⚔️اور نیل بہتا رہا🕍قسط 14👇




🐎⚔️🛡️اور نیل بہتا رہا۔۔۔۔🏕🗡️
تذکرہ : *حضرت عمرو بن العاص ؓ* 
✍🏻تحریر:  *_عنایت اللّٰہ التمش_*
▄︻قسط نمبر 【➍➊】デ۔══━一
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انتھونیس نے جنگ کی ابتدا کی جو رات مقرر کی تھی اس رات قبائلیوں نے بغیر کسی دشواری کے ان مجاہدین پر قابو پا لیا جو قلعے میں موجود تھے، وہ جہاں جہاں رہتے تھے وہاں گہری نیند سوئے ہوئے تھے، اس کام کے لئے جو قبائلی منتخب کیے گئے تھے وہ انتھونیس اور روتاس کی ہدایت اور ریہرسل کے مطابق پہنچے اور ان مجاہدین کو مقابلے کی مہلت ہی نہ دی ان سب کو ایک بڑے مضبوط دروازوں والے مکان میں بند کردیا گیا۔
شہر کے صدر دروازے پر دو مجاہدین ڈیوٹی پر رہتے تھے انھیں کسی طرح پتہ چل گیا کہ شہر میں بغاوت ہو گئی ہے اور ان کے ساتھی پکڑے گئے ہیں یہ دونوں وہاں سے نکلنے لگے تو ان پر چند ایک قبائلیوں نے حملہ کردیا دونوں نے جم کر مقابلہ کیا ،زخمی ہوئے لیکن وہاں سے نکل آئے وہاں سے تین میل دور ایک بستی تھی وہاں پہنچے اور دوگھوڑے لے کر ان پر سوار ہوئے اور گھوڑے دوڑا دیے، تقریبا بیس میل دور قنسرین کا شہر تھا خالد بن ولید اس وقت تک قنسرین میں تھے یہ ایک مضبوط قلعہ تھا اور خاصا وسیع وعریض شہرتھا۔
یہ رومیوں سے خالد بن ولید نے چھینا تھا۔اور انہیں بھگایا تھا۔
دونوں مجاہد زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے پہنچے ،اور خالد بن ولید کو اطلاع دی کہ بغاوت ہو گئی ہے، خالد بن ولید نے ایک قاصد سپہ سالار ابوعبیدہ کو پیغام دینے کے لئے بھیج دیا اور اپنا لشکر فوراً تیار کرکے حلب کی طرف روانہ ہوگئے۔
خالد بن ولید کی پیش قدمی تیز و تند طوفان کی طرح ہوا کرتی تھی ان کی رسد اونٹوں پر اور بیل گاڑیوں پر پیچھے پیچھے آ رہی تھی۔ جس کی طرف خالد بن ولید کی ذرا سی بھی توجہ نہیں تھی وہ تو بھوکے پیاسے بھی اپنے ہدف پر پہنچنا چاہتے تھے۔
یہ گھوڑسوار لشکر جب حلب پہنچا تو خالد بن ولید جیسے تاریخ ساز سالار نے بھی محسوس کرلیا کہ اس قلعے کو آسانی سے سر نہیں کیا جاسکے گا۔
مشہور تاریخ دان واقدی لکھتا ہے کہ دور دور کے قبائل کے لڑنے والے لوگ بھی حلب میں اکٹھا ہو گئے تھے، اور بروقت مسلمانوں کو پتہ نہ چل سکا نہ انہوں نے انہیں غور سے دیکھنے کی ضرورت محسوس نہیں کی تھی، مسلمان انہیں پناہ گزین سمجھتے رہے اور یہ خیال رکھا کہ انہیں رہائش اور روٹی ملتی رہے اور کوئی محرومی اور محتاجی محسوس نہ کرے ،اب یہی لوگ چاروں طرف دیواروں پر اس طرح کھڑے تھے کہ ان کے ہاتھوں میں کمانیں اور بعض کے پاس پھینکنےوالی برچھیاں تھیں، ان کی تعداد اتنی زیادہ تھیں کہ ان کے درمیان سے ہوا بھی نہیں گزر سکتی تھی ۔
خالد بن ولید کے لشکر کی تعداد چار ہزار تھی خالد بن ولید نے دیواروں پر کھڑے قبائلیوں پر تیر پھینکے لیکن دیواروں سے جو تیر آئے ان کے سامنے اپنے تیر انداز ٹھہرنا سکے۔
خالد بن ولید نے سپہ سالار کی طرف ایک قاصد اس پیغام کے ساتھ دوڑایا کہ مزید لشکر کی ضرورت ہے کیونکہ قلعہ بھی مضبوط ہے اور دفاع اور زیادہ مستحکم اور مہلک ہے۔
ابو عبیدہ نے سالار عیاض بن غنم رضی اللہ عنہ کو پانچ ہزار گھوڑ سواروں کے ساتھ حلب پہنچنے کا حکم دیا یہ لشکر بڑی تیزی سے روانہ ہو گیا۔
خالد بن ولید قلعے توڑنے اور سر کرنے کی خصوصی مہارت رکھتے تھے، اس مقصد کے لئے انہوں نے جاں باز گروہ بنا رکھے تھے۔ تاریخ اسلام کا یہ عظیم سپہ سالار محاصرے کو طول دینے کا قائل نہیں تھا۔
واقدی نے لکھا ہے کہ محاصرہ بہت طویل ہو گیا تھا، دو یورپی مورخ لکھتے ہیں کہ خالد بن ولید اس قدر غیظ و غضب میں تھے کے انہوں نے محاصرہ طویل نہ ہونے دیا بلکہ ایسی چال چلی جن سے عیسائی قبائلی ان کے پھندے میں آگئے۔
انتھونیس نے یہ حرکت کی کے محاصرے کے تیسرے چوتھے ہی روز ان تمام مجاہدین کو قلعے کی دیوار پر پہلو بہ پہلو کھڑا کر دیا جنہیں ایک رات سوتے میں پکڑ کر قید کردیا گیا تھا ۔
سب کے ہاتھ پیچھے بندھے ہوئے تھے اس نے دیوار پر کھڑے ہو کر اعلان کیا کہ محاصرہ فوراً اٹھا لو ہم زیادہ انتظار نہیں کریں گے، ان میں پہلے دس آدمیوں کے سر کاٹ کر تمہاری طرف پھینک دیں گے ،محاصرہ پھر بھی نہ اٹھایا گیا تو مزید دس آدمیوں کے سرکاٹ کر باہر پھینکے جائیں گے۔
محاصرہ نہیں اٹھانا۔۔۔ ایک قیدی مجاہد نے بڑی ہی بلند اور پرجوش آواز میں کہا۔۔۔ ہمارے سرکٹ جانے دو ہم گھروں سے اللہ کی راہ میں سر کٹوانے ہی نکلے ہیں، محاصرہ نہ اٹھانا ۔ اللہ تمہاری مدد کرے گا قلعہ توڑ لو گے۔
تمام قیدی مجاہدین نے جن کی تعداد کم و بیش ایک سو تھی، نعرے لگانے شروع کر دیے وہ سب یہی کہہ رہے تھے کہ محاصرہ نہ اٹھانا ہمارے سر کٹ جانے دو ، قیدی مجاہدین کے جذبے ایثار اور جوش و خروش نے باہر والے مجاہدین کو آگ بگولہ کردیا یہ تو سالاروں کا کمال تھا کہ انہوں نے مجاہدین کو اپنے قابو میں رکھا ورنہ وہ تو اس قدر جوش میں آ گئے تھے کہ سب کے سب قلعے پر ہلہ بول دینے کو تیار ہو گئے تھے ،وہ کہتے تھے کہ تیر انداز اوپر دیوار پر تیر پھینکتے رہیں اور وہ دروازے توڑ لیں گے یا دیوار میں کہیں شگاف ڈالیں گے۔
خالد بن ولید اور عیاض بن غنم ہوشمند سالار تھے وہ جذبات کے جوش سے نہیں جنگی فہم و فراست سے کارروائیاں کیا کرتے تھے۔
ایک دو دنوں کی کوششوں کے بعد خالد بن ولید نے شہر کے اندر افراتفری پھیلانے کا یہ طریقہ اختیار کیا کہ فلیتے والے تیر شہر کے اندر پھینکنے شروع کر دیئے ، یہ آگ لگانے والے تیر تھے انہی دیواروں کے اوپر سے اندر تک پہنچانا آسان نہیں تھا لیکن شہر کے ایک طرف کچھ بلند جگہ مل گئی جس پر تیر انداز کھڑے ہو کر تیر اندر پھینک سکتے تھے ۔
بعض تیرانداز درختوں پر چڑھ گئے اور وہاں سے آگ والے تیر اندر پھینکنے لگے یہ تیر کچھ زیادہ اثرانداز نہیں ہوئے جس کی وجہ یہ تھی کہ آبادی دیواروں سے اتنی دور تھی جہاں تک تیر نہیں پہنچ سکتے تھے، ایک میدان میں خیمے لگے ہوئے تھے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دونوں سالاروں ۔۔۔۔خالد بن ولید اور عیاض بن غنم کو قلعے کے اندر کے حالات کا تو کچھ بھی پتہ نہیں تھا اندر اگر کوئی مسلمان جاسوس تھا بھی تو وہ باہر نہیں آ سکتا تھا اور باہر سے کسی کو قبائلی عیسائیوں کے بہروپ میں اندر نہیں بھیجا جا سکتا تھا، دیواروں پر جو قبائلی تیر اور کمان اور پھینکنےوالی برچھیاں لیے کھڑے رہتے تھے وہ روز اول کی طرح جوش وخروش میں معلوم ہوتے تھے۔
خالد بن ولید نے اپنے نائب سالاروں سے اور ایک دو مرتبہ مجاہدین کے پورے لشکر سے کہا تھا کہ حلب کو اپنا ہی شہر سمجھو، ان کا حوصلہ بڑھاتے ہوئے خالد بن ولید نے پراعتماد انداز میں کہا تھا کہ شہر میں کوئی تربیت یافتہ اور تجربہ کار فوج نہیں یہ لوگ فرداً فرداً لڑنا جانتے ہیں یا ہجوم کی صورت میں ہلہ بول سکتے ہیں، لیکن محاصرے میں ٹھہرنا اور محاصرہ توڑنا ان کے بس کی بات نہیں بلکہ ان لوگوں کو اپنے بس میں سمجھو اور تھوڑے ہی عرصے بعد یہ ہتھیار ڈال کر ہماری اطاعت قبول کر لیں گے ،یا کوئی ایسی حماقت کر بیٹھیں گے جو ان کی شکست کا باعث بنے گی۔
خالد بن ولید کو یہ معلوم نہیں تھا کہ محصورین کی قیادت رومی فوج کے ایک بھگوڑے جرنیل کے ہاتھ میں ہے اور اس کا نائب اور معاون رومی فوج کا ہی ایک افسر ہے جو سپہ سالار ابوعبیدہ کی قید میں رہ کر گیا ہے ۔
مسلمان سالاروں کو یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ ان کے ساتھ ہرقل کی ایک بیوی بھی ہے جو ایران کے شاہی خاندان کی عورت تھی اور ہرقل کے شاہی خاندان میں دھوکے سے داخل ہوئی تھی، مسلمانوں کے یہاں تو جہاد کا جذبہ اور دین و ایمان تھا اور ان کا اپنا کلچر تھا جس سے وہ ذرا سا بھی نہیں ہٹتے تھے۔
اس کے مقابلے میں قلعے کے اندر جو رومی قیادت تھی اس کا اپنا کلچر اور اپنا کردار تھا، جسے وہ لوگ اپنی ضرورت اور اپنے مفادات کے مطابق دستبردار ہو جایا کرتے تھے۔
قلعے کے اندر کے حالات کچھ اس طرح تھے کہ انتھونیس اور روتاس تو جیسے راتوں کو سوتے بھی نہیں تھے ان کے لئے یہ ایک قلعے یا ایک بڑے شہر کی لڑائی نہیں تھی بلکہ ان کی زندگی اور موت کی لڑائی تھی۔
انتھونیس کا یہ عزم بھی تھا کہ وہ ایک عیسائی سلطنت کی بنیاد رکھے گا اور الجزیرہ کے قبائلی عیسائیوں کو ایک جنگی طاقت کی صورت میں منظم کرے گا ،اس عزم کی تکمیل کے لیے یہ بھی ضروری تھا کہ وہ حلب کو ہاتھ سے نہ جانے دے ۔
روتاس اس کا دست راست بن گیا تھا۔
ہرقل کا بیٹا یو کلس بھی ان کے ساتھ تھا لیکن وہ نوجوان تھا اور ایک بازو سے معذور بھی وہ ایک ہاتھ سے لڑنا جانتا تھا قیادت کے قابل نہیں تھا پھر بھی وہ اپنے آپ کو جرنیل ہی سمجھتا تھا۔اپنی اس حیثیت کو وہ اپنا حق سمجھتا تھا۔ کیونکہ وہ شاہ ہرقل کا بیٹا تھا ،وہ بھی دن رات بھاگتا دوڑتا رہتا تھا اور جب سے حلب محاصرے میں آیا تھا اس رومی نوجوان نے یہ معمول بنا لیا تھا کہ دیوار پر جاتا یا نیچے شہر میں گھوم پھر رہا ہوتا۔
تو چند ایک آدمیوں کو اکٹھا کرکے انہیں بتاتا تھا کہ وہ یسوع مسیح کی سلطنت کے قیام کے لیے لڑ رہے ہیں، اس لئے آخر فتح ان کی ہوگی ،اس طرح وہ جوشیلی اور جذباتی باتیں کر کے ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا رہتا تھا ،وہ کئی کئی راتیں اپنی ماں کے پاس نہیں جاتا تھا۔
عام طور پر قلعے کے صدر دروازے کے اوپر جو کمرے بنے ہوئے تھے ان میں سے کسی کمرے میں سو جاتا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انتھونیس، اور یوکلس ایک مکان میں رہتے اور روتاس الگ مکان میں رہتا تھا، یہ نہایت اچھے صاف ستھرے اور اونچے درجے کے مکان تھے، روتاس دو چار دنوں کے وقفے سے لیزا کے گھر آیا کرتا تھا اور اس کا یہاں آنا محض رسمی ہوتا تھا، جب سے حلب محاصرے میں آیا تھا اس نے لیزا کے ہاں جانا بہت ہی کم کر دیا تھا جس کی وجہ یہ تھی کہ محاصرے کے سلسلے میں اسے دن رات بھاگ دوڑ کرنی پڑتی تھی۔
یہ انتھونیس کا گھر تھا لیکن وہ بھی اب اس گھر میں اس طرح آتا تھا جیسے روتاس کی طرح رسمی طور پر آگیا ہو، انتھونیس اور روتاس کا تو یہ عالم تھا کہ الگ الگ بھاگتے دوڑتے رہتے تھے، اب بھی دیوار پر ہے تو یوں لگتا تھا جیسے کود کر نیچے آگئے ہوں، دیکھنے والوں کو شک ہوتا تھا کہ وہ ہر وقت ہر جگہ موجود رہتے ہیں، انتھونیس کبھی بہت دیر سے گھر جاتا اور پلنگ پر گرتا اور اس کی آنکھ لگ جاتی تھی کچھ ہی دیر بعد وہ ہڑبڑا کر جاگ اٹھتا اور باہر کو بھاگ جاتا ، وہ گھر ہوتا تو بھی لگتا تھا گھر سے غیر حاضر ہے۔
یہ دونوں آخر کمانڈر تھے انھیں احساس تھا کہ جن کی وہ قیادت کر رہے ہیں وہ لڑنا تو جانتے ہیں لیکن منظم ہو کر لڑنے کا انہیں کوئی تجربہ نہیں وہ ان لوگوں کو ہدایت دیتے رہتے اور خود دیوار پر گھوم پھر کر دیکھتے رہتے کہ مسلمان دروازوں کے قریب نہ آ جائیں اس کے ساتھ ہی وہ جوان آدمی کو قلعے سے نکال کر مسلمانوں پر حملہ کرنے کے لئے بھی تیار کر رہے تھے، مختصر یہ کہ دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ وہ محاصرے کے دوران لوگوں کو ٹریننگ بھی دے رہے تھے۔
ایک رات انتھونیس گھر آیا اور آتے ہی لیٹ گیا وہ بہت تھکا ہوا تھا لیزہ اسے دیکھتی رہی کہ وہ کوئی بات کرے گا ۔
ذرا سا سستا کر انتھونیس نے محاصرے کی بات شروع کردی، لیزا کے چہرے پر نمایاں طور پر اکتاہٹ کا تاثر آگیا اور صاف پتہ چلتا تھا کہ وہ انتھونیس کی باتوں میں ذرا سی بھی دلچسپی نہیں لے رہی، کیا تم میرے ساتھ کوئی اور بات نہیں کرنا چاہتے لیزا نے ایسے لہجے میں کہا جسے انتھونیس بڑی اچھی طرح سمجھتا تھا۔
لیزا! ۔۔۔۔انتھونیس نے اٹھ کر بیٹھتے ہوئے کہا۔۔۔ کیا تم یہ بات کہہ رہی ہوں میں تو یہ توقع رکھتا ہوں کہ میں گھر آؤں تو تم پہلی بات مجھ سے یہ پوچھو کہ محاصرہ کب ٹوٹے گا؟ اور اسے توڑنے کی کوئی صورت پیدا کی جا رہی ہے یا نہیں؟ تم تو یوں بات کر رہی ہو جیسے حالات معمول کے مطابق ہیں مجھے تو کوئی اور بات سوچتی ہی نہیں۔
لیزا کچھ زیادہ ہی اکتاہٹ کا اظہار کر رہی تھی، انتھونیس نے اسے غور سے دیکھا تو لیزا کی آنکھوں میں اسے کوئی اور ہی خمار چڑھا ہوا نظر آیا وہ اس خمار سے اور لیزا کے چہرے پر آئے ہوئے تاثرات سے بڑی اچھی طرح واقف تھا۔ ان دونوں کے تعلقات میاں بیوی والے تھے یہ کوئی عشق و محبت والا معاملہ نہیں تھا کہ یہ دونوں ایک دوسرے پر مرتے ہوں۔
لیزا !۔۔۔انتھونیس نے کہا۔۔۔ ہوش میں آؤ اور حقیقت کو دیکھو یہ وقت رومان لڑانے کا نہیں حالات کو دیکھو اور سوچو کہ ہم یہ جنگ ہار گئے تو ہمارے لئے کوئی پناہ نہیں ہوگی ہم یہاں سے بھاگ کر جائیں گے کہاں ، بنو تغلب جیسے طاقتور قبیلے نے چند اور قبیلوں کے ساتھ مسلمانوں کی اطاعت قبول کر لی ہے تمہیں تو میری طرح گھر سے باہر ہونا چاہیے۔کیا تم خود نہیں سوچ سکتی کہ ان قبائلیوں کی عورتوں کو تم لڑنے کے لئے تیار کر سکتی ہو۔
انتھونیس ،لیزا کو پوری طرح نہیں سمجھ سکا تھا جس کی وجہ اس کے سوا اور کیا ہو سکتی تھی کہ لیزا نے اس کے ساتھ جو دوستی لگائی تھی وہ صرف جسم کے ساتھ تعلق رکھتی تھی، اور لیزا نے اسے جسمانی تشنگی کی تسکین کیلئے اسے اپنا دوست بنایا تھا۔
لیزا ہر قل کے حرم کی ایک عورت تھی ۔ صرف اسے یہ اعزاز حاصل تھا کہ وہ ہرقل کی بیوی تھی، اور دوسرا اعزاز یہ کہ وہ ایران شاہی خاندان میں سے تھی ۔
وہ جانتی تھی کہ شاہی محلات میں خوبصورت عورت کا استعمال کیا ہوتا ہے ، اس نے ایران کے محلات میں بھی دیکھ لیا تھا اور روم کے بادشاہ کے ہاں بھی۔
پہلے بیان ہوچکا ہے کہ لیزا نوجوان اور غیر معمولی طور پر حسین و جمیل لڑکی تھی، اسے خون کے رشتوں نے ایک طلسماتی دھوکہ بنا کر ہرقل کے یہاں بھیجا تھا کہ اس پر اپنے حسن کا طلسم طاری کرکے اسے زہر دے کر وہاں سے بھاگ نکلنے کی کوشش کرے۔ ہرقل کے پاس پہنچی تو اس کی بیوی بن گئی وہ بڑی ہی زہریلی ناگن بن کر ہرقل کے پاس آئی تھی لیکن ہرقل کو دیکھ کر اور اس کے جذبات سے متاثر ہوکر وہ ناگن سے انسان بن گئی تھی جس میں جذبات ہوتے ہیں اور دل و جگر بیدار ہو کر اپنا آپ اپنی پسند کے انسان کے حوالے کر دیتے ہیں ۔لیکن ہرقل نے تھوڑے ہی عرصے میں اس کے یہ جذبات کچل ڈالے اور اسے اپنے حرم میں پھینک دیا جو عورتوں کا گودام تھا۔ اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا کہ لیزا کی ذات میں صرف حیوانی جذبات رہ گئے وہ جوان تھی اور اسے ایک جوان ساتھی کی ضرورت تھی۔
اس جذباتی کیفیت میں وہ ایسا آتش فشاں پہاڑ بن گئی تھی جس کا منہ بند تھا اور لاوا باہر نکلنے کو تڑپ رہا تھا ۔
انتھونیس کی جگہ اسے کوئی اور اپنے قریب آتا نظر آجاتا تو وہ اسی کی ہو کے رہ جاتی، اتفاق ایسا ہوا کہ انتھونیس اس کے قریب آ گیا اور لیزا نے لپک کر اسے اپنے ساتھ چپکا لیا اور جب دیکھا کہ اس شخص کے ساتھ ملاقاتیں آسانی سے ہوجاتی ہیں تو فرض کر لیا کہ یہی اس کا خاوند ہے، اب تو اس کے بیٹے یو کلیس نے بھی قبول کر لیا تھا کہ اس کا باپ ہرقل نہیں انتھونیس ہے۔
بادشاہوں کی بیویاں اور ان کے حرموں کی عورتوں میں قومی جذبہ نام کو بھی نہیں ہوا کرتا تھا، نہ انہیں کسی ملک اور وطن سے محبت ہوتی تھی، وہ تو اس صورتحال کو بھی قبول کیے رکھتی تھی کہ کوئی اور بادشاہ اس ملک پر حملہ کرے گا اور انھیں بھی اپنے قبضے میں لے کر اپنی تفریح کا ذریعہ بنا لے گا، یا کوئی جرنیل یا کوئی شہزادہ انہیں اپنے ساتھ لے جائے گا انہیں فتح و شکست کے ساتھ ذرا سی بھی دلچسپی نہیں ہوتی تھی۔
لیزا بھی ایسی ہی عورتوں میں سے ایک تھی، اس وقت اسے حلب کی نہیں انتھونیس کی شدید ضرورت تھی اس نے یہ بھی محسوس نہ کیا کہ انتھونیس بھی ہرقل کی طرح اس سے اکتا سکتا ہے اس نے انتھونیس سے اپنے جذبات کی حرارت پیدا کرنے کی کوشش کی مگر انتھونیس جذباتی سطح سے بہت اوپر چلا گیا تھا، اس نے لیزا کو دھتکارا تو نہیں لیکن یہ بھی قبول نہ کیا کہ اس کے پاس بیٹھے،
تم اپنی بادشاہی قائم کرنے کی فکر میں ہوں۔۔۔ لیزا نے یاس انگیز لہجے میں کہا۔۔۔ یہ بادشاہی نہ جانے کب قائم ہوگی لیکن تم ابھی سے شاہ ہرقل بن گئے ہو۔ تم میرے ساتھ اب پہلے کی طرح بیٹھ کر بات ہی نہیں کرتے۔
انتھونیس بہت ہی تھکا ہوا تھا ،تھکاوٹ کے علاوہ اس پر محاصرہ اور حلب کی فتح و شکست سوار تھی اور یہی ایک سوچ اس کے ذہن پر غالب رہتی تھی کہ محاصرے کو کس طرح توڑے اور مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دے ۔
اس نے لیزا کی طرف کوئی توجہ نہ دی جس کی وہ طلبگار تھی، وہ کبھی جذباتی اور کبھی شاقی لہجے میں کچھ نہ کچھ بولتی رہی، اور انتھونیس گہری نیند سو گیا ۔
لیزا نے اسے سوتے ہوئے دیکھا تو اسے یوں لگا جیسے وہ مر گیا ہو وہ اس کے چہرے پر نظریں گاڑے دیکھتی رہی اور اسے یوں دھچکا لگا جیسے ایک چشمہ تھا جو خشک ہو گیا ہو۔
اس کا اپنا بیٹا یوکلس جسے دیکھ دیکھ کر وہ جیتی تھی اور جس پر وہ اپنی جان نچھاور کیے رکھتی تھی ،اس کی طرف پہلی سی توجہ نہیں دیتا تھا ۔وہ تو دو دو اور کبھی تین تین دن اور رات میں گھر سے غائب رہتا تھا۔ کبھی ذرا سی دیر کے لئے کے پاس آجاتا اور اسے حوصلہ اور تسلی دے کر بھاگم بھاگ چلا جاتا ۔
انتھونیس تو کہتا تھا کہ وہ یسوع مسیح کی سلطنت قائم کرے گا، لیکن یوکلیس کو اس سلطنت کے ساتھ یہ دلچسپی زیادہ تھی کہ وہ ہرقل اور قسطنطین کو قتل کرے گا، لیزا نے کبھی نہ سوچا کہ اپنے بیٹے کو اپنے ساتھ چپکالے تا کہ وہ لڑائی میں مارے جانے سے محفوظ رہے، وہ انتھونیس ہی کی ضرورت محسوس کرتی تھی لیکن انتھونیس اس کے ہاتھ سے نکل ہی گیا تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلی صبح لیزا کی آنکھ اس وقت کھلی جب سورج کی کرنیں قلعے کی دیواروں کے اوپر سے اندر آ گئی تھی، لیزا اٹھی اور تمام کمروں میں گھوم پھر آئی وہاں انتھونیس بھی نہیں تھا ،یوکلس بھی نہیں تھا، یہ تو اس کا روزمرہ کا معمول تھا، لیکن اس دن اس نے اپنے آپ کو کچھ زیادہ ہی تنہا محسوس کیا۔ اس کی ملازمہ نے اس کے آگے ناشتہ رکھا لیزا ناشتے پر اور ملازمہ فرش پر بیٹھ گئی۔
خدا آپ کو اور زیادہ عزت اور وقار دے مالکن۔۔۔ ملازمہ نے کہا۔۔۔ کچھ ہم غریبوں کو بھی بتا دیں کیا یہ محاصرہ اٹھ جائے گا؟ ۔۔۔
آپ کو تو معلوم ہی ہوگا شہر میں اناج کم پڑتا جا رہا ہے پانی کی تو کمی نہیں لیکن صرف پانی پر تو زندہ نہیں رہا جاسکتا۔
گھبراؤ نہیں لیزا نے کہا ۔۔۔محاصرہ اٹھ جائے گا ،نہ اٹھا تو باہر نکل کر مسلمانوں کے لشکر پر حملہ کریں گے۔
آپ کو گرجے میں کبھی نہیں دیکھا۔۔۔ ملازمہ نے کہا۔۔۔ گرجے میں ہر روز اپنی فتح کی اور مسلمانوں کی شکست کی دعائیں ہوتی ہیں۔ پادری کہتے ہیں کہ گناہوں سے توبہ کرو یہ بہت بڑی آفت ہے جو ہم پر گناہوں کی وجہ سے نازل ہوئی ہے ہم غریبوں نے کیا گناہ کیے ہے؟
لیزا نے ملازمہ کی بات پوری نہ ہونے دی اور ہنس پڑی ،ملازمہ چپ ہو گئی اور لیزا کے منہ کی طرف دیکھتی رہی ،ملازمہ نے بتایا کہ شہر کے کچھ لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ باہر نکل کر مسلمانوں پر حملہ کیا جائے لیکن بعض لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے ساتھ دشمنی ختم کر دی جائے اور ان کے لیے دروازے کھول دیے جائیں وہ کہتے ہیں کہ مسلمان بڑے اچھے لوگ ہیں جس شہر کو فتح کرتے ہیں اس شہر کے لوگوں کے ساتھ بہت ہی اچھا سلوک کرتے ہیں۔
لیزا کی ہنسی ایک مسکراہٹ میں سمٹ آئی تھی ،اس نے ملازمہ کی اس بات کو ذرا سی بھی اہمیت نہ دی اور اس طرح ہستی رہی جیسے وہ کوئی بڑی ہی دلچسپ بات سنا رہی ہو ،اس نے جلدی جلدی ناشتہ کیا اور اٹھ کر باہر نکل گئی۔
محاصرے کا شوروغل شہر کے اندر بھی سنائی دے رہا تھا محاصرے کی ایک اور رات گزر گئی تھی ،شہر کے جو لوگ شہر کے دفاع کے لئے دیوار پر کھڑے تھے وہ نعرے لگا رہے تھے اور مسلمانوں کو للکار بھی رہے تھے ان کا حوصلہ اور جوش و خروش بظاہر تروتازہ معلوم ہوتا تھا۔
لیزا آہستہ آہستہ چلتی گئ وہ کسی خاص جگہ پہنچنے کے ارادے سے نہیں نکلی تھی شہر کی عورتیں اسے جانتی تھیں، وہ ان کے جرنیل کی بیوی تھی ایک جگہ عورتوں نے اسے گھیر لیا ،وہ کچھ گھبرائی ہوئی تھیں ،اس سے پوچھنے لگیں کہ محاصرہ کب تک رہے گا؟ ۔۔۔اور کیا یہ شہر لمبے عرصے کیلئے محاصرے میں ہی رہے گا؟
لیزا اپنے آپ میں آ گئی جیسے بیدار ہو گئی ہو اس نے عورتوں کو بہت تسلیاں دیں اور ان کا حوصلہ اس طرح مضبوط کیا کہ انھیں کہا کہ وہ بھی لڑنے کے لئے تیار ہو جائیں اس نے یہ بھی کہا کہ محاصرے کو طویل نہیں ہونے دیا جائے گا اور جلد ہی باہر نکل کر مسلمانوں پر بڑا ہی زور دار حملہ کیا جائے گا۔
اس نے جرنیل کی بیوی کی حیثیت سے ایسی جوشیلی باتیں کی کہ عورتوں کی گھبراہٹ ختم ہو گئی اور کئی عورتوں نے کہا کہ وہ مردوں کی طرح لڑیں گی اور مسلمانوں کا محاصرہ کامیاب نہیں ہونے دینگے۔
لیزا کے اپنے ذہن میں بھی کچھ تبدیلی آگئی اور وہ آگے کو چل پڑی۔
کچھ دیر بعد وہ دیوار پر پہنچ گئ دیوار اتنی چوڑی تھی کہ اس پر چار پانچ آدمی پہلو بہ پہلو آسانی سے چل پھر سکتے تھے لیکن اس وقت دیوار پر چلنے کے لئے راستہ ہی نہیں ملتا تھا کیونکہ شہر کے تقریبا تمام لوگ دیوار پر کھڑے تھے اور ادھر ادھر آجا بھی رہے تھے۔
لیزا اس ہجوم میں سے راستہ بناتی چلی جا رہی تھی اسے جاننے والے آدمی رک کر سلام کرتے تھے اس کی گردن اس خیال سے تن گئی اور سر اونچا ہو گیا کہ وہ اس شہر کے سب سے بڑے جرنیل کی بیوی ہے۔
وہاں تو انتھونیس اکیلا ہی جرنیل تھا اور ایک غیر منظم لشکر کا کمانڈر بنا ہوا تھا۔
لیزا نے اپنے کندھے پر کسی کا ہاتھ محسوس کیا روک کر پیچھے دیکھا وہ روتاس تھا ،لیزا کا چہرہ چمک اٹھا اس نے روتاس سے پوچھا کہ صورتحال کیا ہے؟ ۔۔۔اور کیا محاصرہ جلدی توڑا جاسکے گا یا شہر کو خطرہ ہے؟
محاصرے کو تو ہم نے روکا ہوا ہے روتاس نے جواب دیا۔۔۔ لیکن یہ کہنا کہ کوئی خطرہ نہیں اپنے آپ کو دھوکے میں رکھنے والی بات ہے۔ مسلمانوں کا سپہ سالار خالد بن ولید ہے آپ کو شاید معلوم نہ ہو کہ میں شاہ ہرقل کے جاسوسی کے محکمے کا عہدہ دار ہوں میں بھیس بدل کر مسلمانوں کے خیمہ گاہوں میں گیا ہوں اور خالد بن ولید کو قریب سے دیکھا ہے ،شام سے ہماری فوج کے پاؤں اسی سالار نے اکھاڑے تھے اور اکھاڑے بھی ایسے کہ کہیں جم نہ سکے۔
یہ نام میں نے بھی سنا ہے لیزا نے کہا ۔۔۔ہرقل کو یہ کہتے سنا تھا کہ خالد بن ولید کے قتل کا انتظام ہوجائے تو میں مسلمانوں کو صرف شام ہی سے نہ نکالوں بلکہ عرب سے بھی بھگا کر سمندر میں ڈبودوں ۔قاتلوں کو اس تک پہنچانا ممکن نظر نہیں آتا۔
آپ کو پوری طرح معلوم نہیں۔۔۔ روتاس نے کہا ۔۔۔دو مرتبہ خالد بن ولید کو قتل کرنے کے لئے چار چار آدمی بھیجے گئے تھے وہ مسلمانوں کے لباس میں گئے تھے اور عربی عربوں کی طرح بول سکتے تھے، اور مجھے یہ بھی یقین تھا کہ مسلمانوں کے لشکر میں سے کوئی کہہ نہیں سکتا تھا کہ یہ کوئی اور ہیں، لیکن وہ سب وہاں جاکر خود قتل ہوگئے دونوں جماعتوں کی کہانی الگ الگ ہے لیکن اس وقت ہمارے سامنے مسئلہ اس محاصرے کا ہے اور اس کا سالار خالد بن ولید ہے جو قلعہ توڑنے اور سر کرنے کی خصوصی مہارت رکھتا ہے۔ روتاس بولتے بولتے چپ ہو گیا اور باہر کی طرف دیکھ کر بولا وہ دیکھیں آئیں میں آپ کو خالدبن ولید دکھاتا ہوں۔
روتاس لیزا کو دیوار کی برجی کے قریب لے گیا دور دو گھوڑسوار آگے آگے اور آٹھ دس گھوڑسوار ان کے پیچھے پیچھے جا رہے تھے۔
اگلے دو سواروں میں جو دائیں طرف ہے وہ خالد بن ولید ہے روتاس نے کہا۔۔۔ بائیں طرف عیاض ہے میں اس کا پورا نام نہیں جانتا یہ بھی سالار ہے آپ اتنی دور سے خالد بن ولید کا چہرہ اچھی طرح نہیں دیکھ سکتیں قریب سے دیکھیں تو دشمن ہونے کے باوجود آپ بے ساختہ کہہ اٹھے گی کہ اس چہرے پر خدا نے اپنا تاثر سجا دیا ہے جو دیکھنے والوں کو متاثر کرتا ہے، اس سالار کے چہرے پر اس کی روح کی چمک دمک بھی نظر آتی ہے، یہ ان جرنیلوں اور سالاروں میں سے ہے جو صرف فتح کرنا جانتے ہیں اور شکست سے واقف ہی نہیں ہوتے۔
تو کیا خالد بن ولید حلب کو فتح کرلے گا ؟۔۔۔لیزا نے پوچھا۔
میں آپ کا حوصلہ نہیں توڑنا چاہتا ۔۔۔روتاس نے کہا ۔۔۔ہم جان لڑا دیں گے لیکن حلب کو بچانے کے لئے ہمیں اس شہر کی آدھی آبادی قربان کرنی پڑے گی موقع ملتے ہی ہم باہر نکل کر حملہ کریں گے۔
روتاس بولتا رہا وہ لیزا کو بتا رہا تھا کہ کچھ بھی ہو سکتا ہے، لیزا کو صورت حال سے تفصیلی آگاہ کر رہا تھا، اور لیزا نے باہر سے نظر ہٹا کر اس کے چہرے پر روک لی اور اسے نظر بھر کر دیکھا پھر اسے سر سے پاؤں تک دیکھا اور اس کے ہونٹوں پر ایسا تبسم آ گیا جس میں کچھ تشنگی سی تھی، لیزا نے بغیر کسی سوچ اور بغیر ارادے کے روتاس کا بازو پکڑا اور اسے اس چھوٹی سی برجی سے ہٹا لائی، روتاس اس کے ساتھ پالتو جانور کی طرح چل پڑا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
انتھونیس اور یوکلس کی طرح روتاس پر بھی ہیجانی کیفیت طاری رہتی تھی وہ بھی شہر کے لوگوں کے کمانڈروں میں سے تھا اس کی عمر تیس چالیس سال کے درمیان تھی اور وہ خوبرو آدمی تھا لیزا سے تین چار سال ہی چھوٹا تھا وہ شاہی خاندان کا فرد تھا، اور ذمہ دار عہدے پر بھی فائز تھا۔
اس نوجوانی کی مناسبت سے روتاس لیزا کا احترام کرتا تھا، اور احترام کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ لیزا ہرقل کی بیوی تھی۔
وہ دیکھئے روتاس نے روک کر باہر محاصرے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ایک سوار دستہ جا رہا ہے ہو سکتا ہے اس کی جگہ تازہ دم دستہ آجائے، لیکن مجھے یوں لگ رہا ہے جیسے مسلمان محاصرہ آہستہ آہستہ اٹھا رہے ہیں۔
کم و بیش ایک ہزار گھوڑسوار خالد بن ولید کے حکم سے محاصرے سے نکل گئے اور ایک طرف کو جا رہے تھے، روتاس اور لیزا دیکھتے رہے اور سواروں کا وہ دستہ دور ہی دور ہٹتا گیا اور پہاڑی کے اندر چلا گیا۔
لیزا نے روتاس کی طرف دیکھا اس کے چہرے پر مسرت کے آثار نظر آئے اور وہ کچھ زیادہ ہی خوبرو نظر آنے لگا ،روتاس کے ساتھ لیزا کی کوئی بے تکلفی نہیں تھی۔
روتاس محاصرے کے دوران بہت دنوں کے وقفے سے انتھونیس کے گھر جایا کرتا تھا، لیکن اس وقت جب انتھونیس گھر پر ہوتا تھا۔
وہ لیزا سے نہیں انتھونیس سے ملنے جاتا تھا۔
میں اس تنہائی سے اکتا گئی ہوں روتاس! ۔۔۔لیزا نے دوستانہ بے تکلفی سے کہا ۔۔۔شہر کی ان عورتوں کے ساتھ تو میں گھل مل سکتی ہی نہیں تم جانتے ہو میں کس ماحول سے آئی ہوں، انتھونیس دن رات باہر رہتا ہے اور جب آتا ہے تو تھکا ماندہ پلنگ پر گرتا اور سو جاتا ہے میں تو آج تنگ آکر دیوار پر آئی تھی کتنا اچھا ہوا تم مل گئے کیا تم پسند کرو گے کہ میں تمہارے ساتھ تمہارے گھر چلوں۔
روتاس بھلا کیسے انکار کرسکتا تھا اس نے کہا کہ وہ تو گھر ہی جا رہا تھا رات بھر وہ باہر رہا تھا ،اس نے لیزا کو ساتھ لیا اور اسے اپنے گھر لے گیا۔
روتاس نے لیزا کو احترام سے بٹھایا اور خود الگ ہٹ کر بیٹھنے لگا لیکن لیزا نے اس کا بازو پکڑ لیا اور کھینچ کر اسے اپنے پاس بٹھا لیا، یہی نہیں بلکہ اس کے کمر میں ہاتھ ڈال دیا اور سخت کر دیا پھر بے تکلفی کا ایک ایسا مظاہرہ کیا جو وہ انتھونیس کے ساتھ ہی کرسکتی اور کیا کرتی تھی ۔
روتاس کو ایسی توقع نہیں تھی کہ وہ اس کے ساتھ اتنا زیادہ بے تکلف ہو جائے گی، لیزا نے بڑے ہی جذباتی لہجے میں ایک آدھ بات بھی کہہ دی روتاس بچہ تو نہ تھا اتنا واضح اشارہ سمجھ گیا اور جب اس نے لیزا کے چہرے پر نظر ڈالی تو وہاں کچھ اور ہی تاثر تھا۔
میرے دل میں آپ کا احترام ہے ۔۔۔روتاس نے کہا۔۔۔ بے شک آپ شاہی خاندان سے بھاگ آئی ہیں لیکن میں خود اسی خاندان کا فرد ہوں اس لئے آپ کا احترام کرتا ہوں، اگر میں یہ ذہن سے اتار دوں کہ آپ شاہی خاندان کی آبرو ہیں تو میں یہ نہیں بھول سکتا کہ آپ میرے جرنیل اور کمانڈر انتھونیس کی دوست ہیں۔
میں انتھونیس کی ملکیت نہیں ہوں روتاس! ۔۔۔لیزا نے کہا۔۔۔ اس وقت تم ہی میرے دوست ہو اور تم ہی میرے ساتھی ہو، مجھ سے دور ہٹنے کی کوشش نہ کرنا۔
اس وقت میں ہرقل کی بیوی بھی نہیں اور انتھونیس کی دوست بھی نہیں، اس وقت میں صرف لیزا ہوں اور مجھے احترام سے بلانے کے بجائے پیار سے لیزا کہو۔
پھر یہ بھی سوچ لو لیزا! ۔۔۔روتاس نے کہا۔۔۔ پادری ہر روز فتح کی دعا کرتا ہے اور ایک ہی بات دوہراتا آتا چلا جارہا ہے کہ ہم پر بیٹھے بٹھائے بہت بڑی آفت آن پڑی ہے جس سے نجات کا طریقہ صرف یہ ہے کہ گناہوں سے توبہ کرو، اور کوئی گناہ نہ ہو۔
میں سراپا گناہ ہوں! ۔۔۔لیزا نے کہا۔۔۔ ایران کے شاہی خاندان سے ایک بڑا ھی حسین گناہ بن کر ہرقل کے شاہی خاندان میں آئی تھی، لیکن اس گناہ میں ناکام رہی اور جب شاہ ہرقل نے میرے ساتھ شادی کر کے تھوڑے ہی عرصے بعد حرم میں پھینک دیا تو میں نے ایک اور گناہ کیا۔
لیزا نے جذبات سے مغلوب ہو کر روتاس کو تفصیل سے سنایا کہ اس نے انتھونیس کو کس طرح اپنی تسکین کا ذریعہ بنایا تھا ،اور کس طرح اس کے ساتھ یہ دوستی در پردہ نبھاتی رہی اس نے اس راز سے بھی پردہ اٹھا دیا کہ یوکلسس ہرقل کا نہیں انتھونیس کا بیٹا ہے۔
تم غلط سمجھ رہے ہو۔۔۔ لیزا نے کہا ۔۔۔تم یہ سمجھتے رہے کہ میں بھی انتھونیس کے اس عزم میں شامل ہوں کہ ہم شام میں یسوع مسیح کی سلطنت قائم کریں گے، انتھونیس بھی یہی سمجھتا ہے کہ میرا بھی یہی عزم ہے ،لیکن روتاس میں تمہیں سچ بتاتی ہوں کہ میں اپنے اکلوتے بیٹے یوکلس کو ہرقل اور اس کے بیٹے قسطنطین کے ہاتھوں سے قتل ہونے سے بچانے کے لئے انتھونیس کے ساتھ آ گئی۔
لیزا نے روتاس کو یہ بھی بتا دیا کہ ہرقل اور قسطنطین یوکلس کو قتل کروانا چاہتے تھے لیکن انتھونیس نے بروقت دیکھ لیا اور قاتلوں کو قتل کر ڈالا ،لیزا نے یہ واقعہ بھی روتاس کو تفصیل سے سنایا اور کہا کہ انتھونیس بھی اس وجہ سے بھاگ آیا ہے کہ یوکلس اس کا اپنا بیٹا ہے، اور دوسرا یہ کہ ہرقل انتھونیس کو بھی قتل کروا دے گا۔
میں یہ ساری بات سن کر حیران نہیں ہوا۔۔۔ روتاس نے کہا۔۔۔ یہ سب کچھ شاہی خاندانوں میں ہوتا ہی رہتا ہے ایک کی بیوی دوسرے کی داشتہ ہوتی ہے ،بادشاہ کے بیٹے بادشاہ کی دوسری بیویوں یا داشتاوں کے ساتھ تعلقات بنا لیتے ہیں میں تو یہاں تک کہوں گا کہ بادشاہوں کی شکست کی درپردہ وجہ یہی ہے، کیا تم نے کبھی سوچا بھی تھا کہ ایران اور روم جیسی زبردست طاقت عرب کے عام اور انتہائی معمولی لوگوں سے شکست کھا جائیگی شکست بھی ایسی کہ بادشاہ بھاگتے اور پناہ ڈھونڈتے پھریں گے، مسلمان ہمارے دشمن ہی سہی لیکن میں جاسوسی کیلئے مختلف بہروپ دھار کے مسلمانوں کی آبادیوں میں بھی رہا اور ان کے خیموں میں بھی گھوما پھرا تھا ان کے یہاں عیش و عشرت کا کوئی تصور ہی نہیں ان کے کردار پہاڑی چشمے سے پھوٹنے والے پانی کی طرح شفاف ہوتے ہیں ،سطح پر دیکھو تو چشمے جس طرح نظر آتے ہیں مسلمان بالکل ایسے ہی ہیں، یہ ہے ان کی اصل طاقت جس کے سامنے کوئی جنگی طاقت نہیں ٹھہر سکتی ،میرا مشورہ مان لو لیزا ، اب بھی تم اس گناہ سے بچ سکتی ہو، انتھونیس کو لے کر گرجے میں جاؤ اور اس کے ساتھ باقاعدہ شادی کر لو۔
تم میری بات کیوں نہیں سمجھتے روتاس! ۔۔۔لیزا نے اکتاہٹ سے کہا۔۔۔ مجھے انتھونیس کے ساتھ وہ محبت ہے ہی نہیں جو تم سمجھ رہے ہو، ہرقل سے محبت ہو گئی تھی لیکن اس نے میرے ساتھ جو سلوک کیا اس سے میں سمجھ گئی کہ یہ شخص محبت کے قابل تھا ہی نہیں میں نے اس کے اس جرنیل انتھونیس کے ساتھ دوستی لگا کر اسے دھوکے دیے۔
میں انسان اور جوان عورت ہوں! ۔۔۔ تمہیں بتایا ہے کہ میں اپنے اکلوتے بیٹے کو قتل سے بچانے کے لئے اسے ساتھ لے کر انتھونیس کے ساتھ بھاگ آئی۔
اس کے باوجود لیزا! ۔۔۔روتاس نے کہا ۔۔۔ہمیں انتھونیس کے اس عزم کا احترام کرنا چاہیے کہ وہ یسوع مسیح کی سلطنت قائم کرنا چاہتا ہے اس کے ساتھ ہمیں پورا پورا تعاون کرنا چاہیے۔
تم کم عقل انسان ہو روتاس! ۔۔۔لیزا نے طنزیہ سی مسکراہٹ سے کہا۔۔۔ جاسوسی کے محکمے کے ایک ذمہ دار افسر کو اتنا کم فہم نہیں ہونا چاہیے غور کرو گہرائی میں جاؤ، اور پسپائی اور شکست کا جو تجربہ ہمیں ہوا ہے اس پر غور کرو، انتھونیس ایسا خواب دیکھ رہا ہے جس کی کوئی تعبیر نہیں ہوا کرتی، ان تھوڑے سے مسلمانوں نے ایران اور روم کے بادشاہوں کو کچل ڈالا ہے انتھونیس ناتجربہ کار قبائیلوں کے بل بوتے پر مسلمانوں کو شکست نہیں دے سکتا ، یہ بات تم خود سمجھ سکتے ہو ، یہ تو محاصرہ ہے اور ہم قلعے میں محفوظ ہیں ،اس لئے اتنے دن گزر گئے ہیں، اگر یہ کھلے میدان کی لڑائی ہوتی تو سورج غروب ہونے سے پہلے پہلے مسلمان لڑائی کا فیصلہ اپنے حق میں کرچکے ہوتے۔
اتنی مایوسی لیزا! ۔۔۔روتاس نے ہلکی سی مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔تم انتھونیس اور یوکلس کے ساتھ بھی ایسی ہی باتیں کیا کرتی ہو؟
نہیں! ۔۔۔لیزا نے کہا ۔۔۔ان کے ساتھ تو میں نے اس مسئلہ پر کبھی بات کی ہی نہیں، ان دونوں کو یقین ہے کہ وہ محاصرہ توڑ کر مسلمانوں کو یہاں سے بھگا دیں گے۔
لیزا روتاس کو کچھ اور قریب کر لیا اور جذباتی سی سرگوشی میں کہا ۔۔۔کیا تم پسند نہیں کرو گے کہ اس وقت ہم اس مسئلہ پر بات نہ کریں، کیا تم ابھی تک مجھے نہیں سمجھے۔
روتاس بھی آخر جوان آدمی تھا ،اور وہ بھی شاہی خاندان کا تھا، کوئی زاہد اور پارسا تو نہ تھا ،اس پر بھی وہی خمار طاری ہونے لگا جس سے لیزا مخمور تھی ،زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ روتاس اس طرح لیزا کے جذبات کے جال میں آ گیا جیسے مکھی مکڑی کے جالے میں آجاتی ہے۔
لیزا جب وہاں سے رخصت ہونے لگی تو اس کے چہرے پر تعصب کا شائبہ تک نہ تھا بلکہ وہ مطمئن اور مسرور لگتی تھی۔
یہ بھی سوچا ہے لیزا! ۔۔۔روتاس نے پوچھا۔۔۔ اگر انتھونیس کو ہماری اس دوستی کا پتہ چل گیا تو کیا ہو گا؟
بہت برا ہو گا۔۔۔ لیزا نے ہلکے ہلکے سے لہجے میں جواب دیا ،انتھونیس شاید تمہیں قتل کر دے لیکن ہم اسے پتہ ہی کیوں چلنے دیں گے۔
دونوں نے ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑ لیے ،اور لیزا وہاں سے چل دی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
◦•●◉✿ جاری ہے ✿◉●•◦

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Graphic Designer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی