اکتوبر 2024
!حضرت محمد ﷺ ابراہیم جلیس ابن انشا ابن حبان ابو حمزہ عبدالخالق صدیقی ابوداؤد اپنے محبوب ﷺ کو پہچانئے احکامِ الصلوة احکام و مسائل احمد اشفاق احمد جمال پاشا احمد مشتاق اختر شیرانی اذکار و وظائف اردو ادب اردو کہانیاں ارشاد خان سکندر ارشد عبد الحمید اسلم انصاری اسلم راہی اسماء الحسنیٰﷻ اسماء المصطفیٰ ﷺ اصلاحی ویڈیو اظہر ادیب افتخار عارف افتخار فلک کاظمی اقبال ساجد اکاؤنٹنگ اکاؤنٹنگ اردو کورس اکاؤنٹنگ ویڈیو کورس اردو اکبر الہ آبادی الکا مشرا الومیناٹی امام ابو حنیفہ امجد اسلام امجد امۃ الحئی وفا ان پیج اردو انبیائے کرام انٹرنیٹ انجینئرنگ انفارمیشن ٹیکنالوجی انیس دہلوی اوبنٹو او ایس اور نیل بہتا رہا ایپل ایپلیکیشنز ایچ ٹی ایم ایل ایڈوب السٹریٹر ایڈوب فوٹو شاپ ایکسل ایم ایس ورڈ ایموجیز اینڈرائڈ ایوب رومانی آبرو شاہ مبارک آپ بیتی آج کی ایپ آج کی آئی ٹی ٹِپ آج کی بات آج کی تصویر آج کی ویڈیو آرٹیفیشل انٹیلیجنس آرٹیفیشل انٹیلیجنس کورس آسان ترجمہ قرآن آفتاب حسین آلوک شریواستو آؤٹ لُک آئی ٹی اردو کورس آئی ٹی مسائل کا حل باصر کاظمی باغ و بہار برین کمپیوٹر انٹرفیس بشیر الدین احمد دہلوی بشیر بدر بشیر فاروقی بلاگر بلوک چین اور کریپٹو بھارت چند کھنہ بھلے شاہ پائتھن پروٹون پروفیسر مولانا محمد یوسف خان پروگرامنگ پروین شاکر پطرس بخاری پندونصائح پوسٹ مارٹم پیر حبیب اللہ خان نقشبندی تاریخی واقعات تجربات تحقیق کے دریچے ترکی زبان سیکھیں ترمذی شریف تلوک چند محروم توحید تہذیب حافی تہنیت ٹپس و ٹرکس ثروت حسین جاوا اسکرپٹ جگر مراد آبادی جمادی الاول جمادی الثانی جہاد جیم جاذل چچا چھکن چودھری محمد علی ردولوی حاجی لق لق حالاتِ حاضرہ حج حذیفہ بن یمان حسرتؔ جے پوری حسرتؔ موہانی حسن بن صباح حسن بن صباح اور اسکی مصنوعی جنت حسن عابدی حسن نعیم حضرت ابراہیم  حضرت ابو ہریرہ حضرت ابوبکر صدیق حضرت اُم ایمن حضرت امام حسینؓ حضرت ثابت بن قیس حضرت دانیال حضرت سلیمان ؑ حضرت عثمانِ غنی حضرت عُزیر حضرت علی المرتضیٰ حضرت عمر فاروق حضرت عیسیٰ  حضرت معاویہ بن ابی سفیان حضرت موسیٰ  حضرت مہدیؓ حکیم منظور حماد حسن خان حمد و نعت حی علی الفلاح خالد بن ولید خالد عرفان خالد مبشر ختمِ نبوت خطبات الرشید خطباتِ فقیر خلاصۂ قرآن خلیفہ دوم خواب کی تعبیر خوارج داستان ایمان فروشوں کی داستانِ یارِ غار والمزار داغ دہلوی دجال درسِ حدیث درسِ قرآن ڈاکٹر عبدالحمید اطہر ندوی ڈاکٹر ماجد دیوبندی ڈاکٹر نذیر احمد ڈیزائننگ ذوالحجۃ ذوالقعدۃ راجیندر منچندا بانی راگھویندر دیویدی ربیع الاول ربیع الثانی رجب رزق کے دروازے رشید احمد صدیقی رمضان روزہ رؤف خیر زاہد شرجیل زکواۃ زید بن ثابت زینفورو ساغر خیامی سائبر سکیورٹی سائنس و ٹیکنالوجی سپلائی چین منیجمنٹ سچائی کی تلاش سراج لکھنوی سرشار صدیقی سرفراز شاہد سرور جمال سسٹم انجینئر سفرنامہ سلطان اختر سلطان محمود غزنوی سلیم احمد سلیم صدیقی سنن ابن ماجہ سنن البیہقی سنن نسائی سوال و جواب سورۃ الاسراء سورۃ الانبیاء سورۃ الکہف سورۃ الاعراف سورۃ ابراہیم سورۃ الاحزاب سورۃ الاخلاص سورۃ الاعلیٰ سورۃ الانشقاق سورۃ الانفال سورۃ الانفطار سورۃ البروج سورۃ البقرۃ سورۃ البلد سورۃ البینہ سورۃ التحریم سورۃ التغابن سورۃ التکاثر سورۃ التکویر سورۃ التین سورۃ الجاثیہ سورۃ الجمعہ سورۃ الجن سورۃ الحاقہ سورۃ الحج سورۃ الحجر سورۃ الحجرات سورۃ الحدید سورۃ الحشر سورۃ الدخان سورۃ الدہر سورۃ الذاریات سورۃ الرحمٰن سورۃ الرعد سورۃ الروم سورۃ الزخرف سورۃ الزلزال سورۃ الزمر سورۃ السجدۃ سورۃ الشعراء سورۃ الشمس سورۃ الشوریٰ سورۃ الصف سورۃ الضحیٰ سورۃ الطارق سورۃ الطلاق سورۃ الطور سورۃ العادیات سورۃ العصر سورۃ العلق سورۃ العنکبوت سورۃ الغاشیہ سورۃ الغافر سورۃ الفاتحہ سورۃ الفتح سورۃ الفجر سورۃ الفرقان سورۃ الفلق سورۃ الفیل سورۃ القارعہ سورۃ القدر سورۃ القصص سورۃ القلم سورۃ القمر سورۃ القیامہ سورۃ الکافرون سورۃ الکوثر سورۃ اللہب سورۃ اللیل سورۃ الم نشرح سورۃ الماعون سورۃ المآئدۃ سورۃ المجادلہ سورۃ المدثر سورۃ المرسلات سورۃ المزمل سورۃ المطففین سورۃ المعارج سورۃ الملک سورۃ الممتحنہ سورۃ المنافقون سورۃ المؤمنون سورۃ النازعات سورۃ الناس سورۃ النباء سورۃ النجم سورۃ النحل سورۃ النساء سورۃ النصر سورۃ النمل سورۃ النور سورۃ الواقعہ سورۃ الھمزہ سورۃ آل عمران سورۃ توبہ سورۃ سباء سورۃ ص سورۃ طٰہٰ سورۃ عبس سورۃ فاطر سورۃ فصلت سورۃ ق سورۃ قریش سورۃ لقمان سورۃ محمد سورۃ مریم سورۃ نوح سورۃ ہود سورۃ یوسف سورۃ یونس سورۃالانعام سورۃالصافات سورۃیٰس سورة الاحقاف سوشل میڈیا سی ایس ایس سی پلس پلس سید امتیاز علی تاج سیرت النبیﷺ شاہد احمد دہلوی شاہد کمال شجاع خاور شرح السنۃ شعب الایمان - بیہقی شعبان شعر و شاعری شفیق الرحمٰن شمشیر بے نیام شمیم حنفی شوال شوق بہرائچی شوکت تھانوی صادق حسین صدیقی صحابہ کرام صحت و تندرستی صحیح بُخاری صحیح مسلم صفر صلاح الدین ایوبی طارق بن زیاد طالب باغپتی طاہر چوھدری ظفر اقبال ظفرتابش ظہور نظر ظہیر کاشمیری عادل منصوری عارف شفیق عاصم واسطی عامر اشرف عبادات و معاملات عباس قمر عبد المالک عبداللہ فارانی عبید اللہ علیم عذرا پروین عرفان صدیقی عزم بہزاد عُشر عُشر کے احکام عطاء رفیع علامہ اقبال علامہ شبلی نعمانیؒ علی بابا عمر بن عبدالعزیز عمران جونانی عمرو بن العاص عنایت اللہ التمش عنبرین حسیب عنبر غالب ایاز غزہ فاتح اُندلس فاتح سندھ فاطمہ حسن فائر فاکس، فتنے فرحت عباس شاہ فرقت کاکوروی فری میسن فریدہ ساجد فلسطین فیض احمد فیض فینکس او ایس قتیل شفائی قربانی قربانی کے احکام قیامت قیوم نظر کاتب وحی کامٹیزیا ویڈیو ایڈیٹر کرشن چندر کرنل محمد خان کروم کشن لال خنداں دہلوی کلیم عاجز کنہیا لال کپور کوانٹم کمپیوٹنگ کورل ڈرا کوئز 1447 کوئز 2025 کیا آپ جانتے ہیں؟ کیف بھوپالی کیلیگرافی و خطاطی کینوا ڈیزائن کورس گوگل گیمز گینٹ چارٹس لائبریری لینکس متفرق مجاہد بن خلیل مجتبیٰ حسین محاورے اور ضرب الامثال محرم محسن اسرار محسن نقوی محشر بدایونی محمد بن قاسم محمد یونس بٹ محمدنجیب قاسمی محمود میاں نجمی مختصر تفسیر ِعتیق مخمور سعیدی مرادِ رسولِ کریم ﷺ مرزا غالبؔ مرزا فرحت اللہ بیگ مزاح و تفریح مستدرک حاکم مستنصر حسین تارڑ مسند احمد مشتاق احمد یوسفی مشکوٰۃ شریف مضمون و مکتوب معارف الحدیث معاشرت و طرزِ زندگی معتزلہ معرکہٴ حق و باطل مفتی ابولبابہ شاہ منصور مفتی رشید احمد مفتی سید مختار الدین شاہ مفتی شعیب عالم مفتی شفیق الدین الصلاح مفتی صداقت علی مفتی عتیق الرحمٰن شہید مفتی عرفان اللہ مفتی غلام مصطفیٰ رفیق مفتی مبین الرحمٰن مفتی محمد افضل مفتی محمد تقی عثمانی مفتی وسیم احمد قاسمی مقابل ہے آئینہ مکیش عالم منصور عمر منظر بھوپالی موبائل سوفٹویئر اور رپیئرنگ موضوع روایات مؤطا امام مالک مولانا اسلم شیخوپوری شہید مولانا اشرف علی تھانوی مولانا اعجاز احمد اعظمی مولانا پیر ذوالفقار احمد نقشبندی مولانا جہان یعقوب صدیقی مولانا حافظ عبدالودود شاہد مولانا عتیق الرحمٰن سنبھلیؔ مولانا محمد اعجاز مصطفیٰ مولانا محمد ظفر اقبال مولانا محمد علی جوہر مولانا محمدراشدشفیع مولانا مصلح الدین قاسمی مولانا نعمان نعیم مومن خان مومن مہندر کمار ثانی میاں شاہد میر امن دہلوی میر تقی میر مینا کماری ناز ناصر کاظمی نثار احمد فتحی ندا فاضلی نشور واحدی نماز وٹس ایپ وزیر آغا وکاس شرما راز ونڈوز ویب سائٹ ویڈیو ٹریننگ یاجوج و ماجوج یوسف ناظم یونس تحسین ITDarasgah ITDarasgah - Pakistani Urdu Family Forum for FREE IT Education ITDarasgah - Pakistani Urdu Forum for FREE IT Education ITDarasgah.com - Pakistani Urdu Forum for IT Education & Information ITDCFED ITDCPD ITDCWSE ITDCXA


 🌻 *نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے عاق کرنے کی شرعی حیثیت* 🌻


📿 *نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے عاق کرنے کی رسم:*
آجکل یہ صورتحال بڑی کثرت سے دیکھنے کو ملتی ہے کہ والد اپنی نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے عاق کردیتا ہے حتی کہ اخبارات میں بھی یہ عاق نامہ شائع کردیتا ہے کہ: ’’میں اپنے فلاں نافرمان بیٹے یا بیٹی کو نافرمانی کی وجہ سے اپنے مال وجائیداد سے عاق کررہا ہوں، اس لیے میرے مال وجائیداد اور میراث میں اس کا کوئی حق نہیں ہوگا اور نہ ہی اس کو کوئی حصہ ملے گا۔‘‘ پھر اس عاق کردہ اولاد کو میراث میں سے حصہ نہیں دیا جاتا اور نہ ہی اس کو میراث کے مطالبے کا حق دیا جاتا ہے۔ 
ذیل میں اس عاق نامہ کی شرعی حیثیت ذکر کی جاتی ہے تاکہ معلوم ہوجائے کہ شریعت کی نگاہوں میں یہ عاق کرنا معتبر  اور درست ہے بھی یا نہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:

📿 *نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے عاق کرنے کی شرعی حیثیت:*
واضح رہے کہ والد کا اپنی نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے عاق اور محروم کرنے کی دو صورتیں ہیں:

⬅️ *والد کا اپنی نافرمان اولاد کو اپنی موت کے بعد میراث سے محروم کرنا:*
والد کا اپنی نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے عاق اور محروم کرنے کی ایک عام اور رائج صورت یہ ہے کہ والد اپنی اولاد کو اپنے مال وجائیداد سے اس طور پر عاق کردیتا ہے کہ میری موت کے بعد میری فلاں اولاد کو میراث میں سے حصہ نہیں ملے گا، تو واضح رہے کہ والد کا اپنی اولاد میں سے کسی کو اپنی موت کے بعد میراث سے محروم کرنا شرعی اعتبار سے ہرگز معتبر اور درست نہیں،  جس کی وجوہات درج ذیل ہیں:
1⃣ شریعت نے میراث میں وارثوں کے حصے متعین کردیے ہیں، جو کہ ان کو ضرور ملیں گے، چاہے کوئی وارث نیک ہو یا بد، فرمان بردار ہو یا نا فرمان، اور چاہے مورِث اس پر راضی ہو یا نہ ہو؛ بہر صورت یہ وارثوں کا حق ہے۔ گویا کہ یہ معاملہ مورِث یعنی فوت ہونے والے شخص کے اختیار اور رضا کے بغیر جاری اور لاگو ہوتا ہے، اس لیے کسی بھی مورِث کو یہ اختیار حاصل نہیں کہ وہ کسی وارث کو اپنی طرف سے میراث سے محروم کردے یا اس  کے مقررہ حصے میں کمی بیشی کردے۔ اِلّا یہ کہ شریعت خود  ہی کسی وارث کی محرومی کا فیصلہ کردے تو وہ ایک الگ معاملہ ہے۔
2️⃣ قرآن وسنت اور شرعی دلائل کی روشنی میں حضرات فقہائے امت نے موانعِ اِرث یعنی وارث کو میراث سے محروم کردینے والے اسباب ووجوہات ذکر فرما دی ہیں، ان اسباب میں سے والدین کی نافرمانی کو کسی بھی فقیہ اور مجتہد نے میراث سے محروم کردینے والے اسباب میں سے ذکر نہیں فرمایا، اس لیے اولاد کے لیے والدین کی نافرمانی یقینًا بڑا گناہ ہے، لیکن اس بنا پر ایسی نافرمان اولاد میراث سے محروم نہیں ہوسکتی۔ 
اس تفصیل سے معلوم ہوا کہ والد اگر کسی بیٹے یا بیٹی کو میراث میں سے عاق کرتے ہوئے یہ وصیت کردے کہ اس کو میری موت کے بعد حصہ نہیں ملے گا تو یہ ہرگز معتبر نہیں، نہ تو یہ وصیت جائز ہے اور نہ ہی اس بنیاد پر کوئی وارث محروم ہوسکتا ہے، بلکہ اس بیٹے یا بیٹی کو بہر صورت میراث میں سے اس کا مقررہ حصہ ضرور ملے گا، اس لیے اس محروم کردہ بیٹے یا بیٹی کو اپنے حصے کے مطالبے کا حق حاصل ہے۔ اور دیگر وارثوں کے لیے بھی یہ جائز نہیں کہ وہ اس نافرمان بیٹے یا بیٹی کو اس کے حصے سے محروم کردے، کیوں کہ جب والد کی وصیّت شریعت کی نظر میں معتبر نہیں تو اولاد اور وارثوں کے لیے بھی اس ناجائز وصیت پر عمل کرنا جائز نہیں۔

⬅️ *والد کا اپنی زندگی میں اپنی نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے محروم کرنا:*
والد کا اپنی نافرمان اولاد کو اپنے مال وجائیداد سے عاق اور محروم کرنے کی دوسری صورت یہ بھی ہوتی ہے کہ والد اپنی زندگی اور صحت میں اپنی جائیداد وارثوں میں تقسیم کرکے یا کسی کارِ خیر میں صَرف کرکے اس میں سے اپنے نافرمان بیٹے یا بیٹی کو حصہ نہ دیتے ہوئے بالکل محروم کردیتا ہے۔ واضح رہے کہ شریعت میں اس طرح کرنے کی گنجائش ہے، کیوں کہ والد کو اپنی زندگی میں اپنے مال وجائیداد میں جائز تصرُّف کا مکمل حق حاصل ہوتا ہے، اس لیے اگر والد اپنی نافرمان اولاد کوان کی نافرمانی کی وجہ سے محروم کرتے ہوئے سارا مال کسی کارِ خیر میں صَرف کردیتا ہے یا دیگر وارثوں میں تقسیم کردیتا ہے تو یہ جائز ہے، یہ ایک جائز طریقہ ہے نافرمان اولاد کو مال وجائیداد سے محروم کرنے کا، خصوصًا جب یہ غالب گمان ہو کہ ایسی نافرمان اولاد اس مال کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کے کاموں میں صَرف کرے گی تو ایسی صورت میں تو یہی بہتر ہے کہ ایسی اولاد کو کچھ بھی حصہ نہ دیا جائے، تاکہ گناہ کے کاموں میں ان کے ساتھ تعاون کی صورت نہ بنے۔ 

❄️ *مسئلہ:*
ایسی صورت میں جب والد  اپنی زندگی میں اپنا سارا مال اپنی اولاد میں تقسیم کردے اور اپنی نافرمان اولاد کو محروم کردے اور موت کے وقت والد کی ملکیت میں کچھ بھی مال نہ ہو تو ظاہر ہے کہ جب میراث کا مال موجود ہی نہیں تو  اس محروم کی گئی اولاد کو بھی کچھ نہیں ملے گا، اسی طرح ان کو دیگر وارثوں کے مال میں سے اپنے حصے کے مطالبے کا حق بھی حاصل نہیں کیوں کہ دیگر وارثوں کے پاس جو مال ہے وہ تو والد نے اپنی زندگی اور صحت ہی میں ان کی ملکیت اور قبضے میں دے دیا تھا، اس لیے اب وہ والد کی میراث نہیں بلکہ وارثوں کا اپنا مال ہے۔

📿 *اولاد کو مال وجائیداد سے  محروم کرنے سے متعلق ایک توجہ طلب پہلو:*
والدین اپنے نافرمان بیٹے یا بیٹی کو نافرمانی کے نتیجے میں مال وجائیداد سے محروم کردیتے ہیں، یہ محروم کردینا بسا اوقات اس نافرمان اولاد کو مزید باغی بنادیتا ہے، جس کی وجہ سے وہ اولاد مزید ضدی ہوجاتی ہے جس کے بعد ان کی اصلاح کی امید ختم ہوتی چلی جاتی ہے، یا وہ غربت کے مارے در بدر پھر کر ٹھوکریں کھا رہے ہوتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کی حرکات والدین کے لیے مزید بدنامی کا باعث بن جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بعض اہلِ علم کی رائے کے مطابق بہتر یہ ہے کہ نافرمان اولاد کو بالکلیہ محروم نہیں کرنا چاہیے، بلکہ ان کے بنیادی اخراجات اور ضروریات کے بقدر کچھ حصہ دے دینا چاہیے، جس کے نتیجے میں عین ممکن ہے کہ وہ کچھ سوچنے پر مجبور ہوجائے اور اس کی اصلاح کی امید پیدا ہوسکے۔ اس لیے والدین کو یہ غور کرنا چاہیے کہ نافرمان اولاد کو عاق کرکے مال وجائیداد سے بالکلیہ محروم کردینا مفید ہے یا نقصان دہ؟؟
یہاں یہ بات بھی نظر انداز نہیں کی جاسکتی کہ بسا اوقات اولاد کی نافرمانی کی بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ والدین نے ان کی درست تربیت نہیں کی ہوتی یا والدین کسی ظلم ونا انصافی کے مرتکب ہوتے ہیں، ایسے میں سارا قصور وار اولاد ہی کو کیوں ٹھہرایا جاسکتا ہے؟؟ یہ بہت ہی اہم پہلو ہے جس پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرنے کی ضرورت ہو۔ 

▪ زیرِ بحث مسئلہ کی تفصیل کے لیے امداد الفتاویٰ، فتاویٰ محمودیہ اور احسن الفتاویٰ سمیت درج ذیل فتاویٰ وفقہی عبارات دیکھیے۔

📚 *فتاویٰ جات وفقہی عبارات*
1⃣ *دار الافتاء دار العلوم دیوبند:*
’’بیٹے کو عاق کرنے سے وہ عاق نہیں ہوتا۔ آپ کی وفات کے بعد وہ اپنے شرعی حصہ کا حق دار ہوگا۔ آج آپ کا بیٹا نافرمان ہے کل کو وہ سُدھر بھی سکتا ہے اور نیک بھی بن سکتا ہے۔ آپ محروم کردیں گے تو وہ آپ کے مرنے کے بعد ویران ٹھوکریں کھاتا پھرے گا، اس میں آپ کی بدنامی ہوگی۔ اس لیے آپ اس کو اس کا حصہ دے کر علیحدہ کردیجیے اور سب بچوں کو ان کے حصے دے کر انھیں مالک بنا دیجیے۔ آپ دنیا میں بھی نیک نام رہیں گے اور آخرت میں بھی، آپ کی روح کو راحت ملے گی۔‘‘ (جواب نمبر: 37249)

2️⃣ *دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن:*
’’واضح رہے کہ عاق  کرنے  کے معنی نافرمان قرار دینا ہے، جس کی میراث سے محرومی کےحوالے سے شرعًا کوئی حیثیت نہیں ہے، یعنی اپنی اولاد میں سے کسی کو  اپنی جائیداد سے عاق کرناجائز نہیں ہے اور نہ ہی شرعًا اس کی کوئی حیثیت ہے، پس والد کا  اپنی اولا د میں سے کسی کو عاق کرنے سے وہ عاق (نافرمان ہونے کی وجہ سے) میراث سے محروم نہیں ہوگا، بلکہ وہ بدستور اس  کی اولاد میں شامل رہے گا اور والد کی موت کے بعد اس کے ترکہ میں اپنے شرعی حصہ کا حق دار ہوگا، البتہ اگر واقعتًا وہ والد  کا نافرمان ہو تو کبیرہ گناہ  کا مرتکب ہے، جس پر عنداللہ  اس کا مواخذہ ہوگا، بشرطیکہ والد کی زندگی میں ہی معافی تلافی نہ کی ہو۔
☀ مشكاة المصابيح میں ہے:
عَنْ أَنَسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ ﷺ: «مَنْ قَطَعَ مِيرَاثَ وَارِثِهِ قَطَعَ اللهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ»، رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ. (1/266، باب الوصایا، ط: قدیمی)
☀ تکملۃ رد المحتار لمحمد علاء الدین میں ہے: 
الإرث جبري لا يسقط بالإسقاط ... إلخ (کتاب الدعوی باب التحالف فصل في دفع الدعاوی، ج:۷، ص:۵۰۵، ط: سعید)
☀ امداد الفتاوی میں ہے:
الجواب: عاق دو معنی میں مستعمل ہے: ایک معنی شرعی،  دوسرے عرفی، شرعی معنی تو یہ ہیں کہ اولاد والدین کی نافرمانی کرے، سو اس معنی کی تحقیق میں تو کسی کے کرنے نہ کرنے کو دخل نہیں، جو والدین کی بے حکمی کرے وہ عند اللہ عاق ہوگا، اور اس کا اثر فقط یہ ہے کہ خدا کے نزدیک عاصی ومرتکب گناہ کبیرہ کا ہوگا، باقی حرمانِ میراث اس پر مرتب نہیں ہوتا۔ دوسرے معنی عرفی یہ ہیں کہ کوئی شخص اپنی اولاد کو بوجہ ناراضی بے حق ومحروم الاِرث کردے، سو یہ امر شرعًا بے اصل ہے، اس سے اس کا حقِ اِرث باطل نہیں ہوسکتا، کیوں کہ وراثت ملکِ اضطراری وحقِ شرعی ہے، بلا قصدِ مورث ووارث اس کا ثبوت ہوتا ہے۔ قال اللہ تعالى: «یُوْصِیْکُمُ اللّٰهُ فِيْ اَوْلَادِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ» الآیة. اور لام استحقاق کے لیے ہے، پس جب اللہ تعالیٰ نے حقِ وراثت مقرر فرمادیا اس کو کون باطل کرسکتا ہے؟ اور نیز قصّہ حضرت بریرہؓ کا شاہد اس کا ہے کہ حضرت عائشہؓ نے اُن کو خرید کر آزاد کرنے کا ارادہ کیا تھا، اس کے موالی نے شرط کی کہ ولاء ہماری رہے گی، اس پر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: ’’ان کی شرط باطل ہے، اور ولاء معتق کی ہے۔ كما روى النسائي: عن عائشة: أنھا أرادت أن تشتري بریرة للعتق وأنھم اشترطوا ولاءھا، فذكرت ذلك لرسول اللّٰه ﷺ فقال رسول اللّٰهﷺ: «اشتریھا وأعتقیھا؛ فإنّ الولاء لمن أعتق»، الحدیث. جب ولاء کہ حقِ ضعیف ہے، چنانچہ حسبِ فرمودۂ پاک: «الولاء لحمة كلحمة النسب»، الحدیث. ضعف اس کا کافِ تشبیہ سے ظاہر ہے، وہ نفی کرنے سے نفی نہیں ہوتا، پس حقِ نسب کہ اقویٰ ہے کیوں کر نفی کو قبول کر سکتاہے؟ پھر جب واضح ہوا کہ اس معنی کا شرعًا کچھ ثبوت نہیں تو اس سے رجوع کی کچھ حاجت و ضرورت نہیں، بعد مرگِ پدر اس کا وارث ہوگا۔ البتہ محروم الاِرث کرنے کا طریق یہ ممکن ہے کہ اپنی حالتِ حیات وصحت میں اپنا کل اثاثہ کسی کو ہبہ یا مصارفِ خیر میں وقف کرکے اپنی ملک سے خارج کردے، اس وقت اس کا بیٹا کسی چیز کا مالک نہیں ہوسکتا، كما في العالمگیریة: لو كان ولدہ فاسقًا وأراد أن یصرف ماله إلى وجوہ الخیر ویحرمه عن المیراث هذا خیر من تركه، كذا في الخلاصة.ج:۳، ص:۶۵.(امداد الفتاوی، کتاب الفرائض، جلد چہارم، ص: 365، ط: مکتبہ دارالعلوم کراچی) فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔‘‘ (فتویٰ نمبر :144201200464، تاریخِ اجرا: 29-08-2020)

3️⃣ *دار الافتاء جامعۃ العلوم الاسلامیۃ بنوری ٹاؤن:*
’’عاق نامے کی شرعی کوئی حیثیت نہیں اس سے کوئی شخص میراث سے محروم نہیں ہوسکتا، لہٰذا اس سے ڈرانا دھمکانا بھی بے فائدہ ہے۔‘‘ (فتویٰ نمبر :143101200651، تاریخِ اجرا: 01-01-2010)

4⃣ *تبیین الحقائق:*
وَهَذَا الْعِلْمُ مُخْتَصٌّ بِحَالَةِ الْمَمَاتِ وَغَيْرُهُ بِالْحَيَاةِ أو بِاعْتِبَارِ أَسْبَابِ الْمِلْكِ فَإِنَّهَا جَبْرِيَّةٌ أو اخْتِيَارِيَّةٌ فَالْأَوَّلُ الْمِيرَاثُ، وَالثَّانِي غَيْرُهُ من أَسْبَابِ الْمِلْكِ. (كتاب الفرائض)

5️⃣ *رد المحتار:*
الملك: ما من شأنه أن يتصرف فيه بوصف الاختصاص كما في «التلويح». (كتاب البيوع)

6️⃣ *فتاوى ہندیہ:*
وَلَوْ وَهَبَ رَجُلٌ شيئا لِأَوْلَادِهِ في الصِّحَّةِ وَأَرَادَ تَفْضِيلَ الْبَعْضِ على الْبَعْضِ في ذلك لَا رِوَايَةَ لِهَذَا في الْأَصْلِ عن أَصْحَابِنَا، وَرُوِيَ عن أبي حَنِيفَةَ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ إذَا كان التَّفْضِيلُ لِزِيَادَةِ فَضْلٍ له في الدِّينِ، وَإِنْ كَانَا سَوَاءً يُكْرَهُ، وَرَوَى الْمُعَلَّى عن أبي يُوسُفَ رَحِمَهُ اللهُ تَعَالَى أَنَّهُ لَا بَأْسَ بِهِ إذَا لم يَقْصِدْ بِهِ الْإِضْرَارَ، وَإِنْ قَصَدَ بِهِ الْإِضْرَارَ سَوَّى بَيْنَهُمْ: يُعْطِي الِابْنَةَ مِثْلَ ما يُعْطِي لِلِابْنِ، وَعَلَيْهِ الْفَتْوَى، هَكَذَا في «فَتَاوَى قَاضِي خَانْ»، وهو الْمُخْتَارُ كَذَا في «الظَّهِيرِيَّةِ». رَجُلٌ وَهَبَ في صِحَّتِهِ كُلَّ الْمَالِ لِلْوَلَدِ جَازَ في الْقَضَاءِ، وَيَكُونُ آثِمًا فِيمَا صَنَعَ كَذَا في «فَتَاوَى قَاضِي خَانْ»، وَإِنْ كان في وَلَدِهِ فَاسِقٌ لَا يَنْبَغِي أَنْ يُعْطِيَهُ أَكْثَرَ من قُوتِهِ كَيْ لَا يَصِيرَ مُعِينًا له في الْمَعْصِيَةِ كَذَا في «خِزَانَةِ الْمُفْتِينَ»، وَلَوْ كان وَلَدُهُ فَاسِقًا وَأَرَادَ أَنْ يَصْرِفَ مَالَهُ إلَى وُجُوهِ الْخَيْرِ وَيُحْرِمَهُ عن الْمِيرَاثِ هذا خَيْرٌ من تَرْكِهِ كَذَا في «الْخُلَاصَةِ»، وَلَوْ كان الْوَلَدُ مُشْتَغِلًا بِالْعِلْمِ لَا بِالْكَسْبِ فَلَا بَأْسَ بِأَنْ يُفَضِّلَهُ على غَيْرِهِ كَذَا في «الْمُلْتَقَطِ». 
(كِتَابُ الْهِبَةِ، الْبَابُ السَّادِسُ في الْهِبَةِ لِلصَّغِيرِ)

7️⃣ *البحر الرائق:*
وفي «الْخُلَاصَةِ»: الْمُخْتَارُ التَّسْوِيَةُ بين الذَّكَرِ وَالْأُنْثَى في الْهِبَةِ، وَلَوْ كان وَلَدُهُ فَاسِقًا فَأَرَادَ أَنْ يَصْرِفَ مَالَهُ إلَى وُجُوهِ الْخَيْرِ وَيَحْرِمَهُ عن الْمِيرَاثِ هذا خَيْرٌ من تَرْكِهِ؛ لِأَنَّ فيه إعَانَةً على الْمَعْصِيَةِ، وَلَوْ كان وَلَدُهُ فَاسِقًا لَا يعطى له أَكْثَرَ من قُوتِهِ. (كتاب الهبة)

❄️ *فائدہ:*
زندگی میں جائیداد کی تقسیم سے متعلق اسی سلسلہ اصلاحِ اَغلاط کا سلسلہ نمبر 16: ’’زندگی میں تقسیمِ جائیداد سے متعلق بنیادی احکام‘‘ ملاحظہ فرمائیں۔

✍🏻۔۔۔ مفتی مبین الرحمٰن صاحب مدظلہ
فاضل جامعہ دار العلوم کراچی
محلہ بلال مسجد نیو حاجی کیمپ سلطان آباد کراچی



دنیا جسے کہتے ہیں جادو کا کھلونا ہے
مل جائے تو مٹی ہے کھو جائے تو سونا ہے

اچھا سا کوئی موسم تنہا سا کوئی عالم
ہر وقت کا رونا تو بے کار کا رونا ہے

برسات کا بادل تو دیوانہ ہے کیا جانے
کس راہ سے بچنا ہے کس چھت کو بھگونا ہے

یہ وقت جو تیرا ہے یہ وقت جو میرا ہے
ہر گام پہ پہرا ہے پھر بھی اسے کھونا ہے

غم ہو کہ خوشی دونوں کچھ دور کے ساتھی ہیں
پھر رستہ ہی رستہ ہے ہنسنا ہے نہ رونا ہے

آوارہ مزاجی نے پھیلا دیا آنگن کو
آکاش کی چادر ہے دھرتی کا بچھونا ہے

کلام: ندا فاضلی


 


 شادی کے بعد دنیا کی دوسری عورتیں خوبصورت کیوں لگتی ہیں


ایک شخص ایک تجربہ کار عالم دین سے اپنا مسئلہ دریافت کرتے ہوئے کہنے لگا:
شروع شروع میں جب میری بیوی مجھے پسند آئی تھی تو اس وقت وہ میری نگاہ میں ایسی تھی جیسے اللہ تعالی نے اس دنیا کے اندر اس جیسا کسی کو بنایا ہی نہیں۔

اور جب میں نے اسے شادی کا پیغام دیا تو اس وقت میری نگاہ میں اس جیسی کئی ساری لڑکیاں تھیں۔

پھر جب میں نے اس سے شادی کر لی تو اس وقت اس سے زیادہ خوبصورت خوبصورت کئی لڑکیاں میری نظر سے گزریں۔ 

شادی کے چند سال گزرنے کے بعد مجھے ایسا لگنے لگا کہ دنیا کی تمام عورتیں میری بیوی سے زیادہ خوبصورت ہیں۔

شیخ نے کہا: کیا میں تمہیں اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب چیز نہ بتاؤں؟ 
اس آدمی نے جواب دیا: ہاں کیوں نہیں!
حضرت نے کہا:  اگر تم دنیا کی ساری  عورتوں سے  شادی کر لو پھر بھی تمہیں ایسا لگے گا  کہ گلی کوچوں میں پھرنے والے آوارہ کتے دنیا کی تمام عورتوں سے زیادہ  خوبصورت ہیں۔ 

آدمی ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہنے لگا: حضرت! آپ ایسا کیوں کہہ رہے ہیں؟ 
*حضرت نے جواب دیا: اصل پریشانی تمہاری بیوی میں نہیں بلکہ اصل پریشانی یہ ہے کہ جب انسان  کا دل لالچی ہو جائے، اس کی نگاہیں ادھر ادھر بھٹکنے لگیں اور انسان شرم و حیا سے عاری ہو جائے تو قبر کی مٹی کے سوا اور کوئی بھی چیز اس کی آنکھوں کو نہیں بھر سکتی۔*

سنو! تمہاری پریشانی یہ ہے کہ تم نگاہیں نیچے نہیں رکھ سکتے۔
کیا تم اپنی بیوی کو دوبارہ دنیا کی سب سے زیادہ خوبصورت عورت بنانا چاہتے ہو؟  
اس آدمی نے جواب دیا: جی ہاں!
حضرت نے کہا: *پھر تم اپنی نگاہیں نیچی رکھو۔


لہسن کا استعمال کولیسٹرول اور بلڈ شوگر کو قابو میں رکھنے کے لیے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔

چینی سائنس دانوں کی ایک ٹیم نے ماضی میں لہسن کے خون میں موجود گلوکوز اور لِپڈ (چکنائی) کے میٹابولزم پر پڑنے والے اثرات پر کیے جانے والے متعدد مطالعوں کا جائزہ لیا۔

محققین نے تحقیق کے لیے 29 ٹرائلز سے ڈیٹا حاصل کیا تاکہ یہ دیکھا جا سکے کہ لہسن کولیسٹرول، بلڈ شوگر، ہیموگلوبین اے 1 سی (ایچ بی اے 1 سی) اور ٹرائیگلیسرائیڈ پر اثرات انداز ہوتا ہے۔
ان کیفیات کی نگرانی کرنے کا ایک طریقہ خون کی سطح کو دیکھنا ہے۔ معمول کے چیک کے دوران خون کے ٹیست میں عموماً مریضوں کا کولیسٹرول، فاسٹنگ بلڈ گلوکوز (8 سے 12 گھنٹوں کے بعد جسم میں گلوکوز کی قمدار)، ایچ بی اے 1 سی اور ٹرائیگلیسرائیڈ کو دیکھا جا تا ہے۔

ان معائنوں کے نتائج کی مدد سے معالجین اس بات تک پہنچتےہیں کہ آیا مریض ذیابیطس یا بلند کولیسٹرول جیسی کیفیات لاحق ہونے کے قریب ہے یا نہیں۔

تازہ ترین تحقیق میں محققین نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا لہسن چکنائی اور بلڈ گلوکوز کی سطح پر اثرات مرتب کرسکتا ہے۔

تجزیے میں لہسن کے استعمال اور مختلف استحالی اشاروں کے درمیان بہتری کے متعلق اہم تعلق کا انکشاف ہوا۔

لہسن کے سپلیمنٹس کے سبب فاسٹنگ گلوکوز، ایچ بی اے 1 سی، مجموعی کولیسٹرول اور مضر کولیسٹرول کی مقدار میں کمی دیکھی گئی۔

مزید برآں لہسن کے استعمال سے مفید کولیسٹرول کی مقدار میں اضافہ دیکھا گیا۔ 


  ஜ۩۞۩ஜ-د҉ر҉س҉ِ҉-҉ح҉د҉ی҉ث҉-ஜ۩۞۩ஜ


أَخْبَرَنَا سُوَيْدُ بْنُ نَصْرٍ أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ أَخْبَرَنَا أَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ عَنْ أَبِي زُرْعَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ أُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِلَحْمٍ فَرُفِعَ إِلَيْهِ الذِّرَاعُ فَأَكَلَهُ وَكَانَتْ تُعْجِبُهُ فَنَهَسَ مِنْهَا نَهْسَةً ثُمَّ قَالَ أَنَا سَيِّدُ النَّاسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ هَلْ تَدْرُونَ لِمَ ذَاكَ يَجْمَعُ اللَّهُ النَّاسَ الْأَوَّلِينَ وَالْآخِرِينَ فِي صَعِيدٍ وَاحِدٍ فَيُسْمِعُهُمْ الدَّاعِي وَيَنْفُذُهُمْ الْبَصَرُ وَتَدْنُو الشَّمْسُ مِنْهُمْ فَبَلَغَ النَّاسُ مِنْ الْغَمِّ وَالْكَرْبِ مَا لَا يُطِيقُونَ وَلَا يَحْتَمِلُونَ فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ أَلَا تَرَوْنَ مَا قَدْ بَلَغَكُمْ أَلَا تَنْظُرُونَ مَنْ يَشْفَعُ لَكُمْ إِلَى رَبِّكُمْ فَيَقُولُ النَّاسُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَلَيْكُمْ بِآدَمَ فَيَأْتُونَ آدَمَ فَيَقُولُونَ أَنْتَ أَبُو الْبَشَرِ خَلَقَكَ اللَّهُ بِيَدِهِ وَنَفَخَ فِيكَ مِنْ رُوحِهِ وَأَمَرَ الْمَلَائِكَةَ فَسَجَدُوا لَكَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ لَهُمْ آدَمُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنَّهُ قَدْ نَهَانِي عَنْ الشَّجَرَةِ فَعَصَيْتُ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى نُوحٍ فَيَأْتُونَ نُوحًا فَيَقُولُونَ يَا نُوحُ أَنْتَ أَوَّلُ الرُّسُلِ إِلَى أَهْلِ الْأَرْضِ وَقَدْ سَمَّاكَ اللَّهُ عَبْدًا شَكُورًا اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى إِلَى مَا نَحْنُ فِيهِ أَلَا تَرَى مَا قَدْ بَلَغَنَا فَيَقُولُ لَهُمْ نُوحٌ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنَّهُ قَدْ كَانَ لِي دَعْوَةٌ دَعَوْتُهَا عَلَى قَوْمِي نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى إِبْرَاهِيمَ فَيَأْتُونَ إِبْرَاهِيمَ فَيَقُولُونَ يَا إِبْرَاهِيمُ أَنْتَ نَبِيُّ اللَّهِ وَخَلِيلُهُ مِنْ أَهْلِ الْأَرْضِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنِّي قَدْ كَذَبْتُ ثَلَاثَ كَذِبَاتٍ فَذَكَرَهُنَّ أَبُو حَيَّانَ فِي الْحَدِيثِ نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُوسَى فَيَأْتُونَ مُوسَى فَيَقُولُونَ يَا مُوسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ فَضَّلَكَ اللَّهُ بِرِسَالَتِهِ وَبِكَلَامِهِ عَلَى الْبَشَرِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَإِنِّي قَدْ قَتَلْتُ نَفْسًا لَمْ أُومَرْ بِقَتْلِهَا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى عِيسَى فَيَأْتُونَ عِيسَى فَيَقُولُونَ يَا عِيسَى أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَكَلِمَتُهُ أَلْقَاهَا إِلَى مَرْيَمَ وَرُوحٌ مِنْهُ وَكَلَّمْتَ النَّاسَ فِي الْمَهْدِ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَيَقُولُ عِيسَى إِنَّ رَبِّي قَدْ غَضِبَ الْيَوْمَ غَضَبًا لَمْ يَغْضَبْ قَبْلَهُ مِثْلَهُ وَلَنْ يَغْضَبَ بَعْدَهُ مِثْلَهُ وَلَمْ يَذْكُرْ ذَنْبًا نَفْسِي نَفْسِي نَفْسِي اذْهَبُوا إِلَى غَيْرِي اذْهَبُوا إِلَى مُحَمَّدٍ قَالَ فَيَأْتُونَ مُحَمَّدًا فَيَقُولُونَ يَا مُحَمَّدُ أَنْتَ رَسُولُ اللَّهِ وَخَاتَمُ الْأَنْبِيَاءِ وَقَدْ غُفِرَ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ اشْفَعْ لَنَا إِلَى رَبِّكَ أَلَا تَرَى مَا نَحْنُ فِيهِ فَأَنْطَلِقُ فَآتِي تَحْتَ الْعَرْشِ فَأَخِرُّ سَاجِدًا لِرَبِّي ثُمَّ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيَّ مِنْ مَحَامِدِهِ وَحُسْنِ الثَّنَاءِ عَلَيْهِ شَيْئًا لَمْ يَفْتَحْهُ عَلَى أَحَدٍ قَبْلِي ثُمَّ يُقَالَ يَا مُحَمَّدُ ارْفَعْ رَأْسَكَ سَلْ تُعْطَهْ وَاشْفَعْ تُشَفَّعْ فَأَرْفَعُ رَأْسِي فَأَقُولُ يَا رَبِّ أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي يَا رَبِّ أُمَّتِي فَيَقُولُ يَا مُحَمَّدُ أَدْخِلْ مِنْ أُمَّتِكَ مَنْ لَا حِسَابَ عَلَيْهِ مِنْ الْبَابِ الْأَيْمَنِ مِنْ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ وَهُمْ شُرَكَاءُ النَّاسِ فِيمَا سِوَى ذَلِكَ مِنْ الْأَبْوَابِ ثُمَّ قَالَ وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ مَا بَيْنَ الْمِصْرَاعَيْنِ مِنْ مَصَارِيعِ الْجَنَّةِ كَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَهَجَرَ وَكَمَا بَيْنَ مَكَّةَ وَبُصْرَى وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي بَكْرٍ الصِّدِّيقِ وَأَنَسٍ وَعُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ وَأَبِي سَعِيدٍ قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ وَأَبُو حَيَّانَ التَّيْمِيُّ اسْمُهُ يَحْيَى بْنُ سَعِيدِ بْنِ حَيَّانَ كُوفِيٌّ وَهُوَ ثِقَةٌ وَأَبُو زُرْعَةَ بْنُ عَمْرِو بْنِ جَرِيرٍ اسْمُهُ هَرِمٌ

ترجمہ : ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا ، اس میں سے آپ کو دست کاگوشت دیاگیا جوکہ آپ کو بہت پسند تھا، اسے آپ نے نوچ نوچ کرکھایا، پھر فرمایا:' قیامت کے دن میں لوگوں کا سردار رہوں گا، کیاتم لوگوں کو اس کی وجہ معلوم ہے؟ وہ اس لیے کہ اس دن اللہ تعالیٰ ایک ہموار کشادہ زمین پر اگلے پچھلے تمام لوگوں کو جمع کرے گا، جنہیں ایک پکارنے والا آواز دے گا اور انہیں ہرنگاہ والادیکھ سکے گا ، سورج ان سے بالکل قریب ہوگا جس سے لوگوں کا غم وکرب اس قدر بڑھ جائے گا جس کی نہ وہ طاقت رکھیں گے اور نہ ہی اسے برداشت کرسکیں گے، لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے: کیا نہیں دیکھتے کہ تمہاری مصیبت کہاں تک پہنچ گئی ہے، ایسے شخص کو کیوں نہیں دیکھتے جو تمہارے رب سے تمہارے لیے شفاعت کرے، تو بعض لوگ بعض سے کہیں گے کہ آدم علیہ السلام کے پاس چلیں، لہذا لوگ آدم علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے کہ آپ ابوالبشر ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا ،آپ کے اندر اپنی روح پھونکی ، فرشتوں کو حکم دیا جنہوں نے آپ کا سجدہ کیا، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے۔ کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے؟ آدم علیہ السلام ان سے کہیں گے کہ آج میرا رب ایساغضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، یقینا اس نے مجھے ایک درخت سے منع فرمایا تھا ، لیکن میں نے اس کی نافرمانی کی، آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسا نفسی کا عالم ہے، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، نوح کے پا س جاؤ، چنانچہ وہ لوگ نوح علیہ السلام کے پاس آکرعرض کریں گے، اے نوح! آپ زمین والوں کی طرف بھیجے گئے ،پہلے رسول تھے، اللہ نے آپ کو شکر گزار بندہ کہا ہے، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے ، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں کہ ہمیں کتنی مصیبت لاحق ہے، نوح علیہ السلام ان لوگوں سے فرمائیں گے کہ آج میرارب ایسا غضبناک ہے کہ نہ تو اس سے پہلے ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، میرے لیے ایک مقبول دعا تھی جسے میں نے اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے استعمال کرلیا، اور آج میری ذات کا معاملہ ہے،نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، ابراہیم علیہ السلام کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ ابراہیم علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے: اے ابراہیم ! آپ زمین والوں میں سے اللہ کے نبی اور اس کے خلیل (یعنی گہرے دوست) ہیں، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، اور میں دنیا کے اندر تین جھوٹ بول چکاہوں( ابو حیان نے اپنی روایت میں ان تینوں جھوٹ کا ذکر کیا ہے) آج میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ، موسیٰ کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ موسیٰ علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے کہ اے موسیٰ! آپ اللہ کے رسول ہیں، اللہ نے آپ کو اپنی رسالت اور اپنے کلام کے ذریعے تمام لوگوں پر فضیلت عطا کی ہے، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے، کیاآپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں؟ وہ فرمائیں گے کہ آج کے دن میرا رب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ توایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، دنیا کے اندر میں نے ایک شخص کو مارڈا لا تھا جسے مارنے کا مجھے حکم نہیں دیاگیا تھا ، آج مجھے اپنی جان کی فکر ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اورکے پاس جاؤ، عیسیٰ کے پاس جاؤ، چنانچہ وہ لوگ عیسیٰ علیہ السلام کے پاس آکر عرض کریں گے :اے عیسیٰ !آپ اللہ کے رسول ، اور اس کا کلمہ ہیں جسے اس نے مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا آپ اللہ کی روح ہیں، آپ نے لوگوں سے گودہی میں کلام کیا، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کردیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں۔ عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: آج کے دن میرارب اتنا غضبناک ہے کہ اس سے پہلے نہ تو ایسا غصہ ہوا اور نہ کبھی ایسا غصہ ہوگا، اور انہوں نے اپنی کسی غلطی کا ذکر نہیں کیا اور کہاکہ آج تو میری ذات کا معاملہ ہے، نفسی نفسی نفسی، تم لوگ کسی اور کے پاس جاؤ ، محمد ﷺ کے پاس جاؤ ، ابوہریرہ کہتے ہیں: چنانچہ وہ لوگ محمدﷺ کے پاس آکر عرض کریں گے: اے محمد! آپ اللہ کے رسول اور اس کے آخری نبی ہیں، آپ کے اگلے اور پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے گئے ہیں، لہذا آپ ہمارے لیے اپنے رب سے شفاعت کیجئے، کیا آپ ہماری حالت زار کو نہیں دیکھ رہے ہیں، ( آگے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:) پھر میں چل پڑوں گا اور عرش کے نیچے آکر اپنے رب کی تعظیم کے لیے سجدے میں گرجاؤں گا، پھر اللہ تعالیٰ میرے اوپر اپنے محامد اور حسن ثناء کو اس قدر کھول دے گا کہ مجھ سے پہلے اتناکسی پر نہیں کھولا ہوگا، پھر مجھ سے کہاجائے گا کہ اے محمد! اپنے سرکو اٹھاؤ اور سوال کرو، اسے پورا کیاجائے گا، اور شفاعت کرو، تمہاری شفاعت قبول کی جائے گی، چنانچہ میں اپنا سر اٹھاؤں گا اور کہوں گا: اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات وفلاح مانگتاہوں ، اے میرے رب میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتاہوں ، اے میرے رب! میں اپنی امت کی نجات و فلاح مانگتاہوں، اللہ تعالیٰ فرمائے گا: اے محمد ! اپنی امت میں سے ان لوگوں کو جنت کے دروازوں میں سے داہنے دروازے سے داخل کرلیں، جن پر کوئی حساب وکتاب نہیں ہے ،اور یہ سب (امت محمد) دیگر دروازوں میں بھی (داخل ہونے میں) اور لوگوں کے ساتھ شریک ہوں گے، پھر آپﷺ نے فرمایا:' قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! جنت کے پٹوں میں سے دوپٹ کے درمیان کافاصلہ اتنا ہی ہے جتنا کہ مکہ اورہجر یا مکہ اور بصری کے درمیان فاصلہ ہے ' ۱؎ ۔
امام ترمذی کہتے ہیں:۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے ،۲- اس باب میں ابوبکر صدیق ، انس، عقبہ بن عامر اور ابوسعید خدری رضی اللہ عنہم سے احادیث آئی ہیں۔



جامع  ترمذی حدیث نمبر: 2434

کتاب: احوال قیامت ،رقت قلب اورورع کے بیان میں

قیامت کے دن کی شفاعت کابیان​

حکم: صحيح

 

🌹 بسْمِ ﷲِالرَّحْمن الرَّحِيم 🌹 

احکام_الصلوة    ━━❰・ پوسٹ نمبر 20 ・❱━━━

   خشک ناپاک زمین پر نماز پڑھنا
    اگر ناپاک زمین خشک ہوجائے اور اس پر نجاست کا اثر اور بدبو ظاہر نہ ہو تو اس پر نماز پڑھنا جائز ہے البتہ اس جگہ سے تیمم کرنا جائز نہیں۔

  ناپاک زمین پر کپڑا یا چٹائی بچھاکر نماز پڑھنا
    اگر ناپاک زمین پر ایسا موٹا کپڑا یا پلاسٹک یا چٹائی وغیرہ بچھاکر نماز پڑھی جائے ، جس سے نجاست اوپر معلوم نہ ہو تو نماز درست ہوجائے گی۔

📚حوالہ:
▪الدرالمختار مع ردالمحتار 1/444
▪الفتاوی الھندیہ 1/62
▪کبیری 202
▪کتاب المسائل 1/267
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
▒▓█ مَجْلِسُ الْفَتَاویٰ █▓▒

مرتب:✍  
مفتی عرفان اللہ درویش ھنگو عفی عنہ 
 ━━━━━━━❪❂❫━━━━━━


کچھ دنوں قبل عربی زبان کی  ایک مختصر مگر چشم کشا  ویڈیو دیکھی۔ افادہ عامہ کے لئے اسکا ترجمہ واحساس معاشرے کے حوالے ہے کیونکہ یہ بیشتر گھروں کا المیہ ہے  ۔
وہ ایک عمر رسیدہ شخص بستر مرگ سے لگا زندگی کی آخری سانس لے رہا تھا ۔ اسکی  اولاد نے  ہر ممکن خدمات و ادوایات  کا بند بست کروا رکھا تھا ۔۔۔۔۔مگر وقت نہیں  دے رہے تھے ۔۔۔۔۔۔عمر کی اس منزل پر وہ گڑگڑا کر اپنی اولاد سے وقت کا تقاضہ کررہا تھا کہ بس میرے پاس بیٹھ جاؤ  ۔۔ممکن ہے ان ادویات کی ضرورت نہ پیش آئے !
اسکی اولاد   جو ہمیشہ سے اسکے روپے سے نالاں تھے جواب دیا۔۔۔۔۔  بیس پچیس سال پیچھے مڑ کر دیکھئے جب ہم بچے تھے ، ہم نے اور ماں نے آپ سے ہر ممکنہ وقت کا تقاضہ  کیا تھا ۔۔۔مگر نہیں۔۔۔۔۔۔  پیسہ۔۔۔ پیسہ۔۔۔۔ اور پیسہ ۔۔۔کمائی۔۔۔۔۔۔اور اسکے بعد  سارا کا سارا وقت ٹی وی پھر  موبائل کے لئے مختص تھا ۔۔۔۔۔۔۔آپ کو کیا لگتا تھا کہ پیسے  سے آپ  رشتے خرید لیں  گے ؟؟؟
لہذا آج جب آپ  بستر مرگ پر ہیں ۔۔۔ہم بھی صرف پیسے ہی  لگائیں  گے ۔
وقت نہیں  دے سکتے ۔۔۔۔اور یہ سبق آپ  نے ہی ہمیں سکھایا ہے ‼️
(کہانی ختم )
==========================================
سچ کہا ہے کسی نے" الحب لا يشترى إلا بالحب " 
محبت ،  محبت سے ہی خریدی جاسکتی ہے ۔
اور اسکی تائید قرآن کی اس آیت سے ہوتی ہے۔
"لَو أنْفَقْتَ مَا فِي الاَرضِ جَمِيعاً مَا ألَّفْتَ بين قُلُوبِهَمْ "
اگر زمین  بھر کر بھی مال خرچ کردوگے تو بھی انکے دلوں میں الفت نہیں  ڈال سکتے ۔

لہذا اپنی کمائی ، وقت ،  اور رشتوں کو منظم کر کے چلانا سیکھیں  ورنہ اسکے بہت منفی اثرات  گھروں پر مرتب  ہونگے ! 


 🏡☠️🌈 حسن بن صباح اوراسکی مصنوعی جنت ⛔قسط نمبر اُنیس⛔🌈☠️🏡

الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻میاں شاہد︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
خیر و شر کی ازلی کشمکش : تاریخِ انسانی  و اسلامی کا ایک عظیم فتنہ
✍🏻 طاہر چوھدری
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
حسن بن صباح تو بھیس بدل کر نکل گیا، لیکن وہ لڑکی جسے وہ اپنے ساتھ مرو لے گیا تھا اور سب کو بتایا کہ یہ اس کی بہن ہے اور اس کا نام فاطمہ رکھا تھا وہ ایک بڑے ہی بے رحم شکنجے میں آگئی تھی ،سلطان ملک شاہ نے اسے بھی حسن بن صباح کے ساتھ اپنے دارالسلطنت سے نکال دیا تھا، حسن بن صباح تو وہاں وزیراعظم بننے گیا تھا اور اس لڑکی کو اس نے اس مقصد کے لئے استعمال کیا تھا لیکن اسی لڑکی کی زبان نے اس کا وزیر اعظم بننے کا خواب چکنا چور کردیا۔
اس لڑکی کا اصل نام شمونہ تھا، احمد بن عطاش کے آدمیوں نے ایک قافلے کو لوٹا تھا اور دیگر مال و دولت کے ساتھ چند ایک لڑکیوں کو بھی پکڑ لائے تھے، جن میں تین چار گیارہ سے چودہ سال عمر تک کی تھیں۔ انہیں شاہ در لے آئے تھے ،جہاں انہیں شہزادیوں کی طرح رکھا گیا اور انہیں اپنے مذموم مقاصد کے مطابق تربیت دی گئی تھی، انہیں بڑی محنت سے یہ تربیت دی گئی تھی کہ جس آدمی سے کام نکلوانا ہو اس کے لئے کس طرح ایک بڑا ھی حسین سراب بنا جاتا ہے، انھیں ذہن نشین کرایا گیا تھا کہ اپنے جسموں کو کس طرح بچا کر رکھنا اور اپنے جال میں پھنسے ہوئے آدمی پر نشہ بن کر طاری ہو جانا ہے۔
شمونہ انہیں لڑکیوں میں سے تھی وہ بارہ تیرہ سال کی عمر میں قافلے سے اغوا ہوئی تھی، اب اس کی عمر بیس سال سے تجاوز کر گئی تھی، اس نے کامیابی سے سلطان ملک شاہ کے مشیر خاص احتشام مدنی کو مسحور کر لیا تھا ،یہ اس کا پہلا شکار تھا، وہ اس معزز اور باوقار شخصیت پر طلسم ہوش روبا بن کر طاری ہوگئی اور اپنا دامن بھی بچا کے رکھا تھا ،لیکن حسن بن صباح نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ نازک اندام لڑکی ہے، ایک جابر سلطان کو انگلیوں پر نچا سکتی ہے، مگر یہی انگلیاں جابر سلطان کے شکنجے میں آگئیں تو یہ ایک لمحے کے لئے بھی برداشت نہیں کرے گی اور تمام راز اگل دے گی۔
حسن بن صباح اتنا کچا آدمی نہیں تھا کہ اسے یہ احساس بھی نہ ہوتا کہ کمزور سی لڑکی ایذارسانی برداشت نہیں کرے گی، وہ بے رحم انسان تھا اس کے جذبات اتنے نازک اور رومانی نہیں تھے کہ کسی کو اذیت میں دیکھ کر اس کے دل میں ہمدردی پیدا ہوتی، اس نے شمونہ جیسی ہر لڑکی کو اور اپنے گروہ کے تمام آدمیوں کو بتا رکھا تھا کہ اپنی جان دے دینا راز نہ دینا ،اگر راز دے کر آؤ گے تو اس کے عوض تمہاری جان لے لی جائے گی، 
حسن بن صباح نے شمونہ کی جان اپنے ہاتھوں میں لے لی تھی، لیکن اسے مہلت نہ ملی، امیر شہر ابومسلم رازی کے حکم سے کوتوالی کے آدمیوں نے چھاپہ مارا اگر اسے پہلے اطلاع نہ مل چکی ہوتی تو وہ گرفتار ہو جاتا ،وہ بروقت فرار ہوگیا تھا لیکن شمونہ کی قسمت کا فیصلہ سنا گیا تھا۔
اس بدبخت  لڑکی نے تھوڑا سا نقصان نہیں پہنچایا۔۔۔ اس نے فرار سے کچھ دیر پہلے اپنے دو خاص مصاحبوں سے کہا تھا۔۔۔ اسے خلجان پہنچا دینا میں وہاں پہنچ چکا ہونگا، اسے میں تمام لڑکیوں کے سامنے ایسی سزائے موت دوں گا جو ان لڑکیوں کے لئے باعث عبرت ہو گی، لڑکیوں کو بتاؤں گا کہ اس کا جرم کیا ہے ،اسے ابھی کسی گھر میں قید میں رکھو، پانچ دنوں بعد اسے یہاں سے نکالنا ،ابھی کوتوال کے جاسوس میرے گھر کے ارد گرد گھوم پھر رہے ہونگے,,,,,,,, اگر یہ لڑکی اپنا حوصلہ ذرا مضبوط رکھتی تو میں وزیراعظم بن جاتا۔
شمونہ کو انہیں آدمیوں میں ایک کے گھر رکھا گیا، اور اسے کہا گیا کہ وہ باہر نہ نکلے اور چھت پر بھی نہ جائے، اسے وجہ یہ بتائی گئی کہ امیر شہر نے اس کی اور حسن بن صباح کی گرفتاری کا حکم دے رکھا ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شمونہ کو ذرا سا بھی شبہ نہ ہوا کہ اس کی زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں، وہ اپنے آپ کو اس گھر میں مہمان سمجھنے لگی، اس کے ساتھ بڑے ہی معزز مہمانوں جیسا سلوک روا رکھا گیا ،اور اسے الگ کمرہ دیا گیا، اسے معلوم نہیں تھا کہ وہ اس کمرے کی قیدی اور دو دنوں کی مہمان ہے۔
اس گھر میں ایک آدمی اور اس کی دو بیویاں تھیں، اور ایک ادھیڑ عمر نوکرانی تھی، شام کے کھانے کے بعد شمونہ اپنے کمرے میں چلی گئی ،گھر کا آدمی ایک بیوی کو ساتھ لے کر اپنے کمرے میں چلا گیا ،کچھ دیر بعد دوسری بیوی شمونہ کے کمرے میں چلی گئی ،اس نے پوچھا کہ مرو میں کیا ہوا تھا ،،،،،،شمونہ نے اسے سارا واقعہ سنا دیا۔
 کیا تمہارے آقا نے تمہیں معاف کر دیا ہے؟،،،،،، عورت نے پوچھا۔
میں کچھ نہیں کہہ سکتی۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ یہ بتا سکتی ہوں کہ اس نے مرو سے یہاں تک میرے ساتھ کوئی بات نہیں کی، صرف ایک بار اس نے کہا تھا کہ تم نے میرا ہی نہیں اپنی جماعت کا مستقبل تباہ کر دیا ہے،،،،،، میں نے اسے پہلے بھی کہا تھا کہ ایک بار پھر کہا کہ میں مجبور ہوگئی تھی،،،،،، اس نے اپنے ایک ہاتھ کی انگلیاں دکھا کر کہا ،،،،،یہ دیکھو نشان، یہ انگلیاں لوہے کے شکنجے میں جکڑ دی گئی تھیں، اور شکنجا آہستہ آہستہ بند کیا جا رہا تھا ،میری انگلیوں کی ہڈیاں چٹخنے اور پھر ٹوٹنے لگی تھیں، شکنجے کو اور زیادہ کسا جا رہا تھا اور مجھ پر غشی طاری ہو رہی تھی۔
اب میری سن لڑکی!،،،، عورت نے کہا۔۔۔ آگے مت سنا ،میں تیرے درد کو اپنے دل میں محسوس کرتی ہوں،،،،، تو اپنے ماں باپ کے پاس کیوں نہیں جاتی؟ 
کہاں ہیں وہ؟،،،، شمونہ نے کہا۔۔۔ کون ہیں وہ ،،،مجھے یاد نہیں خواب کی طرح یاد ہے کہ ایک قافلہ جا رہا تھا اسے ڈاکوؤں نے روک کر لوٹ لیا تھا ،میرے ماں باپ شاید مارے گئے تھے وہ مجھے یاد نہیں آتے، یاد آئیں بھی تو مجھے ان کی جدائی کا ذرا سا بھی افسوس نہیں ہوتا ،ان سے جدا ہوئے صدیاں تو نہیں گزری چھ سات سال ہی گزرے ہیں، مجھے ڈاکو اپنے ساتھ لے آئے تھے۔
تجھے معلوم نہیں ۔۔۔عورت نے کہا ۔۔۔تجھے ایسی چیز پلائی اور کھلائی جاتی رہی ہے کہ تیرے دماغ سے خون کے رشتے دھل گئے ہیں، اور میں جانتی ہوں تیری تربیت کس پیار سے ان لوگوں نے کی ہے، تو نہیں جانتی
 یہ حسن بن صباح اور احمد بن عطاش کا وہ طریقہ کار تھا جسے آج کی صدی میں برین واشنگ کا نام دیا گیا ہے ۔
تم اتنی دلچسپی سے یہ باتیں کیوں پوچھ رہی ہو؟،،،،، شمونہ نے پوچھا ۔۔۔کیا تمہیں مجھ سے ہمدردی ہے؟ 
ہاں لڑکی!،،،، عورت نے کہا ۔۔۔مجھے تجھ سے ہمدردی ہے ،میرا خاوند انہی لوگوں میں سے ہے، یہ لوگ میری چھوٹی بہن کو ورغلا کر لے گئے ہیں، وہ بہت حسین لڑکی ہے میں اسے اس جال سے نہیں نکال سکتی، تجھے نکال سکتی ہوں، لیکن تو اب ان لوگوں کے نہیں بلکہ موت کے جال میں آ گئی ہے ۔
موت کے جال میں ؟
ہاں لڑکی !،،،،عورت نے کہا۔۔۔ تیری زندگی چار نہیں تو پانچ دن رہ گئی ہے۔
یہ کیسے ؟
حسن بن صباح کسی کو معاف نہیں کیا کرتا۔۔۔ عورت نے کہا۔۔۔ میں جانتی ہوں تو نے کس مجبوری کے تحت راز مرو کے کوتوال کو دے دیا تھا، لیکن یہ لوگ کہتے ہیں کہ تجھے اپنی جان دے دینی چاہیے تھی راز نہ دیتی، حسن بن صباح  کہہ گیا ہے کہ تجھے خلجان پہنچا دیا جائے، حسن بن صباح وہاں پہنچ جائے گا ،پھر تمہیں تم جیسی لڑکیوں کے سامنے بڑے ہی اذیت ناک طریقے سے قتل کیا جائے گا تاکہ لڑکیوں کو عبرت حاصل ہو۔
 شمونہ کو غشی آنے لگی۔
میں ابھی مرنا نہیں چاہتی ۔۔۔شمونہ نے کانپتی ہوئی آواز میں کہا۔
 اور چاہتی میں بھی یہی ہوں کہ تو زندہ رہے۔۔۔ عورت نے کہا ۔۔۔اگر میری یہ خواہش نہ ہوتی تو میں تمہارے پاس آتی ہی نہ ۔
لیکن میں کروں کیا ؟،،،،شمونہ نے پوچھا ۔۔۔کہاں جا پناہ لوں۔
 میں تمہیں یہاں سے نکال سکتی ہو۔
کیا تم اس کی کچھ اجرت لوگی؟ 
نہیں !،،،،،،عورت نے جواب دیا ۔۔۔میرے لئے یہی اجرت بڑی کافی ہوگی کہ تو یہاں سے نکل جائے اور زندہ رہے، مجھ سے کچھ اور نہ پوچھنا نہ کسی کو یہ بتانا کہ میں نے تمہیں یہاں سے نکالا ہے، صرف اتنا بتا دیتی ہوں کے تجھے دیکھ کر مجھے اپنی بہن یاد آگئی ہے، تو معصوم لڑکی ہے خدا کرے تو کسی گھر میں آباد ہو جائے ۔
مجھے نکال تو دوگی؟،،،، شمونہ نے پوچھا۔۔۔ میں جاؤنگی کہاں؟ 
 رات ابھی زیادہ نہیں گزری۔۔۔ عورت نے کہا۔۔۔ میں تجھے راستہ بتا دوں گی، یہ راستہ تجھے امیر شہر ابومسلم رازی کے گھر پہنچا دے گا ،دروازے پر دستک دینا دربان روکے تو کہنا کہ میں مظلوم لڑکی ہوں اور امیر شہر کے آگے فریاد کرنے آئی ہوں، تجھے کوئی نہیں روکے گا ،امیر شہر خدا کا نیک بندہ ہے، وہ تجھے فوراً اندر بلا لے گا،  اسے ہر بات صحیح صحیح بتادینا اور یہ مت کہنا کہ میں نے تجھے یہاں سے نکالا ہے ،یہ کہنا کہ تو خود یہاں سے بھاگی ہے ۔
پھر وہ کیا کرے گا؟ 
وہ جو کچھ بھی کرے گا تیرے لیے اچھا ہی کرے گا ۔۔۔۔عورت نے کہا۔۔۔ ہو سکتا ہے وہ تجھے کسی نیک آدمی کے سپرد کردے، میں تجھے میلی سی ایک چادر دیتی ہوں اس میں اپنے آپ کو ڈھانپ لینا ،کوئی آدمی آگے آ جائے تو ڈر نہ جانا ،پوری دلیری سے چلتی جانا تو ہوشیار لڑکی ہے ،تجھے تربیت بھی ایسی ہی دی گئی ہے، اس کے مطابق اپنی عقل استعمال کرنا سب ٹھیک ہو جائے گا،،،،،، اٹھو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اس عورت کا خاوند دوسرے کمرے میں گہری نیند سو گیا تھا ،یہ لوگ شراب اور حشیش کے عادی تھے، ان میں نشے کی عادت حسن بن صباح نے پیدا کی تھی، اس اتنی بڑی حویلی کا مالک اپنی ایک جواں سال بیوی کو ساتھ لیے نشے میں بدمست حقیقی دنیا سے بے خبر سو گیا تھا۔
اسی حویلی کے ایک کمرے میں اس کی پرانی بیوی شمونہ کو چادر میں لپیٹ کر حویلی کی ڈیوڑھی میں لے گئی تھی، شمونہ کو اس نے امیر شہر کے گھر کا راستہ سمجھا دیا تھا اس نے شمونہ سے یہ بھی کہا تھا کہ وہ راستے سے بھٹک جائے تو کسی سے پوچھ لے، اس نے شمونہ کو یقین دلایا تھا کہ ابو مسلم رازی سے لوگ اتنے ڈرتے ہیں کہ اکیلی دکیلی عورت پر کوئی ہاتھ نہیں اٹھا سکتا۔
اس نے شمونہ کو حویلی سے نکال دیا ،شمونہ گلی کا موڑ مڑ گئی تو اس عورت نے حویلی کا دروازہ بند کیا اور اپنے کمرے میں جا کر سو گئی، وہ مسرور اور مطمئن تھی کہ اس نے ایک نوخیز لڑکی کو گناہوں کی بڑی ہی خطرناک دنیا سے نکال دیا تھا، شمونہ امیر شہر ابومسلم رازی کے گھر تک پہنچ گئی، باہر دو دربان کھڑے تھے انہوں نے اسے روکا اور پوچھا کہ وہ کون ہے اور کیوں آئی ہے؟ 
 مجھے فوراً امیر شہر تک پہنچا دو ۔۔۔شمونہ نے بڑی پختہ آواز میں کہا ۔۔۔دیر نہ لگانا ورنہ پچھتاؤ گے۔
 آخر بات کیا ہے ؟،،،،ایک دربان نے پوچھا۔
انہیں اتنا ہی کہہ دو کہ ایک مظلوم لڑکی کہیں سے بھاگ کر آئی ہے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ اور یہ بھی کہنا کہ وہ راز کی ایک بات بتائے گی۔
تاریخ بتاتی ہے کہ ابو مسلم پکا مرد مومن تھا، اسلام کے وہی نظریات اور عقیدے جو رسول اکرم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم اپنی امت کو دے گئے تھے، ان کی پاسبانی ابومسلم رازی کی زندگی کا بہت بڑا نصب العین تھا ،جس وقت شہر نیند کی آغوش میں مدہوش ہو گیا تھا اس وقت رازی دین کی ایک کتاب کھولے ہوئے مطالعہ میں مصروف تھا۔
دربان نے اس کے کمرے کے دروازے پر ہلکی سی دستک دی، دربان کو ایسا ڈر نہیں تھا کہ امیر شہر خفا ہو گا اور اسے ڈانٹ دے گا کہ رات کے اس وقت اسے نہیں آنا چاہیے تھا، اس نے حکم نامہ جاری کر رکھا تھا کہ کوئی مظلوم شخص رات کے کسی بھی وقت اسے ملنے آئے تو اسے جگا لیا جائے، اس رات دربان کی دستک پر اس نے دربان کو اندر بلایا دربان سے اس نے صرف یہ الفاظ سنے کہ ایک لڑکی آئی ہے تو اس نے کہا کہ اسے فوراً اندر بھیج دو۔
چند لمحوں بعد ایک بڑی ہی حسین اور پرکشش جسم والی نوخیز لڑکی اس کے سامنے کھڑی تھی ،ابو مسلم رازی نے اسے بٹھایا ۔
کیا ظلم ہوا ہے تجھ پر جو تو اس وقت میرے پاس آئی ہے؟،،،،، ابو مسلم رازی نے پوچھا۔
 بات ذرا لمبی ہے ۔۔۔شمونہ نے کہا۔۔۔ کیا امیر شہر کے دل میں اتنا درد ہے کہ اتنی لمبی بات سنے گا؟ 
ہاں لڑکی!،،،،، ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔ ہم دونوں کے درمیان اللہ کی ذات موجود ہے، میں اللہ کے ہاتھ میں پابند اور مجبور ہوں کہ اللہ کے ہر اس بندے کی پوری بات سنوں جس پر ظلم کیا گیا ہے، تم بولو میں سنوں گا،،،،،،،،،،، امیر شہر نہیں سنے گا تو وہ اللہ کو کیا جواب دے گا۔
مجھے ڈاکوؤں نے تین چار سال پہلے ایک قافلے کو لوٹتے ہوئے میرے ماں باپ سے چھینا اور مجھے اغوا کرکے لے گئے تھے۔۔۔ شمونہ نے کہا۔۔۔ مجھ پر کوئی ظلم نہیں ہوا تشدد نہیں ہوا زیادتی نہیں ہوئی، ظلم یہ ہوا کہ مجھے یاد ہی نہیں رہا کہ میرے ماں باپ کون تھے ،میں اغوا کے وقت دودھ پیتی بچی تو نہ تھی مجھے اغوا کرنے والوں نے ایسی خوبصورت فضا دی اور ایسے شہانہ ماحول میں میری تربیت کی کہ میں شہزادی بن گئی، لیکن یہ تربیت ویسی نہیں تھی جیسی بچوں کو دی جاتی ہے ،میری ذات میں ابلیسی اوصاف پیدا کیے گئے، ایسا نہیں ہوا کہ میرے آقا میرے جسم کے ساتھ کھیلتے رہتے اور مجھے ہوس کاری کے لیے استعمال کرتے، بلکہ انہوں نے تربیت یہ دی کہ اپنے جسم کو مردوں سے کس طرح بچا کر رکھنا ہے۔
کون ہے وہ؟،،،، ابومسلم رازی نے پوچھا ۔۔۔کہاں ہے وہ ؟
کیا آپ نے حسن بن صباح کا نام نہیں سنا؟،،،، شمونہ نے کہا ۔۔۔میں اس کے ساتھ سلطان ملک شاہ کے زیر سایہ رہ چکی ہوں ۔
وہ گیا کہاں؟،،،،،، ابو مسلم رازی نے پوچھا۔
یہ میں نہیں بتا سکتی ۔۔۔شمونہ نے جواب دیا۔۔۔ میں اپنے متعلق سب کچھ بتا سکتی ہوں۔
شمونہ نے ابومسلم رازی کو تفصیل سے بتایا کہ وہ کس طرح اغوا ہوئی تھی اور پھر اسے پہلے شاہ در پھر خلجان لےجاکر کس طرح کی تربیت دی گئی تھی، یہ بھی بتایا کہ اس جیسی اور لڑکیوں کو بھی اسی قسم کی تربیت دی جاتی ہے، پھر اس نے بتایا کہ وہ حسن بن صباح کے ساتھ مرو گئی تو وہاں اسے حسن نے کس طرح استعمال کیا تھا۔
 ابو مسلم رازی گہری سوچ میں کھو گیا، کچھ دیر بعد اس نے سوچ سے بیدار ہو کر شمونہ سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتی ہے؟ 
سب سے پہلے تو میں پناہ چاہتی ہوں ۔۔۔شمونہ نے کہا ۔۔۔اگر آپ نے مجھے پناہ نہ دی تو یہ لوگ مجھے قتل کردیں گے۔
 تم میری پناہ میں ہو لڑکی!،،،، ابو مسلم رازی نے کہا۔
میں اپنی ذات میں بہت بڑا خطرہ محسوس کر رہی ہوں۔۔۔شمونہ نے کہا۔۔۔ میرے اندر میرے دل اور میرے دماغ میں ابلیسیت کے سوا کچھ بھی نہیں، میں آپ کو صاف الفاظ میں بتا دیتی ہوں کہ میں ایک ناگن ہوں، اور ڈسنا میری سرشت ہے ،کہیں ایسا نہ ہو کہ میں آپ کو ہی ڈس لوں، میں انسان کے روپ میں آنا چاہتی ہوں، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے میری ذات میں کوئی انسانی جذبات ہے ہی نہیں ،کیا آپ ایسا بندوبست کر سکتے ہیں کہ میری ایسی تربیت ہو جائے جس سے میں انسانوں کے روپ میں آ جاؤں؟ 
 کیوں نہیں ہو سکتا ہے ۔۔۔ابو مسلم رازی نے کہا ۔۔۔میں فوری طور پر کسی بھلے آدمی کے ساتھ تمہاری شادی کرا دوں گا۔
 نہیں!،،،،، شمونہ نے تڑپ کر کہا۔۔۔ کسی بھلے آدمی پر یہ ظلم نہ کرنا ،میں ابھی کسی کی بیوی بننے کے قابل نہیں، بیوی وفادار ہوتی ہے، لیکن میں فریب کاری کے سوا کچھ بھی نہیں جانتی، مجھے پہلے انسان بنائیں۔
 تم آج رات آرام کرو۔۔۔ ابو مسلم رازی نے کہا۔۔۔ میں کل تمہارا کچھ بندوبست کر دوں گا۔
 ابو مسلم رازی نے شمونہ کو زنان خانے میں بھجوا دیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
 اس شہر کے مضافات میں ایک آدمی رہتا تھا جو مذہب میں ڈوبا ہوا تھا ،اور تقریباً تارک الدنیا تھا، اس کی عمر تقریباً چالیس برس ہو گئی تھی، اس کے متعلق مشہور تھا کہ اس نے شادی نہیں کی تھی اور یہ بھی مشہور تھا کہ وہ عورت کے وجود کو پسند ہی نہیں کرتا تھا ،معلوم نہیں کس عمر میں اس کے دل میں مذہب سے لگاؤ پیدا ہوا تھا ،وہ زیادہ تر عبادت اور کتابوں میں مگن رہتا تھا۔
 اس کے متعلق یہ بھی مشہور تھا کہ وہ کئی فرقے بدل چکا ہے، اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ صحیح عقیدے کی تلاش میں بھٹک رہا تھا۔ اس وقت تک مسلمان بہتر فرقوں میں بٹ چکے تھے، اور یہ شخص ان بہتر فرقوں میں بھٹک رہا تھا ،اب لوگ کہتے تھے کہ وہ سنی عقیدے کو قبول کر چکا ہے، لیکن یقین کے ساتھ کہنا مشکل تھا کہ وہ کس عقیدے کو قبول کئے ہوئے ہے۔
 وہ علم روحانیت میں بھی سر کھپاتا رہتا تھا۔ بعض لوگ کہتے تھے کہ وہ راتوں کو جاگتا ہے اور جنات کو حاضر کر لیتا ہے، بہرحال لوگوں کے لئے وہ پراسرار سی شخصیت بنا ہوا تھا۔ اس کے معتقد اس کے پاس جاتے رہتے اور وہ انہیں درس دیا کرتا تھا، وہ زیادہ تر زور اس پر دیتا تھا کہ عورت ایک حسین فریب ہے اور عورت گناہوں کی علامت ہے۔
 ابومسلم رازی اس بزرگ سے بہت متاثر تھا، اس کا نام نوراللہ تھا، ابو مسلم رازی اکثر اس کے یہاں جاتا تھا ،شمونہ نے جب ابو مسلم رازی سے یہ کہا کہ وہ بھٹکی ہوئی ایک لڑکی ہے، اور جب تک دینی تربیت کے ذریعے اس کی ذات سے ابلیسیت نہیں نکالی جاتی اس وقت تک وہ کسی کی بیوی نہیں بنے گی، رازی کو نوراللہ یاد آیا تھا۔
اگلے روز کا سورج ابھی طلوع ہوا ہی تھا کہ ابو مسلم رازی نے شمونہ کو بلوایا، شمونہ آئی تو وہاں ایک ادھیڑ عمر آدمی بیٹھا تھا ،اس کی داڑھی ابھی بالکل سیاہ تھی ،چہرے پر نور، سر پر سبز دستار، اور اس نے سبز رنگ کا چغہ زیب تن کر رکھا تھا، اس کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک تھی ،اس کے ہاتھ میں تسبیح تھی۔
 امیر شہر ابومسلم رازی نے اسے فجر کی نماز کے کچھ دیر بعد بلوا لیا تھا، اور اسے بتایا تھا کہ باطنیہ فرقے کی ایک لڑکی اس کے پاس آئی ہے، جو خود محسوس کرتی ہے کہ اس کے وجود میں ابلیس حلول کر آیا ہے، ابو مسلم رازی نے نوراللہ کو شمونہ کے متعلق تمام تر باتیں بتائی تھیں جو نوراللہ انہماک سے سنتا رہا تھا ،لیکن ابو مسلم نے جب یہ کہا کہ اس لڑکی کی تربیت کرنی ہے تو نوراللہ پریشان اور بے چین ہو گیا۔
 کیا میں کچھ دیر کے لئے اس کے پاس آیا کروں گا ؟،،،،نور اللہ نے پوچھا۔
 نہیں !،،،،ابومسلم رازی نے کہا۔۔۔۔یہ لڑکی ایک امانت کے طور پر آپ کے حوالے کر رہا ہوں، یہ ہر وقت آپ کے زیر سایہ اور زیر تربیت رہے گی۔
 میرے متعلق شاید آپ ایک بات نہیں جانتے۔۔۔ نوراللہ نے کہا۔۔۔ میں آج تک عورت کے سائے سے بھی دور رہا ہوں، اور میں نے شادی بھی نہیں کی، آپ اس لڑکی کو میرے حوالے کرنے کی بجائے اپنے پاس رکھیں میں ہر روز یہاں آ جایا کروں گا۔
 میں آپ کا احترام کرتا ہوں!،،،،، ابومسلم رازی نے کہا ۔۔۔اس احترام کی وجہ یہ ہے کہ آپ مذہب کے رنگ میں رنگے ہوئے انسان ہیں، اور آپ کو اپنے نفس پر پورا پورا قابو حاصل ہوگا ،میں نہیں سمجھ سکتا کہ آپ کس بنا پر عورت کے وجود سے گھبراتے ہیں ،میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ ایک اور باطنی فرقہ بن چکا ہے جو لڑکیوں کو اپنی تبلیغ اور تشہیر کے لیے استعمال کر رہا ہے، میں حکومت کی سطح پر اس کے انسداد کا کچھ بندوبست ضرور کروں گا ،لیکن میں نے اس کے ساتھ ہی یہ بھی سوچا ہے کہ اس لڑکی جیسی گمراہ کی ہوئی لڑکیوں کو آپ جیسے عالموں کے حوالے کر کے ان کی صحیح تربیت کی جائے، آپ اس لڑکی سے بسم اللہ کریں اور اسے اپنے ساتھ لے جائیں ۔
یہ حکم حاکم کا تھا جس کے آگے نوراللہ بول نہ سکا ،ابومسلم رازی نے شمونہ کو بلایا اور اسے کہا کہ وہ کچھ دن نوراللہ کے ساتھ رہے گی۔
 تم نے وہاں مہمان بن کے نہیں رہنا ۔۔۔ابومسلم رازی نے شمونہ سے کہا ۔۔۔کھانا پکانا ،گھر میں جھاڑو دینا، اپنے اور ان کے کپڑے دھونا ،اور گھر کے دیگر کام تم نے کرنے ہیں ،تم ان کی بیوی نہیں ہوگی بلکہ نوکرانی ہوگی، اور تم ان کی خدمت کرو گی جب تم خود کہو گی کہ تمہاری ذات سے ابلیسی اثرات دھل گئے ہیں تو کسی کے ساتھ تمہاری شادی کر دی جائے گی ۔
ابومسلم رازی نے نوراللہ سے کہا کہ وہ لڑکی کو ساتھ لے جائے۔
نوراللہ اسے ساتھ لے گیا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اپنے ہاں لے جا کر نور اللہ نے شمونہ سے پوچھا کہ یہ کیا معاملہ ہے کہ وہ سمجھتی ہے کہ اس کی ذات میں شیطان حلول کر آیا ہے، یا یہ کہ اس پر شیطان غالب ہے، شمونہ نے اسے اپنی زندگی کی اس وقت تک کی روداد سنا ڈالی ۔
اپنا من مار ڈالو۔۔۔ نوراللہ نے کہا۔
 یہ کیسے ہوگا؟ 
اپنے آپ کو مٹی میں ملا دو،،،،،، نوراللہ نے کہا ۔۔۔۔یہ بھول جاؤ کہ تمہارا رہن سہن شہزادیوں جیسا رہا تھا ،اس گھر میں جھاڑو دو، میں نے یہیں چھوٹی سی مسجد بنا رکھی ہے، اسے صاف ستھرا رکھو دھیان ہر وقت اللہ کی ذات پر رکھو اور اپنے دماغ میں اس حقیقت کو بٹھا لو کہ تم نے ایک نہ ایک دن اس مٹی میں مل کر مٹی ہو جانا ہے، اپنی نفسانی خواہشات کو اور سفلی جذبات کو کچل ڈالو۔
اس طرح نور اللہ نے اس کی تعلیم و تربیت شروع کر دی، نور اللہ کے یہاں جب اس کے معتقد اور مرید آتے تھے اس وقت شمونہ کمرے میں چلی جاتی تھی، رات کو سونے سے پہلے نوراللہ شمونہ کو اپنے سامنے بٹھاتا اور اسے مذہب کے سبق دیتا تھا، اس کے بعد وہ شمونہ کو الگ کمرے میں بھیج کر اسے کہتا کہ اندر سے دروازہ بند کر لے، صبح اذان کے وقت وہ شمونہ کے دروازے پر دستک دیتا اور اسے جگا کر نماز پڑھاتا تھا۔
دن گزرتے چلے گئے نور اللہ نے محسوس کیا کہ اس کے دل میں عورت کی جو نا پسندیدگی یا نفرت تھی وہ کم ہوتی جارہی ہے، شمونہ نے محسوس کیا کہ اس کے استاد کا رویہ تبدیل ہوتا جا رہا ہے، اس رویے میں کچھ ایسا تاثر تھا جیسے نور اللہ نے اسے قبول کر لیا ہو۔
ایک روز شمونہ گھر کے سارے کاموں سے فارغ ہوکر ایسی تھکان سی محسوس کرنے لگی جیسے اسے نیند آ رہی ہو، وہ لیٹ گئی، نوراللہ کہیں باہر چلا گیا تھا وہ آیا تو شمونہ کو نہ دیکھ کر اس کے کمرے کے دروازے میں جا کھڑا ہوا ،شمونہ بڑی گہری نیند سوئی ہوئی تھی ،وہ پیٹھ کے بل پڑی تھی، اس کے سر سے اوڑھنی سرک گئی تھی، اس کے چند ایک بال اس کے گورے چٹے گالوں پر آگئے تھے، اس کا شباب بے نقاب تھا۔
نور اللہ کا ایک قدم دہلیز کے اندر چلا گیا اس نے وہ قدم پیچھے کو اٹھایا لیکن اس کی ذات سے ہی ایک قوت بیدار ہوئی جس نے اسے پیچھے ہٹنے سے روک دیا اور اس کا دوسرا پاؤں اٹھا کر دہلیز کے اندر کر دیا ،نوراللہ کمرے میں داخل ہوگیا لیکن ایک ہی قدم آگے بڑھا کر رک گیا۔
شمونہ کوئی خواب دیکھ رہی تھی نہ جانے کیسا خواب تھا کہ اس کے ہونٹوں پر تبسم آگیا، نوراللہ کچھ دیر شمونہ کے تبسم کو دیکھتا رہا، اس نے ایک قدم اور آگے بڑھایا تو شمونہ کا تبسم ایسی مسکراہٹ کی صورت اختیار کر گیا جس سے اس کی دانت ذرا ذرا سے نظر آنے لگے ،اس مسکراہٹ میں شمونہ کے حسن میں طلسماتی سا تاثر پیدا کر دیا۔
نوراللہ ایک دو قدم اور آگے چلا گیا اور پھر رک گیا ،اس کے آگے بڑھنے اور روکنے میں اس کے اپنے ارادے اور اختیار کا کوئی دخل نہیں تھا ،اس نے آنکھیں بند کر لیں یہ ایک ایسی حرکت تھی جو اس نے اپنے ارادے سے کی تھی، جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ اس لڑکی کو نہیں دیکھنا چاہتا تھا ،لیکن وہ پیچھے نہ ہٹا، اس کی ذات میں ایک کشمکش شروع ہو گئی تھی جسے وہ سمجھ نہ پایا ۔
آپ وہاں کیوں کھڑے ہیں !،،،،،،نوراللہ کے کانوں سے شمونہ کی مخمور سی آواز ٹکرائی۔
وہ چونک کر اس کیفیت سے بیدار ہو گیا جو اس پر طاری ہو چکی تھی، وہ بوکھلایا اور فوری طور پر یہ فیصلہ نہ کر سکا کہ وہ آگے بڑھے اور شمونہ کو کوئی جواب دے یا باہر چلا جائے، شمونہ بڑی تیزی سے اٹھی اس کے دل میں نور اللہ کا احترام اور تقدس اتنا زیادہ تھا کہ اس پر مرعوبیت طاری رہتی تھی۔
آپ کس وقت آئے ؟،،،،شمونہ نے لونڈیوں اور غلاموں جیسے لہجے میں پوچھا۔۔۔ اور کہنے لگی میں ذرا سو گئی تھی آپ چپ کیوں ہیں، کیا آپ مجھ سے خفا ہو گئے ہیں۔
 نہیں۔۔۔ نہیں۔۔۔ نوراللہ نے بوکھلائی ہوئی سی آواز میں کہا ۔۔۔میں تمہیں دیکھنے اندر آ گیا تھا ،،،،نہیں ،،،،نہیں ،،،میں خفا نہیں ہوں۔ وہ پیچھے مڑا اور لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا۔
دو تین دنوں بعد نوراللہ شمونہ کو سامنے بٹھاکر کچھ پڑھا رہا تھا، شمونہ کا سر جھکا ہوا تھا اس کی اوڑھنی سر سے ذرا سرک گئی، اس کے ریشم جیسے ملائم بال بے نقاب ہوگئے ،شمونہ نے محسوس کیا کہ اس کا قابل احترام استاد بولتے بولتے چپ ہو گیا ہے، اس نے آہستہ سے سر اٹھایا تو دیکھا کہ استاد کی نظریں اس کے ماتھے پر اس طرح مرکوز تھی جیسے وہ آنکھیں جھپکنا بھول گیا ہو، ایک دو لمحوں بعد اس کی نظریں شمونہ کی نظروں سے ٹکرائیں، نور اللہ پر بےخودی کی کیفیت طاری تھی، وہ زلزلے کے جھٹکے سے تہہ و بالا ہو گئی۔
شمونہ کوئی سیدھی سادھی دیہاتن یا نادان بچی نہیں تھی، اسے جو تربیت دی گئی تھی اس میں خاص طور پر بتایا گیا تھا کہ مرد کسی خوبصورت عورت کو کیسی نظروں سے دیکھتے ہیں اور ان کے چہرے کا تاثر کیا ہوتا ہے۔
شمونہ نے وہ تاثر اپنے استاذ کے چہرے پر دیکھا اور اس نے اپنے استاد کی آنکھوں میں بھی ایک تاثر دیکھا جسے وہ اچھی طرح سمجھتی تھی، لیکن وہ یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی کہ مذہب میں ڈوبا ہوا یہ شخص جس کا دل عورت کو گناہوں کی علامت سمجھتا ہے اسے ہوس کی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔
 اٹھو شمونہ !،،،،،نوراللہ نے کہا۔۔۔ آج اتنا ہی کافی ہے، اب تم کھانا تیار کرو 
شمونہ تو چولہے پر جاکر مصروف ہو گئی لیکن نوراللہ اپنی ذات میں ہلکے ہلکے جھٹکے محسوس کرتا رہا ،شمونہ کا ذہن بھی پرسکون نہ تھا وہ اس سوچ میں کھوئی ہوئی تھی کہ اتنے معزز اور مقدس انسان کے چہرے پر اور آنکھوں میں ایسے تاثرات کیوں آئے تھے، اس نے اپنے آپ کو یہ دھوکہ دینے کی بھی کوشش کی کہ یہ اس کی اپنی غلط فہمی ہے اور یہ اس کے استاد کا تاثر نہیں تھا، اسے معلوم نہیں تھا کہ اس کا استاد ایک ایسی کشمکش میں مبتلا ہو چکا ہے جو اس کی روح کو بھی اذیت پہنچا رہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جس قدرتی رفتار سے شب و روز گزرتے جا رہے تھے اس سے زیادہ تیز رفتار سے شمونہ اپنی ذات میں ایک پاکیزہ اور پراثر تبدیلی دیکھ رہی تھی، وہ ان دنوں کو بھولتی جا رہی تھی جو دن اس نے حسن بن صباح کے گروہ میں گزارے تھے ،وہ صاف طور پر محسوس کر رہی تھی کہ وہ ابلیس کے جال سے نکلتی آ رہی ہے۔
چند دن اور گزرے ،دوپہر کے وقت شمونہ کچھ دیر کے لئے سو گئی، یہ اس کا روز کا معمول تھا ،اس کی آنکھ کھلی تو اس نے اپنے استاد کو اپنی چارپائی کے قریب کھڑے دیکھا، اسے کچھ ایسا محسوس ہوا جیسے استاد نے اس کے سر پر اور شاید گالوں پر بھی ہاتھ پھیرا تھا ،وہ ہاتھ کے لمس کو ابھی تک محسوس کر رہی تھی، لیکن اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ ہاتھ اس کے مقدس استاد کا تھا، وہ فوراً اٹھ کھڑی ہوئی۔
کیا آپ نے مجھے جگایا ہے ؟،،،،،شمونہ نے نوراللہ سے مسکراتے ہوئے پوچھا۔۔۔ نوراللہ نے بوکھلائے ہوئے لہجے میں ایسا جواب دیا جس میں ہاں بھی تھی نہیں بھی، شمونہ کی مسکراہٹ غائب ہوگئی، نوراللہ سر جھکائے آہستہ آہستہ چلتا کمرے سے نکل گیا ،شمونہ اس روز کچھ زیادہ ہی سنجیدہ ہو گئی اس نے دیکھا کہ نوراللہ شام تک چپ چاپ رہا، چپ رہنا اس کا معمول نہیں تھا۔
عصر اور مغرب کی نماز کے درمیان نور اللہ کے پاس ہر روز کی طرح اس کے شاگرد اور معتقد وغیرہ آئے تو اس نے طبیعت کی ناسازی کا بہانہ کرکے درس نہ دیا ،وہ سب چلے گئے نوراللہ وہیں بیٹھا رہا، شمونہ نے اسے دیکھا اور چپ رہی، عشاء کی نماز کے بعد جب نوراللہ ایک کتاب کھول کر پڑھنے لگا تو شمونہ اس کے سامنے جا بیٹھی۔
 کیوں ؟،،،،نوراللہ نے پوچھا۔۔۔ آج سوؤ گی نہیں۔
نہیں !،،،شمونہ نے بڑی نرم آواز میں کہا ۔۔۔میں آج آپ کے پاس بیٹھوں گی۔
تم نے دیکھا نہیں کہ میں نے شام کو درس نہیں دیا تھا ۔۔۔نوراللہ نے کہا ۔۔۔میرے سر میں گرانی ہے، اس وقت تمہیں بھی سبق نہیں دے سکوں گا، اگر میری بتائی ہوئی کوئی بات تمہاری سمجھ میں نہ آئی ہو تو وہ پوچھ لو اور جا کے سو جاؤ۔
 ہاں میرے مرشد !،،،،،،شمونہ نے کہا۔۔۔ ایک بات ہی پوچھنی ہے، یہ بات آپ نے پہلے کبھی نہیں بتائی ،یہ مسئلہ میرے اپنے ذہن میں آیا ہے۔
پوچھو !،،،،،نوراللہ نے شگفتہ لہجے میں کہا۔۔۔ اور کتاب بند کرکے الگ رکھ دی، میں آپ میں ایک تبدیلی دیکھ رہی ہوں، شمونہ نے کہا ،،،آپ روز بروز خاموش ہوتے چلے جا رہے ہیں ۔
یہ میری عادت ہے۔۔۔ نور اللہ نے کہا ۔۔۔کبھی کبھی میں خاموش ہو جایا کرتا ہوں، کچھ دن اور میری یہی حالت رہے گی۔
نہیں میرے مرشد!،،،،، شمونہ نے کہا ۔۔۔میں گستاخی کی جرات نہیں کر سکتی، لیکن یہ ضرور کہوں گی کہ آپ کی زبان نے جو کہا ہے یہ آپ کے دل کی آواز نہیں، آپ مجھ سے خفا ہیں آپ کے دل میں میرے لئے ناپسندیدگی ہے۔
 ایک بات کہوں شمونہ!،،،، نوراللہ نے کہا۔۔۔ میرے لئے مشکل یہ پیدا ہو گئی ہے کہ میرے دل میں تمہارے لئے ناپسندیدگی نہیں، تم جس پیار سے میری خدمت کر رہی ہو اس نے میری سوچیں بدل ڈالی ہیں۔
میں کچھ اور بھی کہنا چاہتی ہوں میرے مرشد!،،،،، شمونہ نے کہا ۔۔۔میری عمر نہ دیکھئے میری تربیت دیکھیں ،میں سلطان ملک شاہ کے یہاں اس تربیت کا عملی تجربہ کر آئی ہوں ،سلطان کا مشیر خاص احتشام مدنی جو زاہد اور پارسا تھا میرے سامنے موم کی طرح پگھل گیا تھا، میں نے یہ بات اس لیے کہی ہے کہ آپ مجھے نادان نہ تجربے کار اور کمسن لڑکی نہ سمجھتے رہیں ،میں کسی بھی آدمی کے دل کی بات اس کے چہرے اور اس کی آنکھوں سے پڑھ لیا کرتی ہوں۔
شمونہ !،،،،،نوراللہ نے کہا ۔۔۔تم فوراً وہ بات کیوں نہیں کہہ دیتی جو تمہارے دل میں ہے۔
 ڈرتی ہوں میرے آقا!،،، 
 مت ڈرو !،،،،نوراللہ نے کہا ۔۔۔اللہ سچ بولنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
لیکن اللہ کے بندے سچ سننے کی تاب نہیں رکھتے ۔۔۔شمونہ نے کہا۔۔۔ اگر آپ اللہ کی خوشنودی کے طلبگار ہیں تو میں بے خوف ہو کر بات کروں گی، میں بہت دنوں سے دیکھ رہی ہوں کہ میں آپ کے سامنے بیٹھتی ہوں تو آپ کی آنکھوں میں وہی تاثر ہوتا ہے جو میں عام سے لوگوں کی آنکھوں میں دیکھا کرتی ہوں ،پھر میں نے تین بار آپ کو اس حالت میں دیکھا کہ میں دن کے وقت  سوئی ہوئی ہوں اور آپ میرے پاس کھڑے مجھے دیکھ رہے ہیں، آپ نے میرے سر اور میرے منہ پر ہاتھ بھی پھیرا ہے ۔
کیا تمہیں یہ اچھا نہیں لگا ؟،،،،نوراللہ نے پوچھا ۔
اگر آپ کو یوں ہی اچھا لگا ہے تو میں کچھ نہیں کہوں گی۔۔۔ شمونہ نے کہا ۔۔۔لیکن میں یہ پوچھنا چاہتی ہو کہ میں آپ کو کتنی اچھی لگتی ہوں؟ 
 شمونہ!،،،،،، نوراللہ نے لپک کر شمونہ کا ایک ہاتھ اپنے دونوں ہاتھ میں لے لیا۔۔۔ تم نے میری آنکھوں میں جو پڑھا ہے ٹھیک پڑھا ہے، اور تم نے غلط نہیں کہا کہ تمہیں سویا ہوا دیکھ کر میں تین چار دن تمہارے پاس جا کھڑا ہوا اور تمہیں دیکھتا رہا تھا۔
 کس نیت سے؟ 
 اس نیت سے کہ تمہیں اپنی زندگی کی رفیقہ بنالوں ،،،،نوراللہ نے کہا ۔۔۔کیا تم مجھے قبول کرو گی؟ 
نہیں میرے مرشد !،،،،شمونہ نے جواب دیا۔
 کیا میں چالیس برس کی عمر میں بوڑھا ہو گیا ہوں؟ 
نہیں اے مقدس ہستی !،،،،،شمونہ نے کہا۔۔۔ میں آپ کے تقدس کو اپنے ناپاک وجود سے پامال نہیں کروں گی، یہ بات بھی ہے کہ میں نے آپ کو کبھی اپنی سطح پر لا کر دیکھا ہی نہیں ،میرا دل خاوند کے روپ میں آپ کو قبول نہیں کرے گا۔
مجھے شک ہے تم مجھ سے اپنی قیمت وصول کرنا چاہتی ہو،،،،،، نوراللہ نے غصیلے لہجے میں کہا ۔۔۔میں تمہیں شادی کے لیے تیار کرنا چاہتا ہوں، ہوس کاری کے لیے نہیں۔
اپنی محنت پر پانی نہ پھیریں میرے آقا !،،،،،،شمونہ نے کہا۔۔۔ میں بھٹک گئی تھی آپ نے مجھے صراط مستقیم دکھائی ہے،،،،، میں نے تو سنا تھا کہ آپ تارک الدنیا ہیں،،،،،،، میں بھول گئی تھی میں کون ہوں، آپ نے میری آنکھوں کے آگے سے پردے ہٹادئیے ،میں نے اپنے آپ کو پہچان لیا ہے، میری نگاہ میں آپ فرشتہ ہیں۔
 جاؤ شمونہ !،،،،،نوراللہ نے کہا۔۔۔ جاؤ سو جاؤ،،،،، صرف ایک بات کہوں گا میں نے دنیا کو ترک نہیں کیا تھا، دنیا نے مجھے ترک کر دیا تھا۔
 شمونہ اٹھ کھڑی ہوئی تھی وہ نوراللہ کی بات سننے کے لیے پھر بیٹھنے لگی تھی لیکن نور اللہ نے اسے کہا جاؤ ،،،،،سو جاؤ ،،،،تو وہ اپنے کمرے میں چلی گئی۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
شمونہ کو اس کے کمرے میں بھیج کر وہ خود وہیں بیٹھا رہا، اس کا ذہن پیچھے کو چل پڑا اور وہاں جاکر رکا جہاں اس کا شعور بیدار ہوا ،اور وہ بھاگنے دوڑنے کی عمر کو پہنچ گیا، اسے معلوم ہی نہیں تھا کہ بچوں کے ساتھ پیار بھی کیا جاتا ہے، اسے کوئی عورت یاد نہیں آئی جس نے اسے گود میں لیا ہو، صرف ایک بات تھی جو اس کے ذہن کے ساتھ چپکی ہوئی تھی، جہاں تک اس کی یاد ماضی کے دوسرے اوفق تک جاتی تھی وہ اپنے آپ کو دجلہ کے کنارے ایک کشتی کو صاف کرتا اس میں سے پانی نکالتا کشتی میں مسافروں کا سامان رکھتا اور ساحل کی ہر قسم کی مشقت کرتا دیکھتا تھا، اس وقت اس کی عمر چھ سات سال تھی، جب اسے ان کاموں پر لگا دیا گیا تھا ،اس مشقت کے عوض اسے دو وقت کی روٹی اور اپنے آقاؤں کی پھٹکار اور دھتکار ملتی تھی۔
 دس گیارہ سال کی عمر میں اسے بتایا گیا تھا کہ وہ اس جھونپڑی میں پیدا نہیں ہوا تھا جس جھونپڑی میں وہ رہتا تھا ،اور جس کے رہنے والوں کو وہ اپنا والدین سمجھتا تھا یہ لوگ ملاح تھے، جو مسافروں کو کشتی کے ذریعے دریا پار کراتے تھے، ایک روز اس پر یہ انکشاف ہوا کہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے یہ دریا سیلابی تھا اور ایک کشتی پار والے کنارے سے اس طرف آ رہی تھی، اور یہ مسافروں سے اٹی پڑی تھی، کشتی اتنے زیادہ مسافروں کا بوجھ سہارنے کے قابل نہیں تھی، کشتی دریا کے وسط میں پہنچی تو اچانک سیلاب کا زور بڑھ گیا کشتی الٹ گئی، 
 ملاحوں نے مسافروں کو بچانے کے لیے اپنی اپنی کشتیاں دریا میں ڈال دیں، لیکن سیلاب اتنا تیز و تند تھا کہ مسافر تنکوں کی طرح سیلاب میں گم ہوتے چلے جا رہے تھے، ایک کشتی کو اس کے ملاح خاصا آگے لے گئے، انہوں نے ایک عورت کو دیکھا جس نے دودھ پیتے ایک بچے کو اپنے ہاتھوں میں لیے اس طرح اوپر اٹھا رکھا تھا کہ بچہ ڈوب نہ جائے، ملاح نے کشتی اس کے قریب کرکے بچے کو پکڑ لیا ،دوسرے ملاح نے ہاتھ لمبا کیا کہ عورت کو بھی سیلاب میں سے نکال لے لیکن عورت میں اتنی تاب نہیں رہی تھی کہ وہ دو گز اور تیر سکتی ،اس نے دیکھا کہ بچہ بچ گیا ہے تو اس نے اپنے آپ کو سیلاب کے حوالے کردیا اور ملاحوں کی نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
اس بچے کو ملاحوں نے اس طرح پالا کہ اسے کبھی بکری کا دودھ پلایا اور کبھی اونٹنی کا، وہ چار پانچ سال کا ہوا تو اسے کشتی رانی کی مشقت پر لگا دیا ۔
ان ملاحوں نے اس بچے کا نام نور اللہ رکھا تھا، اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مسلمان تھے۔
 نوراللہ کو دس گیارہ سال کی عمر میں پتہ چلا کہ اس کے ماں باپ دریا میں ڈوب گئے تھے اور اسے ملاحوں نے پالا تھا تو اس کے دماغ میں جو دھماکا ہوا وہ اسے چالیس برس کی عمر میں بھی یاد تھا، وہ اسی کو زندگی سمجھتا تھا جس میں ملاحوں نے اسے ڈال دیا تھا ،لیکن اس انکشاف نے اس پر ایسی کیفیت طاری کر دی جسے وہ بھٹکا ہوا راہی ہو اور اپنی منزل کی تلاش میں مارا مارا پھر رہا ہو، 
 ایک روز کشتی سے مسافر اترے تو ایک امیر کبیر آدمی نے اسے کہا کہ اس کا سامان اٹھا کر وہاں تک پہنچا دے جہاں سے اونٹ مل جاتے ہیں ،نور اللہ نے اس کا سامان وہاں تک پہنچا دیا اور واپس چل پڑا، اس آدمی نے اسے بلایا اور ایک دینار اجرت دی، دس گیارہ سال عمر کا نوراللہ دینار کو ہاتھ لگاتے ڈرتا تھا، اس آدمی نے اسے کہا کہ یہ اس کا حق ہے۔
 دنیا میں میرا کوئی حق نہیں ۔۔۔نوراللہ نے کہا۔۔۔ کسی پر میرا حق نہیں، میں مشقت کرتا ہوں اور روٹی اور رات کو جھونپڑی کی چھت مل جاتی ہے، ذرا سی سستی کروں تو مجھے مارا پیٹا جاتا ہے، میں یہ اجرت لے کر جاؤں گا تو وہ لوگ مجھ سے چھین لیں گے۔ تمہارا باپ ہے؟ 
نہیں اسی دریا میں ڈوب گیا تھا۔
 ماں ہے؟ 
نہیں وہ بھی ڈوب گئی تھی۔
 کوئی بھائی،،،، کوئی چچا ماموں ۔
نور اللہ نے اسے وہ سارا واقعہ سنا دیا جو کچھ دن پہلے اسے سنایا گیا تھا۔
 میرے ساتھ چلو گے؟،،،، اس امیرکبیر آدمی نے پوچھا ،اور اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر کہا ۔۔۔تنخواہ بھی ملے گی روٹی بھی ملے گی، کپڑے بھی ملیں گے اور رہنے کو بہت اچھی جگہ ملے گی۔
 نور اللہ نے یہ پہلا شخص دیکھا جس نے اس کے ساتھ پیار سے بات کی تھی اور اسے اس قابل سمجھا تھا کہ اسے اچھی جگہ رکھا جائے، اچھی قسم کا روٹی کپڑا دیا جائے اور اجرت بھی دی جائے ،وہ وہیں سے اس شخص کے ساتھ چل پڑا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
دونوں کرائے کے ایک ہی اونٹ پر سوار ہوئے اور شام کو شتربان نے انہیں ایک بڑے شہر میں پہنچا دیا، یہ شہر نیشا پور تھا، یہ آدمی وہیں کا رہنے والا تھا اس کی حویلی بڑی ہی شاندار تھی، وہاں اس شخص کی دو بیویاں رہتی تھیں ایک ادھیڑ عمر اور دوسری نوجوان تھی، نوراللہ کو اس گھر میں نوکر رکھ لیا گیا وہاں ایک عورت پہلے سے ملازم تھی۔
نوراللہ روزمرہ کے کام کاج کرتا رہا اسے اتنی زیادہ سہولت میسر آ گئی تھی کہ وہ یوں سمجھتا تھا جیسے جہنم سے نکل کر جنت میں آگیا ہو، کھانے پینے کو اتنا اچھا ملتا تھا کہ گیارہ بارہ سال کی عمر میں وہ سولہ سترہ سال کا نوجوان نظر آنے لگا۔
 ایک سال سے کچھ زیادہ عرصہ گزر گیا۔
ایک روز اس کا آقا اپنی ادھیڑ عمر بیوی اور بچوں کو ساتھ لے کر کچھ دنوں کے لئے شہر سے باہر چلا گیا، پیچھے اس کی نوجوان بیوی رہ گئی، اس سے اگلی رات کا واقعہ ہے ملازمہ اپنا کام کاج ختم کر کے جا چکی تھی، نوراللہ کو ایسے شک ہوا جیسے کوئی آدمی حویلی کے صحن میں سے گزرا ہے، اس نے اٹھ کر دیکھا ایک آدمی اس کی نوجوان مالکن کے کمرے میں داخل ہو رہا تھا ،نوراللہ دوڑ کر گیا دروازہ بند ہوچکا تھا اس نے دروازے پر دستک دی، دروازے کھلا اور مالکن باہر آئی۔
کیا ہے؟،،،،،، مالکن نے پوچھا۔
یہ کون ہے جو اندر آیا ہے؟،،،، نور اللہ نے اپنا فرض سمجھتے ہوئے پوچھا ۔
تم کون ہو پوچھنے والے ؟،،،،،حسین اور نوجوان مالکن نے بڑے رعب سے پوچھا۔
میں آقا کے حکم کی تعمیل کر رہا ہوں ۔۔۔نوراللہ نے کہا۔۔۔ آقا کہہ گئے ہیں کہ گھر میں تم ہی ایک مرد ہو گھر کا خیال رکھنا ۔
مالکن نے اس کے منہ پر بڑی زور سے تھپڑ مارا ،تھپڑ کی آواز پر وہ آدمی جو کمرے میں گیا تھا باہر نکل آیا ۔
کون ہے یہ؟،،،،، اس شخص نے پوچھا ۔
میرا پہرے دار بن کے آیا ہے۔۔۔ لڑکی نے کہا۔۔۔ میں اس کی زبان ہمیشہ کے لئے بند کر دوں گی۔
اس شخص نے نوراللہ کو بازو سے پکڑا گھسیٹ کر اندر لے گیا اور اسے دونوں ہاتھوں سے اٹھا کر فرش پر پٹخ دیا، پھر اس کی شہ رگ پر پاؤں رکھ کر دبا دیا ،اور خنجر نکال کر اس کے اوپر جھکا ۔
میں اس کا پیٹ چیر دوں گا ۔۔۔اس شخص نے خنجر کی نوک نوراللہ کے پیٹ پر رکھ کر کہا۔۔۔ اس کی لاش باہر کتوں کے آگے پھینک دوں گا۔
آج اسے معاف کر دو ۔۔۔نوجوان مالکن نے اپنے آشنا کو پَرے ہٹاتے ہوئے کہا۔۔۔ یہ زبان بند رکھے گا اس نے کبھی بھی زبان کھولی تو اس کے دونوں بازو کاٹ کر اسے جنگل میں پھینک دینگے، پھر اسے گیدڑ اور بھیڑیے کھائیں گے ۔
نوراللہ اٹھ کھڑا ہوا وہ سر سے پاؤں تک کانپ رہا تھا۔
وعدہ کر کے تو زبان بند رکھے گا ۔۔۔اس شخص نے خنجر کی نوک نوراللہ کی شہہ رگ پر رکھ دی اور کہا۔۔۔ خاموشی سے چلا جا اور خاموش رہنا ۔
نوراللہ ظلم و تشدد سے بہت ڈرتا تھا ،وہ چپ چاپ خوفزدگی کی حالت میں اپنے کمرے میں چلا گیا۔
اس کے بعد اس کے آقا کی واپسی تک یہ آدمی دو تین مرتبہ رات کو اس کی مالکن کے پاس آیا اور نوراللہ اپنے کمرے میں دبکا پڑا رہا ،اس کا آقا واپس آیا تو نوراللہ کی جرات نہ ہوئی کہ وہ اپنے آقا کو بتاتا کہ اس کی غیر حاضری میں یہاں کیا ہوتا رہا ہے۔
ایک بار چھوٹی مالکن نے نوراللہ کو اپنے کمرے میں بلایا اور پیار سے بات کرنے کی بجائے اسے پھر وہی دھمکی دی کہ اس کا پیٹ پھاڑ کر یا بازو کاٹ کر اسے بھیڑیوں کتوں اور گیدڑوں کے آگے پھینک دیا جائے گا۔
نور اللہ کا کوئی مذہب نہیں تھا نہ اس نے کبھی سوچا تھا کہ مذہب کے لحاظ سے وہ کون اور اس کا آقا کون ہے، نہ اس نے خود کبھی عبادت کی تھی نہ اس نے اپنے آقا یا اس کی بیویوں کو عبادت کرتے دیکھا تھا، اس میں یہ احساس بیدار ہو گیا تھا کہ مذہب انسان کے لیے ضروری ہوتا ہے، اس سے تین چار آدمی پوچھ چکے تھے کہ وہ مسلمان ہے یا عیسائی، وہ کسی کو بتاتا کہ وہ مسلمان ہے اور کسی کو عیسائی بتاتا، ایک بار ایک آدمی نے اسے کہا تمہارا آقا تو باطنی معلوم ہوتا ہے،،،،،، اسے تو معلوم ہی نہیں تھا کہ باطنی کیا ہوتے ہیں۔
ایک رات اس کے آقا نے اسے شراب لانے کو شراب خانے بھیجا ،وہ مسجد کے قریب سے گزرا عشاء کی نماز ہو چکی تھی اور خطیب درس دے رہا تھا ،نوراللہ کے کانوں میں خطیب کے یہ الفاظ پڑے----- ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد مانگتے ہیں،،،،،  ہمیں ان لوگوں کا سیدھا راستہ دکھا جن پر تیرا انعام نازل ہوا ہے، نہ کہ ان لوگوں کا راستہ جن پر تیرا غضب نازل ہوا -----خطیب سورہ فاتحہ کی تفسیر بیان کر رہا تھا، نوراللہ کو کچھ بھی معلوم نہیں تھا کہ یہ قرآن کی آیت ہے اور قرآن اللہ کا کلام ہے، اسے صرف یہ احساس ہوا کہ وہ بھی ان لوگوں میں سے ہے جن پر اللہ کا غضب نازل ہوا ہے۔
نوراللہ جلدی میں تھا اس کا آقا شراب کے انتظار میں تھا، وہ دوڑا گیا شراب خریدی اور اپنے آقا کو جا دی، اس کے ذہن میں خطیب کے یہ الفاظ اٹک کے رہ گئے تھے جو اس نے مسجد کے دروازے میں کھڑے ہو کر سنے تھے، وہ بھی مدد اور سیدھے راستے کی رہنمائی کا طلب گار تھا۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اگلی رات نوراللہ روزمرہ کے کام کاج سے فارغ ہو کر مسجد کے دروازے پر جا پہنچا، خطیب روزمرہ کی طرح درس دے رہا تھا، نور اللہ دروازے میں جا کر کھڑا ہوگیا ،خطیب نے اسے دیکھا تو اشارے سے اپنے پاس بلایا ،وہ ڈرتے جھجکتے خطیب کے پاس چلا گیا ۔
دروازے میں کھڑے کیا کر رہے تھے؟،،،، خطیب نے پوچھا۔
آپ کی باتیں سن رہا تھا۔۔۔ نوراللہ نے جواب دیا ۔۔۔کل باہر کھڑا سنتا رہا ہوں۔ 
مسلمان ہو؟ 
معلوم نہیں ۔۔۔نوراللہ نے بڑی سادگی سے جواب دیا۔۔۔ میں یہی معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ میں کون ہوں، اس وقت ایک شیخ کے گھر ملازم ہوں۔
خطیب نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا اور اسے بتایا کہ جس شیخ کا اس نے نام لیا ہے وہ بے دین ہے، اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے لیکن کسی کو بھی معلوم نہیں کہ وہ کس فرقے کا آدمی ہے، اور اس کا عقیدہ کیا ہے ؟
کل سے تم میرے پاس آ جایا کرو۔۔۔ خطیب نے اسے بڑے پیار سے کہا۔۔۔ اب تم چلے جاؤ۔
اگلے روز سے نوراللہ نے خطیب کے پاس جانا شروع کر دیا، اس نے خطیب کو بتایا کہ اس کے ماں باپ سیلاب میں ڈوب گئے تھے اور اسے ملاحوں نے سیلاب سے نکالا تھا ،اس نے خطیب کو اپنی گزری ہوئی زندگی کا ایک ایک لمحہ سنایا ،خطیب نے اسے پڑھانا لکھانا شروع کردیا ،یہ خالصتاً دینی تعلیم تھی، نور اللہ نے اس میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کیا، تقریباً ایک سال بعد اس نے خطیب سے اس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ اس شیخ کی نوکری چھوڑ کر خطیب اور مسجد کی خدمت کرنا چاہتا ہے، خطیب نے اسے اپنے پاس رکھ لیا۔
نور اللہ نے پندرہ سال اس خطیب کے ساتھ گزارے اور دین کے امور میں خاصی دسترس حاصل کر لی ،خاص بات یہ ہوئی کہ اس کے ذہن میں ابلیس اٹک گیا، اس کا عقیدہ بن گیا کہ ہر برا کام ابلیس کرواتا ہے۔
دوسری خاص بات یہ ہوئی کہ خطیب کی ایک ہی بیوی تھی جو صرف تین سال کی رفاقت کے بعد مر گئی اور خطیب نے دوسری شادی نہ کی، خطیب نے کسی کو بھی نہ بتایا کہ اس نے  دوسری شادی کیوں نہیں کی، ایک وجہ یہ ہو سکتی تھی کہ اسے اس بیوی سے اتنا زیادہ پیار تھا کہ اس نے کسی اور عورت کو قبول ہی نہ کیا، یا یہ بات تھی کہ اس بیوی سے وہ اس قدر نالاں تھا کہ مر گئی تو خطیب نے شادی سے توبہ کرلی۔
وجہ جو کچھ بھی تھی خطیب نے اپنے شاگرد نوراللہ کو عورت سے متنفر کردیا اور اس کے ذہن میں یہ عقیدہ ڈال دیا کہ عورت گناہوں کی علامت ہوتی ہے، اور ابلیس عورت کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
چند برس اور گزرے تو خطیب فوت ہوگیا۔ نوراللہ ایسا دلبرداشتہ ہوا کہ وہ مسجد کو بھی چھوڑ گیا اور جنگل میں ایک کٹیا سی بنا کر وہاں جا ڈیرہ لگایا ،اب وہ عالم دین کہلانے کے قابل ہو چکا تھا ،خطیب کے جو شاگرد تھے وہ نور اللہ کے پاس جنگل میں پہنچنے لگے اور نور اللہ نے انہیں درس دینا شروع کر دیا ،اس کی شہرت اور اس کا نام ابو مسلم رازی تک پہنچا، ابومسلم رازی رے کا امیر شہر تھا ،دینی علوم سے اسے روحانی لگاؤ تھا ،وہ اتنی دور جنگل میں جا کر نور اللہ سے ملا اور اس سے متاثر ہوا ،متاثر بھی اتنا ہوا کہ ایک روز اس کے لئے سواری ساتھ لے کر اسے اس میں بٹھایا اور اپنے شہر میں لے آیا، شہر میں اسے بڑا اچھا مکان دیا اور کہا کہ یہاں وہ جو جی چاہے کرے اور لوگوں کو دین کی تعلیم دے۔
لوگ اس کے پاس آنے لگے بعض لوگ اس سے اتنی زیادہ متاثر ہو گئے تھے کہ اس سے غریب کا حال معلوم کرتے تھے، وہ زیادہ تر ابلیس اور عورت پر زور دیا کرتا تھا اور کہتا تھا کہ ان دو چیزوں سے اپنے جسم اور اپنی روح کی حفاظت کرو۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget