🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ*
✍🏻تحریر: *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➐➊】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس وقت حلب میں سپہ سالار ابوعبیدہ پہنچے تھے اور انہوں نے مجاہدین سے خطاب کیا اس وقت عمرو بن عاص کسی اور شہر میں تھے وہ جہاں کہیں بھی تھے اپنی بے چینی اور اپنی بے قراری چھپا نہ سکے انہوں نے صاف الفاظ میں امیرالمومنین کے حکم کو غیر دانشمندانہ بھی کہہ دیا، کچھ دنوں بعد ان کی یہ بے چینی اور یہ احتجاجی باتیں سپہ سالار ابوعبیدہ تک پہنچ گئی۔
ابوعبیدہ حلب سے اس مقام تک پہنچے جہاں عمرو بن عاص تھے۔ سپہ سالار نے تو مفتوح شہر کا دورہ کرنا اور وہاں کے حالات دیکھ کر ضروری احکامات جاری کرنے تھے وہ عمروبن عاص کے ساتھ خاص طور پر بات کرنا چاہتے تھے۔
وہاں پہنچ کر انہوں نے عمرو بن عاص سے پہلی بات یہ پوچھی کہ وہ ایسی اکھڑی اکھڑی باتیں کیوں کرتے ہیں جن کا مجاہدین پر اثر تخریبی بھی ہوسکتا ہے۔
ہمیں رومیوں کا تعاقب کرنا چاہیے تھا ۔۔۔عمر بن عاص نے کہا۔۔۔ میں مصر تک پہنچنا چاہتا ہوں رومی تتربتر ہو کر ڈری ہوئی بھیڑ بکریوں کی طرح بھاگ رہے تھے ہم ان کے تعاقب میں جاتے تو بڑی آسانی سے مصر میں داخل ہو سکتے تھے۔
میں حیران ہوں ابن عاص،،،،سپہ سالار ابوعبیدہ نے کہا ۔۔۔کیا تو اتنی جلدی بھول گیا کہ عیسائی قبائل نے صرف اس لیے ہر شہر میں بغاوت کر دی تھی کہ وہاں ہماری نفری بہت تھوڑی تھی یہ تو اللہ کا خاص کرم ہے کہ ہم نے ہر جگہ بغاوت فرو کر لی ہے، لیکن ذرا سوچ ہمارے لشکر اس ملک سے نکل کر آگے جائیں تو پھر پیچھے بغاوت ہو جائے گی۔
مستند موؤرخوں کی لکھی ہوئی تاریخ گواہی دیتی ہے کہ عمرو بن عاص عام سطح کے سالار نہیں تھے نہ ان کی سوچ سطحی اور جذباتی تھی ،مصر کو سلطنت اسلامیہ میں شامل کرنا ان کا ایک عزم تھا اور عزم بھی ایسا جیسے اللہ تعالی نے انہیں اسی کام کے لئے ہی پیدا کیا ہو ،فتح مصر تو ان کے لئے ایک جنون اور ایک خبط بن گیا تھا ، جس سے امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ عنہ پوری طرح واقف تھے۔
یہاں ضروری معلوم ہوتا ہے کہ بیان کردیا جائے عمرو بن عاص کے مصر کے متعلق ارادے کیا تھے اور امیرالمومنین کے ساتھ ان کی کیا اور کب باتیں ہوئی تھیں،،،،، کچھ ہی عرصہ پہلے جب فلسطین میں رومیوں کے خلاف جنگ ہو رہی تھی تو حضرت عمر نے بیت المقدس کی فتح کی ذمہ داری عمرو بن عاص کو سونپی تھی اور کہا تھا کہ وہ شکست کی خبر بد نہیں بلکہ فتح کی خوشخبری سننا چاہتے ہیں۔
اللہ امیرالمومنین کو فتح ہی کی خوشخبری سنائے گا عمر بن عاص نے تاریخی الفاظ کہے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس وقت بیت المقدس میں رومیوں کا ایک بڑا ھی مشہور جرنیل موجود تھا جس کا نام اطربون تھا۔
اس جرنیل کی جنگی فہم و فراست اور دشمن کو دھوکہ دینے کے لئے مکاریاں اور چالبازیاں اتنی زیادہ تھیں کہ تاریخ کے مطابق ہرقل بھی کبھی کبھی اس کے آگے سر جھکا دیتا تھا۔ سالار عمرو بن عاص کا مقابلہ اس جرنیل کے ساتھ تھا۔
اس سلسلے کی کچھ تفصیلات اس داستان کے پہلے باب میں پیش کی جاچکی ہے، یہاں ہم مختصراً بیان کریں گے تفصیلات کے لئے پہلا باب ایک بار پھر پڑھ لیں۔
عمر وبن عاص خالد بن ولید کی طرح ایسے سالار تھے کہ قیادت کی عمدگی کے علاوہ دشمن کو دھوکا دینے کے ڈھنگ خوب جانتے تھے ۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ بھی عمرو بن عاص کی اس صلاحیت اور خوبیوں سے خوب واقف تھے اسی لئے انہوں نے بیت المقدس کی فتح کی ذمہ داریاں انہیں ہی سونپی تھی۔
اس طرح امیرالمؤمنین نے عمرو بن عاص کو اطربون کے مقابلے میں بھیجا تو انہوں نے تاریخی الفاظ کہے تھے۔۔۔۔ ہم نے عرب کے اطربون کو روم کے اطربون سے ٹکرا دیا ہے اب دیکھتے ہیں اس کا نتیجہ کیا سامنے آتا ہے۔
حضرت عمر اطربون کی جنگی چالوں سے واقف تھے اور جانتے تھے کہ وہ میدان جنگ میں لومڑی جیسی مکاری اور چالاکی کو اس طرح استعمال کرتا ہے کہ اس کا دشمن چکرا جاتا اور سمجھ نہیں پاتا کہ کیا ہوا ہے کیا کرنا چاہیے تآنکے دشمن دھوکے میں مارا جاتا ہے۔ امیرالمومنین یہ بھی جانتے تھے کہ یہی اوصاف اور یہی صلاحیتیں عمرو بن عاص میں بھی ہیں۔
عمرو بن عاص بیت المقدس کی طرف بڑھے تو انہوں نے دیکھا کہ اطربون اپنی فوج کے ساتھ اجنادین کی طرف جا رہا تھا۔
اجنادین اور بیت المقدس میں فاصلہ کچھ زیادہ نہیں تھا ، عمرو بن عاص نے اطربون کی فوج دیکھی اور پھر اپنا لشکر دیکھا تو احساس ہوا کہ انہیں کمک کی شدید ضرورت ہے۔
ورنہ ان کے سامنے اپنی کم نفری ٹھہر نہیں سکے گی۔
حضرت عمر نے اطلاع ملتے ہی فوراً کمک بھیج دی اور عمرو بن عاص اجنادین اور بیت المقدس کے قریب جا خیمہ زن ہوئے۔
فوجی حملے سے پہلے انہوں نے یہ ترکیب سوچی کہ ان پر نفسیاتی حملہ کیا جائے جس کا طریقہ انہوں نے اختیار یہ کیا ک آپ نے دو ایلچی اطربون کی طرف اس پیغام کے ساتھ بھیجے کہ وہ صلح کا معاہدہ کرنا چاہتے ہیں، لیکن یہ ایلچی دراصل جاسوس تھے جنہیں کام یہ تھا کہ وہ قلعے کے اندر جاکر دیکھیں کہ اندر کتنا لشکر اور دفاعی انتظامات کیسے اور دروازے کتنے کچھ مضبوط وغیرہ۔
اطربون نے دونوں ایلچیوں کو پورے احترام سے بٹھایا اور بات چیت کی اور انہیں رخصت کردیا، اطربون کوئی ایسا اناڑی جرنیل نہ تھا کہ ان ایلچیوں کو شہر میں کھلا پھرنے دیتا،
ایلچی واپس آئے تو سالار عمرو بن عاص ان سے پوچھنے لگے کہ قلعے کے اندر کیا کچھ ہے اور وہ کیا دیکھ کر آئے ہیں، دونوں الچیوں نے انھیں یہ جواب دے کر مایوس کردیا کہ وہ کچھ بھی نہیں دیکھ سکے۔
عمرو بن عاص نے فیصلہ کیا کہ وہ خود اپنے ایلچی بن کر جائیں گے اور یہ ظاہر نہیں ہونے دیں گے کہ وہ خود اپنے لشکر کے سپہ سالار ہے انھوں نے بھیس بدلہ اور اچھی طرح اپنا جائزہ لے کر چلے گئے۔
اطربون نے انکا استقبال بھی عزت و احترام سے کیا ،عمرو بن عاص نے یہ ظاہر کیا کہ وہ اپنے سپہ سالار عمرو بن عاص کے ایلچی ہیں اور سپہ سالار نے انہیں اس لیے بھیجا ہے کہ پہلے دو الچی صلح کے معاہدے کی بات ٹھیک طرح نہیں کر سکے اور اب وہ مزید ہدایت لے کر آئے ہیں۔
صلح کی بات چیت شروع ہوئی تو عمرو بن عاص نے کہا کہ وہ یہ بات اپنے سپہ سالار تک پہنچائیں گے اور انکا حکم لے کر پھر حاضر ہونگے۔
میری نظروں نے مجھے کبھی دھوکا نہیں دیا۔۔۔ اطربون نے مسکراتے ہوئے کہا۔۔۔۔ میں کسی ایلچی سے نہیں بلکہ عرب کے سپہ سالار عمرو بن عاص کے ساتھ ہی بات کر رہا ہوں کیا تم عمرو بن عاص نہیں ہو۔
نہیں ۔۔۔۔عمرو بن عاص نے جواب دیا۔۔۔۔ اگر میں عمرو بن عاص ہوتا تو اپنے اوپر جھوٹا پردہ ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں تھی میرے سپہ سالار عمروبن عاص اتنے نڈر اور بے خوف انسان ہیں کہ انھوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا۔
اطربون ہنس پڑا اور اس نے ایسا تاثر دیا جیسے اس نے تسلیم کرلیا ہو کہ وہ عمرو بن عاص نہیں بلکہ ان کے ایلچی ہیں باتوں باتوں میں اطربون باہر نکل گیا اور واپس آکر پھر مذاکرات شروع کردیئے۔
اطربون جب باہر نکلا تھا تو عمرو بن عاص سمجھ گئے کہ اب ان کی خیر نہیں اب ہوگا یہ کہ انہیں پکڑ کر کال کوٹھری میں بند کردیا جائے گا یاقتل ہی کر دیا جائے گا۔ عمرو بن عاص دماغ پر زور دینے لگے کہ یہاں سے کس طرح نکلا جائے کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی اگر یہ ملاقات کہیں باہر ہو رہی ہوتی تو بھاگ نکلنے کا موقع پیدا کیا جاسکتا تھا لیکن شہر کے اندر سے نکل بھاگنا ناممکن تھا۔
آخر ایک ترکیب دماغ میں آ ہی گئی عمرو بن عاص نے ایسا انداز اور رویہ اختیار کرلیا جیسے وہ اطربون کی پیش کی ہوئی شرائط مان گئے ہوں انہوں نے ایسا تاثر پیدا کر دیا جیسے وہ رومیوں کی جنگی طاقت سے خائف ہوں۔
عمرو بن عاص نے اطربون سے کہا کہ وہ سپہ سالار عمرو بن عاص کے بھیجے ہوئے ایلچی نہیں ہے بلکہ انھیں امیرالمومنین حضرت عمر نے بھیجا ہے اور ان کے ساتھ دس مشیر ہیں جو قلعے سے کچھ دور ان کا انتظار کر رہے ہیں ۔
وہ اب ان کے پاس جائیں گے اور انہیں ساتھ لائیں گے اور پھر یہی فیصلہ کر دیا جائے گا کہ انہیں اطربون کی شرائط منظور ہیں۔
اطربون یہ سن کر خوش ہوا کہ ایک ہی نہیں بلکہ دس مسلمان جال میں آ گئے ہیں اس نے عمرو بن عاص سے کہا کہ وہ اپنے مشیروں کو یہاں لے آئیں۔
عمرو بن عاص وہاں سے نکلے ان کے لیے قلعہ کا دروازہ کھولا اور باہر نکلتے ہی انہوں نے گھوڑے کو ایڑ لگا دی اور اس طرح بچ کر نکل آئے۔
ان کے ساتھ کوئی اور مشیر نہیں گیا تھا وہ اکیلے تھے اور ان کی آنکھوں میں دھول جھونک کر نکل آئے۔
تاریخ گواہی دیتی ہے یورپی مؤرخ نے بھی لکھا ہے کہ اطربون مذاکرات کے دوران باہر نکلا تھا تو اس نے اپنے محافظ دستے کے کمانڈر کو یہ کام سونپا تھا کہ یہ عربی جو اندر بیٹھا ہے جب قلعے سے باہر نکل کر واپس جا رہا ہو گا تو اسے قتل کردیا جائے۔
لیکن ان کو عمرو بن عاص نے جو دھوکا دیا اس نے پھر باہر جاکر محافظ دستے کے کمانڈر سے کہا تھا کہ اب اس شخص کو جانے دینا یہ کچھ اور آدمیوں کو ساتھ لے کر واپس آ رہا ہے۔
اطربون کو جب پتہ چلا کہ مسلمانوں کے سپہ سالار عمرو بن عاص اسے دھوکا دے کر زندہ نکل گیا ہے تو وہ غصے سے آگ بگولہ ہونے لگا اور پھر جو بھی سامنے آتا اس پر غصہ جھاڑنا شروع کردیتا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
پھر جس طرح بیت المقدس فتح ہوا اس کی تفصیلات پہلے دو ابواب میں پیش کی جا چکی ہے ان تفصیلات میں اب ہم یہاں کچھ اضافہ کر رہے ہیں۔
بیت المقدس عیسائیوں کے لیے بھی اتنا ہی اہم مقام تھا جتنا مسلمانوں کے لئے لیکن رومی عیسائیوں نے دیکھا کہ مسلمان پے درپے فتوحات حاصل کرتے آ رہے ہیں تو انہوں نے بیت المقدس کے تبرکات اور یادگار اشیاء قسطنطیہ کو منتقل کرنی شروع کردیں۔
اس کے ساتھ ہی ہرقل نے وہاں فوج کی تعداد بڑھا دی اور اس کی قیادت اپنے جرنیل اطربون کے سپرد کردی ۔ عیسائی فوج اور شہریوں کے مذہبی جذبات کو بھڑکانے کے لئے اسقف اعظم صفرنیوس موجود تھا ۔
اس نے رومی فوج کو مذہبی معاملے میں اتنا جذباتی کردیا تھا کہ بظاہر یہ فوج طوفانی سی ہوگئی تھی رومی اتنی آسانی سے بیت المقدس سے دستبردار نہیں ہوسکتے تھے۔
سپہ سالار عمرو بن عاص نے بیت المقدس کو محاصرے میں لے لیا لیکن مقابلہ اتنا شدید اور خونریز تھا کہ محاصرہ کامیاب ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔
عمرو بن عاص نے کمک شدید ضرورت محسوس کی اور امیر المومنین کو پیغام بھیجا کہ جس قدر کمک بھیجی جا سکے فوراً بھیج دی جائے۔
امیرالمومنین حضرت عمررضی اللہ عنہ میدان جنگ کی اور ہر محاذ کی تازہ بہ تازہ صورت حال سے پوری طرح باخبر رہتے تھے بیت المقدس کو تو وہ اور ہی زیادہ جانتے تھے انہیں معلوم تھا کہ بیت المقدس میں اطربون جیسا منجھا ہوا اور گھاگ جرنیل موجود ہے اور ان کی تمام تر توجہ بھی بیت المقدس پر ہے۔ ان حالات کے پیش نظر امیر المومنین نے فیصلہ کیا کہ وہ خود کمک لے کر بیت المقدس کے محاذ پر جائیں گے۔
امیرالمومنین اچھی خاصی کمک لے کر مدینہ سے روانہ ہوئے اور جابیہ کے مقام پر جا قیام کیا سپہ سالارعمرو بن عاص اور دیگر سالاروں کو وہیں بلا لیا اور جنگ کا نیا نقشہ مرتب کیا۔
تاریخ میں واضح طور پر لکھا ہے کہ رومیوں کے جاسوس ہر جگہ موجود تھے انہوں نے حضرت عمر کو ان کی لائی ہوئی کمک دیکھی اور پھر یہ دیکھا کہ انہوں نے تمام سالاروں کو بلایا ہے تو یہ ساری خبر اطربون تک پہنچائی، ایک روایت یہ بھی ہے کہ اطربون خود بھیس بدل کر گیا اور مسلمانوں کا یہ سارا لشکر دیکھا ۔
عارضی طور پر مسلمانوں نے بیت المقدس کا محاصرہ اٹھا لیا تھا ایک معجزہ ہوا وہ یہ کہ اسقف اعظم صفرنیوس نے ایک ایلچی اس پیغام کے ساتھ بھیجا کہ حضرت عمر خود بیت المقدس آئیں تو صلح کا معاہدہ کیا جاسکتا ہے۔
حضرت عمر اور تمام سالار یہ سمجھے کہ رومی جرنیل اطربون انہیں دھوکہ دے رہا ہے۔ بہت سوچ بچار کے بعد حضرت عمر بیت المقدس جانے کے لیے تیار ہوگئے پھر حضرت عمر جس لباس میں اور جس طرح بیت المقدس کو روانہ ہوئے ایک دلچسپ انگیز اور خیال افروز داستان ہے لیکن یہاں موضوع کچھ اور ہے اس لیے دیگر تفصیلات سے ہم گریز کر رہے ہیں۔
اتنا ہی بتائیں گے کہ جب حضرت عمر بیت المقدس میں داخل ہوئے تو بیت المقدس کے ایک بڑے پادری نے انہیں کہا کہ آپ شہر میں داخل ہو رہے ہیں ذرا اچھے کپڑے پہنئے اور گھوڑے پر سوار ہو جائیں تا کہ رومیوں کی نگاہ میں آپ کی عظمت کا اندازہ غلط نہ ہو۔
حضرت عمر نے اس پادری کو جو جواب دیا وہ تاریخ کے دامن میں آج تک محفوظ ہے امیر المومنین نے کہا۔۔۔ ہمیں اللہ نے جو عزت بخشی ھے وہ صرف اسلام کے صدقے بخشی ہے اسلام میں لباس اور گھوڑے عزت اور عظمت کا باعث نہیں بن سکتے ہمیں ایسی چیزوں کی ضرورت نہیں، عظمت انسان کی ہوتی ہے لباس اور اعلی نسل کے گھوڑے کی نہیں۔
اسقف اعظم صفرنیوس خود حضرت عمر کے استقبال کے لئے باہر آیا اور عزت و احترام سے اپنے ہاں لے گیا ، توقع تو یہ تھی کہ مذاکرات ہوں گے دونوں فریق اپنی اپنی شرائط پیش کریں گے اور بحث و مباحثہ ہو گا اور شاید پھر بھی مذاکرات کامیاب نہ ہوں لیکن ہوا یہ کہ اسقف اعظم صفرنیوس نے کہا کہ معاہدے کی شرائط حضرت عمر اپنے ہاتھ سے لکھیں۔
حضرت عمر نے معاہدہ اپنی شرائط کے مطابق لکھا جو صفرنیوس نے بلا چوں چراں قبول کرلیا اور یوں بیت المقدس مجاہدین کے جھولی میں آ گرا۔
امیر المومنین اور ان کے سالار حیران تھے کہ اطربون کہاں ہے امیرالمومنین نے صفرنیوس سے پوچھا تو جواب ملا کہ اپنے ساتھ کچھ فوج لے کر رات کے اندھیرے میں نکل گیا تھا اور اس کی منزل مصر ہے ۔
مطلب یہ کہ اطربون مسلمانوں کے پے درپے فتوحات اور طوفانی پیش قدمیاں دیکھ کر جان گیا تھا کہ یہ مسلمان بیت المقدس بھی لے لیں گے ،اور اس کی فوج کا قتل عام ہوگا۔
جنگی مبصر اور وقائع نگار لکھتے ہیں کہ اطربون نے اپنی فوج کی ذہنی حالت بھی دیکھ لی تھی اس کی فوج پر مسلمانوں کی دہشت چھا گئی تھی، اور اس فوج کے سپاہی لڑنے سے پہلے دیکھ لیتے تھے کہ وہ کس راستے سے بھاگیں گے اطربون بڑا ہی دوراندیش جرنیل تھا اپنی جنگی طاقت ضائع کرنے کے بجائے اس نے بہتر یہ سمجھا کہ فوج کو اپنے ساتھ مصر لے جائے اور اس کی نئے سرے سے تربیت کرے اور نئی فوج تیار کرکے مسلمانوں کو للکارا جائے مختصر بات یہ کہ اطربون فلسطین سے چپکے سے کھسک گیا اور مصر جا پہنچا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
بیت المقدس کی فتح کا واقعہ ہم نے صرف اس لیے بیان کیا ہے کہ یہ بتانا مقصود ہے کہ فتح مصر کا خیال کس کے دماغ میں آیا تھا اور کس نے امیر المومنین کو قائل کیا تھا کہ مصر پر فوج کشی کی جائے ۔
بیت المقدس میں ایک شام عمرو بن عاص حضرت عمر ؓکے پاس جا بیٹھے اور کہا کے وہ ایک ضروری بات کرنے آئے ہیں، حضرت عمر ؓان کی بات سننے کو تیار ہو گئے۔
یا امیر المومنین۔۔۔ عمر بن عاص نے کہا۔۔۔ خدا کی قسم آپ اطربون کو اس طرح جانتے ہیں جس طرح آپ کا دایاں ہاتھ بائیں ہاتھ کو جانتا ہے میں کبھی نہیں مانوں گا کہ ہمارے امیرالمؤمین اس خوش فہمی میں مبتلا ہوں گے کہ اطربون ہم سے ڈر کر بھاگ گیا ہے۔
ہم اللہ کے حضور امید رکھنے والے لوگ ہیں ہم خواب نہیں دیکھا کرتے اور اپنے آپ کو فریب دینا مجاہدین اسلام کا شیوہ نہیں۔
عاص کے بیٹے۔۔۔ حضرت عمر نے عمرو کی بات روک کر کہا۔۔۔ کیا یہ بہتر نہیں کہ تو وہ بات کر دے جس کی تو تمہید باندھ رہا ہے میں سن رہا ہوں۔
یا امیرالمومنین عمرو بن عاص نے کہا ۔۔۔میں کہنا یہ چاہتا ہو کہ ہمیں اطربون کے پیچھے جانا چاہیے۔
کیا تو اسے ابھی کافی نہیں سمجھتا کہ ہم نے ایک بڑا ہی کٹھن محاذ سر کر لیا ہے؟ ۔۔۔حضرت عمر نے کہا۔
میں اسے کافی نہیں سمجھتا، یا امیر المومنین عمرو بن عاص نے کہا۔۔۔ اگر ہم اس فتح کو کافی سمجھ کر بیٹھ گئے تو اطربون فوج تیار کرکے ہم پر حملہ آور ہوگا ہرقل اور اطربون ایک ابلیس کے دو نام ہیں اور اتنی عقل اور فہم و فراست رکھتے ہیں کہ الجزیرہ اور فلسطین کے عیسائی قبائل کو بغاوت پر اکسا سکتے ہیں اور زمین کے نیچے رہ کر اس بغاوت کی ہدایتکاری بھی کرسکتے ہیں۔
وہ مصر ایسی ہی تیاریوں کے لئے گیا ہے ہمیں ضرورت یہ ہے کہ ہم اسے چین سے بیٹھنے کی مہلت نہ دیں آپ کی اجازت چاہیے میں مصر کی طرف پیش قدمی اور حملے کی قیادت کروں گا۔
صرف اطربون پر اپنی توجہ تو محدود نہ کر ابن عاص۔۔۔ حضرت عمر نے کہا ۔۔۔کیا تو دیکھ نہیں رہا کہ ہم کسریٰ ایران کے خلاف لڑ رہے ہیں اور شام میں بھی ہم نے روم جیسی بڑی جنگی قوت کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے اگر ہم نے اتنی دور ایک اور محاذ کھول دیا تو ایسا نہ ہو کہ ہمارے باقی محاذ کمزور ہو جائیں۔
عمرو بن عاص کی امیرالمومنین حضرت عمر کے ساتھ یہ گفتگو یہیں پر ختم نہیں ہو گئی تھی انہوں نے امیرالمومنین کے آگے مصر کی پوری تاریخ رکھ دی تھی پھر انہوں نے آیت قرآنی بھی سنا ڈالی تھی جس میں مصر کا ذکر آتا ہے انھوں نے بنی اسرائیل اور حضرت موسی علیہ السلام کا خاص طور پر ذکر کیا اور پھر سنایا کہ حضرت موسی علیہ السلام اپنی قوم کے ساتھ فرعونیوں سے کس طرح فرار ہوئے تھے اور کس طرح اللہ کے حکم سے دریانیل نے انھیں راستہ دے دیا تھا اور پھر فرعون رعمیس دوم دریا کے دیے ہوئے اس راستے پر اترا تو دریا اپنی روانی میں آگیا اور رعمیس غرق ہو گیا۔ عمرو بن عاص نے حضرت یوسف علیہ سلام کا خاص طور پر ذکر کیا اور کہا کہ عرب کے مسلمان حضرت یوسف علیہ السلام کے قصے تو کبھی بھول ہی نہیں سکتے اور اس قصے کے حوالے سے عربی لوگ مصر کو اپنے دل میں بسائے ہوئے ہیں۔ قرآن میں متعدد آیات میں یہ قصہ اللہ تعالی نے اپنی زبان مقدس سے بیان فرمایا ہے۔
امیرالمومنین حضرت عمر چپ چاپ عمرو بن عاص کی یہ باتیں سن رہے تھے ایسی بات تو تھی ہی نہیں کہ حضرت عمر کے لیے یہ باتیں نئی تھیں وہ مصر کی تاریخ سے اور قرآن میں مصر کے ذکر سے بڑی اچھی طرح واقف تھے، لیکن انہوں نے عمرو بن عاص کو روکا نہیں کہ وہ سب جانتے ہیں حضرت عمر دیکھ رہے تھے کہ عمرو بن عاص کس نیت اور کس جذبے سے یہ باتیں کر رہے تھے ایسی بات تو تھی ہی نہیں کہ عمروبن عاص خود مصر کے بادشاہ بننا چاہتے تھے لیکن ان کا موقف یہ تھا کہ مصر کے بغیر اسلامی سلطنت مکمل ہو ہی نہیں سکتی۔
عمرو بن عاص عرب اور مصر کے تعلقات کی تاریخ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام تک لے گئے انہوں نے کہا کہ اہل حجاج خاص طور پر اہل مکہ عرب اور مصر کے تجارتی تعلقات کو بھول نہیں سکتے حضرت ابراہیم علیہ السلام کے صاحبزادے حضرت اسماعیل علیہ السلام عربوں کے جد اعلی تھے اور ان کی والدہ حضرت ہاجرہ اصل نسل سے مصری تھیں وہ اس طرح کے حضرت ابراہیم علیہ السلام اپنی زوجہ حضرت سارا کے ساتھ عراق سے فلسطین اور فلسطین سے مصر چلے گئے تھے۔
مصر کے بادشاہ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی خدمت میں حضرت ہاجرہ رضی اللّٰہ تعالٰی عنہا کو پیش کیا تھا حضرت ابراہیم علیہ السلام نے حضرت ہاجرہ کے ساتھ شادی کر لی تھی اور ان کے بطن سے حضرت اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے تھے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی پہلی بیوی حضرت سارا نے دیکھا کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کی نسبت حضرت ہاجرہ کو زیادہ توجہ دیتے ہیں تو وہ ناراض ہو گئیں اور قسم کھالی کہ حضرت حاجرہ کے ساتھ نہیں رہیں گی۔
حضرت ابراہیم علیہ السلام حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ساتھ لے کر الجزیرہ العرب چلے گئے اور وہاں جاکر قیام کیا جہاں آجکل مکہ مکرمہ آباد ہے۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام نے قبیلہ جرھم کی ایک دوشیزہ سے شادی کرلی جس کے بطن سے بارہ لڑکے پیدا ہوئے یہی لڑکے عربوں کی آباء و اجداد بنے چونکہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کے ننہال مصری تھے اس لئے یہ عربوں کے ساتھ ایک مقدس رشتہ بن گیا۔
پھر عمرو بن عاص نے عرب اور مصر کے تجارتی تعلقات کا تفصیلی ذکر کیا اور کہا کہ مصر کے ساتھ عربوں کے تعلقات تجارتی ہی نہیں جذباتی بھی ہیں بلکہ انھیں انہوں نے روحانی تعلقات کہا۔
پھر یوں وضاحت کی کہ عرب مصر کے متعلق تو بہت کچھ جانتے تھے لیکن قرآن نازل ہوا تو عربوں کو مصر کی وہ باتیں بھی معلوم ہوئی جو ان کے ذہن میں کبھی آئی ہی نہیں تھی، مصر میں ایرانیوں اور رومیوں کی جنگ بڑا لمبا عرصہ جاری رہی تھی ایرانیوں نے 616 عیسوی میں مصر پر فوج کشی کی تھی اور رومیوں کو شکست دے کر مصر پر نو سال تک قابض رہے تھے۔
پھر ہرقل اٹھا اور اس نے ایرانیوں پر فوج کشی کرکے انہیں مصر اور شام سے نکال دیا تھا اللہ تعالی نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بذریعہ وحی انکشاف کردیا تھا کہ رومی ایک نہ ایک دن ایرانیوں پر غالب آئیں گے قرآن کے الفاظ یہ ہیں کہ رومی شام پر مغلوب ہو گئے ہیں اور ان کے چند برس بعد پھر غالب آئیں گے یہ قرآنی پیشن گوئی پوری ہوئی اور پھر رومیوں نے ایرانیوں کو ان کے اپنے ملک میں دھکیل دیا۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ کو ہجرت فرما چکے تھے اور جب مسلمانوں کے حالات ٹھیک ہو گئے اور مجاہدین کے لشکر بھی تیار ہو گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کس طرح ایران پر سے روم ، ہیرا ، اور غسان کے بادشاہوں اور مصر کے فرمانروا کے پاس ایلچی بھیجے کہ وہ سب اسلام قبول کرلیں،
ضروری معلوم ہوتا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب مبارک کا پورا متن یہاں پیش کیا جائے تاریخ نویس عبدالحکم نے مصر کی فتوحات اور حالات میں لکھا ہے کہ مصر جانے والے ایلچی حضرت حاطب رضی اللہ تعالی عنہ تھے مکتوب مبارک کے الفاظ یہ تھے۔
*بسم اللہ الرحمن الرحیم*
اللہ کے رسول محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے عظیم القبط مقوقس کے نام سلامتی ہو اس پر جو حق کی پیروی کرے، اما بعد ، میں تمہیں اسلام کی دعوت دیتا ہوں اگر تم نے اسلام قبول کر لیا تو تم بھی سلامت رہو گے اور اللہ تعالی اس کا دوگنا اجر عطا فرمائے گا، اے اہل کتاب اس حقیقت کی طرف آ جاؤ جو ہم تم دونوں میں یکساں طور پر مسلم ہے ،اور وہ یہ کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اور کسی انسان کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے اور نہ ہم میں سے کوئی انسان دوسرے انسان کے ساتھ ایسا برتاؤ کرے جس سے اللہ کو چھوڑ کر اسے اپنا پروردگار بنا لیا ہو پھر اگر لوگ روگردانی کریں تو کہہ دو کہ ہم تو خدا کو ماننے والے ہیں۔
ابن عبدالحکم نے لکھا ہے کہ دوسرے جن بادشاہوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ مکتوب ملا تھا انہوں نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ایلچیوں اور ان کے مکتوب کے ساتھ بڑا ھی توہین آمیز سلوک کیا تھا خصوصاً کسریٰ ایران نے تو یہ مذموم حرکت کی تھی کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب پھاڑ کر اس کے پرزے بکھیر دیے تھے ،اس کی اطلاع جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو ملی تو آپ نے فرمایا کہ اس شخص کی سلطنت کے اسی طرح پرزے اڑیں گے۔
ابن عبدالحکم نے لکھا ہے کہ مقوقیس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے مکتوب کو احترام سے وصول کیا اور پوری توجہ سے پڑھا، رات کے وقت شاہ مصر مقوقس نے حضرت حاطب کو تنہائی میں اپنے پاس بلایا اور پوری تعظیم دے کر بٹھایا پھر کہا کہ اسے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق کچھ بتائیں حضرت حاطب نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام تر صفات بیان کی اور ثبوت کے طور پر کچھ زندہ اور قابل یقین مثال پیش کی۔
میں جانتا تھا کہ ایک پیغمبر ابھی آئے گا ۔
ابن عبدالحکم لکھتا ہے کہ مقوقس نے کہا لیکن میرا خیال تھا کہ یہ نبی شام میں آئے گا کیونکہ اس سے پہلے تمام پیغمبر وہی مبعوث ہوئے تھے، لیکن اب میں دیکھتا ہوں کہ ایک نبی مصیبت زدہ سرزمین عرب میں ظہور پذیر ہوا ہے۔
قبطی تمہارے اس نبی کے حلقہ بگوشی میں میرا ساتھ نہیں دیں گے یہ احتیاط کرنا کہ یہاں کسی کو میری اور تمہاری اس گفتگو کا علم نہ ہو میں یہ محسوس کر چکا ہوں کہ اس ملک پر تمہارے پیغمبر کا غلبہ ہو گا۔
تمہارے پیغمبر کے ساتھی اس کے بعد ہمارے ان مصر کے میدانوں میں اتریں گے اور میدانوں پر غالب آئیں گے، لیکن میں قبطیوں سے اس کے متعلق کچھ لفظ بھی نہیں کہوں گا تم اپنے دوست آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس چلے جاؤ۔
اگلی صبح مقوقس نے حضرت حاطب کو پھر بلایا اور اپنے پاس بٹھا کر کاتب کو بلایا اور عربی زبان میں یہ مکتوب لکھوایا۔
عبداللہ کے بیٹے محمد کو عظیم القبۃ مقوقس کا سلام ،امابعد، میں نے آپ کا خط پڑھا اور جو کچھ آپ نے اس میں تحریر کیا ہے اور جو دعوت دی ہے اسے میں نے سمجھا ہے میں جانتا تھا کہ ایک پیغمبر ابھی آنا باقی ہے لیکن میرا خیال تھا کہ وہ ملک شام میں ظہور پذیر ہو گا میں نے آپ کے قاصد کا احترام کیا ہے اور میں آپ کی خدمت میں دو لڑکیاں جو قبطیوں میں اونچے درجے اور حیثیت کے خاندانوں کی ہیں پیش کر رہا ہوں ،اور آپ کی سواری کے لئے ایک اعلی نسل کا خچر بھی تحفے کے طور پر پیش کررہا ہوں۔
ان لڑکیوں میں سے ایک لڑکی حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا کے نام سے ازواج مطہرات میں شامل کر لی گئی تھیں، مصری تاریخ نویس محمد حسنین ہیکل نے لکھا ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کبھی کبھی فرمایا کرتے تھے کہ قبطیوں کے ساتھ خوش سلوکی سے پیش آنے کا حکم مانو کہ تم پر ان کا حق ہے اور تم سے ان کا رشتہ بھی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
عمرو بن عاص نے امیرالمومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو مصریوں سے اپنا یہ رشتہ بھی یاد دلایا ، قبطی عیسائی تھے لیکن انہوں نے اپنا ایک الگ فرقہ بنا لیا تھا اب مصر پر بادشاہی ہرقل کی تھی۔
وہ بھی عیسائی تھا لیکن قبطیوں کے فرقے کے سخت خلاف تھا، عیسائیوں کے ایک یا دو فرقے اور بھی بن گئے تھے اور یہ فرقے آپس میں جنگ و جدل میں لگے رہتے تھے ،ہرقل نے مختلف فرقوں کے مشترک عقیدوں پر مبنی ایک سرکاری مذہب بنا ڈالا اور حکم نامہ جاری کیا کہ سب اس مذہب کو صحیح تسلیم کریں۔ اس نے مصر کے دارالحکومت اسکندریہ میں مذہبی پیشوائیت کی سربراہی قیرس نامی اسقف کے سپرد کردی، اور اسے اتنے وسیع اختیارات دے دیے کہ وہ ظلم و تشدد کے ذریعے لوگوں سے سرکاری عیسائیت منوائے، دوسرے فرقے تو دب گئے لیکن قبطیوں نے سرکاری مذہب کے خلاف محاذ قائم کر لیا تھا، اس نے ان پر جو وحشیانہ مظالم توڑے اگر انہیں تفصیل سے بیان کیا جائے تو انسان کی روح بھی کانپ اٹھتی ہے۔ پورے دس سال قبطی عیسائی قیرس کی وحشت اور بربریت کا شکار ہوتے رہے، ان کی سننے والا کوئی نہ تھا ۔
عمرو بن عاص نے امیرالمومنین سے کہا کہ قبطیوں کو اس ظلم و تشدد سے نجات دلانا ہمارا دینی فریضہ ہے۔
اس کے بعد عمرو بن عاص نے امیرالمومنین کے سامنے مصر کی زرخیز زمین اور شادابی اور پھر قیمتی پتھروں اور کانوں کے ذخیرے اور بے انداز دولت کا ذکر کیا اور کہا کہ اللہ کی زمین سے حاصل ہونے والی یہ ساری دولت رومی بادشاہوں کے محلات میں چلی جاتی ہے اور لوگ بھوکے اور ننگے رہ جاتے ہیں ،محنت اور مشقت کرنے والوں کو بڑی مشکل سے دو وقت روٹی ملتی ہے، اور ان کی محنت کا پورے کا پورا ثمر شاہی محلات میں چلا جاتا ہے۔
یا امیرالمومنین! ۔۔۔عمر بن عاص نے بڑے جذباتی لہجے میں کہا ۔۔۔میری روح کہہ رہی ہے کہ ہمیں وہ سرزمین پکار رہی ہے جہاں نیل بہتا ہے،،،،، میں اپنا ایک ذاتی واقعہ سنانا چاہتا ہوں جسے میں اللہ کا اشارہ سمجھتا ہوں۔
ہم یہ واقعہ اس داستان کے پہلے باب میں تفصیل سے سنا چکے ہیں یہاں ہم مختصراً سنا دیتے ہیں، یہ اس دور کا واقعہ ہے جب مصر پر ایرانی قابض تھے اور اس کے فوراً بعد مصر پھر رومیوں کے تسلط میں آگیا تھا ۔
اس وقت عمر بن عاص نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔
وہ تجارت کے سلسلے میں اہل قریش کے ایک قافلے کے ساتھ بیت المقدس گئے ایک روز قافلے کے اونٹ قریبی جنگل میں چرنے چگنے کے لئے لے جانے کی باری عمرو بن عاص کی تھی ،وہاں انہیں ایک نیم جان عیسائی ملا جو پیاس سے مرا جا رھا تھا اس کا نام شماس تھا عمرو بن عاص نے اسے اپنا سارا پانی پلا دیا اور وہ موت کے منہ سے نکل آیا ۔
شماس گہری نیند سو گیا ، عمرو بن عاص اس سے ذرا دور کھڑے تھے کہ انہوں نے ایک بڑا لمبا اور زہریلا سانپ شماس کی طرف رینگتا دیکھا کمان اور ترکش انکے پاس تھی انہوں نے وہیں سے تیر چلایا جو سانپ کے جسم سے پار ہو گیا اور سانپ مر گیا، شماس کی آنکھ کھلی تو سانپ کو دیکھ کر اس کا رنگ ہی پیلا پڑ گیا۔
تاریخ میں یہ واقعہ یوں بیان ہوا ہے کہ شماش بڑا ہی دولت مند تاجر تھا اور وہ مصر کے دارالسنت اسکندریہ کا رہنے والا تھا اس نے عمرو بن عاص کو یہ انعام دینا چاہا کہ انھیں کہا کہ وہ اس کے ساتھ اسکندریہ چلیں۔
شماش نے اسکندریہ کا ایسا پرکشش نقشہ پیش کیا کہ عمرو بن عاص راضی ہو گئے اور اس کے ساتھ روانہ ہو گئے ۔
اسکندریہ کو انہوں نے اس سے زیادہ خوبصورت اور دولت مند شہر پایا جتنا شماش نے انہیں بتایا تھا۔
انہی دنوں وہاں ایک جشن منایا جارہا تھا ۔
جشن میں شاہی خاندان خاص طور پر شریک ہوتا تھا، یہ جشن ہر سال انہی دنوں منایا جاتا تھا ۔
شماش عمرو بن عاص کو اس جشن میں لے گیا چوں کہ وہ اونچی حیثیت کا آدمی تھا اس لئے اسے تماشائیوں میں سب سے آگے جگہ دی گئی، عمرو بن عاص کو اس نے اپنے ساتھ بٹھایا۔
اس جشن میں ایک تقریب منعقد ہورہی تھی لوگ درجہ بدرجہ دائرے میں بیٹھے تھے اور ایک طرف شاہی خاندان بیٹھا محو تماشہ تھا۔ تقریب یوں تھی کہ ایک آدمی تماشائیوں کے درمیان دائرے میں کھڑا ہو کر اور آنکھیں بند کرکے ایک گیند کو اوپر پھینکتا تھا ان لوگوں کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ گیند کسی کے ایک بازو پر گرے تو وہ شخص کتنا ہی غریب اور معمولی آدمی کیوں نہ ہو وہ مرنے سے پہلے بادشاہ ضرور بنتا ہے۔
گیند پھینکنے والے نے چند مرتبہ گیند اوپر پھینکی لیکن گیند واپس زمین پر ہی گری، تین چار مرتبہ گیند کسی نہ کسی آدمی پر گری لیکن جسم کے کسی اور حصے پر آپڑی ایک بازو پر نہ گری۔
آخر گیند عمرو بن عاص کے ایک بازو پر گری اور تماشائیوں کے ہجوم نے تالیاں بجائیں اور خوشی کے نعرے بھی لگائے لیکن شاہی خاندان کے افراد نے کہا کہ وہ اس شخص کو اچھی طرح دیکھنا چاہتے ہیں اور یہ بھی جاننا چاہتے ہیں کہ یہ ہے کون؟
شماس نے اٹھ کر شاہی خاندان کو بتایا کہ اس شخص کا نام عمرو بن عاص ہے اور یہ عربی ہے اور مکہ سے آیاہے۔
لوگوں نے قہقہے لگانے شروع کر دیے اور ایسی آوازیں بھی اٹھی کے عرب کا یہ بدو ہمارا بادشاہ نہیں ہوسکتا ۔
ہجوم کی یہ آوازیں بھی سنائی دیں کہ یہ چھوٹا اور ٹھنگا سا بدو مصر کا بادشاہ ہو ہی نہیں سکتا۔
عمرو بن عاص عرب کے عام لوگوں کی طرح دراز قد نہیں تھے ان کا قد چھوٹا ،سر بڑا ، ہاتھ اور پاؤں قد کے مطابق زیادہ ہی بڑے تھے، ان کی بھنویں گھنی تھیں ، منہ ذرا زیادہ چوڑا تھا، داڑھی لمبی تھی ،اور سینہ کچھ زیادہ ہی چوڑا تھا، البتہ ان کی سیاہ چمکیلی آنکھوں میں اور چہرے پر بشاشت اور زندہ دلی کا تاثر رہتا تھا، لیکن اسکندریہ کے لوگوں نے ان کا مذاق اڑایا تقریباً تمام مؤرخوں نے لکھا ہے کہ عمرو بن عاص کو غصہ آتا ہی نہیں تھا ان کے ہونٹوں پر تبسم سا ہی رہتا تھا۔
ابن عبدالحکم لکھتا ہے کہ عمرو بن عاص مصر سے واپس آگئے لیکن مصر اور اسکندریہ ان کے ذہن پر ایسے سوار ہوئے کہ وہ اکثر کہا کرتے تھے کہ وہ مصر میں ہی جا کر آباد ہونا چاہتے ہیں۔
یا امیرالمومنین! ۔۔۔۔یہ واقعہ سنا کر عمرو بن عاص نے کہا میں ایسا خیال اپنے دماغ میں کبھی بھی نہیں لاؤں گا کہ گیند کا اشارہ یہ تھا کہ میں ایک نہ ایک دن مصر کا بادشاہ بنوں گا ، بادشاہی صرف اللہ تعالی کی ہے اور یہ میرا عزم ہے کہ مصر میں اللہ کی بادشاہی قائم کرنی ہے ،مجھے آپ کی اجازت چاہیے۔
حضرت عمررضی اللہ عنہ بڑے تحمل اور انہماک سے عمرو بن عاص کی یہ باتیں سنتے رہے۔
مؤرخ لکھتے ہیں کہ ان کا انداز بتا رہا تھا کہ وہ قائل ہو گئے ہیں، حقیقت بھی یہی ہے کہ حضرت عمر قائل ہوگئے تھے ،لیکن مصر پر فوج کشی کی اجازت اتنی جلدی نہیں دے سکتے تھے ،انہوں نے حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالی عنہ اور مدینہ کے کچھ صحابہ کرام سے مشورہ کیا تو ان میں سے کسی نے بھی تائید نہ کی اور یہی کہا کہ ابھی ہم اس قابل نہیں کہ اتنی دور کا ایک اور محاذ کھول دیں۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ عمرو بن عاص کے ان خیالات اور عزم کو بہت سراہا اور ان کی حوصلہ افزائی کی اور اس کے بعد حضرت عمررضی اللہ عنہ نے ویسے ہی ایک بات چھیڑ دی انہوں نے کہا کہ قبطی عیسائیوں کے ساتھ ہمارا رشتہ تو بنتا ہے اور ہم انہیں رومیوں کے ظلم و تشدد سے نجات دلائیں گے لیکن سنا ہے کہ ان کے یہاں ایک بڑی ہی ظالمانہ رسم چلی آ رہی ہے۔
رسم یہ تھی کہ قبطی اس وہم میں مبتلا تھے کہ جب فصلوں کو پانی کی ضرورت ہوتی ہے تو دریا نیل کی روانی رک جاتی ہے یعنی دریا ٹھہر جاتا ہے قبطی سال میں ایک بار ایک کنواری لڑکی کو اس کے والدین کی رضامندی سے الگ کرلیتے تھے اور اسے بڑے قیمتی لباس اور زیورات پہنا کر دریائے نیل میں پھینک دیتے تھے لڑکی ڈوب مرتی تھی اور قبطی کہتے تھے کہ دریا نیل اب رکے گا نہیں اور بہتا ہی رہے گا ۔
عمرو بن عاص نے امیرالمؤمنین کی تائید کی اور کہا کہ ان شاءاللہ قبطی قبول اسلام پر آ جائیں گے اور ان کی تمام بے بنیاد رسمیں ختم ہو جائیں گی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اب ہم اس داستان کو اس مقام پر لے جاتے ہیں جہاں حلب میں عیسائی قبائل نے متحد ہو کر مسلمانوں کے خلاف جنگ لڑی تھی اور مسلمانوں کے ہاتھوں اپنا قتل عام کروا کے ان کے آگے سر تسلیم خم کر دیا تھا۔
سپہ سالار ابوعبیدہ جب حلب پہنچے تھے تو قبائل کے سرداروں نے ان کے پاس جاکر اعتراف کرلیا تھا کہ انھیں اپنی لغزش اور کم فہمی کی سزا ملی ہے۔
سرداروں نے سپہ سالار ابوعبیدہ کو یہ بھی بتایا کہ ان کی قیادت رومی فوج کا ایک جرنیل اور ایک افسر کررہے تھے اور انہوں نے ہی انہیں مسلمانوں کے خلاف لڑنے کے لئے تیار کیا تھا۔
ابو عبیدہ کو شارینا کے خاوند حدید بن مومن خزرج سے پہلے ہی پتہ چل چکا تھا کے انتھونیس اور روتاس نے ان قبائلیوں کو مسلمانوں کے خلاف جنگ کے لئے تیار کیا تھا۔ حدید نے سپہ سالار کو یہ بھی بتایا تھا کہ ہرقل کی ایک بیوی اور اس کا نوجوان بیٹا بھی فرار ہو کر یہاں آ گئے تھے حدید کو یہ ساری باتیں شارینا نے بتائی تھی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