جنوری 2019
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➍➊】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انتھونیس نے جنگ کی ابتدا کی جو رات مقرر کی تھی اس رات قبائلیوں نے بغیر کسی دشواری کے ان مجاہدین پر قابو پا لیا جو قلعے میں موجود تھے، وہ جہاں جہاں رہتے تھے وہاں گہری نیند سوئے ہوئے تھے، اس کام کے لئے جو قبائلی منتخب کیے گئے تھے وہ انتھونیس اور روتاس کی ہدایت اور ریہرسل کے مطابق پہنچے اور ان مجاہدین کو مقابلے کی مہلت ہی نہ دی ان سب کو ایک بڑے مضبوط دروازوں والے مکان میں بند کردیا گیا۔
شہر کے صدر دروازے پر دو مجاہدین ڈیوٹی پر رہتے تھے انھیں کسی طرح پتہ چل گیا کہ شہر میں بغاوت ہو گئی ہے اور ان کے ساتھی پکڑے گئے ہیں یہ دونوں وہاں سے نکلنے لگے تو ان پر چند ایک قبائلیوں نے حملہ کردیا دونوں نے جم کر مقابلہ کیا ،زخمی ہوئے لیکن وہاں سے نکل آئے وہاں سے تین میل دور ایک بستی تھی وہاں پہنچے اور دوگھوڑے لے کر ان پر سوار ہوئے اور گھوڑے دوڑا دیے، تقریبا بیس میل دور قنسرین کا شہر تھا خالد بن ولید اس وقت تک قنسرین میں تھے یہ ایک مضبوط قلعہ تھا اور خاصا وسیع وعریض شہرتھا۔
یہ رومیوں سے خالد بن ولید نے چھینا تھا۔اور انہیں بھگایا تھا۔
دونوں مجاہد زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پہنچے ،اور خالد بن ولید کو اطلاع دی کہ بغاوت ہو گئی ہے، خالد بن ولید نے ایک قاصد سپہ سالار ابوعبیدہ کو پیغام دینے کے لئے بھیج دیا اور اپنا لشکر فوراً تیار کرکے حلب کی طرف روانہ ہوگئے۔
خالد بن ولید کی پیش قدمی تیز و تند طوفان کی طرح ہوا کرتی تھی ان کی رسد اونٹوں پر اور بیل گاڑیوں پر پیچھے پیچھے آ رہی تھی۔ جس کی طرف خالد بن ولید کی ذرا سی بھی توجہ نہیں تھی وہ تو بھوکے پیاسے بھی اپنے ہدف پر پہنچنا چاہتے تھے۔
یہ گھوڑسوار لشکر جب حلب پہنچا تو خالد بن ولید جیسے تاریخ ساز سالار نے بھی محسوس کرلیا کہ اس قلعے کو آسانی سے سر نہیں کیا جاسکے گا۔
مشہور تاریخ دان واقدی لکھتا ہے کہ دور دور کے قبائل کے لڑنے والے لوگ بھی حلب میں اکٹھا ہو گئے تھے، اور بروقت مسلمانوں کو پتہ نہ چل سکا نہ انہوں نے انہیں غور سے دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی، مسلمان انہیں پناہ گزین سمجھتے رہے اور یہ خیال رکھا کہ انہیں رہائش اور روٹی ملتی رہے اور کوئی محرومی اور محتاجی محسوس نہ کرے ،اب یہی لوگ چاروں طرف دیواروں پر اس طرح کھڑے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں کمانیں اور بعض کے پاس پھینکنےوالی برچھیاں تھیں، ان کی تعداد اتنی زیادہ تھیں کہ ان کے درمیان سے ہوا بھی نہیں گزر سکتی تھی ۔
خالد بن ولید کے لشکر کی تعداد چار ہزار تھی خالد بن ولید نے دیواروں پر کھڑے قبائلیوں پر تیر پھینکے لیکن دیواروں سے جو تیر آئے ان کے سامنے اپنے تیر انداز ٹھہرنا سکے۔
خالد بن ولید نے سپہ سالار کی طرف ایک قاصد اس پیغام کے ساتھ دوڑایا کہ مزید لشکر کی ضرورت ہے کیونکہ قلعہ بھی مضبوط ہے اور دفاع اور زیادہ مستحکم اور مہلک ہے۔
ابو عبیدہ نے سالار عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو پانچ ہزار گھوڑ سواروں کے ساتھ حلب پہنچنے کا حکم دیا یہ لشکر بڑی تیزی سے روانہ ہو گیا۔
خالد بن ولید قلعے توڑنے اور سر کرنے کی خصوصی مہارت رکھتے تھے، اس مقصد کے لئے انہوں نے جاں باز گروہ بنا رکھے تھے۔ تاریخ اسلام کا یہ عظیم سپہ سالار محاصرے کو طول دینے کا قائل نہیں تھا۔
واقدی نے لکھا ہے کہ محاصرہ بہت طویل ہو گیا تھا، دو یورپی مورخ لکھتے ہیں کہ خالد بن ولید اس قدر غیظ و غضب میں تھے کے انہوں نے محاصرہ طویل نہ ہونے دیا بلکہ ایسی چال چلی جن سے عیسائی قبائلی ان کے پھندے میں آگئے۔
انتھونیس نے یہ حرکت کی کے محاصرے کے تیسرے چوتھے ہی روز ان تمام مجاہدین کو قلعے کی دیوار پر پہلو بہ پہلو کھڑا کر دیا جنہیں ایک رات سوتے میں پکڑ کر قید کردیا گیا تھا ۔
سب کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اس نے دیوار پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ محاصرہ فوراً اٹھا لو ہم زیادہ انتظار نہیں کریں گے، ان میں پہلے دس آدمیوں کے سر کاٹ کر تمہاری طرف پھینک دیں گے ،محاصرہ پھر بھی نہ اٹھایا گیا تو مزید دس آدمیوں کے سرکاٹ کر باہر پھینکے جائیں گے۔
محاصرہ نہیں اٹھانا۔۔۔ ایک قیدی مجاہد نے بڑی ہی بلند اور پرجوش آواز میں کہا۔۔۔ ہمارے سرکٹ جانے دو ہم گھروں سے اللہ کی راہ میں سر کٹوانے ہی نکلے ہیں، محاصرہ نہ اٹھانا ۔ اللہ تمہاری مدد کرے گا قلعہ توڑ لو گے۔
تمام قیدی مجاہدین نے جن کی تعداد کم و بیش ایک سو تھی، نعرے لگانے شروع کر دیے وہ سب یہی کہہ رہے تھے کہ محاصرہ نہ اٹھانا ہمارے سر کٹ جانے دو ، قیدی مجاہدین کے جذبے ایثار اور جوش و خروش نے باہر والے مجاہدین کو آگ بگولہ کردیا یہ تو سالاروں کا کمال تھا کہ انہوں نے مجاہدین کو اپنے قابو میں رکھا ورنہ وہ تو اس قدر جوش میں آ گئے تھے کہ سب کے سب قلعے پر ہلہ بول دینے کو تیار ہو گئے تھے ،وہ کہتے تھے کہ تیر انداز اوپر دیوار پر تیر پھینکتے رہیں اور وہ دروازے توڑ لیں گے یا دیوار میں کہیں شگاف ڈالیں گے۔
خالد بن ولید اور عیاض بن غنم ہوشمند سالار تھے وہ جذبات کے جوش سے نہیں جنگی فہم و فراست سے کارروائیاں کیا کرتے تھے۔
ایک دو دنوں کی کوششوں کے بعد خالد بن ولید نے شہر کے اندر افراتفری پھیلانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ فلیتے والے تیر شہر کے اندر پھینکنے شروع کر دیئے ، یہ آگ لگانے والے تیر تھے انہی دیواروں کے اوپر سے اندر تک پہنچانا آسان نہیں تھا لیکن شہر کے ایک طرف کچھ بلند جگہ مل گئی جس پر تیر انداز کھڑے ہو کر تیر اندر پھینک سکتے تھے ۔
بعض تیرانداز درختوں پر چڑھ گئے اور وہاں سے آگ والے تیر اندر پھینکنے لگے یہ تیر کچھ زیادہ اثرانداز نہیں ہوئے جس کی وجہ یہ تھی کہ آبادی دیواروں سے اتنی دور تھی جہاں تک تیر نہیں پہنچ سکتے تھے، ایک میدان میں خیمے لگے ہوئے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دونوں سالاروں ۔۔۔۔خالد بن ولید اور عیاض بن غنم کو قلعے کے اندر کے حالات کا تو کچھ بھی پتہ نہیں تھا اندر اگر کوئی مسلمان جاسوس تھا بھی تو وہ باہر نہیں آ سکتا تھا اور باہر سے کسی کو قبائلی عیسائیوں کے بہروپ میں اندر نہیں بھیجا جا سکتا تھا، دیواروں پر جو قبائلی تیر اور کمان اور پھینکنےوالی برچھیاں لیے کھڑے رہتے تھے وہ روز اول کی طرح جوش وخروش میں معلوم ہوتے تھے۔
خالد بن ولید نے اپنے نائب سالاروں سے اور ایک دو مرتبہ مجاہدین کے پورے لشکر سے کہا تھا کہ حلب کو اپنا ہی شہر سمجھو، ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے خالد بن ولید نے پراعتماد انداز میں کہا تھا کہ شہر میں کوئی تربیت یافتہ اور تجربہ کار فوج نہیں یہ لوگ فرداً فرداً لڑنا جانتے ہیں یا ہجوم کی صورت میں ہلہ بول سکتے ہیں، لیکن محاصرے میں ٹھہرنا اور محاصرہ توڑنا ان کے بس کی بات نہیں بلکہ ان لوگوں کو اپنے بس میں سمجھو اور تھوڑے ہی عرصے بعد یہ ہتھیار ڈال کر ہماری اطاعت قبول کر لیں گے ،یا کوئی ایسی حماقت کر بیٹھیں گے جو ان کی شکست کا باعث بنے گی۔
خالد بن ولید کو یہ معلوم نہیں تھا کہ محصورین کی قیادت رومی فوج کے ایک بھگوڑے جرنیل کے ہاتھ میں ہے اور اس کا نائب اور معاون رومی فوج کا ہی ایک افسر ہے جو سپہ سالار ابوعبیدہ کی قید میں رہ کر گیا ہے ۔
مسلمان سالاروں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ ہرقل کی ایک بیوی بھی ہے جو ایران کے شاہی خاندان کی عورت تھی اور ہرقل کے شاہی خاندان میں دھوکے سے داخل ہوئی تھی، مسلمانوں کے یہاں تو جہاد کا جذبہ اور دین و ایمان تھا اور ان کا اپنا کلچر تھا جس سے وہ ذرا سا بھی نہیں ہٹتے تھے۔
اس کے مقابلے میں قلعے کے اندر جو رومی قیادت تھی اس کا اپنا کلچر اور اپنا کردار تھا، جسے وہ لوگ اپنی ضرورت اور اپنے مفادات کے مطابق دستبردار ہو جایا کرتے تھے۔
قلعے کے اندر کے حالات کچھ اس طرح تھے کہ انتھونیس اور روتاس تو جیسے راتوں کو سوتے بھی نہیں تھے ان کے لئے یہ ایک قلعے یا ایک بڑے شہر کی لڑائی نہیں تھی بلکہ ان کی زندگی اور موت کی لڑائی تھی۔
انتھونیس کا یہ عزم بھی تھا کہ وہ ایک عیسائی سلطنت کی بنیاد رکھے گا اور الجزیرہ کے قبائلی عیسائیوں کو ایک جنگی طاقت کی صورت میں منظم کرے گا ،اس عزم کی تکمیل کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ حلب کو ہاتھ سے نہ جانے دے ۔
روتاس اس کا دست راست بن گیا تھا۔
ہرقل کا بیٹا یو کلس بھی ان کے ساتھ تھا لیکن وہ نوجوان تھا اور ایک بازو سے معذور بھی وہ ایک ہاتھ سے لڑنا جانتا تھا قیادت کے قابل نہیں تھا پھر بھی وہ اپنے آپ کو جرنیل ہی سمجھتا تھا۔اپنی اس حیثیت کو وہ اپنا حق سمجھتا تھا۔ کیونکہ وہ شاہ ہرقل کا بیٹا تھا ،وہ بھی دن رات بھاگتا دوڑتا رہتا تھا اور جب سے حلب محاصرے میں آیا تھا اس رومی نوجوان نے یہ معمول بنا لیا تھا کہ دیوار پر جاتا یا نیچے شہر میں گھوم پھر رہا ہوتا۔
تو چند ایک آدمیوں کو اکٹھا کرکے انہیں بتاتا تھا کہ وہ یسوع مسیح کی سلطنت کے قیام کے لیے لڑ رہے ہیں، اس لئے آخر فتح ان کی ہوگی ،اس طرح وہ جوشیلی اور جذباتی باتیں کر کے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہتا تھا ،وہ کئی کئی راتیں اپنی ماں کے پاس نہیں جاتا تھا۔
عام طور پر قلعے کے صدر دروازے کے اوپر جو کمرے بنے ہوئے تھے ان میں سے کسی کمرے میں سو جاتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انتھونیس، اور یوکلس ایک مکان میں رہتے اور روتاس الگ مکان میں رہتا تھا، یہ نہایت اچھے صاف ستھرے اور اونچے درجے کے مکان تھے، روتاس دو چار دنوں کے وقفے سے لیزا کے گھر آیا کرتا تھا اور اس کا یہاں آنا محض رسمی ہوتا تھا، جب سے حلب محاصرے میں آیا تھا اس نے لیزا کے ہاں جانا بہت ہی کم کر دیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ محاصرے کے سلسلے میں اسے دن رات بھاگ دوڑ کرنی پڑتی تھی۔
یہ انتھونیس کا گھر تھا لیکن وہ بھی اب اس گھر میں اس طرح آتا تھا جیسے روتاس کی طرح رسمی طور پر آگیا ہو، انتھونیس اور روتاس کا تو یہ عالم تھا کہ الگ الگ بھاگتے دوڑتے رہتے تھے، اب بھی دیوار پر ہے تو یوں لگتا تھا جیسے کود کر نیچے آگئے ہوں، دیکھنے والوں کو شک ہوتا تھا کہ وہ ہر وقت ہر جگہ موجود رہتے ہیں، انتھونیس کبھی بہت دیر سے گھر جاتا اور پلنگ پر گرتا اور اس کی آنکھ لگ جاتی تھی کچھ ہی دیر بعد وہ ہڑبڑا کر جاگ اٹھتا اور باہر کو بھاگ جاتا ، وہ گھر ہوتا تو بھی لگتا تھا گھر سے غیر حاضر ہے۔
یہ دونوں آخر کمانڈر تھے انھیں احساس تھا کہ جن کی وہ قیادت کر رہے ہیں وہ لڑنا تو جانتے ہیں لیکن منظم ہو کر لڑنے کا انہیں کوئی تجربہ نہیں وہ ان لوگوں کو ہدایت دیتے رہتے اور خود دیوار پر گھوم پھر کر دیکھتے رہتے کہ مسلمان دروازوں کے قریب نہ آ جائیں اس کے ساتھ ہی وہ جوان آدمی کو قلعے سے نکال کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے بھی تیار کر رہے تھے، مختصر یہ کہ دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ وہ محاصرے کے دوران لوگوں کو ٹریننگ بھی دے رہے تھے۔
ایک رات انتھونیس گھر آیا اور آتے ہی لیٹ گیا وہ بہت تھکا ہوا تھا لیزہ اسے دیکھتی رہی کہ وہ کوئی بات کرے گا ۔
ذرا سا سستا کر انتھونیس نے محاصرے کی بات شروع کردی، لیزا کے چہرے پر نمایاں طور پر اکتاہٹ کا تاثر آگیا اور صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ انتھونیس کی باتوں میں ذرا سی بھی دلچسپی نہیں لے رہی، کیا تم میرے ساتھ کوئی اور بات نہیں کرنا چاہتے لیزا نے ایسے لہجے میں کہا جسے انتھونیس بڑی اچھی طرح سمجھتا تھا۔
لیزا! ۔۔۔۔انتھونیس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ کیا تم یہ بات کہہ رہی ہوں میں تو یہ توقع رکھتا ہوں کہ میں گھر آؤں تو تم پہلی بات مجھ سے یہ پوچھو کہ محاصرہ کب ٹوٹے گا؟ اور اسے توڑنے کی کوئی صورت پیدا کی جا رہی ہے یا نہیں؟ تم تو یوں بات کر رہی ہو جیسے حالات معمول کے مطابق ہیں مجھے تو کوئی اور بات سوچتی ہی نہیں۔
لیزا کچھ زیادہ ہی اکتاہٹ کا اظہار کر رہی تھی، انتھونیس نے اسے غور سے دیکھا تو لیزا کی آنکھوں میں اسے کوئی اور ہی خمار چڑھا ہوا نظر آیا وہ اس خمار سے اور لیزا کے چہرے پر آئے ہوئے تاثرات سے بڑی اچھی طرح واقف تھا۔ ان دونوں کے تعلقات میاں بیوی والے تھے یہ کوئی عشق و محبت والا معاملہ نہیں تھا کہ یہ دونوں ایک دوسرے پر مرتے ہوں۔
لیزا !۔۔۔انتھونیس نے کہا۔۔۔ ہوش میں آؤ اور حقیقت کو دیکھو یہ وقت رومان لڑانے کا نہیں حالات کو دیکھو اور سوچو کہ ہم یہ جنگ ہار گئے تو ہمارے لئے کوئی پناہ نہیں ہوگی ہم یہاں سے بھاگ کر جائیں گے کہاں ، بنو تغلب جیسے طاقتور قبیلے نے چند اور قبیلوں کے ساتھ مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی ہے تمہیں تو میری طرح گھر سے باہر ہونا چاہیے۔کیا تم خود نہیں سوچ سکتی کہ ان قبائلیوں کی عورتوں کو تم لڑنے کے لئے تیار کر سکتی ہو۔
انتھونیس ،لیزا کو پوری طرح نہیں سمجھ سکا تھا جس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی تھی کہ لیزا نے اس کے ساتھ جو دوستی لگائی تھی وہ صرف جسم کے ساتھ تعلق رکھتی تھی، اور لیزا نے اسے جسمانی تشنگی کی تسکین کیلئے اسے اپنا دوست بنایا تھا۔
لیزا ہر قل کے حرم کی ایک عورت تھی ۔ صرف اسے یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ ہرقل کی بیوی تھی، اور دوسرا اعزاز یہ کہ وہ ایران شاہی خاندان میں سے تھی ۔
وہ جانتی تھی کہ شاہی محلات میں خوبصورت عورت کا استعمال کیا ہوتا ہے ، اس نے ایران کے محلات میں بھی دیکھ لیا تھا اور روم کے بادشاہ کے ہاں بھی۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ لیزا نوجوان اور غیر معمولی طور پر حسین و جمیل لڑکی تھی، اسے خون کے رشتوں نے ایک طلسماتی دھوکہ بنا کر ہرقل کے یہاں بھیجا تھا کہ اس پر اپنے حسن کا طلسم طاری کرکے اسے زہر دے کر وہاں سے بھاگ نکلنے کی کوشش کرے۔ ہرقل کے پاس پہنچی تو اس کی بیوی بن گئی وہ بڑی ہی زہریلی ناگن بن کر ہرقل کے پاس آئی تھی لیکن ہرقل کو دیکھ کر اور اس کے جذبات سے متاثر ہوکر وہ ناگن سے انسان بن گئی تھی جس میں جذبات ہوتے ہیں اور دل و جگر بیدار ہو کر اپنا آپ اپنی پسند کے انسان کے حوالے کر دیتے ہیں ۔لیکن ہرقل نے تھوڑے ہی عرصے میں اس کے یہ جذبات کچل ڈالے اور اسے اپنے حرم میں پھینک دیا جو عورتوں کا گودام تھا۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ لیزا کی ذات میں صرف حیوانی جذبات رہ گئے وہ جوان تھی اور اسے ایک جوان ساتھی کی ضرورت تھی۔
اس جذباتی کیفیت میں وہ ایسا آتش فشاں پہاڑ بن گئی تھی جس کا منہ بند تھا اور لاوا باہر نکلنے کو تڑپ رہا تھا ۔
انتھونیس کی جگہ اسے کوئی اور اپنے قریب آتا نظر آجاتا تو وہ اسی کی ہو کے رہ جاتی، اتفاق ایسا ہوا کہ انتھونیس اس کے قریب آ گیا اور لیزا نے لپک کر اسے اپنے ساتھ چپکا لیا اور جب دیکھا کہ اس شخص کے ساتھ ملاقاتیں آسانی سے ہوجاتی ہیں تو فرض کر لیا کہ یہی اس کا خاوند ہے، اب تو اس کے بیٹے یو کلیس نے بھی قبول کر لیا تھا کہ اس کا باپ ہرقل نہیں انتھونیس ہے۔
بادشاہوں کی بیویاں اور ان کے حرموں کی عورتوں میں قومی جذبہ نام کو بھی نہیں ہوا کرتا تھا، نہ انہیں کسی ملک اور وطن سے محبت ہوتی تھی، وہ تو اس صورتحال کو بھی قبول کیے رکھتی تھی کہ کوئی اور بادشاہ اس ملک پر حملہ کرے گا اور انھیں بھی اپنے قبضے میں لے کر اپنی تفریح کا ذریعہ بنا لے گا، یا کوئی جرنیل یا کوئی شہزادہ انہیں اپنے ساتھ لے جائے گا انہیں فتح و شکست کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔
لیزا بھی ایسی ہی عورتوں میں سے ایک تھی، اس وقت اسے حلب کی نہیں انتھونیس کی شدید ضرورت تھی اس نے یہ بھی محسوس نہ کیا کہ انتھونیس بھی ہرقل کی طرح اس سے اکتا سکتا ہے اس نے انتھونیس سے اپنے جذبات کی حرارت پیدا کرنے کی کوشش کی مگر انتھونیس جذباتی سطح سے بہت اوپر چلا گیا تھا، اس نے لیزا کو دھتکارا تو نہیں لیکن یہ بھی قبول نہ کیا کہ اس کے پاس بیٹھے،
تم اپنی بادشاہی قائم کرنے کی فکر میں ہوں۔۔۔ لیزا نے یاس انگیز لہجے میں کہا۔۔۔ یہ بادشاہی نہ جانے کب قائم ہوگی لیکن تم ابھی سے شاہ ہرقل بن گئے ہو۔ تم میرے ساتھ اب پہلے کی طرح بیٹھ کر بات ہی نہیں کرتے۔
انتھونیس بہت ہی تھکا ہوا تھا ،تھکاوٹ کے علاوہ اس پر محاصرہ اور حلب کی فتح و شکست سوار تھی اور یہی ایک سوچ اس کے ذہن پر غالب رہتی تھی کہ محاصرے کو کس طرح توڑے اور مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دے ۔
اس نے لیزا کی طرف کوئی توجہ نہ دی جس کی وہ طلبگار تھی، وہ کبھی جذباتی اور کبھی شاقی لہجے میں کچھ نہ کچھ بولتی رہی، اور انتھونیس گہری نیند سو گیا ۔
لیزا نے اسے سوتے ہوئے دیکھا تو اسے یوں لگا جیسے وہ مر گیا ہو وہ اس کے چہرے پر نظریں گاڑے دیکھتی رہی اور اسے یوں دھچکا لگا جیسے ایک چشمہ تھا جو خشک ہو گیا ہو۔
اس کا اپنا بیٹا یوکلس جسے دیکھ دیکھ کر وہ جیتی تھی اور جس پر وہ اپنی جان نچھاور کیے رکھتی تھی ،اس کی طرف پہلی سی توجہ نہیں دیتا تھا ۔وہ تو دو دو اور کبھی تین تین دن اور رات میں گھر سے غائب رہتا تھا۔ کبھی ذرا سی دیر کے لئے کے پاس آجاتا اور اسے حوصلہ اور تسلی دے کر بھاگم بھاگ چلا جاتا ۔
انتھونیس تو کہتا تھا کہ وہ یسوع مسیح کی سلطنت قائم کرے گا، لیکن یوکلیس کو اس سلطنت کے ساتھ یہ دلچسپی زیادہ تھی کہ وہ ہرقل اور قسطنطین کو قتل کرے گا، لیزا نے کبھی نہ سوچا کہ اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ چپکالے تا کہ وہ لڑائی میں مارے جانے سے محفوظ رہے، وہ انتھونیس ہی کی ضرورت محسوس کرتی تھی لیکن انتھونیس اس کے ہاتھ سے نکل ہی گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلی صبح لیزا کی آنکھ اس وقت کھلی جب سورج کی کرنیں قلعے کی دیواروں کے اوپر سے اندر آ گئی تھی، لیزا اٹھی اور تمام کمروں میں گھوم پھر آئی وہاں انتھونیس بھی نہیں تھا ،یوکلس بھی نہیں تھا، یہ تو اس کا روزمرہ کا معمول تھا، لیکن اس دن اس نے اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی تنہا محسوس کیا۔ اس کی ملازمہ نے اس کے آگے ناشتہ رکھا لیزا ناشتے پر اور ملازمہ فرش پر بیٹھ گئی۔
خدا آپ کو اور زیادہ عزت اور وقار دے مالکن۔۔۔ ملازمہ نے کہا۔۔۔ کچھ ہم غریبوں کو بھی بتا دیں کیا یہ محاصرہ اٹھ جائے گا؟ ۔۔۔
آپ کو تو معلوم ہی ہوگا شہر میں اناج کم پڑتا جا رہا ہے پانی کی تو کمی نہیں لیکن صرف پانی پر تو زندہ نہیں رہا جاسکتا۔
گھبراؤ نہیں لیزا نے کہا ۔۔۔محاصرہ اٹھ جائے گا ،نہ اٹھا تو باہر نکل کر مسلمانوں کے لشکر پر حملہ کریں گے۔
آپ کو گرجے میں کبھی نہیں دیکھا۔۔۔ ملازمہ نے کہا۔۔۔ گرجے میں ہر روز اپنی فتح کی اور مسلمانوں کی شکست کی دعائیں ہوتی ہیں۔ پادری کہتے ہیں کہ گناہوں سے توبہ کرو یہ بہت بڑی آفت ہے جو ہم پر گناہوں کی وجہ سے نازل ہوئی ہے ہم غریبوں نے کیا گناہ کیے ہے؟
لیزا نے ملازمہ کی بات پوری نہ ہونے دی اور ہنس پڑی ،ملازمہ چپ ہو گئی اور لیزا کے منہ کی طرف دیکھتی رہی ،ملازمہ نے بتایا کہ شہر کے کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے لیکن بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی ختم کر دی جائے اور ان کے لیے دروازے کھول دیے جائیں وہ کہتے ہیں کہ مسلمان بڑے اچھے لوگ ہیں جس شہر کو فتح کرتے ہیں اس شہر کے لوگوں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کرتے ہیں۔
لیزا کی ہنسی ایک مسکراہٹ میں سمٹ آئی تھی ،اس نے ملازمہ کی اس بات کو ذرا سی بھی اہمیت نہ دی اور اس طرح ہستی رہی جیسے وہ کوئی بڑی ہی دلچسپ بات سنا رہی ہو ،اس نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور اٹھ کر باہر نکل گئی۔
محاصرے کا شوروغل شہر کے اندر بھی سنائی دے رہا تھا محاصرے کی ایک اور رات گزر گئی تھی ،شہر کے جو لوگ شہر کے دفاع کے لئے دیوار پر کھڑے تھے وہ نعرے لگا رہے تھے اور مسلمانوں کو للکار بھی رہے تھے ان کا حوصلہ اور جوش و خروش بظاہر تروتازہ معلوم ہوتا تھا۔
لیزا آہستہ آہستہ چلتی گئ وہ کسی خاص جگہ پہنچنے کے ارادے سے نہیں نکلی تھی شہر کی عورتیں اسے جانتی تھیں، وہ ان کے جرنیل کی بیوی تھی ایک جگہ عورتوں نے اسے گھیر لیا ،وہ کچھ گھبرائی ہوئی تھیں ،اس سے پوچھنے لگیں کہ محاصرہ کب تک رہے گا؟ ۔۔۔اور کیا یہ شہر لمبے عرصے کیلئے محاصرے میں ہی رہے گا؟
لیزا اپنے آپ میں آ گئی جیسے بیدار ہو گئی ہو اس نے عورتوں کو بہت تسلیاں دیں اور ان کا حوصلہ اس طرح مضبوط کیا کہ انھیں کہا کہ وہ بھی لڑنے کے لئے تیار ہو جائیں اس نے یہ بھی کہا کہ محاصرے کو طویل نہیں ہونے دیا جائے گا اور جلد ہی باہر نکل کر مسلمانوں پر بڑا ہی زور دار حملہ کیا جائے گا۔
اس نے جرنیل کی بیوی کی حیثیت سے ایسی جوشیلی باتیں کی کہ عورتوں کی گھبراہٹ ختم ہو گئی اور کئی عورتوں نے کہا کہ وہ مردوں کی طرح لڑیں گی اور مسلمانوں کا محاصرہ کامیاب نہیں ہونے دینگے۔
لیزا کے اپنے ذہن میں بھی کچھ تبدیلی آگئی اور وہ آگے کو چل پڑی۔
کچھ دیر بعد وہ دیوار پر پہنچ گئ دیوار اتنی چوڑی تھی کہ اس پر چار پانچ آدمی پہلو بہ پہلو آسانی سے چل پھر سکتے تھے لیکن اس وقت دیوار پر چلنے کے لئے راستہ ہی نہیں ملتا تھا کیونکہ شہر کے تقریبا تمام لوگ دیوار پر کھڑے تھے اور ادھر ادھر آجا بھی رہے تھے۔
لیزا اس ہجوم میں سے راستہ بناتی چلی جا رہی تھی اسے جاننے والے آدمی رک کر سلام کرتے تھے اس کی گردن اس خیال سے تن گئی اور سر اونچا ہو گیا کہ وہ اس شہر کے سب سے بڑے جرنیل کی بیوی ہے۔
وہاں تو انتھونیس اکیلا ہی جرنیل تھا اور ایک غیر منظم لشکر کا کمانڈر بنا ہوا تھا۔
لیزا نے اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا روک کر پیچھے دیکھا وہ روتاس تھا ،لیزا کا چہرہ چمک اٹھا اس نے روتاس سے پوچھا کہ صورتحال کیا ہے؟ ۔۔۔اور کیا محاصرہ جلدی توڑا جاسکے گا یا شہر کو خطرہ ہے؟
محاصرے کو تو ہم نے روکا ہوا ہے روتاس نے جواب دیا۔۔۔ لیکن یہ کہنا کہ کوئی خطرہ نہیں اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے والی بات ہے۔ مسلمانوں کا سپہ سالار خالد بن ولید ہے آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ میں شاہ ہرقل کے جاسوسی کے محکمے کا عہدہ دار ہوں میں بھیس بدل کر مسلمانوں کے خیمہ گاہوں میں گیا ہوں اور خالد بن ولید کو قریب سے دیکھا ہے ،شام سے ہماری فوج کے پاؤں اسی سالار نے اکھاڑے تھے اور اکھاڑے بھی ایسے کہ کہیں جم نہ سکے۔
یہ نام میں نے بھی سنا ہے لیزا نے کہا ۔۔۔ہرقل کو یہ کہتے سنا تھا کہ خالد بن ولید کے قتل کا انتظام ہوجائے تو میں مسلمانوں کو صرف شام ہی سے نہ نکالوں بلکہ عرب سے بھی بھگا کر سمندر میں ڈبودوں ۔قاتلوں کو اس تک پہنچانا ممکن نظر نہیں آتا۔
آپ کو پوری طرح معلوم نہیں۔۔۔ روتاس نے کہا ۔۔۔دو مرتبہ خالد بن ولید کو قتل کرنے کے لئے چار چار آدمی بھیجے گئے تھے وہ مسلمانوں کے لباس میں گئے تھے اور عربی عربوں کی طرح بول سکتے تھے، اور مجھے یہ بھی یقین تھا کہ مسلمانوں کے لشکر میں سے کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ کوئی اور ہیں، لیکن وہ سب وہاں جاکر خود قتل ہوگئے دونوں جماعتوں کی کہانی الگ الگ ہے لیکن اس وقت ہمارے سامنے مسئلہ اس محاصرے کا ہے اور اس کا سالار خالد بن ولید ہے جو قلعہ توڑنے اور سر کرنے کی خصوصی مہارت رکھتا ہے۔ روتاس بولتے بولتے چپ ہو گیا اور باہر کی طرف دیکھ کر بولا وہ دیکھیں آئیں میں آپ کو خالدبن ولید دکھاتا ہوں۔
روتاس لیزا کو دیوار کی برجی کے قریب لے گیا دور دو گھوڑسوار آگے آگے اور آٹھ دس گھوڑسوار ان کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔
اگلے دو سواروں میں جو دائیں طرف ہے وہ خالد بن ولید ہے روتاس نے کہا۔۔۔ بائیں طرف عیاض ہے میں اس کا پورا نام نہیں جانتا یہ بھی سالار ہے آپ اتنی دور سے خالد بن ولید کا چہرہ اچھی طرح نہیں دیکھ سکتیں قریب سے دیکھیں تو دشمن ہونے کے باوجود آپ بے ساختہ کہہ اٹھے گی کہ اس چہرے پر خدا نے اپنا تاثر سجا دیا ہے جو دیکھنے والوں کو متاثر کرتا ہے، اس سالار کے چہرے پر اس کی روح کی چمک دمک بھی نظر آتی ہے، یہ ان جرنیلوں اور سالاروں میں سے ہے جو صرف فتح کرنا جانتے ہیں اور شکست سے واقف ہی نہیں ہوتے۔
تو کیا خالد بن ولید حلب کو فتح کرلے گا ؟۔۔۔لیزا نے پوچھا۔
میں آپ کا حوصلہ نہیں توڑنا چاہتا ۔۔۔روتاس نے کہا ۔۔۔ہم جان لڑا دیں گے لیکن حلب کو بچانے کے لئے ہمیں اس شہر کی آدھی آبادی قربان کرنی پڑے گی موقع ملتے ہی ہم باہر نکل کر حملہ کریں گے۔
روتاس بولتا رہا وہ لیزا کو بتا رہا تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، لیزا کو صورت حال سے تفصیلی آگاہ کر رہا تھا، اور لیزا نے باہر سے نظر ہٹا کر اس کے چہرے پر روک لی اور اسے نظر بھر کر دیکھا پھر اسے سر سے پاؤں تک دیکھا اور اس کے ہونٹوں پر ایسا تبسم آ گیا جس میں کچھ تشنگی سی تھی، لیزا نے بغیر کسی سوچ اور بغیر ارادے کے روتاس کا بازو پکڑا اور اسے اس چھوٹی سی برجی سے ہٹا لائی، روتاس اس کے ساتھ پالتو جانور کی طرح چل پڑا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انتھونیس اور یوکلس کی طرح روتاس پر بھی ہیجانی کیفیت طاری رہتی تھی وہ بھی شہر کے لوگوں کے کمانڈروں میں سے تھا اس کی عمر تیس چالیس سال کے درمیان تھی اور وہ خوبرو آدمی تھا لیزا سے تین چار سال ہی چھوٹا تھا وہ شاہی خاندان کا فرد تھا، اور ذمہ دار عہدے پر بھی فائز تھا۔
اس نوجوانی کی مناسبت سے روتاس لیزا کا احترام کرتا تھا، اور احترام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لیزا ہرقل کی بیوی تھی۔
وہ دیکھئے روتاس نے روک کر باہر محاصرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ایک سوار دستہ جا رہا ہے ہو سکتا ہے اس کی جگہ تازہ دم دستہ آجائے، لیکن مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے مسلمان محاصرہ آہستہ آہستہ اٹھا رہے ہیں۔
کم و بیش ایک ہزار گھوڑسوار خالد بن ولید کے حکم سے محاصرے سے نکل گئے اور ایک طرف کو جا رہے تھے، روتاس اور لیزا دیکھتے رہے اور سواروں کا وہ دستہ دور ہی دور ہٹتا گیا اور پہاڑی کے اندر چلا گیا۔
لیزا نے روتاس کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر مسرت کے آثار نظر آئے اور وہ کچھ زیادہ ہی خوبرو نظر آنے لگا ،روتاس کے ساتھ لیزا کی کوئی بے تکلفی نہیں تھی۔
روتاس محاصرے کے دوران بہت دنوں کے وقفے سے انتھونیس کے گھر جایا کرتا تھا، لیکن اس وقت جب انتھونیس گھر پر ہوتا تھا۔
وہ لیزا سے نہیں انتھونیس سے ملنے جاتا تھا۔
میں اس تنہائی سے اکتا گئی ہوں روتاس! ۔۔۔لیزا نے دوستانہ بے تکلفی سے کہا ۔۔۔شہر کی ان عورتوں کے ساتھ تو میں گھل مل سکتی ہی نہیں تم جانتے ہو میں کس ماحول سے آئی ہوں، انتھونیس دن رات باہر رہتا ہے اور جب آتا ہے تو تھکا ماندہ پلنگ پر گرتا اور سو جاتا ہے میں تو آج تنگ آکر دیوار پر آئی تھی کتنا اچھا ہوا تم مل گئے کیا تم پسند کرو گے کہ میں تمہارے ساتھ تمہارے گھر چلوں۔
روتاس بھلا کیسے انکار کرسکتا تھا اس نے کہا کہ وہ تو گھر ہی جا رہا تھا رات بھر وہ باہر رہا تھا ،اس نے لیزا کو ساتھ لیا اور اسے اپنے گھر لے گیا۔
روتاس نے لیزا کو احترام سے بٹھایا اور خود الگ ہٹ کر بیٹھنے لگا لیکن لیزا نے اس کا بازو پکڑ لیا اور کھینچ کر اسے اپنے پاس بٹھا لیا، یہی نہیں بلکہ اس کے کمر میں ہاتھ ڈال دیا اور سخت کر دیا پھر بے تکلفی کا ایک ایسا مظاہرہ کیا جو وہ انتھونیس کے ساتھ ہی کرسکتی اور کیا کرتی تھی ۔
روتاس کو ایسی توقع نہیں تھی کہ وہ اس کے ساتھ اتنا زیادہ بے تکلف ہو جائے گی، لیزا نے بڑے ہی جذباتی لہجے میں ایک آدھ بات بھی کہہ دی روتاس بچہ تو نہ تھا اتنا واضح اشارہ سمجھ گیا اور جب اس نے لیزا کے چہرے پر نظر ڈالی تو وہاں کچھ اور ہی تاثر تھا۔
میرے دل میں آپ کا احترام ہے ۔۔۔روتاس نے کہا۔۔۔ بے شک آپ شاہی خاندان سے بھاگ آئی ہیں لیکن میں خود اسی خاندان کا فرد ہوں اس لئے آپ کا احترام کرتا ہوں، اگر میں یہ ذہن سے اتار دوں کہ آپ شاہی خاندان کی آبرو ہیں تو میں یہ نہیں بھول سکتا کہ آپ میرے جرنیل اور کمانڈر انتھونیس کی دوست ہیں۔
میں انتھونیس کی ملکیت نہیں ہوں روتاس! ۔۔۔لیزا نے کہا۔۔۔ اس وقت تم ہی میرے دوست ہو اور تم ہی میرے ساتھی ہو، مجھ سے دور ہٹنے کی کوشش نہ کرنا۔
اس وقت میں ہرقل کی بیوی بھی نہیں اور انتھونیس کی دوست بھی نہیں، اس وقت میں صرف لیزا ہوں اور مجھے احترام سے بلانے کے بجائے پیار سے لیزا کہو۔
پھر یہ بھی سوچ لو لیزا! ۔۔۔روتاس نے کہا۔۔۔ پادری ہر روز فتح کی دعا کرتا ہے اور ایک ہی بات دوہراتا آتا چلا جارہا ہے کہ ہم پر بیٹھے بٹھائے بہت بڑی آفت آن پڑی ہے جس سے نجات کا طریقہ صرف یہ ہے کہ گناہوں سے توبہ کرو، اور کوئی گناہ نہ ہو۔
میں سراپا گناہ ہوں! ۔۔۔لیزا نے کہا۔۔۔ ایران کے شاہی خاندان سے ایک بڑا ھی حسین گناہ بن کر ہرقل کے شاہی خاندان میں آئی تھی، لیکن اس گناہ میں ناکام رہی اور جب شاہ ہرقل نے میرے ساتھ شادی کر کے تھوڑے ہی عرصے بعد حرم میں پھینک دیا تو میں نے ایک اور گناہ کیا۔
لیزا نے جذبات سے مغلوب ہو کر روتاس کو تفصیل سے سنایا کہ اس نے انتھونیس کو کس طرح اپنی تسکین کا ذریعہ بنایا تھا ،اور کس طرح اس کے ساتھ یہ دوستی در پردہ نبھاتی رہی اس نے اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیا کہ یوکلسس ہرقل کا نہیں انتھونیس کا بیٹا ہے۔
تم غلط سمجھ رہے ہو۔۔۔ لیزا نے کہا ۔۔۔تم یہ سمجھتے رہے کہ میں بھی انتھونیس کے اس عزم میں شامل ہوں کہ ہم شام میں یسوع مسیح کی سلطنت قائم کریں گے، انتھونیس بھی یہی سمجھتا ہے کہ میرا بھی یہی عزم ہے ،لیکن روتاس میں تمہیں سچ بتاتی ہوں کہ میں اپنے اکلوتے بیٹے یوکلس کو ہرقل اور اس کے بیٹے قسطنطین کے ہاتھوں سے قتل ہونے سے بچانے کے لئے انتھونیس کے ساتھ آ گئی۔
لیزا نے روتاس کو یہ بھی بتا دیا کہ ہرقل اور قسطنطین یوکلس کو قتل کروانا چاہتے تھے لیکن انتھونیس نے بروقت دیکھ لیا اور قاتلوں کو قتل کر ڈالا ،لیزا نے یہ واقعہ بھی روتاس کو تفصیل سے سنایا اور کہا کہ انتھونیس بھی اس وجہ سے بھاگ آیا ہے کہ یوکلس اس کا اپنا بیٹا ہے، اور دوسرا یہ کہ ہرقل انتھونیس کو بھی قتل کروا دے گا۔
میں یہ ساری بات سن کر حیران نہیں ہوا۔۔۔ روتاس نے کہا۔۔۔ یہ سب کچھ شاہی خاندانوں میں ہوتا ہی رہتا ہے ایک کی بیوی دوسرے کی داشتہ ہوتی ہے ،بادشاہ کے بیٹے بادشاہ کی دوسری بیویوں یا داشتاوں کے ساتھ تعلقات بنا لیتے ہیں میں تو یہاں تک کہوں گا کہ بادشاہوں کی شکست کی درپردہ وجہ یہی ہے، کیا تم نے کبھی سوچا بھی تھا کہ ایران اور روم جیسی زبردست طاقت عرب کے عام اور انتہائی معمولی لوگوں سے شکست کھا جائیگی شکست بھی ایسی کہ بادشاہ بھاگتے اور پناہ ڈھونڈتے پھریں گے، مسلمان ہمارے دشمن ہی سہی لیکن میں جاسوسی کیلئے مختلف بہروپ دھار کے مسلمانوں کی آبادیوں میں بھی رہا اور ان کے خیموں میں بھی گھوما پھرا تھا ان کے یہاں عیش و عشرت کا کوئی تصور ہی نہیں ان کے کردار پہاڑی چشمے سے پھوٹنے والے پانی کی طرح شفاف ہوتے ہیں ،سطح پر دیکھو تو چشمے جس طرح نظر آتے ہیں مسلمان بالکل ایسے ہی ہیں، یہ ہے ان کی اصل طاقت جس کے سامنے کوئی جنگی طاقت نہیں ٹھہر سکتی ،میرا مشورہ مان لو لیزا ، اب بھی تم اس گناہ سے بچ سکتی ہو، انتھونیس کو لے کر گرجے میں جاؤ اور اس کے ساتھ باقاعدہ شادی کر لو۔
تم میری بات کیوں نہیں سمجھتے روتاس! ۔۔۔لیزا نے اکتاہٹ سے کہا۔۔۔ مجھے انتھونیس کے ساتھ وہ محبت ہے ہی نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، ہرقل سے محبت ہو گئی تھی لیکن اس نے میرے ساتھ جو سلوک کیا اس سے میں سمجھ گئی کہ یہ شخص محبت کے قابل تھا ہی نہیں میں نے اس کے اس جرنیل انتھونیس کے ساتھ دوستی لگا کر اسے دھوکے دیے۔
میں انسان اور جوان عورت ہوں! ۔۔۔ تمہیں بتایا ہے کہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قتل سے بچانے کے لئے اسے ساتھ لے کر انتھونیس کے ساتھ بھاگ آئی۔
اس کے باوجود لیزا! ۔۔۔روتاس نے کہا ۔۔۔ہمیں انتھونیس کے اس عزم کا احترام کرنا چاہیے کہ وہ یسوع مسیح کی سلطنت قائم کرنا چاہتا ہے اس کے ساتھ ہمیں پورا پورا تعاون کرنا چاہیے۔
تم کم عقل انسان ہو روتاس! ۔۔۔لیزا نے طنزیہ سی مسکراہٹ سے کہا۔۔۔ جاسوسی کے محکمے کے ایک ذمہ دار افسر کو اتنا کم فہم نہیں ہونا چاہیے غور کرو گہرائی میں جاؤ، اور پسپائی اور شکست کا جو تجربہ ہمیں ہوا ہے اس پر غور کرو، انتھونیس ایسا خواب دیکھ رہا ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوا کرتی، ان تھوڑے سے مسلمانوں نے ایران اور روم کے بادشاہوں کو کچل ڈالا ہے انتھونیس ناتجربہ کار قبائیلوں کے بل بوتے پر مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتا ، یہ بات تم خود سمجھ سکتے ہو ، یہ تو محاصرہ ہے اور ہم قلعے میں محفوظ ہیں ،اس لئے اتنے دن گزر گئے ہیں، اگر یہ کھلے میدان کی لڑائی ہوتی تو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے مسلمان لڑائی کا فیصلہ اپنے حق میں کرچکے ہوتے۔
اتنی مایوسی لیزا! ۔۔۔روتاس نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔تم انتھونیس اور یوکلس کے ساتھ بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتی ہو؟
نہیں! ۔۔۔لیزا نے کہا ۔۔۔ان کے ساتھ تو میں نے اس مسئلہ پر کبھی بات کی ہی نہیں، ان دونوں کو یقین ہے کہ وہ محاصرہ توڑ کر مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دیں گے۔
لیزا روتاس کو کچھ اور قریب کر لیا اور جذباتی سی سرگوشی میں کہا ۔۔۔کیا تم پسند نہیں کرو گے کہ اس وقت ہم اس مسئلہ پر بات نہ کریں، کیا تم ابھی تک مجھے نہیں سمجھے۔
روتاس بھی آخر جوان آدمی تھا ،اور وہ بھی شاہی خاندان کا تھا، کوئی زاہد اور پارسا تو نہ تھا ،اس پر بھی وہی خمار طاری ہونے لگا جس سے لیزا مخمور تھی ،زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ روتاس اس طرح لیزا کے جذبات کے جال میں آ گیا جیسے مکھی مکڑی کے جالے میں آجاتی ہے۔
لیزا جب وہاں سے رخصت ہونے لگی تو اس کے چہرے پر تعصب کا شائبہ تک نہ تھا بلکہ وہ مطمئن اور مسرور لگتی تھی۔
یہ بھی سوچا ہے لیزا! ۔۔۔روتاس نے پوچھا۔۔۔ اگر انتھونیس کو ہماری اس دوستی کا پتہ چل گیا تو کیا ہو گا؟
بہت برا ہو گا۔۔۔ لیزا نے ہلکے ہلکے سے لہجے میں جواب دیا ،انتھونیس شاید تمہیں قتل کر دے لیکن ہم اسے پتہ ہی کیوں چلنے دیں گے۔
دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لیے ،اور لیزا وہاں سے چل دی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟘  𝟜⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مصر کے قائم مقام امیر تقی الدین نے صلیبیوں کی نظریاتی یلغار کو بروقت فوجی کارروائی سے روک دیا اور اس خفیہ اور پراسرار اڈے کو ہی مسمار کردیا جہاں سے یہ فتنہ اٹھا تھا مگر وہ مطمئن نہیں تھا کیونکہ وہ جان چکا تھا کہ یہ اسلام کش زہر قوم کی رگوں میں اتر گیا ہے۔ اس صلیبی تخریب کاری کو سوڈان سے پشت پناہی مل رہی تھی اور سوڈانیوں کو صلیبیوں کی پشت پناہی حاصل تھی تقی الدین نے اس اڈے کو بھی تباہ کرنے کے لیے سوڈان پر حملے کی تیاریاں تیز کردیں سلطان ایوبی نے وہاں بھی جاسوس بھیج رکھے تھے جن کی جانبازانہ کوششوں سے وہاں کے بڑے نازک راز مل رہے تھے مگر ان رازوں سے جو فائدہ سلطان  ایوبی اٹھا سکتا تھا وہ اس کے بھائی تقی الدین کے بس کی بات نہیں تھی دونوں بھائیوں کا جذبہ تو ایک جیسا تھا لیکن دونوں کی ذہانت میں بہت فرق تھا دونوں بھائی جس کارروائی کا فیصلہ کرتے تھے وہ شدید ہوتی تھی فرق یہ تھا کہ سلطان ایوبی محتاط رہتا تھا اور تقی الدین بے صبر ہوکر احتیاط کا دامن چھوڑ دیتا تھا۔ اسے جب فوجی مشیروں نے کہا کہ سوڈان پر حملے کا فیصلہ دانشمندانہ ہے لیکن محترم ایوبی سے مشورہ لے لینا ضروری ہے تو تقی الدین نے  اپنے مشیروں کے اس مشورے کو مسترد کرتے ہوئے کہا کیا آپ لوگ امیر محترم  کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ آپ ان کے بغیر کچھ سوچ نہیں سکتے اور کچھ کر نہیں سکتے؟ 
کیا آپ بھول گئے ہیں کہ مصر سے اتنی دور محترم ایوبی کس طوفان میں گھرے ہوئے ہیں؟ 
اگر ہم نے ان سے مشورے اور فیصلے کا انتظار کیا تو اس  کا نتیجہ یہ ہوگا کہ سوڈانی حملے میں پہل کرکے ہم پر سوار ہوجائیں گے
آپ ابھی حملے کا حکم دیں ایک نائب سالار نے کہا فوج اسی حالت میں رسد کے بغیر کوچ کر جائے گی لیکن اتنی بڑی اور اتنی اہم مہم کے لیے گہری سوچ  بچار کی ضرورت ہے ہم کوچ کی تیاری کے تمام تر انتظامات بہت تھوڑے وقت میں کرلیں گے آپ محترم ایوبی کو اطلاع ضرور دے دیں تاکہ وہ اور محترم  نورالدین زنگی ادھر بھی دھیان رکھیں
تقی الدین چند ایسے عناصر  اور کوائف کو نظر انداز کررہا تھا جو اس کے حملے کو ناکام کرسکتے تھے ایک  یہ کہ صلیبیوں اور سوڈانیوں کے جاسوس مصر میں موجود تھے جو یہاں کی نقل وحرکت دیکھ رہے تھے تقی الدین کی کمزوری یہ بھی تھی کہ اس کے دشمن کے جاسوس مسلمان بھی تھے جو انتظامیہ اور فوج میں اونچے عہدوں پر فائز تھے اس کے مقابلے میں تقی الدین کے جاسوس سوڈانیوں کے پالیسی سازوں اور حکام تک  نہیں پہنچ سکتے تھے دوسرے یہ کہ سلطان ایوبی نے ١١٦٩ء میں مصر کی جس سوڈانی فوج کو بغاوت کے جرم میں توڑ دیا تھا اس کے کئی ِایک کمان دار اور  عہدے دار سوڈان میں تھے وہ سلطان ایوبی کی جنگی چالوں سے واقف تھے انہوں نے انہی چالوں کے مطابق اپنی فوج کی تربیت کی تھی صلیبیوں نے انہیں نہایت  اچھا اسلحہ اور ضرورت سے زیادہ جنگی سامان دے رکھا تھا یہ گھر کے بھیدی تھے تقی الدین نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ سوڈان کے جس علاقے میں پیش قدمی کرنے جارہا ہے وہ ایک وسیع صحرا ہے جہاں پانی خطرناک حد تک کم ہے اور وہ مقام جہاں حملہ کرنا ہے اتنا دور ہے جہاں تک رسد کو خطرے میں ڈالے بغیر رواں رکھنا ممکن نہیں ہوگا مصر کے اندرونی حالات کو قابو میں رکھنے اور  تخریب کاری کے انسداد کے لیے بھی فوج درکار تھی مگر تقی الدین اس قدر بھڑکا ہوا تھا کہ اس نے مکمل طور پر نیک نیتی اور اسلامی جذبے کی شدت کے زیر اثر  حملے کی تیاریاں شروع کردیں اور سلطان ایوبی کو اطلاع نہ دینے کا فیصلہ  کرلیا۔
اس کی اس خودمختاری میں وہی جذبہ تھا جو سلطان ایوبی میں  تھا اسے احساس تھا کہ سلطان ایوبی کا مقابلہ تند اور تیز طوفان سے ہے اور  صلیبی فیصلہ کن جنگ لڑنے کا اہتمام کیے ہوئے ہیں اس نے جو کچھ سوچا تھا  درست تھا اس وقت سلطان ایوبی کرک سے آٹھ نو میل دور ایک چٹانی علاقے میں اپنا ہیڈ کوارٹر قائم کیے ہوئے تھے۔ یہ اس کا عارضی قیام تھا وہ اپنے ہیڈکوارٹر کو خانہ بدوش رکھا کرتا تھا جس مقام پر اسے حملہ کرانا یا شب خون مروانا ہوتا، وہ اس کے قریب رہتا اور حملہ کرنے والے دستے کے کمانڈر کو بتا دیا کرتا تھا کہ وہ ان کی واپسی کے وقت کہاں ہوگا، اس کے چھاپہ مار (کمانڈو جانباز) صلیبی فوج کی تمام تر کمک تباہ کرچکے تھے۔ چھاپہ ماروں کے چھوٹے چھوٹے گروہ اس صلیبی فوج کے لیے ناگہانی مصیبت بنے ہوئے تھے جو صحرا  میں پھیلی ہوئی تھی صلیبیوں کا نقصان تو بہت ہورہا تھا لیکن چھاپہ ماروں کی شہادت غیرمعمولی طور پر زیادہ تھی دس جانباز جاتے تو تین چار واپس آتے تھے یہ رپورٹیں بھی ملنے لگی تھیں کہ صلیبیوں نے ایسے انتظامات کرلیے ہیں  جو شب خون اور چھاپے کو کامیاب نہیں ہونے دیتے لہٰذا اب چھاپہ ماروں کو جان کی بازی لگانی پڑتی تھی سلطان ایوبی اب اپنی چالیں اور فوجوں کا پھیلاؤ بدلنے کی سوچ رہا تھا
معلوم ہوتا ہے کہ صلیبی مجھے آمنے  سامنے آنے پر مجبور کررہے ہیں سلطان ایوبی نے اپنے فوجی نائبین سے کہا میں انہیں کامیاب نہیں ہونے دوں گا اور میں اب اپنے اتنے زیادہ جوان  مروانے سے بھی گریز کروں گا
میں چھاپہ مار دستوں کی نفری میں اضافہ کرنے کا مشورہ دوں گا ایک نائب نے کہا اور میں یہ بھی مشورہ  دوں گا کہ ہمیں دشمن کی قوت کو صرف اس لیے نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ ہماری فوج میں جذبہ زیادہ ہے جذبہ سپاہی کو بے جگری سے لڑا کر مروا سکتا ہے فتح کا ضامن نہیں ہوسکتا صلیبیوں کے مقابلے میں ہماری نفری بہت کم ہے ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ صلیبی فوج کا بیشتر حصہ زرہ پوش ہے
سلطان ایوبی مسکرایا اور بولا لوہا جو انہوں نے پہن رکھا ہے وہ انہیں نہیں ہمیں فائدہ دے گا کیا آپ نے دیکھا نہیں کہ صلیبی کوچ کرتے ہیں تو رات کو کرتے ہیں یا صبح کے وقت؟ 
اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ دھوپ سے بچنے کی کوشش  کرتے ہیں سورج اوپر اٹھتا ہے تو اس کی تمازت زرہ بکتر کو انگاروں کی طرح گرم کردیتی ہے زرہ پوش سپاہی اور سوار لوہے کے خود اور آہنی سینہ پوش اتار پھینکنا چاہتے ہیں اس کے علاوہ لوہے کا وزن ان کی حرکت کی تیزی ختم  کردیتا ہے میں انہیں دوپہر کے وقت لڑاؤں گا جب ان کے سروں پر رکھا ہوا لوہا ان کا پسینہ نکال کر ان کی آنکھوں میں ڈالے گا اور وہ اندھے ہوجائیں گے آپ نفری کی کمی کو متحرک طریقۂ جنگ سے اور جذبے سے پورا کریں

اتنے میں سلطان ایوبی کے انٹیلی جنس کے سربراہ علی بن سفیان کا ایک نائب زاہد ان آگیا اس کے ساتھ دو آدمی تھے سلطان ایوبی کی آنکھیں چمک اٹھیں ان دونوں آدمیوں کو اس نے بٹھایا اور پوچھا کیا خبر ہے؟
دونوں نے اپنے اپنے گریبان کے اندر ہاتھ ڈالے اور لکڑی کی بنی ہوئی وہ صلیبیں باہر نکالیں جو ان کی گردنوں سے بندھی ہوئی تھیں وہ صلیبی نہیں مسلمان تھے اپنے آپ کو صلیبی ظاہر کرنے کے لیے وہ صلیبیں گلے میں لٹکا لیتے تھے دونوں نے صلیبیں اتار کر نیچے پھینک دیں
ان میں سے ایک نے اپنی رپورٹ پیش کی
یہ دونوں جاسوس تھے جو کرک سے واپس آئے تھے پہلے بھی ذکر آچکا تھا کہ کرک فلسطین کا ایک قلعہ بند شہر تھا جس پر صلیبیوں کا قبضہ تھا صلیبی شوبک نام کا ایک قلعہ سلطان ایوبی کے ہاتھ ہار چکے تھے وہ کرک کسی قیمت پر دینا نہیں چاہتے تھے اس کے بعد انہوں نے دفاعی انتظامات بڑے ہی سخت کردیئے تھے جن میں ایک بندوبست یہ تھا کہ وہ قلعہ بند ہوکر نہیں لڑنا چاہتے تھے شوبک سے جب عیسائی اور یہودی باشندے مسلمانوں کے ڈر سے کرک بھاگ رہے تھے اس وقت سلطان ایوبی نے اپنی فوج اور انتظامیہ کو یہ حکم دیا تھا کہ بھاگنے  والے غیر مسلموں کو روکیں اور انہیں واپس لاکر ان کے ساتھ اچھا سلوک کریں لیکن سلطان ایوبی نے ایک خفیہ حکم یہ بھی دیا تھا کہ زیادہ تر باشندوں کو جانے دیں اس حکم میں راز یہ تھا کہ غیر مسلم باشندوں میں سلطان کے جاسوس بھی جا رہے تھے اپنے جاسوس دشمن کے اس شہر میں اور مضافات میں جس پر تھوڑے  عرصے بعد حملہ کرنا تھا بھیجنے کا یہ موقع نہایت اچھا تھا مسلمان جاسوس عیسائی اور یہودی پناہ گزینوں کے بھیس میں کرک چلے گئے تھے وہاں کے مسلمان باشندوں کو ساتھ ملا کر انہوں نے خفیہ اڈے بنا لیے تھے وہ وہاں سے اطلاعات بھیجتے رہتے تھے سلطان ایوبی ذاتی طور پر ان کی رپورٹیں سنا کرتا تھا
اس روز دو جاسوس آئے تو سلطان ایوبی نے انہیں فوراً اپنے خیمے میں بلا لیا اور باقی سب کو باہر نکال دیا جاسوسوں کی رپورٹ میں صلیبیوں کی فوج کی نقل وحرکت اور ترتیب کے متعلق اطلاعات تھیں سلطان ایوبی ان کے مطابق نقشہ بناتا رہا اس دوران اس کے چہرے پر کوئی تبدیلی نہیں آئی جاسوسوں نے جب کرک کے مسلمان باشندوں کی بے بسی اور مظلومیت کی تفصیل سنائی تو سلطان کے چہرے پر نمایاں تبدیلی آگئی ایک بار تو وہ جوش میں اٹھ کر کھڑا ہوا اور خیمے میں ٹہلنے لگا جاسوسوں نے اسے بتایا کہ شوبک سے صلیبی شکست کھا کر کرک پہنچے تو انہوں نے مسلمانوں کا جینا حرام کردیا سلطان ایوبی کو بہت سے حالات کا تو پہلے سے علم تھا ان دو جاسوسوں نے اسے بتایا کہ اب وہاں بازار میں جن مسلمانوں کی دکانیں ہیں وہ بہت پریشان ہیں
غیر مسلم تو ان کی دکانوں پر جاتے ہی نہیں مسلمانوں کو بھی ڈرا دھمکا کر ان کی دکانوں سے دور رکھا جاتا ہے وہاں مسلمانوں کے خلاف نفرت کی باقاعدہ مہم  شروع کی گئی ہے عیسائی اور یہودی مسجدوں کے سامنے اونٹ گھوڑے اور دیگر مویشی باندھ دیتے ہیں آذان اور نماز پر کوئی پابندی نہیں لیکن جب آذان ہوتی ہے تو غیر مسلم شور مچاتے ناچتے اور مذاق اڑاتے ہیں
جاسوسوں نے بتایا کہ مسلمانوں کا قومی جذبہ ختم کرنے کے لیے وہاں اس قسم کی افواہیں زور و شور سے پھیلائی جارہی ہیں کہ صلاح الدین ایوبی اتنا شدید زخمی ہوکر دمشق چلا گیا ہے کہ اب تک مرچکا ہوگا اور یہ بھی کہ سلطان ایوبی کی فوج کمان کی کمزوری کی وجہ سے صحرا میں بکھر گئی ہے اور سپاہی مصر کی طرف بھاگ رہے ہیں اور یہ بھی کہ مسلمان اب کرک پر حملہ کرنے کے قابل نہیں رہے اور  بہت جلدی شوبک بھی صلیبیوں کو واپس ملنے والا ہے اور یہ بھی کہ سوڈانی فوج  نے مصر پر حملہ کردیا ہے اور مصر کی فوج سوڈانیوں کے ساتھ مل گئی ہے جاسوسوں نے بتایا کہ اب علی الصبح پادری مسلمان محلوں میں گھومتے پھرتے  اور ہر مسلمان گھر کے دروازے پر گھنٹیاں بجاتے اپنے مذہبی گیت گاتے اور  مسلمانوں کو دعائیں دیتے ہیں وہ اپنے مذہب کا اور کوئی پرچار نہیں کرتے یہ پرچار وہاں کی عیسائی اور یہودی لڑکیاں کرتی ہیں جو مسلمان نوجوانوں کو جھوٹی محبت کا جھانسہ دے کر ان کے ذہن تباہ کررہی ہیں یہ لڑکیاں مسلمان لڑکیوں کی سہیلیاں بن کر انہیں اپنی آزادی کی بڑی ہی دلکش تصویر دکھاتی اور  انہیں بتاتی ہیں کہ مسلمان فوج جو علاقہ فتح کرتی ہے وہاں مسلمان لڑکیوں کو بھی خراب کرتی ہے
ان رپورٹوں میں سلطان ایوبی کے لیے کوئی بات نئی نہیں تھی ابتداء میں اس کے جاسوس اسے کرک کے مسلمانوں کی حالت زار بتا چکے تھے وہاں کے مسلمانوں کا یہ حال تھا کہ وہ سلطان ایوبی اور اس کی فوج کے خلاف کوئی حوصلہ شکن افواہ نہیں سننا چاہتے تھے لیکن وہاں جو بھی بات ان کے کانوں میں پڑتی تھی حوصلہ شکن ہوتی تھی وہ ڈرتے بات نہیں کرتے تھے
ان کے گھروں کی دیواروں کے بھی کان تھے وہ اکٹھے بیٹھنے سے بھی ڈرتے تھے جنازے اور بارات کے ساتھ بھی جاسوس ہوتے تھے اور مسجدوں میں بھی جاسوس ہوتے تھے ان کی بدنصیبی تو یہ تھی کہ جاسوسی ان کے اپنے مسلمان بھائی کرتے تھے وہ اپنے گھروں میں بھی سرگوشیوں میں باتیں کرتے تھے کسی مسلمان کے خلاف صرف یہ کہہ دینا کہ وہ صلیبی حکومت کے خلاف ہے اسے بیگار کیمپ میں بھیجنے کے لیے کافی ہوتا تھا
لیکن سالار اعظم! ایک جاسوس نے کہا اب وہاں ایک اور چال چلی جارہی ہے وہ یہ ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ  اچھا سلوک ہونے لگا ہے صلیبی حکومت نے اس کی ایک مثال یہ پیش کی ہے کہ ایک  عیسائی حاکم نے ایک مسجد کو بوسیدہ حالت میں دیکھا تو اس کی مرمت کا حکم دیا اور اپنی نگرانی میں مرمت کرادی انہوں نے بیگار کیمپ کے مسلمانوں کو رہا تو نہیں کیا لیکن کچھ سہولتیں دے دی ہیں روز مرہ مشقت کا وقت بھی کم  کردیا ہے لیکن ان کے کانوں میں یہی ڈالا جاتا ہے کہ تم نے صلیب کے خلاف بہت بڑا جرم کیا ہے پھر بھی تم پر رحم کیا جارہا ہے یہ پیار اور محبت کا ہتھیار بڑا ہی خطرناک ہے۔ اس جھوٹے پیار سے غیرمسلم مسلمان نوجوانوں کو نشے اور جوئے کا عادی بناتے جارہے ہیں اگر ہم نے حملے میں وقت ضائع کیا تو کرک کے مسلمان اگر مسلمان ہی رہے تو برائے نام مسلمان ہوں گے ورنہ وہ قرآن سے منہ موڑ کر گلے میں صلیب لٹکا لیں گے اس صورت میں وہ اس وقت ہماری کوئی مدد نہیں کریں گے جب ہم کرک کا محاصرہ کریں گے اس پیار کے ساتھ ساتھ  مسلمانوں کے خلاف جاسوسی پہلے سے زیادہ ہوگئی ہے اور گرفتاریاں ہوتی رہتی ہیں ابھی تک مسلمانوں کا جذبہ قائم ہے اور وہ ثابت قدم رہنے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں انہوں نے ابھی تک غیر مسلموں کے پیار کو قبول نہیں کیا مگر وہ زیادہ دیر تک ثابت قدم نہیں رہ سکیں گے یہی وہ صورت حال تھی جس کی تفصیل سن کر سلطان ایوبی پریشان ہوگیا تھا اسے یہ اطلاع بہت تکلیف دے  رہی تھی کہ مسلمان مسلمانوں کے خلاف جاسوسی کررہے ہیں اس کے لیے پریشانی کی دوسری وجہ یہ تھی کہ مقبوضہ علاقے میں صلیبیوں نے مسلمانوں کے خلاف پیار  کا ہتھیار استعمال کرنا شروع کردیا تھا اور اس کے ساتھ ہی نوجوانوں کی کردار کشی کا بھی عمل شروع ہوگیا تھا ان دونوں سے زیادہ خطرناک وہ افواہیں تھیں جو وہاں کے مسلمانوں میں اسلامی فوج کے خلاف پھیلائی جارہی تھیں اس نے اپنے نظام جاسوسی کے نائب زاہدان کو بلایا اور پوچھا کیا تم نے ان کی  باتیں سن لی ہیں؟
ایک ایک لفظ سنا اور انہیں آپ کے پاس لایا ہوں زاہدان نے جواب دیا
علی بن سفیان کو قاہرہ سے بلا لوں؟
سلطان ایوبی نے پوچھایا تم  اس کی جگہ پُر کرسکو گے؟ 
یہ معاملہ نازک ہے دشمن کے شہر میں مسلمانوں کو  افواہوں اور دشمن کے زہریلے پیار سے بچانا ہے
علی بن سفیان کو قاہرہ سے بلانے کی ضرورت نہیں زاہدان نے جواب دیا حسن بن عبداللہ کو بھی ان کے ساتھ رہنے دیں مصر کے حالات اچھے نہیں ملک تخریب کاروں اور غداروں سے بھرا پڑا ہے کرک کے مسئلے کو میں سنبھال لوں گا
تم نے کیا سوچا ہے؟
سلطان صلاح الدین ایوبی نے اس سے پوچھا وہ دراصل  زاہدان کا امتحان لے رہا تھا وہ جانتا تھا کہ زاہدان مخلص اور محنتی سراغ رساں ہے اور اپنے شعبے کے سربراہ علی بن سفیان کا شاگرد ہے اس پر سلطان کو پورا پورا اعتماد تھا پھر بھی وہ یقین کرنا ضروری سمجھتا تھا کہ یہ شاگرد اپنے استاد کی کمی پوری کرے گا اس نے زاہدان کا جواب سنے بغیر کہا زاہدان! میں نے میدان جنگ میں شکست نہیں کھائی یہ خیال رکھنا کہ میں اس  محاذ پر بھی شکست نہیں کھانا چاہتا جس پر صلیبیوں نے حملہ کیا ہے میں کرک کے مسلمانوں کو اخلاقی اور نظریاتی تباہی سے بچانا چاہتا ہوں
آپ جانتے ہیں کہ کرک میں ہمارے جاسوس موجود ہیں
زاہدان نے کہا میں انہیں اس مقصد کے لیے استعمال کروں گا وہ وہاں کے مسلمانوں کو آپ کے  متعلق اور ہماری فوج اور مصر کے متعلق صحیح خبریں سناتے رہیں گے اور انہیں  آپ کا پیغام دیں گے
وہاں کی مسلمان عورتوں میں قومی جذبے کی کمی نہیں ایک جاسوس بول پڑا اس نے کہا ہم جوان لڑکیوں سے کہیں گے کہ وہ گھر گھر جاکر عورتوں کے ذہن صاف کرتی رہیں گی ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ وہاں کی لڑکیاں لڑنے کے لیے بھی تیار ہیں
عورتیں اگر گھر اور بچوں کی تربیت کا محاذ سنبھالے رکھیں تو اسی سے اسلام کے فروغ اور سلطنت اسلامیہ کی توسیع میں بہت مدد ملے گی سلطان ایوبی نے کہا انہیں اس مقصد کے لیے استعمال کرو کہ مسلمان گھرانوں میں اور بچوں میں غیراسلامی اثرات داخل نہ ہونے دیں میں اس کوشش میں مصروف ہوں کہ کرک پر جلدی حملہ کردوں اور شوبک کی طرح وہاں کے بھی مسلمانوں کو آزاد کراؤں اس نے زاہدان سے پوچھا اس مقصد کے لیے کسے کرک بھیجو گے؟
انہی دونوں کو زاہدان نے جواب دیا یہ آنے جانے کے راستوں اور طریقوں سے واقف ہوچکے ہیں اور وہاں کے حالات اور ماحول سے مانوس ہیں
یہ دونوں آدمی غیر معمولی طور پر ذہین جاسوس تھے سلطان ایوبی نے انہیں ہدایات دینی شروع کردیں
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
کرک میں مسلمان باشندوں پر پیار کا جو ہتھیار چلایا جارہا تھا وہ صلیبیوں کی انٹیلی جنس کے ڈائریکٹر جرمن نژاد ہرمن کی چال تھی وہ شوبک کی شکست کے  بعد صلیبی حکمرانوں پر زور دے رہا تھا کہ کرک کے مسلمانوں کو پیار کا دھوکہ دے کر صلیب کا وفا دار بنایا جائے یا کم از کم صلاح الدین ایوبی کے خلاف کردیا جائے صلیبی حکمران مسلمانوں سے اتنی زیادہ نفرت کرتے تھے کہ ان کے ساتھ جھوٹا پیار بھی نہیں کرنا چاہتے تھے وہ تشدد اور درندگی سے مسلمانوں کا قومی جذبہ اور وقار ختم کرنے کے قائل تھے ہرمن اپنے فن کا ماہر تھا انسانوں کی نفسیات سمجھتا تھا اس نے صلیبی حکمرانوں کو بڑی مشکل سے اپنا ہم خیال بنایا اور یہ پالیسی مرتب کرالی کہ شہر اور مضافات کے اس علاقے کے مسلمانوں کو جو صلیبی استبداد میں ہے جسے مشتبہ اور جاسوس سمجھا جائے اور جس مسلمان کے خلاف ذرا سی بھی شہادت ملے اسے گرفتار کرکے غائب کر دیا جائے لیکن ہر مسلمان شہری کو دہشت زدہ نہ کیا جائے اس پالیسی کی بنیادی شق یہ تھی کہ لڑکیوں کے ذریعے مسلمان لڑکیوں کو بے پردہ کیا جائے اور مسلمان لڑکیوں کو ذہنی عیاشی اور نشے کا عادی بنا دیا جائے مختصر یہ ہے کہ ان کی کردار کشی کا انتظام کیا جائے لہٰذا اس پالیسی پر عمل شروع کردیا گیا تھا ابتداء افواہوں سے کی گئی تھی ہرمن نے یہ منظوری بھی لے لی تھی کہ مسلمانوں میں غداری کے جراثیم پیدا کرنے کے لیے خاصی رقم خرچ کی جائے چند  ایک مسلمانوں کو خوبصورت اور تندرست گھوڑوں کی بگھیاں دے کر انہیں شہزادہ بنا دیا جائے اور انہیں مسلمانوں کے خلاف مخبری اور ان میں افواہیں پھیلانے  کے لیے استعمال کیا جائے انہیں شاہی دربار میں وقتاً فوقتاً مدعو کرکے ان کے ساتھ شاہانہ سلوک کیا جائے ان کی مستورات کو بھی مدعو کرکے ان کی عزت کی جائے کہ وہ اپنی اصلیت اور اپنا مذہب ذہن سے اتار دیں ہرمن نے کہا تھا اگر آپ مسلمان کو اپنا غلام بنانا چاہتے ہیں تو اس کے دماغ میں بادشاہی کا کیڑا ڈال دیں انہیں گھوڑے اور بگھیاں دے کر اس کے دامن میں چند ایک اشرفیاں ڈال دیں پھر وہ بادشاہی کے نشے میں آپ کے اشاروں پر ناچے گا شراب بھی پئے گا اور اپنی بیٹیوں کو اپنے ہاتھوں برہنہ کرکے آپ کے حوالے کردے گا اگر آپ مسلمان کا مستقبل تاریک کرنا چاہتے ہیں تو یہ نسخہ آزمائیں میں آپ کو پہلے بھی بتا چکا ہوں اور اب پھر بتاتا ہوں کہ یہودیوں نے مسلمانوں کی اخلاقی تباہی کے لیے اپنی لڑکیاں پیش کی ہیں آپ جانتے ہیں کہ مسلمان کا سب سے پرانا اور سب سے بڑا دشمن یہودی ہے اسلام کی جڑیں تباہ کرنے کے لیے یہودی اپنی بیٹیوں کی عزت اور اپنی پونجی کا آخری سکہ بھی قربان کرنے کو تیار رہتے ہیں
یہودیوں میں خطرہ یہ تھا کہ وہ اسی خطے کے رہنے  والے تھے اس لیے مسلمانوں کی زبان بولتے تھے اور ان کے رسم ورواج اور گھریلو زندگی سے بھی واقف تھے ان کی شکلیں اور کئی دیگر کوائف ملتے جلتے  تھے کوئی یہودی لڑکی مسلمانوں کا لباس پہن کر کسی مسلمان گھر میں جا بیٹھے تو اسے بلا شک وشبہ مسلمان سمجھ لیا جاتا تھا اس مشابہت سے یہودی پورا پورا فائدہ اٹھا رہے تھے اور اسلامی معاشرت میں غیر اسلامی زہر داخل ہونا شروع ہوگیا تھا
جس روز سلطان ایوبی نے دو جاسوسوں کو ہدایات دیں  اور زاہدان سے کہا تھا کہ وہ کرک میں جاسوسوں کے ذریعے مسلمانوں کو صحیح خبریں پہنچائے اس سے بیس روز بعد کرک میں ایک پاگل اور مجذوب اچانک کہیں سے  نمودار ہوا اس نے ہاتھ میں لکڑی کی بنی ہوئی گز بھر لمبی صلیب اٹھا رکھی تھی جسے وہ اوپر کرکے چلاتا تھا مسلمانوں کی تباہی کا وقت قریب آگیا ہے شوبک میں مسلمان اپنی بیٹیوں کی عصمت دری کر رہے ہیں مصر میں مسلمانوں نے شراب پینا شروع کر دی ہے خدائے یسوع مسیح نے کہا ہے کہ اب یہ قوم روئے زمین پر زندہ نہیں رہ سکتی مسلمانو! نوح کے دوسرے طوفان سے بچنا چاہتے ہوتو صلیب کے سائے میں آجاؤ اگر صلیب پسند نہیں تو خدائے یہودہ کے آگے سجدہ کرو مسجدوں میں تمہارے سجدے بے کار ہیں
لباس اور شکل وصورت سے وہ اچھا بھلا لگتا تھا لیکن باتوں اور انداز سے پگلا معلوم ہوتا تھا اس کی داڑھی بھی تھی،لمبا چغہ پہن رکھا تھا سر پر پگڑی اور اس پر رومال ڈالا ہوا تھا جو کندھوں پر بھی پھیلا ہوا تھا اس کے چہرے اور کپڑوں پر گرد تھی جس سے پتا چلتا تھا کہ وہ سفر سے آیا ہے اس کے پاؤں گرد آلود تھے اسے کوئی روکتا اور بات کرتا تھا تو وہ رک جاتا تھا لیکن کوئی جواب نہیں دیتا تھا کوئی بات جیسے سنتا سمجھتا ہی نہیں تھا سوال کوئی بھی پوچھو وہ اپنا اعلان دہرانے لگتا تھا مسلمانوں کی تباہی کا وقت قریب آگیا ہے  وغیرہ کسی نے بھی یہ معلوم کرنے کی کوشش نہ کی کہ وہ کون ہے اور کہاں سے آیا ہے عیسائی اس لیے خوش تھے کہ اس نے ہاتھ میں صلیب اٹھا رکھی تھی اور خدا یسوع مسیح کا نام لیتا تھا یہودی اس لیے خوش تھے کہ وہ خدائے یہودہ کا نام لیتا تھا اور دونوں کی یہ خوشی مشترک تھی کہ وہ مسلمانوں کی تباہی کی خوشخبری سنا رہا تھا صلیبی فوج کے چند ایک سپاہیوں نے اس کی للکار سنی تو انہوں نے قہقہہ لگایا شہری انتظامیہ کی فوج (جو بعد میں پولیس کہلائی) نے اسے دیکھا تو اسے پاگل کہہ کر نظر انداز کردیا مسلمانوں میں اتنی جرأت  نہیں تھی کہ اس کا منہ بند کرتے مسلمان اس کے منہ سے اپنی تباہی کا اعلان  سن کر ڈر بھی گئے تھے اور انہیں غصہ بھی آیا تھا مگر کچھ بھی نہیں کرسکتے  تھے
یہ مجذوب شہر کی گلیوں اور بازاروں میں گھوم رہا تھا اور اس اعلان کو دہراتا جارہا تھا مسلمانو! صلیب کے سائے میں آجاؤ تمہاری تباہی کا وقت آگیا ہے
مسجدوں میں تمہارے سجدے بے کار ہیں کہیں کہیں وہ  یہ بھی کہتا تھا کرک میں مسلمانوں کی فوج نہیں آئے گی ان کا صلاح الدین  ایوبی مرچکا ہے بعض اوقات وہ اوٹ پٹانگ اور بے معنی فقرے سے بولتا تھا جو ثابت کرتے تھے کہ وہ پاگل ہے۔ بچے اس کے پیچھے پیچھے چلے جارہے تھے بڑے  عمر کے آدمی بھی کچھ دور تک اس کے پیچھے پیچھے چلتے اور رک جاتے تھے وہاں سے چند اور آدمی اس کے پیچھے چل پڑتے تھے مسلمان اسے غصے کی نگاہ سے بھی دیکھتے تھے اور اپنے بچوں کو اس کے پیچھے جانے سے روکتے تھے صرف ایک مسلمان تھا جو اس پاگل کے پیچھے پیچھے جارہا تھا وہ پاگل سے دس بارہ قدم دور تھا یہ ایک جواں سال مسلمان تھا راستے میں دو عیسائی نوجوانوں نے اسے طعنے دیئے ایک نے اسے کہا عثمان بھائی تم بھی صلیب کے سائے میں  آجاؤ اس نے انہیں قہر بھری نظروں سے دیکھا اور چپ رہا ان عیسائیوں کو معلوم نہیں تھا کہ عثمان کے پاس ایک خنجر ہے اور وہ اس پاگل کو قتل کرنے کے لیے اس کے پیچھے پیچھے جارہا ہے۔
اس کا پورا نام عثمان صارم تھا اس کے ماں باپ زندہ تھے اور اس کی ایک چھوٹی بہن بھی تھی جس کا نام النور صارم تھا اس لڑکی کی عمر بائیس تئیس سال تھا عثمان اس سے تین چار سال بڑا  تھا جو جوشیلا جوان تھا اسلام کے نام پر جان نثار کرتا تھا صلیبی حکومت کی نظر میں وہ مشتبہ بھی تھا کیونکہ وہ مسلمان نوجوانوں کو صلیبی حکومت کے خلاف زمین دوز کارروائیوں کے لیے تیار کرتا رہتا تھا وہ ابھی کوئی جرم کرتا پکڑا نہیں گیا تھا اس نے جب اس پاگل کی آواز سنی تو باہر نکل آیا پاگل اتنی بڑی صلیب بلند کیے مسلمانوں کے خلاف بلند آواز میں واہی تباہی بکتا جارہا تھا عثمان صارم نے یہ بھی نہ دیکھا یہ تو کوئی پاگل ہے اس نے صلیب دیکھی اور پاگل کے الفاظ سنے تو اس پر دیوانگی طاری ہوگئی اپنے گھر جاکر اس نے خنجر لیا اور کُرتے کے اندر ناف میں اڑس کر پاگل کے پیچھے پیچھے چل پڑا وہ اسے ایسی جگہ قتل کرنا چاہتا تھا جہاں اسے کوئی پکڑ نہ سکے وہ صلیبیوں کے خلاف مزید کارروائیوں کے لیے زندہ رہنا چاہتا تھا وہ پاگل سے دس بارہ قدم پیچھے چلتا گیا اور اس کا اعلان سنتا گیا جب دو عیسائیوں نے اسے طعنے دیئے اور ایک نے کہا کہ عثمان بھائی تم بھی صلیب کے سائے میں آجاؤ تو اس کی آنکھوں میں خون اتر آیا اس کے دل میں قتل کا ارادہ اور  زیادہ پختہ ہوگیا
پاگل کے پیچھے اور اس کے ساتھ ساتھ لوگوں اور بچوں کا جلوس جمع ہوگیا تھا قتل کا یہ موقعہ اچھا نہیں تھا دن گزرتا گیا اور پاگل کی آواز دھیمی پڑتی گئی اس کے پیچھے چلنے والے کم ہوتے گئے سورج غروب ہونے میں ابھی کچھ دیر باقی تھی ایک مسجد آگئی پاگل مسجد کے دروازے میں بیٹھ گیا اور اس نے صلیب اوپر کرکے کہا اب یہ گرجا ہے مسجد نہیں  ہے اس وقت عثمان صارم اس کے قریب جاکھڑا ہوا اسے اچھی طرح احساس تھا کہ یہ بے شک پاگل ہے لیکن اس کے قتل کی سزا بھی موت ہوگی کیونکہ اس نے صلیب اٹھا رکھی ہے اور یہ مسلمانوں کے خلاف نعرے لگا رہا ہے عثمان صارم نے  پاگل کے قریب ہوکر دھیمی آواز میں کہا یہاں سے فوراً اٹھو اور اپنی صلیب کے ساتھ غائب ہو جاؤ ورنہ صلیبی یہاں سے تمہاری لاش اٹھائیں گے
پاگل نے اسے نظر بھر کر دیکھا اس کے سامنے بہت سے بچے کھڑے تھے اس نے عثمان صارم کی دھمکی کا جواب دیئے بغیر بچوں کو ڈانٹ کر بھاگ جانے کو کہا بچے ڈر کر بھاگ گئے تو پاگل مسجد کے اندر چلا گیا عثمان صارم کے لیے یہ موقعہ بہت اچھا تھا اس نے کچھ سوچے بغیر چوکڑی بھری دروازے کے اندر گیا اور دروازہ بند کر دیا اس نے بہت تیزی سے خنجر نکالا مگر وار کرنے لگا تو  پاگل نے گھوم کر دیکھا عثمان کے خنجر کا وار اپنی طرف آتا دیکھ اس نے صلیب آگے کرکے وار صلیب پر لیا اور کہا رک جاؤ جوان اندر چلو میں مسلمان ہوں
عثمان صارم نے دوسرا وار نہ کیا پاگل جوتے اتار کر مسجد کے اندرونی کمرے میں چلا گیا اس نے صلیب اپنے ہاتھ میں رکھی اندر جاکر اس نے عثمان صارم سے نام پوچھا اور کہا میں مسلمان ہوں میری باتیں غور سے سن لو مجھے بتاؤ کہ تم کب سے میرے پیچھے آرہے ہو؟
میں سارا دن تمہارے پیچھے پھرتا رہا ہوں عثمان صارم نے جواب دیا مگر مجھے قتل کا موقعہ نہیں مل رہا تھا
تم مجھے قتل کیوں کرنا چاہتے ہو؟
پاگل نے پوچھا کیونکہ میں اسلام اور صلاح الدین ایوبی کے خلاف کوئی بات برداشت نہیں کر سکتا عثمان صارم نے جواب دیا پاگل ہو یا نہیں میں تمہیں زندہ نہیں چھوڑوں گا
پاگل نے اس سے کئی اور باتیں پوچھیں آخر اس نے  کہا مجھے تم جیسے ایک جوان کی ضرورت تھی اچھا ہوا کہ تم خود ہی میرے پیچھے آگئے میرا خیال تھا کہ مجھے اپنے مطلب کا کوئی مسلمان بڑی مشکل سے ملے گا میں صلاح الدین ایوبی کا بھیجا ہوا جاسوس ہوں میں نے یہ ڈھونگ صلیبیوں کو دھوکہ دینے کے لیے رچایا ہے میں نے اس بھیس میں سفر کیا ہے مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں یاد رکھو کہ مسجد میں کوئی صلیبی آگیا تو میں پھر وہی بکواس شروع کردوں گا جو دن بھر کرتا رہا ہوں تم غور سے سنتے رہنا جیسے تم مجھ سے متاثر ہورہے ہو میں بہت تیزی سے بولوں گا شام کی نماز کا وقت ہو رہا ہے مسلمانوں میں صلیبیوں کے بھی جاسوس ہیں
میں نمازیوں کے آنے تک اپنی بات ختم کرنا چاہتا ہوں
عثمان صارم نے کبھی جاسوس نہیں دیکھا تھا اسے معلوم نہیں تھا کہ یہ غیر معمولی طور پر ذہین جاسوس ہے جس نے اسے چند سوال پوچھ کر پہچان لیا ہے کہ یہ جوان قابل اعتماد ہے جاسوس نے اسے کہا اپنے جیسے چند ایک جوان اکٹھے کرو اور کچھ مسلمان لڑکیوں کو بھی تیار کرو تمہیں ہر ایک مسلمان گھرانے میں یہ پیغام پہنچانا ہے کہ صلاح الدین ایوبی زندہ ہے اور وہ اپنی فوجوں کے ساتھ یہاں سے صرف آدھے دن کی مسافت جتنا دور ہے اس کی تمام فوج کرک پر حملہ کرنے کے لیے نہ صرف تیار ہے بلکہ اس فوج نے صلیبی فوج کے ناک میں دم کررکھا ہے مصر میں حالات پر سکون ہیں وہاں صلیبیوں نے جو تخریب کاری کی تھی وہ جڑ سے اکھاڑ  دی گئی ہے
صلاح الدین ایوبی کب حملہ کرے گا؟
عثمان صارم نے پوچھا ہم اس کی راہ دیکھ رہے ہیں ہم تمہیں یقین دلاتے ہیں کہ تم باہر سے حملہ کرو گے تو ہم صلیبیوں پر اندر سے حملہ کریں گے خدا کے لیے جلدی آؤ تحمل سے کام لو جوان! جاسوس نے کہا پہلے صلاح الدین ایوبی کا پیغام سن لو اور یہ ہر ایک نوجوان کے ذہن پر نقش کردو ایوبی نے کہا ہے کہ کرک کے مسلمان نوجوانوں سے کہنا کہ تم ملک اور مذہب کے پاسبان ہو میں نے پہلی جنگ لڑکپن میں لڑی تھی اور محاصرے میں لڑی تھی فوج کی کمان میرے چچا کے پاس تھی اس نے مجھے کہا تھا کہ محاصرے میں گھبرا نہ جانا اگر تم اس عمر میں گھبرا گئے تو تمہاری ساری عمر گھبراہٹ اور خوف میں گزرے گی اگر اسلام کے علمبردار بننا چاہتے ہو تو یہ علم آج ہی اٹھا لو اور دشمن کی دیواریں توڑ کر نکل جاؤ پھر گھوم کر آؤ اور دشمن پر جھپٹ پڑو میں گھبرایا نہیں تین مہینوں کے محاصرے نے ہمیں فاقہ کشی بھی کرائی لیکن ہم محاصرہ توڑ کر نکل آئے اور ہم نے جس خوراک سے پیٹ بھرے وہ دشمن کی رسد سے چھینی ہوئی خوراک تھی ہمارے جو گھوڑے محاصرے میں بھوک سے مر گئے تھے ہم نے ان کی کمی دشمن کے گھوڑوں سے پوری کی
صلاح الدین ایوبی نے کہا ہے کہ میری قوم کے بیٹوں سے کہنا کہ تم پر دشمن نے پیار کے ہتھیار سے حملہ کیا ہے ہمیشہ یاد رکھنا کہ کوئی غیر مسلم کسی مسلمان کا دوست نہیں ہوسکتا صلیبی میدان جنگ میں ٹھہر نہیں سکے ان کے منصوبے خاک میں مل گئے ہیں اس لیے وہ اب مسلمانوں کی ابھرتی ہوئی نسل کے ذہن سے قومیت اور مذہب  نکالنے کے جتن کررہے ہیں انہوں نے جو ہتھیار استعمال کیا ہے وہ بڑا ہی خطرناک ہے یہ ہے ذہنی عیاشی کاہلی اور کوتاہی تم میں یہ تینوں خرابیاں پیدا کرنے کے لیے عیسائی اور یہودی ایک ہوگئے ہیں یہودی اپنی لڑکیوں کے ذریعے تم میں حیوانی جذبہ بھڑکا رہے ہیں اور تمہیں نشے کا عادی بنا رہے ہیں میں یہ نہیں کہوں گا کہ حیوانی جذبے اور نشے سے تمہاری عاقبت خراب ہوگی اور موت کے بعد تم جہنم میں جاؤ گے میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ کردار  کی یہ خرابیاں تمہارے لیے اس دنیا کو ہی جہنم بنا دیں گی تم جسے جنت کی  لذت سمجھتے ہو وہ جہنم کا عذاب ہے تم صلیبیوں کے غلام ہو جاؤ گے جو تمہاری بہنوں کو بے آبرو کرتے پھریں گے تمہارے قرآن کے ورق گلیوں میں اڑیں گے اور تمہاری مسجدیں اصطبل بن جائیں گی
صلاح الدین ایوبی نے کہا ہے کہ باوقار قوم کی طرح زندہ رہنا چاہتے ہو تو اپنی روایات کو نہ بھولو صلیبی ایک طرف تم پر تشدد کررہے ہیں اور دوسری طرف تمہیں دولت اور گھوڑا گاڑیوں کا لالچ دے رہے ہیں مسلمان ان عیاشیوں کا قائل نہیں ہوتا تمہاری دولت تمہارا کردار اور ایمان ہے یہ صلیبیوں کی شکست کا ثبوت ہے کہ وہ  تمہاری تلوار سے خوف زدہ ہوکر اتنے اوچھے ہتھیاروں پر اتر آئے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کو بے حیا بنا کر تمہیں اپنا غلام بنانے کے جتن کررہے ہیں میری قوم کے بیٹو! اپنے کردار کو محفوظ رکھو اپنے آپ کو قابو میں رکھو ظالم  حکمران دراصل کمزور حکمران ہوتا ہے وہ اپنے مخالفین میں سے کسی کو ظلم  وتشدد سے زیر کرنے کی کوشش کرتا ہے اور کسی کو دولت کا لالچ دے کر تم ظلم وتشدد سے بھی نہ ڈرو اور کسی لالچ میں بھی نہ آؤ تم قوم کا مستقبل ہو ہم قوم کا ماضی ہیں دشمن تمہارے ذہنوں سے تمہارا اور رخشندہ ماضی نکال کر اس میں اپنے نظریات اور مفادات کی سیاہی بھرنے کی کوشش کررہا ہے تاکہ اسلام کا مستقبل تاریک ہوجائے اپنی اہمیت پہچانو دشمن تمہیں صرف اس لیے اپنے تابع کرنے کی کوشش کررہا ہے کہ وہ تم سے خائف ہے اپنی نظر آج پر نہیں کل پر رکھو کیونکہ تمہارے دشمن کی نظر تمہارے مذہب کے کل پر ہے تم نے دیکھ لیا ہے کہ کفار تمہارا کیا حال کررہے ہیں اگر تم ذہنی عیاشی میں پڑ گئے تو تمام تر ملت اسلامیہ کا یہی حشر ہوگا

جاسوس نے سلطان ایوبی کا پیغام بہت تیزی سے عثمان صارم کو سنا دیا اور اسے عمل کے طریقے بتانے لگا اس نے کہا سالار اعظم نے خاص طور پر کہا ہے کہ اپنے اوپر جوش اور جذبات کا غلبہ طاری نہ کرنا عقل پر جذبات کو غالب نہ آنے دینا اشتعال سے بچنا اپنے آپ پر قابو رکھنا احتیاط لازمی ہے جاسوس نے اسے بتایا کہ وہ اور اس کے دو ساتھی کسی نہ کسی روپ میں اسے خود ہی ملتے رہیں گے اور یہ رابطہ قائم رہے گا فوری طور پر ضرورت یہ ہے کہ مسلمان اپنے گھروں میں چوری چھپے کمانیں تیر اور برچھیاں بنائیں اور گھروں میں چھپا کر رکھیں عورتوں کو  گھروں کے اندر ہی خنجر اور برچھی مارنے اور وار سے بچنے کے لیے طریقہ سکھائیں یہودی لڑکیوں کی باتوں پر دھیان نہ دیں ان کے ساتھ ایسی کوئی بات نہ کریں جس سے انہیں کوئی شک پیدا ہو اپنے طور پر کوئی جنگی کارروائی نہ کریں۔ پہلے منظم ہوجائیں پھر قیادت بنائیں ہر ایک فرد کا ذرا سا بھی عمل قائد کی نظر میں ہونا چاہیے اور کسی فرد کا کوئی اقدام قائد کی اجازت کے بغیر نہ ہو
سورج غروب ہونے لگا تھا مسجد کا پیش امام آگیا اسے  دیکھتے ہی جاسوس نے صلیب اٹھائی اور دوڑتا ہوا باہر نکل گیا باہر سے پھر وہی اعلان سنائی دینے لگا
مسلمانو! صلیب کے سائے میں آجاؤ تمہارا اسلام مر گیا ہے
امام نے عثمان صارم کو قہر بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا یہ یہاں کیا کر رہا تھا؟ 
اور تم نے اسے اندر کیوں بٹھا رکھا تھا؟  
اسے ہلاک کیوں نہ کردیا؟ 
تمہاری رگوں میں مسلمان باپ کا خون جم گیا ہے؟ 
میں اتنا بوڑھا نہ ہوتا تو یہاں سے اسے زندہ باہر نہ جانے دیتا...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟡  𝟛⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
زخمی یہاں نہیں رہے گا شارجا کو توقع نہیں تھی کہ یہ چاروں اتنی دلیری سے اس کے بھائی کو اغوا کرلیں گے اس نے انہیں فیصلہ سنا دیا کہ وہ ان کی کوئی مدد نہیں  کرے گی اس آدمی نے اسے کہا ہم تمہاری ہر ایک حرکت کو دیکھ رہے ہیں ہم  سمجھ رہے تھے کہ تم نے جراح کو پھانس لیا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تم خود  اس کے جال میں پھنس گئی ہو
 شارجا نے اسے دھتکار دیا۔ اسے چونکہ توقع نہیں تھی کہ وہ لوگ اتنی دلیری کا مظاہرہ کرسکیں گے اس لیے اس نے جراح کے ساتھ بھی ذکر نہ کیا کہ اس کے زخمی بھائی کے اغواء کا خطرہ ہے اسی رات شارجا اور جراح ان چاروں کے چنگل میں آگئے انہیں جب گھوڑوں پر سوار  کرانے کے لیے اٹھا لے گئے تو اس نے دیکھا کہ ایک گھوڑے پر اس کا زخمی بھائی بیٹھا تھا۔ اس وقت وہ کچھ خوش ہوئی کہ اس کا بھائی آزاد ہوگیا ہے وہ فرار  پر آمادہ ہوگئی لیکن جراح کو ان لوگوں کی قید میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی اس نے انہیں کہا بھی کہ اسے چھوڑ دو لیکن وہ نہ مانے اس کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کر گھوڑے پر ڈال لیا راستے میں شارجا کو بتایا گیا کہ اس کے بھائی  کو کس طرح اغواء کیا گیا ہے وہاں صرف دو آدمی گئے تھے ایک نے سنتری سے کہیں کا راستہ پوچھنے کے بہانے اسے باتوں میں لگا لیا دوسرے نے پیچھے سے اس کی گردن جکڑلی اور دونوں اسے اٹھا کر اندر لے گئے
زخمی انہیں  دیکھ کر اٹھ بیٹھا اس کے بستر پر سنتری کو لٹا دیا گیا اور اس کے دل پر خنجر کے دو گہرے وار کرکے اسے ختم کردیا گیا پھر اس پر کمبل ڈال دیا گیا دونوں نے زخمی قیدی کو اٹھایا اور نکل گئے انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ شارجا جراح کے گھر میں ہے انہیں ڈر تھا کہ وہ نہیں مانے گی اور اغواء ناکام بنا دے گی لیکن اسے بھی وہاں سے غائب کرنا ضروری تھا کیونکہ اس کے  پاس بھی ایک راز تھا دو آدمی گھات میں بیٹھے تھے جونہی جراح اور شارجا تنگ اور تاریک گلی میں آئے تو انہیں جکڑ لیا گیا اور اغواء کامیاب ہوگیا
علی بن سفیان جیسا گھاگھ سراغ رساں کوئی اور تجربہ نہیں کرنا چاہتا تھا اس نے جراح اور شارجا کے بیان پر فوری اعتبار نہ کیا یہ بھی سازش کی ایک کڑی ہوسکتی تھی اس نے دونوں کو الگ کردیا اور ان سے اپنے انداز سے پوچھ گچھ کی جراح دانشمند آدمی تھا اس نے علی بن سفیان کو قائل کرلیا کہ اس نے جو بیان دیا ہے وہ لفظ بہ لفظ درست ہے اس نے کہا کہ ایک تو جذباتی پہلو  تھا اس لڑکی کی شکل وصورت اس کی مری ہوئی بہن سے ملتی جلتی تھی اس لیے وہ اسے اچھی لگی اور وہ اسے اپنے گھر بھی لے جاتا اور زخمی کے مکان میں بھی  اس کے ساتھ زیادہ وقت بیٹھا رہتا تھا جراح نے بتایا کہ اس کے اس سلوک سے لڑکی اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے اپنے کچھ شکوک اس کے سامنے رکھ دئیے یہ اس لڑکی کا دوسرا پہلو تھا جس پر جراح نے زیادہ توجہ دی لڑکی مسلمان تھی لیکن معلوم ہوتا تھا کہ اس پر بڑے ہی خطرناک اثرات جو باہر سے آئے تھے کام کر رہے تھے جراح نے اس کے ذہن سے یہ اثرات صاف کر دئیے لڑکی چونکہ پسماندہ ذہن کی تھی صحرا کے دور دراز گوشے کی رہنے والی تھی اس لیے اس کے ذہن میں جو کچھ ڈالا گیا وہ اسی کو صحیح سمجھتی تھی اس کی باتوں سے یہ انکشاف ہوا کہ اس علاقے میں اسلام کے منافی اثرات اور صلاح الدین ایوبی کے خلاف تخریب کاری زور شور سے اور بلا روک ٹوک جاری ہے
شارجا سے علی بن سفیان نے کوئی بیان نہیں لیا اس پر سوال کرتا رہا اور اس کے جوابوں سے ایک بیان مرتب ہوگیا اس نے فرعونوں کے اس کھنڈر کے متعلق وہی انکشاف کیا جو بیان کیا جاچکا تھا وہ بھی اس کھنڈر کے اس پراسرار آدمی کی معتقد تھی جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ گناہ گاروں کو نظر نہیں آتا اور اس کی صرف آواز  سنائی دیتی ہے شارجا نے بتایا کہ اس کا بھائی فوج میں تھا اور وہ گھر میں اکیلی رہتی تھی اسے گاؤں کے کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ وہ اس کھنڈر میں چلی جائے کیونکہ وہ مقدس انسان خوبصورت کنواریوں کو بہت پسند کرتا ہے شارجا پر علی بن سفیان کی ماہرانہ جرح سے لڑکی کے سینے سے یہ راز بھی نکل آیا کہ اس کے گاؤں کی تین کنواری لڑکیاں اس کھنڈر میں چلی گئیں تھیں پھر واپس  نہیں آئیں ایک بار اس کا بھائی گاؤں آیا تھا شارجا نے اس سے پوچھا کہ وہ کھنڈر چلی جائے؟ 
بھائی نے اسے منع کر دیا تھا شارجا اچھی طرح بیان تو نہ کرسکی لیکن یہ پتا چل گیا کہ مصر کے جنوب مغربی علاقے میں کیا ہورہا ہے جراح کے متعلق لڑکی نے بتایا کہ اسے اگر گاؤں میں لے جاتے اور قید میں ڈال دیتے تو وہاں سے بھی وہ اسے اپنی جان کی بازی لگا کر آزاد کرا دیتی اس کا جب بھائی مر گیا تو اس نے گاؤں تک جانے کا ارادہ ترک کردیا اور تہیہ کرلیا کہ وہ جراح کو یہیں سے آزاد کرائے گی ان چاروں مجرموں کو وہ اپنا ہمدرد  سمجھا کرتی تھی لیکن جراح نے اسے بتایا تھا کہ یہ اللہ کے بہت بڑے مجرم ہیں ان کے متعلق اسے یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ انہیں اس کے بھائی کیساتھ ہمدردی نہیں بلکہ اس راز سے دلچسپی تھی جو اس کے پاس تھا اسی لیے انہوں نے اسے مار دیا
علی بن سفیان نے اس سے پوچھا کہ وہ اب کیا کرنا چاہتی ہے اور اپنے متعلق اس نے کیا سوچا ہے
اس نےجواب دیا کہ وہ ساری عمر جراح کے قدموں میں گزار دے گی اور اگر جراح اسے آگ میں کود جانے کو کہے گا تو وہ کود جائے گی اس نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا کہ وہ کھنڈر تک جانے والوں کی رہنمائی کرے گی اور اپنے علاقے کے ہر اس فرد کو پکڑوائے گی جو مصر کی حکومت کے خلاف کام کر رہا ہے
علی بن سفیان کے مشورے پر فوج اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کا اجلاس بلایا گیا اور صورت حال تقی الدین کے سامنے رکھی گئی سب کا یہ خیال تھا کہ تقی الدین  مصر میں نیا نیا آیا ہے اور اتنی بڑی ذمہ داری بھی اس کے سر پر پہلی بار پڑی ہے اس لیے وہ محتاط فیصلے کرے گا اور شاید کوئی خطرہ مول نہ لینا چاہے اجلاس میں بیشتر حکام نے اس پر اتفاق کیا کہ چونکہ اتنے وسیع علاقے کی اتنی زیادہ آبادی گمراہ کردی گئی ہے اس لیے اس آبادی کے خلاف کارروائی نہ کی جائے مسئلہ یہ تھا کہ کھنڈرات کے اندر کے جو حالات معلوم ہوئے تھے  ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہاں سے ایک نیا عقیدہ نکلا ہے جسے لوگوں نے قبول کرلیا ہے لہٰذا یہ لوگ اپنے معبد اورعقیدے پر فوجی حملہ برداشت نہیں کریں گے اس کا حل یہ پیش کیا گیا کہ اس علاقے میں اپنے معلم عالم اور دانشور بھیجے جائیں جو لوگوں کو راہ راست پر لائیں ان کے جذبات کو مجروح نہ کیا جائے اجلاس میں ایک مشورہ یہ بھی پیش کیا گیا کہ سلطان ایوبی کو صورت حال سے آگاہ کیا جائے اور ان سے حکم لے کر کارروائی کی جائے
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ انسانوں سے ڈرتے ہیں
تقی الدین نے کہا اور آپ کے دل  میں خدا اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا ڈر نہیں جن کے سچے  مذہب کی وہاں توہین ہورہی ہے امیر مصر اور سالار اعلیٰ کو خبر تک نہیں دی جائے گی کہ مصر میں کیا ہورہا ہے کیا آپ اس سے بے خبر ہیں کہ وہ میدان جنگ میں کتنے طاقتور دشمن کے مقابلے میں سینہ سپر ہیں؟ 
کیا آپ صلاح الدین ایوبی کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ہم سب دوچار ہزار گناہ گاروں اور دشمنان دین سے ڈرتے ہیں؟ 
میں براہ راست کارروائی کا اور بڑی ہی سخت کارروائی کا قائل ہوں گستاخی معاف امیر محترم! ایک نائب سالار نے کہا صلیبی ہم پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے ہم اس الزام کی تردید عملی طور پر کرنا چاہتے ہیں ہم پیار اور خلوص کا پیغام لے کر جائیں گے 
تو پھر اپنی کمر کے ساتھ تلوار کیوں  لٹکائے پھرتے ہو؟ تقی الدین نے طنزیہ لہجے میں کہا فوج پر اتنا خرچ  کیوں کررہے ہو؟ 
کیا اس سے یہ بہتر نہیں کہ ہم فوج کو چھٹی دے دیں اور ہتھیار دریائے نیل میں پھینک کر مبلغوں کا ایک گروہ بنا لیں اور درویشوں کی طرح گاؤں گاؤں قریہ قریہ دھکے کھاتے پھریں؟
تقی الدین نے جذباتی لہجے میں کہا اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کے خلاف صلیب کی تلوار نکلے گی تو اسلام کی شمشیر نیام میں نہیں پڑی رہے گی اور جب شمشیر اسلام نیام سے نکلے گی تو ہر اس سر کو تن سے جدا کرے گی جو کلمہ رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جھکنے سے انکار کرتا ہے وہ ہر اس زبان  کو کاٹے گی جو کلمہ حق کو جھٹلاتی ہے صلیبی اگر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ہم نے اسلام تلوار کے زور پر پھیلایا ہے تو میں ان سے معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں ہوں سلطنت اسلامیہ کیوں سکڑتی چلی آرہی ہے؟ 
خود مسلمان کیوں اسلام کے دشمن ہوئے جارہے ہیں؟ صرف اس لیے کہ صلیبیوں نے عورت اور شراب سے زرو جواہرات اور ہوس اقتدار سے اسلام کی تلوار کو زنگ آلود کردیا ہے وہ ہم پر جنگ پسندی اور تشدد کا الزام عائد کرکے ہماری عسکریت روایات کو ختم  کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے خلاف لڑ نہیں سکتے ان کے بری لشکر اور بحری بیڑے ناکام ہوگئے ہیں وہ ہمارے درمیان تخریب کاری کررہے ہیں اللہ کے سچے دین کی جڑیں کاٹ رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف تلوار نہ اٹھاؤ
غور سے سنو میرے دوستو! صلیبی اور آپ کے دوسرے دشمن آپ کو  محبت کا جھانسہ دے کر آپ کے ہاتھ سے تلوار لینا چاہتے ہیں وہ آپ کی پیٹھ پر وار کرنا چاہتے ہیں، ان کا یہ اصول محض ایک فریب ہے کہ کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال آگے کردو کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جسے یہ معلوم نہیں کہ کرک میں وہ مسلمان آبادی کا کیا حشر کررہے ہیں؟ 
کیا آپ نے شوبک فتح کرکے وہاں مسلمانوں کا بیگار کیمپ نہیں دیکھا تھا؟ 
وہاں مسلمان عورتوں کی جو انہوں نے عصمت دری کی وہ نہیں سنی تھیں؟ 
مقبوضہ فلسطین میں مسلمان خوف اور ہراس کی بے آبروئی اور مظلومیت کی زندگی بسر کررہے  ہیں صلیبی مسلمانوں کے قافلے لوٹتے اور عورتوں کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر تلوار اٹھانا جرم ہے اگر یہ جرم ہے تو میں اس جرم سے شرمسار نہیں صلیبیوں کی تلوار نہتوں کو کاٹ رہی ہے صرف اس  لیے کہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیوا ہیں صلیب اور بتوں کے پجاری نہیں تمہاری تلوار صرف وہاں ہاتھ سے گر پڑنی چاہیے جہاں سامنے نہتے ہوں اور ان تک خدا کا پیغام نہ پہنچا ہو ہمیں اس اصول کا  قائل نہیں ہونا چاہیے کہ لوگوں کے جذبات پر حملہ نہ کرو میں نے دیکھا ہے کہ عرب میں چھوٹے چھوٹے مسلمان حکمران اور نااہل امراء لوگوں کو خوش کرنے کے لیے بڑے دلکش اور دلوں کو موہ لینے والے الفاظ استعمال کرتے ہیں ان کے غلط جذبات اور احساسات کو اور زیادہ بھڑکا کر انہیں خوش رکھتے ہیں تاکہ لوگ انہیں عیش وعشرت سے اور غیر اسلامی طرز زندگی سے روک نہ سکیں ان امراء کا طریقہ کار یہ ہے کہ انہوں نے خوشامدیوں کا ایک گروہ پیدا کرلیا ہے جو ان  کی ہر آواز پر لبیک کہتا ہے اور رعایا میں گھوم پھر کر ثابت کرتا رہتا ہے  کہ ان کے امیر نے جو بات کہی ہے وہ خدا کی آواز ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ کے بندے بدکار اور عیاش انسانوں کے غلام ہوتے چلے جارہے ہیں قوم حاکم اور محرم میں تقسیم ہوتی چلی جارہی ہے
ہم دیکھ رہے ہیں کہ دشمن ہماری جڑیں کاٹ رہا ہے اور ہماری قوم کے ایک حصے کو کفر کی تاریکیوں میں لے جارہا ہے اگر ہم نے سخت رویہ اختیار نہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا  کہ ہم کفر کی تائید کررہے ہیں میرے بھائی صلاح الدین ایوبی نے مجھے کہا  تھا کہ غداری ہماری روایت بنتی جارہی ہے لیکن میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ یہ بھی روایت بنتی جارہی ہے کہ ایک ٹولہ حکومت کیا کرے گا اور قوم محکوم ہوگی حکمران ٹولہ قوم کا خزانہ شراب میں بہائے گا اور قوم پانی کے گھونٹ کو بھی ترسے گی میرے بھائی نے ٹھیک کہا تھا کہ ہمیں قوم اور مذہب کے مستقبل پر نظر رکھنی ہے ہمیں قوم میں وقار اور کردار کی بلندی پیدا کرنی ہے آنے والی نسلیں ہماری قبروں سے جواب مانگیں گی اس مقصد کے لیے ہمیں ایسی کارروائی سے گریز نہیں کرنا چاہیے جو ملک اور مذہب کے لیے سود مند ہو  اگر یہ برحق اقدام قوم کے چند ایک افراد کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے تو  ہمیں اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے ہم قوم کا مفاد اور وقار چند ایک افراد  کی خوشنودی پر قربان نہیں کرسکتے ہم ملک کے ایک اتنے بڑے حصے کو صرف اس لیے دشمن کی تخریب کاری کے سپرد نہیں کرسکتے کہ وہاں کے لوگوں کے جذبات مجروح ہوں گے۔ تم دیکھ رہے ہو کہ وہاں کے لوگ سیدھے سادے اور بے علم ہیں انہیں اپنے وہ مسلمان بھائی جو قبیلوں کے سردار ہیں اور مذہب کے اجارہ دار ہیں دشمن کا آلۂ کار بن کر گمراہ رہے ہیں
اجلاس میں کسی کو توقع  نہیں تھی کہ تقی الدین کا ردعمل اتنا شدید اور فیصلہ اتنا سخت ہوگا اس نے جو دلائل پیش کیے ان کے خلاف کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ کوئی مشورہ ہی پیش کرتا اس نے کہا مصر میں جو فوج ہے یہ محاذ سے آئی ہے اور اس سے پہلے بھی لڑ چکی ہے اس فوج کے صرف پانچ سو گھوڑ سوار دو سو شتر سوار اور پانچ سو پیادہ آج شام اس علاقے کی طرف روانہ کردو جہاں وہ مشکوک کھنڈرات ہیں یہ فوج اس علاقے سے اتنی دور رہے گی کہ ضرورت پڑے تو فوری طور پر محاصرہ  کرسکے میرے ساتھ دمشق سے جو دو سو سوار آئے ہیں وہ علاقے کے اندر جاکر  کھنڈروں پر حملہ کریں گے ایک چھاپہ مار دستہ کھنڈروں کے اندر جائے گا دوسو سوار کھنڈروں کو محاصرے میں رکھیں گے اگر باہر سے حملہ ہوا یا مزاحمت ہوئی تو فوج کا بڑا حصہ مقابلہ کرے گا اور محاصرہ تنگ کرتا جائے گا اس کارروائی میں فوج کو سختی سے حکم دیا جائے کہ کسی نہتے کو نہیں چھیڑا جائے  گا
اس فیصلے کے فوراً بعد فوجی حکام کوچ، حملے اور محاصرے وغیرہ کا منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہوگئے
سلطان ایوبی مصر کی تازہ صورت حال سے بے خبر کرک اور شوبک قلعوں کے درمیان  میل ہا میل وسیع صحرا میں جہاں ریتلی چٹانوں ٹیلوں اور گھاٹیوں کے علاقے  بھی تھے اور جہاں کسی کسی جگہ پانی اور سائے کی بھی افراط تھی، صلیبیوں کے نئے جنگی منصوبے کے مطابق اپنی افواج کی صف بندی کررہا تھا جاسوسوں نے اسے  بتایا تھا کہ صلیبی دگنی طاقت سے جو زیادہ تر زرہ پوش اور بکتر بند ہوگی قلعے سے باہر آکر حملہ کریں گے۔ یہ فوج سلطان ایوبی کی فوج کو آمنے سامنے کی جنگ میں الجھالے گی اور دوسری فوج عقب سے حملے کرے گی سلطان ایوبی نے اپنی فوج کو دور دور تک پھیلا دیا۔ سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جہاں جہاں پانی اور سبزہ تھا وہاں فوراً قبضہ کرلیا ان جگہوں کے دفاع کے لیے اس نے بڑے سائز کی کمانوں والے تیر انداز بھیج دیئے ان کے تیر بہت دور تک جاتے  تھے وہاں منجنیقیں بھی رکھیں جو آگ کی ہانڈیاں پھینکتی تھیں یہ اہتمام اس  لیے کیا گیا تھا کہ دشمن قریب نہ آسکے بلندیوں پر بھی قبضہ کرلیا گیا سلطان ایوبی نے تمام دستوں کو حکم دیا کہ دشمن سامنے سے حملہ کرے تو وہ اور  زیادہ پھیل جائیں تاکہ دشمن بھی پھیلنے پر مجبور ہوجائے اس نے اپنی فوج کو ایسی ترتیب میں کردیا کہ دشمن یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکتا تھا کہ مسلمان فوج کے پہلو کدھر اور عقب کس طرف ہے
سلطان ایوبی نے فوج کا ایک بڑا حصہ ریزرو میں رکھ لیا تھا ایک حصے کو اس طرح متحرک رکھا کہ جہاں کمک کی ضرورت پڑے فوراً کمک دے سکے اس کا سب سے  زیادہ خطرناک ہتھیار اس کے چھاپہ مار دستے تھے اور اس سے زیادہ خطرناک اس کا جاسوسی کا نظام تھا جو اسے صلیبیوں کی نقل وحرکت کی خبریں دے رہا تھا شوبک کا قلعہ سلطان ایوبی سر کرچکا تھا۔ صلیبیوں کے منصوبے میں یہ بھی تھا  کہ ان کے لیے حالات سازگار ہوئے تو وہ شوبک کو محاصرے میں لے کر فتح کرلیں گے انہیں توقع تھی کہ ان کا اتنا زیادہ لشکر سلطان ایوبی کی قلیل تعداد فوج کو صحرا میں ختم کردے گا یا اتنا کمزور کردے گا کہ وہ شوبک کو باہر سے مدد نہیں دے سکے گی۔ ان کے اس منصوبے کے پیش نظر سلطان ایوبی نے شوبک کی وہ طرف جس طرف سے صلیبی اس قلعے پر حملہ کرسکتے تھے خالی چھوڑ دی اس نے صلیبیوں کے لیے موقعہ پیدا کردیا کہ وہ راستہ صاف دیکھ کر شوبک پر حملہ کریں اس طرف سے اس نے دیکھ بھال والی چوکیاں بھی ہٹا دیں اور دور دور تک علاقہ خالی کردیا
صلیبیوں کے جاسوسوں نے کرک میں فوراً اطلاع  پہنچائی کہ سلطان ایوبی نے صلیبیوں کے ساتھ صحرا میں لڑنے کے لیے فوج شوبک سے دور اکٹھی کرلی ہے اور شوبک کا راستہ صاف ہوگیا ہے صلیبیوں نے فوراً  اپنی اس فوج کو جو سلطان ایوبی کے سامنے سے حملہ کرنے کے لیے باہر نکالی تھی حکم دے دیا کہ رخ بدل کر شوبک کی طرف چلی جائے چنانچہ یہ فوج ادھر کو  ہولی اس کے پیچھے رسد کے ذخیرے جارہے تھے فوج جب شوبک سے چار میل دور رہ  گئی تو اسے روک لیا گیا یہ اس فوج کا عارضی پڑاؤ تھا رسد کی گھوڑا گاڑیاں اونٹ اور خچر ہزاروں کی تعداد میں چلے آرہے تھے انہیں کوئی خطرہ  نہ تھا کیونکہ مسلمانوں کی فوج کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا صلیبی حکمران بہت خوش تھے انہیں شوبک کا قلعہ اپنے قدموں میں پڑا نظر آرہا تھا  مگر رات کو انہیں اپنے پیچھے پانچ چھ میل دور آسمان لال سرخ نظر آیا شعلے اتنے بلند تھے کہ اتنی دور سے بھی نظر آئے تھے صلیبیوں نے سوار دوڑا دیئے جہاں سے شعلے اٹھ رہے تھے، وہاں ان کی رسد تھی سوار وہاں پہنچے تو انہیں  صحرا میں بے لگام گھوڑے اور بے مہار اونٹ ہر طرف دوڑتے بھاگتے نظر آئے
یہ تباہی سلطان ایوبی کے ایک چھاپہ مار دستے کی بپا کی ہوئی تھی رسد میں  گھوڑوں کے لیے خشک گھاس سے لدی ہوئی سینکڑوں گھوڑا گاڑیاں تھیں انہیں رسد کے کیمپ کے اردگرد کھڑا کیا گیا تھا صلیبی خوش فہمیوں میں مبتلا تھے انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کی ہر ایک حرکت پر سلطان ایوبی کی نظر ہے رات کو جب رسد کا کیمپ سو گیا تو مسلمان چھاپہ ماروں نے اونٹوں پر جاکر خشک گھاس میں آتشیں فلیتوں والے تیر چلائے گھاس فوراً جل اٹھی دیکھتے ہی دیکھتے کیمپ شعلوں کے گھیرے میں آگیا ان کے نرغے میں آئے ہوئے انسان جانیں  بچانے کے لیے ادھر ادھر دوڑے تو ان میں سے بہت سے تیروں کا شکار ہوگئے جو جانور رسیاں توڑ سکے وہ تو بھاگ گئے اور جو کھل نہ سکے وہ زندہ جل گئے۔ دور  دور تک پھیلا ہوا کیمپ جہنم بن گیا چھاپہ ماروں نے کئی ایک اونٹ اور  گھوڑے پکڑ لیے اور واپس چلے گئے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح طلوع ہوئی صلیبی کمانڈروں نے جاکر رسد کا کیمپ دیکھا، وہاں کچھ نہیں بچا تھا ان کی ایک ماہ کی رسد تباہ  ہوچکی تھی وہ سمجھ گئے کہ شوبک کا راستہ جو صاف تھا، یہ سلطان ایوبی کی  ایک چال تھی انہوں نے بغیر دیکھے کہہ دیا کہ کرک سے شوبک تک ان کی رسد اور  کمک کا راستہ محفوظ نہیں چنانچہ انہوں نے شوبک کا محاصرہ ملتوی کردیا رسد کے بغیر محاصرہ ناممکن تھا اور جب انہیں اطلاع ملی کہ گزشتہ رات اس فوج  کی بھی رسد تباہ ہوگئی ہے جو سلطان ایوبی کی فوج پر سامنے سے حملہ کرنے کے لیے جمع تھی تو انہوں نے اپنے تمام تر جنگی منصوبے پر نظرثانی کرنے کا  فیصلہ کرلیا۔ انہیں کہیں بھی سلطان ایوبی کی فوج نظر نہیں آرہی تھی انہیں جاسوس یہ بھی نہیں بتا سکے تھے کہ مسلمانوں کی فوج کا اجتماع کہاں ہے دراصل یہ اجتماع کہیں بھی نہیں تھا
سلطان ایوبی کو اطلاع ملی کہ صلیبیوں نے دونوں محاذوں پر پیش قدمی روک دی ہے تو اس نے اپنے کمانڈروں کو بلا کر کہا صلیبیوں نے جنگ ملتوی کردی ہے لیکن ہماری جنگ جاری ہے وہ  دونوں فوجوں کے آمنے سامنے کے تصادم کو جنگ کہتے ہیں میں چھاپوں اور شب خونوں کو جنگ کہتا ہوں اب چھاپہ مارو کو سرگرم رکھو صلیبی دونوں طرف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں انہیں اطمینان سے پیچھے نہ ہٹنے دو انتہائی عقب یا پہلو  پر شب خون مارو اور غائب ہو جاؤ صلیبی آپ کو اپنے سامنے لاکر لڑنا چاہتے  ہیں لیکن میں آپ کو اس میدان میں ان کے سامنے لے جاؤں گا جو آپ کی مرضی کا ہوگا اور جہاں کی ریت بھی آپ کی مدد کرے گی
سلطان ایوبی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا وہ اپنے عملے اور محافظ دستے کے ساتھ خانہ بدوش تھا کسی ایک جگہ نہ ٹھہرنے کے باوجود معلوم ہوتا تھا جیسے ہر جگہ موجود ہے
مصر میں سلطان ایوبی کا بھائی تقی الدین صلیبیوں کے دوسرے محاذ پر حملہ آور ہورہا تھا یہ مصر کا جنوب مغربی علاقہ تھا، جہاں کے ڈراؤنے ٹیلوں کے  اندر فرعونوں کے ہولناک کھنڈرات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے واپس آنے والے تھے تمام تر علاقہ ایک نئے عقیدے کا پیرو کار ہوگیا تھا جمعرات کی شام تھی زائرین کا ہجوم کھنڈر کے غار نما دروازے میں داخل ہورہا تھا اندر بڑے کمرے میں پراسرار آواز گونج رہی تھی لوگوں کو دیوار پر گناہ گار اور نیکو کار جاتے نظر آرہے تھے وہاں وہی سماں تھا جو ہر جمعرات کے روز ہوا کرتا تھا اچانک اس پراسرار مقدس انسان کی آواز خاموش ہوگئی جس کے متعلق مشہور تھا کہ گناہ گاروں کو نظر نہیں آتا اس کے بجائے ایک اور آواز  سنائی دی گمراہ انسانو! آج کی رات گھروں کو نہ جانا کل صبح تم پر وہ راز فاش ہوجائے گا جس کے لیے تم بیتاب ہو یہاں سے فوراً باہر نکل جاؤ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لارہے ہیں اس کھنڈر سے دور جاکر سوجاؤ بڑے کمرے میں حیرت زدہ لوگوں کو دیوار پر جو چمکتے ہوئے ستارے نظر آتے تھے، وہ ماند پڑگئے اس وقت ان ستاروں میں سے حسین لڑکیاں اور خوبرو مرد ہنستے کھیلتے گزر رہے تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ فوجی قسم کے کچھ آدمی انہیں پکڑ پکڑ  کر لے جارہے ہیں کہیں سے چیخیں بھی سنائی دے رہی تھیں بادل جو گرجتے تھے  وہ بھی خاموش ہوگئے لوگوں کے لیے یہ جگہ بڑی ہی مقدس تھی وہ خوف زدہ  ہوکے باہر کو بھاگے اور کھنڈر خالی ہوگیا یہ انقلاب تقی الدین اور علی بن سفیان لائے تھے ان کے ساتھ فوج کی وہی نفری تھی جو تقی الدین نے اپنے حکم میں بتائی تھی یہ دستے شام کے بعد ٹیلوں والے علاقے کے قریب پہنچ  گئے تھےان کی رہنمائی شارجا کررہی تھی جو گھوڑے پر سوار تھی وہ انہیں جمعرات کی شام وہاں لے گئی تھی کیونکہ اس روز وہاں میلہ لگتا تھا اور دور  دور سے لوگ آتے تھے فوج کے بڑے حصے کو جس میں پانچ سو گھوڑ سوار، دوسو شتر  سوار اور پانچ سو پیادہ تھے۔ اس علاقے سے ذرا دور رکھا گیا تھا انہیں نہتے لوگوں کے خلاف استعمال نہیں کرنا تھا ان کے ذمہ یہ فرض تھا کہ سوڈان  کی سرحد پر نظر رکھیں چونکہ کھنڈروں کے اندر کی تخریب کاری صلیبیوں اور  سوڈانیوں کی پشت پناہی پر ہورہی تھی اس لیے یہ خطرہ تھا کہ وہاں فوجی کارروائی کی گئی تو سوڈانی حملہ کردیں گے تقی الدین نے اس علاقے کے قریب  کے سرحدی دستوں کو جو سرحدوں کی حفاظت کے لیے وہیں رہتے تھے قریب بلا کر  اپنے تحت کرلیا تھا
دوسو گھوڑ سوار جو تقی الدین کے ساتھ دمشق سے  آئے تھے وہ وہاں کے چنے ہوئے اور دیوانگی کی حد تک دلیر سوار تھے دوڑتے  گھوڑوں سے تیر اندازی ان کا خصوصی کمال تھا۔ پیادہ سپاہیوں میں سلطان ایوبی کے اپنے ہاتھوں تیار کیے ہوئے چھاپہ مار بھی تھے انہیں ایسی ٹریننگ دی  گئی تھی کہ انتہائی دشوار ٹیلوں اور درختوں پر حیران کن رفتار سے چڑھتے اور اترتے تھے۔ چند گز پھیلی ہوئی آگ سے گزر جانا ان کا معمول تھا۔ ان چھاپہ  مار جانبازوں کو اس وقت کھنڈر کی طرف روانہ کیا گیا جب لوگ اندر جارہے تھے وہاں تک انہیں شارجا لے گئی تھی علی بن سفیان ان کے ساتھ تھا۔ تیز  رفتار قاصد بھی ساتھ تھے تاکہ پیغام رسانی میں تاخیر نہ ہو کھنڈر کے  دروازے کے باہر دو آدمی کھڑے اندر جانے والوں کو تین تین کھجوریں کھلا رہے  تھے دروازے کے اندر گپ اندھیرا تھا اس اندھیرے سے لوگ گزر کر اندر روشن  کمرے میں جاتے تھے باہر صرف ایک مشعل جل رہی تھی جس کی روشنی معمولی سی  تھی
چھ آدمی جن کے سر چادروں میں ڈھکے ہوئے تھے زائرین کے ساتھ  دروازے تک گئے اور ہجوم سے ہٹ کر کھجوریں کھلانے والوں کے پیچھے جا کھڑے  ہوئے۔ انہیں کہا گیا کہ وہ سامنے سے گزریں لیکن وہ سن ہوکے رہ گئے کیونکہ ان کی پیٹھوں میں خنجروں کی نوکیں رکھ دی گئی تھیں یہ چھ آدمی چھاپہ مار  تھے انہوں نے ایک ایک آدمی کے پیچھے ہو کر خنجر ان کی پیٹھوں سے لگا کر  آہستہ سے کان میں کہا تھا زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہاں سے باہر چلے جاؤ  تم سب فوج کے گھیرے میں ہو کھجوریں کھلانے اور پانی پلانے والے آدمی ذرا سی بھی مزاحمت کے بغیر باہر نکل گئے چھاپہ ماروں نے خنجر اس طرح چغوں  میں چھپالیے کہ لوگوں میں سے کوئی دیکھ نہ سکا یہ چار آدمی جونہی باہر کو آئے، وہاں دس بارہ چھاپہ مار دیہاتیوں کے لباس میں کھڑے تھے انہوں نے  چاروں کو گھیر لیا اور دھکیلتے ہوئے دور لے گئے وہاں انہیں رسیوں سے باندھ  دیا گیا۔ چھ چھاپہ مار جو کھجوروں اور پانی کے مشکیزوں کے پاس رہ گئے تھے،  انہوں نے اندر جانے والے لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ کھجوروں اور پانی کے  بغیر اندر جاؤ کیونکہ اندر سے نیا حکم آیا ہے سیدھے سادے دیہاتی اندر  جاتے رہے۔
ان کے ساتھ اب چھاپہ مار بھی اندر جارہے تھے اور مشعلیں بھی اندر جارہی تھیں لوگ حیران تھے کہ مشعلیں کیوں لے جائی جارہی ہیں کم  وبیش پچاش مشعلیں اور دو سو چھاپہ مار اندر چلے گئے۔ وہ روشن کمرے میں نہ گئے بلکہ ان تاریک راستوں اور غلام گردشوں میں چلے گئے جن میں باہر کے لوگ  نہیں جاسکتے تھے۔ ان میں سے بعض کے پاس خنجر اور خنجر نما تلواریں تھیں اور  بعض کے پاس چھوٹی کمانیں اس دروازے سے بھی جس سے لوگ باہر نکلتے تھے چھاپہ مار داخل ہوگئے وہ ہدایت کے مطابق تاریک بھول بھلیوں میں جارہے تھے تقی الدین کے دو سو گھوڑے سوار آگے گئے اور انہوں نے پورے کھنڈر کو گھیرے  میں لے گیا۔ ان کے ساتھ پیادہ دستہ بھی تھا جس کے سپاہیوں نے اندر سے نکلنے  والوں کو روک کر ایک طرف اکٹھا کرنا شروع کردیا چھاپہ مار مشعل برداروں  کے ساتھ اندر گئے تو انہیں ایسے محسوس ہونے لگا جیسے کسی کے پیٹ میں چلے  گئے ہوں اندر کے راستے اور کمرے انتڑیوں کی مانند تھے یہ راستے انہیں ایک  ایسے طلسم میں لے گئے جسے دیکھ کر چھاپہ مار بدک کر رک گئے یہ ایک بہت  کشادہ کمرہ تھا جس کی چھت تو اونچی تھی اندر بہت سے مرد اور عورتیں تھیں ان میں کچھ ایسے تھے جن کے چہرے بھیڑیوں کی طرح تھے بعض تھے تو انسان لیکن  وہ اس قدر بدصورت اور بھیانک چہروں والے تھے کہ دیکھ کر ڈر آتا تھا، وہ جن  اور بھوت لگتے تھے اور ان کے درمیان خوبصورت اور جوان لڑکیاں بھڑکیلے اور  چمکیلے کپڑے پہنے ہنس کھیل رہی تھیں ایک طرف دیوار کے ساتھ چند ایک  خوبصورت لڑکیاں خوبرو مردوں کے ساتھ مٹک مٹک کر چل رہی تھیں ادھر چھت سے  فرش تک پردے لٹکے ہوئے تھے جو دائیں بائیں ہٹت کھلتے اور بند ہوتے تھے۔  دوسری طرف آنکھوں کو خیرہ کردینے والی روشنی چمکتی اور بجھتی تھی

اگر چھاپہ ماروں کو یہ یقین نہ دلایا گیا ہوتا کہ کھنڈر کے اندر جو کوئی  بھی ہے اور جس حلیے میں بھی ہے وہ انسان ہوگا اور اندر کوئی بدرو  روح یا بھوت پریت نہیں تو چھاپہ مار وہاں سے بھاگ جاتے۔ وہاں خوبصورت لڑکیاں اور خوبرو مرد تھے وہ بھی ڈراؤنے لگتے تھے
اس عجیب وغریب مخلوق نے جب  مشعل بردار چھاپہ ماروں کو دیکھا تو انہیں ڈرانے کے لیے ڈراؤنی آوازیں  نکالنے لگے جو آدمی بدصورت چڑیلوں اور بھیڑیوں کے چہروں والے تھے ان کی آوازیں زیادہ خوفناک تھیں اس دوران ایک دو آدمیوں نے شاید ڈر کر اپنے چہرے  بے نقاب کردیئے یہ بھیڑیوں کے چہرے تھے جو انہوں نے اتارے تو اندر سے انسانوں کے چہرے نکلے چھاپہ ماروں نے سب کو گھیر کر پکڑ لیا اور سب کے  نقاب اتار دیئے، وہاں شراب بھی پڑی تھی ان سب کو باہر لے گئے۔ کھنڈر کے  دوسرے حصوں کی تلاشی میں ایک آدمی پکڑا گیا جو ایک تنگ سی سرنگ کے منہ میں منہ ڈالے بھاری آواز میں کہہ رہا تھا  گناہوں سے توبہ کرو حضرت عیسیٰ علیہ السلام آنے والے ہیں اور ایسے کئی الفاظ تھے جو وہ بول رہا تھا یہ سرنگ گھوم پھر کر اس روشن کمرے میں جاتی تھی جہاں زائرین کو یہ پراسرار ڈراؤنی اور خوبصورت مخلوق دکھا کر حیرت زدہ کیا جاتا تھا اس آدمی کو وہاں  سے ہٹا کر چھاپہ ماروں کے ایک کمان دار نے سرنگ میں منہ ڈال کر کہا کہ اے  گمراہ لوگوں آج رات گھروں کو نہ جانا کل صبح تم پر وہ راز فاش ہوجائے گا جس  کے لیے تم بیتاب ہو
کھنڈرات کے اندر کسی نے بھی مزاحمت نہ کی خنجروں اور تلواروں کے آگے سب اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرتے چلے گئے چھاپہ مار ان آدمیوں کی نشاندہی پر جنہیں گرفتار کرلیا گیا تھا ان جگہوں  تک پہنچے جہاں بجلی کی طرح چمکنے والی روشنیوں کا انتظام تھا ڈھکی چھپی جگہوں میں مشعلیں جل رہی تھی ان کے پیچھے لکڑی کے تختے تھے جن پر ابرق  چپکایا ہوا تھا۔ ان تختوں کے زاویے بدلتے تھے تو ابرق کی چمک لوگوں کی  آنکھوں میں پڑتی اور چندھیا دیتی تھی کمرہ تاریک کرنے کے لیے مشعلوں کو پیچھے کرلیا جاتا تھا بادل گرجنے کی آوازیں دھات کی چادروں کو جھٹکے دے کر  پیدا کی جاتی تھی پردوں پر جگہ جگہ ابرق کے ٹکڑے چپکا دیئے گئے تھے جن پر روشنی پڑتی تو ستاروں کی طرح چمکتے تھے اس طرف پردوں کا رنگ ایسا تھا کہ  کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ کپڑا ہے وہ اسے پھٹی ہوئی دیوار سمجھتے تھے۔ عقل اور ہوش والے انسان کے لیے یہ کوئی معمہ نہیں تھا بے شک یہ روشنیوں  کے خاص انتظام کا جادو تھا جو لوگوں کو مسحور کرلیتا تھا لیکن اندر جو جاتا  تھا اس کی عقل اور ہوش پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا انہیں اندر جاتے وقت دروازے پر جو تین کھجوریں کھلائی جاتی اور پانی پلایا جاتا تھا،  ان میں نشہ آور آمیزش ہوتی تھی اس کا اثر فوراً ہوجاتا تھا اس اثر کے تحت  زائرین کے ذہنوں پر جو بھی تصور بٹھایا جاتا اور کانوں میں جو بھی آوازیں  ڈالی جاتی وہ اسے سو فیصد صحیح اور برحق سمجھ لیتے تھے اسی نشے کا اثر  تھا کہ لوگ باہر جاکر دوبارہ اندر آنے کی خواہش کرتے تھے۔ انہیں معلوم نہیں  تھا کہ یہ اس عقیدے کا تاثر نہیں بلکہ اس نشے کا اثر ہے جو انہیں کھجوروں اور پانی میں دیا جاتا ہے
کھجوروں کے انبار اور پانی کے مشکیزوں پر بھی قبضہ کرلیا گیا تھا اندر پکڑ دھکڑ اور تلاشی کا سلسلہ جاری تھا باہر دو سو سپاہیوں نے کھنڈروں کا محاصرہ کررکھا تھا ہر طرف مشعلوں کی  روشنی تھی فوج کا بڑا حصہ اور دو سرحدی دستے سوڈان کی سرحد کے ساتھ ساتھ  گھوم پھر رہے تھے رات گزرگئی سوڈان کی طرف سے کوئی حملہ نہ ہوا کھنڈرات میں بھی کوئی مزاحمت نہ ہوئی صبح کے اجالے نے اس علاقے کو روشن کیا تو  وہاں ہراساں دیہاتیوں کا ہجوم تھا۔ کچھ لوگ ادھر ادھر سوگئے تھے گھوڑ سواروں نے گھیرا ڈال رکھا تھا
کچھ دیر بعد تمام لوگوں کو ایک جگہ جمع کرکے بٹھا دیا گیا ان کی تعداد تین اور چار ہزار کے درمیان تھی ایک طرف سے ایک جلوس آیا جسے فوجی ہانک کر لا رہے تھے۔ اس جلوس میں  بھیڑیوں اور چڑیلوں کے چہروں والے انسان تھے اس میں مکروہ اور بڑی بھیانک شکلوں والے انسان بھی تھے اور اس جلوس میں وہ تمام مخلوق تھی جو لوگوں کو کھنڈر کے اندر دکھائی جاتی تھی اور بتایا جاتا تھا کہ یہ آسمان ہے جہاں یہ لوگ مرنے کے بعد گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا گناہ یہ  بتایا جاتا تھا کہ یہ جنگ وجدل کے عادی تھے یعنی یہ فوجی تھے اس جلوس سے  الگ دس بارہ لڑکیوں کو بھی لوگوں کے سامنے لایا گیا یہ بہت ہی خوبصورت  لڑکیاں تھیں۔ ان کے ساتھ خوبرو مرد تھے ان دونوں جلوسوں کو لوگوں کے ہجوم  کے سامنے ایک اونچی جگہ پر کھڑا کردیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ لوگوں کو  اپنے چہرے دکھاؤ سب نے بھیڑیوں اور چڑیلوں کے مصنوعی چہرے اتار دیئے ان  کے اندر سے اچھے بھلے انسانی چہرے نکل آئے جو آدمی مکروہ اور بھیانک چہروں  والے تھے، وہ بھی مصنوعی چہرے تھے یہ چہرے بھی اتار دیئے گئے
لوگوں سے کہا گیا کہ وہ ان آدمیوں اور ان لڑکیوں کے قریب سے گزرتے جائیں اور انہیں پہنچانیں لوگ تو اسی پر حیران ہوگئے کہ یہ آسمان کی مخلوق نہیں اسی زمین کے انسان ہیں لڑکیاں بھی پہچان لی گئیں ان میں زیادہ تر اسی علاقے کی رہنے والی تھیں اور تین چار یہودی تھیں جنہیں صلیبی اسی مقصد کے لیے لائے تھے لوگ انہیں دیکھ چکے تو ان مجرموں کو سامنے لایا گیا جنہوں نے یہ طلسماتی اہتمام کررکھا تھا ان میں چھ صلیبی تھے جو مصر کے اس علاقے کی  زبان بولتے اور سمجھتے تھے انہوں نے بہت سے آدمی اس علاقے سے اپنے ساتھ  ملا لیے تھے رات گرفتاری کے بعد ان سے اعتراف کرا لیا گیا تھا کہ انہوں نے  تین چار مسجدوں میں اپنے امام رکھ دیئے تھے جو لوگوں کو مذہب کے پردے میں  غیر اسلامی نظریات کے معتقد بنا رہے تھے اس گروہ کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو قائل کیا جائے کہ فوج میں بھرتی نہ ہوں کیونکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے یہ  گروہ اس مقصد میں کامیاب ہوچکا تھا ان تخریب کاروں نے یہ کامیابی بھی حاصل  کرلی تھی کہ اس علاقے کے لوگوں میں سوڈانیوں کی محبت پیدا کردی تھی اور ان  کا مذہب تبدیل کیے بغیر انہیں بے مذہب کردیا تھا
لوگوں سے کہا گیا  کہ اب وہ کھنڈروں کے اندر جاکر گھومیں پھریں اور اس فریب کاری کا ثبوت اپنی آنکھوں سے دیکھیں لوگ اندر چلے گئے جہاں جگہ جگہ فوجی کھڑے تھے اور  لوگوں کو دکھا رہے تھے کہ انہیں کیسے کیسے طریقوں سے دھوکہ دیا جاتا رہا ہے بہت دیر بعد جب تمام لوگ اندر سے گھوم پھر آئے تو تقی الدین نے ان سے خطاب کیا اور انہیں بتایا کہ کھجوروں اور پانی میں انہیں نشہ دیا جاتا ہے۔  اندر جو جنت اور جہنم تھا، وہ اس نشے کے زیراثر نظر آتا تھا میں ان مجرموں  سے کہتا ہوں کہ اندر چل کر مجھے آسمان کی مخلوق چلتی پھرتی دکھائیں کہ حضرت  موسیٰ علیہ السلام کہاں اور مرا ہوا خلیفہ العاضد کہاں ہے؟ 
یہ سب فریب تھا۔ یہ وہ نشہ ہے جو حشیشین کا پیر استاد حسن بن صباح لوگوں کو پلا کر  انہیں جنت دکھایا کرتا تھا۔ وہ تو ایک وقت میں چند ایک آدمیوں کو نشہ پلاتا تھا مگر یہاں اسلام کے ان دشمنوں نے اتنے وسیع علاقے کی پوری آبادی پر نشہ طاری کردیا ہے
تقی الدین نے لوگوں کو اصلیت دکھا کر انہیں بتایا  کہ ابتداء میں ایک درویش کی کہانی سنائی گئی تھی جو مسافروں کو اونٹ اور  اشرفیاں دیا کرتا ہے یہ محض بے بنیاد کہانیاں تھیں اور بے سروپا جھوٹ کہانیاں سنانے والوں کو تمہارے دین و ایمان کے دشمن بے دریغ مال ودولت دیتے تھے تقی الدین نے اس فریب کاری کے تمام پہلو بے نقاب کیے اور جب اس نے مجرموں کی اصلیت کو بے نقاب کیا تو لوگ جوش میں آکر اٹھ کھڑے ہوئے اور  انہوں نے مجرموں پر ہلہ بول دیا اس وقت لوگوں کا وہ نشہ اتر چکا تھا جو رات کو انہیں کھجوروں اور پانی میں دیا گیا تھا فوج نے ہجوم پر قابو پانے کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے تمام مجرموں اور لڑکیوں کو جان سے مار کر چھوڑا
تقی الدین نے فوج کو اسی علاقے میں پھیلا دیا اور فوج کی  نگرانی میں وہاں ایک تو تخریب کاروں کے ایجنٹوں کو گرفتار کیا اور دوسرے یہ  کہ مسجدوں میں قاہرہ کے عالم متعین کردیئے جنہوں نے لوگوں کو مذہبی اور  عسکری تعلیم وتربیت شروع کردی فرعونوں کے کھنڈروں کو لوگوں کے ہاتھوں مسمار کرا دیا گیا
تقی الدین نے قاہرہ جاکر پہلا کام یہ کیا کہ جراح  اور شارجا کی خواہش کے مطابق انہیں شادی کی اجازت دے دی اور دوسرا کام یہ کیا کہ اس نے فوج کی مرکزی کمان کو حکم دیا کہ سوڈان پر حملے کی تیاری کی جائے اس نے کھنڈروں کی مہم میں دیکھ لیا تھا کہ پڑوسی سوڈانیوں نے مصر کے  اتنے وسیع علاقے کو اپنے اثر میں لے لیا تھا اور یہ اثر شدید جوابی  کارروائی کے بغیر ختم نہیں ہوگا اس پر انکشاف بھی ہوا تھا کہ سوڈانی صلیبیوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں اور وہ باقاعدہ حملے کی تیاری بھی کررہے  ہیں لہٰذا ضروری سمجھا گیا کہ سوڈان پر حملہ کیا جائے اس سے اگر سوڈان کا کچھ علاقہ قبضے میں آئے یا نہ آئے اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ دشمن کی تیاریاں درہم برہم ہوجائیں گی اور ان کا منصوبہ لمبے عرصے لیے تباہ ہوجائے  گا تقی الدین کو سلطان ایوبی کی پشت پناہی حاصل تھی...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget