⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟝 𝟛⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مصلح الدین نے ایک رات فاطمہ کو اشرفیوں کی دو تھیلیاں اور سونے کے چند ایک ٹکڑے دکھا کر گھر میں رکھ لیے اور ایک رات جب وہ شراب میں بدمست ہو کر آیا تو اُس نے فاطمہ سے کہا اگر مصر کا شمالی علاقہ جو بحیرئہ روم کے ساحل کے ساتھ ملتا ہے مجھے مل جائے تو تم پسند کروگی یا سوڈان کی سرحد کے ساتھ کا علاقہ؟
تم جو پسند کرو اس کی تم ملکہ ہوگی اور میں بادشاہ فاطمہ اتنے اونچے دماغ کی لڑکی نہیں تھی کہ اس سلسلے میں اس سے کچھ پوچھتی وہ سمجھی کہ اس کا خاوند زیادہ شراب پی کر بہک گیا ہے ہوش میں وہ ایسی باتیں نہیں کرتا تھا پھر ایک روز ایک بڑی حسین لڑکی اس کے گھر لائی گئی ساتھ دو آدمی تھے یہ لڑکی اس کے گھر میں ہی رہی نکاح نہیں پڑھایا گیا اس لڑکی نے فاطمہ کو دوست بنانے کی بہت کوشش کی لیکن اُسے اس لڑکی سے نفرت ہوگئی اس لڑکی نے اُس سے اُس کا خاوند چھین لیا اس کے بعد خضرالحیات کے قتل کا واقعہ ہوا
تینوں نقاب پوشوں نے بلبیس کو غلط باتیں بتانے کی کوشش کی لیکن بلبیس انہیں راستے پر لے آیا تینوں نے الگ الگ جو بیان دئیے ان سے یہ انکشاف ہوا کہ تینوں حشیشین کے گروہ کے آدمی ہیں انہیں صلیبیوں کی طرف سے مصلح الدین کے ساتھ لگایا گیا تھا مصلح الدین کو بے شمار دولت اور ایک عیسائی لڑکی دی گئی تھی اور یہ وعدہ کہ صلاح الدین ایوبی کے خلاف بغاوت کامیاب کرادے تو مصر کی سرحد کے ساتھ اسے ایک الگ ریاست بناکردی جائے گی جس کی حکمرانی اس کے ہاتھ میں اور اس عیسائی لڑکی کے ہاتھ میں ہوگی مصلح الدین نے اعلیٰ حکام کو اپنے ہاتھ میں لینا شروع کردیا تھا مگر خضرالحیات اس کے ہاتھ میں نہیں آرہا تھا مالیات اور بیت المال پر قبضہ ضروری تھا جو خضرالحیات کی موجودگی میں ممکن نہ تھا خزانے کا محافظ دستہ جانبازوں کا منتخب گروہ تھا مصلح الدین خضرالحیات کو قتل کروا کے اس دستے کو تبدیل کرانا چاہتا تھا اس میں باغی افراد رکھنے تھے اور دو حشیشین ان تینوں کے ذمے ہر اُس حاکم کا قتل تھا جس کا فیصلہ مصلح الدین کو کرنا تھا انہیں اس کام کی اُجرت صلیبیوں کی طرف سے باقاعدہ مل رہی تھی وہ چونکہ یہ کام کاروبار اور پیشے کے طور پر کرتے ہیں اس لیے فالتو اُجرت لینے کی بھی کوشش کرتے ہیں اسی لیے انہوں نے مصلح الدین سے پچاس اشرفیاں اور سونا الگ مانگا جو اُس نے خضرالحیات کے قتل کے بعد انہیں نہیں دیا اُس نے کہا تھا کہ تمہیں پوری اُجرت مل رہی ہے انہوں نے اسے قتل کی دھمکی دی تو اس نے انہیں اپنی بیوی پیش کی اور کہا کہ تمہیں اس کی اچھی قیمت مل جائے گی فاطمہ اس کے ساتھ تعاون نہیں کر رہی تھی
مصلح الدین ابھی تک چھت کے ساتھ لٹکا ہوا تھا اُسے بیان لینے کے لیے اُتارا گیا تو وہ بے ہوش ہوچکا تھا جاسوس لڑکی کی کوٹھڑی میں گئے تو وہ مری پڑی تھی اُس کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی طبیبوں نے آکر دیکھا اور کہا کہ اس نے زہر کھا لیا ہے اس کے پاس چھوٹا سا ایک کپڑا پڑا ہوا تھا صاف پتا چلتا تھا کہ اس میں زہر بندھا ہوا تھا جو لڑکی نے اپنے کپڑوں میں کہیں چھپا رکھا تھا بہت دیر بعد مصلح الدین ہوش میں آیا لیکن وہ بہکی بہکی باتیں کرتا تھا بولتے بولتے چپ ہوجاتا اور پھٹی پھٹی نظروں سے سب کو دیکھنے لگتا پھر بے معنی باتیں شروع کردیتا طبیبوں نے اسے دوائیاں کھلائیں لیکن اس کا دماغ اذیت اور پکڑے جانے کے صدمے سے بگڑ گیا تھا
اُسی رات غیاث بلبیس کے پاس ایک معزز شخصیت آئی اس کا نام زین الدین علی بن نجاالواعظ تھا اس نے بلبیس سے کہا کہ اُسے پتا چلا ہے کہ کچھ جاسوس اور تخریب کار پکڑے گئے ہیں اور وہ بھی کچھ انکشاف کرنا چاہتا ہے زین الدین مذہب سیاست اور معاشرت کے میدان کا بزرگ قائد تھا وہ پیرومرشد تو نہیں تھا لیکن بڑے بڑے حاکم بھی اس کے مرید تھے چھوٹے سے چھوٹا آدمی بھی اسے پیروں کی طرح مانتا تھا اُسے حاکموں اور معاشرت میں اونچی حیثیت کے دو چار افراد سے پتا چلا تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی اور اس کی فوج کی غیر حاضری سے دشمن فائدہ اُٹھا رہا ہے اور ایسی چابکدستی سے سازش اور بغاوت کا زہر پھیلا رہا ہے کہ کسی کو پکڑنا آسان نہیں زین الدین نے غیاث بلبیس اور علی بن سفیان کے نائب حسن بن عبداللہ کو بتانے کی بجائے اپنے طور پر اس تخریب کاری کی جاسوسی شروع کردی تھی فوج کے چھوٹے بڑے افسر بھی اس کی محفل میں آتے تھے اُس نے ان سے بہت سی باتیں معلوم کرلی تھیں اور متعدد زمہ دار افراد کے نام اور ان کی سرگرمیاں بھی معلوم کر لی تھیں اُس نے دراصل ذاتی طور پر تخریب کاروں کے خلاف اپنا ایک گروہ تیار کر لیا تھا جس نے نہایت نازک راز حاصل کر لیے تھے
ایک مصری وقائع نگار محمد فرید ابو حدید نے اپنی تصنیف ''سلطان صلاح الدین ایوبی'' میں سازش اور بغاوت کے انکشاف کا سہرا زین الدین علی کے سر باندھا ہے اور تین چار مؤرخین کے حوالے دئیے ہیں لیکن اُس دور کی جو تحریریں محفوظ ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ محکمہ مالیات کے ناظم کے قتل سے صلیبیوں کی یہ سازش بے نقاب ہوئی تھی جس کے آلہ کار وہ مسلمان تھے جن پر سلطان صلاح الدین ایوبی کو اعتماد تھا بہرحال اس بزرگ شخصیت کی ذاتی کاوش اور اس کا جو حاصل تھا وہ قومی سطح کا ایسا کارنامہ تھا جسے مؤرخین نے بجا طور پر خراجِ تحسین پیش کیا ہے اس نے بلبیس سے کہا کہ وہ ابھی کچھ دن اور اپنی جاسوسی جاری رکھنا چاہتا تھا تاکہ ہر ایک سازشی کی نشاندہی ہوجائے لیکن ان تخریب کاروں کی گرفتاری کی خبر شہر میں مشہور ہوگئی ہے جس سے ان کے ساتھی روپوش ہوجائیں گے اُس نے نام اور پتے وغیرہ بتا دئیے اپنے آدمی بھی بلبیس کے حوالے کر دئیے حسن بن عبد اللہ کو بلا لیا گیا۔حسن اور بلبیس نے فیصلہ کیا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کو فوری طور پر اطلاع دے دی جائے اس کے لیے زین الدین کو ہی منتخب کیا گیا اور اُسی روز اُسے بارہ سواروں کے محافظ دستے کے ساتھ شوبک روانہ کردیا گیا۔
تیسری شام یہ قافلہ شوبک پہنچ گیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے جب زین الدین کو دیکھا تو حیران بھی ہوا اور خوش بھی وہ اس شخصیت سے واقف تھا بغل گیر ہو کر ملا زین الدین نے کہا میں کوئی اچھی خبر نہیں لایا ناظم مالیات خضرالحیات قتل ہوچکا ہے اور اس کا قاتل آپ کا نائب مصلح الدین کوتوال پاگل ہوگیا ہے سلطان کا رنگ پیلا پڑ گیا زین الدین نے اُسے تسلی دی اور تفصیلات بتائیں اُس فوج کے متعلق جو مصر میں تھی اُس نے بتایا کہ اس میں بے اطمینانی پھیلا دی گئی ہے اس قسم کی افواہیں پھیلائی گئی ہیں کہ شوبک کو سر کرنے والی فوج کو سونے چاندی سے مالا مال کردیا گیا ہے اور اسے عیسائی لڑکیاں بھی دی گئی ہیں مصر والی فوج میں یہ دہشت بھی پیدا کردی گئی ہے کہ سوڈانیوں کا بہت بڑا لشکر مصر پر حملہ کرنے والا ہے جسے مصر کی یہ تھوڑی سی فوج نہیں روک سکے گی اس فوج کے ہر ایک سپاہی کو قتل کردیا جائے گا اور صلاح الدین ایوبی چاہتا ہی یہی ہے کہ یہ فوج قتل ہوجائے اس کے علاوہ یہ افواہ بھی پھلائی گئی ہے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی محاذ پر شدید زخمی ہوگیا ہے شاید زندہ نہیں رہے گا اس کے کمانڈر وہاں من مانی کر رہے ہیں زین الدین نے بتایا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے زخمی ہونے کی خبر پر یقین کر لیا گیا ہے اسی لیے مصلح الدین جیسے حاکم مصر کو صلیبیوں کی مدد سے چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کرنے اور اپنی اپنی خود مختار ریاستوں کے قیام کے انتظامات کر رہے ہیں
سلطان ایوبی نے وقت ضائع کیے بغیر برق رفتار قاصد بلایا اور نورالدین زنگی کے نام ایک پیغام میں مصر کے یہ سارے حالات لکھے اور اس سے فوجی مدد مانگی اُس نے لکھا کہ میں یہاں رہتا ہوں تو مصر ہاتھ سے جاتا ہے چلا جاتا ہوں تو شوبک کی فتح شکست میں بدل جائے گی لیا ہوا علاقہ کسی قیمت پر واپس نہیں دیا جائے گا میں ابھی فیصلہ نہیں کر سکا کہ یہاں رہوں یا مصر چلا جاؤں اُس نے قاصد سے کہا کہ وہ دِن اور رات گھوڑا بھگاتا رہے گھوڑا تھک جائے تو جو کوئی سوار سامنے آئے اس سے گھوڑا بدل لے کوئی انکار کرے تو اُسے قتل کردے رفتار کم نہ ہو اور اُسے ی ہدایت بھی دی کہ اگر وہ دشمن کے گھیرے میں آجائے تو نکلنے کی کوشش کرے اور اگر پکڑا جائے تو پیغام منہ میں ڈال کر نگل لے دشمن کے ہاتھ پیغام نہ لگے قاصد روانہ ہوگیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایسا ہی ایک اور قاصد بلایا اور اُسے اپنے بھائی تقی الدین کے نام پیغام لکھ کر اُسے وہی ہدایات دیں جو پہلے قاصد کو دی تھیں اس پیغام میں اُس نے بھائی کو لکھا کہ تمہارے پاس جو کچھ بھی ہے جتنے لڑاکا آدمی اکھٹے کر سکتے ہو گھوڑوں پر سوار ہو جاؤ اور قاہرہ پہنچو راستے میں بلا ضرورت رُکنا نہیں مجھے معلوم نہیں کہ میں تمہیں کہاں ملوں گا ملوں گا بھی یا نہیں اگر قاہرہ میں ہماری ملاقات نہ ہو سکی اور اگر میں زندہ نہ رہا تو امارتِ مصر سنبھال لینا مصر بغداد کی خلافت کی مملکت ہے اور خدائے ذوالجلال نے اس مملکت کی ذمہ داری ایوبی خاندان کو سونپی ہے روانگی سے قبل قبلہ والد محترم (نجم الدین ایوب) کے آگے جھکنا اور انہیں کہنا کہ وہ تمہاری پیٹھ پر ہاتھ پھیریں اللہ تمہارے ساتھ ہے میں جہاں ہوں وہاں اسلام کا پرچم سرنگوں نہیں ہوگا تم مصر میں اس پرچم کو سر بلند رکھو
یہ قاصد بھی روانہ ہوگیا
ان دونوں میں سے جو قاصد نورالدین زندگی کے پاس پہنچا اس کی جسمانی حالت یہ تھی کہ اس کا بایاں بازو تلواروں کے زخموں سے قیمہ بنا ہوا تھا اور اس کی پیٹھ میں ایک تیر اُترا ہوا تھا وہ زنگی کے قدموں میں گرا اتنا ہی کہہ سکا کہ راستے میں دشمن مل گیا تھا اس حال میں پیغام لے کے نکلا ہوں
اُس نے پیغام زنگی کے ہاتھ میں دیا اور شہید ہوگیا نورالدین زنگی کی فوج جب شوبک کے قریب پہنچی تو قلعے اور شہر میں اعلان ہوگیا کہ صلیبیوں کا بہت بڑا حملہ آرہا ہے گرد آسمان تک جارہی تھی پتا نہیں چلتا تھا کہ گرد میں کیا ہے امکان یہی ہے کہ یہ صلیبی فوج ہے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر شوبک کی فوج مقابلے کے لیے تیار ہوگئی لیکن گرد میں جو جھنڈے نظر آئے وہ اسلامی تھے پھر گرد میں تکبیر کے نعرے سنائی دئیے قلعے سے سلطان صلاح الدین ایوبی کے نائبین استقبال کے لیے آگے چلے گئے
تین چار روز بعد صبح سویرے قاہرہ میں جو فوج تھی اُسے میدان میں جمع ہونے کا حکم ملا فوجی چہ میگوئیاں کرنے لگے کہ انہیں تیاری کا حکم ملا ہے بعض نے کہا کہ بغاوت ہوگی کسی نے کہا کہ سوڈانیوں کا حملہ آرہا ہے ان کے کمانڈروں تک کو علم نہیں تھا کہ اس اجتماع کا مقصد کیا ہے؟
یہ حکم فوج کی مرکزی کمان سے جاری ہوا تھا
جب تمام فوج اپنی ترتیب سے میدان میں آگئی تو ایک طرف سے چھ سات گھوڑے دوڑتے آئے سب دیکھ کر حیران رہ گئے کہ سب سے آگے صلاح الدین ایوبی تھا سب جانتے تھے کہ وہ شوبک میں ہے سلطان صلاح الدین ایوبی نے ایک عجیب حرکت کی اُس نے تہ بند کے سوا تمام کپڑے اُتار کر پھینک دئیے سر بھی ننگا کر دیا اور فوج کی تمام صفوں کے سامنے سے گھوڑا دُلکی چال چلاتا گزر گیا پھر سامنے آکر بلند آواز سے کہا میرے جسم پر کسی نے کوئی زخم دیکھا ہے؟
کیا میں زندہ ہوں یا مردہ؟
امیر مصر کا اقبال بلند ہو ایک شتر سوار نے کہا ہمیں بتایا گیا تھا کہ آپ زخمی ہیں او جانبر نہیں ہوسکیں گے
اگر یہ خبر جھوٹی ہے تو وہ افواہیں بھی جھوٹی ہیں جو تمہارے کانوں میں ڈالی گئی ہیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے اتنی بلند آواز سے کہا کہ آخری صف تک اس کی آواز پہنچتی تھی اُس نے کہا جن مجاہدین کے متعلق تمہیں بتایا گیا ہے کہ وہاں سونا اور چاندی لوٹ رہے ہیں اور عیسائی لڑکیوں کے ساتھ عیش کر رہے ہیں
وہ ریگستان میں اگلہ قلعہ اور اس کے اگلا قلعہ اور اس سے اگلا قلعہ سرکرنے کی تیاریوں میں پاگل ہو رہے ہیں وہ کیوں بھوکے پیاسے مررہے ہیں؟
صرف اس لیے کہ تمہاری ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی عصمتوں کو صلیبی درندوں سے بچا سکیں شوبک میں ہم نے مسلمان بچیوں اور ان کی ماؤں اور ان کے باپوں کا یہ حال دیکھا ہے کہ بچیاں عیسائیوں کے پاس اور ان کی مائیں اور اُن کے باپ عیسائیوں کی بیگار کر کرکے مر رہے تھے اب کرک یروشلم اور فلسطین کی ہر بستی میں جو عیسائیوں کے قبضے میں ہے
مسلمانوں کا یہی حال ہو رہا ہے مسجدیں اصطبل بنا دی گئی ہیں اور قرآن کے مقدس ورق گلیوں میں عیسائیوں کے قدموں تلے مسلے جا رہے ہیں
یہ تقریر اتنی جوشیلی اور سنسنی خیز تھی کہ ایک کمان دار نے چلا کر کہا پھر ہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟
ہمیں بھی محاذ پر کیوں نہیں لے جایا جاتا؟
تمہیں یہاں اس لیے بٹھایا گیا ہے کہ دشمن کی پھیلائی ہوئی افواہیں سنو اور ان پر یقین کرو سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا تم یہاں اپنے پرچم کے تلے بغاوت کرو تاکہ سوڈانیوں کے ساتھ صلیبی اس سرزمین پر قبضہ کرلیں اور تمہاری بیٹیوں کی عصمت دری کریں
تم قرآن کے ورق اپنے ہاتھوں باہر کیوں نہیں بکھیر دیتے؟
کیا تم قرآن کی توہین صلیبیوں سے کرانا چاہتے ہو؟
تم جو اپنے ایمان کی حفاظت نہیں کرسکتے قوم کی آبرو کی کیا حفاظت کیا کرو گے تمام فوج میں ہلچل سی پیدا ہوگئی سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا تمہیں چند ایک کمان دارنظر نہیں آرہے وہ میں تمہیں دکھاتا ہوں
اُس نے اشارہ کیا تو ایک طرف سے دس گیارہ آدمی گردنوں میں رسیاں پڑی ہوئی اور ہاتھ پیٹھ پیچھے بندھے ہوئے آگے لائے گئے انہیں صفوں کے آگے سے گزارا گیا سلطان صلاح الدین ایوبی نے اعلان کیا یہ تمہارے کماندار تھے لیکن یہ اُس قوم کے دوست ہیں جو تمہارے رسولﷺ اور تمہارے قرآن کے دشمن ہے یہ پکڑے گئے ہیں سلطان صلاح الدین ایوبی نے فوج کو خضرالحیات کے قتل اور مصلح الدین کی گرفتاری کا پورا واقعہ سنایا اور مصلح الدین کو سامنے لایا گیا وہ ابھی تک پاگل پن کی حالت میں تھا سلطان صلاح الدین ایوبی گزشتہ رات کوتوالی کے تہہ خانے میں اُسے دیکھ آیا تھا اُس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو نہیں پہچانا تھا وہ اپنی ریاست اور خود مختار حکمرانی کی باتیں کر رہا تھا اب سلطان صلاح الدین ایوبی نے اُسے گھوڑے پر بٹھا کر فوج کے سامنے کھڑا کردیا اس نے فوج کو دیکھا اور بلند آواز سے بولا یہ میری فوج ہے مصر کی حکومت کے خلاف بغاوت کردو میں تمہارا بادشاہ ہوں صلاح الدین ایوبی مصر کا دشمن ہے تم اُسے قتل کردو
وہ بولے جا رہا تھا اُس کے منہ سے پاگل پن کی جھاگ نکل رہی تھی فوج کی صفوں سے ''پنگ'' کی آواز آئی اور ایک تیر مصلح الدین کی شہہ رگ میں اُتر گیا وہ گر رہا تھا جب کئی اور تیر اس کے جسم میں اُتر گئے سلطان صلاح الدین ایوبی نے چلا کر تیر اندازوں کو روکا کمان داروں نے تیر چلانے والوں کو آگے آنے کو کہا اُن میں سے ایک نے کہا ہم نے غدار کو مارا ہے اگر یہ قتل ہے تو گردنیں حاضر ہیں
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
سلطان صلاح الدین ایوبی نے انہیں معاف کردیا اُس کے جسم پر ابھی تک صرف تہ بند تھا باقی جسم ننگا تھا اُس نے جلاد کو وہیں بلایا اور ان غداروں کو جنہیں فوج کے سامنے لایا گیا تھا جلاد کے حوالے کرکے اُن کے سر جسموں سے الگ کرادئیے
اُس نے ایک اور حکم دے کر سب کو حیران کر دیا اُس نے حکم دیاکہ یہ فوج یہیں سے محاذ کو کوچ کرے گی تمہارا ذاتی اور دیگر سازو سامان اور رسد تمہارے پیچھے آئے گی فوج کوچ کر گئی جس کا مطلب یہ تھا کہ مصر فوج کے بغیر رہے گا سلطان صلاح الدین ایوبی نے غداروں کے کٹے ہوئے سر دیکھے وہ کسی سے کوئی بات کرنے لگا تو اسے ہچکی سی آئی اور اس کے آنسو بہہ نکلے اُس نے کپڑے پہنے اور ایک سمت چل پڑا اس نے اپنے ساتھ کے حکام سے کہا مجھے خطرہ یہ نظر آرہا ہے کہ دشمن ملت اسلامیہ میں اسی طرح غدار پیدا کرتا رہے گا اور وہ دِن آجائے گا جب غداروں کی گردنیں مارنے والے بھی دشمن کو دوست کہنے لگیں گے میرے دوستو! اسلام کو سر بلند دیکھنا چاہتے ہو تو دوست اور دشمن کو پہچانو
مصرکے جن حاکموں کو معلوم نہیں تھا کہ سلطان صلاح الدین ایوبی نے فوج کو کیوں کوچ کرادیا ہے انہیں اُس نے بتایا کہ یہ فوج یہاں فارغ بیٹھی تھی میں یہ حکم دے گیا تھا کہ اسے فارغ نہ رہنے دیا جائے جنگی مشقین جاری رہیں اور شہر سے دُور لے جاکر اس فوج کو وقتاً فوقتاً جنگی حالت میں رکھا جائے اور ذہنی تربیت بھی جاری رہے مگر میرے حکم پر عمل نہیں کیا گیا میں نے دو ذمہ دار حاکموں کو سزائے موت دے دی ہے انہوں نے ایک سازش کے تحت فوج کو فارغ رکھا سپاہی جوئے اور نشے سے دل بہلانے لگے اور ان کے ذہن افواہوں کو قبول کرنے لگے تم شاید سوچ رہے ہو کہ مصر میں فوج نہیں رہی گھبراؤ نہیں فوج آرہی ہے جس فوج نے شوبک فتح کیا ہے وہ قاہرہ میں داخل ہو چکی ہے اُس نے میرے پیچھے پیچھے کوچ کیا تھا وہ فوج دشمن کو اور دشمن کے گناہوں کو بہت قریب سے دیکھ کر آئی ہے اسے کوئی باغی نہیں کر سکتا اس کے سپاہی شہیدوں کو دھوکہ نہیں دیں گے اور یہ فوج جو یہاں سے جارہی ہے یہ کرک پر حملہ کرے گی یا دشمن اس پر حملہ کرے گا پھر یہ بھی دشمن کو جان جائے گی جو سپاہی ایک بار دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر لڑے اُسے کوئی لالچ غداری پر آمادہ نہیں کر سکتا
یہ انقلاب اس طرح آیا تھا کہ نورالدین زنگی اور اپنے بھائی تقی الدین کی طرف قاصد بھیج کر سلطان صلاح الدین ایوبی خفیہ طور پر قاہرہ کے لیے روانہ ہوگیا تھا اپنے نائبین کو کمان دے کر اُس نے سخت ہدایت دی تھی کہ اُس کی غیرحاضری کی کسی کو خبر نہ ہو اُس نے کہا کہ زنگی مدد ضرور بھیجے گا جونہی اس کی مدد آئے اتنی ہی اپنی فوج یہاں سے قاہرہ بھیج دی جائے لیکن راستے میں پڑاؤ زیادہ نہ کرے اس سے سلطان صلاح الدین ایوبی کے دو مقاصد تھے ایک یہ کہ اگر مصر کی فوج باغی ہو گئی تو محاذ سے آنے والی فوج بغاوت فرد کرے گی اور اگر حالات ٹھیک ہوئے تومصر کی فوج محاذ پر آجائے گی اور محاذ کی فوج مصر میں رہے گی سلطان صلاح الدین ایوبی قاہرہ پہنچا تو اس کی موجودگی خفیہ رکھی گئی رات ہی رات اُس نے زین الدین کی نشاندہی کے مطابق تمام غداروں کو سوتے ہی پکڑوا دیا کئی اور جگہوں پر چھاپے مروائے تین حشیشین نے بھی بعض افراد کے نام بتائے تھے انہیں بھی پکڑا گیا کسی کے عہدے اور رُتبے کا لحاط نہ کیا گیا
فاطمہ کو سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم کے مطابق زین الدین کے حوالے کر دیا گیا اور اُسے کہا گیا کہ کسی موزوں جگہ اس کی شادی کردی جائے اب سلطان صلاح الدین ایوبی تقی الدین کا انتظار کرنے لگا اُسے تین دن انتظار کرنا پڑا تقی الدین کم و بیش دو سو سواروں کے ساتھ آگیا سلطان ایوبی نے اُسے مصر کے حالات اور واقعات اور آئندہ لائحہ عمل بتا کر قائم مقام امیر مصر مقرر کر دیا اور یہ اجازت بھی دی کہ وہ سوڈان پر نظر رکھے اور جب ضرورت سمجھے حملہ کردے
یہ ہدایات اور احکامات دے کر سلطان صلاح الدین ایوبی شوبک کو روانہ ہونے لگا تو علی بن سفیان جو اُس کے ساتھ آیا تھا بولا کرک کے صلیبیوں نے آپ کے لیے ایک تحفہ بھیجا ہے اگر کچھ دیر اور انتظار کریں تو تحفہ دیکھتے جائیں علی بن سفیان سلطان صلاح الدین ایوبی کو حیرت میں چھوڑ کر باہر نکل گیا اس نے سلطان ایوبی کو باہر چلنے کو کہا
سلطان صلاح الدین ایوبی گھوڑے پر سوار ہو کر علی بن سفیان کے ساتھ چلا گیا تھوڑی دُور میدان میں پانچ سو گھوڑے کھڑے تھے ہر گھوڑے پر زین تھی ان گھوڑوں سے ذرا پرے سات آٹھ صلیبی رسیوں سے بندھے ہوئے کھڑے تھے اور اپنی فوج کا ایک سرحدی دستہ بھی مستعد کھڑا تھا سلطان ایوبی نے پوچھا کہ یہ گھوڑے کہاں سے آئے ہیں؟
علی بن سفیان نے ایک آدمی کو بلا کر سلطان کے سامنے کھڑا کردیا اور کہا یہ میرا جاسوس ہے یہ تین سال سے صلیبیوں کے لیے جاسوسی کر رہاہے یہ صلیبیوں اور سوڈانیوں کے درمیان رابطے کا کام کرتا ہے وہ اسے اپنا جاسوس سمجھتے ہیں لیکن یہ میرا جاسوس ہے یہ کرک گیا تھا اور صلیبی بادشاہوں کو سوڈانیوں کا یہ پیغام دیا تھا کہ انہیں پانچ سو گھوڑوں اور زینوں کی ضرورت ہے انہوں نے گھوڑے دے کر اپنے یہ فوجی افسر بھی بھیج دیئے یہ اُس سوڈانی فوج کی قیادت کرنے جارہے تھے جسے مصر پر حملے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے میرا شیر انہیں شمال کی طرف سے گھما کر ایک پھندے میں لے آیا او اپنے اس سرحدی دستے کو بلا لیا اپنی شناخت بتائی اور یہ دستہ پانچ سو گھوڑوں اور ان صلیبی فوجی افسروں کو قاہرہ ہانک لایا صلیبی سروں کو معلومات حاصل کرنے کے لیے علی بن سفیان نے اپنے نائب حسن بن عبداللہ کے حوالے کردیا اور خود سلطان کے ساتھ شوبک کو روانہ ہوگیا...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*