👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟛 𝟜⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟛  𝟜⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صارم کا بیٹا عثمان تو اس گروہ کا سرغنہ ہے مسلمان مخبر نے بتایا اور ان کا سب سے بڑا سرغنہ امام رازی ہے، آپ تھوڑی دیر تک آجائیں رینی نے اسے کہا باپ کو ذرا سی دیر سونے دیں
مگر وہ جانا نہیں چاہتا تھا صلیبیوں کو خوش کرنے اور ان سے انعام وصول  کرنیکا اسے نہایت موزوں موقع مل گیا تھا اس کے متعلق مسلمانوں کو معلوم نہیں تھا کہ قرآن کے بجائے صلیب کا وفادار ہے اسی روز مسلمان نوجوانوں اور چھاپہ ماروں نے دیوار توڑنے کی سکیم بنائی تھی اس خفیہ اجتماع میں تین  چار بزرگ امام اور یہ مسلمان بھی تھا جس نے لڑکوں کو اچھے مشورے دیئے اور سب سے زیادہ جذبے کا اظہار کیا تھا مسلمانوں کو شک تک نہ ہوا کہ وہ صلیبیوں کا پالا ہوا سانپ ہے سبھی اسے شہر کا امیر اور معزز تاجر سمجھتے تھے جس کے حسن سلوک کی بدولت صلیبی بھی اس کی عزت کرتے تھے
وہ واپس  نہیں جانا چاہتا تھا۔ رینی گہری سوچ میں کھوگئی اس نے اسے اندر بٹھانے کے  بجائے یہ کہا کہ وہ اسے پوری بات سنائے اور یہ بھی کہا کہ آؤ ذرا باہر  ٹہل لیتے ہیں اتنی دیر میں باپ جاگ اٹھے گا وہ تو صلیبیوں کا غلام تھا اتنے بڑے افسر کی بیٹی کے ساتھ خراماں خراماں چل پڑا چلتے چلتے وہ کنویں تک پہنچ یہ کنواں شہریوں کے لیے کھودا گیا تھا بہت ہی دور سے پانی نکلا تھا۔ رینی کنویں کے منہ پر رک گئی مسلمان مخبر اسے بات سنا رہا تھا وہ بھی کنویں کے قریب کھڑا تھا رینی نے اس کے سینے پر ہاتھ رکھے اور پوری طاقت سے دھکا دیا مسلمان پیچھے کو گرا اور سیدھا کنویں میں گیا اس کی چیخ  سنائی دی جو ''دھڑام'' کی آواز میں ختم ہوگئی

رینی اس مسرت کے ساتھ گھر آگئی کہ اس نے ایک ایسا راز کنویں میں ڈبو دیا ہے جو عثمان صارم کی یقینی موت کا باعث بن سکتا تھا، وہاں سے وہ ڈرتی ہوئی عثمان صارم کے گھر گئی اس کی ماں کے پاس بیٹھی النور کی باتیں کرتی رہی اس نے عثمان کے متعلق  پوچھا تو اس کی ماں نے بتایا کہ وہ شام کے بعد ہی گھر سے نکل گیا تھا رینی کو خیال آگیا کہ وہ دیوار توڑنے کی مہم پر چلا گیا ہوگا وہ اسے روکنا چاہتی تھی اسے ڈر یہ تھا کہ ان کےاجتماع میں کوئی اور مخبر بھی ہوگا کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی اور نے فوج کو اطلاع دے دی ہو وہ باہر نکل گئی اور  اس طرف چل پڑی جس طرف سے ان لوگوں نے دیوار توڑنے کا منصوبہ بنایا تھا اس مسلمان نے جسے اس نے کنویں میں پھینک دیا تھا بتا دیا تھا کہ چھاپہ مار دیوار کے اوپر جاکر صلیبی تیر اندازوں کو ایسے طریقے سے ختم کریں گے کہ کسی کو پتہ نہ چل سکے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں نیچے سے دیوار کھودیں گے اس کی کھدائی مشکل نہیں وقت طلب تھی اس پارٹی نے بوقت ضرورت لڑائی کا انتظام بھی کر رکھا تھا ان کے پاس خنجر اور برچھیاں بھی تھیں یہ ایک غیرمعمولی طور پر دلیرانہ مہم تھی جس کی ناکامی کے امکانات زیادہ تھے انہوں نے جگہ ایسی منتخب کی تھی جہاں پکڑے جانے کا امکان ذرا کم تھا، یہ گروہ مقررہ جگہ کی طرف روانہ ہوگیا رینی اس طرف دوڑی جارہی تھی وہ عثمان صارم  کو روکنا چاہتی تھی اسے شاید علم ہوگیا تھا کہ یہ لوگ پکڑے جائیں گے اور  عثمان صارم مارا جائے گا ان جانبازوں کا جانے کا طریقہ اور راستہ کچھ اور  تھا رینی پہلے وہاں پہنچ گئی جہاں سے دیوار توڑنی تھی وہاں ابھی کوئی نہیں پہنچا تھا اس نے اندھیرے میں ادھر ادھر دیکھا اچانک پیچھے سے اسے کسی نے پکڑ لیا اور گھسیٹ کر پرے لے گیا یہ ایک فوجی تھا پرے لے جا کر  فوجی نے اس سے پوچھا کہ وہ کون ہے اس نے باپ کا نام لیا اسے کہا گیا کہ وہ وہاں سے چلی جائے مگر وہ وہاں سے نہیں ہٹنا چاہتی تھی وہاں دراصل فوج کا ایک پورا دستہ چھپا ہوا تھا اس کے کمانڈر نے رینی کو بتایا کہ مسلمانوں کا ایک گروہ یہاں نقب لگانے آرہا ہے اور اسے پکڑنے کے لیے گھات لگائی گئی ہے یہ اطلاع ایک اور مسلمان مخبر نے فوج کو دی تھی...
رینی انہیں یہ نہیں کہہ سکتی تھی کہ وہ گھات سے اٹھ جائیں وہ تو صرف عثمان صارم کو بچانا چاہتی تھی، اس مسلمان نوجوان کی محبت نے اس کی عقل پر پردہ ڈال دیا تھا اتنے میں ایک فوجی نے کہا اطلاع غلط نہیں تھی وہ آرہے ہیں رینی تڑپ اٹھی اس نے چلا کر کہا
عثمان! واپس چلے جاؤ دستے کے کمانڈر نے اس کے منہ پر ہاتھ رکھ دیا اور کہا یہ بدبخت جاسوس معلوم ہوتی ہے اسے گرفتار کرلو لیکن گرفتاری کی انہیں مہلت نہ ملی کیونکہ کچھ دور سے شورشرابہ سنائی دینے لگا تھا
جانبازوں کی یہ پارٹی سیدھی گھات میں آگئی تھی صلیبیوں کے دستے کی تعداد زیادہ تھی پیشتر اس کے کہ جانباز سنبھلتے وہ گھیرے میں آچکے تھے مشعلیں جل اٹھیں جن کی روشنی میں جانباز صاف نظر آنے لگے ان کے پاس کھدائی کا سامان برچھیاں اور خنجر تھے بھاگ  نکلنے کی کوئی صورت نہیں تھی ان میں گیارہ لڑکیاں تھیں صلیبی کمانڈر نے بلندآواز سے کہا لڑکیوں کو زندہ پکڑو چھاپہ ماروں میں سے کسی نے کہا مجاہدو! بھاگنا نہیں ایک ایک لڑکی کو ساتھ رکھو
اور جو معرکہ لڑا گیا وہ بڑا ہی خون ریز تھا چھاپہ مار تو تربیت یافتہ لڑاکے تھے خوب  لڑے لیکن لڑکوں اور لڑکیوں نے صلیبیوں کو حیران کردیا لڑکیاں ڈرنے کے  بجائے نوجوانوں کو للکار رہی تھیں انہیں زندہ پکڑنے کی کوشش میں متعدد صلیبی ان کے خنجروں کا شکار ہوگئے مگر صلیبی تعداد میں زیادہ تھے چونکہ یہ معرکہ قلعے میں لڑا جارہا تھا اس لیے صلیبی فوج کے دو دستے اور آگئے اس معرکے میں ایک نسوانی آواز بار بار سنائی دیتی تھی عثمان نکل جاؤ عثمان تم نکل جاؤ یہ رینی کی آواز تھی اس وقت تک عثمان لڑ رہا تھا اس کے سامنے ایک صلیبی آیا عثمان کے پاس خنجر تھا اور صلیبی کے پاس تلوار اچانک اس صلیبی کی پیٹھ میں ایک خنجر داخل ہوگیا یہ رینی کا خنجر تھا ایک اور صلیبی نے اسے للکارا اس نے مرے ہوئے صلیبی کی تلوار اٹھا لی اور مقابلے پر اتر آئی
عثمان صارم اس کی مدد کے لیے آگے بڑھا لیکن کسی  صلیبی کی تلوار نے اسے شہید کر دیا کچھ دیر بعد جانبازوں میں صرف دو لڑکیاں زندہ رہیں وہ اکٹھی تھیں اور بہت سے صلیبیوں کے گھیرے میں آگئیں گھیرا تنگ ہو رہا تھا انہیں کہا گیا کہ وہ خنجر پھینک دیں دونوں نے ایک دوسری کی طرف دیکھا دونوں نے بیک وقت اپنا اپنا خنجر اپنے اپنے دل پر رکھا اور دوسرے لمحے انہوں نے خنجر اپنے دلوں میں اتار دیئے رینی کو زخمی کرکے پکڑ لیا گیا تھا اس نے بعد میں پاگل پن کی کیفیت میں بیان دیا کہ وہ اس سکیم کو ناکام کرکے عثمان صارم کو بچانا چاہتی تھی
قلعے کی دیوار توڑنے کی امید ختم ہوگئی شہر کے اندر مسلمانوں کی تخریب کاری بھی ختم ہوگئی مسلمانوں کی قیادت کرنے والے جانباز شہید ہوچکے تھے برجیس بھی شہید ہوچکا تھا لیکن سلطان ایوبی کی امیدیں صرف ان  کے ساتھ وابستہ نہیں تھیں وہ قلعے سر کرنا جانتا تھا ابھی تو محاصرے کا دوسرا دن تھا مگر اب کے صلیبیوں نے بھی قسم کھالی تھی کہ وہ کرک کا قلعہ سلطان ایوبی کو نہیں دیں گے

صلاح الدین ایوبی نے صلیبیوں کے غیر معمولی طور پر مستحکم مستقر کرک پر ایسی بے خبری میں حملہ کیا تھا کہ صلیبیوں کو اس وقت خبر ہوئی جب سلطان ایوبی کی فوج کرک کو محاصرے میں لے چکی تھی لیکن محاصرہ مکمل نہیں تھا یہ سہ طرفہ محاصرہ تھا جاسوسوں نے سلطان ایوبی کو یقین دلایا تھا کہ کرک شہر کے مسلمان باشندے ان چھاپہ ماروں کے ساتھ جنہیں سلطان ایوبی نے پہلے ہی شہر میں داخل کردیا تھا اندر سے قلعے کی دیوار توڑ دیں گے محاصرے کے چوتھے پانچویں روز اندر سے ایک جاسوس نے باہر آکر سلطان ایوبی کو یہ اطلاع دی کہ تمام چھاپہ مار اور چند ایک مسلمان شہری دیوار توڑنے کی کوشش میں شہید ہوگئے ہیں ان میں مسلمان لڑکیاں بھی تھیں اور ان میں ایک عیسائی لڑکی بھی شامل ہوگئی تھی سلطان ایوبی کو یہ بھی بتایا گیا کہ کسی ایمان فروش مسلمان نے اس جانباز جماعت میں شامل ہوکر دشمن کو اطلاع دے دی تھی جس کے نتیجے میں دشمن نے گھات لگائی اور ساری کی ساری جماعت کو شہید کردیا یہ اطلاع بھی دی گئی کہ اب اندر سے دیوار توڑنے کی امیدیں ختم ہوچکی ہیں امیدیں ختم ہونی ہی تھیں صلیبیوں نے جب دیکھا کہ دیوار توڑنے والوں میں کرک کے مسلمان نوجوانوں اور لڑکیوں کی لاشیں تھیں تو انہوں نے مسلمانوں کی پکڑ دھکڑ اندھا دھند شروع کردی لڑکیوں تک کو نہ بخشا جوانوں کو بیگار کیمپ میں بوڑھوں کو ان کے اپنے گھروں میں اور جوان لڑکیوں کو قلعے کی فوجی بارکوں میں قید کردیا ان میں سے کچھ لڑکیوں نے خودکشی بھی کرلی تھی کیونکہ وہ جانتی تھیں کہ کفار ان کے ساتھ کیا سلوک کریں گے صلاح الدین ایوبی کو بھی یہی غم کھانے لگا کہ کرک کے مسلمانوں کو یہ قربانی بہت مہنگی پڑے گی اس نے جب ان جانبازوں کی خبر سنی تو اپنے نائبین سے کہا یہ کارستانی صرف ایک ایمان فروش مسلمان کی ہے اس ایک غدار نے اسلام کی اتنی بڑی فوج کو بے بس کردیا ہے ایک وہ ہیں جنہوں نے اللّٰہ کے نام پر جانیں قربان کردیں ایک یہ مسلمان ہیں جنہوں نے اللّٰہ کا ایمان کفار کے قدموں میں رکھ دیا ہے یہ غدار اسلام کی تاریخ کا رخ پھیر رہے ہیں سلطان ایوبی غصے سے اٹھ کھڑا ہوا اور اپنی ران پر گھونسہ مار کر بولا میں کرک کو بہت جلدی فتح کروں گا اور ان غداروں کو سزا دوں گا سلطان ایوبی کی انٹیلی جنس کا افسر زاہدان خیمے میں داخل ہوا اس وقت سلطان ایوبی کہہ رہا تھا کہ آج رات کو محاصرہ مکمل ہوجانا چاہیے میں آپ کو ابھی بتاتا ہوں کہ کون سے دستے کرک کے پیچھے بھیجے جائیں 
مداخلت کی معافی چاہتا ہوں امیر مصر زاہدان نے کہا اب شاید آپ محاصرہ مکمل نہیں کرسکیں گے ہم نے کچھ وقت ضائع کردیا ہے، کیا تم کوئی نئی خبر لائے ہو؟سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس سے پوچھا 
آپ نے جس کامیابی سے دشمن کو بے خبری میں آن لیا تھا اس سے آپ پورا فائدہ نہیں اٹھا سکے زاہدان نے جواب دیاوہ ایسے بے دھڑک انداز سے بول رہا تھا جیسے اپنے سے چھوٹے عہدے کے آدمی کو ہدایات دے رہا ہو سلطان ایوبی نے اپنے تمام سینئر اور جونئیر کمانڈروں اور تمام شعبوں کے سربراہوں سے کہہ رکھا تھا کہ وہ اسے بادشاہ سمجھ کر فرشی سلام نہ کیا کریں مشورے دلیری اور خود اعتمادی سے دیں اور نکتہ چینی کھل کر کیا کریں زاہدان انہی ہدایات پر عمل کر رہا تھا اس کے علاوہ وہ انٹیلی جنس کا سربراہ تھا اس کی حیثیت ایسی آنکھ کی سی تھی جو اندھیروں میں بھی دیکھ لیتی تھی اور وہ ایسا کان تھا جو اپنے جاسوسوں کے ذریعے سینکڑوں میل دور دشمن کی سرگوشیاں بھی سن لیا کرتا تھا سلطان ایوبی کو اس کی اہمیت کا احساس تھا وہ جانتا تھا کہ کامیاب جاسوسی کے بغیر جنگ نہیں جیتی جاسکتی خصوصاً اس صورتحال میں جہاں صلیبیوں نے سلطنت اسلامی میں جاسوسوں اور تخریب کا جال بچھا رکھا تھا سلطان ایوبی کو نہایت اعلیٰ اور غیرمعمولی طور پر ذہین اور تجربہ کار جاسوسوں کی ضرورت تھی اس میدان میں وہ پوری طرح کامیاب تھا اس کی انٹیلی جنس کے تین افسر علی بن سفیان اور اس کے دو نائب حسن بن عبداللّٰہ اور زاہدان جانباز قسم کے سراغ رساں اور جاسوس تھے انہوں نے اس محاذ پر صلیبیوں کے کئی وار بے کار کیے تھے
آپ کو معلوم تھا کہ صلیبیوں نے جہاں کرک کا دفاع مضبوط کر رکھا ہے وہاں بہت سی فوج کرک سے دور خیمہ زن کرکھی ہے زاہدان نے کہا آپ کو یہ بھی بتا دیا گیا تھا کہ اس فوج کو باہر سے محاصرہ توڑنے کے لیے استعمال کیا جائے گا جاسوسوں کی اطلاع صاف بتا رہی تھیں کہ اب صلیبی قلعے سے باہر لڑیں گے پھر بھی آپ نے فوری طور پر محاصرہ مکمل نہیں کیا اس سے دشمن نے فائدہ اٹھا لیا ہے
تو کیا انہوں نے حملہ کر دیا ہے؟
سلطان صلاح الدین ایوبی نے بیتابی سے پوچھا آج شام تک ان کی فوج اس مقام پر آجائے گی جہاں ہماری کوئی فوج نہیں زاہدان نے جواب دیا میرے جاسوس جو اطلاع لائے ہیں وہ یہ ہیں کہ صلیبی فوج گھوڑ سوار اور شتر سوار ہوگی پیادہ دستے بہت کم ہیں وہ محاصرے کی جگہ پر آجائیں گے اور دائیں بائیں حملے کریں گے اس کا نتیجہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ ہمارا محاصرہ ٹوٹ جائے گا صلیبیوں کی تعداد بھی زیادہ بتائی جاتی ہے
میں تمہیں اور تمہارے جاسوسوں کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں جو یہ اطلاع لائے ہیں سلطان ایوبی نے کہا میں جانتا ہوں یہ کام کتنا دشوار اور خطرناک ہے میں تم سب کو یقین دلاتا ہوں کہ صلیبی ہمارے محاصرے کا جو خلا پر کرنے اور محاصرے توڑنے آرہے ہیں میں انہیں اسی خلا میں گم کردوں گا مجھے اللّٰہ کی مدد پر بھروسہ ہے اگر تم میں کوئی غدار نہیں تو اللّٰہ تمہیں فتح عطا فرمائے گا
ابھی وقت ہے ایک نائب سالار نے کہا اگر آپ حکم دیں تو ہم محفوظہ کے تین چار دستے صلیبیوں کے پہنچنے سے پہلے بھیج دیتے ہیں محاصرے کا خلا پر ہوجائے گا اور صلیبیوں کا حملہ ناکام ہوجائے گا
سلطان ایوبی کے چہرے پر پریشانی یا اضطراب کا ہلکا سا تاثر بھی نہیں تھا اس نے زاہدان سے پوچھا اگر تمہاری اطلاع بالکل صحیح ہے تو کیا تم بتا سکتے ہو کہ صلیبی فوج کس وقت حملے کے مقام پر پہنچے گی؟
ان کی پیش قدمی خاصی تیز ہے زاہدان نے جواب دیا ان کے ساتھ خیمے اور رسد نہیں آرہی پیچھے آرہی ہے اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ راستے میں کوئی پڑاؤ نہیں کریں گے اگر وہ اسی رفتار پر آتے رہے تو رات گہری ہونے تک پہنچ جائیں گے خدا کرے کہ وہ راستے میں نہ رکیں سلطان ایوبی نے کہا مگر وہ تھکے ہوئے اور بھوکے پیاسے گھوڑوں اور اونٹوں کے ساتھ حملہ نہیں کریں گے حملے کے مقام پر آکر جانوروں کو آرام اور خوراک دیں گے اس دوران وہ دیکھیں گے کہ ہم نے جو محاصرہ کر رکھا ہے اس میں خلا ہے یا نہیں صلیبی اتنے کوڑھ مغز نہیں کہ ایسی پیش بینی اور پیش بندی نہ کریں سلطان ایوبی نے اپنے عملے کے دو تین حکام کو بلایا اور انہیں نئی صورتحال سے آگاہ کرکے کہا صلیبی ہمارے جال میں آرہے ہیں قلعے کے عقب میں ہم نے محاصرے میں جو خلا چھوڑ دیا ہے اسے اور زیادہ کھلا کردو دائیں اور بائیں کے دستوں سے کہہ دو کہ ان پر عقب سے حملہ آرہا ہے اپنے پہلوؤں کو مضبوط کرلیں اور دشمن کو اپنے درمیان آنے دیں کوئی تیر انداز حکم کے بغیر کمان سے تیر نہ نکالے اس قسم کے احکام کے بعد سلطان ایوبی نے پیادہ اور سوار تیر اندازوں کے چند ایک دستوں کو جو اس نے ریزرو میں رکھے ہوئے تھے سورج غروب ہوتے ہی ایسے مقام پر چلے جانے کو کہا جو صلیبیوں کے حملے کے ممکنہ مقام کے قریب تھا وہ علاقہ میدانی نہیں تھا اور صحرا کی طرح ریتلا بھی نہیں تھا وہ ٹیلوں چٹانوں اور گھاٹیوں کا علاقہ تھا سلطان ایوبی نے چھاپہ مار دستوں کے کمانڈر کو بھی بلا لیا تھا اسے اس نے یہ کام سونپا کہ صلیبیوں کی فوج کے پیچھے فلاں راستے سے یہ رسد آرہی ہے جو رات کو راستے میں تباہ کرنی ہے ایسے اور کئی ایک ضروری احکامات دے کر سلطان ایوبی خیمے سے نکلا اپنے گھوڑے پر سوار ہوا اپنے عملے کے ضروری افراد کو ساتھ لیا اور محاذ کی طرف روانہ ہوگیا
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صلاح الدین ایوبی خوش فہمیوں میں مبتلا ہونے والا انسان نہیں تھا اس نے دور سے محاصرے کا جائزہ لیا اور اپنے عملے سے کہا صلیبیوں سے یہ قلعہ لینا آسان نہیں محاصرہ بڑے لمبے عرصے تک قائم رکھنا پڑے گا اس نے دیکھا کہ قلعے کی سامنے والی دیوار سے تیروں کا مینہ برس رہا ہے قلعے کے دروازے تک پہنچنا ناممکن تھا سلطان ایوبی کی فوج تیروں کی زد سے دور تھی جوابی تیر اندازی کا کوئی فائدہ نہیں تھا سلطان ایوبی قلعے کے پہلو کی طرف گیا وہاں اسے ایک ولولہ انگیز منظر نظر آیا اس کا ایک دستہ حیران کن تیزی سے قلعے کی دیوار پر تیر برسا رہا تھا چھ منجنیقیں آگ پھینک رہی تھیں دیوار پر جہاں تیر اور آگ کے گولے جارہے تھے وہاں کوئی صلیبی نظر نہیں آرہا تھا وہ دبک گئے تھے سلطان ایوبی دور کھڑا دیکھتا رہا اس کے تقریباً چالیس سپاہی ہاتھوں میں برچھیاں اور کدالیں اٹھائے دیوار کی طرف سرپٹ دوڑ پڑے اور دیوار تک پہنچ گئے قلعے کی دیوار پتھروں اور مٹی کی تھی انہوں نے دیوار توڑنی شروع کردی اسی مقصد کے لیے اوپر تیر اور آگ کے گولے برسائے جارہے تھے کہ اوپر سے دشمن ان پر دیوار توڑتے وقت تیر نہ چلا سکے
سلطان ایوبی کے منہ سے بے اختیار نکلا ”آفرین” مگر اس کی آنکھیں ٹھہر گئیں قلعے کی دیوار پر للکار سنائی دی عین اس جگہ کے اوپر سے جہاں سلطان ایوبی کے جانبز دیوار توڑ رہے تھے بہت سے صلیبیوں کے سر اور کندھے نظر آئے پھر بڑے بڑے ڈول اور ڈرم نظر آئے یہ الٹا دئیے گئے ان میں جلتی ہوئی لکڑیاں اور انگارے نکلے جو ان مجاہدین پر گرے جو نیچے دیوار توڑ رہے تھے مجاہدین نے آگے جاکر تیر برسانے شروع کردیئے جن میں متعدد صلیبی گھائل ہوگئے دیوار کی کسی اور طرف سے تیر آئے جنہوں نے مجاہدین تیر اندازوں کو زخمی اور شہید کردیا پھر دونوں طرف سے اس قدر تیر برسنے لگے کہ ہوا میں اڑتے ہوئے تیروں کا جال تن گیا جانباز دیوار توڑ رہے تھے یہ کام آسان نہیں تھا کیونکہ دیوار بہت ہی چوڑی تھی نیچے سے اس کی چوڑائی اوپر کی نسبت زیادہ تھی ان جانبازوں پر اوپر سے تیر نہیں چلایا جاسکتا تھا مگر ان پر جلتی لکڑیاں اور دہتے انگارے پھینکے جارہے تھے آگ کے ڈول اور ڈرم پھینکنے والوں میں بظاہر کوئی بھی مسلمان تیر اندازوں سے بچ کر نہیں جاتا تھا لیکن وہ تیر کھا کر گرنے سے پہلے آگ انڈیل دیتے تھے
نیچے یہ عالم تھا کہ آگ بھڑک رہی تھی اور دیوار توڑنے والے شعلوں اور انگاروں میں بھی دیوار توڑ رہے تھے تیروں کا تبادلہ ہورہا تھا آخر دیوار توڑنے والے جھلس گئے اور ان میں سے چند ایک اس حالت میں پیچھے کو دوڑے کہ ان کے کپڑوں کو آگ لگی ہوئی تھی وہ دیوار سے ہٹے ہی تھے کہ اوپر سے تیر آئے جو ان کی پیٹھوں میں اتر گئے اس طرح ان میں سے کوئی زندہ واپس نہ آسکا دس اور مجاہدین دیوار کی طرف دوڑے اور دشمن کے تیروں میں سے گزرتے ہوئے دیوار تک پہنچ گئے انہوں نے بڑی پھرتی سے دیوار کے بہت سے پتھر نکال لیے اوپر سے ان پر بھی آگ کے ڈرم اور ڈول انڈیل دیئے گئے۔ آگ پھینکنے والوں سے دو اتنا اوپر اٹھ گئے تھے کہ مجاہدین کے تیر سینوں میں کھا کر وہ پیچھے گرنے کے بجائے آگے کو گرے اور دیوار سے سیدھے نیچے اپنی ہی پھینکی ہوئی آگ میں جل گئے مگر دیوار توڑنے والوں میں سے بھی کوئی زندہ نہ بچا
سلطان ایوبی نے اپنے گھوڑے کو ایڑی لگائی اور اس دستے کے کمانڈر کے پاس جاکر کہا تم پر اور تمہارے جانبازوں پر اللّٰہ کی رحمت ہو اسلام کی تاریخ ان سب کو ہمیشہ یاد رکھے گی جو اللّٰہ کے نام پر جل گئے ہیں اب یہ طریقہ چھوڑ دو پیچھے ہٹ آؤ اتنی تیزی سے انسان اور تیر ختم نہ کرو صلیبی اس قلعے کے لیے اتنی زیادہ قربانی دے رہے ہیں جس کا میں تصور بھی نہیں کرسکتا تھا
اور ہم بھی اتنی زیادہ قربانی دیں گے جس کا صلیبی تصور نہیں کرسکتے کمانڈر نے کہا دیوار یہیں سے ٹوٹے گی اور ہم آپ کو یہیں سے اندر لے جائیں گے
اللّٰہ تعالیٰ تمہاری آرزو پوری کرے صلاح الدین ایوبی نے کہا اپنے مجاہدین کو بچا کر رکھو صلیبی باہر سے حملہ کر رہے ہیں تمہیں شاید باہر لڑنا پڑے گا محاصرہ مضبوط رکھو ہم صلیبیوں کو اندر بھوکا ماریں گے
اس دستے کو پیچھے ہٹا لیا گیا مگر کمانڈر نے سلطان ایوبی سے کہا سالاراعظم کی اجازت ہو تو میں شہیدوں کی لاشیں اٹھوا لوں؟ 
اس مقصد کے لیے مجھے پھر یہی طریقہ اختیار کرنا پڑے گا
ہاں! سلطان ایوبی نے کہا اٹھوا لو کسی شہید کی لاش باہر نہ پڑی رہے
سلطان ایوبی وہاں سے چلا گیا اس جانباز دستے نے جس طرح اپنے ساتھیوں کی لاشیں اٹھائیں وہ ایک ولولہ انگیز منظر تھا جتنی لاشیں اٹھانی تھیں اتنے ہی مجاہدین شہید ہوگئے سلطان ایوبی دور نکل گیا تھا جنگ کے دوران وہ اپنا پرچم ساتھ نہیں رکھا کرتا تھا تاکہ دشمن کو معلوم نہ ہوسکے کہ وہ کہاں ہے وہ اپنی فوج سے دور ہٹ گیا اور بہت دور جا کر وہ ٹیلوں چٹانوں اور گھاٹیوں کے علاقے میں چلا گیا وہ گھوڑے سے اترا اور ایک ٹیلے پر جاکر لیٹ گیا تاکہ اسے دشمن نہ دیکھ سکے اسے قلعہ اور شہر کی دیوار نظر آرہی تھی اور کم وبیش ایک میل لمبا وہ علاقہ بھی نظر آرہا تھا جہاں ابھی اس کی فوج نہیں پہنچی تھی اس نے ٹیلوں کے علاقے کا جائزہ لیا ہر جگہ گھوما پھرا
اسی جائزے اور دیکھ بھال میں سورج غروب ہوگیا وہ وہیں رہا شام گہری ہوئی تو اسے اطلاع دی گئی کہ اس کے حکم کے مطابق پیادہ اور سوار تیراندازوں کے دستے آرہے ہیں اس نے اپنے قاصد سے کہا کہ کمانڈروں کو بلایا جائے جب کمانڈر اس کے پاس آئے تو چھاپہ مار دستے کا کمانڈر بھی ان کے ساتھ تھا اسے سلطان ایوبی نے راستہ بتا کر اپنے ہدف پر چلے جانے کو کہا پھر وہ دوسرے کمانڈروں کو ہدایات دینے لگا
رات آدھی گزری تھی کہ دور سے گھوڑوں کی آوازیں اس طرح سنائی دینے لگیں جیسے سیلاب بند توڑ کر آرہا ہو چاند پورا تھا چاندنی شفاف تھی صلیبیوں کے گھوڑ سوار ٹیلوں اور چٹانوں سے کچھ دور تک آگئے ان کے پیچھے شتر سوار تھے ان کی تعداد کے متعلق مورخوں میں اختلاف پایا جاتا ہے غیر مسلم مورخوں نے تعداد تین ہزار سے کم بیان کی ہے مسلمان مورخ پانچ سے آٹھ ہزار تک بتاتے ہیں اس وقت کے وقائع نگاروں کی جو تحریریں دستیاب ہوسکی ہیں وہ کم سے کم تعداد دس ہزار اور زیادہ سے زیادہ بارہ ہزار بتاتے ہیں ان کا کمانڈر ایک مشہور صلیبی حکمران ریمانڈ تھا دو مورخوں نے کمانڈر کا نام رینالٹ لکھا ہے لیکن وہ ریمانڈ تھا وہ اسی حملے کے لیے لمبے عرصے سے وہاں سے دور خیمہ زن تھا اسے اب رات کو یہ صبح ہوتے ہی سلطان ایوبی کی اس فوج پر حملہ کرنا تھا جس نے کرک کو محاصرے میں لے رکھا تھا
صلیبی سوار گھوڑوں اور اونٹوں سے اترے گھوڑوں کے ساتھ دانے کی تھیلیاں تھیں جو گھوڑوں کے آگے لٹکا دی گئیں سواروں کو حکم دیا گیا کہ وہ اپنے اپنے جانور کے ساتھ رہیں اور زیادہ دیر کے لیے سو نہ جائیں جانوروں کے لیے چارہ اور پانی کے مشکیزے پیچھے آرہے تھے صلیبیوں نے یہ سوچا تھا کہ مسلمانوں پر عقب سے اچانک حملہ کرکے گھوڑوں کو قلعے کے اندر سے پانی پلائیں گے سلطان ایوبی کے دیدبان صلیبیوں کو بڑی اچھی طرح دیکھ رہے تھے اور گھبرا بھی رہے تھے کیونکہ صلیبیوں کی طاقت بہت زیادہ تھی اتنی زیادہ طاقت سے وہ محاصرہ توڑ سکتے تھے
صحرا بھی دھندلی تھی صلیبیوں کو سوار ہونے برچھیاں اور تلواریں تیار رکھنے کا حکم ملا یہ دراصل حملے کا حکم تھا وہ ایک بڑی ہی لمبی صف کی صورت میں آگے بڑھے جونہی اگلی صف نے ایڑی لگائی عقب سے تیروں کی بوچھاڑیں آنے لگیں جن سواروں کو تیر لگے وہ گھوڑوں پر ہی اوندھے ہوگئے یا گر پڑے اور جن گھوڑوں کو تیر لگے وہ بے قابو ہوکر بھاگ اٹھے اونٹ بھی چلے ہی تھے کہ ان میں بھگدڑ مچ گیا صلیبی کمانڈر سمجھ نہ سکے کہ یہ ہوا کیا ہے اور ان کی ترتیب بکھرتی کیوں جارہی ہے انہوں نے غصے کی حالت میں چلانا شروع کردیا زخمی گھوڑوں اور اونٹوں نے جو واویلا بپا کیا اس نے ساری فوج پر دہشت طاری کردی صبح کا اجالا صاف ہوا تو ریمانڈ کو معلوم ہوا کہ وہ سلطان ایوبی کے گھیرے میں آگیا ہے اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ مسلمانوں کی تعداد کتنی ہے وہ اسے بہت زیادہ سمجھ رہا تھا ایسی صورتحال کے لیے وہ تیار نہیں تھا اس نے حملہ رکوا دیا لیکن اس کے سواروں کی اگلی صف اس خلا کے قریب پہنچ چکی تھی جہاں اس پورے لشکر کو پہنچنا تھا
محاصرے والی فوج کو پہلے ہی خبردار کردیا گیا تھا وہ اس حملے کے استقبال کے لیے تیار تھی اس کے مجاہدین نے گرد کے بادل زمین سے اٹھتے اور اپنی طرف آتے دیکھے تو وہ تیار ہوگئے گرد قریب آئی تو اس میں سے گھوڑ سوار نمودار ہوئے مجاہدین نے اپنے آپ کو حملہ روکنے کی ترتیب میں کرلیا وہ دائیں اور بائیں تھے جونہی گھوڑے ان کے درمیان آئے مجاہدین پہلوؤں سے ان پر ٹوٹ پڑے تب صلیبی سواروں کو احساس ہوا کہ وہ اپنے لشکر سے کٹ گئے ہیں اور ان کا لشکر اپنی جگہ سے چلا ہی نہیں سلطان ایوبی اس معرکے کی کمان اور نگرانی خود کررہا تھا صلیبی پیچھے کو مڑے تاکہ مقابلہ کریں لیکن سلطان ایوبی نے انہیں یہ چال چل کر بہت مایوس کیا کہ صلیبیوں کا کوئی دستہ سرپٹ رفتار سے کسی طرف حملہ کرتا تھا تو آگے مزاحمت نہیں ملتی تھی البتہ پہلوؤں اور عقب سے اس پر تیر برستے تھے صلیبی کمانڈروں نے اپنے لشکر کو چھوٹے چھوٹے دستوں میں تقسیم کردیا سلطان ایوبی کے کمانڈروں نے اس کی ہدایت کے مطابق آمنے سامنے کے مقابلے کی نوبت ہی نہ آنے دی صلیبیوں کے گھوڑے تھکے ہوئے تھے بھوکے اور پیاسے بھی تھے انہیں جنگ روکنی پڑی وہ چارے اور پانی کے منتظر تھے رسد کو صبح تک پہنچ جانا چاہیے تھا
دوپہر تک رسد نہ پہنچی چند ایک سوار دوڑائے گئے لیکن وہ مسلمان تیر اندازوں کا شکار ہوگئے اگر وہ زندہ پیچھے چلے بھی جاتے تو انہیں رسد نہ ملتی وہ رات کو ہی سلطان ایوبی کے چھاپہ مار دستے کی لپیٹ میں آگئی تھی اس دستے نے بڑی کامیابی سے شب وخون مارا اور رسد تباہ کردی تھی سلطان ایوبی نے اپنے محفوظہ میں سے مزید دستے بلا لیے اور ریمانڈ کے لشکر کو گھیرے میں لے لیا اگر مسلمانوں کی تعداد صلیبیوں جتنی ہوتی تو وہ حملہ کرکے صلیبیوں کو ختم کردیتے۔ سلطان ایوبی اپنی نفری ضائع نہیں کرنا چاہتا تھا اس نے اس لشکر کو لڑاتے لڑاتے ٹیلوں اور گھاٹیوں کے علاقے میں لے جا کر گھیرے میں لے لیا اسے معلوم تھا کہ جوں جوں وقت گزرتا جائے گا صلیبی بے کار ہوتے جائیں گے مگر صلیبیوں کو بڑی کامیابی سے گھیرے میں لے کر اسے خود بھی نقصان ہورہا تھا اس نے جہاں صلیبیوں کی اتنی بڑی قوت کو باندھ لیا تھا وہاں اس کے اپنے بہت سے ریزور دستے بھی بندھ گئے تھے انہیں اب وہ کسی اور طرف استعمال نہیں کرسکتا تھا
اس علاقے کے اندر پانی موجود تھا جو جانوروں کو کچھ عرصے کے لیے زندہ رکھنے کے لیے کافی تھا فوج کو زندہ رکھنے کے لیے زخمی گھوڑوں اور اونٹوں کا گوشت کافی تھا سلطان ایوبی نے شہر کا محاصرہ مکمل کرنے کا حکم دے دیا صلیبی چین سے نہیں بیٹھے ہر روز کسی نہ کسی جگہ جھڑپ ہوتی تھی اور دن گزرتے جارہے تھے سلطان ایوبی نے قلعے اور شہر کے گرد گھومنا شروع کردیا کہیں سے بھی دیوار توڑنے کی صورت نظر نہیں آ رہی تھی...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی