👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑🌴⭐قسط نمبر 𝟟 𝟛⭐🌴


⚔️▬▬▬๑👑 داستانِ ایمان فروشوں کی 👑๑▬▬▬⚔️
تذکرہ: سلطان صلاح الدین ایوبیؒ
✍🏻 عنایت اللّٰہ التمش
🌴⭐قسط نمبر 𝟟  𝟛⭐🌴
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
وہ دبے پاؤں سلطان ایوبی تک گیا اور بجلی کی تیزی سے سلطان کی گردن دونوں ہاتھوں میں جکڑ لی سلطان ایوبی جاگ اٹھا اس نے کروٹ بھی بدل لی لیکن جس شکنجے میں اس کی گردن آگئی تھی اس سے گردن چھڑانا ممکن نہیں تھا اسلام کے اس جری جرنیل کی زندگی صرف دو منٹ رہ گئی تھی وہ اب پیٹھ کے بل  پڑا تھا حملہ آور نے اس کے پیٹ پر گھٹنہ رکھ کر ایک ہاتھ اس کی گردن سے ہٹا دیا دوسرے ہاتھ سے سلطان صلاح الدین ایوبی کی شہ رگ کو دبائے رکھا اس نے اپنے کمر بند سے ایک پڑیا سی نکالی اسے ایک ہی ہاتھ سے کھولا اور صلاح الدین ایوبی کے منہ میں ڈالنے لگا وہ سلطان کو زہر دے کر مارنا چاہتا تھا کیونکہ گلا دبا کر مارنے سے صاف پتا چل جاتا ہے کہ گلا دبایا گیا ہے سلطان ایوبی بے بس تھا پیٹ پر اتنے قوی ہیکل جوان کا گھٹنہ اور بوجھ تھا شہ رگ دشمن کے شکنجے میں تھی اور سانس رک گیا تھا اس کا منہ کھلا ہوا تھا جو اس نے پڑیا دیکھ کر بند کرلیا اس نے ہوش ٹھکانے رکھے موت سر پر آگئی  تھی سلطان ایوبی نے اپنے کمر بند سے تلوار نما خنجر نکال لیا جو وہ زیور کی طرح اپنے ساتھ رکھتا تھا حملہ آور اس کے منہ میں زہر ڈالنے کی کوشش میں  مگن تھا دیکھ نہ سکا کہ سلطان نے خنجر نکال لیا ہے سلطان ایوبی نے خنجر اس کے پہلو میں اتار دیا کھینچا اور ایک بار پھر خنجر حملہ آور کے پہلو میں اتر گیا حملہ آور سانڈ جیسا آدمی تھا اتنی جلدی مر نہیں سکتا تھا سلطان ایوبی سپاہی تھا وہ خنجر کے وار اور ہدف سے آگاہ تھا اس نے خنجر حملہ آور کے پہلو سے نکالا نہیں وہیں خنجر کو گھمایا اور نیچے کو جھٹکا دیا حملہ آور کی انتڑیاں اور پیٹ کا اندرونی حصہ باہر آگیا
حملہ آور کے ہاتھ سے سلطان صلاح الدین ایوبی کی گردن چھوٹ گئی دوسرے ہاتھ سے زہر کی پڑیا گر پڑی سلطان صلاح الدین ایوبی نے جسم کو جھٹکا دیا حملہ آور کو دھکا دیا اور حملہ آور چار پائی سے نیچے جاپڑا وہ اب اٹھنے کے قابل نہیں تھا یہ معرکہ بمشکل آدھے منٹ میں ختم ہوگیا مگر خیمے سے باہر دوسرا محافظ کھڑا تھا اس نے اندر دھمک سی سنی تو پردہ اٹھا کر جھانکا وہاں کچھ  اور ہی نقشہ دیکھا وہ تلوار سونت کر آیا اور سلطان صلاح الدین ایوبی پر وار کیا مگر سلطان خیمے کے درمیانی بانس کے پیچھے ہوگیا تلوار بانس پر لگی  صلاح الدین ایوبی تو جیسے پیدائشی تیغ زن تھا ادھر تلوار بانس میں لگی ادھر سلطان صلاح الدین ایوبی نے جھپٹا مارنے کے انداز سے حملہ آور  پر خنجر کا وار کیا حملہ آور بھی لڑاکا تھا اسی لیے تو وہ محافظ دستے کے  لیے چنا گیا تھا۔ وہ وار بچا گیا۔ اس کے ساتھ ہی سلطان صلاح الدین ایوبی نے  محافظ دستے کے کمانڈر کو آواز دی۔ حملہ آور نے دوسرا وار کیا تو سلطان  صلاح الدین ایوبی آگے سے ہٹ گیا مگر ایسا ہٹا کہ حملہ آور کے پہلو میں چلا گیا اب کے حملہ آور سلطان کے خنجر کے وار سے نہ بچ سکا۔ سلطان ایوبی کی  پکار پر دو محافظ خیمے میں آئے۔ دونوں نے سلطان ایوبی پر حملہ کردیا۔ اتنے  میں سلطان ایوبی دوسرے محافظ کو بھی زخمی کرچکا تھا مگر وہ ابھی تک لڑ رہا  تھا اس کے دو اور ساتھی آگئے تھے سلطان صلاح الدین ایوبی نے حوصلہ  قائم اور دماغ حاضر رکھا اللہ نے مدد کی کہ دستے کا کمانڈر اندر آگیا اس نے دوسرے محافظوں کو آوازیں دیں اور سلطان صلاح الدین ایوبی کے کہنے پر وہ  حملہ آور سے الجھ گیا اتنے میں چار پانچ محافظ آگئے ادھر سے علی بن  سفیان اور دوسرے حکام بھی شور سن کر آگئے خیمے میں دیکھا تو ان کے رنگ اڑ گئے چار محافظ لہولہان ہو کے پڑے تھے دو مرچکے تھے تیسرا مر رہا وہ ہوش میں نہیں تھا اس کا پیٹ اوپر سے نیچے تک پھٹا ہوا اور سینے پر دو گہرے زخم تھے چوتھے کے پیٹ میں ایک زخم تھا اور دوسرا زخم ران پر وہ زمین پر بیٹھا ہاتھ جوڑ کر چلا رہا تھا میں زندہ رہنا چاہتا ہوں، مجھے میری بہن کے  لیے زندہ رہنے دو سلطان ایوبی نے اپنے محافظوں کو روک دیا محافظ اتنے بھڑکے ہوئے تھے کہ انہوں نے تیسرے محافظ کو بے ہوشی میں سانس لیتے دیکھا تو اس کی شہ رگ کاٹ دی چوتھے کو سلطان ایوبی نے بچا لیا یہ رحم کا جذبہ بھی  تھا اور یہ ضرورت بھی کہ اس سے بیان لینے تھے اور اس سازش کی کڑیاں بھی ملانی تھیں
