آج کی بات: جو شخص بہانہ بنانے میں بہت اچھا ہو
✨ آج کی بات ✨
💬 "جو شخص بہانہ بنانے میں بہت اچھا ہو، وہ کسی اور کام میں اچھا نہیں ہو سکتا۔"
یہ جملہ صرف ایک سماجی تنقید نہیں — یہ ذمہ داری، عزم، اور ایمانی صداقت کا آئینہ ہے۔ دنیا میں ہر کوئی کامیاب ہونا چاہتا ہے، لیکن بہت کم لوگ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بہانوں کی دنیا میں کامیابی کا سورج کبھی طلوع نہیں ہوتا۔ 🌅
جب انسان بہانے بناتا ہے، تو وہ نہ صرف واقعہ سے بھاگتا ہے، بلکہ اپنی ذات سے بھی فرار اختیار کرتا ہے۔ اور جو شخص خود سے بھاگے، وہ کسی مقصد تک کیسے پہنچ سکتا ہے؟
🕊️ اسلامی نقطہ نظر: بہانہ = غفلت + کمزوری
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں منافقین کی صفت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
﴿وَإِذَا رَأَيْتَهُمْ تُعْجِبُكَ أَجْسَامُهُمْ ۖ وَإِن يَقُولُوا تَسْمَعْ لِقَوْلِهِمْ ۖ كَأَنَّهُمْ خُشُبٌ مُّسَنَّدَةٌ ۖ يَحْسَبُونَ كُلَّ صَيْحَةٍ عَلَيْهِمْ ۚ هُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْهُمْ ۚ قَاتَلَهُمُ اللَّهُ ۖ أَنَّىٰ يُؤْفَكُونَ﴾
(سورۃ المنافقون: 4)
اور انہی کے بارے میں دوسری جگہ فرمایا:
﴿سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ إِذَا انطَلَقْتُمْ إِلَىٰ مَغَانِمَ لِتَأْخُذُوهَا ذَرْنَا نَتَّبِعْكُمْ ۖ يُرِيدُونَ أَن يُبَدِّلُوا كَلَامَ اللَّهِ... يَعْتَذِرُونَ إِلَيْكُمْ إِذَا رَجَعْتُمْ إِلَيْهِمْ﴾
(سورۃ التوبہ: 81-82)
یعنی بہانے بنانا، عذر تلاش کرنا، اور ذمہ داری سے بچنا — یہ منافقین کی نشانی تھی۔
اور آج بھی، جو شخص ہر موقع پر "میں نہیں کر سکتا"، "وقت نہیں تھا"، "حالات خراب تھے" کہتا ہے، وہ عمل کی دنیا سے باہر کھڑا ہے۔
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"المُؤْمِنُ القَوِيُّ خَيْرٌ وَأَحَبُّ إِلَى اللَّهِ مِنَ المُؤْمِنِ الضَّعِيفِ، وَفِي كُلٍّ خَيْرٌ"
(صحیح مسلم: 2664)
"مومن مضبوط (عزائم والا) مومن کمزور (بہانوں والا) سے بہتر اور اللہ کو زیادہ محبوب ہے۔"
یہاں "مضبوط" سے مراد جسمانی طاقت نہیں، بلکہ عزائم، ثابت قدمی، اور عمل کی ہمت ہے۔
📜 تاریخ کی روشنی: صحابہ کرامؓ کا عملی نمونہ
فتحِ خیبر کے وقت، حضور ﷺ نے فرمایا:
"Tomorrow I will give the flag to a man who loves Allah and His Messenger, and Allah will grant victory through him."
صبح ہوئی، تو سب اُمیدوار تھے — حضرت عمر، حضرت علی، حضرت ابوبکر…
لیکن جب حضور ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو جھنڈا دیا، تو وہ بخار میں تھے۔
لوگوں نے کہا: "آپ تو بیمار ہیں!"
لیکن حضرت علی نے کہا:
"میں اللہ اور اس کے رسول کے راستے میں ہوں — بیماری مجھے روک نہیں سکتی!"
اور اللہ نے ان کے ہاتھوں فتح عطا فرمائی۔ 🏇⚔️
انہوں نے بہانہ نہیں بنایا — حالانکہ بیماری ایک "جائز" عذر تھا۔
لیکن وہ جانتے تھے: بہانہ بنانا، منزل سے دور جانا ہے۔
💭 نفسیات اور کامیابی: بہانے = ذہنی قید
جدید نفسیات بھی تسلیم کرتی ہے کہ "excuse-making" ایک ذہنی رویہ ہے جو انسان کو:
- ذمہ داری سے بچاتا ہے،
- ناکامی کا الزام دوسروں پر ڈالتا ہے،
- اور ترقی کے راستے میں رکاوٹ بنتا ہے۔
کامیاب افراد مسئلوں کو موقع سمجھتے ہیں،
جبکہ ناکام افراد موقع کو مسئلہ بنا لیتے ہیں۔
اور جو شخص ہر چیز کا بہانہ تلاش کرتا ہے، وہ کبھی حل تلاش نہیں کرتا۔
نتیجہ؟ وہ ہمیشہ ایک ہی جگہ پھنسا رہتا ہے — جیسے چکی کا بیل۔ 🐂
💡 عملی سبق: بہانوں کی عادت کیسے چھوڑیں؟
اپنے الفاظ پر نگرانی کریں:
جب بھی "میں نہیں کر سکتا…" کہنے لگیں، اسے بدل کر کہیں: "میں کیسے کر سکتا ہوں؟"ذمہ داری قبول کریں:
ناکامی ہو تو کہیں: "میری غلطی تھی، اب میں سیکھ گیا۔"چھوٹی کامیابیوں پر خود کو سراہیں:
جب آپ بہانہ نہیں بناتے، تو اس پر خود پر فخر کریں — یہ عادت بن جائے گی۔دعا کریں:
"اللّٰهم لا سہل إلا ما جعلتہ سہلاً، وأنت تجعل الحزن إذا شئت سہلاً"
"اے اللہ! کوئی کام آسان نہیں مگر جو تو آسان کر دے، اور تو ہی غم کو آسان کر دیتا ہے جب چاہے۔"
🌅 خاتمہ: بہانہ نہیں، عمل ہے جو تقدیر بدل دیتا ہے
دنیا میں دو طرح کے لوگ ہوتے ہیں:
- وہ جو بہانے گھڑتے ہیں،
- اور وہ جو تاریخ رقم کرتے ہیں۔
پہلے والے کبھی کچھ نہیں بن پاتے،
دوسروں کی کہانیوں میں پس منظر بن کر رہ جاتے ہیں۔
لیکن دوسرے والے — جو ہر مشکل میں راستہ نکالتے ہیں — وہی تبدیلی کے معمار بنتے ہیں۔
🌟 "بہانہ بنانا آسان ہے، لیکن منزل صرف انہیں ملتی ہے جو چلتے رہتے ہیں — چاہے راستہ کتنا ہی کٹھن کیوں نہ ہو۔"
اور یاد رکھیں:
اللہ تعالیٰ آپ سے نہیں پوچھیں گے کہ آپ کے پاس کتنے بہانے تھے،
بلکہ یہ پوچھیں گے کہ آپ نے جو وقت، صحت، اور موقع دیا گیا تھا — اس پر کیا کیا؟ ⏳
🤲 "اے اللہ! ہمیں بہانوں کی بجائے عزم عطا فرما،
اور کمزوری کی بجائے ہمت دے جو تقدیر بدل دے۔"

کوئی تبصرے نہیں: