Top Ad unit 728 × 90

✨📰 خاص مضامین 📰🏅

random

چھوڑ کر دل میں گئی وحشی ہوا کچھ بھی نہیں


چھوڑ کر دل میں گئی وحشی ہوا کچھ بھی نہیں
کس قدر گنجان جنگل تھا رہا کچھ بھی نہیں

خاک پائے یاد تک گیلی ہوا نے چاٹ لی
عشق کی غرقاب بستی میں بچا کچھ بھی نہیں

حال کے زنداں سے باہر کچھ نہیں جز رود مرگ
اور اس زنداں میں جز زنجیر پا کچھ بھی نہیں

ہجر کے کالے سمندر کا نہیں ساحل کوئی
موجۂ طوفان دہشت سے ورا کچھ بھی نہیں

آبنائے درد کے دونوں طرف ہے دشت خوف
اب تو چارہ جان دینے کے سوا کچھ بھی نہیں

ہاتھ میرا اے مری پرچھائیں تو ہی تھام لے
ایک مدت سے مجھے تو سوجھتا کچھ بھی نہیں

شہر شب میں کون سا گھر تھا نہ دی جس پر صدا
نیند کے اندھے مسافر کو ملا کچھ بھی نہیں

رات بھر اک چاپ سی پھرتی رہی چاروں طرف
جان لیوا خوف تھا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں

کاسۂ جاں ہاتھ میں لے کر گئے تھے ہم وہاں
لائے اس در سے بجز خون صدا کچھ بھی نہیں

عمر بھر عمر گریزاں سے نہ میری بن سکی
جو کرے کرتی رہے میں پوچھتا کچھ بھی نہیں

وہ بھی شاید رو پڑے ویران کاغذ دیکھ کر
میں نے اس کو آخری خط میں لکھا کچھ بھی نہیں

دولت تنہائی بھی آنے سے تیرے چھن گئی
اب تو میرے پاس اے جان وفا کچھ بھی نہیں

دل پہ لاکھوں لفظ کندہ کر گئی اس کی نظر
اور کہنے کو ابھی اس نے کہا کچھ بھی نہیں

شاعر: ظہور نظر


 

چھوڑ کر دل میں گئی وحشی ہوا کچھ بھی نہیں Reviewed by میاں محمد شاہد شریف on اکتوبر 07, 2024 Rating: 5

کوئی تبصرے نہیں:

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.