الکمونیا بلاگ – علم، تحقیق، آئی ٹی اور ویڈیو ٹریننگ کا مرکز الکمونیا بلاگ ایک جامع علمی و تحقیقی پلیٹ فارم ہے جہاں آپ کو اسلامی مضامین، قرآنی موضوعات، احادیث کی تشریحات، تاریخِ اسلام، شخصیات پر تحقیقی مقالات، ادب اور فلسفہ جیسے موضوعات کے ساتھ ساتھ آئی ٹی، کمپیوٹر سائنس، ڈیجیٹل ٹولز اور پروفیشنل اسکلز پر مبنی مواد بھی دستیاب ہے۔ مزید برآں، یہاں آپ کو ویڈیو ٹریننگز اور آن لائن لرننگ کورسز بھی ملتے ہیں جو جدید دور کے تقاضوں کے مطابق آپ کی صلاحیتوں کو نکھارتے ہیں۔

✨ "تازہ ترین" ✨

Post Top Ad

LightBlog

🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ بیست و دوم 🌴


تاریخی واقعات,اردو ادب,حضرت امام حسینؓ,معرکہٴ حق و باطل,حماد حسن خان,
🕌🛡️⚔️⭐معرکہٴ حق و باطل ⭐⚔️🛡️🕌🌴حصہ بیست و دوم 🌴
🕌⭐🌴 تذکرہ: امامِ عالی مقام ، نواسۂ رسول ، حضرت حسین ابن علی و اہل بیت اطہار رضی اللہ عنہم⭐🕌
✍🏻 حماد حسن خان
☼الکمونیا ⲯ﹍︿﹍میاں شاہد﹍︿﹍ⲯآئی ٹی درسگاہ☼
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
# حضرت امیر معاویہ حاکم کیسے بنے؟‘
حضرت امیر معاویہ دمشق کے حاکم یوں بنے کہ جب حضرت ابو بکر صدیق کے زمانہ مبارک میں ملک شام فتح ہوا تو آپ  نے دمشق کا حاکم حضرت امیر معاویہ کے بھائی حضرت یزید بن ابو سفیان  کو مقرر فرمایا۔
اتفاق سے اپنے بھائی کے ساتھ حضرت امیر معاویہ بھی شام گئے تھے جو انہی کے پاس رہ گئے تھے ۔
جب حضرت یزید بن ابو سفیان کے انتقال کا وقت قریب آیا تو انہوں نے اپنی جگہ حضرت امیر معاویہ کو حاکم مقرر کردیا۔ یہ تقرر حضرت عمر فاروق کے زمانہ خلافت میں ہوا آپ نے ان کے تقرر کو برقرار رکھا اور پورے عہد فاروقی میں وہ دمشق کے حاکم رہے۔
یہاں تک کہ حضرت عثمان نے اپنے عہد خلافت میں حضرت امیر معاویہ کو پورے ملک شام کا حاکم بنا دیا اس طرح آپ نے عہد فاروقی و عثمانی میں بحیثیت حاکم ۲۰ سال حکومت کی اور پھر بعد میں بحیثیت خلیفہ ۲۰ سال حکمران رہے۔
# حضرت امیر معاویہ پر کئے گئے اعتراضات اور ان کے جوابات
پہلا اعتراض:
امیر معاویہ نے ہزاروں مسلمانوں کو قتل کیا اور کرایا مگر یہ حضرت علی سے جنگ نہ کرتے تو مسلمانوں کا اتنا قتل نہ ہوتا، اور مومن کو قتل کرنے والا ہمیشہ جہنم میں رہے گا اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے۔
” جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کا بدلہ جہنم ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور اللہ تعالیٰ اس پر غضب اور لعنت فرمائے گا، اور اس کے لئے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے“۔ (پارہ نمبر:۵)
اور امیر معاویہ  اس آیت کے ا حکام میں داخل ہیں۔
اس اعتراض کے دو جواب ہیں:
اول یہ کہ پھر تو حضرت عائشہ صدیقہ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر پر بھی یہ الزام عائد ہوسکتا ہے اس لئے کہ ان لوگوں نے بھی حضرت علی سے جنگ کی جس میں ہزاروں مسلمان شہید ہوئے جبکہ حضرت عائشہ کا جنتی ہونا ایسا ہی یقینی ہے جیسا کہ جنت کا ہونا۔
اس لئے کہ ان کے جنتی ہونے پر قرآن کی آیت شاہد ہے اور حضرت طلحہ اور حضرت زبیر بھی قطعاً جنتی ہیں اس لئے کہ یہ دو حضرات ” عشرہ و مبشرہ“ میں سے ہیں۔
اس اعتراض کا دوسرا جواب تحقیقی ہے اور وہ یہ ہے کہ مومن کے قتل کی تین صورتیں ہیں ایک تو یہ کہ اس کے قتل کو حلال سمجھے اور یہ کفر ہے اس لئے کہ مومن کا قتل حرام قطعی ہے۔
اور حرام قطعی کو حلال سمجھنا کفر ہے اور آیت کریمہ میں قتل کی یہی صورت مراد ہے۔ اس لئے کہ کفر والا ہی جہنم میں ہمیشہ رہے گا نہ کہ ایمان والا۔
دوسرا یہ کہ مومن کے قتل کو حلال نہ سمجھتے ہوئے شراب پینا اور نماز کا قصداً ترک کرنا اور تیسری صورت خطائے اجتہادی سے ایک مومن کا دوسرے مومن کو قتل کرنا۔یہ نہ کفر ہے نہ فسق اور حضرت امیر معاویہ کی جنگ اسی تیسری قسم میں داخل ہے۔
آپ مجتہد تھے جیسا کہ حضرت ابن عباس کے فرمان سے پہلے معلوم ہوچکا ہے۔ اور مجتہداگر اپنے اجتہاد میں خطا کرے تو اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔
اگر ہمارا یہ جواب اعتراض کرنے والے تسلیم نہیں کرتے تو پھر یہی اعتراض حضرت علی پر بھی ہوگا کہ انہوں نے بھی حضرت عائشہ اور حضرت امیر معاویہ کی جنگ میں بے شمار مومنین کو قتل کیا اور کرایا۔
اللہ پاک ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا کرے (آمین)
دوسرا اعتراض:
یہ کہا جاتا ہے کہ امیر معاویہ کے دل میں اہل بیت سے دشمنی تھی، اس لئے انہوں نے اہل بیت کو ستایا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے علی کو ستایا اس نے مجھ کو ستایا۔ اور امیر معاویہ نے اہل بیت سے جنگ کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے ان سے جنگ کی اس نے مجھ سے جنگ کی اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے والا مومن کب ہوسکتا ہے؟
جواب:
اس اعتراض کے بھی دو جواب ہیں اول الزام اوروہ یہ ہے کہ حضرت عائشہ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر پر بھی یہی اعتراض وارد ہوگا کہ ان حضرات نے بھی حضرت علی سے جنگ کی ہے بلکہ کوئی مخالف حضرت علی کے بارے میں بھی یہ کہہ سکتا ہے کہ ان کے دل میں حضرت عائشہ، حضرت طلحہ اور حضرت زبیر سے بغض اور عداوت تھی اور پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا ہے کہ جس نے صحابہ سے بغض رکھا اس نے میرے بغض کے سبب ان سے بغض رکھا َغرضیکہ حضرت امیر معاویہ پر اس قسم کے اعتراض کرنے سے بہت سے صحابہ اور اہل بیت پر اعتراض وارد ہوگا ۔
اللہ ہم سب کو ایسی سوچ سے بچا کر ہدایت نصیب فرمائے۔ (آمین)
تیسرا اعتراض:
جو بہت اہم سمجھا جاتا ہے کہ وہ یہ ہے کہ امیر معاویہ نے اپنی زندگی میں یزید کو اپنا خلیفہ مقرر کردیا تھا اس میں انہوں نے تین غلطیاں کیں۔
اول یہ کہ خلیفہ کا انتخاب عام لوگوں کی رائے سے ہونا چاہئے۔ انہوں نے یزید کو خود کیوں خلیفہ بنایا۔
دوسرا یہ کہ اپنے بیٹوں کو اپنا جانشین بنانا قانون اسلام کے خلاف ہے۔
تیسرا یہ کہ یزید جیسے فاسق و فاجر کے ہاتھ میں حکومت کی بھاگ دوڑدینا ان کا سب سے بڑا جرم ہے۔ کربلا کے سارے واقعات کی ذمہ داری انہی پر ہے۔ اگر وہ یزید کو خلیفہ نہ بناتے ہوتے تو کربلا کا ایسا درد ناک واقعہ نہ ہوتا۔
اور جب یزید جیسے فاسق و فاجر کو نماز کا امام بنانا درست نہیں تو اسے امام المسلمین بنانا کیسے جائز ہوسکتا ہے؟
جواب:
خلیفہ کا اپنی زندگی میں دوسرے کو خلیفہ بنانا جائز ہے اس لئے کہ حضرت ابوبکر صدیق نے اپنی زندگی میں حضرت عمر فاروق کو خلیفہ مقرر کیا تھا۔
اور فاسق ظاہر ہونے کے بعد فاسق قرار دیا جاتا ہے نہ کہ پہلے۔
ابلیس لعنتی پہلے معلم الملکوت اور عزت و عظمت والا تھا پھر جب اس سے کفر ظاہر ہوا تو اسے کافر قرار دیا گیا تو فاسق ظاہر ہونے سے پہلے یزید کو فاسق کیسے ٹھہرایا جاسکتا ہے اور حضرت امیر معاویہ کیسے مورد الزام ہوسکتے ہیں۔
اگر کوئی روایت ایسی ہو جس سے یہ ثابت ہو کہ حضرت امیر معاویہ کو یزید کے فاسق و فاجر ہونے کی خبر تھی اس کے باوجود انہوں نے یزید کو اپنا ولی عہد مقرر کیا تو وہ روایت جھوٹی ہے اور اس کا راوی کذاب ہے۔
اس لئے کہ وہ کسی صحابی کو فسق یعنی جھوٹ ثابت کرتا ہے جبکہ سارے صحابہ کا عادل ، متقی اور پرہیز گار ہونا جمہور کے نزدیک مسلم ہے۔
# حضرت امیر معاویہ کی سخاوت:
حضرت امیر معاویہ میں سخاوت کا وصف بہت زیادہ تھا۔ آپ لوگوں کو بڑے بڑے انعام اکرام سے نوازتے تھے۔
خصوصاً حضرت امام حسن کی خدمت اقدس میں گرانقدر نذرانے پیش کرتے تھے۔
حضرت ملا علی قاری مشکوٰة شریف کی شرح میں حضرت عبداللہ بن بریدہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک بار حضرت امام حسین حضرت امیر معاویہ کے پاس تشریف لے گئے تو انہوں نے آپ  سے کہا۔ میں آپ  کی خدمت میں اتنی نذر پیش کروں گا اس سے پہلے کسی کو نہ دی ہوگی۔
اور نہ ہی کسی اور کو دوں گا۔ انہوں نے ۴ لاکھ درہم حضرت امام حسن کی خدمت میں پیش کئے جن کو آپ  نے قبول فرمایا (ایک درہم ساڑھے تین ماشے چاندی کا ہوا کرتا تھا)
بیشک بعض لوگوں کے نزدیک یہ رقم کوئی خاص وقعت نہیں رکھتی ہو لیکن اس زمانے میں جب کہ ایک ایک پیسہ بھی بڑی محنت سے ملتا تھا۔ ۴ لاکھ درہم بہت بڑی اہمیت رکھتا تھا۔
علامہ محمد بن محمودآملی اپنی کتاب نفائس الفانون میں تحریر فرماتے ہیں کہ ایک بار حضرت امیر معاویہ نے حاضر ین مجلس میں فرمایا کہ:
جو شخص حضرت علی کی تعریف میں ان کی شان کے لائق شعر کہے گا تو میں اسے فی شعر ایک لاکھ دینار دوں گا۔ (ایک دینار ساڑھے چار ماشے سونے کا ہوتا تھا)وہاں موجودشاعروں نے حضرت علی کی شان میں اشعار کہے اور خوب انعام لئے۔
حضرت امیر معاویہ نے ہر شعر پر فرمایا:
” علی اس سے بھی افضل ہیں“ 
یہاں تک کہ اس مجلس میں حضرت علی کی شان میں عمرو بن العاص شاعر کا ایک شعر آپ کو اتنا زیادہ پسند آیا کہ ایک ہی شعر پر اس کو ۷ ہزار دینار دئیے۔ ان واقعات سے حضرت امیر معاویہ بے مثال سخاوت کے ساتھ یہ بات بھی اچھی طرح واضح ہوجاتی ہے کہ حضرت علی اور ان کے خاندان والوں کی آپ کے دل میں کتنی عزت تھی۔
# حضرت امیر معاویہ کی وفات:
علامہ خطیب تبریزی تحریر فرماتے ہیں ، حضرت امیر معاویہ کی وفات ماہ رجب ۶۰ ہجری میں لقوہ کی بیماری سے مقام دمشق میں ہوئی۔ جبکہ آپ  کی عمر ۷۸ سال تھی۔
حضرت امیر معاویہ مرض وفات میں بار بار فرماتے ۔
 
