🌻 ہاروت وماروت فرشتوں کو بُرا سمجھنے کا شرعی حکم
📿 *ہاروت وماروت فرشتوں کو بُرا اور گناہ گار سمجھنے کا حکم:*
ہاروت اور ماروت علیہما السلام دو فرشتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے ان فرشتوں کو دنیا میں بندوں کی آزمائش کے لیے بھیجا تھا۔ ان دو فرشتوں کو بھیجے جانے کا واقعہ سورۃ البقرۃ آیت نمبر 102 میں ذکر کیا گیا ہے، اس کی تفسیر میں شیخ الاسلام مفتی محمد تقی عثمانی صاحب دام ظلہم ”آسان ترجمہ قرآن“ میں تحریر فرماتے ہیں:
بابل عراق کا مشہورشہر تھا، ایک زمانے میں وہاں جادو کا بڑا چرچا ہوگیا تھا، اور یہودی بھی اس ناجائز کام میں بری طرح ملوث ہوگئے تھے، انبیاء کرام اور دوسرے نیک لوگ انہیں جادو سے منع کرتے تھے تو وہ بات نہ مانتے تھے، اس سے بھی خطرناک بات یہ تھی کہ لوگوں نے جادوگروں کے شعبدوں کو معجزے سمجھ کر انہیں اپنا دینی مقتدا بنالیا تھا، اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے دو فرشتے جن کا نام ہاروت وماروت تھا دنیا میں انسانی شکل میں بھیجے تاکہ وہ لوگوں کو جادو کی حقیقت سے آگاہ کریں اور یہ بتائیں کہ خدائی معجزات سے ان کا کوئی تعلق نہیں ہے، معجزہ براہ راست اللہ تعالیٰ کا فعل ہے جس میں کسی ظاہری سبب کا کوئی دخل نہیں ہوتا، اس کے برعکس جادو کے ذریعے جو کوئی شعبدہ دکھایا جاتا ہے وہ اسی عالم اسباب کا ایک حصہ ہے، یہ بات واضح کرنے کے لئے ان فرشتوں کو جادو کے محتلف طریقے بھی بتانے پڑتے تھے؛ تاکہ یہ دکھایا جاسکے کہ کس طرح وہ سبب اور مسبب کے رشتے سے منسلک ہیں؛ لیکن جب وہ ان طریقوں کی تشریح کرتے تو ساتھ ساتھ لوگوں کو متنبہ بھی کردیتے تھے کہ یاد رکھو! یہ طریقے ہم اس لیے نہیں بتا رہے ہیں کہ تم ان پر عمل شروع کردو بلکہ اس لیے بتا رہے ہیں کہ تم پر جادو اور معجزے کا فرق واضح ہو اور تم جادو سے پرہیز کرو، اس لحاظ سے ہمارا وجود تمہارے لیے ایک امتحان ہے کہ ہماری باتوں کو سمجھ کر تم جادو سے پرہیز کرتے ہو یا ہم سے جادو کے طریقے سیکھ کر ان پر عمل شروع کردیتے ہو، یہ کام انبیاء کے بجائے فرشتوں سے بظاہر اس بنا پر لیا گیا کہ جادو کے فارمولے بتانا خواہ وہ صحیح مقصد سے کیوں نہ ہو، انبیاء کرام کو زیب نہیں دیتا تھا، اس کے برعکس فرشتے چونکہ غیر مکلف ہوتے ہیں اس لیے ان سے بہت سے تکوینی کام لیے جاسکتے ہیں۔ بہر حال نافرمان لوگوں نے ان فرشتوں کی طرف سے کہی ہوئی باتوں کو تو نظر انداز کردیا اور ان کے بتائے ہوئے فارمولوں کو جادو کرنے میں استعمال کیا اور وہ بھی ایسے گھناؤنے مقاصد کے لیے جو ویسے بھی حرام تھے مثلًا میاں بیوی میں پھوٹ ڈال کر نوبت طلاق تک پہنچا دینا۔ (آسان ترجمہ قرآن)
مذکورہ تفصیل کے بعد یہ سمجھ لینا چاہیے کہ ان دو فرشتوں کے بارے میں گناہوں کے ارتکاب اور دنیا میں عذاب دیے جانے کے جو واقعات مشہور ہیں وہ منگھڑت اور غیر معتبر ہیں، ان واقعات کی وجہ سے ان معصوم فرشتوں کو گناہ گار اور بُرا سمجھنا ہرگز جائز نہیں۔
☀️ التفسير القرطبي:
وقد روي عن علي وابن مسعود وابن عباس وابن عمر وكعب الأحبار والسدي والكلبي ما معناه: أنه لما كثر الفساد من أولاد آدم عليه السلام- وذلك في زمن إدريس عليه السلام- عيرتهم الملائكة ... قلنا: هذا كله ضعيف وبعيد عن ابن عمر وغيره، لا يصح منه شي، فإنه قول تدفعه الأصول في الملائكة الذين هم أمناء الله على وحيه، وسفراؤه إلى رسله "لا يعصون الله ما أمرهم ويفعلون ما يؤمرون". "بل عباد مكرمون. لا يسبقونه بالقول وهم بأمره يعملون". "يسبحون الليل والنهار لا يفترون"... ثم إن قول الملائكة: "ما كان ينبغي لنا" عورة: لا تقدر على فتنتنا، وهذا كفر نعوذ بالله منه ومن نسبته إلى الملائكة الكرام صلوات الله عليهم أجمعين، وقد نزهناهم وهم المنزهون عن كل ما ذكره ونقله المفسرون، سبحان ربك رب العزة عما يصفون. (سورة البقرة، الآية:١٠٢)
☀️ التفسير المظهري:
قال محمد بن يوسف الصالحي في سبيل الرشاد: قال الشيخ كمال الدين-: وأئمة النقل لم يصححوا لهذه القصة ولا أثبتوا روايتها عن علي ولا عن ابن عباس رضى الله عنهم- قال العاصي: إن هذه الأخبار لم يرو منها شىء صحيح ولا سقيم عن النبي ﷺ- قال: وهذه الأخبار من كعب اليهود وافترائهم- قال الصالحي: ذكروا في تأويل الآية أن الله تعالى كان قد امتحن الناس بالملكين فإن السحر كان قد ظهر وظهر قول أهله فأنزل الله تعالى ملكين يعلمان الناس حقيقة السحر ويوضحان أمره ليعلم الناس ذلك ويميزوا بينه وبين المعجزة والكرامات فمن جاء يطلب ذلك منهما أنذراه وأعلماه أنما أنزلنا فتنة لتعليم السحر فمن تعلمه ليجتنبه ويعلم الفرق بينه وبين المعجزات والكرامات وما يظهره الله تعالى على أيدي عباده المؤمنين فذلك هو المرضى ومن تعلمه لغير ذلك ادى به الى الكفر- فلهذا كان الملكان يقولان: إنما نحن فتنة فلا تكفر ثم يقولان له إذا فعل الساحر كذا فرق بين المرء وزوجه- فعلى هذا يكون فعل الملكين طاعة لأمر الله تعالى ولا ينافى عصمة الملائكة. (سورة البقرة: الآية: 102)
☀️ تفسير البيضاوي:
وما روي أنهما مثلا بشرين وركب فيهما الشهوة فتعرضا لامرأة يقال لها : زهرة فحملتهما على المعاصي والشرك ثم صعدت إلى السماء بما تعلمت منهما فمحكي عن اليهود. (سورة البقرة: الآية: 102)
✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہم
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی

کوئی تبصرے نہیں: