🌻 مؤذن کے لیے امام کے پیچھے جگہ خاص کرنے کا حکم
📿 *مؤذن کے لیے امام کے پیچھے جگہ خاص کرنے کا حکم:*
اصولی طور پر عام حالات میں تو مسجد میں کسی بھی شخص کو یہ اجازت نہیں کہ وہ اپنے لیے کوئی جگہ مخصوص کرے یا کوئی جگہ اپنے لیے روکے رکھے، البتہ جو شخص پہلے سے مسجد میں حاضر ہوکر کسی جگہ پر بیٹھ جائے اور کسی وقتی ضرورت جیسے وضو یا قضائے حاجت وغیرہ کے لیے جانا پڑجائے تو اس صورت میں اپنی اس جگہ پر رومال وغیرہ رکھ کر جانے کی اجازت ہے کیونکہ پہلے آنے کی وجہ سے یہاں بیٹھنا اس کا حق ہے۔
جہاں تک مؤذن کا تعلق ہے تو وہ بھی چوں کہ عمومًا مسجد میں پہلے آجاتا ہے یا شروع سے مسجد ہی میں موجود ہوتا ہے، اور پھر مسجد ہی کے کاموں مثلًا اذان وغیرہ میں مشغول ہوتا ہے، نیز بوقتِ ضرورت اسے امام کی نیابت بھی کرنی پڑسکتی ہے حتی کہ دیگر امور میں بھی اس کی ضرورت پیش آجاتی ہے، لہٰذا ان وجوہات کی بنا پر مؤذن کے لیے سہولت، مصلحت یا ضرورت کی خاطر امام کے پیچھے والی جگہ مخصوص کردی جائے تو یہ درست ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔
☀️ الدر المختار:
وَتَخْصِيصُ مَكَان لِنَفْسِهِ، وَلَيْسَ لَهُ إزْعَاجُ غَيْرِهِ مِنْهُ وَلَوْ مُدَرِّسًا، وَإِذَا ضَاقَ فَلِلْمُصَلِّي إزْعَاجُ الْقَاعِدِ وَلَوْ مُشْتَغِلًا بِقِرَاءَةٍ أَوْ دَرْسٍ إلخ.
☀️ رد المحتار على الدر المختار:
(قَوْلُهُ: وَتَخْصِيصُ مَكَان لِنَفْسِهِ)؛ لِأَنَّهُ يُخِلُّ بِالْخُشُوعِ، كَذَا فِي «الْقُنْيَةِ» أَيْ لِأَنَّهُ إذَا اعْتَادَهُ ثُمَّ صَلَّى فِي غَيْرِهِ يَبْقَى بَالُهُ مَشْغُولًا بِالْأَوَّلِ، بِخِلَافِ مَا إذَا لَمْ يَأْلَفْ مَكَانًا مُعَيَّنًا. (قَوْلُهُ: وَلَيْسَ لَهُ إلَخْ) قَالَ فِي «الْقُنْيَةِ»: لَهُ فِي الْمَسْجِدِ مَوْضِعٌ مُعَيَّنٌ يُوَاظِبُ عَلَيْهِ وَقَدْ شَغَلَهُ غَيْرُهُ. قَالَ الْأَوْزَاعِيُّ: لَهُ أَنْ يُزْعِجَهُ، وَلَيْسَ لَهُ ذَلِكَ عِنْدَنَا اهـ. أَيْ لِأَنَّ الْمَسْجِدَ لَيْسَ مِلْكًا لِأَحَدٍ، «بَحْرٌ» عَنِ «النِّهَايَةِ». قُلْت: وَيَنْبَغِي تَقْيِيدُهُ بِمَا إذَا لَمْ يَقُمْ عَنْهُ عَلَى نِيَّةِ الْعَوْدِ بِلَا مُهْلَةٍ، كَمَا لَوْ قَامَ لِلْوُضُوءِ مَثَلًا، وَلَا سِيَّمَا إذَا وَضَعَ فِيهِ ثَوْبَهُ لِتَحَقُّقِ سَبْقِ يَدِهِ، تَأَمَّلْ.
مَطْلَبٌ فِيمَنْ سَبَقَتْ يَدُهُ إلَى مُبَاحٍ: وَفِي «شَرْحِ السِّيَرِ الْكَبِيرِ» لِلسَّرَخْسِيِّ: وَكَذَا كُلُّ مَا يَكُونُ الْمُسْلِمُونَ فِيهِ سَوَاءٌ كَالنُّزُولِ فِي الرِّبَاطَاتِ، وَالْجُلُوسِ فِي الْمَسَاجِدِ لِلصَّلَاةِ، وَالنُّزُولِ بِمِنًى أَوْ عَرَفَاتٍ لِلْحَجِّ، حَتَّى لَوْ ضَرَبَ فُسْطَاطَه فِي مَكَان كَانَ يَنْزِلُ فِيهِ غَيْرُهُ فَهُوَ أَحَقُّ، وَلَيْسَ لِلْآخَرِ أَنْ يُحَوِّلَهُ، فَإِنْ أَخَذَ مَوْضِعًا فَوْقَ مَا يَحْتَاجُهُ فَلِلْغَيْرِ أَخْذُ الزَّائِدِ مِنْهُ، فَلَوْ طَلَبَ ذَلِكَ مِنْهُ رَجُلَانِ فَأَرَادَ إعْطَاءَ أَحَدِهِمَا دُونَ الْآخَرِ فَلَهُ ذَلِكَ؛ وَلَوْ نَزَلَ فِيهِ أَحَدُهُمَا فَأَرَادَ الَّذِي أَخَذَهُ أَوَّلًا وَهُوَ غَنِيٌّ عَنْهُ أَنْ يُنْزِلَ فِيهِ آخَرَ فَلَا؛ لِأَنَّهُ اعْتَرَضَ عَلَى يَدِهِ يَدٌ أُخْرَى مُحِقَّةٌ لِاحْتِيَاجِهَا، إلَّا إذَا قَالَ إنَّمَا كُنْت أَخَذْتُهُ لِهَذَا الْآخَرِ بِأَمْرِهِ لَا لِنَفْسِي. (بَابُ مَا يُفْسِدُ الصَّلَاةَ، وَمَا وَيُكْرَهُ فِيهَا)
☀️ الهندية:
ويكره للإنسان أن يخص لنفسه مكانا في المسجد يصلي فيه. كذا في التتارخانية.
(كتاب الصلاة: الباب السابع، ١/ ١٠٨، ط: رشيدية)
☀️ النهاية:
ذكر الحلواني رحمه الله في الصوم عن أصحابنا يكره للإنسان أن يخص لنفسه مكانا في المسجد يصلي فيه؛ لأنه إن فعل ذلك تصير الصلاة في ذلك المكان طبعا، والعبادة متى صارت طبعا كان سبيلها الترك، ولهذا كره صوم الأبد، كذا ذكره الإمام التمرتاشي في الجامع الصغير.
(كتاب الصلاة: باب صفة الصلاة، ٢/ ٣١٦، ط: جامعة أم القرى)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

کوئی تبصرے نہیں: