مطالعہ پاکستان کے ناقدین اجازت عطا فرمائیں تو تھوڑا سا مطالعہ ہندوستان ہو جائے؟
بی جے پی اور مودی تو بہت بعد کی بات ہے، ہم اپنا مطالعہ اس ہندوستان سے شروع کرتے ہیں جو ابولکلام آزاد ا ور باچا خان کے ممدوح کانگریسیوں کا ہندوستان تھا۔ احباب کی سادہ لوحی جسے سیکولر ہندوستان کے نام سے یاد کرتی ہے۔
اس سیکولر ہندوستان کی پارلیمان اپنا پہلا آئین بنانے بیٹھی۔ اب گائے تو ان کی ماتا تھی۔ لیکن بھارت ایک سیکولر ریاست تھی۔ یہ صرف ہندوئوں کی ریاست تھی نہیں۔ خود گاندھی جی متعدد دفعہ کہہ چکے تھے کہ چونکہ ہندوستان ہندو ملک نہیں ہو گا بلکہ سب کا ملک ہوگا اور سیکولر ہو گا اس لیے بھارت میں گائے کے ذبیحے پر پابندی کا سوال ہی نہیں پیدا نہیں ہوتا۔
اب جب آئین بننے لگا تو اس کے آرٹیکل48 میں گائو ماتا کے ذبیحے پر پابندی کی لگا دی گئی۔ لیکن یہ پابندی سیدھا یہ لکھ کر نہیں لگائی گئی کہ یہ ہندئوں کے عقیدے سے متعلق معاملہ ہے اس لیے ہم پابندی لگا رہے ہیں ۔ بلکہ لفظوں کی سیکولرانہ ہنر کاری کا سہارا لیا گیا ۔یہ معاملہ سمجھ لیا جائے تو بھارت کا سیکولرزم بھی سمجھا جا سکتا ہے۔
آرٹیکل 48 میں لکھا گیا کہ : ریاست زراعت اور مویشی پروری کو جدید اور سائنسی خطوط پر منظم کرنے کی کوشش کرے گی اور خاص طور پر نسلوں کے تحفظ اور بہتری کے لیے اقدامات کرے گی، اور گائے اور بچھڑوں اور دیگر دودھ دینے والے مویشیوں کے ذبیحے پر پابندی لگائے گی۔
اس پر ذرا غور فرمائیے۔ بظاہر مقصد یہ بیان کی جا رہاتھا کہ زراعت اور مویشی پروری کو جدید اور سائنسی خطوط پر منظم کرنا ہے۔ لیکن اس کی آڑ میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی کو آئینی تحفظ دیا جا رہا تھا۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہنے کو ایک سیکولر ریاست بنائی جا رہی تھی لیکن حقیقت میں یہ ایک ہندو ریاست تھی۔ ہندو شاونزم کے ہاتھوں یرغمال۔
بتایا یہ جا رہا تھا کہ مویشیوں کے تحفظ کی خاطر یہ پابندی لگائی جا رہی تھی لیکن مویشیوں میں سے نام صرف گائے کا لکھا گیا۔ بھینس ، بکری بھی دودھ دینے والے جانور ہیں۔ ان کا نام بھی لکھا جا سکتا تھا۔ لیکن بظاہر مویشیوں کے حقوق اور دودھ دینے والے جانوروں کے تحفظ کی آڑ میں نام لے کر پابندی صرف گائے کے ذبیحے پر لگائی جا رہی تھی۔ بالکل ایسے ہی جیسے کہنے کو تو یہ جمعیت علمائے ہند اور کانگریس ، سب کا ملک تھا لیکن عملا یہ صرف سنگھ پریوار کی ریاست تھی۔
گاندھی اور نہرو نے وعدے کیے تھے کہ ہندوستان میں سب کو ساتھ لے کر چلیں گے اور کوئی ایسا قانون نہیں بنے گا جو صرف ہندو مذہب کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہواور دیگر مذاہب کی حق تلفی کرتا ہو لیکن وعدے پامال کر دیے گئے اور گائو ماتا کا تقدس آئین میں شامل کر لیا گیا۔ بالکل ایسے ہی جیسے نہرو نے کشمیریوں سے حق خود ارادیت کا وعدہ کیا تھا مگر یہ وعدہ پامال کر دیا گیا۔
اس وقت سیکولر ہندوستان میں بیس ریاستوں میں گائو ماتا کے ذبیحے پر پابندی ہے اور بھارتی سپریم کورٹ بھی اس پابندی کی توثیق کر چکی ہے۔بالکل ایسے ہی جیسے بھارتی سپریم کورٹ نے مقبوضہ کشمیر کا خصوصی تشخص ختم کرنے کا اقدام جائزز قرار دیا تھا حالانکہ یہ بین الاقوامی قانون سے صریح متصادم تھا۔
یہی نہیں بلکہ مبینہ سیکولر بھارت کا آئین سکھوں کو الگ مذہب ماننے ہی سے انکاری ہے۔ مودی تو بہت بعد کی بات ہے، ’ہندتوا‘ پر تو بھارت کی پہلی دستور ساز اسمبلی نے ہی کام شروع کر دیا تھا۔
بھارتی آئین کے آرٹیکل 25 میں سکھ مذہب کو الگ مذہب ماننے کی بجائے ہندو مذہب قرار دیا گیا ہے۔ اس آرٹیکل کی کلاز ’بی‘ میں ہندوئوں، ہندوئوں کے طبقات اور ہندوئوں کے مذہبی اداروں کی بات کی گئی ہے اور ان اصطلاحات کی وضاحت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جب لفظ ہندو استعمال کیا جائے گا تو اس میں جین، بدھ مت اور سکھ سب شامل ہوں گے اور جب ہندوئوں کے مذہبی اداروں کی بات ہو گی تو اس میں ان سب کی عبادت گاہیں بھی شامل ہوں گی۔ یعنی آئینی طور پر بدھ مت، جین مت اور سکھ مذہب کے ماننے والوں کو ہندو قرار دے دیا گیا۔
یہ گویا پہلے دن سے بھارتی ریاست کو ’ہندوائز‘ کرنے کی ایک کوشش تھی جو بھارت کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے ہاتھوں انجام پائی۔ یہ دنیا کی تاریخ کا انوکھا سیکولرزم تھا کہ کھڑے کھڑے تین مذاہب کو ’ہندو‘ بنا دیا گیا۔
سردار حکم سنگھ اور سردار بھوپندر سنگھ مان نے اس آرٹیکل پر اعتراض کیا کہ ہما را ایک الگ مذہب ہے، ہم سکھ ہیں۔ہمیں آپ ہندو کیسے قرار دے سکتے ہیں لیکن ان کی بات کسی نے نہ سنی۔ چنانچہ ان دونوں نے بھارت کے آئین پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔
سکھوں نے البتہ اتنا ضرور کیا کہ احتجاج کیا۔ ابولکلام آزاد صاحب کی طرح گائو ماتا کے تقدس کو قبول کر کے خاموشی اختیار نہیں کی۔
سردار حکم سنگھ کوئی جذباتی رہنما نہ تھے۔ وہ بھارت کی اس دستور ساز اسمبلی کی اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے۔ وہ تین دفعہ لوک سبھا کے رکن رہے، ڈپٹی سپیکر رہے، سپیکر رہے، راجستھان کے گورنر کے منصب پر فائز رہے۔ سپوکس مین کے ایڈیٹر رہے اور ’دی سکھ کاز‘ اور ’دی پرابلمز آف سکھز‘ جیسی کتابوں کے مصنف تھے۔ ان کا موقف تھا کہ یہ متفقہ آئین نہیں تھا اور یہ سکھوں پر زبردستی ٹھونسا گیا تھا۔
ا
قلیتوں کی شناخت کا معاملہ بھارتی سپریم کورٹ تک پہنچ گیا۔ جس بنچ نے اس کیس کی سماعت کی اس کی سربراہی چیف جسٹس کر رہے تھے۔ بھارتی سیکولرزم کی تشریح میں اور ہندتوا کی زلفوں کی آرائش میں اگر کوئی کمی رہ گئی تھی تو وہ اس بنچ نے 2005 ء میں اپنے فیصلے میں پوری کر دی۔
اس فیصلے میں بھارتی سپریم کورٹ ایک عدالت کم اور سنگھ پریوار کا ذیلی ادارہ زیادہ لگ رہی تھی۔ عدالت نے طنز اور تضحیک سے کام لیتے ہوئے سکھوں، بدھ مت اور جین مذہب کے ماننے والوں کو نام نہاد اقلیت قرار دے دیا۔ عدالت نے ’’نام نہاد اقلیت‘‘ کی اصطلاح باقاعدہ اپنے فیصلے میں استعمال کی۔ نفرت اور تضحیک کی یہ انتہاء گویا اس بات کا اعلان تھا کہ بھارتی سپریم کورٹ بھی سنگھ پریوار کا حصہ ہی سمجھی جائے۔
اس نکتہ آفرینی کے بعد عدالت نے ابولکلام آزاد صاحب کی بصیرت کی آرتی اتارنے کے بعد ہندو کی ایک نئی تعریف بھی فرما دی۔ فرمایا ہندو تو اصل میں بھارت میں رہنے والی مختلف کمیونٹی کے لوگوں کی مجموعی تصویر کا نام ہے۔یعنی سپریم کورٹ کی اس شرح کے مطابق ابولکلام صاحب بھی ہندو قررا پائے۔ جن کے سردار پٹیل سے خوف اور احتیاط کا عالم ان کی آپ بیتی میں چیخ چیخ کر حقیقت حال بیان کر رہا ہے۔
دیکھیے ابھی مطالہ ہندوستان شروع ہی ہوا تھا کہ کالم مکمل ہو گیا۔
ناقدین مطالعہ پاکستان کیا فرماتے ہیں بیچ اس مسئلے کے ، مطالعہ ہندوستان پر مزید لکھا جائے؟ نیز یہ کہ اتنا کافی ہے یا قوم پرست سیاست اور افغانستان کا مطالعہ بھی فرما لیا جائے؟
✍️ آصف محمود | ترکش | روزنامہ 92 نیوز
زمرے
حالاتِ حاضرہ