مارچ 2025
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


🌹 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
ــــــــــــــــــــــــ

━━❰・ *پوسٹ نمبر 130* ・❱━━━
            *نماز کا مسنون طریقہ:*
🔷 *دوسرا  سجدہ:*
(1) جلسہ میں کم ازکم ایک مرتبہ "اللہ اکبر" کہنے کے بقدر اطمینان سے بیٹھنے کے بعد "اللہ اکبر"کہتے ہوئے دوسرے سجدے میں چلے جائیں۔ 
(2)سجدہ میں جاتے وقت پہلے دونوں ہتھیلیاں زمین پر رکھیں، اس کے بعد  ناک اور پیشانی۔
 سجدہ کی ہیئت وغیرہ میں وہی تفصیل ہے جو پہلے سجدہ میں بیان ہوئی۔

🔹 *سجدہ سے قیام کی طرف :* 
(1) جب سجدہ سے قیام کی طرف جائیں تو اولاً پیشانی زمین سے اٹھائیں، اس کے بعد ہتھیلیاں، اور  پھر گھٹنے۔
(2) اٹھتے وقت قدموں کے بل اٹھیں اور بلا عذر زمین کا سہارا لینے کی عادت نہ بنائیں ؛البتہ کوئی عذر ہو تو سہارے میں حرج نہیں۔
(3) کھڑے ہونے کے بعد اولاً بسم اللہ پڑھیں ،اس کے بعد سورت فاتحہ اور قرات کریں ، بعد ازاں اسی طرح رکوع اور سجدے کریں ،جیسا کہ پہلی رکعت میں کیا ہے۔

📚حوالہ:
(1) درمختار زکریا 2/203
(2) شامی 2/213
(3) حلبی کبیر 323
(4) کتاب المسائل 1/360
 ━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
▒▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓▒
مرتب:✍  
مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ 
━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
 


 🌻 *میکے بیٹھی بیوی کے زچگی کے اخراجات کا حکم*


📿 *میکے میں بیٹھ جانے والی بیوی کے زچگی کے اخراجات شوہر کے ذمے واجب ہونے کا حکم:*
بیوی شوہر کی اجازت اور مرضی کے بغیر میکے جاکر وہیں رہنے لگے اور شوہر کے مطالبے کے باوجود بھی شوہر کے گھر نہ آئے اور غلطی بھی شوہر کی نہ ہو تو ایسی صورت میں بیوی نفقے کی مستحق نہیں ہوگی، اس دوران اس کی زچگی کے اخراجات بھی شوہر کے ذمے واجب نہیں، ہاں شوہر اپنی خوشی سے یہ نفقہ اور اخراجات ادا کرنا چاہے تو جائز ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔ 
(فتاوٰی عثمانی، رد المحتار)

☀️ الفتاوى الهندية:
فَإِنْ كَانَ الزَّوْجُ قَدْ طَالَبَهَا بِالنَّقْلَةِ فَإِنْ لَمْ تَمْتَنِعْ عَن الِانْتِقَالِ إلَى بَيْتِ الزَّوْجِ فَلَهَا النَّفَقَةُ، فَأَمَّا إذَا امْتَنَعَتْ عَن الِانْتِقَالِ: فَإِنْ كَانَ الِامْتِنَاعُ بِحَقٍّ بِأَنْ امْتَنَعَتْ لِتَسْتَوْفِيَ مَهْرَهَا فَلَهَا النَّفَقَةُ، وَأَمَّا إذَا كَانَ الِامْتِنَاعُ بِغَيْرِ الْحَقِّ بِأَنْ كَانَ أَوْفَاهَا الْمَهْرَ أَوْ كَانَ الْمَهْرُ مُؤَجَّلًا أَوْ وَهَبَتْهُ مِنْهُ فَلَا نَفَقَةَ لَهَا، كَذَا فِي «الْمُحِيطِ». وَإِنْ نَشَزَتْ فَلَا نَفَقَةَ لَهَا حَتَّى تَعُودَ إلَى مَنْزِلِهِ. وَالنَّاشِزَةُ هِيَ الْخَارِجَةُ عَنْ مَنْزِلِ زَوْجِهَا الْمَانِعَةُ نَفْسَهَا مِنْهُ، بِخِلَافِ مَا لَو امْتَنَعَتْ عَن التَّمَكُّنِ فِي بَيْتِ الزَّوْجِ؛ لِأَنَّ الِاحْتِبَاسَ قَائِمٌ حَتَّى وَلَوْ كَانَ الْمَنْزِلُ مِلْكَهَا فَمَنَعَتْهُ مِن الدُّخُولِ عَلَيْهَا لَا نَفَقَةَ لَهَا إلَّا أَنْ تَكُونَ سَأَلَتْهُ أَنْ يُحَوِّلَهَا إلَى مَنْزِلِهِ أَوْ يَكْتَرِيَ لَهَا مَنْزِلًا، وَإِذَا تَرَكَت النُّشُوزَ فَلَهَا النَّفَقَةُ، وَلَوْ كَانَ يَسْكُنُ فِي أَرْضِ الْغَصْبِ فَامْتَنَعَتْ مِنْهُ لَهَا النَّفَقَةُ، كَذَا فِي «الْكَافِي».
(الباب السَّابِعُ عَشَرَ فِي النَّفَقَاتِ: الْفَصْلُ الْأَوَّلُ فِي نَفَقَةِ الزَّوْجَةِ)

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی


'*مقابلے کی تفصیلات اور قواعد و ضوابط درج ذیل ہیں*:-'

① یہ مقابلہ 15 فروری 2025 سے شروع ہوگا اور 26 مئی 2025تک جاری رہے گا۔
② روزانہ ایک سوال پوچھا جائے گا جسکا جواب 24 گھنٹے کے اندر اندر دینا ضروری ہوگا۔
③ مقابلے کے فاتحین کا انتخاب پوائنٹ سسٹم کے تحت ہوگا، مقابلے کے اختتام پر سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والے ممبر کو پانچ ہزار 5000 روپیہ نقد انعام اور ای سرٹیفیکیٹ دیا جائے گا جبکہ دوسرے نمبرپر آنے والے رکن کو اڑھائی ہزار 2500 روپیہ نقد انعام اور ای سرٹیفیکیٹ دیا جائے گا۔اور اس کے ساتھ ساتھ اس مقابلے میں تین منفرد اور خصوصی انعام بھی شامل کئے جارہے ہیں۔
پہلے منفرد انعام کا نام ہے ناقابلِ تسخیر اور یہ انعام اُس رکن کو ملے گا جو پورے مقابلے کے دوران ایک بھی غلط جواب نہیں دے گا، یہ انعام ایک ای-ایوارڈ اور 2500 اڑھائی ہزار روپیہ کیش پر مشتمل ہوگا جبکہ اہلیت کی شرط 90 فیصد سوالات کے جواب دینا ہوگی۔
دوسرے خصوصی انعام کا نام ہے ذرا بچ کے اور یہ انعام اُس رکن کو ملے گا جو مقابلے کے دوران سب سے کم غلط جواب دے گا، یہ انعام ایک ای-ایوارڈ اور 1000 ایک ہزار روپیہ کیش پر مشتمل ہوگاجبکہ اہلیت کی شرط 90 فیصد سوالات کے جواب دینا ہوگی۔
تیسرے انعام کا نام ہے گرتے پڑتے اور یہ انعام اُس رکن کے لئے مختص ہے جو مقابلے کے دوران سب سے زیادہ غلط جواب دے گا ، یہ انعام ایک ای-ایوارڈ اور 500 پانچ سو روپیہ کیش پر مشتمل ہے جبکہ اہلیت کی شرط 90 فیصد سوالات کے جواب دینا ہوگی۔

 '*پوائنٹس سسٹم کی تفصیل*:'

④ سب سے پہلے درست جواب دینے والے رکن کو 5 پوائنٹس ملیں گے۔
⑤ اس کے بعد ہر درست جواب دینے والے کو 2، 2 پوائنٹس، جبکہ پہلے 5 پوائنٹس حاصل کرنے والے رکن کے علاوہ باقی تمام درست جواب دینے والوں میں سے کسی ایک رکن کو بذریعہ قرعہ اندازی ایک اضافی پوائنٹ (ٹوٹل 3 پوائنٹس)دیئے جائیں گے۔
⑥ غلط جواب دینے والے کو بھی ایک پوائنٹ دیا جائے گا۔
⑦ مقابلے میں تین موضوعات پر سوالات پوچھے جائیں گے جن میں ٹیکنالوجی، جغرافیہ اور اسلامی معلومات شامل ہیں۔
⑧ سوالات الکمونیا بلاگ، الکمونیا وٹس ایپ چینل اور درسگاہ کے آفیشل وٹس ایپ کمیونٹی کے کوئز سیکشن میں ایک ہی وقت میں پوسٹ کئے جائیں گے جبکہ جواب صرف اور صرف آئی ٹی درسگاہ وٹس ایپ کمیونٹی کے کوئز گروپ میں قابلِ قبول ہوں گے۔

'_*مقابلے کے آفیشل لنک*_:'


' _*مقابلے کے عمومی قوانین*_:'
⑨ سوالات کا سلسلہ 15 فروری 2025 سے شروع ہوگا۔
⑩ سوال ہر روز دن 1بجے سے 4بجے کے درمیان پوچھا جائے گا۔
⑪ اگلا سوال پوسٹ ہوتے ہی گذشتہ سوال کے جواب دینے کا وقت ختم ہوجائے گا۔
⑫ جواب صرف ایک بار ہی دیا جاسکتا ہے جواب کو ایڈیٹ کرنے یا دوبارہ پوسٹ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، ایڈیٹ شدہ یا دوبارہ پوسٹ ہونے والا جواب مقابلے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
⑬ مقابلے کے پاسنگ مارکس کم از کم 150 پوائنٹس ہوں گے، 150 سے کم پوائنٹس حاصل کرنے والے اراکین *ناکام* قرار دیئے جائیں گے، جبکہ اس مقابلے میں ملنے والے زیادہ سے زیادہ پوائنٹس کی تعداد 500 ہے اور جواب درست ہونے کی صورت میں کم از کم 200 سے لیکر 300 تک پوائنٹ کوئی بھی رکن حاصل کرسکتا ہے، اس لحاظ سے 150 پوائنٹس ایک معقول تعداد ہے۔
⑭ ایک سو پچاس 150 یا اس سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والے اراکین کا نام *حتمی پوزیشن حاصل کرنے والے اراکین کی لسٹ* میں شایع کیا جائے گا۔
⑮ سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والے پہلے دو اراکین کو بالترتیب پہلا اور دوسرا انعام دیا جائے گا جبکہ پہلی دس 10 پوزیشن حاصل کرنے والے اراکین کو تعریفی ای سرٹیفیکیٹس بھی دیئے جائیں گے۔
⑯ سوالات کے جوابات کے حوالے سے آئی ٹی درسگاہ انتظامیہ کا فیصلہ حتمی ہوگا جسے چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔
⑰ کسی بھی اختلاف یا تنازعے کی صورت میں آئی ٹی درسگاہ انتظامی کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
⑱ یہ مقابلہ اور کوئز گروپ، آئی ٹی درسگاہ وٹس ایپ کمیونٹی کے پہلے سے نافذ قواعد و ضوابط کے تحت ہیں اور کسی بھی اصول یا ضابطے کی خلاف ورزی پر مناسب کاروائی کا حق آئی ٹی درسگاہ انتظامیہ کے پاس محفوظ ہے۔
یہ مقابلے اور کمیونٹی کی دیگر سرگرمیاں صرف اور صرف اشاعتِ دین اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت منعقد کی جاتی ہیں ، ان کا کسی بھی طور پر یہ مقصد نہیں کہ کسی فرد یا افراد کے گروہ کی دل آزاری کی جائے یا کسی فرد یا افراد کے گروہ پر تنقید و تنقیص کی جائے ، اگر کسی فرد یا افراد کے گروہ کو اس قسم کی کوئی شکایت محسوس ہو تو وہ بلا جھجک کسی بھی کمیونٹی ایڈمن سے ذاتی رابطہ کرکے اپنی شکایت ہم تک پہنچا سکتا ہے، ایسی صورت میں متاثرہ فرد یا افراد کی شکایت کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
ہمیں اُمید ہے کہ ہر بار کی طرح اس سال بھی آپ تمام احباب بڑھ چڑھ کر اس مقابلے میں نہ صرف خود حصہ لیں گے بلکہ اپنے دوست احباب کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دیں گے۔
اشاعتِ دین، اور آپس کے بھائی چارے اور ادب و احترام کے فروغ کے لئے ہمارا ساتھ دیں، خود بھی آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کے رکن بنیں اور اپنے دوست و احباب کو بھی دعوت دیں، اللہ پاک ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ، آمین
x


 رمضان میں دعا کی فضیلت اور اہمیت

دعا ہی اصل عبادت ہے:۔
دعا اللہ تعالیٰ کے سامنے اپنی حاجات پیش کرنے، اپنی کمزوری کا اعتراف کرنے، اور اللہ کی رحمت و مغفرت طلب کرنے کا سب سے اہم ذریعہ ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:۔
الدُّعَاءُ هُوَ الْعِبَادَةُ. قَالَ رَبُّكُمْ: ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ۔
۔(سنن أبي داود)۔
مفہومی ترجمہ: دعا ہی عبادت ہے۔ تمہارے رب نے فرمایا: مجھ سے دعا کرو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔
یہ حدیث اس بات کو واضح کرتی ہے کہ دعا کوئی معمولی چیز نہیں، بلکہ عبادت کا مغز اور روح ہے۔

رمضان میں دعا کی قبولیت:۔
چونکہ رمضان عبادت کا مہینہ ہے، اس لیے اس میں کی گئی دعائیں زیادہ قبولیت کی حقدار ہوتی ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:۔
ثَلاثُ دَعَوَاتٍ مُسْتَجَابَاتٌ: دَعْوَةُ الصَّائِمِ، وَدَعْوَةُ الْمُسَافِرِ، وَدَعْوَةُ الْمَظْلُومِ۔
۔(شعب الإيمان للبيهقي)۔
مفہومی ترجمہ: تین دعائیں ضرور قبول ہوتی ہیں: (1) روزہ دار کی دعا، (2) مسافر کی دعا، اور (3) مظلوم کی دعا۔
یہ حدیث ہمیں بتاتی ہے کہ رمضان میں روزہ دار کی دعا رد نہیں ہوتی، لہٰذا ہر مسلمان کو اس مہینے میں دعا کو اپنی عبادات کا لازمی حصہ بنانا چاہیے۔
رمضان المبارک میں دعا کو اپنی روزانہ کی عبادت کا حصہ بنائیں، کیونکہ یہ سب سے طاقتور ذریعہ ہے جو ہمیں اللہ کے قریب کر سکتا ہے۔ افطار، سحری، تہجد، شبِ قدر، اور عام اوقات میں دل سے دعائیں مانگیں اور اللہ سے اپنی حاجات پوری ہونے کا یقین رکھیں۔


 

کمپیوٹر ٹیکنالوجی کمپنی آئی بی ایم کا مصنوعی ذہانت والا کمپیوٹر واٹسن جرمنی میں ڈاکٹروں کے ساتھ مل کر طب کے پیچیدہ معاملات کو حل کرنے کی کوششوں میں شرکت کر رہا ہے۔


یہ کمپیوٹر ماربرگ یونیورسٹی ہسپتال کے ناقابل تشخیص اور انوکھی بیماریوں کے مرکز میں رکھا جائے گا۔


اب تک واٹسن نے نصف درجن مریضوں کا مطالعہ کیا ہے لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کس حد تک درست تشخیص کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔


واٹسن وہ کمپیوٹر ہے جس نے 2011 میں امریکہ میں ذہانت کے مقابلے میں دو انسانی چیمپیئنز کو شکست سے دوچار کر کے سب کو حیران کر دیا تھا۔


خیال رہے کہ مصنوعی ذہانت کے نظام کا صحت کے شعبے میں استعمال بڑھ رہا ہے اور گوگل کا ڈیپ مائنڈ نامی کمپیوٹر پہلے ہی سے برطانیہ کے کئی ہسپتالوں میں کام کر رہا ہے۔


ادھر نجی ہسپتالوں کے گروپ رون کلنکم اے جی میں واٹسن کی شراکت رواں سال کے آخر تک متوقع ہے۔


گیسن اور ماربرگ یونیورسٹی ہسپتال کا سنہ 2013 میں افتتاح کے بعد سے اب تک چھ ہزار مریضوں کو انتظار کی فہرست میں رکھا گيا ہے۔


ہسپتال میں میڈیکل ٹیم کے سربراہ پروفیسر جورگين شیفر کا کہنا ہے کہ یہ تعداد کسی برے خواب سے کم نہیں۔


پروفیسر شیفر کا کہنا ہے کہ جو مریض وہاں آتے ہیں ان کی طویل طبی فہرست ہوتی ہے اور ان کا 40 ڈاکٹروں نے پہلے ہی سے معائنہ کر رکھا ہوتا ہے اور ان کی بیماری کی تشحیص نہیں ہو پائی ہے۔


انھوں نے کہا: ’ہمارے یہاں آنے والے مریضوں کے پاس ہزاروں دستاویزات ہونا معمول کی بات ہے اور ہمیں نہ صرف مریضوں کی تعداد بلکہ ان کی رپورٹیں بھی دیکھنی پڑتی ہیں۔ یہ بھوسے کے ڈھیر سے سوئی ڈھونڈنے کے مصداق ہے کیونکہ بہت چھوٹی معلومات بھی درست تشخیص کی جانب لے جا سکتی ہے۔‘


واٹسن مریضوں کی فائلیں پڑھنے کے علاوہ طبی مواد بھی پڑھے گا اور مختلف قسم کی تشخیص فراہم کرے گا۔


مسٹر شیفر نے کہا کہ وہ اس نظام کے متعلق پرامید ہیں۔


ابھی یہ ہسپتال اس نظام کی جانچ کر رہا ہے اور اس نے واٹسن کو 500 کیس دیکھنے کے لیے فراہم کیا ہے۔


ڈاکٹر شیفر نے بی بی سی کو بتایا کہ یہ نظام صرف نجی ہسپتالوں تک محدود نہیں رہنا چاہیے۔ انھوں نے کہا: ’ہمارے طبی نظام کو ہائی ٹیک ہونا چاہیے اور ہمیں امید ہے کہ یہ طویل مدت میں سستا ہو گا۔۔۔ حکومت کو بھی اس جانب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔'


 🌴⑥🛡️مرادِ رسولِ کریم ﷺ، خلیفہ دوم، سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ🕌⑥⚔️

مرادِ رسولِ کریم ﷺ,تاریخی واقعات,خلیفہ دوم,حضرت عمر فاروق,علامہ شبلی نعمانیؒ,
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
✍🏻 شمس العلماء علامہ شبلی نعمانی ؒ
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
اس واقعہ کے انکار کی کوئی وجہ نہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تندی اور تیز مزاجی سے یہ حرکت کچھ بعید نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس نازک وقت میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہایت تیزی اور سرگرمی کے ساتھ جو کاروائیاں کیں ان میں گو بعض بے اعتدالیاں پائی جاتی ہوں، لیکن یاد رکھنا چاہیے کہ انہی بے اعتدالیوں نے اٹھتے ہوئے فتنوں کو دبا دیا۔ بنو ہاشم کی سازشیں اگر قائم رہتیں تو اسی وقت جماعت اسلامی کا شیرازہ بکھر جاتا۔ اور وہیں خانہ جنگیاں برپا ہو جاتیں جو آگے چل کر جناب علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم میں واقع ہوئیں۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کی مدت سوا دو برس ہے۔ کیونکہ انہوں نے جمادی الثانی 13 ہجری میں انتقال کیا۔ اس عہد میں اگرچہ جس قدر بڑے بڑے کام انجام پائے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شرکت سے انجام پائے۔ تاہم ان واقعات کو ہم الفاروق میں نہیں لکھ سکتے کیونکہ وہ پھر بھی عہد صدیقی کے واقعات ہیں۔ اور اس شخص کا حصہ ہیں جس کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سوانح عمری لکھنے کا شرف حاصل ہو۔
حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اگرچہ مدتوں کے تجربہ سے یقین ہو گیا تھا کہ خلافت کا بار گراں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سوا اور کسی سے اٹھ نہیں سکتا تاہم وفات کے قریب انہوں نے رائے کا اندازہ کرنے کے لئے اکابر صحابہ سے مشورہ کیا۔ سب سے پہلے عبد الرحمٰن بن عوف رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر پوچھا۔ انہوں نے کہا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قابلیت میں کیا کلام ہے۔ لیکن مزاج میں سختی ہے۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ” ان کی سختی اس لئے تھی کہ میں نرم تھا۔ جب کام انہی پر آ پڑے گا تو وہ خود نرم ہو جائیں گے۔ پھر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلا کر پوچھا، انہوں نے کہا کہ ” میں اس قدر کہہ سکتا ہوں کہ عمر کا باطن ظاہر سے اچھا ہے اور ہم لوگوں میں ان کو جواب نہیں۔ ” جب اس بات کے چرچے ہوئے کہ حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ مقرر کرنا چاہتے ہیں تو بعضوں کو تردد ہوا۔ چنانچہ طلحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کر کہا کہ ” آپ کے موجود ہوتے ہوئے عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہم لوگوں کے ساتھ کیا برتاؤ تھا؟ اب وہ خود خلیفہ ہوں گے تو خدا جانے کیا کریں گے۔ اب آپ خدا کے ہاں جاتے ہیں۔ یہ سوچ لیجیئے کہ خدا کو کیا جواب دیجیئے گا۔ ” حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا ” میں خدا سے کہوں گا کہ میں نے تیرے بندوں پر اس شخص کو افسر مقرر کیا جو تیرے بندوں میں سب سے زیادہ اچھا تھا۔ ” یہ کہہ کر حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بلایا اور عہد نامہ لکھوانا شروع کیا۔ ابتدائی الفاظ لکھوائے جا چکے تھے کہ غش آ گیا۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے یہ دیکھ کر یہ الفاظ اپنی طرف سے لکھ دیئے کہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو خلیفہ مقرر کرتا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد ہوش آیا تو حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا کہ کیا لکھا ہے مجھ کو پڑھ کر سناؤ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پڑھا تو بے ساختہ اللہ اکبر پکار اٹھے اور ” کہا کہ خدا تم کو جزائے خیر دے۔ ” عہد نامہ لکھا جا چکا تو حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے غلام کو دیا کہ مجمع عام میں سنائے پھر خود بالا خانے پر جا کر لوگوں سے جو نیچے جمع تھے مخاطب ہوئے اور کہا کہ میں نے اپنے کسی بھائی بند کو خلیفہ مقرر نہیں کیا۔ بلکہ عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو مقرر کیا۔ کیا تم لوگ اس پر راضی ہو؟ سب نے سمعنا و اطعنا کہا۔ پھر حضرت عمر رضیا للہ تعالیٰ عنہ کو نہایت مؤثر اور مفید نصیحتیں کیں جو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے لئے عمدہ دستور العمل کی جگہ کام آئیں۔
خلافت اور فتوحات
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں مرتدین عرب اور مدعیان نبوت کا خاتمہ ہو کر فتوحات ملکی کا آغاز ہو چکا تھا۔ خلافت کے دوسرے ہی برس یعنی 12 ہجری میں عراق پر لشکر کشی ہوئی اور حیرہ کے تمام اضلاع فتح ہو گئے۔ 13 ہجری (633 عیسوی) میں شام پر حملہ ہوا۔ اور اسلامی فوجیں تمام اضلاع میں پھیل گئیں۔ ان مہمات کا ابھی آغاز ہی تھا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا انتقال ہو گیا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عنان خلافت اپنے ہاتھ میں لی تو سب سے ضروری کام انہی مہمات کا انجام دینا تھا۔ لیکن قبل اس کے کہ ہم ان واقعات کی تفصیل لکھیں یہ بتانا ضروری ہے کہ اسلام سے پہلے عرب کے فارس و شام سے کیا تعلقات تھے۔
عرب کا نہایت نہایت قدیم خاندان جو ” عربِ بایدہ ” کے نام سے مشہور ہے۔ اگرچہ اس کے حالات نامعلوم ہیں تاہم اس قدر ہے کہ عاد اور عمالقہ نے عراق پر قبضہ کر لیا تھا۔ عرب عرباء جو یمن کے فرمانروا تھے ان کی حکومت ایک زمانہ میں بہت زور پکڑ گئی تھی۔ یہاں تک کہ چند بار عراق پر قابض ہو گئے۔ اور سلطنت فارس کے ساتھ ان کو ہمسری کا دعویٰ رہا۔
رفتہ رفتہ عرب خود حکومت فارس کے علاقہ میں آباد ہونے شروع ہو گئے۔ بخت نصر نے جو بابل کا بادشاہ تھا۔ اور بیت المقدس کی بربادی نے ان کے نام کو شہرت دے دی ہے۔ جب عرب پر حملہ کیا تو بہت سے قبیلے اس کے مطیع ہو گئے۔ اور اس تعلق سے عراق میں جا کر آباد ہو گئے۔ رفتہ رفتہ معد بن عدنان کی بہت سی نسلیں ان مقامات میں آباد ہوتی گئیں۔ یہاں تک کہ ریاست کی بنیاد پڑ گئی۔ اور چونکہ اس زمانے میں سلطنت فارس میں طوائف الملوکی قائم ہو گئی تھی، عربوں نے مستقل حکومت قائم کر لی۔ جس کا پہلا فرمانروا مالک بن فہم عدنانی تھا۔ اس خاندان میں جزیمتہ الابرش کی سلطنت نہایت وسیع ہوئی۔ اس کا بھانجا عمرو بن عدی جو اس کے بعد تخت نشین ہوا۔ اس نے حیرہ کو دارالسلطنت قرار دیا۔ اور عراق کا بادشاہ کہلایا۔ اس دور میں اس قدر تمدن پیدا ہو گیا تھا کہ ہشام کلبی کا بیان (ہشام کلبی نے یہ تصریح کتاب ” النیجان” میں کی ہے ) ہے کہ میں نے عرب کے زیادہ تر حالات اور فارس و عرب کے تعلقات زیادہ تر انہی کتابوں سے معلوم کیے جو حیرہ میں اس زمانے میں تصنیف ہوئی تھیں۔ اس زمانے میں اردشیر بن مالک نے طوائف الملوکی مٹا کر ایک وسیع سلطنت قائم کی اور عمرو بن عدی کو باج گزار بنا لیا۔ عمر بن عدی کا خاندان اگرچہ مدت تک عراق میں فرمانروا رہا۔ لیکن درحقیقیت وہ سلطنت فارس کا ایک صوبہ تھا۔
شاہ پور بن اردشیر جو سلسلۂ ساسانیہ کو دوسرا فرمانروا تھا۔ اس کے عہد میں حجاز و یمن دونوں باجگزار ہو گئے۔ اور امراء العیس کندی ان صوبوں کا گورنر مقرر ہوا۔ تاہم مطیع ہو کر رہنا عرب کی فطرت کے خلاف تھا۔ اس لئے جب کبھی موقع ملتا تھا تو بغاوت برپا ہو جاتی تھی۔ چنانچہ شاہ پور ذی الاکتاف جب صغیر سنی میں فارس کے تخت پر بیٹھا تو تمام عرب میں بغاوت پھیل گئی۔ یہاں تک کہ قبیلہ عبد القیس نے خود فارس پر حملہ کر دیا۔ اور ایاد نے عراق کے صوبے دبا لئے۔ شاہ پور بڑا ہو کر بڑے عزم و استقلال کا بادشاہ ہوا۔ اور عرب کی بغاوت کا انتقام لینا چاہا۔ ہجر میں پہنچ کر نہایت خونریزی کی اور قبیلہ عبد القیس کو برباد کرتا ہوا مدینہ منورہ تک پہنچ گیا۔ روءسائے عرب جو گرفتار ہو کر اس کے سامنے آتے تھے ان کے شانے اکھڑوا ڈالتا تھا۔ چنانچہ اسی وجہ سے عرب میں وہ ذو الاکتاف کے لقب سے مشہور ہے۔
سلاطین حیر ہ میں سے نعمان بن منذر نے جو کسریٰ پرویز کے زمانہ میں تھا۔ عیسوی مذہب قبول کر لیا۔ اور اس تبدیل مذہب پر یا کسی اور سبب سے پرویز نے اس کو قید کر دیا۔ اور قید ہی میں اس نے وفات پائی۔ نعمان نے اپنے ہتھیار وغیرہ ہانی کے پاس امانت رکھوا دیئے جو قبیلہ بکر کا سردار تھا، پرویز نے اس سے وہ چیزیں طلب کیں۔ اور جب اس نے انکار کیا تو ہرمزان کو دو ہزار فوج کے ساتھ بھیجا کہ بزور چھین لائے۔ بکر کے تمام قبیلے ذی وقار ایک مقام میں بڑے سر و سامان سے جمع ہوئے اور سخت معرکہ ہوا۔ فارسیوں نے شکست کھائی۔ اس لڑائی میں جناب رسول اللہ بھی تشریف رکھتے تھے۔ اور آپ نے فرمایا کہ :
ھذا اول یوم انتصفت العرب من العجم۔
یعنی ” یہ پہلا دن ہے کہ عرب نے عجم سے بدلہ لیا۔ “
عرب کے تمام شعراء نے اس واقعہ پر بڑے فخر اور جوش کے ساتھ قصیدے اور اشعار لکھے۔ سنہ 6 ہجری میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے تمام بادشاہوں کو دعوتِ اسلام کے خطوط لکھے تو باوجود اس کے کہ ان خطوط میں جنگ و جدل کا اشارہ تک نہ تھا، پرویز نے خط پڑھ کر کہا کہ میرا غلام ہو کر مجھ کو یوں لکھتا ہے۔ اس پر ہی قناعت نہ کی بلکہ بازان کو جو یمن کا عامل تھا لکھا کہ کسی کو بھیج دو کہ ” محمد صلی اللہ علیہ و سلم کو گرفتار کر کے دربار میں لائے۔ ” اتفاق سے اسی زمانے میں پرویز کو اس کے بیٹھے ہلاک کر دیا اور معاملہ یہیں تک رہ گیا۔
رومی سلطنت سے عرب کا جو تعلق تھا وہ یہ تھا کہ عرب کے چند قبیلے سلیح و غسان و جذام وغیرہ شام کے سرحدی اضلاع میں جا کر آباد ہو گئے تھے۔ ان لوگوں نے رفتہ رفتہ شام کے اندرونی اضلاع پر قبضہ کر لیا تھا۔ اور زیادہ قوت و جمعیت حاصل کر کے شام کے بادشاہ کہلانے لگے تھے لیکن یہ لقب خود ان کا خانہ ساز لقب تھا۔ ورنہ جیسا کہ مؤرخ ابن الاثیر نے تصریح کی ہے درحقیقت وہ رومی سلطنت کے صوبہ دار تھے۔
ان لوگوں نے اسلام سے بہت پہلے عیسائی مذہب قبول کر لیا تھا۔ اور اس وجہ سے ان کو رومیوں کے ساتھ ایک قسم کی یگانگت ہو گئی، اسلام کا زمانہ آیا تو مشرکین عرب کی طرح وہ بھی اسلام کے دشمن نکلے۔ سنہ 6 ہجری میں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے قیصر روم کو دعوت اسلام کا خط لکھا۔ اور وحیہ کلبی (جو خط لے کر گئے تھے ) واپس آتے ہوئے ارض جذام میں پہنچے تو انہی شامی عربوں نے وحیہ پر حملہ کر دیا۔ اور تمام مال و اسباب لوٹ لیا۔ اسی طرح جب رسول اللہ نے حارث بن عمیر کو خط دے کر بصریٰ کے حاکم کے پاس بھیجا تو عمرو بن شرجیل نے ان کو قتل کرا دیا۔ چنانچہ اس کے انتقام کے لیے رسول اللہ نے سنہ 8 ہجری میں لشکر کشی کی اور غزوہ موتہ کا واقعہ پیش آیا۔ اس لڑائی میں زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ، حضرت جعفر طیار رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عبد بن رواحہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ جو بڑے بڑے رتبہ کے صحابہ تھے ، شہید ہوئے۔ اور گو خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حکمت عملی سے فوج صحیح و سلامت نکل آئی تاہم نتیجہ جنگ در حقیقت شکست تھا۔
99 ہجری میں رومیوں نے خاص مدینہ پر حملہ کی تیاریاں کیں۔ لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم خود پیش قدمی کر کے مقام تبوک تک پہنچے تو ان کو آگے بڑھنے کا حوصلہ نہ ہوا۔ اگرچہ اسی وقت عارضی طور سے لڑائی رک گئی لیکن رومی اور غسانی مسلمانوں کی فکر سے کبھی غافل نہیں رہے۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کو ہمیشہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ مدینہ پر چڑھ نہ آئیں۔ صحیح بخاری میں ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی نسبت مشہور ہوا کہ آپ نے ازواج مطہرات کو طلاق دے دی تو ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے جا کر کہا کہ کچھ تم نے سنا! حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا؟ کہیں غسانی تو نہیں چڑھ آئے۔
اسی حفظ ماتقدم کے لئے 111 ہجری میں رسول اللہ اسامہ بن زید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو سردار بنا کر شام کی مہم پر بھیجا۔ اور چونکہ ایک عظیم الشان سلطنت کا مقابلہ تھا، حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ و عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور بڑے بڑے نامور صحابہ مامور ہوئے کہ فوج کے ساتھ جائیں۔ اسامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ابھی روانہ نہیں ہوئے تھے کہ رسول اللہ نے بیمار ہو کر انتقال فرمایا۔ غرض جب حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو عرب کی یہ حالت تھی کہ دونوں ہمسایہ سلطنتوں کا ہدف بن چکا تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے شام پر لشکر کشی کی تو فوج سے مخاطب ہو کر فرمایا کہ تم میں سے جو شخص مارا جائے گا شہید ہو گا۔ اور جو بچ جائے گا مدافع عن الدین ہو گا۔ یعنی دین کو اس نے دشمنوں کے حملے سے بچایا ہو گا۔ اس واقعات سے ظاہر ہو گا کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جو کام شروع کیا اور حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس کی تکمیل کی اس کے کیا اسباب تھے ؟ اس تمہیدی بیان کے بعد ہم اصل مطلب شروع کرتے ہیں۔
فتوحات عراق
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
(جغرافیہ نویسوں نے عراق کے دو حصے کئے ہیں یعنی جو حصہ عرب سے ملحق ہے ، اس کو عراق عرب اور جو حصہ عجم سے ملحق ہے اس کو عراق عجم کہتے ہیں۔ عرا ق کی حدوداربعہ یہ ہیں شمال میں جزیرہ جنوب میں بحر فارس، مشرق میں خوزستان اور مغرب میں دیار بکر ہے جس کا مشہور شہر موصل ہے اور دارالسلطنت اس کا بغداد ہے اور جو بڑے بڑے شہر اس میں آباد ہیں وہ بصرہ کوفہ واسطہ وغیرہ ہیں۔
ہمارے مؤرخین کا عام طریقہ یہ ہے کہ وہ سنین کو عنوان قرار دیتے ہیں لیکن اس میں یہ نقص ہے کہ واقعات کا سلسلہ ٹوٹ جاتا ہے۔ مثلاً ایران کی فتوحات لکھتے آ رہے ہیں کہ سنہ ختم ہوا چاہتا ہے اور ان کو اس سنہ کے تمام واقعات لکھنے ہیں۔ اس لیے قبل اس کے کہ ایران کی فتوحات تمام ہوں یا موزوں موقع پر ان کا سلسلہ ٹوٹے شام و مصر کے واقعات کو جو اسی سنہ میں پیش آئے تھے چھیڑ دینا پڑتا ہے۔ اس لئے میں نے ایران کی تمام فتوحات کو ایک جا شام کو ایک جا اور مصر کو ایک جا لکھا ہے )۔
فارس کی حکومت کا چوتھا دور جو ساسانی کہلاتا ہے نوشیروان عادل کی وجہ سے بہت نام آور ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کے زمانے میں اسی کا پوتا پرویز تخت نشین تھا۔ اس مغرور بادشاہ کے زمانے تک سلطنت نہایت قوی اور زور آور رہی لیکن اس کے مرنے ساتھ دفعتہً ایسی ابتری پیدا ہو گئی کہ ایوان حکومت مدت تک متزلزل رہا۔ شیرویہ اس کے بیٹھے نے کل آٹھ مہینے حکومت کی اور اپنے تمام بھائیوں کو جو کم و بیش پندرہ تھے قتل کرا دیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا اردشیر 7 برس کی عمر میں تخت پر بیٹھا لیکن ڈیڑھ برس کے بعد دربار کے ایک افسر نے اس کو قتل کر دیا۔ اور آپ بادشاہ بن بیٹھا۔ یہ سنہ ہجری کا بارہواں سال تھا۔ چند روز کے بعد درباریوں نے اس کو قتل کر کے جوان شیر کو تخت نشین کیا۔ وہ ایک برس ے بعد قضا کر گیا۔ اب چونکہ خاندان میں یزدگرد کے سوا جو نہایت صغیر السن تھا۔ اولاد ذکور باقی نہیں رہی تھی۔ پوران دخت کو اس شرط پر تخت نشین کیا گیا کہ یزدگرد سن شعور کو پہنچ جائے گا تو وہی تخت و تاج کا مالک ہو گا۔ (شیرویہ کے بعد سلسلہ حکومت کی ترتیب اور ناموں کی تعین میں مؤرخین اس قدر مختلف ہیں کہ دو مؤرخ بھی باہم متفق نہیں۔ فردوسی کا بیان سب سے الگ ہے۔ میں نے بلحاظ قدیم العہد اور فارسی النسل ہونے ابو حنیفہ دینوری کے بیان کو ترجیح دی ہے )۔
پرویز کے بعد جو انقلابات حکومت ہوتے رہے اس کی وجہ سے ملک میں جا بجا بے امنی پھیل گئی۔ پوران کے زمانے میں مشہور ہو گیا کہ فارس میں کوئی وارث تاج و تخت نہیں رہا۔ برائے نام ایک عورت کو ایوان شاہی میں بٹھا رکھا ہے۔ اس خبر کہ شہرت کے ساتھ عراق میں قبیلہ وائل کے دو سرداروں۔ شیبانی اور سوید۔ نے تھوڑی سی جمعیت بہم پہنچا کر عراق کی سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ طرف غارت گری شروع کی (الاخبار الطوال ابو حنیفہ دینوری)۔ یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خلافت کا زمانہ تھا اور خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سیف اللہ یمامہ اور دیگر قبائل عرب کی مہمات سے فارغ ہو چکے تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہو کر عراق پر حملہ کرنے کی اجازت حاصل کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ خود اگرچہ اسلام لا چکے تھے۔ لیکن اس وقت تک ان کا تمام قبیلہ عیسائی یا بُت پرست تھا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت سے واپس آ کر انہوں نے اپنے قبیلہ کو اسلام کی ترغیب دی اور قبیلہ کا قبیلہ مسلمان ہو گیا (فتوح البلدان بلازری صفحہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ )۔ ان نو مسلموں کے ایک بڑے گروہ نے عراق کا رخ کیا۔ ادھر حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خلد کو مدد کے لئے بھیجا۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عراق مے تمام سرحدی مقام فتح کر لئے۔ اور حیرۃ پر علم فتح نصب کیا۔ یہ مقام کوفہ سے تین میل ہے۔ اور چونکہ یہاں نعمان بن منذر نے حوزنق ایک مشہور محل بنایا تھا وہ ایک یادگار مقام خیال کیا جاتا تھا۔
عراق کی یہ فتوحات خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بڑے بڑے کارناموں پر مشتمل ہیں۔ لیکن ان کے بیان کرنے کا یہ محل نہیں تھا۔ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مہمات عراق کا خاتمہ کر دیا ہوتا۔ لیکن چونکہ ادھر شام کی مہم درپیش تھی اور جس زور شور سے وہاں عیسائیوں نے لڑنے کی تیاریاں کی تھی اس کے مقابلے کا وہاں پورا سامان نہ تھا۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ربیع الثانی 13 ہجری (634 عیسوی) میں خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حکم بھیجا کہ فوراً شام کو روانہ ہوں اور۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو اپنا جانشین کرتے جائیں۔ ادھر خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ روانہ ہوئے اور عراق کی فتوحات دفعتہً رک گئیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسند خلافت پر بیٹھے تو سب سے پہلے عراق کی مہم پر توجہ کی۔ بیعت خلافت کے لیے تمام اطراف و دیار سے بیشمار آدمی آئے تھے۔ اور تین دن تک ان کا تانتا بندھا رہا تھا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس موقع کو غنیمت سمجھا۔ ا ور مجمع عام میں جہاد کا وعظ کہا۔ لیکن چونکہ لوگوں کا عام خیال تھا کہ عراق حکومت فارس کا پایہ تخت ہے۔ اور وہ خالد رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے بغیر فتح نہیں ہو سکتا۔ اس لئے سب خاموش رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کئی دن تک وعظ کہا، لیکن کچھ اثر نہ ہوا۔ آخر چوتھے دن اس جوش سے تقریر کی کہ حاضرین کے دل ہل گئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ شیبانی نے اٹھ کر کہا کہ ” مسلمانوں! میں نے مجوسیوں کو آزما لیا ہے۔ وہ مرد میدان نہیں ہیں۔ عراق کے بڑے بڑے اضلاع کو ہم نے فتح کر لیا ہے۔ اور عجم ہمارا لوہا مان گئے ہیں” حاضرین میں سے ابو عبیدہ ثقفی بھی تھے جو قبیلہ ثقیف کے مشہور سردار تھے وہ جوش میں آ کر اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا کہ انا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یعنی اس کام کے لئے میں حاضر ہوں۔ ابو عبیدہ کی ہمت نے تمام حاضرین کو گرما دیا۔ اور ہر طرف سے غلغلہ اٹھا کہ ہم بھی حاضر ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مدینہ منورہ اور مضافات سے ہزار آدمی (بلازری کی روایت ہے ابو حنیفہ دینوری نے 5 ہزار تعداد لکھی ہے )۔ انتخاب کئے اور ابو عبیدہ کو سپہ سالار مقرر کیا۔
ابو عبیدہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی صحبت کا شرف حاصل نہ تھا۔ یعنی صحابی نہ تھے اس وجہ سے ان کی افسری پر کسی کو خیال ہوا۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے آزادانہ کہا کہ ” عمر! صحابہ میں سے کسی کو یہ منصب دو۔ فوج میں سینکڑوں صحابہ ہیں اور ان کا افسر بھی صحابی ہی ہو سکتا ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ صحابہ کی طرف دیکھا اور کہا کہ ” تم کو جو شرف تھا وہ ہمت اور استقلال کی وجہ سے تھا۔ لیکن اس شرف کو تم نے خود کھو دیا۔ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا کہ جو لڑنے سے جی چرائے وہ افسر مقرر کئے جائیں۔ ” تاہم چونکہ صحابہ کی دلجوئی ضروری تھی، ابو عبیدہ کو ہدایت کی کہ ان کی ادب ملحوظ رکھنا اور ہر کام میں ان سے مشورہ لینا۔
حضرت ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں عراق پر جو حملہ ہوا اس نے ایران کو چونکا دیا تھا۔ چنانچہ پوران دخت نے رستم کو جو فرخ زاد گورنر خراسان کا بیٹا اور نہایت شجاع اور صاحب تدبیر تھا دربار میں طلب کیا۔ اور سزیر حرب مقرر کر کے کہا کہ تو سیاہ سپید کا مالک ہے۔ یہ کہہ کر اس کے سر پر تاج رکھا۔ اور درباریوں کو جن میں تمام امرا اور اعیانِ سلطنت شامل تھے۔ تاکید کی کہ رستم کی اطاعت سے کبھی انحراف نہ کریں۔ چونکہ اہل فارس اپنی نا اتفاقیوں کا نتیجہ دیکھ چکے تھے۔ انہوں نے دل سے ان احکام کی اطاعت کی۔ اس کا یہ اثر ہوا کہ چند روز میں تمام بد انتظامیاں مٹ گئیں اور سلطنت نے پھر وہی زور و قوت پیدا کر لی جو ہرمز و پرویز کے زمانے میں اس کو حاصل تھی۔
رستم نے سب سے پہلی تدبیر یہ کی کہ اضلاع عراق میں ہر طرف ہرکارے اور نقیب دوڑائیے جنہوں نے مذہبی حمیت کا جوش دلا کر تمام ملک میں مسلمانوں کے خلاف بغاوت پھیلا دی۔ چنانچہ ابو عبیدہ کے پہنچنے سے پہلے فرات کی تمام اضلاع میں ہنگامہ برپا ہو گیا اور جو مقامات مسلمانوں کے قبضے میں آ چکے تھے ان کے ہاتھ سے نکل گئے۔ پوران دخت نے رستم کی اعانت کے لیے ایک اور فوج گراں تیار کی۔ اور نرسی و جاہان کو سپہ سالار مقرر کیا۔ جاہان عراق کا ایک مشہور رئیس تھا۔ اور عرب سے اس کو خاص عداوت تھی۔ نرسی کسریٰ کا خالہ زاد بھائی تھا۔ اور عراق کے بعض اضلاع قدیم اس کی جاگیر تھے۔ یہ دونوں افسر مختلف راستوں سے عراق کی طرف بڑھے اور ادھر ابو عبیدہ اور مثنی حیرۃ تک پہنچ چکے تھے کہ دشمن کی تیاریوں کا حال معلوم ہوا۔ مصلحت دیکھ کر خفان کو ہٹ آئے۔ جاہان نمازق پہنچ کر خیمہ زن ہوا۔
ابو عبیدہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسی اثناء میں جوج کو سر و سامان سے آراستہ کر لیا۔ اور پیش قدمی کر کے خود حملے کے لیے بڑھے۔ نمازق پر دونوں فوجیں صف آرا ہوئیں۔ جاہان کے میمنہ و میسرہ پر جوشن شاہ اور مردان شاہ دو مشہور افسر تھے جو بڑی ثابت قدمی سے لڑے لیکن بالآخر شکست کھائی اور عین معرکہ میں گرفتار ہو گئے۔ مردان شاہ بدقسمتی سے اسی وقت قتل کر دیا گیا۔ لیکن جاہان اس حیلے سے بچ گیا کہ جس شخص نے اس کو گرفتار کیا تھا وہ اس کو پہچانتا نہ تھا۔ جاہان نے اس سے کہا کہ اس بڑھاپے میں کس کام کا ہوں۔ مجھ کو چھوڑ دو اور معاوضے میں مجھ سے دو جوان غلام لے لو۔ اس نے منظور کر لیا۔ بعد لوگوں نے جاہان کو پہچانا تو غل مچایا کہ ہم ایسے دشمن کو چھوڑنا نہیں چاہتے۔ لیکن ابو عبیدہ نے کہا کہ اسلام میں بد عہدی جائز نہیں۔
ابو عبیدہ نے اس معرکہ کے بعد کسکر کا رخ کیا۔ جہاں نرسی فوج لئے پڑا تھا۔ سقاطیہ میں دونوں فوجیں مقال ہوئیں۔ نرسی کے ساتھ بہت بڑا لشکر تھا۔ اور خود کسریٰ کے دو ماموں زاد بھائی ہندویہ اور تیریہ میمنہ اور میسرہ پر تھے۔ تاہم نرسی اس وجہ سے لڑائی میں دیر کر رہا تھا کہ پایہ تخت سے امدادی فوجیں روانہ ہو چکی تھیں۔ ابو عبیدہ کو بھی یہ خبر پہنچ چکی تھی۔ انہوں نے بڑھ کر جنگ شروع کر دی۔ بہت بڑے معرکے کے بعد نرسی کو شکست فاش ہوئی۔ ابو عبیدہ نے خود مقاطیہ میں مقام کیا۔ اور تھوڑی سی فوجیں ہر طرف بھیج دیں کہ ایرانیوں نے جہاں جہاں پناہ لی ہے ان کو وہاں سے نکال دیں۔
فرخ اور فرلوند جو باروعما اور زوادی کے رئیس تھے ، مطیع ہو گئے ، چنانچہ اظہار خلوص کے لئے ایک دن ابو عبیدہ کو نہایت عمدہ عمدہ کھانے پکوا کر بھیجے۔ ابو عبیدہ نے دریافت کیا کہ یہ سامان کل فوج کے لئے ہے یا صرف میرے لئے ؟ فرخ نے کہا کہ اس جلدی میں ساری فوج کا اہتمام نہیں ہو سکتا تھا۔ ابو عبیدہ نے دعوت قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اور کہا کہ مسلمانوں میں ایک دوسرے پر کچھ ترجیح نہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*ٍ
اس شکست کی خبر سن کر رستم نے مروان شاہ کو جو عرب سے دلی عداوت رکھتا تھا۔ اور جس کو نوشیرواں نے تقدس کے لحاظ سے ہیمن کا خطاب دیا تھا۔ چار ہزار فوج کے ساتھ اس سامان سے روانہ کیا کہ درفش کادیانی جو کئی ہزار برس سے کیانی خاندان کی یادگار چلا آتا تھا۔ اور فتح و ظفر كا دیباچہ سمجھا جاتا تھا۔ اس کے سر پر سایہ کرتا جاتا تھا۔ مشرقی فرات کے کنارے ایک مقام پر جس کا نام مروحہ تھا، دونوں حریف صف آرا ہوئے۔ چونکہ بیچ میں دریا حائل تھا،۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نے کہلا بھیجا کہ یا تم اس پار اتر کو آؤ یا ہم آئیں۔ ابو عبیدہ کے تمام سرداروں نے یک زبان ہو کر کہا کہ ہم کو اس طرف رہنا چاہیے۔ لیکن ابو عبیدہ جو شجاعت کے نشے میں سرشار تھے کہا کہ یہ نامردی کی دلیل ہے۔ سرداروں نے کہا یہ نہیں ہو سکتا کہ جانبازی کے میدان میں مجوسی ہم سے آگے بڑھ جائیں۔ مروان شاہ جو پیغام لے کر آیا تھا، اس نے کہا کہ ہماری فوج میں عام خیال ہے کہ ” عرب مرد میدان نہیں ہیں۔ ” اس جملے نے اور بھی اشتعال دلایا۔ اور ابو عبیدہ نے اسی وقت فوج کو کمر بندی کا حکم دے دیا۔ مثنی اور سلیط وغیرہ بڑے بڑے افسران فوج اس رائے کے بالکل مخالف تھے اور عظمت و شان میں ان کا رتبہ ابو عبیدہ سے بڑھ کر تھا۔
جب ابو عبیدہ نے اصرار کیا تو ان لوگوں نے کہا کہ اگرچہ ہم کو قطعی یقین ہے کہ اس رائے پر عمل کرنے سے تمام فوج غارت ہو جائے گی۔ تاہم اس وقت تم افسر ہو اور افسر کی مخالفت ہمارا شیوہ نہیں۔ غرض کشتیوں کا پل باندھا گیا اور تمام فوج پار اتر کر غنیم سے معرکہ آراء ہوئی۔ پار کا میدان تنگ اور ناہموار تھا۔ اس لئے مسلمانوں کو موقع نہیں مل سکتا تھا کہ فوج کو ترتیب سے آراستہ کر سکتے۔
ایرانی فوج کا نظارہ نہایت مہیب تھا۔ بہت سے کوہ پیکر ہاتھی تھے جن پر گھنتے لٹکتے تھے اور بڑے زور سے بجتے جاتے تھے۔ گھوڑوں پر آہنی پاکھریں تھیں۔ سوار سمور کی لمبی ٹوپیاں اوڑھے ہوئے صحرائی جانور معلوم ہوتے تھے۔ عرب کے گھوڑوں نے یہ مہیب نظارہ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ بدک کر پیچھے ہٹے۔ ابو عبیدہ نے دیکھا کہ ہاتھیوں کے سامنے کچھ زور نہیں چلتا۔ گھوڑے سے کود پڑے اور ساتھیوں کو للکارا کہ جانبازو! ہاتھیوں کو بیچ میں لے لو اور ہودوں کو سواروں سمیت الٹ دو۔ اس آواز کے ساتھ گھوڑوں سے کود پڑے اور ہودوں کی رسیاں کاٹ کر فیل نشینوں کو خاک پر گرا دیا۔ لیکن ہاتھی جس طرف جھکتے تھے صف کی صف پس جاتی تھی۔ ابو عبیدہ یہ دیکھ کر پیل سفید پر جو سب کا سردار تھا حملہ آور ہوئے اور سونڈ پر تلوار ماری کہ مستک سے الگ ہو گئی۔ ہاتھی نے بڑھ کر ان کو زمین پر گرا دیا اور سینے پر پاؤں رکھ دیئے کہ ہڈیاں تک چور چور ہو گئیں۔
ابو عبیدہ کے مرنے پر ان کے بھائی حکم نے علم ہاتھ میں لیا۔ اور ہاتھی پر حملہ آور ہوئے۔ اس نے ابو عبیدہ کی طرح ان کو بھی پاؤں میں لپیٹ کر مسل دیا۔ اس طرح سات آدمیوں نے جو سب کے سب ابو عبیدہ کے ہم نسب اور خاندان ثقیف سے تھے ، باری باری سے علم ہاتھ میں لئے اور مارے گئے۔ آخر میں مثنی نے علم لیا۔ لیکن اس وقت لڑائی کا نقشہ بگڑ چکا تھا۔ اور فوج میں بھگدڑ پڑ چکی تھی۔ طرہ یہ ہوا کہ ایک شخص نے دوڑ کر پل کے تختے توڑ دیئے کہ کوئی شخص بھاگ کر جانے نہ پائے۔ لیکن لوگ اس طرح بدحواس ہو کر بھاگتے تھے کہ پل کی طرف راستہ نہ ملا تو دریا میں کود پڑے۔ مثنی نے دوبارہ پل بندھویا اور سواروں کا ایک دستہ بھیجا کہ بھاگتوں کو اطمینان سے پار اتار دے۔ خود بچی کھچی فوج کے ساتھ دشمن کا اگا روک کر کھڑے ہوئے اور اس ثابت قدمی سے لڑے کہ ایرانی جو مسلمانوں کو دباتے آتے تھے رک گئے اور آگے نہ بڑھ سکے۔ تاہم حساب کیا گیا تو معلوم ہوا کہ نو ہزار فوج میں سے صرف تین ہزار رہ گئی۔ اسلام کی تاریخ میں میدان جنگ سے فرار نہایت شاذ و نادر وقوع میں آیا ہے اور اگر کبھی ایسا واقعہ پیش آ بھی گیا تو اس کا عجیب افسوس ناک اثر ہوا ہے۔ اس لڑائی میں جن لوگوں کو یہ ذلت نصیب ہوئی وہ مدت تک خانہ بدوش پھرتے رہے۔ اور شرم سے اپنے گھروں کو نہیں جاتے تھے۔ اکثر رویا کرتے اور لوگوں سے منہ چھپاتے پھرتے تھے۔ مدینہ منورہ میں یہ خبر پہنچی تو ماتم پڑ گیا۔ لوگ مسلمانوں کی بدقسمتی پر افسوس کرتے تھے۔ اور روتے تھے ، جو لوگ مدینہ پہنچ کر گھروں میں روپوش تھے ، اور شرم سے باہر نہیں نکلتے تھے ، حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان کے پاس جا کر ان کو تسلی دیتے تھے۔ اور کہتے تھے کہ تم او متحیزا الی فئۃ میں داخل ہو۔ لیکن ان کو اس سے تسلی نہیں ہوتی تھی۔
یہ واقعہ (حسب بیان بلاذری) ہفتہ کے دن رمضان 13 ہجری میں واقع ہوا۔ اس لڑائی میں نامور صحابیوں میں سے جو لوگ شہید ہوئے وہ سلیط، ابو زید انصاری، عتبہ و عبد اللہ، پسران قبطی بن قیس، یزید بن قیس الانصاری، ابو امیہ الفرازی وغیرہ تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*


 ⲯ﹍︿﹍︿﹍ درسِ حدیث ﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼

معارف الحدیث - کتاب الصوم - حدیث نمبر 943
عَنْ أَبِي أَيُّوبَ الْأَنْصَارِيِّ أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ : « مَنْ صَامَ رَمَضَانَ ثُمَّ أَتْبَعَهُ سِتًّا مِنْ شَوَّالٍ ، كَانَ كَصِيَامِ الدَّهْرِ » (رواه مسلم)

ⲯ﹍︿﹍︿﹍ ترجمہ﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼

رمضان کے بعد شوال کے چھ روزے
حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: جس نے ماہ رمضان کے روزے رکھے اس کے بعد ماہ شوال میں چھ نفلی روزے رکھے تو اس کا یہ عمل ہمیشہ روزہ رکھنے کے برابر ہو گا۔ (صحیح مسلم)

ⲯ﹍︿﹍︿﹍ تشریح﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼

رمضان کا مہینہ اگر ۲۹ ہی دن کا ہو تب بھی اللہ تعالیٰ اپنے کرم سے ۳۰ روزوں کا ثواب دیتے ہیں اور شوال کے ۶ نفلی روزے شامل کرنے کے بعد روزوں کی تعداد ۳۶ ہو جاتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے کریمانہ قانون " الْحَسَنَةُ بِعَشْرِ أَمْثَالِهَا " (ایک نیکی کا ثواب دس گنا) کے مطابق کا دس گنا ۳۶۰ ہو جاتا ہے اور پورے سال کے دن ۳۶۰ سے کم ہی ہوتے ہیں .... پس جس نے پورے رمضان مبارک کے روزے رکھنے کے بعد شوال میں ۶ نفلی روزے رکھے وہ اس حساب سے ۳۶۰ روزوں کے ثواب کا مستحق ہو گا پس اجر و ثواب کے لحاظ سے یہ ایسا ہی ہوا جیسے کوئی بندہ سال کے ۳۶۰ دن برابر روزے رکھے۔


🌹 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
ــــــــــــــــــــــــ

━━❰・ *پوسٹ نمبر 129* ・❱━━━
           *نماز کا مسنون طریقہ:*
🔷 *دونوں سجدوں کے درمیان*:
  
(1) پھر "اللہ اکبر" کہتے ہوئے سجدہ سے سر اٹھائیں۔
(2) اٹھتے وقت پہلے پیشانی اٹھائیں ، پھر ہتھیلیاں۔
(3) اس کے بعد بایاں قدم بچھا کر اس پر دو زانو بیٹھ جائیں جب کہ دایاں قدم کھڑا کرکے اس کی انگلیاں قبلہ رخ کریں۔
(4) دونوں پیر کھڑے کرکے ایڑیوں پر بیٹھنا بلاعذر صحیح نہیں ہے۔
(5) اس وقت عورتوں کے بیٹھنے کا مسنون طریقہ یہ ہےکہ وہ دونوں پیر بچھا کر دائیں طرف نکالیں اور بائیں پہلو پر بیٹھ جائیں۔
(6)  بیٹھتے وقت نظریں اپنی گود پر رکھیں۔
(7)  بیٹھنے کے وقت دونوں ہاتھ رانوں پر اسی طرح رکھیں کہ انگلیاں قبلہ رخ رہیں ان کو گھٹنوں پر نہ رکھیں۔ 

📚حوالہ:
(1) درمختار مع الشامی زکریا 2/293
(2) حلبی کبیر327
(3) عالمگیری 1/75
(4) کتاب المسائل 1/359
 ━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
▒▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓▒
مرتب:✍  
مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ 
━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
 


 🌻 *نمازِ فجر کے لیے جگانے کے لیے عمومی اسپیکر پر تلاوت کا حکم*


📿 *فجر کی نماز کے لیے جگانے کے لیے عمومی اسپیکر پر تلاوت کا حکم:*
لوگوں کو فجر کی نماز کے لیے مسجد جگانے اور بلانے کے لیے مسجد کے عمومی اسپیکر پر تلاوت یا نظم وغیرہ چلانا درست نہیں، کیونکہ ایک تو اس کی وجہ سے گھروں میں عبادت اور دیگر کاموں میں مشغول افراد کی عبادا ت اور دیگر کاموں میں خلل آتا ہے، دوم یہ کہ اس کی وجہ سے خواتین، مریضوں اور بچوں کو بھی تکلیف کا سامنا ہوسکتا ہے، سوم یہ کہ ایسا کوئی طریقہ صحابہ کرام کے دور میں رائج نہ تھا۔ اس لیے ایسے خود ساختہ نامناسب طریقوں سے اجتناب کرتے ہوئے دعوت اور اس جیسے دیگر جائز، مفید اور مؤثر طریقے اختیار کرنے چاہییں۔ 
(فتاوٰی محمودیہ ودیگر کتب)

☀ رد المحتار على الدر المختار:
وَفِي «حَاشِيَةِ الْحَمَوِيِّ» عَن الْإِمَامِ الشَّعْرَانِيِّ: أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ سَلَفًا وَخَلَفًا عَلَى اسْتِحْبَابِ ذِكْرِ الْجَمَاعَةِ فِي الْمَسَاجِدِ وَغَيْرِهَا إلَّا أَنْ يُشَوِّشَ جَهْرُهُمْ عَلَى نَائِمٍ أَوْ مُصَلٍّ أَوْ قَارِئٍ إلَخْ. 
(بَابُ مَا يُفْسِدُ الصَّلَاةَ وَمَا يُكْرَهُ فِيهَا: مَطْلَبٌ فِي رَفْعِ الصَّوْتِ بِالذِّكْرِ)

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم 
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی


'*مقابلے کی تفصیلات اور قواعد و ضوابط درج ذیل ہیں*:-'

① یہ مقابلہ 15 فروری 2025 سے شروع ہوگا اور 26 مئی 2025تک جاری رہے گا۔
② روزانہ ایک سوال پوچھا جائے گا جسکا جواب 24 گھنٹے کے اندر اندر دینا ضروری ہوگا۔
③ مقابلے کے فاتحین کا انتخاب پوائنٹ سسٹم کے تحت ہوگا، مقابلے کے اختتام پر سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والے ممبر کو پانچ ہزار 5000 روپیہ نقد انعام اور ای سرٹیفیکیٹ دیا جائے گا جبکہ دوسرے نمبرپر آنے والے رکن کو اڑھائی ہزار 2500 روپیہ نقد انعام اور ای سرٹیفیکیٹ دیا جائے گا۔اور اس کے ساتھ ساتھ اس مقابلے میں تین منفرد اور خصوصی انعام بھی شامل کئے جارہے ہیں۔
پہلے منفرد انعام کا نام ہے ناقابلِ تسخیر اور یہ انعام اُس رکن کو ملے گا جو پورے مقابلے کے دوران ایک بھی غلط جواب نہیں دے گا، یہ انعام ایک ای-ایوارڈ اور 2500 اڑھائی ہزار روپیہ کیش پر مشتمل ہوگا جبکہ اہلیت کی شرط 90 فیصد سوالات کے جواب دینا ہوگی۔
دوسرے خصوصی انعام کا نام ہے ذرا بچ کے اور یہ انعام اُس رکن کو ملے گا جو مقابلے کے دوران سب سے کم غلط جواب دے گا، یہ انعام ایک ای-ایوارڈ اور 1000 ایک ہزار روپیہ کیش پر مشتمل ہوگاجبکہ اہلیت کی شرط 90 فیصد سوالات کے جواب دینا ہوگی۔
تیسرے انعام کا نام ہے گرتے پڑتے اور یہ انعام اُس رکن کے لئے مختص ہے جو مقابلے کے دوران سب سے زیادہ غلط جواب دے گا ، یہ انعام ایک ای-ایوارڈ اور 500 پانچ سو روپیہ کیش پر مشتمل ہے جبکہ اہلیت کی شرط 90 فیصد سوالات کے جواب دینا ہوگی۔

 '*پوائنٹس سسٹم کی تفصیل*:'

④ سب سے پہلے درست جواب دینے والے رکن کو 5 پوائنٹس ملیں گے۔
⑤ اس کے بعد ہر درست جواب دینے والے کو 2، 2 پوائنٹس، جبکہ پہلے 5 پوائنٹس حاصل کرنے والے رکن کے علاوہ باقی تمام درست جواب دینے والوں میں سے کسی ایک رکن کو بذریعہ قرعہ اندازی ایک اضافی پوائنٹ (ٹوٹل 3 پوائنٹس)دیئے جائیں گے۔
⑥ غلط جواب دینے والے کو بھی ایک پوائنٹ دیا جائے گا۔
⑦ مقابلے میں تین موضوعات پر سوالات پوچھے جائیں گے جن میں ٹیکنالوجی، جغرافیہ اور اسلامی معلومات شامل ہیں۔
⑧ سوالات الکمونیا بلاگ، الکمونیا وٹس ایپ چینل اور درسگاہ کے آفیشل وٹس ایپ کمیونٹی کے کوئز سیکشن میں ایک ہی وقت میں پوسٹ کئے جائیں گے جبکہ جواب صرف اور صرف آئی ٹی درسگاہ وٹس ایپ کمیونٹی کے کوئز گروپ میں قابلِ قبول ہوں گے۔

'_*مقابلے کے آفیشل لنک*_:'


' _*مقابلے کے عمومی قوانین*_:'
⑨ سوالات کا سلسلہ 15 فروری 2025 سے شروع ہوگا۔
⑩ سوال ہر روز دن 1بجے سے 4بجے کے درمیان پوچھا جائے گا۔
⑪ اگلا سوال پوسٹ ہوتے ہی گذشتہ سوال کے جواب دینے کا وقت ختم ہوجائے گا۔
⑫ جواب صرف ایک بار ہی دیا جاسکتا ہے جواب کو ایڈیٹ کرنے یا دوبارہ پوسٹ کرنے کی اجازت نہیں ہوگی، ایڈیٹ شدہ یا دوبارہ پوسٹ ہونے والا جواب مقابلے میں شامل نہیں کیا جائے گا۔
⑬ مقابلے کے پاسنگ مارکس کم از کم 150 پوائنٹس ہوں گے، 150 سے کم پوائنٹس حاصل کرنے والے اراکین *ناکام* قرار دیئے جائیں گے، جبکہ اس مقابلے میں ملنے والے زیادہ سے زیادہ پوائنٹس کی تعداد 500 ہے اور جواب درست ہونے کی صورت میں کم از کم 200 سے لیکر 300 تک پوائنٹ کوئی بھی رکن حاصل کرسکتا ہے، اس لحاظ سے 150 پوائنٹس ایک معقول تعداد ہے۔
⑭ ایک سو پچاس 150 یا اس سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والے اراکین کا نام *حتمی پوزیشن حاصل کرنے والے اراکین کی لسٹ* میں شایع کیا جائے گا۔
⑮ سب سے زیادہ پوائنٹس حاصل کرنے والے پہلے دو اراکین کو بالترتیب پہلا اور دوسرا انعام دیا جائے گا جبکہ پہلی دس 10 پوزیشن حاصل کرنے والے اراکین کو تعریفی ای سرٹیفیکیٹس بھی دیئے جائیں گے۔
⑯ سوالات کے جوابات کے حوالے سے آئی ٹی درسگاہ انتظامیہ کا فیصلہ حتمی ہوگا جسے چیلنج نہیں کیا جاسکے گا۔
⑰ کسی بھی اختلاف یا تنازعے کی صورت میں آئی ٹی درسگاہ انتظامی کا فیصلہ حتمی ہوگا۔
⑱ یہ مقابلہ اور کوئز گروپ، آئی ٹی درسگاہ وٹس ایپ کمیونٹی کے پہلے سے نافذ قواعد و ضوابط کے تحت ہیں اور کسی بھی اصول یا ضابطے کی خلاف ورزی پر مناسب کاروائی کا حق آئی ٹی درسگاہ انتظامیہ کے پاس محفوظ ہے۔
یہ مقابلے اور کمیونٹی کی دیگر سرگرمیاں صرف اور صرف اشاعتِ دین اور خیر سگالی کے جذبے کے تحت منعقد کی جاتی ہیں ، ان کا کسی بھی طور پر یہ مقصد نہیں کہ کسی فرد یا افراد کے گروہ کی دل آزاری کی جائے یا کسی فرد یا افراد کے گروہ پر تنقید و تنقیص کی جائے ، اگر کسی فرد یا افراد کے گروہ کو اس قسم کی کوئی شکایت محسوس ہو تو وہ بلا جھجک کسی بھی کمیونٹی ایڈمن سے ذاتی رابطہ کرکے اپنی شکایت ہم تک پہنچا سکتا ہے، ایسی صورت میں متاثرہ فرد یا افراد کی شکایت کو دور کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔
ہمیں اُمید ہے کہ ہر بار کی طرح اس سال بھی آپ تمام احباب بڑھ چڑھ کر اس مقابلے میں نہ صرف خود حصہ لیں گے بلکہ اپنے دوست احباب کو بھی اس میں شمولیت کی دعوت دیں گے۔
اشاعتِ دین، اور آپس کے بھائی چارے اور ادب و احترام کے فروغ کے لئے ہمارا ساتھ دیں، خود بھی آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کے رکن بنیں اور اپنے دوست و احباب کو بھی دعوت دیں، اللہ پاک ہم سب کو دین کی صحیح سمجھ اور عمل کی توفیق عطاء فرمائے ، آمین
x


 رمضان کے آخری عشرے کا پروگرام

رمضان کا آخری عشرہ سب سے زیادہ بابرکت اور قیمتی ہوتا ہے، کیونکہ اس میں لیلة القدر (شبِ قدر) آتی ہے، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان راتوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرے اور اپنے اعمال کو بہتر بنانے کی کوشش کرے، کیونکہ اعمال کا دار و مدار ان کے انجام پر ہوتا ہے۔

آخری عشرے میں ثابت قدمی اور محنت کی ضرورت:۔
رمضان کے آخری دنوں میں انسان دو میں سے کسی ایک حالت میں ہوتا ہے ۔ یا تو اس نے پورے مہینے میں خوب عبادت کی، اب اسے استقامت کے ساتھ آخری دنوں میں بھی محنت کرنی ہے، کیونکہ نیک اعمال کا اجر ان کے اختتام پر ہوتا ہے۔ یا پھر دوسری حالت یہ ہے کہ وہ سستی کا شکار رہا ہے، اب اس کے پاس موقع ہے کہ وہ آخری عشرے میں اپنی غفلت کی تلافی کرے اور زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرے۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا:۔
إِنَّمَا الأَعْمَالُ بِخَوَاتِيمِهَا۔
۔(صحیح البخاری)۔
مفہومی ترجمہ: اعمال کا دار و مدار ان کے انجام پر ہوتا ہے۔
اسی لیے جو شخص غفلت میں رہا، اسے چاہیے کہ ان آخری دنوں میں نیکیوں کی طرف متوجہ ہو اور زیادہ سے زیادہ عبادت کرے۔
نبی کریم ﷺ کا آخری عشرے میں معمول:۔
نبی کریم ﷺ رمضان کے پورے مہینے میں عبادت کا اہتمام کرتے، لیکن جب آخری عشرہ آتا تو اور زیادہ محنت کرتے۔ حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں:۔
كَانَ النَّبِيُّ ﷺ إِذَا دَخَلَ الْعَشْرُ شَدَّ مِئْزَرَهُ وَأَحْيَا لَيْلَهُ وَأَيْقَظَ أَهْلَهُ۔
۔(صحیح البخاری)۔
مفہومی ترجمہ: جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو نبی کریم ﷺ کمر کس لیتے (عبادت کے لیے زیادہ محنت کرتے)، راتوں کو جاگتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی جگاتے۔
امام ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: یہ حدیث اس بات کی دلیل ہے کہ نبی کریم ﷺ آخری عشرے میں قیام کو زیادہ اہمیت دیتے تھے، تاکہ وہ اچھے انجام کے ساتھ رمضان کو مکمل کریں۔

اعتکاف کی سنت:۔
اعتکاف کا مقصد اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لیے مکمل یکسوئی حاصل کرنا ہے۔ نبی کریم ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں ہمیشہ اعتکاف کرتے تاکہ زیادہ سے زیادہ عبادت اور ذکر و اذکار میں مشغول رہیں۔
حضرت ابو سعید خدریؓ بیان کرتے ہیں:۔
اعْتَكَفَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ عَشْرَ الأُوَلِ مِنْ رَمَضَانَ، ثُمَّ اعْتَكَفَ الْعَشْرَ الأَوْسَطَ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي أُرِيتُ لَيْلَةَ الْقَدْرِ وَإِنَّهَا فِي الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ، فَمَنْ كَانَ اعْتَكَفَ فَلْيَعْتَكِفْ۔
۔(صحیح البخاری)۔
مفہومی ترجمہ: نبی کریم ﷺ نے پہلے رمضان کے ابتدائی دس دنوں میں اعتکاف کیا، پھر درمیانی عشرے میں، پھر فرمایا:۔ مجھے شبِ قدر دکھائی گئی ہے، اور وہ آخری عشرے میں ہے، پس جو اعتکاف کرنا چاہے، وہ کرے۔
اعتکاف کا مقصد دنیاوی مشاغل سے دور ہو کر عبادت، ذکر، دعا اور توبہ میں مشغول ہونا ہے تاکہ انسان شبِ قدر کو پا سکے۔
لیلة القدر کی تلاش اور فضیلت:۔
شبِ قدر کی عبادت ہزار مہینوں (تقریباً 83 سال) کی عبادت سے بہتر ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔
لَيْلَةُ الْقَدْرِ خَيْرٌ مِنْ أَلْفِ شَهْرٍ
۔(القدر: 3)۔
مفہومی ترجمہ: شبِ قدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
شبِ قدر کب ہوتی ہے؟۔
نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ شبِ قدر رمضان کے آخری عشرے میں کسی طاق رات میں ہوتی ہے۔
حضرت عائشہؓ سے مروی ہے: تَحَرَّوْا لَيْلَةَ الْقَدْرِ فِي الْوِتْرِ مِنْ الْعَشْرِ الأَوَاخِرِ۔ (صحیح البخاری و صحیح مسلم)۔
مفہومی ترجمہ: شبِ قدر کو رمضان کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
یہ رات 21، 23، 25، 27 یا 29 رمضان کو ہو سکتی ہے۔ اس لیے ایک مسلمان کو چاہیے کہ وہ پورے عشرے میں عبادت کرے تاکہ وہ اس مبارک رات کو حاصل کر سکے۔

شبِ قدر کی علامتیں:۔
نبی کریم ﷺ نے شبِ قدر کی ایک نشانی یہ بیان فرمائی:۔
تَطْلُعُ الشَّمْسُ صَبِيحَةَ لَيْلَةِ الْقَدْرِ بَيْضَاءَ لا شُعَاعَ لَهَا۔
۔(صحیح مسلم)۔
مفہومی ترجمہ: شبِ قدر کی صبح سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے۔
یہ نشانی بعد میں ظاہر ہوتی ہے تاکہ عبادت گزار خوش ہو اور جو محروم رہا، وہ مزید محنت کرے۔
شبِ قدر کی مخصوص دعا:۔
حضرت عائشہؓ نے نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ اگر ہمیں شبِ قدر مل جائے تو کیا دعا پڑھیں؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:۔
اللَّهُمَّ إِنَّكَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّي۔
۔(سنن الترمذی)۔
مفہومی ترجمہ: اے اللہ! بے شک تو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے، پس مجھے معاف فرما دے۔
یہ دُعا اس رات میں زیادہ سے زیادہ پڑھنی چاہیے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اس رات میں اپنے بندوں کی دعائیں قبول فرماتا ہے۔
آخری عشرے کے لیے عملی مشورے:۔
عبادت میں اضافہ: نمازِ تہجد کا اہتمام کریں۔ قرآن کی تلاوت زیادہ کریں۔ اللہ کے ذکر میں مشغول رہیں۔
اعتکاف کریں: اگر ممکن ہو تو مسجد میں اعتکاف کریں۔ اگر مسجد میں ممکن نہ ہو تو گھر میں عبادت کے لیے مخصوص وقت نکالیں۔
دنیاوی مشاغل سے پرہیز کریں: فضول خریداری، سوشل میڈیا، اور دیگر غیر ضروری سرگرمیوں سے بچیں۔
شبِ قدر کی تلاش کریں:ہر رات عبادت کریں، خاص طور پر طاق راتوں میں زیادہ محنت کریں۔
صدقہ و خیرات کریں:رمضان کے آخری ایام میں ضرورت مندوں کی مدد کریں تاکہ زیادہ سے زیادہ نیکیاں حاصل ہوں۔

خلاصہ یہ ہے کہ رمضان کا آخری عشرہ اللہ کی رحمت، مغفرت اور نجات کا عشرہ ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ ان دنوں میں زیادہ سے زیادہ عبادت کرے، کیونکہ یہ لمحات قیمتی ہیں اور اگلا رمضان نصیب ہوگا یا نہیں، کوئی نہیں جانتا۔


آج یاروں کو مبارک ہو کہ صبح عید ہے
راگ ہے مے ہے چمن ہے دل ربا ہے دید ہے

دل دوانہ ہو گیا ہے دیکھ یہ صبح بہار
رسمسا پھولوں بسا آیا انکھوں میں نیند ہے

شیر عاشق آج کے دن کیوں رقیباں پے نہ ہوں
یار پایا ہے بغل میں خانۂ خورشید ہے

غم کے پیچھو راست کہتے ہیں کہ شادی ہووے ہے
حضرت رمضاں گئے تشریف لے اب عید ہے

عید کے دن رووتا ہے ہجر سیں رمضان کے
بے نصیب اس شیخ کی دیکھو عجب فہمید ہے

سلک اس کی نظم کا کیوں کر نہ ہووے قیمتی
آبروؔ کا شعر جو دیکھا سو مروارید ہے


  ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 سورہ یوسف آیت نمبر 20 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼ 

بِسمِ اللّٰہِ الرَّحمٰنِ الرَّحِیمِ
وَ شَرَوْهُ بِثَمَنٍۭ بَخْسٍ دَرَاهِمَ مَعْدُوْدَةٍ١ۚ وَ كَانُوْا فِیْهِ مِنَ الزَّاهِدِیْنَ۠   ۧ

 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 لفظی ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

وَشَرَوْهُ : اور انہوں نے اسے بیچ دیا بِثَمَنٍ : دام بَخْسٍ : کھوٹے دَرَاهِمَ : درہم مَعْدُوْدَةٍ : گنتی کے وَكَانُوْا : اور وہ تھے فِيْهِ : اس میں مِنَ : سے الزَّاهِدِيْنَ : بےرغبت، بےزار

 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 ترجمہ 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

شروع اللہ کے نام سے جو سب پر مہربان ہے، بہت مہربان ہے
اور (پھر) انہوں نے یوسف کو بہت کم قیمت میں بیچ دیا جو گنتی کے چند درہموں کی شکل میں تھی، اور ان کو یوسف سے کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ (12)

 ⲯ🌹﹍︿🕌﹍︿﹍🕋 تفسیر 🕋﹍ⲯ﹍🌹ⲯ🌹﹍︿🕌﹍☼

12: قرآن کریم کے الفاظ سے تو بظاہر یہی معلوم ہوتا ہے کہ بیچنے والے قافلے ہی کے لوگ تھے، اور حضرت یوسف ؑ کو اپنے پاس رکھنے سے دلچسپی نہیں تھی بلکہ ان کو بیچ کر جو بھی قیمت ہاتھ آجائے وہ اسے غنیمت سمجھتے تھے، کیونکہ مفت حاصل ہو رہی تھی۔ اس لیے جب کوئی خریدار ملا، انہوں نے اسے تھوڑی سی قیمت پر ہی بیچ دیا۔ البتہ بعض روایات میں واقعے کی یہ تفصیل آئی ہے کہ حضرت یوسف ؑ کے بھائی انہیں کنویں میں ڈال تو گئے تھے۔ لیکن بڑا بھائی یہودا روزانہ ان کی خبر گیری کے لیے آتا تھا اور کچھ کھانا بھی انہیں پہنچا دیتا تھا۔ تیسرے دن جب انہیں کنویں میں نہ پایا تو تلاش کرنے سے وہ قافلے والے مل گئے۔ اس موقع پر دوسرے بھائی بھی آگئے اور انہوں نے قافلے والوں سے کہا کہ یہ ہمارا غلام ہے جو بھاگ گیا تھا۔ اور اگر تم چاہو تو ہم اسے تمہارے ہاتھ فروخت کرسکتے ہیں۔ چونکہ ان بھائیوں کا اصل مقصد تو یہ تھا کہ وہ ان کے والد کی سرزمین سے دور چلے جائیں۔ قیمت لینا اصل مقصد نہیں تھا۔ اس لیے انہوں نے حضرت یوسف ؑ کو قافلے والوں کے ہاتھ معمولی قیمت پر بیچ دیا۔ بائبل میں بھی یہ مذکور ہے کہ بیچنے والے ان کے بھائی ہی تھے اور انہوں نے قافلے کے ہاتھ حضرت یوسف ؑ کو فروخت کیا تھا۔


🌹 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹
ــــــــــــــــــــــــ

━━❰・ *پوسٹ نمبر 128* ・❱━━━
            *نماز کا مسنون طریقہ:*
🔷 *سجدہ کی حالت* 
 
(1) سجدہ میں ہر ہاتھ کی انگلیاں ملاکر اور قبلہ رخ رکھیں۔
(2) دونوں ہاتھ کے انگوٹھے کان کی لو کے بالمقابل رہنے چاہئیں۔ 
(3) مردوں کے لیے سجدہ کی حالت میں کہنیاں زمین یا رانوں پر ٹیکنا صحیح نہیں ہے ، ہمیشہ کہنیاں اوپر اٹھاکر رکھیں۔ تاہم جماعت سے نماز پڑھتے وقت دائیں بائیں کہنیاں اس طرح نہ نکالیں جس سے دیگر نمازیوں کو زحمت ہو۔
(4) مرد نمازی سجدہ میں اپنی رانیں اور پیٹ الگ الگ رکھیں، انہیں آپس میں نہ ملائیں۔
(5) عورتیں زمین سے بالکل چپٹ کر سجدہ کریں، نہ تو کہنیاں اوپر اٹھائیں اور نہ ہی رانیں پیٹ سے الگ کریں بلکہ دونوں کو ملا کرسجدہ کریں اور پیروں کو بچھائے رہیں۔
(6) سجدہ میں پیروں کی انگلیاں موڑ کر قبلہ رخ ہی رکھیں، پیروں کے سرے کو بلاعذر سیدھا زمین کی طرف رکھنا درست نہیں ہے۔
(7) سجدہ میں کم ازکم تین مرتبہ "سبحان ربی الأعلٰی" پڑھنا مسنون ہے، اس سے پہلے سجدہ سے سر نہ اٹھائیں۔
(8) سجدہ کے دوران نظریں اپنی ناک کے بانسوں پر رکھیں ۔
(9) اس کا خیال رکھیں کہ سجدہ کے دوران دونوں پیر زمین سے نہ اٹھے رہیں، ورنہ نماز فاسد ہو سکتی ہے۔
    
📚حوالہ:
(1) شامی زکریا 2/203
(2) حلبی کبیر 321
(3) فتح القدیر 1/305
(4) کتاب المسائل 1/358
(5) فتاوی عالمگیری 1/75
 ━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
▒▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓▒
مرتب:✍  
مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ 
━━━━━━━━❪❂❫━━━━━━━
 


 🌻 *مَاہِ رَجب میں کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے کا حکم*

(تصحیح ونظر ثانی شدہ)

📿 *ماہِ رجب میں کھانے  پینے کی چیزیں تقسیم کرنے کا حکم:*
ماہِ رجب میں رائج بدعات ورسومات میں سے ایک غیر شرعی عمل یہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ ماہِ رجب میں اور خصوصًا اس کی 22 اور 27 تاریخ کو حلوہ، چاول یا دیگر کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرتے ہیں، اس کو بہت بڑے اجر وثواب کا باعث سمجھتے ہیں اور اس کے خود ساختہ فضائل  بھی بیان کرتے ہیں۔ درحقیقت یہ سب کچھ شریعت کے مزاج سے ناواقفیت کا نتیجہ ہےکہ ہم بدعات کو بھی نیکی سمجھنے لگتے ہیں اور ہمیں یہ احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم نیک کام کررہے ہیں یا گناہ کما رہے ہیں!!
حقیقت یہ ہے کہ یہ تمام تر چیزیں بدعات کے زمرے میں آتی ہیں جن سے اجتناب کرنا ضروری ہے، جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1⃣ ماہِ رجب میں کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے کی رسم قرآن وسنت، حضرات صحابہ کرام اور تابعین عظام سے ہرگز ثابت نہیں، یہی بات اس کی ممانعت کے لیے کافی ہے۔
2️⃣ اگر ماہِ رجب کے ان ایام میں یہ کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے سے مقصود صدقہ دینا ہے تو واضح رہے کہ صدقہ تو سال بھر میں کسی بھی دن دیا جاسکتا ہے، اور صدقہ میں کوئی بھی جائز چیز دی جاسکتی ہے، لیکن اس  کے لیے مہینہ یا دن خاص کرنا یا صدقہ میں کوئی چیز خاص کرنا شریعت کے خلاف اور بدعت ہے۔ یہ شریعت کا ایک اہم اصول ہے جس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
3⃣ اگر ماہِ رجب کے ان ایام میں یہ کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے سے مقصود کسی شخصیت کے لیے ایصالِ ثواب ہے تو واضح رہے کہ ایصال ثواب کے لیے نہ تو کوئی دن یا مہینہ خاص ہے، اور نہ ہی کوئی کھانے پینے کی چیز تقسیم کرنا ضروری ہے، بلکہ ایصالِ ثواب تو کسی بھی نیک عمل کا کیا جاسکتا ہے، اس لیے ایصالِ ثواب کے لیے بھی مہینہ یا دن خاص کرنا یا ایصال ثواب میں کوئی چیز خاص کرنا شریعت کے خلاف ہے۔

📿 *کونڈوں کی رسم کا حکم:*
ماہِ رجب میں کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے کی رسم سے متعلق تفصیل بیان ہوچکی کہ یہ ناجائز ہے، البتہ اسی نوعیت کی ایک اور رسم کونڈے کی رسم بھی ہے، جس کی تفصیل یہ ہے  کہ ماہِ رجب کی بائیس تاریخ کو کونڈوں کی رسم منائی جاتی ہے، اس دن پوریاں، حلوہ یا دیگر کھانے پینے کی چیزیں تیار کی جاتی ہیں اور محلے بھر میں تقسیم کی جاتی ہیں، اس کو امام جعفر صادق رحمہ اللہ کی ولادت کی خوشی قرار دی جاتی ہے، واضح رہے کہ یہ رسم ناجائز اور بدعت ہے، متعدد حضرات اہلِ علم کی تحقیق یہ ہے کہ 22 رجب حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کا دن ہے،  اس لیے شیعہ طبقے نے ۔۔۔ نعوذ باللہ۔۔۔ ان کی وفات کی خوشی میں یہ رسم ایجاد کی ہے، واللہ تعالیٰ اعلم۔ ذیل میں تفصیل ملاحظہ فرمائیں:
1⃣ فتاوٰی محمودیہ (3/281،282):
’’کونڈوں کی مروجہ رسم مذہب اہلِ سنت والجماعت میں محض بے اصل، خلافِ شرع اور بدعتِ ممنوعہ ہے کیوں کہ بائیسویں رجب نہ حضرت اِمام جعفر صادق رحمہ اللہ علیہ کی تاریخِ پیدائش ہے اور نہ تاریخِ وفات۔ حضر ت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی وِلادت 8 رمضان 80ھ یا 83ھ میں ہوئی اور وفات شوال 148ھ میں ہوئی، پھر بائیسویں رجب کی تخصیص کیا ہے؟ اور اس تاریخ کو حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ سے کیا خاص مناسبت ہے؟ ہاں بائیسویں رجب حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی تاریخ ِوفات ہے ۔  (دیکھو: تاریخِ طبرانی؟؟ ذکرِ وفاتِ معاویہ)۔ اس سے ظاہر ہوتاہے کہ اِس رسم کو محض پردہ پوشی کے لیے حضرت امام جعفر صادق کی طرف منسوب کیا گیا، ورنہ درحقیقت یہ تقریب حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی میں منائی جاتی ہے، جس وقت یہ رسم اِیجاد ہوئی اہلِ سنت والجماعت کا غلبہ تھا، اس لیے یہ اہتمام کیا گیا کہ شیرینی بطور حصہ علانیہ نہ تقسیم کی جائے، تاکہ راز فاش نہ ہو، بلکہ دُشمنانِ حضرت معاویہ خاموشی کے ساتھ ایک دُوسرے کے یہاں جاکر اُسی جگہ یہ شیرینی کھالیں جہاں اُس کو رکھا گیا ہے اور اس طرح اپنی خوشی ومسرت ایک دُوسرے پر ظاہر کریں۔ جب کچھ اس کا چرچا ہوا تو اس کو حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب کرکے یہ تہمت امام موصوف پر لگائی کہ اُنہوں نے خود خاص اس تاریخ میں اپنی فاتحہ کا حکم دیا ہے، حالاں کہ یہ سب من گھڑت باتیں ہیں، لہٰذا برادرانِ اہلِ سنت کو اس رسم سے بہت دُور رہنا چاہیے، نہ خود اس رسم کو بجالائیں اور نہ اس میں شرکت کریں۔ فقط واللہ سبحانہ تعالیٰ اعلم۔‘‘ (باب البدعات والرسوم) 

2️⃣ دار الافتاء دارالعلوم دیوبند:
’’آپ کے علاقہ میں ۲۲/ رجب کو ختم رجب کے نام سے جو رسم رائج ہے، جس میں مختلف لوگوں کو جمع کیا جاتا ہے اور اجتماعی طور پر کلمہ طیبہ وغیرہ پڑھا جاتا ہے اور کھان پان وغیرہ ہوتا ہے، یہ رسم بدعت وناجائز ہے اور ایسی چیزوں کی منت ماننا درست نہیں اور اگر کسی نے لاعلمی میں ایسی کوئی منت مان لی تو معلوم ہونے پر توبہ کرے، اسے ہرگز پورا نہ کرے، ایسی منت پوری کرنا جائز نہیں ہوتا (بہشتی زیور، حصہ سوم، منت کا بیان، مسئلہ: ۲۰)۔ واللہ تعالیٰ اعلم‘‘ (فتویٰ نمبر : 161145، تاریخ ِاجرا: 15 مئی 2018)

3⃣ دار الافتاء دار العلوم دیوبند:
’’۲۲/ رجب کو کونڈے کے نام سے جو کھانا تیار کیا جاتا ہے یہ شیعوں کی ایجاد کردہ رسم ہے جو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی وفات کی خوشی میں کرتے ہیں، شریعت سے ثابت نہیں، لہٰذا مسلمانوں کواس طرح کا کھانا بنانے اور اس میں شریک ہونے نیز کھانے سے احتراز کرنا چاہیے۔‘‘
(فتوی نمبر :170133، تاریخِ اجرا: 13 مئی 2019)

4⃣ دار الافتاء جامعہ اشرفیہ لاہور (فتوی نمبر: 29):
’’رجب کے کونڈے اور ان کے پس منظر میں امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی طرف منسوب قصے سراسر گھڑے ہوئے واقعات ہیں، جن کا دین اور ثواب سے دور کا بھی تعلق نہیں، نہ امام جعفر صادقؒ اس تاریخ میں پیدا ہوئے اور نہ اس تاریخ میں ان کی وفات ہوئی اور نہ ہی مذکورہ تاریخ میں ان سے متعلق کوئی واقعہ پیش آیا، علاوہ ازیں دین کا یہ مزاج نہیں کہ کسی بھی بڑی سے بڑی شخصیت کی زندگی یا وفات وغیرہ کی تواریخ کو بعد میں منانے کے حوالے سے اجازت دی گئی ہو اور اس پر حصولِ اجر و ثواب کا وعدہ کیا گیا ہو یا اس میں کھانے پینے سے متعلق اس طرح کی رسم کی ترغیب دی گئی ہو، اگر امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کا مذکورہ کونڈوں کے متعلق کسی بھی قسم کا کوئی واقعہ ثابت ہوتا تو جہاں امام موصوف کا بچپن گذرا، جوان ہوئے اور وفات پائی وہاں اس کا سب سے زیادہ چرچا ہونا چاہیے تھا، اس کے برعکس وہاں اس طریقہ کو کوئی جانتا بھی نہیں مگر ہزاروں میل دور بیٹھے بے علم لوگوں کو ان باتوں کا کس طرح علم ہو جاتا ہے اور وہ اس رسم کو پہلے چھپ چھپ کر اور اب علانیہ کرنے لگتے ہیں۔ بعض مؤرخین کے مطابق مذکورہ تاریخ میں صحابی رسول کاتب وحی سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی اور دشمنانِ صحابہ ان کی وفات کی خوشی میں کونڈے پکاتے ہیں، مگر سادہ لوح عوام کو بے خبر رکھنے کے لیے حضرت امام جعفر صادق رحمۃ اللہ علیہ کی جانب ان کی نسبت کرتے ہیں اور پس پردہ وہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کے خلاف اپنے بغض اور دشمنی کا اظہار کرتے ہیں، اگر صورتحال ایسی ہی ہو تو کونڈے پکانا فقط ایک رسم ہی نہیں بلکہ قبیح ترین فعل ہوگا، جس سے بچنا ہر صاحب ایمان کے لیے لازم ہے۔‘‘

📿 *ماہِ رجب کی بدعات پر مشتمل کھانے پینے کا شرعی حکم:*
ماہِ رجب میں کھانے پینے کی چیزیں تقسیم کرنے اور کونڈوں کی رسم سے متعلق تفصیل بیان ہوچکی کہ یہ ناجائز ہے، البتہ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بدعات اور رسومات پر مبنی ایسی چیزیں کھانے پینے کا کیا حکم ہے؟ کیوں کہ ماہِ رجب میں  بہت سے گھروں میں بدعات پر مشتمل کھانے پینے کی چیزیں آتی رہتی ہیں یا گلی کوچوں اور راستوں میں ان چیزوں سے واسطہ پڑتا رہتا ہے، اس لیے شرعی اعتبار سے ان چیزوں کے کھانے پینے کا تفصیلی حکم سمجھنا چاہیے:
1⃣ شریعت ہر مسلمان سے یہ تقاضا کرتی ہے کہ وہ سنت وشریعت کی پیروی کرتے ہوئے بدعات سے خود بھی اجتناب کرے اور دوسروں کو بھی بدعات ترک کرنے کی ترغیب دے۔
2️⃣ اسی طرح ہر وہ کام جس سے بدعات کی ترویج، اشاعت اور حوصلہ افزائی ہوتی ہو اس سے بھی مکمل اجتناب کرے، کیوں کہ یہ بھی گناہ کے زمرے میں آتا ہے۔ اس لیے بدعات پر مشتمل مجالس یا کاموں کے لیے چندہ دینا، کسی بھی قسم کا تعاون کرنا، ان کی تعریف کرنا، ان کے لیے دعوت یا مہم چلانا، ان میں شرکت کرنا یا اس طرح کا کوئی بھی کام کرنا جس سے بدعات کو تقویت ملے؛ یہ سب شریعت کے خلاف ہے۔واضح رہے کہ شریعت کا مزاج بدعات کی حوصلہ شکنی کا ہے۔
3⃣ اس لیے ماہِ رجب کی بدعات پر مشتمل مجالس اور کھانے پینے کے مقامات میں شریک ہونا ناجائز ہے کیوں کہ اس سے بدعات کی شان وشوکت میں اضافہ ہوتا ہے اور ان کو قوت اور رواج میسر آتا ہے۔
4⃣ البتہ اگر کوئی شخص ان بدعات پر مشتمل یہ کھانا پینا کسی کے ہاں بھیج دے تو ایسی صورت میں مسئلہ واضح رہے کہ اگر حرام ہونے کی کوئی اور وجہ موجود نہ ہو تو محض بدعت ہونے کی وجہ سے وہ کھانا پینا اپنی ذات میں حرام نہیں ہوجاتا، البتہ کوشش یہی کی جائے کہ اسے وصول ہی نہ کیا جائے اور ان کے سامنے صحیح صورتحال واضح کی جائے، یا اگر وصول ہی کرنا پڑے تب بھی ان کے سامنے صحیح صورتحال واضح کی جائے کہ یہ چیزیں شریعت کے مطابق نہیں اور نہ ہی ہم اس کے قائل ہیں، وصول کرنے کی صورت میں اس کھانے پینے سے اجتناب کرتے ہوئے کسی غریب کے ہاں بھیج دیا جائے تو بہتر ہے تاکہ بدعات کی نفرت دل میں برقرار رہے اور احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ چھوٹے، اور جب لینے والے نہ رہیں گے تو دینے والے خود بخود یہ بدعات ترک کردیں گے، البتہ اگر خود ہی کھالیا جائے تو حرام نہیں بشرطیکہ حرام ہونے کی کوئی اور وجہ موجود نہ ہو، البتہ اجتناب کرنے ہی میں احتیاط ہے، خصوصًا وہ شخص تو خصوصی اجتناب کرے جو کہ مقتدیٰ ہو اور لوگ ان کی پیروی کرتے ہوں تاکہ بدعات کا خاتمہ ہوسکے۔ البتہ اگر کسی نے حرام مال سے یہ کھانا پینا تیار کیا ہے یا غیر اللہ کی نذر ونیاز کی نیت سےکوئی جانور ذبح کرکے تیار کیا ہے تو اس کاحرام ہونا واضح ہے، اور جہاں ماحول اور افراد کی اعتقادی حالت کی وجہ سے پہچان نہ ہوتی ہو اور اس پہلو کا امکان ہو تو وہاں بھی وصول نہ کرنے ہی میں احتیاط ہے، خصوصًا کونڈوں کی رسم میں کھانے پینے کی چیزوں سے اجتناب کرنا اس لیے بھی اہم ہے کہ اس کے پسِ منظر میں حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خوشی کا جذبہ کار فرما ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا دینی غیرت  اور محبتِ صحابہ کا بھی تقاضا ہے۔
5️⃣ جو شخص صحیح العقیدہ مسلمان ہے اور اس کے ہاں سے عام ایام میں بھی کھانے پینے کی چیزیں گھر آتی رہتی ہیں اور وہ ماہِ رجب خصوصًا 22 اور 27 تاریخ میں بھی ایسی کوئی چیز بھیجے اور یہ کہے کہ میں نے کسی بھی غلط نظریے سے نہیں بھیجی ہے تو اس کا کھانا بالکل درست ہے البتہ بھیجنے والا کوشش یہ کرے کہ بدعات کے خاتمے کے لیے 22 یا 27 تاریخ کو یہ اہتمام نہ کرے تو اچھا ہے۔
(تفصیل ملاحظہ فرمائیں: ماہِ محرم الحرام کے فضائل واحکام از مفتی محمد رضوان صاحب دام ظلہم، فتاویٰ عثمانی ودیگر کتب)

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget