اگست 2019
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➊➎】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
، ادھر مسلمان خواتین پر کوئی ماتمی کیفیت طاری نہیں تھی انہیں ہر زخمی کو سنبھالنا تھا ہر زخمی ان کا بھائی بھی تھا بیٹا بھی، ایسا ہرگز نہیں ہوتا تھا کہ یہ عورت پہلے اپنے عزیزوں کو تلاش کرتیں، اس موقع پر ایک واقعہ ہوگیا ایسے واقعات عام طور پر نہیں ہوا کرتے تھے، ہوا یہ کہ تین چار مسلمان خواتین لاشوں اور زخمیوں میں اپنے مجاہدین کو ڈھونڈ رہی تھیں ان میں سے ایک خاتون ذرا الگ ہو گئی اور اسے ایک زخمی مجاہد نظر آیا اس نے مشعل کی روشنی میں دیکھا کہ وہ زندہ تھا اور اٹھنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے کپڑے خون سے لال ہو گئے تھے اور نہ جانے اسے کہاں کہاں زخم آئے تھے ،وہاں تو لاشوں پر لاشیں پڑی تھی اور ایسا بھی ہوا کہ کوئی زخمی چار پانچ لاشوں کے نیچے پڑا کچھ دیر زندہ رہا اور اتنے زیادہ وزن سے مرگیا۔ اس زخمی مجاہد کے بالکل قریب چار پانچ رومیوں کی لاشیں پڑی تھی مسلمان خاتون اپنے زخمی مجاہد کو سہارا دے کر اٹھانے کی کوشش کر رہی تھی، مجاہد نے اس سے پانی مانگا ، ہر عورت کے پاس پانی کا چھوٹا سا مشکیزہ تھا یہ خاتون اسے پانی پلانے لگی تو بالکل قریب ہی ایک مصری عورت جھکی جھکی آئی ایک لاش کو دیکھنے لگی اس نے چیختے چلاتے ہوئے کہا یہ ہے میرا بیٹا ،لیکن اس کا بیٹا مر چکا تھا ،اس نے ادھر دیکھا کہ ایک مسلمان خاتون ایک زخمی مجاہد کو مشکیزے سے پانی پلا رہی ہے ،مصری عورت نے وہاں سے ایک تلوار اٹھا لی، وہاں برچھیوں اور تلواروں کی کوئی کمی نہیں تھی، ادھر مسلمان خاتون زخمی مجاہد کو بٹھائے اسے پانی پلا رہی تھی اور اس کی توجہ کسی اور طرف تھی ہی نہیں اس کی ایک ہی خواہش اور کوشش تھی کہ اس زخمی مجاہد کو زندہ رکھنا ہے، اچانک مصری عورت دوڑ کر تلوار اس مجاہد کے پہلو میں برچھی کی طرح گونپ دی۔
اسی نے میرے بیٹے کو قتل کیا ہے،،،،،، اس مصری عورت نے چلاتے ہوئے کہا ۔۔۔اور تلوار کھینچ کر ایک بار پھر مجاہد کے پہلو میں اتار دی اور بولی یہی میرے بیٹے کا قاتل ہے۔
مجاہد کا سر ایک طرف ڈھلک گیا اسے تو ایک خاتون زندہ رکھنے کی کوشش کر رہی تھی لیکن اس مصری عورت نے اس کی کوشش کامیاب نہ ہونے دی اور مجاہد نے اس خاتون کی گود میں جان دے دی ۔یہ خاتون اٹھ کھڑی ہوئی اس نے مشکیزہ پھینک دیا اس کے ایک ہاتھ میں جلتی ہوئی مشعال تھی اس نے مصری عورت کے منہ کے ساتھ لگادی، مصری عورت چیخنے چلانے لگی اس کا منہ جل گیا تھا اب مسلمان خاتون نے مشعال اس کے کپڑوں کے ساتھ لگا دی اور اس کے کپڑے جل اٹھے اب تو وہ ناچ کود اور چیخ چلا رہی تھی ۔
کچھ رومی سپاہی اور غالباً شہر کے ایک دو آدمی دوڑے آئے، مسلمان خاتون نے کہا کہ اس نے ایک زخمی مجاہد کو تلوار سے مار ڈالا ہے ۔رومیوں نے تلواریں نکال لیں۔وہاں زیادہ تر مسلمان مستورات تھیں ان سب نے تلواریں اوربرچھیاں اٹھالیں اور رومی مردوں کو للکار کر کہا کہ وہ اپنے مردوں کو نہیں بلائیں گی اور سب کو کاٹ پھینکے گی۔ ادھر سے وہ مجاہدین آگئے جو لاشوں اور زخمیوں کو ہی ڈھونڈتے پھر رہے تھے، مصری عورت کے جلتے ہوئے کپڑوں نے اسے جلا ڈالا اور وہ ابھی تک چیخ رہی تھی اور اس کے اپنے آدمی اس کے قریب نہیں جارہے تھے۔ مجاہدین دوڑے آئے تو رومی اور مصری وہاں سے کھسکنے لگے ایک مسلمان عورت نے بلند آواز سے اپنے مجاہدین سے کہا کہ وہ چلے جائیں ان آدمیوں کے لئے وہ خود ہی کافی ہیں۔ مجاہدین کو دیکھ کر رومی شش و پنج میں پڑ گئے ،ان کی اور مسلمان خواتین آپہنچیں کسی کے ہاتھ میں تلوار اور کسی کے ہاتھ میں برچھی تھی ، یہ ایک دہشت تھی جو رومیوں پر پہلے ہی طاری تھی اس دہشت نے رومیوں کو اور دوسرے آدمیوں کو جو قلعے سے باہر آئے تھے وہاں سے کھسک جانے پر مجبور کر دیا اور خون خرابہ ہوتے ہوتے رہ گیا۔تقریبا تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ اس روز کی لڑائی میں رومیوں کا پلہ بھاری رہا یہ اس لحاظ سے کہ جانی نقصان مجاہدین کا زیادہ ہوا اور وہ کوئی کامیابی حاصل نہ کر سکے۔وہ تو اس قلعہ بند شہر کو محاصرے میں لینے آئے تھے لیکن وہاں محاصرہ ممکن نظر نہیں آتا تھا ۔جرنیل تھیوڈور اپنا یہ عہد پورا کر رہا تھا کہ وہ عرب کے ان قلیل تعداد مسلمانوں کے آگے دیوار کھڑی کر دے گا اور انہیں اس قابل نہیں چھوڑے گا کہ وہ اسکندریہ کی طرف پیش قدمی کریں۔
محمد حسنین ہیکل نے کچھ مؤرخوں کے حوالے سے لکھا ہے کہ رومی فوج میں پہلی بار دیکھا گیا کہ فوجیوں نے ذاتی شجاعت کے کارنامے کر دکھائے صاف پتہ چلتا تھا کہ رومیوں نے مسلمانوں کی وہ دہشت جھٹک ڈالی ہے جو ان پر ہر وقت طاری رہتی تھی۔تاریخ میں یہ اشارہ ملتا ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص نے صاف الفاظ میں تسلیم کیا کہ وہ شجاعت جس کی بدولت رومی فوج کی دھاک بیٹھی رہتی تھی وہ انہوں نے رومیوں میں پہلی بار دیکھی ہے ۔سپہ سالار نے اپنے سالاروں اور ان کے ماتحتوں کو بلا کر کہا کہ اب ہمارا مقابلہ اصل رومیوں کے ساتھ ہے اور اب ہمیں اس سے زیادہ شجاعت کی ضرورت ہے ۔مجاہدین اسلام کے ہاں شجاعت کی تو کمی نہیں تھی اور ان کے حوصلے میں بھی کمی نہیں آئی تھی لیکن پہلی بار دیکھنے میں آیا کہ رومی اپنی جنگ جوئی کی ان روایات کو زندہ رکھ رہے تھے جن کی بدولت وہ دنیا بھر کی بہت بڑی طاقت مانے جاتے تھے، اور تاریخ میں انہوں نے نام پیدا کیا تھا۔
اگر صرف میدان جنگ ہوتا تو مجاہدین اتنی قلیل تعداد میں ہوتے ہوئے بھی فتح کی توقع رکھ سکتے تھے لیکن ان کے خلاف دوسرے محاذ بھی کھل رہے تھے ۔
سپہ سالار عمرو بن عاص زیرزمین محاذوں سے بے خبر تو نہیں تھے لیکن پوری طرح باخبر بھی نہیں تھے ۔ان کا جاسوسی کا نظام انہیں صحیح رپورٹ دے رہا تھا لیکن رومیوں کی سرگرمیاں اس قدر پس پردہ تھی کہ ان کی سو فیصد صحیح رپورٹ نہیں ملتی تھی۔ سب سے بڑا خطرہ جو سپہ سالار اور دیگر سالار محسوس کر رہے تھے وہ رسد کے متعلق تھا ۔ رومیوں کا تو وہ اپنا ملک تھا اس لئے انہیں رسد کی کوئی کمی نہیں تھی۔ مسلمانوں کے لئے تو وہ زمین بھی دشمن تھی رسد اور خوراک وغیرہ کسی بھی وقت اور کسی بھی جگہ رک سکتی تھی۔
پہلے یہ بیان ہو چکا ہے کہ رسد کی فراہمی مصری بدوؤں نے اپنے ذمے لے رکھی تھی اور انہوں نے کبھی بھی رسد میں کمی نہیں آنے دی تھی۔ اب انھیں کہنے کی ضرورت پڑتی ہی نہیں تھی کہ رسد کا بندوبست کریں وہ خود خیال رکھتے تھے اور اس میں کمی نہیں آنے دیتے تھے۔
ان بدوؤں کی زیادہ تعداد ایسی تھی جو لشکر میں شامل ہو گئی تھی اور باقاعدہ لڑتی تھی۔ رسد کی فراہمی کے لئے بدوؤں کی دو تین جماعت بنا دی گئی تھی اور ان کے ذمے یہی کام تھا ،ان کے مختلف قبیلوں کے سردار بھی ان کے ساتھ تھے ان سرداروں میں سے دوچار کو رسد کے کام کی نگرانی اور فراہمی پر لگا دیا گیا تھا۔
بدو اردگرد کے دیہات میں جاکر اناج مویشی اور دیگر اشیاء حاصل کرتے تھے ان کا طریقہ لوٹ مار جیسا نہیں تھا کسی بھی گاؤں جاکر لوگوں سے کہتے تھے کہ وہ خود ہی اناج باہر نکال دیں اور اپنے مویشی بھی دے دیں، پھر ان دیہاتوں کو یقین دلایا جاتا تھا کہ مسلمانوں کا لشکر کسی گاؤں میں لوٹ مار کرنے نہیں آئے گا، اور جب مسلمان فتح مکمل کرلیں گے تو اس رسد کی اصل قیمت سے زیادہ قیمت ادا کریں گے۔
لوگ جانتے تھے کہ انہوں نے رس دینے سے انکار کردیا تو یہ حملہ کرکے زبردستی اناج وغیرہ لے جائیں گے، اور اگر وہ گھروں میں داخل ہوئے تو پھر انہیں کسی اور نازیبا حرکت سے بھی نہیں روکا جاسکے گا ،وہ رسد فراہم کر دیتے تھے، اور اپنے وہ مویشی بھی دے دیتے تھے جو ان کی ضرورت سے کچھ زیادہ تھے، ان سے زیادہ تر بھیڑ بکریاں لی جاتی تھی ان مویشیوں اور بھیڑ بکریوں کا گوشت لشکر کو کھلایا جاتا تھا۔
ان بدوؤں ان کے سرداروں اور رسد کا ذکر اس لیے آیا ہے کہ ان سے ایک ایسا زمین دوز محاز سامنے آتا ہے جو رومیوں نے مجاہدین کے خلاف قائم کیا تھا اور اس پر سرگرم ہوگئے تھے، مختلف تاریخوں میں اس ایک واقعے کی کچھ واضح اور کچھ ڈھکی چھپی سی کڑیاں ملتی ہیں،،،،،، بدوؤں کی جو جماعت رسد فراہم کرتی تھی ان میں سے ایک جماعت کا سربراہ کسی بدو قبیلے کا سردار اسطافت تھا اسکی عمر جوانی کے آخری دنوں تک پہنچ گئی تھی، اور وہ بڑا ہی خوبرو آدمی تھا چہرے پر شباب تھا وہ دراز قد آدمی تھا اور جسم متناسب اور پرکشش۔
جب کریون کی لڑائی شروع ہوئی تو مجاہدین کے لشکر میں رسد کی کچھ کمی محسوس ہوئی رسد اکٹھی کرنے والے بدو دیہاتی علاقے میں چلے گئے کریون سے تین ساڑھے تین میل دور ایک بڑا گاؤں تھا اسطافت اپنی جماعت کو جس میں پچاس کے قریب بدو تھے اس گاؤں میں لے گیا اپنے دستور اور انداز کے مطابق اسطافت نے گاؤں میں جا کر گاؤں کے بڑوں کو بلایا اور انہیں بتایا کہ اناج اور مویشیوں کی ضرورت ہے اور وہ یہ چیزیں خود ہی گاؤں کے باہر رکھ دیں، اس تاثر کو اور اس کی جماعت کو اب تک اچھا خاصا تجربہ ہو چکا تھا اس نے بڑوں کو قائل کر لیا کہ وہ اپنے آپ ہی رسد دے دیں بڑوں نے سارے گاؤں کو اکٹھا کیا اور انہیں بتایا کہ رسد دینی ہی پڑے گی ورنہ مسلمان آ کر زبردستی اناج وغیرہ لے جائیں گے، مختصر یہ کہ لوگ رسد دینے لگے۔ گھوڑا گاڑیاں اور اونٹ بدؤوں کے ساتھ تھے سارا سامان ان پر لادا جانے لگا۔
بدؤوں کا سردار اسطافت نگرانی کر رہا تھا گاؤں کا ایک بزرگ صورت معمر آدمی آہستہ آہستہ چلتا اسطافت کے پاس آ رکا اور بڑے تپاک سے اس کے ساتھ ہاتھ ملایا ، یہ بوڑھا آدمی لباس چہرے مہرے اور انداز سے اس گاؤں کا کوئی سرکردہ فرد معلوم ہوتا تھا اس نے اسطافت کے ساتھ دوستانہ بے تکلفی سے باتیں شروع کر دیں اس کا لب و لہجہ مشفقانہ تھا ،اس نے قدرے اطمینان کا اظہار کیا کہ اس کا گاؤں مسلمانوں کو رسد دے رہا ہے، اس کے جواب میں اسطافت نے بھی دوستانہ بے تکلفی کا اظہار کیا اور اس بزرگ کے ساتھ احترام سے بات کی۔
تم تو بہت ہی خوبرو جوان ہو۔۔۔ بزرگ نے کہا۔۔۔ تم سا خوبرو جوان کبھی کبھی نظر آتا ہے تجھے دیکھ کر کنواریوں کے دل دھک دھک کرنے لگتے ہیں۔
اپنی تعریف سن کر آپے سے باہر ہو جانا انسان کی ایسی کمزوری ہے جو انسانیت کی ابتدا ہی سے ساتھ ساتھ چلی آرہی ہے۔
اسطافت محض ایک سردار تھا اس کی عقل اور شخصیت میں اتنی پختگی نہیں تھی کہ وہ اس بوڑھے کی زبان سے اپنی تعریف سن کر متاثر نہ ہوتا یہ بوڑھا کوئی جہاندیدہ آدمی تھا اس نے اسطافت کی کچھ اور ہی تعریفیں کر ڈالی اور اس کو برتری کے احساس میں مبتلا کر دیا۔
تم ان لوگوں کے سردار معلوم ہوتے ہو۔۔۔ بزرگ نے کہا۔۔۔ یہ تو سب کچھ گاڑیوں اور اونٹوں پر لادکر لے جا رہے ہیں شام ہونے کو ہے کیا تم میری یہ خواہش پوری نہیں کر سکو گے کہ آج شام کا کھانا میرے ساتھ کھاؤ؟ اسطافت نے اس کی دعوت بخوشی قبول کرلی ،اس کا کام رسد فراہم کرنا تھا جو اس نے کر دی تھی، اور رسد جا رہی تھی، اب لشکر میں اس کی ضرورت نہیں تھی وہ لڑنے لڑانے کی ذمہ داریوں سے آزاد تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسطافت جب اس بوڑھے کے گھر میں داخل ہوا تو اسے صحیح اندازہ ہوا کہ یہ تو بڑی ہی اونچی حیثیت کا آدمی ہے، اسے جس کمرے میں بٹھایا گیا اس کمرے کی شان شاہانہ تھی فرش پر دری اور دری پر نرم وگداز گدا بچھا ہوا تھا، اسطافت کو اس گدے پر بٹھایا گیا پیچھے گول تکیے رکھے ہوئے تھے۔
بزرگ نے اسطافت سے کہا کہ وہ مسلمان نہ ہوتا تو اسے اس علاقے کی بہترین شراب پیش کی جاتی ۔
میں عیسائی ہوں میرے محترم میزبان!،،،،،، اسطافت نے کہا۔۔۔ میں نے اسلام قبول نہیں کیا ہم نے شاہ ہرقل کی بادشاہی کے مقابلے میں مسلمانوں کو بہت اچھا پایا اس لئے ان کے ساتھ ہو گئے ہمیں مال غنیمت کا پورا حصہ ملتا ہے اور مسلمان ہمیں اپنے بھائیوں جیسا رکھتے ہیں۔
اس کی بات ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ اس بزرگ کی عمر کا ایک اور بزرگ آدمی آ گیا۔ میزبان یہ کہہ کر اٹھ کھڑا ہوا کہ یہ ہمارے نئے پادری ہیں اور کچھ ہی دن پہلے بزنطیہ سے آئے ہیں، یہ تعارف سنتے ہی اسطافت بھی اٹھا اور پادری سے بڑے احترام سے ملا۔ میزبان نے پادری کو بتایا کہ اسطافت عیسائی ہے اور اس نے اسلام قبول نہیں کیا۔ پادری نے ایسی باتیں شروع کردیں جس سے یہ ظاہر ہوتا تھا کہ یہ اس کی خوش قسمتی ہے کہ اسے اسطافت جیسا خوبرو جوان مل گیا ہے، جو اپنے مذہب پر بھی قائم ہے ،ایسی کچھ باتیں میزبان بزرگ نے بھی کی اور اسطافت اپنے آپ کو بہت ہی اونچے درجے کا آدمی سمجھنے لگا ۔ اتنے میں ایک نوخیز لڑکی ایک ٹرے اٹھائے ہوئے کمرے میں داخل ہوئی، ٹرے میں ایک خوشنما صراحی تھی اور اس کے ساتھ تین پیالے تھے لڑکی بہت ہی حسین اور نوجوان تھی وہ جب کمرے میں داخل ہوئی تو اسطافت کو دیکھ کر ٹھٹھک گئی اور اس کا آگے بڑھا ہوا قدم پیچھے ہٹ گیا جیسے وہ اسطافت کو دیکھ کر حیرت زدہ ہوگئی ہو۔
آجاؤ کرسٹی تم تو گھبرا گئی۔۔۔۔ میزبان بزرگ نے پیار سے کہا۔۔۔ یہ اپنے ہی آدمی ہیں، اپنے قبیلے کے سردار ہیں ، ہیں تو مسلمانوں کے ساتھ لیکن بڑے پکے عیسائی ہیں۔
کرسٹی نے اچٹتی ہوئی ایک نگاہ اسطافت پر ڈالی اور آگے بڑھ کر ٹرے میزبان بزرگ کے آگے رکھ دی وہ اب اسطافت سے نظر ملانے سے گھبرا اور شرما رہی تھی، اس نے سر جھکائے ہوئے صراحی میں سے تھوڑی تھوڑی شراب تینوں پیالوں میں ڈالی اور بچوں کی طرح تیزی سے اٹھی اور دوڑتی ہوئی کمرے سے نکل گئ۔
میری یہ بیٹی بہت شرمیلی ہے۔۔۔ میزبان بزرگ نے کہا۔۔۔۔ گھر سے باہر تو کسی غیر آدمی کے ساتھ بات بھی نہیں کرتی۔
اتنے میں دو ملازم آئے اور انہوں نے ان کے آگے کھانا رکھنا شروع کر دیا ۔اسطافت کھانے کو دیکھ دیکھ کر حیران ہو رہا تھا یہ تو شاہی دستر خوان تھا کھانا چنا جا چکا تو یہ تینوں کھانا کھانے لگے ۔میزبان بزرگ اور پادری کچھ نہ کچھ بول رہے تھے لیکن اسطافت کی نگاھیں بار بار اس دروازے کی طرف اٹھتی اور وہیں رک جاتی تھی، جس دروازے سے کرسٹی اندر آئی اور دوڑتی باہر چلی گئی تھی۔ اس کی نظریں ایک بار پھر کھانے سے اٹھ کر دروازے پر چلی گئی دروازے کے ساتھ ہی دوسری دیوار میں کھڑکی تھی۔ کھڑکی کا ایک کواڑ ذرا سا کھلا ہوا تھا ۔اسطافت نے دیکھا کہ اسے کرسٹی کا آدھے سے کچھ کم چہرہ نظر آ رہا ہے، ایک آنکھ اور ایک طرف کا آدھا گال، اور آدھے ہونٹ دکھائی دے رہے تھے، یہ ہونٹ ہلکی سی مسکراہٹ سے کھلے ہوئے تھے، چہرہ نئے چاند کی طرح نظر آتا تھا، کوئی شک نہ رہ گیا کہ کرسٹی اسطافت کو دیکھ رہی تھی اور اس کے ہونٹوں پر جو مسکراہٹ تھی وہ صاف بتاتی تھی کہ جس طرح اسطافت کرسٹی کو ایک بار پھر دیکھنے کو بے تاب تھا اسی طرح کرسٹی بھی اسطافت کو اچھی طرح دیکھنے کو بے تاب تھی ۔ اتنی حسین اور پرکشش لڑکی کے آدھے چہرے کو دیکھ کر اسطافت بے کل اور بے قرار ہوگیا ۔ وہ اس معصوم اور حسین چہرے کو اور کرسٹی کے سروقامت سراپا کو اپنے سامنے اور قریب دیکھنے کو تڑپنے لگا، کچھ دیر بعد یہ ذرا سا چہرہ بھی وہاں سے ہٹ گیا جیسے نئے چاند کو گھٹا نے نگل لیا ہو۔ میں اپنی بیٹی کو چھپا چھپا کر رکھتا ہوں۔۔۔۔ میزبان بزرگ نے کہا۔
کیوں؟،،،،اسطافت نے پوچھا۔۔۔ کس کی طرف سے آپ کو خطرہ ہے مجھے بتائیں میں اسے دنیا کے تختے سے اٹھا دوں گا۔
مسلمانوں کے ڈر سے۔۔۔ بزرگ نے جواب دیا۔۔۔ کرسٹی پر کسی مسلمان کی نظر پڑ گئی تو پھر میری یہ بیٹی مجھے باقی عمر نظر نہیں آئے گی، سنا ہے مسلمان سپاہی کرسٹی جیسی کسی لڑکی کو دیکھتے ہیں تو اسے اٹھا کر لے جاتے ہیں اور اپنے کسی سالار کو بطور تحفہ پیش کرتے ہیں۔
آپ نے غلط سنا ہے محترم بزرگ!،،،،، اسطافت نے کہا۔۔۔ مسلمانوں کے مذہب میں بھی ایسی اجازت نہیں، اور مسلمانوں کا ذاتی اخلاق بھی ایسا ہے کہ وہ کسی لڑکی کی طرف دیکھتے ہی نہیں، میں اس وقت سے ان کے ساتھ ہوں جب انہوں نے فرما شہر فتح کیا تھا، میں نے کبھی کسی سالار کے ساتھ کوئی لڑکی نہیں دیکھی نہ ہی کسی مسلمان سپاہی کو کہیں سے لڑکی لاتے اور کسی سالار کو پیش کرتے دیکھا ہے۔
میزبان بزرگ اور پادری ہنس پڑے ان کی اس ہلکی سی ہنسی میں طنز تھا۔
تم نہیں جانتے ہمارے معزز مہمان !،،،،پادری نے کہا ۔۔۔تمہارے دل میں مسلمانوں کا احترام بھی ہے اور ان کی محبت بھی،،،،،، یہ کوئی بری بات نہیں ہم صرف یہ سوچ کر تمہارے ساتھ یہ قصہ چھیڑ بیٹھے ہیں کہ تم عیسائی ہو اور اب تک بہت سی عیسائی لڑکیاں مسلمانوں کے قبضے میں جا چکی ہیں۔ تمہیں کسی سالار کے پاس کوئی عیسائی لڑکی اس لیے نظر نہیں آئی کہ یہ کرسٹی جیسی معصوم لڑکیوں کو مدینہ بھیج دیتے ہیں۔ تم مصری بدوّ گھر سے دور ہو اور کچھ عرصے سے گھروں کو نہیں گئے جب کبھی واپس جاؤ گے تو تمہیں پتہ چلے گا کہ تمہاری کتنی لڑکیاں مدینہ پہنچ چکی ہیں۔
میں اتنا ضرور مانتا ہوں ۔۔۔میزبان بزرگ بولا۔۔۔ کہ مسلمان دوسری فاتح قوموں جیسے نہیں۔ دوسرے فاتحین تو کوئی شہر فتح کرتے ہیں وہاں کی عورتوں پر ٹوٹ پڑتے ہیں ۔لیکن مسلمان ایسا نہیں کرتے وہ مفتوحین کی عزت و آبرو اور جان و مال کے محافظ بن جاتے ہیں لیکن درپردہ کسی حسین دوشیزہ کو دیکھ کر اٹھوا لیتے ہیں۔
مسلمان پہلے اپنے اچھے اخلاق کا اثر ڈالتے ہیں۔۔۔ پادری نے کہا۔۔۔ جب ان کا قبضہ مکمل ہو جاتا ہے تو مفتوحہ لوگوں کو اپنا غلام بنا لیتے ہیں ۔میں ملک شام میں دیکھ آیا ہوں، وہاں کے عیسائی رومیوں کو اور ہراقل کو اب یاد کرتے ہیں، جن عیسائیوں نے مسلمانوں کی مدد کی تھی اب جاکر ان کی حالت زار دیکھو جو مسلمانوں نے کر دی ہے۔
اسطافت حیرت زدگی کے عالم میں ان دونوں معزز بوڑھوں کے چہروں پر نظر گاڑے ہوئے تھا ،اس نے مسلمانوں کے کردار کا ایک ہی روپ دیکھا تھا اور اسے یقین تھا کہ مسلمانوں کے کردار کا اصلی روپ یہی ہے، اس نے کبھی کوئی قابل اعتراض حرکت نہیں دیکھی تھی۔ اس کے چہرے پر حیرت کے جو تاثرات تھے ان میں پریشانی اور تذبذب کی جھلک تھی، وہ مسلمانوں کے کردار کے خلاف کوئی بات ماننے پر اپنے آپ کو آمادہ نہیں کرنا چاہتا تھا ۔لیکن اپنے پادری اور میزبان کو بھی نہیں جھٹلا سکتا تھا ۔ان دونوں کے بولنے کا انداز ایسا تھا جس میں سچائی کی جھلک پوری طرح نمایاں تھی، دونوں بوڑھے باری باری مجاہدین اسلام کے خلاف زہر اگلتے رہے۔
مجھے یہ بتائیں میں کیا کر سکتا ہوں۔۔۔ اسطافت نے ایسے لہجے میں کہا جیسے وہ یہ بات کہنا نہیں چاہتا تھا کہنے لگا۔۔۔ کیا میں مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دوں۔
تم ان کا ساتھ چھوڑ دو تو کوئی فرق نہیں پڑے گا ۔۔۔پادری نے کہا۔۔۔ اگر تمہارے دل میں عیسائیت کا احترام اور عیسائیوں کی محبت ہے تو تم بہت کچھ کرسکتے ہو، یہ سوچ لو کہ مسلمانوں نے اگر اسکندریہ بھی فتح کرلیا اور پورا مصر ان کے ہاتھ آگیا تو پھر شام کی طرح اس ملک میں بھی کوئی ایک بھی گرجا کھڑا نہیں رہے گا ،پادریوں کو قتل کر دیا جائے گا، تم اپنے پورے قبیلے سے کہو گے کہ وہ مسلمانوں کے لشکر سے نکل جائیں گے، لیکن یہ بھی کافی نہیں، تمہارے ساتھ دوسرے قبیلوں کے سردار بھی ہیں ۔ انہیں یہ ساری باتیں بتاؤ اور انہیں آمادہ کرو کہ وہ اپنے قبیلوں کو یہاں سے واپس اپنے گھروں میں لے جائیں پھر انہیں یہ بتائیں کہ تمہارے لیے صرف رومی اچھے ہمدرد اور مخلص ہیں ۔
میں یہ بھی کافی نہیں سمجھتا۔۔۔ میزبان بوڑھے نے کہا ۔۔۔یہ لوگ مسلمانوں کے لشکر کے ساتھ ہی رہیں اور ان کی لڑائی لڑنے کے بجائے انہیں دھوکہ دیں اور انہیں نقصان پہنچائیں ۔
یہ کیسے ہوسکتا ہے؟۔۔۔ اسطافت نے پوچھا۔
میں یہ بھی بتاتا ہوں کہ تمہارے قبیلے کیا کریں گے۔۔۔ میزبان نے کہا ۔۔۔مسلمان کسی شہر کو محاصرے میں لیے ہوئے ہوں یا رومیوں کے ساتھ کہیں کھلے میدان میں لڑائی ہورہی ہو تو بدوّ مسلمانوں کی پیٹھ پر وار کریں اور ان میں سے کسی کو زندہ نہ رہنے دیں، اگر میری یہ تجویز اچھی لگے تو کل سے ہی اپنے سرداروں کو اس کے لیے تیار کرنا شروع کردو، تم دیکھو گے کہ مسلمان کریون کو فتح کئے بغیر اس شہر کی دیواروں کے باہر ہی مردے پڑے ہونگے یا اپنی عورتوں کو بھی یہیں چھوڑ کر بھاگ جائیں گے۔
صرف تمہارے بدو ہی نہیں یہاں تو بےشمار قبطی عیسائی بھی مسلمانوں کی مدد کررہے ہیں ،یہ بہت بڑا گناہ ہے جو خدا بخشے گا نہیں اور عیسائیوں کو عبرتناک سزا ملے گی۔
میرے محترم بزرگ !،،،،اسطافت نے کہا۔۔۔ آپ غالبا بھول گئے ہیں کہ یہاں کے قبطی مسلمانوں کی مدد کو کیوں آگے آگئے ہیں ، کیا آپ قبطیوں کا قتل عام بھول گئے ہیں، جو شاہ ہرقل اور اسقف اعظم قیرس نے کیا تھا، اصل اسقف اعظم بنیامین ہے جو آج تک جلا وطنی کی زندگی گزار رہا ہے، ہم بدوؤں کو تو رومی فوج اپنا زرخرید غلام سمجھتی ہے۔
مصر میں انقلاب آرہا ہے۔۔۔ پادری نے کہا ۔۔۔شاہ ہرقل مر چکا ہے اس کا بیٹا قسطنطین بھی مر گیا ہے، قیرس خود کمک لایا ہے۔ میں اسکندریہ سے آرہا ہوں قیرس نے لوگوں کے ایک بہت ہی بڑے مجمعے سے خطاب کیا ہے۔ اور قبطی عیسائیوں سے معافی مانگی ہے، اور اس نے اعلان کیا ہے کہ اب مصر میں عیسائیت کا راج ہوگا اور اس پر بزنطیہ کے شاہی خاندان کا کوئی حکم نہیں چلے گا۔ ہم بہت سے پادری بزنطیہ سے آئے ہیں ،اور یہاں کے عیسائیوں کو یہی بات بتا رہے ہیں کہ اب ہرقل کی فرعونیت اور اس کی بنائی ہوئی عیسائیت مکمل طور پر ختم ہو چکی ہے۔
اسطافت کے چہرے پر شش و پنج کے تاثرات کچھ زیادہ نمایاں ہو گئے، اس کے پاس تو جیسے کوئی اور سوال یا شک کی کوئی اور بات ہی نہیں تھی، اس دوران اس نے تین چار بار کھڑکی کی طرف دیکھا جس کا ایک کواڑ ذرا سا کھلا ہوا تھا ،اسے کرسٹی کا چہرہ پھر نظر آیا اور اب اس کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پہلے سے زیادہ تھی، یہ مسکراہٹ اسطافت کو ایک پیغام دے رہی تھی، وہ آخر بدو تھا ،سردار بھی تھا، اس کا ذہن علم و فضل سے خالی تھا، اس نے دوسری بار کرسٹی کو دیکھا تو اس کا سارا دھیان اور دلچسپیاں اسکے چہرے پر مرکوز ہوگئی۔
وہ کھانا کھا چکے تھے اور ملازم برتن اٹھا کر لے گئے تھے اور باہر رات تاریک ہوگئی تھی۔ میزبان بزرگ نے اسطافت سے کہا کہ اس کی دلی خواہش ہے کہ وہ رات اس کا مہمان بنے۔ اسطافت کا کام رسد فراہم کرنا تھا جو اس نے کر دی تھی۔ وہ رات کے لیے وہاں رک سکتا تھا اور رک گیا۔ وہ اس امید پر رکا تھا کہ کرسٹی کا چہرہ اور سراپا اسے ایک دو بار شاید پھر دکھائی دے گا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
ان دونوں بوڑھوں نے اسطافت کو ایسا اعزاز اور احترام دیا جیسے وہ شاہی خاندان کا فرد ہو، انہوں نے اس مصری بدوّ کو اسی مکان میں الگ کمرہ نہ دیا بلکہ ایک مکان میں اس کے سونے کا انتظام کیا ،اسے اس مکان میں لے گئے جہاں وہ مکان خاصہ خوبصورت صاف ستھرا اور ہر طرح سے آراستہ تھا ۔موسم ایسا تھا کہ اس کے لیے پلنگ صحن میں بچھایا گیا۔
اسے اس مکان میں چھوڑ کر دونوں بوڑھے شب بخیر کہہ آئے ۔
کچھ دیر بعد ایک ادھیڑ عمر ملازمہ آئی اسے کہا کہ وہ کسی بھی چیز کی کمی محسوس کرتا ہو تو بتا دے۔
اسطافت نے اس ملازمہ کے ساتھ بڑی شفقت سے باتیں کی۔ ملازمہ نے ایسا انداز اختیار کرلیا جیسے وہ اس کی خدمت میں فخر محسوس کر رہی ہو، وہ ذہنی طور پر خاصی ہوشیار بلکہ چالاک معلوم ہوتی تھی۔
اگر آپ برا نہ مانے تو ایک بات کہوں۔۔۔۔ ملازمہ نے کہا۔
جو دل میں آتا ہے وہ ضرور کہو۔۔۔ اسطافت نے اپنے مخصوص زندہ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئےکہا۔۔۔ بات بری ہوئی تو بھی برا نہیں مانو گا۔
آپ نے شاید اپنے میزبان کی نوخیز بیٹی کی ایک جھلک دیکھی ہوگی۔۔۔ ملازمہ نے رازدارانہ لہجے میں کہا۔۔۔ وہ آپ کے آگے شراب رکھنے گئی تھی، وہ اس وقت سے بے چین ہے اور تھوڑی سی دیر کے لئے آپ کے پاس بیٹھنا چاہتی ہے، کیا آپ اسے یہاں آنے کی اجازت دے سکتے ہیں ۔
کیا وہ فوراً آنا چاہتی ہے۔۔۔ اسطافت نے پوچھا۔
نہیں آقا!،،،،،،، ملازمہ نے جواب دیا۔۔۔ وہ تنہائی کی ملاقات چاہتی ہے، اور اس وقت آئے گی جب سب سو جائیں گے ،میں آپ کو صحیح بات بتا دیتی ہوں وہ تو آپ پر مر مٹی ہے، اسے آنے کی اجازت دے دیں ورنہ بہت مایوس ہو گی۔
میں جانتا ہوں اس لڑکی کا نام کرسٹی ہے ۔۔۔اسطافت نے کہا ۔۔۔اور پوچھا کیا تمہارے آقا کی کوئی اور بھی بیٹی ہے۔
کرسٹی دراصل میرے آقا کی سگی بیٹی نہیں۔۔۔ ملازمہ نے کہا ۔۔۔یہ تو ملک شام کی رہنے والی ہے یہاں پر اس طرح پہنچی تھی کہ شام میں جب جنگ جاری تھی تو کرسٹی کا باپ اور بھائی جو اس سے چھوٹے تھے مسلمانوں کے ہاتھوں مارے گئے، کرسٹی پہلے ہی بھاگ کر گرجے میں جا چکی تھی، اس کی ماں کی عمر تقریبا چالیس سال تھی اور وہ اپنی اس بیٹی سے زیادہ خوبصورت تھی ایک مسلمان اسے لے اڑا،،،،،،،، کرسٹی کو اس گرجے کے پادری نے اپنی پناہ میں لے لیا اور جب روم کی فوج وہاں سے پسپا ہوئی تو وہ پادری بھی فوج کے ساتھ وہاں سے نکل آیا، کرسٹی اس کے ساتھ تھی فوج نے پادری اور کرسٹی کو اپنے ساتھ رکھا اور کچھ عرصے بعد یہ دونوں مصر آپہنچے وہ پادری کرسٹی کو کسی اچھے گھر کے حوالے کرنا چاہتا تھا، میرے آقا کو پتہ چلا اس نے کرسٹی کو گرجا میں جا کر دیکھا اور اسے لڑکی ایسی معصوم لگی کہ اسے اپنے ساتھ گھر لے آیا اور سگی بیٹی بنا لیا ۔ اب آقا اسکی شادی کرنا چاہتا ہے لیکن لڑکی نے کہہ دیا ہے اسے جو آدمی اچھا لگے گا اس کے ساتھ شادی کرے گی،،،،،،،،،
یہ تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ہمارے ہاں نہ لڑکی پر پابندی ہوتی ہے نہ لڑکے پر ،ہماری ہر شادی اپنی پسند اور محبت کی شادی ہوتی ہے ۔کرسٹی کو کئی نوجوانوں کی محبت کے پیغام ملے اور کئی نوجوانوں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینے کی کوشش کی لیکن کرسٹی نا جانے کس قسم کے آدمی کو پسند کرے گی ،وہ کہتی ہے کہ ضروری نہیں کہ وہ کسی ہم عمر کے ساتھ شادی کرے گی، وہ تو کسی ادھیڑ عمر آدمی کو بھی پسند کر لے گی بشرطیکہ وہ آدمی اس کے معیار پر پورا اترتا ہو، میں تو اسے عجیب لڑکی کہوں گی ہو سکتا ہے اسے آپ ہی اچھے لگے ہوں ۔
اسطافت کو تو یوں لگا جیسے اس کے وجود میں ہوا بھر گئی ہو اور وہ فضاء میں اڑ رہا ہو۔ اس نے ملازمہ سے کہا کہ وہ کرسٹی سے کہہ دے کہ وہ اس کے انتظار میں جاگتا رہے گا ۔
ملازمہ چلی گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسطافت دن بھر کا تھکا ہوا تھا اس پر غنودگی طاری ہو رہی تھی، لیکن کرسٹی کا انتظار اسے سونے نہیں دے رہا تھا ،کبھی وہ خوشی سے پھولا نہ سماتا کہ اتنی حسین اور نوخیز لڑکی اس کے پاس آ رہی ہے ،اور کبھی اسے یوں محسوس ہونے لگتا جیسے اسکے ساتھ کوئی دھوکہ ہو رہا ہے یا وہ خواب دیکھ رہا ہے۔ اسے اپنے متعلق معلوم تھا کہ وہ خوبرو آدمی ہے ،وہ تھا تو بدو لیکن اس کا رنگ کالا یا سانولا نہیں بلکہ بڑا صاف اور کھلا ہوا رنگ تھا، اگر وہ سیاہ رو ہوتا تو پھر اس کا یہ شک بجا ہوتا کہ اس کے ساتھ کوئی دھوکہ ہو رہا ہے، اور اتنی حسین و جمیل لڑکی اس کے پاس نہیں آ سکتی۔
چاندنی بڑی صاف اور سفید تھی اسے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے چاند ایک مقام پر رک گیا ہے اور رات آگے بڑھ ہی نہیں رہی، وہ انتظار کی اذیت برداشت کرتا رہا اور آخر دروازہ بڑی آہستہ سے کھلا اسطافت کا انگ انگ بیدار ہو گیا۔
کرسٹی اس طرح دروازے کے اندر آئی جیسے ہوا کا ہلکا سا جھونکا آیا ہو۔ اسطافت نے چاہا کہ وہ دوڑ کر کرسٹی کو بازوؤں میں سمیٹ لے اور اسے اٹھا کر وہاں سے بھاگ جائے اور اپنے خیمے میں جا دم لے، اس نے بڑی مشکل سے اپنے آپ پر قابو پایا ۔کرسٹی آہستہ آہستہ چلی آرہی تھی۔
وہ جب اسطافت کے قریب پہنچی تو اسطافت نے اسے پلنگ پر بٹھا لیا اور اس نے بازو لمبا کیا کہ کرسٹی کو بازو میں لے کر اپنے قریب کر لے، لیکن کرسٹی پیچھے کو سرک گئی۔
کیوں ؟،،،،، اسطافت نے کہا۔۔۔ خطرہ مول لے کر آئی ہو، اور شرم و حجاب کا یہ عالم۔
پہلے کچھ باتیں کرنی ہیں ۔۔۔کرسٹی نے سنجیدہ سے لہجے میں کہا ۔۔۔میں وقتی سکون اور لذت کے لئے نہیں آئی، ساری عمر کے ساتھی کی تلاش میں آئی ہوں، آپ کو دیکھ کر میرے دل سے آواز اٹھی ہے کہ یہ ہے وہ شخص جس کے انتظار میں گھڑیاں گن رہی ہوں ،میں تو ہمیشہ کے لئے آپ کے پاس آنا چاہتی ہوں۔
لیکن یہ سوچ لو کرسٹی!،،،،، اسطافت نے کہا۔۔۔ میری ایک بیوی اور دو بچے ہیں۔
کیا ایسے آدمیوں کی کمی ہے جنہوں نے چار چار پانچ پانچ اور بعض نے اس سے زیادہ بیویاں رکھی ہوئی ہیں، میں تو آپ کی داشتہ بننے کے لئے بھی تیار ہوں، اور آپکی بیوی کی لونڈی بن جاؤں گی ،لیکن میری ایک شرط ہے۔
میں تمہاری ہر شرط پوری کروں گا ۔۔۔اسطافت نے کہا ۔۔۔ایک نہیں تم سو شرطیں زبان پر لاؤ میں جان پر کھیل کر ہر شرط پوری کروں گا۔
اسطافت نے بھولے سے بھی نہ سوچا کہ وہ چالیس سال سے کچھ زیادہ عمر کا آدمی اور دور دراز صحرا میں رہنے والا پسماندہ بدو اتنی حسین اور نوخیز لڑکی جو اس پر مر مٹی ہے اور اپنی شرط صرف اس کے آگے رکھ رہی ہے یہ کوئی دھوکہ اور فریب ہی نہ ہو۔ اسطافت پر پہلے شراب کا نشہ طاری تھا، اس میں کرسٹی کا نشہ شامل ہوگیا اور اسطافت خواب و خیال کی بڑی ہی حسین وادی میں جا نکلا ۔کرسٹی نے اپنے متعلق وہی بات بتانی شروع کردیں جو ملازمہ پہلے سنا گئی تھی۔ فرق صرف یہ تھا کہ ملازمہ نے سپاٹ سے لہجے میں بات مختصر کرکے سنائی تھی۔
اور کرسٹی کا انداز جذباتی تھا اور وہ تفصیلات سنا رہی تھی اس کی آواز جذبات کی شدت سے بھر جاتی تھی، اس دوران اسطافت نے اس کا ایک ہاتھ اپنے ہاتھ میں لینا چاہا لیکن کرسٹی نے اپنا ہاتھ پیچھے کر لیا۔
مجھے میرا باپ واپس نہیں مل سکتا۔۔۔ کرسٹی نے ساری بات سنا کر کہا۔۔۔ مجھے بھائی واپس نہیں مل سکتا ،اور مجھے وہ پیاری ماں بھی واپس نہیں مل سکتی جسے مسلمان زبردستی اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ لیکن مجھے پوری امید ہے وہ شخص ضرور ملے گا جو ان سب کا انتقام لے گا، میرا جلتا ہوا سینہ ٹھنڈا کردے گا ،میں اپنے حسن اور اپنے اس جسم کی لطافت اس شخص کی گود میں ڈال دوں گی خواہ وہ کوئی کالا کلوٹا اور بھدا بدصورت ہی کیوں نہ ہو ،یہ تو اتفاق کی بات ہے کہ آپ جیسا خوبرو اور طاقتور انسان مجھے مل گیا ہے اور میرے دل نے اسے قبول کرلیا ہے۔
صرف ایک بات بتا دو کرسٹی !،،،،،اسطافت نے پوچھا۔۔۔ کیا تمہاری شرط یہ ہے کہ میں پہلے تمہارے ماں باپ اور بھائیوں کا انتقام لوں اور اس کے بعد تم میرے ساتھ شادی کرو گی۔
ہاں!،،،،، کرسٹی نے جواب دیا ۔۔۔۔میری شرطیں یہی ہے اگر آپ تھوڑے سے عرصے میں میری یہ شرط پوری نہ کرسکے تو میں اپنی محبت قربان کر دوں گی اور پھر کبھی آپ کی صورت بھی نہیں دیکھوں گی، میں آپ کو یہ بتادوں کہ آپ میری پہلی اور آخری محبت ہیں ایسی محبت مرا نہیں کرتی جو اچانک کسی کو صرف ایک نظر دیکھنے سے دل پر قابض ہو جاتی ہے۔
اسطافت کی جذباتی حالت کچھ اس طرح ہوگئی تھی کہ وہ کرسٹی کی باتیں اتنے زیادہ دھیان سے نہیں سن رہا تھا جتنے دھیان سے اس کے چہرے اور سراپا کو دیکھ رہا تھا، چاندنی سیدھی کرسٹی کے چہرے پر پڑ رہی تھی، اس چاندنی میں کرسٹی کی آنکھوں کی چمک میں ایسا طلسم تھا جس نے اسطافت کو بحال کردیا تھا ،وہ تو بڑی مشکل سے اپنے آپ کو قابو میں رکھے ہوئے تھا، کرسٹی کی طرف سے ذرا سا اشارہ بھی ملتا تو اسطافت اسے اپنے بازوؤں میں سمیٹ لیتا اور کہتا کہ باقی عمر وہ کرسٹی کو اپنے سینے سے لگائے گزار دے گا ،آخر وہ بے تاب ہوگیا۔
کرسٹی !،،،،،اسطافت نے التجا کے لہجے میں کہا ۔۔۔تم میرے وجود میں جو آگ لگا دی ہے یہ مجھے راکھ کر دے گی ،اگر شادی پہلے ہو جائے تو مجھے نیا حوصلہ اور تروتازہ ولولہ ملے گا ،پھر دیکھنا میں کیا کرتا ہوں۔
نہیں!،،،،،، کرسٹی نے سر زور زور سے ہلاتے ہوئے کہا۔۔۔ میں شادی کی زنجیر میں جکڑ گئی تو پھر رہائی مشکل ہوجائے گی، میں مرد کی فطرت سے واقف ہوں پہلے میری شرط پوری کریں۔
اسطافت کی حالت اب اس پیاسے انسان جیسی ہو گئی تھی جو پیاس سے مرا جا رہا ہو۔اور پانی اس کے سامنے پڑا ہو لیکن پی نہ سکتا ہو، کبھی تو کرسٹی اسے سراب کی طرح نظر آتی تھی جس تک پہنچنے کے لئے صحرا نورد چلتے ہی جاتے ہیں اور آخر گر پڑتے ہیں اور ریت ان کی زندگی کی نمی چوس لیتی ہے،،،،،، اچانک اسے خیال آگیا اور وہ بیدار ہو گیا۔
ایک بات تو تم نے بتائی ہی نہیں۔۔۔ اسطافت نے کہا ۔۔۔میں تمہارے ماں باپ اور بھائیوں کا انتقام لونگا کس طرح ،کس سے انتقام لوں گا؟
آپ اپنے قبیلے کے سردار ہیں۔۔۔کرسٹی نے پراعتماد لہجے میں کہا ۔۔۔اپنے قبیلے کے لوگوں سے کہیں کہ وہ مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ کر اپنے گھروں کو چلے جائیں، آپ کے ساتھ دوسرے قبیلوں کے سردار بھی ہوں گے انہیں بھی کہیں کہ اپنے قبیلے کے آدمیوں کو یہاں سے غائب کرنا شروع کر دیں اور وہ آہستہ آہستہ مسلمان کے لشکر سے نکلتے جائیں،،،،،
یہ کام ایسا ہے جو ذرا آہستہ آہستہ ہوگا ،ایک کام آپ فوراً کر سکتے ہیں ،وہ یہ کہ اس لشکر کے سپہ سالار کو قتل کردیں۔
سپہ سالار کا قتل ممکن نہیں۔۔۔ اسطافت نے کہا۔۔۔ وہ اس لئے کہ سپہ سالار کو اس کے محافظ اپنے حصار میں لیے رکھتے ہیں ،وہ رات جس خیمے میں سوتا ہے اس خیمے کے اردگرد محافظ موجود اور بیدار رہتے ہیں۔ میں دوسرے سالاروں کو قتل کر سکتا ہوں، تم ایک سپہ سالار کی بات کرتی ہو میں اتنے سارے سالاروں کو مار دوں گا اور مرواؤنگا، ایسے طریقے سے کہ پکڑا نہیں جاؤں گا۔ سالاروں کا قتل اس لئے آسان ہے کہ وہ لڑائی کے دوران ہر طرف بھاگتے دوڑتے رہتے ہیں اور کسی بھی گھمسان کے معرکے میں انہیں قتل کیا جاسکتا ہے ۔اگر دو تین سالار قتل ہو گئے تو مسلمان بہت کمزور ہو جائیں گے اور میں دوسرا کام یہ کروں گا کہ اپنے قبیلے کے آدمیوں کو وہاں سے نکالوں گا اور واپس بھیجنا شروع کردوں گا۔یہی کام کر دیں ۔۔۔کرسٹی نے کہا ۔۔۔میں یہ دیکھنا چاہتی ہوں کہ کریون کے اردگرد کی زمین مسلمانوں کا قبرستان بن جائے، اور ان کی عورتیں رومی فوج کے قبضے میں چلی جائیں،،،،،، ضروری بات یہ ہے کہ کسی کو پتہ نہ چلے کہ میں یہاں آپ کے پاس آئی تھی۔کرسٹی اٹھ کھڑی ہوئی اور دروازے کی طرف چل پڑی، اسطافت کو یوں لگا جیسے اس کا دل اس کے سینے سے نکل کر کرسٹی کے قدموں میں جا پڑا ہو، کرسٹی دروازے تک پہنچ کر پیچھے کو مڑی ۔ میں انتظار کروں گی۔۔۔کرسٹی نے کہا۔۔۔ اور دروازے میں سے نکل گئی۔اسطافت کی نظریں دروازے پر لگی رہیں، اسے تو جیسے احساس ہی نہیں ہوا تھا کہ یہ نوخیز کلی اتنی دیر اس کے پاس بیٹھی رہی ہے، وہ تو یوں آئی اور گئی ،جیسے بجلی چمک کر پھر اندھیرا کر گئی ہو ، یہ ایک احساس تھا جو اسطافت کو بے حال کر گیا ۔وہ کرسٹی کی شرط پوری کرنے کے لیے تیار ہو گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦


🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【⓿➎】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مجاہدین ادھر حد سے آگے نکل گئے تھے لیکن ان کا جوش و خروش پہلے دن جیسا تھا جس دن وہ مصر میں داخل ہوئے تھے۔ عمرو بن عاص اپنے لشکر کی اس جسمانی کیفیت سے بے خبر نہیں تھے پھر بھی وہ خطرے پر خطرہ مول لیتے چلے جارہے تھے۔ مبصرین لکھتے ہیں کہ عمرو بن عاص مصر کی فتح کے لیے دیوانگی کی حد تک پہنچے ہوئے تھے۔ انہوں نے بڑی مشکل سے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو راضی کیا تھا کہ انھیں مصر پر فوج کشی کی اجازت دیں۔ امیرالمومنین نے اجازت تو دے دی تھی لیکن کئی ایک صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہم اس کے خلاف تھے جس میں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے ،وہ بزرگ صحابی تھے جن کی کوئی بات حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ ٹالتےنہیں تھے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ تعالی عنہ نے یہ دلیل پیش کی تھی کہ عمرو بن عاص، خالد بن ولید سے زیادہ خطرہ مول لینے والے سپہ سالار ہیں اور یہ کسی بھی وقت پورے لشکر کو یقینی ہلاکت میں ڈال دیں گے اور انہیں بروقت کمک نہیں پہنچائی جا سکے گی۔
امیر المومنین نے اس دلیل کو صحیح جانتے ہوئے بھی عمرو بن عاص کو مصر پر فوج کشی کی اجازت دے دی تھی، حقیقت یہ تھی کہ امیرالمومنین اجازت دے کر بھی سوچ میں پڑگئے تھے کہ ان کا یہ فیصلہ صحیح ہے یا نہیں اور جیسا کہ پہلے بیان ہوچکا ہے امیرالمومنین نے ایک قاصد عمرو بن عاص کے پیچھے اس پیغام کے ساتھ دوڑا دیا تھا کہ اگر وہ مصر کی سرحد میں داخل نہیں ہوئے تو واپس آجائیں، لیکن عمرو بن عاص نے ایک استادی کھیلی اور مصر کی سرحد میں داخل ہو کر یہ پیغام کھول کر پڑھا اور پیش قدمی جاری رکھی تھی۔
اب جب وہ آدھے سے زیادہ مصر فتح کرتے ہوئے اسکندریہ کی طرف بڑھ رہے تھے تو ایسے خطرے سامنے آگئے تھے جو حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی مخالفت کی تائید کرتے تھے۔ یوں نظر آتا تھا جیسے عمرو بن عاص فتوحات کے نشے سے سرشار اندھا دھند خطروں میں چلے آ رہے ہیں اور اب وہ اپنی شکست کی طرف بڑھ رہے ہیں۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سپہ سالار عمرو بن عاص کو ایک جاسوس مجاہد نے آگے سے آکر یہ اطلاع دی کہ رومیوں کے جو فوجی بھاگ گئے تھے وہ چھ میل دور سلطیس کے قریب اکٹھے ہوگئے ہیں، اور ان کے ساتھ اس علاقے کا ایک بڑی نفری والا دستہ بھی موجود ہے۔ جاسوس نے بتایا کہ اس نے ان فوجیوں کو بڑے غور سے دیکھا ہے اور پھر معلوم بھی کیا کہ یہ رومی مجاہدین کے انتظار میں ہیں اور جم کر لڑنے کا عہد کر چکے ہیں۔
عمرو بن عاص سیدھے چلے جارہے تھے، اور جس جگہ کی نشاندہی جاسوس مجاہد نے کی تھی وہ کسی اور سمت تھی ،عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں سے مشورہ کئے بغیر اپنے گھوڑے کی باگیں اس طرف موڑ دیں اور بازو اوپر کر کے لشکر کو اشارہ کیا کہ ان کے پیچھے آئے۔
سپہ سالار لڑنے کے ارادے سے اس طرف ہولئے تھے انہوں نے جاسوس سے پوچھ لیا تھا کہ فوجیوں کی نفری کتنی ہے۔ نفری مجاہدین سے تقریبا دوگنی تھی ۔
سلطیس کی طرف رخ کرکے اور کچھ دور جاکر عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو بلایا، سالار آئے تو عمرو بن عاص نے روک کر نہیں بلکہ چلتے چلتے انہیں بتایا کہ وہ کدھر جا رہے ہیں اور کیا کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انہوں نے سالاروں کو وہ ترتیب بتائی جس میں مجاہدین کے لشکر کو دشمن کے قریب جاکر ہو جانا تھا ۔ سپہ سالار نے تمام ضروری ہدایات دیں اور یہ بھی بتایا کہ دشمن کھلے میدان میں لڑے گا اور دور دور تک کوئی قلعہ نہیں جس میں جاکر دشمن پناہ لے گا اور ہمیں للکارے گا۔
لشکر کے نامور سالار زبیر بن العوام نے عمرو بن عاص سے پوچھا کہ وہاں کی زمین کے خدوخال کیسے ہے ،یہ علاقہ عمرو بن عاص نے پہلے نہیں دیکھا تھا وہ اتنا ہی جانتے تھے کہ یہ نیل کا ڈیلٹا علاقہ ہے اور نیل کی شاخوں میں بٹ جاتا ہے ۔عمرو بن عاص نے سالار زبیر بن العوام کو بتایا کہ آگے دلدل بھی ہو سکتی ہے، جنگل بھی ہو سکتا ہے، اور کھلا میدان بھی ہو سکتا ہے، لیکن سالار زبیر صحیح خدوخال معلوم کرنا چاہتے تھے انھوں نے اس جاسوس مجاہد کو اپنے پاس بلایا جو یہ خبر لایا تھا اور اب لشکر کے ساتھ جا رہا تھا۔
زبیر بن العوام نے اس جاسوس مجاہد سے پوچھا کہ رومی فوج جہاں لڑنے کے لیے تیار کھڑی ہے اس کے اردگرد کا علاقہ کیسا ہے۔ جاسوس مجاہد نے انھیں بڑی اچھی طرح سمجھا دیا اس نے یہ بھی بتایا کہ ایک طرف زمین نیچے چلی جاتی ہے جہاں کچھ دلدل سے ہیں ،اور کچھ درخت بھی ہیں ،اور نیچے جا کر زمین خاصی پھیل جاتی ہے۔ سالار زبیر نے سپہ سالار کو بتایا کہ وہ کیا کرنا چاہتے ہیں۔ سپہ سالار نے انہیں اجازت دے دی اور پیش قدمی جاری رکھی بلکہ رفتار اور تیز کردی چھ میل کا فاصلہ گھوڑوں نے اور پیادوں نے بڑی جلدی طے کر لیا اور انہیں رومی فوج نظر آنے لگی۔ رومی فوج کو اس کے جاسوس نے پہلے ہی بتا دیا تھا کہ مسلمان آ رہے ہیں اور ان کی تعداد کتنی ہے۔ سپہ سالار عمرو بن عاص نے جب رومی فوج کو دور سے دیکھا تو انھیں اندازہ ہو گیا کہ اس فوج کی نفری ان کے لشکر سے دگنی ہے اور یہ رومی فوج تمام کی تمام گھوڑ سوار ہے۔
عمرو بن عاص نے اپنا گھوڑا راستے سے الگ کیا اور رک گئے، لشکر ان کے سامنے سے گزرتا جا رہا تھا عمرو بن عاص دایاں بازو اوپر کئے ہلا رہے تھے ،اور بلند آواز سے کہ رہے تھے ۔تم اس آزمائش میں سے بھی سرخرو گزر جاؤگے ،،،،،،اللہ نے تمہیں فراموش نہیں کیا ،،،،،،،تمہارے جسم تھکے ہوئے ہیں روحیں تروتازہ ہیں،،،،، تم اس آزمائش میں بھی سرخرو گزر جاؤ گے،،،،،، وہ تھوڑے تھوڑے وقفے کے بعد یہی کہتے رہے اور لشکر ان کے سامنے سے گزر گیا تب انہوں نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور گھوڑا دوڑاتے لشکر کے آگے چلے گئے۔
رومی فوج پہلے ہی ترتیب میں تیار تھی مجاہدین کے لشکر کو دیکھ کر رومیوں کے کمانڈر نے اپنے گھوڑے کو ایڑ لگائی اور دستوں کے سامنے جا کھڑا ہوا۔
وہ دیکھو تمہارا دشمن آ رہا ہے۔۔۔۔ رومی کمانڈر نے بڑی ہی بلند آواز سے کہا ۔۔۔۔اس دشمن کی تعداد دیکھو ،عرب کے یہ بدوّ تھک کر شل ہو چکے ہیں ،عہد کر لو کہ ان کے ٹکڑے اڑا دو گے ،اپنے آپ کو ان میں شامل نہ کر لینا جو بھاگ نکلے ہیں، اپنی آنے والی نسلوں کے لیے اپنا نام ایسا اونچا کرو کہ ہمیشہ زندہ رہے۔
رومی کمانڈر نے ایسے ہی کچھ اور جوشیلے الفاظ کہے کہ ان دستوں میں جوش و خروش نظر آنے لگا۔
مجاہدین کا لشکر قریب پہنچا تو سالاروں نے اپنے آپ ہی اپنے اپنے دستے الگ کئے اور لشکر ایک مشین کی طرح چلتے چلتے لڑائی کی ترتیب میں آگیا ،لڑائیوں کے دستور کے مطابق ہوتا یوں تھا کہ دونوں طرف فوجیں ایک دوسرے کے قریب آ کر ایک دوسرے پر حملہ کرتی اور لڑائی لڑی جاتی تھی، لیکن مجاہدین کا لشکر ابھی ترتیب میں آیا ہی تھا اور کچھ دور تھا کہ تمام تر رومی فوج نے گھوڑوں کو ایڑ لگا دی، پرچھیاں اور تلواریں آگے کر لیں اور شدید ہلہ بول دیا، وہ تو گھوڑوں اور انسانوں کا ایک بڑا ھی تند و تیز طوفان تھا جو لگتا تھا درخت راستے میں آئیں گے تو جڑوں سے اکھڑ جائیں گے ،گھوڑوں کے نیچے زمین ہل رہی تھی زمین و آسمان دم بخود تھے کہ یہ ہلہ مجاہدین کا لشکر برداشت کر سکے گا یا نہیں۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے رومیوں کا یہ ہلہ دیکھا تو اپنے دستوں کو اور زیادہ دائیں بائیں پھیلا دیا ،انہیں ایسی کوئی ضرورت نہیں تھی کہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد سپہ سالار کو کوئی نہ کوئی حکم اور ہدایت بھیجتے یہ مسلمانوں کا اپنا طریقہ تھا کہ اتنے بڑے دشمن کا مقابلہ کس طرح کیا جاتا ہے ،معرکے کے لئے جو ابھی شروع ہوا تھا سپہ سالار نے راستے میں سالاروں کو بتا دیا تھا کہ کن حالات میں کیا پینترے بدلنے ہیں۔
اب دیکھا کہ رومی فوج بند توڑ کر آنے والے سیلاب کی طرح یا بڑی ہی تیز طوفان کی طرح آرہی ہے تو یوں لگتا تھا جیسے اتنے ہزار گھوڑے مجاہدین کے اس چھوٹے سے لشکر کو روندتے چلے جائیں گے۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ سپہ سالار عمرو بن عاص کے ہونٹوں پر تبسم آ گیا انہوں نے اپنے سالاروں کی طرف دیکھ کر جو ان سے دور دور تھے ہاتھ اوپر کر کے کچھ اشارے کیے، پہلو والے دستے اور زیادہ پھیل گئے اور درمیان میں جو دستے تھے وہ رومیوں کے مقابلے کو آگے بڑھے ۔
رومی چیختے چلاتے آرہے تھے مجاہدین کے لشکر سے صرف ایک نعرہ تکبیر بلند ہوا جس کے جواب میں پورے لشکر نے اتنی زور سے اللہ اکبر کہا کہ آسمان بھی لرز گیا ہوگا ۔
وہ قبل از شہادت کا جوش اور ولولہ تھا۔
مجاہدین کے وہ دستے جو دشمن کے مقابلے کو آگے بڑھے تھے وہ دشمن سے ٹکرا گئے وہ اتنے تھوڑے تھے کہ اتنے زیادہ رومیوں میں غائب ہی ہو جاتے لیکن ان کا انداز یہ تھا کہ لڑ رہے تھے اور آہستہ آہستہ پیچھے بھی ہٹ رہے تھے، ادھر دائیں اور بائیں پہلو پر جو مجاہدین کے دستے تھے وہ اپنے سالاروں کے حکم کے مطابق اس طرح دائیں بائیں پھیل گئے کہ رومیوں پر آمنے سامنے کی بجائے پہلوؤں سے حملہ کریں۔
عمرو بن عاص نے محفوظہ (ریزور) کے دو دستے پیچھے روکے ہوئے تھے انھیں خاص صورتحال میں آگے بڑھنا تھا مطلب یہ کہ عمرو بن عاص اتنے کثیر دشمن کے مقابلے میں بھی دماغ کو حاضر اور دل کو ٹھنڈا رکھ کر سوچ رہے تھے اور ان کے انداز میں گھبراہٹ کا اشارہ بھی نہیں ملتا تھا۔
مجاہدین رومیوں کے پہلوؤں میں جانے کی کوشش کر رہے تھے لیکن رومی اس کے مطابق پھیلتے جا رہے تھے، ادھر آمنے سامنے والے دستے پیچھے ہٹتے آرہے تھے اور اس کے مطابق رومی بھی یہ سمجھ کر کہ مجاہدین ہلنے کی تاب نہ لاکر پسپا ہو رہے ہیں آگے ہی آگے آتے گئے۔ سپہ سالار کی کوشش یہ تھی کہ رومیوں کی ترتیب کو درہم برہم کر دیں، لیکن رومیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھیں کہ وہ اپنی تعداد کے زور پر مجاہدین کو کچل اور مسل دینا چاہتے تھے اور انہیں توقع بھی یہی تھی کہ وہ اس چال میں کامیاب ہو جائیں گے آج کی فوجی زبان میں اسے بلڈوز کرنا کہتے ہیں۔
یہ ایک خونریز معرکہ تھا لیکن مجاہدین اپنے آپ کو بچا بھی رہے تھے کیونکہ انکے سالاروں کو معلوم تھا کہ آگے کیا ہونے والا ہے ۔ظاہری صورت یہ تھی کہ رومی مجاہدین پر غالب آ گئے تھے اور مجاہدین کی کوئی چال کامیاب نہیں ہونے دے رہے تھے۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ مجاہدین ان کے پہلوؤں پر آنے کی کوشش کر رہے ہیں یہ بھی دیکھا گیا کہ اس رومی فوج میں دوسری جگہوں سے بھاگے ہوئے فوجی بھی تھے لیکن اس معرکے میں ان کے جوش اور جذبے میں کوئی اور ہی تازگی پیدا ہو گئی تھی وہ واقعی یہ عہد کر چکے تھے کہ مجاہدین اسلام کو اسی میدان میں کاٹ پھینکیں گے۔
صورت ایسی پیدا ہو گئی تھی جو مجاہدین کے لئے انتہائی خطرناک تھی، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ کی یہ بات صحیح معلوم ہونے لگی تھی کہ عمرو بن عاص کسی بھی وقت پورے لشکر کو ہلاکت میں ڈال دیں گے ،اب نظر یہ ہی آنے لگا تھا کہ عمرو بن عاص نے لشکر کو یقینی ہلاکت میں ڈال دیا ہے۔ لیکن ان کے چہرے سے صاف معلوم ہوتا تھا کہ وہ متفکر تو ضرور ہیں لیکن پریشان نہیں، بلکہ ان کے چہرے پر اطمینان کی بھی جھلک تھی ،اور اتنے ٹھنڈے مجاز میں رہے کہ انہوں نے محفوظ کے دستوں کو پیچھے ہی رہنے دیا۔ ایسی صورتحال میں اکثر کمانڈر محفوظ دستوں کو بھی لڑائی میں جھونک دیا کرتے ہیں۔
عمرو بن عاص نے گھوڑا دوڑا دیا اور ایک موزوں مقام پر گھوڑا روک کر دائیں بائیں بازو اوپر کیا اور ہاتھ سے کوئی اشارہ دیا جس طرف اشارہ کیا تھا ادھر سے سینکڑوں گھوڑے دوڑنے کا ہنگامہ سنائی دیا، لیکن ادھر معرکے کا ہنگامہ اتنا شدید تھا کہ کسی نے سنا ہی نہیں کہ یہ گھوڑے کس کے ہیں اچانک رومیوں کے عقب سے ان پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ رومیوں کی پیٹھوں میں تلواریں اور برچھیاں اترنے لگیں اور وہ یہ دیکھے بغیر کے پیچھے کون آگیا ہے گھوڑوں سے گرنے تڑپنے اور مرنے لگے ،گھوڑے انہیں روندنے لگے، رومیوں کے لشکر میں کھلبلی مچ گئی ان کا ہلہ اور اس کی شدت یکلخت کم ہو گئی، اور وہ پیچھے دیکھنے لگے۔
وہ سالار زبیر بن العوام تھے جنہوں نے ڈیڑھ دو ہزار مجاہدین سے رومیوں پر حملہ کیا تھا لشکر جب اس میدان جنگ کی طرف آ رہا تھا تو سالار زبیر نے جاسوس مجاہد سے پوچھا تھا کہ وہاں کی زمین کے خدوخال کیا ہیں، انہیں جب بتایا گیا کہ ایک پہلو پر جا کر زمین نیچے چلی جاتی ہے تو زبیر بن العوام
نے سپہ سالار سے اجازت لی تھی کہ ایک چال چلنا چاہتے ہیں
ان کی چال یہ تھی کہ میدان جنگ سے دور ہی تھے کہ انہوں نے ڈیڑھ دو ہزار مجاہدین کو ساتھ لیا اور دور کا چکر کاٹ کر اس جگہ جا پہنچے جہاں زمین زیادہ نیچے کو چلی گئی تھی وہاں انہوں نے اپنے مجاہدین کو چھپا لیا تھا اور یہ سارا دستہ گھوڑ سوار تھا۔
زبیر بن العوام کہیں اونچی جگہ کھڑے لڑائی کا منظر دیکھ رہے تھے انہوں نے جب دیکھا کہ رومی مجاہدین پر غالب آ گئے ہیں اور کوئی چال چلنے کی مہلت نہیں دے رہے تو انہوں نے اپنے دستے کو حملے کا حکم دیا وہ پہلے پورے دستے کو بتا چکے تھے کہ کیا کرنا ہے، سپہ سالار نے حملے کا اشارہ بھی دے دیا تھا یہ دستہ سالار زبیر کی قیادت میں کچھ دور جاکر اس نیچی جگہ سے باہر نکلا اور رومیوں کے پیچھے جا کر پھیل گیا رومیوں کو لڑائی کے ہنگامے میں پتہ ہی نہ چل سکا۔
یہ خالد بن ولید کی چال تھی جو انہوں نے دو تین مرتبہ لڑائیوں میں چلی اور کثیر تعداد دشمن کو کاٹ پھینکا تھا ۔ تاریخ بتاتی ہے کہ عمرو بن عاص خالد بن ولید کی چالیں چلتے اور انہیں اپنا استاد مانتے تھے ۔احباب اور ساتھیوں کی محفل میں ان چاروں کی باتیں ہوتیں تو عمرو بن عاص خالد بن ولید اور ابو عبیدہ کے حوالے دیا کرتے تھے۔
جنگی چالوں کے معاملے میں رومی جرنیل بھی کچھ کم نہ تھے اور کہا جا سکتا ہے کہ مسلمانوں کے ہم پلہ تھے، خود ہرقل جنگی چالوں کا ماہر تسلیم کیا جاتا تھا ،اور اس کا جرنیل اطربون تو اس فن میں خصوصی طور پر ماہر تسلیم کیا جاتا تھا ۔اسے دوسری قومیں جنگ کی دہشت سمجھتی تھیں لیکن وہی ہرقل شام جیسا وسیع و عریض ملک مجاہدین اسلام کے قدموں میں رکھ کر اس طرح بھاگا اور مصر میں اسکا نامور جرنیل اطربون مسلمانوں کے ہاتھوں مارا گیا تھا ۔
وجہ یہ تھی کہ مسلمان اللہ اور قرآن کے حکم سے لڑتے تھے اور ہرقل اپنی ذات کو ہی سب کچھ سمجھتا تھا ۔ مجاہدین اسلام کو اللہ نے ایمان کی قوت عطا فرمائی تھی جس سے رومی مرعوب تھے۔
رومیوں پر عقب سے سالار زبیر بن العوام نے ہلہ بولا تو وہ پیچھے کو متوجہ ہوئے اور کٹنے لگے اور عین اس وقت سپہ سالار عمرو بن عاص نے محفوظہ کے دستوں کو حملہ کرنے کا حکم دے دیا اب رومی تعداد میں خواہ دگنے بھی تھے نرغے میں آگئے اور ان پر آگے سے بھی اور پیچھے سے بھی ایسا حملہ ہوا کہ وہ سکڑ گئے، اور ان کے لیے کوئی چال چلنا تو دور کی بات ہے ہتھیار چلانا بھی دشوار ہو گیا اس کے ساتھ ہی مجاہدین نے ان پر پہلوؤں سے بھی حملہ کردیا رومی گر گر کر اپنے ہی گھوڑوں کے قدموں تلے روندے جانے لگے، اب وہ بھاگ نکلنے کے راستے دیکھنے لگے ان کے عہد و پیمان ٹوٹ گئے ان کے کمانڈر کا پرچم گر پڑا اور کمانڈر کا کچھ پتا نہ چلا وہ کہاں غائب ہو گیا ہے۔
رومی بھاگتے بھی تو کہاں جاتے دور دور تک کوئی قلعہ نہ تھا جہاں جا کر پناہ لیتے۔
بہرحال وہ اب جان بچانے کے لیے لڑ رہے تھے اور جس رومی کو بھاگ نکلنے کا موقع ملتا وہ فورا بھاگ اٹھتا۔ مجاہدین کی کمزوری یہ تھی کہ ان کی تعداد بہت تھوڑی تھی رومیوں کو مجاہدین کی اس کمزوری نے خاصا فائدہ پہنچایا اور کچھ رومی بھاگ نکلنے میں کامیاب ہو گئے ۔ ان کا رخ کریون کی طرف تھا جو مستحکم قلعہ بند شہر تھا اور یہ شہر وہاں سے خاصا دور تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کریون میں جنرل تھیوڈور نئے عزم اور تازہ ولولے کے ساتھ اس فوج کی ٹریننگ میں مصروف تھا جو اس نے قلعے میں اکٹھی کر رکھی تھی۔ پہلے بیان ہو چکا ہے کہ اب وہ اپنے آپ کو مختار کل سمجھنے لگا تھا اور اس کے ساتھ جو جرنیل تھے انہوں نے اپنی وفاداریاں پیش کردی تھیں۔ اطربون کے بعد جنرل تھیوڈور ہی ایک قابل جرنیل رہ گیا تھا،اور اس کے بعد جنرل جارج تھا۔ تھیوڈور میں اتنی اہلیت اور اتنا تجربہ تھا کہ وہ مختار کل کہلانے کا پورا پورا حق رکھتا تھا۔
اس نے اپنے جرنیلوں سے کہا تھا کہ جو دستہ کریون سے دور دور مسلمانوں کے ساتھ راستے میں مورچہ بند ہیں انہیں وہیں رہنے دیا جائے تا کہ وہ مسلمانوں کے راستے کی رکاوٹ بنے رہیں اور انھیں کمزور کرتے رہیں، ایک روز وہ اپنی فوج کو خود ٹریننگ دے رہا تھا کہ اسے اطلاع ملی کہ ایک لڑائی سے کچھ رومی سپاہی بھاگ کر آئے ہیں اس نے اسی وقت ان سپاہیوں کو بلایا، پہلے تو اس نے یہ دیکھا کہ ان سپاہیوں کے چہروں پر شکست صاف نظر آ رہی تھی اور وہ ٹھیک طرح بول بھی نہیں سکتے تھے۔ تھیوڈور نے گرج کر انہیں ڈانٹا اور کہا کہ وہ اتنے بزدل نہ بنیں کہ اپنے قلعے میں آکر بھی ان کے منہ سے بات نہیں نکل رہی۔
کاٹ دیا۔۔۔ آخر ایک سپاہی نے لرزتی کانپتی آواز میں کہا۔۔۔ سب کو کاٹ دیا ۔
ٹھیک طرح بولو ۔۔۔تھیوڈور نے غصیلی آواز میں پوچھا ۔۔۔کس نے کس کو کاٹ دیا۔
ان سپاہیوں نے اسے بتایا کہ کہاں لڑائی ہوئی ہے اور کیا ہوا ہے ،اتنے میں جنرل تھیوڈور کو پھر اطلاع ملی کہ کچھ اور سپاہی آئے ہیں جن میں کچھ زخمی بھی ہیں ،اب جنرل تھیوڈور نے یہ ضرورت نہ سمجھی کہ ان سپاہیوں کو بھی اپنے پاس بلاتا اس کے بعد اسے یہی خبر ملتی رہی کہ کچھ اور فوجی آئے ہیں اس طرح شام تک اور رات کو بھی سلطیس کے معرکے سے بھاگے ہوئے رومی کریون میں آتے رہے۔ اگلی صبح تک کریون کی فوج میں ایسی کھسر پھسر شروع ہو گئی تھی جس میں ڈر اور خوف کی جھلک نمایاں تھی۔ حسب معمول اور حسب عادت بھگوڑے فوجیوں نے مسلمانوں کی بہادری کے قصے مبالغہ آرائی سے سنائے تاکہ لوگ ان بھگوڑے رومیوں کو بزدل نہ سمجھیں، ان کی یہ باتیں لوگوں تک بھی پہنچی اور شہر پر خوف و ہراس طاری ہونے لگا ۔ لوگوں نے پہلے ہی سن رکھا تھا کہ مسلمان اگر خود جنات نہیں تو ان میں جنات والی پراسرار طاقت ضرور موجود ہے اس سے پہلے دوسری جگہوں سے بھاگے ہوئے کچھ لوگ کریون پہنچے تھے اور انہوں نے بھی یہاں کے لوگوں کو ایسی ہی ڈراونی باتیں سنائی تھیں۔
جنرل تھیوڈور اور اس کے جرنیلوں کو پتہ چلا کہ فوج اور لوگوں پر یہ کیفیت طاری ہوگئی ہے تو ان کے لیے اچھا خاصا مسئلہ پیدا ہو گیا۔ وہ فوج اور لوگوں کا جذبہ مضبوط کرنے کی کوشش میں تھے لیکن مسئلہ وہیں رہا جہاں پہلے تھا۔ تھیوڈور اور دوسرے جرنیل بھی جانتے تھے کہ ان کی فوج میں اور لوگوں میں بھی یہی کمزوری پیدا ہو گئی ہے کہ انہوں نے اپنے دلوں پر مسلمانوں کا خوف طاری کر لیا ہے یہ خوف رفع کرنا کوئی آسان کام نہیں تھا ۔جنرل تھیوڈور ایک ہی بات پر زور دیتا تھا کہ ان مسلمانوں کو ایک بار شکست دی جائے اور ان کی لاشیں اور ان کے قیدی اپنے لوگوں کو دکھائے جائیں اور کہا جائے کہ یہ دیکھو ان مسلمانوں کو جن سے تم بلاوجہ ڈرتے رہے ہو۔
ہرقل نے بھی ایسی بہت باتیں سوچی تھیں اور ان پر عمل بھی کیا تھا لیکن کچھ اثر نہیں ہوا تھا ۔اب جرنیل بھی وہ ہی ترکیبیں لڑا رہے تھے، لیکن انہیں معلوم نہیں تھا کہ مسلمان اللہ کے حکم سے لڑتے ہیں اور اللہ نے اپنا فرمان قرآن میں ان الفاظ میں وحی کے ذریعے ان مومنین تک پہنچایا ہے کہ جب مسلمانوں کو لوگوں نے بتایا کہ کفار نے تمہارے مقابلے میں بہت بڑا لشکر اکٹھا کر لیا ہے اس لیے ان سے ڈرو ،تو ہوا یہ کہ مسلمان ڈرنے کی بجائے اپنے ایمان پر اور زیادہ قائم ہو گئے اور ان کا ایمان مستحکم ہو گیا اور انہوں نے کہا کہ ہمیں اللہ کافی ہے اور وہی بہترین سازگار ہے۔
سورہ آل عمران کی اس آیت میں اللہ نے اہل ایمان کو یہ مژدہ سنایا ہے کہ ،کفار تمہارے خلاف کتنا ہی بڑا لشکر اکٹھا کر لیں اگر تم اپنے ایمان پر قائم رہے تو تم اپنے آپ میں قلیل تعداد ہونے کے باوجود کوئی کمزوری نہیں پاؤ گے، اور اللہ تمہارا مددگار اور سازگار ہو گا ، یہ تھی وہ قوت جسے رومی نہیں سمجھ رہے تھے مختصر بات یہ کہ کفار کو شمسیر پر بھروسہ تھا اور اہل ایمان کو اپنے ایمان پر تکیہ تھا اور وہ شمشیر کو بعد کا درجہ دیتے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جنرل تھیوڈور اور اس کے ساتھی جرنیل بہت پریشان تھے کہ اپنی فوج اور لوگوں کے دلوں سے مسلمانوں کا خوف کس طرح نکالا جائے۔ اتنے میں انہیں آسمان سے ایک مدد مل گئی۔ وہ اس طرح کے اسکندریہ سے کچھ دستے کمک لے کر آ گئے یہ قیرس نے بھیجے تھے۔ یہ بزنطیہ سے آئے ہوئے تازہ دم دستے تھے اور ابھی یہ مجاہدین اسلام کے مقابلے میں نہیں آئے تھے۔
اس کمک کے ساتھ چند ایک مبلغ بھی تھے جنہیں قیرس بزنطیہ سے ساتھ لایا تھا۔
معلوم ہوا کہ ایسے کئی ایک مبلغ اردگرد کی بستیوں میں پھیلا دیے گئے ہیں جو لوگوں کو مذہب کی طرف اور مسلمانوں کو شکست دینے کی طرف مائل کر رہے ہیں ۔ کریون میں جو مبلغ آئے انہوں نے آتے ہی لوگوں سے ملنا شروع کردیا، تھیوڈور نے انہیں بتا دیا تھا کہ ان لوگوں پر مسلمانوں کا خوف غالب آگیا ہے یہ خوف رفع کرنا ہے۔
یہ تو ہو نہیں سکتا تھا کہ مجاہدین کا لشکر اس لڑائی کے فوراً بعد وہاں سے چل پڑتا، اپنے شہیدوں کی تجہیز و تکفین کرنی تھی اور زخمیوں کی مرہم پٹی بھی لازمی تھی، اور انہیں کچھ دنوں کی مہلت دینی تھی کہ ان کے زخم بہتر ہو جائیں لشکر کو کچھ آرام بھی دینا تھا رومیوں کے گھوڑے اور ان کے ہتھیار بھی اکٹھے کرنے تھے، اور ایسے بے شمار ہی کام تھے جو کر کے وہاں سے کوچ کرنا تھا۔
مجاہدین کی جو مستورات لشکر کے ساتھ تھیں انھیں دور پیچھے چھوڑ دیا گیا تھا تاکہ میدان جنگ کی زد میں نہ آئیں، انہیں آگے بلا لیا گیا تاکہ وہ زخمیوں کی مرہم پٹی وغیرہ کے سلسلے میں اپنا کام کریں ۔
عمرو بن عاص جلدی میں تھے تاکہ دشمن کو کہیں سنبھلنے اور تیاری کرنے کا موقع نہ مل سکے، پھر بھی کم و بیش ایک مہینہ گزر گیا اور اس ایک مہینے میں کریون میں اور اردگرد کے دور دور تک کے علاقے میں ایک تبدیلی رونما ہوگئی جو مجاہدین کے لیے اچھی نہیں تھی۔
یہ تبدیلی وہ مبلغ لائے تھے جنہیں قیرس بزنطیہ سے اپنے ساتھ لایا تھا۔ ان مبلغوں کے متعلق تاریخ میں کوئی زیادہ تفصیلات نہیں ملتی لیکن ان کی کارکردگی اور پروپیگنڈے کے جو اثرات سامنے آئے ان سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے اپنے مذہب کی تبلیغ تو کی ہی تھی لیکن لوگوں کو مسلمانوں کے مقابلے میں لانے کے لیے کچھ اور ہی پروپیگنڈہ کیا تھا ،اور ایسے طریقے استعمال کیے تھے کہ لوگ ان سے متاثر ہوگئے، کریون کے اردگرد کی آبادیوں اور چھوٹی بڑی بستیوں میں یہ پروپیگنڈہ کیا گیا کہ مسلمانوں کے خلاف کریون میں فیصلہ کن جنگ ہو گی اور اس میں ہر عیسائی کا شامل ہونا مذہبی فریضہ ہے۔
ان مبلغوں نے اور تھیوڈور کے آدمیوں نے بھی اردگرد کے علاقے میں مسلمانوں کے خلاف اچھی خاصی نفرت پیدا کر دی، پروپیگنڈا کچھ اس قسم کا ہوا کہ مسلمان لوٹ مار کے لیے آ رہے ہیں، اور عورتوں کے معاملے میں وہ وحشی ہیں، اور بچوں کو قتل کرنا ایک کھیل سمجھتے ہیں، لوگوں سے یہ بھی کہا گیا کہ مسلمان سب سے پہلے بستیوں پر ٹوٹ پڑیں گے، اور انہیں اجاڑ کر رکھ دیں گے، اور اس کے بعد قلعے کو محاصرے میں لے لیں گے۔ اس پروپیگنڈے کا جس پر مذہب کا رنگ چڑھا ہوا تھا یہ اثر ہوا کہ اردگرد کی بستیوں کے وہ لوگ جو ابھی جوانی کی عمر میں یا لڑنے کی عمر میں تھے کریون شہر میں اکٹھے ہونے لگے اور وہ جرنیل تھیوڈور کو اپنی خدمات اس طرح پیش کرتے تھے کہ انہیں فوج میں شامل کر لیا جائے ، وہ لوگ جو لڑنے کے قابل نہیں تھے اپنی اپنی بساط کے مطابق اپنے جرنیلوں کو ہر طرح کے تعاون اور امداد کا یقین دلارہے تھے ، مختصر یہ کہ لوگوں میں بیداری پیدا ہوگئی تھی اور انہوں نے اپنے دلوں سے مسلمانوں کا خوف جھٹک ڈالا تھا۔ بعض مؤرخوں نے تو یہ بھی لکھا ہے کہ لوگ اس قدر خوفزدہ تھے کہ وہ اکٹھے ہو گئے اور انھیں بتایا گیا کہ اس خوف سے نجات کا یہی ایک ذریعہ ہے کہ اکٹھے ہوکر اپنی فوج کا بازو مضبوط کریں۔
قبطی عیسائیوں کی اچھی خاصی تعداد مجاہدین کے لشکر کے ساتھ تھی، پہلے بتایا جا چکا ہے کہ یہ قبطی لڑنے کے لیے نہیں بلکہ امدادی کاموں کے لیے لشکر کے ساتھ تھے ،مثلاً کسی گہرے اور چوڑے نالے پر پل بنانا ہوتا تو یہ قبطی بناتے تھے، یا راستے میں کوئی اور رکاوٹ آ جاتی تو وہ اس رکاوٹ کو ہٹاتے تھے، ان کاموں کے لئے وہ لشکر سے خاصہ آگے آگے جاتے تھے مصری بدوّ بھی لشکر میں شامل تھے اور وہ باقاعدہ لڑائی میں شریک ہوتے تھے اور لڑنے کے علاوہ رسد اکٹھی کرنے کا کام انہوں نے اپنے ذمے لے رکھا تھا ،ان کے ساتھ مسلمانوں کا سلوک برتاؤ بہت ہی اچھا تھا ،مال غنیمت میں سے انہیں پورا پورا حصہ ملتا تھا ، مسلمانوں کے اس کردار سے وہ اس قدر مطمئن تھے کہ اپنے گھروں کو کبھی واپس جانے کی بات ہی نہیں کرتے تھے۔
مسلمانوں کا جاسوسی کا نظام ہمیشہ بڑا ہی کارآمد رہا ہے ،حالانکہ انہوں نے عیسائیوں اور یہودیوں کی طرح کبھی لڑکیوں کو استعمال نہیں کیا تھا ۔ جاسوس مجاہدین ہر بھیس بدل لیتے اور اپنی اصلیت کو چھپا لیتے کبھی تو وہ اپنے آپ کو یقینی موت یا گرفتاری کے خطرے میں ڈال لیا کرتے تھے ۔
عمرو بن عاص نے اپنے جاسوس آگے بھیج رکھے تھے اب جاسوسوں نے سپہ سالار عمرو بن عاص کو پوری رپورٹ دی تھی کہ بستیوں میں اسکندریہ سے کچھ ایسے لوگ آئے ہیں جو یہاں کے لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف اکسا رہے ہیں، اور انہیں بے بنیاد باتیں بتا رہے ہیں، لوگوں کا جو ردعمل تھا جاسوس نے وہ بھی بتایا اور پھر سپہ سالار کو یہ اطلاع بھی مل گئی کہ یہ لوگ بھی کریون میں اکٹھے ہو رہے ہیں ،اور مجاہدین کے خلاف بڑا ہی مضبوط محاذ بن رہا ہے۔
عمرو بن عاص نے اپنے سالاروں کو بلا کر اس صورت حال سے آگا ہ کر دیا تھا، ان کا دھیان قبطی عیسائیوں اور مصری بدوؤں کی طرف چلا گیا تھا جو مجاہدین کے لشکر کے ساتھ تھے ۔سپہ سالار نے سالاروں کو اس خطرے سے خبردار کردیا اور یہ ہدایت جاری کی کہ نظر رکھی جائے کہ باہر کا کوئی شخص مرد یا عورت ان قبطیوں اور بدوؤں کے پاس نہ آئے، اور ان کا رابطہ باہر کے کسی شخص کے ساتھ نہ ہو ،اس کے ساتھ ہی یہ خیال بھی رکھا جائے کہ ان بدوؤں اور قبطیوں کے ساتھ اپنا سلوک پہلے سے زیادہ اچھا کر لیا جائے۔
اپنی مستورات کو بھی بتا دیا جائے۔۔۔ سپہ سالار نے کہا۔۔۔ انہیں بتا دیں کہ قبطیوں اور بدوؤں کی جو عورتیں ان کے ساتھ ہیں ان کے ساتھ اور زیادہ پیار اور شفقت سے پیش آئیں، اور نظر رکھیں کہ باہر کی کوئی عورت ان کے پاس نہ آئے، اگر کوئی عورت آتی ہے تو اسے منع کرنے کی بجائے اس کے ساتھ عیسائی کی حیثیت سے بات کریں، اور بھید لیں کہ وہ کون ہے اور کیوں آئی ہے،،،،،مجھے اسکندریہ سے خبر مل چکی ہے کہ قیرس مبلغوں کی ایک فوج اپنے ساتھ لایا ہے یہ مبلغ ہر طرف پھیل گئے ہیں اور لوگوں کو اپنے زیر اثر کر رہے ہیں ، ہم نے اس سے زیادہ بڑے خطروں کا مقابلہ کیا ہے، اور اللہ نے ہمیں کامرانی عطا کی ہے ،اگر کریون میں بستیوں کے لوگ فوج کے ساتھ جا ملے ہیں تو اس سے ہمیں ڈرنا نہیں چاہیے یہ ایک بے لگام ہجوم ہے جس کا احساس رومی جرنیلوں کو شاید نہیں ہوا ہم انھیں بکھیر دیں گے۔
ادھر قلعے میں جرنیل تھیوڈور بڑے ہی پرمسرت اور فاتحانہ لہجے میں اپنے جرنیلوں کے ساتھ مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کا پلان بنا رہا تھا ،اسے خوش ہونا ہی چاہیے تھا، کمک کے آجانےسے اور پھر لوگوں کو فوج میں شامل ہونے سے اس کے پاس بے انداز نفری اکٹھی ہوگئی تھی، اسے وہ اتنی بڑی طاقت سمجھتا تھا جس سے ٹکرا کر مجاہدین پاش پاش ہوجائیں گے۔ان عربوں کی تعداد دیکھو ۔۔۔تھیوڈور نے ایسے لہجے میں کہا جس میں غرور اور تکبر کی جھلک تھی۔۔۔ سلطیس کی لڑائی میں انہوں نے ہماری فوج کو شکست دی ہے اور بہت ہی جانی نقصان پہنچایا ہے، لیکن ان کی اپنی تعداد جو پہلے ہی کم تھی اور کم ہوگئی ہے، اب ہم اتنی زیادہ فوج سے انھیں قتل اور مسل کر رکھ دیں گے، انہیں مہلت دو کے یہ شہر کا محاصرہ کر لیں، تم اندازہ کر سکتے ہو کہ یہ جب محاصرہ کر لیں گے تو بکھر جائیں گے کیونکہ محاصرے کے لیے ان کی نفری بہت ہی تھوڑی ہے ان کا محاصرہ کچے دھاگے جیسا ہوگا ، ہم ان پر دستے باہر بھیج کر حملے کرتے رہیں گے اور ان کی تعداد اتنی تھوڑی رہ جائے گی کہ یہ بھاگ نکلیں گے یا ہتھیار ڈال دیں گے۔
یہ بات ذہن میں رکھو کہ مسلمانوں کو ایسا کمزور بھی نہ سمجھنا جیسا میں نے کہا ہے۔ یہ صحرائی سانپ ہیں جو لمبائی میں بہت چھوٹے ہوتے ہیں لیکن ڈس لیں تو آدمی چند سانسیں لے کر مرجاتا ہے۔ مسلمانوں کے اس لشکر کے متعلق اپنے آپ کو کسی دھوکے اور فریب میں نہ رکھنا، انھوں نے ملک شام میں ہرقل کو ایسی ہی تھوڑی تعداد میں شکست دی ہے، اور مصر میں آکر انہوں نے ہمارے جرنیل بھی مار ڈالے ہیں، جن میں اطربون خاص طور پر شامل تھا ،یہ سوچ لو کہ عربوں کو کریون میں ہی شکست دینی ہے اگر ہم ناکام رہے تو ارد گرد کے علاقے کے جو لوگ ہمارے ساتھ آن ملے ہیں وہ ہمارے دشمن ہو جائیں گے، اور مسلمان یہاں سے سیدھے اسکندریہ جا پہنچیں گے اور وہاں تک کے لوگ ان سے مرعوب اور خوفزدہ ہو جائیں گے ۔پھر یہی لوگ ان کا ساتھ دیں گے، عہد کر لو کہ انہیں یہیں کریون میں ہی ختم کرنا ہے۔تاریخ میں آیا ہے کہ جرنیل تھیوڈور نے آخر میں جو الفاظ کہے تھے وہ یہ تھے۔۔۔ حملہ آوروں اور اسکندریہ کی دیوار کے درمیان ہم خود دیوار بن کر کھڑے ہو جائیں گے۔کریون کا قلعہ اور شہر پناہ بہت ہی مضبوط اور چوڑی تھی اس کے ارد گرد کوئی خندق نہیں کھودی گئی تھی لیکن ایک چوڑا نالہ دیوار کے قریب سے گزرتا تھا یہ دراصل ایک گہری اور قدرتی نہر تھی یا اسے نیل کی ایک شاخ کہ لیں۔ اس کا نام ثعبان تھا ۔ قلعے کا صدر دروازہ نالے کی طرف تھا اس طرح یہ نالہ قلعے کی دفاع کا کام کرتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مجاہدین کا لشکر جب کوچ کر کے کریون کے قریب پہنچا تو دیکھا کہ رومی فوج قلعے کے باہر ان کے استقبال کو تیار کھڑی تھی۔ جاسوس مجاہدین نے عمرو بن عاص کو بتایا تھا کہ رومیوں کی جتنی تعداد باہر کھڑی ہے اتنی ہی قلعے کے اندر ہے ۔ عمرو بن عاص نے کچھ اور آگے جاکر اپنے لشکر کو لڑائی کی ترتیب میں کرلیا اب مجاہدین کے لشکر کی تعداد اور ہی کم ہو گئی تھی کیونکہ مجاہدین شہید بھی ہوئے تھے اور کچھ ایسے شدید زخمی ہوئے کہ لڑائی کے قابل نہیں تھے اس کے علاوہ کچھ نفری کو مفتوحہ مقامات کے انتظامات اور امن و امان برقرار رکھنے کے لئے پیچھے چھوڑ آئے تھے۔یہاں بھی حملے میں رومیوں نے پہل کی ان کے حملے کا انداز وہی تھا جو سلطیس کے معرکے میں بیان ہوچکا ھے۔ عمرو بن عاص نے اپنا دماغ حاضر رکھا اور اپنے انداز سے حملے کے مقابلے کے لئے دستے بڑھائے انہوں نے محفوظہ کے دستے پیچھے رکھے ہوئے تھے جنہیں انتہائی خطرناک صورتحال میں استعمال کرنا تھا، رومیوں کا حملہ اس قدر زیادہ طاقتور اور اتنا شدید کے عمروبن عاص کی جگہ کوئی اور ہوتا تو وہ اپنے پورے لشکر کو آگے کر دیتا ۔لیکن عمرو بن عاص کی یہی خوبی تھی کہ وہ یقینی ہلاکت کو اپنے سامنے دیکھ کر بھی دماغ کو حاضر رکھتے تھے اور اطمینان اور تحمل سے سوچ کر چال چلتے تھے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے اپنے لشکر کو خاص طور پر یہ ہدایت دے رکھی تھی کہ دشمن کے ہجوم کے اندر جانے سے بچیں ورنہ وہ گھیرے میں آ کر مارے جائیں گے ،دوسری ہدایت یہ کہ اپنے آپ کو تنظیم میں رکھ کر دائیں بائیں بکھرتے رہیں تاکہ دشمن کا ہجوم بھی بکھر جائے ۔ لیکن رومیوں کی تعداد اتنی زیادہ تھی کہ سپہ سالار کی کسی ہدایت پر عمل کرنا ممکن نظر نہیں آتا تھا۔ تمام سالار سپاہیوں کی طرح لڑ رہے تھے لیکن انہوں نے نظر اپنے دستوں پر رکھی ہوئی تھی کہ وہ تنظیم سے بکھر نہ جائیں، دراصل یہ معرکہ اس نوعیت کا تھا کہ ہر مجاہد اپنی اپنی لڑائی لڑ رہا تھا ۔ایک مؤرخ نے لکھا ہے کہ ہر مجاہد یہ سوچ کر لڑ رہا تھا کہ اس کا سارا لشکر شہید ہو چکا ہے اور رومیوں کو شکست دینا صرف اس کی ذمہ داری ہے۔
سالار زبیر بن العوام حیران کن حد تک دلیر انسان تھے ان کی نظر رومیوں کے پرچم پر تھی جو رومی فوج کے پیچھے تھا ،زبیر اس کوشش میں تھے کہ دو تین مجاہدین کے ساتھ پرچم تک پہنچ جائیں اور پرچم بردار کو گرا کر پرچم غائب کردیں، یہ اس زمانے کا دستور تھا کہ پرچم گر پڑتا تو اس کا مطلب یہ لیا جاتا تھا کہ ان کا بادشاہ یا جو کوئی بھی کمانڈر ہے وہ مارا گیا ہے پوری فوج میں بددلی پیدا ہوجاتی اور فوج پسپا ہونے لگتی تھی ۔سالار زبیر لڑتے ہوئے دشمن کے پیچھے جانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے تھے لیکن رومیوں کا دباؤ اتنا زیادہ تھا کہ سالار زبیر کو مجبورا پیچھے آنا پڑتا تھا ۔گھوڑوں اور پیادوں کی اڑائی ہوئی گرد کے پیچھے سورج اپنا سفر طے کرتا افق تک جا پہنچا اور سورج غروب ھو گیا تو اندھیرا چھانے لگا۔ اس تاریکی نے اس خونریز معرکے کو روک دیا رومی قلعے میں چلے گئے اور مجاہدین پیچھے ہٹ آئے۔
رات سیاہ کالی ہوگئی تو قلعے کا دروازہ کھلا اور بے شمار مشعلیں باہر آئیں، ادھر مجاہدین کی طرف سے بھی مشعلوں کا ایک جلوس میدان جنگ کی طرف چلا یہ مشعل مجاہدین کی مستورات نے اٹھا رکھی تھی اور یہ مستورات زخمی مجاہدین کو پانی پلانے اور انہیں اٹھا کر اور سہارا دے کر پیچھے لانے کے لئے جارہی تھیں ۔قلعے سے جو مشعلیں نکلیں تھیں وہ زیادہ تر آدمیوں کے ہاتھوں میں تھیں اور ان میں عورتیں بھی تھیں یہ عورتیں زخمیوں کو اٹھانے نہیں آئیں تھیں بلکہ اپنے عزیزوں کو ڈھونڈنے آئیں تھیں، پتہ چلا کہ جو فوج باہر لڑی تھی اس میں شہر کے جوان آدمی بھی شامل تھے فوج جب اندر گئی تو کئی شہری واپس نہیں جاسکے تھے اب ان کی مائیں بہنیں وغیرہ انہیں لاشوں اور زخمیوں میں ڈھونڈنے آئی تھیں ،ان میں اکثر اونچی آواز میں رو رہی تھیں، ادھر مسلمان خواتین پر کوئی ماتمی کیفیت طاری نہیں تھی انہیں ہر زخمی کو سنبھالنا تھا ہر زخمی ان کا بھائی بھی تھا بیٹا بھی، ایسا ہرگز نہیں ہوتا تھا کہ یہ عورت پہلے اپنے عزیزوں کو تلاش کرتیں، اس موقع پر ایک واقعہ ہوگیا ایسے واقعات عام طور پر نہیں ہوا کرتے تھے، ہوا یہ کہ تین چار مسلمان خواتین لاشوں اور زخمیوں میں اپنے مجاہدین کو ڈھونڈ رہی تھیں۔۔۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
الکمونیا ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟡  𝟘  𝟙⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
غداروں کو اس نے اتنا کمزور اور بے بس کردیا ہے کہ وہ اب ہمارے کسی کام کے نہیں رہے۔ اب کوئی مسلمان حکمران ایسا نہیں رہا جو صلاح الدین ایوبی پر عقب سے حملہ کرے۔ ہم نے حشیشین کو بھی آزما دیکھا ہے۔ وہ چار پانچ قاتلانہ حملوں میں بھی اسے قتل نہیں کرسکے۔ اب اس کے سوا کوئی چارہ کار اور کوئی حل اور راستہ نہیں رہا کہ ہم مل کر سلطان صلاح الدین ایوبی پر یلغار کریں لیکن اپنے جرنیلوں نے یہ مشورہ دیا ہے کہ حملے میں پہل اسے کرنے دیں۔ اس کی مجھے دو وجوہات بتائی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ اپنی فوجوں کو اتنی دور نہیں لے جانا چاہیے کہ رسد کے راستے مسدود اور خطرناک ہوجائیں اور دوسری وجہ یہ ہے کہ صلاح الدین ایوبی جس طریقے کی جنگ لڑتا ہے، اس سے ہمیں اپنی فوج دور دور تک پھیلانی پڑتی ہے۔ اب جبکہ دشمن کے علاقے میں ہمارا کوئی حامی نہیں رہا، اس لیے ہمیں حملے کا خطرہ سوچ سمجھ کر مول لینا چاہیے''…
''ہمیں زیادہ انتظار نہیں کرنا پڑے گا۔ جاسوسوں کی اطلاع کے مطابق صلاح الدین ایوبی یروشلم کی طرف پیش قدمی کا فیصلہ کرچکا ہے۔ یہ تمہیں دیکھنا ہے کہ اس کی پیش قدمی کا راستہ کون سا ہوگا اور وہ سیدھا یروشلم کی طرف آئے گا یا کیا کرے گا۔ ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنی چاہیے کہ ہم اکیلے اکیلے اس کے خلاف نہیں لڑ سکتے۔ اب تم متحد ہوگئے ہو۔ صلیب اعظم کو یہاں اٹھا لانے کا مقصد یہ ہے کہ تم سب ایک ہی بار صلیب پر ہاتھ رکھ کر حلف اٹھائو کہ تم دشمن کے خلاف یک جان ہوکر لڑو گے اور ذاتی رنجشوں اور ذاتی مفادات کو نظرانداز کرکے متحدہ مفاد کے لیے لڑو گے اور یہ مفاد صلیب اعظم اور یسوع مسیح کے عقیدے کا ہوگا اور تم سب اسلام کے خاتمے کے لیے لڑو گے''۔
سب اٹھے۔ انہوں نے صلیب پر ہاتھ رکھے اور عکرہ کے پادری نے حلف کے جو الفاظ کہے، وہ سب نے دہرائے۔
دوسرے دن سب بہت دیر سے جاگے۔ رات جب پادری نے انہیں چھٹی دی تو وہ شراب اور رقص میں مگن ہوگئے۔ وہ اپنی اپنی پسند کی لڑکیاں ساتھ لائے تھے۔ ان کے حسن وجمال، نیم عریاں جسموں، کھلے بکھرے ہوئے ریشمی بالوں، ناز وادا اور شراب نے اس خطے کو جنت ارضی بنائے رکھا۔ دوسرے دن کا سورج طلوع ہوچکا تھا مگر صلیبیوں کے اس شاہانہ کیمپ میں نیند نے موت کا سکوت طاری کررکھا تھا۔
شہزادہ ارناط کے خیمے سے ایک جواں سال لڑکی نکلی۔ بہت ہی خوبصورت اور لمبے قد کی لڑکی تھی۔ اس کا رنگ دلکش تھا اور اس کی آنکھوں میں سحر تھا لیکن یہ رنگ اور یہ آنکھیں صلیبی یا یہودی لڑکیوں جیسی نہیں تھی۔ یہ سوڈان، مصر یا دمشق جیسے علاقوں کی پیداوار معلوم ہوتی تھی۔ اس کے حسن کی یہی ضمانت کافی تھی کہ ارناط اسے اپنے ساتھ لایا تھا۔
اسے دیکھ کر ایک بوڑھی خادمہ دوڑتی اس تک پہنچی۔ وہاں جو فوج ان حکمرانوں کے ساتھ گئی تھی، اس کی اتنی نفری نہیں تھی جتنی تعداد نوکروں اور نوکرانیوں کی ساتھ تھی۔ اس لڑکی کو ارناط پر نسیس للی کہا کرتا تھا۔ وہ شکل وصورت اور قد بت سے شہزادی ہی لگتی تھی۔ اس نے خادمہ سے کہا کہ صرف میرے لیے ناشتہ جلدی لائو اور بگھی تیار کرو، میں اس علاقے کی سیر کو جارہی ہوں۔
ارناط گہری نیند سویا ہوا تھا، اسے جاگنے کی کوئی جلدی نہیں تھی، وہاں تو صرف پادری صبح سویرے جاگا اور عبادت کرکے پھر سوگیا تھا۔ للی کے لیے کوئی کام نہیں تھا۔ ناشتہ آنے تک وہ تیار ہوگئی اور جب ناشتہ کرچکی تھی تو بگھی آچی تھی۔ یہ دو گھوڑوں کی خوبصورت بگھی تھی۔ کرک سے ارناط کے ساتھ وہ اسی بگھی میں آئی تھی۔
بگھی میں بیٹھنے سے پہلے اس نے بگھی بان سے کہا… ''یہ علاقہ بہت خوبصورت لگتا ہے۔ میں سیر کے لیے جانا چاہتی ہوں۔ تم اس جگہ سے واقف تو نہیں ہوگے؟''
''اچھی طرح واقف ہوں شہزادی محترمہ!'' بگھی بان نے جواب دیا… ''اگر آپ سیر کے لیے جانا چاہتی ہیں تو میں کمان اور ترکش لیے چلتا ہوں۔ آپ شکار بھی کھیل سکتی ہیں۔ یہاں ہرن زیادہ تو نہیں لیکن کہیں کہیں نظر آجاتے ہیں۔ خرگوش عام ہیں، پرندے ہیں''۔
للی نے مسکرا کر کہا… ''کیا تم مجھے تیر انداز سمجھتے ہو؟''… جائو لے آئو۔
''کوئی مشکل نہیں''۔بگھی بان نے کہا… ''آپ لڑائی پر تو نہیں جارہیں۔ شکار پر چلایا ہوا تیر خطا ہوگیا تو کیا ہوجائے گا''۔
وہ دوڑتا گیا اور کمان اور ترکش اٹھایا۔
بگھی خیمہ گاہ سے بہت دور چلی گئی۔ یہ خطہ سرسبز تھا۔ درخت بھی خاصے تھے اور اونچی نیچی ٹیکریاں تھیں۔ مارچ اپریل کے دن تھے، بہار کا موسم تھا۔ اس سے یہ خطہ اور زیادہ خوبصورت ہوگیا تھا۔ بگھی آہستہ آہستہ چلی جارہی تھی۔ ایک جھنڈ کے نیچے للی کے کہنے پر بگھی رک گئی اور وہ اتری۔ اس کا بگھی بان سیبل نام کا عیسائی تھا اور انہی علاقوں کا رہنے والا تھا۔ اس کی عمر تیس سال سے کچھ اوپر ہوگی۔ خوبرو اور دراز قد جوان تھا۔ اسی لیے اسے ارناط نے بگھی کے لیے منتخب کیا تھا۔ للی کو بھی یہ آدمی پسند تھا۔ زندہ دل اور فرمانبردار تھا۔ للی جب ارناط کے پاس آئی، اس سے ایک سال بعد سیبل ان کے پاس آیا تھا۔
''مسلمانوں کی سرحد کہاں سے شروع ہوتی ہے؟'' للی نے بگھی سے اتر کر پوچھا۔
''جہاں تک کسی کی فوج پہنچ کر ڈیرے ڈال دے، وہ اس کی سرحد بن جاتی ہے''۔ بگھی بان نے جواب دیا… ''میں آپ کو اتنا بتا سکتا ہوں کہ یہاں سے آٹھ دس میل دور سمندر کی طرح ایک وسیع جھیل ہے جس کا نام گیلیلی ہے۔ اس کے کنارے طبریہ نام کا ایک قصبہ ہے۔ اس سے کچھ ادھر حطین نام کا ایک مشہور گائوں ہے۔ اس جھیل سے آگے سے مسلمانوں کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے''۔
''یعنی مسلمانوں کا علاقہ یہاں سے دور نہیں''۔ للی نے کہا… ''کیا ہم بگھی پر جھیل تک جاسکتے ہیں؟''۔
''ہم کرک سے بگھی پر آئے ہیں''۔ سیبل نے کہا… ''جھیل تو یہ قریب ہے۔ یہ دو گھوڑے بغیر تھکے وہاں تک پہنچا سکتے ہیں''۔
للی نے بچوں کی طرح اس سے راستہ پوچھنا شروع کردیا اور بگھی بان زمین پر لکیریں ڈال کر اسے راستہ سمجھانے لگا۔
''دمشق کو بھی راستہ جاتا ہوگا؟'' للی نے پوچھا۔
بگھی بان نے اسے دمشق تک کا راستہ سمجھا دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
للی نے ترکش سے تیر نکالا اور درختوں میں پرندے دیکھنے لگی۔ اس نے ایک پرندے پر تیر چلایا جو خطا گیا۔ للی نے قہقہہ لگایا۔ بگھی بان نے اسے شست لینے کا طریقہ سمجھایا۔ اس نے کچھ تیر ادھر ادھر چلائے۔
''اور آگے چلو''۔ للی نے بگھی میں بیٹھتے ہوئے کہا… ''اس جگہ چلوں جہاں ہرن ہوں۔میں ہرن کو تو مار لوں گی''۔
سیبل اسے ڈیڑھ دو میل دور لے گیا۔ ایک جگہ بگھی روک کر اس نے کہا کہ تھوڑی دیر انتظار کریں، شاید کوئی ہرن یا خرگوش نظر آجائے۔ وہ خود ایک طرف کو چل پڑا۔ کوئی بیس قدم دور ایک درخت تھا۔ سیبل اس کے ساتھ کندھا لگا کر کھڑا ہوگیا۔ وہ شہزادی للی کے لیے ہرن یا خرگوش دیکھ رہا تھا۔ للی کی طرف اس کی پیٹھ تھی۔ للی نے کماند میں تیر ڈالا اور سیبل کی پیٹھ کا نشانہ لیا۔ اسے کوئی دیکھتا تو یہ یہی کہتا کہ للی مذاق کررہی ہے۔ اس نے کمان کھینچی، اس کے ہاتھوں میں کمان کانپ رہی تھی۔ ایک آنکھ بند کیے وہ سیبل کی پیٹھ کا نشانہ لیے ہوئے تھی۔
اس نے کمان اور زیادہ کھینچی اور تیر چلا دیا۔ تیر سیبل کے کندھے کے بالکل قریب درخت کے تنے میں لگا۔ سیبل گھبرا کر ہٹا اور مڑا۔ اس نے درخت میں اترے ہوئے تیر کو پھر للی کو دیکھا مگر للی ہنس نہیں رہی تھی۔ اس کے چہرے پر ایسی سنجیدگی تھی جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ پھر بھی اس نے ہنس کر کہا… ''آپ مجھ پر تیراندازی کی مشق کررہی ہیں؟''… اور وہ للی کی طرف چل پڑا۔
للی نے ترکش سے اور تیر نکال کر کمان میں ڈال لیا اور بولی… ''وہیں رک جائو اور ادھرادھر نہ ہونا''۔
سیبل رک گیا اور للی نے کمان سامنے کرکے ایک بار پھر کھینچ۔ سیبل نے چلا کر کہا… ''شہزادی آپ کیا کررہی ہیں''۔
شہزادی کی کمان سے تیر نکلا، سیبل کی نظریں اسی پر تھیں۔ وہ بیٹھ گیا اور تیر زناٹے سے اس کے قریب سے گزر گیا۔ سیبل شہزادی کا احترام اور اپنی حیثیت کو بھول گیا۔ للی ترکش سے ایک اور تیر نکال رہی تھی۔ سیبل بڑی ہی تیزی سے اس کی طرف دوڑا۔ للی اتنی جلدی تیر نکال کر کمان میں نہ ڈال سکی۔ سیبل سا پر لپکا تو للی دوڑ کر پرے ہوگئی لیکن سیبل مرد تھا اور جوان بھی تھا۔ دوڑ کر للی تک پہنچا اور اسے پکڑ لیا۔ اس سے کمان چھین لی اور اس کے کندھوں سے ترکش بھی اتارلی۔
''میں ان غلاموں میں سے نہیں ہوں جن پر ان کے آقا ہر طرح کا ظلم کرتے ہیں''۔ سیبل نے کہا اور ایک تیرکمان میں ڈال کر کمان للی پر تانی۔ بولا … ''کیا تم مجھ پر مشق کرنا چاہتی ہو؟ کیا میری خدمات اور فرمانبرداری کا یہ صلہ ہے؟''
للی نے کوئی جواب نہ دیا۔ اس کے ہونٹ کانپے اور اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ سیبل نے کمان پرے پھینک دی اور آہستہ آہستہ اس کے قریب گیا۔
''میں کچھ بھی نہیں سمجھ سکا کہ آپ نے مجھ پر تیر کیوں چلائے اور آپ کی آنکھوں میں آنسو کیوں آگئے ہیں؟'' سیبل نے پوچھا۔
''تم میری کوئی مدد نہیں کرسکتے؟'' للی نے ایسے لہجے میں کہا جو کسی شہزادی کا نہیں ایک ڈری ہوئی لڑکی کا لہجہ تھا۔
''میں آپ کی خاطر جان تک د ے سکتا ہوں''۔ سیبل نے کہا۔ ''کیسی مدد؟''
''انعام سے مالامال کردوں گی''۔ للی نے کہا… ''مجھے انعام کے طور پر مانگو گے تو یہ بھی قبول کروں گی۔ مجھے جھیل گیلیلی سے آگے مسلمانوں کے علاقے میں لے چلو… دمشق تک چلو۔ وہاں یہ بگھی اور دونوں گھوڑے تمہارے ہوںگے۔ انعام الگ دلوائوں گی''۔
''مجھے شک ہے، آپ کے د ماغ پر کوئی اثر ہوگیا ہے''۔ سیبل نے کہا… ''چلئے، واپس چلیں''۔
''اگر میری بات نہیں مانو گے تو واپس جاکر شہزادہ ارناط سے کہوں گی کہ تم نے یہاں مجھ پر دست درازی کی تھی''۔ للی نے اس کی سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا۔
''اچھا ہوا، آپ نے بتا دیا''۔ سیبل نے کہا… ''اب آپ واپس نہیں جائیں گی، نہ میں واپس جارہا ہوں۔ آپ کے ہاتھ پائوں باندھ کر بگھی میں ڈال لوں گا اور کسی شہر میں جاکر آپ کو بردہ فروشوں کے ہاتھ بیچ ڈالوں گا… مجھے بتائو مسلمانوں کے پاس کیوں جانا چاہتی ہو؟''
تب للی کو احساس ہوا کہ وہ ایک جال میں پھنس گئی ہے۔ وہ بیٹھ گئی اور سر گھٹنوں میں دے کر سسکنے لگی۔ سیبل اسے دیکھتا رہا۔ یہ لڑکی اس کے لیے اجنبی نہیں تھی لیکن اب وہ اسے غور سے دیکھنے لگا۔ اس کے بال، اس کی رنگت اور اس کی ڈیل ڈول صلیبی لڑکیوں جیسی نہیں تھی۔ اسے معلوم تھا کہ صلیبیوں کے پاس مسلمانوں کی اغوا کی ہوئی لڑکیاں بھی ہیں۔ یہ بھی شاید مغویہ ہوگی لیکن اسے تو وہ تین سالوں سے خوش وخرم دیکھ رہا تھا۔ وہ اس کے پاس بیٹھ گیا۔
''اگر مسلمان ہو تو بتا دو''۔ سیبل نے کہا۔ ''تمہیں شاید اغوا کیا گیا تھا''۔
''اور تم شہزادہ ارناط کو بتا کر انعام لو گے''۔ للی نے کہا… ''اور اسے بتائو گے کہ میں نے بھاگنے کی کوشش کی تھی''… اسے سیبل کے گلے میں ایک ڈوری لٹکتی نظر آئی۔ اس نے یہ ڈوری کھینچی تو چھوٹی سی صلیب ڈوری سے باندھی ہوئی باہر آگئی۔ للی نے کہا… ''اسے ہاتھ میں لے کرقسم کھائو کہ مجھے دھوکہ نہیں دو گے، رناط کو نہیں بتائو گے کہ میں نے تم پر تیر کیوں چلائے تھے''۔
سیبل اس کی اصلیت سمجھ گیا اور بولا۔ ''صلیب پر کھائی ہوئی قسم جھوٹی ہوگی''۔ اس نے صلیب کی ڈوری گلے سے اتاری اور صلیب پرے پھینک دی۔ کہنے لگا… ''مسلمان صلیب پر قسم نہیں کھایا کرتے''۔
للی نے چونک کر سیبل کو دیکھا جیسے اسے سیبل کے ا لفاظ پر یقین نہ آرہا ہو۔ اس نے صلیب کو دیکھا جو پرے زمین پر پڑی تھی۔ کوئی صلیبی کتنا ہی گناہ گار کیوں نہ ہو، صلیب کی توہین نہیں کرتا۔ سیبل کو بہرحال یقین آگیا تھا کہ للی کسی مسلمان کی بیٹی ہے۔
''میں نے تم پر اپنا راز فاش کردیا ہے''۔ سیبل نے کہا… ''اب تم مجھے بتا دو کہ تمہیں کب اور کہاں سے اغوا کیا گیا تھا''۔
''میں حج کعبہ سے اپنے والدین کے ساتھ مصر کو واپس جارہی تھی''۔ للی نے ڈرے ہوئے بچے کی طرح کہا… ''بہت بڑا قافلہ تھا۔ اس وقت میری عمر سولہ سترہ سال تھی۔ چار ساڑھے چار سال گزر گئے ہیں، کرک کے قریب ان کافروں نے قافلے پر حملہ کیا اور مال واسباب لوٹ لیا۔ انہوں نے بہت کشت وخون کیا تھا۔ مجھے معلوم نہیں کہ میرے والدین مارے گئے تھے یا زندہ ہیں۔ یہ کافر مجھے اپنے ساتھ لے آئے۔ یہ شاید میری بدقسمتی تھی کہ میں اتنی خوبصورت تھی کہ والئی کرک شہزادہ ارناط نے مجھے پسند کرلیا اور اپنے لیے رکھ لیا۔ اگر میں اتنی خوبصورت نہ ہوتی تو معلوم نہیں کیسے کیسے درندوں کے ہاتھوں اب تک مرچکی ہوتی''…
''شہزادہ ارناط کے آگے میں بہت روئی مگر بے کار تھا۔ اس نے کہا کہ میں اپنی بادشاہی چھوڑ دوں گا، تمہیں نہیں چھوڑوں گا۔ پھر اس نے مجھے شہزادیوں کی طرح رکھا۔ اس نے میرے ساتھ شادی نہیں کی اور مجھے اپنا مذہب قبول کرنے کو بھی نہیں کہا۔ میں اس کی عیاشی کا ذریعہ بنی رہی۔ اس کے پاس کئی اور جوان لڑکیاں تھیں۔ وہ میری دشمن بن گئیں لیکن ارناط صرف مجھے ساتھ رکھتا اور میری بات مانتا تھا۔ میں نے اپنی اس حالت کو قبول کرلیا۔ میں اور کر بھی کیا سکتی تھی۔ عورت کی قسمت یہی ہوتی ہے کہ جس کے قبضے میں آجائے، اس کی ملکیت اور اسی کی غلام ہوتی ہے''۔
وہ بولتے بولتے چپ ہوگئی۔ سیبل کو غور سے دیکھ کر بولی… ''کیا تم یہ ساری باتیں شہزادہ ارناط کو سنا دو گے؟ پھر وہ مجھے کیا سزا دے گا؟''۔
''اگر وہ واقعی سیبل ہوتا تو یہی کرتا جو تمہیں ڈر ہے''۔ بگھی بان نے کہا… ''میں شامی مسلمان ہوں۔ میرا نام بکر بن محمد ہے''۔
''تم ان جاسوسوں میں سے تو نہیں جن کے متعلق ارناط کہا کرتا ہے کہ ہمارے ملک میں چھپے ہوئے ہیں؟'' لڑکی نے پوچھا اور بولی… ''میرا نام کلثوم ہوا کرتا تھا''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
''میں جو کچھ بھی ہوں''۔ بکر نے جواب دیا۔ ''مسلمان ہوں، میں تمہیں دھوکہ نہیں دوں گا۔ یہ کوئی نئی بات نہیں کہ ایک اغوا کی ہوئی مسلمان لڑکی کی ملاقات کسی ایسے مسلمان سے ہوگئی جو صلیبیوں کے پاس عیسائیوں کے بہروپ میں ملازم تھا۔ ایسے واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں۔ یہاں تک بھی ہوا ہے کہ بھائی جاسوس بن کر صلیبیوں کے کسی شہر میں گیا تو وہاں اس کی ملاقات اپنی بہن سے ہوگئی جو بہت عرصہ پہلے تمہاری طرح اغوا ہوئی تھی۔ حیران نہ ہو کلثوم! تم حج کعبہ سے واپس آرہی تھی۔ خدا نے تمہارا حج قبول کرلیا ہے۔ میں عالم فاضل نہیں کہ تمہیں بتائوں کہ خدا نے تمہیں یہ سزا کیوں دی ہے۔ البتہ اب یوں نظر آتا ہے جیسے خدا نے تم سے کوئی نیکی کا کام کرانے کے لیے اس جہنم میں پھینکا تھا… تم صرف فرار ہونا چاہتی ہو یا فرار کا کوئی مقصد بھی ہے؟''
''بہت بڑا مقصد''۔ کلثوم نے کہا… ''تم شاید نہیں جانتے کہ عکرہ کے پادری نے ان صلیبیوں کو یہاں کیوں بلایا ہے۔ رات ارناط جب اپنے خیمے میں آیا تو وہ نشے میں جھوم رہا تھا۔ اس نے مجھے بازوئوں پر اٹھا لیا اور بولا… ''بہت بڑے ملک کی ملکہ بننے والی ہو، صلاح الدین ایوبی چند دنوں کا مہمان ہے۔ وہ ہمارے جال میں آرہا ہے۔ بہت جلدی آرہا ہے''… میں نے خوشی کا اظہار کیا اور اس سے پوچھا کہ ان کا منصوبہ کیا ہے۔ اس نے مجھے پوری تفصیل سے بتا دیا کہ یہاں جتنے صلیبی حکمران آئے ہیں، انہوں نے صلیب پر ہاتھ رکھ کر اتحاد اور ایک دوسرے سے وفاداری کا حلف اٹھایا ہے''۔
''میرے فرار کا مقصد یہی ہے کہ سلطان ایوبی تک یہ خبر پہنچائوں کہ صلیبیوں کے ارادے اور منصوبے کیا ہیں اور انہوں نے کتنی فوج جمع کرلی ہے اور اسے کہاں کہاں تقسیم کرکے پھیلایا ہے۔ ارناط نے مجھے بتایا ہے کہ یہ لوگ حملہ کرنے نہیں جائیں گے بلکہ سلطان ایوبی کو حملے کاموقعہ دیں گے تاکہ وہ اپنے مستقر سے دور آجائے اور اس کی رسد کے راستے لمبے ہوجائیں۔ ان کا ارادہ یہ بھی ہے کہ اگر سلطان ایوبی نے کچھ عرصے تک حملہ نہ کیا تو یہ لوگ تین اطراف سے پیش قدمی اور یلغار کریں گے''۔
''تمہیں اچانک یہ خیال کیوں آیا ہے کہ خبر سلطان ایوبی تک پہنچنی چاہیے؟'' بکر بن محمد نے پوچھا اور اسے بتایا… ''کلثوم! میں اسی میدان کا مجاہد ہوں، اگر میں تمہیں کہوں کہ تم ارناط کے کہنے پر سلطان ایوبی کو غلط خبر دینے جارہی ہو تاکہ وہ گمراہ ہوجائے تو اس کا کیا جواب دو گی؟''
''یہ کہ تم کم عقل آدمی ہو''… کلثوم نے جواب دیا… ''اگر تم سلطان ایوبی کے جاسوس ہو تو تم بے وقوف جاسوس ہو۔ تم اپنی فوجوں کو صلیبیوں کے ہاتھوں مروائو گے۔ اگر ارناط سلطان ایوبی کو گمراہ کرنے کی سوچتا تو وہ کوئی اور ذریعہ اختیار کرسکتا تھا؟ اگر وہ یہ کام مجھ سے ہی کرانا چاہتا تو مجھے رات کو بگھی پر بٹھا کر مسلمانوں کے علاقوں کے قریب نہ چھوڑ آتا… سنو بکر! غور سے سنو۔ میں نے تم پر پہلا جو تیر چلایا تھا، اس کا ارادہ اچانک بجلی کی طرح میرے دماغ میں آیا تھا۔ میں تو صرف سیر کے لیے نکلی تھی۔ یہ تم تھے جس نے کہا تھا کہ تیروکمان ساتھ لے چلیں، یہاں شکار ہوگا''…
''یہاں آکر میں نے تم سے مسلمانوں کی سرحد اور دمشق کے جو راستے پوچھے، وہ یہ معلوم کرنے کے لیے پوچھے تھے کہ اس سرحد سے کتنی دور ہوں اور کیا میں آسانی سے وہاں تک پہنچ سکتی ہوں؟ تم نے جب بتایا کہ وہ علاقہ چند میل دور ہے تو میں سوچنے لگی کہ تمہیں کوئی لالچ دے کر ساتھ لے چلوں لیکن تمہیں میں عیسائی سمجھتی رہی اور بالکل امید نہیں رکھتی تھی کہ تم میری مدد کروں گے بلکہ امید یہ تھی کہ تم ارناط سے انعام لینے کے لیے اسے بتا دو گے کہ یہ لڑکی مسلمانوں کی جاسوس ہے۔ میرے لیے کوئی راستہ نہیں تھا۔ تم مجھ سے تھوڑی دور درخت کے ساتھ لگ کر کھڑے ہوگئے تو میں نے درخت پر ایک پرندے پر تیر چلانے کے لیے تیر کمان میں ڈالا۔ اس وقت میری نظریں تمہاری پیٹھ پر جم گئیں''…
''تب مجھے اچانک خیال آیا کہ تم اتنے قریب ہو کہ تیر تمہاری پیٹھ میں گہرا اتر جائے گا اور مجھے دوسرا تیر چلانے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ تم مرجائو گے تو میں بگھی بھگا کر اس راستے پر ہولوں گی جو تم نے مجھے سمجھا دیا تھا۔ میں نے کوئی اور خطرہ سوچا ہی نہیں تھا۔ شاید مجھ میں عقل کم اور جذبات زیادہ تھے اور ان جذبات میں انتقام کا جذبہ زیادہ تھا۔ میں نے کانپتے ہاتھوں سے تیر چلا دیا۔ مجھ میں یہ اتنی سی بھی عقل نہ رہی کہ تمہیں کہہ دیتی کہ تیر غلطی سے نکل گیا ہے۔ تم فوراً مان لیتے کیونکہ تم جانتے ہو کہ میں نے کبھی کمان ہاتھ میں نہیں لی تھی۔ میں نے یہی راہ نجات دیکھی کہ تمہیں مار ہی ڈالوں اور مسلمانوں کے علاقے کی طرف بھاگ جائوں مگر میں کامیاب نہ ہوسکی''۔
''اس سے پہلے تمہیں کبھی بھاگنے کا خیال نہیں آیا؟'
'' بکر بن محمد نے پوچھا۔''ابتدا میں بھاگنے کا ہی خیال میرے دماغ پر سوار رہا مگر مجھے حقیقت کو قبول کرنا پڑا کہ میں بھاگ نہیں سکتی''۔ اس نے جواب دیا… ''اس میں کوئی شک نہیں کہ ارناط نے مجھے صحیح معنوں میں شہزادی بنا دیا تھا۔ وہ کہا کرتا تھا کہ مجھے کسی لڑکی سے کبھی ایسی محبت نہیں ہوئی تھی، جیسی تم سے ہوئی ہے۔ میں اس کے ساتھ شراب بھی پیتی رہی۔ اس سے میں بچ نہیں سکتی تھی۔ جسمانی طور پر میں اس زندگی میں تحلیل ہوچکی تھی۔ ایسی شاہانہ زندگی تو کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن تنہائی میں میرا دل مسلمان ہوجاتا تھا اور یہ خیال مجھے تڑپا دیتا تھا کہ میں حج کعبہ سے آئی ہوں۔ کبھی کبھی میں خدا سے گلے شکوے بھی کیا کرتی تھی اور اکثر یوں ہوتا کہ میںخدا کو بھول جاتی تھی''…
''اسی دوران سلطان ایوبی نے کرک کا محاصرہ کیا اور آتشیں گولے پھینک کر شہر کا بہت سا حصہ تباہ کردیا تھا۔ میں تیار ہوگئی تھی کہ اپنی فوج شہر میں داخل ہوجائے گی اور میں ارناط کو اپنے ہاتھوں قتل کردوں گی مگر ہوا یوں کہ ایک ماہ بعد سلطان ایوبی نے محاصرہ اٹھا لیا اور واپس چلا گیا۔ ارناط قہقہے لگاتا میرے پاس آیا اور بولا… ''میں نے اسے پھر بے وقوف بنا لیا ہے۔ میں نے اس کے ساتھ معاہدہ کرلیا ہے کہ آئندہ حاجیوں کے قافلوں پر ہاتھ نہیں اٹھائوں گا اور میں نے اس کے ساتھ جنگ نہ کرنے کا بھی معاہدہ کرلیا ہے''…
''میرے دل کو بہت صدمہ ہوا۔ سلطان ایوبی کو واپس نہیں جانا چاہیے تھا۔ مجھے رہا کرائے بغیر اسے محاصرہ نہیں ا ٹھانا چاہیے تھا''۔
''سلطان ایوبی کے سامنے اس سے زیادہ بڑی مہم ہے''۔ بکر نے کہا… ''اسے بلکہ ہمیں بیت المقدس آزاد کرانا ہے جہاں ہمارا قبلۂ اول ہے۔ ہمیں ارض فلسطین کو آزاد کرانا ہے جو ہمارے نبیوں اور پیغمبروں کی سرزمین ہے اگر سلطان ایوبی ایک ایک مسلمان لڑکی کو آزاد کرانے نکل کھڑا ہو تو وہ اپنی منزل مقدس سے د ور بھٹکتا اور لڑتا ختم ہوجائے گا… قومیں اتنے مقدس مقصد کی خاطر اپنے بچوں کو قربان کردیا کرتی ہیں''۔
''ارناط کی ایک بری عادت نے مجھے یہ فراموش نہ کرنے دیا کہ میں مسلمان ہوں''۔ کلثوم نے کہا… ''وہ رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرتا رہتا ہے۔ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ سلطان ایوبی اپنے قبلۂ اول تک پہنچنے کے لیے ہاتھ پائوں مار رہا ہے اور ہم اس کے خانہ کعبہ کو مسمار کرنے اور اپنی عبادت گاہ بنانے کے لیے جارہے ہیں''۔
صلیبیوں کے ان عزائم کا تذکرہ یورپی مؤرخوں نے بھی کیا ہے کہ صلیبیوں نے خانہ کعبہ اور رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا روضۂ مبارک مسمار کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا تھا اور ایک بار وہ مدینہ منورہ سے تین میل دور تک پہنچ بھی گئے تھے۔ کرک کا جو محاصرہ سلطان ایوبی نے کیا اور ایک ماہ بعد اٹھا لیا تھا، یہ بھی ایک تاریخی واقعہ ہے۔ محاصرہ اٹھانے کی وجہ یہ نہیں تھی کہ ارناط نے جنگ نہ کرنے اور آئندہ حاجیوں کے قافلوں پر حملے نہ کرنے کا معاہدہ کرلیا تھا۔ وہ تو سلطان ایوبی کو معلوم تھا کہ صلیبی معاہدے توڑنے کے لیے کیا کرتے ہیں۔ محاصرہ اٹھانے کی اصل وجہ یہ تھی کہ وہ بیت المقدس کی فتح کی تیاریوں میں مصروف تھا۔ ارناط نے اس معاہدے کے دو ہی سال بعد حاجیوں کے ایک اور قافلے پر حملہ کیا تھا۔ اس معاہدے کی میعاد ١١٨٨ء تک تھی۔ سلطان ایوبی نے ١١٨٧ء میں حطین کی طرف پیش قدمی کی تھی اور اس عہد کے ساتھ وہ دمشق سے نکلا تھا کہ ارناط کو اپنے ہاتھوں قتل کرے گا۔
کلثوم بکر کو بتا رہی تھی… ''ارناط کے ساتھ میں خوش بھی رہی اور میرے دل میں انتقام بھی موجود رہا۔ وہ کبھی کبھی مجھے بتایا کرتا تھا کہ سلطان ایوبی کے جاسوس بھیس بدل کر آجاتے ہیں اور یہاں کے راز لے جاتے ہیں۔ اس نے یہ بھی بتایا تھا کہ بڑی ہی حسین صلیبی اور یہودی لڑکیاں مسلمانوں کے علاقوں میں مسلمانوں کی طرح کے ناموں سے اونچے رتبوں اور عہدوں والے حاکموں کو جال میں پھانس لیتی اور انہیں صلیب کے مقاصد کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ ارناط مجھے ان لڑکیوں کی کہانیاں سنایا کرتا تھا۔ یہ سن کر مجھے کئی بار خیال آیا کہ یہ لڑکیاں اپنے مذہب کے لیے اپنی آبرو قربان کردیتی ہیں۔ عصمت ہی وہ موتی ہے جس کے تحفظ کے لیے عورت جان پر کھیل جاتی ہے لیکن یہ لڑکیاں اتنی بڑی قربانیاں دے ڈالتی ہیں''…
''میری آبرو تو لٹ ہی چکی تھی۔ میں نے ارادہ کرلیا کہ اپنے مذہب کے لیے قربانی دوں گی مگر مجھے موقعہ نہیں ملتا تھا۔ اب یہاں آکر ارناط نے مجھے ایسے راز دے دیا ہے جو سلطان ایوبی تک پہنچنا چاہیے۔ شاید خدا نے مجھے اسی نیکی کے لیے اس جہنم میں بھیجا تھا! کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ اس خبر سے سلطان ایوبی کو کوئی فائدہ پہنچے گا؟''
''بہت زیادہ''۔ بکر بن محمد نے کہا… ''لیکن یہ خبر تم لے کر نہیں جائو گی۔ اگر تم یا ہم دونوں یہاں سے غائب ہوگئے تو شہزادہ ارناط فوراً سمجھ لے گا کہ ہم دونوں جاسوس تھے۔ اس طرح یہ اپنے منصوبوں میں ردبدل کردیں گے اور ہم سلطان ایوبی تک جو خبر پہنچائیں گے، وہ ا س کی شکست کا باعث بن سکتی ہے''۔
''اس کا مطلب یہ ہوا کہ اتنی اہم خبر سلطان ایوبی تک نہیں پہنچ سکتی''۔ کلثوم نے کہا۔
''پہنچ سکتی ہے اور پہنچائی بھی جائے گی''۔ بکر نے کہا… ''لیکن کرک واپس جاکر یہ انتظام ہوگا''۔
''تم جائو گے؟'' کلثوم نے پوچھا… ''میں یہاں سے بھاگنا بھی چاہتی ہوں''۔
''میں نہیں جائوں گا''۔ بکر نے کہا… ''تم بھی نہیں جائو گی۔ کرک میں میرے ساتھی موجود ہیں۔ خبریں لے جانے کا کام ان کی ذمہ داری ہے۔ میرا کام خبریں حاصل کرنا ہے۔ اب یہ کام تم کروں گی۔ تمہارا کام ختم نہیں ہوا، ابھی شروع ہوا ہے۔ میں تمہیں بتائوں گا کہ سلطان کو کس قسم کی معلومات کی ضرورت ہے۔ یہ معلومات تم مجھے دو گی اور میں انہیں دمشق تک پہنچائوں گا''۔
''تو مجھے اس جہنم میں ہی رہنا پڑے گا؟'' کلثوم نے اداس سی ہو کے پوچھا۔
''ہاں''۔ بکر نے جواب دیا۔ ''تمہیں اس جہنم میں اور مجھے موت کے منہ میں موجود رہنا پڑے گا… کلثوم! تمہیں یہ قربانی دینی پڑے گی۔ سلطان کہا کرتے ہیں کہ ایک جاسوس یا ایک چھاپہ مار اپنی پوری فوج کی فتح یا شکست کا باعث بن سکتا ہے لیکن جاسوس ہر لمحہ موت کے منہ میں کھڑا رہتا ہے۔ جاسوس جب دشمن کے ہاتھ چڑھ جاتا ہے تو فوراً قتل نہیںکردیا جاتا۔ اسے اذیتیں دی جاتی ہیں، اس کی کھال آہستہ آہستہ اتاری جاتی ہے۔ اسے مرنے نہیں دیا جاتا، اسے جینے بھی نہیں دیا جاتا لیکن اپنے مذہب اور اپنے وطن کے لیے کسی نہ کسی کو اپنی زندہ کھال اتروانی ہی پڑتی ہے۔ قوموں کا نام ونشان اس وقت مٹنا شروع ہوتا ہے جب ان میں قربانی کا جذبہ ختم ہوجاتا ہے… تم نے جہاں چار سال گزار دئیے ہیں، وہاں چار مہینے اور گزار دو۔ تم اب ارناط کو اپنا آقا نہ سمجھو۔ اس کے ساتھ پہلے سے زیادہ محبت کا اظہار کرو لیکن دل میں یہ سمجھو کہ تم نے ایک ایسے زہریلے ناگ پر قبضہ کررکھا ہے جو تمہارے ہاتھ سے آزاد ہوگیا تو عالم اسلام کو ڈس لے گا''۔
''مجھے بتائو''۔ کلثوم نے بے تاب ہوکر کہا… ''خدا کے لیے مجھے بتاتے رہو کہ میں اپنے خدا کے حضور کس طرح سرخرو ہوسکتی ہوں''۔
بکر نے اسے بتانا شروع کردیا۔ اسے مکمل ہدایات دیں اور کہا… ''سب کے سامنے یہ ظاہر نہ ہونے دینا کہ میرا اور تمہارا کوئی اور تعلق بھی ہے۔ یہاں ہمارے جاسوسوں کا سراغ لگانے والے صلیبی جاسوس بھیس بدل کر گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ یہ بھی یاد رکھو کہ صرف ہم دونوں جاسوس نہیں، ہمارے اور بھی بہت سے ساتھی ہیں۔ وہ ہر اس شہر میں موجود ہیں جہاں صلیبی حکمران اور جرنیل موجود ہیں۔ ان میں ایک سے ایک بہادر اور عقلمند ہے۔ دل میں خوش فہمی نہ رکھنا کہ ہم دونوں کوئی بہت بڑا کارنامہ کررہے ہیں۔ خدا پر احسان نہ کرنا، یہ ہمارا فرض ہے جو ہمیں ادا کرنا ہے، خواہ ہمیں کیسی ہی اذیت میں کیوں نہ ڈال دیا جائے''۔
کلثوم جب خیمہ گاہ میں اپنے خیمے کے سامنے بگھی سے اُ تری، اس وقت وہ شہزادی للی تھی اور بکر بن محمد سیبل تھا۔ کلثوم جب بگھی سے اتر رہی تھی اس وقت سیبل بگھی کے پاس کھڑا غلاموں کی طرح جھکا ہوا تھا۔ خیمے میں گئی تو ارناط ایک نقشے پر جھکا ہوا تھا۔ کلثوم نے اسے کہا کہ وہ سیر کے لیے نکل گئی اور شکار بھی کھیلا تھا۔
''کیا مارا؟'' ارناط نے نقشے سے نظریں ہٹائے بغیر پوچھا۔
''کچھ بھی نہیں''۔ کلثوم نے جواب دیا… ''سب تیر خطا ہوگئے لیکن جلدی ہی شکار مارنے کے قابل ہوجائوں گی''۔ یہ کہہ کر وہ بھی نقشے پر جھک گئی۔ اس نے پوچھا… ''پیش قدمی کا نقشہ ہے یا دفاع کا؟''
''پیش قدمی صلاح الدین ایوبی کرے گا''۔ ارناط نے بے خیال کے عالم میں کہا… ''اور دفاع بھی اسی کو کرنا پڑے گا کیونکہ ہم اسے جال میں لا رہے ہیں۔ اس کا دم خم ختم کرکے ہم پیش قدمی کریں گے۔ ہمیں روکنے والا کوئی نہ ہوگا۔ تم اپنے خیمے میں جائو للی! مجھے بہت کچھ سوچنا ہے۔ آج رات ہماری جو کانفرنس ہوگی، اس میں جنگ کا منصوبہ اور نقشہ بنایا جائے گا۔ مجھے جو مشورے دینے ہیں، ان میں کوئی غلطی نہیں ہونی چاہیے''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
''اس کا نام کلثوم ہے اور بکر بن محمد اس کے ساتھ ہے، وہ ارناط کا بگھی بان ہے''۔ سلطان ایوبی کی انٹیلی جنس کا نائب سربراہ حسن بن عبداللہ اسے کرک کے جاسوسوں کی بھیجی ہوئی پوری خبر سنا چکا تھا۔
سلطان کی آنکھیں لال ہوگئیں۔ اس نے کہا… ''کون بتا سکتا ہے کہ ہماری کتنی بیٹیاں ان کفار کے قبضے میں ہیں اور ان کی عیاشی کا ذریعہ بنی ہوئی ہیں۔ میں ارناط کو نہیں بخشوں گا۔ خیال رکھنا حسن! اس لڑکی کو وہاں سے نکالنا ہے لیکن ابھی نہیں''۔
''کرک میں ہمارے جو آدمی ہیں، وہ اسے موزوں وقت پر نکال لائیں گے''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا۔
عکرہ کا پادری اور یہ صلیبی اتحادی ناصرہ میں تین روز رہے اور انہوں نے پلان اور نقشہ تیار کرلیا تھا۔ کلثوم نے ارناط سے سب کچھ معلوم کرلیا تھا اور بکر کو بتا دیا۔ صلیبیوں کو بھی سلطان ایوبی کے کئی راز معلوم ہوگئے تھے۔ ان کے جاسوس موصل، حلب، دمشق، قاہرہ اور ہر جگہ موجود تھے۔ انہوں نے صلیبیوں کو صحیح اطلاعیں بھیجی تھیں۔ صلیبیوں کو یہ بھی پتہ چل گیا تھا کہ مصر سے بھی فوج آرہی ہے۔ صلیبیوں کو یہ بھی معلوم ہوگیا تھا کہ سلطان ایوبی بہت جلدی پیش قدمی کرنے والا ہے، لہٰذا انہوں نے دفاع میں لڑنے، پھر سلطان ایوبی کو گھیرے میں لینے کا پلان تیار کیا تھا۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے مختلف جگہوں پر فوج خیمہ زن کردی تھی۔ انہیں ابھی یہ معلوم نہیں ہوا تھا کہ سلطان ایوبی کدھر سے آئے گا اور میدان جنگ کون سا ہوگا۔ اپنے اندازے کے مطابق انہوں نے سلطان ایوبی کی فوج کی نفری، پیادہ اور سوار کا حساب لگا لیا تھا۔
حسن بن عبداللہ نے کرک سے آئے ہوئے اپنے آدمی سے تفصیلی رپورٹ لی۔ اس جاسوس نے کلثوم اور بکر کے متعلق بھی بتایا۔ حسن بن عبداللہ نے یہ رپورٹ سلطان ایوبی کو دی۔
''یہ اطلاع ان تمام اطلاعوں کی تصدیق کرتی ہے جو ہمیں دوسری جگہوں کے جاسوسوں نے بھیجی ہیں''… سلطان ایوبی نے کہا… ''یہ تو ہمیں پہلے ہی معلوم ہوچکا ہے کہ صلیبی میرا انتظار کررہے ہیں۔ اب کرک کی اطلاع نے اس کی تصدیق کردی ہے۔ اس میں نئی بات یہ ہے کہ چند ایک صلیبیوں نے اتحاد کرلیا ہے اور مجھے ان کی متحدہ فوج سے لڑنا ہوگا۔ اس کے علاوہ یہ اطلاع نئی ہے ہے کہ جنگی طاقت کتنی ہے۔ ان کے ساتھ دو ہزار دو سو نائٹ ہوں گے۔ یہ بلاشبہ بہت بڑی طاقت ہے۔ نائٹ سر سے پائوں تک زرہ بکتر میں ملبوس اور محفوظ ہوتا ہے۔ نائٹوں کے گھوڑے عام جنگی گھوڑوں کی نسبت زیادہ طاقتور اور پھرتیلے ہوتے ہیں۔ میں انہیں گرمیوں کے عروج میں لڑائوں گا''۔
''اور ان زرہ پوش نائٹوں کے ساتھ آٹھ ہزار سوار ہوں گے''۔ حسن بن عبداللہ نے کہا… ''پیادہ فوج کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ بتائی گئی ہے''۔
''میرے لیے یہ خبر نئی ہے کہ شاہ آرمینیا کی فوج بھی صلیبیوں کے پاس آرہی ہے''… سلطان ایوبی نے کہا… ''یہ صلیبیوں کی تیس بتیس ہزار فوج کے علاوہ ہوگی۔ یہ ملا کر دشمن کی نفری چالیس ہزار ہوجائے گی۔ کرک کی اطلاع اور دوسری جگہوں سے آنے والی اطلاعوں سے یہ یقین ہوگیا ہے کہ صلیبی دفاعی جنگ لڑیں گے اور مجھے گھیرے میں لے لیں گے۔ اس کے مطابق میرا یہ فیصلہ صحیح معلوم ہوتا ہے کہ میں حطین کے مضافات میں لڑوں گا۔ اس علاقے سے میں اچھی طرح واقف ہوں''۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
''میرے رفیقو! اب وقت آگیا ہے کہ ہم اس فرض کی ادائیگی کے لیے نکل کھڑے ہوں، جو خدائے ذوالجلال نے ہمیں سونپا ہے''… سلطان صلاح الدین ایوبی نے دمشق میں اپنے بڑے کمرے میں سالاروں اور نائب سالاروں سے خطاب کرتے ہوئے کہا… ''ہم اقتدار کے لیے آپس میں لڑنے اور مرنے کے لیے پیدا نہیں کیے گئے تھے۔ ہم نے آپس میں بہت کشت وخون کرلیا ہے۔ اس دوران دشمن نے ارض فلسطین میں اپنے پنجے گہرے اتار لیے ہیں۔ قوم نے ہمارے ہاتھ میں تلوار دی ہے اور اس اعتماد کے ساتھ دی ہے کہ ہم دشمنان دین کا خاتمہ کریں گے اور عرب کی مقدس سرزمین کو کفار کے ناپاک وجودسے پاک کریں گے''…
''آپ کئی برسوں سے مسلسل لڑ رہے ہیں لیکن اصل جنگ اب شروع ہورہی ہے۔ اپنے ذہنوں میں اس جنگ کے مقصد کو تازہ کرلو۔ یہ فیصلہ کرلو کہ ہمیں ایک آزاد اور باوقار قوم کی حیثیت سے زندہ رہنا ہے اور ہمیں اپنے خدا کے عظیم مذہب کو کفر کے گھنائونے سائے سے آزاد رکھنا ہے۔ ہمیں سلطنت اسلامیہ کو وہاں تک لے جانا ہے جہاں تک محمد بن قاسم لے گیا تھا اور جہاں تک طارق بن زیاد لے گیا تھا۔ ان کے بعد آنے والوں کا فرض یہ تھا کہ اللہ کا پیغام وہاں سے بھی آگے لے جاتے، جہاں تک قوم کے یہ بیٹے لے گئے تھے مگر اللہ کی سلطنت ایسی سکڑی کہ ہمارے دین کے دشمن ہمارے گھر میں آن بیٹھے ہیں اور وہ خانہ کعبہ اور روضۂ مبارک کو مسمار کرنے کے منصوبے بنائے ہوئے ہیں۔ کیوں؟… یہ کیوں کر ممکن ہوا؟… جہاں بادشاہی کا جنون دماغوں پر قابض ہوتا ہے، وہاں سرحدیںسکڑتی ہیں اور تخت وتاج کی خاطر امراء اپنے مذہب اور اپنی غیرت کو بھی ترک کردیا کرتے ہیں''…
''ہمارے زوال کا باعث تخت وتاج کا نشہ اور زروجواہرات کی محبت ہے۔ کہاں وہ وقت کہ ہم دنیا پر چھاگئے تھے اور کہاں ہمارا وقت کہ دنیا ہم پر چھا گئی ہے اور ہم آخرت کو فراموت کیے بیٹھے ہیں۔ ہم میں دوست اور دشمن کی پہچان نہیں رہی۔ عسکری جذبے پر فانی دنیا کی جھوٹی لذتوں کا جادو چل گیا ہے۔ یاد رکھو میرے رفیقو! میں آپ کو کئی بار کہہ چکا ہوں کہ قوم کی قسمت تلوار کی نوک سے لکھی جاتی ہے اور یہ تحریر ان مجاہدوں کی ہوتی ہے جن کے ہاتھ میں تلوار ہوتی ہے۔ جب سالار تخت پر بیٹھ کر سر پر تاج رکھ لیتے ہیں تو ان کے ہاتھوں میں طاقت نہیں رہتی کہ تلوار نیام سے باہر کھینچ سکیں۔ ان کے دلوں میں اپنے عقیدے اور اپنی قوم کے وقار کے تحفظ کا جذبہ نہیں رہتا پھر مذہب کا استعمال یہی رہ جاتا ہے کہ اپنی رعایا کہ مذہب کے نام پر دھوکے دو اور دشمن کے ساتھ در پردہ دوستی کرلو تاکہ آرام سے اللہ کے نیک اور سادہ لوح بندوں پر حکومت کرسکو''…
''ہم آج اسلام کی عظمت کی خاطر صرف اس لیے گھروں کو خیرباد کہنے اور دشمن پر ٹوٹ پڑنے کے قابل ہوئے ہیں کہ ہم نے اقتدار کے پجاریوں کو ختم کردیا ہے۔ ہم نے آستین کے سانپوں کا سرکچل ڈالا ہے۔ اگر ہم ہار گئے تو اس کی وجہ اس کے سوا اور کوئی نہیں ہوسکتی کہ ہماری نیت میں فتور تھا''۔
سلطان ایوبی ایسی جذباتی اور لمبی تقریر کرنے کا عادی نہیں تھا لیکن جس مہم کے لیے وہ نکل رہا تھا، اس کے لیے سب کو ذہنی اور روحانی طور پر تیار کرنا ضروری تھا۔ یہ اس کے وفادار اور قابل اعتماد سالار اور نائب سالار تھے۔ ان میں مظفر الدین جیسا قابل اور دلیر سالار بھی تھا جو کسی وقت میں اس کا ساتھ چھوڑ کر اس کے مخالف کیمپ میں چلا گیا اور اس کے خلاف لڑا بھی تھا۔ اس کے ساتھ تقی الدین اور افضل الدین، فرخ شاہ اور ملک العادل جیسے سالار بھی تھے جو اس کے اپنے خاندان اور اپنے خون کے رشتے کے تھے۔ سالار ککبوری اس کا دست راست تھا۔، ان میں کوئی بھی ایسا نہیں تھا جو فنی، تکنیکی اور جذباتی لحاظ سے کمتر ہوتا لیکن سلطان ایوبی پہلی بار ارض فلسطین میں حملے کے لیے جارہا تھا اور اس کی منزل بیت المقدس تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget