مارچ 2019
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟛  𝟜⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صارم کا بیٹا عثمان تو اس گروہ کا سرغنہ ہے مسلمان مخبر نے بتایا اور ان کا سب سے بڑا سرغنہ امام رازی ہے، آپ تھوڑی دیر تک آجائیں رینی نے اسے کہا باپ کو ذرا سی دیر سونے دیں
مگر وہ جانا نہیں چاہتا تھا صلیبیوں کو خوش کرنے اور ان سے انعام وصول  کرنیکا اسے نہایت موزوں موقع مل گیا تھا اس کے متعلق مسلمانوں کو معلوم نہیں تھا کہ قرآن کے بجائے صلیب کا وفادار ہے اسی روز مسلمان نوجوانوں اور چھاپہ ماروں نے دیوار توڑنے کی سکیم بنائی تھی اس خفیہ اجتماع میں تین  چار بزرگ امام اور یہ مسلمان بھی تھا جس نے لڑکوں کو اچھے مشورے دیئے اور سب سے زیادہ جذبے کا اظہار کیا تھا مسلمانوں کو شک تک نہ ہوا کہ وہ صلیبیوں کا پالا ہوا سانپ ہے سبھی اسے شہر کا امیر اور معزز تاجر سمجھتے تھے جس کے حسن سلوک کی بدولت صلیبی بھی اس کی عزت کرتے تھے
وہ واپس  نہیں جانا چاہتا تھا۔ رینی گہری سوچ میں کھوگئی اس نے اسے اندر بٹھانے کے  بجائے یہ کہا کہ وہ اسے پوری بات سنائے اور یہ بھی کہا کہ آؤ ذرا باہر  ٹہل لیتے ہیں اتنی دیر میں باپ جاگ اٹھے گا وہ تو صلیبیوں کا غلام تھا اتنے بڑے افسر کی بیٹی کے ساتھ خراماں خراماں چل پڑا چلتے چلتے وہ کنویں تک پہنچ یہ کنواں شہریوں کے لیے کھودا گیا تھا بہت ہی دور سے پانی نکلا تھا۔ رینی کنویں کے منہ پر رک گئی مسلمان مخبر اسے بات سنا رہا تھا وہ بھی کنویں کے قریب کھڑا تھا رینی نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھے اور پوری طاقت سے دھکا دیا مسلمان پیچھے کو گرا اور سیدھا کنویں میں گیا اس کی چیخ  سنائی دی جو ''دھڑام'' کی آواز میں ختم ہوگئی

رینی اس مسرت کے ساتھ گھر آگئی کہ اس نے ایک ایسا راز کنویں میں ڈبو دیا ہے جو عثمان صارم کی یقینی موت کا باعث بن سکتا تھا، وہاں سے وہ ڈرتی ہوئی عثمان صارم کے گھر گئی اس کی ماں کے پاس بیٹھی النور کی باتیں کرتی رہی اس نے عثمان کے متعلق  پوچھا تو اس کی ماں نے بتایا کہ وہ شام کے بعد ہی گھر سے نکل گیا تھا رینی کو خیال آگیا کہ وہ دیوار توڑنے کی مہم پر چلا گیا ہوگا وہ اسے روکنا چاہتی تھی اسے ڈر یہ تھا کہ ان کےاجتماع میں کوئی اور مخبر بھی ہوگا کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی اور نے فوج کو اطلاع دے دی ہو وہ باہر نکل گئی اور  اس طرف چل پڑی جس طرف سے ان لوگوں نے دیوار توڑنے کا منصوبہ بنایا تھا اس مسلمان نے جسے اس نے کنویں میں پھینک دیا تھا بتا دیا تھا کہ چھاپہ مار دیوار کے اوپر جاکر صلیبی تیر اندازوں کو ایسے طریقے سے ختم کریں گے کہ کسی کو پتہ نہ چل سکے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نیچے سے دیوار کھودیں گے اس کی کھدائی مشکل نہیں وقت طلب تھی اس پارٹی نے بوقت ضرورت لڑائی کا انتظام بھی کر رکھا تھا ان کے پاس خنجر اور برچھیاں بھی تھیں یہ ایک غیرمعمولی طور پر دلیرانہ مہم تھی جس کی ناکامی کے امکانات زیادہ تھے انہوں نے جگہ ایسی منتخب کی تھی جہاں پکڑے جانے کا امکان ذرا کم تھا، یہ گروہ مقررہ جگہ کی طرف روانہ ہوگیا رینی اس طرف دوڑی جارہی تھی وہ عثمان صارم  کو روکنا چاہتی تھی اسے شاید علم ہوگیا تھا کہ یہ لوگ پکڑے جائیں گے اور  عثمان صارم مارا جائے گا ان جانبازوں کا جانے کا طریقہ اور راستہ کچھ اور  تھا رینی پہلے وہاں پہنچ گئی جہاں سے دیوار توڑنی تھی وہاں ابھی کوئی نہیں پہنچا تھا اس نے اندھیرے میں ادھر ادھر دیکھا اچانک پیچھے سے اسے کسی نے پکڑ لیا اور گھسیٹ کر پرے لے گیا یہ ایک فوجی تھا پرے لے جا کر  فوجی نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے اس نے باپ کا نام لیا اسے کہا گیا کہ وہ وہاں سے چلی جائے مگر وہ وہاں سے نہیں ہٹنا چاہتی تھی وہاں دراصل فوج کا ایک پورا دستہ چھپا ہوا تھا اس کے کمانڈر نے رینی کو بتایا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ یہاں نقب لگانے آرہا ہے اور اسے پکڑنے کے لیے گھات لگائی گئی ہے یہ اطلاع ایک اور مسلمان مخبر نے فوج کو دی تھی...
رینی انہیں یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ وہ گھات سے اٹھ جائیں وہ تو صرف عثمان صارم کو بچانا چاہتی تھی، اس مسلمان نوجوان کی محبت نے اس کی عقل پر پردہ ڈال دیا تھا اتنے میں ایک فوجی نے کہا اطلاع غلط نہیں تھی وہ آرہے ہیں رینی تڑپ اٹھی اس نے چلا کر کہا
عثمان! واپس چلے جاؤ دستے کے کمانڈر نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا یہ بدبخت جاسوس معلوم ہوتی ہے اسے گرفتار کرلو لیکن گرفتاری کی انہیں مہلت نہ ملی کیونکہ کچھ دور سے شورشرابہ سنائی دینے لگا تھا
جانبازوں کی یہ پارٹی سیدھی گھات میں آگئی تھی صلیبیوں کے دستے کی تعداد زیادہ تھی پیشتر اس کے کہ جانباز سنبھلتے وہ گھیرے میں آچکے تھے مشعلیں جل اٹھیں جن کی روشنی میں جانباز صاف نظر آنے لگے ان کے پاس کھدائی کا سامان برچھیاں اور خنجر تھے بھاگ  نکلنے کی کوئی صورت نہیں تھی ان میں گیارہ لڑکیاں تھیں صلیبی کمانڈر نے بلندآواز سے کہا لڑکیوں کو زندہ پکڑو چھاپہ ماروں میں سے کسی نے کہا مجاہدو! بھاگنا نہیں ایک ایک لڑکی کو ساتھ رکھو
اور جو معرکہ لڑا گیا وہ بڑا ہی خون ریز تھا چھاپہ مار تو تربیت یافتہ لڑاکے تھے خوب  لڑے لیکن لڑکوں اور لڑکیوں نے صلیبیوں کو حیران کردیا لڑکیاں ڈرنے کے  بجائے نوجوانوں کو للکار رہی تھیں انہیں زندہ پکڑنے کی کوشش میں متعدد صلیبی ان کے خنجروں کا شکار ہوگئے مگر صلیبی تعداد میں زیادہ تھے چونکہ یہ معرکہ قلعے میں لڑا جارہا تھا اس لیے صلیبی فوج کے دو دستے اور آگئے اس معرکے میں ایک نسوانی آواز بار بار سنائی دیتی تھی عثمان نکل جاؤ عثمان تم نکل جاؤ یہ رینی کی آواز تھی اس وقت تک عثمان لڑ رہا تھا اس کے سامنے ایک صلیبی آیا عثمان کے پاس خنجر تھا اور صلیبی کے پاس تلوار اچانک اس صلیبی کی پیٹھ میں ایک خنجر داخل ہوگیا یہ رینی کا خنجر تھا ایک اور صلیبی نے اسے للکارا اس نے مرے ہوئے صلیبی کی تلوار اٹھا لی اور مقابلے پر اتر آئی
عثمان صارم اس کی مدد کے لیے آگے بڑھا لیکن کسی  صلیبی کی تلوار نے اسے شہید کر دیا کچھ دیر بعد جانبازوں میں صرف دو لڑکیاں زندہ رہیں وہ اکٹھی تھیں اور بہت سے صلیبیوں کے گھیرے میں آگئیں گھیرا تنگ ہو رہا تھا انہیں کہا گیا کہ وہ خنجر پھینک دیں دونوں نے ایک دوسری کی طرف دیکھا دونوں نے بیک وقت اپنا اپنا خنجر اپنے اپنے دل پر رکھا اور دوسرے لمحے انہوں نے خنجر اپنے دلوں میں اتار دیئے رینی کو زخمی کرکے پکڑ لیا گیا تھا اس نے بعد میں پاگل پن کی کیفیت میں بیان دیا کہ وہ اس سکیم کو ناکام کرکے عثمان صارم کو بچانا چاہتی تھی
قلعے کی دیوار توڑنے کی امید ختم ہوگئی شہر کے اندر مسلمانوں کی تخریب کاری بھی ختم ہوگئی مسلمانوں کی قیادت کرنے والے جانباز شہید ہوچکے تھے برجیس بھی شہید ہوچکا تھا لیکن سلطان ایوبی کی امیدیں صرف ان  کے ساتھ وابستہ نہیں تھیں وہ قلعے سر کرنا جانتا تھا ابھی تو محاصرے کا دوسرا دن تھا مگر اب کے صلیبیوں نے بھی قسم کھالی تھی کہ وہ کرک کا قلعہ سلطان ایوبی کو نہیں دیں گے

صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے غیر معمولی طور پر مستحکم مستقر کرک پر ایسی بے خبری میں حملہ کیا تھا کہ صلیبیوں کو اس وقت خبر ہوئی جب سلطان ایوبی کی فوج کرک کو محاصرے میں لے چکی تھی لیکن محاصرہ مکمل نہیں تھا یہ سہ طرفہ محاصرہ تھا جاسوسوں نے سلطان ایوبی کو یقین دلایا تھا کہ کرک شہر کے مسلمان باشندے ان چھاپہ ماروں کے ساتھ جنہیں سلطان ایوبی نے پہلے ہی شہر میں داخل کردیا تھا اندر سے قلعے کی دیوار توڑ دیں گے محاصرے کے چوتھے پانچویں روز اندر سے ایک جاسوس نے باہر آکر سلطان ایوبی کو یہ اطلاع دی کہ تمام چھاپہ مار اور چند ایک مسلمان شہری دیوار توڑنے کی کوشش میں شہید ہوگئے ہیں ان میں مسلمان لڑکیاں بھی تھیں اور ان میں ایک عیسائی لڑکی بھی شامل ہوگئی تھی سلطان ایوبی کو یہ بھی بتایا گیا کہ کسی ایمان فروش مسلمان نے اس جانباز جماعت میں شامل ہوکر دشمن کو اطلاع دے دی تھی جس کے نتیجے میں دشمن نے گھات لگائی اور ساری کی ساری جماعت کو شہید کردیا یہ اطلاع بھی دی گئی کہ اب اندر سے دیوار توڑنے کی امیدیں ختم ہوچکی ہیں امیدیں ختم ہونی ہی تھیں صلیبیوں نے جب دیکھا کہ دیوار توڑنے والوں میں کرک کے مسلمان نوجوانوں اور لڑکیوں کی لاشیں تھیں تو انہوں نے مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ اندھا دھند شروع کردی لڑکیوں تک کو نہ بخشا جوانوں کو بیگار کیمپ میں بوڑھوں کو ان کے اپنے گھروں میں اور جوان لڑکیوں کو قلعے کی فوجی بارکوں میں قید کردیا ان میں سے کچھ لڑکیوں نے خودکشی بھی کرلی تھی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ کفار ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے صلاح الدین ایوبی کو بھی یہی غم کھانے لگا کہ کرک کے مسلمانوں کو یہ قربانی بہت مہنگی پڑے گی اس نے جب ان جانبازوں کی خبر سنی تو اپنے نائبین سے کہا یہ کارستانی صرف ایک ایمان فروش مسلمان کی ہے اس ایک غدار نے اسلام کی اتنی بڑی فوج کو بے بس کردیا ہے ایک وہ ہیں جنہوں نے اللّٰہ کے نام پر جانیں قربان کردیں ایک یہ مسلمان ہیں جنہوں نے اللّٰہ کا ایمان کفار کے قدموں میں رکھ دیا ہے یہ غدار اسلام کی تاریخ کا رخ پھیر رہے ہیں سلطان ایوبی غصے سے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی ران پر گھونسہ مار کر بولا میں کرک کو بہت جلدی فتح کروں گا اور ان غداروں کو سزا دوں گا سلطان ایوبی کی انٹیلی جنس کا افسر زاہدان خیمے میں داخل ہوا اس وقت سلطان ایوبی کہہ رہا تھا کہ آج رات کو محاصرہ مکمل ہوجانا چاہیے میں آپ کو ابھی بتاتا ہوں کہ کون سے دستے کرک کے پیچھے بھیجے جائیں 
مداخلت کی معافی چاہتا ہوں امیر مصر زاہدان نے کہا اب شاید آپ محاصرہ مکمل نہیں کرسکیں گے ہم نے کچھ وقت ضائع کردیا ہے، کیا تم کوئی نئی خبر لائے ہو؟سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس سے پوچھا 
آپ نے جس کامیابی سے دشمن کو بے خبری میں آن لیا تھا اس سے آپ پورا فائدہ نہیں اٹھا سکے زاہدان نے جواب دیاوہ ایسے بے دھڑک انداز سے بول رہا تھا جیسے اپنے سے چھوٹے عہدے کے آدمی کو ہدایات دے رہا ہو سلطان ایوبی نے اپنے تمام سینئر اور جونئیر کمانڈروں اور تمام شعبوں کے سربراہوں سے کہہ رکھا تھا کہ وہ اسے بادشاہ سمجھ کر فرشی سلام نہ کیا کریں مشورے دلیری اور خود اعتمادی سے دیں اور نکتہ چینی کھل کر کیا کریں زاہدان انہی ہدایات پر عمل کر رہا تھا اس کے علاوہ وہ انٹیلی جنس کا سربراہ تھا اس کی حیثیت ایسی آنکھ کی سی تھی جو اندھیروں میں بھی دیکھ لیتی تھی اور وہ ایسا کان تھا جو اپنے جاسوسوں کے ذریعے سینکڑوں میل دور دشمن کی سرگوشیاں بھی سن لیا کرتا تھا سلطان ایوبی کو اس کی اہمیت کا احساس تھا وہ جانتا تھا کہ کامیاب جاسوسی کے بغیر جنگ نہیں جیتی جاسکتی خصوصاً اس صورتحال میں جہاں صلیبیوں نے سلطنت اسلامی میں جاسوسوں اور تخریب کا جال بچھا رکھا تھا سلطان ایوبی کو نہایت اعلیٰ اور غیرمعمولی طور پر ذہین اور تجربہ کار جاسوسوں کی ضرورت تھی اس میدان میں وہ پوری طرح کامیاب تھا اس کی انٹیلی جنس کے تین افسر علی بن سفیان اور اس کے دو نائب حسن بن عبداللّٰہ اور زاہدان جانباز قسم کے سراغ رساں اور جاسوس تھے انہوں نے اس محاذ پر صلیبیوں کے کئی وار بے کار کیے تھے
آپ کو معلوم تھا کہ صلیبیوں نے جہاں کرک کا دفاع مضبوط کر رکھا ہے وہاں بہت سی فوج کرک سے دور خیمہ زن کرکھی ہے زاہدان نے کہا آپ کو یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اس فوج کو باہر سے محاصرہ توڑنے کے لیے استعمال کیا جائے گا جاسوسوں کی اطلاع صاف بتا رہی تھیں کہ اب صلیبی قلعے سے باہر لڑیں گے پھر بھی آپ نے فوری طور پر محاصرہ مکمل نہیں کیا اس سے دشمن نے فائدہ اٹھا لیا ہے
تو کیا انہوں نے حملہ کر دیا ہے؟
سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیتابی سے پوچھا آج شام تک ان کی فوج اس مقام پر آجائے گی جہاں ہماری کوئی فوج نہیں زاہدان نے جواب دیا میرے جاسوس جو اطلاع لائے ہیں وہ یہ ہیں کہ صلیبی فوج گھوڑ سوار اور شتر سوار ہوگی پیادہ دستے بہت کم ہیں وہ محاصرے کی جگہ پر آجائیں گے اور دائیں بائیں حملے کریں گے اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہمارا محاصرہ ٹوٹ جائے گا صلیبیوں کی تعداد بھی زیادہ بتائی جاتی ہے
میں تمہیں اور تمہارے جاسوسوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو یہ اطلاع لائے ہیں سلطان ایوبی نے کہا میں جانتا ہوں یہ کام کتنا دشوار اور خطرناک ہے میں تم سب کو یقین دلاتا ہوں کہ صلیبی ہمارے محاصرے کا جو خلا پر کرنے اور محاصرے توڑنے آرہے ہیں میں انہیں اسی خلا میں گم کردوں گا مجھے اللّٰہ کی مدد پر بھروسہ ہے اگر تم میں کوئی غدار نہیں تو اللّٰہ تمہیں فتح عطا فرمائے گا
ابھی وقت ہے ایک نائب سالار نے کہا اگر آپ حکم دیں تو ہم محفوظہ کے تین چار دستے صلیبیوں کے پہنچنے سے پہلے بھیج دیتے ہیں محاصرے کا خلا پر ہوجائے گا اور صلیبیوں کا حملہ ناکام ہوجائے گا
سلطان ایوبی کے چہرے پر پریشانی یا اضطراب کا ہلکا سا تاثر بھی نہیں تھا اس نے زاہدان سے پوچھا اگر تمہاری اطلاع بالکل صحیح ہے تو کیا تم بتا سکتے ہو کہ صلیبی فوج کس وقت حملے کے مقام پر پہنچے گی؟
ان کی پیش قدمی خاصی تیز ہے زاہدان نے جواب دیا ان کے ساتھ خیمے اور رسد نہیں آرہی پیچھے آرہی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ راستے میں کوئی پڑاؤ نہیں کریں گے اگر وہ اسی رفتار پر آتے رہے تو رات گہری ہونے تک پہنچ جائیں گے خدا کرے کہ وہ راستے میں نہ رکیں سلطان ایوبی نے کہا مگر وہ تھکے ہوئے اور بھوکے پیاسے گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ حملہ نہیں کریں گے حملے کے مقام پر آکر جانوروں کو آرام اور خوراک دیں گے اس دوران وہ دیکھیں گے کہ ہم نے جو محاصرہ کر رکھا ہے اس میں خلا ہے یا نہیں صلیبی اتنے کوڑھ مغز نہیں کہ ایسی پیش بینی اور پیش بندی نہ کریں سلطان ایوبی نے اپنے عملے کے دو تین حکام کو بلایا اور انہیں نئی صورتحال سے آگاہ کرکے کہا صلیبی ہمارے جال میں آرہے ہیں قلعے کے عقب میں ہم نے محاصرے میں جو خلا چھوڑ دیا ہے اسے اور زیادہ کھلا کردو دائیں اور بائیں کے دستوں سے کہہ دو کہ ان پر عقب سے حملہ آرہا ہے اپنے پہلوؤں کو مضبوط کرلیں اور دشمن کو اپنے درمیان آنے دیں کوئی تیر انداز حکم کے بغیر کمان سے تیر نہ نکالے اس قسم کے احکام کے بعد سلطان ایوبی نے پیادہ اور سوار تیر اندازوں کے چند ایک دستوں کو جو اس نے ریزرو میں رکھے ہوئے تھے سورج غروب ہوتے ہی ایسے مقام پر چلے جانے کو کہا جو صلیبیوں کے حملے کے ممکنہ مقام کے قریب تھا وہ علاقہ میدانی نہیں تھا اور صحرا کی طرح ریتلا بھی نہیں تھا وہ ٹیلوں چٹانوں اور گھاٹیوں کا علاقہ تھا سلطان ایوبی نے چھاپہ مار دستوں کے کمانڈر کو بھی بلا لیا تھا اسے اس نے یہ کام سونپا کہ صلیبیوں کی فوج کے پیچھے فلاں راستے سے یہ رسد آرہی ہے جو رات کو راستے میں تباہ کرنی ہے ایسے اور کئی ایک ضروری احکامات دے کر سلطان ایوبی خیمے سے نکلا اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اپنے عملے کے ضروری افراد کو ساتھ لیا اور محاذ کی طرف روانہ ہوگیا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صلاح الدین ایوبی خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے والا انسان نہیں تھا اس نے دور سے محاصرے کا جائزہ لیا اور اپنے عملے سے کہا صلیبیوں سے یہ قلعہ لینا آسان نہیں محاصرہ بڑے لمبے عرصے تک قائم رکھنا پڑے گا اس نے دیکھا کہ قلعے کی سامنے والی دیوار سے تیروں کا مینہ برس رہا ہے قلعے کے دروازے تک پہنچنا ناممکن تھا سلطان ایوبی کی فوج تیروں کی زد سے دور تھی جوابی تیر اندازی کا کوئی فائدہ نہیں تھا سلطان ایوبی قلعے کے پہلو کی طرف گیا وہاں اسے ایک ولولہ انگیز منظر نظر آیا اس کا ایک دستہ حیران کن تیزی سے قلعے کی دیوار پر تیر برسا رہا تھا چھ منجنیقیں آگ پھینک رہی تھیں دیوار پر جہاں تیر اور آگ کے گولے جارہے تھے وہاں کوئی صلیبی نظر نہیں آرہا تھا وہ دبک گئے تھے سلطان ایوبی دور کھڑا دیکھتا رہا اس کے تقریباً چالیس سپاہی ہاتھوں میں برچھیاں اور کدالیں اٹھائے دیوار کی طرف سرپٹ دوڑ پڑے اور دیوار تک پہنچ گئے قلعے کی دیوار پتھروں اور مٹی کی تھی انہوں نے دیوار توڑنی شروع کردی اسی مقصد کے لیے اوپر تیر اور آگ کے گولے برسائے جارہے تھے کہ اوپر سے دشمن ان پر دیوار توڑتے وقت تیر نہ چلا سکے
سلطان ایوبی کے منہ سے بے اختیار نکلا ”آفرین” مگر اس کی آنکھیں ٹھہر گئیں قلعے کی دیوار پر للکار سنائی دی عین اس جگہ کے اوپر سے جہاں سلطان ایوبی کے جانبز دیوار توڑ رہے تھے بہت سے صلیبیوں کے سر اور کندھے نظر آئے پھر بڑے بڑے ڈول اور ڈرم نظر آئے یہ الٹا دئیے گئے ان میں جلتی ہوئی لکڑیاں اور انگارے نکلے جو ان مجاہدین پر گرے جو نیچے دیوار توڑ رہے تھے مجاہدین نے آگے جاکر تیر برسانے شروع کردیئے جن میں متعدد صلیبی گھائل ہوگئے دیوار کی کسی اور طرف سے تیر آئے جنہوں نے مجاہدین تیر اندازوں کو زخمی اور شہید کردیا پھر دونوں طرف سے اس قدر تیر برسنے لگے کہ ہوا میں اڑتے ہوئے تیروں کا جال تن گیا جانباز دیوار توڑ رہے تھے یہ کام آسان نہیں تھا کیونکہ دیوار بہت ہی چوڑی تھی نیچے سے اس کی چوڑائی اوپر کی نسبت زیادہ تھی ان جانبازوں پر اوپر سے تیر نہیں چلایا جاسکتا تھا مگر ان پر جلتی لکڑیاں اور دہتے انگارے پھینکے جارہے تھے آگ کے ڈول اور ڈرم پھینکنے والوں میں بظاہر کوئی بھی مسلمان تیر اندازوں سے بچ کر نہیں جاتا تھا لیکن وہ تیر کھا کر گرنے سے پہلے آگ انڈیل دیتے تھے
نیچے یہ عالم تھا کہ آگ بھڑک رہی تھی اور دیوار توڑنے والے شعلوں اور انگاروں میں بھی دیوار توڑ رہے تھے تیروں کا تبادلہ ہورہا تھا آخر دیوار توڑنے والے جھلس گئے اور ان میں سے چند ایک اس حالت میں پیچھے کو دوڑے کہ ان کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی وہ دیوار سے ہٹے ہی تھے کہ اوپر سے تیر آئے جو ان کی پیٹھوں میں اتر گئے اس طرح ان میں سے کوئی زندہ واپس نہ آسکا دس اور مجاہدین دیوار کی طرف دوڑے اور دشمن کے تیروں میں سے گزرتے ہوئے دیوار تک پہنچ گئے انہوں نے بڑی پھرتی سے دیوار کے بہت سے پتھر نکال لیے اوپر سے ان پر بھی آگ کے ڈرم اور ڈول انڈیل دیئے گئے۔ آگ پھینکنے والوں سے دو اتنا اوپر اٹھ گئے تھے کہ مجاہدین کے تیر سینوں میں کھا کر وہ پیچھے گرنے کے بجائے آگے کو گرے اور دیوار سے سیدھے نیچے اپنی ہی پھینکی ہوئی آگ میں جل گئے مگر دیوار توڑنے والوں میں سے بھی کوئی زندہ نہ بچا
سلطان ایوبی نے اپنے گھوڑے کو ایڑی لگائی اور اس دستے کے کمانڈر کے پاس جاکر کہا تم پر اور تمہارے جانبازوں پر اللّٰہ کی رحمت ہو اسلام کی تاریخ ان سب کو ہمیشہ یاد رکھے گی جو اللّٰہ کے نام پر جل گئے ہیں اب یہ طریقہ چھوڑ دو پیچھے ہٹ آؤ اتنی تیزی سے انسان اور تیر ختم نہ کرو صلیبی اس قلعے کے لیے اتنی زیادہ قربانی دے رہے ہیں جس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا
اور ہم بھی اتنی زیادہ قربانی دیں گے جس کا صلیبی تصور نہیں کرسکتے کمانڈر نے کہا دیوار یہیں سے ٹوٹے گی اور ہم آپ کو یہیں سے اندر لے جائیں گے
اللّٰہ تعالیٰ تمہاری آرزو پوری کرے صلاح الدین ایوبی نے کہا اپنے مجاہدین کو بچا کر رکھو صلیبی باہر سے حملہ کر رہے ہیں تمہیں شاید باہر لڑنا پڑے گا محاصرہ مضبوط رکھو ہم صلیبیوں کو اندر بھوکا ماریں گے
اس دستے کو پیچھے ہٹا لیا گیا مگر کمانڈر نے سلطان ایوبی سے کہا سالاراعظم کی اجازت ہو تو میں شہیدوں کی لاشیں اٹھوا لوں؟ 
اس مقصد کے لیے مجھے پھر یہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا
ہاں! سلطان ایوبی نے کہا اٹھوا لو کسی شہید کی لاش باہر نہ پڑی رہے
سلطان ایوبی وہاں سے چلا گیا اس جانباز دستے نے جس طرح اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھائیں وہ ایک ولولہ انگیز منظر تھا جتنی لاشیں اٹھانی تھیں اتنے ہی مجاہدین شہید ہوگئے سلطان ایوبی دور نکل گیا تھا جنگ کے دوران وہ اپنا پرچم ساتھ نہیں رکھا کرتا تھا تاکہ دشمن کو معلوم نہ ہوسکے کہ وہ کہاں ہے وہ اپنی فوج سے دور ہٹ گیا اور بہت دور جا کر وہ ٹیلوں چٹانوں اور گھاٹیوں کے علاقے میں چلا گیا وہ گھوڑے سے اترا اور ایک ٹیلے پر جاکر لیٹ گیا تاکہ اسے دشمن نہ دیکھ سکے اسے قلعہ اور شہر کی دیوار نظر آرہی تھی اور کم وبیش ایک میل لمبا وہ علاقہ بھی نظر آرہا تھا جہاں ابھی اس کی فوج نہیں پہنچی تھی اس نے ٹیلوں کے علاقے کا جائزہ لیا ہر جگہ گھوما پھرا
اسی جائزے اور دیکھ بھال میں سورج غروب ہوگیا وہ وہیں رہا شام گہری ہوئی تو اسے اطلاع دی گئی کہ اس کے حکم کے مطابق پیادہ اور سوار تیراندازوں کے دستے آرہے ہیں اس نے اپنے قاصد سے کہا کہ کمانڈروں کو بلایا جائے جب کمانڈر اس کے پاس آئے تو چھاپہ مار دستے کا کمانڈر بھی ان کے ساتھ تھا اسے سلطان ایوبی نے راستہ بتا کر اپنے ہدف پر چلے جانے کو کہا پھر وہ دوسرے کمانڈروں کو ہدایات دینے لگا
رات آدھی گزری تھی کہ دور سے گھوڑوں کی آوازیں اس طرح سنائی دینے لگیں جیسے سیلاب بند توڑ کر آرہا ہو چاند پورا تھا چاندنی شفاف تھی صلیبیوں کے گھوڑ سوار ٹیلوں اور چٹانوں سے کچھ دور تک آگئے ان کے پیچھے شتر سوار تھے ان کی تعداد کے متعلق مورخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے غیر مسلم مورخوں نے تعداد تین ہزار سے کم بیان کی ہے مسلمان مورخ پانچ سے آٹھ ہزار تک بتاتے ہیں اس وقت کے وقائع نگاروں کی جو تحریریں دستیاب ہوسکی ہیں وہ کم سے کم تعداد دس ہزار اور زیادہ سے زیادہ بارہ ہزار بتاتے ہیں ان کا کمانڈر ایک مشہور صلیبی حکمران ریمانڈ تھا دو مورخوں نے کمانڈر کا نام رینالٹ لکھا ہے لیکن وہ ریمانڈ تھا وہ اسی حملے کے لیے لمبے عرصے سے وہاں سے دور خیمہ زن تھا اسے اب رات کو یہ صبح ہوتے ہی سلطان ایوبی کی اس فوج پر حملہ کرنا تھا جس نے کرک کو محاصرے میں لے رکھا تھا
صلیبی سوار گھوڑوں اور اونٹوں سے اترے گھوڑوں کے ساتھ دانے کی تھیلیاں تھیں جو گھوڑوں کے آگے لٹکا دی گئیں سواروں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے جانور کے ساتھ رہیں اور زیادہ دیر کے لیے سو نہ جائیں جانوروں کے لیے چارہ اور پانی کے مشکیزے پیچھے آرہے تھے صلیبیوں نے یہ سوچا تھا کہ مسلمانوں پر عقب سے اچانک حملہ کرکے گھوڑوں کو قلعے کے اندر سے پانی پلائیں گے سلطان ایوبی کے دیدبان صلیبیوں کو بڑی اچھی طرح دیکھ رہے تھے اور گھبرا بھی رہے تھے کیونکہ صلیبیوں کی طاقت بہت زیادہ تھی اتنی زیادہ طاقت سے وہ محاصرہ توڑ سکتے تھے
صحرا بھی دھندلی تھی صلیبیوں کو سوار ہونے برچھیاں اور تلواریں تیار رکھنے کا حکم ملا یہ دراصل حملے کا حکم تھا وہ ایک بڑی ہی لمبی صف کی صورت میں آگے بڑھے جونہی اگلی صف نے ایڑی لگائی عقب سے تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں جن سواروں کو تیر لگے وہ گھوڑوں پر ہی اوندھے ہوگئے یا گر پڑے اور جن گھوڑوں کو تیر لگے وہ بے قابو ہوکر بھاگ اٹھے اونٹ بھی چلے ہی تھے کہ ان میں بھگدڑ مچ گیا صلیبی کمانڈر سمجھ نہ سکے کہ یہ ہوا کیا ہے اور ان کی ترتیب بکھرتی کیوں جارہی ہے انہوں نے غصے کی حالت میں چلانا شروع کردیا زخمی گھوڑوں اور اونٹوں نے جو واویلا بپا کیا اس نے ساری فوج پر دہشت طاری کردی صبح کا اجالا صاف ہوا تو ریمانڈ کو معلوم ہوا کہ وہ سلطان ایوبی کے گھیرے میں آگیا ہے اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے وہ اسے بہت زیادہ سمجھ رہا تھا ایسی صورتحال کے لیے وہ تیار نہیں تھا اس نے حملہ رکوا دیا لیکن اس کے سواروں کی اگلی صف اس خلا کے قریب پہنچ چکی تھی جہاں اس پورے لشکر کو پہنچنا تھا
محاصرے والی فوج کو پہلے ہی خبردار کردیا گیا تھا وہ اس حملے کے استقبال کے لیے تیار تھی اس کے مجاہدین نے گرد کے بادل زمین سے اٹھتے اور اپنی طرف آتے دیکھے تو وہ تیار ہوگئے گرد قریب آئی تو اس میں سے گھوڑ سوار نمودار ہوئے مجاہدین نے اپنے آپ کو حملہ روکنے کی ترتیب میں کرلیا وہ دائیں اور بائیں تھے جونہی گھوڑے ان کے درمیان آئے مجاہدین پہلوؤں سے ان پر ٹوٹ پڑے تب صلیبی سواروں کو احساس ہوا کہ وہ اپنے لشکر سے کٹ گئے ہیں اور ان کا لشکر اپنی جگہ سے چلا ہی نہیں سلطان ایوبی اس معرکے کی کمان اور نگرانی خود کررہا تھا صلیبی پیچھے کو مڑے تاکہ مقابلہ کریں لیکن سلطان ایوبی نے انہیں یہ چال چل کر بہت مایوس کیا کہ صلیبیوں کا کوئی دستہ سرپٹ رفتار سے کسی طرف حملہ کرتا تھا تو آگے مزاحمت نہیں ملتی تھی البتہ پہلوؤں اور عقب سے اس پر تیر برستے تھے صلیبی کمانڈروں نے اپنے لشکر کو چھوٹے چھوٹے دستوں میں تقسیم کردیا سلطان ایوبی کے کمانڈروں نے اس کی ہدایت کے مطابق آمنے سامنے کے مقابلے کی نوبت ہی نہ آنے دی صلیبیوں کے گھوڑے تھکے ہوئے تھے بھوکے اور پیاسے بھی تھے انہیں جنگ روکنی پڑی وہ چارے اور پانی کے منتظر تھے رسد کو صبح تک پہنچ جانا چاہیے تھا
دوپہر تک رسد نہ پہنچی چند ایک سوار دوڑائے گئے لیکن وہ مسلمان تیر اندازوں کا شکار ہوگئے اگر وہ زندہ پیچھے چلے بھی جاتے تو انہیں رسد نہ ملتی وہ رات کو ہی سلطان ایوبی کے چھاپہ مار دستے کی لپیٹ میں آگئی تھی اس دستے نے بڑی کامیابی سے شب وخون مارا اور رسد تباہ کردی تھی سلطان ایوبی نے اپنے محفوظہ میں سے مزید دستے بلا لیے اور ریمانڈ کے لشکر کو گھیرے میں لے لیا اگر مسلمانوں کی تعداد صلیبیوں جتنی ہوتی تو وہ حملہ کرکے صلیبیوں کو ختم کردیتے۔ سلطان ایوبی اپنی نفری ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اس نے اس لشکر کو لڑاتے لڑاتے ٹیلوں اور گھاٹیوں کے علاقے میں لے جا کر گھیرے میں لے لیا اسے معلوم تھا کہ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا صلیبی بے کار ہوتے جائیں گے مگر صلیبیوں کو بڑی کامیابی سے گھیرے میں لے کر اسے خود بھی نقصان ہورہا تھا اس نے جہاں صلیبیوں کی اتنی بڑی قوت کو باندھ لیا تھا وہاں اس کے اپنے بہت سے ریزور دستے بھی بندھ گئے تھے انہیں اب وہ کسی اور طرف استعمال نہیں کرسکتا تھا
اس علاقے کے اندر پانی موجود تھا جو جانوروں کو کچھ عرصے کے لیے زندہ رکھنے کے لیے کافی تھا فوج کو زندہ رکھنے کے لیے زخمی گھوڑوں اور اونٹوں کا گوشت کافی تھا سلطان ایوبی نے شہر کا محاصرہ مکمل کرنے کا حکم دے دیا صلیبی چین سے نہیں بیٹھے ہر روز کسی نہ کسی جگہ جھڑپ ہوتی تھی اور دن گزرتے جارہے تھے سلطان ایوبی نے قلعے اور شہر کے گرد گھومنا شروع کردیا کہیں سے بھی دیوار توڑنے کی صورت نظر نہیں آ رہی تھی...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟚  𝟜⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سورج غروب ہوگیا تھا شام تاریک ہونے لگی تھی, عثمان صارم خاموش رہا اس کا ذہن کسی اور طرف تھا وہ کچھ جواب دئیے بغیر چل پڑا ابھی دو ہی قدم اٹھائے تھے کہ رینی نے آگے ہوکر روک لیا 
مجھے آزاد کردو رینی! عثمان صارم نے اکھڑے ہوئے لہجے میں کہا مجھے پتھر بن جانے دو میرا راستہ کوئی اور ہے ہم اکھٹے نہیں چل سکیں گے محبت قربانی مانگتی ہے
رینی نے نشیلی آواز میں کہا کہو کیا قربانی مانگتے ہو میں وعدہ کرتی ہوں کہ تم جو جی میں آئے کرو میں تمہیں قید نہیں ہونے دوں گی اور میں تم سے وعدہ کرتا ہوں عثمان صارم نے طنزیہ کہا کہ میں تمہیں بتاؤں گا ہی نہیں کہ میرے جی میں کیا آئی ہے اور  میں کیا کرنے والا ہوں میں تمہارے اس حسین جسم اور ریشمی بالوں کے جادو میں نہیں آؤں گا
تو پھر مجھے ثابت کرنا پڑے گا کہ میں تمہارے لیے قربانی دے سکتی ہوں رینی نے کہا جاؤ عثمان! تم جلدی میں ہو لیکن میں تمہارے گھر آنے سے باز نہیں آؤں گی، عثمان صارم دوڑ پڑا رینی اسے دیکھتی رہی اور آہ بھر کر چلی گئی
عثمان صارم گھر میں داخل ہوا تو برجیس وہاں پہنچ چکا تھا عثمان اندر چلا گیا اور اپنے باپ ماں اور النور کو تفصیل سے بتایا کہ صلیبیوں نے مسلمانوں کا ایک قافلہ لوٹا ہے اور دو لڑکیوں کو بھی ساتھ لے آئے ہیں اس نے تمام تر واقعہ سنا کر کہا وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ ان لڑکیوں کو آزاد کرانے جا رہا ہے اور اس مہم میں النور کی بھی ضرورت ہے عثمان صارم کے باپ کی ٹانگ  صلیبیوں کے خلاف لڑتے ہوئے جوانی میں کٹ گئی تھی اور وہ باقی عمر اس افسوس میں کاٹ رہا تھا کہ وہ جہاد کے قابل نہیں رہا اس نے عثمان سے کہا بیٹا! تم نے اگر اتنے خطرناک کام کا ارادہ کرلیا ہے تو مجھے یہ سننا نہ پڑے کہ تم نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ غداری کی ہے اس کام میں پکڑے جانے کا امکان زیادہ ہے اگر تم پکڑے گئے اور تمہارے ساتھی نکل آئے تو جان دے دینا اپنے ساتھیوں کے نام پتے نہ بتانا میں تمہیں صلاح الدین ایوبی کی فوج کے لیے جوان کر رہا تھا لیکن تمہاری بہن کی شادی کرکے تمہیں رخصت کرنے کا سوچا تھا جاؤ اور میری روح کو مطمئن کردو ایک بار پھر سن لو میں کسی سے یہ نہیں کہلوانا چاہتا کہ تمہاری رگوں میں صارم کا خون نہیں تھا
باپ نے بیٹی کو بھی اجازت دے دی عثمان صارم نے اسے بتایا کہ برجیس ڈیوڑھی میں بیٹھا ہے اور وہ اس مہم کی کمان اور رہنمائی کرے گا باپ ڈیوڑھی میں برجیس  کے پاس چلا گیا عثمان نے النور سے کہا کہ وہ فوراً اپنی ایک یا دو ایسی سہیلیوں کو بلا لائے جو اس کام میں شامل ہونے کی جرأت رکھتی ہیں النور اسی وقت باہر نکل گئی اور ذرا سی دیر میں دو سہیلیوں کو بلا لائی اتنے میں عثمان صارم کا ایک ساتھی اپنی بہن کے ساتھ آگیا ایک ایک کرکے ساتوں جوان آگئے برجیس نے لڑکیوں کو بتایا کہ وہ کس راستے کہاں جائیں گی راستے میں  انہیں ایک سنتری روکے گا لڑکیاں اس سے پوچھیں گی کہ اوپر کو کون سا راستہ جاتا ہے وہ کہیں گی کہ شاہ رینالڈ نے انہیں بلایا ہے لیکن وہ غلط راستے پر آگئی ہیں ان میں سے ایک لڑکی نوکرانیوں کے بھیس میں ہوگی جس کے سر پر سامان ہوگا سنتری کو ختم کرنا ہوگا پھر آگ لگانی ہوگی آگ لگانے والا سامان ''نوکرانی'' کے سر پر ہوگا گھوڑے اس طرح بندھے ہوں گے کہ لمبے لمبے رسوں کے سرے زمین میں دبائے ہوئے ہوں گے اور گھوڑوں کی پچھلی ایک ایک ٹانگ سے زنجیر یا رسی بندھی ہوگی جو رسوں سے گزاری ہوئی ہوگی ان لمبے رسوں کو خنجروں سے کاٹ دینا ہوگا اور چند ایک گھوڑوں کو خنجر بھی مارنے ہوں گے تاکہ وہ منہ زور ہوکر بھاگ اٹھیں
برجیس نے لڑکیوں کو فوراً لباس اور حلیہ درست کرنے کو کہا اور ایک کو نوکرانی بنا دیا اس کے منہ اور ہاتھوں پر مٹی اور سیاہی سی مل دی پھر وہ عثمان صارم اور اس کے ساتھیوں کو ہدایات دینے لگا وہ خود اس کے ساتھ جارہا تھا عثمان صارم کے باپ نے بھی انہیں کچھ مشورے دیئے پھر سب کو خنجر دیئے گئے خاصا وقت گزر گیا تھا لیکن برجیس کہہ رہا تھا کہ ابھی شہر جاگ رہا ہے اس جگہ کی رونق اس وقت جاگتی تھی جب شہر سو جاتا تھا تیاریوں میں وقت گزرتا رہا اور روانگی کا وقت ہوگیا
سب کو اکیلے اکیلے جانا اور ایک طے شدہ مقام پر ملنا تھا لڑکیوں کا راستہ الگ تھا انہیں اندازاً وقت بتا دیا گیا تھا جب انہیں آگ لگانی تھی اس وقت برجیس کی جماعت کو حملے کے مقام پر ہونا چاہیے یہ بے حد نازک اور خطرناک مہم تھی جس میں وقت کی غلطی اور کسی کی کوئی بے احتیاطی سب کو ایسے قید خانے میں ڈال سکتی تھی جو جہنم سے کم نہ ہوتا ، سب سے زیادہ خطرہ لڑکیوں کا تھا کیونکہ وہ لڑکیاں تھیں تصور کیا جاسکتا تھا کہ ان کے پکڑے جانے کی صورت میں ان کا کیا حشر ہوگا النور نے کہا کہ پکڑے جانے کا خطرہ ہوا تو  لڑکیاں اپنے خنجروں سے خودکشی کرلیں گی وہ کفار کے ہاتھ زندہ نہیں آئیں گی
شہر پر خاموشی طاری ہوتے ہوتے سارا شہر خاموش ہوگیا کہیں کوئی روشنی نظر نہیں آتی تھی صرف ایک جگہ تھی جہاں رات کے سکوت کا ذرہ بھر اثر  نہیں تھا یہ وہ عمارت تھی جہاں صلیبیوں کی متحدہ کمان کا ہیڈکوارٹر تھا وہیں صلیبی حکمرانوں اور اعلیٰ کمانڈروں کی رہائش بھی تھی یہ لوگ اس ہال میں ایک ایک کر کے آچکے تھے جہاں وہ ہر رات شراب نوشی اور رقص کی محفل جمایا کرتے تھے اس رات ان کا موضوع دو نئی مسلمان لڑکیاں اور مال واسباب تھا جو قافلے سے لوٹا گیا تھا کسی نے پوچھا کہ یہ لڑکیاں کسی اور کام بھی آسکتی ہیں؟ 
اس کا جواب ایک فوجی کمانڈر نے یہ دیا کہ لڑکیاں بالغ ذہن کی ہیں اس لیے انہیں جاسوسی وغیرہ کے لیے استعمال نہیں کیا جاسکتا ایک کی عمر سولہ سترہ سال ہے اور دوسری بائیس تئیس سال کچھ عرصہ تفریح کے لیے استعمال ہوسکتی ہیں
اس کے بعد انہیں اپنے دو فوجی افسروں کے حوالے کردینا ایک اعلیٰ کمانڈر نے کہا وہ ان کے ساتھ شادی کرلیں گے
یہ لڑکیاں ان کے ہنسی مذاق اور غلیظ باتوں کا موضع بنی رہیں اور وہ مسلمانوں کے خلاف نفرت کا اظہار کرتے رہے اس وقت لڑکیاں دو الگ الگ کمروں میں تھیں وہ رو رو کر بے حال ہورہی تھیں دونوں کے ساتھ ایک ایک خادمہ تھی یہ ادھیڑ عمر عورتیں بڑی خرانٹ اور اس فن کی ماہر تھیں وہ لڑکیوں کو نہلا چکی تھیں اور انہیں رات کا لباس پہنا رہی تھیں لڑکیوں نے کچھ بھی نہیں کھایا تھا ان کے آگے ایسے ایسے کھانے رکھے گئے تھے جو انہوں نے کبھی خواب میں بھی نہیں دیکھے تھے لیکن انہوں نے کسی چیز کو ہاتھ نہیں لگایا تھا دونوں کو ایک دوسرے کے متعلق معلوم نہیں تھا کہ کہاں ہے اور اس کے ساتھ کیا بیت رہی ہے دونوں عورتیں انہیں بڑے ہی حسین سبز باغ دکھا رہی تھیں ایک کو بتایا جارہا تھا کہ اسے فرانس کے بادشاہ نے پسند کیا ہے جو اسے زر و جواہرات سے لاد دے گا دوسری کو جرمن کے بادشاہ کی ملکہ بننے کے خواب دکھائے جارہے تھے اس کے ساتھ ہی انہیں بڑے پیار سے دھمکیاں بھی دی جارہی تھیں کہ انہوں نے اگر ان بادشاہوں کو ناراض کیا تو وہ انہیں فوجی سپاہیوں کے حوالے کردیں گے
یہ لڑکیاں صحرائی دیہات کی رہنے والی تھیں کوئی ایسی بزدل بھی نہیں لیکن بے بس ہوگئی تھیں اپنے تحفظ میں کچھ بھی کرنے کے قابل نہیں رہی تھیں ان کے ماں باپ اور بڑے بھائی نے ان کی عصمت کی خاطر صلیبی استبداد کے علاقے سے ہجرت کی تھی مگر صلیبیوں کے پھندے میں آگئے لڑکیاں پکڑی گئیں ماں باپ مارے گئے اور بھائی قید ہوگیا خدا کے سوا ان کی مدد کرنے والا کوئی نہ تھا وہ قید سے نکل بھاگنے کے بھی قابل نہیں تھیں وہ روتی تھیں تو صرف خدا کو یاد کرتی اور خدا کو ہی مدد کے لیے پکارتی تھیں اپنی عزت کے علاوہ اپنے بھائی آفاق کے لیے وہ بہت پریشان تھیں اس وقت آفاق بیگار کیمپ میں تڑپ رہا تھا وہ زخمی تھا اور اسے پیٹا بھی بہت گیا تھا پہلے کے قیدی شام کے وقت روز مرہ کی مشقت سے آئے تھے انہوں نے ان نئے قیدیوں کو دیکھا ان کی بپتا سنی ان میں صرف آفاق زخمی تھا کسی نے اس کی مرہم پٹی نہیں کی تھی تین چار قیدیوں نے مرہم اور کچھ دیسی دوائیاں چھپا کر رکھی ہوئی تھی رات کو انہوں نے آفاق کے زخم صاف کیے اور مرہم بھر کر اوپر کپڑے باندھ دئیے
آفاق کو اپنے زخموں کا درد محسوس نہیں ہورہا تھا اس کا دھیان اپنی بہنوں کی طرف تھا قیدیوں سے وہ  پوچھتا تھا کہ اس کی بہنیں کہاں ہوں گی اور ان کے ساتھ کیا سلوک ہورہا ہوگا اسے بتایا گیا کہ اس قید خانے کی کوئی دیوار نہیں اور انہیں بیڑیاں بھی نہیں ڈالی گئیں پھر بھی وہ یہاں سے بھاگ نہیں سکتا کیونکہ سنتری گھوم پھر رہے ہیں اور اگر وہ یہاں سے نکل بھی جائے تو جائے گا کہاں کہیں نہ کہیں پکڑا جائے گا اس کی سزا اتنی اذیت ناک موت ہوگی جس کا وہ تصور بھی  نہیں کرسکتا اسے بتایا گیا کہ یہاں کئی کئی سالوں سے قیدی پڑے ہیں جو کرک ہی کے رہنے والے ہیں لیکن بھاگنے کی جرأت نہیں کرتے وہ جانتے ہیں کہ وہ پکڑے نہ گئے تو صلیبی ان کے پورے خاندان کو قید میں ڈال دیں گے ان تمام مجبوریوں اور خطروں کے باوجود آفاق فرار اور بہنوں کو رہا کرانے کی سوچ رہا تھا اس کا جسم چلنے کے بھی قابل نہیں تھا قیدی دن بھر کے تھکے ماندے بے ہوشی کی نیند سوگئے اور آفاق جاگ رہا تھا

لڑکیاں پکڑی نہ گئی ہوں عثمان صارم نے سرگوشی میں کہا خدا کو یاد کرو عثمان! برجیس نے کہا ہم اس وقت موت کے منہ میں ہیں دل سے تمام خوف نکال دو اور خدا کو دل میں بٹھا لو تمہیں دوسرے لڑکوں پر بھروسہ ہے؟
پورا بھروسہ عثمان نے کہا ان کی فکر نہ کرو مجھے لڑکیوں کی فکر ہے
خدا کو یاد کرو برجیس نے کہا ہم چوری کرنے نہیں آئے اللہ مدد کرے گا
اس وقت عثمان صارم اور برجیس گھر میں نہیں تھے وہ اس عمارت سے جس میں مغویہ لڑکیاں تھیں اتنی دور جھاڑیوں میں چھپے ہوئے تھے جہاں سے عمارت انہیں اپنے سر پر کھڑی نظر آرہی تھی ان کے سات ساتھی ان سے تھوڑی ہی دور  بکھر کر انہی کی طرح چھپے ہوئے تھے برجیس نے انہیں اچھی طرح بتا دیا تھا کہ کون سے اشارے پر انہیں کیا کرنا ہے عثمان صارم کو ان چار لڑکیوں کا غم تھا جو فوجی سامان اور گھاس کو آگ لگانے کے لیے لے گئی تھیں ان میں اس کی اپنی بہن النور بھی تھی اس وقت تک آگ لگ جانی چاہیے تھی توقع یہ تھی کہ اگر سکیم کامیاب رہی تو آگ کے شعلے اٹھیں گے پھیلیں گے اس عمارت سے تمام کمانڈر وغیرہ آگ کی طرف بھاگیں گے جو ایک قدرتی ردعمل تھا کیونکہ فوجی سامان کو آگ لگنے کی صورت میں وہ اپنی محفل عیش وطرب میں مگن نہیں رہ سکتے تھے ان کے جاتے ہی ان نوجوانوں کو عمارت پر ٹوٹ پڑنا تھا مگر لڑکیوں کو گئے بہت وقت ہوگیا تھا شاید سنتری نے انہیں روک کر واپس بھیج دیا ہوگا
لڑکیاں ابھی سنتری تک ہی نہیں پہنچی تھی کیونکہ وہاں سنتری تھا ہی نہیں سنتری کا نہ ہونا خطرہ تھا کیونکہ زندہ رہنے کی صورت میں وہ انہیں آگ لگاتے پکڑ سکتا تھا لڑکیوں نے سنتری کو ڈھونڈنا شروع کردیا وہ خشک گھاس کے پہاڑوں جیسے ڈھیروں کے پاس سے گزر رہی تھیں اندھیرے میں انہیں خیموں کے انبار نظر نہیں آرہے تھے وہ اکٹھی جارہی تھیں انہیں ایک جگہ ڈنڈے سے  بندھی ہوئی مشعل کا شعلہ نظر آیا وہ ادھر چلی گئیں سنتری سامنے آگیا مشعل کا ڈنڈا زمین میں گڑھا ہوا تھا سنتری نے مشعل اٹھالی اور لڑکیوں کے قریب آکر انہیں روکا وہ لڑکیوں کا بھڑکیلا لباس اور سج دھج دیکھ کر مرعوب ہوگیا ان کے ساتھ ایک نوکرانی تھی جس نے سر پر گٹھڑی سی اٹھا رکھی تھی سنتری نے ان سے پوچھا کہ وہ کون ہیں اور کہاں جارہی ہیں

معلوم ہوتا ہے ہم غلط راستے پر آگئی ہیں النور نے بڑی شوخ ہنسی سے کہا شاہ رینالڈ کا دعوت نامہ آیا تھا ہم نے رات کو آنے کا وعدہ کیا تھا ذرا دیر ہوگئی تو کسی نے بتایا کہ یہ راستہ چھوٹا ہے یہاں تو آگے معلوم ہوتا ہے کہ  گھوڑے وغیرہ بندھے ہوئے ہیں ہم کدھر جائیں؟
ایک معمولی سے سنتری پر رعب طاری کرنے کے لیے شاہ رینالڈ کا نام ہی کافی تھا وہ جانتا تھا کہ صلیبی بادشاہ کس قماش کے لوگ ہیں رینالڈ نے ان لڑکیوں کو عیش وعشرت اور ناچ گانے کے لیے بلایا ہوگا لڑکیوں کے لباس عمریں اور ان کی شکل وصورت اور النور کے بات کرنے کا نڈر اور کھلنڈر سا انداز بتا رہا تھا کہ یہ اس کے اعلیٰ حکام کے مطلب کی لڑکیاں ہیں اس نے انہیں راستہ بتانا شروع کردیا ایک لڑکی اس کے پیچھے ہوگئی اور اتنی زور سے خنجر اس کی پیٹھ میں گھونپا کہ دل کو چیرتا آگے نکل گیا اس کے ہاتھ سے مشعل گر پڑی النور نے مشعل پر  دونوں پاؤں رکھ کر اس کا شعلہ بجھا دیا باقی لڑکیوں نے بھی سنتری کے جسم میں اپنا خنجر داخل کردیا سنتری کی آواز بھی نہ نکلی برجیس نے انہیں بتایا تھا کہ گھاس کو آگ لگے گی تو اس کی روشنی میں انہیں خیموں کے ڈھیر اور گاڑیاں نظر آجائیں گی گھاس کے پہاڑ تو انہیں اندھیرے میں بھی نظر آرہے تھے جو لڑکی نوکرانی بنی ہوئی تھی اس نے جلدی سے سر سے گٹھڑی اتاری اس میں آتش گیر مادہ اور آگ لگانے کا سامان تھا
انہوں نے گھاس کے ایک ڈھیر کو آگ لگا دی پھر دوسرے اور تیسرے کو اور ذرا سی دیر میں تمام ڈھیروں کو آگ لگ گئی اب خطرہ بڑھ گیا تھا کیونکہ روشنی ہوگئی تھی تھوڑی دور انہیں لپٹے ہوئے خیموں کے ڈھیر نظر آگئے یہ کپڑا تھا اسے آگ لگانا مشکل نہ تھا خیمے بھی جلنے لگے خالی گھوڑا گاڑیاں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑی تھیں لڑکیوں میں غیرمعمولی پھرتی آگئی تھی انہوں نے تین چار گاڑیوں پر آتش گیر مادہ پھینکا اور آگ لگا دی اتنی دیر میں گھاس کے شعلے آسمان تک پہنچنے لگے لڑکیاں  گھوڑوں کی طرف بھاگیں ابھی تک کوئی بیدار نہیں ہوا تھا لڑکیوں نے خنجروں سے وہ لمبے لمبے رسے کاٹ دیئے  جن کے سرے زمین میں دبے ہوئے تھے اور ہر رسے کے ساتھ چالیس سے پچاس گھوڑے بندھے ہوئے تھے لڑکیوں نے چند ایک گھوڑوں کو خنجر مارے وہ بدک کر اور شعلوں کے ڈر سے ہیبت ناک آواز سے ہنہنانے لگے اور  اندھا دھند بھاگنے لگے جو گھوڑے کھل نہ سکے انہوں نے اودھم بپا کر دیا معلوم نہیں کتنے گھوڑے کھل کر ادھر ادھر دوڑنے اور ہنہنانے لگے اونٹ کھلے تھے اور آرام سے بیٹھے تھے وہ اٹھ کھڑے ہوئے اور اندھا دھند بھاگنے لگے، چاروں لڑکیاں بے لگام گھوڑوں اور بے مہار اونٹوں کے نرغے میں آگئیں دوسری طرف شعلے تھے جن کی تپش دور سے بھی جسموں کو جلاتی تھی اور جانوروں کے اس  قدر زیادہ شوروغل اور دھماکوں جیسے ٹاپوؤں سے فوج بیدار ہوگئی

مغویہ لڑکیوں کو دلہنیں بنا دیا گیا تھ، دونوں کے کمروں میں بیک وقت ایک ایک آدمی داخل ہوا یہ صلیبیوں کے جنگجو حکمران تھے وہ شراب میں بدمست تھے خادمائیں باہر نکل گئیں لڑکیاں کمروں میں بھاگ دوڑ کر پناہیں ڈھونڈنے لگیں ان کی عصمت کا پاسبان خدا کے سوا کوئی نہ تھا ایک لڑکی دوزانو گر پڑی اور ہاتھ جوڑ کر رو کر خدا کو مدد کے لیے پکارا صلیبی نے قہقہہ لگایا اور اس کی طرف بڑھا باہر اسے شوروغل سنائی دیا یہ غیرمعمولی شور تھا اس نے دروازہ کھول کر دیکھا تو ایسے لگا جیسے پورے شہر کو آگ لگ گئی ہو گھوڑوں اور اونٹوں کی خوف زدگی کا یہ عالم کہ کچھ گھوڑے اس بلندی پر بھی چڑھ آئے جس پر یہ عمارت تھی اس کا نشہ فوراً اتر گیا دوسرا بھی باہر نکل آیا دو تین آدمی دوڑتے آئے اور گھبرائے ہوئے لہجے میں کہا کہ گھاس خیموں اور گاڑیوں کو آگ لگ گئی ہے دوڑتے ہوئے جانوروں نے کئی آدمیوں کو کچل دیا ہے
اگر آگ شہر کو لگتی تو یہ حکام پروا نہ کرتے وہاں فوج کا سامان جل رہا تھا اور فوج کے سینکڑوں جانور کھل گئے تھے ذرا سی دیر میں تمام حکمران اور کمانڈر اور وہاں جو کوئی بھی تھا دوڑتے نکل گئے وہ اپنی نگرانی  میں آگ بجھانے کا بندوبست کرنا چاہتے تھے اس عمارت کے اردگرد جو مسلح پہرہ تھا وہ بھی وہاں سے ہٹ گیا باڈی گارڈز بھی اپنے حکام کے پیچھے دوڑتے گئے برجیس نے بلند آواز سے پکارا تم بھی چلو اور وہ عمارت کی طرف اٹھ دوڑا اس کے آٹھ جوان بھی دوڑ پڑے ان کے ہاتھوں میں خنجر تھے عمارت کے برآمدوں میں جاکر اس نے اپنے ان دو ساتھیوں کو پکارنا شروع کردیا جو وہاں عیسائیوں کے بھیس میں ملازم تھے ان میں سے ایک مل گیا اس نے برجیس کو پہچان لیا برجیس نے اس سے پوچھا کہ آج جو لڑکیاں یہاں لائی گئی ہیں وہ کہاں ہیں اسے معلوم نہیں تھا اس نے کمرے دکھا دئیے اور خود بھی ساتھ ہولیا وہاں اب سہولت یہ پیدا ہوگئی تھی کہ کوئی ذمہ دار آدمی موجود نہ تھا پیچھے نوکر چاکر رہ گئے تھے جو آگے جاکر بلندی سے آگ کا تماشہ دیکھ رہے تھے برجیس کی سکیم پوری طرح کامیاب تھی
وہ ملازم کی رہنمائی میں ان کمروں میں جانے لگے جہاں لڑکیاں ہوتی تھیں وہاں برآمدوں میں کچھ لڑکیاں کھڑی تھی ان میں بعض نیم برہنہ تھیں ان سے پوچھا گیا کہ آج جو لڑکیاں آئی ہیں وہ کہاں ہیں؟ 
انہیں بھی معلوم نہ تھا آخر ایک کمرے میں گئے تو ایک  لڑکی مل گئی وہ کمرے میں دبکی ہوئی تھی عثمان صارم اور اس کے بعض ساتھیوں نے اسے دن کے وقت دیکھا تھا جب ان دونوں کو لٹے ہوئے قافلے کے ساتھ لے جایا جارہا تھا برجیس کی پارٹی کے تمام آدمی نقاب پوش تھے انہیں  دیکھ کر لڑکی نے چیخ ماری برجیس نے اسے بتایا کہ وہ مسلمان ہیں اور اسے رہا کرانے آئے ہیں مگر وہ لڑکی اتنی ڈری ہوئی تھی کہ ان کے ہاتھ نہیں آرہی تھی انہوں نے اسے زبردستی اٹھا لیا دوسرے کمرے میں اس کی بہن مل گئی اس کا ردعمل بھی یہی تھا اسے بھی زبردستی اٹھایا گیا دوسری لڑکیاں جو ایک عرصے سے صلیبیوں کے پاس تھیں یہ منظر دیکھ رہی تھیں وہ آدمیوں کو ڈاکو سمجھ کر ادھر ادھر بھاگ گئیں مغویہ بہنیں چیخ وپکار کر رہی تھیں انہیں برجیس نے غصے سے کہا کہ وہ سب مسلمان ہیں انہیں مسلمان گھرانوں میں لے جاکر چھپائیں گے بڑی ہی مشکل سے انہیں خاموش کیا گیا اور جانبازوں کی یہ جماعت وہاں سے نکل گئی
آگ کا منظر بے حد خوفناک تھا شعلے توقع سے کہیں زیادہ اونچے جارہے تھے اور دور دور تک پھیل گئے اور پھیلتے ہی چلے جا رہے تھے گھوڑوں اور اونٹوں نے سارے شہر میں قیامت بپا کرکھی تھی سارا شہر جاگ اٹھا تھا گلیوں میں سڑکوں پر اور میدانوں میں ان جانوروں نے  اس قدر دہشت گردی پھیلا دی تھی کہ لوگ دبک کر گھروں میں بیٹھ گئے تھے اور آگ نے جو دہشت پھیلائی تھی اس سے بعض لوگ گھروں سے بھاگنے کی تیاریاں کرنے لگے تھے افراتفری اور بھگدڑ مچی ہوئی تھی سلطان ایوبی کے جاسوس بھی وہاں موجود تھے وہ عقلمند اور موقع شناس تھے انہوں نے آگ بھاگتے دوڑتے جانور اور افراتفری دیکھی تو یہ معلوم کیے بغیر کہ یہ معاملہ کیا ہے یہ مشہور کر دیا کہ صلاح الدین ایوبی کی فوجیں شہر میں داخل ہوگئی ہیں اور شہر کو آگ لگا رہی ہیں یہ افواہ مسلمانوں کے لیے حوصلہ افزا تھی عیسائیوں اور یہودیوں کے ہوش اڑ گئ یہ افواہ آگ کی طرح سارے شہر میں پھیل گئی غیر مسلموں نے بھاگنا شروع کردیا
صلیبی حکمران اور اعلیٰ حکام آگ کی جگہ پہنچے تو وہاں کوئی انسان نہیں تھا انہوں نے بھی یہی سمجھا کہ  مسلمانوں کی فوج قلعے میں کہیں نقب لگا کر اندر آگئی ہے انہوں نے فوج کو قلعے کے دفاع کے لیے جنگی ترتیب میں فوراً چلے جانے کا حکم دیا اور اسی فوج کے کچھ حصے کو قلعے کے باہر جانے کو کہا دو تین کمانڈر دوڑ کر قلعے کی دیوار پر چڑھے اور باہر دیکھا باہر خاموشی تھی کسی طرف سے حملہ نہیں ہوا تھا قلعے کا عقبی دروازہ کھول دیا گیا تاکہ فوج باہر جاسکے رات کے وقت قلعے کا دروازہ نہیں کھولا جاتا تھا لیکن اس خیال سے دروازہ کھول دیا گیا کہ سلطان ایوبی کا کوئی جانباز دستہ اندر آگیا ہے جس نے بھگدڑ مچا دی ہے یہ باہر کے حملے کا پیش خیمہ ہے فوج آرہی ہوگی اس فوج کو شہر سے دور روکنے کے لیے صلیبیوں نے رات کو ہی فوج باہر بھیج دی اور دروازہ کھولنے کا خطرہ مول لے لیا یہ فیصلہ دراصل گھبراہٹ میں کیا گیا تھا اور یہ ایک غلط فیصلہ تھا بعض غیرمسلموں نے جو عقب دروازے کے قریب تھے دیکھ لیا کہ وہ دروازہ کھل گیا ہے وہ اندھا دھند دروازے کی طرف بھاگے انہیں دیکھ کر دوسرے شہری بھی ان کے پیچھے گئے وہاں سے فوج گزر رہی تھی شہریوں کا سیلاب آگیا جسے کوئی نہ روک سکا
آگ پھیلتی جارہی تھی گھوڑا گاڑیوں کے قریب ہی رسد  کی بوریوں کے انبار تھے بہت سا دیگر اقسام کا سامان بھی پڑا تھا آگ پر قابو پانا ضروری تھا شہری گھروں میں چھپ گئے تھے یا بھاگ رہے تھے یہ کام فوج کرسکتی تھی فوج کی کچھ نفری کو بلا لیا گیا اور اس کے ساتھ ہی کسی کو ان مسلمان قیدیوں کا خیال آگیا جو بیگار کیمپ میں پڑے ہوئے تھے فوراً حکم دیا گیا کہ قیدیوں کو اس اعلان کے ساتھ لے آؤ کہ وہ آگ پر قابو پالیں تو انہیں صبح کے وقت رہا کر دیا جائے گا قیدی باہر کے شور سے جاگ اٹھے تھے اور سنتری انہیں ڈنڈے مار مار کر سوجانے کو کہہ رہے تھے اتنے میں حکم آگیا کہ قیدیوں کو پانی لانے اور آگ پر پھینکنے کے لیے لے چلو رہا کا اعلان بھی  کیا گیا ان میں آفاق بھی تھا اس کا جسم ٹھنڈا ہوکر اور زیادہ دکھنے لگا تھا اس نے ایک قیدی سے کہا صلیبیوں کی ساری سلطنت جل جائے میں آگ بجھانے نہیں جاؤں گا
پاگل نہ بنو ایک قیدی نے اسے کہا ان لوگوں نے کہہ دیا ہے کہ آگ بجھاؤ اور کل رہا ہو جاؤ لیکن یہ دھوکہ ہے یہ کافر جھوٹ بولتے ہیں تم ہمارے ساتھ چلو اور بھاگ نکلو ہم نہیں بھاگ سکتے کیونکہ یہ لوگ ہمارے گھروں سے واقف ہیں تم نکل جانا، جاؤں گا کہاں
قیدی نے اسے اپنے گھر کا پتہ بتا کر کہا میں کوشش کروں گا کہ موقع محل دیکھ کر تمہیں اپنے گھر پہنچا دوں لیکن وہاں زیادہ دن نہ رکنا کیونکہ صلیبی میرے سارے کنبے کو سزا دیں گے
قیدیوں کو صلیبی لے گئے اور انہیں تقسیم کرکے مختلف کنوؤں پر لے جایا گیا فوجی پانی نکال رہے تھے قیدیوں  نے مشکیزے اٹھانے شروع کر دیئے وہ دوڑ دوڑ کر جاتے اور آگ پر پانی پھینکتے تھے ایک دو چکروں میں سنتری ان کے ساتھ رہے مگر یہ ممکن نہیں تھا قیدی اور فوجی گڈ مڈ ہوگئے کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا صلیبی کمانڈر گھبراہٹ میں سب کو گالیاں دے رہے تھے اتنے میں گھوڑوں کا ڈرا ہوا ریوڑ دوڑتا ہوا آیا آگ بجھانے والے قیدی اور فوجی ان کی زد میں آگئے سب ادھر ادھر بھاگ اٹھے بعض کچلے بھی گئے اور اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے آفاق کو وہ پرانا قیدی اپنے ساتھ لے گیا مسلمانوں کو کوئی خطرہ نہ تھا وہ خوش تھے کہ مسلمان فوج آگئی ہے قیدی اپنے گھر میں داخل ہوا اس کا سارا خاندان جاگ رہا تھا اسے دیکھ کر سب بہت مسرور ہوئے لیکن اس نے آفاق کو ان کے حوالے کرکے کہا اسے چھپالو اور جلدی شہر سے نکال دینا میں نہیں رک سکتا صلیبیوں نے کل  رہائی کا وعدہ کیا ہے اسے ابھی کوئی نہیں جانتا اگر میں یہاں رک گیا تو شاید کبھی بھی رہائی نہیں ملے گی
کیا یہ سچ ہے کہ صلاح الدین ایوبی کی فوج اندر آگئی ہے؟
قیدی کے باپ نے پوچھا
کچھ پتہ نہیں قیدی نے جواب دیا آگ بہت زور کی ہے معلوم نہیں کب بجھے گی اگر ہماری فوج نہیں آئی تو پھر ہم یہ خطرہ کیسے مول لے سکتے ہیں؟
قیدی کے باپ نے کہا یہ آدمی خود ہی نکل جائے گا قیدی نے کہا یہ کل یہاں سے نکل جائے گا اس کا ہمیں کوئی خطرہ نہیں قیدی کے باپ نے کہا ابھی ابھی تمہارا چھوٹا بھائی دو مسلمان لڑکیوں کو لایا ہے انہیں اس نے اور صارم کے بیٹے عثمان نے اور ان کے دوستوں نے صلیبیوں کے شاہی خانے سے اغوا کیا ہے دونوں کو ہم نے گھر میں چھپا لیا ہے
کون ہے وہ لڑکیاں؟ 
قیدی نے پوچھا
کہتے ہیں انہیں کل ایک قافلے سے صلیبیوں نے اغوا کیا تھا باپ نے جواب دیا ان کا بھائی سنا ہے قید میں ہے
آفاق نے تڑپ کر پوچھا کہاں ہیں وہ لڑکیاں؟
ذرا سی دیر میں آفاق اپنی بہنوں کو گلے لگا رہا تھا خدا نے ان کی فریادیں سن لی تھیں یہ بڑا ہی جذباتی منظر تھا ان کے ماں باپ مارے گئے تھے وہ لٹ گئے تھے
انہیں ایسی معجزہ نما ملاقات کی توقع نہیں تھی جس قیدی کا یہ گھر تھا وہ دوڑ کر باہر نکل گیا وہ قید سے بھاگنا نہیں چاہتا تھا اس کا چھوٹا بھائی برجیس اور عثمان صارم کے ساتھ تھا وہ لڑکیوں کو گھر چھوڑ کر  کہیں چلا گیا تھا
وہ اچانک آگیا اس نے لڑکیوں سے کہا فوراً اٹھو شہر سے نکلنے کا موقع پیدا ہوگیا ہے آفاق کے متعلق اسے بتایا گیا  کہ ان لڑکیوں کا بھائی ہے اور قید سے فرار ہوکر آیا ہے اس نے آفاق کو بھی اپنے ساتھ لیا اور باہر لے گیا باہر تین گھوڑے تھے یہ برجیس کا انتظام تھا اس نے دونوں بہنوں کو گھوڑوں پر سوار کیا اور جب تیسرے گھوڑے پر خود سوار ہونے لگا تو اسے آفاق کے متعلق بتایا گیا اس نے آفاق کو تیسرے گھوڑے پر سوار کیا اور خود چل پڑا اس نے اتنا ہی کہا خدا حافظ دوستو! زندہ رہے تو پھر ملیں گے اور وہ دوڑ پڑا وہ شہر کے عقبی دروازے کی طرف جارہا تھا جہاں سے ڈرے ہوئے شہریوں کا جلوس باہر کو بھاگا جارہا تھا یہ دروازہ برجیس نے پہلے سے دیکھ رکھا تھا شہر سے نکلنے کا موقع پیدا ہوگیا تھا اس  نے کہیں سے تین گھوڑے پکڑے اور لے آیا کسی صلیبی کمانڈر نے دیکھ لیا کہ شہری تو بھاگ رہے ہیں اس نے دروازہ بند کرنے کا حکم دے دیا برجیس جب وہاں پہنچا تو دروازہ آہستہ آہستہ بند ہورہا تھا اور شہریوں کا ایک ہجوم دروازے میں پھنس گیا تھا ایک واویلا بپا تھا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
برجیس نے چلانا شروع کردیا پیچھے سے فوج آرہی ہے دروازہ کھول دو بھاگو مسلمان آرہے ہیں ہجوم نے آگے  کو زور لگایا تو بند ہوتے ہوتے دروازہ کھل گیا انسان رکے ہوئے دریا کی طرح بند توڑ کر نکل گئے
باہر نکل کر برجیس نے آفاق سے کہا کہ کسی ایک  بہن کے پیچھے سوار ہو جاؤ اگر میں تمہارے ساتھ سوار ہوا تو ایک گھوڑے پر دو مردوں کا وزن زیادہ ہوجائے گا ہمارا سفر لمبا ہے آفاق ایک بہن کے پیچھے سوار ہوگیا دوسری سے اس نے کہا کہ وہ سواری سے ڈرے نہیں گھوڑا اسے گرائے  گا نہیں انہوں نے گھوڑے دوڑا دئیے برجیس کو معلوم تھا کہ راستے میں صلیبی فوج خیمہ زن ہے اسے یہ بھی معلوم تھا کہ کون سی جگہ فوج نہیں ہے وہ اس  سمت ہولیا کرک کے بھاگے ہوئے لوگ ادھر ادھر بکھرتے جارہے تھے شعلوں کی روشنی دور دور تک جارہی تھی آفاق اور لڑکیوں کو معلوم نہیں تھا کہ انہیں کس طرح رہا کرایا گیا ہے برجیس خاموش تھا وہ اگر بولتا تو صرف اتنا کہ آفاق سے اس کی خیریت پوچھتا تھا اور اس کی جو بہن گھوڑے پر اکیلی سوار تھی اس سے پوچھ لیتا تھا کہ وہ ڈر تو نہیں رہی کرک کے شعلے پیچھے ہٹتے جارہے تھے اور رات گھوڑوں کی رفتار کے ساتھ گزرتی جارہی تھی
صبح طلوع ہوئی تو برجیس سلطان ایوبی کی فوج کے علاقے میں داخل ہوچکا تھا اس نے ایک کمان دار سے اپنا تعارف کرایا اور سلطان ایوبی کے متعلق پوچھا کہ کہاں ہوگا کمان دار اسے اپنے دستوں کے کمان دار کے پاس لے گیا جس نے اسے بتا دیا کہ سلطان ایوبی کہاں ہوسکتا ہے برجیس اپنی اس کامیابی پر بے حد خوش تھا اس نے صرف لڑکیوں کو صلیبیوں سے آزاد نہیں کرایا تھا بلکہ کرک میں آتش زنی جیسی تخریبی کارروائی کرکے صلیبی فوج کے غیرمسلم شہریوں کو جذبے پر خوف طاری کر آیا تھا۔ وہ سلطان ایوبی کو یہ مشورہ دینا چاہتا تھا کہ کرک  پر فوراً حملہ کردیا جائے
کرک کی صبح بڑی بھیانک تھی۔ شعلوں کی  بلندی اور تندی ختم ہوگئی تھی لیکن آگ ابھی تک سلگ رہی تھی۔ صلیبی فوج کی رسد اور جانوروں کا تمام تر خشک چارہ جل گیا تھا خیموں کے علاوہ بے شمار  جنگی سامان نذر آتش ہوگیا تھا کچھ اونٹ زندہ جل گئے تھے تمام گھوڑے اور  اونٹ رات بھر دوڑ دوڑ کر تھک گئے اور اب سارے شہر میں آوارہ پھر رہے تھے جگہ جگہ ان لوگوں کی لاشیں پڑی تھیں جو بے لگام گھوڑوں اور بے مہار اونٹوں  کی زد میں آکر کچلے گئے تھے فوجی اور قیدی ابھی تک کنوؤں سے پانی لالا کر آگ پر پھینک رہے تھے صلیبی حکام ابھی تک یہ سمجھ رہے تھے کہ سلطان ایوبی  کی فوج اندر آگئی ہے لیکن وہاں ایسے کوئی آثار نہیں تھے انہوں نے قلعے کی دیواروں پر جاکر ہر طرف دیکھا باہر صلیبیوں کی اپنی فوج قلعے کے اردگرد موجود تھی اسلامی فوج کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا اب یہ تفتیش کرنی  تھی کہ آگ کس طرح لگی
اس سنتری کی لاش ملی جسے لڑکیوں نے خنجروں سے ہلاک کیا تھا لیکن گھوڑوں اور اونٹوں نے اسے ایسی بری طرح روندا تھا کہ خنجروں کے زخم پہچانے نہیں جاتے تھے۔ اس سے تھوڑی دور چار زنانہ لاشیں  ملیں۔ یہ اس میدان میں پڑی ہوئی تھیں جہاں گھوڑے اور اونٹ باندھے جاتے تھے یہ تفتیش کرنے والا حاکم کوئی معمولی آدمی نہیں بلکہ صلیبیوں کی انٹیلی جنس کا ڈائریکٹر ہرمن تھا اس میدان میں لاشیں تو اور بھی پڑی تھیں لیکن اسے چار عورتوں کی لاشیں ملیں ان کے چہرے گھوڑوں کے پاؤں تلے آ آ کر مسخ ہوگئے تھے جسم کا کوئی حصہ سلامت نہیں تھا یہ لاشیں ایک دوسری سے دور دور پڑی تھیں۔ ان کے کپڑے تار تار ہوگئے تھے خاک وخون میں ان کا اصل رنگ نظر نہیں آتا تھا اتنا ہی پتہ چلتا تھا کہ یہ زنانہ کپڑے ہیں لاشیں دیکھ کر بھی یہ ثبوت نہ ملتا تھا کہ یہ عورتوں کی ہیں سب کے جسموں سے کھال اکھڑی ہوئی  اور کئی جگہوں سے گوشت باہر آیا ہوا تھا کئی ہڈیاں ننگی ہوگئی تھیں اور  ٹوٹی ہوئی بھی تھیں ہر لاش کے گلے میں زنجیر اور زنجیر کے ساتھ ایک چھوٹی صلیب بندھی ہوئی تھی یہ صلیبیں اس امر کا ثبوت تھا کہ عورتیں عیسائی تھیں
ہرمن اور فوجی افسر حیران تھے کہ عورتوں کی لاشیں یہاں کیوں پڑی ہیں یہ فوجی علاقہ تھا اور اس طرف سے کسی شہری کو گزرنے کی اجازت نہیں تھی اور نہ ہی یہ عام گزرگاہ تھی یہ تو جانوروں اور رسد وغیرہ کی جگہ تھی، وہاں چند اور لاشیں بھی پڑی تھیں وہ فوجیوں کی تھیں عورتیں رات کے وقت ادھر کیوں آئیں؟
اس سوال کا جواب دینے والا کوئی نہ تھا صرف قیاس آرائی کی جاسکتی  تھی جو کی گئی کہا گیا کہ فوجی پیشہ ور عورتوں کو ادھر لے آئے ہوں گے مگر  اصل مسئلہ تو یہ تھا کہ آگ کس طرح لگی۔ شہر کے مسلمانوں پر شک کیا جاسکتا تھا لیکن مجرموں کا سراغ لگانا آسان نہیں تھا حکم دے دیا گیا کہ خفیہ پولیس اور فوج کے سراغ رساں شہر میں مشتبہ مسلمانوں کی چھان بین کریں اور  جس پر ذرا بھی شک ہو اسے قید میں ڈال کر  تحقیقات کریں
النور اور اس کی تینوں لڑکیوں کے گھر والے بہت پریشان تھے لڑکیاں واپس نہیں آئی  تھیں، ڈر یہ تھا کہ پکڑی نہ گئی ہوں انہوں نے اپنا فرض مکمل کامیابی سے ادا کیا تھا لیکن وہ ابھی تک لاپتہ تھیں عثمان صارم اور اس کے دوست ان تماشائیوں کے ہجوم میں جاکھڑے ہوئے جو آتش زدہ جگہ کھڑے تھے وہاں انہیں پتہ چلا کہ چار عورتوں کی لاشیں ملی ہیں تھوڑی دیر بعد اعلان ہوا کہ چار  عورتوں کی لاشیں فلاں جگہ رکھ دی گئی ہیں
تمام شہری انہیں دیکھ کر پہچاننے  کی کوشش کریں تماشائیوں کا ہجوم ادھر چلا گیا عثمان صارم اور اس کے  دوستوں نے اکٹھی رکھی ہوئی چار لاشوں کو دیکھا ان کی صلیبیں ان کے سینوں  پر رکھ دی گئی تھیں کوئی بھی کسی لاش کو نہ پہچان سکا پہچاننے کے لیے وہاں کچھ تھا ہی نہیں چہروں سے بھی کھال اتری ہوئی تھی بعض کے چہرے اندر  کو پچک گئے تھے
عثمان صارم کے آنسو نکل آئے وہ تماشائیوں میں سے  نکل گیا اس کے دوست بھی اس سے جا ملے ان سب کو معلوم تھا کہ یہ لاشیں کن کی ہیں ان میں ایک عثمان صارم کی بہن النور کی لاش تھی باقی تین لاشیں اس کی سہیلیوں کی تھیں چاروں رات کو اپنا فرض ادا کر کے شہید ہوگئی تھیں ان کی شہادت کا عینی شاہد کوئی بھی نہیں تھا لاشوں کی حالت جو کہانی بیان کرتی تھی وہ کچھ اس طرح ہوسکتی تھی کہ ان لڑکیوں نے سنتری کو ہلاک کرکے آگ  لگائی بعد میں گھوڑوں کے رسے کاٹے اور انہی گھوڑوں کی بھگدڑ کی زد میں آگئیں معلوم نہیں کتنے سو گھوڑے اور اونٹ لاشوں کو روندتے رہے دو لڑکیوں کی عصمت بچانے کے لیے چار لڑکیاں قربان ہوگئیں برجیس نے اپنے ہاتھوں ان لڑکیوں کے گلوں میں صلیبیں لٹکائی تھیں تاکہ بوقت ضرورت وہ صلیبیں دکھا کر  ظاہر کرسکیں کہ وہ عیسائی ہیں
ان لڑکیوں کا جنازہ نہیں پڑھایا گیا انہیں صلیبیوں نے عیسائی سمجھ کر اپنے قبرستان میں کہیں دفن کردیا ان کے  لواحقین نے ماتم نہیں کیا ایصال ثواب کے لیے قرآن خوانی کی گئی گھروں میں غائبانہ نماز جنازہ پڑھی گئی چاروں لڑکیوں کے باپوں نے ایک ہی جیسے جذبات  کا اظہار کیا انہوں نے کہا کہ اسلام کے نام پر وہ چار بیٹے قربان کرنے کو تیار ہیں مگر ان سے جو قربانی لی جانے لگی وہ بڑی ہی اذیت ناک تھی صلیبی فوج نے تمام مسلمان گھروں کی خانہ تلاشی شروع کردی خطرہ تھا کہ جو ہتھیار انہوں نے گھروں میں چھپا رکھے ہیں، وہ پکڑے جائیں گے سب نے ہتھیار اندرونی  کمروں کے فرش کھود کر دبا دئیے دوسرا خطرہ یہ تھا کہ جو چار لڑکیاں شہید  ہوگئی تھیں ان کے متعلق جواب دینا مشکل تھا کہ کہاں چلی گئی ہیں آگ کی رات کے دوسرے ہی دن امام کو جب لڑکیوں کی شہادت کی خبر سنائی گئی تو اس نے  پہلی بات یہ کہی تمہارے غیر مسلم پڑوسی اور مسلمان مخبر ضرور پوچھیں گے کہ لڑکیاں کہاں ہیں تو کیا جواب دو گے؟
امام دانشمند اور دور اندیش انسان  تھا اس نے گہری سوچ کے بعد کہا چاروں لڑکیوں کے باپ اور بھائی میرے  ساتھ آئیں وہ آگئے تو اس نے سب کو ایک طریقہ بتایا اور کچھ باتیں ذہن  نشین کرائیں وہ سب کو صلیبیوں کی انتظامیہ کے دفتر میں لے گیا اور وہاں کے  سب سے بڑے حاکم سے ملاقات کی اجازت لے کر بڑے غصے اور جذباتی لہجے میں کہا میں ان لوگوں کا امام ہوں یہ میرے پاس فریاد لے کر آئے ہیں کہ رات  آگ لگی تو یہ سب آگ بجھانے کے لیے اٹھ دوڑے یہ رات بھر کنوؤں سے پانی  نکالتے رہے شہر میں بھگدڑ مچ گئی کسی کو کسی کا ہوش نہ رہا یہ لوگ صبح  کے وقت گھروں کو گئے تو انہیں پتہ چلا کہ آپ کی فوج کے کچھ آدمی ان کے  گھروں میں گھس گئے اور ان کی کنواری لڑکیاں اٹھا کر لے گئے ہماری چار لڑکیاں لاپتہ ہیں
ہماری فوج پر الزام لگانے سے پہلے سوچ لو صلیبی حاکم نے رعب سے کہا
جناب! میں مذہبی پیشوا ہوں امام نے کہا میں آپ کو یہ بتانا چاہتا  ہوں کہ آپ ہمیں دھتکار سکتے ہیں اور اپنی فوج کو بے گناہ کہہ سکتے ہیں لیکن خدا سے آپ  کوئی اچھا برا عمل نہیں چھپا سکتے آپ ہمارے حاکم ہیں خدا تو  نہیں ان لوگوں نے آپ کی فوج کو نقصان سے بچانے کے لیے ساری رات آگ سے  لڑائی لڑی آپ انہیں یہ صلہ دے رہے ہیں کہ یہ بھی تسلیم نہیں کرنا چاہتے کہ ان کی لڑکیوں کو آپ کے فوجی اٹھا لے گئے ہیں
کچھ دیر بحث کے بعد  حاکم نے انہیں کہا کہ ان لڑکیوں کو تلاش کیا جائے گا۔ امام اس سے یہی کہلوانا چاہتا تھا باہر آکر جب وہ واپسی کے لیے چلے تو امام نے سب سے کہا  کہ اب یہی مشہور کردو کہ رات ان کی لڑکیاں اغوا ہوگئی ہیں چنانچہ یہی  مشہور کردیا گیا ان کے پڑوس میں رہنے والے غیرمسلموں نے یقین کرلیا رات شہر کی حالت ہی ایسی تھی کہ لوٹ مار اور اغواء آسانی سے کی جاسکتی تھی۔

برجیس سلطان ایوبی کے خیمے میں بیٹھا تھا آفاق کی مرہم پٹی سلطان ایوبی کا جراح کرچکا تھا آفاق کی دونوں بہنیں بھی خیمے میں بیٹھی تھیں برجیس رات کا کارنامہ سنا چکا تھا۔ سلطان ایوبی بار بار لڑکیوں کو دیکھتا تھا ہر  بار اس کی آنکھیں سرخ ہوجاتی تھیں۔ برجیس نے کہا کہ وہ کرک کو ایسی افراتفری اور بھگدڑ میں چھوڑ آیا ہے کہ فوری طور پر حملہ کیا جائے تو حملہ کامیاب ہوسکتا ہے شہر میں فوجوں کے لیے رسد نہیں رہی جانوروں کے لیے چارہ نہیں رہا جانور ڈرے ہوئے ہیں شہر پر خوف طاری ہے فوج بھی ڈری ہوئی ہے
سلطان ایوبی گہری سوچ میں کھوگیا بہت دیر بعد اس نے سراٹھایا اور اپنے نائبین اور مشیروں کو بلایا اس نے پہلا حکم یہ دیا کہ ان لڑکیوں اور ان کے  بھائی کو قاہرہ روانہ کردیا جائے اور ان کی رہائش اور وظیفے کا انتظام کیا جائے آپ میری بہنوں کو اپنی عافیت میں لے لیں آفاق نے کہا میں آپ کے ساتھ رہوں گا مجھے اپنی فوج میں شامل کرلیں مجھے اپنی ماں اور باپ کے خون کا انتقام لینا ہے اگر آپ مجھے کرک میں داخل کرسکیں تو میں اندر تباہی مچا دوں گا
جنگ جذبات سے نہیں لڑی جاتی سلطان ایوبی نے کہا بڑی لمبی تربیت کی ضرورت ہے تم صرف اپنی ماں اور اپنے باپ  کے خون کا انتقام لینے کو بیتاب ہو مجھے ان تمام باپوں اور تمام بیٹیوں کے خون کا انتقام لینا ہے جو صلیبی درندوں کا شکار ہوئی ہیں اپنے آپ کو  ٹھنڈا کرو
آفاق کی جذباتی حالت ایسی تھی کہ سلطان ایوبی اسے  زبردستی قاہرہ بھیجنے سے گریز کرنے لگا اسے کہا کہ پہلے اپنا علاج کرائے صحت یاب ہوجائے پھر اس کی خواہش پوری کردی جائے گی اتنے میں نائب سالار  اور اعلیٰ کمان دار آگئے ان میں زاہدان بھی تھا سلطان ایوبی نے آفاق اور اس کی بہنوں کو باہر بھیج دیا اس نے اجلاس میں یہ مسئلہ پیش کیا کہ کیا کرک کو فوراً محاصرے میں لے لیا جائے؟
اس نے سب کو کرک کی اس وقت کی کیفیت  بتائی اس مسئلے پر بحث شروع ہوگئی زاہدان نے اپنے جاسوسوں اور رپورٹوں کی روشنی میں کہا کہ صلیبی فوج صرف کرک میں نہیں باہر بھی ہے اور اس کا ایک حصہ ایسی پوزیشن میں ہے جو ہماری فوج کا محاصرہ باہر سے توڑ دے گا انہوں نے ایسا انتظام کررکھا ہے کہ رسد کی آمدورفت کی حفاظت کے لیے ان کی پوری  فوج موجود ہے اگر ان کے پاس وقتی طور پر رسد کی کمی آگئی ہے تو یہ سمجھ کر  حملہ کرنا کہ ہمارا محاصرہ کامیاب ہوگا محض خوش فہمی ہے۔ ان کے پاس صرف وہی رسد اور سامان نہیں تھا جو جل گیا ہے ان کی ہر ایک فوج کے ساتھ اپنی اپنی رسد اور سامان موجود ہے اور ان کی نفری ہم سے پانچ چھ گنا ہے
اجلاس کے دوسرے شرکاء نے اپنے اپنے مشورے پیش کیے ان کی اکثریت فوری حملے کے حق میں تھی اور بعض نے انتظار کی تجویز پیش کی تجاویز اور مشورے جیسے کیسے بھی تھے سلطان ایوبی نے سنے اسے یہ دیکھ کر اطمینان ہوا کہ کمانڈروں کا جذبہ شدید تھا ان میں بیشتر نے کہا کہ حملہ جلدی کریں یا دیر سے یہ  پیش نظر رکھیں کہ ایک بار حملہ کرکے یہ نہ سننا پڑے کہ محاصرہ اٹھا لو کیونکہ ہم کمزور ہیں سلطان ایوبی خاموشی سے سنتا رہا اس نے آخر میں فوج کے جذبے اور دیگر کوائف کے متعلق پوچھا اسے تسلی بخش جواب ملا میں جلدی حملہ کرنا چاہتا ہوں آخر میں سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا لیکن میں جلد بازی کا قائل نہیں میرے سامنے صرف کرک کا قلعہ بند شہر نہیں بلکہ صلیبیوں کی وہ تمام فوج ہے جو انہوں نے باہر پھیلا رکھی ہے زاہدان نے ٹھیک کہا ہے کہ کرک کے اندر تباہی سے ہمیں خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہیے تاہم حملہ جلدی ہوگا فاصلہ زیادہ نہیں ایک ہی رات میں  ہمارے دستے کرک تک پہنچ سکتے ہیں اگر انہیں ایک جنگ قلعے سے باہر لڑنی پڑے  گی کوچ سے پیشتر ہمیں کرک کے مسلمانوں کو تیار کرنا پڑے گا مجھے اندر کی  جو تازہ اطلاعات ملی ہیں وہ یہ ہیں کہ وہاں کے مسلمان درپردہ ایک جماعت کی صورت میں منظم ہوچکے ہیں، امید کی جاسکتی ہے کہ وہ محاصرے کی صورت میں شہر  میں تخریب کاری کریں گے ان کی لڑکیاں بھی میدان میں نکل آئی ہیں صرف چار لڑکیوں نے صلیبیوں کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ پچاس پچاس نفری کے چار دستے  بھی نہیں پہنچا سکتے ہم کوشش کریں گے کہ شہر میں اپنے چھاپہ مار بھی داخل کردیں
مداخلت کی معافی چاہتا ہوں برجیس نے کہا اگر چھاپہ مار بھیجنے ہیں تو فوراً بھیجئے کرک کے جو شہری بھاگ گئے ہیں وہ یقیناً واپس جائیں گے ان کے پردے میں چھاپہ مار داخل کیے جاسکتے ہیں اس کے بعد ممکن نہیں ہوگا آتش زنی کے واقعہ کے بعد صلیبی محتاط ہو جائیں گے اور شہر کے تمام دروازے بند کردیں گے مجھے اجازت دیں کہ میں ان کے ساتھ آج ہی روانہ ہوجاؤں وہ اپنے ساتھ کوئی ہتھیار نہ لے جائیں وہاں سے ہتھیار مل جائیں گے
آخر فیصلہ یہ ہوا کہ آج ہی رات چھاپہ مار برجیس کی  قیادت میں روانہ کردیئے جائیں جہاں تک گھوڑے لے جاسکتے ہیں وہاں تک گھوڑوں پر جائیں آگے پیدل جائیں گھوڑے واپس لانے کے لیے کچھ آدمی ساتھ بھیج دیئے جائیں اسی وقت زاہدان سے کہا گیا کہ وہ برجیس کی ہدایات کے مطابق چھاپہ ماروں کو شہری لباس مہیا کرے اور شام کے بعد روانہ کردے سلطان  ایوبی نے اپنے فوجی کمانڈروں کو جنگی نوعیت کی ہدایات دیں اور خاص طور پر  کہا یہ یاد رکھنا کہ جس فوج سے ہم حملہ کرا رہے ہیں یہ وہ فوج نہیں جس  نے شوبک فتح کیا تھا یہ فوج مصر سے آئی ہے جس میں دشمن نے بے اطمینانی پھیلائی تھی اس فوج کو محاصرے میں لڑنے کا تجربہ نہیں کمان داروں کو چوکنا رہنا پڑے گا مجھے شک ہے کہ اس فوج میں تخریبی ذہن کے سپاہی بھی ہیں میں نے جو دستے اپنے ہاتھ میں رکھے ہیں وہ ترک اور شامی ہیں اور نورالدین زندگی کی بھیجی ہوئی کمک کو بھی اپنے پاس محفوظ میں رکھوں گا۔ حالات تمہارے خلاف ہوگئے تو گھبرا کر پیچھے نہ ہٹ آنا میں تمہارے پیچھے موجود رہوں گا اور یہ بھی یاد رکھو کہ کرک کے مسلمانوں کے ساتھ امیدیں وابستہ نہ کیے رکھنا ان کے لیے جو ہدایات بھیج رہا ہوں وہ ایسی ہرگز نہیں ہوں گی کہ یہ اپنے آپ کو ایسے خطرے میں ڈال لیں کہ ان کی مستورات کی عزت بھی محفوظ نہ رہے میں ان سے اتنی زیادہ قربانی نہیں مانگوں گا وہ محکوم اور مجبور ہیں ظلم وتشدد کا شکار ہیں ہم ان کی آزادی اور نجات کے لیے جارہے ہیں ان کے بھروسے پر نہیں جارہے
چار پانچ دنوں تک کرک میں یہ کیفیت رہی کہ مسلمانوں کے گھروں پر چھاپے پڑ رہے تھے۔ کئی مسلمان محض شک میں گرفتار کرلیے گئے تھے۔ بیگار کیمپ کے جن قیدیوں کو اس وعدے پر آگ بجھانے کے لیے لے  گئے تھے کہ انہیں رہا کردیا جائے گا انہیں رہا نہیں کیا گیا تھا صلیبیوں نے مظالم کا ایک نیا دور شروع کردیا تھا۔ ان کا نقصان معمولی نہیں تھا وہ جانتے تھے کہ مسلمانوں کے سوا یہ دلیرانہ تخریب کاری اور کوئی نہیں کرسکتا گرفتار ہونے والوں میں عثمان صارم کے دو دوست بھی تھے جو لڑکیوں کو رہا کرانے کے لیے ان کے ساتھ تھے انہیں درندوں کی طرح اذیتیں دی جارہی  تھیں صلیبی بربریت کی حدوں سے بھی آگے نکل گئے تھے مگر انہیں کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا صرف یہ دو کم عمر لڑکے تھے جن کے سینوں میں سراغ تھا لیکن ان کی زبانیں بند تھیں۔ ان کے جسموں میں کچھ نہیں تھا چکر شکنجے میں کس  کس کر اور جھٹکے دے دے کر ان کے جوڑ الگ کردئیے گئے تھے لیکن لڑکے خاموش تھے
آخر ہرمن خود قید خانے میں گیا اس کی توجہ بھی ان دو لڑکوں پر تھی اسے مسلمان مخبروں نے بتایا تھا  کہ آتش زنی میں ان دو لڑکوں کا بھی ہاتھ ہے مخبر دو مسلمان تھے، دونوں ان لڑکوں کے پڑوسی تھے وہ معمولی سی حیثیت کے آدمی ہوا کرتے تھے لیکن اب گھوڑا گاڑیوں میں سواری کرتے تھے اور  صلیبیوں کے درباری بن گئے تھے وہ صلیبی حاکموں کو گھروں میں بھی مدعو کرتے تھے اور اپنی بیٹیوں کے ساتھ بٹھاتے اور فخر کرتے تھے ان کی دو دو تین تین بیویاں تھیں اور وہ شراب بھی پیتے تھے انہوں نے ان دو لڑکوں کو آتش زنی کی رات کہیں مشکوک حالت میں دیکھا تھا اور انہیں گرفتار کرادیا۔ ہرمن  نے قید خانے میں ان دونوں نوجوانوں کی حالت دیکھی تو اس نے محسوس کیا کہ نزع کی حالت میں پہنچ کر بھی انہوں نے کچھ نہیں بتایا تو یہ کچھ بھی نہیں بتائیں گے ان کے جسم عادی ہوچکے ہیں وہ انہیں اپنے ساتھ لے گیا۔ انہیں بڑا اچھا کھانا کھلایا پیار شفقت سے پیش آیا ڈاکٹروں کو بلا کر انہیں دوائی پلائی اور تشدد کے زخموں اور چوٹوں کا علاج کرایا پھر انہیں سلا دیا وہ فوراً ہی گہری نیند سوگئے
ہرمن دونوں کے درمیان بیٹھ گیا کچھ دیر بعد ان میں سے ایک نوجوان صاف الفاظ میں بڑبڑانے لگا میں کیا جانوں؟ 
میرا جسم کاٹ دو مجھے کچھ بھی معلوم نہیں اگر کچھ معلوم ہوگا تو کبھی نہیں بتاؤں گا تم گردن کے ساتھ صلیب باندھتے ہو میں نے قرآن کی ایک  آیت باندھی ہوئی ہے
تم نے آگ لگائی تھی ہرمن نے کہا تم نے صلیبیوں کی کمر توڑ دی ہے تم بہادر ہو مرگئے تو شہید کہلاؤ گے اگر مرگیا تو نوجوان بڑبڑایا اگر مرگیا تو جب تک جسم میں جان ہے اس جان میں ایمان بھی رہے گا جان نکل جائے گی ایمان نہیں نکلے گا
ہرمن نے اس کے سوئے ہوئے ذہن میں اپنے مطلب کی باتیں ڈالنے کی بہت کوشش کی لیکن نوجوان کے ذہن نے قبول نہ کیں اتنے میں دوسرا لڑکا بھی بڑبڑانے لگا ہرمن نے اس کی طرف توجہ دی اسی طرح اس کے ذہن میں بھی باتیں ڈالیں جو اس نوجوان نے اگل دیں ہرمن کے ساتھ اس کے تین چار سراغ رساں بھی تھے اس نے  بہت دیر کی کوشش کے بعد آہ بھری اور کہا مزید کوشش بے کار ہے ان کی  زبان سے تم کوئی راز نہیں اگلوا سکو گے یہ بے گناہ معلوم ہوتے تھے مگر میں  تمہیں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ یہ اپنے عقیدے اور جذبے کے پکے ہیں میں نے انہیں مرغن کھانوں میں اتنی زیادہ حشیش کھلائی ہے جتنی گھوڑے کو  کھلا دو تو وہ بھی باتیں کرنے لگے مگر ان پر کوئی اثر نہیں ہوا اس کا مطلب  یہ ہے کہ ان کا قومی جذبہ جسے یہ لوگ ایمان کہتے ہیں ان کی روحوں میں اترا ہوا ہے تم ان کی روحوں پر کوئی نشہ طاری نہیں کرسکتے دوسری صورت یہی ہے کہ یہ بے گناہ ہوں گے

وہ بے گناہ نہیں تھے وہ آتش زنی اور  لڑکیوں کو آزاد کرانے کی مہم میں شریک تھے۔ صلیبی جسے گناہ اور جرم کہہ رہے  تھے وہ مسلمان کے لیے عظیم نیکی اور جہاد تھا جو ان لڑکوں نے روح اور  ایمان کی قوت سے کیا تھا حشیش نے انہیں بے ہوش کردیا تھا ان کی عقل کو  سلا دیا تھا مگر ان کی روحیں بیدار تھیں صلیبی ان کی زبان سے ہلکا سا اشارہ بھی نہ لے سکے انہوں نے یہ فیصلہ کیا کہ یہ لڑکے بے قصور ہیں یہ صلیبیوں کی مجبوری تھی ان لڑکوں کی آنکھ کھلی تو باہر ویرانے میں پڑے تھے صلیبیوں نے انہیں بے ہوشی کی حالت میں دور لے جاکر پھینک دیا وہ اٹھے ایک دوسرے کو دیکھا اور گھروں کو چل دیئے
جو عیسائی اور  یہودی باشندے آتش زنی کی رات شہر سے نکل گئے تھے وہ یہ دیکھ کر کہ کوئی حملہ نہیں ہوا اور امن وامان ہے تو واپس آنے لگے صلیبیوں کی فوج جو باہر خیمہ زن تھی اس نے بھی انہیں یقین دلایا کہ کوئی حملہ نہیں ہوا وہ چلے  جائیں چنانچہ ایک حکم کے تحت شہر کے دو دروازے ان لوگوں کے لیے کھلے رکھے گئے جو واپس آرہے تھے لوگ کنبہ در کنبہ داخل ہوگئے کرک کے لوگوں نے دیکھا  کہ وہ چپ چاپ اور غریب سا موچی جو دنیا کے ہنگاموں سے بے خبر راستے میں بیٹھا جوتے مرمت کیا کرتا تھا تین دنوں کی غیرحاضری کے بعد پھر راستے میں آ بیٹھا ہے اس نے رات ہی رات پندرہ چھاپہ ماروں کو عثمان صارم اور اس کے  نوجوان ساتھیوں کی مدد سے مسلمان گھرانوں میں چھپا دیا تھا ان میں اب کوئی کسی دکان میں ملازم تھا، کوئی صلیبیوں کے اصطبل کا سائیس بن گیا تھا کوئی مذہب کے طالب علم کے روپ میں مسجد میں جھاڑو دیتا تھا
انہیں اب یہ دیکھنا تھا کہ سلطان ایوبی کے حملے کی صورت میں وہ اندر سے کیا کرسکتے ہیں کرنے والا کام صرف یہ تھا کہ کہیں سے قلعے کی دیوار میں اتنا بڑا شگاف پیدا کریں کہ اس میں سے گھوڑے بھی اندر آسکیں یا قلعے کا کوئی دروازہ کھول سکیں وہ انہی کاموں کے لیے زمین ہموار کررہے تھے عثمان صارم نے اپنی  نوجوان جماعت میں اضافہ کرلیا تھا لڑکیاں بھی تیار ہوگئی تھیں مگر رینی الیگزینڈر سائے کی طرح عثمان کے ساتھ لگی ہوئی تھی اسے راستے میں روک لیتی تھی اس کے گھر چلی جاتی تھی اور ایک روز اس نے عثمان صارم سے پوچھا عثمان! النور کہاں ہے؟
تمہاری قوم کے کسی گناہ گار کے پاس عثمان صارم نے جل کر جواب دیا اس پر اللہ کی لعنت
رحمت کہو عثمان! رینی نے کہا تم ہمارے خلاف لڑ کر مرنے والوں کو شہید کہا کرتے ہو النور شہید ہوگئی ہے
عثمان صارم چکرا گیا اسے کوئی جواب نہ بن پڑا اور ان دو لڑکیوں کو اٹھانے والوں میں تم بھی تھے رینی نے کہا لیکن تم ابھی تک گرفتار نہیں ہوئے میں نے کہا تھا کہ تمہاری قید اور آزادی کے درمیان میرا وجود حائل ہے کہو اور کتنی قربانی مانگتے ہو
عثمان صارم آخر نوجوان تھا جسم میں جتنا جوش اور جذبہ تھا اتنی عقل نہیں تھی وہ دانشمند نہیں تھا رینی کی باتوں نے اسے پریشان کردیا اس نے جھنجھلا کر پوچھا رینی! تم کیا چاہتی ہو؟
ایک یہ کہ میری محبت قبول کرلو رینی نے جواب دیا دوسرا یہ کہ ان زمین دوز حرکتوں سے باز آجاؤ تم اپنی قوم اور اپنی حکومت سے محبت کرتی ہو عثمان صارم نے کہا اگر تمہارے دل میں میری محبت اتنی ہی شدید ہے تو میری قوم سے ہمدردی کیوں نہیں کرتی؟
مجھے نہ اپنی قوم سے محبت ہے نہ تمہاری قوم سے رینی نے کہا میں تمہیں خطرناک کارروائیوں سے صرف اس لیے روک رہی ہوں کہ  تم مارے جاؤ گے حاصل کچھ بھی نہ ہوگا میں جذباتی نہیں، حقیقت کی بات کررہی ہوں کہ سلطان ایوبی کرک فتح نہیں کرسکے گا اپنے باپ کی بتائی ہوئی باتوں کے مطابق بات کررہی ہوں جنگ محاصرے کی نہیں ہوگی باہر کرک سے دور ہوگی ہمارے کمانڈر سلطان ایوبی کی چالیں سمجھ گئے ہیں شوبک کی شکست سے انہوں نے سبق حاصل کرلیا ہے اب کرک کے محاصرے کی نوبت ہی نہیں آئے گی اگر  تم لوگوں نے شہر کے اندر سے کوئی کارروائی کی تو اس کا نتیجہ یہی ہوگا کہ مارے جاؤ گے یا گرفتار ہوکر باقی عمر ناقابل برداشت اذیتوں میں گزارو گے میں تمہیں صرف زندہ اور سلامت دیکھنا چاہتی ہوں، عثمان صارم سر جھکائے ہوئے وہاں سے چل پڑا اسے رینی کی آواز سنائی دی سوچو عثمان! سوچو میری باتیں ایک غیر قوم کی لڑکی کی باتیں سمجھ کر ذہن سے اتار نہ دینا ۔

میں آپ سب کو ایک بار پھر بتا دیتا ہوں کہ یہ کرک ہے شوبک نہیں سلطان ایوبی نے اپنے کمانڈروں کو آخری ہدایات دیتے ہوئے کہا صلیبی چوکنے اور بیدار ہیں، میری جاسوسی مجھے بتا رہی ہے کہ  ہمیں ایک جنگ کرک سے باہر لڑنی پڑے گی شہر کے اندر سے مسلمانوں نے کوئی زمین دوز کارروائی کی تو شاید وہ ہمارے کام نہیں آسکے گی۔ اس کا نتیجہ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ بے چارے مارے جائیں میں انہیں اتنے بڑے امتحان میں نہیں ڈالنا چاہتا انہیں بچانے کی ایک ہی صورت ہے کہ حملہ تیز اور بہت سخت  کرو ایسے ہی چند اور ضروری احکامات کے بعد سلطان ایوبی نے اس فوج کو کوچ کا حکم دے دیا جسے کرک کا محاصرہ کرنا تھا
کوچ سورج غروب ہونے کے  بعد کیا گیا فاصلہ زیادہ نہیں تھا صبح طلوع ہونے تک فوج کرک کے مضافات  میں پہنچ گئی جہاں سے محاصرے کی ترتیب میں آگے بڑھی اس فوج کے سالار کے لیے یہ ایک عجوبہ تھا کہ راستے میں اسے صلیبیوں کا کوئی ایک دستہ بھی نظر  نہ آیا اسے بتایا گیا تھا کہ صلیبیوں نے باہر بھی فوج خیمہ زن کر رکھی ہے اسے ایسے راستے سے بھیجا گیا تھا جس طرف صلیبیوں کی فوج نہیں تھی پھر بھی  مزاحمت ضروری تھی جو بالکل ہی نہ ہوئی مسلمانوں کی اس فوج نے قلعے کا محاصرہ کرلیا قلعے کی دیواروں سے تیروں کی بارش برسنے لگی سلطان ایوبی کی فوج نے اس کے جواب میں کوئی شدید کارروائی نہ کی اس کے کمان دار ادھر ادھر سے دیواروں پر چڑھنے یا نقب لگانے یا کسی دروازے کو توڑ کر اندر جانے  کے امکانات دیکھتے پھر رہے تھے انہوں نے تیر اندازوں کو بھی خاموش رکھا ان کے ساتھ وہ جاسوس تھے جو شہر سے واقف تھے وہ انہیں بتا رہے تھے کہ اندر کون سی اہم جگہ کہاں ہے شہر کے اندر ابھی کسی کو خبر نہیں ملی تھی کہ سلطان ایوبی کی فوج نے قلعے کا محاصرہ کرلیا ہے لیکن یہ محاصرہ ابھی مکمل نہیں تھا۔ عقب ابھی خالی تھا جہاں دو دروازے تھے اچانک قلعے کے اندر  فوجی علاقے میں آگ برسنے لگی یہ آتش گیر مادے والی ہانڈیاں تھیں جو سلطان ایوبی کی ایجاد تھی یہ منجنیقوں سے اندر پھینکی جارہی تھیں شہر کے لوگوں نے دیکھا کہ ان کی فوج قلعے کی دیوار پر چڑھ گئی اور باہر کو تیر پہ تیر چلا رہی تھی شہر میں خوف وہراس پھیل گیا عیسائی اور یہودی باشندے گھروں میں دبک گئے مسلمان باشندے دعاؤں میں مصروف ہوگئے وہ سلطان ایوبی کی فتح  کی دعائیں مانگ رہے تھے کچھ مسلمان ایسے تھے جو دعاؤں کے ساتھ بڑی  خطرناک سرگرمیوں میں مصروف تھے یہ وہاں کے نوجوان تھے جن میں لڑکیاں بھی تھیں اور ان میں سلطان ایوبی کے پندرہ چھاپہ مار بھی تھے شہر کی افراتفری  سے فائدہ اٹھاتے ہوئے وہ کہیں اکٹھے ہوگئے اور قلعے کے بڑے دروازے کو اندر سے کھولنے یا توڑنے کے لیے تیار ہوگئے
دروازہ بہت مضبوط اور موٹی  لکڑی کا تھا جس پر لوہے کی موٹی موٹی پتریاں بھی مڑی ہوئی تھیں اسے توڑنا  آسان نہیں تھا باہر سے مسلمان فوج نے دروازے پر منجنیقوں سے ہانڈیاں پھینکیں یہ دوسری قسم کی تھیں یہ ٹوٹتی تھیں تو ان میں سے سیال مادہ بکھر جاتا تھا اس پر فلیتے والے آتشیں تیر چلائے جاتے تو سیال مادہ کو آگ لگ جاتی تھی اس طریقے سے دروازے کو آگ لگائی گئی لیکن لوہے نے لکڑی کو نہ جلنے دیا دروازہ بہت ہی مضبوط تھا اوپر سے صلیبیوں نے وہ تیر برسانے شروع کردیئے جو بہت دور تک جاتے تھے یہ منجنیقوں تک پہنچ گئے جن سے کئی آدمی زخمی اور شہید ہوگئے اس خطرے سے بچنے کے لیے منجنیقیں پیچھے کرلی گئیں اور آگ پھینکنے کا طریقہ ناکام ہوگیا۔
آخر مسلمان تیر اندازوں کو حکم دیا گیا کہ قلعے کی دیواروں پر جو دشمن کے سپاہی ہیں ان پر تیر برسائیں  سارا دن دونوں طرف سے تیر اندازی ہوتی رہی ہوا میں صرف تیر اڑتے نظر آتے تھے صلیبی دفاعی پوزیشنوں میں تھے اور دیواروں کی بلندی پر بھی تھے اس لیے زیادہ نقصان مسلمان فوج کا ہورہا تھا مسلمانوں کے نقب زن جو قلعوں کی  دیواریں توڑنے کے ماہر تھے ہر طرف گھوم پھر کر دیکھ رہے تھے کہ دیوار میں کہاں شگاف ڈالا جاسکتا ہے وہاں چاروں طرف سے اتنے تیر آرہے تھے کہ دیوار کے قریب جانا خودکشی کے برابر تھا شام سے کچھ دیر پہلے نقب زنوں کی آٹھ آدمیوں کی ایک جماعت آگے بڑھی یہ جانباز جب دیوار سے تھوڑی دور رہ گئے تو  اوپر سے ان پر اس قدر تیر برسے اور تیروں کے ساتھ اتنی زیادہ برچھیاں آئیں کہ آٹھوں جانباز وہیں شہید ہوگئے ایک ایک کے جسم میں کئی کئی تیر اور  برچھیاں لگیں
رات کا پہلا پہر تھا رینی اپنے گھر میں تھی اس کا  باپ تھکا ہوا آیا تھا یہ کہہ کر سوگیا کہ جلدی جاگ اٹھے گا کیونکہ رات کو بھی اسے کام پر جانا ہے اس نے کہا تھا کہ شہر کے مسلمانوں کے متعلق اطلاع  ملی ہے کہ وہ اندر سے کوئی بڑی خطرناک کارروائی کرنے والے ہیں ہمیں ہر ایک  مسلمان گھرانے پر نظر رکھنی پڑے گی یہ کہہ کر وہ سو گیا تھا دروازے پر دستک ہوئی تو کسی ملازم کے بجائے رینی نے دروازہ کھولا باہر ایک مسلمان کھڑا تھا جو بڑی اونچی حیثیت کا مالک تھا۔ صلیبیوں کی طرف سے اسے خوب انعام واکرام ملتا تھا رینی نے اسے بتایا کہ اس کاباپ سویا ہوا ہے وہ پیغام دے دے تھوڑی دیر بعد وہ جاگے گا تو اسے بتا دیا جائے گا مسلمان نے کہا کہ وہ خود بات کرنا چاہتا ہے بات بہت اہم اور نازک ہے
آج رات مسلمان کے بہت سے لڑکے اور لڑکیاں اندر سے قلعے کی دیوار توڑ دیں گے رینی کے پوچھنے پر اس نے مختصراً بتایا اس نے کہا میں نے ان کا ہمدرد  اور ساتھی بن کر یہ راز حاصل کیا ہے مجھے یہ بھی پتہ ہے کہ ان میں باہر سے آئے ہوئے چھاپہ مار بھی ہیں اور نیا انکشاف یہ ہے کہ وہ غریب موچی جو راستے میں بیٹھا رہتا ہے وہ سلطان ایوبی کا بھیجا ہوا جاسوس ہے اور اس کا نام برجیس ہے میں تمہارے والد کو یہ خبر دینا چاہتا ہوں تاکہ ان لوگوں کو  پھانسنے کے لیے گھات لگائی جائے، رینی نے چند ایک مسلمان نوجوانوں کے نام لے کر عثمان صارم کا بھی نام لیا اور پوچھا کیا یہ لڑکے بھی اس مہم میں شامل ہیں؟
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➐➊】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس وقت حلب میں سپہ سالار ابوعبیدہ پہنچے تھے اور انہوں نے مجاہدین سے خطاب کیا اس وقت عمرو بن عاص کسی اور شہر میں تھے وہ جہاں کہیں بھی تھے اپنی بے چینی اور اپنی بے قراری چھپا نہ سکے انہوں نے صاف الفاظ میں امیرالمومنین کے حکم کو غیر دانشمندانہ بھی کہہ دیا، کچھ دنوں بعد ان کی یہ بے چینی اور یہ احتجاجی باتیں سپہ سالار ابوعبیدہ تک پہنچ گئی۔
ابوعبیدہ حلب سے اس مقام تک پہنچے جہاں عمرو بن عاص تھے۔ سپہ سالار نے تو مفتوح شہر کا دورہ کرنا اور وہاں کے حالات دیکھ کر ضروری احکامات جاری کرنے تھے وہ عمروبن عاص کے ساتھ خاص طور پر بات کرنا چاہتے تھے۔
وہاں پہنچ کر انہوں نے عمرو بن عاص سے پہلی بات یہ پوچھی کہ وہ ایسی اکھڑی اکھڑی باتیں کیوں کرتے ہیں جن کا مجاہدین پر اثر تخریبی بھی ہوسکتا ہے۔
ہمیں رومیوں کا تعاقب کرنا چاہیے تھا ۔۔۔عمر بن عاص نے کہا۔۔۔ میں مصر تک پہنچنا چاہتا ہوں رومی تتربتر ہو کر ڈری ہوئی بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگ رہے تھے ہم ان کے تعاقب میں جاتے تو بڑی آسانی سے مصر میں داخل ہو سکتے تھے۔
میں حیران ہوں ابن عاص،،،،سپہ سالار ابوعبیدہ نے کہا ۔۔۔کیا تو اتنی جلدی بھول گیا کہ عیسائی قبائل نے صرف اس لیے ہر شہر میں بغاوت کر دی تھی کہ وہاں ہماری نفری بہت تھوڑی تھی یہ تو اللہ کا خاص کرم ہے کہ ہم نے ہر جگہ بغاوت فرو کر لی ہے، لیکن ذرا سوچ ہمارے لشکر اس ملک سے نکل کر آگے جائیں تو پھر پیچھے بغاوت ہو جائے گی۔
مستند موؤرخوں کی لکھی ہوئی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ عمرو بن عاص عام سطح کے سالار نہیں تھے نہ ان کی سوچ سطحی اور جذباتی تھی ،مصر کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرنا ان کا ایک عزم تھا اور عزم بھی ایسا جیسے اللہ تعالی نے انہیں اسی کام کے لئے ہی پیدا کیا ہو ،فتح مصر تو ان کے لئے ایک جنون اور ایک خبط بن گیا تھا ، جس سے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ پوری طرح واقف تھے۔
یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بیان کردیا جائے عمرو بن عاص کے مصر کے متعلق ارادے کیا تھے اور امیرالمومنین کے ساتھ ان کی کیا اور کب باتیں ہوئی تھیں،،،،، کچھ ہی عرصہ پہلے جب فلسطین میں رومیوں کے خلاف جنگ ہو رہی تھی تو حضرت عمر نے بیت المقدس کی فتح کی ذمہ داری عمرو بن عاص کو سونپی تھی اور کہا تھا کہ وہ شکست کی خبر بد نہیں بلکہ فتح کی خوشخبری سننا چاہتے ہیں۔
اللہ امیرالمومنین کو فتح ہی کی خوشخبری سنائے گا عمر بن عاص نے تاریخی الفاظ کہے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت بیت المقدس میں رومیوں کا ایک بڑا ھی مشہور جرنیل موجود تھا جس کا نام اطربون تھا۔
اس جرنیل کی جنگی فہم و فراست اور دشمن کو دھوکہ دینے کے لئے مکاریاں اور چالبازیاں اتنی زیادہ تھیں کہ تاریخ کے مطابق ہرقل بھی کبھی کبھی اس کے آگے سر جھکا دیتا تھا۔ سالار عمرو بن عاص کا مقابلہ اس جرنیل کے ساتھ تھا۔
اس سلسلے کی کچھ تفصیلات اس داستان کے پہلے باب میں پیش کی جاچکی ہے، یہاں ہم مختصراً بیان کریں گے تفصیلات کے لئے پہلا باب ایک بار پھر پڑھ لیں۔
عمر وبن عاص خالد بن ولید کی طرح ایسے سالار تھے کہ قیادت کی عمدگی کے علاوہ دشمن کو دھوکا دینے کے ڈھنگ خوب جانتے تھے ۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ بھی عمرو بن عاص کی اس صلاحیت اور خوبیوں سے خوب واقف تھے اسی لئے انہوں نے بیت المقدس کی فتح کی ذمہ داریاں انہیں ہی سونپی تھی۔
اس طرح امیرالمؤمنین نے عمرو بن عاص کو اطربون کے مقابلے میں بھیجا تو انہوں نے تاریخی الفاظ کہے تھے۔۔۔۔ ہم نے عرب کے اطربون کو روم کے اطربون سے ٹکرا دیا ہے اب دیکھتے ہیں اس کا نتیجہ کیا سامنے آتا ہے۔
حضرت عمر اطربون کی جنگی چالوں سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ میدان جنگ میں لومڑی جیسی مکاری اور چالاکی کو اس طرح استعمال کرتا ہے کہ اس کا دشمن چکرا جاتا اور سمجھ نہیں پاتا کہ کیا ہوا ہے کیا کرنا چاہیے تآنکے دشمن دھوکے میں مارا جاتا ہے۔ امیرالمومنین یہ بھی جانتے تھے کہ یہی اوصاف اور یہی صلاحیتیں عمرو بن عاص میں بھی ہیں۔
عمرو بن عاص بیت المقدس کی طرف بڑھے تو انہوں نے دیکھا کہ اطربون اپنی فوج کے ساتھ اجنادین کی طرف جا رہا تھا۔
اجنادین اور بیت المقدس میں فاصلہ کچھ زیادہ نہیں تھا ، عمرو بن عاص نے اطربون کی فوج دیکھی اور پھر اپنا لشکر دیکھا تو احساس ہوا کہ انہیں کمک کی شدید ضرورت ہے۔
ورنہ ان کے سامنے اپنی کم نفری ٹھہر نہیں سکے گی۔
حضرت عمر نے اطلاع ملتے ہی فوراً کمک بھیج دی اور عمرو بن عاص اجنادین اور بیت المقدس کے قریب جا خیمہ زن ہوئے۔
فوجی حملے سے پہلے انہوں نے یہ ترکیب سوچی کہ ان پر نفسیاتی حملہ کیا جائے جس کا طریقہ انہوں نے اختیار یہ کیا ک آپ نے دو ایلچی اطربون کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجے کہ وہ صلح کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ ایلچی دراصل جاسوس تھے جنہیں کام یہ تھا کہ وہ قلعے کے اندر جاکر دیکھیں کہ اندر کتنا لشکر اور دفاعی انتظامات کیسے اور دروازے کتنے کچھ مضبوط وغیرہ۔
اطربون نے دونوں ایلچیوں کو پورے احترام سے بٹھایا اور بات چیت کی اور انہیں رخصت کردیا، اطربون کوئی ایسا اناڑی جرنیل نہ تھا کہ ان ایلچیوں کو شہر میں کھلا پھرنے دیتا،
ایلچی واپس آئے تو سالار عمرو بن عاص ان سے پوچھنے لگے کہ قلعے کے اندر کیا کچھ ہے اور وہ کیا دیکھ کر آئے ہیں، دونوں الچیوں نے انھیں یہ جواب دے کر مایوس کردیا کہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکے۔
عمرو بن عاص نے فیصلہ کیا کہ وہ خود اپنے ایلچی بن کر جائیں گے اور یہ ظاہر نہیں ہونے دیں گے کہ وہ خود اپنے لشکر کے سپہ سالار ہے انھوں نے بھیس بدلہ اور اچھی طرح اپنا جائزہ لے کر چلے گئے۔
اطربون نے انکا استقبال بھی عزت و احترام سے کیا ،عمرو بن عاص نے یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے سپہ سالار عمرو بن عاص کے ایلچی ہیں اور سپہ سالار نے انہیں اس لیے بھیجا ہے کہ پہلے دو الچی صلح کے معاہدے کی بات ٹھیک طرح نہیں کر سکے اور اب وہ مزید ہدایت لے کر آئے ہیں۔
صلح کی بات چیت شروع ہوئی تو عمرو بن عاص نے کہا کہ وہ یہ بات اپنے سپہ سالار تک پہنچائیں گے اور انکا حکم لے کر پھر حاضر ہونگے۔
میری نظروں نے مجھے کبھی دھوکا نہیں دیا۔۔۔ اطربون نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔ میں کسی ایلچی سے نہیں بلکہ عرب کے سپہ سالار عمرو بن عاص کے ساتھ ہی بات کر رہا ہوں کیا تم عمرو بن عاص نہیں ہو۔
نہیں ۔۔۔۔عمرو بن عاص نے جواب دیا۔۔۔۔ اگر میں عمرو بن عاص ہوتا تو اپنے اوپر جھوٹا پردہ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی میرے سپہ سالار عمروبن عاص اتنے نڈر اور بے خوف انسان ہیں کہ انھوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔
اطربون ہنس پڑا اور اس نے ایسا تاثر دیا جیسے اس نے تسلیم کرلیا ہو کہ وہ عمرو بن عاص نہیں بلکہ ان کے ایلچی ہیں باتوں باتوں میں اطربون باہر نکل گیا اور واپس آکر پھر مذاکرات شروع کردیئے۔
اطربون جب باہر نکلا تھا تو عمرو بن عاص سمجھ گئے کہ اب ان کی خیر نہیں اب ہوگا یہ کہ انہیں پکڑ کر کال کوٹھری میں بند کردیا جائے گا یاقتل ہی کر دیا جائے گا۔ عمرو بن عاص دماغ پر زور دینے لگے کہ یہاں سے کس طرح نکلا جائے کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اگر یہ ملاقات کہیں باہر ہو رہی ہوتی تو بھاگ نکلنے کا موقع پیدا کیا جاسکتا تھا لیکن شہر کے اندر سے نکل بھاگنا ناممکن تھا۔
آخر ایک ترکیب دماغ میں آ ہی گئی عمرو بن عاص نے ایسا انداز اور رویہ اختیار کرلیا جیسے وہ اطربون کی پیش کی ہوئی شرائط مان گئے ہوں انہوں نے ایسا تاثر پیدا کر دیا جیسے وہ رومیوں کی جنگی طاقت سے خائف ہوں۔
عمرو بن عاص نے اطربون سے کہا کہ وہ سپہ سالار عمرو بن عاص کے بھیجے ہوئے ایلچی نہیں ہے بلکہ انھیں امیرالمومنین حضرت عمر نے بھیجا ہے اور ان کے ساتھ دس مشیر ہیں جو قلعے سے کچھ دور ان کا انتظار کر رہے ہیں ۔
وہ اب ان کے پاس جائیں گے اور انہیں ساتھ لائیں گے اور پھر یہی فیصلہ کر دیا جائے گا کہ انہیں اطربون کی شرائط منظور ہیں۔
اطربون یہ سن کر خوش ہوا کہ ایک ہی نہیں بلکہ دس مسلمان جال میں آ گئے ہیں اس نے عمرو بن عاص سے کہا کہ وہ اپنے مشیروں کو یہاں لے آئیں۔
عمرو بن عاص وہاں سے نکلے ان کے لیے قلعہ کا دروازہ کھولا اور باہر نکلتے ہی انہوں نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور اس طرح بچ کر نکل آئے۔
ان کے ساتھ کوئی اور مشیر نہیں گیا تھا وہ اکیلے تھے اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل آئے۔
تاریخ گواہی دیتی ہے یورپی مؤرخ نے بھی لکھا ہے کہ اطربون مذاکرات کے دوران باہر نکلا تھا تو اس نے اپنے محافظ دستے کے کمانڈر کو یہ کام سونپا تھا کہ یہ عربی جو اندر بیٹھا ہے جب قلعے سے باہر نکل کر واپس جا رہا ہو گا تو اسے قتل کردیا جائے۔
لیکن ان کو عمرو بن عاص نے جو دھوکا دیا اس نے پھر باہر جاکر محافظ دستے کے کمانڈر سے کہا تھا کہ اب اس شخص کو جانے دینا یہ کچھ اور آدمیوں کو ساتھ لے کر واپس آ رہا ہے۔
اطربون کو جب پتہ چلا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار عمرو بن عاص اسے دھوکا دے کر زندہ نکل گیا ہے تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہونے لگا اور پھر جو بھی سامنے آتا اس پر غصہ جھاڑنا شروع کردیتا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پھر جس طرح بیت المقدس فتح ہوا اس کی تفصیلات پہلے دو ابواب میں پیش کی جا چکی ہے ان تفصیلات میں اب ہم یہاں کچھ اضافہ کر رہے ہیں۔
بیت المقدس عیسائیوں کے لیے بھی اتنا ہی اہم مقام تھا جتنا مسلمانوں کے لئے لیکن رومی عیسائیوں نے دیکھا کہ مسلمان پے درپے فتوحات حاصل کرتے آ رہے ہیں تو انہوں نے بیت المقدس کے تبرکات اور یادگار اشیاء قسطنطیہ کو منتقل کرنی شروع کردیں۔
اس کے ساتھ ہی ہرقل نے وہاں فوج کی تعداد بڑھا دی اور اس کی قیادت اپنے جرنیل اطربون کے سپرد کردی ۔ عیسائی فوج اور شہریوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے لئے اسقف اعظم صفرنیوس موجود تھا ۔
اس نے رومی فوج کو مذہبی معاملے میں اتنا جذباتی کردیا تھا کہ بظاہر یہ فوج طوفانی سی ہوگئی تھی رومی اتنی آسانی سے بیت المقدس سے دستبردار نہیں ہوسکتے تھے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے بیت المقدس کو محاصرے میں لے لیا لیکن مقابلہ اتنا شدید اور خونریز تھا کہ محاصرہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔
عمرو بن عاص نے کمک شدید ضرورت محسوس کی اور امیر المومنین کو پیغام بھیجا کہ جس قدر کمک بھیجی جا سکے فوراً بھیج دی جائے۔
امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ میدان جنگ کی اور ہر محاذ کی تازہ بہ تازہ صورت حال سے پوری طرح باخبر رہتے تھے بیت المقدس کو تو وہ اور ہی زیادہ جانتے تھے انہیں معلوم تھا کہ بیت المقدس میں اطربون جیسا منجھا ہوا اور گھاگ جرنیل موجود ہے اور ان کی تمام تر توجہ بھی بیت المقدس پر ہے۔ ان حالات کے پیش نظر امیر المومنین نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کمک لے کر بیت المقدس کے محاذ پر جائیں گے۔
امیرالمومنین اچھی خاصی کمک لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے اور جابیہ کے مقام پر جا قیام کیا سپہ سالارعمرو بن عاص اور دیگر سالاروں کو وہیں بلا لیا اور جنگ کا نیا نقشہ مرتب کیا۔
تاریخ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ رومیوں کے جاسوس ہر جگہ موجود تھے انہوں نے حضرت عمر کو ان کی لائی ہوئی کمک دیکھی اور پھر یہ دیکھا کہ انہوں نے تمام سالاروں کو بلایا ہے تو یہ ساری خبر اطربون تک پہنچائی، ایک روایت یہ بھی ہے کہ اطربون خود بھیس بدل کر گیا اور مسلمانوں کا یہ سارا لشکر دیکھا ۔
عارضی طور پر مسلمانوں نے بیت المقدس کا محاصرہ اٹھا لیا تھا ایک معجزہ ہوا وہ یہ کہ اسقف اعظم صفرنیوس نے ایک ایلچی اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ حضرت عمر خود بیت المقدس آئیں تو صلح کا معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
حضرت عمر اور تمام سالار یہ سمجھے کہ رومی جرنیل اطربون انہیں دھوکہ دے رہا ہے۔ بہت سوچ بچار کے بعد حضرت عمر بیت المقدس جانے کے لیے تیار ہوگئے پھر حضرت عمر جس لباس میں اور جس طرح بیت المقدس کو روانہ ہوئے ایک دلچسپ انگیز اور خیال افروز داستان ہے لیکن یہاں موضوع کچھ اور ہے اس لیے دیگر تفصیلات سے ہم گریز کر رہے ہیں۔
اتنا ہی بتائیں گے کہ جب حضرت عمر بیت المقدس میں داخل ہوئے تو بیت المقدس کے ایک بڑے پادری نے انہیں کہا کہ آپ شہر میں داخل ہو رہے ہیں ذرا اچھے کپڑے پہنئے اور گھوڑے پر سوار ہو جائیں تا کہ رومیوں کی نگاہ میں آپ کی عظمت کا اندازہ غلط نہ ہو۔
حضرت عمر نے اس پادری کو جو جواب دیا وہ تاریخ کے دامن میں آج تک محفوظ ہے امیر المومنین نے کہا۔۔۔ ہمیں اللہ نے جو عزت بخشی ھے وہ صرف اسلام کے صدقے بخشی ہے اسلام میں لباس اور گھوڑے عزت اور عظمت کا باعث نہیں بن سکتے ہمیں ایسی چیزوں کی ضرورت نہیں، عظمت انسان کی ہوتی ہے لباس اور اعلی نسل کے گھوڑے کی نہیں۔
اسقف اعظم صفرنیوس خود حضرت عمر کے استقبال کے لئے باہر آیا اور عزت و احترام سے اپنے ہاں لے گیا ، توقع تو یہ تھی کہ مذاکرات ہوں گے دونوں فریق اپنی اپنی شرائط پیش کریں گے اور بحث و مباحثہ ہو گا اور شاید پھر بھی مذاکرات کامیاب نہ ہوں لیکن ہوا یہ کہ اسقف اعظم صفرنیوس نے کہا کہ معاہدے کی شرائط حضرت عمر اپنے ہاتھ سے لکھیں۔
حضرت عمر نے معاہدہ اپنی شرائط کے مطابق لکھا جو صفرنیوس نے بلا چوں چراں قبول کرلیا اور یوں بیت المقدس مجاہدین کے جھولی میں آ گرا۔
امیر المومنین اور ان کے سالار حیران تھے کہ اطربون کہاں ہے امیرالمومنین نے صفرنیوس سے پوچھا تو جواب ملا کہ اپنے ساتھ کچھ فوج لے کر رات کے اندھیرے میں نکل گیا تھا اور اس کی منزل مصر ہے ۔
مطلب یہ کہ اطربون مسلمانوں کے پے درپے فتوحات اور طوفانی پیش قدمیاں دیکھ کر جان گیا تھا کہ یہ مسلمان بیت المقدس بھی لے لیں گے ،اور اس کی فوج کا قتل عام ہوگا۔
جنگی مبصر اور وقائع نگار لکھتے ہیں کہ اطربون نے اپنی فوج کی ذہنی حالت بھی دیکھ لی تھی اس کی فوج پر مسلمانوں کی دہشت چھا گئی تھی، اور اس فوج کے سپاہی لڑنے سے پہلے دیکھ لیتے تھے کہ وہ کس راستے سے بھاگیں گے اطربون بڑا ہی دوراندیش جرنیل تھا اپنی جنگی طاقت ضائع کرنے کے بجائے اس نے بہتر یہ سمجھا کہ فوج کو اپنے ساتھ مصر لے جائے اور اس کی نئے سرے سے تربیت کرے اور نئی فوج تیار کرکے مسلمانوں کو للکارا جائے مختصر بات یہ کہ اطربون فلسطین سے چپکے سے کھسک گیا اور مصر جا پہنچا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بیت المقدس کی فتح کا واقعہ ہم نے صرف اس لیے بیان کیا ہے کہ یہ بتانا مقصود ہے کہ فتح مصر کا خیال کس کے دماغ میں آیا تھا اور کس نے امیر المومنین کو قائل کیا تھا کہ مصر پر فوج کشی کی جائے ۔
بیت المقدس میں ایک شام عمرو بن عاص حضرت عمر ؓکے پاس جا بیٹھے اور کہا کے وہ ایک ضروری بات کرنے آئے ہیں، حضرت عمر ؓان کی بات سننے کو تیار ہو گئے۔
یا امیر المومنین۔۔۔ عمر بن عاص نے کہا۔۔۔ خدا کی قسم آپ اطربون کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح آپ کا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کو جانتا ہے میں کبھی نہیں مانوں گا کہ ہمارے امیرالمؤمین اس خوش فہمی میں مبتلا ہوں گے کہ اطربون ہم سے ڈر کر بھاگ گیا ہے۔
ہم اللہ کے حضور امید رکھنے والے لوگ ہیں ہم خواب نہیں دیکھا کرتے اور اپنے آپ کو فریب دینا مجاہدین اسلام کا شیوہ نہیں۔
عاص کے بیٹے۔۔۔ حضرت عمر نے عمرو کی بات روک کر کہا۔۔۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ تو وہ بات کر دے جس کی تو تمہید باندھ رہا ہے میں سن رہا ہوں۔
یا امیرالمومنین عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔میں کہنا یہ چاہتا ہو کہ ہمیں اطربون کے پیچھے جانا چاہیے۔
کیا تو اسے ابھی کافی نہیں سمجھتا کہ ہم نے ایک بڑا ہی کٹھن محاذ سر کر لیا ہے؟ ۔۔۔حضرت عمر نے کہا۔
میں اسے کافی نہیں سمجھتا، یا امیر المومنین عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ اگر ہم اس فتح کو کافی سمجھ کر بیٹھ گئے تو اطربون فوج تیار کرکے ہم پر حملہ آور ہوگا ہرقل اور اطربون ایک ابلیس کے دو نام ہیں اور اتنی عقل اور فہم و فراست رکھتے ہیں کہ الجزیرہ اور فلسطین کے عیسائی قبائل کو بغاوت پر اکسا سکتے ہیں اور زمین کے نیچے رہ کر اس بغاوت کی ہدایتکاری بھی کرسکتے ہیں۔
وہ مصر ایسی ہی تیاریوں کے لئے گیا ہے ہمیں ضرورت یہ ہے کہ ہم اسے چین سے بیٹھنے کی مہلت نہ دیں آپ کی اجازت چاہیے میں مصر کی طرف پیش قدمی اور حملے کی قیادت کروں گا۔
صرف اطربون پر اپنی توجہ تو محدود نہ کر ابن عاص۔۔۔ حضرت عمر نے کہا ۔۔۔کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ ہم کسریٰ ایران کے خلاف لڑ رہے ہیں اور شام میں بھی ہم نے روم جیسی بڑی جنگی قوت کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے اگر ہم نے اتنی دور ایک اور محاذ کھول دیا تو ایسا نہ ہو کہ ہمارے باقی محاذ کمزور ہو جائیں۔
عمرو بن عاص کی امیرالمومنین حضرت عمر کے ساتھ یہ گفتگو یہیں پر ختم نہیں ہو گئی تھی انہوں نے امیرالمومنین کے آگے مصر کی پوری تاریخ رکھ دی تھی پھر انہوں نے آیت قرآنی بھی سنا ڈالی تھی جس میں مصر کا ذکر آتا ہے انھوں نے بنی اسرائیل اور حضرت موسی علیہ السلام کا خاص طور پر ذکر کیا اور پھر سنایا کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ فرعونیوں سے کس طرح فرار ہوئے تھے اور کس طرح اللہ کے حکم سے دریانیل نے انھیں راستہ دے دیا تھا اور پھر فرعون رعمیس دوم دریا کے دیے ہوئے اس راستے پر اترا تو دریا اپنی روانی میں آگیا اور رعمیس غرق ہو گیا۔ عمرو بن عاص نے حضرت یوسف علیہ سلام کا خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ عرب کے مسلمان حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے تو کبھی بھول ہی نہیں سکتے اور اس قصے کے حوالے سے عربی لوگ مصر کو اپنے دل میں بسائے ہوئے ہیں۔ قرآن میں متعدد آیات میں یہ قصہ اللہ تعالی نے اپنی زبان مقدس سے بیان فرمایا ہے۔
امیرالمومنین حضرت عمر چپ چاپ عمرو بن عاص کی یہ باتیں سن رہے تھے ایسی بات تو تھی ہی نہیں کہ حضرت عمر کے لیے یہ باتیں نئی تھیں وہ مصر کی تاریخ سے اور قرآن میں مصر کے ذکر سے بڑی اچھی طرح واقف تھے، لیکن انہوں نے عمرو بن عاص کو روکا نہیں کہ وہ سب جانتے ہیں حضرت عمر دیکھ رہے تھے کہ عمرو بن عاص کس نیت اور کس جذبے سے یہ باتیں کر رہے تھے ایسی بات تو تھی ہی نہیں کہ عمروبن عاص خود مصر کے بادشاہ بننا چاہتے تھے لیکن ان کا موقف یہ تھا کہ مصر کے بغیر اسلامی سلطنت مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔
عمرو بن عاص عرب اور مصر کے تعلقات کی تاریخ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام تک لے گئے انہوں نے کہا کہ اہل حجاج خاص طور پر اہل مکہ عرب اور مصر کے تجارتی تعلقات کو بھول نہیں سکتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام عربوں کے جد اعلی تھے اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ اصل نسل سے مصری تھیں وہ اس طرح کے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی زوجہ حضرت سارا کے ساتھ عراق سے فلسطین اور فلسطین سے مصر چلے گئے تھے۔
مصر کے بادشاہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کو پیش کیا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ کے ساتھ شادی کر لی تھی اور ان کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی بیوی حضرت سارا نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی نسبت حضرت ہاجرہ کو زیادہ توجہ دیتے ہیں تو وہ ناراض ہو گئیں اور قسم کھالی کہ حضرت حاجرہ کے ساتھ نہیں رہیں گی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر الجزیرہ العرب چلے گئے اور وہاں جاکر قیام کیا جہاں آجکل مکہ مکرمہ آباد ہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قبیلہ جرھم کی ایک دوشیزہ سے شادی کرلی جس کے بطن سے بارہ لڑکے پیدا ہوئے یہی لڑکے عربوں کی آباء و اجداد بنے چونکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ننہال مصری تھے اس لئے یہ عربوں کے ساتھ ایک مقدس رشتہ بن گیا۔
پھر عمرو بن عاص نے عرب اور مصر کے تجارتی تعلقات کا تفصیلی ذکر کیا اور کہا کہ مصر کے ساتھ عربوں کے تعلقات تجارتی ہی نہیں جذباتی بھی ہیں بلکہ انھیں انہوں نے روحانی تعلقات کہا۔
پھر یوں وضاحت کی کہ عرب مصر کے متعلق تو بہت کچھ جانتے تھے لیکن قرآن نازل ہوا تو عربوں کو مصر کی وہ باتیں بھی معلوم ہوئی جو ان کے ذہن میں کبھی آئی ہی نہیں تھی، مصر میں ایرانیوں اور رومیوں کی جنگ بڑا لمبا عرصہ جاری رہی تھی ایرانیوں نے 616 عیسوی میں مصر پر فوج کشی کی تھی اور رومیوں کو شکست دے کر مصر پر نو سال تک قابض رہے تھے۔
پھر ہرقل اٹھا اور اس نے ایرانیوں پر فوج کشی کرکے انہیں مصر اور شام سے نکال دیا تھا اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ وحی انکشاف کردیا تھا کہ رومی ایک نہ ایک دن ایرانیوں پر غالب آئیں گے قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ رومی شام پر مغلوب ہو گئے ہیں اور ان کے چند برس بعد پھر غالب آئیں گے یہ قرآنی پیشن گوئی پوری ہوئی اور پھر رومیوں نے ایرانیوں کو ان کے اپنے ملک میں دھکیل دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کو ہجرت فرما چکے تھے اور جب مسلمانوں کے حالات ٹھیک ہو گئے اور مجاہدین کے لشکر بھی تیار ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح ایران پر سے روم ، ہیرا ، اور غسان کے بادشاہوں اور مصر کے فرمانروا کے پاس ایلچی بھیجے کہ وہ سب اسلام قبول کرلیں،
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب مبارک کا پورا متن یہاں پیش کیا جائے تاریخ نویس عبدالحکم نے مصر کی فتوحات اور حالات میں لکھا ہے کہ مصر جانے والے ایلچی حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ تھے مکتوب مبارک کے الفاظ یہ تھے۔
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عظیم القبط مقوقس کے نام سلامتی ہو اس پر جو حق کی پیروی کرے، اما بعد ، میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں اگر تم نے اسلام قبول کر لیا تو تم بھی سلامت رہو گے اور اللہ تعالی اس کا دوگنا اجر عطا فرمائے گا، اے اہل کتاب اس حقیقت کی طرف آ جاؤ جو ہم تم دونوں میں یکساں طور پر مسلم ہے ،اور وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اور کسی انسان کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے اور نہ ہم میں سے کوئی انسان دوسرے انسان کے ساتھ ایسا برتاؤ کرے جس سے اللہ کو چھوڑ کر اسے اپنا پروردگار بنا لیا ہو پھر اگر لوگ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ ہم تو خدا کو ماننے والے ہیں۔
ابن عبدالحکم نے لکھا ہے کہ دوسرے جن بادشاہوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مکتوب ملا تھا انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچیوں اور ان کے مکتوب کے ساتھ بڑا ھی توہین آمیز سلوک کیا تھا خصوصاً کسریٰ ایران نے تو یہ مذموم حرکت کی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب پھاڑ کر اس کے پرزے بکھیر دیے تھے ،اس کی اطلاع جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کی سلطنت کے اسی طرح پرزے اڑیں گے۔
ابن عبدالحکم نے لکھا ہے کہ مقوقیس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب کو احترام سے وصول کیا اور پوری توجہ سے پڑھا، رات کے وقت شاہ مصر مقوقس نے حضرت حاطب کو تنہائی میں اپنے پاس بلایا اور پوری تعظیم دے کر بٹھایا پھر کہا کہ اسے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ بتائیں حضرت حاطب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام تر صفات بیان کی اور ثبوت کے طور پر کچھ زندہ اور قابل یقین مثال پیش کی۔
میں جانتا تھا کہ ایک پیغمبر ابھی آئے گا ۔
ابن عبدالحکم لکھتا ہے کہ مقوقس نے کہا لیکن میرا خیال تھا کہ یہ نبی شام میں آئے گا کیونکہ اس سے پہلے تمام پیغمبر وہی مبعوث ہوئے تھے، لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ ایک نبی مصیبت زدہ سرزمین عرب میں ظہور پذیر ہوا ہے۔
قبطی تمہارے اس نبی کے حلقہ بگوشی میں میرا ساتھ نہیں دیں گے یہ احتیاط کرنا کہ یہاں کسی کو میری اور تمہاری اس گفتگو کا علم نہ ہو میں یہ محسوس کر چکا ہوں کہ اس ملک پر تمہارے پیغمبر کا غلبہ ہو گا۔
تمہارے پیغمبر کے ساتھی اس کے بعد ہمارے ان مصر کے میدانوں میں اتریں گے اور میدانوں پر غالب آئیں گے، لیکن میں قبطیوں سے اس کے متعلق کچھ لفظ بھی نہیں کہوں گا تم اپنے دوست آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جاؤ۔
اگلی صبح مقوقس نے حضرت حاطب کو پھر بلایا اور اپنے پاس بٹھا کر کاتب کو بلایا اور عربی زبان میں یہ مکتوب لکھوایا۔
عبداللہ کے بیٹے محمد کو عظیم القبۃ مقوقس کا سلام ،امابعد، میں نے آپ کا خط پڑھا اور جو کچھ آپ نے اس میں تحریر کیا ہے اور جو دعوت دی ہے اسے میں نے سمجھا ہے میں جانتا تھا کہ ایک پیغمبر ابھی آنا باقی ہے لیکن میرا خیال تھا کہ وہ ملک شام میں ظہور پذیر ہو گا میں نے آپ کے قاصد کا احترام کیا ہے اور میں آپ کی خدمت میں دو لڑکیاں جو قبطیوں میں اونچے درجے اور حیثیت کے خاندانوں کی ہیں پیش کر رہا ہوں ،اور آپ کی سواری کے لئے ایک اعلی نسل کا خچر بھی تحفے کے طور پر پیش کررہا ہوں۔
ان لڑکیوں میں سے ایک لڑکی حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا کے نام سے ازواج مطہرات میں شامل کر لی گئی تھیں، مصری تاریخ نویس محمد حسنین ہیکل نے لکھا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ قبطیوں کے ساتھ خوش سلوکی سے پیش آنے کا حکم مانو کہ تم پر ان کا حق ہے اور تم سے ان کا رشتہ بھی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عمرو بن عاص نے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو مصریوں سے اپنا یہ رشتہ بھی یاد دلایا ، قبطی عیسائی تھے لیکن انہوں نے اپنا ایک الگ فرقہ بنا لیا تھا اب مصر پر بادشاہی ہرقل کی تھی۔
وہ بھی عیسائی تھا لیکن قبطیوں کے فرقے کے سخت خلاف تھا، عیسائیوں کے ایک یا دو فرقے اور بھی بن گئے تھے اور یہ فرقے آپس میں جنگ و جدل میں لگے رہتے تھے ،ہرقل نے مختلف فرقوں کے مشترک عقیدوں پر مبنی ایک سرکاری مذہب بنا ڈالا اور حکم نامہ جاری کیا کہ سب اس مذہب کو صحیح تسلیم کریں۔ اس نے مصر کے دارالحکومت اسکندریہ میں مذہبی پیشوائیت کی سربراہی قیرس نامی اسقف کے سپرد کردی، اور اسے اتنے وسیع اختیارات دے دیے کہ وہ ظلم و تشدد کے ذریعے لوگوں سے سرکاری عیسائیت منوائے، دوسرے فرقے تو دب گئے لیکن قبطیوں نے سرکاری مذہب کے خلاف محاذ قائم کر لیا تھا، اس نے ان پر جو وحشیانہ مظالم توڑے اگر انہیں تفصیل سے بیان کیا جائے تو انسان کی روح بھی کانپ اٹھتی ہے۔ پورے دس سال قبطی عیسائی قیرس کی وحشت اور بربریت کا شکار ہوتے رہے، ان کی سننے والا کوئی نہ تھا ۔
عمرو بن عاص نے امیرالمومنین سے کہا کہ قبطیوں کو اس ظلم و تشدد سے نجات دلانا ہمارا دینی فریضہ ہے۔
اس کے بعد عمرو بن عاص نے امیرالمومنین کے سامنے مصر کی زرخیز زمین اور شادابی اور پھر قیمتی پتھروں اور کانوں کے ذخیرے اور بے انداز دولت کا ذکر کیا اور کہا کہ اللہ کی زمین سے حاصل ہونے والی یہ ساری دولت رومی بادشاہوں کے محلات میں چلی جاتی ہے اور لوگ بھوکے اور ننگے رہ جاتے ہیں ،محنت اور مشقت کرنے والوں کو بڑی مشکل سے دو وقت روٹی ملتی ہے، اور ان کی محنت کا پورے کا پورا ثمر شاہی محلات میں چلا جاتا ہے۔
یا امیرالمومنین! ۔۔۔عمر بن عاص نے بڑے جذباتی لہجے میں کہا ۔۔۔میری روح کہہ رہی ہے کہ ہمیں وہ سرزمین پکار رہی ہے جہاں نیل بہتا ہے،،،،، میں اپنا ایک ذاتی واقعہ سنانا چاہتا ہوں جسے میں اللہ کا اشارہ سمجھتا ہوں۔
ہم یہ واقعہ اس داستان کے پہلے باب میں تفصیل سے سنا چکے ہیں یہاں ہم مختصراً سنا دیتے ہیں، یہ اس دور کا واقعہ ہے جب مصر پر ایرانی قابض تھے اور اس کے فوراً بعد مصر پھر رومیوں کے تسلط میں آگیا تھا ۔
اس وقت عمر بن عاص نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔
وہ تجارت کے سلسلے میں اہل قریش کے ایک قافلے کے ساتھ بیت المقدس گئے ایک روز قافلے کے اونٹ قریبی جنگل میں چرنے چگنے کے لئے لے جانے کی باری عمرو بن عاص کی تھی ،وہاں انہیں ایک نیم جان عیسائی ملا جو پیاس سے مرا جا رھا تھا اس کا نام شماس تھا عمرو بن عاص نے اسے اپنا سارا پانی پلا دیا اور وہ موت کے منہ سے نکل آیا ۔
شماس گہری نیند سو گیا ، عمرو بن عاص اس سے ذرا دور کھڑے تھے کہ انہوں نے ایک بڑا لمبا اور زہریلا سانپ شماس کی طرف رینگتا دیکھا کمان اور ترکش انکے پاس تھی انہوں نے وہیں سے تیر چلایا جو سانپ کے جسم سے پار ہو گیا اور سانپ مر گیا، شماس کی آنکھ کھلی تو سانپ کو دیکھ کر اس کا رنگ ہی پیلا پڑ گیا۔
تاریخ میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ شماش بڑا ہی دولت مند تاجر تھا اور وہ مصر کے دارالسنت اسکندریہ کا رہنے والا تھا اس نے عمرو بن عاص کو یہ انعام دینا چاہا کہ انھیں کہا کہ وہ اس کے ساتھ اسکندریہ چلیں۔
شماش نے اسکندریہ کا ایسا پرکشش نقشہ پیش کیا کہ عمرو بن عاص راضی ہو گئے اور اس کے ساتھ روانہ ہو گئے ۔
اسکندریہ کو انہوں نے اس سے زیادہ خوبصورت اور دولت مند شہر پایا جتنا شماش نے انہیں بتایا تھا۔
انہی دنوں وہاں ایک جشن منایا جارہا تھا ۔
جشن میں شاہی خاندان خاص طور پر شریک ہوتا تھا، یہ جشن ہر سال انہی دنوں منایا جاتا تھا ۔
شماش عمرو بن عاص کو اس جشن میں لے گیا چوں کہ وہ اونچی حیثیت کا آدمی تھا اس لئے اسے تماشائیوں میں سب سے آگے جگہ دی گئی، عمرو بن عاص کو اس نے اپنے ساتھ بٹھایا۔
اس جشن میں ایک تقریب منعقد ہورہی تھی لوگ درجہ بدرجہ دائرے میں بیٹھے تھے اور ایک طرف شاہی خاندان بیٹھا محو تماشہ تھا۔ تقریب یوں تھی کہ ایک آدمی تماشائیوں کے درمیان دائرے میں کھڑا ہو کر اور آنکھیں بند کرکے ایک گیند کو اوپر پھینکتا تھا ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ گیند کسی کے ایک بازو پر گرے تو وہ شخص کتنا ہی غریب اور معمولی آدمی کیوں نہ ہو وہ مرنے سے پہلے بادشاہ ضرور بنتا ہے۔
گیند پھینکنے والے نے چند مرتبہ گیند اوپر پھینکی لیکن گیند واپس زمین پر ہی گری، تین چار مرتبہ گیند کسی نہ کسی آدمی پر گری لیکن جسم کے کسی اور حصے پر آپڑی ایک بازو پر نہ گری۔
آخر گیند عمرو بن عاص کے ایک بازو پر گری اور تماشائیوں کے ہجوم نے تالیاں بجائیں اور خوشی کے نعرے بھی لگائے لیکن شاہی خاندان کے افراد نے کہا کہ وہ اس شخص کو اچھی طرح دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ یہ ہے کون؟
شماس نے اٹھ کر شاہی خاندان کو بتایا کہ اس شخص کا نام عمرو بن عاص ہے اور یہ عربی ہے اور مکہ سے آیاہے۔
لوگوں نے قہقہے لگانے شروع کر دیے اور ایسی آوازیں بھی اٹھی کے عرب کا یہ بدو ہمارا بادشاہ نہیں ہوسکتا ۔
ہجوم کی یہ آوازیں بھی سنائی دیں کہ یہ چھوٹا اور ٹھنگا سا بدو مصر کا بادشاہ ہو ہی نہیں سکتا۔
عمرو بن عاص عرب کے عام لوگوں کی طرح دراز قد نہیں تھے ان کا قد چھوٹا ،سر بڑا ، ہاتھ اور پاؤں قد کے مطابق زیادہ ہی بڑے تھے، ان کی بھنویں گھنی تھیں ، منہ ذرا زیادہ چوڑا تھا، داڑھی لمبی تھی ،اور سینہ کچھ زیادہ ہی چوڑا تھا، البتہ ان کی سیاہ چمکیلی آنکھوں میں اور چہرے پر بشاشت اور زندہ دلی کا تاثر رہتا تھا، لیکن اسکندریہ کے لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عمرو بن عاص کو غصہ آتا ہی نہیں تھا ان کے ہونٹوں پر تبسم سا ہی رہتا تھا۔
ابن عبدالحکم لکھتا ہے کہ عمرو بن عاص مصر سے واپس آگئے لیکن مصر اور اسکندریہ ان کے ذہن پر ایسے سوار ہوئے کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ مصر میں ہی جا کر آباد ہونا چاہتے ہیں۔
یا امیرالمومنین! ۔۔۔۔یہ واقعہ سنا کر عمرو بن عاص نے کہا میں ایسا خیال اپنے دماغ میں کبھی بھی نہیں لاؤں گا کہ گیند کا اشارہ یہ تھا کہ میں ایک نہ ایک دن مصر کا بادشاہ بنوں گا ، بادشاہی صرف اللہ تعالی کی ہے اور یہ میرا عزم ہے کہ مصر میں اللہ کی بادشاہی قائم کرنی ہے ،مجھے آپ کی اجازت چاہیے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ بڑے تحمل اور انہماک سے عمرو بن عاص کی یہ باتیں سنتے رہے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ قائل ہو گئے ہیں، حقیقت بھی یہی ہے کہ حضرت عمر قائل ہوگئے تھے ،لیکن مصر پر فوج کشی کی اجازت اتنی جلدی نہیں دے سکتے تھے ،انہوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ اور مدینہ کے کچھ صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو ان میں سے کسی نے بھی تائید نہ کی اور یہی کہا کہ ابھی ہم اس قابل نہیں کہ اتنی دور کا ایک اور محاذ کھول دیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عمرو بن عاص کے ان خیالات اور عزم کو بہت سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی اور اس کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ویسے ہی ایک بات چھیڑ دی انہوں نے کہا کہ قبطی عیسائیوں کے ساتھ ہمارا رشتہ تو بنتا ہے اور ہم انہیں رومیوں کے ظلم و تشدد سے نجات دلائیں گے لیکن سنا ہے کہ ان کے یہاں ایک بڑی ہی ظالمانہ رسم چلی آ رہی ہے۔
رسم یہ تھی کہ قبطی اس وہم میں مبتلا تھے کہ جب فصلوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو دریا نیل کی روانی رک جاتی ہے یعنی دریا ٹھہر جاتا ہے قبطی سال میں ایک بار ایک کنواری لڑکی کو اس کے والدین کی رضامندی سے الگ کرلیتے تھے اور اسے بڑے قیمتی لباس اور زیورات پہنا کر دریائے نیل میں پھینک دیتے تھے لڑکی ڈوب مرتی تھی اور قبطی کہتے تھے کہ دریا نیل اب رکے گا نہیں اور بہتا ہی رہے گا ۔
عمرو بن عاص نے امیرالمؤمنین کی تائید کی اور کہا کہ ان شاءاللہ قبطی قبول اسلام پر آ جائیں گے اور ان کی تمام بے بنیاد رسمیں ختم ہو جائیں گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اب ہم اس داستان کو اس مقام پر لے جاتے ہیں جہاں حلب میں عیسائی قبائل نے متحد ہو کر مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑی تھی اور مسلمانوں کے ہاتھوں اپنا قتل عام کروا کے ان کے آگے سر تسلیم خم کر دیا تھا۔
سپہ سالار ابوعبیدہ جب حلب پہنچے تھے تو قبائل کے سرداروں نے ان کے پاس جاکر اعتراف کرلیا تھا کہ انھیں اپنی لغزش اور کم فہمی کی سزا ملی ہے۔
سرداروں نے سپہ سالار ابوعبیدہ کو یہ بھی بتایا کہ ان کی قیادت رومی فوج کا ایک جرنیل اور ایک افسر کررہے تھے اور انہوں نے ہی انہیں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے تیار کیا تھا۔
ابو عبیدہ کو شارینا کے خاوند حدید بن مومن خزرج سے پہلے ہی پتہ چل چکا تھا کے انتھونیس اور روتاس نے ان قبائلیوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے تیار کیا تھا۔ حدید نے سپہ سالار کو یہ بھی بتایا تھا کہ ہرقل کی ایک بیوی اور اس کا نوجوان بیٹا بھی فرار ہو کر یہاں آ گئے تھے حدید کو یہ ساری باتیں شارینا نے بتائی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget