👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟡 𝟛⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟡  𝟛⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
زخمی یہاں نہیں رہے گا شارجا کو توقع نہیں تھی کہ یہ چاروں اتنی دلیری سے اس کے بھائی کو اغوا کرلیں گے اس نے انہیں فیصلہ سنا دیا کہ وہ ان کی کوئی مدد نہیں  کرے گی اس آدمی نے اسے کہا ہم تمہاری ہر ایک حرکت کو دیکھ رہے ہیں ہم  سمجھ رہے تھے کہ تم نے جراح کو پھانس لیا ہے لیکن معلوم ہوتا ہے کہ تم خود  اس کے جال میں پھنس گئی ہو
 شارجا نے اسے دھتکار دیا۔ اسے چونکہ توقع نہیں تھی کہ وہ لوگ اتنی دلیری کا مظاہرہ کرسکیں گے اس لیے اس نے جراح کے ساتھ بھی ذکر نہ کیا کہ اس کے زخمی بھائی کے اغواء کا خطرہ ہے اسی رات شارجا اور جراح ان چاروں کے چنگل میں آگئے انہیں جب گھوڑوں پر سوار  کرانے کے لیے اٹھا لے گئے تو اس نے دیکھا کہ ایک گھوڑے پر اس کا زخمی بھائی بیٹھا تھا۔ اس وقت وہ کچھ خوش ہوئی کہ اس کا بھائی آزاد ہوگیا ہے وہ فرار  پر آمادہ ہوگئی لیکن جراح کو ان لوگوں کی قید میں نہیں دیکھنا چاہتی تھی اس نے انہیں کہا بھی کہ اسے چھوڑ دو لیکن وہ نہ مانے اس کے ہاتھ اور پاؤں باندھ کر گھوڑے پر ڈال لیا راستے میں شارجا کو بتایا گیا کہ اس کے بھائی  کو کس طرح اغواء کیا گیا ہے وہاں صرف دو آدمی گئے تھے ایک نے سنتری سے کہیں کا راستہ پوچھنے کے بہانے اسے باتوں میں لگا لیا دوسرے نے پیچھے سے اس کی گردن جکڑلی اور دونوں اسے اٹھا کر اندر لے گئے
زخمی انہیں  دیکھ کر اٹھ بیٹھا اس کے بستر پر سنتری کو لٹا دیا گیا اور اس کے دل پر خنجر کے دو گہرے وار کرکے اسے ختم کردیا گیا پھر اس پر کمبل ڈال دیا گیا دونوں نے زخمی قیدی کو اٹھایا اور نکل گئے انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ شارجا جراح کے گھر میں ہے انہیں ڈر تھا کہ وہ نہیں مانے گی اور اغواء ناکام بنا دے گی لیکن اسے بھی وہاں سے غائب کرنا ضروری تھا کیونکہ اس کے  پاس بھی ایک راز تھا دو آدمی گھات میں بیٹھے تھے جونہی جراح اور شارجا تنگ اور تاریک گلی میں آئے تو انہیں جکڑ لیا گیا اور اغواء کامیاب ہوگیا
علی بن سفیان جیسا گھاگھ سراغ رساں کوئی اور تجربہ نہیں کرنا چاہتا تھا اس نے جراح اور شارجا کے بیان پر فوری اعتبار نہ کیا یہ بھی سازش کی ایک کڑی ہوسکتی تھی اس نے دونوں کو الگ کردیا اور ان سے اپنے انداز سے پوچھ گچھ کی جراح دانشمند آدمی تھا اس نے علی بن سفیان کو قائل کرلیا کہ اس نے جو بیان دیا ہے وہ لفظ بہ لفظ درست ہے اس نے کہا کہ ایک تو جذباتی پہلو  تھا اس لڑکی کی شکل وصورت اس کی مری ہوئی بہن سے ملتی جلتی تھی اس لیے وہ اسے اچھی لگی اور وہ اسے اپنے گھر بھی لے جاتا اور زخمی کے مکان میں بھی  اس کے ساتھ زیادہ وقت بیٹھا رہتا تھا جراح نے بتایا کہ اس کے اس سلوک سے لڑکی اتنی متاثر ہوئی کہ اس نے اپنے کچھ شکوک اس کے سامنے رکھ دئیے یہ اس لڑکی کا دوسرا پہلو تھا جس پر جراح نے زیادہ توجہ دی لڑکی مسلمان تھی لیکن معلوم ہوتا تھا کہ اس پر بڑے ہی خطرناک اثرات جو باہر سے آئے تھے کام کر رہے تھے جراح نے اس کے ذہن سے یہ اثرات صاف کر دئیے لڑکی چونکہ پسماندہ ذہن کی تھی صحرا کے دور دراز گوشے کی رہنے والی تھی اس لیے اس کے ذہن میں جو کچھ ڈالا گیا وہ اسی کو صحیح سمجھتی تھی اس کی باتوں سے یہ انکشاف ہوا کہ اس علاقے میں اسلام کے منافی اثرات اور صلاح الدین ایوبی کے خلاف تخریب کاری زور شور سے اور بلا روک ٹوک جاری ہے
شارجا سے علی بن سفیان نے کوئی بیان نہیں لیا اس پر سوال کرتا رہا اور اس کے جوابوں سے ایک بیان مرتب ہوگیا اس نے فرعونوں کے اس کھنڈر کے متعلق وہی انکشاف کیا جو بیان کیا جاچکا تھا وہ بھی اس کھنڈر کے اس پراسرار آدمی کی معتقد تھی جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ گناہ گاروں کو نظر نہیں آتا اور اس کی صرف آواز  سنائی دیتی ہے شارجا نے بتایا کہ اس کا بھائی فوج میں تھا اور وہ گھر میں اکیلی رہتی تھی اسے گاؤں کے کچھ لوگوں نے کہا تھا کہ وہ اس کھنڈر میں چلی جائے کیونکہ وہ مقدس انسان خوبصورت کنواریوں کو بہت پسند کرتا ہے شارجا پر علی بن سفیان کی ماہرانہ جرح سے لڑکی کے سینے سے یہ راز بھی نکل آیا کہ اس کے گاؤں کی تین کنواری لڑکیاں اس کھنڈر میں چلی گئیں تھیں پھر واپس  نہیں آئیں ایک بار اس کا بھائی گاؤں آیا تھا شارجا نے اس سے پوچھا کہ وہ کھنڈر چلی جائے؟ 
بھائی نے اسے منع کر دیا تھا شارجا اچھی طرح بیان تو نہ کرسکی لیکن یہ پتا چل گیا کہ مصر کے جنوب مغربی علاقے میں کیا ہورہا ہے جراح کے متعلق لڑکی نے بتایا کہ اسے اگر گاؤں میں لے جاتے اور قید میں ڈال دیتے تو وہاں سے بھی وہ اسے اپنی جان کی بازی لگا کر آزاد کرا دیتی اس کا جب بھائی مر گیا تو اس نے گاؤں تک جانے کا ارادہ ترک کردیا اور تہیہ کرلیا کہ وہ جراح کو یہیں سے آزاد کرائے گی ان چاروں مجرموں کو وہ اپنا ہمدرد  سمجھا کرتی تھی لیکن جراح نے اسے بتایا تھا کہ یہ اللہ کے بہت بڑے مجرم ہیں ان کے متعلق اسے یہ بھی پتا چل گیا تھا کہ انہیں اس کے بھائی کیساتھ ہمدردی نہیں بلکہ اس راز سے دلچسپی تھی جو اس کے پاس تھا اسی لیے انہوں نے اسے مار دیا
علی بن سفیان نے اس سے پوچھا کہ وہ اب کیا کرنا چاہتی ہے اور اپنے متعلق اس نے کیا سوچا ہے
اس نےجواب دیا کہ وہ ساری عمر جراح کے قدموں میں گزار دے گی اور اگر جراح اسے آگ میں کود جانے کو کہے گا تو وہ کود جائے گی اس نے اس پر رضامندی کا اظہار کیا کہ وہ کھنڈر تک جانے والوں کی رہنمائی کرے گی اور اپنے علاقے کے ہر اس فرد کو پکڑوائے گی جو مصر کی حکومت کے خلاف کام کر رہا ہے
علی بن سفیان کے مشورے پر فوج اور انتظامیہ کے اعلیٰ حکام کا اجلاس بلایا گیا اور صورت حال تقی الدین کے سامنے رکھی گئی سب کا یہ خیال تھا کہ تقی الدین  مصر میں نیا نیا آیا ہے اور اتنی بڑی ذمہ داری بھی اس کے سر پر پہلی بار پڑی ہے اس لیے وہ محتاط فیصلے کرے گا اور شاید کوئی خطرہ مول نہ لینا چاہے اجلاس میں بیشتر حکام نے اس پر اتفاق کیا کہ چونکہ اتنے وسیع علاقے کی اتنی زیادہ آبادی گمراہ کردی گئی ہے اس لیے اس آبادی کے خلاف کارروائی نہ کی جائے مسئلہ یہ تھا کہ کھنڈرات کے اندر کے جو حالات معلوم ہوئے تھے  ان سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہاں سے ایک نیا عقیدہ نکلا ہے جسے لوگوں نے قبول کرلیا ہے لہٰذا یہ لوگ اپنے معبد اورعقیدے پر فوجی حملہ برداشت نہیں کریں گے اس کا حل یہ پیش کیا گیا کہ اس علاقے میں اپنے معلم عالم اور دانشور بھیجے جائیں جو لوگوں کو راہ راست پر لائیں ان کے جذبات کو مجروح نہ کیا جائے اجلاس میں ایک مشورہ یہ بھی پیش کیا گیا کہ سلطان ایوبی کو صورت حال سے آگاہ کیا جائے اور ان سے حکم لے کر کارروائی کی جائے
اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ انسانوں سے ڈرتے ہیں
تقی الدین نے کہا اور آپ کے دل  میں خدا اور اس کے رسول صلی اللّٰہ علیہ وآلہ وسلم کا ڈر نہیں جن کے سچے  مذہب کی وہاں توہین ہورہی ہے امیر مصر اور سالار اعلیٰ کو خبر تک نہیں دی جائے گی کہ مصر میں کیا ہورہا ہے کیا آپ اس سے بے خبر ہیں کہ وہ میدان جنگ میں کتنے طاقتور دشمن کے مقابلے میں سینہ سپر ہیں؟ 
کیا آپ صلاح الدین ایوبی کو یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ہم سب دوچار ہزار گناہ گاروں اور دشمنان دین سے ڈرتے ہیں؟ 
میں براہ راست کارروائی کا اور بڑی ہی سخت کارروائی کا قائل ہوں گستاخی معاف امیر محترم! ایک نائب سالار نے کہا صلیبی ہم پر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ اسلام تلوار کے زور سے پھیلایا گیا ہے ہم اس الزام کی تردید عملی طور پر کرنا چاہتے ہیں ہم پیار اور خلوص کا پیغام لے کر جائیں گے 
تو پھر اپنی کمر کے ساتھ تلوار کیوں  لٹکائے پھرتے ہو؟ تقی الدین نے طنزیہ لہجے میں کہا فوج پر اتنا خرچ  کیوں کررہے ہو؟ 
کیا اس سے یہ بہتر نہیں کہ ہم فوج کو چھٹی دے دیں اور ہتھیار دریائے نیل میں پھینک کر مبلغوں کا ایک گروہ بنا لیں اور درویشوں کی طرح گاؤں گاؤں قریہ قریہ دھکے کھاتے پھریں؟
تقی الدین نے جذباتی لہجے میں کہا اگر رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پیغام کے خلاف صلیب کی تلوار نکلے گی تو اسلام کی شمشیر نیام میں نہیں پڑی رہے گی اور جب شمشیر اسلام نیام سے نکلے گی تو ہر اس سر کو تن سے جدا کرے گی جو کلمہ رسول  صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے جھکنے سے انکار کرتا ہے وہ ہر اس زبان  کو کاٹے گی جو کلمہ حق کو جھٹلاتی ہے صلیبی اگر یہ الزام عائد کرتے ہیں کہ ہم نے اسلام تلوار کے زور پر پھیلایا ہے تو میں ان سے معافی مانگنے کے لیے تیار نہیں ہوں سلطنت اسلامیہ کیوں سکڑتی چلی آرہی ہے؟ 
خود مسلمان کیوں اسلام کے دشمن ہوئے جارہے ہیں؟ صرف اس لیے کہ صلیبیوں نے عورت اور شراب سے زرو جواہرات اور ہوس اقتدار سے اسلام کی تلوار کو زنگ آلود کردیا ہے وہ ہم پر جنگ پسندی اور تشدد کا الزام عائد کرکے ہماری عسکریت روایات کو ختم  کرنا چاہتے ہیں کیونکہ وہ ہمارے خلاف لڑ نہیں سکتے ان کے بری لشکر اور بحری بیڑے ناکام ہوگئے ہیں وہ ہمارے درمیان تخریب کاری کررہے ہیں اللہ کے سچے دین کی جڑیں کاٹ رہے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ ان کے خلاف تلوار نہ اٹھاؤ
غور سے سنو میرے دوستو! صلیبی اور آپ کے دوسرے دشمن آپ کو  محبت کا جھانسہ دے کر آپ کے ہاتھ سے تلوار لینا چاہتے ہیں وہ آپ کی پیٹھ پر وار کرنا چاہتے ہیں، ان کا یہ اصول محض ایک فریب ہے کہ کوئی تمہارے ایک گال پر تھپڑ مارے تو دوسرا گال آگے کردو کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جسے یہ معلوم نہیں کہ کرک میں وہ مسلمان آبادی کا کیا حشر کررہے ہیں؟ 
کیا آپ نے شوبک فتح کرکے وہاں مسلمانوں کا بیگار کیمپ نہیں دیکھا تھا؟ 
وہاں مسلمان عورتوں کی جو انہوں نے عصمت دری کی وہ نہیں سنی تھیں؟ 
مقبوضہ فلسطین میں مسلمان خوف اور ہراس کی بے آبروئی اور مظلومیت کی زندگی بسر کررہے  ہیں صلیبی مسلمانوں کے قافلے لوٹتے اور عورتوں کو اغوا کرکے لے جاتے ہیں اور آپ کہتے ہیں کہ اسلام کے نام پر تلوار اٹھانا جرم ہے اگر یہ جرم ہے تو میں اس جرم سے شرمسار نہیں صلیبیوں کی تلوار نہتوں کو کاٹ رہی ہے صرف اس  لیے کہ وہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نام لیوا ہیں صلیب اور بتوں کے پجاری نہیں تمہاری تلوار صرف وہاں ہاتھ سے گر پڑنی چاہیے جہاں سامنے نہتے ہوں اور ان تک خدا کا پیغام نہ پہنچا ہو ہمیں اس اصول کا  قائل نہیں ہونا چاہیے کہ لوگوں کے جذبات پر حملہ نہ کرو میں نے دیکھا ہے کہ عرب میں چھوٹے چھوٹے مسلمان حکمران اور نااہل امراء لوگوں کو خوش کرنے کے لیے بڑے دلکش اور دلوں کو موہ لینے والے الفاظ استعمال کرتے ہیں ان کے غلط جذبات اور احساسات کو اور زیادہ بھڑکا کر انہیں خوش رکھتے ہیں تاکہ لوگ انہیں عیش وعشرت سے اور غیر اسلامی طرز زندگی سے روک نہ سکیں ان امراء کا طریقہ کار یہ ہے کہ انہوں نے خوشامدیوں کا ایک گروہ پیدا کرلیا ہے جو ان  کی ہر آواز پر لبیک کہتا ہے اور رعایا میں گھوم پھر کر ثابت کرتا رہتا ہے  کہ ان کے امیر نے جو بات کہی ہے وہ خدا کی آواز ہے اس کا نتیجہ یہ ہے کہ اللہ کے بندے بدکار اور عیاش انسانوں کے غلام ہوتے چلے جارہے ہیں قوم حاکم اور محرم میں تقسیم ہوتی چلی جارہی ہے
ہم دیکھ رہے ہیں کہ دشمن ہماری جڑیں کاٹ رہا ہے اور ہماری قوم کے ایک حصے کو کفر کی تاریکیوں میں لے جارہا ہے اگر ہم نے سخت رویہ اختیار نہ کیا تو اس کا مطلب یہ ہوگا  کہ ہم کفر کی تائید کررہے ہیں میرے بھائی صلاح الدین ایوبی نے مجھے کہا  تھا کہ غداری ہماری روایت بنتی جارہی ہے لیکن میں یہ بھی دیکھ رہا ہوں کہ یہ بھی روایت بنتی جارہی ہے کہ ایک ٹولہ حکومت کیا کرے گا اور قوم محکوم ہوگی حکمران ٹولہ قوم کا خزانہ شراب میں بہائے گا اور قوم پانی کے گھونٹ کو بھی ترسے گی میرے بھائی نے ٹھیک کہا تھا کہ ہمیں قوم اور مذہب کے مستقبل پر نظر رکھنی ہے ہمیں قوم میں وقار اور کردار کی بلندی پیدا کرنی ہے آنے والی نسلیں ہماری قبروں سے جواب مانگیں گی اس مقصد کے لیے ہمیں ایسی کارروائی سے گریز نہیں کرنا چاہیے جو ملک اور مذہب کے لیے سود مند ہو  اگر یہ برحق اقدام قوم کے چند ایک افراد کے لیے تکلیف دہ ثابت ہوتا ہے تو  ہمیں اس کی پرواہ نہیں کرنی چاہیے ہم قوم کا مفاد اور وقار چند ایک افراد  کی خوشنودی پر قربان نہیں کرسکتے ہم ملک کے ایک اتنے بڑے حصے کو صرف اس لیے دشمن کی تخریب کاری کے سپرد نہیں کرسکتے کہ وہاں کے لوگوں کے جذبات مجروح ہوں گے۔ تم دیکھ رہے ہو کہ وہاں کے لوگ سیدھے سادے اور بے علم ہیں انہیں اپنے وہ مسلمان بھائی جو قبیلوں کے سردار ہیں اور مذہب کے اجارہ دار ہیں دشمن کا آلۂ کار بن کر گمراہ رہے ہیں
اجلاس میں کسی کو توقع  نہیں تھی کہ تقی الدین کا ردعمل اتنا شدید اور فیصلہ اتنا سخت ہوگا اس نے جو دلائل پیش کیے ان کے خلاف کسی کو جرأت نہ ہوئی کہ کوئی مشورہ ہی پیش کرتا اس نے کہا مصر میں جو فوج ہے یہ محاذ سے آئی ہے اور اس سے پہلے بھی لڑ چکی ہے اس فوج کے صرف پانچ سو گھوڑ سوار دو سو شتر سوار اور پانچ سو پیادہ آج شام اس علاقے کی طرف روانہ کردو جہاں وہ مشکوک کھنڈرات ہیں یہ فوج اس علاقے سے اتنی دور رہے گی کہ ضرورت پڑے تو فوری طور پر محاصرہ  کرسکے میرے ساتھ دمشق سے جو دو سو سوار آئے ہیں وہ علاقے کے اندر جاکر  کھنڈروں پر حملہ کریں گے ایک چھاپہ مار دستہ کھنڈروں کے اندر جائے گا دوسو سوار کھنڈروں کو محاصرے میں رکھیں گے اگر باہر سے حملہ ہوا یا مزاحمت ہوئی تو فوج کا بڑا حصہ مقابلہ کرے گا اور محاصرہ تنگ کرتا جائے گا اس کارروائی میں فوج کو سختی سے حکم دیا جائے کہ کسی نہتے کو نہیں چھیڑا جائے  گا
اس فیصلے کے فوراً بعد فوجی حکام کوچ، حملے اور محاصرے وغیرہ کا منصوبہ تیار کرنے میں مصروف ہوگئے
سلطان ایوبی مصر کی تازہ صورت حال سے بے خبر کرک اور شوبک قلعوں کے درمیان  میل ہا میل وسیع صحرا میں جہاں ریتلی چٹانوں ٹیلوں اور گھاٹیوں کے علاقے  بھی تھے اور جہاں کسی کسی جگہ پانی اور سائے کی بھی افراط تھی، صلیبیوں کے نئے جنگی منصوبے کے مطابق اپنی افواج کی صف بندی کررہا تھا جاسوسوں نے اسے  بتایا تھا کہ صلیبی دگنی طاقت سے جو زیادہ تر زرہ پوش اور بکتر بند ہوگی قلعے سے باہر آکر حملہ کریں گے۔ یہ فوج سلطان ایوبی کی فوج کو آمنے سامنے کی جنگ میں الجھالے گی اور دوسری فوج عقب سے حملے کرے گی سلطان ایوبی نے اپنی فوج کو دور دور تک پھیلا دیا۔ سب سے پہلا کام یہ کیا کہ جہاں جہاں پانی اور سبزہ تھا وہاں فوراً قبضہ کرلیا ان جگہوں کے دفاع کے لیے اس نے بڑے سائز کی کمانوں والے تیر انداز بھیج دیئے ان کے تیر بہت دور تک جاتے  تھے وہاں منجنیقیں بھی رکھیں جو آگ کی ہانڈیاں پھینکتی تھیں یہ اہتمام اس  لیے کیا گیا تھا کہ دشمن قریب نہ آسکے بلندیوں پر بھی قبضہ کرلیا گیا سلطان ایوبی نے تمام دستوں کو حکم دیا کہ دشمن سامنے سے حملہ کرے تو وہ اور  زیادہ پھیل جائیں تاکہ دشمن بھی پھیلنے پر مجبور ہوجائے اس نے اپنی فوج کو ایسی ترتیب میں کردیا کہ دشمن یہ فیصلہ ہی نہیں کرسکتا تھا کہ مسلمان فوج کے پہلو کدھر اور عقب کس طرف ہے
سلطان ایوبی نے فوج کا ایک بڑا حصہ ریزرو میں رکھ لیا تھا ایک حصے کو اس طرح متحرک رکھا کہ جہاں کمک کی ضرورت پڑے فوراً کمک دے سکے اس کا سب سے  زیادہ خطرناک ہتھیار اس کے چھاپہ مار دستے تھے اور اس سے زیادہ خطرناک اس کا جاسوسی کا نظام تھا جو اسے صلیبیوں کی نقل وحرکت کی خبریں دے رہا تھا شوبک کا قلعہ سلطان ایوبی سر کرچکا تھا۔ صلیبیوں کے منصوبے میں یہ بھی تھا  کہ ان کے لیے حالات سازگار ہوئے تو وہ شوبک کو محاصرے میں لے کر فتح کرلیں گے انہیں توقع تھی کہ ان کا اتنا زیادہ لشکر سلطان ایوبی کی قلیل تعداد فوج کو صحرا میں ختم کردے گا یا اتنا کمزور کردے گا کہ وہ شوبک کو باہر سے مدد نہیں دے سکے گی۔ ان کے اس منصوبے کے پیش نظر سلطان ایوبی نے شوبک کی وہ طرف جس طرف سے صلیبی اس قلعے پر حملہ کرسکتے تھے خالی چھوڑ دی اس نے صلیبیوں کے لیے موقعہ پیدا کردیا کہ وہ راستہ صاف دیکھ کر شوبک پر حملہ کریں اس طرف سے اس نے دیکھ بھال والی چوکیاں بھی ہٹا دیں اور دور دور تک علاقہ خالی کردیا
صلیبیوں کے جاسوسوں نے کرک میں فوراً اطلاع  پہنچائی کہ سلطان ایوبی نے صلیبیوں کے ساتھ صحرا میں لڑنے کے لیے فوج شوبک سے دور اکٹھی کرلی ہے اور شوبک کا راستہ صاف ہوگیا ہے صلیبیوں نے فوراً  اپنی اس فوج کو جو سلطان ایوبی کے سامنے سے حملہ کرنے کے لیے باہر نکالی تھی حکم دے دیا کہ رخ بدل کر شوبک کی طرف چلی جائے چنانچہ یہ فوج ادھر کو  ہولی اس کے پیچھے رسد کے ذخیرے جارہے تھے فوج جب شوبک سے چار میل دور رہ  گئی تو اسے روک لیا گیا یہ اس فوج کا عارضی پڑاؤ تھا رسد کی گھوڑا گاڑیاں اونٹ اور خچر ہزاروں کی تعداد میں چلے آرہے تھے انہیں کوئی خطرہ  نہ تھا کیونکہ مسلمانوں کی فوج کا دور دور تک نام ونشان نہ تھا صلیبی حکمران بہت خوش تھے انہیں شوبک کا قلعہ اپنے قدموں میں پڑا نظر آرہا تھا  مگر رات کو انہیں اپنے پیچھے پانچ چھ میل دور آسمان لال سرخ نظر آیا شعلے اتنے بلند تھے کہ اتنی دور سے بھی نظر آئے تھے صلیبیوں نے سوار دوڑا دیئے جہاں سے شعلے اٹھ رہے تھے، وہاں ان کی رسد تھی سوار وہاں پہنچے تو انہیں  صحرا میں بے لگام گھوڑے اور بے مہار اونٹ ہر طرف دوڑتے بھاگتے نظر آئے
یہ تباہی سلطان ایوبی کے ایک چھاپہ مار دستے کی بپا کی ہوئی تھی رسد میں  گھوڑوں کے لیے خشک گھاس سے لدی ہوئی سینکڑوں گھوڑا گاڑیاں تھیں انہیں رسد کے کیمپ کے اردگرد کھڑا کیا گیا تھا صلیبی خوش فہمیوں میں مبتلا تھے انہیں معلوم نہیں تھا کہ ان کی ہر ایک حرکت پر سلطان ایوبی کی نظر ہے رات کو جب رسد کا کیمپ سو گیا تو مسلمان چھاپہ ماروں نے اونٹوں پر جاکر خشک گھاس میں آتشیں فلیتوں والے تیر چلائے گھاس فوراً جل اٹھی دیکھتے ہی دیکھتے کیمپ شعلوں کے گھیرے میں آگیا ان کے نرغے میں آئے ہوئے انسان جانیں  بچانے کے لیے ادھر ادھر دوڑے تو ان میں سے بہت سے تیروں کا شکار ہوگئے جو جانور رسیاں توڑ سکے وہ تو بھاگ گئے اور جو کھل نہ سکے وہ زندہ جل گئے۔ دور  دور تک پھیلا ہوا کیمپ جہنم بن گیا چھاپہ ماروں نے کئی ایک اونٹ اور  گھوڑے پکڑ لیے اور واپس چلے گئے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
صبح طلوع ہوئی صلیبی کمانڈروں نے جاکر رسد کا کیمپ دیکھا، وہاں کچھ نہیں بچا تھا ان کی ایک ماہ کی رسد تباہ  ہوچکی تھی وہ سمجھ گئے کہ شوبک کا راستہ جو صاف تھا، یہ سلطان ایوبی کی  ایک چال تھی انہوں نے بغیر دیکھے کہہ دیا کہ کرک سے شوبک تک ان کی رسد اور  کمک کا راستہ محفوظ نہیں چنانچہ انہوں نے شوبک کا محاصرہ ملتوی کردیا رسد کے بغیر محاصرہ ناممکن تھا اور جب انہیں اطلاع ملی کہ گزشتہ رات اس فوج  کی بھی رسد تباہ ہوگئی ہے جو سلطان ایوبی کی فوج پر سامنے سے حملہ کرنے کے لیے جمع تھی تو انہوں نے اپنے تمام تر جنگی منصوبے پر نظرثانی کرنے کا  فیصلہ کرلیا۔ انہیں کہیں بھی سلطان ایوبی کی فوج نظر نہیں آرہی تھی انہیں جاسوس یہ بھی نہیں بتا سکے تھے کہ مسلمانوں کی فوج کا اجتماع کہاں ہے دراصل یہ اجتماع کہیں بھی نہیں تھا
سلطان ایوبی کو اطلاع ملی کہ صلیبیوں نے دونوں محاذوں پر پیش قدمی روک دی ہے تو اس نے اپنے کمانڈروں کو بلا کر کہا صلیبیوں نے جنگ ملتوی کردی ہے لیکن ہماری جنگ جاری ہے وہ  دونوں فوجوں کے آمنے سامنے کے تصادم کو جنگ کہتے ہیں میں چھاپوں اور شب خونوں کو جنگ کہتا ہوں اب چھاپہ مارو کو سرگرم رکھو صلیبی دونوں طرف سے پیچھے ہٹ رہے ہیں انہیں اطمینان سے پیچھے نہ ہٹنے دو انتہائی عقب یا پہلو  پر شب خون مارو اور غائب ہو جاؤ صلیبی آپ کو اپنے سامنے لاکر لڑنا چاہتے  ہیں لیکن میں آپ کو اس میدان میں ان کے سامنے لے جاؤں گا جو آپ کی مرضی کا ہوگا اور جہاں کی ریت بھی آپ کی مدد کرے گی
سلطان ایوبی کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا وہ اپنے عملے اور محافظ دستے کے ساتھ خانہ بدوش تھا کسی ایک جگہ نہ ٹھہرنے کے باوجود معلوم ہوتا تھا جیسے ہر جگہ موجود ہے
مصر میں سلطان ایوبی کا بھائی تقی الدین صلیبیوں کے دوسرے محاذ پر حملہ آور ہورہا تھا یہ مصر کا جنوب مغربی علاقہ تھا، جہاں کے ڈراؤنے ٹیلوں کے  اندر فرعونوں کے ہولناک کھنڈرات میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے واپس آنے والے تھے تمام تر علاقہ ایک نئے عقیدے کا پیرو کار ہوگیا تھا جمعرات کی شام تھی زائرین کا ہجوم کھنڈر کے غار نما دروازے میں داخل ہورہا تھا اندر بڑے کمرے میں پراسرار آواز گونج رہی تھی لوگوں کو دیوار پر گناہ گار اور نیکو کار جاتے نظر آرہے تھے وہاں وہی سماں تھا جو ہر جمعرات کے روز ہوا کرتا تھا اچانک اس پراسرار مقدس انسان کی آواز خاموش ہوگئی جس کے متعلق مشہور تھا کہ گناہ گاروں کو نظر نہیں آتا اس کے بجائے ایک اور آواز  سنائی دی گمراہ انسانو! آج کی رات گھروں کو نہ جانا کل صبح تم پر وہ راز فاش ہوجائے گا جس کے لیے تم بیتاب ہو یہاں سے فوراً باہر نکل جاؤ۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام تشریف لارہے ہیں اس کھنڈر سے دور جاکر سوجاؤ بڑے کمرے میں حیرت زدہ لوگوں کو دیوار پر جو چمکتے ہوئے ستارے نظر آتے تھے، وہ ماند پڑگئے اس وقت ان ستاروں میں سے حسین لڑکیاں اور خوبرو مرد ہنستے کھیلتے گزر رہے تھے۔ لوگوں نے دیکھا کہ فوجی قسم کے کچھ آدمی انہیں پکڑ پکڑ  کر لے جارہے ہیں کہیں سے چیخیں بھی سنائی دے رہی تھیں بادل جو گرجتے تھے  وہ بھی خاموش ہوگئے لوگوں کے لیے یہ جگہ بڑی ہی مقدس تھی وہ خوف زدہ  ہوکے باہر کو بھاگے اور کھنڈر خالی ہوگیا یہ انقلاب تقی الدین اور علی بن سفیان لائے تھے ان کے ساتھ فوج کی وہی نفری تھی جو تقی الدین نے اپنے حکم میں بتائی تھی یہ دستے شام کے بعد ٹیلوں والے علاقے کے قریب پہنچ  گئے تھےان کی رہنمائی شارجا کررہی تھی جو گھوڑے پر سوار تھی وہ انہیں جمعرات کی شام وہاں لے گئی تھی کیونکہ اس روز وہاں میلہ لگتا تھا اور دور  دور سے لوگ آتے تھے فوج کے بڑے حصے کو جس میں پانچ سو گھوڑ سوار، دوسو شتر  سوار اور پانچ سو پیادہ تھے۔ اس علاقے سے ذرا دور رکھا گیا تھا انہیں نہتے لوگوں کے خلاف استعمال نہیں کرنا تھا ان کے ذمہ یہ فرض تھا کہ سوڈان  کی سرحد پر نظر رکھیں چونکہ کھنڈروں کے اندر کی تخریب کاری صلیبیوں اور  سوڈانیوں کی پشت پناہی پر ہورہی تھی اس لیے یہ خطرہ تھا کہ وہاں فوجی کارروائی کی گئی تو سوڈانی حملہ کردیں گے تقی الدین نے اس علاقے کے قریب  کے سرحدی دستوں کو جو سرحدوں کی حفاظت کے لیے وہیں رہتے تھے قریب بلا کر  اپنے تحت کرلیا تھا
دوسو گھوڑ سوار جو تقی الدین کے ساتھ دمشق سے  آئے تھے وہ وہاں کے چنے ہوئے اور دیوانگی کی حد تک دلیر سوار تھے دوڑتے  گھوڑوں سے تیر اندازی ان کا خصوصی کمال تھا۔ پیادہ سپاہیوں میں سلطان ایوبی کے اپنے ہاتھوں تیار کیے ہوئے چھاپہ مار بھی تھے انہیں ایسی ٹریننگ دی  گئی تھی کہ انتہائی دشوار ٹیلوں اور درختوں پر حیران کن رفتار سے چڑھتے اور اترتے تھے۔ چند گز پھیلی ہوئی آگ سے گزر جانا ان کا معمول تھا۔ ان چھاپہ  مار جانبازوں کو اس وقت کھنڈر کی طرف روانہ کیا گیا جب لوگ اندر جارہے تھے وہاں تک انہیں شارجا لے گئی تھی علی بن سفیان ان کے ساتھ تھا۔ تیز  رفتار قاصد بھی ساتھ تھے تاکہ پیغام رسانی میں تاخیر نہ ہو کھنڈر کے  دروازے کے باہر دو آدمی کھڑے اندر جانے والوں کو تین تین کھجوریں کھلا رہے  تھے دروازے کے اندر گپ اندھیرا تھا اس اندھیرے سے لوگ گزر کر اندر روشن  کمرے میں جاتے تھے باہر صرف ایک مشعل جل رہی تھی جس کی روشنی معمولی سی  تھی
چھ آدمی جن کے سر چادروں میں ڈھکے ہوئے تھے زائرین کے ساتھ  دروازے تک گئے اور ہجوم سے ہٹ کر کھجوریں کھلانے والوں کے پیچھے جا کھڑے  ہوئے۔ انہیں کہا گیا کہ وہ سامنے سے گزریں لیکن وہ سن ہوکے رہ گئے کیونکہ ان کی پیٹھوں میں خنجروں کی نوکیں رکھ دی گئی تھیں یہ چھ آدمی چھاپہ مار  تھے انہوں نے ایک ایک آدمی کے پیچھے ہو کر خنجر ان کی پیٹھوں سے لگا کر  آہستہ سے کان میں کہا تھا زندہ رہنا چاہتے ہو تو یہاں سے باہر چلے جاؤ  تم سب فوج کے گھیرے میں ہو کھجوریں کھلانے اور پانی پلانے والے آدمی ذرا سی بھی مزاحمت کے بغیر باہر نکل گئے چھاپہ ماروں نے خنجر اس طرح چغوں  میں چھپالیے کہ لوگوں میں سے کوئی دیکھ نہ سکا یہ چار آدمی جونہی باہر کو آئے، وہاں دس بارہ چھاپہ مار دیہاتیوں کے لباس میں کھڑے تھے انہوں نے  چاروں کو گھیر لیا اور دھکیلتے ہوئے دور لے گئے وہاں انہیں رسیوں سے باندھ  دیا گیا۔ چھ چھاپہ مار جو کھجوروں اور پانی کے مشکیزوں کے پاس رہ گئے تھے،  انہوں نے اندر جانے والے لوگوں سے کہنا شروع کردیا کہ کھجوروں اور پانی کے  بغیر اندر جاؤ کیونکہ اندر سے نیا حکم آیا ہے سیدھے سادے دیہاتی اندر  جاتے رہے۔
ان کے ساتھ اب چھاپہ مار بھی اندر جارہے تھے اور مشعلیں بھی اندر جارہی تھیں لوگ حیران تھے کہ مشعلیں کیوں لے جائی جارہی ہیں کم  وبیش پچاش مشعلیں اور دو سو چھاپہ مار اندر چلے گئے۔ وہ روشن کمرے میں نہ گئے بلکہ ان تاریک راستوں اور غلام گردشوں میں چلے گئے جن میں باہر کے لوگ  نہیں جاسکتے تھے۔ ان میں سے بعض کے پاس خنجر اور خنجر نما تلواریں تھیں اور  بعض کے پاس چھوٹی کمانیں اس دروازے سے بھی جس سے لوگ باہر نکلتے تھے چھاپہ مار داخل ہوگئے وہ ہدایت کے مطابق تاریک بھول بھلیوں میں جارہے تھے تقی الدین کے دو سو گھوڑے سوار آگے گئے اور انہوں نے پورے کھنڈر کو گھیرے  میں لے گیا۔ ان کے ساتھ پیادہ دستہ بھی تھا جس کے سپاہیوں نے اندر سے نکلنے  والوں کو روک کر ایک طرف اکٹھا کرنا شروع کردیا چھاپہ مار مشعل برداروں  کے ساتھ اندر گئے تو انہیں ایسے محسوس ہونے لگا جیسے کسی کے پیٹ میں چلے  گئے ہوں اندر کے راستے اور کمرے انتڑیوں کی مانند تھے یہ راستے انہیں ایک  ایسے طلسم میں لے گئے جسے دیکھ کر چھاپہ مار بدک کر رک گئے یہ ایک بہت  کشادہ کمرہ تھا جس کی چھت تو اونچی تھی اندر بہت سے مرد اور عورتیں تھیں ان میں کچھ ایسے تھے جن کے چہرے بھیڑیوں کی طرح تھے بعض تھے تو انسان لیکن  وہ اس قدر بدصورت اور بھیانک چہروں والے تھے کہ دیکھ کر ڈر آتا تھا، وہ جن  اور بھوت لگتے تھے اور ان کے درمیان خوبصورت اور جوان لڑکیاں بھڑکیلے اور  چمکیلے کپڑے پہنے ہنس کھیل رہی تھیں ایک طرف دیوار کے ساتھ چند ایک  خوبصورت لڑکیاں خوبرو مردوں کے ساتھ مٹک مٹک کر چل رہی تھیں ادھر چھت سے  فرش تک پردے لٹکے ہوئے تھے جو دائیں بائیں ہٹت کھلتے اور بند ہوتے تھے۔  دوسری طرف آنکھوں کو خیرہ کردینے والی روشنی چمکتی اور بجھتی تھی

اگر چھاپہ ماروں کو یہ یقین نہ دلایا گیا ہوتا کہ کھنڈر کے اندر جو کوئی  بھی ہے اور جس حلیے میں بھی ہے وہ انسان ہوگا اور اندر کوئی بدرو  روح یا بھوت پریت نہیں تو چھاپہ مار وہاں سے بھاگ جاتے۔ وہاں خوبصورت لڑکیاں اور خوبرو مرد تھے وہ بھی ڈراؤنے لگتے تھے
اس عجیب وغریب مخلوق نے جب  مشعل بردار چھاپہ ماروں کو دیکھا تو انہیں ڈرانے کے لیے ڈراؤنی آوازیں  نکالنے لگے جو آدمی بدصورت چڑیلوں اور بھیڑیوں کے چہروں والے تھے ان کی آوازیں زیادہ خوفناک تھیں اس دوران ایک دو آدمیوں نے شاید ڈر کر اپنے چہرے  بے نقاب کردیئے یہ بھیڑیوں کے چہرے تھے جو انہوں نے اتارے تو اندر سے انسانوں کے چہرے نکلے چھاپہ ماروں نے سب کو گھیر کر پکڑ لیا اور سب کے  نقاب اتار دیئے، وہاں شراب بھی پڑی تھی ان سب کو باہر لے گئے۔ کھنڈر کے  دوسرے حصوں کی تلاشی میں ایک آدمی پکڑا گیا جو ایک تنگ سی سرنگ کے منہ میں منہ ڈالے بھاری آواز میں کہہ رہا تھا  گناہوں سے توبہ کرو حضرت عیسیٰ علیہ السلام آنے والے ہیں اور ایسے کئی الفاظ تھے جو وہ بول رہا تھا یہ سرنگ گھوم پھر کر اس روشن کمرے میں جاتی تھی جہاں زائرین کو یہ پراسرار ڈراؤنی اور خوبصورت مخلوق دکھا کر حیرت زدہ کیا جاتا تھا اس آدمی کو وہاں  سے ہٹا کر چھاپہ ماروں کے ایک کمان دار نے سرنگ میں منہ ڈال کر کہا کہ اے  گمراہ لوگوں آج رات گھروں کو نہ جانا کل صبح تم پر وہ راز فاش ہوجائے گا جس  کے لیے تم بیتاب ہو
کھنڈرات کے اندر کسی نے بھی مزاحمت نہ کی خنجروں اور تلواروں کے آگے سب اپنے آپ کو گرفتاری کے لیے پیش کرتے چلے گئے چھاپہ مار ان آدمیوں کی نشاندہی پر جنہیں گرفتار کرلیا گیا تھا ان جگہوں  تک پہنچے جہاں بجلی کی طرح چمکنے والی روشنیوں کا انتظام تھا ڈھکی چھپی جگہوں میں مشعلیں جل رہی تھی ان کے پیچھے لکڑی کے تختے تھے جن پر ابرق  چپکایا ہوا تھا۔ ان تختوں کے زاویے بدلتے تھے تو ابرق کی چمک لوگوں کی  آنکھوں میں پڑتی اور چندھیا دیتی تھی کمرہ تاریک کرنے کے لیے مشعلوں کو پیچھے کرلیا جاتا تھا بادل گرجنے کی آوازیں دھات کی چادروں کو جھٹکے دے کر  پیدا کی جاتی تھی پردوں پر جگہ جگہ ابرق کے ٹکڑے چپکا دیئے گئے تھے جن پر روشنی پڑتی تو ستاروں کی طرح چمکتے تھے اس طرف پردوں کا رنگ ایسا تھا کہ  کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ کپڑا ہے وہ اسے پھٹی ہوئی دیوار سمجھتے تھے۔ عقل اور ہوش والے انسان کے لیے یہ کوئی معمہ نہیں تھا بے شک یہ روشنیوں  کے خاص انتظام کا جادو تھا جو لوگوں کو مسحور کرلیتا تھا لیکن اندر جو جاتا  تھا اس کی عقل اور ہوش پر اس کا کوئی اختیار نہیں ہوتا تھا انہیں اندر جاتے وقت دروازے پر جو تین کھجوریں کھلائی جاتی اور پانی پلایا جاتا تھا،  ان میں نشہ آور آمیزش ہوتی تھی اس کا اثر فوراً ہوجاتا تھا اس اثر کے تحت  زائرین کے ذہنوں پر جو بھی تصور بٹھایا جاتا اور کانوں میں جو بھی آوازیں  ڈالی جاتی وہ اسے سو فیصد صحیح اور برحق سمجھ لیتے تھے اسی نشے کا اثر  تھا کہ لوگ باہر جاکر دوبارہ اندر آنے کی خواہش کرتے تھے۔ انہیں معلوم نہیں  تھا کہ یہ اس عقیدے کا تاثر نہیں بلکہ اس نشے کا اثر ہے جو انہیں کھجوروں اور پانی میں دیا جاتا ہے
کھجوروں کے انبار اور پانی کے مشکیزوں پر بھی قبضہ کرلیا گیا تھا اندر پکڑ دھکڑ اور تلاشی کا سلسلہ جاری تھا باہر دو سو سپاہیوں نے کھنڈروں کا محاصرہ کررکھا تھا ہر طرف مشعلوں کی  روشنی تھی فوج کا بڑا حصہ اور دو سرحدی دستے سوڈان کی سرحد کے ساتھ ساتھ  گھوم پھر رہے تھے رات گزرگئی سوڈان کی طرف سے کوئی حملہ نہ ہوا کھنڈرات میں بھی کوئی مزاحمت نہ ہوئی صبح کے اجالے نے اس علاقے کو روشن کیا تو  وہاں ہراساں دیہاتیوں کا ہجوم تھا۔ کچھ لوگ ادھر ادھر سوگئے تھے گھوڑ سواروں نے گھیرا ڈال رکھا تھا
کچھ دیر بعد تمام لوگوں کو ایک جگہ جمع کرکے بٹھا دیا گیا ان کی تعداد تین اور چار ہزار کے درمیان تھی ایک طرف سے ایک جلوس آیا جسے فوجی ہانک کر لا رہے تھے۔ اس جلوس میں  بھیڑیوں اور چڑیلوں کے چہروں والے انسان تھے اس میں مکروہ اور بڑی بھیانک شکلوں والے انسان بھی تھے اور اس جلوس میں وہ تمام مخلوق تھی جو لوگوں کو کھنڈر کے اندر دکھائی جاتی تھی اور بتایا جاتا تھا کہ یہ آسمان ہے جہاں یہ لوگ مرنے کے بعد گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں۔ ان کا سب سے بڑا گناہ یہ  بتایا جاتا تھا کہ یہ جنگ وجدل کے عادی تھے یعنی یہ فوجی تھے اس جلوس سے  الگ دس بارہ لڑکیوں کو بھی لوگوں کے سامنے لایا گیا یہ بہت ہی خوبصورت  لڑکیاں تھیں۔ ان کے ساتھ خوبرو مرد تھے ان دونوں جلوسوں کو لوگوں کے ہجوم  کے سامنے ایک اونچی جگہ پر کھڑا کردیا گیا اور انہیں کہا گیا کہ لوگوں کو  اپنے چہرے دکھاؤ سب نے بھیڑیوں اور چڑیلوں کے مصنوعی چہرے اتار دیئے ان  کے اندر سے اچھے بھلے انسانی چہرے نکل آئے جو آدمی مکروہ اور بھیانک چہروں  والے تھے، وہ بھی مصنوعی چہرے تھے یہ چہرے بھی اتار دیئے گئے
لوگوں سے کہا گیا کہ وہ ان آدمیوں اور ان لڑکیوں کے قریب سے گزرتے جائیں اور انہیں پہنچانیں لوگ تو اسی پر حیران ہوگئے کہ یہ آسمان کی مخلوق نہیں اسی زمین کے انسان ہیں لڑکیاں بھی پہچان لی گئیں ان میں زیادہ تر اسی علاقے کی رہنے والی تھیں اور تین چار یہودی تھیں جنہیں صلیبی اسی مقصد کے لیے لائے تھے لوگ انہیں دیکھ چکے تو ان مجرموں کو سامنے لایا گیا جنہوں نے یہ طلسماتی اہتمام کررکھا تھا ان میں چھ صلیبی تھے جو مصر کے اس علاقے کی  زبان بولتے اور سمجھتے تھے انہوں نے بہت سے آدمی اس علاقے سے اپنے ساتھ  ملا لیے تھے رات گرفتاری کے بعد ان سے اعتراف کرا لیا گیا تھا کہ انہوں نے  تین چار مسجدوں میں اپنے امام رکھ دیئے تھے جو لوگوں کو مذہب کے پردے میں  غیر اسلامی نظریات کے معتقد بنا رہے تھے اس گروہ کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو قائل کیا جائے کہ فوج میں بھرتی نہ ہوں کیونکہ یہ بہت بڑا گناہ ہے یہ  گروہ اس مقصد میں کامیاب ہوچکا تھا ان تخریب کاروں نے یہ کامیابی بھی حاصل  کرلی تھی کہ اس علاقے کے لوگوں میں سوڈانیوں کی محبت پیدا کردی تھی اور ان  کا مذہب تبدیل کیے بغیر انہیں بے مذہب کردیا تھا
لوگوں سے کہا گیا  کہ اب وہ کھنڈروں کے اندر جاکر گھومیں پھریں اور اس فریب کاری کا ثبوت اپنی آنکھوں سے دیکھیں لوگ اندر چلے گئے جہاں جگہ جگہ فوجی کھڑے تھے اور  لوگوں کو دکھا رہے تھے کہ انہیں کیسے کیسے طریقوں سے دھوکہ دیا جاتا رہا ہے بہت دیر بعد جب تمام لوگ اندر سے گھوم پھر آئے تو تقی الدین نے ان سے خطاب کیا اور انہیں بتایا کہ کھجوروں اور پانی میں انہیں نشہ دیا جاتا ہے۔  اندر جو جنت اور جہنم تھا، وہ اس نشے کے زیراثر نظر آتا تھا میں ان مجرموں  سے کہتا ہوں کہ اندر چل کر مجھے آسمان کی مخلوق چلتی پھرتی دکھائیں کہ حضرت  موسیٰ علیہ السلام کہاں اور مرا ہوا خلیفہ العاضد کہاں ہے؟ 
یہ سب فریب تھا۔ یہ وہ نشہ ہے جو حشیشین کا پیر استاد حسن بن صباح لوگوں کو پلا کر  انہیں جنت دکھایا کرتا تھا۔ وہ تو ایک وقت میں چند ایک آدمیوں کو نشہ پلاتا تھا مگر یہاں اسلام کے ان دشمنوں نے اتنے وسیع علاقے کی پوری آبادی پر نشہ طاری کردیا ہے
تقی الدین نے لوگوں کو اصلیت دکھا کر انہیں بتایا  کہ ابتداء میں ایک درویش کی کہانی سنائی گئی تھی جو مسافروں کو اونٹ اور  اشرفیاں دیا کرتا ہے یہ محض بے بنیاد کہانیاں تھیں اور بے سروپا جھوٹ کہانیاں سنانے والوں کو تمہارے دین و ایمان کے دشمن بے دریغ مال ودولت دیتے تھے تقی الدین نے اس فریب کاری کے تمام پہلو بے نقاب کیے اور جب اس نے مجرموں کی اصلیت کو بے نقاب کیا تو لوگ جوش میں آکر اٹھ کھڑے ہوئے اور  انہوں نے مجرموں پر ہلہ بول دیا اس وقت لوگوں کا وہ نشہ اتر چکا تھا جو رات کو انہیں کھجوروں اور پانی میں دیا گیا تھا فوج نے ہجوم پر قابو پانے کی بہت کوشش کی لیکن انہوں نے تمام مجرموں اور لڑکیوں کو جان سے مار کر چھوڑا
تقی الدین نے فوج کو اسی علاقے میں پھیلا دیا اور فوج کی  نگرانی میں وہاں ایک تو تخریب کاروں کے ایجنٹوں کو گرفتار کیا اور دوسرے یہ  کہ مسجدوں میں قاہرہ کے عالم متعین کردیئے جنہوں نے لوگوں کو مذہبی اور  عسکری تعلیم وتربیت شروع کردی فرعونوں کے کھنڈروں کو لوگوں کے ہاتھوں مسمار کرا دیا گیا
تقی الدین نے قاہرہ جاکر پہلا کام یہ کیا کہ جراح  اور شارجا کی خواہش کے مطابق انہیں شادی کی اجازت دے دی اور دوسرا کام یہ کیا کہ اس نے فوج کی مرکزی کمان کو حکم دیا کہ سوڈان پر حملے کی تیاری کی جائے اس نے کھنڈروں کی مہم میں دیکھ لیا تھا کہ پڑوسی سوڈانیوں نے مصر کے  اتنے وسیع علاقے کو اپنے اثر میں لے لیا تھا اور یہ اثر شدید جوابی  کارروائی کے بغیر ختم نہیں ہوگا اس پر انکشاف بھی ہوا تھا کہ سوڈانی صلیبیوں کے آلۂ کار بنے ہوئے ہیں اور وہ باقاعدہ حملے کی تیاری بھی کررہے  ہیں لہٰذا ضروری سمجھا گیا کہ سوڈان پر حملہ کیا جائے اس سے اگر سوڈان کا کچھ علاقہ قبضے میں آئے یا نہ آئے اتنا فائدہ ضرور ہوگا کہ دشمن کی تیاریاں درہم برہم ہوجائیں گی اور ان کا منصوبہ لمبے عرصے لیے تباہ ہوجائے  گا تقی الدین کو سلطان ایوبی کی پشت پناہی حاصل تھی...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی