ایسے بُزدل سے ہے امداد کی امید ہمیں



ایسے بُزدل سے ہے امداد کی امید ہمیں
جس کو زنجیر کی جھنکار سے ڈر لگتا ہے

لوگ طوفان سے ڈرتے ہیں یہاں اور مجھے 
تیرے بھیگے ہوئے رخسار سے ڈر لگتا ہے

دیکھ کر باپ کے چہرے پہ ضعیفی کا اثر 
اب مجھے وقت کی رفتار سے ڈر لگتا ہے

میرےخوابوں کا کہیں تنگ نہ کردے گھیرا 
کاتبِ   وقت  کے  پرکار سے   ڈر   لگتا   ہے
 
زورِ بازو پہ ہڑپ لے جو غریبوں کے حَقوق
مجھ کو اس دور کے  زَردار سے ڈر لگتا ہے

دورِحاضرکی یہ سنگینی بیاں کیسے ہو
اب  گناہوں  کو گنہگار سے ڈر  لگتا  ہے

اُس قَبیلے میں بغاوت نہ ہو ممکن ہی نہیں 
جس کے  سردار  کو  تلوار سے  ڈر  لگتا  ہے

تنکےچُن چُن کےبنایا تھا جو خَوابوں کامحل
اُس کی  گِرتی  ہُوئی دیوار  سے  ڈر لگتا ہے

کب نکل آۓ کہیں سے کوئی فتویٰ لے کر 
واعظِ  شہر  کے  گفتار  سے   ڈر  لگتا  ہے

 بد حواسی کا یہ عالم ہے جہاں میں وانی !
اب  پرندوں کو بھی اشجار سے  ڈر  لگتا  ہے

شاعر: محسن وانی کاشمیری


 

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی