فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد : قسط نمبر 18═(قدرت کے خزانے)═

 

فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد :  قسط نمبر  18═(قدرت کے خزانے)═
 🌴⚔️🛡️فاتح اُندلس ۔ ۔ ۔ طارق بن زیاد🕌💚🌷
✍🏻تحریر:  صادق حسین صدیقی
الکمونیا ڈاٹ کام ─╤╦︻ ترتیب و پیشکش ︻╦╤─ آئی ٹی درسگاہ
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
اسمٰعیل پتهر پر بیٹھ کر ہجوم افکار میں کهو گئے - وہ دیر حیرت و استغراق میں بیٹھے رہے بیٹھے رہے! !!!
اور سوچتے رہے بلقیس کہاں چلی گئی؟ کون اسے لے گیا؟ _ اس میں خود چلنے کی سکت کہاں تهی؟ ضرور کوئی حریف آ گیا ہے آہ میں نے یہ کیسے حماقت کی؟ کیوں اسے اکیلے تنہا چھوڑا-
کیوں اس سے غافل ہوا، اس وہ چٹان پر کوئی انسان نظر نہ آیا.
اگر وہ دشمنوں میں پھنس گئی تو اس کی جملہ تکالیف کا موجب میں ہوں مگر نہیں میرے خیال میں اگر انسان یہاں آتا تو وہ سنگریزے جو چٹان کی تہہ میں پڑے ہوئے چمک رہے ہیں یہاں باقی نہ رہ جاتے-
وہ ضرور قیمتی پتھر ہیں اور انسان انہیں لے جاتے لیکن اگر کوئی اسے لے نہیں گیا تو_______"
اس قسم کے روح فرسا خیالات آندھی کی طرح آ آ کر گزر رہے تھے - کچھ دیر کے بعد وہ اٹھے اور انہوں نے اس پتھر کو جس پر وہ بیٹھ گئے تھے غور سے دیکھا-
یہ دیکھنے اور پہچاننے کے لیے کہ آیا یہ وہی پتهر ہے جس پر بلقیس پڑی تھی - انہوں نے چاہا کہ اپنے دل کو یہ فریب دے لیں کہ یہ وہ پتھر نہیں ہے جس پر بلقیس بیٹھی آرام کر رہی تھی مگر جو نشانات شناخت کے لیے وہ ذہن نشین کر گئے تھے وہ سب موجود تھے اور اس لیے وہ اپنے نفس یا دل فریب نہیں دے سکتے تھے پھر بھی انہوں نے مزید اطمینان کے لیے اس چٹان کے پتهر کا طواف کرنا شروع کر دیا - ہر انسان کو غور سے دیکھا اور پہچانا پتهر وہی تها چٹان وہی تهی - سب چیزیں وہی تهیں مگر ایک بلقیس ہی وہاں نہیں تهی - وہ کچھ دیر اور اس لئے وہاں بیٹھے رہے کہ شاید بلقیس اٹهہ کر انہیں تلاش کرنے گئی ہو اور آ جائے لیکن جوں جوں وقت گزرتا رہا ان کی یہ امید موہوم بھی دم توڑنے لگی.
آخر وہ انتظار کرتے کرتے تھک گئے اور تنگ آ کر اٹھ کھڑے ہوئے-
چند قدم چل کر پهر لوٹے اور پتھر کو دیکھا-
یہ مزید اطمینان کرنے کے لیے کہ پتهر اور جگہ وہی ہے یا انہیں مغالطہ ہو رہا ہے، حالانکہ پہلے بھی کئی مرتبہ دیکھ چکے تھے اطمینان کر چکے تھے مگر انسان جب کسی چیز کو کہیں نظر نہ آئی-
ہاں اور اونچے نیچے پتهر چھوٹی بڑی چٹانیں اور بلند و بالا درخت ہر طرف سے موجود تھے - انہوں نے آواز دی بلقیس______بلقیس____!"
جب وہ خاموش ہوئے تو دیر تک آواز آتی رہی بلقیس بلقیس! !!"
یہ آواز باز گشت تهی جو پتهروں اور چٹانوں سے ٹکرا کر بلند ہوئی-
وہ پھر اس طرف چلے گئے جس طرف سے آئے تھےلیکن کچھ دور چل کر رک گئے اس خیال سے کہ اس طرف سے ہی تو آئے تھے اگر بلقیس خود ان کی طرف جاتی یا کوئی اور اسے لے جاتا تو وہ ضرور دیکھ لیتے وہ لوٹ کر اس کے دوسری طرف روانہ ہو گئے - کبھی کسی چٹان یا درخت پر چڑھ کر دیکھتے اور پکارتے-
خود انہوں نے بھی کئی روز سے پانی نہیں پیا تھا - انہیں بھی پیاس محسوس ہو رہی تھی اور اب یہ پیاس اس وجہ سے اور بھی زیادہ بھڑک گئی تھی کہ بلقیس کی تلاش میں وہ ادھر ادھر دوڑ رہے تھے -
وہ پیاس کی چنداں پروا نہ کرتے ہوئے برابر چلے جا رہے تھے - وہ ہر غار میں جھانک کر دیکھتے-
ہر موٹی چٹان کے پیچھے اور ادھر ادھر نظریں ڈالتے آوازیں دیتے اور چلے جاتے-
کچھ دور چل کر وہ ایک ایسی جگہ پہنچے جس کے دونوں طرف پندرہ بیس بیس فٹ اونچی ڈھلوانی چٹانیں اٹھتی چلی گئی تھیں اور ان چٹانوں کے بیچ میں ایک درہ بن گیا تھا -
دونوں طرف کی چٹانیں سبزہ سے لدی ہوئی تھیں اور ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے کسی ہوشیار مالی نے بیلوں کو پھیلا کر پتهروں کو ڈھک دیا ہے-
سوائے سبزہ کے پتهر یا چٹان کا کوئی حصہ بھی نظر نہ آتا تھا اور یہ گہرا سبزہ جاذب نظر بنا ہوا تھا -
وہ کھڑے ہو کر سوچنے لگے شاید یہ اس چٹان پر چڑھ کر دیکھیں-
چند لمحوں کے غور و فکر کے بعد جنوبی چٹان کے اوپر چڑھنے لگے-
چونکہ چٹان ڈھلوانی تهی اس لئے بے تکلف اس پر چڑھ گئے-
جب اس کی چوٹی پر پہنچے تو جہاں تک نگاہ نے ساتھ دیا، اس کے نیچے پہاڑی پہاڑ پھیلا ہوا نظر آیا-
انہوں نے چٹان کے نیچے جھانک کر دیکھا اس کے نیچے بهی ایک مہیب غار منہ کھولے نظر آتا تھا -
وہ جلدی سے پیچھے ہٹ گئے اب سے وہ خوفناک غار نہ دیکها گیا مگر جس وقت وہ جھجک کر دفعتاً پیچھے ہٹے سبزہ پر ان کا پاوں پھسل گیا اور وہ درے کی طرف لڑهکنے لگے-
انہوں نے بہت چاہا کہ کسی نہ کسی طرح رکیں سنبهلیں لیکن نہ سنبھل سکے چلے گئے تو وہ درے میں پہنچ کر پتهروں سے ٹکرا جائیں گے اور پھر ان کا جسم ریزہ ریزہ ہو جائے گا -
ان پر خوف طاری ہو گیا مگر انہوں نے اپنے حواس بحال رکهے اور برابر گھاس اور بیلوں کو پکڑتے چلے گئے-
اتفاق سے چٹان کی کگر ان کے کے ہاتھ آ گئی اور وہ اسے پکڑ سنبھل گئے مگر ابھی اچھی طرح سنبھلنے بهی نہ پائے تھے کہ نہایت زور سے تڑاقے کی آواز آئی اور جس چٹان کو انہوں نے پکڑ رکھا تھا
: اور جس چٹان کو انہوں نے پکڑ رکھا تھا وہ ان کے بوجھ سے نیچے کی طرف کھسکنے لگی-
اب جو انہوں نے دیکھا نظر اٹھا کر انہیں پہاڑ کا پہاڑ اپنے اوپر گرتا نظر آیا جس چٹان کو وہ پکڑے ہوئے تھے وہ اپنی جگہ سے اکھڑ کر ان کے اوپر گرنے لگی تھی -
وہ سہم گئے کیونکہ اب ان کی موت میں کوئی شک نہیں رہا تھا -
چٹان دور تک اکھڑ گئی تھی اور وہ بڑے شور کے ساتھ انہیں پیس ڈالنے کے لیے چل پڑی تھی وہ سمجھ گئے کہ اس وقت ایک لمحہ بھی ضائع کرنا موت کو دعوت دینا ہے-
چنانچہ وہ بغیر یہ خیال کئے کہ اس کا نتیجہ کیا ہو گا چٹان کے اوپر غرب کی طرف بھاگے اللہ نے ان کی مدد کی-
وہ تیز دوڑے اور چٹان کے نیچے سے نکل گئے جو انہیں کچل ڈالنے کے لیے آ رہی تھی -
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
یہ تحریر آپ کے لئے آئی ٹی درسگاہ کمیونٹی کی جانب سے پیش کی جارہی ہے۔
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
چٹان برابر لڑھکتی جا رہی تھی وہ کچھ دور بھاگ کر چٹان پر لیٹ گئے-
تهوڑی دیر میں نہایت زور دار دھماکا ہوا اور انہوں نے سر اٹھا کر دیکھا تو چٹان درہ میں جا پڑی تھی -
انہیں تعجب ہوا کہ زرا سا سہارا لینے سے چٹان کیوں اکھڑ گئی اور یہ دیکھنے کے اشتیاق پیدا ہوا کہ جس جگہ پر چٹان اکھڑ ہے وہاں کیا بات ہوئی ہے.
تهوڑی دیر دم لے کر وہ اٹھے اور باوجود یہ کہ چٹان پر چڑھنے سے ایک مرتبہ خطرہ میں پھنس گئے تھے اوپر چڑھنے لگے.
نہایت اطمینان سے اور سنبھل کر جب وہ اس جگہ پہنچے جہاں سے چٹان ٹوٹی تهی انہوں نے جھانک کر دیکھا وہاں انہیں سفید چمکتے ہوئے پتهر نظر آئے وہ چاندی کی طرح سفید تهے -
انہوں نے غور سے دیکھا دیر تک دیکھنے سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ وہ چاندی ہے لاکھوں اور کروڑوں کی مالیت کی خام چاندی.
یہ دیکھ کر ان کا دل مسرت سے لبریز ہو گیا ایک ہی دن میں قدرت نے دو دو خزانوں کا دیدار کروا دیا ہے ایک قیمتی پتھروں اور دوسرا چاندی کا.
مگر ان تمام چیزوں سے بیش قیمت بلقیس تهی اور وہی نہ ملتی تھی-
وہ اب آہستہ آہستہ چٹان سے نیچے اترنے لگا اور درہ میں چلنے لگا چونکہ آفتاب ہونے کے قریب پہنچ گیا تھا اس لیے وہ نہایت تیزی سے چلے-
کچھ دور چل کر درہ ایک چٹان کے سامنے آ جانے سے بند ہو گیا اور اس میں شمال کی طرف ایک عجیب دروازہ سا بنا ہوا تھا گویا دو چٹانیں یہاں آ کر ملتی تهیں اور ان کے درمیان میں کچھ جوف رہ گیا تھا اور وہ اتنا بڑا تھا کہ عالیشان دروازہ معلوم ہوتا تھا -
وہ اس دروازے میں گھس گئے کچھ دور تک ننگی چٹانیں چلتی گئیں اور سیاہ بھورے رنگ کے پتهر نظر آ رہے تھے لیکن ان کے اختتام پر ایک نہایت دل فریب وادی نظر آئی جو اپنے دامن میں گل ہائے رنگا رنگ کے تختے لئے ہوئے تهی -
پھول نہایت ہی خوبصورت خوشبو دار اور دل آویز تهے -
وہ انہیں دیکھتے ہوئے بڑھتے جا رہے تھے کہ کچھ دور سے ایک چیخ کی آواز آئی وہ ٹهٹکے اور پھر فورا ہی اس طرف جھپٹے جس طرف سے آواز آئی تھی 
*ⲯ﹍︿﹍︿﹍ⲯ﹍ⲯ﹍︿﹍☼*
جاری ہے۔۔۔

Mian Muhammad Shahid Sharif

Accounting & Finance, Blogging, Coder & Developer, Administration & Management, Stores & Warehouse Management, an IT Professional.

ایک تبصرہ شائع کریں

جدید تر اس سے پرانی