اے کاش...!
” میں قریش کا ایک معمولی انسان ہوتا تو ذی طویٰ گاؤں میں رہتا اور ان جھگڑوں میں نہ پڑتا جن میں پڑگیا ہوں ۔اور بوقت وفات آپ  نے وصیت فرمائی کہ میرے پاس حضورﷺ کی لنگی، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی چادر اور کرتا مبارک ہے۔ کچھ ان کے بال اور ناخن اقدس کے تراشے ہیں۔ مجھے کفن میں حضورﷺ کا کرتا پہنا یا جائے۔
حضور ﷺکی چادر میں لپیٹا جائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لنگی میں مجھے باندھا جائے اور میرے ان اعضاء پر جن سے سجدہ کیا جاتا ہے ان پر حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی موئے مبارک اور تراشے ہوئے ناخن اقدس رکھ دئیے جائیں اور مجھے ارحم الراحمین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جائے“۔
حضرت امیر معاویہ کی آخری وصیت:
علامہ ابو اسحق اپنی کتاب ” نور العین فی مشہد الحسین“ میں تحریر فرماتے ہیں کہ: جب حضرت امیر معاویہ کی وفات کا وقت قریب آیا تو یزید نے پوچھا کہ ابا جان! آپ کے بعد خلیفہ کون ہوگا تو آپ نے فرمایا کہ خلیفہ تو توہی بنے گا مگر جو کچھ میں کہتا ہوں وہ غور سے سن۔
” کوئی کام حضرت امام حسین کے مشورے کے بغیر مت کرنا، انہیں کھلائے بغیر نہ کھانا، انہیں پلائے بغیر نہ پینا، سب سے پہلے ان پر خرچ کرنا پھر کسی اور پر۔ پہلے انہیں پہنانا پھر خود پہننا۔ میں تجھے حضرت امام حسین اور ان کے گھر والوں اور ان کے کنبے بلکہ سارے بنی ہاشم کے لئے اچھے سلوک کی وصیت کرتا ہوں۔ 
اے بیٹے...!
خلافت میں ہمارا حق نہیں ۔
وہ امام حسین ان کے والد حضرت علی اور ان کے اہل بیت کا حق ہے۔ تم چند روز خلیفہ رہنا پھر حضرت امام حسین پورے کمال کو پہنچ جائیں گے تو پھر وہی خلیفہ ہوں گے یا جیسے وہ چاہیں تاکہ خلافت اپنی جگہ پہنچ جائے۔ ہم سب امام حسین اور ان کے ناناﷺکے غلام ہیں۔ انہیں ناراض نہ کرناور نہ تجھ پر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوں گے تو پھر تیری شفاعت کون کرے گا؟“
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

Post Top Ad

Your Ad Spot

Page List