھی تو اویس کو جب وہ رابن ہوا کرتا تھا دل وجان سے چاہتی تھی، لیکن رابن جب اویس بن گیا تو روزی نے اسے واضح الفاظ میں یہ کہہ کر دھتکار دیا تھا کہ وہ اب مسلمان ہو گیا ہے، اب وہ رابعہ سے کہتا تھا کہ ایسا ہوسکتا ہے کہ رابعہ کے والدین اور رشتہ دار اسے بھی دھتکار دیں گے ۔
رابعہ اسلام کے خلاف ہوا کرتی تھی لیکن اویس اور اس کے دونوں ساتھیوں نے مصر میں اسے جس طرح نیل کی دلہن بننے سے بچایا اور پھر ایک پاکیزہ اور مقدس چیز سمجھ کر اپنے پاس رکھا اس سے وہ اتنی متاثر ہوئی کہ دلی خوشی سے روزی سے رابعہ بن گئی۔
میں اپنے والدین سے ضرور ملونگی رابعہ اویس سے کہتی تھی۔۔۔ ایک تو وہ میرے والدین ہیں اور دوسرے میرا یہ ارادہ بھی ہے کہ انہیں قائل کروں گی کہ وہ بھی اسلام قبول کر لیں۔
اس نے یہ بات اویس سے تین چار مرتبہ کہی تھی ،اور ہر بار اویس اس کی یہ بات سن کر ہنس پڑا تھا ۔
اویس کی مجبوری تھی کہ اسے حلب واپس جانا پڑا ویسے اس نے حلب کو دل سے اتار دیا تھا ۔ رابعہ بہت ہی خوش تھی کہ وہ اپنے شہر اپنے ماں باپ کے پاس جا رہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حلب پہنچ کر اویس رابعہ کو اپنے ٹھکانے پر لے گیا ،پہلے تو وہ غیر شادی شدہ مجاہدین کی طرح لشکر کے ساتھ رہتا تھا، لیکن اب بیوی ساتھ ہونے کی وجہ سے اسے لشکر کی طرف سے چھوٹا سا ایک مکان دے دیا گیا۔ اویس کو اپنے کسی عزیز سے ملنے کا ذرا سا بھی شوق نہیں تھا ،لیکن رابعہ نے اسے ضد کر کے تیار کر لیا کہ اس کے ماں باپ سے ملنے چلے، اویس اسے ناراض نہیں کرنا چاہتا تھا، اس شرط پر اس کے ساتھ چل پڑا کے وہ باہر کھڑا رہے گا اور اگر اس کے والدین پسند کریں گے تو وہ اندر جائے گا۔
والدین کے دروازے پر پہنچ کر اویس باہر کھڑا رہا اور رابعہ بچوں کی سی شوخی کرتی اندر چلی گئی، گھر کے جس فرد نے بھی اسے دیکھا وہ حیران بعد میں ہوا اس سے پہلے خوف زدہ ہوا کہ یہ ان کی روزی نہیں اس کی روح یا بدروح ہے، روزی کو تو وہ مرا ہوا سمجھ بیٹھے تھے۔ وہ پاگل پن کی کیفیت میں شہر سے بھاگی تھی، ایک سال اور کچھ مہینے گزر گئے تھے اب تو اس کی واپسی کی امید بھی ختم ہو گئی تھی۔
کیا ہو گیا ہے تم لوگوں کو؟،،،، رابعہ نے اپنے ماں باپ اور دیگر اہل خانہ سے کہا ۔۔۔میں زندہ ہوں لیکن پہلے سے زیادہ زندہ ہوں۔
کیا تم واقعی زندہ ہو ۔۔۔روزی کی ماں نے بازو پھیلا کر اس کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا۔
نہیں ماں! ۔۔۔رابعہ نے کہا۔۔۔ روزی مر گئی ہے میں اب رابعہ ہوں، میں مسلمان ہو گئی ہوں، میرا خاوند باہر کھڑا ہے میں اسے اندر لاتی ہوں۔
رابعہ کی ماں کے پھیلے ہوئے بازو نیچے گرپڑے اسے روزی کا قبول اسلام بہت برا لگا تھا ۔روزی نوعمر لڑکی تھی اسے ابھی اتنا تجربہ حاصل نہیں ہوا تھا کہ چہرے کی کیفیت سے اسکا ردعمل محسوس کر سکتی ،ویسے بھی وہ جذبات کے غلبے میں آئی ہوئی تھی اور بہت خوش تھی، ماں اور دیگر اہل خانہ کا ردعمل سمجھے بغیر وہ باہر کو دوڑی اور اویس کو بازو سے پکڑ کر اندر لے گئی۔ اویس اس خیال سے اس کے ساتھ چلا گیا کہ اس کے والدین نے اسے اندر آنے کی اجازت دے دی ہو گی۔
اویس اندر گیا تو اسے رابعہ کا باپ سامنے کھڑا نظر آیا اور اس نے اس کے ساتھ مصافحہ کرنے کے لئے دونوں ہاتھ آگے کیے لیکن رابعہ کے باپ نے اپنے ہاتھ پیچھے کرلیے۔ رابعہ کی ماں نے اویس کو حقارت سے دیکھا اور منہ پھیر لیا ، رابعہ کا ایک بڑا بھائی اور اس کی بیوی بھی گھر میں تھی ان دونوں نے بھی اویس کے ساتھ ایسی ہی حقارت آمیز بے رخی کا مظاہرہ کیا۔
دیکھ لیا رابعہ !۔۔۔۔اویس نے کہا۔۔ کیا وہی نہیں ہوا جو میں کہتا تھا انہیں بتاؤ میں تمہیں کہاں ملا تھا اور کس طرح تمہیں موت کے منہ سے نکالا تھا، ان لوگوں میں اتنا بھی اخلاق نہیں کہ اپنے داماد کے ساتھ وہ سلوک کریں جو دامادوں کا حق ہوتا ہے۔
ہم نے تمہیں اپنا داماد نہیں بنایا۔۔۔ رابعہ کے باپ نے کہا۔۔۔ تم خود گمراہ ہوئے تھے اور تم نے ہماری بیٹی کو بھی گمراہ کر دیا ہے ،ہم اس گھر میں تمہیں اچھے سلوک کا حق نہیں دے سکتے۔
رابعہ کا چہرہ غصے اور ندامت سے سرخ ہو گیا، اویس نے اسے کہا کہ وہ انھیں بتائے کہ لوگوں نے اسے دھوکے میں کہاں تک پہنچا دیا تھا ،اور اویس نے اسے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر کس طرح بچا لیا تھا،،،،،، رابعہ نے غصے سے کانپتی ہوئی آواز میں اپنے گھر والوں سے کہا کہ وہ بیٹھ جائیں اور سنیں کہ اس پر کیا بیتی تھی اور کس طرح اللہ نے یہ تین فرشتے آسمان سے اتارے تھے۔
سب بیٹھ گئے رابعہ نے اویس کو اپنے پاس بٹھا لیا اور اس پر جو بیتی تھی وہ سنانی شروع کردی وہ جوں جوں سناتی جا رہی تھی اس کے گھر کے افراد کے چہرے نارمل حالت پر آتے جا رہے تھے، آخر میں اس نے کہا کہ وہ اس قدر مجبور اور بے بس تھی کہ اویس اور اس کے ساتھی اسے جتنا چاہے خراب کر سکتے تھے لیکن انھوں نے فرشتوں جیسا سلوک کیا۔
میں اس اخلاق اور سلوک سے متاثر ہو کر مسلمان ہوئی ہوں۔۔۔ رابعہ نے کہا ۔۔۔ورنہ تمہیں یاد ہوگا ماں میں اویس کو دلی طور پر چاہتی تھی جب یہ رابن ہوا کرتا تھا ،لیکن یہ جب مسلمان ہوا تو میں نے اس سے تعلق توڑ لیا تھا، میں کہتی ہوں کہ جتنا اچھا اخلاق مسلمانوں کا ہے اتنا کسی اور کا نہیں ہوسکتا، مصر میں جاکر دیکھو عیسائی بادشاہ ہرقل عیسائیوں کا خون بہا رہا ہے، وہاں تو یہ فیصلہ ہی نہیں ہو پا رہا کہ سچی اور صحیح عیسائیت کونسی ہے، بادشاہ کی یا رعایا کی۔
رابعہ بولتی چلی گئی اویس خاموش بیٹھا رہا اور گھر کے افراد چپ چاپ سنتے رہے۔
میں تو کسی اور ارادے سے آئی تھی۔۔۔ رابعہ نے کہا۔۔۔ میں کہتی ہوں تم سب اسلام قبول کر لو۔
کون سے مسلمانوں کی بات کررہی ہو۔۔۔ باپ نے کہا۔۔۔ وہ مسلمان کوئی اور تھے جنکے اخلاق سے غیر مسلم متاثر ہو کر مسلمان ہو جاتے تھے، اسلام نے شراب کو ویسے ہی حرام قرار دیا ہے جیسے خنزیر کو، میں جانتا ہوں مسلمان شراب کی بو سے بھی بھاگتے ہیں لیکن یہاں بعض مسلمان نے شراب نوشی شروع کردی ہے اور وہ شراب کو حلال سمجھنے لگے ہیں۔
میں نہیں مانتا۔۔۔ اویس نے کہا۔۔۔ آپ یہ کہیں کہ میں نے اور آپ کی اس بیٹی نے اسلام قبول کر کے اچھا نہیں کیا مسلمانوں پر جھوٹا الزام عائد نہ کریں۔
یہ الزام نہیں۔۔۔ رابعہ کے باپ نے کہا ۔۔۔میں تمہیں ایسے مسلمان دکھا سکتا ہوں اور دکھاؤں گا۔
یہ ان کا ذاتی فعل ہے ۔۔۔اویس نے کہا۔۔۔ اسلام نے یا خلیفہ نے یا مسلمانوں نے بحیثیت قوم انہیں شراب پینے کی اجازت نہیں دی ،نہ ہی اسلام نے شراب کو حلال قرار دے دیا ہے۔
یہ تمہیں کچھ وقت گزر جانے کے بعد پتہ چلے گا۔۔۔ رابعہ کے باپ نے کہا۔۔۔ ان شراب نوش مسلمانوں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی انکی دیکھا دیکھی دوسرے مسلمان بھی شراب پینے لگیں گے ،شراب کا نشہ عقل پر غالب آجاتا ہے پھر انسان دوسرے گناہوں کی طرف مائل ہونے لگتا ہے، اگر اس قوم میں شراب چل نکلی تو اس کا وہ حسن سلوک ختم ہوجائے گا جس سے متاثر ہو کر غیرمسلم اسلام قبول کر لیتے ہیں۔
اویس کے ساتھ رابعہ بھی اکتانے لگی کہ اس کا باپ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ناپسندیدگی اور بے زاری کا اظہار کررہا ہے۔ اپنے باپ کو وہ جانتی تھی کہ اپنے مذہب کے معاملے میں وہ بڑا ہی سخت ہے، بلکہ عیسائیت اس کے دل و دماغ پر جنون کی طرح طاری تھی اس نے بہتر سمجھا کہ اپنے باپ کی اس الزام تراشی کو یہیں روک دے اس نے باپ سے کہا۔۔۔ کہ وہ آئندہ بھی اویس کو اپنے ساتھ لانا چاہتی ہے کیا باپ اس کی اجازت دیتا ہے؟
نہیں!،،،، باپ نے فوراً اپنا فیصلہ سنا دیا۔۔۔ تم دونوں کے لئے میرے گھر کے دروازے بند ہوچکے ہیں ،اگر تم دونوں واپس عیسائیت میں آ جاؤ تو میں تمہارے لئے اپنے دل اور اپنی روح کے بھی دروازے کھول دوں گا۔
ہم اب کسی غلط دروازے میں داخل نہیں ہوں گے۔۔۔ اویس نے کہا ۔۔۔اور اٹھ کھڑا ہوا رابعہ کو اٹھایا اور بولا چلو رابعہ میں اپنی توہین اور بےعزتی برداشت کر سکتا ہوں ،اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ذرا سی جھوٹی تہمت بھی برداشت نہیں کروں گا، میں یہاں کئی اور عیسائیوں کو مسلمان کر لوں گا۔
شاید تم ایسا نہیں کر سکو گے۔۔۔ رابعہ کا بڑا بھائی جو اس وقت تک خاموش تھا بولا ۔۔۔روزی اسے اسلام کی تبلیغ سے روکنا ورنہ،،،،،،،،
میں روزی نہیں رابعہ ہوں میرے بھائی۔۔۔ رابعہ نے کہا۔۔۔ یہ اپنے مذہب کے لئے جو بہتر سمجھے گا کرے گا میں اسے نہیں روکوں گی۔
اویس اور رابعہ وہاں سے نکل آئے رابعہ کا بھائی دونوں کو دروازے سے نکل جانے تک گھورتا رہا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اویس بہت بہادر مجاہد ہی سہی، بڑا ذہین اور عقل و دانش والا جاسوس ہی سہی ،لیکن وہ رابعہ کے بھائی کی نیت اور نظریں نہ بھانپ سکا۔ اس بھائی نے اویس کو بڑے تحمل سے کہا تھا کہ شاید تم ایسا نہیں کر سکو گے،لیکن اس تحمل میں ایک طوفان چھپا ہوا تھا جسے اویس دیکھ نہ سکا محسوس بھی نہ کر سکا تھا۔
اس گھر سے نکل کر وہ رابعہ سے کہتا جارہا تھا کہ وہ پھر کبھی اسے یہاں نہ لائے۔
نہیں لاؤ گی اویس!،،،، رابعہ نے کہا۔۔۔ توقع نہیں تھی کہ میرے ماں باپ مجھے اس طرح دھتکار دیں گے ،ایک خیال رکھنا اویس میرا باپ مذہب کا پرستار ہے لیکن میرا یہ بھائی ٹھیک آدمی نہیں۔
یہ میرا کیا بگاڑ لے گا ۔۔۔اویس نے کہا۔۔۔ اس کے ساتھ میرا کوئی تعلق ہی نہیں نہ اس کے ساتھ کوئی تعلق رکھنا ہے۔
رابعہ نے یہ جو کہا تھا کہ اس کا بھائی ٹھیک آدمی نہیں، اس کا اسے اندازہ نہیں تھا کہ وہ ٹھیک نہیں تو کس حد تک برا آدمی ہے ،اور اس میں کیا برائی ہے رابعہ کا یہ بھائی مسلمانوں کا جانی دشمن تھا رومی فوج میں عارضی طور پر شامل ہو کر ایک دو مرتبہ مسلمانوں کے خلاف لڑا بھی تھا لیکن یہ محسوس کر کے کہ مسلمانوں کو میدان جنگ میں شکست نہیں دی جا سکتی وہ فوج سے نکل آیا اور مسلمانوں کے خلاف زمین دوز تخریبی کارروائیوں کا ارادہ کر لیا، اس نے تین چار اپنے جیسے دوستوں کو ساتھ ملا لیا تھا لیکن ابھی تک وہ کوئی ایسی تخریبی کارروائی نہیں کر سکا تھا جس سے مسلمانوں کو کوئی نمایاں نقصان پہنچتا اس نے تبلیغی مہم بھی شروع کی تھی جو کامیاب نہ ہوسکی۔
یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اس شخص کو اپنے مذہب عیسائیت کے ساتھ کوئی دلچسپی نہیں تھی ،اس کی شادی سے بہت پہلے نوجوانی کے وقت اسے ایک لڑکی سے محبت تھی اور اس کی شادی اسی لڑکی کے ساتھ ہونی تھی، لیکن جس طرح رابعہ اور شارینا کسی مجاہد سے متاثر ہو کر مسلمان ہو گئی تھیں، اسی طرح یہ لڑکی بھی کسی ایسی ہی صورتحال میں ایک عربی مجاہد سے ایسی متاثر ہوئی کی رابعہ کے بھائی کو ٹھکرا کر اور پھر اسلام قبول کر کے اس مجاہد کی رفیقہ حیات بن گئی تھی۔
اب اس شخص کی اپنی بہن نے اسلام قبول کرکے ایک نو مسلم کے ساتھ شادی کرلی تو اسے اپنی پہلی محبت یاد آ گئی اور اس کے ساتھ ہی ایک بڑا ھی خوفناک ارادہ اس کے دل میں پیدا ہوگیا ،اویس اور رابعہ کے چلے جانے کے بعد وہ گھر سے نکلا اور اپنے دو تین دوستوں کو اکٹھا کر لیا انہیں اویس اور رابعہ کی بات سنائی اور کہا کہ اویس کہتا ہے کہ وہ اسلام کی تبلیغ کر ے گا۔
ہم اسے کس طرح روک سکتے ہیں؟ ۔۔۔ایک دوست نے پوچھا۔
قتل،،،، رابعہ کے بھائی نے دوٹوک لہجے میں کہا۔۔۔۔ ہم نے آج تک کوئی ایسی کاروائی نہیں کی جس سے اسلام کا راستہ روکا جاسکتا ہے ہم صرف باتیں کرتے رہے ہیں اور عملاً کچھ بھی نہیں کیا ہے۔
دوست اویس کے قتل پر رضامند ہو گئے اور سوچنے لگے کہ قتل کس طرح کیا جائے کچھ دیر اس مسئلہ پر تبادلہ خیالات ہوتا رہا اور انہوں نے ایک طریقہ سوچ لیا یہ بھی طے کر لیا کہ کون آدمی اویس کو جھانسہ دے کر قتل کی جگہ تک لائے گا۔
چار پانچ دن گزر گئے اویس ان کے پھندے میں نہ آ سکا کیوں کہ وہ اپنے فرائض میں مصروف ہو گیا تھا، ان دنوں میں جو گزر گئے تھے ان لوگوں کا یہ ارادہ مکمل طور پر مستحکم ہو گیا کہ اویس کو قتل کرکے ہی رہیں گے۔
آخر ایک روز اویس اس شخص کو مل گیا جس کے ذمے یہ کام تھا کہ اویس کو جھانسہ دے کر قتل والی جگہ پہنچائے گا، انہوں نے قتل کا منصوبہ نہایت اچھا بنایا تھا ، رابعہ کے بھائی نے اویس کی اس بات کو سامنے رکھا تھا کہ وہ اسلام کی تبلیغ کرے گا اویس کو دھوکے میں شہر سے باہر لے جانے والے آدمی نے اویس سے کہا کہ دو تین عیسائی مسلمان ہونا چاہتے ہیں لیکن وہ کچھ جاننا اور سمجھنا ضروری سمجھتے ہیں کہ وہ خود بھی مسلمان ہو جائے گا۔
اویس شام کے بعد اس شخص کے ساتھ اس طرف چل پڑا جہاں اسے قتل کرنا تھا اور پھر اس کی لاش غائب کردینی تھی۔ اویس کے دل میں اسلام اور مسلمانوں کی ایسی محبت اور عقیدت پیدا ہو گئی تھی کہ اس نے یہ سوچنے اور سمجھنے کی ضرورت ہی محسوس نہ کی کہ یہ دھوکہ بھی ہو سکتا ہے۔
وہ اس شخص کے ساتھ شہر سے باہر نکل گیا، اسے یہ بتایا گیا تھا کہ یہ آدمی شہر سے باہر ایک جگہ بیٹھے ملیں گے اور وہاں بات ہو گی ،اس قاتل پارٹی نے ہر کام یوں طے کر لیا تھا کہ یہ شخص اویس کو اس جگہ لے جائے گا اور رابعہ کا بھائی اپنے دو دوستوں کے ساتھ وہاں پہلے سے موجود ہوگا اور کوئی بات کیے بغیر فوراً ہی اویس کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔
اویس اس شخص کے ساتھ اس جگہ پہنچا تو وہاں کوئی بھی نہ تھا اس شخص نے کہا کہ وہ لوگ ابھی آتے ہوں گے ،دونوں وہاں انتظار میں بیٹھ گئے اور وقت گزرتا چلا گیا یہ آدمی پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر دیکھتا رہا آخر اویس نے کہا کہ وہ اور زیادہ انتظار نہیں کر سکتا اور اگر یہ لوگ کچھ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو کل میرے پاس آ جائیں اور میں انہیں کسی ایسے مجاہد سے ملوا دو گا جو اسلام کے امور اور معاملات کو زیادہ اچھی طرح سمجھتا ہے۔
قاتل پارٹی کا یہ آدمی اکیلے تو کچھ نہیں کرسکتا تھا نہ اسے یہ بتایا گیا تھا کہ پارٹی کا کوئی اور آدمی نہ آئے تو یہ کام وہ خود ہی کر دے، اس شخص نے اویس کو باتوں میں لگائے رکھا لیکن وقت اتنا زیادہ گزر گیا تھا کہ وہ خود اس شخص نے محسوس کیا کہ اب انتظار بےکار ہے دونوں وہاں سے واپس آ گئے، اور اویس اپنے ٹھکانے پر چلا گیا۔
میرا بھائی بہت ہی بیمار ہو گیا ہے۔۔۔ رابعہ نے اویس کو بتایا۔۔۔ تھوڑی دیر پہلے ان کے پڑوس میں رہنے والی ایک عورت ادھر سے گزری میں تمہارے انتظار میں دروازے میں کھڑی تھی عورت میرے پاس رک گئی اور اس نے بتایا کہ تمہارا بھائی دو تین دنوں سے کسی ایسی بیماری میں مبتلا ہے کہ کسی سیانے کو پتہ نہیں چلتا کہ بیماری کیا ہے ،دو تین دنوں میں ہی وہ آخری وقت تک جا پہنچا ہے اور ہوسکتا ہے آج کی رات اس کی زندگی کی آخری رات ہو، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ بھائی کو دیکھنے جاؤں یا نہ جاؤں۔
جانا چاہتی ہو تو میں تمہیں روکوں گا نہیں۔۔۔ اویس نے کہا۔۔۔ مجھے ساتھ لے جانا چاہو تو میں بھی چلوں گا۔
رابعہ کو اپنے گھر سے دھتکار کر نکالا گیا تھا لیکن وہ آخر بہن تھی اس سے رہا نہ گیا اور وہ اسی وقت اویس کو ساتھ لے کر اپنے بھائی کو دیکھنے چلی گئی، اسے کسی نے گھر میں آنے سے روکا نہیں شاید اس لیے کہ اس کے بھائی پر نزع کا عالم طاری تھا بھائی کی بیوی اس کی ماں اور باپ رو رہے تھے
بھائی نے رابعہ سے پہلے اویس کی طرف دیکھا اور اس کی آنکھیں بند ہو گئی فوراً ہی بھائی کی آنکھیں کھلی اس نے ایک ہچکی لی اور اس کا چہرہ ایک طرف ڈھلک گیا وہ مر چکا تھا ۔ اویس کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ اس شخص نے اسے قتل کرنے کے لئے پھندہ لگا دیا تھا ،اور اویس اس پھندے میں چلا بھی گیا تھا، لیکن اللہ کا کوئی بندہ اللہ کے ارادوں کو نہیں سمجھ سکتا ،رابعہ کے آنسو بہنے لگے ماں باپ نے اس کی طرف توجہ ہی نہ دی ان کا جوان اور شادی شدہ بیٹا مر گیا تھا اویس رابعہ کو وہاں سے لے آیا۔
دوسرے ہی دن پتہ چلا کہ رابعہ کے بھائی کا ایک دوست جو اویس کے قتل کی اس سازش میں شامل تھا اسی بیماری میں مبتلا ہو گیا ہے تیسرے دن وہ بھی مر گیا ۔اس کے ساتھ ہی اس کا وہ دوست بھی اسی بیماری سے چل بسا جو اویس کو قتل والی جگہ لے گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اویس کو اللہ نے قتل ہونے سے صاف بچا لیا، اویس کو معلوم ہی نہیں تھا کہ جو مر گئے ہیں وہ اسے مارنے کی سازش کرچکے تھے، لیکن یہ بیماری صرف ان تین دوستوں کے لیے ہی نہیں آئی تھی بلکہ حلب کے پورے شہر میں یہ بیماری پھیل گئی گھر گھر سے جنازے نکلنے لگے طبیبوں نے بتایا کہ یہ طاعون کا مرض ہے، یہ ایسا لاعلاج مرض تھا کہ جس پر اس کا حملہ ہوتا ہے وہ ایک دو دنوں میں مر جاتا تھا۔ طبیبوں نے بہت کوشش کی کہ اس مرض کو روکا جائے لیکن مرض پھیلتا چلا گیا اور اس نے پورے ملک شام کو لپیٹ میں لے لیا۔
تاریخ میں اس وباء کے متعلق جو تفصیلات آئی ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ اس کی ابتدا فلسطین کے ایک قصبے عمواس سے ہوئی تھی، اس دور کے لوگوں کو ابھی اتنی سوجھ بوجھ نہیں تھی کہ ایسی بیماریوں میں کیسی احتیاطی تدابیر اختیار کرنی چاہیے، عام ذہن کے لوگوں کو معلوم ہی نہیں تھا کہ ایک شخص کی بیماری دوسرے کو بھی لگ سکتی ہے ،اسی لاعلمی کا نتیجہ تھا کہ عمواس سے چلنے والی بیماری شام تک پہنچی اور موت ہر گھر کے دروازے پر دستک دینے لگی۔
یہ مرض طاعون تھا لیکن اس دور کے لوگوں نے اسے عمواس کا مرض کہا تھا۔ بعض مؤرخوں نے بھی اسے یہی نام دیا ہے۔
قحط کے اثرات ابھی باقی تھے کہ اس وباء نے قحط کی تباہ کاریوں کو بھی مات کر دیا ۔
یہ وباء (639 عیسوی ) (18ہجری )میں پھیلی تھی۔
قحط عرب میں پڑھا تھا، اور طاعون شام میں پھیلی لیکن اس کے دوسرے اثرات عرب تک پہنچے ایوان خلافت ہل کے رہ گیا، وباء صرف شہریوں میں نہیں بلکہ مجاہدین کے لشکروں میں بھی پھیل گئی تھی۔
اس کی خبر ہرقل تک پہنچ گئی ۔ وہ بہت خوش ہوا اور اپنے مشیروں سے کہا کہ مسلمانوں کو شکست دینے کا یہ موقع نہایت اچھا ہے۔ خوشامدی مشیروں نے اس کی تائید کردی۔
اس کے مقرر کیے ہوئے اسقف اعظم قیرس کو ہرقل کے اس ارادے کا پتہ چلا تو وہ ہرقل کے پاس گیا۔
 یہ خطرہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے بھی محسوس کیا تھا کہ اس خوفناک صورتحال میں رومی فوج نے حملہ کر دیا تو حملے کو روکا نہیں جا سکے گا ،آدھا لشکر اس مرض کی نذر ہو گیا تھا اور کچھ سالار بھی اس وباء کی زد میں آکر اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔
شہنشاہ روم!،،،، قیرس نے ہرقل سے کہا۔۔۔ معلوم ہوا ہے کہ آپ شام پر فوج کشی کرنا چاہتے ہیں ؟،،،،اور مشیروں نے آپ کی تائید میں کہا ہے کہ مسلمانوں کو ملک شام سے نکالنے کا اس سے زیادہ اچھا موقع پر کبھی نہیں ملے گا۔
ہاں اسقف اعظم !،،،،،ہرقل نے پرعزم لہجے میں کہا۔۔۔ شام ہی نہیں میں پورے ملک عرب کو اپنی سلطنت میں شامل کر لوں گا ابھی تو وہ قحط سے نہیں سنبھلے تھے کہ ان پر یہ مصیبت نازل ہو گئی ہے۔
اگر مجھے آپ کے نقصان کا احساس نہ ہوتا تو میں بھی آپ کی تائید کرتا۔۔۔ قیرس نے کہا۔۔۔ لیکن آپ میرے بادشاہ ہیں ،اور محسن ہیں ،اور سلطنت روم کے ساتھ میری روحانی وابستگی ہے میں آپ کو اس راستے پر جانے سے روکوں گا جو تباہی کی طرف جاتا ہے۔ اس حقیقت کو نہ بھولیں کہ ہماری آدھی سے زیادہ فوج عربوں کے ہاتھوں ماری جاچکی ہے اور باقی جو بچ کر مصرمیں ہے اس پر ابھی تک عربی مسلمانوں کی دہشت طاری ہے ۔اگر آپ اس فوج کو طاعون سے مروانا چاہتے ہیں تو شام پر حملہ کردیں۔
کیا اتنی سی بات نہیں سمجھ سکتے کہ مسلمانوں کے لشکر بھی اسی بیماری کی زد میں آگئے ہیں، اور یہ وباء ہماری فوج کو بھی نہیں بخشے گی؟ کل تک مجھے جو خبر ملی ہے ان سے پتہ چلا ہے کہ مسلمانوں کے کچھ سالار بھی اس بیماری سے مر چکے ہیں۔
ہرقل یہ بات سمجھ گیا اور اس نے شام پر حملے کا ارادہ ذہن سے نکال دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ وباء کی اطلاع ملنے سے پہلے ہی شام جانے کا ارادہ کر چکے تھے ۔اس دوران وباء کی اطلاعیں پہنچنے لگیں، لیکن حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کچھ زیادہ پریشان نہ ہوئے بلکہ انہوں نے جانا زیادہ بہتر سمجھا تھا کہ وہاں کی صورت حال دیکھ کر وباء کو روکنے کا کچھ بندوبست کیا جائے ۔چنانچہ حضرت عمر نے فوری روانگی کا حکم دے دیا اور ان کا قافلہ سُوئے شام روانہ ہو گیا۔
نہ جانے کتنے دنوں بعد امیرالمومنین کا قافلہ تبوک پہنچا شام کے مختلف علاقوں کے سالاروں کو پہلے اطلاع دے دی گئی تھی کہ امیرالمومنین شام کے دورے پر آرہے ہیں ہر سالار نے سوچ لیا کہ امیرالمومنین کا شام میں آنا ٹھیک نہیں ،چنانچہ سپہ سالار ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ، سالار یزید بن ابی سفیان ،اور سالار شرجیل بن حسنہ، تبوک پہنچ گئے اور حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو بتایا کہ وہ اس سے آگے نہ جائیں کیوں کہ شام کی زمین اور فضا میں طاعون کے جراثیم اور موت کے سوا کچھ نہیں رہا انہوں نے امیرالمومنین کو وباء کی شدت اور تباہ کاری کی تفصیلات بتائیں۔
یہاں رکے رہنا میرے لیے ممکن نہیں ۔۔۔حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے کہا۔۔۔ میں یہیں سے واپس مدینہ چلا گیا تو بھی ان کی روحوں کے آگے شرمسار ہونگا جنہیں اس بیماری نے اللہ کے حضور پہنچا دیا ہے میں اپنے قوم کو اتنی خطرناک ابتلا میں چھوڑ کر واپس کس طرح جا سکتا ہوں۔
سالاروں نے انھیں قائل کرنے کی بہت کوشش کی کہ وہ آگے نہ جائیں وہ دلیل یہ دیتے تھے کہ اس خوفناک صورتحال میں اگر امیرالمومنین کو کچھ ہو گیا تو ایک اور مسئلہ پیدا ہوجائے گا ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ پھر بھی نہ مانے اور سب سے مشورہ طلب کرنے لگے ان کے ساتھ سالاروں کے علاوہ کچھ اکابرین بھی تھے ان سب میں اختلاف پیدا ہو گیا۔
یا امیرالمومنین !،،،،بعض نے ان الفاظ میں مشورہ دیا چونکہ آپ بنی نوع انسان کی بھلائی اور اللہ کی خوشنودی کی خاطر جا رہے ہیں اس لئے آپ کو یہ نہیں سوچنا چاہیے کہ آگے کیا خطرات ہیں۔
نہیں امیرالمومنین!،،،، دوسرے گروہ نے یہ خیال ظاہر کیا جہاں ہلاکت اور تباہی کے سوا کچھ بھی نہ ہو وہاں کم از کم خلیفہ وقت کو نہیں جانا چاہیے، اللہ تعالی نے عقل اسی لیے عطا فرمائی ہے کہ ہر کام سوچ سمجھ کر کرو۔
آخر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے قریش کے ان صحابہ کرام کو جو اس وقت ان کے ساتھ تھے اور جو فتح مکہ میں بھی شریک تھے اپنے پاس بلایا اور یہ مشورہ ان کے آگے رکھا ان میں حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہ بھی تھے یہ سب اس فیصلے پر متفق ہوگئے کہ امیرالمومنین اپنے تمام قافلے سمیت تبوک سے آگے نہیں بلکہ واپس مدینہ جائیں گے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے اسی وقت حکم دیدیا کہ کل صبح ان کا قافلہ مدینہ کو روانہ ہوگا۔
تقریباً تمام مؤرخوں نے امیرالمومنین اور ابو عبیدہ کا ایک مشہور مکالمہ لکھا ہے ،تاریخ میں آیا ہے کہ ابوعبیدہ یہ نہیں چاہتے تھے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ تبوک سے آگے جائیں جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے واپسی کا فیصلہ کرلیا تو ابوعبیدہ کی رائے نہ جانے کس طرح متزلزل ہو گئی۔
ابن الخطاب!،،،،، ابوعبیدہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے بڑی بے تکلفی سے کہا ۔۔۔قضائے الہی سے بھاگتے ہو۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا اور حیرت زدگی کے عالم میں کچھ دیر ابوعبیدہ کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہے۔
ابن الجراح!،،،،، حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ نے ابوعبیدہ سے کہا۔۔۔۔ کاش یہ بات کوئی اور کہتا۔۔۔۔ ہاں میں قضائے الہی سے قضا الہی کی طرف بھاگ رہا ہوں۔
ابوعبیدہ خاموش ہوگئے اس وقت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آ گئے وہ معمر صحابی تھے انھیں پتہ چلا کہ یہاں کیا مسئلہ درپیش ہے تو انھوں نے حتمی فیصلہ سنا دیا انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ تم سنو کسی علاقے میں کوئی وبا پھیل گئی ہے تو وہاں مت جاؤ اور اگر تم اس جگہ ہو جہاں وبا پھوٹ پڑی تو وہاں سے بھاگو نہیں کیونکہ تم یہ وباء اپنے ساتھ لے جاو گے اور کسی اور جگہ پھیلا دو گے، چونکہ یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان تھا اس لئے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ مطمئن ہوگئے اور تبوک سے واپس مدینہ چلے گئے۔
مدینہ پہنچ کر امیرالمومنین اطمینان سے کس طرح رہ سکتے تھے، ہر وقت شام کے لوگوں کے متعلق سوچتے کہ انھیں اس وباء سے کس طرح بچایا جاسکتا ہے۔
تاریخ کے مطابق انھیں سب سے زیادہ خیال ابوعبیدہ کا تھا ابوعبیدہ بڑے قیمتی سپہ سالار تھے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ انھیں بچانا چاہتے تھے، ایک روایت یہ بھی ہے کہ انھوں نے ابوعبیدہ سے کہا تھا کہ وہ ان کے ساتھ مدینہ چلے چلیں، لیکن اس عظیم سپہ سالار نے جواب دیا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں کو موت کے سائے میں چھوڑ کر نہیں جائیں گے ،اور انہوں نے اپنے وہ الفاظ استعمال کیے جو وہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے کہہ چکے تھے میں قضائے الہی سے نہیں بھاگوں گا۔
مدینہ پہنچ کر حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سپہ سالار ابوعبیدہ کو طاعون سے بچانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ ان کے نام ایک پیغام لکھوا کر تیزرفتار قاصد کے ہاتھ بھیجا پیغام یہ تھا کہ میں ایک ضروری مسئلہ پر تم سے زبانی گفتگو کرنا چاہتا ہوں اس لئے پیغام ملتے ہی چل پڑو۔
ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ نے اس پیغام کا جواب یہ دیا کہ جس مسئلہ پر آپ میرے ساتھ صلاح مشورہ کرنا چاہتے ہیں وہ ملتوی ہو سکتا ہے لیکن میں یہاں اسلامی لشکر کا سپہ سالار ہوں اور اس لشکر کو اتنی بڑی مصیبت میں چھوڑ کر کہیں نہیں جا سکتا میں اپنے ساتھیوں کو نہیں چھوڑوں گا اور اللہ کے حکم کا انتظار کروں گا۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنے پیغام کا جواب ملا تو ان پر جذبات کے احساس کا غلبہ ہوا کہ ان کے آنسو بہہ نکلے وہاں جو حضرات بیٹھے ہوئے تھے ان میں سے کسی نے گھبرا کر پوچھا یا امیرالمومنین ابوعبیدہ فوت تو نہیں ہوگئے ۔۔۔۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ رقت آمیز آواز میں جواب دیا ۔۔۔نہیں مگر معلوم ہوتا ہے وہ فوت ہی ہو جائے گا۔
امیرالمومنین نے ابوعبیدہ کا خط تمام حاضرین کو پڑھنے کے لئے دیا پھر سوچ سوچ کر ابو عبیدہ کے نام ایک اور پیغام لکھا جس میں لکھوایا کہ ابو عبیدہ نشیبی علاقے سے نکل کر ذرا بلند اور صحت افزا مقام پر چلے جائیں اور اپنے لشکر کو بھی ساتھ لے جائیں۔ مؤرخوں نے لکھا ہے کہ ابو عبیدہ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے اس حکم یا مشورے پر عمل کرنے کی سوچ ہی رہے تھے کہ طاعون نے انہیں بھی زد میں لے لیا اور وہ تیسرے دن فوت ہو گئے، انہوں نے بیماری کے حملے کے ساتھ ہی معاذ بن جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو اپنا جانشین مقرر کردیا تھا، وہاں موت کا یہ عالم تھا کہ معاذ بن جبل کے دو جوان بیٹے طاعون کی بھینٹ چڑھ چکے تھے۔ اور کچھ دنوں بعد وہ خود بھی اس مرض سے فوت ہو گئے انہوں نے عمرو بن عاص کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔
عمرو بن عاص نے مجاہدین کے لشکر کو اور شہریوں کو بھی کہا کہ وہ میدانوں سے نکل کر پہاڑوں میں چلے جائیں چنانچہ لوگ گھر کھلے چھوڑ کر پہاڑوں میں چلے گئے اور اس طرح طاعون کا زور ٹوٹتے ٹوٹتے بالکل ہی ختم ہو گیا۔
یہ وباء کئی مہینے انسانی جانوں سے کھیلتی رہی اور پچیس ہزار مسلمانوں کی جان لے کر ٹلی جو سالار فوت ہوئے ان میں ابوعبیدہ، معاذ بن جبل، یزید بن ابی سفیان ،حارث بن حسام، سہیل بن عمرو، اور عتبہ بن سہیل، رضی اللہ تعالی عنہم خاص طور پر شامل ہیں ۔حارث بن ہشام کے خاندان کے ستر افراد اور حضرت خالد بن ولید کے خاندان کے چالیس افراد اس وباء میں فوت ہوگئے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی