Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

🌸 خلاصۂ قرآن رکوع بہ رکوع، سبق نمبر 03


 سورۃ بقرہ کے مضامین کا خلاصہ 


رکوع نمبر ۱۱ کا خلاصہ: یہود کے امراض دائمی ہیں 

رکوع نمبر 9 میں اس بات کی تفصیل گزر چکی ہے کہ یہود مسلمانوں کے تابع یا متبوع یا مساوی رہ کر کام نہیں کر سکتے کیونکہ ان کے امراض دائمی ہیں۔ حضور می داریم یا کے آنے سے قبل آپ کے نام سے فتح کی دعائیں مانگتے تھے لیکن جب اس نبی آخر الزمان مسلم کے مبعوث ہونے کا وقت آیا تو ان کا انکار محض عناداً اور حسد ا کر دیا ، اور یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے کہ حاسد محسود کا کچھ نقصان نہیں کرتا البتہ خود غیظ و غضب کی آگ میں جلتا اور سڑتا رہتا ہے۔


رکوع نمبر ۱۲ کا خلاصہ: حالتِ انحطاط میں یہود کا مشغلہ

جب یہودیوں کی عقل سلب کر لی گئی اور ان کی عقل پر پردے پڑ گئے تو انہوں نے جبرئیل امین علیہ السلام کے ساتھ دشمنی کا مشغلہ اپنا لیا اور اس کے ساتھ ساتھ یہ کہ انہوں نے جادو سیکھنا شروع کر دیا اور اسلام اور پیغمبر اسلام ملا یہ اسلام کے خلاف سازشیں کرنا ان کا محبوب ترین مشغلہ قرار پایا چنانچہ لبید بن اعصم یہودی کا اپنی بیٹیوں سے جادو کرانا اسی سلسلہ کی کڑی معلوم ہوتی ہے جس پر معوذتین نازل ہوئیں۔

الحاصل یہ کوئی اچھا مشغلہ نہیں اس سے ان کی عقل ماؤف ہو کر رہ گئی ہے اور ان میں قبولِ حق کا مادہ باقی نہیں رہا۔


 رکوع نمبر ۱۳ کا خلاصہ: اہلِ کتاب سے مقاطعہ اور بحثِ نسخ

مسلمانوں کو ادب سکھانے کی ذمہ داری خود رب العالمین نے اپنے ذمے لے رکھی ہے چنانچہ ایسے الفاظ بھی استعمال کرنے سے منع کر دیا گیا کہ جو ذو معنی ہوں، ایک معنی ان کا درست ہو اور دوسرا معنی غلط۔ "لاَ تَقُولُوا رَاعِنَا“ کا حکم اسی مصلحت کے تحت دیا گیا ہے، پھر یہودیوں کا تحویلِ قبلہ کے سلسلہ میں اعتراض اور اس کے جوابات دیئے گئے ہیں۔ تحقیقی جواب تو دوسرے پارے میں آئے گا البتہ الزامی جواب یہاں منقول ہے کہ بیت المقدس کو بطورِ قبلہ منسوخ قرار دیا گیا ہے، یہ خالق و مالکِ کائنات نے کیا ہے اور وہ اس پر قادر ہے، زمین و آسمان اس کی ملکیت میں ہیں، اس کو ہر قسم کا تصرف کرنے کا اختیار ہے۔

اس نے اگر اپنا یہ حق استعمال کرتے ہوئے کسی حکم کو بدل دیا تو اے یہود بے بہبود! تمہیں اس میں کیا اعتراض کا حق ہے؟ کیا تم خدائی کے دعویدار ہو؟ خدائی میں شرکت کے دعویدار ہو؟ کیا چیز ہو؟ یہ تو وہی بات ہو گئی کہ چھوٹا منہ اور بڑی بات۔


 رکوع نمبر ۱۴ کا خلاصہ: یہود مساجد کو غیر آباد کرنا چاہتے ہیں 

ایک طرف تو یہود و نصاریٰ باہم ایک دوسرے سے بھڑے رہتے ہیں اور ایک دوسرے کی تکفیر کرتے رہتے ہیں، اور دوسری طرف مسلمانوں کے سب سے بڑے وحدتِ ملی کے مرکز مسجد کو ویران کرنے کی کوشش میں مصروف رہتے ہیں اور مسلمانوں کو مساجد سے روکتے ہیں۔ چنانچہ مسجد اقصیٰ قبلۂ اول سے مسلمانوں کو روکے رکھا، تا وقتیکہ عمرِ فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا دورِ بابرکت اپنی تمام تر سعادتوں اور کامیابیوں کے ساتھ آیا تو مسلمانوں کو وہاں جانا میسر ہوا۔

تو جو قوم اس قدر گئی گزری ہو آپ سلیم کو اس کے ایمان لانے کی تمنا نہیں کرنی چاہئے۔


 رکوع نمبر ۱۵ کا خلاصہ: تعمیرِ بیت اللہ بدستِ خلیل اللہ 

حضرت ابراہیم علیہ السلام کے امتحان اور ان کی کامیابی کا ذکر کر کے ان کی چند دعائیں ذکر کی گئی ہیں۔ ان دعاؤں کا اصل محور مکہ المکرمہ ہے جس میں بیت اللہ واقع ہے۔ اب اگر حضرت ابراہیم علیہ السلام کی سابقہ دعائیں پوری ہو جائیں (جو یقیناً پوری ہوئیں) تو تحویلِ قبلہ کا اعتراض یہودیوں کو واپس لے لینا چاہئے۔


 رکوع نمبر ۱۶ کا خلاصہ: دین میں ہمارا مسلک یہود کے مسلم التعظیم بزرگوں والا ہے 

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دینِ مبارک حضرت ابراہیم، حضرت یعقوب، حضرت اسحاق اور حضرت موسیٰ علیہم السلام کے دین سے بہت میل کھاتا ہے، اور یہ تمام حضرات وہ ہیں جو یہود کے یہاں مسلم التعظیم ہیں۔ لہٰذا یہود کو اپنے اعتراضات جن کی کوئی علمی حیثیت نہیں بلکہ وہ محض ضد کی بنیاد پر ہیں، ان سے باز آ جانا چاہئے اور دینِ محمدی میں داخل ہو جانا چاہئے۔


 رکوع نمبر ۱۷ کا خلاصہ: تحویلِ قبلہ کا تحقیقی جواب 

ازل میں یہ بات مقدر ہو چکی تھی کہ مسلمان سولہ یا سترہ مہینے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھیں گے، مال کار ان کا قبلہ بیت اللہ قرار پائے گا۔ اب اگر مسلمان یہود کی خوشنودی اور ان کو مسلمان بنانے کی غرض سے بیت المقدس ہی کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے رہتے تب بھی انہوں نے مسلمان نہیں ہونا تھا حتیٰ کہ تم ان کی خواہشات پر عمل پیرا ہو جاتے پھر شاید یہ تمہاری بات مان لیتے۔


 رکوع نمبر ۱۸ کا خلاصہ: تلقینِ استقامت بر قبلہ اور بابِ تہذیبِ اخلاق کے دو اصول — ذکر و شکر 

اس رکوع میں بتایا جا رہا ہے کہ ہر ایک امت کا ایک قبلہ رہا ہے، قیامت کے دن دیکھا جائے گا کہ کس نے اپنے قبلے کا حق پورا پورا ادا کیا، نیز مسلمانوں کو حکم دیا جا رہا ہے کہ اب بیت اللہ ہی تمہارا قبلہ ہے اس لئے جہاں بھی نماز کا وقت آئے تو بیت اللہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھو۔

پھر مسلمانوں کو اپنے اخلاق میں تہذیب اور شائستگی پیدا کرنے کیلئے ذکر و شکر کی تلقین کی گئی کیونکہ ذکرِ الٰہی سے زبان تر و تازہ رہے گی تو زبان کے گناہ اس سے صادر نہ ہوں گے، اور شکر سے دل معمور ہوگا تو قلبی گناہوں سے حفاظت کا سامان ہوتا رہے گا۔

گویا مومن کو دو ہتھیار دیئے گئے ہیں جن سے وہ شیطانِ لعین کے حملوں سے بچ سکتا ہے۔


 رکوع نمبر ۱۹ کا خلاصہ: تہذیبِ اخلاق کے تین رہنما اصول 

گذشتہ رکوع میں تہذیبِ اخلاق کے دو اصول بیان کئے گئے، اب اس رکوع میں تین اور اصول ذکر کئے جا رہے ہیں تو یہ کل ملا کر پانچ ہو گئے:

(۱) ذکر، (۲) شکر، (۳) دعا، (۴) صبر، (۵) تعظیمِ شعائرِ اللہ۔

انسان کو دنیا میں ہر قسم کے احوال پیش آتے رہتے ہیں جن سے بعض مرتبہ انسان گھبرا جاتا ہے۔ بندۂ مومن اس سے بچاؤ کیلئے نماز کی طرف توجہ کرتا ہے اور بعدِ فراغتِ نماز دعا میں الحاح و زاری کرتا ہے۔ اگر مطلب برآری ہو جائے تو شکر کا حکم ہے اور اگر کچھ دیر ہو جائے تو صبر کا حکم ہے۔

پھر یہ کہ شعائرِ اللہ کی تعظیم کا حکم دیا جا رہا ہے۔ آگے پارہ نمبر ۱۷ میں یہ بات آجائے گی کہ جو شعائرِ اللہ کی تعظیم کرتا ہے تو یہ اس کے دلی تقویٰ کی علامت ہے۔


جاری ہے ۔۔۔۔۔۔//

♥️🌹🌼🌸

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.