صلاح الدین ایوبی کا طبیب بھی اس کے قافلے کے ساتھ تھا وہ جراح بھی تھا ہر جگہ اس کے ساتھ رہا کرتا تھا سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے کہا کہ اس زخمی کو ہر قیمت پر زندہ رکھنے کی کوشش کرے سلطان صلاح  الدین ایوبی کو خراش تک نہیں آئی تھی وہ ہانپ رہا تھا لیکن جذباتی طور پر بالکل مطمئن تھا غصے کا شائبہ تک نہ تھا اس نے مسکرا کر کہا میں حیران نہیں ہوا ایسا ہونا ہی تھا علی بن سفیان کی جذباتی حالت بگڑی ہوئی تھی یہ اس کی ذمہ داری تھی کہ محافظ دستے کے لیے جسے منتخب کیا جائے اس کے متعلق چھان بین کرے کہ وہ قابل اعتماد ہے اب یہ دیکھنا تھا کہ دستے کے باقی سپاہیوں میں کوئی ان کا ساتھی رہ گیا ہے یا باقی دیانت دار ہیں سلطان صلاح الدین ایوبی کے بستر پر وہ پڑیا پڑی ہوئی تھی جو حملہ آور اس کے منہ میں ڈالنا چاہتا تھا۔ ایک سفید سا سفوف تھا جس میں سے کچھ بستر پر بکھر گیا  تھا طبیب نے یہ سفوف دیکھا اور جب سنا کہ یہ سلطان صلاح الدین ایوبی کے منہ میں ڈالا جارہا تھا تو طبیب کا رنگ اڑ گیا۔ اس نے بتایا کہ یہ ایسا زہر ہے کہ جس کا صرف ایک ذرہ بھی حلق سے نیچے اتر جائے تو تھوڑی سی دیر میں انسان نہایت اطمینان سے مرجاتا ہے۔ وہ تلخی محسوس نہیں کرتا اور نہ وہ  اپنے اندر کوئی اور تبدیلی محسوس کرتا ہے طبیب نے سلطان صلاح الدین ایوبی کا بستر اٹھوا کر باہر بھجوایا اور صاف کرا دیا
سلطان صلاح الدین  ایوبی نے زخمی کو اٹھوا کر اپنے بستر پر لٹا دیا اس کے پیٹ میں تلوار لگی  تھی اور دوسرا زخم ران پر تھا۔ پیٹ کا زخم مہلک نظر نہیں آتا تھا، ترچھا تھا ران کا زخم لمبا تھا اور گہرا بھی وہ ہاتھ جوڑ کر سلطان صلاح الدین ایوبی سے زندگی کی بھیک مانگ رہا تھا سلطان کے خلاف اس کے دل میں کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی کوئی نظریاتی عداوت بھی نہیں تھی وہ کرائے کا قاتل تھا اپنی شکست کے ساتھ اسے اپنی ایک غیر شادی شدہ بہن کا غم کھائے جارہا تھا وہ بار بار اس کا نام لیتا اور کہتا تھا کہ میں مسلمان ہوں میرا گناہ بخش دوایک مسلمان بہن کی خاطر مجھے بخش دو
زندگی اور موت خدا کے ہاتھ میں ہے سلطان ایوبی نے ایسے لہجے میں کہا کہ جس میں تحمل تھا  مگر رعب اور جلال بھی تھا سلطان نے کہا تم نے دیکھ لیا ہے کہ کون مارتا اور کون زندہ رکھتا ہے لیکن میرے دوست اس وقت تمہاری جان جس کے ہاتھ میں ہے تم اسے دیکھ رہے ہو۔ اپنا گناہ دیکھو اپنی بے بسی دیکھو میں تمہیں  تمہارے ساتھیوں کی لاش کے ساتھ زندہ باہر صحرا میں پھینک دوں گا صحرا کی لومڑیاں اور بھیڑئیے تمہیں اس حال میں نوچ نوچ کر کھائیں گے کہ تم زندہ رہو گے ہوش میں ہوگے مگر بھاگ نہیں سکو گے بوٹی بوٹی ہوکر مرو گے اور اپنے گناہ کی سزا پاؤ گے
زخمی تڑپ اٹھا اس نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے دونوں ہاتھ پکڑ لیے اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا سلطان ایوبی نے پوچھا تم کون ہو؟ 
کہاں سے آئے ہو؟ 
میرے ساتھ تمہاری کیا دشمنی ہے؟
میں فاطمیوں کا آدمی ہوں اس نے جواب دیا ہم چاروں حشیشین تھے کوئی دو سال اور کوئی تین سال پہلے آپ کی فوج میں بھرتی ہوا تھا ہمیں سکھایا گیا تھا کہ آپ کے محافظ دستے میں کس طرح پہنچا جاسکتا ہے اس نے  بولنا شروع کردیا اور راز کی باتیں بتانے لگا اس نے بتایا کہ محافظ دستے میں یہی چار قاتل تھے اس کے بیان کے دوران سلطان صلاح الدین ایوبی نے طبیب سے کہا کہ وہ اس کی مرہم پٹی کرتا رہے طبیب نے اسے ایک دوا پلا دی اور خون روکنے کی کوشش کرنے لگا اس نے زخمی کو تسلی دی کہ وہ ٹھیک ہوجائے گا زخمی انکشاف کرتا گیا اس نے معزول فاطمی خلافت اور حشیشین کے معاہدے کو بے نقاب کیا فاطمیوں نے صلیبیوں سے جو مدد لی تھی اور لے رہے تھے اس کی تفصیل بتائ خاصا وقت صرف کرکے طبیب نے اس کی مرہم پٹی مکمل کردی اصل مرہم تو سلطان ایوبی کی شفقت تھی جس میں انتقام کا ذرا سا بھی شک نہیں ہوتا تھا
سلطان صلاح الدین ایوبی نے کہا کہ لاشیں باہر پھینک دو اور اس زخمی کے متعلق اس نے علی بن سفیان سے کہا کہ وہ وہیں سے اسے قاہرہ لے جائے اور اس نے جو نشاندہیاں کی ہیں ان کے خلاف کارروائی کرے زخمی نے نہایت کارآمد سراغ دیئے جن میں کچھ ایسے خطرناک تھے جن کی تفتیش علی بن سفیان ہی اچھی طرح کرسکتا تھا اسے اسی وقت اونٹ پر خاص طریقے سے لٹا کر علی بن سفیان واپسی کے سفر پر چل پڑا
صلاح الدین ایوبی پر متعدد بار قاتلانہ حملے ہوئے تھے تاریخ میں ان تمام کا ذکر نہیں آیا مندرجہ بالا طرز  کے دو حملوں کا ذکر ملتا ہے ایک بار ایک فدائی قاتل نے سلطان صلاح الدین ایوبی پر اسی طرح سوتے میں خنجر کا وار کیا تھا خنجر پگڑی میں لگا اور سلطان ایوبی جاگ اٹھا تھا یہ قاتل سلطان ایوبی کے ہاتھوں مارا گیا اور اس کے محافظ دستے کے چند ایسے محافظ پکڑے گئے تھے جو کرائے کے قاتل تھے
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
مصر کے جنوب مغربی علاقے میں جو سوڈان کی سرحد کے ساتھ ملتا تھا صدیوں پرانی کسی پیچ در پیچ عمارت کے کھنڈر تھے اس زمانے میں مصر کی سرحد کچھ اور تھی صلاح الدین ایوبی کہا کرتا تھا کہ مصر کی کوئی سرحد ہے ہی نہیں تاہم سوڈانیوں نے ایک خیالی سی سرحد بنا رکھی تھی کھنڈروں کے اردگرد کا  علاقہ دشوار گزار تھا غالباً فرعونوں کے وقتوں میں یہ علاقہ سرسبز تھا اور وہاں پانی کی بہتات تھی خشک جھیلیں اور دو ندیوں کے گہرے اور خشک پاٹ بھی تھے ریتیلی چٹانیں بھی تھیں اور ریتیلی مٹی کے ٹیلے بھی ان کی شکلیں  کسی بہت بڑی عمارت کے کھنڈروں کی مانند تھیں کہیں ٹیلہ ستون کی طرح دور اوپر تک چلا گیا تھا اور کہیں ٹیلے دیواروں کی طرح کھڑے تھے جہاں جہاں جگہ ہموار تھی وہاں ریت تھی چٹانیں اونچی بھی تھیں نیچی بھی اس علاقے کے اردگرد کہیں کہیں پانی تھا لہٰذا درخت تھے اور وہاں کے رہنے والے کھیتی باڑی کرتے تھے کم وبیش چالیس میل لمبا اور دس بارہ میل چوڑا یہ علاقہ آباد  تھا یہ آبادی مسلمان تھی ان میں کچھ لوگ مسلمان نہیں تھے ان کے عجیب وغریب سے عقیدے تھے
فرعونوں کی عمارت کے کھنڈروں سے لوگ ڈرا کرتے تھے ان کے اردگرد کا علاقہ بھی ایسا تھا کہ دیکھنے والے پر ہیبت طاری ہوجاتی تھی وہاں سے کوئی گزرتا ہی نہیں تھا لوگ کہتے تھے کہ وہاں فرعونوں کی بدروحیں رہتی ہیں جو دن کے دوران بھی جانوروں کی صورت میں گھومتی پھرتی رہتی ہیں اور کبھی اونٹوں پر سوار سپاہیوں کے بھیس میں اور کبھی خوبصورت عورتوں کے روپ میں نظر آتی ہیں اور رات کو وہاں سے ڈراؤنی آوازیں بھی سنائی دیتی ہیں کوئی ایک سال سے یہ کھنڈر لوگوں کی دلچسپیوں کا مرکز بن گیا تھا
اس سے پہلے سلطان صلاح الدین ایوبی کی فوج کے لیے بھرتی کی مہم شروع  ہوئی تھی تو بھرتی کرنے والے اس علاقے کے ارد گرد بھی گھومتے پھرتے رہے تھے وہاں کے باشندوں نے انہیں خبردار کیا تھا کہ وہ ٹیلوں کے اندر نہ  جائیں انہیں پراسرار آوازوں ڈراؤنی چیزوں اور بدروحوں کی کہانیاں سنائی گئی تھیں اس علاقے سے فوج کو بہت بھرتی ملی تھی مگر اس کے بعد بھرتی کرنے والے گئے تو لوگوں کا رحجان بدلا ہوا تھا سرحد پر گشت کرنے والے دستوں نے  رپورٹ دی تھی کہ گشتی سنتری بھی اس علاقے کے اندر نہیں جایا کرتے تھے اور انہوں نے کبھی کسی انسان کو ادھر جاتے نہیں دیکھا تھا مگر اب وہ لوگوں کو اندر جاتا دیکھتے ہیں اور وہاں سے آنے والے ڈرے ہوئے نہیں ہوتے بلکہ مطمئن سے نظر آتے ہیں اس کے بعد یہ اطلاع ملی کہ ہر جمعرات کے روز رات تک اندر  میلہ سا لگتا ہے اور اس کے بعد اس قسم کا واقعہ ہوا کہ سرحدی دستوں کے چار پانچ سپاہی لاپتہ ہوگئے ان کے متعلق یہ رپورٹ دی گئی تھی کہ بھگوڑے ہوگئے ہیں
سلطان صلاح الدین ایوبی نے جہاں دشمن کے ملکوں میں جاسوس بھیج رکھے تھے وہاں اس نے اپنے ملک میں بھی جاسوسوں کا جال بچھا رکھا تھا غیر مسلم مورخوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کو خاص طور پر خراج تحسین پیش کیا ہے کہ اس نے آج کے انٹیلی جنس نظام اور کمانڈر وطریقۂ جنگ کو خصوصی اہمیت  دے کر ٹرینگ کے نئے طریقے دریافت کیے اور یہ ثابت کردیا تھا کہ صرف دس افراد سے ایک ہزار نفری کی فوج کا کام لیا جاسکتا ہے یہ الگ بات ہے کہ مسلمان ہونے کی وجہ سے یورپی مورخوں نے سلطان صلاح الدین ایوبی کے اس فن کو  تاریخ میں اتنی جگہ نہیں دی جتنی دینی چاہیے تھی لیکن اس دور کے وقائع  نگاروں نے جو تحریریں قلمبند کی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ اسلام کا یہ عظیم پاسبان انٹیلی جنس گوریلا اور کمانڈو آپریشن کا کس قدر ماہر تھا اندرون ملک اس کی انٹیلی جنس گوشے گوشے پر نظر رکھتی اور فوج کی مرکزی کمان کو رپورٹیں دیتی رہتی تھی یہ اسی نظام کی اعلیٰ کارکردگی کا ثبوت تھا کہ مصر  کے دور دراز کے ایسے علاقے کی سرگرمیوں کی بھی اطلاع مرکز کو پہنچا دی گئی تھی جس کے متعلق کہا جاتا تھا کہ اس چھوٹے سے خطے کو تو خدا نے بھی فراموش کر رکھا ہے مگر مخبروں نے وہاں کے لوگوں کی صرف ذہنی تبدیلی دیکھی اور اس کی اطلاع دی تھی انہیں ابھی یہ معلوم نہیں تھا کہ اندر کیا ہوتا ہے اس  اطلاع کے بعد دو مخبر قتل یا لاپتہ ہوگئے تھے
وہاں کے لوگوں نے نہ صرف ٹیلوں کے ڈراؤنے علاقے کے اندر جانا شروع کردیا بلکہ وہ فرعونوں کی اس پیچ درپیچ عمارت کے کھنڈروں میں بھی جانے لگے تھے جہاں جانے کے تصور سے  ہی ان کے رونگٹے کھڑے ہو جایا کرتے تھے کچھ عرصہ پہلے اس کی ابتداء اس طرح ہوئی تھی کہ ایک گاؤں میں ایک شتر سوار آیا یہ اجنبی مسلمان اور مصری تھا اس کا اونٹ اچھی نسل کا اور تندرست تھا اس مسافر نے گاؤں والوں کو اکٹھا کرکے یہ قصہ سنایا کہ وہ غربت سے تنگ آچکا تھا اب وہ رہزنی اور  چوری کے ارادے سے گھر سے نکل کھڑا ہوا وہ پیدل تھا وہ اس امید پر اس علاقے میں آگیا کہ یہاں کوئی آبادی نہیں ہے اس لیے رہزنی کرتے پکڑا نہیں جائے گا وہ بہت دن پیدل چلتا رہا مگر اسے کوئی شکار نہ ملا آخر ٹیلوں کے  اس علاقے میں جہاں کوئی نہیں جاتا وہ جاکر گر پڑا اس کے جسم میں طاقت نہیں رہی تھی اس نے آسمان کی طرف ہاتھ بلند کرکے خدا سے مدد مانگی اسے ایک گونج دار آواز سنائی دی تم خوش قسمت ہو کہ تم نے ابھی گناہ نہیں کیا گناہ کی صرف نیت کی ہے اگر تم کسی کو لوٹ کر یہاں آتے تو تمہارا جسم ہڈیوں کا پنجر بن جاتا اور شیطان کے چھوڑے ہوئے درندے تمہارا گوشت جو  تمہارے سامنے پڑا ہوا ہوتا تمہیں دکھا دکھا کر کھاجاتے
اس آواز نے اجنبی پر غشی طاری کردی اس نے محسوس کیا کہ کوئی اسے اٹھا رہا ہے اس نے آنکھیں کھولیں تو وہ بیٹھا ہوا تھا اور اس کے سامنے ایک سفید ریش بزرگ  کھڑا تھا جو دودھ کی مانند سفید اور آنکھوں سے نور شعاعیں نکلتی تھیں وہ جان گیا کہ یہ آواز جو اس نے سنی تھی اسی بزرگ کی تھی اجنبی کی زبان بند ہوگئی اور وہ کانپنے لگا بزرگ نے اسے اٹھا کر کہا مت ڈر مسافر یہ سب لوگ جو یہاں آنے سے ڈرتے ہیں بدنصیب ہیں انہیں شیطان ادھر آنے نہیں دیتا تم جاؤ اور لوگوں سے کہو کہ یہاں اب فرعونوں کی خدائی نہیں رہی یہ حضرت  موسیٰ علیہ السلام کی مملکت ہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی یہیں آسمان سے اترنے والے ہیں اب اسلام کی قندیلیں اسی کھنڈر سے روشن ہوں گی جن کی  روشنی ساری دنیا کو منور کردے گی جاؤ لوگوں کو ہمارا پیغام دو انہیں یہاں لاؤ اجنبی نے کہا کہ وہ اٹھ نہیں سکتا چل نہیں سکتا جسم سوکھ گیا ہے سفید ریش بزرگ نے کہا تم اٹھو اور پچاس قدم شمال کی طرف جاؤ پیچھے مڑ کر نہ دیکھنا ڈرنا نہیں لوگوں تک پیغام پہنچا دینا ورنہ نقصان اٹھاؤ گے تمہیں ایک اونٹ بیٹھا ہوا نظر آئے گا اس کے ساتھ کھانا اور پانی ہوگا اور اس کے ساتھ جو کچھ ہوگا وہ تمہارا ہوگا
اجنبی نے گاؤں والوں کو سنایا کہ وہ اٹھ کر چلنے لگا تو اس کے جسم میں طاقت آگئی تھی وہ ڈر رہا تھا کہ یہ کسی فرعون کی بدروح ہے اس نے پیچھے نہیں دیکھا بدروح کے ڈر سے قدم گنتا رہا اور راستہ گھوم گیا پچاس قدم پر یہ اونٹ بندھا ہوا تھا اس کے ساتھ کھانا بندھا ہوا تھا جو اس نے کھا لیا اور پانی پی لیا اس کے جسم میں ایسی طاقت آگئی جو پہلے اس کے جسم میں نہیں تھی اس نے لوگوں کو ایک تھیلی کھول کر دکھائی جس میں سونے کی اشرفیاں تھیں یہ تھیلی اونٹ کے ساتھ بندھی ہوئی تھی اجنبی اونٹ پر سوار ہوا اور اس گاؤں  میں آگیا جس میں بیٹھا وہ قصہ سنا رہا تھا اس کے بعد اس نے گاؤں والوں کو سفید ریش بزرگ کا پیغام دیا اور چلا گیا اس کا سنانے کا انداز ایسا پر اثر تھا کہ لوگوں کے دلوں میں ٹیلوں کے علاقے میں جانے کا اشتیاق پیدا ہوگیا لیکن گاؤں کے بوڑھوں نے کہا کہ یہ اجنبی انسان نہیں بلکہ کھنڈر کے شرشرار کا حصہ ہے انسانی فطرت میں یہ کمزوری ہے کہ چھپے ہوئے کو بے نقاب کرنے کی اور بھید کو پا لینے کی کوشش کرتی ہے جن جسموں میں جوانی کا خون ہوتا ہے وہ خطرے مول لے لیتے ہیں گاؤں کے جوانوں نے ارادہ کرلیا کہ وہ وہاں جائیں  گے اشرفیوں کا جادو بڑا سخت تھا جس سے وہ لوگ بچ نہیں سکتے تھے
اس چالیس میل لمبے اور دس میل چوڑے خطے میں جتنے گاؤں تھے ان سب سے اطلاع ملی کہ ایک اجنبی مسافر یہی قصہ سنا گیا ہے کچھ لوگ تذبذب میں تھے  اور کچھ تذبذب اور فیصلے کے درمیان بھٹک رہے تھے مگر ادھر جانے سے ڈرتے تھے بعض آدمی گئے بھی لیکن ٹیلوں کے پراسرار علاقے کو دور سے دیکھ کر واپس آگئے کچھ روز بعد دو جوان شتر سوار تمام علاقے میں گھوم گئے انہوں نے بھی ایسا ہی قصہ سنایا جو ذرا مختلف تھا وہ بہت دور کے سفر پر گھوڑوں پر جارہے تھے ان کے ساتھ دو ٹٹو تھے جن پر قیمتی مال تھا یہ تجارت کا مال  تھا جو وہ سوڈان لے جارہے تھے راستے میں انہیں ڈاکوؤں نے لوٹ لیا مال کے ساتھ گھوڑے اور ٹٹو بھی چھین لیے اور انہیں زندہ چھوڑ دیا یہ دونوں ٹیلوں  کے علاقے میں آکر تھکن بھوک پیاس اور غم سے گر پڑے انہیں بھی سفید ریش  بزرگ نظر آیا اس نے انہیں وہی پیغام دیا اور کہا تمہیں شیطان کے درندوں نے لوٹا ہے تم اللہ کے نیک بندے ہو جائو تمہیں پچاس قدم پر دو اونٹ  کھڑے ملیں گے اور ان کے ساتھ جو کچھ بندھا ہوگا وہ تمہارا ہوگا لیکن مال وزر دیکھ کر آپس میں لڑ نہ پڑنا ورنہ ہمیشہ کے لیے اندھے ہو جاؤ گے انہیں بھی اس بزرگ نے کہا کہ گاؤں گاؤں جا کر لوگوں کو پیغام دیں کہ ان کھنڈروں سے ڈریں نہیں
اس کے بعد ایسی ہی بہت سی روائتیں سنی اور سنائی جانے لگیں ان میں ڈر اور خوف کا کوئی تاثر نہیں تھا بلکہ ایسی کشش تھی کہ لوگوں نے ٹیلوں کے اردگرد پھرنا شروع کردیا انہوں نے بعض لوگوں کو اندرونی علاقے سے باہر جاتے اور آتے بھی دیکھا انہوں نے بتایا کہ اندر ایک درویش بزرگ ہے جو غیب کا حال بتاتا اور آسمانوں کی خبر دیتا ہے یہ بھی کہا گیا کہ وہ امام مہدی ہے کسی نے کہا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام ہیں اور کوئی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہتا تھا ایک بات وثوق سے کہی جاتی تھی کہ وہ جو کوئی بھی ہےخدا کا بھیجا ہوا ہے اور گنہگاروں سے نہ ملتا ہے نہ انہیں نظر آتا ہے اس کے پاس جانے کے لیے نیت صاف ہونی چاہیے یہ بھی کہا گیا کہ وہ مردوں کو بھی زندہ کرتا ہے یہ طلسماتی اور پر اسرار روائتیں اور حکائتیں لوگوں کو اندرونی علاقے میں لے جانے لگیں آگے جاکر انہوں نے پہلی بار وہ کھنڈر دیکھے جن سے وہ ڈرتے تھے وہ ان کے اندر بھی گئے یہ کمروں غلام گردشوں اور غاروں جیسے راستوں کی بھول بھلیاں تھیں ایک کمرہ بہت ہی وسیع اور اس کی چھت اونچی تھی جالے لٹک رہے تھے اور ماحول پر ہیبت طاری تھی لیکن وہاں خوشبو پھیلی ہوئی تھی کہیں سیڑھیاں فرش سے نیچے جاتیں اور تہہ خانوں میں جاکر ختم ہوتی تھیں
یہ عمارت ان فرعونوں کی تھی جو اپنے آپ کو خدا کہتے تھے وہ کسی کسی کو نظر آتے تھے لوگوں کو اس عمارت  میں اکٹھا کرلیا کرتے اور لوگوں کو ان کی صرف آواز سنائی دیتی تھی یہ آواز ایسی سرنگوں میں سے گزر کر آتی تھی جن کے دہانے بڑے کمرے میں تھے مگر نظر  نہیں آتے تھے بولنے والا سرنگ کے دوسرے سرے پر ہوتا تھا جس کے متعلق کوئی جان نہیں سکتا تھا کہ کہاں ہے وہ اسے خدا کی آواز سمجھتے تھے جو عام آدمی کو نظر نہیں آتا ان بڑے کمروں میں روشنیوں کا ایسا انتظام ہوا کرتا تھا کہ مشعلیں نظر نہیں آتی تھی کمرے روشن رہتے تھے آئینے کی طرح چمکیلی دھات کی چادریں استعمال کی جاتی تھیں جن سے چھپی ہوئی مشعلوں کی روشنی منعکس ہوتی تھی وہ تو صدیوں پرانی بات تھی اب صلاح الدین ایوبی کے دور میں اس عمارت میں پھر وہی آوازیں گونجنے لگیں جنہیں لوگ خدا کی آوازیں سمجھا کرتے تھے ذرا سے وقت میں لوگوں کے دلوں سے کھنڈروں کی ہیبت نکل گئی وہ جب بڑے کمرے میں جاتے تو اس سے پہلے انہیں اندھیری اور فراغ سرنگوں میں سے گزرنا  پڑتا تھا آگے بہت ہی فراغ اور اونچی چھت والا کمرہ آجاتا جس میں روشنی ہوتی مگر کوئی مشعل نظر نہیں آتی تھی وہاں گونج کی طرح آواز آتی تھی
ہم نے تمہیں اندھیروں میں سے نکال کر روشنی دکھائی ہے کوہِ طور کی روشنی ہے اس نور کو دلوں میں داخل کرلو فرعونوں کی بدروحیں بھی مرگئی ہیں اب یہاں  موسیٰ علیہ السلام کا نور ہے اور اس نور کو عیسیٰ علیہ السلام اور زیادہ منور کرے گا خدا کو یاد کرو کلمہ پڑھو اور لوگ حیرت سے منہ کھولے آنکھیں پھاڑے ایک دوسرے کو دیکھتے اور کلمہ طیبہ گنگنانا شروع کر دیتے تھے اگر اس آواز میں خدا حضرت موسیٰ علیہ السلام حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور  کلمہ طیبہ کا ذکر نہ ہوتا تو لوگ شاید اس کا یہ اثر قبول نہ کرتے جو وہ کر رہے تھے وہ سب مسلمان تھے اپنے مذہب کے نام پر وہ اس اثر کو قبول کرتے تھے
اور جب انہیں یہ آواز سنائی دی…رسولﷺ کو خدا نے غار حرا کے اندھیرے میں رسالت عطا کی تھی تمہیں بھی ان غاروں کے اندھیرے میں خدا کا نور نظر آئے گا تو لوگوں نے سرجھکا لیے اور اس آواز کو جس کی گونج میں طلسماتی اثر تھا اپنے دل پر نقش کر لیا لیکن لوگ اس  ہستی تک پہنچنا چاہتے تھے جس کی یہ آواز تھی اور جو مسافروں کو اونٹ کھانا پانی اور اشرفیاں دیتی اور مردوں کو زندہ کرتی تھی لوگوں کی بیتابیاں بڑھتی جا رہی تھیں وہ اپنے گھروں کو جاتے تو انہیں عورتیں بتاتیں کہ ایک اجنبی آیا تھا جو کھنڈر والے درویش کی کرامات سنا گیا ہے وہ کہتا تھا کہ اس نے درویش کی زیارت کی ہے ایک روز ان دیہات میں جو سب سے بڑا  گاؤں ہے وہاں کی مسجد کے پیش امام سے لوگوں نے استفسار کیا اس نے کہا وہ مقدس انسان ہے صرف نیک لوگوں سے ملتا ہے نیک وہ ہوتا ہے جو خون خرابہ نہ کرے صلح اور امن کی زندگی بسر کرے یہ مقدس درویش حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا پیغام لایا ہے اس پیغام میں محبت ہے جنگ و جدل نہیں اس پیغام میں یہ نصیحت ہے کہ کسی کو زخمی نہ کرو بلکہ زخمی کے زخموں پر مرہم رکھو اگر تم لوگ ان اصولوں پر زندگی بسر کرو گے تو یہ درویش تمہاری کایا پلٹ دے گا
جب ایک امام مسجد نے بھی اس مقدس درویش کو اور اس کی آواز کو برحق کہہ دیا تو کسی شک و شبے کی گنجائش نہ رہی لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ کھنڈروں میں جانے لگے تو اعلان ہوا کہ ہر جمعرات کے روز اندر جانے کی اجازت  ہوگی اور شام کو میلہ لگا کرے گا چنانچہ اس روز سے جمعرات کا دن مخصوص  ہوگیا اور اس کے ساتھ ہی عورتوں کو بھی وہاں جانے کی اجازت مل گئی اب کھنڈروں کے اندر اپنی مرضی سے کوئی نہیں جاسکتا تھا جمعرات کے روز ان کے اردگرد میلے کا سماں ہوتا تھا دور دور سے لوگ اونٹوں گھوڑوں اور خچروں پر اور پیدل بھی آتے اور شام کو کھنڈروں میں جانے کے وقت کا انتظار کرتے تھے اندر کی سنسنی خیز دنیا میں انقلاب آگیا وہاں اب لوگوں کو گناہ اور نیکی کے تاریکی اور روشنی کے تصورات ایسی صورت میں نظر آتے تھے کہ لوگ انہیں مجسم اور متحرک صورت میں دیکھتے اور حیرت زدہ ہوتے تھے کسی کو کوئی الٹا سیدھا سوال اور شک کرنے کی جرأت نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی وہ کسی سوال اور شک کی ضرورت محسوس کرتے تھے
سورج غروب ہوتے ہی اندھیری سرنگ کا منہ کھل جاتا جو اندر لے جاتی تھی یہ دراصل اس عمارت کے درمیان سے گزرنے والا راستہ تھا اس کی دیواریں بہت بڑے بڑے بلاکوں کی تھیں اوپر ایسی ہی چھت تھی یہ سرنگ ہر دس بارہ قدموں بعد دائیں یا بائیں کو مڑتی تھی اس کے  دروازے یا دہانے سے باہر چند ایک آدمی کھڑے ہوتے تھے ان کے پاس کھجوروں کے انبار لگے ہوتے تھے
یہ کھجوریں لوگوں کی لائی ہوئی ہوتی تھیں جسے نذرانہ کہا جاتا تھا زائرین کھجوریں ایک جگہ ڈھیر کر دیتے تھے کھجوروں کے پاس پانی کے مشکیزے رکھے ہوتے تھے شام کو جب زائرین کو اندر جانے کی اجازت  ملتی تھی تو دروازے پر ہر ایک کو تین کھجوریں کھلا کر چند گھونٹ پانی پلایا جاتا اور اندر بھیج دیا جاتا تاریک سرنگ سے گزر کر جب یہ لوگ روشن ہال کمرے میں پہنچتے تو وہاں انہیں آوازیں سنائی دیتیں کلمہ طیبہ پڑھو اپنے اللہ کو یاد کرو حضرت موسیٰ علیہ السلام تشریف لے آئے ہیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہونے والا ہے دل سے بدی اور دشمنی نکال دو لڑائی جھگڑا ختم کردو اور دیکھو ان کا حشر جنہیں جنت کا دھوکہ دے کر لڑایا گیا تھا
اس آواز کے ساتھ ہی لوگوں کی آنکھوں میں نہایت تیز روشنی پڑتی انہیں ایک طرف منہ کرکے کھڑا کیا جاتا تھا ان کی آنکھیں خیرہ ہونے لگتیں تو روشنی ذرا مدھم ہوجاتی اس کے بعد روشنی کبھی تیز ہوتی کبھی مدھم  اور لوگوں کے سامنے والی دیوار پر ستارے چمکتے نظر آتے ان ستاروں میں جنبش ہوتی اور انتہائی مکروہ اور بھدی شکلوں والے انسان جاتے نظر آتے۔ گونج  دار آواز سنائی دیتی یہ سب تمہاری طرح جوان اور خوبصورت تھے انہوں نے خدا کا پیغام نہ سنا یہ کمر کے ساتھ تلواریں سجا کر گھوڑوں پر سوار ہوئے اور اپنے جیسے خوبصورت جوانوں کو قتل کیا انہیں دھوکہ دیا گیا کہ تم لڑو مرجاؤ گے تو جنت میں جاؤ گے دیکھ لو ان کا انجام خدا نے انہیں شیطان کے درندے بنا کر کھلا چھوڑ دیا ہے ان آوازوں کے ساتھ بادل کی گرج اور بجلی کی کڑک سنائی دیتی کچھ اور آوازیں بھی سنائی دیتیں جو مختلف درندوں کی معلوم ہوتی تھیں روشنی اتنی تیز ہوجاتی کہ دیکھنے والوں کی آنکھیں چندھیا جاتیں پھر لمبے لمبے دانتوں والے درندے دائیں سے بائیں جاتے نظر  آتے یہ بھی انسان تھے لیکن ان کی شکلیں بڑے ہی ڈراؤنے بھیڑیوں جیسی تھیں انہوں نے بازوؤں پر برہنہ لڑکیاں اٹھا رکھی تھیں یہ لڑکیاں جوان اور خوبصورت تھیں لڑکیاں تڑپتی تھیں بادل کی گرج اور زیادہ بلند سنائی دیتی اور آواز آتی انہیں اپنے حسن پر ناز تھا انہوں نے خدا کے حسن کو ناپاک کیا تھا ان ڈراؤنی اور بھیانک شکلوں کے بعد بڑے ہی خوبرو مرد اور  خوبصورت عورتیں گزرتیں یہ سب ہنستے کھیلتے جاتے تھے یہ نیک اور پاک لوگ تھے جن کے متعلق بتایا جاتا تھا کہ انہوں نے کبھی لڑائی جھگڑے کی بات نہیں کی تھی وہ سراپا محبت پیار اور خلوص تھے
اس کے بعد زائرین کو ایک  تہہ خانے میں لے جایا جاتا جہاں انسانی ہڈیوں کے پنجرے بھی تھے اور خوبصورت لڑکیاں بھی گھومتی پھرتی اور مسکراتی نظر آتی تھیں تھوڑی تھوڑی  دیر بعد آواز سنائی دیتی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ظہور ہونے والا ہےجنگ و جدل اور خون خرابہ دل سے نکال دو تہہ خانے کا ایک راستہ اور تھا جس  سے لوگوں کو باہر نکال دیا جاتا لوگوں پر ایسا تاثر طاری ہوتا تھا جیسے  وہ سو گئے تھے اور انہوں نے بڑا ہی عجب خواب دیکھا ہو جو ڈراؤنا تھا اور خوبصورت بھی وہ ایک بار پھر اندر جانے کو بے تاب ہوتے تھے لیکن کسی کو اس  طرف جانے نہیں دیا جاتا تھا جدھر سے لوگ اندر جاتے تھے وہ اپنے گھروں کو  واپس نہیں جانا چاہتے تھے رات وہیں کھنڈروں کے قریب ہی گزار دیتے تھے وہاں کچھ لوگ ان کے پاس بیٹھ کر انہیں اندر کے راز بتاتے تھے ایک راز یہ تھا کہ اندر جس کی آواز سنائی دیتی ہے وہ خدا کی طرف سے یہ پیغام لے کر آیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دنیا میں آرہے ہیں اور خلیفہ العاضد بھی دنیا میں واپس آگیا ہے
العاضد فاطمی خلافت کا خلیفہ تھا جس کی گدی مصر میں تھی سلطان صلاح الدین ایوبی نے اسے معزول کرکے مصر کو بغداد کی خلافت عباسیہ کے تحت کردیا تھا۔ العاضد اس کے فوراً بعد مرگیا تھا یہ وہ اڑھائی سال پہلے کا واقعہ تھا فاطمیوں نے صلیبیوں اور حشیشین کے ساتھ سازباز کرکے ایک سازش تیار کی تھی جس کے تحت سلطان صلاح الدین ایوبی کا تختہ الٹنا اور مصر میں فاطمی خلافت بحال کرنا تھا اس سازش کی کامیابی کے  لیے سوڈانیوں کو تیار کیا جارہا تھا کہ وہ مصر پر حملہ کردیں
کھنڈر کے مریدوں کی تعداد میں اور اس کی عقیدت مندی میں اضافہ ہوتا جارہا تھا  اور جنوب مغربی علاقے کے لوگ قائل ہوتے جارہے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام خلیفہ العاضد کو واپس بھیج چکے ہیں اور خود بھی واپس آرہے ہیں ان لوگوں نے فوج میں بھرتی ہونے سے توبہ کرلی تھی کیونکہ وہ جنگ وجدل کو گناہ سمجھنے لگے تھے صلاح الدین ایوبی کو ایک گناہگار بادشاہ قرار دے دیا گیا تھا جو اپنی بادشاہی کو وسعت دینے کے لیے جوانوں کو یہ دھوکہ دے کر فوج میں بھرتی کرتا تھا کہ وہ شہید ہوں گے اور سیدھے جنت میں جائیں گے کھنڈروں کے اندر کی دنیا لوگوں کے لیے عبادت گاہ بن گئی تھی
بعض نے تو ٹیلوں کے علاقے میں ہی ڈیرے ڈال دیئے تھے وہ اس مقدس درویش کی زیارت کے لیے بے قرار رہتے تھے جس کی آواز کھنڈروں میں سنائی دیتی تھی مگر وہ انہیں نظر نہیں آتا تھا ایک نیا فرقہ جنم لے رہا تھا
اس زخمی حشیش کو جو سلطان صلاح الدین ایوبی پر قاتلانہ حملے میں زخمی ہوا تھا علی بن سفیان قاہرہ لے گیا جہاں اسے ایک الگ تھلگ مکان میں رکھا گیا سلطان صلاح الدین ایوبی کے حکم کے مطابق اس کے علاج کے لیے ایک جراح مقرر کردیا گیا وہ آخر مجرم تھا اسے جس مکان میں رکھا گیا اس کے دروازے پر ایک سنتری کھڑا  رہتا تھا وہ ابھی بھاگنے کے قابل نہیں تھا کھنڈروں کی نشاندہی اسی نے کی تھی فیصلہ ہوا تھا کہ یہ ٹھیک ہوجائے تو اس کی رہنمائی میں جاسوس بھیج کر  کھنڈروں کے اندر کے حالات دیکھے جائیں گے ہوسکتا تھا کہ یہ زخمی جھوٹ بول رہا ہو علی بن سفیان نے قاہرہ آتے ہی اپنے نائب حسن بن عبداللہ اور کوتوال غیاث بلبیس سے کہہ دیا تھا کہ وہ اس علاقے میں اپنا کوئی مخبر اور جاسوس نہ بھیجیں جس کے متعلق انہیں رپورٹ ملی ہے کہ وہاں کے لوگ فوج کے خلاف ہوگئے ہیں علی کو کسی بہت بڑے اور کارآمد انکشاف کی توقع تھی
زخمی کو معلوم نہیں کیوں یہ وہم ہوگیا تھا کہ وہ زندہ نہیں رہے گا وہ روتا تھا اور باربار اپنے گاؤں کا نام بتا کر کہتا تھا کہ میری بہن کو بلا دو میں اسے دیکھ نہیں سکوں گا علی بن سفیان اس کی اسی کمزوری کو اس سے مزید راز اگلوانے کے لیے استعمال کر رہا تھا زخمی اپنی بہن کے متعلق غیر معمولی طور پر جذباتی تھا علی کو جب یقین ہوگیا کہ زخمی کے سینے میں اب اور کوئی بات نہیں رہ گئی تو اس نے دو پیامبر بلا کر انہیں زخمی کا گاؤں اور علاقہ بتایا اور کہا کہ اس کی بہن کو اپنے ساتھ لے آئیں یہ علاقہ مصر کے جنوب مغرب میں ہی تھا پیامبر اسی وقت روانہ ہوگئے
سلطان صلاح الدین ایوبی محاذ پر پہنچ گیا اور شوبک کے قلعے میں چلا گیا اس کے چہرے پر قاتلانہ حملے کا کوئی تاثر نہیں تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہیں اس کے محافظ دستے کا کمانڈر اور دیگر حکام جو اس کے ساتھ تھے بہت پریشان اور شرمسار تھے وہ ڈرتے بھی تھے کہ سلطان صلاح الدین ایوبی کسی نہ کسی مقام پر ان پر  برس پڑے گا اور جواب طلبی بھی کرے گا مگر اس نے اس طرف اشارہ بھی نہیں کیا البتہ اپنی مرکزی کمان کے فوجی حکام سے کہا آپ نے دیکھ لیا ہے کہ میری زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں آپ میری جنگی چالیں غور سے دیکھتے رہا کریں دشمن نے جو دوسرا محاذ کھول رکھا ہے اس پر گہری نظر رکھیں اور تخریب کاروں کی پکڑ دھکڑ اور سرکوبی کرتے رہیں اس نے کسی سے اتنا بھی نہ کہا کہ محافظ دستے کی چھان بین کی جائے اس نے اتنے بڑے حادثے کا کوئی اثر ہی نہ لیا شوبک کے قلے میں پہنچا اور سب سے پہلے پوچھا کہ کوئی جاسوس واپس آیا ہے یا نہیں؟ 
اسے بتایا گیا کہ دو جاسوس کارآمد معلومات لائے ہیں اس نے دونوں کو بلالیا اور صلیبیوں کے ارادوں کے متعلق رپورٹیں لیں اسے تقریباً وہ تمام پلان بتا دیا گیا جو صلیبیوں نے تیار کیا تھا اس نے نورالدین زنگی کی بھیجی ہوئی کمک کے سالار اور مصر سے آئی ہوئی فوج کے سالار اور دونوں کے نائبین کو بلا بھیجا اور گہری سوچ میں کھو گیا
چوتھے روز زخمی حشیش کی بہن آگئی اس کے ساتھ چار آدمی تھے جن کے متعلق بتایا گیا کہ زخمی کے چچا اور تایا زاد بھائی ہیں بہن جوان اور پرکشش تھی اور اپنے بھائی کے لیے بہت ہی پریشان تھی زخمی اس کا اکیلا بھائی تھا ان کے ماں باپ مرچکے تھے اسے اور اس کے ساتھ آئے ہوئے چار آدمیوں کو زخمی کے پاس لے جانے کے لیے علی بن سفیان کی اجازت کی ضرورت تھی علی بن سفیان نے بہن کو اجازت دے دی اس کے ساتھ آئے ہوئے آدمیوں کو نہ ملنے دیا انہوں نے منت سماجت کی اور کہا کہ وہ اتنی دور سے آئے ہیں انہیں صرف اتنی اجازت دی جائے کہ زخمی کو دیکھ لیں
 وہ کوئی بات نہیں کریں گے علی بن سفیان نے اس طرح اجازت دی کہ خود ان کے ساتھ ہوگا اور انہیں فوراً باہر نکال دے گا اس نے ایسا ہی کیا اسی وقت ان سب کو زخمی کے پاس لے گیا بہن نے بھائی کو دیکھا تو اس کے  اوپر گر پڑی بھائی کا منہ چومنے لگی اور زارو قطار رونے لگی...
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی