فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 25═(اولوالعزم مجاہدین)═


  🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷

✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بارش ابهی تک ہو رہی تھی - ہوا کے تیز جھونکے چل رہے تھے اور بجلی برابر کڑک رہی تھی -
چونکہ مسلمانوں کو بھیگتے دیر ہو گئی تھی، اس لیے اب انہیں سردی محسوس ہونے لگی تھی اور وہ کانپنے بھی لگے تھے -
مغیث الرومی نے بجلی کی روشنی میں نظر اٹھا کر دیکھا-
انہیں قریب ہی ایک برج نظر آیا وہ صرف پچاس آدمیوں کو لے کر برج کے اندر پہنچے-
برج کافی بڑا تھا اور اس کے اندر روشنی بھی ہو رہی تھی - بہت سے عیسائی پڑے سو رہے تھے جو اڑھائی تین سو سے کم نہیں تھے-
مغیث الرومی نے جاتے ہی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا-
ان کے نعرے کی آواز سنتے ہی عیسائی چونک چونک کر اٹھنے لگے-
جب اٹھتے ہی انہوں نے مسلمانوں کو دیکھا تو گھبرا گئے اور جلد جلد اٹهہ کر ہتھیاروں کی طرف دوڑے-
مغیث الرومی نے ڈپٹ کر کہا - "
خیریت چاہتے ہو تو ہتھیار ڈال دو - "
مگر عیسائی چونکہ عربی نہیں جانتے تھے انہوں نے ان کی بات سمجھی ہی نہیں اور ہتھیار لے لے کر مسلمانوں کے اوپر آ ٹوٹے-
چونکہ مسلمان صرف پچاس ہی برج کے اندر آئے تھے اس لیے انہوں نے سوچا کہ وہ ان کو مار ڈالیں گے یا فصیل سے نیچے گرا دیں گے -
انہوں نے نہایت جوش میں آ کر مسلمانوں پر حملہ کر دیا -"
اس سے مسلمانوں کو بھی غصہ آ گیا اور انہوں نے بھی فوراً تلواریں کهنیچ لیں اور عیسائیوں پر ٹوٹ پڑے-
عیسائی غضبناک ہو ہو کر تلواریں چلا رہے تھے لیکن مسلمانوں پر گویا ان کی تلواروں کا اثر ہی نہ ہوتا تھا اور مسلمان انہیں برابر قتل کر رہے تھے -
تهوڑی ہی دیر میں ایک ایک کر کے تمام عیسائی مارے گئے-
مسلمانوں نے ان کی لاشیں کھینچ کھینچ کر فصیل سے نیچے گرا دیں اور اب وہ زینہ کی تلاش میں چلے-
اندھیرا اس قدر بڑھا ہوا تھا کہ کسی طرف کی کوئی چیز بھی دکھائی نہ دیتی تھی -
دوسرے یہ لوگ زینوں سے بالکل ناواقف تھے - غور سے دیکھنے اور ٹٹول کر چلنے پر بھی انہیں کوئی زینہ نہ ملا، حالانکہ انہوں نے دور تک دیکھ لیا یہاں تک کہ وہ دوسرے برج کے قریب پہنچ گئے-
مغیث الرومی نے برج کے اندر جھانک کر دیکھا. اس میں بھی اتنے ہی عیسائی تھے جتنے پہلے میں تهے لیکن اس برج کے زیادہ عیسائی جاگ رہے تھے اور بہت کم سو رہے تھے -
مغیث الرومی تھوڑے سے سپاہیوں کو ساتھ لے کر بڑھے اور برج میں داخل ہوئے - "
ان کی صورتیں دیکھتے ہی عیسائی کانپ گئے اور انہوں نے خوف زدہ ہو کر چلانا شروع کر دیا جن آ گئے! جن آ گئے! "
سچ پوچھئے تو مسلمانوں نے کام ہی جنوں والے ہی کئے تھے-
ہوا اور بارش کے ایسے شدید طوفان میں جیسا کہ اس روز آیا جب ہر ذی روح اپنی اپنی خواب گاہوں میں جا گھسا تھا تو مسلمان قرطبہ کے قلعہ پر چڑھ رہے تھے -
تمام عیسائی خوف زدہ ہو گئے اور ان اور ان کے چلانے کی آوازیں سن سن کر ان کے سونے والے ساتھی بھی اٹھ بیٹھے-
اٹھتے ہی جب انہوں نے مسلمانوں کو کھڑے دیکها تو ڈر کر پهر آنکهیں بند کر کے پڑ گئے-"
مغیث الرومی نے بلند آہنگی سے کہا-
عیسائیو فضول میں موت کو دعوت نہ دو ہتھیار ڈال دو - "
ان میں سے بھی کسی نے ان کی بات نہ سمجھی اور سب اپنی اپنی حفاظت کے لیے شمشیر بہ کف ہو کر ان کے مقابلے میں آ گئے-
یہ دیکھتے ہی مسلمانوں کو غصہ آ گیا اور انہوں نے تلواریں سونت سونت کر انہیں تلواروں کی باڑھ پر رکھ لیا-
عیسائی بھی خوب جوش و خروش سے لڑنے لگے لیکن مسلمانوں نے بہت جلد ان کی زیادہ تعداد کاٹ کاٹ کر ڈال دی.
یہ دیکھ کر کچھ عیسائی چلاتے ہوئے برج سے باہر نکلے-
ان کے باہر نکلتے ہی بجلی چمکی اور بجلی کی روشنی میں انہوں نے سینکڑوں مسلمانوں کو برج کے باہر فصیل پر دور تک دیکها-
وہ سمجھتے تھے کہ مسلمان صرف اتنے ہی ہیں جتنے فصیل کے اندر ہیں اس لیے وہ ان سے بچنے کے لیے بھاگتے ہوئے ان کے سامنے سے گزر کر باہر نکلتے رہے، لیکن جب انہوں نے باہر بھی مسلمانوں کو کھڑے پایا تو اور بھی لرز گئے اور شور کرتے ہوئے برج کی طرف بھاگے-
برج سے باہر کھڑے ہوئے مسلمانوں نے عیسائیوں کو برج سے نکلتے اور پھر غل مچاتے ہوئے بھاگتے دیکھا تو وہ سب ان کے پیچھے دوڑ پڑے-
جب کبھی بجلی چمکتی اور عیسائی پیچھے مڑ کر دیکھتے تو عقب میں مسلمانوں کو دیکھ کر اور شدت سے چلانے لگتے تھے - "
عیسائی گلا پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہے تھے -
وہ اپنی مدد کے لیے ان سپاہیوں کو بلا رہے تھے جو طوفان سے بچ کر بارکوں میں جا چھپے تھے -
بارکیں قلعہ کے اندر فصیل کے سامنے تهیں -
ان کی آوازوں نے تمام سپاہیوں کو بیدار کر دیا اور وہ صورت حال معلوم کرنے کے لیے بارکوں کے دروازہ میں آ آ کر جھانکنے لگے-
بارش اب بھی ہو رہی تھی مگر اب زرا اس کا زور کم ہو گیا تھا -
گویا بادلوں کا غصہ سرد پڑ گیا تھا -
ہوا بھی کم ہو گئی تھی مگر اندھیرا ابهی تک پھیلا ہوا تھا کہ کچھ دکھائی نہیں دیتا تھا-
عیسائی بارکوں میں سے جھانک رہے تھے لیکن ان کی جرات نہیں ہو رہی تھی کہ وہ بارکوں سے باہر نکل کر سپاہیوں کے چلانے کی وجہ معلوم کریں-
ایک مرتبہ بجلی چمکی تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے سپاہی زینہ سے بھاگ بھاگ کر نہایت بد حواسی سے آ رہے ہیں اور ان کے پیچھے مسلمان تلواریں لئے انہیں قتل کرتے ہوئے بڑھتے چلے آ رہے ہیں - "
یہ منظر دیکھ کر پہلے انہیں حیرت ہوئی اس بات پر کہ مسلمان کہاں سے اندر آئے ہیں اور پھر ان پر خوف نے غلبہ کر دیا اور وہ دوڑ کر ڈر کر بارکوں میں جا چھپے-
بعض بارکوں میں روشنی ہو رہی تھی خوف زدہ سپاہیوں نے جلدی جلدی روشنیاں گل کر دیں تاکہ مسلمان روشنی کو دیکھ کر ان کی بارکوں پر نہ آن چڑھیں-
فصیل کے اوپر سے جو عیسائی بھاگے تھے ان میں سے بہت سے آدمیوں کو مسلمانوں نے مار ڈالا تھا اور جو بچ رہے تھے وہ چلاتے ہوئے دوڑتے پھرتے تھے -
دراصل ان کی عقلیں جاتی رہی تھیں اور چلا چلا کر اپنی موت کو خود ہی بلا رہے تھے -
آخر نتیجہ یہ ہوا کہ وہ ایک ایک کر کے سب مارے گئے-
چونکہ اب آواز آنا بالکل بند ہو گئی تھی -
اس لیے مسلمانوں نے سمجھ لیا کہ وہ سب ختم ہو گئے -
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اب اگرچہ وہ قلعہ کے اندر داخل ہو ہو گئے تھے لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے انہیں نظر کچھ نہیں ہی اور نہیں سمجھتے تھے کہ قلعہ کے اندر شہر کس طرف ہے-
چھاؤنی کس سمت ہے اور صدر دروازہ کس جانب ہے وہ کھڑے تھے اور سوچ رہے تھے کہ اب کیا کریں اور کس طرف چلیں-
ابهی مغیث الرومی بھی نہ آئے تھے اور وہ ان کے لیے بھی منتظر تھے -
تهوڑی دیر میں مغیث الرومی بھی آ گئے اور انہوں نے آتے ہی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا -
تمام مسلمانوں نے مل کر اس پر ہیبت و جلال نعرہ کی تکرار کی-
اس نعرہ سے تمام قلعہ گونج اٹھا اور عیسائیوں سپاہیوں پر اور بھی خوف طاری ہو گیا -
اب مغیث الرومی ایک جانب چلے اور ان کے پیچھے لشکر چلا-
اتفاق سے ان کا رخ صدر دروازہ کی طرف ہو گیا -
اس وقت بارش بالکل بند ہو گئی تھی اور ہوا بھی رک گئی تھی -
بادل پهٹ گیا تھا نیز اندھیرا بھی دور ہونے لگا-
بڑھتے بڑھتے مغیث الرومی صدر دروازہ پر پہنچ گئے-
یہاں تقریباً پانچ سو سپاہی کمانچوں میں مسلح کھڑے تھے -
غالباً انہوں نے مسلمانوں کے نعرہ کی آواز سن لی تھی اور وہ یہ سمجھ کر کہ کہیں مسلمان اس دروازہ پر حملہ نہ کر دیں، پہلے ہی سے تیار کھڑے تھے -
وہ مسلمانوں کو دیکھتے ہی دروازے سے باہر نکل آئے اور صفیں باندھ لڑنے پر تیار ہو گئے مسلمانوں نے بھی ان کے سامنے ہی صفیں ترتیب دے لیں اور تلواریں نکال کر ان کی طرف بڑھے-
عیسائیوں نے ان کے بڑھتے ہی حملہ کر دیا -
مسلمانوں کو کہاں تاب تهی انہوں نے نے بھی حملہ کر دیا اور اس زور و شور سے حملہ کیا چشم زدن میں ان کی پہلی صف کاٹ کر ڈال دی اور اس کے بعد دوسری صف پر حملہ آور ہو گئے -
مسلمان رات بھر بھیگتے رہے تھے -
انہیں بڑا جوش اور غصہ آ رہا تھا اور وہ نہایت غضب ناک ہو ہو کر حملے کر رہے تھے -
عیسائی بھی جوش میں آ آ کر پیچ و تاب کھا کها کر حملے کر رہے تھے مگر ان کی تلواریں گویا کند ہو گئی تھیں کہ مسلمانوں پر ان پر کا کچھ اثر نہ ہوتا تھا-
ہاں مسلمانوں کی تلواریں برابر کاٹ کر رہی تھیں اور عیسائی کٹ کٹ کر گر رہے تھے -
تهوڑی ہی دیر میں میں تمام عیسائی مار ڈالے گئے -
جب میدان صاف ہو گیا تب ہو گیا تب چند مسلمانوں نے بڑهہ کر قفل توڑ کے پھاٹک کهول دیا-
باہر وہ پانچ سو مسلمان جنہیں مغیث الرومی نے دروازہ پر بهیجا تها گھوڑوں پر سوار ان مسلمانوں کے گھوڑے لئے جو فصیل پر چڑھ گئے تھے کھڑے تھے وہ دروازہ کھلتے ہی اندر داخل ہونا شروع ہو گئے-
اب صبح صادق کے آثار ظاہر ہونے لگے تھے اور اندھیرا دور ہو کر اجالا پھیلنے لگا تھا -
بادل چھٹ گئے تھے اور آسمان دهل کر نکھر آیا تھا، جس وقت یہ پانچ سو سوار قلعہ میں داخل ہو گئے تو فوراً ہی ان کے اندر چلنے کا ارادہ کیا-
ابهی چند وہ چند قدم ہی چلے تھے کہ قلعہ کے باہر اللہ اکبر کا پر زور نعرہ بلند ہوا-
مسلمان سمجھ گئے کہ ان کا تمام لشکر آ گیا ہے-
انہوں نے بھی اللہ اکبر کا نعرہ لگایا اور سارے لشکر کے آنے کا انتظار کرنے لگے-
چند ہی لمحوں میں مسلمانوں کا سیلاب قلعہ میں داخل ہوا اور ان کے آتے ہی مغیث الرومی آگے بڑھے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی